ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 371
مشاہدے: 129216
ڈاؤنلوڈ: 3801


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 129216 / ڈاؤنلوڈ: 3801
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 2

مؤلف:
اردو

ابن خلکان نے بھی اپنی کتاب '' وفیات الاعیان '' میں مالک نویرہ کے بارے میں لکھا ہے:(١٥)

جب مالک نویرہ کو پکڑ کر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ خالد کے پاس لایا گیا تو خالد کی سپاہ کے دو افراد ابو قتاد انصاری اور عبد اللہ بن عمر نے خالد کے پاس مالک کے مسلمان ہونے کی شہادت دی اور اس کی شفاعت کی لیکن خالد نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان دو صحابیوں کی باتیں بھی اسے پسند نہ آئیں ۔

مالک نویرہ نے جب حالت کو اس طرح بگڑ تے اور خطر ناک ہوتے دیکھا اور احساس کیا کہ اس کی جان خطرے میں ہے تو خالد سے مخاطب ہوکر کہا:

اے خالد ! ہمیں ابوبکر کی خدمت میں بھیج دوکہ وہ ذاتی طور پر ہمارے بارے میں فیصلہ کریں ،کیوں کہ تم نے ایسے افراد کے بارے میں ایسا اقدام کیا ہے جن کا گناہ ہم سے سنگین تر تھا۔

خالد نے جواب میں کہا:

خدا مجھے موت دے ، اگر تجھے قتل نہ کروں !!

اسی وقت مالک کو خالد کے اشارہ پر ضرار کے پاس لے گئے تاکہ وہ اس کا سر تن سے جدا کردے ۔ اس حالت میں مالک کی نظر اپنی بیوی ام تمیم پر پڑی ، جو اپنے زمانے کی خوبصورت ترین عورت تھی ۔ مالک نے خالد کی طرف رخ کرکے کہا: اس عورت نے مجھے مروا دیا ؟!

خالد نے جواب میں کہا:

خدا نے تجھے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہونے کے جرم میں مارا ہے ۔

مالک نے کہا:

میں مسلمان ہوں ۔

۲۲۱

خالد نے بلندآواز میں کہا:

ضرار !کیوں دیرکررہاہے؟ اس کا سر تن سے جدا کردے !!

ابن خلکان مالک کی داستان کو جاری رکھتے ہوئے مزید لکھتا ہے :

ابوزہرہ سعدی نے مالک کے سوگ میں چند درد ناک اشعار کے ضمن یوں کہا ہے :(۱)

جن سواروں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہماری سر زمین کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ، ان سے کہہ دو کہ مالک کی شہادت کے بعد مصیبت کی شام ہمارے لئے ختم ہونے والی نہیں ہے۔

خالد نے بڑی بے شرمی سے مالک کی بیوی کی عصمت لوٹ لی ،کیوں کہ وہ بہت پہلے سے اسے للچائی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔

خالد نے عقل کی زمام نفسانی خواہشات کے حوالے کی تھی اور اس میں اتنی مردانگی نہیں تھی کہ اپنے دل کو اس سے کھینچ کر اپنے آپ کو کنٹرول کر سکتا ۔مالک کے قتل ہونے کے بعد خالد اپنی دیرینہ آرزو کو پاسکا۔ لیکن مالک نے اس دن اپنی بیوی کی وجہ سے جان دی اور اس کا سب کچھ لٹ گیا۔

____________________

۱ )۔الاقل لحی اوطأوا بالسنابک

تطاول هذا اللیل من بعد مالک

قضی خالد بغیاً علیه لعرسه

و کان له فیها هوی قبل ذالک

فأمضی هواه خالد غیر عاطف

عنان الهوی عنها ولا متمالک

و اصبح ذا اهل، و اصبح مالک

الیٰ غیر شیء هالکاً فی هو الک

فمن للیتامی والارامل بعده

و من للرجال المعدمین الصعالک

اصیبت تمیم غثها و سمینها

بفارسها المرجو سحب الحوالک

۲۲۲

مالک کے بعد اب اس کے یتیموں ، بیوہ ، بوڑھوں اور بے چاروں کا سہارا اور امید کون بن سکتا ہے؟!

قبائل تمیم کے لوگوں نے مالک جیسے شہسوار کو جو ہر بلا کو ان سے دور کرتا تھا ہاتھ سے دینے کے بعد اپنی قیمتی اور معمولی سبھی چیزوں کوکھودیا۔

دو نر و مادہ پیغمبروں کی حقیقت

طبری نے پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دو شخص ''سجاح'' اور ''مسیلمہ'' کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:(١٦)

(سیف کے علاوہ ) دوسروں نے لکھا ہے کہ ''سجاح'' اس علاقے میں پہنچی جو پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ''مسیلمہ '' کے تسلّط میں تھا۔ مسیلمہ نے ڈر کے مارے قلعہ کے اندر پناہ لے کر قلعہ کے در وازے اندر سے محکم طور پر بند کر دئے ۔

''سجاح'' جب قلعہ کے سامنے آپہنچی تو قلعہ کی چھت پر بیٹھے مسیلمہ سے یوں مخاطب ہوئی:

قلعہ سے نیچے اتر آؤ!

(گویا''مسیلمہ'' ،''سجاح'' کی باتوں اور اس کی حرکات و سکنات سے سمجھ گیا تھا کہ اس سنف نازک پر غلبہ پایا جاسکتا ہے ۔ اس لئے) جواب میں بولا:

تم پہلے حکم دوکہ تیرے مرید اور حامی تم سے دور ہو جائیں !

