ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138313 / ڈاؤنلوڈ: 4320
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پہلا حصہ: بحث کی بنیادیں

* گزشتہ بحثوں پر ایک نظر

* سیف بن عمر کے جھوٹ اور افسانے پھیلنے کے اسباب

* دس اور کتابیں جن میں سیف سے اقوال نقل کئے گئے ہیں

۲۱

گزشتہ بحثوں پر ایک سرسری نظر

ہم نے کتاب ''عبد اللہ ابن سبا '' اور ''ایک سو پچاس جعلی اصحاب '' میں مشاہدہ کیا کہ سیف کی بے بنیاد اور جھوٹی احادیث اور باتوں نے اسلامی معارف اور لغت کی معتبر اور اہم کتابوں میں اس طرح نفوذ کیا کہ ہر محقق عالم کو حیرت و سرگردانی کا سامنا ہوتا ہے۔

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے جھوٹ کے پھیلنے کے چند اسباب تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں ۔ یہاں پر ان کی طرف ایک مختصر سا اشارہ کیا جاتا ہے:َ

١۔سیف نے اپنی باتوں کو ہر زمانہ کے حکام اور ہر زمانہ کے اہل اقتدار کے ذوق اور ان کی خواہش و پسند کے مطابق مرتب کیا ہے کہ ہر زمانہ کا حاکم طبقہ اس کی تائید کرتا ہے !

٢۔سیف نے سادہ لو عوام کی کمزوری کا خوب فائدہ اٹھا یا ہے کہ یہ لوگ اپنے اسلاف کے بارے میں حیرت انگیز کارنامے اور ان کی منقبتیں سننے کے مشتاق ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ ان سادہ لوح اور جلدی یقین کرنے والوں کے لئے اسلاف کی بہادریاں اور کرامتیں خلق کرکے ان کی خواہشیں پوری کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

٣۔ سیف نے ش شعر و رجز خوانیوں کے دلدادوں اور ادبیات کے عاشقوں کو بھی فراموش نہیں کیاہے بلکہ ان کی پسند کے مطابق اشعار کہے ہیں اور رزم نامے و رجز خوانیاں لکھی ہیں اور ان اشعار و رجز خوانیوں سے ان کی محفلوں کو گرمی ورونق بخشی ہے۔

٤۔تاریخ نویسوں ، راویوں ، واقعہ نوسیوں اور جغرافیہ دانوں نے بھی سیف کے حق نما جھوٹ کے دستر خوان سے کافی حد تک فائدہ اٹھا یا ہے اور کبھی واقع نہ ہونے والے تاریخی اسناد ، حوادث اور روئیداد اور ہرگز وجود نہ رکھنے والے مقامات ، دریا اور پہاڑوں سے اپنی کتابوں کے لئے مطالب فراہم کئے ہیں ۔

۲۲

٥۔عیش پرست، ثروتمند اور آرام پسندوں کے لئے بھی سیف کے افسانے اور دروغ بافیاں عیش و عشرت کی محفلوں کی رونق ہیں ۔ سیف نے اس قسم کے لوگوں کی مستانہ شب باشیوں کئے لئے اپنے پر فریب ذہن سے تعجب انگیز شیرین اور مزہ دار داستانیں اور قصے بھی گڑھے ہیں ۔

٦۔ان سب چیزوں کے علاوہ دوسری صدی ہجری کے اس افسانہ گو سیف بن عمر تمیمی کی قسمت نے اس کی ایسی مدد کی ہے کہ وہ عالم اسلام کے مؤلفین میں سر فہرست قرار پیا ہے۔سیف کا زمانے کے لحاظ سے مقد م ہونا اور دیگر علماء و مؤلفین کا مؤخر ہونا سیف کے جھوٹ اور افسانوں کے نقل ہونے کا سبب سے بڑا سبب بنا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ انہی مؤلفین کی اکثریت سیف کو جھوٹا، حدیث گڑھنے والا، حتیٰ زندیق ہونے کا الزام بھی لگاتی ہے۔

سیف کا یہی امتیاز کہ وہ ایک مؤلف تھا اور اس نے دوسری صدی ہجری کی پہلی چوتھائی میں (افسانوی اور حقائق کی ملاوٹ پر مشتمل افسانوی)تاریخ کی دوکتابیں تألیف کی ہیں اس کا سبب بناہے کہ اسلام کے بڑے بڑے مؤلفین نے ، وقت کے اس عیّار کی دھوکہ بازی اور افسانوں سے بھری تحریروں سے خوب استفادہ کیا اپنی گراں قدر اور معتبر کتابوں کو ، حقیقی اسلام کو مسخ کرنے والے اس تخریب کا ر کے افسانوں اور جھوٹ سے آلودہ کربیٹھے ۔

بعض سر فہرست مؤلفین ، جنہوں نے اسلامی تاریخ و لغت کی کتابوں میں سیف بن عمر سے روایتیں نقل کی ہیں ، حسب ذیل ہیں :

١۔ابو مخنف، لوط بن یحییٰ (وفات ١٥٧ھ)

٢۔نصر بن مزاحم بن یحییٰ (وفات ٢٠٨ ھ)

٣۔خلیفہ بن خیاط بن یحییٰ (وفات ٢٤٠ھ)

٤۔بلاذری بن یحییٰ (وفات ٢٧٥ھ)

٥۔طبری بن یحییٰ ( وفات ٣١٠ھ)

۲۳

اس کے علاوہ دسیوں دیگر نامور اور محترم مؤلفین بھی ہیں ۔

یہ اور ان جیسے مؤلفین سبب بنے کہ سیف کی جھوٹی اور افسانوی باتیں اسلام کے اہم اور قابل اعتبار مصادر میں درج ہوگئیں ۔ ہم نے ان میں سے ٦٨ مصادر و مآخذ کی طرف اس کتاب کی پہلی جلد میں اشارہ کیا ہے اور اب ان مصادر میں چند دیگر افراد کا ذیل میں اضافہ کرتے ہیں جنہوں نے سیف بن عمر سے مطالب نقل کئے ہیں :

٦٩۔ابو القاسم ، عبد الرحمان بن محمد اسحاق مندہ (وفات ٤٢٧ھ)، کتاب ''التاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث'' میں ۔

٧٠۔ الصاغی ، حسن بن محمد القرشی ، العدوی العمری (وفات ٦٥٠ھ) کتاب ''در السحابہ، فی بیان مواضع و فیات الصحابہ'' میں ۔

٧١۔عبد الحمید ،ابن ابی الحدید معتزلی (وفات ٦٥٥ ھیا٦٥٦ھ)کتاب''شرح نہج البلاغہ'' میں ۔

٧٢۔مقریزی ،تقی الدین احمد بن علی بن عبد القادر (وفات ٨٤٨ھ )کتاب ''الخطط''میں ۔

مشاہدے کے مطابق سیف بن عمر کے افسانے اور جھوٹ (ہماری دست رس کے مطابق ) ہماری در پیش بحث سے مربوط ،اسلام کی ٧٨معتبر اور گراں سنگ کتابوں میں درج ہوئے ہیں ۔اب ہم محققین محترم کی مزید اطلاع ،معلومات اور راہنمائی کے لئے مواخر الذکر مطالب کے صفحات کے حوالے بھی حسب ذیل ذکر کرتے ہیں :

گزشتہ بحث کے اسناد

١۔تاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث عبید بن صخرکے باپ بن لوذان کے حالات زندگی میں

٢۔صاغی کی درالسحابہ ،ص١٤ ،اسعد بن یربوع کے حالات میں

٣۔''شرح نہج البلاغہ '' ابن ابی الحدید معتزلی (١٨٦٤)

٤۔''الخطط مقریزی ''طبع مصر ١٣٢٤ھ صفحات (١٥١١و١٥٦)و(١٤٦٤)

٥۔فتح الباری (٧،٥٨و٥٦)

٦۔تاریخ خلفا سیوطی (٨١و٩٧)

٧۔کنز العمال ( ٣٢٣١١و١٥٥١٢و٢٣٩و١٥و٦٩و٢٣٢)

۲۴

دوسرا حصہ:

جعلی صحابی کو کیسے پہچانا جائے؟

* ایک مختصر تمہید

* سیف کی سوانح حیات اور اس کے زمانے کا ایک جائزہ

* جعلی صحابی کی پہچان

* جعلی اور حقیقی روایتوں کا موازنہ

* سیف کے چند جعلی اصحاب کے نام

۲۵

ایک مختصر تمہید

کتاب '' عبداللہ ا بن سبا'' اور اس کتاب کے مختلف مباحث کی بنیاد اسی پر ہے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ سیف ابن عمر تمیمی ان افسانوں ،پہلوانوں ،اماکن اور اس کی خیالی جگہوں کا جعل کرنے والا ہے ۔اس سلسلے میں ہماری دلیل حسب ذیل ہے :

اسلام اور علماے اسلام کے نزدیک روایت (نقل قول) مختلف علوم ،مانند تاریخ ،فقہ ،تفسیر اور دیگر فنون ادب اور لغت کی بنیاد ہے اور وہ اس کے علاوہ خبر حاصل کرنے کے کسی اور منبع کو نہیں جانتے جب کہ دوسروں نے اپنے معلومات کی تکمیل کے لئے مثال کے طور پر اتفاقا آثار و علائم اور دیگر امور کی طرف بھی رجوع کیا ہے اور ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔

چوں کہ علماے اسلام کا طریقہ یہی رہا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ،اس لئے وہ مورد نظر روایت کو نسل بہ نسل اپنے متقدمین سے حاصل کرتے ہیں تاکہ اس طرح خبر واقع ہونے کے زمانے اور روایت کے مصدر تک پہنچ جائیں ۔ان کے نزدیک خبر کے سر چشمہ تک پہنچنے کی صرف یہی ایک راہ ہے اور وہ اس سے نہیں ہٹتے نہ کسی اور جگہ سے الہام لیتے ہیں ۔

اب اگر ہم مذکورہ علوم کے بارے میں علماے اسلام کی کتابوں کی طر ف رجوع کریں تو جوکچھ انہوں نے روایت کی ہے اس کے بارے میں انہیں مندرجہ ذیل دوگروہوں میں سے کسی ایک میں پاتے ہیں :

ان علماء میں سے ایک گروہ مثلاًطبری ،خطیب بغدادی اور ابن عساکر نے جس خبر وروایت کو اپنی تاریخوں میں ذکر کیا ہے اور اس کی سند کو بھی ثبت ومشخص کیا ہے ۔

