ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138317 / ڈاؤنلوڈ: 4320
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

بلكہ يہ امر اجتہاد امت كے سپرد كيا گيا ہے _ سياست ، معاشرہ كے انتظامى امور ، حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا طريقہ اور اس كے اختيارات كے متعلق آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعدجو كچھ بھى ہوا ہے وہى حجت ہے كيونكہ يہ سب كچھ رسولخد ا (ص) كے صحابہ كے اجتہاد اور راے كى بناپر ہوا ہے اور ان كا ا جتہاد حجت اور معتبر ہے _

اہلسنت كے سياسى نظام كے دينى نصوص كى بجائے رحلت رسول (ص) كے بعد پيش آنے والے واقعات سے وابستہ ہونے كى وجہ سے سياسى تفكر كے سلسلہ ميں علماء اہلسنت مشكل ميں پڑگئے ہيں كيونكہ يہ سياسى واقعات ايك طرح كے نہيں تھے لہذا ان كے مختلف ہونے كى وجہ سے انكى آراء بھى مختلف ہيں_ بطور مثال خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اوراس كى سياسى ولايت كى مشروعيت كے سرچشمے كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_

خليفہ اول كا انتخاب سقيفہ ميں موجود بعض مہاجرين و انصار كى بيعت سے عمل ميں آيا _ جبكہ امير المومنين حضرت على ، حضرت ابوذر ،حضرت سلمان، حضرت مقداد اور حضرت زبير جيسے جليل القدر صحابہ اس بيعت كے مخالفت تھے_ خليفہ دوم حضرت ابوبكركى تعيين كے ذريعے منتخب ہوئے خليفہ سوم كا انتخاب اس چھ ركنى شورى كى اكثريت رائے سے عمل ميں آيا جسے حضرت عمر نے بنايا تھا _ جبكہ حضرت على كا انتخاب مہاجرين و انصار كے اتفاق رائے اور عامة الناس كى بيعت سے ہوا _ جيسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمايا: خلفاء كے بر سر اقتدار آنے كا طريقہ ايك نہيں تھا _ ان چار خلفاء كے بعد سياسى ولايت كاسرچشمہ مزيد مشكلات اور ابہامات كا شكار ہوگيا كيونكہ معاويہ سميت بہت سے اموى اور عباسى خلفاء نے طاقت اور غلبہ كے زور پر حكومت حاصل كى _ ان كا انتخاب مسلمانوں كى رائے ، بيعت يا اہل حل و عقد كے ذريعہ عمل ميں نہيں آيا_

خلافت اور اس كے انتخاب كے متعلق اہلسنت كے صاحبان نظر كا نظريہ كلى طور پر آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد پيش آنے والے واقعات سے متاثر ہے _ ان كى ہميشہ يہ كوشش رہى ہے كہ اپنے سياسى نظام كو

۱۰۱

اس طرح پيش كيا جائے كہ وہ ان تمام واقعات كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكے_ مثلاً آپ خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اور مشروعيت كے متعلق ''ماوردي'' كے كلام كو ديكھيں كہ وہ كس طرح انتخاب خليفہ كے ان مختلف طريقوں كو جمع كرتے ہيںوہ كہتے ہيں :امامت كا اثبات دو طريقوں سے ممكن ہے _ ايك اہل حل و عقد كے اختيار اورانتخاب سے اور دوسرا سابق امام كى وصيت و تعيين سے _ اس دوسرے طريقہ ميں يہ اختلاف پايا جاتا ہے كہ كيا اہل حل و عقد كے اجماع كے بغير خلافت ثابت ہوسكتى ہے؟

حق يہ ہے كہ كسى امام كى امامت و خلافت سابقہ امام كى تعيين سے ثابت ہوجاتى ہے اور اس كيلئے اہل حل و عقد كى رضايت ضرورى نہيں ہے كيونكہ حضرت عمر كى امامت صحابہ كى رضايت پر موقوف نہيں تھى _ دوسرا يہ كہ سابقہ خليفہ بعد والے خليفہ كے تعيّن كا دوسروں كى نسبت زيادہ حق ركھتا ہے_ اور وہ دوسروں يعنى اہل حل و عقد سے زيادہ با اختيار ہے_(۱)

اہل سنت كے نظريہ خلافت كے متعلق دوسرا اہم نكتہ يہ ہے كہ كيا خليفة المسلمين ہونا ،صاحب خلافت كيلئے كسى خاص اخلاقى اور معنوى مقام و منزلت پر دلالت نہيں كرتا؟

