ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138208 / ڈاؤنلوڈ: 4307
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

اس قسم کے طاغوتوں کی حکومت سے دفاع کرتے ہیں_

ان کی مدد کرنے والوں کی حمایت و مدد کے بغیر ظالم طاغوت کس طرح لوگوں کے حقوق کو ضائع اور ان پر ظلم کرسکتے ہیں؟ پس جتنے لوگ ظلم و ستم کی حکومت میں ان کی مدد کرتے ہیں وہ خود بھی ظالم ہوتے ہیں اور ظلم و خیانت میں شریک ہوتے ہیں اور اخروی عذاب و سزا میں بھی ان کے شریک ہوں گے_

برخلاف ان لوگوں کے جو اسلامی حکومت اور اسلام کے قوانین جاری کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے اور محروم طبقے کے حقوق سے دفاع کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالی کے ثواب کی جزاء میں شریک ہوں گے_

قرآن کی آیات:

( و انّ الظّالمین بعضهم اولیاء بعض و الله وليّ المتّقین ) (۱)

'' ظالم ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ پرہیز گاروں کا ولی ہے''

( و لا ترکنوا الی الّذین ظلموا فتمسّکم النّار ) (۲)

'' خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہنم کی آگ تمھیں چھوئے گی ''_

____________________

۱) سورہ جاثیہ آیت ۱۹

۲) سورہ ہود آیت ۱۱۳

۲۲۱

سوالات

یہ سوالات سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں

۱)___ جب اس جوان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے (حکومت بنی امیہ میں) کام کرنے کے متعلق پوچھا تھا تو امام (ع) نے اس کا کیا جواب دیا تھا اور امام (ع) نے اس کے لئے کیا دلیل دی تھی؟

۲)___ امام (ع) نے اس جوان کو نجات کا راستہ کیا بتایا تھا اور اسے کس چیز کی ضمانت دی تھی؟

۳)___ وہ جوان توبہ کرنے سے پہلے کیا سوچ رہا تھا اور اس مدت میں اس نے کیا سوچا؟

۴)___ اس جوان نے کس طرح توبہ کی اور کس طرح اپنے آپ کو اس گناہ سے نجات دی ؟

۵)___ اس بیماری جوان نے آخری وقت میں اپنے دوست سے کیا کہا تھا؟

۶)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ظالموں کی مدد نہ کرنے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۷)___ قیامت کے دن منادی کیا ندا دے گا اور خداوند عالم کی طرف سے کیا حکم ملے گا؟ کون لوگ ظالموں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے؟

۲۲۲

اسلام میں جہاد اوردفاع

جہاد ہر مسلمان پر واجب ہے اور یہ انسان کو آزادی دلاتا ہے_

جہاد کرنے والا آخرت میں بلند درجہ اور خدا کی خاص رحمت و مغفرت کا مستحق ہوتا ہے_

جہاد کرنے والا میدان جنگ میں آکر اپنی جان کو جنّت کے عوض فروخت کرتا ہے_

یہ معاملہ بہت سودمند ہوتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کی رضا ہر جزا سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' جو لوگ خدا کی راہ میں اس کے بندوں کی آزادی کے لئے قیام و جہاد کرتے ہیں وہ قیامت میں جنّت کے اس دروازہ سے داخل ہوں گے جس کا نام '' باب مجاہدین'' ہے اور یہ دروازہ صرف مجاہد مومنین کے لئے ہی کھولا جائے گا_ مجاہدین بہت شان و شوکت اور عزّت و وقار سے ہتھار اٹھائے تمام لوگوں کے سامنے اور سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے_

اللہ تعالی کے خاص مقرّب فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور دوسرے جنّتی ان کے مقام کو دیکھ کر غبطہ کریں گے اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ و جہاد کو ترک کردے تو خداوند عالم سے ذلّت و خواری کا لباس پہنائے گا وہ زندگی میں فقیر و نادار ہوگا اور

۲۲۳

اپنے بدن سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہوگا_ خداوند عالم امت اسلامی کو اسلحہ پر تکیہ کرنے اور گھوڑوںو سواریوں کی رعبدار آواز کی جہ سے عزّت و بے نیازی تک پہونچاتا ہے''_

جو مومن مجاہدین ایسے جہاد میں جو نجات دینے والا ہوتا ہے جنگ کے میدان میں متّحد ہوکر صفین باندھتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کر کھڑے ہوجاتے ہیں انھیں چاہیئے کہ حدود الہی کی رعایت کریں اور اس گروہ سے جس سے جنگ کر رہے ہیں پہلے یہ کہیں کہ وہ طاغوت و ظالم کی اطاعت سے دست بردار ہوجائیں اورا للہ کے بندوں کو طاغوتوں کی قیدو بند سے آزاد کرائیں اور خود بھی وہ اللہ تعالی کی اطاعت کریں، اللہ کی حکومت کو تسلیم کریں اگر وہ تسلیم نہ ہوں اور اللہ تعال کی حکومت کو قبول نہ کریں تو اس وقت ان سے امام علیہ السلام یا امّت اسلامی کے رہبر نائب امام (ع) کے اذن و اجازت سے جنگ کریں اور مستکبر و طاغوت کو نیست و نابود کردیں اور اللہ کے بندوں کو اپنی تمام قوت و طاقت سے دوسروں کی بندگی اور غلامی سے آزاد کرائیں_ اس راہ میں قتل کرنے اور قتل کئے جانے سے خوف نہ کریں کہ جس کے متعلق امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

'' سب سے بہترین موت شہادت کی موت ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے ہزار دفعہ تلوار کی ضرب سے مارا جاؤں تو یہ مرنا میرے لئے اس موت سے زیادہ پسند ہے کہ اپنے بستروں پر مروں''_

۲۲۴

وہ جہاد جو آزادی دلاتا ہے وہ امام (ع) یا نائب امام (ع) کے اذن سے ہوتا ہے اور اس طرح کا جہاد کرنا صرف طاقتور، توانا اور رشید مردوں کا وظیفہ ہے لیکن کس اسلامی سرزمین اور ان کی شرافت و عزّت پر کوئی دشمن حملہ کردے تو پھر تمام زن و مرد پر واجب ہے کہ جو چیز ان کے قبضہ میں ہوا سے لے کر اس کا دفاع کریں_

اس صورت میں جوانوں کو بھی دشمن پر گولہ بار کرنی ہوگی اور لڑکیوں پر بھی ضروری ہوگا کہ وہ دشمن پر گولیاں چلائیں تمام لوگ اسلحے اٹھائیں حملہ آور کو اپنی سرزمین سے باہر نکال دیں اور اگر ان کے پاس سنگین اسلحہ نہ ہو تو پھر پتھر اور لاٹھیوں سے د شمن پر ٹوٹ پڑیں اپنی جان کوقربان کردیں، پوری طاقت سے جنگ کریں اور خود شہادت کے رتبہ پر فائز ہوجائیں اور اپنی آنے والی نسلوں و جوانوں کے لئے شرافت و عزّت کو میراث میں چھوڑ جائیں_

اس قسم کا جہاد کہ جس کا نام دفاع ہے اس میں امام (ع) یا نائب امام (ع) کی اجازت ضروری نہیں ہوتی اس لئے کہ اسلامی معاشرے کی عزّت و شرافت اتنی اہم ہوتی ہے کہ اسلام نے ہر مسلمان پر واجب کیا ہے کہ بغیر امام (ع) یاا س کے نائب کی اجازت کے دفاع کرے

مندرجہ ذیل واقعہ میں کس طرح مسلمانوں نے بالخصوص عورتوں نے کفّار کے حملہ و اسلام کی عزّت اور اسلامی سرزمین کا دفاع کیا ہے مشاہدہ کرسکتے ہیں:

فداکار اور جری خاتون:

مدینہ میں یہ خبر پہونچی کہ کفّار مکہ حملہ کی غرض سے چل چکے ہیں اور وہ انقلاب اسلامی کے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھنیکیں گے، انصار و مہاجرین کے گھروں کو تباہ کردیں گے_

۲۲۵

پیغمبر اسلام(ص) نے فوراً جہاد کا اعلان کرادیا اور مسلمان گروہ در گروہ ان کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے دشمن مدینہ کے نزدیک پہونچ چکے تھے اور مسلمان ان کے مقابلہ کے لئے صف آرا ہوگئے ان کا راستہ روک کر ان کی پیش قدمی کو روک دیا_

عورتوں کا ایک فداکار اور با ایمان گروہ بھی اپنے شوہروں اور اولاد کے ساتھ ایمان و شرف اور اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے میدان جنگ میں پہونچ گیا_ یہ اکثر افواج اسلام کی مدد کیا کرتی تھیں فوجیوں کے لئے غذا و پانی مہیا کرتیں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں اور اپنی تقریروں سے اسلام کی سپاہ کو جہاد و جاں نثاری کے لئے تشویق دلاتی تھیں_

انھیں فداکار خواتین میں سے ایک ''نسیبہ'' تھیں جواپنے شوہر اور دو جوان بیٹوں کے ساتھ احد کے میدان میں جنگ کے لئے آئی تھیں انھوں نے بہت محبت و شوق سے پانی کی ایک بڑی مشک پر کر کے اپنے کندھے پر ڈالی اور تھکے ماندہ لڑنے والے سپاہیوں کو پانی پلا رہی تھیں، دوا اور صاف ستھرے کپڑے بھی ساتھ رکھے ہوئے تھیں اور ضرورت کے وقت زخمیوں کے زخم کو اس سے باندھتی تھیں، اپنی پر جوش اور امید دلانے والی گفتگو سے اپنے شوہر، دو بیٹوں، تمام فوجیوں اور مجاہدین کو دشمن پر سخت و تابڑ توڑ حملے کرنے کی تشویق دلا رہی تھیں_