علماء کاایک دوسرا گروہ مثلاًمسعودی مروج الذہب میں ،یعقوبی ،ابن اثیر ،اور ابن خلدون نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں ذکر کی گئی روایتوں کی سند کاذکر نہیں کیاہے ۔

۲۶

اب ہم مذکورہ وضاحت کے پیش نظر کہتے ہیں :

اگر کسی متأخر مؤلف کے ہاں ہم دیکھتے ہیں کہ جس روایت کو اس نے ذکر کیا ہے اس کی سند کوذکرنہیں کیاہے ۔حتیٰ یہ بھی معین ومشخص نہیں کیا ہے کہ اس خبر کو اس نے کہاں سے لیا ہے توہم اس مطلب کی تحقیق کرتے ہیں اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ نتیجہ پاتے ہیں کہ یہی خبر من وعن حالت میں کسی قدیمی عالم کی تحریر میں موجود ہے اور بحث وتحقیق کے بعد معلوم ہوتاہے کہ اس متأخر عالم کی خبر کا سرچشمہ یہی قدیمی عالم مؤلف تھا ۔یہاں پر ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ مذکورہ خبر کو فلاں متأخر عالم نے فلاں قدیمی عالم سے نقل کیا ہے ۔

درج ذیل مثال مذکور ہ مطالب کی مکمل وضاحت کرتی ہے :

ہم نے جہاں پر سبائیوں کا افسانہ اپنی کتاب ''عبداللہ ابن سبا''کی پہلی جلد میں ذکرکیا ہے وہیں پر یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس افسانہ کو گزشتہ تاریخ نویسوں ،مؤلفوں و محققوں حتیٰ مشتشرقین نے بھی اپنے طور پر ایک دوسرے سے نقل کیا ہے ،اور اس داستان میں ان کی سند درج ذیل مصادر میں سے کسی ایک پر منتہی ہوتی ہے :

١۔ تاریخ طبری (وفات ٣١٠ھ )

٢۔ تاریخ دمشق ،ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ )

٣۔التمہید و البیان ،ابن ابی بکر (وفات ٧٤١ھ )

٤۔ تاریخ اسلام ،ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ)

ہم جب اس مطلب کا سلسلہ تلاش کرتے ہیں اور سبائیوں کی داستان کی سند کو مذکورہ چار مصادر میں جستجو کرتے ہیں تو نتیجہ کے طور پر متوجہ ہوتے ہیں کہ ان سب نے یہ مطلب صرف سیف بن عمر تمیمی سے لے کر اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے اور اپنی اسناد کے سلسلے کو سیف بن عمر تک پہنچاتے ہیں ۔یہاں پر اس جستجو کے بعد ہم پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان افسانوں کو بیان کرنے والا منفرد شخص سیف ہے اور سبائیوں کی داستان اس پورے آب و تاب کے ساتھ صرف سیف کی ذہنی تخلیق ہے کسی اور نے اس کی روایت نہیں کی ہے ۔

۲۷

سیف کی سوانح حیات اور اس کے زمانے کا ایک جائزہ

یہاں پر ہم سیف کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہوئے اس تحقیق کے دوران متوجہ ہوتے ہیں کہ :

١۔ سیف نے اپنی ادبی سرگرمیوں کا آغاز دوسری صدی ہجری کی ابتدا ئی چوتھائی میں کیا ہے۔یہ وہ صدی تھی جس کے دوران عرب دنیا میں خاندانی تعصب کی دھوم تھی ۔جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں قبیلہ عدنان کے شعرا ء اور سخن ور اور جنوب میں قبیلہ قحطان اپنی مدح و ثنا میں اور دسرے کی ہجو اور انھیں بد نام کرنے میں ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔شمالی ،جنوبیوں کے خلاف اور جنوبی جزیرہ نما کے شمال میں رہنے والوں کو دشنام دیتے اور برا بھلا کہتے تھے اور اپنی فضیلتیں ، عظمتیں اور فخر و مباہات بیان کرتے تھے ۔ان ہی میں سیف ایک عدنانی اور سخت متعصب شخص تھا خاندانی تعصبات کا اظہار کرنے میں اس نے قبیلہ ٔعدنان کے مختلف خاندانوں خاص کر تمیم اور اپنے خاندان ''اسیّد'' کے لئے افسانے اور خیالی سورما جعل کئے ہیں اور اشعار و رزم نامے گڑھ کر دوسروں پر سبقت حاصل کی ہے۔ اس طرح اس نے خاندان عدنا ن کے فخر و مباہات اور شرافت و فضیلتیں تخلیق کی ہیں ، اور قحطانیوں پر بزدلی ، ذلالت ، فتنہ انگیزی اور شرارت کی تہمتیں لگائی ہیں ۔

سبائیوں کے بارے میں سیف کا افسانہ اسی امر کی وضاحت کرتا ہے۔وہ اس افسانہ کو جعل کرکے قبائل عدنان کے بعض سرداروں کے آلودہ دامن کو پاک و صاف کرتا ہے اور بے گناہ قحطانیوں پر فتنہ انگیزی اور دیگر ہزاروں برائیوں کی تہمتیں لگاتا ہے۔

٢۔دوسری جانب ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ عراق ، جو سیف کا اصلی وطن ہے، ان دنوں زندیقیوں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور وہ پوری طاقت کے ساتھ مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے وہ اس سلسلے میں جھوٹی احادیث گھڑ نے اور انھیں پھیلانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے اور اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ہر وسیلہ کا سہارا لیتے تھے۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سیف بھی جھوٹ اور افسانے گڑھ کر، تاریخ اسلام کے ساتھ ظلم و جفا کرنے میں اپنے ہم عقیدہ زندیقیوں سے پیچھے نہیں رہاہے۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ علماے متقدمین نے سیف کو نہ صرف ایک جھوٹا اور غیر قابل اعتماد جانا ہے بلکہ اس پر زندیقی ہو نے کا الزام بھی لگا یا ہے۔ ان تمام تحقیقات کے پیش نظر ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیف بن عمر ہے جس نے سبائیوں کا افسانہ جعل کرکے اسے پھیلادیا ہے۔

۲۸

٣۔ہم نے اپنی کتاب ''عبد اللہ بن سبا'' میں سیف کی روایتوں کو واقعات اور حوادث کے تقدم کی بنیاد پر ، یعنی اسامہ کی ماموریت ، سقیفہ بنی ساعدہ، ارتداد اور فتوح کی جنگوں کے سلسلے میں اس کی روایتوں کا ترتیب سے سیف کے علاوہ دوسرے راویوں کی روایتوں سے موازنہ و مقابلہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ:

علماء نے سیف کی توصیف اور اس کی احادیث کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ صحیح ہے، کیونکہ سیف بن عمر تمیمی کی باتیں بالکل جھوٹ اور افسانہ ہیں یا تہمت و افترا ہیں یا تاریخ اسلام کے حقائق میں تحریف ہیں ۔

اسناد جعل کرنا

سیف اپنے افسانوں کے لئے تاریخ لکھنے والوں کے شیوہ کے مطابق سند جعل کرتا ہے تا کہ اپنے افسانون اور جھوٹ کو سچ اور حقیقی ظاہر کرسکے۔ وہ اپنی بات کو ایسے راویوں کی زبانی دہرا تا ہے جو حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے اور سیف کے علاوہ ان کا نام کہیں نہیں پایا جاتا اور دوسرے علماء نے ان کا نام تک نہیں لیا ہے۔ سیف نے اپنے سور ماؤں کے لئے شجاعتیں اور بہادریاں جعل کی ہیں اور مقامات کو خلق کرکے ان کی دلاوریوں کو ان جگہوں پر واقع ہوتے ہوئے دکھلایاہے۔

۲۹

وہ مؤلفین، جنھوں نے سیف کے خیالی اداکاروں کو درج کیا ہے

یہاں پر ایک ہلا ہم ہادینے والے مطلب سے دوچار ہوتے ہیں ، وہ یہ کہ ہمیں ایسے علماء اور دانشمندوں کا سراغ ملتا ہے جو سیف کے بارے میں مکمل شناخت رکھتے ہیں ، اسے جھوٹا جانتے ہوئے اس پر زندیقی ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے سیف کے ہر جعلی اور افسانوی سور ما کے لئے اپنی رجال کی کتابوں میں سوانح حیات لکھی ہے اور جغرافیہ دانوں نے بھی اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں سیف کے جعلی اور فرضی مقامات ،شہروں اور دریائوں کو درج کیا ہے اور ان علماء کے ثبت کئے گئے مطالب کی سند صرف اور صرف سیف کی جعلی روایتیں ہیں ۔اس طرح سیف کے خیالی مقامات اور شہروں کے نام اسلامی جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو گئے ہیں اور اس کے خیالی اشخاص ،افسانوی سورما ،فرضی راوی ،جعلی سپہ سالار ،خیالی شعراء و سخنور اور اس کے علاوہ خطوط ،تاریخی اسناد کہ جن میں سے کسی ایک کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اور سب کے سب دوسری صدی ہجری کے افسانہ گو سیف کے تخیلات کی پیدا وار ہیں ،کو ان علماء کی کتابوں میں مناسب جگہوں پر واقعی اور ناقبل انکار حقیقت کے طور پر درج کیا گیا ہے !!

یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو سالہا سال زندگی صرف کرنے اور دقت نظر و تحقیق کے بعد جس کا نتیجہ آپ آئندہ بحثوں میں ملاحظہ فرمائیں گے ہمیں حاصل ہو سکے ہیں تاکہ حق و حقیقت کے راہیوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں اور اسلام اور اس کی حقیقی تاریخ کے رخ سے پردہ اٹھا کر اسلام کے حقائق کو دنیا کے لوگوں اور مسلمانوں کے سامنے واضح کر سکیں ۔

۳۰

جعلی صحابی کی پہچان

سیف کے افسانوی صحابی کو پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ ،جب ہم کسی روایت یا خبر کے مطالعہ کے دوران کسی ایسے صحابی سے رو برو ہوتے ہیں جو مشکوک لگے تو ہم سب سے پہلے اس خبر کے اسناد کا اسی کتاب میں دقت سے مطالعہ کرتے ہیں چونکہ ہم نے سیف کو پہلے ہی پہچان لیا ہے اگر اس خبر کی روایت سیف پر منتہی نہ ہو تو مذکورہ صحابی کے بارے میں تحقیق و جستجو سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور اسے سیف کا تخلیق کردہ راوی محسوب نہیں کرتے ۔

لیکن اگر روایت کی سند سیف پر منتہی ہو تو یہاں پر ہماری وسیع تحقیق و جستجو کا آغاز ہو تا ہے اور ہم مختلف مصادر اور متعدد اسلامی مآخذ کی طرف رجوع کرکے تحقیق شروع کرتے ہیں اور سیف کی روایت میں ذکر ہوئے مطالب کو اس موضوع کے سلسلے میں دوسروں کی روایت میں ذکر ہوئے مطالب سے موازنہ ، و مقابلہ کرتے ہیں .یہاں پر اگر مذکورہ مشکوک صحابی کا نام سیف کے علاوہ کسی اور راوی کی روایت میں ملے، تو اس کے بارے میں تحقیق ترک کردیتے ہیں اور اسے جعلی نہیں جانتے۔ لیکن اگر اس صحابی کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں ہوتا تو اس وقت فیصلہ کرتے ہیں کہ:چونکہ یہ مطلب یا اس شخص کانام ، یا اس جگہ کا نام، اور ایسے راویوں کی خصوصیات کو صرف سیف بن عمر نے بیان کیا ہے اور ان کا کسی دوسری جگہ اور کسی ماخذ میں سراغ نہیں ملتا ، اس لئے یہ صحابی ، راوی یا جگہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے اور بالکل جھوٹ اور سیف بن عمر کے افکار و خیالات کے پیدا وار ہیں اس سلسلے میں درج ذیل مثال پیش کی جاتی ہے:

ایک تمیمی گھرانا

ہمیں مکتب خلفاء کی معتبر کتابوں میں مالک تمیمی نام کے ایک معروف خاندان سے مربوط بہت سی اخبار و روایات نظر آتی ہیں ، ان میں مشہور چہرے اور معروف صحابی بھی نظر آتے ہیں جن میں مالک تمیمی کے بہادر نواسے بھی ہیں ۔ان میں سے ایک کا نام قعقاع اور دوسرے کا نام عاصم ہے یہ دونوں عمرو کے بیٹے تھے۔ اسی طرح ان کے چچیرے بھائی اور مالک تمیمی کے دوسرے نواسے جیسے اسود بن قطبہ اور اس کا بیٹا اور صحابی نافع بن اسود یعنی مالک کا پر پوتا اور اس نامور خاندان یعنی بنی تمیم کے تمام محترم اور نامور افراد نظر آتے ہیں

۳۱

ہم اس خاندان ، خاص کر ان کے غیر معمولی کار ناموں کی وجہ سے ان کے بارے میں مشکوک ہوتے ہیں ۔ اس بناء پر ہم اپنی تحقیق کے مطابق جو کچھ اس خاندان کے ہر فرد کے بارے میں بیان ہواہے، اسے ایک ایک کر کے مختلف اسلامی مصادر سے جمع کرتے ہیں ۔اس کے بعدتمام باسند اور بدون سندروایتوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں اور آخر کار متوجہ ہوتے ہیں کہ وہ تمام روایتیں جو قعقاع کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ،سیف سے روایت ہوئی ہیں اور ان کی تعداد ٦٨ تک پہنچتی ہے اوروہ تمام روایتیں جواس کے بھائی عاصم سے مربوط ہیں ،ان کی تعداد ٤٠تک پہنچتی ہے ۔اسود بن قطبہ اور اس کے بیٹے نافع کے بارے میں روایتوں کی تعداد ٢٠تک پہنچتی ہے ،اور یہ سب کی سب صرف سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہیں !

قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد

اب ان روایتوں کے اسناد کے بارے میں تحقیق کی نوبت آتی ہے جو قعقاع کے بارے میں گویا ہیں ۔ہمیں اس تحقیق میں تیس ایسے راوی کے نام ملتے ہیں جوسیف کی احادیث کے علاوہ دوسروں کی احادیث میں نظرہی نہیں آتے ۔ان روایتوں کے راویوں میں خاص طور پر ایک ایسا راوی بھی ہے جس کانام ،قعقاع سے مربوط سیف کی ٣٨ احادیث میں دہرایا گیا ہے ۔دوسرے راوی کا نام ،١٥احادیث میں ،تیسرے راوی کانام ١٠ احادیث میں اور چھوتے راوی کانام قعقاع سے مربوط سیف کی ٨احادیث میں دہرایاگیاہے۔

ان راویوں میں سے چار کانام قعقاع کے بارے میں سیف کی دو احادیث میں ایک ہی جگہ پر آیا ہے ۔بعض اوقات ایک حدیث میں ان ہی راویوں میں سے ایک سے زائدہ کانام لیاگیا ہے۔ یہ سبب راوی سیف بن عمر تمیمی کے خیا لی اور جعل کردہ ہیں ۔

۳۲

عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد کی تحقیق

عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں کی تحقیق کے دوران ہمیں ا س کے بارہ راویوں کے نام ملتے ہیں ،جن کو ہم سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نہ پاسکے ۔ان راویوں میں سے ایک کانام عاصم کے بارے میں سیف کی ٢٨روایات میں دہرایاگیاہے۔ایک دوسرے راوی کانام ١٦روایات میں دہرایاگیاہے۔لیکن بعض اوقات عاصم کے بارے میں سیف کی ایک ہی روایت میں ایک سے زائد راویوں کانام ذکر کیا گیا ہے۔

مذکورہ نام وخصوصیات کے مالک بارہ راویوں کے علاوہ سیف نے بعض دیگر اسناد مثلاً: ''بنی بکر سے ایک مرد ''یا''بنی سعد سے ایک مرد''یا''شوش کی فتح کے بارے میں خبر دینے والا''جیسے موارد بھی پیش کئے ہیں کہ یہ انتہائی مجہول وبے نام اسناد ہیں ۔

اسود اور اس کے بیٹے کے بارے میں سیف کی روایات کے اسناد

اسود اور اس کے بیٹے نافع کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد میں ،عاصم کے سلسلے میں ذکر ہوئے راویوں کے علاوہ ،٩جعلی راوی اور چند مجہول شخصیت راویوں کاذکر کیاگیاہے کہ یہ سب کے سب مجہول اور بے نام ونشان ہیں ۔

خاندان مالک سے مربوط سیف کے روایات کے اسناد کی یہ حالت ہے اور سیف ان ہی کی وساطت سے اپنے سورماؤں اور جعلی صحابیوں کی سرگرمیوں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ،داستان سقیفہ بنی ساعدہ ،جزیرة العرب میں ارتداد اور فتوح کی جنگوں ،خلافت ابوبکر کے زمانے میں عراق وشام کی فتوحات اور نبرد آزمائیوں خلافت عمر وعثمان اور امام علی ـکے دوران حتیٰ معاویہ کے زمانے تک سرزمین عراق،شام اور ایران کی فتوحات کا ذکر کرتا ہے۔

۳۳

سیف اس خاندان کے افراد کے لئے اپنی خیالی اور فرضی جنگوں میں شجاعتیں بیان کرتاہے اور رزمی شعر کہتاہے ،مختلف صوبوں کی حکومتیں انھیں تفویض کرتاہے ،کرامتوں اور غیر معمولی کارناموں کو ان سے نسبت دینے کے علاوہ دیگر ایسے مطالب بیان کرتاہے،جو صرف سیف کے ہاں نظر آتے ہیں ۔دوسری جانب ان روایتوں کی تحقیق اور چھان بین کے بعد جن میں صحابیوں اور بہادروں کا ذکر ہواہے ہم پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام روایتیں جن میں ان دلاوروں کا ذکر آیاہے اور جو بے سند ہیں ، حقیقت میں وہی پہلے درجہ کی سند دار روایتیں ہیں جن کی سندیں سیف پر منتہی ہوتی ہیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں پر ان کی سندیں حذف کردی گئی ہیں !

اس سلسلے میں مزید اطمینان حاصل کرکے قطعی فیصلہ تک پہنچنے کے لئے ہم نے ان سورماؤں کی شجاعتوں اور ان سے مربوط روایتوں کے جعلی اور افسانہ ہونا ثابت کرنے کے لئے مختلف علو م کے موضوعات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے اسلامی منابع ومآخذ کی طرف رجوع کرکے حسب ذیل صورت میں عمیق تحقیق شروع کی :

١۔ ہم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت ،رفتار وکردار پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا جن میں اس زمانے کے گمنام ترین مسلمان شخص کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملاقات اور برتاؤ کو درج کیا گیاہے، مانند :

''سیرہ ابن ہشام''(وفات ٢١٣ھ )

''عیون السیرہ'' ابن سیدہ الناس (وفات ٧٤٣ھ)

اور سیرت کی دوسری کتابیں ۔

لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی سیف کے جعلی اور افسانوی سورماؤں کا کہیں نام ونشان تک نہیں پایا۔اس طرح سے کہ نہ ان کتابوں میں نہ روایتوں کے اسناد میں اور نہ ان کے متن میں کہیں بھی ان کا نام ذکر نہیں ہواہے۔

٢۔ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط احادیث کی کتابوں کی طرف رجوع کیا،جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چھوٹی سی چھوٹی بات کوبھی درج کیا گیا ہے،مانند:

۳۴

'' مسند طیالسی''(وفات ٢٠٤ھ)

'' مسند احمد''(وفات ٢٤١ھ )

''مسند ابوعوانہ''(وفات ٣١٦ھ)

'' صحیح بخاری''(وفات ٢٥٦ھ)

'' موطأ مالک ''(وفات ١٧٩ھ)

'' سنن ابن ماجہ ''(وفات ٢٧٣ھ )

'' سنن سجستانی''(وفات ٢٧٥ھ)

'' سنن ترمذی''(وفات ٢٧٩ھ)

ان کے علاوہ ہم نے دیگر مسانید اور صحاح میں بھی ڈھونڈا اور جستجو کی ،لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی سیف کے جعلی اصحاب کا کہیں نام ونشان نہ پایااور نہ ان کے متن وسند میں ان کا کہیں سراغ ملا۔

٣۔ ہم نے طبقات کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جن میں اصحاب اور تابعین کے بارے میں ان کی سوانح حیات درج کی گئی ہیں ،مانند:

'' طبقات ابن سعد''(وفات ٢٣٠ھ)

جس میں اصحاب اور تابعین کی ، ان کی جائے پیدائش کے مطابق طبقہ بندی کی گئی ہے۔

'' طبقات خلیفہ بن خیاط''(وفات ٢٤٠ھ)

'' النبلاء ذہبی''(وفات ٧٤٨ھ)

اور اس سلسلے کے دیگر منابع کی طرف بھی رجوع کیا لیکن ان میں بھی کہیں سیف کے مذکورہ سورماؤں میں سے کسی ایک کانام نہیں پایا نہ ان کے متن میں اور نہ سند میں ۔