صدر اسلام ميں لفظ ''خليفہ ''كو اس كے لغوى معنى ميں استعمال كيا جاتا تھا اور اس پر كوئي خاص معنوى شان و منزلت مترتب نہيں كرتے تھے_ ''خلافت ''لغوى لحاظ سے مصدر ہے_ جس كے معني'' غير كى جانشينى '' اور ''نيابت'' كے ہيں _ خليفہ وہ ہے جو كسى دوسرے كى جگہ پر آئے _بنابريں خليفہ رسول وہ شخص ہے جو آنحضرت(ص) كے بعد مسلمانوں كى قيادت اپنے ہاتھ ميں لے_ خليفہ اول كے بعد خليفہ وہ ہے جو رسولخدا (ص) كے جانشين كے بعد مسلمانوں كا قائد بنے_ يعنى وہ رسولخدا (ص) كے خليفہ كا خليفہ ہے_ خود خلفاء كے كلام

____________________

۱) الاحكام السلطانيہ، ابوالحسن ماوردى ص ،۶و ۱۰ _

۱۰۲

سے بھى ظاہر ہوتا ہے كہ ابتدائے استعمال ميں عنوان ''خليفہ ''كسى خاص معنوى معانى كا حامل نہيں تھا اور آنحضرت (ص) كى ذاتى صفات و كمالات كا حامل ہونے سے حكايت نہيں كرتا تھا_ ليكن امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ حكومتوں كے استحكام كيلئے اس منصب كو معنوى تقدس اور احترام كا لبادہ پہنايا جانے لگا اور خليفہ رسول كو آنحضرت (ص) كے معنوى كمالات كا حامل بھى سمجھا جانے لگا_

آخرى نكتہ جس كى طرف اشارہ ضرورى ہے يہ ہے كہ خلافت اسلاميہ كى تاريخ گواہ ہے ، كہ ايسے افراد بھى بر سر اقتدار آئے جو اگر چہ خليفہ رسول كے نام پر حكومت كر رہے تھے_ ليكن سيرت و كردار ، اور اخلاقى صفات و كمالات كے لحاظ سے نہ صرف رسولخدا (ص) بلكہ ايك عام مسلمان سے بھى كو سوں دور تھے_ يہ مسئلہ خود اس سوال كيلئے كافى ہے كہ اہلسنت جس نظام خلافت پر بہت زور ديتے ہيں اس نظام اور نظام سلطنت و ملوكيت ميں كيا فرق ہے؟ اس ابہام ميں مزيد اضافہ اس بات سے ہوتا ہے كہ نظام خلافت كے حاميوں ميں سے بعض نے تو امام يا خليفہ كى مخصوص شرائط بھى بيان نہيں كيں_ بلكہ بعض كے كلام سے تو يہ ظاہر ہوتا ہے كہ مسلمانوں كے حكمران كى اطاعت كے واجب ہونے ميں اس كا متقى اور عادل ہونا سرے سے شرط ہى نہيں ہے_ ابوبكر باقلانى (م۴۰۳ھ ) جمہور اہل حديث سے نقل كرتے ہيں : ''حاكم يا امام كے فسق و فجور كا ظاہر ہونا، اس كے ہاتھوں نفوس محترمہ كى ہتك حرمت ، حدود الہى كى پائمالى اور لوگوں كے مال كا غصب ہونا اس كى قدرت كے فقدان اور اطاعت سے خارج ہونے كا باعث نہيں بنتا'' _ اس نظريہ كى تائيد كيلئے اہل حديث آنحضرت (ص) اور صحابہ سے منقول روايات كا سہارا ليتے ہيں _ مثلا:

''اسمعوا وأطيعوا و لو لعبد اجدع و لو لعبد حبَشى و صَلُّوا وَرائَ كلّ برّ و فاجر''

۱۰۳

'' حاكم كى اطاعت كرو اگر چہ وہ ناك كٹا غلام ہى كيوں نہ ہو اور اگر چہ وہ حبشى غلام ہى كيوں نہ ہو اور ہر نيك يا بد كے پيچھے نماز پڑھو''_

يا يہ روايت كہ:

''أطعهم و ان أكَلُوا مالَك و ضَرَبُوا ظهرَك'' (۱)

'' حكمرانوں كى اطاعت كرو چاہے انہوں نے تمہارے اموال غصب كئے ہوں اور تمھيں مارا پيٹا ہو''_