'' سجاح'' نے اس تجویز سے موافقت کی اور حکم دیاکہ اس کے مرید اپنے خیموں میں چلے جائیں ۔

مسیلمہ بھی قعلہ سے باہر آیا اور اپنے مریدوں کو حکم دیتے ہوئے کہا:

ہمارے لئے ایک الگ خیمہ نصب کرو اور اس کے اندر عود و عنبر جلا کر معطر کرو تاکہ اس معطر فضا اور حالات سے متأثر ہوکر '' سجاح'' کی نفسانی اور جنسی خواہشات بھڑ ک اٹھیں ۔

مسیلمہ کے حکم کو عملی جامہ پہنایا گیا ۔ جب '' سجاح '' نے اس خیمہ کے اندر قدم رکھا تا آخر !

۲۲۳

یہاں پر طبری نے پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ان دو نر و مادہ کے درمیان انجام پائی فتگو کو سجعی سے نقل کرکے درج کیا ہے ، درحقیقت پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ان دو شخصیتوں کے درمیان گفتگو مسیلمہ کی توقع کے عین مطابق انجام پائی اور یہ گفتگو ایک ایسے حساس مرحلے میں داخل ہوئی کہ سر انجام یہ دونوں ہیجان اور جذبات کے عالم میں انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ عقد کر لیا ۔

طبری ان دونوں کی داستان کو اس طرح خاتمہ بخشتا ہے :

سجاح نے مذکورہ خیمہ میں مسیلمہ کے ساتھ تین دن رات گزارے ۔ اس کے بعد جب خیمہ سے نکل کر اپنے مریدوں کے درمیان پہنچی تو اس کے مریدوں نے اس سے سوال کیا :

اچھابتاؤ !مسیلمہ سے ملاقات کرکے تمھیں کیا ملا ؟

سجاح نے جواب میں کہا:

وہ حق پر تھا ! میں بھی اس پر ایمان لائی ۔ حتیٰ اسے اپنا شوہر بنایا ۔

اس سے پوچھا گیا:

اچھابتاؤ !کیا اس نے کسی چیز کو تیرے لئے مہر قرار دیا ؟

( یہ سوال سن کر جیسے سجاح خواب سے بیدار ہوگئی ہو اور تعجب سے کہتی ہے ) کہا :

نہیں !

انھوں نے اس سے کہا:

تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا ہے ، لوٹ کر اس کے پاس جاؤ !تم جیسی خاتون کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مہر لئے بغیر شوہر سے جدا ہو جائے !!

۲۲۴

سجاح دوبارہ خیمہ کی طرف گئی اور مسیلمہ جو ابھی خیمہ میں ہی تھا سے جاملی ۔ مسیلمہ اس خیال میں تھا کہ اس کا حریف چلا گیا ہے لیکن جب اس نے اسے واپس لوٹتے دیکھا تو فکر مند ہوا اور اس سے پوچھا :

تم تو چلی گئی تھی ! ماجرا کیا ہے ؟

سجاح نے کہا:

میرا مہر، میرے مہر کا کیا ہوگا ؟! تمھیں مہر کے عنوان سے مجھے کچھ دینا چاہئے مسیلمہ نے سجاح کی مانگ کو سن کر اطمینان کا سانس لیا اور سجاح کے مؤذن سے کہا :

اپنے دوستوں میں جاکر اعلان کرو کہ مسیلمہ بن حبیب نے شام اور صبح کی دو نمازیں ، جنھیں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں پر واجب قرار دیا تھا ، کو سجاح کے مہر کے طور پر تمھیں بخش دیا ہے اور اب انھیں انجام دینے کی تکلیف تم لوگوں سے اٹھا دی جاتی ہے !!

اب ہم دیکھتے ہیں کہ مناذر اور تیری کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں کے علاوہ دوسروں نے کیا کہا ہے ؟

ابن حزم اپنی کتاب '' جوامع السیر '' میں لکھتا ہے :

ابو موسیٰ اشعر ی نے عمر کی خلافت کے دوران صوبہ خوزستان کے بعض علاقوں پر زبردستی اور بعض دیگر علاقوں پر صلح ،معاہدوں اور محبت سے قبضہ جما یا تھا ۔(١٧)

ذہبی کتاب '' تاریخ الاسلام '' میں لکھتا ہے :

١٧ھ میں عمر نے ایک فرمان کے تحت بصرہ کی حکومت ابو موسیٰ اشعری کو سونپی اسے حکم دیا کہ اہواز پرلشکر کشی کرکے اس صوبہ پر قبضہ کرلے ۔ (١٨)

بلاذری نے اپنی کتاب '' فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :

ابو موسیٰ اشعری نے سوق اہواز اور نہر تیری پر قہر و غلبہ سے قبضہ کرلیا ( یہاں تک لکھتا ہے:) ربیع بن زیاد حارثی کو مناذر میں نمائندہ کی حیثیت سے مقرر کیا اور خود تستر ( شوشتر) کی طرف لشکر کشی کی اور اسے اسی سال موسم بہار میں فتح کیا (١٩)

مناذر اور تیری کے بارے میں فتح کی داستان یہی تھی جو ہم نے بیان کی لیکن دلوث نام کی کسی جگہ کا نام ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملاکہ اس کے بارے میں سیف کی باتوں کا موازنہ کریں کیوں کہ یہ جگہ سیف بن عمر کی خیالی پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

