ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138213 / ڈاؤنلوڈ: 4308
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیۂ تبدیل کی شان نزول

جب خدا وند سبحان نے شریعت موسیٰ کے بعض احکام کو دوسرے احکام سے حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں تبدیل کردیا( جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے) توقریش نے رسول پر شورش کی اور بولے : تم خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہو!تو خدا وند عالم نے ا ُن کی بات انھیں کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا:

( واِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّل قالوا اِنّما أنت مفتر...) (اِنما یفتری الکذب الذین لایؤمنون بآیات ﷲ ...)( فکلوا ممّا رزقکم ﷲ حلا لاً طیباً ) ( ۱ )

اور جب ہم کسی حکم کو کسی حکم سے تبدیل کرتے ہیں (اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے )تو وہ کہتے ہیں : تم صرف ایک جھوٹی نسبت دینے والے ہو ...،صرف وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا جو کچھ خدا نے تمہارے لئے رزق معین فرمایا ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔

یعنی کچھ چیزیں جیسے اونٹ کا گوشت ،حیوانات کے گوشت کی چربی تم پر حرام نہیں ہے ، صرف مردار ، خون ، سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانورجن کے ذبح کے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، حرام ہیں، نیز وہ قربانیاں جو مشرکین مکّہ بتوں کو ہدیہ کرتے تھے اسکے بعد خدا وند عالم نے قریش کو خدا پر افترا پردازی سے روکا اور فرمایا : من مانی اور ہٹ دھرمی سے نہ کہو : یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے !چنانچہ ان کی گفتگو کی تفصیل سورۂ انعام میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( وقالوا هذه أنعام و حرث حجر لا یطعمها اِلاّ من نشاء بزعنمهم و أنعام حرّمت ظهور ها و أنعام لا یذکرون اْسم ﷲ علیها أفترائًً علیه و سیجزیهم بما کانوا یفترون)( و قالوا ما فی بطون هذه الأنعام خالصة لذکورنا و محرّم علیٰ أزواجنا و ِان یکن میتةً فهم فیه شرکاء سیجز یهم و صفهم أنّه حکیم علیم ) ( ۲ )

انھوں نے کہا : یہ چوپائے اور یہ زراعت ممنوع ہے، بجزان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں(ان کے اپنے گمان میں )کوئی دوسرا اس سے نہ کھا ئے اور کچھ ایسے چوپائے ہیں جن پر سواری ممنوع اور حرام ہے ! اور وہ

____________________

(۱)نحل ۱۰۱ ، ۱۰۵، ۱۱۴

(۲)انعام ۱۳۸، ۱۳۹

۶۱

چوپائے جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا کی طرف ان سب کی جھوٹی نسبت دیتے تھے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا اور وہ کہتے تھے : جو کچھ اس حیوان کے شکم میں ہے وہ ہم مردوں سے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ! اور اگر مر جائے تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا وند عالم جلد ہی ان کی اس توصیف کی سزا دے گا وہ حکیم اور دانا ہے۔

سورۂ یونس میں بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل أراْیتم ماأنزل ﷲ لکم من رزق فجعلتم منه حراماًوحلالاً قل آأﷲ أذن لکم أم علیٰ ﷲ تفترون ) ( ۱ )

کہو: جو رزق خدا وند عالم نے تمہارے لئے نازل کیا ہے تم نے اس میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر دیا، کیا خدا نے تمھیں اس کی اجازت دی ہے ؟ یا خدا پر افترا پردازی کر رہے ہو؟

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشر کین قریش کے درمیان حلال و حرام کا مسٔلہ قریش کے خود ساختہ موضوعات سے لے کر شریعت موسیٰ کے احکام تک کہ جنہیں جسے خدا نے مصلحت کی بناء پر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں دوسرے احکام سے تبدیل کر دیا ،سب کے سب موضوع بحث تھے۔

مکہ میں قریش ہر وہ حلال و حرام جسے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے فرمان کے مطابق پیش کرتے تھے اور وہ ان کے دینی ماحول کے اور جو کچھ موسیٰ ابن عمران کی شریعت کے بارے میں جانتے تھے اس کے مخالف ہوتا تو عداوت و دشمی کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے اسی دشمنی کا مدنیہ میں بھی یہود کی طرف سے سامناہوا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان احکام کے بارے میں جو توریت کے بعض حصے کو نسخ کرتے تھے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں اس جدال کو بیان کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

( أفکلما جاء کم رسول بما لا تهوی انٔفسکم اْستکبرتم ففر یقاً کذبتم و فریقاً تقتلون ) ( ۲ )

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی رسول نے تمہاری نفسانی خواہشات کے برعکس کوئی کسی چیز پیش کی ، تو تم نے تکبر سے کام لیا،لہٰذا کچھ کو جھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟

____________________

(۱)یونس ۵۹

(۲)بقرہ ۸۷

۶۲

( و اِذا قیل لهم آمنوا بما أنزل ﷲ قالوا نؤمن بما أنزل علینا ویکفرون بما ورائه ) ...)( ۱ )

اور جب ان سے کہا گیا :جو کچھ خدا نے نازل کیا ہی اسپر ایمان لاؤ!تو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو خود ہم پر نازل ہو اہے اوراس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔

اور پیغمبر سے فرماتا ہے:

( ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخیر منها أَومثلها ) )

ہم اُس وقت تک کوئی حکم نسخ نہیں کرتے یااسے تاخیر میں نہیں ڈالتے ہیں جب تک کہ ا س سے بہتر یااس جیسا نہ لے آئیں۔( ۲ )

( ولن ترضیٰ عنک الیهودولا النّصاریٰ حتیٰ تتّبع ملّتهم ) )( ۳ )

یہود ونصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کے ان کے دین کا اتباع نہ کرلو۔

توریت کے نسخ شدہ احکام بالخصوص تبدیلی قبلہ سے متعلق بنی اسرائیل کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع و جدال کرنے کی خبر دیتے ہوئے خدا وند عالم سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے :

''ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہ کو دیکھ رہے ہیں ؛ اب اس قبلہ کی سمت جس سے تم راضی اور خشنود ہو جاؤ گے تمہیں موڑ دیں گے ،جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لو،اہل کتاب(یہود و نصاریٰ ) خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اوران کے رب کی طرف سے ہے اور تم جیسی بھی آیت اور نشانی اہل کتاب کے سامنے پیش کرو وہ لوگ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔( ۴ )

پس اس مقام پر نسخ آیت سے مراد اس حکم خاص کا نسخ تھا ، جس طرح ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلنے سے مراد کہ جس کے بارے میں قریش رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع کر رہے تھے، مکّہ میں قریش اور غیر قریش کے درمیان بعض حلال و حرام احکام کو تبدیل کرنا ہے ۔بنابراین واضح ہوا کہ خدا کے کلام : ''( واِذا بدّلنا آية مکان آية ) '' میں لفظ آیت سے مراد حکم ہے ، یعنی :''( اِذا بدلنا حکماً مکان حکم' ) ' جب بھی کسی حکم کو حکم کی جگہ قرار دیں

اور خدا وندعالم کے اس کلام '' ما ننسخ من آےة أو ننسھا'' سے بھی مراد یہ ہے : جب کبھی کو ئی حکم ہم نسخ کرتے یا اسے تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااس جیسا اس کی جگہ لاتے ہیں۔

____________________

(۱)بقرہ ۹۱(۲)بقرہ ۱۰۶(۳)بقرہ ۱۲۰(۴) بقرہ۱۴۴ ۱۴۵

۶۳

حکم کو تاخیر میں ڈالنے کی مثال : موسی کی شریعت میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کوتاخیر میں ڈالنا اوراس کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم سے تبدیل کرنا ہے کہ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے مفیداور سود مند تھا۔

نسخ حکم اور اسے اسی سے بہتر حکم سے تبدیل کرنے کی مثال خاتم الانبیاء کی شریعت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کا منسوخ کرنا ہے کہ تمام لوگ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کریں۔پس ایک آیت کے دوسری آیت سے تبدیل کرنے کا مطلب ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنا ہے ، اس طرح واضح ہو گیا کہ خدا وند عالم جو احکام لوگوں کے لئے مقرر کرتا ہے کبھی انسان کی مصلحت اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہے اسمیں لحاظ کی جاتی ہے ایسے احکام نا قابل تغییرو تبدیل ہوتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم نے سورۂ روم میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( فأ قم وجهک للدین حنیفاً فطرت ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لٰکنّ أکثر الناس لا یعلمون ) ( ۱ )

اپنے رخ کو پروردگار کے خالص اور پاکیزہ دین کی طرف کر لو، ایسی فطرت کہ جس پر خدا وندعالم نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے آفرینش خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی محکم و استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یعنی اُن قوانین میں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی فطرت کے مطابق بنائے ہیں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،سورۂ بقرہ میں اسی کے مانندخدا کا کلام ہے:

( والوالدات یرضعن أولا دهنّ حولین کاملین لمن أراد أن یتم الرضاعة ) ( ۲ )

اور جو مائیں زمانہ رضاعت کو کامل کرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں۔

یہ مائیں کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی زندگی گزارتی ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ، خواہ حضرت آدم کی بیوی حواہوں جو اپنے نومولودکو درخت کے سائے میں یا غار میں دودھ پلائیں، یاان کے بعد کی نسل ہو ، جو غاروں، خیموںاور محلوں میں دودھ پلاتی ہے دو سال مکمل دودھ پلانا ہے۔

اسی طرح بنی آدم کے لئے کسی تبدیلی کے بغیر روزہ ، قصاص اور ربا (سود) کی حرمت کا حکم ہے، جیسا

____________________

(۱)روم ۳۰

(۲)بقرہ ۲۳۳۔

۶۴

کہ خدا وند سبحان سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۔( یا أيّها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پراسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض تھا شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔( یا أيّها الذین آمنواکتب علیکم القِصاص ) )( ۲ )

اے صاحبان ایمان ! تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔

۳۔( و أحلّ ﷲ البیع وحرّم الرّبا ) )( ۳ )

خدا وندعالم نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیاہے۔

یہ اور دیگر وہ احکام جسے خدا وندعالم نے انسان کی انسانی فطرت کے مطابق اسکے لئے مقرر فرمایا ہے کسی بھی آسمانی شریعت میں تغییر نہیں کرتے، یہ احکام قرآن میں لفظ''وصّٰی ، یوصیکم، وصےةاور کتب'' جیسے الفاظ سے تعبیر ہوئے ہیں۔

لیکن جن احکام کو خداوندعالم نے خاص حالات کے تحت بعض لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے ، ان کی مدت بھی ان حالات کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجاتی ہے جیسے وہ احکام جنھیں بنی اسرائیل سے متعلق ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا جواُن کے خاص حالات سے مطابقت رکھتے تھے، یا وہ احکام جو خدا وندعالم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مکّہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائے اور عقد مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث ہونا انصار مدنیہ کے ساتھ ہجرت کے آغاز میں قانونی حیثیت سے متعارف اور شناختہ شدہ تھا پھر فتح مکّہ کے بعداس کی مدت تمام ہوگئی اور یہ حکم منسوخ ہو گیا، خدا وند عالم سورۂ انفال کی ۷۲ ویں ۷۵ ویں آیت تک اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّ الذین آمنو أوهاجروا )

وہ لوگ جو ایمان لائے اور مکّہ سے ہجرت کی۔

( واّلذین آووا ونصروا )

____________________

(۱)بقرہ ۱۸۳

(۲) بقرہ ۱۷۸

(۳) بقرہ ۲۷۵.