جنگ اچھے مرحلے میں تھیں اور فتح، اسلام کے سپاہیوں کے نزدیک تھی لیکن افسوس کہ پہاڑ کے درّے پر معيّن سپاہیوں کے چند آدمی کی غفلت و نافرمانی کی وجہ سے جنگ کو نوعیت بدل گئی تھی اورمسلمانوں کے سپاہی دشمن کے سخت گھیرے میں آگئے تھے مسلمانوں کی کافی تعداد شہید ہوگئی تھی اور ان کے چند افراد جن کا ایمان قوی نہ تھا اپنے لئے ننگ و عار کو برداشت کرتے ہوئے پیغمبر (ص) کو اکیلا چھوڑ کر میدان سے فرار کر گئے تھے _

۲۲۶

پیغمبر اسلام(ص) کے پاس صرف تھوڑے سے مومن اور فداکار سپاہی رہ گئے تھے آپ (ص) کی جان خطرے میں پڑگئی تھی_ دشمن نے اپنا پورا زور پیغمبر اسلام(ص) کے قتل کرنے پر لگادیا تھا_ حضرت علی علیہ السلام اور چند دلیر سپاہی آپ کے اردگرد حلقہ باندھے ہر طرف سے حملہ کادفاع کر رہے تھے_

جنگ بہت شدید و خطرناک صورت اختیار کرچکی تھی، اسلام کے سپاہی ایک دوسرے کے بعد کینہ ور دشمن کی تلوار سے زخمی ہوکر زمین پر گر رہے تھے_ اس حالت کو دیکھنے سے جناب نسیبہ نے مشک کا تسمہ اپنے کندھے سے اتارا اور جلدی سے ایک شہید کی تلوار و ڈھال اٹھائی پیغمبر اسلام (ص) کی طرف دوڑیں اور بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمنوں کے گھیرے کو برق رفتاری سے اپنی تلوار کے حملے سے توڑا اپنے آپ کو پیغمبر اسلام (ص) تک پہونچا دیا اپنی تلوار کو دشمنوں کے سر اور ہاتھوں پر چلا کر انھیں پیغمبر(ص) سے دور ہٹادیا_

اسی دوران میں انھوں نے دیکھا کہ دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے تا کہ پیغمبر اسلام (ص) پروار کرے_ نسیبہ اس کی طرف بڑھتی ہیں اور اس پر حملہ کرتی ہیں_ دشمن جو چاہتا تھا کہ اپنا وار پیغمبر اسلام (ص) کے سرپر کرے اس نے جلدی سے وہ وار نسیبہ پر کردیا جس سے نسیبہ کا کندھا زخمی ہوجاتا ہے اس سے خون نکلنے لگا ہے اور پورا جسم خون سے رنگین ہوجاتا ہے ایک سپاہی اس نیم مردہ خاتون کو میدان جنگ سے باہر لے جاتا ہے_

جب جنگ ختم ہوگئی تو پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں زخمیوں اور مجروحین کی ملاقات کے لئے گئے اور آپ (ص) نے اس فداکار خاتون کے بارے میں فرمایا کہ:

'' اس خوفناک ماحول میں جس طرف بھی میں دیکھتا تھا نسیبہ کو دیکھتا تھا کہ وہ اپنی تلوار سے میرا دفاع کر رہی ہے''

۲۲۷

اس کے بعد نسیبہ جنگ احد کی داستان اورمسلمانوں کی فداکاری کو اپنے دوستوں سے بیان کرتی تھیں اور ان کے دلوں میں ایثار و قربانی کے جذبات کو ابھارتیں اور ان میں جنگ کے شوق کو پیدا کرتی تھیں اور کبھی اپنی قمیص اپنے کندھے سے ہٹا کر اس زخم کے نشان دوسری عورتوں کو دکھلاتی تھیں_ جنگ احد میں اور بھی بہت سی چیزیں پیش آئیں جن کا ذکر ہمارے لئے مفید ہے_

قرآن کی آیت:

( انّ الله یحب الّذین یقاتلون فی سبیله صفّا کانّهم بنیان مرصوص ) (۱)

'' خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جنگ کرتے ہیں''

____________________

۱) سورہ صف آیت ۴

۲۲۸

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ مرد مجاہدین میں اپنی جان کو کس کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اور اس معاملہ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

۲)___ مجاہدین کس طرح جنّت میں وارد ہوں گے؟

۳)__ _ جو لوگ راہ خدا میں جہاد نہین کرتے ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟

۴)___ خداوند عالم امّت اسلامی کو کس چیز سے عزّت بخشتا ہے؟

۵)___ میدان جنگ میں ایک مجاہد دوسرے مجاہد کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟

۶)___ شہادت کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے؟

۸)___ دفاع کسے کہا جاتا ہے؟ مسلمانوں کی سرزمین، شرف و عزّت سے دفاع کرنا کس کا فریضہ ہے؟

۹)___ نسیبہ، میدان احد میں پہلے کیا کام کرتی تھیں اور پھر کیوں انھوں نے لڑائی میں شرکت کی؟

۱۰)___ پیغمبر اسلام (ص) نے نسیبہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۲۲۹

شہادت کا ایک عاشق بوڑھا اور ایک خاتون جو شہید پرور تھی موت سے کون ڈرتا ہے اور کون نہیں ڈرتا ؟

جو موت کو فنا سمجھتا ہے اور آخرت پر اعتقاد نہیں رکھتا وہ موت سے ضرور ڈرے گا اور موت سے بچنے کے لئے ہر قسم کی ذلّت و عار کو برداشت کرے گا_ اس قسم کے لوگ دنیا کی محدود زندگی کو سوچتے ہیں اور اپنی پوری کوشش کو مادّی و زود گذر خواہشات کے لئے صرف کرتے ہیں اور زیادہ تر اپنے شخصی منافع کے بارے میں سوچتے ہیں اور حیوانوں کی طرح دن رات گذارتے ہیں پھر ذلّت و خواری سے مرجاتے ہیں اور وہ اپنی غفلتوں، کوتاہ نظریوں و برے کردار کی سزا پاتے ہیں_

لیکن جو انسان خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ موت نیست و نابود ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ بلند ہمّتی و بے نظیر بہادری کے ساتھ اپنی ا ور اپنے معاشرہ کی شرافت و عزّت کے لئے جنگ کرتا ہے راہ خدا اور اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لئے جان و مال دینے سے دریغ نہیں کرتا اپنی پوری توانائی کو خدا کی رضا اور بندگان خدا کی فلاح میں صرف کر کے با عزّت زندگی بسر

۲۳۰

کرتا ہے اور آخرت میں الطاف الہی سے بہر ہ مند ہوتا ہے_

قبیلہ عمر و ایسے ہی مومن انسان کا ایک مجسم نمونہ تھا جو شہادت و ایثار سے عشق رکھتا تھا چنانچہ اللہ تعالی کی ذات و آخرت پر ایمان لانے کی قدر و قیمت کو پہچاننے کے لئے اس پر افتخار گھرانے کی داستان کے ایک گوشہ بالخصوص عمرو کی داستان کو ذکر کیا جاتا ہے_

مدینہ کے مسلمانوں کو پتہ چلا کہ کفّار مکہ، مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے آر ہے ہیں، مسلمان پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے بعد دفاع کے لئے آمادہ ہوچکے تھے، مدینہ کی حالت بدل چکی تھی ہر جگہ جہاد و شہادت کی گفتگو ہو رہی تھی صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ سب شہر کے باہر جائیں اور قبل اس کے کہ دشمن میں پہونچیں شہر کے باہر ہی ان کا مقابلہ کیا جائے ج ان سپاہی اپنی ماؤں کے ہاتھ چومتے اور ان سے رخصت ہو رہے تھے اور گروہ گروہ میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہے تھے_

مرد اپنے بچوں اور بیویوں سے رخصت ہو کر احد کے پہاڑ کی طرف روانہ ہو رہے تھے_ عمرو بن جموح کے چار بہادر بیٹے جہاد کے لئے آمادہ ہوچکے تھے یہ چاروں بہادر اس سے پہلے بھی جنگوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور قرآن و اسلام سے دفاع کرنے میں ہر قسم کی فداکاری کے لئے تیاررہتے تھے_

عمرو دیکھ رہا تھا کہ اس کے فرزند کس شوق و محبّت سے اسلحوں سے آراستہ ہوکر میدان جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں اور مسلمان پیادہ و سوار، لباس جنگ زیب تن کئے تکبیر کہتے دمشن کی طرف چلے جا رہے ہیں اسے یقین ہوگیا تھا کہ ان اسلام کے سپاہیوں کو کبھی شکست نہیں ہوسکتی، وہ جنگ کے میدان میں دلیرانہ جنگ کریں گے اپنی عزّت و شرف کا دفاع کریں گے_

اس کے نتیجہ میں یا دشمن پر فتح پالیں گے یا شہادت کے درجہ پر فائز ہوں گے

۲۳۱

التہ اگر شہید ہوگئے تو اللہ تعالی کے فرشتے ان کی پاک روح کو بہشت تک لے جائیں گے اور وہ بہشت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور جوار الہی میں خوش و خرّم زندگی بسر کریں گے_

اس منظر کو دیکھ کر عمرو کی آنکھوں میں آنسو بھر آیا او ردل میں کہا:

'' کاش میرا پاؤں لنگڑا نہ ہوتا اور میں بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ جہاد کرنے جاتا''_

اسی حالت میں اس کے چاروں نوجوان بیٹے اس سے رخصت ہونے کے لئے آئے انھوں نے باپ کا ہاتھ چو ما عمرو نے ان کی پیشانی اور چہروں کو بوسہ دیا_ اسلام کے فداکاروں کے گرم خون کو اس نے نزدیک سے محسوس کیا اور اس کی حالت دگرگوں ہوگئی

'' صبر کرو صبر کرو میں بھی تمھارے ساتھ جہاد کے لئے آتا ہوں''