۳۵

٤۔ اس تحقیق کو جاری رکھتے ہوئے ہم نے احادیث واخبار سے مربوط راویوں کے تعارف میں لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا،جیسے:

'' علل احمد حنبل''

'' جرح وتعدیل رازی''(وفات ٣٢٧ھ)

'' تاریخ بخاری''اور اس قسم کی دوسری کتابیں ۔

٥۔ اس کے علاوہ ہم نے مختلف عرب قبیلوں کے شجرہ ٔنسب کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا،مانند:

'' جمہرۂ نسب قریش''از زبیری (وفات ٢٣٦ھ)

'' انساب سمعانی''(وفات ٥٦٢ھ)

٦۔ اسی طرح اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات پر لکھی گئی کتابیں ،مانند:

۔'' اسد الغابہ''اور

''اصابہ '' اور جہاں تک ممکن ہوسکا دیگر مطبوعہ وقلمی نسخوں کا بھی مطالعہ کیا۔

٧۔ اس کے علاوہ اس تحقیق وجستجو میں ہم نے عمومی تاریخوں ۔مانند:

'' تاریخ خلیفہ بن خیاط''(وفات ٢٤٠)

'' تاریخ طبری''(وفات ٣٠١ھ) وغیرہ اور ان کے علاوہ ان عمومی تواریخ کا بھی مطالعہ کیا جن میں تاریخ کے مخصوص واقعات کی تشریح کی گئی ہے ،مانند :

'' صفین ،ابن مزاحم''(وفات ٢١٢ھ)

'' تاریخ دمشق''تالیف ابن عساکر(وفات ٥٧١ھ)

اور دیگر معتبر منابع ومآخذ ۔

٨۔ ہم نے اس تحقیق وجستجو کے دوران ادبی کتابوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ ان سے بھی استفادہ کیا،جیسے :

دورہ ٔکتاب''اغانی اصفہانی ''(وفات ٣٥٦ھ)

۳۶

'' المعارف ابن قتیبہ ''(وفات ٢٧٦ھ)

'' العقد الفرید''ابن عبدربہ(وفات ٣٢٨ھ)

اور اس موضوع سے مربوط دیگر کتابوں کی طرف بھی رجوع کیا۔

اس قدر تحقیق وتلاش وجستجو پر ہم نے ایک عمر صرف کرکے یہ نتیجہ حاصل کیا ہے کہ وہ تمام روایات جن میں اس قسم کے صحابیوں کے نام ذکر ہوئے ہیں ان کی سندیں صرف اور صرف سیف بن عمر تمیمی پر منتہی ہوتی ہیں ۔

سیف کی روایات کے اسناد کی اتنی تحقیق کے علاوہ ہم نے ایسے صحابیوں کے بارے میں روایت کی گئی سیف کی ہر خبر کے متن پر بھی غور وخوض اور تحقیق کی اور اس کا دوسرے اور حقیقی راویوں کی روایت کے متن سے موازنہ و مقابلہ کیا۔اس تحقیق سے مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے ایک حاصل ہوئی :

١۔ یا یہ کہ سیف کی روایت کردہ خبر ،مضمون اور متن کے لحاظ سے بالکل جعلی اور جھوٹی ہے،خواہ یہ اس کا خطبہ اور معجزہ ہوا ،جنگ ہو یا صلح ،اس کا سورما ہو یا ہیرو،مکان ہو یازمان ،اس کے رزمی اشعار ہوں یااس کے اسناد اور راوی ۔اس کا نمونہ اسی کتاب میں ایک افسانوی شخص''طاہر ابوھالہ تمیمی بن خدیجہ'' ،جسے سیف نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے کے عنوان سے جعل کرنے کے بعد اسے ارتداد کی جنگوں ،جیسے جنگ ''اخابث'' میں شرکت کرتے ہوئے دکھایاہے ۔ ''خبراط بن ابواط تمیمی'' اور اس دریا کانام جو اس سے منسوب کیاگیاہے ۔اور اس طرح کی دوسری روایتیں جو بالکل جعلی اور جھوٹی ہیں اور ان کاکوئی بھی تانابانا حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا ۔

٢۔ یا یہ کہ سیف نے ایک حقیقی واقعہ کی خبر میں کسی نہ کسی صورت میں تحریف کی ہے۔مثلاً کسی واقعہ کے مرکزی کردار یا کرداروں کو بدل کے رکھ دیا ہے اور ہر کار خیر میں کسی یمانی قحطانی صحابی یا تابعین میں سے کسی ایک کے کردار کو بدل کر اسے عدنانی مضر ی خاندان کے کسی فرد سے منسوب کردیا ہے یا بر عکس کسی عدنانی ومضری شخص کے کسی نامناسب اور ناروا کام کو ایک قحطانی فرد سے نسبت دیدی ہے!یازمان ومکان تبدیل کیاہے یا کسی روایت میں تحریف کی کوئی دوسری صورت انجام دی ہے کہ کتاب ''عبد اللہ بن سبا '' اور اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحا۲) کی مختلف جلدوں کا مطالعہ کئے بغیر آسانی کے ساتھ سیف کی تحریف کے اقسام اور تاریخ اسلام کے سلسلہ میں اس کے جرم کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۳۷

جی ہاں !اتنی طولانی بحث وتحقیق کے بعد حتی سیف کی ایک روایت وخبر کو بھی سیف کے علاوہ دوسروں کی صحیح اسناد میں نہ پائے جانے اور ہمارے مورد شک صحابی کے نام یا خبر کے ان میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ اس قسم کے اصحاب سیف کے جعل کردہ ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

جعلی اورحقیقی صحابی میں فرق !

سیف کے جعلی صحابی اور دیگر حقیقی صحابیوں میں فرق یہ ہے کہ :جعلی اور جھوٹے صحابی وہ ہیں ،جن کے نام اور اخبار صرف اور صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔جب کہ حقیقی صحابی وہ ہے جس کی خبر ونام مختلف طریقوں اور متعدد اشخاص اور متعدد راویوں اور منابع کے ذریعہ ہمیں دستیاب ہوتے ہیں ۔اس سلسلے میں ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں :

خالد بن ولید ایک ایسی شخصیت ہے جس کا نام اور روایت ایک راوی سے مختص نہیں ہے ، بلکہ جس کسی نے بھی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور کردار پرکچھ لکھا ہے اس نے جنگ احد میں مشرکین پر تیر انداز ی کرنے والے ایک ماہر اور معروف تیر انداز کے عنوان سے خالد کانام لیا ہے اور اسے اس جنگ میں فوج کے ایک دستہ کے کمانڈر کی حیثیت سے یاد کیا ہے ۔

جس نے بھی صلح حدیبیہ کے بعد قریش کے بعض افراد کے اسلام قبو ل کرنے کے بارے میں کوئی مطلب بیان کیا ہے ،بیشک اس نے خالد کے اسلام قبول کرنے کا بھی ذکر کیاہے اور اس کانام لیاہے ۔

اور جس نے بنی خدیمہ کے واقعہ اور اس قبیلہ کی جنگ کے بارے میں کوئی بات کہی ہے ،اس نے ناگزیر اس جنگ کے سپہ سالار اور اس قبیلہ کے افراد کو قتل کرنے والے کی حیثیت سے خالد بن ولید کانام لیاہے۔

جس نے مالک نویرہ کے قتل کے درد ناک واقعہ کی روایت کی ہے، بے شک اس نے خالد بن ولید کا نام لیا ہے کہ کس طرح اس نے مالک کے قتل کا حکم صادر کیا اور اسی شب اس کی بیوی کے ساتھ ہمبستری کی!!

اور جس نے مسیلمۂ کذاب کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کے حالات لکھے ہیں ، بے شک اس نے اس جنگ کے سپہ سالار کی حیثیت سے خالد بن ولید کا نام لیا ہے۔

۳۸

جس نے بھی عراق و شام میں اسلامی فوج کی فتوحات کی تاریخ لکھی ہے، لازمی طور پر اس نے ان جنگوں کے سپہ سالار کی حیثیت سے خالد بن ولید کا نام لیا ہے .اور ان جنگوں میں اس کی مہارتوں کا ذکر کیا ہےان تمام اخبار کے علاوہ دیگر واقعات جو بہر صورت خالد بن ولید سے مربوط ہیں میں خالد بن ولید کا نام سیکڑوں روایات میں مختلف طریق و متعدد راویوں سے نقل ہوا ہے۔

خالد کا ذکر سیرت، حدیث اور طبقات کی ان تمام کتابوں میں آیا ہے جو سیف کے جھوٹ اور افسانوی باتوں سے کسی صورت میں آلودہ نہیں ہوئی ہیں ۔

اس طرح ہم اس صحابی کے بارے میں بحث و تحقیق شروع کرتے ہیں جس کا وجود مشکوک ہوتا ہے اور مذکورہ تمام مراحل کا جائزہ لینے کے بعد اپنی بحث کے آخر میں روایت کے اسناد اور سیف کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے نتیجہ کا اعلان کرتے ہیں

گزشتہ بحث کے پیش نظر اور اس کتاب کے مباحث کی طرف رجوع کرنے کے بعد اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے کہ جن بعض اصحاب اور بہادروں کی طرف ہم نے اشارہ کیا وہ سب کے سب سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق، جعلی اور افسانوی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے۔

لیکن یہی قطعی نتیجہ علمی بحث و تحقیق سے سرو کار نہ رکھنے والے لوگوں کے لئے تعجب اور ناقابل یقین بن گیا ہے۔

اور وہ مثال کے طور پر کہتے ہیں :

''کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے اتنے لوگوں کو جعل کیا ہوگا؟! اور اپنے تخیلات پر مبنی پوری ایک تاریخ لکھ ڈالے؟! انسان اتنے تخیلی افراد اور سور ماؤں کی تخلیق پر حیرت اور تعجب میں پڑجاتا ہے!!''