۶۵

اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت فرمائی یعنی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انصار ۔

( أولآء ک بعضهم أولیاء بعض )

ان لوگوں میں بعض ، بعض کے وارث اور ولی ہیں،یعنی میراث لینے اور نصرت کرنے کی ولایت رکھتے ہیں.

( والذین آمنوا ولم یهاجروا مالکم من ولایتهم من شیئٍ حتّیٰ یهاجروا والذین کفروا بعضهم أولیاء بعض )

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی تم لوگ کسی قسم کی ولایت ان کی بہ نسبت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں... اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیںاُن میں سے بعض، بعض کے ولی اور سرپرست ہیں۔

پھر خدا نے اس حکم کے نسخ ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے :

( وأولوا الأرحام بعضهم أولی ببعض فی کتا ب ﷲ )

اقرباء کتاب الٰہی میں آپس میں ایک دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ اور سزاوار ترہیں۔

یعنی ان احکام میں جنھیں خدا وند عالم نے تمام انسانوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اقرباء کو حق تقدم اور اولویت حاصل ہے۔( ۱ )

خلاصہ، قوم یہود نے جب قرآن کی الٰہی آیات کو سنا اور دیکھا کہ صفات قرآن جو کچھ حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے متعلق ان کے پاس موجود ہے اس کی تصدیق اور اس کاا ثبات کر رہے ہیں تو وہ اس کے منکر ہوگئے اور بولے: ہم صرف اس توریت پر جو ہم پر نازل ہوئی ہے ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ انجیل اور قرآن پر ایمان و یقین نہیں رکھتے ،خدا وندعالم نے بھی قرآن کی روشن آیات اور اسکے معجزات اور احکا م کے ارسال کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: فاسقوں(کافروں )کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں ہوگا اور پھر فرمایا: ہم شریعت کے ہر حکم کو نسخ کرتے ہیں( جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کا منسوخ ہونا) یاہم اسے مؤخرکرتے ہیں تواُس سے بہتر یااسی جیسا حکم لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں ، خدا وند عالم خود زمین و آسمان کا مالک ہے ،وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے یہود و نصاریٰ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہر گز راضی نہیں ہوںگے مگر یہ کہ جوان پر احکام نازل ہوئے ہیںان سے دست بردار ہو جائیں اوران کی شریعت کے احکام کے پابند ہوجائیں۔

خدا وندعالم اسی مفہوم کی دوسرے انداز میں تکرار کرتے ہوئے سورئہ اسراء میں فرماتا ہے:

____________________

(۱)اس آیت کی تفسیر کے لئے مجمع البیان ، تفسیر طبری اور دوسری روائی تفاسیرکی جانب رجوع کیجئے.

۶۶

( و آتینا موسیٰ الکتاب و جعلنا ه هدیً لبنی اِسرائیل ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا،پھر فرماتا ہے :

( انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم ) ( ۲ )

یہ قرآن محکم اور استوارترین راہ کی ہدایت کرتا ہے،یعنی قرآن کا راستہ اس سے وسیع اوراستوارتر ہے جو موسی کی کتاب میں آیا ہے۔

ہم نے ربوبیت کے مباحث میں بات یہاں تک پہنچائی کہ رب العالمین نے انسان کے لئے اسکی فطرت اور سرشت کے مطابق ایک نظام معین کیا ہے پھر راہ عمل میں ان مقررات اور قوانین کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس بات کی تحقیق و بر رسی کریں گے کہ رب العالمین کس طرح سے انسان کو دنیا و آخرت میں پاداش و جزا دیتا ہے۔

____________________

(۱) اسرائ۲

(۲)اسرائ۹

۶۷

۲

ربّ العالمین اور انسان کے اعمال کی جزا

الف وب:دنیا و آخرت میں

ج:موت کے وقت.

د:قبر میں

ھ: محشر میں

و:بہشت وجہنم میں

ز:صبر وتحمل کی جزا.

ح: نسلوں کی میراث؛ عمل کی جزا

۱۔

انسان اور دنیا میں اس کے عمل کی جزا

ہم تمام انسان اپنے عمل کا نتیجہ دنیاوی زندگی میں دیکھ لیتے ہیں جو گندم ( گیہوں) بوتا ہے وہ گندم ہی کاٹتا ہے اور جو جَو بوتا ہے وہ جَو کا ٹتاہے اسی طرح سے انسان اپنی محنت کا نتیجہ کھاتا ہے۔

یہ سب کچھ دنیاوی زندگی میں ہمارے مادی کارناموں کے آثار کاایک نمونہ ہے۔ دنیاوی زندگی میں ہمارے اعمال مادی آثار کے علاوہ بہت سارے معنوی آثار بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر انسانوں کی زندگی میں صلۂ رحم کے آثار ہیں،جن کی خبررسول خدا نے دیتے ہوئے فرمایا :

''صلة الرّحم تزید فی العمر وتنفی الفقر''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ ٔرحم کرنا عمر میں اضافہ اور فقر کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

۶۸

نیز ارشاد فرمایا:

''صلة الرحم تزید فی العمر،وصدقة السر تطفیء غضب الربّ ، و اِنّ قطیعة الرّحم و الیمین الکاذبة لتذرٰان الدیار بلا قِعَ من أهلها و یثقلان الرحم و اِنَ تثقّل الرحم انقطاع النسل''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ رحم کرنا عمر میں اضافہ کا سبب ہے اور مخفی طور پر صدقہ دینا غضب الٰہی کو خاموش کرتا ہے، یقیناًاقرباء واعزاء سے قطع تعلق رکھنا اور جھوٹی قسم کھانا آباد سرزمینوں کو بر باد اور بار آور رحم کو بانجھ بنا دیتا ہے اور عقیم اور بانجھ رحم، انقطاع نسل کے مساوی ہے۔( ۱ )

یہ جو فرمایا :'' تطفی غضب الرّبّ'' پوشیدہ صدقہ دینا غیظ وغضب الٰہی کو خاموش کر دیتا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان اپنی (نامناسب) رفتار سے خدا کے خشم وغضب نیز دنیاوی کیفر کا مستحق ہو اور یہ

____________________

(۱) سفینة البحارمادئہ رحم.

۶۹

مقرر ہو کہ اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی جان و مال یا اس سے مربوط چیزوں کو نقصان پہنچے تو یہ پوشیدہ صدقہ اس طرح کی بلا کواس سے دور کردیتا ہے۔

بَلا قِع، بلقع کی جمع ہے ،بے آب وگیاہ ،خشک اور چٹیل میدان اور وادی برہوت ۔( ۱ ) چنانچہ امیر المومنین نے فرمایا:

''وصلة الرّحم فأِنّها مثراة فی المال ومنساة فی الأجل، وصدقة السرّفأنّها تکفرالخطية' '( ۲ )

رشتہ داروں کی دیکھ ریکھ اور رسید گی کرنا مال میں زیادتی اور موت میں تاخیر کا باعث ہے اور پوشیدہ صدقہ گناہ کو ڈھانک دیتا ہے اور اس کا کفارہ ہوتا ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :

''و صلة الرحم منماة للعدد''

اقرباء واعزاء کے ساتھ نیک سلوک کرنا افراد میں اضافہ کا سبب ہے۔( ۳ )

ان تمام چیزوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم اپنی حکمت سے ایسا چاہتا ہے کہ روزی میں زیادتی، نسل میں اضافہ''صلہ رحم'' کی وجہ سے ہونیز تنگدستی اور عقیم ہونا ''قطع رحم'' میں ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دوتاجرآدمی ایک طرح کا مال بازار میں پیش کرتے ہیں تو ایک کو نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کو فائدہ ،پہلے کے نقصان کا سرچشمہ اقرباء سے قطع رحم کرنا ہے اور دوسرے کا فائدہ حاصل کرنا عزیز واقارب سے صلہ رحم کی بنا پر ہے خدا کی طرف سے ہر ایک کی جزا برابر ہے۔

ایسے عمل کی جزا انسان کے ،خدا پر ایمان اور عدم ایمان سے تعلق نہیں رکھتی ہے کیونکہ خدا وندعالم نے انسان کے کارناموں کے لئے دنیا میں دنیاوی آثار اور آخرت میں اخروی نتائج قرار دئے ہیں کہ جب بھی کوئی اپنے ارادہ واختیاراور ہوش وحواس کے ساتھ کوئی کام انجام دے گا تواس کا دنیاوی نتیجہ دنیا میں اور اخروی نتیجہ آخرت میں اُسے ملے گا۔

اسی طرح خدا وندعالم نے اپنے ساتھ انسان کی رفتاراور خلق کے ساتھ اس کے کردار کے مطابق جزا اور پاداش قرار دی ہے ، خواہ یہ مخلوق انسان ہو یا حیوان یا ﷲ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ہو جس سے خدا نے

____________________

(۱) المعجم الوسیط مادئہ بلقع(۲)نھج البلاغہ خطبہ ۱۰۸(۳) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲

۷۰

انسان کو نوازا ہے، ہر ایک کے لئے مناسب جزا رکھی ہے ،یہ تمام کی تمام ﷲ کی مرضی اور اس کی حکمت سے وجود میں آئی ہیں ،''ربّ العالمین'' نے ہمیں خود ہی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے لئے اسکے کردار کے نتیجہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ( یعنی جیسا کردار ہو گا ویسی ہی اس کی جزا وپاداش ہوگی)

( وأن لیس للاِ نسان اِلاّ ما سعیٰ ) ( ۱ )

انسا ن کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے نتیجہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح خبر دی ہے کہ جو دنیا کے لئے کام کرئے گا خدا وند عالم اس کا نتیجہ اسے دنیا میں دکھاتا ہے اور جو کوئی آخرت کے لئے کوشاں ہوگا اسکے کام کی جزا اسے آخرت میں دکھائے گا:

( ومن یرد ثواب الدنیا نؤتیه منها و من یرد ثواب الآخرة نؤته منها وسنجزی الشاکرین ) ( ۲ )

جو کوئی دنیاوی جزا وپاداش چاہتا ہے اسے وہ دیں گے اور جو کوئی آخرت کی جزا چاہتا ہے ہم اسے وہ دیں گے اور عنقریب شکر گزاروں کوجزا دیں گے۔

( مَن کان یریدالحیا ة الدنیا وزینتها نوفّ الیهم أعمالهم فیها وهم فیها لا یبخسون)(اولاء ک الذین لیس لهم فی الاخرة اِلّا النار... )

جو لوگ (صرف) دنیاوی زندگی اور اس کی زینت و آرایش کے طلبگار ہیںان کے اعمال کا کامل نتیجہ ہم اسی دنیا میں دیں گے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی اور یہ گرو ہ ان لوگوں کا ہے جن کے حصہ میں آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔( ۳ )

( مَن کان یرید العاجلة عجلنا له فیها..)( ومن أراد الآخرة و سعیٰ لها سعیها وهو مومن فأولآء ک کان سعیهم مشکوراکلاً نمد هٰؤلاء و هٰؤلاء من عطاء ربّک وما کان عطاء رّبک محظوراً ) ( ۴ )

جو کوئی اس زود گزر دنیا کا طلبگا ر ہو اس کو اسی دنیا میں جزا دی جائے گی... اور جو کوئی دار آخرت کا خوہاں ہو اوراس کے مطابق کوشش کرے اور مومن بھی ہو اس کی کوشش وتلا ش کی جز ا دی جائے گی ، دونوںگروہوں میں سے ہر ایک کو تمھارے پروردگار کی عطا سے بہرہ مند کریں گے اور تمہارے رب کی عطا کبھی ممنوع نہیں قرار دی گئی ہے۔

____________________

(۱)نجم ۳۹.(۲)آل عمران ۱۴۵.(۳)ہود ۱۵ ،۱۶. (۴) اسرا ء ۱۸۔ ۲۰.