اس کے بیٹے حیرت زدہ ہوکر سوچنے لگے کہ کس طرح ہمارا با ہمارے ساتھ جہاد کرے گا؟ حالانکہ وہ بہت بوڑھا ہے اور اس کا ایک پاؤں بھی لنگڑا ہے ایسے انسان پر اسلامی قانون کے رو سے تو جہاد واجب ہی نہیں ہوا کرتا_

بیٹے اسی فکر میں کھڑے تھے کہ باپ نے لباس جنگ زیب تن کیا تلوار ہاتھ میں لی اور چلنے کے لئے تیار ہوگیا_ بیٹوں نے باپ کو منع کیا لیکن وہ اپنے ارادہ سے باز نہ آیا مجبوزا انھوں اپنی ماں اور بعض رشتہ داروں سے باپ کو روکنے کے لئے کہا بچّوں کے اصرار پر انھوں نے عمرو سے کہا کہ:

'' تم بڑھاپے و لنگڑا پن کی وجہ سے دشمن پر حملہ نہیں کرسکتے ہو نہ ہی اپنے سے دفاع کرسکتے ہو اور خداوند عالم نے بھی تم پر

۲۳۲

جہاد واجب نہیں کیا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ تم مدینہ میں رہ جاؤ اور یہ چار جوان بیٹے ہیں جو میدان جنگ میں جا رہے ہیں کافی ہیں''

عمرون نے جواب دیا کہ:

'' تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ کافروں کی فوج نے ہم پر حملہ کردیا ہے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کو خطرے میں ڈال دیا ہے، کیا اسلام و پیغمبر اسلام (ص) کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے؟

کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ اسلام کے جانباز سپاہی کس شوق سے جہاد کے لئے جا رہے ہیں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں یہ ساری شان و شوکت، شوق کو دیکھتا رہوں اور چپ ہوکر بیٹھ جاؤں؟

کیا تم یہ کہتے ہو کہ میں بیٹھ جاؤں اور دوسرے لوگ میدان میں جائیں کافروں کے ساتھ جنگ کریں، شہادت کے فیض اور پروردگار کے دیدار سے شرف یاب ہوں اور میں محروم رہ جاؤں؟

نہیں اور ہرگز نہیں میں پسند نہیں کرتا کہ بستر پر مروں، میں باوجودیکہ بوڑھا و لنگڑا ہوں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ شہید ہوجاؤں''_

چنانچہ انھوں نے کوشش کی کہ اس بوڑھے اور ارادے کے پكّے انسان کو جنگ سے روک دیں لیکن اس میں انھیں کامیابی نہ ملی او ربات اس پر ٹھہری کہ پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں جائیں اور آپ سے اس کے متعلق تکلیف معلوم کریں وہ لوگ حضور کے پاس گئے اور عرض کیا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تا کہ اسلام و مسلمانوں کی مدد کرسکوں اور آخر میں

۲۳۳

شہا دت کے فیض سے نوازا جاؤں لیکن میرا خاندان مجھے ادھر نہیں جانے دیتا''

پیغمبر اسلام (ص) نے جواب دیا:

'' اے عمرو جانتے ہو کہ بڑھاپے اور عضو کے ناقص ہونے کی وجہ سے تم پر جہاد واجب نہیں ہے''

عمرو نے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) کیا میرے عضو کا یہ نقص مجھے اتنے بڑے فیض اور نیکی سے محروم کرسکتا ہے؟''

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' جہاد تو تم پر واجب نہیں لیکن اگر تیرا دل چاہتا ہے کہ جہاد میں شرکت کرے تو اس سے کوئی مانع نہیں ہے''

اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے اس کے رشتہ داروں کی طرف نگا کی اور فرمایا کہ:

'' اس پر جہاد تو واجب نہیں ہے لیکن تم پر ضروری نہیں کہ اصرار کرو اور اسے اس نیکی سے روکو اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو اگر وہ چاہے تو جہاد میں شرکت کرے اور اس کے عظیم ثواب سے بہرہ مند ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسے شہادت نصیب ہوجائے''

عمرو نے خوش ہوتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیوی (ہند) اور دوسرے رشتہ داروں سے رخصت ہوکر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگیا_ اس نے میدان جنگ میں بڑی بہادری سے جنگ لڑی اپنے بیٹوں کے ساتھ داد شجاعت لی دشمنوں کی کافی تعداد کو بلاک کیا اور آخر میں اپنے بیٹوں کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوگیا_

۲۳۴

اس جنگ میں چند لوگوں کی دنیا ظلم و کم صبری اور نافرمانی کی وجہ سے شہداء کی تعداد زیادہ تھی جنگ کے خاتمہ پر شہر مدینہ کی عورتیں اپنے فرزندوں اور رشتہ داروں کے لئے میدان جنگ میں آئیں تا کہ اپنے رشتہ داروں کا حال معلوم کریں_ ہند سب سے پہلے میدان میں پہونچی اپنے شوہر، بھائی اور ایک فرزند کی لاش کو اونٹ پر رکھ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئی تا کہ وہاں ان کو دفن کردے لیکن جتنی وہ کوشش کرتی تھی اس کا وہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں جاتا تھا بہت مشکل سے کئی قدم اٹھاتا پھر ٹھہر جاتا اور واپس لوٹ جاتا گویا وہ چاہتا تھا کہ احد کی طرف ہی لوٹ جائے اسی حالت میں چند عورتوں سے اس کی ملاقات ہوگئی جو میدان جنگ کی طرف جا رہی تھیں_ ان میں پیغمبر اسلام (ص) کی ایک زوجہ بھی تھیں آپ نے ہند سے احوال پرسی کی اور سلام کیا:

کہاں سے آرہی ہو؟

احد کے میدان سے

کیا خبر ہے؟

الحمد اللہ کہ پیغمبر اسلام (ص) صحیح و سالم ہیںمسلمانوں کا ایک گروہ شہید ہوگیا ہے اور چونکہ ہمارے پیغمبر(ص) سالم ہیں لہذا دوسری مصیبتوں کو تحمّل کیا جاسکتا ہے خدا کا شکر ہے_

اونٹ پر کیا لادا ہے؟

تین شہیدوں کے جسم کو ایک میرا شوہر، ایک بیٹا اور ایک میرا بھائی ہے انھیں ہمیں لے جا رہی ہوں تا کہ مدینہ میں سپرد خاک کروں نہ جانے کیا بات ہے کہ جتنی کوشش کرتی ہوں کہ اونٹ کو مدینہ کی طرف لے چلوں اونٹ مدینہ کی طرف نہیں جاتا گویا اونٹ احد کی طرف واپس لوٹنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے پاس جائیں اور اس واقعہ کو آپ سے بیان کریں اور اس کا سبب پوچھیں_

۲۳۵

پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں گئیں اور پورے واقعہ کو آپ (ص) سے بیان کیا_ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ:

'' شاید جب تیرا شوہر جہاد میں جانے کے لئے رخصت ہو رہا تھا تو آخری کوئی بات کہی تھی اس نے کوئی دعا کی تھی؟ یا رسول اللہ (ص) کیوں نہیں آخری وقت اس نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا تھا اور کہا تھا: '' اے خدا مجھے شہادت کے فیض سے شرفیاب فرما اور پھر مجھے مدینہ واپس نہ لے آنا''

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

''خداوند عالم نے اس کی دعا کو قبول کرلیا ہے رہنے دو کیونکہ ہم تمھارے شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ یہیں دفن کردیں گے''

ہند نے قبول کیا پیغمبر اسلام (ص) نے ان تین شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ وہیں دفن کردیا اور فرمایا کہ:

'' یہ بہشت میں ابھی اکھٹے ہوں گے''

ہند نے رسول خدا (ص) سے دعا کرنے کی خواہش کی اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) دعا کیجئے کہ خداوند عالم مجھے بھی ان تینوں شہیدوں کے ساتھ محشور کرے''

پیغمبر اسلام (ص) نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس صابرہ اور شہید پرور خاتون کے لئے دعا فرمائی_ خدا کرے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی یہ دعا تمام شہید پرور ماؤں کے

۲۳۶

پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث شریف:

و فوق کل بر بر حتّی یقتل الرّجل فی سبیل الله فاذا قتل فی سبیل الله فلیس فوقه بر

'' اور ہر نیکی کے اوپر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ کوئی شخص راہ خدا میں قتل کردیا جائے اور جب کوئی راہ خدا میں قتل کردیا جائے تو پھر اس کے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے''

۲۳۷

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ کیا مسلمان ننگ و عار اورذلّت کو قبول کرسکتا ہے؟ کیا کسی ظالم سے صلح کرسکتا ہے؟

۲)___ مومن، وعدہ الہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کس امید پر میدان جنگ میں شرکت کرتا ہے؟ آخرت میں اس کی جزاء کیا ہے؟

۳)___ دو میں سے ایک کون ہے؟

۴)___ کس چیز نے عمرو کو میدان جنگ میں شریک ہونے پر ا بھارا تھا؟

۵)___ عمرو نے میدان جنگ میں شریک ہونے کے لئے کون سے دلائل دیئےھے؟

۶)___ عمرو نے جناب رسول خدا (ص) سے کیا گفتگو کی اور آخری میں اس نے کیا ارادہ کیا تھا؟

۷)___ ہند کی گفتگو ان عورتوں سے جو میدان احدم یں جا رہی تھیں کیا تھی؟

۸)____ پیغمبر اسلام (ص) نے ہند سے کیا پوچھا تھا اور اس کے جواب دینے کے بعد اس سے کیا کہا تھا؟

۲۳۸

شہیدوں کے پیغام

'' شہاد'' کتنی اچھی چیز ہے پورے شوق اور ایثار کی دنیا اس لفظ شہادت میں مخفی ہے_ جانتے ہو ''شہید'' کون ہے؟