مخفى نہ رہےكہ احمد بن حنبل جيسے بعض گذشتہ علماء اہلسنت معتقد ہيں كہ حسن ابن على كے بعد والے حكمرانوں پر خليفہ كا اطلاق مكروہ ہے_ يہ علماء خلافت اور ملوكيت و سلطنت ميں فرق كے قائل ہيں_ ان كى دليل وہ روايت ہے جسے ابوداود اور ترمذى نے آنحضرت (ص) سے نقل كيا ہے :

''الخلافةُ فى أُمتى ثلاثونَ سنة ثمّ ملك بعد ذلك'' (۲)

ميرى امت ميں تيس (۳۰) سال تك خلافت ہے اس كے بعد ملوكيت ہے_

اس كے باوجود اكثر علماء اہلسنت كى عملى سيرت يہ رہى ہے كہ انہوں نے اپنے حكمرانوں اور خلفاء كى اطاعت كى ہے اور ان كى مخالفت كرنے سے پرہيز كيا ہے_ اگر چہ ان ميں سے بہت سے خلفا ء فاسق و فاجر تھے_

____________________

۱) التمہيد فى الردّ على الملحدة، ابوبكر باقلانى ،ص ۲۳۸_

۲) مأثر الانافة فى معالم الخلافہ ، احمد ابن عبداللہ قلقشندى ،ص ۹_

۱۰۴

خلاصہ :

۱) اسلامى علم كلام ميں مسئلہ امامت اس سوال كا جواب ہے كہ كيا اسلامى تعليمات نے رحلت رسو ل (ص) كے بعد سياسى ولايت كے متعلق سكوت اختيار كيا ہے يا نہيں؟

۲) اہلسنت معتقد ہيں كہ سياسى قيادت كا تقرر خود ا مت كے سپرد كيا گيا ہے اور صدر اسلام كے مسلمانوں نے اپنے اجتہاد اور رائے سے ''نظام خلافت ''كا انتخاب كيا_

۳) شيعہ ''نظام امامت ''كے معتقد ہيں اور يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ دينى نصوص نے رحلت رسولخدا (ص) كے بعد مسئلہ امامت كو واضح كرديا ہے_

۴)''امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فرعى مسئلہ ہے جبكہ شيعہ اسے ايك اعتقادى مسئلہ اور اصول دين ميں سے قرار ديتے ہيں_

۵) اہلسنت كے سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كى بنياد صحابہ كے عمل پر ہے_

۶) صدر اسلام كے خلفاء كے تعيّن اور طرز انتخاب كے مختلف ہونے كى وجہ سے اہلسنت كا سياسى تفكر ايك جيسا نہيں رہا اور اتفاق نظر سے عارى ہے_

۷) ابتداء ميں لفظ ''خليفہ ''معنوى خصوصيات كا حامل نہيں تھا ليكن مرور زمان كے ساتھ ساتھ خليفہ كو رسولخدا (ص) كے دينى اور معنوى جانشين كے طور پر متعارف كرايا گيا_

۸) بہت سے موارد ميں اہلسنت كے مورد نظر ''نظام خلافت '' اور ''نظام سلطنت'' كے درميان فرق كرنا مشكل ہے_

۱۰۵

سوالات :

۱) مسئلہ امامت ميں اصلى نزاع كيا ہے؟

۲)'' نظام خلافت'' سے كيا مراد ہے؟

۳) اہل تشيع اور اہل تسنن كے نزديكمسئلہ امامت كا كيا مقام ہے؟

۴) سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كو بيان كرنے كيلئے اہلسنت نے كس چيز پر اعتماد كيا ہے؟

۵) نظريہ خلافت سے متعلق سياسى ولايت كى مشروعيت كو بيان كرنے ميں اہلسنت كيوں مشكل سے دوچار ہوئے؟

۶) اہلسنت كے در ميان لفظ ''خلافت اور خليفہ'' كے استعمال نے كن راہوں كو طے كيا ہے؟

۷) نظام خلافت كو نظام سلطنت و ملوكيت سے تميز دينے ميں كونسى شئے ابہام كا باعث بنى ہے؟

۱۰۶

بارہواں سبق :