۳۹

ہم جواب میں کہتے ہیں :

اس میں کیا مشکل ہے ؟جبکہ آپ اس سے ملتی جلتی باتیں ''جرجی زیدان کی داستانوں '' ، ''مقامات حریری ''، ''عنترہ کی داستانوں '' ، ''ایک ہزار اور ایک شب'' اور '' کلیلہ و دمنہ'' جیسی ہزاروں ادبی اور حکمت کی داستانوں میں ہر زبان کے قصہ اور افسانے لکھنے والوں کے ہاں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان جادوئی قلم کے مالک مؤلفوں اور افسانہ نویسوں نے اپنے فکر و نظر کی بناء پر ایسے پر کشش اور دلچسپ افسانوں کے ہیرو اور شاہکار خلق کئے ہیں جو ہرگز وجود نہیں رکھتے تھے؟ کیا مشکل ہے اگر سیف بھی انہی افسانہ نویسوں جیسا ہو؟ اس میں کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہے ، بلکہ تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض مورخین نے سیف کے افسانوں پر اعتماد ، اور یقین کرکے ان کے مقابلے میں مسلّم حقائق بیہودہ جان کر انھیں ترک کیا ہے اور انہی افسانوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے!

وہ یہ کہتے ہیں :

یہ کیسے ممکن ہوسکا ہے کہ سیف کے یہ سب افسانے اور خیالی ہیرو بارہ صدیوں سے آج تک علماء اور دانشمندوں کی نظروں سے مخفی اور پوشید ہ رہے ہیں ؟

تو ہم جواب میں کہتے ہیں کہ:

ممکن ہے گزشتہ زمانے میں سیف کے افسانوں پر بحث و تحقیق کرنے کے وسائل موجود نہ ہوں ۔

اور خدائے تعالےٰ نے اس مشکل کو ہمارے ہاتھوں حل کرکے ہمیں یہ توفیق بخشی ہے کہ سیف کے جرائم پر سے پردے اٹھاکر علماء کیلئے راہ ہموار کریں ۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ:

یہ انتہائی بے ادبی اور بے انصافی ہے کہ شیخ طوسی جیسے دانشمند کی اس بناء پر عیب جوئی کی جائے کہ اس نے قعقاع جیسے صحابی کانام اپنی کتاب میں درج کیا ہے!

اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ:

علماء اور دانشوروں کا احترام کرنا ہرگز ان کے نظریات سے اتفاق کرنے پر منحصر نہیں ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات :

۱) حكم شرعى ، حكم تكليفى اور حكم وضعى سے كيا مراد ہے؟

۲) حكم قاضى اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟

۳)حكومتى حكم اور قاضى كے حكم ميں كيا فرق ہے؟

۴)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد كيا ہے؟

۵)حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى بحث كا حكومتى احكام كى بحث ميں كيا كردار ہے؟

۶) احكام ثانويہ كيا ہيں اور احكام اوليہ سے ان كا كيسا تعلق ہے؟

۲۸۱

اٹھائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلقہ

گذشتہ سبق ميں يہ ثابت ہوچكا ہے كہ فقيہ عادل جس طرح شرعى حكم كو استنباط كرسكتا ہے اسى طرح حكومتى حكم كے صادر كرنے كا بھى اختيار ركھتا ہے_

فتوى ميں فقيہ كا كام شارع مقدس كے حكم سے پردہ اٹھانا ہے _ اب جبكہ حكومتى حكم خود فقيہ صادر كرتا ہے_ حكومتى حكم كے جعل اور صادر كرنے ميں فقيہ عادل، شرعى اصول و مبانى كو بھى نظر ميں ركھتا ہے اور اسلام و مسلمين كى مصلحت كو بھى _ گذشتہ سبق كا آخرى سوال يہ تھا كہ ''حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے''؟

امام خمينى اس مسئلہ كے جواب كو'' اسلام ميں حكومت كے مقام ''كے ساتھ منسلك كرتے ہيں_ ان كى نظر ميں ولى فقيہ كے اختيارات اور حكومتى حكم كے صدور كا دائرہ اور حد، حكومت اور اسلامى نظام كے احكام اوليہ كے ساتھ رابطے كے تعيّن اور اسلام كى نظر ميں حكومت اور نظام كے مقام كو واضح و مشخص كرنے كے تابع ہے_

۲۸۲

اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى نجف اشرف ميں اپنے فقہ كے دروس خارج ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے تھے كہ حكومت اور اسلامى نظام اسلامى فروعات ميں سے ايك فرع يا اجزائے اسلام ميں سے ايك جزء نہيں ہے بلكہ اس كى شان اس سے بہت بلند ہے اس طرح كہ فقہى احكام حكومت اور اسلامى نظام كى حفاظت اور تثبيت كيلئے ہيں _ اسلامى حكومت شريعت كى بقاء اور حفاظت كى ضامن ہے اسى لئے اولياء الہى نے نظام اسلام و مسلمين كى حفاظت اور بقاء كيلئے اپنى جانوں كو خطرات ميں ڈالتے تھے _ ان كى نظر ميں شرعى احكام امور حكومت ميں سے ہيں_ شرعى احكام ذاتاً مقصود اور ہدف نہيں ہيں بلكہ عدل و انصاف قائم كرنے كيلئے اسلامى حكومت كے ذرائع ہيں اسى لئے روايات ميں حاكم اور ولى فقيہ كو اسلام كا قلعہ كہا گيا ہے (۱) _

''الاسلام هو الحكومة بشؤونها، و الاحكام قوانين الاسلام و هى شان من شؤونها ، بل الاحكام مطلوبات بالعرض و امور آلية لاجرائها و بسط العدالة'' (۲)

امام خمينى اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حكومت اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے_ نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام پر مقدم ہے_ رہبر انقلاب آيت اللہ خامنہ اى كے نام لكھے گئے اپنے ايك خط ميں امام خمينى فرماتے ہيں:

حكومت رسولخدا (ص) كى ولايت مطلقہ كا ايك شعبہ ہے، اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے، اور اس كے تمام احكام فرعيہ ،نماز روزہ اور حج و غيرہ پر مقدم ہے(۳)

____________________

۱) امام خمينى كى درج ذيل عربى عبارت كا مفہوم بھى يہى ہے _(مترجم)

۲) كتاب البيع، ج ۲ ص ۴۷۲_

۳) صحيفہ نور ج ۲۰ ، ص ۱۷۰

۲۸۳

لہذا حكومتى حكم كا صدور اسلام اور نظام مسلمين كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے_ ضرورى نہيں ہے كہ عناوين ثانويہ مثلا عسروحرج ، اضطرار يا اختلال نظام ميں سے كوئي ہو بلكہ اسلامى حكم كى مصلحت حكومتى حكم كى بنياد قرار پاتى ہے اگر چہ مذكورہ عناوين ميں سے كوئي بھى نہ ہو_

اس كے باوجود انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں بعض موارد ميں انہوں نے حكومتى حكم كے صدور اور بظاہر شريعت كے منافى احكام و قوانين بنانے كا حق پارليمنٹ كو ديا ليكن احتياط اور مزيد استحكام كيلئے ايسے قوانين كے وضع كرنے كو اختلال نظام ، ضرورت اور عسرو حرج جيسے ثانوى عناوين كے ساتھ منسلك كرديا_ اگر چہ آپ فقہى لحاظ سے حكومتى حكم كے صدور كو ان عناوين پر موقوف نہيں سمجھتے اور اسے اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں_

مورخہ ۲۰/ ۷/ ۱۳۶۰ ھ ش كو قومى اسمبلى كے اسپيكر كو ايك خط كا جواب ديتے ہوئے لكھتے ہيں:

وہ شئے جو اسلامى نظام كى حفاظت ميں دخالت ركھتى ہے ، جس كا انجام دينا يا ترك كردينا اختلال نظام كا باعث بنے، خرابى و فساد كا باعث بنے يا اس سے حرج و مرج لازم آتا ہو، تو پارليمنٹ كے ممبران كى اكثريت را ے كے ذريعہ موضوع كى تشخيص كے بعد اس وضاحت كے ساتھ قانون بنايا جائے كہ جب تك يہ موضوع ہے يہ قانون ہے_ اور موضوع كے ختم ہونے كے ساتھ ہى يہ قانون لغو ہوجائے گاوہ اس قانون كے بنانے اور جارى كرنے كا اختيار ركھتے ہيں_(۱)

اس اصرار كے ساتھ كہ حكومت ''اسلام كے احكام اوليہ'' ميں سے ہے_ اپنى مبارك زندگى كے آخرى سالوں ميں اس ميں اور شدت آگئي اور انہوں نے صاف الفاظ ميں كہہ ديا كہ حكومتى حكم كا صدور'' مصلحت نظام'' پر مبنى ہے _مصلحت نظام اختلال نظام ، ضرورت اور عسر و حرج جيسے عناوين ثانوى سے قطعى مختلف ہے

____________________

۱) صحيفہ نور، ج ۱۵ ، ص ۱۸۸_

۲۸۴

اسى لئے مصالح كى تشخيص اور حكومتى حكم كے صادر كرنے ميں ولى فقيہ كى مدد كرنے كے لئے '' مجمع تشخيص مصلحت نظام ''كے نام سے ايك ادارہ تشكيل ديا گيااور حكومتى احكام كے مبانى كى تشخيص كا كام اس كے سپرد كيا گيا_

فقيہ كى ولايت مطلقہ

فقيہ كى '' ولايت عامّہ ''، ''نيابت عامہ'' يا ''عمومى ولايت'' جيسے الفاظ سابقہ فقہاء كے كلمات ميں استعمال ہوتے رہے ہيں_ ليكن '' ولايت مطلقہ'' كى تعبير عام نہيں تھى _ امام خمينى كے كلمات ميں رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كى سياسى ولايت كو ''ولايت مطلقہ ''سے تعبير كيا گيا ہے_ اور يہى خصوصيت جامع الشرائط فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے_ ۱۳۶۸ ھ ش ميں جب اساسى قانون پر نظر ثانى كى گئي تو اس ميں لفظ '' ولايت مطلقہ ''استعمال ہونے لگا _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں قواى حاكم يہ ہيں: مقننہ ،مجريہ اور عدليہ يہ تينوں ادارے ولايت مطلقہ كے زير نظر اس قانون كے آئندہ طے پانے والے اصولوں كے مطابق عمل كريںگے_(۱)

''ولايت مطلقہ'' ميں لفظ '' مطلقہ'' اور'' فلسفہ سياست'' كى اصطلاح ميں استعمال ہونے والے لفظ ''مطلقہ''كے درميان لفظى شباہت كى وجہ سے بعض لا علم اور مخالفين نے ولايت فقيہ پر اعتراض كيا ہے _

فلسفہ سياست كى رائج اصطلاح ميں'' حكومت مطلقہ'' ڈكٹيٹر شپ اورمطلق العنان آمريت كو كہتے ہيں_ جس ميں حكومت كا سربراہ اپنى مرضى سے حكومت چلا تا ہے ، دل خواہ قوانين وضع كرتا ہے اور معاشرے كا