شہید وہ بلند پایہ انسان ہے جو اللہ پر ایمان و عشق اور انسانی قدر و قیمت کے زندہ کرنے کے لئے اپنی عزیز جان کو قربان کرے_ یہ مادّی دنیا شہید کی بزرگ روح کے لئے چھوٹی اور تنگ ہے_

شہید اپنی فداکاری و بہادری سے اپنے آپ کو دنیاوی قفس سے رہا کرتا ہے اور آخرت کی نورانی وسیع دنیا کی طرف پرواز کرجاتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اپنے رب سے رزق پاتا ہے_

شہید کا نام، اس کی فداکاری، اس کا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور اس کی خلق خدا کی خدمات کا سننا یہ تمام کے تمام ایک مفید درس ہیں_

شہید کی قبر کی زیارت ، اس کے پیغام کا سننا اور اس کی وصیت کو سننا کتنا جوش و خروس لاتا ہے_

شہید کے آثار کا مشاہدہ کرنا انسان کے لئے کتنا ہی بیدار انسان کی جان میں جوش پیدا کردیتا ہے اور شہید کی یاد ایک آگاہ انسان کے لئے کتنی گرمائشے پیدا کردیتی ہے یہاں تک کہ شہید پر رونا آسمانی اور روحانی گریہ

۲۳۹

ہوتا ہے_

ذلّت و خواری کا گریہ نہیں ہوا کرتا بلکہ عشق و شوق کے آنسو ہوا کرتے ہیں_ واقعا کوئی بھی نیک عمل، شہادت سے بالاتر اور قیمتی نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کی عظمت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا ہے:

'' ہر نیک عمل کے اوپر کوئی نہ کوئی نیک عمل موجود ہوتا ہے مگر خدا کی راہ میں شہادت کہ جو ہر عمل سے بالاتر و قیمتی تر ہے اور کوئی عمل بھی اس سے بہتر و بالاتر نہیں ہے''

اسی عظیم مرتبہ و مقام تک پہونچنے کی علت تھی کہ جب حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر تلوار لگی تو آپ (ع) نے فرمایا کہ:

' ' مجھے ربّ کعبہ کی قسم کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں''

اب جب کہ تمھیں شہادت و شہید کے مقام و رتبہ سے کچھ آگاہی ہوگئی ہے ہو تو بہتر ہوگا کہ چند شہیدوں کے پیغام کو یہاں نقل کردیں کہ جن سے عشق اور آزادگی کا درس ملتا ہے_

۱)__ _ حضرت علی علیہ السلام جو ہمیشہ شہادت کی تمنّا رکھتے تھے جب آپ کی پیشانی تلوار سے زخمی کردی گوئی اور آپ اپنی عمر کے آخری لمحات کو طے کر رہے تھے تو آپ نے اس وقت یہ وصيّت فرمائی:

'' متقی و پرہیزگار بنو، دنیا کو اپنا مطمع نظر و ہدف قرار نہ دینا، دنیا کی دولت کی تلاش میں مت رہنا، دنیا کی دولت اور مقام تک نہ پہونچنے پر غمگین نہ ہونا، ہمیشہ حق کے طلبگار بنو، حق کہا کرو، یتیموں پر مہربان رہو، احکام الہی کے جاری کرنے میں مستعد رہنا اورکبھی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت

۲۴۰

فارس اور اصفہان کی سر حدوں پر سیف کے جعلی صحابیوں کے رد عمل کی داستان اس کے ذہن کی پیداوار ہے اور دوسرے مولفین نے اس سلسے میں کچھ نہیں لکھا ہے جس کے ذریعہ ہم سیف کی داستان کا دوسروں کی روایت سے موازنہ کریں !

زر کی داستان کا خلاصہ

زر بن عبد اللہ بن کلیب فقیمی کے بارے میں سیف کے بیان کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

یہ ایک صحابی و مہاجر ہے ، وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ اپنے خاندان میں افراد کی کمی کے سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور میں شکایت کی ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی اورخدا ئے تعالیٰ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاقبول فرمائی جس کے نتیجہ میں اس کے خاندان کے افراد میں اضافہ ہوا !

١٢ھ میں فتوح کی جنگوں میں زر کو بقول سیف خالد کی طرف سے '' ابلہ'' کی جنگ کی فتح کی نوید ، جنگی غنائم کا پانچواں حصہ اور ایک ہاتھی کو لے کرخلیفہ ابوبکر کی خدمت میں بھیجا جاتا ہے ۔ خلیفہ کے حکم سے مدینہ کی گلی کو چوں میں ہاتھی کی نمائش کرانے کے بعد زر کے ذریعہ اسے واپس کیا جاتا ہے

سیف کی روایت کے مطابق ١٧ھ میں ہم زر کو نہاوند کا محاصرہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ خلیفہ عمر اسے لکھتے ہیں کہ جندی شاپور پر لشکر کشی کرے اور اس وقت کا سپہ سالار ابو سبرہ اسے مقترب کے ہمراہ شہر جندی شاپور کا محاصرہ کرنے کی ماموریت دیتا ہے اور ابوموسیٰ بھی کچھ مدت کے بعد ان سے ملحق ہوتا ہے ، جب وہ جندی شاپور کے محاصرہ میں پھنسے لوگوں سے بر سر پیکار تھے ، اچانک دیکھتے ہیں کہ قلعہ کے دروازے کھل گئے اور لوگ لشکر اسلام کے لئے بازار میں اشیاء آمادہ کرکے مسلمانوں کے استقبال کے لئے آگے بڑھتے ہیں ! کیوں کہ لشکر اسلام سے جندی شاپور کا رہنے والا مکنف نامی ایک غلام نے خلیفہ کی اجازت کے بغیر اور دیگر لوگوں سے چور ی چھپے ایک تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر امان نامہ پھینکا تھا اور سر انجام خلیفہ عمر مکنف کے امان نامہ کی تائید کرتے ہیں اور شہر اور شہر کے باشندے مسلمانوں کی امان میں قرار پاتے ہیں ۔

۲۴۱

پھر سیف کی روایت کے مطابق ٢١ھ میں خلیفہ عمر زر کو اپنا ایک پیغام دے کر اپنے ایلچی کے طور پر نعمان بن مقرن کے پاس بھیجتے ہین اور نعمان کو نہاوند کی جنگ کے لئے مامور قرار دیتے ہیں ۔ اس ماموریت کے بعد خلیفہ کی طرف سے زر اور سپاہ اسلام کے تین دیگر کمانڈر ماموریت پاتے ہیں کہ نہاوند کی جنگ میں لڑنے والے ایرانیوں کے لئے فارس کے باشندوں کی طرف سے کمک اور رسد پہنچنے میں رکاوٹ ڈالیں ۔ وہ خلیفہ کے حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اصفہان اور فارس کی سر حدوں تک پیش قدمی کرتے ہیں اور اس طرح نہاوند کی جنگ میں لڑنے والے ایرانی فوجیوں کے لئے امدادی فوج پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔

زرّ اور زرین

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا ، یہ زر کے بارے میں سیف کی روایتیں تھیں جو تاریخ طبری میں درج ہوئی ہیں ۔

کتاب اسد الغابہ ،کے مؤلف ابن اثیر نے بھی ان تمام مطالب کو طبری سے نقل کرکے زر کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ لیکن زرین نام کے ایک دوسرے صحابی کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے :

زرین بن عبد اللہ فقیمی کے بارے میں ابن شاہین نے کہا ہے کہ میری کتاب میں دو جگہوں پر اس صحابی یعنی زرین بن عبد اللہ کا نام اس طرح آیا ہے حرف '' ز '' حرف '' ر '' سے پہلے ہے ۔ اور سیف بن عمر نے '' ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی '' سے روایت کرکے نقل کیا ہے کہ زربن عبد اللہ فقیمی نے روایت کی ہے کہ وہ زرین بن عبد اللہ قبیلہ تمیم کے چند افراد کے ہمراہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اسلام لایا ہے اور رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے اور اس کی اولاد کے لئے دعا کی ۔

'' ابومعشر '' نے بھی یزید بن رومان ( الف )سے روایت کی ہے

زرین بن عبد اللہ فقیمی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت (تا اخر داستان )

۲۴۲

اب حجر بھی زر کی تشریح میں لکھتا ہے:

طبری نے لکھا ہے کہ زر نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور اپنے قبیلہ کی طرف سے نمائندہ کے طور پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ زر ان سپہ سالاروں میں سے تھا جنھوں نے نہاوند اور خوزستان کی فتوحات اور جندی شاپور کا محاصرہ کرنے کی کاروائیوں میں شرکت کی ہے ، ابن فتحون نے بھی زر کے بارے میں یہی مطالب درج کئے ہیں ۔

ابن حجر مذکورہ بالا مطالب کے ضمن میں زرین کے بارے میں ابن شاہین اور ابی معشرکی روایت کو بیان کرتے ہوئے زرین کے حالات کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

اس صحابی کی داستان زر کے حالات کے سلسلے میں بیان ہوئی ہے ۔

اس لحاظ سے زر اور زرین دو نام ہیں زر سے مربوط خبر صرف سیف کی روایتوں میں آئی ہے اور طبری نے اس سے یہ روایت نقل کی ہے ۔اس کے بعد ابن اثیر اور ابن فتحون نے طبری سے نقل کرکے اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ذہبی نے بھی زر کی داستان ابن اثیر سے نقل کی ہے او ر ابن حجر نے اس کو فتحون سے نقل کرکے بالترتیب اپنی کتابوں '' التجرید اور اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

مناسب ہے کہ ہم یہاں پر یہ بھی بتا دیں کہ آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ سیف نے زر کا نام خاندان فقیم کے ایک شاعر سے عاریتا ً لیا ہے جو زمانہ جاہلیت میں اشعار کہتا تھا ۔ اس بات کی تائید

____________________

۱)۔یزید بن رومان اسدی خاندان زبیر کا ایک سردار دانشور اور کثیر الحدیث شخص تھا یزید رومان نے ١٣٠ ھ میں وفات پائی ہے ۔ التہذیب ٣٢٥١١ ،تقریب ٣٦٤٢ملاحظہ ہو ۔ رومان کا بیٹا حدیث کے طبقۂ پنجم کے ثقات میں سے ہے ۔

۲۴۳

آمدی(۱) کی کتاب '' مختلف و مؤتلف'' میں شعراء کے حالات پر لکھی گئی تشریح سے ہوتی ہے وہ اس سلسلے میں لکھتا ہے :

شعراء میں سے '' زرین بن عبدا للہ بن کلیب '' ہے جو خاندان فقیم میں سے تھا...