شيعوں كا سياسى تفكر

سياسى ولايت كے سلسلہ ميں آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد شيعہ ''نظريہ امامت ''كے معتقد ہيں _ شيعہ معتقد ہيں كہ ائمہ معصومين صرف سياسى ولايت اور شان و منزلت كے حامل نہيں تھے بلكہ ان كا ايمان ہے كہ ائمہ معصو مين وحى الہى كے علاوہ آنحضرت (ص) كى تمام صفات و كمالات ميں آپ (ص) كے جانشين ہيں _ بنابريں ائمہ معصومين سياسى ولايت سميت ولايت معنوي، معاشرہ كى دينى راہنمائي اور لوگوں كو دينى حقائق كى تعليم دينے جيسى خصوصيات كے بھى حامل ہيں _ وہ رسولخد ا (ص) كے حقيقى خلفاء ، وارث اور جانشين ہيں اور اس وراثت كا لازمہ يہ ہے كہ معنوى ، علمى اور سياسى اوصاف ميں رسولخدا (ص) كے بعد ائمہ معصومين تمام لوگوں سے افضل ہوں اور امامت اور خلافت نبوى كے منصب كيلئے اپنے دور كے تمام افراد سے زيادہ شائستہ ہوں _ اسى وجہ سے اہلسنت كے بعض علماء نے شيعہ كى تعريف ميں اسى نكتہ كى طرف اشارہ كيا ہے _

ابن حزم '' اہل تشيع'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں :

۱۰۷

''و مَن وافق الشيعة فى أنّ عليّاً أفضل الناس بعد رسول الله (ص) و أحقّهم بالامامة و وُلده من بعده، فهو شيعى و إن خالفهُم فيما عدا ذلك مما اختلف فيه المسلمون، فإن خالَفَهُم فيما ذكرنا فليس شيعيّاً'' (۱)

جو شخص شيعوں كى اس بات سے اتفاق كرتا ہے كہ رسولخدا (ص) كے بعد على سب سے افضل ہيں_ اور آپ(ع) اور آپ (ع) كى اولاد دوسروں سے زيادہ حقدار امامت ہے وہ شيعہ ہے اگر چہ مسلمانوں كے نزديك مورد اختلاف ديگر چيزوں ميں شيعوں سے اختلاف رائے ركھتا ہو اور اگر وہ اس چيز ميں شيعوں سے اتفاق نہيں كرتا جسے ہم نے ذكر كيا ہے تو وہ شيعہ نہيں ہے_

شيعوں كا سياسى نظريہ اہلسنت كے نظريہ خلافت سے دو بنيادى نكات ميں مختلف ہے پہلانكتہ يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت اور سياسى ولايت كے متعلق شيعہ دينى نصوص كو ساكت نہيں سمجھتے بلكہ معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) كے بعد خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بہت سى معتبر نصوص موجودہيں _ اسى وجہ سے وہ ائمہ معصومين كى ولايت كے جواز كا مبداء و سرچشمہ ،ارادہ الہى اور خدا كى طرف سے تعيين كو سمجھتے ہيں_ اہلبيت كى ولايت اور امامت ايك الہى منصب ہے جيسا كہ امت پر رسولخد ا (ص) كى ولايت كا سرچشمہ الہى تھا اور اس كا جواز لوگوں كى بيعت اور رائے كا مرہون منت نہيں تھا_

دوسرا نكتہ اختلاف يہ ہے كہ شيعوں كى نظر ميں لفظ ''امام'' خليفہ رسول كے حقيقى معنى ميں ہے يعنى معنوي، علمى اور سياسى تمام جہات ميں رسولخدا (ص) كا جانشين _ جبكہ اہلسنت خلفاء كى جانشينى كو اس كے لغوى معنى ميں ليتے ہيں _ يعنى بعد ميں آنے والا _ البتہ ائمہ معصومين كے متعلق شيعوں كے اعتقاد سے متاثر ہوكر

____________________

۱) الفصَل فى الملل و الاہواء و النحل ج ۲، ص ۱۱۳_

۱۰۸

اہلسنت كے بعض علماء نے يہ نظريہ قائم كرليا ہے كہ آنحضرت (ص) كے بعد پہلے چار خُلفاء بالترتيب تمام لوگوں سے افضل ہيں _ حالانكہ اس عقيدہ كا صدر اسلام حتى كہ خليفہ اول اور دوم كے دور ميںبھى كوئي وجود نہيں تھا_ اہلسنت ميں يہ عقيدہ اموى اور عباسى خلفاء كے ذريعہ آيا جس كى تقويت انہوںنے اپنے سياسى اغراض اور شيعوں كى ضد ميں آكر كى انہوں نے اس عقيدہ كى ترويج كى بہت زيادہ كوششيں كيں كہ وہ بھى رسولخدا (ص) كى بعض خصوصيات كے حامل ہيں (۱) _