۲۲۵

گزشتہ بحث کا خلاصہ اور موازنہ کا نتیجہ

سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں میں چھ افراد کا اضافہ کیا ہے ۔ اسی کی برکت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی زندگی کے حالات لکھنے والے علماء نے بھی سیف کے ان چھ جعلی اصحاب اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دے کر سیف سے نقل کر کے ان کی زندگی کے حالات لکھے ہیں جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن علماء نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا ہے ان کی کتابوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے کارندوں اور گماشتوں کا کہیں نام تک نہیں ملتا ۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر نے اپنی احادیث ،ایسے راویوں سے نقل کی ہیں کہ حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے اور ہم انھیں سیف کے جعلی راوی محسوب کرتے ہیں ۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سیف تنہا فرد ہے جو قادسیہ کی جنگ سے پہلے ایک ہر اول دستے کے کمانڈر کی حیثیت سے حصین نامی ایک صحابی کا نام لیتا ہے ۔اور حموی جیسا دانشور اور جغرافیہ کی کتاب ''معجم البلدان '' کا مؤلف اس فرضی حصین کی فتح مناذر کے بعد سیف کے دو جعلی صحابیوں اور سورما حرملہ اور سلمی کے ذریعہ اسے فتح کرنے کے سلسلے میں لکھی گئی دلاوریوں کو اپنی کتاب میں درج کرتا ہے، جب کہ حقیقت میں مناذر کو ''ربیع حارثی قحطانی'' اور دیگر لوگوں نے فتح کیا ہے۔ چونکہ حموی نے ''دلوث'' کا نام بھی اسی حصین کے اشعار میں دیکھا ہے اس لئے اسے بھی ایک حقیقی جگہ کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے!

سیف نے اپنے قبیلہ مضرو تمیم کی حمایت و طرفداری میں تعصبات پر مبنی اپنے اندرونی جذبات اور احساسات کو جواب دینے اور اپنے دشمنوں ، جیسے قبیلہ ٔیمانی قحطانی کی طعنہ زنی کرنے کے لئے مناذر اور تیری کی حدیث کو گھڑ لیا ہے اور ابو موسیٰ اشعری یمانی قحطانی کو خلیفہ عمر کی طرف سے دئے گئے عہدے و منصب سے محروم کر کے اس عہدے پر ایک عدنانی و مضری جعلی فرد '' عتبہ بن غزوان'' کو فائز کیا ہے ۔

۲۲۶

سیف بن عمر اپنے قبیلہ تمیم کے خیالی اور جعلی پہلوانوں حرملہ اور سلمی کو یمانی قحطانی ''ربیع حارثی'' کی جگہ پر بٹھا تا ہے اور اپنے جعلی و خیالی صحابی و شاعر حصین بن نیار حنظلی سے ان کی مداح اور تعریفیں کراتا ہے تا کہ اپنے خاندان تمیم کے افتخارات کی شہرت کودنیا میں چار چاند لگائے !!

مگر، ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف کے ان تاریخی واقعات کے سال کو بدل کر ١٧ھ کو ١٨ ھ لکھنے کا کو نسی چیز سبب بنی ہے؟ جبکہ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ'' عتبہ بن غزوان'' جسے سیف بن عمر نے ابو موسیٰ اشعری کی جگہ پر بٹھادیا ہے ١٨ ھ سے پہلے فوت ہوچکا تھا اور زندہ نہیں تھا تو کہاں سے خلیفہ ٔعمر سے اپنے لئے حکومت اور سپہ سالاری کا فرمان حاصل کرتا!! مگر یہ کہ ہم یہ بات قبول کریں کہ ایک کہ زندیقی نے جس کا سیف پر الزام تھا اپنے خاص مقاصد کے پیش نظر تاریخ اسلام کی روئداد کی تاریخوں میں تصرّف کر کے ایک امت کی تاریخ کو مشکوک بنا کر اسے بے اعتبار اور نا قابل اعتماد بنانے کی کوشش کی ہے !!

ہم نے دیکھا کہ سیف ، پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دو افراد سجاح و مسیلمہ کے بارے میں کہتا ہے کہ جب سجاح تمیمی نے مسیلمہ سے جنگ نہ کرنے کے معاہدہ پر دستخط کئے تو پہلے مسیلمہ سے یہ طے پایا کہ یمامہ کی پیدا وار کا نصف ہر سال سجاح کو ادا کرے گا۔ دوسرے اگلے سال کے خراج کا نصف بھی اسی سال ادا کرے گا اور اس طرح مسیلمہ اس قسم کے سنگین شرائط کو قبول کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔سجاح نے قرار کے مطابق جو کچھ وصول کرنا تھا کرلیا اور باقی خراج کو وصول کرنے کے لئے نمائندہ مقرر کر کے مسیلمہ سے مرخص ہوتی ہے!!