آمدی کی یہ بات ابن ماکولا نے بھی اپنی کتاب '' اکمال '' میں درج کی ہے ۔

بحث و تحقیق کا نتیجہ

معلوم ہوا کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جو زر کے نسب ، ہجرت ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہونے اور اپنے قبیلہ کی طرف سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کی حیثیت سے حاضری دینے کے بارے میں روایت کرتا ہے ۔

سیف فتح ابلہ کی داستان میں نافع کے کام کو زر سے نسبت دیتا ہے ،خلیفۂ وقت اور سپہ سالارکے ناموں میں رد و بدل کرکے اس پر ہاتھی کا افسانہ بھی اضافہ کرتا ہے ۔

سیف نے جندی شاپور کی صلح کی داستان میں ابوموسیٰ اشعری یمانی قحطانی کی کار کردگی اور اقدامات کو ابو سبرہ قرشی عدنانی سے نسبت دی ہے خاص کر اس عزل و نصب میں ابو موسیٰ اشعری کو گورنر کے عہدے سے عزل کرکے اس جگہ کی پر ابو سبرہ کو منصوب کرنے میں سیف کا خاندانی تعصب بالکل واضح اور آشکار ہے ۔

سیف ، عمر کی خلافت کے زمانے میں ابو سبرہ عدنانی کو کوفہ کے گورنر کے عہدے پر منصوب کرتا ہے تاکہ اس کی سرزنش کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ سے مکہ چلا گیا تھا اور پھر مرتے دم تک وہاں سے باہر نہیں نکلا ، اسی طرح

____________________

۱)۔کتاب '' مختلف و مؤ تلف '' کے مؤلف آمدی نے ٣٧٠ھ میں وفات پائی ہے ۔

۲۴۴

اسی ابو سبرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جن دنوں وہ مکہ میں مقیم تھا ، سیف کے دعوے کے مطابق انہی دنوں خلیفہ عمر کی طرف سے کوفہ میں ایک امین گورنر اور مجاہد و جاں نثار افسر کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دینے میں مصروف تھا ۔

مکنف کا افسانہ اور اس کا امان نامہ بھی سیف کا جعل کیا ہوا اور اس کے تخیلات کا نتیجہ ہے۔

سیف نے فتح نہاوند کی داستان میں سائب ا قرع ثقفی کی جنگی کاروائیوں کو زر سے نسبت دی ہے ۔ سیف تنہا شخص ہے جو زر نامی ایک صحابی کی قیادت میں فارس اور اصفہان کے اطراف میں مسلمانوں کی لشکر کشی اور اسی کے ہاتھوں نہاوند کے محاصرہ کا تذکرہ کرتا ہے !!

یہ بھی معلوم ہے کہ سیف نے ان تمام احادیث اور اپنی دوسری داستانوں کو واقعہ نگاروں کے طرز پر ایسے راویوں کی زبانی نقل کیا ہے جس کو اس نے خود خلق کیا ہے یا ان مجہول الہویہ افراد سے نقل کیا ہے ، جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخ میں زرین بن عبداللہ نامی ایک اور صحابی کا نام آیا ہے جو سیف کے زرین بن عبد اللہ نامی جعلی صحابی کے علاوہ ہے اور ہم نے دیکھا کہ ان دونوں کے بارے میں اسد الغابہ اور الاصابہ جیسی کتابوں میں ان کی زندگی کے حالات پر جدا گانہ روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہمیں یہ بھی پتا لگا کہ اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں زید بن عبد اللہ فقیمی نام کا ایک شاعر تھا ، جو بہت مشہور تھا جس کی زندگی کے حالات پر آمدی کی کتاب میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اور اس شخص کاکسی صورت میں سیف کے جعلی زر کے ساتھ کوئی تعلق و ربط نہیں ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اس زمان جاہلیت کے شاعر سے اپنے اس جعلی صحابی کے لئے یہ نام عاریتاً لیا ہوگا سیف کا یہ کام کوئی نیا کارنامہ نہیں ہے ،بلکہ ہم نے اس کے ایسے کارنامے حزیمہ بن ثابت انصاری ، سماک بن خرشہ ، اسود اور دیگر افراد کی احادیث میں مشاہدہ کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں مناسب جگہ پر مزید وضاحت کی جائے گی ۔

۲۴۵

زرّ کا افسانہ نقل کرنے والے علماء

زر کے افسانہ کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے اور یہ افسانہ حسب ذیل اسلامی منابع درج ہو کر اس کی اشاعت ہوئی ہے :

١۔ محمد بن جریر طبری ( وفات ٣١٠ ھ ) نے سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔

٢۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔

٣۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧١ھ ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔

٤۔ ابن خلدون ( وفات ٨٠٨ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ۔

٥۔ ابن فتحون ( وفات ٥١٩ھ) نے طبری سے نقل کیا ہے ، اس دانشور نے بعض اصحاب کی

زندگی کے حالات کو کتاب '' استیعاب '' کے حاشیہ میں درج کیا ہے ۔

٦۔ زبیدی ( وفات ١٢٠٥ھ ) نے تاج العروس میں طبری سے نقل کیا ہے۔

٧۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ نے ابن اثیر سے نقل کرکے اپنی کتاب '' التجرید '' میں درج کیا ہے ۔

٨۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے فتحون سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔

٩۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ ) نے بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' معجم

البلدان'' میں درج کیا ہے ۔

١٠۔ حمیری ( وفات ٩٠٠ھ ) نے براہ راست سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' الروض المعطار''

۲۴۶

میں نقل کیا ہے ۔

ان تمامعتبر اور اہم منابع کے پیش نظر اگر ہمارے زمانے کا کوئی مؤلف ،فتوحات اسلامی کے کسی سپہ سالار کے بارے میں کوئی کتاب تالیف کرنا چاہے تو وہ یہ حق رکھتا ہے کہ زربن عبد اللہ فقیمی کو ایک شجاع کمانڈر ،ایک سیاستدان اور موقع شناس صحابی کے طور پر اپنی کتاب میں تشریح و تفصیل کے ساتھ درج کرے ، جب کہ یہ مؤلف اور دیگر تمام مذکورہ علماء اس امر سے غافل ہیں کہ حقیقت میں زربن عبد اللہ فقیمی نام میں کسی صحابی یا سپہ سالار کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ صرف سیف بن عمر تمیمی کے خیالات اور توہمات کی مخلوق اور جعل کیا ہوا ہے ۔ اور یہ وہی سیف ہے جس پر زندیقی ، دروغ گو ئی اور افسانہ نگاری کا الزام ہے !!

افسانہ زر کا ماحصل

سیف نے زر کا افسانہ گڑھ کر اپنے لئے درج ذیل نتائج حاصل کئے ہیں :

١۔ فتوحات میں لشکر اسلام کا ایک ایسا سپہ سالار خلق کرتا ہے جو صحابی اور مہاجر ہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس اور اس کے خاندان تمیم کے لئے دعا کرے اور خدائے تعالیٰ نے بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا قبول فرما کر اس کی نسل میں اضافہ کیا ۔

٢۔ ایک امین اور پارسا ایلچی کو خلق کرتا ہے تاکہ جنگی غنائم اور ایک عجیب و غریب ہاتھی کو لے کر خلیفہ ابو بکر کی خدمت میں جائے ۔

٣۔ قحطانی یمانیوں کے ذریعہ حاصل ہوئے تمام افتخارات اور فتوحات کو اپنے خاندانی تعصب کی پیاس بجھانے کے لئے عدنانیوں اور مضریوں یعنی اپنے خاندان سے نسبت دیتا ہے۔

٤۔ جندی شاپور کی فتح کے لئے اپنے افسانے میں مکنف نام کا ایک غلام خلق کرتا ہے تاکہ جندی شاپور کے باشندوں کو دئے گئے اس کے امان نامہ کی خلیفہ تائید کرے ۔

٥۔ سر انجام ، جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ سیف اپنے خاندان تمیم کے لئے افتخارات گڑھ کر اپنے خاندانی تعصب کی اندرونی آگ کو بجھاتا ہے اور زندیقی ہونے کے الزام کے تحت تاریخ اسلام کو تشویش سے دو چار کرکے اس امر کا سبب بنتا ہے کہ اسلامی اسنادمیں شک و شبہات پیدا کرے ۔

۲۴۷

بیسواں جعلی صحابی اسود بن ربیعہ حنظلی

'' اسود بن ربیعہ'' کی زندگی کے حالات پر '' اسد الغابہ' ' ، '' التجرید '' ، الاصابہ '' اور تاریخ طبری جیسی کتابوں میں روشنی ڈالی گئی ہے اور ان تمام کتابوں کی روایت کا منبع سیف بن عمر تمیمی ہے

ایک مختصر اور جامع حدیث

طبری اپنی کتاب میں سیف بن عمر سے نقل کرکے رامہر مز کی فتح کی خبر کے سلسلے

میں لکھتا ہے ۔

مقترب یعنی '' اسود بن ربیعہ بن مالک ''جو صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مہاجرین میں سے تھا ، جب پہلی بار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی :

میں آیا ہوں تاکہ آپ کی ہم نشینی اور ملاقات کا شرف حاصل کرکے خدائے تعالیٰ سے نزدیک ہو جائوں ۔ اسی لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے مقترب ( یعنی نزدیک ہوا ) کا لقب دے دیا ۔

کتاب اسد الغابہ اور الاصابہ میں مذکورہ حدیث اس طرح نقل ہوئی ہے ۔

سیف نے ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ مالک بن حنظلہ کا نواسہ اسود بن ربیعہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں شرف یاب ہوا ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

۲۴۸

میرے پاس کس لئے آئے ہو؟

اسود نے جواب دیا :

تا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہم نشینی کا شرف حاصل کرکے خدا کے نزدیک ہو جائوں ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے مقترب ( یعنی نزدیک ہوا ) لقب دیا اور اس کا اسود نام متروک ہوگیا ۔

اسود یعنی مقترب ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی شمار ہوتا ہے ۔ وہ صفین کی جنگ میں امام علی کے ساتھ تھا ۔

یہ حدیث جس کی روایت سیف نے کی ہے اسی طرح بالترتیب کتاب اسد الغابہ اور الاصابہ میں درج ہوئی ہے ،ابو موسیٰ اور ابن شاہین ،نے اس سے نقل کیا ہے ۔ مقانی نے بھی اس مطلب کو ابن حجر سے نقل کرکے اپنی کتاب '' تنقیح المقال '' میں درج کیا ہے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسود کو نمایاں کرنے کے لئے سیف کے پاس ایک اور حدیث ہے کہ جسے طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور ابن اثیر نے بھی اسی کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اس کے علاوہ ہمیں یاد ہے کہ سیف بن عمر نے ایک حدیث کے ضمن میں زر کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے اور اس کے حق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا اور ایک دوسری حدیث میں زرین کے چند تمیمیوں کے ہمراہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس کے اور اس کی اولاد کے حق میں دعا کرنے کی داستان بیان کی ہے ۔

سیف نے ان احادیث میں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور شرف یاب ہونے والے تمیمی گروہوں کا تعرف کرایاہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے نام اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساتھ ان کی گفتگو درج کی ہے ۔

اس کے ساتھ ہی ابن سعد ، مقریزی اور ابن سیدہ جیسے تاریخ نویسوں اور دانشمندوں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے والے گروہوں کے نام لئے ہیں اور جو بھی گفتگو ان کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انجام پائی ہے ،اسے ضبط و ثبت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک میں سیف کی بیان کی گئی داستانوں میں سے کسی کا بھی کہیں کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا ہے ۔

۲۴۹

بلکہ ان مورخین نے قبیلہ تمیم کے نمائندوں کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کے بارے میں ایک دوسری روایت حسب ذیل بیان کی ہے :

'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' بنوخزاعہ'' کے صدقات جمع کرنے والے مامور کو حکم دیا کہ سر زمین '' خزعہ '' میں رہنے والے بنی تمیم کے افراد سے بھی صدقات جمع کرے ۔ تمیمیوں نے اپنے صدقات ادا کرنے سے انکار کیا اور ایسا رد عمل دکھایا کہ سر انجام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مامور کے خلاف تلوار کھینچ لی ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ مجبور ہوکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس روئداد کی رپورٹ پیش کی ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' عیینہ بن حصن فزاری'' کو پچاس عرب سواروں

جن میں مہاجر و انصار میں سے ایک نفر بھی نہیں تھا کی قیادت سونپ کر تمیمیوں کی سر کوبی کے لئے بھیجا۔ اس گروہ نے تمیمیوں پر حملہ کرکے ان میں سے ایک گروہ کو قیدی بنا کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا دیا۔

اس واقعہ کے بعد خاندان تمیم کے چند رؤسا اور سردار مدینہ آئے اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہوتے ہی فریاد بلند کی :''اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !سامنے آئو !''ان کی اس گستاخی کی وجہ سے مذمت کے طور پر سورہ ''حجرات''کی ابتدا ئی آیا ت نازل ہوئیں ،جن میں ارشاد الٰہی ہوا :

''بیشک جو لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حجروں کے پیچھے سے پکا رتے ہیں ،ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی اور اگریہ اتنا صبر کرلیتے کہ آپ نکل کر باہر آجا تے تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد میں تمیمیوں کے پاس تشریف لائے اور ان کے مقرر کی تقریر اور شاعرکی شاعری سنی ۔اس کے بعد انصار میں سے ایک سخنور اور شاعر کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان کا جواب دے ۔اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ تمیمیوں کے قیدی آزاد کرکے ان کے حوالے کئے جائیں اور تمیمیوں کے گروہ کو ان کے شان کے مطابق کچھ تحفے بھی دیئے ۔

یہ اس داستان کاخلاصہ تھا جو ''طبقات ابن سعد ''میں تمیمیوں کے ایک گروہ کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے سلسلے میں روایت ہوئی ہے ۔

۲۵۰

گزشتہ بحث پر ایک نظر

ہم نے سیف سے روایت نقل نہ کرنے والے دانشمندوں کے ہاں اور اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے عربوں کے وفود اور نمائندوں جن کی تعداد ٧٠ سے زیادہ تھی کی روایتوں میں ''زر ''اور ''اسود''کا کہیں نام و نشان نہیں پایا اور طبقات ابن سعد میں ذکر ہوئی روایت میں بھی سیف بن عمر تمیمی کی خود ستائی اور فخر و مبا ہات کا اشارہ تک نہیں پایا ۔

کونسا افتخار ؟!کیا پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے صدقات جمع کرنے والے مامور کے ساتھ کیا گیا ان کا بر تا ئو قابل فخر ہے یا ''عینیہ فزاری ''کے ہاتھوں ان کے ایک گروہ کو اسیر اور قیدی بنانا ،کہ نمونہ کے طور پر قبیلہ تمیم پر حملہ کرنے والے گروہ میں حتیٰ ایک فرد بھی انصار یا مہاجر میں سے موجود نہ تھا ؟! یا مسجد النبی میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کرنا قابل فخر تھا یا قرآن مجید میں ان کے لئے ذکر ہوئی مذمت اور سرکوبی ؟!

فتح شوش کا افسانہ

طبری نے ١٧ھکے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرکے شوش کی فتح کی داستان یوں بیان کی ہے :

''شوشتر ''اور ''رامہزر''کی فتح کے بعد خلیفہ عمر نے ''اسود''کو بصرہ کی فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا ۔اس نے بھی اپنی فوج کے ساتھ شوش کی فتح میں جس کا کمانڈر انچیف ابو سبرہ قریشی تھا شرکت کی ہے ۔

اس کے بعد طبری شوش کی فتح کی کیفیت کو سیف کی زبانی یوں بیان کرتا ہے :

شوش کا فرمان روا ''شہریار ''''ہرمزان ''کا بھائی تھا ۔''ابو سبرہ ''نے شوش پر حملہ کیا اور بالاخر اسے اپنے محاصرہ میں لے لیا ۔

اس محا صرہ کی پوری مدت کے دوران طرفین کے در میان کئی بار گھمسان کی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ۔زخمیوں کی بھی کافی تعداد تھی ۔جب محاصرہ طول پکڑگیا تو شوش کے راہبوں اور پادریوں نے شہر کے قلعے کے برج پر چڑھ کر اسلام کے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر یہ اعلان کیا :

۲۵۱

اے عرب کے لوگ!جیسا کہ ہمیں خبر ملی ہے اور ہمارے علماء اور دانشمندوں نے ہمیں اطمینا ن دلایا ہے کہ یہ شہر ایک ایسا مستحکم قلعہ ہے جسے خود دجال یا جن لوگوں میں دجال موجود ہو،کے علاوہ کوئی فتح نہیں کرسکتا ہے !اس لئے ہمیں اور اپنے آپ کو بلاوجہ زحمت میں نہ ڈالو اور اگر تم لوگوں کے اندر دجال موجود نہیں ہے تو ہماری اور اپنی زحمتوں کو خاتمہ دے کر چلے جائو ۔کیونکہ ہمارے شہر پر قبضہ کرنے کی تمہاری کوشش بار آور ثابت نہیں ہوگی !!

مسلمان شوش کے پادریوں کی باتوں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے پھر ایک بار ان کے قلعہ پر حملہ آور ہوئے ۔راہب اور پادری پھر قلعہ کے برج پر نمودار ہوکر تند وتلخ حملوں سے مسلمانوں سے مخاطب ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمان غصہ میں آگئے ۔

لشکر اسلام میں موجود ''صاف بن صیاد ''(۱) حملہ آور گروہ میں قلعہ پر حملہ کر رہا تھا ۔ان (پادریوں ) کی باتوں کو سن کر غصہ میں آگیا اور اس نے تن تنہا قلعہ پر دھاوابول دیااور اپنے پیر سے قلعہ کے دروازے پر ایک زور دار لات ماردی اور گالی دیتے ہوئے کہا ''کھل جا بظار ''!(۲) کہ اچانک لوہے کی زنجیریں ٹوٹ کر ڈھیر ہوگئیں ۔کنڈے اور بندھن ٹوٹ کر گرگئے اور دروازہ کھل گیا ۔ مسلمانوں نے شہر پر دھاوا بول دیا !