بہت سى معتبر روايات دلالت كرتى ہيں كہ امامت كا ايك خاص اجتماعى اور ايمانى مقام و منزلت ہے امامت اسلام كے دوسرے فروع اور اجزا كى طرح نہيں ہے _ بلكہ بہت سے احكام اور فروع كا قوام اور اسلام و مسلمين كى اساس ''امامت'' پر ہے _ ہم بطور نمونہ بعض روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

مرحوم شيخ كليني جناب زرارہ كے واسطہ سے امام باقر سے نقل كرتے ہيں :

بُنى الاسلام على خمسة أشيائ: على الصلاة و الزكاة و الحجّ والصوم و الولاية قال زرارة: فقلت و أيّ شيء من ذلك أفضل؟ فقال: الولاية أفضل; لانّها مفتاحهنّ والوالى هو الدليل عليهنّ ثمّ قال: ذروة الامر و سنامه و مفتاحه و باب الا شياء و رضا الرحمان الطاعة للامام بعد معرفته ان الله (عزوجل) يقول:( ( مَن يُطع الرَّسولَ فَقَد أطاعَ الله َ و مَن تَولّى فَما أرسلناك عَليهم حَفيظاً ) )(۲)

____________________

۱) الاسلام السياسي، محمد سعيد العشماوى ص ۹۳و ۹۴_

۲) الكافى جلد ۲ صفحہ ۱۸_۱۹، باب دعائم الاسلام حديث ۵ جبكہ حديث ميں مذكور آيت سورہ نساء كى ۸۰ نمبر آيت ہے_

۱۰۹

اسلام كى بنياد اور اساس پانچ چيزوں پر ہے : نماز ، زكوة ، حج، روزہ اور ولايت _

جناب زرارہ كہتے ہيں : ميں نے پوچھا كہ ان ميں سے افضل كونسى چيز ہے ؟ امام نے فرمايا :ولايت سب سے افضل ہے كيونكہ يہ ان تمام كى كنجى ہے اور ولى ان پرراہنمائي كرنے والا ہے پھر فرمايا: امر دين كا بلندترين مرتبہ اور اس كى كنجى ، تمام اشياء كا دروازہ اور خدا كى رضا، امام كى معرفت كے بعد اس كى اطاعت ميں پنہاں ہے _ الله تعالى فرماتا ہے: جس نے رسول كى اطاعت كى اس نے خدا كى اطاعت كى اور جس نے روگردانى كى تو ہم نے تمھيں ان پر نگران بنا كر نہيں بھيجا_

امام رضا ايك حديث ميں امامت كو زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، اسلام كى اساس اور بہت سے احكام كى تكميل كى بنياد قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''انّ الامامة زمام الدين و نظام المسلمين و صلاح الدنيا و عزّ المؤمنين انّ الامامة أسّ الاسلام النامى و فرعه السامي_ بالامام تمام الصلاة و الزكاة والصيام والحجّ والجهاد و توفير الفيء و الصدقات وامضاء الحدود والأحكام و منع الثغوروالاطراف الامام يحلّ حلال الله و يحرم حرام الله و يقيم حدود الله و يذبّ عن دين الله ''(۱)

يقيناً امامت زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، صلاح دنيا اور صاحبان ايمان كى عزت ہے_ امامت اسلام كى نشو و نما كرنے والى جڑ اور اس كى بلندترين شاخ ہے _ نماز، روزہ، حج،زكوة اور جہاد كى تكميل امام كے ذريعہ سے ہوتى ہے _ غنيمت اور صدقات كيشرعى قانون

____________________

۱) الكافى جلد ۱، صفحہ ۲۰۰ ، باب نادرجامع فى فضل الامام وصفاتہ حديث۱ _

۱۱۰

كے مطابق تقسيم ، حدود و احكام كا اجر اء اور اسلامى سرزمين اور اس كى سرحدوں كى حفاظت امام كے وسيلہ سے ممكن ہے _ امام ہى حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام كرتا ہے حدود الہى كو قائم كرتا ہے اور دين كا دفاع كرتاہے_

حضرت على بھى امامت كو امت كا نظام حيات اور اسكى اطاعت كو اسكى تعظيم قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''فَرَضَ الله الإيمان تَطهيراً من الشرك والإمامة نظاماً للأُمة والطاعة تعظيماً للإمامة'' (۱)

الله تعالى نے ايمان كو شرك سے بچنے كيلئے ، امامت كو نظام امت اور اطاعت كو امامت كى تعظيم كيلئے واجب قرار دياہے _