۷۱

کلمات کی تشریح

''نوفّ اِلیھم'':ان کا پورا پورا حق دیں گے۔

'' لایبخسون ، لا ینقصون'': ان کے حق میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔

'' محظوراً '': ممنوعاً، حظر یعنی منع، رکاوٹ۔

دنیا وآخرت کی جزا

جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بنیاد پر بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا انسان دنیا ہی میں دیکھ لیتا ہے ، لیکن ان میں سے بعض اعمال کی جزا قیامت میں انسان کو ملے گی ، مثال کے طور پر کوئی شہید خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائے ،وہ دنیوی جز ا کے دریافت کرنے کا امکان نہیں رکھتا تا کہ اس سے فائدہ اٹھائے ،لہٰذا خدا وندعالم اس کی جزا آخرت میں دے گا جیساکہ فرماتا ہے:

( ولا تحسبّن الذین قتلوا فی سبیل ﷲ امواتاً بل أحیاء عند ربّهم یرزقون) (فرحین بما آتهم ﷲ من فضله و یستبشرون با لذین لم یلحقو ا بهم من خلفهم الا خوف علیهم ولا هم یحزنون)( یستبشرون بنعمة من ﷲ وفضلٍ وأنّ ﷲ لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۱ )

اورجو لوگ راہ خدا میں شہید ہوگئے ہیں انھیں ہر گز مردہ خیال نہ کرو ! بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں ،یہ لوگ اس نعمت کی وجہ سے جو خدا وندعالم نے انھیں اپنے فضل و کرم سے دی ہے ، راضی اور خوشنود ہیں اور جو لوگ ان سے ابھی تک ملحق نہیں ہوئے ہیں ان کی وجہ سے شاد و خرم ہیں کہ نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال وہ لوگ نعمت الٰہی اوراس کی بخشش اور اس بات سے کہ خدا وند عالم نیکو کاروں کی جزا کو ضائع و برباد نہیں کرتا ، مسرور و خوش حال ہیں ۔

اسی طرح اقتدار کے بھوکے انسان اوراس شخص کا حال ہے جو کسی مومن کے ساتھ ظلم وتعدی کر کے اسے قتل کر دیتا ہے، ایسا شخص بھی اپنی جزا آخرت میں دیکھے گا جیسا کہ خدا وندعالم نے ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یقتل مؤمناً متعمداً فجزاؤه جهنم خالداً فیها وغضب ﷲ علیه ولعنه وأعدّ له عذاباً عظیماً ) ( ۲ )

____________________

(۱) آل عمران ۱۶۹ ، ۱۷۱

(۲) نساء ۹۳.

۷۲

جو کوئی کسی مومن انسان کو عمدا ( جان بوجھ کر) قتل کر ڈالے اسکی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا خدااس پر غضب ناک ہے اوراس نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اوراس کے لئے عظیم عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

اسی طرح اس شخص کا حال ہے جو ناقص جسم کے ساتھ دنیا میں آتا ہے جیسے اندھا گونگا ،ناقص الخلقة (جس کی تخلیق میں کوئی کمی ہو) اگر ایسا شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے اور اولیاء خدا کا دوست ہو اور اپنے عضو کے ناقص ہونے کی بناء پر خدا کے لئے صبر وتحمل کرے ایسے شخص کو خدا آخرت کی دائمی وجاوید زندگی میں ایسا اجر دے گا کہ جو دنیاوی کمی اور زحمتیںاس نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ان کا اس جزا کے مقابلہ میں قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔( ۱ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ،اس بنا پر عدل الٰہی آخرت میں عمل کی جزا دریافت کیے بغیر ثابت نہیں ہوتا، خداوند عالم نے دنیاوی زندگی کے بعداعمال کی جزا پانے کیلئے متعدد مراحل قرار دئے ہیں ہم آئندہ بحث میں اس پر گفتگو کریں گے۔

____________________

(۱) دیکھئے : ثواب الاعمال،صدوق باب ''اس شخص کا ثواب جو خدا وند عالم سے اندھے ہونے کی حالت میں ملاقات کرے اوراس نے خدا کے لئے اسے تحمل کیا ہو ، حدیث ۲۱ ، نیز معالم المدرستین، ج ۱، بحث شفاعت،اس ایک نا بینا شخص کی روایت کی طرف رجوع فرمائیں جورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور آنحضرت سے درخواست کی کہ حضرت اس کے لئے دعا کریں تا کہ شفا ہو''۔

۷۳

۲۔

انسان اور آخرت میں ا س کی جزا

خود انسان اپنے کھیت میں کبھی گیہوں،مکئی اور سبزیاںاگاتا ہے اور چند ماہ بعداس کا نتیجہ اورمحصول حاصل کرتا ہے اور کبھی انگور، انجیر، زیتون،سیب اور سنترہ لگاتا ہے اور تین یا چار سال بعداس کا نتیجہ پاتا ہے اور کبھی خرما اور اخروٹ بوتا ہے اور ۸ سال یااس سے بھی زیادہ عرصہ کے بعداس سے فائدہ اٹھاتا ہے،اس طرح سے عادی اور روز مرہ کے کاموں کا نتیجہ انسان دریافت کرتا ہے اور اپنے اہل وعیال اوردیگر افراد کواس سے فیضیاب کرتا ہے اس کے با وجود خدا فرماتا ہے:

( اِنّ ﷲ هو الرزّاق ذوالقوة المتین ) ( ۱ )

خدا وند عالم روزی دینے والا ہے وہ قوی اور توانا ہے۔

( ﷲ الذی خلقکم ثّم رزقکم ) ( ۲ )

وہ خدا جس نے تمھیں خلق کیا پھر روزی دی۔

( لا تقتلوا اولا دکم من اِملاقٍ نحن نرزقکم و اِيّاهم ) ( ۳ )

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کیونکہ ہم تمھیں اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں۔

( وکا يّن من دابة لا تحمل رز قها ﷲ یرزقهاو اِيّاکم ) ( ۴ )

کتنے زمین پر چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق خود حاصل نہیں کر سکتے لیکن خدا انھیں اور تمھیں بھی رزق دیتا ہے ۔

( و ﷲ فضّل بعضکم علیٰ بعضٍ فی الرّزق ) ( ۵ )

____________________

(۱) ذاریات ۵۸

(۲)روم ۴۰

(۳) انعام ۱۵۱.

(۴) عنکبوت ۶۰

(۵) سورہ نحل ۷۱.

۷۴

خدا وندعالم نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت اور برتری دی ہے۔

جی ہاں! انسان زمین کا سینہ چاک کرتا ہے ، اس میں دانہ ڈالتا ہے، درخت لگاتا ہے ، پانی دیتا ہے ، تمام آفتوں اور بیماریوں کو دور کرتا ہے اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے تاکہ دانہ بن جائے اور بارآور ہو جائے جسے خود وہ بھی کھائے اور جسے دل چاہے کھلائے لیکن خدا وندسبحان فرماتا ہے :

( نحن نرزقکم و ایاّهم )

ہم تمھیں اوران کو روزی دیتے ہیں !

اور خدائے عظیم نے درست فرمایا ہے کیونکہ جس نے آب وخاک میں نباتات کے اگانے کے خواص قرار دئے اور ہمیں بونے اورپودا لگانے کا طریقہ سکھا یا ،وہی ہمیں روزی دینے والا ہے ۔

خدا کے روزی دینے اور انسان کے دنیا میں روزی حاصل کرنے کی مثال، میزبان کا مہمان کو '' self serveic ''والے ہوٹل میں کھانا کھلانے کی مانند ہے کہ جس میں نوکر چاکر نہیں ہوتے اور معمولاً مہمان سے کہا جاتا ہے ،اپنی پذیرائی آپ کیجیے(جو دل چاہے خود لے کر کھائے ) اس طرح کے ہوٹلوں میں میزبان مہمان کوکھانا کھلاتا ہے مہمان جس طرح کی چیزیں پسند کرنا چاہے اسے مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن جو کچھ وہ کھاتا ہے میزبان کی مہیا کی ہوئی ہے لیکن اگرکوئی مہمان ایسی جگہ پر داخل ہو اور خود اقدام نہ کرے، چمچے، کانٹے، پلیٹ جو میزبان نے فراہم کئے ہیں نہ اٹھائے اور فراہم کی ہوئی غذا ؤں کی طرف اپنے قدموں سے نہ بڑھے اور اپنی مرضی سے کچھ نہ لے ،تو وہ کچھ کھا نہیں سکے گا،اس کے باوجود جس نے مہمانوں کیلئے غذا فراہم کی ہے و ہی میزبان ہے،ایسی صورت میں بری طرح کھا نے کا احتمالی نقصان بھی مہمان ہی کے ذمہ ہے جس نے خودہی نقصان دہ غذا کھا ئی ہے اور خداوند عظیم نے سورۂ ابراہیم میں کس قدر سچ اور صحیح فرمایا ہے:

( ﷲ الّذی خلق السّموات والأرض و انٔزل من السماء مائً فأخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره وسخر لکم الأنهاروسخر لکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل و النهار ) ( ۱ )

خدا وندعالم وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اور آسمان سے پانی نازل کیا اوراس سے تمہارے لئے زمین سے میوے اگائے ،کشتیوں کو تمہارا تا بع قرار دیا، تا کہ دریا کی وسعت میں اس کے حکم

____________________

(۱)ابراہیم ۳۲ ، ۳۳

۷۵

سے رواں دواں ہوں ، نیز نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا اور سورج ا ورچاند کو منظم اور دائمی گردش کے ساتھ تمہارا تابع بنا یا اوراس نے روز و شب کو تمہارا تابع قراردیا۔

اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ﷲ أنزل من السماء مائً فأحیا به الارض بعد موتها انّ فی ذلک لاية لقومٍ یسمعون)(و أنَّ لکم فی الأنعام لعبرة نسقیکم مِّما فی بطونه من بین فرثٍ و دمٍ لّبنا خالصاً سائغاً للّشاربین)( و من ثمراتِ النخیلِ و الأعنابِ تتّخذون منه سکراً و رزقاً حسناً انّ فی ذلک لايةً لّقومٍ یعقلون)( و أوحیٰ ربّک اِلی النّحل ان اْتّخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مّما یعرشون)( ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاْسلکی سبل ربّک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف ألوانه فیه شفٰاء للناّٰس انَّ فی ذلک لآ يةً لقومٍ یتفکرون ) ( ۱ )

خدا وندعالم نے آسمان سے پانی برسایا ، پس زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد حیات بخشی ،یقینا اس میں سننے والی قوم کے لئے روشن علامت ہے اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت ہے،ان کے شکم کے اندرسے گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تمھیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار ہے. اورتم درخت کے میووں ،کھجور اور، انگور سے مسکرات اور اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو یقینا اس میں روشن نشانی ہے صاحبان فکرکے لئے، تمہارے رب نے شہدکی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے کو ٹھوں پر اپنا گھر بنائے اور تمام پھلوں سے کھائے اوراپنے رب کے معین راستے کو آسانی سے طے کرے،ا س کے شکم کے اندر سے مختلف قسم کا مشروب نکلتاہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں صاحبان عقل و فکر کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔

کلمات کی تشریح

۱۔'' دا ئبین،مستمرّین'': یعنی ہمیشہ گردش کر رہے ہیں ، معین مسیر میں حرکت اُن کی دائمی شان و عادت ہے ۔

۲۔''فرث '': حیوانات کے معدہ اور پیٹ میں چبائی ہوئی غذا (گوبر)۔

____________________

(۱) نحل ۶۵ ، ۶۹

۷۶

۳۔''مّما یعرشون'': جو کچھ اوپر لے جاتے ہیں ، خرمے کے درختوں کے اوپر جو چھت بنائی جاتی ہے جیسے چھپر وغیرہ۔

آغاز کی جانب باز گشت:

روزی رساںرب ّنے اپنے مہمان انسان کے لئے اس دنیا میں نعمتیں فراہم کیں، روزی کس طرح حاصل کی جائے اور کس طرح بغیر کسی ضرر اور نقصان کے اس سے بہرہ ور ہوں، اس زود گزر دنیا اور آخرت میں ، انبیائ، اوصیاء اور علماء کے ذریعہ اس کی تعلیم دی اور فرمایا:

( یاأيّهاالذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقناکم واشکروﷲ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان ! پاکیزہ چیزوں سے جوہم نے تمہارے لئے روزی دی ہے کھا ؤ اور خدا کا شکر ادا کرو، نیز فرمایا:

( یسٔلونک ماذاأحلّ لهم قل أحلّ لکم الطيّبات ) ( ۲ )

تم سے سوال کرتے ہیں : کون سی چیزان کیلئے حلال کی گئی ہے ؟ کہہ دیجئے تمام پاکیز ہ چیزیںتمہارے لئے حلال کی گئی ہیں۔

نیز خاتم الانبیاء کے وصف میں فرمایا :

( ویحلّ لهم الطیبّات ویحرّم علیهم الخبائث ) ( ۳ )

اوروہ ( پیغمبر)ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے۔

اس لحاظ سے پروردگار سبحان نے ہمیں خلق کیا جوکچھ ہمارے اطراف میں تھا،اسے ہمارا تابع بنا دیا اور اس دنیا میں پاکیزہ چیزوں سے جو کہ ہماری زراعت و کاشت کا نتیجہ ہے ہمیں رزق دیا ،وہ اسی طرح ہمارے اعمال کے نتیجہ کو آخرت میں ہمارے لئے روزی قرار دے گا جیسا کہ فرمایا ہے:

( والذین هاجروا فی سبیل ﷲ ثّم قتلواأوما توالیر زقنّهم ﷲ رزقاً حسناً ) ( ۴ )

وہ لوگ جنھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ، پھر قتل کردئے گئے یا مر گئے ،خدا انھیں اچھی روزی دیگا۔

نیز فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ۱۷۲ (۲)مائدہ ۴(۳)اعراف ۱۵۷.(۴)حج۵۸

۷۷

( الاّ مَن تاب وَآمنَ وَ عملَ صٰا لحاً فاُولاء کَ یدخُلُونَ الجنةَ وَلاَ يُظلمونَ شیئاً جنَّاتِ عدنٍ التی وعدالرحمنُ عبٰادهُ بالغیبِ اِنه کٰانَ وَعدهُ ما تيّا لا یسمعونَ فیها لغواً اِلّا سلاماً ولهم رزقُهُم فیها بُکرةً وعَشِيّاً ) ( ۱ )

...مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور ایمان لا ئیں اور شائستہ کام انجام دیں ، پس یہ گروہ بہشت میں داخل ہوگا اوراُس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا، دائمی بہشت جس کا خدا وند رحمان نے غیب کی صورت میں وعدہ کیا ہے یقینا خدا کا وعدہ پورا ہونے والا ہے ،وہاں کبھی لغو وبیہودہ باتیں نہیں سنیں گے اور سلام کے علاوہ کچھ نہیں پائیں گے، ان کی روزی صبح وشام مقرر ہے۔

پس ربّ حکیم انسان کے اعمال کی جزا دنیا میں جلدی اور آخرت میں مدت معلوم کے بعدا سے دیتا ہے ، اسی طرح بہت سارے سوروں میں اس نے اس کے بارے میں خبر دی ہے اور سورۂ زلزال میں فرمایا ہے:

( فمَن یعمل مثقال ذرةٍ خَیراً یره ومَن یعمل مثقال ذرةٍ شراً یره ) ( ۲ )

پس جو ذرہ برابربھی نیکی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا اور جو بھی ذرہ برابر بھی بُرائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا ۔

سورۂ ےٰسین میں ارشاد ہوتا ہے:

( فالیوم لا تُظلَمُ نفس شیئاً ولا تجزون اِلاّ ما کنتم تعلمون ) ( ۳ )

پس اس دن کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا اور جو تم نے عمل کیا ہی اسکے علاوہ کوئی جزا نہیں دی جائے گی۔

ہاں ، جو اس دنیا میں تلخ اورکڑوا ایلوالگائے گا ایلواکے علاوہ کوئی اور چیزاسے حاصل نہیں ہوگی اور جو اچھے ثمرداردرخت لگائے گا وہ اچھے اچھے میوے چنے گا ۔

جیسا کہ خداوند سبحان سورۂ نجم میں فرماتا ہے:

( وَ اَنْ لیس لِلا نسان اِلاّ ما سعیٰ وَ اَنَّ سعیه سوف یریٰ ) ( ۴ )

انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی ۔

____________________

(۱)مریم ۶۰ ، ۶۳(۲) زلزال ۷، ۸(۳)یسین ۵۴(۴)نجم ۳۹ ،۴۰

۷۸

انسان اپنے اعمال کے نتائج صرف اس دنیا ہی میں نہیںدیکھتا ، بلکہ درج ذیل پانچ مختلف حا لات اور مقامات پر بھی دیکھتا ہے:

۱۔ موت کے وقت

۲ ۔ قبر میں

۳۔ محشر میں

۴۔ بہشت و جہنم میں

۵۔ ورثاء میں کہ عمل کی جزاان کے لئے میراث چھوڑ جاتا ہے۔

اس بحث میں ہم نے دنیا میں انسان کے اعمال کی پاداش کا ایک نمونہ پیش کیا، آئند ہ بحث میں ( انشاء ا )خدا وند متعال موت کے وقت کیسے جزا دیتا ہے اس کو بیان کریں گے۔

۳۔موت کے وقت انسان کی جزا

آخرت کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ موت ہے ،خدا وند سبحان نے اس کی توصیف میں فرما یا ہے :

( وجاء ت سکرة الموت با لحقّ ذلک ما کنت منه تحید ) ( ۱ )

( اے انسان ) سکرات الموت حق کے ساتھ آ پہنچے ،یہ وہی چیز ہے جس سے تم فرار کر ر ہے تھے!

یعنی موت کی ہولناک گھڑی اور شدت جو آدمی کے عقل پر غالب آ جاتی ہے آپہنچی ،یہ وہی موت ہے کہ جس سے تو ( انسان) ہمیشہ فرار کرتا تھا!

( قُل يَتَوَ فّٰکم ملکُ المَوتِ الذی و کِل بکم ثُّم اِلیٰ ر بّکم تُرجعونَ ) ( ۲ )

اے رسول کہہ دو! موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے تمہاری جان لے لے گا پھراس کے بعد تم اپنے ربّ کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے۔یہ جو خدا وندعالم نے اس سورہ میں فرمایا ہے کہ'' موت کا فرشتہ تمہاری جان لے لے گا '' اور سورہ زمر میں فرمایا ہے :''( ﷲ یتوفی الا نفس ) ''( ۳ ) (خدا وندعالم جانوں کو قبض کرتا ہے) اور سورۂ نحل میں فرمایا ہے :''( تتو فاهم الملا ئکة ) ''( ۴ ) (فرشتے ان کی جان لیتے ہیں) اور سورۂ انعام میں ارشاد فرمایا ہے :( ''تو فته رُسُلُنا ) ' '( ۵ )

ہمارے فرستادہ نمائندے اس کی جان لیتے ہیں ! اِن باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ،کیونکہ: فرشتے خدا کے نمائندے ہیں اور روح قبض کرتے وقت ملک الموت کی نصرت فرماتے ہیں اور سب کے سب خدا کے حکم سے

____________________

(۱)ق ۱۹(۲)سجدہ ۱۱(۳) سورہ زمر۴۲(۴)سورۂ نحل۲۸۔۳۲(۵)انعام۶۱

۷۹

روح قبض کرتے ہیں ، پس در حقیقت خدا ہی روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے کہ وہ فرشتوں کواس کا حکم دیتا ہے۔

آخرت کا یہ مرحلہ شروع ہوتے ہی دنیا میں عمل کا امکان سلب ہو جاتا ہے اور اپنے عمل کا نتیجہ دیکھنے کامرحلہ شروع ہو جاتاہے ، منجملہ ان آثار کے جسے مرنے والا ہنگام مرگ دیکھتا ہے ایک وہ چیز ہے جسے صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

''صوم رجب يُهوّن سکرات الموت'' ( ۱ )

ماہ رجب کا روزہ سکرات موت کو آسان کرتا ہے۔

آدمی کا حال اس مرحلہ میں عمل کے اعتبار سے جواس نے انجام دیا ہے دو طرح کا ہے، جیسا کہ خداوند متعال خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( فأ مّا اِن کان من المقربین) (فروح و ریحان و جنّت نعیم) (و أمّا اِن کان من أصحاب الیمین) (فسلامُ لک من أصحاب الیمین)( و أما اِن کان من المکذبین الضّٰا لّین)( فَنُزُل من حمیم.وَ تصليةُ جحیمٍ ) ( ۲ )

لیکن اگر مقربین میں سے ہے تو رَوح ،ریحان اور بہشت نعیم میں ہے لیکن اگر اصحاب یمین میں سے ہے تواس سے کہیں گے تم پر سلام ہو اصحاب یمین کی طرف سے لیکن اگر جھٹلا نے والے گمراہ لوگوں میں سے ہے تو دوزخ کے کھولتے پانی سے اس کا استقبال ہو گا اور آتش جہنم میں اسے جگہ ملے گی۔

خدا وند عالم نے جس بات کا گروہ اوّل ( اصحاب یمین اور مقربین) کو سامنا ہو گااس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یا أيّتها النفس المطمئنة اْرجعی اِلیٰ ربّک راضيةً مرضيّةً فادخلی فی عبادی و ادخلی جنّتی )

اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی جانب لوٹ آ اس حال میں کہ تواس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی و خوشنود ہے پس میر ے بندوں میں داخل ہوجا اورمیری بہشت میں داخل ہوجا۔( ۳ )

اوردوسرا گروہ، جس نے دنیاوی زندگی میں اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُون٭ لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّهَا کَلِمَة هُوَقَائِلُهَاوَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ( ۴ )

____________________

(۱) ثواب الاعمال باب : ثواب روزہ رجب ،حدیث ۴.(۲)واقعہ۸۸۔ ۹۴.(۳) فجر ۲۷ ، ۳۰.(۴)مومنون ۹۹، ۱۰۰.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

فارس اور اصفہان کی سر حدوں پر سیف کے جعلی صحابیوں کے رد عمل کی داستان اس کے ذہن کی پیداوار ہے اور دوسرے مولفین نے اس سلسے میں کچھ نہیں لکھا ہے جس کے ذریعہ ہم سیف کی داستان کا دوسروں کی روایت سے موازنہ کریں !