____________________

۱) قانون اساسى اصل ۵۷_

۲۸۵

خيال نہيں ركھتا_ آنے والے مطالب سے واضح ہوجائے گا كہ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''بنيادى طور پراس ''حكومت مطلقہ''سے بہت مختلف ہے_

ولايت فقيہ كے مفہوم كے صحيح ادارك كيلئے درج ذيل تمہيد پر غور كرنا ضرورى ہے_

فقہى استنباط كى حقيقت ،در اصل شارع كے جعل اور انشاء كو كشف كرنا ہے_فتوى ، كے وقت فقيہ، نہ حكم كو جعل كرتا ہے نہ نافذ كرتا ہے_ فقيہ، ادلّہ كى طرف رجوع كر كے اس مسئلہ سے پردہ اٹھاتا ہے كہ نماز عشاء واجب ہے، اس حكم كا ايك نفاذ ہے _ اور وہ نماز مغرب كے بعد نماز عشاء كا پڑھنا ہے_ نماز عشاء كا پڑھنا فقيہ كے تعين ، را ے اور نافذ كرنے پر موقوف نہيں ہے_ وہ موارد جن ميں شرعى حكم كو متعدد طريقوں سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے ان كے نافذ كرنے كى كيفيت ميں بھى فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا_ مثلا اسلامى شريعت ميں شادى كرنا جائز ہے_ اس حكم جواز (بمعناى اعم)كے متعدد نفاذ ہيں يعنى مرد كو اختيار ہے كہ وہ كسى بھى خاندان، قبيلہ يا قوم سے اپنے لئے زوجہ كا انتخاب كرسكتا ہے_اس جواز كے انشاء اور نفاد كى كيفيت ميں فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا بلكہ فقط اس شرعى حكم كا كشف كرنا فقيہ كى علمى كوشش كے ساتھ و ابستہ ہے_

جبكہ اس كے مقابلہ ميں ''حكومتى حكم ''ميں جعل اور نفاذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _ فقيہ بعض موارد ميں حكم كو جعل كرتا ہے اور بعض موارد ميں نافذ كرتا ہے_ مثلا حدود الہى كے اجراء كے سلسلہ ميں فقيہ عادل كے حكم كے بغير كسى مجرم پر الہى حدود جارى نہيں كى جاسكتيں_ اسى طرح اگر فقيہ كسى مصلحت كى بنياد پر بعض مصنوعات يا اشيا كو ممنوع يا كسى ملك كيساتھ تجارت كرنے كو حرام قرار ديتاہے يا اس كے برعكس ان مصنوعات كى بعض مخصوص ممالك كيساتھ تجارت كو جائز قرار ديتاہے تو اس نے ايك تو حكومتى حكم '' جعل'' كيا ہے اور دوسرا اسے ايك خاص طريقے سے نافذ كرنے كا حكم ديا ہے_ كيونكہ مباح مصنوعات يا اشياء كى تجارت كو متعددطريقوں

۲۸۶

سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے_ اور اسے مختلف طريقوں سے فروخت كيا جاسكتا ہے _ خاص كيفيت اور موردكا تعيّن ايك حكم كى تنفيذ ميں مداخلت ہے_

حاكم شرع كى تنفيذى دخالت كى دوسرى مثال دو شرعى حكموں ميں تزاحم اور تصادم كا مورد ہے_ معاشرے ميںاجرائے احكام كے وقت بعض اوقات دو شرعى حكموں ميں تصادم ہوجاتا ہے_ اس طرح كہ ايك كو ترجيح دينے كا مطلب دوسرے كو ترك كرنا ہوتاہے _ اس وقت ولى فقيہ اہم مورد كو تشخيص دے كر اہم شرعى حكم كو نافذ كرتا ہے اور دوسرے كو ترك كر ديتا ہے_

موردبحث نكتہ يہ ہے كہ كيا ولى فقيہ كسى اہم شرعى حكم كے بغير بھى كسى دوسرے حكم كے نفاذ كو روك سكتاہے؟ يعنى اگر كسى مورد ميں وجوب يا حرمت كا حكم موجود ہے توكيا اس ميں مصلحت كى صورت ميں ولى فقيہ اس حكم كے برخلاف كوئي دوسرا حكم'' جعل'' كرسكتا ہے؟ مثلا عارضى طور پر مسلمانوں كو حج تمتع سے روك دے؟ يہاں دو مختلف بنيادى نظريے ہيں_ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كے حامى اس سوال كا جواب ہاں ميں ديتے ہيں _ ليكن فقيہ كي'' ولايت مقيّدہ '' كے حامى فقيہ عادل كيلئے اس قسم كے كسى حق كے قائل نہيں ہيں_

فقيہ كى ولايت مقيّدہ كے حامى معتقد ہيں كہ حكومتى حكم كى جگہ وہاں ہے جہاں شريعت كا كوئي الزامى حكم نہ ہو اور يہ كہ حكومتى حكم كے صدور ميں'' ولى فقيہ'' شريعت كے تابع ہے كسى تصادم و تزاحم كے بغير صرف كسى مصلحت كى وجہ سے شريعت كے واجب يا حرام كے برعكس كوئي حكم صادر نہيں كرسكتا _ ان كى نظر ميں حكومتى حكم كا دائرہ غير الزامى احكام يا الزامى احكام_ تزاحم كى صورت ميں _اور يا اس موردتك محدود ہے كہ جس كے متعلق شريعت نے كوئي حكم بيان نہيں كيا ولى فقيہ حكومتى حكم كے ذريعہ اس قانونى خلا كو پر كر سكتا ہے_ يہ سكوت يا شريعت كے حكم اوّلى كا نہ ہونا شريعت كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہے بلكہ اس مورد ميں طبعى تقاضا يہ تھا

۲۸۷

كہ كسى الزامى حكم سے سكوت اختياركيا جائے _ شہيد صدر فرماتے ہيں:

واقعات اور انسانى ضروريات كى متغير حقيقت باعث بنتى ہے كہ ان ميں كوئي حكم وضع نہ كيا جائے البتہ شارع نے اسے مہمل اور بے مہار نہيں چھوڑا ، بلكہ اسلامى حكومت كے سربراہ كو حق ديا ہے كہ وہ اس موقع كى مناسبت سے حكم جعل كرے_(۱)

علامہ طباطبائي بھى فقيہ كى ولايت مقيدہ كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں اسلامى قوانين دو قسم كے ہيں متغير اور ثابت _

اسلام كے ثابت قوانين و احكام انسان كى فطرت ،اور ان خصوصيات كو مدنظر ركھتے ہوئے بنائے گئے ہيں جو بدلتى نہيں ہيں اور انہيں اسلامى شريعت كا نام ديا گيا ہے _ احكام كى دوسرى قسم جو كہ قابل تغير ہے اور زمان و مكان كى مصلحت كے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتے ہيں يہ ولايت عامہ كے آثار كے عنوان سے رسولخدا (ص) ،ائمہ معصومين اور ان كے مقرر كردہ جانشينوںكى را ے سے مربوط ہوتے ہيں اور وہ انہيں دين كے ثابت قوانين اور زمان و مكان كى مصلحت كے پيش نظر تشخيص ديتے ہيں اور جارى كرتے ہيں _ البتہ اصطلاحى لحاظ سے اس قسم كے قوانين دينى اور شرعى احكام ميں شمار نہيں ہوتے_ ثقافت اور لوگوں كى معاشرتى زندگى كى پيشرفت اور ارتقاء كے لئے ولى امر جو قوانين وضع كرتا ہے واجب الاجرا ہونے كے باوجود وہ شريعت اور حكم الہى كے زمرہ ميں نہيں آتے اس قسم كے قوانين كا اعتبار اس مصلحت كے تابع ہے جو ان كے وضع كرنے كا باعث بنى ہے_ ليكن احكام الہى جو كہ عين شريعت ہيں ہميشہ ثابت رہتے ہيں اور كوئي بھى حتى كہ ولى امر بھى يہ حق نہيں ركھتا كہ وقتى مصلحت كى وجہ سے انہيں تبديل يا لغو كردے(۲)

____________________

۱) اقتصادنا ،شہيد محمد باقر صدر، ص ۷۲۱_

۲) فرازہاى از اسلام، ص ۷۱ _ ۸۰_

۲۸۸

اس نظريہ كے مقابلہ ميں كہ جو فقيہ كى ولايت عامہ كو شرعى احكام ميں محدود قرار ديتاہے امام خميني، فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كا دفاع كرتے ہيں _

اس نظريہ كے مطابق شريعت كے الزامى احكام بھى حكومتى حكم كے صدور ميں ركاوٹ نہيں بن سكتے _ اورفقيہ كى ولايت شريعت كے حصارميں محدود اور منحصر نہيں ہے_ اگر اسلامى نظام اور مسلمانوں كى مصلحت كا تقاضا ہو، تو جب تك يہ مصلحت ہے _جو كہ سب سے اہم مصلحت ہے_ فقيہ وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرسكتاہے اگر چہ وہ حكم شريعت كے كسى الزامى حكم كے منافى ہى كيوں نہ ہو_

پس شرعى احكام كے لحاظ سے فقيہ كى ولايت محدود اور مقيد نہيں ہے بلكہ مطلق ہے _ اس نظريہ كا سرچشمہ اور بنياد يہ ہے كہ امام خمينى كى نظر ميں'' حكومت'' اسلام كے احكام اوليہ ميں سے ہے اور نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام اوليہ پر مقدم ہے _

حكومت يا ''ولايت مطلقہ'' جو كہ اللہ تعالى كى طرف سے آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي ہے اہم ترين حكم الہى ہے اور خدا كے تمام احكام فرعيہ پر مقدم ہے _ اگر حكومتى اختيارات احكام فرعيہ الہيہ ميں محدودہوجائيں تو آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي حكومت الہى اور ولايت مطلقہ ايك كھوكھلى سى چيز بن كر رہ جائے گى _ حكومت ہر اس عبادى يا غير عبادى امر كو اس وقت تك روك سكتى ہے جب تك اس كا اجرا مصلحت اسلام كے منافى ہو(۱)

حكومتى حكم كا صدور، حفظ نظام كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے _ امام خمينى كى نظر ميں اگر حفظ نظام كى مصلحت اس حد تك پہنچ جائے كہ ولى فقيہ كى نظر ميں وہ شريعت كے كسي'' حكم اولي'' كے ساتھ ٹكرارہى ہے تو ہميشہ حفظ نظام كى مصلحت مقدم رہے گي_ اور اس شرعى حكم كے ملاك اور مصلحت سے اہم قرار پائے گى اورولي