سیف اس قسم کا افسانہ گھڑ کر صرف اس فکر میں ہے کہ قبیلۂ تمیم کو فخر و مباہات بخشے ، اس لئے لکھتا ہے کہ سجاح نے اس فوج کشی کے نتیجہ میں یمامہ کی پیدا وار کا نصف حصہ حاصل کیا ! جب کہ دوسروں نے لکھا ہے کہ پیغمبر ی کا دعویٰ کرنے والی اس خاتون کو،اس فوج کشی کے نتیجہ میں جو کچھ میسر ہوا، وہ مسیلمہ جیسا شوہر تھا نہ یمامہ کی پیدا وار ۔ اور جو کچھ اس کے مریدوں نے پایا وہ صبح اور مغرب کی نماز وں کا ساقط ہوناتھا ، اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

۲۲۷

ہاں ، قبیلہ تمیم کے بعض افراد کے مرتد ہونے کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے باوجود کہ بنیا دی طور پر کفر و ارتداد ایک شرم آور امر ہے ۔ لیکن سیف وہ شخص نہیں ہے جسے اسلام کی فکر ہو اور اپنے خاندان کے دامن سے ارتداد کے بد نما داغ کو پاک کرنے کی کوشش کرے، بلکہ وہ صرف اس فکر میں ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے قبیلۂ تمیم کے لئے افتخارات میں اضافہ کرے ۔ اسی لئے قبیلۂ تمیم کے مرتد اور مسلمان افراد کو آپس میں لڑاتا ہے اور کسی بھی اجنبی کو قبیلہ تمیم کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیتا، اسی لئے سیف کی حدیث میں ملتا ہے کہ صرف تمیمی مسلمان ہی اس قبیلہ کے مرتدوں کی تنبیہ کرتے ہیں ،کسی او رکو اس امر کی اجازت نہیں دی جاتی ہے !!

لیکن، مالک نویرہ کی داستان، اگر چہ مالک ایک تمیمی فرد ہے اور قاعدے کے مطابق قبیلہ کے تعصبات کے پیش نظر سیف کی ہمدردیاں اس سے مربوط ہونی چاہئے ، لیکن خالد بن ولید جیسے خاندان مضر کے سپہ سالار، شمشیر باز اور تجربہ کار جنگجو کے مقابلے میں مالک کی حیثیت انتہائی پست و حقیر ہے۔ یہاں پر سیف ضعیف کو طاقتور پر قربان کرنے کے قاعدے کے تحت مالک کو مرتد اور سجاح کے شریک کار اور ساتھی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اور ایک افسانہ کے ذریعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خالد بن ولید کے ایک حکم کے سلسلے میں سرزمین بطاح میں کنانہ کے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کی وجہ سے مالک نویرہ کو قتل کیا جاتا ہے۔ اس طرح سیف یہ کوشش کرتا ہے کہ خالد مضری کے دامن کو مالک کے ناحق خون سے پاک و مبرّا ثابت کرے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے اور دوسرے مورخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے:

مالک نویرہ اپنے اسلام اور ایمان کے سلسلے میں دفاع کرنے کے لئے خالد سے گفتگو کرتا ہے، لیکن جب اپنے قتل کئے جانے پر خالد کی ہٹ دھرمی کا احساس کرتا ہے تو اپنی عقل و فراست سے سمجھ لیتا ہے کہ یہ اس کی بیوی کی خوبصورتی اور دلفریب حسن و جمال ہے جس کی وجہ سے خالد اسے قتل کرنے پر تُلا ہوا ہے تا کہ اپنی دیرینہ آرزو اور تمنا کو پہنچ سکے۔

۲۲۸

اسی طرح کہا گیا ہے کہ مالک کے مسلمان ہونے اور نماز گزار ہونے کے سلسلے میں ابو قتادہ اور عبد اللہ بن عمر کی گواہی بھی نہ فقط کارگر اور مؤثر ثابت نہیں ہوئی بلکہ خالد کو ان کی باتیں ہرگز پسند نہ آئیں اور یہی امر خالد کے لئے مالک کے قتل میں تعجیل کرنے کا سبب بنا۔بالآخر خالد کے اشارہ پر ضرارنے مالک کے سر تن سے جدا کیا ۔اس کے بعد خالد نے اس کے دیگر ساتھیوں کو قتل کرانے کے بعد حکم دیا کہ ان کے سروں کودیگ میں رکھ کر اس کے نیچے (چولہے کی مانند) آگ لگا دیں ۔

لکھا گیا ہے کہ عمر نے جب مالک کے قتل کئے جانے کی خبر سنی تو غضبناک ہوئے اور اس سلسلے میں ابوبکر سے گفتگو کی ۔جب عمر خالد کو جنگی اسلحہ کا کثرت سے استفادہ کرنے کی وجہ سے اس کے لباس پر زنگ کے دھبے لگے خاص حالت میں دیکھتے ہے تو غصہ میں آکر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے عمامہ کو پھاڑکر بلند آواز میں کہتے ہیں :مکاری اور ریا کاری سے ایک مسلمان کو قتل کرڈالتے ہو پھر ایک حیوان کی طرح اس کی بیوی سے اپنا منہ کالا کرتے ہو!! خدا کی قسم میں تجھے سنگسارکروں گا!!

اس کے باوجود سیف بن عمر کو خاندانی اور زندیقی تعصب ،اسلام دشمنی پر مجبور کرتاہے۔اسی لئے وہ مالک کے بارے میں پھوہڑپن سے جھوٹ کے پلندے گھڑ لیتاہے تا کہ ''قائد اعظم'' اور '' اسلام کے سپہ سالار'' ،خالد بن ولید مضری کے دامن کو مالک کے نا حق خون سے پاک کرسکے!!