مشرکوں نے جب یہ حالت دیکھی تو انھوں نے فورا اسلحہ زمیں پر رکھ کر صلح کی درخواست کی مسلمانوں نے ،اس کے باوجودکہ شہر پر زبردستی قبضہ کرچکے تھے ان کی درخواست منظور کر لی ۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ اس داستان کو طبری نے سیف سے نقل کرکے شوش کی فتح کے سلسلے میں درج کیا ہے ۔ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی اسے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

لیکن طبری نے شوش کی فتح کی داستان سیف کے علاوہ دوسروں سے بھی روایت کی ہے ۔ وہ مدائنی کی زبانی شوش کی فتح کے بارے میں حسب ذیل تشریح کرتا ہے۔

ابو موسیٰ اشعری شوش کا محاصرہ کئے ہوئے تھا کہ جولار کی فتح اور یزدگرد ( آخری ساسانی پادشاہ ) کے فرار کی خبر شوش کے لوگوں کو پہنچی ،لہٰذا وہ لڑنے کے ارادہ کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئے اور ابو موسیٰ سے امان کی درخواست کی ، ابو موسیٰ نے ان کو امان دے دی۔

____________________

الف )۔ مکتب خلفاء کی صحیح کتابوں میں ایسا ذکر ہوا ہے کہ '' صاف بن صیاد '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں مدینہ میں پیدا ہوا ہے اور '' دجال '' کے نام سے مشہور تھا اور ایسا لگتا ہے کہ سیف نے شوش کی فتح کے اپنے افسانہ کے لئے صاف کی اس شہر ت سے استفادہ کیا ہے ۔ صحیح بخاری ١٦٣٣،اور ١٧٩٢۔ مسند احمد ٧٩٢و٩٧)

۲)۔ یہ یک ننگی اور بری گالی ہے ۔ اس کا ترجمہ کرنا شرم آور تھا ۔ اس لئے ہم نے اس کلمہ کو من عن استعمال کیا ہے ۔ مترجم ۔

۲۵۲

بلاذری نے بھی اپنی کتاب فتوح البلدا ن میں شوش کی فتح کی خبر کو اس طرح درج کیا ہے :

ابو موسیٰ اشعری نے شوش کے باشندوں سے جنگ کی ، سر انجام ان کو اپنے محاصرے میں لے لیا ۔ اس محاصرہ کا وقفہ اتنا طولانی ہوا کہ محاصرہ میں پھنسے لوگوں کے کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئیں اور لوگوں پر فاقہ کشی و قحطی چھا گئی جس کے نتیجہ میں انھوں نے ابوموسیٰ اشعری سے عاجزانہ طور پر امان کی درخواست کی ۔ ابو موسیٰ نے ان کے مردوں کو قتل کر ڈالا ، ان کے مال و متاع پر قبضہ کر لیا اور ان کے اہل خانہ کو اسیر بنا لیا ۔

ابن قتیبہ دینوری نے اس داستان کو مختصر طور پر اپنی کتاب اخبار الطوار میں لکھا ہے اور ابن خیاط نے بھی اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ابوموسیٰ اشعری نے شہر شوش کو ١٨ ھ میں مذاکرہ اور صلح کے ذریعہ فتح کیا ہے ۔

موازنہ اور تحقیق کا نتیجہ

سیف کہتا ہے کہ شوش کی فتح مسلمانوں کی فوج میں دجال کی موجودگی کے سبب ہوئی ہے ۔ اور اس خبر کے بارے میں اس شہر کے راہبوں اور پادریوں نے اسلام کے سپاہیوں کو مطلع کیا تھا ! اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ ابن صیاد نے قلعہ کے دروازے پر لات ماری اور چلا کر کہا : ''کھل جا.... '' تو ایک دم زنجیر یں ٹوٹ گئیں ، دروازے کے کنڈے اور بندھن گر کر ڈھیر ہو گئے اور دروازہ کھل گیا ۔ شوش کے باشندوں نے ہتھیار رکھ دیئے اور امان کی درخواست کی ۔

اس جنگ کا کمانڈر انچیف ابو سبرہ قرشی تھا اور قبیلہ تمیم عدنانی کے زر اور اسود نامی سیف کے دو جعلی اصحاب بھی اس کے دوش بدوش اس جنگ میں شریک تھے !!

۲۵۳

لیکن سیف کے علاوہ دیگر مورخین نے شوش کی فتح کے عوامل کے سلسلے میں جلولاء میں ایرانیوں کی شکست اور اس شہر کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا اور ساسانیوں کے آخر ی پادشاہ یزدگرد کے فرار کی خبر کا شوش پہنچنا اور شوش کی محاصرہ گاہ میں کھانے پینے کی چیزوں کے ذخائر کا ختم ہونا اور دوسرے جنگی مشکلات بیان کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ شوش کے لوگ اسلامی فوج اور ان کے کمانڈر انچیف ابو موسیٰ اشعری یمانی قحطانی سے عاجزانہ طور پر امان کی درخواست کرنے پر مجبور ہو ئے ۔

سیف میں اپنے قبیلہ تمیم و عدنان کے بارے میں خاندانی تعصب کو ٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ اسی کے سبب وہ ابو موسیٰ اشعری قحطانی کو گورنر ی کے عہدے سے برکنار کرکے اس کی جگہ پر ابوسبرہ عدنانی کو منصوب کرتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ بعید نہیں ہے سیف نے اہواز کی جنگ اور شوش کی فتح کو اس لئے ابو سبرہ عدنانی سے نسبت دی ہوگی تاکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مرتکب ہوئے اس کے ناشائستہ کام کے بد نما داغ کو پاک کر ۔ کیوں کہ عام تاریخ نویسوں نے لکھا ہے :

ہمیں جنگ بدر میں شرکت کرنے والے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب و مہاجرین میں سے ابو سبرہ کے علاوہ کسی ایک کا سراغ نہیں ملتا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مکہ چلا گیا ہو اور وہاں پر رہائش اختیار کی ہو صرف ابو سبرہ نے ایسا کام کیا ہے اور وہ مرتے دم تک وہیں پر مقیم تھا ۔ خلافت عثمان میں اس کی موت مکہ میں واقع ہوئی ہے ۔مسلمانوں کو ابو سبرہ کا یہ کام بہت برا لگا اور انھوں نے اس کی سرزنش کی ، حتیٰ اس کے فرزند بھی اپنے باپ کے اس برے اور ناشائستہ کام کو یاد کرکے بیقرار اور مضطرب ہوتے تھے ۔

۲۵۴

ابو سبرہ جو اس ناشائستہ کام کا مرتکب ہو کر مسلمانوں کی طرف سے مورد سرزنش قرار پایا تھا ، یہاں سیف اس کے اس بد نما داغ کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اس کے مکہ جا کر وہاں رہائش اختیار کرنے کا منکر ہوجا تا ہے ۔ اس لئے عمر کی خلافت کے دوران اسے کوفہ کی حکومت پر منصوب کرتا ہے اور اسے خلیفہ کی سپاہ کے کمانڈر کی حیثیت سے شوش ، شوشتر ، جندی شاپور اور اہواز کے اطراف میں واقع ہوئی دوسری جنگوں میں بھیجتا ہے تاکہ یہ ثابت کرے کہ ابو سبرہ ہجرت کے بعد ہر گز مکہ جاکر وہاں ساکن نہیں ہوا ہے ، بلکہ اس کے برعکس اس نے خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے تلوار اٹھائی ہے ۔

ایسی داستانوں کی منصوبہ بندی میں سیف کا قبائل عدنان کے بارے میں تعصب اور طرفداری کی بنیاد پر قحطانی قبائل سے اختیارات سلب کرنا بخوبی واضح اور روشن ہے ۔ وہ ایک فرد یمانی کی عظمت ، و بزرگی اور عہدے کو اس سے سلب کرکے اسی مقام و منزلت پر ایک عدنانی کو منصوب کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر قبیلہ عدنان کا یہ فرد کسی برے اور ناشائستہ کام کی وجہ سے مورد سرزنش و مذمت قرار پیا ہو تو ایک افسانہ گڑھ کے نہ صرف اس ناشائستہ کام سے اس کے دامن کو پاک کرتا ہے بلکہ اس کے لئے فخر و مباہات بھی خلق کرتا ہے ۔

لیکن حقیقت میں جو کچھ گزرا اگر اسے سیف کے خاندانی تعصب سے تعبیر کریں تو فتح شوش کی خبر ، جو دجال کے قلعہ کے دروازے سے لفظ کھل جا کہہ کر خطاب کرنے کی وجہ سے رو نما ہوئی اور اس دروازے پر لات مارنے سے زنجیر وں کے ٹوٹنے کو کس چیز سے تعبیر کریں گے ؟ اس افسانہ سے قبائل عدنان کے لئے کون سے فخر و مباہاتقائم ہوئے ؟! اس افسانہ کو خلق کرنے میں سیف کا صرف زندیقی ہونا کارفرما تھا تاکہ اس طرح وہ تاریخ اسلام میں شبہ پھیلا کر مسلمانوں کے اعتقادات کے خلاف پوری تاریخ میں اسلام دشمنوں کے لئے اسلام کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کرے ؟!۔

۲۵۵

اسود بن ربیعہ کا رول

جندی شاپور کی جنگ

سیف کہتا ہے کہ اسود بن ربیعہ نے زربن عبد اللہ کے ساتھ جندی شاپور کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خلیفہ عمر نے اس کے ہاتھ نعمان مقرن کے نام ایک خط دے کر اسے نہاوند کی جنگ کے لئے مامور کیا ہے ۔

اسود خاندان تمیم کے ان سپاہ سالار وں میں تھا جنھیں خلیفہ عمر ابن خطاب نے حکم دیا تھا کہ فارس کے علاقہ کے لوگوں کو مشغول رکھ کر نہاوند کے باشندوں کو مدد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا کریں ۔ تمیمیوں نے عمر کے فرمان کوعملی جامہ پہنانے کے لئے اسود بن ربیعہ کے ہمراہ اصفہان اور فارس کی طرف عزیمت کی اور وہاں کے لوگوں کی طرف سے نہاوند کے باشندوں کومدد پہچانے میں زبر دست رکاوٹ ڈالی ۔

سیف نے یہ افسانہ خلق کیا ہے اور طبری نے اسے نقل کیا ہے اور ابن اثیر نے بھی اسی کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

صفین کی جنگ میں

ابن حجر کی کتاب ''الاصابہ''میں سیف بن عمر سے نقل کرکے لکھا گیا ہے کہ اسود بن ربیعہ نے امام علی علیہ السلام کے ہمراہ صفین کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔

ہم نے ''نصر بن مزاحم ''کی کتاب ''صفین ''(جوجنگ صفین کے بارے میں ایک مستقل کتاب ہے )اور کتاب ''اخبارالطوال''اور''تاریخ طبری ''اور دیگر روایتوں کے منابع میں اس طرح کی کوئی خبر اس نام سے نہیں پائی ۔

۲۵۶

جو کچھ سیف نے کہا ہے اور کتاب ''الاصابہ ''میں درج ہواہے ۔اس میں ''مامقانی''نے جزئی طور پر تصرف کرکے روایات کے مصادر کاذکر کئے بغیر لکھا ہے :

اسود نے امیر المؤمنین کے ہمراہ صفین کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔اسی سے پتاچلتا ہے کہ وہ ایک نیک خصال شخص تھا۔

حقیقت میں مامقانی نے ''الاصابہ ''کے مطالب پر اعتماد کرتے ہوئے اسود کو امام علی کے شیعوں میں شمار کیا ہے۔

شیعوں کی کتب رجال میں تین جعلی اصحاب

ہم نے سیف کے افسانوں کی تحقیقات کے ضمن میں پایا کہ وہ اپنے افسانوں کو لوگوں کی خواہشات ، حکام اور سرمایہ داروں کی مصلحتوں کے مطابق گڑھتا ہے اور اس طرح اپنے جھوٹ کو پھیلانے اور افسانوں کو بقا بخشنے کی ضمانت مہیا کرتا ہے.

سیف نے جس راہ کوانتخاب کیا تھا اس کے پیش نظر اس نے عراق میں شیعیان علی اور اہلبیت کے دوستداران کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔ لہٰذا وہ ان کی توجہ اپنی اور اپنے افسانوں کی طرف مبذول کرانے میں غافل نہیں رہا ہے ۔ اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے اپنے بے مثال افسانوی سورما قعقاع تمیمی کو امام علی کا حامی اور کارندہ کے عنوان سے پہچنوا یا ہے ۔ اور اس کو جنگ جمل میں علی کے ہمراہ لڑتے دکھایاہے۔ زیاد بن حنظلہ کو علی اور شیعیان علی کا دوست جتلاتا ہے اور اسے حضرت علی کی تمام جنگوں میں ان کے دوش بدوش شرکت کرتے ہوئے دکھاتا ہے اور سر انجام اسود بن ربیعہ کو صفین کی جنگ میں حضرت علی کے ہم رکاب دکھاتا ہے۔اس طرح ان تین جعلی اصحاب کو مختلف جنگوں اور فتوحات میں شیعہ سرداروں کے عنوان سے پیش کرتا ہے۔

۲۵۷

گزشتہ بحث پر ایک سرسری نظر

سیف نے دو احادیث کے ذریعہ اسود کانسب ، اس کی پیغام رسانی اور اس کا صحابی ہونا بیان کیا ہے۔ ان میں سے ایک کی روایت ابن شاہین اور ابو موسیٰ نے سیف سے کی ہے پھر بعض دانشمندوں نے اس حدیث کو ان سے نقل کیا ہے۔

دوسری حدیث کو طبری نے سیف سے نقل کیاہے اور ابن اثیر نے اس حدیث کو اس سے نقل کیا ہے ۔

چونکہ تمیمیوں کے وفد کی داستان جسے دیگر مورخوں نے ذکر کیا ہے مذکورہ قبیلہ کے لئے کوئی قابل توجہ فخر و مباہات کی خبر نہیں ہے،اس لئے اس کمی کی تلافی کے لئے سیف نے تمیمیوں کے وفد کے حق میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کا افسانہ خلق کیا ہے۔

شوش کی فتح میں بھی دجّال اور اس کے قلعہ کے دروازہ پر لات مارنے اور اس کے غی بے ادبانہ خطاب کو بیان کرتا ہے ۔ ایک قحطانی شخص سے فوج کی کمانڈ چھین کر ابوسبرہ عدنانی کو یہ عہدہ سونپتا ہے اور اپنے دو جعلی اصحاب''زر''و ''اسود'' کو اس کے ساتھ بتاتا ہے ۔ اور اس طرح یہ مقام و منزلت یمانی قحطانیوں سے سلب کر کے عدنانی مضریوں کو تفویض کرتا ہے۔

''ابو سبرہ'' کے مدینہ ہجرت کرنے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد پھر سے مکہ جانے کے ناشائستہ اور منفور کام کا ایک افسانہ کے ذریعہ منکر ہوتا ہے اور اس طرح مسلمانوں کی سرزنش و سرکوبی سے ''ابو سیرہ'' کو نجات دلاتا ہے ۔

طبری نے ان جھوٹ کے پلندوں کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور ابن اثیر و ابن کثیر نے بھی طبری سے نقل کرکے انہی مطالب کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

ہم نے شوش کی فتح میں دجّال کی وجہ سے تمیمیوں کے لئے کوئی فضیلت و افتخار نہیں پایا۔ لہٰذا اس افسانہ کے بارے میں ہم شک میں پڑے اور یہ تصور کیا کہ دجّال کا افسانہ خلق کرنے میں سیف کا زندیقی ہونا محرک تھا تا کہ تاریخ اسلام میں شبہ پیدا کر کے دشمنوں کو اسلام کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کرے۔

سیف نے جندی شاپور کی جنگ میں اسود کو اپنے خاندان تمیم کے تین دیگر جعلی سرداروں کے ساتھ جنگ کرتے دکھایا ہے تا کہ وہ فارس کے نواحی علاقوں میں چوکس رہ کر نہاوند کے باشندوں کو ایرانیوں کی طرف سے مدد پہونچنے میں رکاوٹ بنیں ۔

سیف اسود کو صفین کی جنگ میں امام علی کے ساتھ دکھا تا ہے تا کہ اس طرح اسود کا نام شیعیان امام علی کے مذکورہ تین جعلی سرداروں میں شامل ہوجائے۔

۲۵۸

''زر'' و ''اسود'' کے افسانہ کا سرچشمہ

''زر'' و ''اسود'' کے افسانہ کا سرچشمہ صرف سیف بن عمر تمیمی ہے اور مندرجہ ذیل منابع و مصادر نے اس افسانہ کی اشاعت میں دانستہ یا نادانستہ طور پر سیف کی مدد کی ہے :

١۔ طبری نے بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن شاہین (وفات ٣٨٥ھ ) نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب'' معجم ا لشیوخ ''میں درج کیا ہے ۔

٣۔ ابو موسیٰ ( وفات ٥٨١ھ )نے سیف سے نقل کرکے کتاب ''اسما ء الصحابہ'' کے حاشیہ میں درج کیا ہے ۔

٤۔ ابن اثیر نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٥۔ ابن کثیر نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٦۔ ابن اثیر نے ایک بار پھر ابوموسیٰ سے نقل کرکے اپنی کتاب اسد الغابہ میں درج کیا ہے ۔

٧۔ ذہبی نے ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' التجرید '' میں درج کیا ہے۔

٨۔ ابن حجر نے ابن شاہین سے نقل کرکے اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

٩۔ مامقانی نے ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' سے نقل کرکے اپنی کتاب تنقیح المقال میں درج کیا ہے۔

ان افسانو ں کا نتیجہ

١۔ قبیلہ بنی تمیم سے ایک صحابی ، مہاجر اور لائق کمانڈر کی تخلیق ۔

٢۔ تاریخ نویسوں اور اہل علم کی طرف سے لکھے گئے حقائق کے بر خلاف خاندان تمیم سے ایک

خیالی وفد کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بھیجنا۔

٣۔ حضرت علی علیہ السلام کے ایک صحابی کو خلق کرکے حضرت کے خاص شیعوں کی فہرست میں

قرار دینا ۔

۲۵۹

٤۔ فتح شوش کاافسانہ ، فرضی دجال کی بے ادبی ، راہبوں اور پادریوں کی زبانی افسانہ کے اندر

افسانہ خلق کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہات بیان کرنا ۔ اس طرح تذبذب و تشویش

ایجاد کرکے تاریخ اسلام کو بے اعتبار کرنے کی سیف کی یہ ایک چال تھی ۔

اسود بن ربیعہ یا اسود بن عبس

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا ،وہ ''مالک کے نواسہ اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں سیف کی روایات کا خلاصہ تھا کہ بعض دانشمندوں نے سیف کی ان ہی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے اسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی اصحاب میں شمار کیا ہے ۔

لیکن دانشمندوں نے '' کلبی '' سے نقل کرکے مالک کے نواسہ '' اسود بن عبس '' کے نام سے ایک اور صحابی کا تعارف کرایا ہے ۔ کلبی نے اس کے شجرہ نسب کو سلسلہ وار صورت میں '' ربیعہ بن مالک بن زید مناة '' تک پہنچایا ہے ۔ اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں جو روایت بیان کی گئی ہے وہ اسود بن ربعہ کے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پہنچنے کی روایت کے مشابہ ہے ۔ انساب کے علماء ، جنھوں نے '' اسود بن عبس '' کے حالات اور اس کا نسب اور اس کا صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونا بتایا ہے ، انھوں نے کلبی کی نقل پر اعتماد کیا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ سیف بن عمر نے '' اسود بن ربیعہ '' کو جعل کرنے کے لئے اسے اسود بن عبس کا چچا زاد بھائی تصور کیا ہے ، کیوں کہ جس حنظلہ کے نسب کو سیف ،ابو اسود ربیعہ پر منتہی کرتا ہے وہ مالک بن زید مناة کا بیٹا ہے اور اس کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پہنچنے کی خبر کو اسود بن عبس کے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضورمشرف ہونے سے اقتباس کرکے اپنے افسانہ سازی کی فکر سے مدد حاصل کرکے اس خبر میں دلخواہ تحریف کی ہے ۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371