____________________

۱) صحيفہ نور، جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۰_

۲۸۹

فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اس مصلحت پر عمل كرے او رجب تك وہ مصلحت باقى ہے اہم كو مہم پر ترجيح دے_

آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون اساسى كى شق ۱۱۰ ميں ''ولى فقيہ ''كے وظائف اور اختيارات ذكر كئے گئے ہيں ليكن فقيہ كى ''ولايت مطلقہ'' كو ديكھتے ہوئے اس كے اختيارات ان امور ميں محدود نہيں ہيں بلكہ اس كے اختيارات كا دائرہ اسلامى معاشرہ كے مصالح كى بنياد پر ہوگا_

۲۹۰

خلاصہ:

۱) امام خمينى حكومت اور اسلامى نظام كو اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں _

۲) ان كى نظر ميں حكومت ،فقہ كے اجزا ميں سے نہيں ہے_ بلكہ تمام كى تمام فقہ نظام مسلمين كى حفاظت كيلئے ہے_ اسى لئے اسلامى حكومت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے _

۳) اس بناپر حكومتى حكم كا صدور كسى ثانوى عنوان كے محقق ہونے پر موقوف نہيں ہے_

۴) امام خمينى انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں احتياط كى بناپرحكومتى اورظاہر شريعت كے منافى حكم كو ثانوى عناوين كے ساتھ مربوط سمجھتے تھے_

۵) فقيہ كى ولايت مطلقہ كى بحث براہ راست حكومتى حكم كے صدور كى بحث كے ساتھ منسلك ہے _

۶) فقيہ كى ولايت مطلقہ اور سياسى فلسفہ ميں موجود حكومت مطلقہ كو ايك جيسا قرار نہيں ديا جاسكتا_

۷) فتوى كے برعكس حكومتى حكم ميں جعل و انشاء اور تنفيذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _

۸) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا لازمہ يہ ہے كہ اگر مصلحت كا تقاضا ہو تو فقيہ عادل شريعت كے الزامى حكم يعنى وجوب و حرمت كے منافى حكم بھى صادر كرسكتاہے_

۹) فقيہ كى ولايت مقيدہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ، فقط شريعت كے غير الزامى احكام كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتاہے _ اس كى ولايت، شريعت كے الزامى احكام كے عدم وجود كے ساتھ مشروط ہے _

۱۰ ) امام خمينى كى نظر ميں جب حفظ نظام كى مصلحت كسى شرعى حكم كى مصلحت كے ساتھ ٹكرا جائے تو حفظ نظام كى مصلحت اہم اور مقدم ہے _

۲۹۱

سوالات:

۱) حكومت كے مقام اور احكام شريعت كے ساتھ اس كے رابطہ كے متعلق امام خميني كا نظريہ كيا ہے ؟

۲) فقيہ كى ولايت مطلقہ سے كيا مراد ہے ؟

۳) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا حكومت مطلقہ كى بحث سے كيا تعلق ہے ؟

۴) فقيہ كى ولايت مقيدہ سے كيا مراد ہے ؟

۵) جب حفظ نظام كى مصلحت ، شريعت كے احكام اوليہ كے ملاكات سے ٹكرا جائے تو كيا كرنا چاہيے؟

۲۹۲

انتيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۱-

كسى سياسى نظام كے دوسرے سياسى نظاموں سے امتياز كى ايك وجہ وہ فرائض ، اختيارات اور اہداف ہيںجو اس كے پيش نظر ہيں _ مختلف مكا تب اور سياسى نظام اپنى حكومت كيلئے مختلف اہداف اور فرائض قرار ديتے ہيں _ اگر چہ بہت سے اہداف مشترك ہوتے ہيں مثلاً امن عامہ كا برقرار كرنا اور دشمن كے تجاوز اور رخنہ اندازى سے خود كو محفوظ ركھنا ايسے اہداف ہيں كہ جنہيںتمام سياسى نظاموں نے اپنے اپنے ذوق و سليقہ كے مطابق اپنے اوپر فرض قرار دے ركھاہے _

آج سياسى ماہرين اور مفكرين كے در ميان حكومت كے فرائض اور اختيارات كے متعلق بڑى سنجيدہ بحثيں ہو رہى ہيں _ بعض سياسى نظريات'' حكومت حداقل'' كا دفاع كرتے ہيں _ ان سياسى فلسفوںكا عمومى اعتقاد يہ ہے كہ جتنا ممكن ہو سكے حكومت مختلف امور ميں كم سے كم مد اخلت كيا كرے_ انيسويں صدى كے كلاسيكى اور آج كے نيولبرل ازم ( New Liberalism ) اقتصادى لحاظ سے بازار تجارت ميں حكومت كى كمترين مداخلت كے قائل ہيں انكا نظريہ يہ ہے كہ بازار ميں موجود كارو بار و تجارت ميں حكومت كى عدم مداخلت سے

۲۹۳

اقتصادى توازن بر قرار رہے گا _اور حكومت كى مداخلت آزاد تجارت كے نظم و نسق كو در ہم بر ہم كردے گى _ اس كے مقابلہ ميں سو شلزم كى طرف مائل افراديہ چاہتے ہيں كہ حكومت براہ راست اقتصادى امور ميں مداخلت كرے حتى كہ تمام اقتصادى مراكز حكومت كے ہاتھ ميں ہونے چاہئيں_ اس نظريہ كى ہلكى سى جھلك لبرل ازم كى تاريخ كے ايك مختصر دور ميں دكھائي ديتى ہے _جديد لبرل ازم جو كہ بيسويں صدى كے اوائل سے ليكر ۱۹۷۰ تك رہا ہے رفاہى رياست (۱) كا خواہاں ہے _ وہ چاہتاہے كہ حكومت آزاد تجارت ميں مداخلت كرے تا كہ ايك طرف بازار رونق پكڑے اور دوسرى طرف آسيب پذير طبقے كا دفاع ہو اور معاشرتى اور اجتماعى امور پر كوئي زد نہ پڑے _

اقتصاد سے ہٹ كر سياسى فلسفہ كى ايك اہم ترين بحث يہ بھى ہے كہ سعادت ، اخلاقيات اور معنويات ميں حكومت كا كيا كردار ہے _ اور ان كے ارتقاء كے سلسلہ ميں حكومت كے كيا فرائض ہيں ؟كيا عوام كى سعادت اور نجات بھى حكومت كے اہداف اور فرائض ميں سے ہے؟

ماضى ميں بھى بہت سے سياسى فلسفے خير و سعادت پر گہرى نگاہ ركھتے تھے _سياسى ماہرين اپنے سياسى نظاموں كو خير و سعادت كى بنياد پر متعارف كرواتے تھے اورخيرو سعادت كى جو مخصوص تعريف كرتے تھے اسى لحاظ سے اپنے اہداف اور دستور العمل كو متعين كرتے تھے _آخرى دو صديوں ميں ہم نے ايسے ايسے سياسى نظريات ديكھے ہيں جو اس سلسلہ ميں حكومت كے كردار اور فرائض كوبالكل نظر انداز كرتے ہيں ان نئے نظريات كى بنياد پر خير و سعادت جيسے امور حكومت كے فرائض و اہداف سے خارج ہيں_ حكومت كا كام فقط امن وامان اور رفاہ عامہ كے متعلق سو چناہے _ اور اسے چاہيے كہ خيروسعادت ، اور اخلاق و معنويت جيسے امور خود عوام اور معاشرے كے افراد كے حوالہ كردے_

____________________

۱) Welfare State .

۲۹۴

لبرل ازم اس نظريہ كى سخت حمايت كرتا ہے كہ اس قسم كے امور عوام كے ساتھ مربوط ہيں لہذا ان امور ميں حكومت كسى قسم كى مداخلت نہيں كر سكتى ، بلكہ اس قسم كے مسائل ميں مداخلت لوگوں كے ذاتى مسائل ميں مداخلت ہے اور ان كے حقوق اور ان كى شخصى آزادى كو سلب كرنے كے مترادف ہے_ حكومت كو اپنے فرائض عوامى حقوق اور شخصى آزادى كو ملحوظ خاطر ركھ كر انجام دينے چاہيں_ لبرل نظريات كے حامى افراد كى نظر ميں ''حقوق بشر كا عالمى منشور'' جو كہ لبرل نظريات كے اصولوں كى بنياد پر بنايا گياہے، حكومت كے اہداف و فرائض متعين كرنے كيلئے انتہائي مناسب راہنماہے حكومت كو اسى كا دفاع كرنا ہے اور اسے امن وامان برقرار ركھنے ، شخصى مالكيت كى حفاظت، ثقافتى ، مذہبى اور اقتصادى آزادى كيلئے كوشش كر نى چاہيے _ خير و سعادت اور اخلاقيات كو خود عوام كے سپرد كرد ے تا كہ ہر شخص اپنى مرضى كى خير و سعادت كے متعلق اپنے مخصوص نظر يہ كے مطابق زندگى گزار سكے_

ا س تمہيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ ديكھنا ہے كہ اسلام كن اہداف اور فرائض كو حكومت كے كندھوں پر ڈالتا ہے _حكومت كے متعلق اسلام كا نظر يہ كيا ہے ،اور اس كيلئے كس مقام كا قائل ہے ؟

ہم اس تحقيق كو تين مرحلوں ميں انجام ديں گے ، پہلے حكومت اور اس كے مقام كے متعلق اسلامى نظر يہ كى تحقيق كريں گے _پھر دينى حكومت كے اہداف پر ايك نگاہ ڈاليں گے اور آخر ميں اسلامى سربراہوں كے جزئي وظائف اور فرائض كى طرف اشارہ كريں گے _

حقيقت حكومت از نظر اسلام

دوسرے باب ميں ''اسلام كى نظر ميں امامت اور سياسى قيادت كے مقام و مرتبہ'' كے متعلق ہم تفصيلى گفتگو كر چكے ہيں _يہاں حقيقت و ماہيت كے متعلق بحث سے ہمارى يہ مراد نہيں ہے كہ ہم نئے سرے سے اس كى

۲۹۵

اہميت كا تذكرہ كرنا چاہتے ہيں _ بلكہ يہاں ہم يہ جاننا چاہتے ہيں كہ حكومت كو اسلام كس نگاہ سے ديكھتاہے اور اس كے نزديك اس كى ماہيت اور حقيقت كيا ہے ؟