زر کی داستان کا خلاصہ

زر بن عبد اللہ بن کلیب فقیمی کے بارے میں سیف کے بیان کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

یہ ایک صحابی و مہاجر ہے ، وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ اپنے خاندان میں افراد کی کمی کے سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور میں شکایت کی ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی اورخدا ئے تعالیٰ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاقبول فرمائی جس کے نتیجہ میں اس کے خاندان کے افراد میں اضافہ ہوا !

١٢ھ میں فتوح کی جنگوں میں زر کو بقول سیف خالد کی طرف سے '' ابلہ'' کی جنگ کی فتح کی نوید ، جنگی غنائم کا پانچواں حصہ اور ایک ہاتھی کو لے کرخلیفہ ابوبکر کی خدمت میں بھیجا جاتا ہے ۔ خلیفہ کے حکم سے مدینہ کی گلی کو چوں میں ہاتھی کی نمائش کرانے کے بعد زر کے ذریعہ اسے واپس کیا جاتا ہے

سیف کی روایت کے مطابق ١٧ھ میں ہم زر کو نہاوند کا محاصرہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ خلیفہ عمر اسے لکھتے ہیں کہ جندی شاپور پر لشکر کشی کرے اور اس وقت کا سپہ سالار ابو سبرہ اسے مقترب کے ہمراہ شہر جندی شاپور کا محاصرہ کرنے کی ماموریت دیتا ہے اور ابوموسیٰ بھی کچھ مدت کے بعد ان سے ملحق ہوتا ہے ، جب وہ جندی شاپور کے محاصرہ میں پھنسے لوگوں سے بر سر پیکار تھے ، اچانک دیکھتے ہیں کہ قلعہ کے دروازے کھل گئے اور لوگ لشکر اسلام کے لئے بازار میں اشیاء آمادہ کرکے مسلمانوں کے استقبال کے لئے آگے بڑھتے ہیں ! کیوں کہ لشکر اسلام سے جندی شاپور کا رہنے والا مکنف نامی ایک غلام نے خلیفہ کی اجازت کے بغیر اور دیگر لوگوں سے چور ی چھپے ایک تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر امان نامہ پھینکا تھا اور سر انجام خلیفہ عمر مکنف کے امان نامہ کی تائید کرتے ہیں اور شہر اور شہر کے باشندے مسلمانوں کی امان میں قرار پاتے ہیں ۔

۲۴۱

پھر سیف کی روایت کے مطابق ٢١ھ میں خلیفہ عمر زر کو اپنا ایک پیغام دے کر اپنے ایلچی کے طور پر نعمان بن مقرن کے پاس بھیجتے ہین اور نعمان کو نہاوند کی جنگ کے لئے مامور قرار دیتے ہیں ۔ اس ماموریت کے بعد خلیفہ کی طرف سے زر اور سپاہ اسلام کے تین دیگر کمانڈر ماموریت پاتے ہیں کہ نہاوند کی جنگ میں لڑنے والے ایرانیوں کے لئے فارس کے باشندوں کی طرف سے کمک اور رسد پہنچنے میں رکاوٹ ڈالیں ۔ وہ خلیفہ کے حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اصفہان اور فارس کی سر حدوں تک پیش قدمی کرتے ہیں اور اس طرح نہاوند کی جنگ میں لڑنے والے ایرانی فوجیوں کے لئے امدادی فوج پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔

زرّ اور زرین

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا ، یہ زر کے بارے میں سیف کی روایتیں تھیں جو تاریخ طبری میں درج ہوئی ہیں ۔

کتاب اسد الغابہ ،کے مؤلف ابن اثیر نے بھی ان تمام مطالب کو طبری سے نقل کرکے زر کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ لیکن زرین نام کے ایک دوسرے صحابی کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے :

زرین بن عبد اللہ فقیمی کے بارے میں ابن شاہین نے کہا ہے کہ میری کتاب میں دو جگہوں پر اس صحابی یعنی زرین بن عبد اللہ کا نام اس طرح آیا ہے حرف '' ز '' حرف '' ر '' سے پہلے ہے ۔ اور سیف بن عمر نے '' ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی '' سے روایت کرکے نقل کیا ہے کہ زربن عبد اللہ فقیمی نے روایت کی ہے کہ وہ زرین بن عبد اللہ قبیلہ تمیم کے چند افراد کے ہمراہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اسلام لایا ہے اور رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے اور اس کی اولاد کے لئے دعا کی ۔

'' ابومعشر '' نے بھی یزید بن رومان ( الف )سے روایت کی ہے

زرین بن عبد اللہ فقیمی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت (تا اخر داستان )

۲۴۲

اب حجر بھی زر کی تشریح میں لکھتا ہے:

طبری نے لکھا ہے کہ زر نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور اپنے قبیلہ کی طرف سے نمائندہ کے طور پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ زر ان سپہ سالاروں میں سے تھا جنھوں نے نہاوند اور خوزستان کی فتوحات اور جندی شاپور کا محاصرہ کرنے کی کاروائیوں میں شرکت کی ہے ، ابن فتحون نے بھی زر کے بارے میں یہی مطالب درج کئے ہیں ۔

ابن حجر مذکورہ بالا مطالب کے ضمن میں زرین کے بارے میں ابن شاہین اور ابی معشرکی روایت کو بیان کرتے ہوئے زرین کے حالات کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

اس صحابی کی داستان زر کے حالات کے سلسلے میں بیان ہوئی ہے ۔

اس لحاظ سے زر اور زرین دو نام ہیں زر سے مربوط خبر صرف سیف کی روایتوں میں آئی ہے اور طبری نے اس سے یہ روایت نقل کی ہے ۔اس کے بعد ابن اثیر اور ابن فتحون نے طبری سے نقل کرکے اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ذہبی نے بھی زر کی داستان ابن اثیر سے نقل کی ہے او ر ابن حجر نے اس کو فتحون سے نقل کرکے بالترتیب اپنی کتابوں '' التجرید اور اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

مناسب ہے کہ ہم یہاں پر یہ بھی بتا دیں کہ آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ سیف نے زر کا نام خاندان فقیم کے ایک شاعر سے عاریتا ً لیا ہے جو زمانہ جاہلیت میں اشعار کہتا تھا ۔ اس بات کی تائید

____________________

۱)۔یزید بن رومان اسدی خاندان زبیر کا ایک سردار دانشور اور کثیر الحدیث شخص تھا یزید رومان نے ١٣٠ ھ میں وفات پائی ہے ۔ التہذیب ٣٢٥١١ ،تقریب ٣٦٤٢ملاحظہ ہو ۔ رومان کا بیٹا حدیث کے طبقۂ پنجم کے ثقات میں سے ہے ۔

۲۴۳

آمدی(۱) کی کتاب '' مختلف و مؤتلف'' میں شعراء کے حالات پر لکھی گئی تشریح سے ہوتی ہے وہ اس سلسلے میں لکھتا ہے :

شعراء میں سے '' زرین بن عبدا للہ بن کلیب '' ہے جو خاندان فقیم میں سے تھا...

آمدی کی یہ بات ابن ماکولا نے بھی اپنی کتاب '' اکمال '' میں درج کی ہے ۔

بحث و تحقیق کا نتیجہ

معلوم ہوا کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جو زر کے نسب ، ہجرت ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہونے اور اپنے قبیلہ کی طرف سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کی حیثیت سے حاضری دینے کے بارے میں روایت کرتا ہے ۔

سیف فتح ابلہ کی داستان میں نافع کے کام کو زر سے نسبت دیتا ہے ،خلیفۂ وقت اور سپہ سالارکے ناموں میں رد و بدل کرکے اس پر ہاتھی کا افسانہ بھی اضافہ کرتا ہے ۔

سیف نے جندی شاپور کی صلح کی داستان میں ابوموسیٰ اشعری یمانی قحطانی کی کار کردگی اور اقدامات کو ابو سبرہ قرشی عدنانی سے نسبت دی ہے خاص کر اس عزل و نصب میں ابو موسیٰ اشعری کو گورنر کے عہدے سے عزل کرکے اس جگہ کی پر ابو سبرہ کو منصوب کرنے میں سیف کا خاندانی تعصب بالکل واضح اور آشکار ہے ۔

سیف ، عمر کی خلافت کے زمانے میں ابو سبرہ عدنانی کو کوفہ کے گورنر کے عہدے پر منصوب کرتا ہے تاکہ اس کی سرزنش کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ سے مکہ چلا گیا تھا اور پھر مرتے دم تک وہاں سے باہر نہیں نکلا ، اسی طرح

____________________

۱)۔کتاب '' مختلف و مؤ تلف '' کے مؤلف آمدی نے ٣٧٠ھ میں وفات پائی ہے ۔

۲۴۴

اسی ابو سبرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جن دنوں وہ مکہ میں مقیم تھا ، سیف کے دعوے کے مطابق انہی دنوں خلیفہ عمر کی طرف سے کوفہ میں ایک امین گورنر اور مجاہد و جاں نثار افسر کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دینے میں مصروف تھا ۔

مکنف کا افسانہ اور اس کا امان نامہ بھی سیف کا جعل کیا ہوا اور اس کے تخیلات کا نتیجہ ہے۔

سیف نے فتح نہاوند کی داستان میں سائب ا قرع ثقفی کی جنگی کاروائیوں کو زر سے نسبت دی ہے ۔ سیف تنہا شخص ہے جو زر نامی ایک صحابی کی قیادت میں فارس اور اصفہان کے اطراف میں مسلمانوں کی لشکر کشی اور اسی کے ہاتھوں نہاوند کے محاصرہ کا تذکرہ کرتا ہے !!