اگر ہم اس کے باوجود بھی فرضاً یہ مان لیں کہ خالد کا یہ قصد و ارادہ نہ تھا کہ مالک کو قتل کرے بلکہ اتفاق سے یہ حادثہ پیش آیاہے اور کنانہ کے لوگوں نے (جو اصلاً خالد کی سپاہ میں موجود نہ تھے ) غلط فہمی سے اسیروں کو گرم کپڑے دینے کے بجائے تلوار سے ان کے سر تن سے جدا کرکے انھیں راحت کردیاہے اور اس میں خالد کا کوئی قصور نہ تھا پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے مقتولین کے سروں کو دیگ میں رکھ کر اس کے نیچے (چولہے کے مانند) کر آگ لگانے کا حکم کیوں دیا اور اس طرح ان کی بے احترامی کی؟!!

۲۲۹

سجاح کے افسانہ کا نتیجہ

سیف بن عمر،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں ،قبیلہ ٔ تمیم کے افراد کے ارتداد ،خاندان تمیم سے پیغمبری کا دعوی کرنے والی ''سجاح'' اور مالک نویرہ و کے بارے میں داستانیں خلق کرکے اپنے خاندان یعنی قبیلہ تمیم کے لئے حسب ذیل فخرومباہات حاصل کرتاہے:

١۔ خاندان تمیم کی خاتون ''سجاح'' پیغمبری کا دعوی کرتی ہے۔قبیلہ بنی حنیفہ کے اپنے دوسرے شریک اور پیغمبری کے مدعی یعنی مسیلمہ سے یمامہ کی پیداوار کا نصف حصہ بعنوان خراج حاصل کرتی ہے تا کہ اسے آزاد چھوڑدے ۔یہ قبیلہ تمیم کے لئے بذات خود ایک عظیم افتخار ہے کہ اس قبیلہ کے پیغمبری کا دعوی کرنے والے مکار اور دھوکہ باز دوسرے جھوٹے پیغمبروں سے برتری رکھتے ہیں اور ان سے باج حاصل کرتے ہیں !!

قبیلہ تمیم کے افراد کے مرتد ہونے کے موضوع کے بارے میں افسانہ میں ایسا دکھاتا ہے کہ اس قبیلہ کے مسلمانوں نے اس قبیلہ کے مرتد ہوئے افراد کی گوشمالی کرنے کے لئے اٹھ کر ان کی سخت تنبیہ کی ہے اور اس طرح تمیمیوں کے اندرونی مسائل میں کسی اجنبی کو دخل دینے کی اجازت نہیں دی ہے اور یہ خود قبیلہ تمیم کے لئے ایک افتخار ہے کہ اپنے قبیلہ کے ارتداد کے مسئلہ کو خود حل کریں اور کسی اجنبی کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہ دیں ۔

٢۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جزیرہ میں ارتداد کی خبر کو جعل کرکے اس کی اشاعت کرتاہے تا کہ اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک سند مہیا ہوجائے جس کے بناء پر وہ آسانی کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ اسلام تلوار سے پھیلاہے اور خوف و وحشت کے سائے میں پائیدار ہوا ہے نہ کسی اور کی وجہ سے!؟

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے قبیلہ تمیم سے کارندے اور گماشتے خلق کرتاہے تا کہ وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار پائیں اور ان کے نام طبقات اور رجال کے موضوع پر لکھی گئی دانشوروں کی کتابوں میں درج ہوجائیں !!

۲۳۰

٤۔ علاقہ اہواز میں ایک جگہ کو خلق کرتاہے تا کہ وہ جغرافیہ کی کتابوں میں درج کی جائے۔

٥۔ چند اشعار لکھ کر انھیں اپنے جعلی اور خیالی دلاوروں کی زبان پر جاری کرتاہے تا کہ عربی ادبیات کے خزانوں کی زینت بن جائیں ۔

٦۔ تاریخ اسلام کے اہم واقعات کے سالوں میں تغیر ایجاد کرتاہے ۔ ہماری نظر میں اس سلسلے میں خاص طور پر اس کا اصل محرک سیف کا زندیقی ہونا ہے کہ جس کا اس پر الزام ہے!

سیف نے جو حدیث'' صعب بن عطیہ'' سے روایت کی ہے اس پر علماء نے بہر صورت اعتماد کیاہے اور اس کے چھ جعلی اصحاب کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دیاہے۔ پھر انھیں اپنی کتابوں میں درج کرکے سیف کی حدیث سے ان کی زندگی کے حالات پر

۲۳۱

روشنی ڈالی ہے۔

اس کے علاوہ ان علماء نے ''صفوان بن صفوان '' کو سیف کی احادیث سے صحابی جان کر علیحدہ طور پر اس کی سوانح عمری لکھی ہے ۔چونکہ ہم نے ''صفوان'' کے بارے میں سیف کے خیالات کی مخلوق ہونے پر یقین نہیں کیا ہے اس لئے اس پر بحث نہیں کی۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما

ان تمام افسانوں کو سیف نے انفرادی طور پر خلق کیاہے اور حسب ذیل دانشوروں نے ان افسانوں کی اشاعت کی ہے :

١۔طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں سند کے ساتھ ۔

٢۔ یاقوت حموی نے ''معجم البلدان'' میں سند کے ساتھ ۔

٣۔ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٤۔ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٥۔ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٦۔ ابن فتحون نے اپنی کتاب ''التذییل '' میں اپنے پیش رؤں سے۔

٧۔ کتاب '' اسد الغابہ '' کے مؤلف نے طبری سے نقل کرکے۔

٨۔ کتاب '' تجرید '' کے مؤلف نے طبری سے نقل کرکے۔

٩۔ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں سیف بن عمر اور طبری سے نقل کرکے ۔