آيات و روايات كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كى نگاہ ميں حكومت اور دنيوى مقامات و مناصب بذات خود كوئي اہميت و كمال نہيں ركھتے، ''حكومت'' ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كا نام ہے _ اس ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كيلئے اہليت ، صلاحيت اور انفرادى كمالات كى ضرورت ہے -_ اسى وجہ سے اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے مخصوص خصوصيات اور شرائط كا لحاظ ركھا گيا ہے - _اسلام كى نگاہ ميں ہر قسم كا اجتماعى منصب خصوصاًحكومت اور امارت ايك الہى امانت ہے لہذا اسے كوئي كمال شمار نہيں كيا جاتا -_ سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں ارشاد خداوندى ہے:

( ''إنَّ الله َ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَات إلَى أَهلهَا وَإذَا حَكَمتُم بَينَ النَّاس أَن تَحكُمُوا بالعَدل إنَّ الله َ نعمَّا يَعظُكُم به إنَّ الله َ كَانَ سَميعا بَصيرا'' ) (۵۸)

يقينا خدا تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے درميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _ خدا تمھيں بہترين نصيحت كرتا ہے بے شك خدا سننے والا اور ديكھنے والا ہے_

حضرت اميرالمومنين آذربايجان ميں لشكر اسلام كے سپہ سالار اشعث ابن قيس كو ايك خط ميں تاكيد كرتے ہيں كہ حكومت اور امارت تيرے لئے ايك لذيذ لقمہ نہيں ہے كہ تو اس سے لطف اندوز ہو -_ بلكہ ايك بار امانت ہے جسكا تجھے جواب دينا ہے _ بيت المال در حقيقت خدا كا مال ہے _ لہذا اس كيلئے امانتدار محافظ بنو_

۲۹۶

انّ عملك ليس لك بطعمة ، و لكنّه ف عْنقك أمانة ، و أنت مسترعى لمَن فوقك ليس لك أن تفتات ف رعيّة ، و لا تخاطر إلّا بوثيقة ، و ف يديك مال من مال الله (عزّوجلّ) و أنت من خْزّانة حتى تسلّمه إلّ (۱)

يہ امارت تيرے لئے روزى كا وسيلہ نہيں ہے- بلكہ تيرى گردن ميں امانت (كا طوق) ہے تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اپنے فرمانروا اور امام كى اطاعت كرو، اور تمہيں يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اپنى رعيت كے معاملہ ميں جو چاہو كر گزر و خبردار كسى مضبوط دليل كے بغير كوئي اہم قدم مت اٹھانا اور تيرے ہاتھ ميں خدا كا مال ہے تو اس كا ايك محافظ ہے يہاں تك كہ اسے ميرے پاس پہنچا دے

اپنے ايك اور عامل كے نام لكھے گئے خط ميں مقام و منصب سے غلط اور ناجائز فائدہ اٹھانے كو امانت الہى ميں خيانت كے مترادف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فَقَد بلغنى عنك أمر إن كنت فعلته فقد أسخطت ربّك و عصيت إمامك و أخزيتَ أمانتك '' (۲)

تمھارے متعلق مجھے ايك اطلاع ملى ہے _ اگر واقعاً تونے ايسا كيا ہے تو پھر تو نے اپنے رب كو غضبناك كيا ہے، اپنے امام كى نافرمانى كى ہے اور اپنى امانت كو رسوا كيا ہے _

حضرت اميرالمومنين حكومت اور اسكے منصب كو ايك امانت سمجھتے ہيں اور اس ميں خيانت كرنے كو بارگارہ پروردگار ميں ذلت و رسوائي كا باعث قرار ديتے ہيں_ اسلامى نقطہ نظر سے حكومتى اہلكار، خدا كى بارگاہ

____________________

۱) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۴۰_

۲۹۷

ميں اس امانت الہى كے سلسلہ ميں جوابدہ ہيں جو انہوں نے اپنے كندھوں پر اٹھا ركھى ہے _ اہواز كے قاضى ''رفاعہ'' كو لكھتے ہيں :

''اعلم يا رفاعة انّ هذه الامارة امانة فَمَنْ جعلها خيانة فعليه لعنة الله الى يوم القيامة و من استعمل خائنا فان محمد (ص) برى منه فى الدنيا والاخرة'' (۱)

اے رفاعہ جان لو كہ يہ امارت ايك امانت ہے جس نے اس ميں خيانت كى اس پر قيامت تك خدا كى لعنت ہے _اور جو كسى خائن كو عامل بنائے رسولخدا (ص) دنيا و آخرت ميں اس سے برى الذمہ ہيں_-

جلال الدين سيوطى اپنى تفسير ميں حضرت على سے يوں نقل كرتے ہيں :

''حقّ على الإمام أن يحكم بما أنزل اللّه و أن يؤدّ الأمانة ، فإذا فعل ذلك فحقّ على النّاس أن يسمعوا له و أن يطيعوا ، و أن يجيبوا إذا دعوا'' (۲)

امام كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خدا كے احكام كے مطابق فيصلے كرے اور امانت كو ادا كرے _ پس جب وہ ايسا كرے تو لوگوں پر واجب ہے كہ اس كى بات سنيں اس كى اطاعت كريں اور جب وہ بلائے تو لبيك كہيں_

حكومت بذات خود كوئي معنوى حيثيت نہيں ركھتي_ اور نہ ہى حاكم كيلئے كوئي كمال شمار ہوتا ہے_ مگر يہ كہ وہ اس سياسى اقتدار كے ذريعہ اس ذمہ دارى اور امانت الہى كو صحيح طور پر ادا كرے_

عبدالله ابن عباس كہتے ہيں كہ بصرہ كى طرف جا تے ہوئے '' ذى قار'' نامى ايك جگہ پر ميں اميرالمومنين كے پاس گيا _ وہ اپنے جوتے كو ٹانكا لگا رہے تھے _ مجھ سے پوچھتے ہيں اس جوتے كى قيمت كيا ہے ؟ ميں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيںتو آپ نے فرمايا :

____________________

۱) دعائم الاسلام، ج ۲ ، ص ۵۳۱_

۲) الدر المنثور ،ج ۲ ، ص ۱۷۵_

۲۹۸

''واللّه له أحبّ إلّ من إمرتكم ، إلّا أن أْقيم حقّا أو أدفع باطلا'' (۱)

خدا كى قسم ميں اسے تم پر حكومت كرنے سے زيادہ پسند كرتا ہوں _ مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كو دور كردوں _

بنابريں حكومت اور قيادت اس وقت اہميت ركھتے ہيں جب اس كے اہداف عملى شكل اختيار كرليں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كى تمام تر كوشش ان اہداف كو پورا كرنے كيلئے ہو _

دينى حكومت كے اہداف :

دينى منابع كى طرف رجوع كرنے سے يہ حقيقت عياں ہوجاتى ہے كہ اسلام ،حكومت كے اہداف كو رفاہ عامہ اور امن وامان برقرار كرنے ميں محدود نہيں كرتا _ بلكہ اسلامى معاشرہ كى خير و سعادت اور معنويات سے مربوط امور كو بھى حاكميت كے دستورالعمل ميں سے قرار ديتا ہے دينى حكومت كيلئے ضرورى ہے كہ وہ معاشرے كو ايمان اور اخلاق سے لبريز زندگى فراہم كرئے اور رفاہ عامہ كے ساتھ ساتھ دينى ثقافت اور الہى پيغامات كے فروغ پر بھى زور دے _ دينى حكومت كے اہداف كو بيان كرنے والى بعض آيات اور روايات كى مدد سے ہم ان اہداف ميں سے بعض كى طرف اشارہ كريں گے _ كلى طور پر ہم ان اہداف كو دو بنيادى حصوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں _ ايك حصہ معنوى اہداف پر مشتمل ہے اور دوسرا دنيوى اہداف پر_ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ايسے امور پر مشتمل ہيں جو بڑى حد تك غير دينى حكومتوں كے بھى مورد نظر ہوتے ہيں _ جبكہ دينى حكومت كے معنوى اہداف وہ امور ہيں جو فقط اسلامى حكومت كے ساتھ مخصوص ہيں اوراسلامى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتے ہيں_ دينى حكومت كى خصوصيت وہ عہد و پيمان ہے جو ان اہداف كو پورا كرتا ہے _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳ _ارشاد مفيد ،ج ۱، ص ۲۴۷ميں يہى حديث مختصر سے فرق كے ساتھ بيان كى گئي ہے _

۲۹۹

الف: معنوى اہداف

دينى حكومت كے معنوى اہداف سے مراد وہ كوششيں ہيں جو معاشرے كى فطرت الہى كے مطابق رشد و ترقى كى خاطر سازگار ماحول فراہم كرنے كيلئے كى جاتى ہيں_ ان ميں سے بعض كا تعلق تہذيب و ثقافت اور صحيح مذہبى پروپيگنڈے سے ہے _ اور بعض احكام شريعت اور حدود الہى كے نفاذ اور آلودگى و تباہى سے معاشرہ كو محفوظ ركھنے كے ساتھ تعلق ركھتے ہيں _ يہاں پر ہم ان آيات و روايات كو بطور نمونہ پيش كرتے ہيں جو دينى حكومت كے معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ پھر ان اہداف كى فہرست بندى كريں گے _

جو لوگ زمين پراقتدار حاصل كرليتے ہيں، اللہ تعالى ان كے ليئے كچھ مخصوص فرائض بيان كرتاہے_

مثلا نماز كا قائم كرنا ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _سورہ حج كى آيت ۴۱ ميں ارشاد خداوندى ہے_

( ''الذين ان مَكّنا هم فى الارض أقاموا الصلوة و آتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الامور ) _''

يہ وہ لوگ ہيں اگرہم انہيں زمين ميں اختيار ديں تو وہ نماز قائم كريں گے اور زكوة ادا كريں گے ، نيكى كا حكم ديں گے اور برائي سے منع كريں گے _ اور يقينا تمام امور كا انجام خدا كے اختيار ميں ہے_

معاشرتى عدل و انصاف پر اسلام نے بہت زيادہ زور ديا ہے _ يہاں تك كہ اسے دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں شمار كيا ہے _سورہ نحل كى آيت ۹۰ ميں ارشاد ہوتاہے:

( ''ان الله يأمر بالعدل والاحسان'' )

يقينا خدا عدل و انصاف اور نيكى كا حكم ديتا ہے _

سورہ شورى كى آيت ۱۵ ميں ارشاد ہے :

''( اُمرت لاعدل بينكم'' )

مجھے حكم ملاہے كہ تمھارے در ميان انصاف كروں_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371