یہ بھی معلوم ہے کہ سیف نے ان تمام احادیث اور اپنی دوسری داستانوں کو واقعہ نگاروں کے طرز پر ایسے راویوں کی زبانی نقل کیا ہے جس کو اس نے خود خلق کیا ہے یا ان مجہول الہویہ افراد سے نقل کیا ہے ، جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخ میں زرین بن عبداللہ نامی ایک اور صحابی کا نام آیا ہے جو سیف کے زرین بن عبد اللہ نامی جعلی صحابی کے علاوہ ہے اور ہم نے دیکھا کہ ان دونوں کے بارے میں اسد الغابہ اور الاصابہ جیسی کتابوں میں ان کی زندگی کے حالات پر جدا گانہ روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہمیں یہ بھی پتا لگا کہ اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں زید بن عبد اللہ فقیمی نام کا ایک شاعر تھا ، جو بہت مشہور تھا جس کی زندگی کے حالات پر آمدی کی کتاب میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اور اس شخص کاکسی صورت میں سیف کے جعلی زر کے ساتھ کوئی تعلق و ربط نہیں ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اس زمان جاہلیت کے شاعر سے اپنے اس جعلی صحابی کے لئے یہ نام عاریتاً لیا ہوگا سیف کا یہ کام کوئی نیا کارنامہ نہیں ہے ،بلکہ ہم نے اس کے ایسے کارنامے حزیمہ بن ثابت انصاری ، سماک بن خرشہ ، اسود اور دیگر افراد کی احادیث میں مشاہدہ کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں مناسب جگہ پر مزید وضاحت کی جائے گی ۔

۲۴۵

زرّ کا افسانہ نقل کرنے والے علماء

زر کے افسانہ کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے اور یہ افسانہ حسب ذیل اسلامی منابع درج ہو کر اس کی اشاعت ہوئی ہے :

١۔ محمد بن جریر طبری ( وفات ٣١٠ ھ ) نے سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔

٢۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔

٣۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧١ھ ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔

٤۔ ابن خلدون ( وفات ٨٠٨ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔

٥۔ ابن فتحون ( وفات ٥١٩ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ، اس دانشور نے بعض اصحاب کی

زندگی کے حالات کو کتاب '' استیعاب '' کے حاشیہ میں درج کیا ہے ۔

٦۔ زبیدی ( وفات ١٢٠٥ھ ) نے تاج العروس میں طبری سے نقل کیا ہے۔

٧۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ نے ابن اثیر سے نقل کرکے اپنی کتاب '' التجرید '' میں درج کیا ہے ۔

٨۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے فتحون سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔

٩۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ ) نے بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' معجم

البلدان'' میں درج کیا ہے ۔

١٠۔ حمیری ( وفات ٩٠٠ھ ) نے براہ راست سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' الروض المعطار''

۲۴۶

میں نقل کیا ہے ۔

ان تمامعتبر اور اہم منابع کے پیش نظر اگر ہمارے زمانے کا کوئی مؤلف ،فتوحات اسلامی کے کسی سپہ سالار کے بارے میں کوئی کتاب تالیف کرنا چاہے تو وہ یہ حق رکھتا ہے کہ زربن عبد اللہ فقیمی کو ایک شجاع کمانڈر ،ایک سیاستدان اور موقع شناس صحابی کے طور پر اپنی کتاب میں تشریح و تفصیل کے ساتھ درج کرے ، جب کہ یہ مؤلف اور دیگر تمام مذکورہ علماء اس امر سے غافل ہیں کہ حقیقت میں زربن عبد اللہ فقیمی نام میں کسی صحابی یا سپہ سالار کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ صرف سیف بن عمر تمیمی کے خیالات اور توہمات کی مخلوق اور جعل کیا ہوا ہے ۔ اور یہ وہی سیف ہے جس پر زندیقی ، دروغ گو ئی اور افسانہ نگاری کا الزام ہے !!

افسانہ زر کا ماحصل

سیف نے زر کا افسانہ گڑھ کر اپنے لئے درج ذیل نتائج حاصل کئے ہیں :

١۔ فتوحات میں لشکر اسلام کا ایک ایسا سپہ سالار خلق کرتا ہے جو صحابی اور مہاجر ہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس اور اس کے خاندان تمیم کے لئے دعا کرے اور خدائے تعالیٰ نے بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا قبول فرما کر اس کی نسل میں اضافہ کیا ۔

٢۔ ایک امین اور پارسا ایلچی کو خلق کرتا ہے تاکہ جنگی غنائم اور ایک عجیب و غریب ہاتھی کو لے کر خلیفہ ابو بکر کی خدمت میں جائے ۔

٣۔ قحطانی یمانیوں کے ذریعہ حاصل ہوئے تمام افتخارات اور فتوحات کو اپنے خاندانی تعصب کی پیاس بجھانے کے لئے عدنانیوں اور مضریوں یعنی اپنے خاندان سے نسبت دیتا ہے۔

٤۔ جندی شاپور کی فتح کے لئے اپنے افسانے میں مکنف نام کا ایک غلام خلق کرتا ہے تاکہ جندی شاپور کے باشندوں کو دئے گئے اس کے امان نامہ کی خلیفہ تائید کرے ۔

٥۔ سر انجام ، جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ سیف اپنے خاندان تمیم کے لئے افتخارات گڑھ کر اپنے خاندانی تعصب کی اندرونی آگ کو بجھاتا ہے اور زندیقی ہونے کے الزام کے تحت تاریخ اسلام کو تشویش سے دو چار کرکے اس امر کا سبب بنتا ہے کہ اسلامی اسنادمیں شک و شبہات پیدا کرے ۔

۲۴۷

بیسواں جعلی صحابی اسود بن ربیعہ حنظلی

'' اسود بن ربیعہ'' کی زندگی کے حالات پر '' اسد الغابہ' ' ، '' التجرید '' ، الاصابہ '' اور تاریخ طبری جیسی کتابوں میں روشنی ڈالی گئی ہے اور ان تمام کتابوں کی روایت کا منبع سیف بن عمر تمیمی ہے

ایک مختصر اور جامع حدیث

طبری اپنی کتاب میں سیف بن عمر سے نقل کرکے رامہر مز کی فتح کی خبر کے سلسلے

میں لکھتا ہے ۔

مقترب یعنی '' اسود بن ربیعہ بن مالک ''جو صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مہاجرین میں سے تھا ، جب پہلی بار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی :

میں آیا ہوں تاکہ آپ کی ہم نشینی اور ملاقات کا شرف حاصل کرکے خدائے تعالیٰ سے نزدیک ہو جائوں ۔ اسی لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے مقترب ( یعنی نزدیک ہوا ) کا لقب دے دیا ۔

کتاب اسد الغابہ اور الاصابہ میں مذکورہ حدیث اس طرح نقل ہوئی ہے ۔

سیف نے ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ مالک بن حنظلہ کا نواسہ اسود بن ربیعہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں شرف یاب ہوا ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

۲۴۸

میرے پاس کس لئے آئے ہو؟

اسود نے جواب دیا :

تا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہم نشینی کا شرف حاصل کرکے خدا کے نزدیک ہو جائوں ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے مقترب ( یعنی نزدیک ہوا ) لقب دیا اور اس کا اسود نام متروک ہوگیا ۔

اسود یعنی مقترب ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی شمار ہوتا ہے ۔ وہ صفین کی جنگ میں امام علی کے ساتھ تھا ۔

یہ حدیث جس کی روایت سیف نے کی ہے اسی طرح بالترتیب کتاب اسد الغابہ اور الاصابہ میں درج ہوئی ہے ،ابو موسیٰ اور ابن شاہین ،نے اس سے نقل کیا ہے ۔ مقانی نے بھی اس مطلب کو ابن حجر سے نقل کرکے اپنی کتاب '' تنقیح المقال '' میں درج کیا ہے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسود کو نمایاں کرنے کے لئے سیف کے پاس ایک اور حدیث ہے کہ جسے طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور ابن اثیر نے بھی اسی کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اس کے علاوہ ہمیں یاد ہے کہ سیف بن عمر نے ایک حدیث کے ضمن میں زر کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے اور اس کے حق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا اور ایک دوسری حدیث میں زرین کے چند تمیمیوں کے ہمراہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس کے اور اس کی اولاد کے حق میں دعا کرنے کی داستان بیان کی ہے ۔

سیف نے ان احادیث میں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور شرف یاب ہونے والے تمیمی گروہوں کا تعرف کرایاہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے نام اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساتھ ان کی گفتگو درج کی ہے ۔

اس کے ساتھ ہی ابن سعد ، مقریزی اور ابن سیدہ جیسے تاریخ نویسوں اور دانشمندوں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے والے گروہوں کے نام لئے ہیں اور جو بھی گفتگو ان کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انجام پائی ہے ،اسے ضبط و ثبت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک میں سیف کی بیان کی گئی داستانوں میں سے کسی کا بھی کہیں کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا ہے ۔

۲۴۹

بلکہ ان مورخین نے قبیلہ تمیم کے نمائندوں کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کے بارے میں ایک دوسری روایت حسب ذیل بیان کی ہے :

'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' بنوخزاعہ'' کے صدقات جمع کرنے والے مامور کو حکم دیا کہ سر زمین '' خزعہ '' میں رہنے والے بنی تمیم کے افراد سے بھی صدقات جمع کرے ۔ تمیمیوں نے اپنے صدقات ادا کرنے سے انکار کیا اور ایسا رد عمل دکھایا کہ سر انجام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مامور کے خلاف تلوار کھینچ لی ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ مجبور ہوکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس روئداد کی رپورٹ پیش کی ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' عیینہ بن حصن فزاری'' کو پچاس عرب سواروں

جن میں مہاجر و انصار میں سے ایک نفر بھی نہیں تھا کی قیادت سونپ کر تمیمیوں کی سر کوبی کے لئے بھیجا۔ اس گروہ نے تمیمیوں پر حملہ کرکے ان میں سے ایک گروہ کو قیدی بنا کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا دیا۔

اس واقعہ کے بعد خاندان تمیم کے چند رؤسا اور سردار مدینہ آئے اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہوتے ہی فریاد بلند کی :''اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !سامنے آئو !''ان کی اس گستاخی کی وجہ سے مذمت کے طور پر سورہ ''حجرات''کی ابتدا ئی آیا ت نازل ہوئیں ،جن میں ارشاد الٰہی ہوا :

''بیشک جو لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حجروں کے پیچھے سے پکا رتے ہیں ،ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی اور اگریہ اتنا صبر کرلیتے کہ آپ نکل کر باہر آجا تے تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد میں تمیمیوں کے پاس تشریف لائے اور ان کے مقرر کی تقریر اور شاعرکی شاعری سنی ۔اس کے بعد انصار میں سے ایک سخنور اور شاعر کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان کا جواب دے ۔اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ تمیمیوں کے قیدی آزاد کرکے ان کے حوالے کئے جائیں اور تمیمیوں کے گروہ کو ان کے شان کے مطابق کچھ تحفے بھی دیئے ۔

یہ اس داستان کاخلاصہ تھا جو ''طبقات ابن سعد ''میں تمیمیوں کے ایک گروہ کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے سلسلے میں روایت ہوئی ہے ۔

۲۵۰

گزشتہ بحث پر ایک نظر

ہم نے سیف سے روایت نقل نہ کرنے والے دانشمندوں کے ہاں اور اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے عربوں کے وفود اور نمائندوں جن کی تعداد ٧٠ سے زیادہ تھی کی روایتوں میں ''زر ''اور ''اسود''کا کہیں نام و نشان نہیں پایا اور طبقات ابن سعد میں ذکر ہوئی روایت میں بھی سیف بن عمر تمیمی کی خود ستائی اور فخر و مبا ہات کا اشارہ تک نہیں پایا ۔

کونسا افتخار ؟!کیا پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے صدقات جمع کرنے والے مامور کے ساتھ کیا گیا ان کا بر تا ئو قابل فخر ہے یا ''عینیہ فزاری ''کے ہاتھوں ان کے ایک گروہ کو اسیر اور قیدی بنانا ،کہ نمونہ کے طور پر قبیلہ تمیم پر حملہ کرنے والے گروہ میں حتیٰ ایک فرد بھی انصار یا مہاجر میں سے موجود نہ تھا ؟! یا مسجد النبی میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کرنا قابل فخر تھا یا قرآن مجید میں ان کے لئے ذکر ہوئی مذمت اور سرکوبی ؟!