١٠۔''مراصد الاطلاع'' کے مولف نے یاقوت حموی سے نقل کرکے۔

۲۳۲

انیسواں جعلی صحابی زر بن عبد اللہ الفقیمی

دو مہاجر صحابی

زر بن عبد اللہ الفقیمی کا کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس طرح تعارفی کیا گیا ہے:

طبری نے لکھا ہے کہ''زر'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور مہاجرین میں سے تھا۔زر خوزستان کی فتح میں مسلمان فوجیوں کے کمانڈروں میں سے ایک کمانڈر تھا ۔وہ اس لشکر کا کمانڈر تھا جس نے جندی شاپور کو اپنے محاصرہ میں قرار دیا اور سر انجام جندی شاپور صلح ومذا کرہ کے نتیجہ میں فتح ہوا ۔

اسی مطلب کو ذہبی نے خلاصہ کے طور پر ''اسدالغابہ ''سے نقل کرکے اپنی کتاب ''تجرید '' میں درج کیا ہے ۔

زبیدی نے بھی لفظ ''زر''کے بارے میں اپنی کتاب ''تاج العروس ''میں لکھا ہے :

طبری نے کہا ہے کہ ''زربن عبداللہ الفقیمی ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور فوج کا کمانڈر تھا۔

چونکہ ان تمام کے تمام دانشوروں نے ''زربن عبداللہ''کو طبری سے نقل کرکے اس کی تشریح کی ہے ، اس لئے ہم بھی زر کی روایت کے بارے میں طبری کی طرف رجوع کرتے ہیں تا کہ یہ دیکھ لیں کہ طبری نے اس خبر کو کہاں سے حاصل کیا ہے ۔

زرّ کا نام و نسب

طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے :

زرّ بن عبد اللہ ، کلیب فقیمی کا نواسہ اور خاندان تمیم و عدنان سے تعلق رکھتا ہے ۔

طبری نے رامہر مزکی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے لکھا ہے :''اسود ''و'' زر'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اصحاب اور مہاجر ین میں سے ہیں جنھوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ،

زر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پہنچا اور آپ کی خدمت میں عرض کی : خاندان '' فقیم '' کے افراد دن بدن گھٹ رہے ہیں اور اس طرح یہ خاندان نابود ہو رہا ہے جب کہ تمیم کے دوسرے قبیلوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ۔ کیا کیا جائے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ہاں ہمارے لئے دعا فرمائیں ؟!

۲۳۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور فرمایا: خدا وند ا !خاندان '' زر'' کو کثرت دے اوران کی تعداد میں ا !!

یہی سبب بنا کہ خاندان زر کی نسل بڑھی اور ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ۔ دوسروں نے بھی سیف کی اسی روایت کو طبری سے استناد کرکے لکھا ہے :

زران افراد میں سے ہے جنھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور میں شرف یاب ہوکر آپ سے گفتگو کرنے کا فخر حاصل کیاہے ۔ اس کے علاوہ وہ مہاجر ین میں سے تھا ۔

طبری فتح '' ابلہ '' کے سلسلے میں ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھتا ہے :

خالد بن ولید نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کئے گئے ہاتھی اور دیگر غنائم کے پانچویں حصے کو زر کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ بھیجا ۔ہاتھی کی مدینہ کی گلی کوچوں میں نمائش کی گئی تاکہ لوگ اس کا مشاہدہ کریں ۔عورتیں عظیم الجثہ ہاتھی کو دیکھ کر تعجب میں پڑگئیں اور حیرت کے عالم میں ایک دوسرے سے کہتی تھیں :کیا یہ عظیم الجثہ حیوان خدا کی مخلوق ہے ؟!کیوں کہ وہ ہاتھی کو انسان کی مخلوق تصور کرتی تھیں ۔ابوبکر نے حکم دیا کہ ہاتھی کو ''زر ''کے ساتھ واپس بھیج دیا جائے ۔

طبری اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :

''ابلہ ''کی فتح کے بارے میں سیف کی یہ داستان تاریخ نویسوں اور واقعہ نگاروں کے بیان کے بر خلاف ہے ۔ کیوں کہ صحیح اخبار و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں فتح ہوا ہے نہ خلافت ابوبکر کے زمانہ میں اور یہ فتح و کامرانی عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں ١٤ھ میں حاصل ہو ئی ہے نہ ١٢ھ میں ۔ جب ہم اس زمانہ کی بحث پر پہنچے گیں تو اس جگہ کی فتح کی کیفیت پر بحث کریں گے ۔ ( طبری کی بات کا خاتمہ)

۲۳۴

ایک مختصر موازنہ

١۔ طبری وضاحت کرتا ہے کہ شہر '' ابلہ '' ١٤ھ میں خلافت عمر کے زمانہ میں فتح ہوا ہے نہ کہ ١٢ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانہ میں !

٢۔ اس جنگ کی کمانڈ''عتبہ بن غزوان ''کے ہاتھ میں تھی نہ کہ ''خالد بن ولید ''کے ہاتھ میں ۔ اس فتح وپیروزی کی نوید ''نافع ''نے خلیفہ کو پہنچائی تھی نہ کہ''زر بن عبداللہ فقیمی ''نے!