فتح شوش کا افسانہ

طبری نے ١٧ھکے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرکے شوش کی فتح کی داستان یوں بیان کی ہے :

''شوشتر ''اور ''رامہزر''کی فتح کے بعد خلیفہ عمر نے ''اسود''کو بصرہ کی فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا ۔اس نے بھی اپنی فوج کے ساتھ شوش کی فتح میں جس کا کمانڈر انچیف ابو سبرہ قریشی تھا شرکت کی ہے ۔

اس کے بعد طبری شوش کی فتح کی کیفیت کو سیف کی زبانی یوں بیان کرتا ہے :

شوش کا فرمان روا ''شہریار ''''ہرمزان ''کا بھائی تھا ۔''ابو سبرہ ''نے شوش پر حملہ کیا اور بالاخر اسے اپنے محاصرہ میں لے لیا ۔

اس محا صرہ کی پوری مدت کے دوران طرفین کے در میان کئی بار گھمسان کی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ۔زخمیوں کی بھی کافی تعداد تھی ۔جب محاصرہ طول پکڑگیا تو شوش کے راہبوں اور پادریوں نے شہر کے قلعے کے برج پر چڑھ کر اسلام کے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر یہ اعلان کیا :

۲۵۱

اے عرب کے لوگ!جیسا کہ ہمیں خبر ملی ہے اور ہمارے علماء اور دانشمندوں نے ہمیں اطمینا ن دلایا ہے کہ یہ شہر ایک ایسا مستحکم قلعہ ہے جسے خود دجال یا جن لوگوں میں دجال موجود ہو،کے علاوہ کوئی فتح نہیں کرسکتا ہے !اس لئے ہمیں اور اپنے آپ کو بلاوجہ زحمت میں نہ ڈالو اور اگر تم لوگوں کے اندر دجال موجود نہیں ہے تو ہماری اور اپنی زحمتوں کو خاتمہ دے کر چلے جائو ۔کیونکہ ہمارے شہر پر قبضہ کرنے کی تمہاری کوشش بار آور ثابت نہیں ہوگی !!

مسلمان شوش کے پادریوں کی باتوں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے پھر ایک بار ان کے قلعہ پر حملہ آور ہوئے ۔راہب اور پادری پھر قلعہ کے برج پر نمودار ہوکر تند وتلخ حملوں سے مسلمانوں سے مخاطب ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمان غصہ میں آگئے ۔

لشکر اسلام میں موجود ''صاف بن صیاد ''(۱) حملہ آور گروہ میں قلعہ پر حملہ کر رہا تھا ۔ان (پادریوں ) کی باتوں کو سن کر غصہ میں آگیا اور اس نے تن تنہا قلعہ پر دھاوابول دیااور اپنے پیر سے قلعہ کے دروازے پر ایک زور دار لات ماردی اور گالی دیتے ہوئے کہا ''کھل جا بظار ''!(۲) کہ اچانک لوہے کی زنجیریں ٹوٹ کر ڈھیر ہوگئیں ۔کنڈے اور بندھن ٹوٹ کر گرگئے اور دروازہ کھل گیا ۔ مسلمانوں نے شہر پر دھاوا بول دیا !

مشرکوں نے جب یہ حالت دیکھی تو انھوں نے فورا اسلحہ زمیں پر رکھ کر صلح کی درخواست کی مسلمانوں نے ،اس کے باوجودکہ شہر پر زبردستی قبضہ کرچکے تھے ان کی درخواست منظور کر لی ۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ اس داستان کو طبری نے سیف سے نقل کرکے شوش کی فتح کے سلسلے میں درج کیا ہے ۔ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی اسے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

لیکن طبری نے شوش کی فتح کی داستان سیف کے علاوہ دوسروں سے بھی روایت کی ہے ۔ وہ مدائنی کی زبانی شوش کی فتح کے بارے میں حسب ذیل تشریح کرتا ہے۔

ابو موسیٰ اشعری شوش کا محاصرہ کئے ہوئے تھا کہ جولار کی فتح اور یزدگرد ( آخری ساسانی پادشاہ ) کے فرار کی خبر شوش کے لوگوں کو پہنچی ،لہٰذا وہ لڑنے کے ارادہ کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئے اور ابو موسیٰ سے امان کی درخواست کی ، ابو موسیٰ نے ان کو امان دے دی۔

____________________

الف )۔ مکتب خلفاء کی صحیح کتابوں میں ایسا ذکر ہوا ہے کہ '' صاف بن صیاد '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں مدینہ میں پیدا ہوا ہے اور '' دجال '' کے نام سے مشہور تھا اور ایسا لگتا ہے کہ سیف نے شوش کی فتح کے اپنے افسانہ کے لئے صاف کی اس شہر ت سے استفادہ کیا ہے ۔ صحیح بخاری ١٦٣٣،اور ١٧٩٢۔ مسند احمد ٧٩٢و٩٧)

۲)۔ یہ یک ننگی اور بری گالی ہے ۔ اس کا ترجمہ کرنا شرم آور تھا ۔ اس لئے ہم نے اس کلمہ کو من عن استعمال کیا ہے ۔ مترجم ۔

۲۵۲

بلاذری نے بھی اپنی کتاب فتوح البلدا ن میں شوش کی فتح کی خبر کو اس طرح درج کیا ہے :

ابو موسیٰ اشعری نے شوش کے باشندوں سے جنگ کی ، سر انجام ان کو اپنے محاصرے میں لے لیا ۔ اس محاصرہ کا وقفہ اتنا طولانی ہوا کہ محاصرہ میں پھنسے لوگوں کے کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئیں اور لوگوں پر فاقہ کشی و قحطی چھا گئی جس کے نتیجہ میں انھوں نے ابوموسیٰ اشعری سے عاجزانہ طور پر امان کی درخواست کی ۔ ابو موسیٰ نے ان کے مردوں کو قتل کر ڈالا ، ان کے مال و متاع پر قبضہ کر لیا اور ان کے اہل خانہ کو اسیر بنا لیا ۔

ابن قتیبہ دینوری نے اس داستان کو مختصر طور پر اپنی کتاب اخبار الطوار میں لکھا ہے اور ابن خیاط نے بھی اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ابوموسیٰ اشعری نے شہر شوش کو ١٨ ھ میں مذاکرہ اور صلح کے ذریعہ فتح کیا ہے ۔

موازنہ اور تحقیق کا نتیجہ

سیف کہتا ہے کہ شوش کی فتح مسلمانوں کی فوج میں دجال کی موجودگی کے سبب ہوئی ہے ۔ اور اس خبر کے بارے میں اس شہر کے راہبوں اور پادریوں نے اسلام کے سپاہیوں کو مطلع کیا تھا ! اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ ابن صیاد نے قلعہ کے دروازے پر لات ماری اور چلا کر کہا : ''کھل جا.... '' تو ایک دم زنجیر یں ٹوٹ گئیں ، دروازے کے کنڈے اور بندھن گر کر ڈھیر ہو گئے اور دروازہ کھل گیا ۔ شوش کے باشندوں نے ہتھیار رکھ دیئے اور امان کی درخواست کی ۔

اس جنگ کا کمانڈر انچیف ابو سبرہ قرشی تھا اور قبیلہ تمیم عدنانی کے زر اور اسود نامی سیف کے دو جعلی اصحاب بھی اس کے دوش بدوش اس جنگ میں شریک تھے !!

۲۵۳

لیکن سیف کے علاوہ دیگر مورخین نے شوش کی فتح کے عوامل کے سلسلے میں جلولاء میں ایرانیوں کی شکست اور اس شہر کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا اور ساسانیوں کے آخر ی پادشاہ یزدگرد کے فرار کی خبر کا شوش پہنچنا اور شوش کی محاصرہ گاہ میں کھانے پینے کی چیزوں کے ذخائر کا ختم ہونا اور دوسرے جنگی مشکلات بیان کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ شوش کے لوگ اسلامی فوج اور ان کے کمانڈر انچیف ابو موسیٰ اشعری یمانی قحطانی سے عاجزانہ طور پر امان کی درخواست کرنے پر مجبور ہو ئے ۔

سیف میں اپنے قبیلہ تمیم و عدنان کے بارے میں خاندانی تعصب کو ٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ اسی کے سبب وہ ابو موسیٰ اشعری قحطانی کو گورنر ی کے عہدے سے برکنار کرکے اس کی جگہ پر ابوسبرہ عدنانی کو منصوب کرتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ بعید نہیں ہے سیف نے اہواز کی جنگ اور شوش کی فتح کو اس لئے ابو سبرہ عدنانی سے نسبت دی ہوگی تاکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مرتکب ہوئے اس کے ناشائستہ کام کے بد نما داغ کو پاک کر ۔ کیوں کہ عام تاریخ نویسوں نے لکھا ہے :

ہمیں جنگ بدر میں شرکت کرنے والے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب و مہاجرین میں سے ابو سبرہ کے علاوہ کسی ایک کا سراغ نہیں ملتا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مکہ چلا گیا ہو اور وہاں پر رہائش اختیار کی ہو صرف ابو سبرہ نے ایسا کام کیا ہے اور وہ مرتے دم تک وہیں پر مقیم تھا ۔ خلافت عثمان میں اس کی موت مکہ میں واقع ہوئی ہے ۔مسلمانوں کو ابو سبرہ کا یہ کام بہت برا لگا اور انھوں نے اس کی سرزنش کی ، حتیٰ اس کے فرزند بھی اپنے باپ کے اس برے اور ناشائستہ کام کو یاد کرکے بیقرار اور مضطرب ہوتے تھے ۔

۲۵۴

ابو سبرہ جو اس ناشائستہ کام کا مرتکب ہو کر مسلمانوں کی طرف سے مورد سرزنش قرار پایا تھا ، یہاں سیف اس کے اس بد نما داغ کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اس کے مکہ جا کر وہاں رہائش اختیار کرنے کا منکر ہوجا تا ہے ۔ اس لئے عمر کی خلافت کے دوران اسے کوفہ کی حکومت پر منصوب کرتا ہے اور اسے خلیفہ کی سپاہ کے کمانڈر کی حیثیت سے شوش ، شوشتر ، جندی شاپور اور اہواز کے اطراف میں واقع ہوئی دوسری جنگوں میں بھیجتا ہے تاکہ یہ ثابت کرے کہ ابو سبرہ ہجرت کے بعد ہر گز مکہ جاکر وہاں ساکن نہیں ہوا ہے ، بلکہ اس کے برعکس اس نے خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے تلوار اٹھائی ہے ۔

ایسی داستانوں کی منصوبہ بندی میں سیف کا قبائل عدنان کے بارے میں تعصب اور طرفداری کی بنیاد پر قحطانی قبائل سے اختیارات سلب کرنا بخوبی واضح اور روشن ہے ۔ وہ ایک فرد یمانی کی عظمت ، و بزرگی اور عہدے کو اس سے سلب کرکے اسی مقام و منزلت پر ایک عدنانی کو منصوب کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر قبیلہ عدنان کا یہ فرد کسی برے اور ناشائستہ کام کی وجہ سے مورد سرزنش و مذمت قرار پیا ہو تو ایک افسانہ گڑھ کے نہ صرف اس ناشائستہ کام سے اس کے دامن کو پاک کرتا ہے بلکہ اس کے لئے فخر و مباہات بھی خلق کرتا ہے ۔

لیکن حقیقت میں جو کچھ گزرا اگر اسے سیف کے خاندانی تعصب سے تعبیر کریں تو فتح شوش کی خبر ، جو دجال کے قلعہ کے دروازے سے لفظ کھل جا کہہ کر خطاب کرنے کی وجہ سے رو نما ہوئی اور اس دروازے پر لات مارنے سے زنجیر وں کے ٹوٹنے کو کس چیز سے تعبیر کریں گے ؟ اس افسانہ سے قبائل عدنان کے لئے کون سے فخر و مباہاتقائم ہوئے ؟! اس افسانہ کو خلق کرنے میں سیف کا صرف زندیقی ہونا کارفرما تھا تاکہ اس طرح وہ تاریخ اسلام میں شبہ پھیلا کر مسلمانوں کے اعتقادات کے خلاف پوری تاریخ میں اسلام دشمنوں کے لئے اسلام کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کرے ؟!۔

۲۵۵

اسود بن ربیعہ کا رول

جندی شاپور کی جنگ

سیف کہتا ہے کہ اسود بن ربیعہ نے زربن عبد اللہ کے ساتھ جندی شاپور کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خلیفہ عمر نے اس کے ہاتھ نعمان مقرن کے نام ایک خط دے کر اسے نہاوند کی جنگ کے لئے مامور کیا ہے ۔

اسود خاندان تمیم کے ان سپاہ سالار وں میں تھا جنھیں خلیفہ عمر ابن خطاب نے حکم دیا تھا کہ فارس کے علاقہ کے لوگوں کو مشغول رکھ کر نہاوند کے باشندوں کو مدد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا کریں ۔ تمیمیوں نے عمر کے فرمان کوعملی جامہ پہنانے کے لئے اسود بن ربیعہ کے ہمراہ اصفہان اور فارس کی طرف عزیمت کی اور وہاں کے لوگوں کی طرف سے نہاوند کے باشندوں کومدد پہچانے میں زبر دست رکاوٹ ڈالی ۔

سیف نے یہ افسانہ خلق کیا ہے اور طبری نے اسے نقل کیا ہے اور ابن اثیر نے بھی اسی کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

صفین کی جنگ میں

ابن حجر کی کتاب ''الاصابہ''میں سیف بن عمر سے نقل کرکے لکھا گیا ہے کہ اسود بن ربیعہ نے امام علی علیہ السلام کے ہمراہ صفین کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔

ہم نے ''نصر بن مزاحم ''کی کتاب ''صفین ''(جوجنگ صفین کے بارے میں ایک مستقل کتاب ہے )اور کتاب ''اخبارالطوال''اور''تاریخ طبری ''اور دیگر روایتوں کے منابع میں اس طرح کی کوئی خبر اس نام سے نہیں پائی ۔

۲۵۶

جو کچھ سیف نے کہا ہے اور کتاب ''الاصابہ ''میں درج ہواہے ۔اس میں ''مامقانی''نے جزئی طور پر تصرف کرکے روایات کے مصادر کاذکر کئے بغیر لکھا ہے :

اسود نے امیر المؤمنین کے ہمراہ صفین کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔اسی سے پتاچلتا ہے کہ وہ ایک نیک خصال شخص تھا۔

حقیقت میں مامقانی نے ''الاصابہ ''کے مطالب پر اعتماد کرتے ہوئے اسود کو امام علی کے شیعوں میں شمار کیا ہے۔

شیعوں کی کتب رجال میں تین جعلی اصحاب

ہم نے سیف کے افسانوں کی تحقیقات کے ضمن میں پایا کہ وہ اپنے افسانوں کو لوگوں کی خواہشات ، حکام اور سرمایہ داروں کی مصلحتوں کے مطابق گڑھتا ہے اور اس طرح اپنے جھوٹ کو پھیلانے اور افسانوں کو بقا بخشنے کی ضمانت مہیا کرتا ہے.

سیف نے جس راہ کوانتخاب کیا تھا اس کے پیش نظر اس نے عراق میں شیعیان علی اور اہلبیت کے دوستداران کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔ لہٰذا وہ ان کی توجہ اپنی اور اپنے افسانوں کی طرف مبذول کرانے میں غافل نہیں رہا ہے ۔ اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے اپنے بے مثال افسانوی سورما قعقاع تمیمی کو امام علی کا حامی اور کارندہ کے عنوان سے پہچنوا یا ہے ۔ اور اس کو جنگ جمل میں علی کے ہمراہ لڑتے دکھایاہے۔ زیاد بن حنظلہ کو علی اور شیعیان علی کا دوست جتلاتا ہے اور اسے حضرت علی کی تمام جنگوں میں ان کے دوش بدوش شرکت کرتے ہوئے دکھاتا ہے اور سر انجام اسود بن ربیعہ کو صفین کی جنگ میں حضرت علی کے ہم رکاب دکھاتا ہے۔اس طرح ان تین جعلی اصحاب کو مختلف جنگوں اور فتوحات میں شیعہ سرداروں کے عنوان سے پیش کرتا ہے۔

۲۵۷

گزشتہ بحث پر ایک سرسری نظر

سیف نے دو احادیث کے ذریعہ اسود کانسب ، اس کی پیغام رسانی اور اس کا صحابی ہونا بیان کیا ہے۔ ان میں سے ایک کی روایت ابن شاہین اور ابو موسیٰ نے سیف سے کی ہے پھر بعض دانشمندوں نے اس حدیث کو ان سے نقل کیا ہے۔

دوسری حدیث کو طبری نے سیف سے نقل کیاہے اور ابن اثیر نے اس حدیث کو اس سے نقل کیا ہے ۔

چونکہ تمیمیوں کے وفد کی داستان جسے دیگر مورخوں نے ذکر کیا ہے مذکورہ قبیلہ کے لئے کوئی قابل توجہ فخر و مباہات کی خبر نہیں ہے،اس لئے اس کمی کی تلافی کے لئے سیف نے تمیمیوں کے وفد کے حق میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کا افسانہ خلق کیا ہے۔

شوش کی فتح میں بھی دجّال اور اس کے قلعہ کے دروازہ پر لات مارنے اور اس کے غی بے ادبانہ خطاب کو بیان کرتا ہے ۔ ایک قحطانی شخص سے فوج کی کمانڈ چھین کر ابوسبرہ عدنانی کو یہ عہدہ سونپتا ہے اور اپنے دو جعلی اصحاب''زر''و ''اسود'' کو اس کے ساتھ بتاتا ہے ۔ اور اس طرح یہ مقام و منزلت یمانی قحطانیوں سے سلب کر کے عدنانی مضریوں کو تفویض کرتا ہے۔

''ابو سبرہ'' کے مدینہ ہجرت کرنے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد پھر سے مکہ جانے کے ناشائستہ اور منفور کام کا ایک افسانہ کے ذریعہ منکر ہوتا ہے اور اس طرح مسلمانوں کی سرزنش و سرکوبی سے ''ابو سیرہ'' کو نجات دلاتا ہے ۔

طبری نے ان جھوٹ کے پلندوں کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور ابن اثیر و ابن کثیر نے بھی طبری سے نقل کرکے انہی مطالب کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

ہم نے شوش کی فتح میں دجّال کی وجہ سے تمیمیوں کے لئے کوئی فضیلت و افتخار نہیں پایا۔ لہٰذا اس افسانہ کے بارے میں ہم شک میں پڑے اور یہ تصور کیا کہ دجّال کا افسانہ خلق کرنے میں سیف کا زندیقی ہونا محرک تھا تا کہ تاریخ اسلام میں شبہ پیدا کر کے دشمنوں کو اسلام کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کرے۔

سیف نے جندی شاپور کی جنگ میں اسود کو اپنے خاندان تمیم کے تین دیگر جعلی سرداروں کے ساتھ جنگ کرتے دکھایا ہے تا کہ وہ فارس کے نواحی علاقوں میں چوکس رہ کر نہاوند کے باشندوں کو ایرانیوں کی طرف سے مدد پہونچنے میں رکاوٹ بنیں ۔

سیف اسود کو صفین کی جنگ میں امام علی کے ساتھ دکھا تا ہے تا کہ اس طرح اسود کا نام شیعیان امام علی کے مذکورہ تین جعلی سرداروں میں شامل ہوجائے۔

۲۵۸

''زر'' و ''اسود'' کے افسانہ کا سرچشمہ

''زر'' و ''اسود'' کے افسانہ کا سرچشمہ صرف سیف بن عمر تمیمی ہے اور مندرجہ ذیل منابع و مصادر نے اس افسانہ کی اشاعت میں دانستہ یا نادانستہ طور پر سیف کی مدد کی ہے :

١۔ طبری نے بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن شاہین (وفات ٣٨٥ھ ) نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب'' معجم ا لشیوخ ''میں درج کیا ہے ۔

٣۔ ابو موسیٰ ( وفات ٥٨١ھ )نے سیف سے نقل کرکے کتاب ''اسما ء الصحابہ'' کے حاشیہ میں درج کیا ہے ۔

٤۔ ابن اثیر نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٥۔ ابن کثیر نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٦۔ ابن اثیر نے ایک بار پھر ابوموسیٰ سے نقل کرکے اپنی کتاب اسد الغابہ میں درج کیا ہے ۔

٧۔ ذہبی نے ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' التجرید '' میں درج کیا ہے۔

٨۔ ابن حجر نے ابن شاہین سے نقل کرکے اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

٩۔ مامقانی نے ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' سے نقل کرکے اپنی کتاب تنقیح المقال میں درج کیا ہے۔

ان افسانو ں کا نتیجہ

١۔ قبیلہ بنی تمیم سے ایک صحابی ، مہاجر اور لائق کمانڈر کی تخلیق ۔

٢۔ تاریخ نویسوں اور اہل علم کی طرف سے لکھے گئے حقائق کے بر خلاف خاندان تمیم سے ایک

خیالی وفد کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بھیجنا۔

٣۔ حضرت علی علیہ السلام کے ایک صحابی کو خلق کرکے حضرت کے خاص شیعوں کی فہرست میں

قرار دینا ۔

۲۵۹

٤۔ فتح شوش کاافسانہ ، فرضی دجال کی بے ادبی ، راہبوں اور پادریوں کی زبانی افسانہ کے اندر

افسانہ خلق کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہات بیان کرنا ۔ اس طرح تذبذب و تشویش

ایجاد کرکے تاریخ اسلام کو بے اعتبار کرنے کی سیف کی یہ ایک چال تھی ۔

اسود بن ربیعہ یا اسود بن عبس

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا ،وہ ''مالک کے نواسہ اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں سیف کی روایات کا خلاصہ تھا کہ بعض دانشمندوں نے سیف کی ان ہی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے اسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی اصحاب میں شمار کیا ہے ۔

لیکن دانشمندوں نے '' کلبی '' سے نقل کرکے مالک کے نواسہ '' اسود بن عبس '' کے نام سے ایک اور صحابی کا تعارف کرایا ہے ۔ کلبی نے اس کے شجرہ نسب کو سلسلہ وار صورت میں '' ربیعہ بن مالک بن زید مناة '' تک پہنچایا ہے ۔ اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں جو روایت بیان کی گئی ہے وہ اسود بن ربعہ کے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پہنچنے کی روایت کے مشابہ ہے ۔ انساب کے علماء ، جنھوں نے '' اسود بن عبس '' کے حالات اور اس کا نسب اور اس کا صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونا بتایا ہے ، انھوں نے کلبی کی نقل پر اعتماد کیا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ سیف بن عمر نے '' اسود بن ربیعہ '' کو جعل کرنے کے لئے اسے اسود بن عبس کا چچا زاد بھائی تصور کیا ہے ، کیوں کہ جس حنظلہ کے نسب کو سیف ،ابو اسود ربیعہ پر منتہی کرتا ہے وہ مالک بن زید مناة کا بیٹا ہے اور اس کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پہنچنے کی خبر کو اسود بن عبس کے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضورمشرف ہونے سے اقتباس کرکے اپنے افسانہ سازی کی فکر سے مدد حاصل کرکے اس خبر میں دلخواہ تحریف کی ہے ۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371