اس کے علاوہ جوکچھ طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ١٤ھکے حوادث کے ضمن میں بیان کیا ہے ۔جیسے ''زر''کاموضوع اور جنگی غنائم کاپانچواں حصہ اور مذکورہ ہاتھی وغیرہ ۔سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں کسی صورت میں نہیں ملتا ۔خاص کر مدینہ کی عورتوں نے اس زمانے میں قرآن مجید کے سورۂ فیل کوکئی بار پڑھاتھا اور ہاتھی و ابرہہ کی لشکرکشی کی داستان اس زمانے میں زبان زد خاص وعام تھی ،کیونکہ یہ حادثہ تاریخ کی ابتدا ء قرار پایا تھا۔ لہٰذا عظیم الجثہ ہاتھی کاوجود ان کے لئے تعجب کا سبب نہیں بن سکتا ۔

سیف نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا اور اس کادعویٰ کیا ہے وہ سب تاریخی حقائق کے بر خلاف ہے ۔ہم نے گزشتہ بحث میں خاص کر''زیاد''کے افسانہ میں اس امر کی طرف اشارہ کیاہے۔

جندی شاپور کی صلح کاافسانہ

طبری نے سیف سے نقل کرکے ١٧ھکے حوادث کے ضمن میں ''شوش''کی فتح کے بارے میں لکھاہے :

''زر''نے اس سال نہاوند کامحاصرہ کیا اور

اس کے بعد ایک دوسری حدیث میں سیف سے نقل کرکے لکھتاہے :

عمر نے ایک تحریری فرمان کے ذریعہ ''زر''کو حکم دیا کہ ''جندی شاپور ''کی طرف لشکرکشی کرے۔''زر''نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جندی شاپور پرچڑھائی کی اور اسے اپنے محاصرہ

۲۳۵

میں لے لیا.....

ایک دوسری حدیث میں ذکر کیا ہے :

صحابی ''ابوسبرہ'' ( ۱) نے حکم دیا کہ '' زر و مقترب ''جندی شاپور پرلشکر کشی کریں اور خود بھی شوش کو فتح کرنے کے بعد اپنا لشکر لے کران کی طرف بڑھااور اس وقت وہاں پہنچا جب زر نے جندی شاپور کو اپنے محاصرہ میں لے لیا تھا ۔

اسی حالت میں کہ جندی شاپور اسلام کے سپاہیوں کے محاصرہ میں تھا اور مسلمان وہاں کے لوگوں سے جنگ میں مصروف تھے ، انھوں نے ایک دن دیکھا کہ اچانک قلعہ کے دروازے کھل گئے

____________________

v ۱)۔ ابو سبرہ بن ابی رہم عامری قرشی نے اسلام کی تمام ابتدائی جنگوں میں شرکت کی ہے '' ابو سبرہ'' نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مکہ میں رہائش اختیار کی اور عثمان کی خلافت کے دوران وہیں پر وفات پائی ۔ '' استیعاب ٨٢٤، اسد الغابہ ٢٠٧٥ اور اصابہ ٨٤٤۔

۲۳۶

اور لوگ خوشی خوشی اور کھلے دل سے عرب جنگجوئوں کا استقبال کرنے لگے اور بازار کے دروازے بھی ان کے لئے کھول دیئے ۔

مسلمانوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا ، تو ایرانیوں نے جواب دیا :

تم لوگوں نے قلعہ کے اندر ایک ایسا تیرے پھینکا جس کے ساتھ امان نامہ تھا ہم نے آپ کے امان نامہ کو قبول کیا ۔

مسلمانوں نے کہا:

ہم نے ایسا کوئی امان نامہ تمھارے پاس نہیں بھیجا ہے !

اس کے بعد تحقیق کرنے لگے تومعلوم ہوا کہ مکنف نامی ایک غلام نے یہ کام کیا تھا ، وہ خود بھی جندی شاپو ر کا باشندہ تھا۔ اس کے بعد ایرانیوں سے کہا: یہ مرد ایک غلام تھا ، اس کے امان نامہ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ ایرانیوں نے جواب میں کہا :

ہم تمھارے غلام اور آزاد کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں امان دی ہم نے اسے قبول کیا اور ہم اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے اب یہ آپ کا کام ہے ، اگر چاہیں ہو تو خیانت کر سکتے ہیں ؟!

ایرانیوں کے اس قطعی جواب کی وجہ سے مسلمان مجبور ہوئے اوروظیفہ واضح ہونے کے لئے اس سلسلے میں خلیفہ عمر کو خبر دی تاکہ وہ اس سلسلہ میں حکم فرمائیں ، اس دوران ایرنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ عمر نے مکنف کے امان نامہ کو قبول کیا اور اس طرح جندی شاپور کے لوگ مکنف کی پناہ میں آگیا اور مسلمانوں نے ان پر حملہ نہیں کیا !

جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، اس داستان کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے جندی شاپور کی صلح کے بارے میں اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے ۔ اور ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی اسے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں روایت کے منبع کا ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب عبد اللہ ابن سبا کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ان دانشوروں نے وہ روایات اور واقعات جو بہر صورت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب سے مربوط ہیں ، بلا واسطہ اور براہ راست طبری سے نقل کئے ہیں اور انھوں نے اس مطلب کی اپنی کتابوں کی ابتدا ء میں وضاحت کی ہے ۔

۲۳۷

حموی اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں جندی شاپور کے سلسلے میں لکھی گئی ایک تشریح کے ضمن میں اسی روایت کو لکھ کر اس کے آخر میں یوں رقم طراز ہے :

عاصم بن عمرو نے ( وہی سورما جس کے حالات اسی کتاب کی پہلی جلد میں لکھے گئے ) مکنف کے اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم !مکنف کی رشتہ داری صحیح تھی اس نے ہرگز اپنے شہریوں کے ساتھ قطع رحم نہیں کیا !!

اشعار کو اپنی جگہ پر ہم نے آخر تک درج کیا ہے ۔ حموی اپنی بات کی انتہا پر کہتا ہے کہ اس مطلب کو سیف بن عمر نے کہا ہے ۔

اسی داستان کو حمیری نے بھی اپنی کتاب '' الروض لمعطار '' میں درج کیا ہے۔

جندی شاپور کی داستان کے حقائق

جندی شاپور کی صلح کے بارے میں جو داستان سیف بن عمر نے گڑھی ہے اور دوسرے مؤلفین نے بھی اسے نقل کیا ہے ، اس پر بحث ہوئی ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں دوسروں نے کیا کہا ہے:

بلاذری کہتا ہے :

شوشتر کو فتح کرنے کے بعد ابو موسیٰ اشعری نے جندی شاپور کی طرف فوج کشی کی ۔چونکہ جندی شاپور کے باشندے مسلمانوں کے حملے کے بارے میں سخت پریشان اور مضطرب تھے ۔اس لئے انہوں نے قبل ازوقت امان کی در خواست کی اور اپنی اطاعت کا اعلان کیا۔ ابوموسیٰ اشعری نے بھی جندی شاپور کے باشندوں سے معاہدہ کیا کہ جنگ کے بغیرہتھیار ڈالنے کی صورت میں ان کی جان، مال اور آزادی اسلام کی پناہ میں محفوظ ہوں گے ۔

یہ وہ روایت ہے جسے بلاذری نے جندی شاپور کی فتح کے بارے میں اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔خلیفہ بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)اور ذہبی (وفات ٧٤٨ھ )نے بھی خلاصہ کے طور پر اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے بھی دونوں روایتوں کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیا ہے۔

۲۳۸

ان دو کی روایتوں کا مختصر موازنہ

مورخین نے لکھا ہے کہ جندی شاپور کی صلح کا سبب مسلمانوں کے حملہ سے ایرانیوں کا خوف وحشت تھا ، ئہ یہ مطلب جو سیف کہتا ہے کہ : یہ امان ایک ایر انی الاصل غلام مکنف کی وجہ سے ملا ہے ، اور ا س ا ما ن نامہ کو قبول یا ر د کرنے کے سلسلے میں ا ختلا ف پید ا ہونے پر خلیفہ عمر نے اس کی تائید کی ہے

اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ جندی شاپور کی جنگ میں سپہ سالار اعظم '' ابو موسیٰ اشعری'' یمانی قحطانی تھا نہ جیسا کہ سبرہ قرشی عدنانی ،جسے سیف بن عمر تمیی نے معین کرکے زر اور اسود نامی دو جعلی اصحاب بھی اس کی مدد کے لئے خلق کئے ہیں :

سیف کہتا ہے :

زر بن کلیب اور مقترب کو خلیفہ عمر نے اپنے ایلچی کے طور پر بصرہ کے گورنر نعمان کے پاس بھیجا اور ان کے ذریعہ نعمان کو یہ پیغام دیا :

میں نے تجھے ایرانیوں سے جنگ کرنے کے لئے انتخاب و مامور کیا ہے اس سلسلے میں اقدام کرنا ۔

لیکن بلاذری اس سلسلے میں لکھتا ہے:

۲۳۹

خلیفہ عمر نے سائب بن اقرع ثقفی(۱) کے ہاتھ نعمان کے نام ایک خط بھیجا اور اسے ایرانیوں سے جنگ کرنے کی ماموریت دی ۔ اس کے علاوہ حکم دیا کہ جنگی غنائم کی ذمہ داری سائب بن اقرع کو سونپی جائے ۔

زر ،فوجی کمانڈر کی حیثیت سے

سیف نے نہاوند کی جنگ کی روایت کے ضمن میں لکھا ہے:

خلیفہ عمر نے اہواز و فارس میں معین کمانڈرروں سلمی ، حرملہ ، زر بن کلیب اور متقرب وغیرہ کو لکھا کہ ایرانیوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کو روک لیں اور انھیں مسلمانوں اور امت اسلامیہ کی سر زمین پر نفوذ کرنے کی اجازت نہ دیں ، اور میرے دوسرے فرمان کے پہنچنے تک ایرانیوں کو نہاوند کی جنگ میں مدد پہنچانے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے فارس اور اہواز کی سر حدوں پر چوکس رہیں ۔

خلیفہ کے فرمان کو اس وقت عملی جامہ پہنایا گیا جب مذکورہ چار صحابی اور پہلوان اصفہان اور فارس کی سرحدوں کے نزدیک پہنچ چکے تھے اور اس کے نتیجہ میں وہ نہاوند میں لڑنے والے ایرانی فوجیوں کو رسد اور امداد پہنچانے میں رکاوٹ بنے !!

____________________

الف )۔ سائب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں ایک چھوٹا بچہ تھا ، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر پھیرکر اس کے حق میں دعا کی تھی ۔ سائب نے عمر کا خط نعمان مقرن کو پہنچادیا اور خود نہاوند کی جنگ میں شرکت کی سائب عمر کی طرف سے اصفہان اور مدائن کا گونر بھی رہا ہے ۔ '' اسد الغابہ ٢٤٩٢''

۲۴۰