قابل ذكر ہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _

الف: امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں

ب : امام زمانہ( عجل اللہ فرجہ الشريف ) كى غيبت كے زمانہ ميں

امام كے حضور كے زمانہ ميں سياسى ولايت كے متعلق شيعہ علماء كا نظريہ مكمل طور پر متفقہ اور واضح ہے_ شيعہ نظريہ امامت كے معتقد ہيں اور امت كى ولايت كو امام معصوم كى امامت كا ايك حصہ اور جز سمجھتے ہيں _ تمام وہ حكومتيں جو اس حق خدا كو پامال كر كے تشكيل پائي ہوں انہيں غاصب اور ظالم قرار ديتے ہيں اور اس نظريہ ميں كسى شيعہ عالم كو اختلاف نہيں ہے ، كيونكہ شيعوں كى شناخت اور قوام اسى اعتقاد كى بناپر ہے _وہ شئے جو قابل بحث و تحقيق ہے وہ غيبت كے زمانہ ميں شيعوں كا سياسى تفكر ہے _

____________________

۱ ) نہج البلاغہ حكمت ۲۵۲_

۱۱۱

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر :

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر اس طرح واضح ، روشن اور متفق عليہ نہيں ہے جس طرح زمانہ حضور ميں ہے _ شيعوں كا كوئي عالم دين ائمہ معصومين كى سياسى ولايت اور امامت ميں شك و ترديد كا شكار نہيں ہے كيونكہ امامت ميں شك تشيّع سے خارج ہونے كے مترادف ہے _ائمہ معصومين كى امامت پر نہ صرف سب كا اتفاق ہے بلكہ تشيّع كى بنياد ہى امامت كے نظريہ پر ہے _ ليكن سوال يہ ہے كہ امام معصوم كى غيبت كے زمانہ ميں بھى ان كى سياسى ولايت كے متعلق يہى اتفاق نظر ہے ؟

حقيقت يہ ہے كہ تمام جہات سے ايسا اتفاق نظر موجود نہيں ہے _ يعنى ايك واضح و ثابت قول كى تمام علماء شيعہ كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _ كيونكہ اس بحث كے بعض پہلوؤں ميں ان كے در ميان اختلاف پايا جاتا ہے _ آئندہ كى بحثوں ميں آئے گا كہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران علماء شيعہ ''فقيہ عادل'' كى ولايت كے قائل ہيں _ اور فقيہ عادل كو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كا نائب عام سمجھتے ہيں _ ليكن اس فقيہ عادل كى ولايت كى حدود اور اختيارات ميں اتفاق نہيں ہے _ ولايت فقيہ كى حدود كے سلسلہ ميں ايك واضح اور مشخص نظريہ كى تمام علماء كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _

ولايت فقيہ كى تاريخ پر بحث كے دوران تفصيل سے آئے گا كہ علماء شيعہ ''اصل ولايت فقيہ'' اور فقيہ عادل كى بعض امور ميں امام معصوم كى جانشينى پر اتفاق نظر ركھتے ہيں _اختلاف اس ميں ہے كہ اس ولايت كا دائرہ اختيار كس حد تك ہے _

بعض بڑے شيعہ فقہاء اس ولايت اور جانشينى كو عام اور ان تمام امور ميں سمجھتے ہيں كہ جن ميں امام كى جانشينى ممكن ہے اور اس طرح فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كے قائل ہيں _ جبكہ بعض دوسرے فقہا اس جانشينى كو محدود اور خاص موارد ميں قرار ديتے ہيں _

۱۱۲

مسلمان معاشرے كے اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى سياسى ولايت اس كى ولايت عامہ كے اثبات پر موقوف ہے _ كيونكہ امام معصوم كى خصوصيات ميں سے ايك آپ كى سياسى ولايت بھى ہے اور يہ خصوصيت قابل نيابت ہے _ جبكہ ائمہ معصومين كا مقام عصمت، علم الہى اور معنوى كمالات قابل نيابت نہيں ہيں _ تيسرے باب ميں ہم ولايت فقيہ اور اس كى ادلّہ پر تفصيلى بحث كريں گے _ اسى طرح'' فقيہ عادل'' كا منصب ولايت پر فائز ہونا اور اس كے دائرہ اختيار پر بھى گفتگو كريں گے _

البتہ اس بات كا اعتراف كرنا پڑے گا كہ شيعہفقہا نے ''فقہ سياسي'' يعنى ''فقہ حكومت'' كى مباحث كو اس قدرا ہميت نہيں دى جس طرح دوسرى عبادى اوربعض معاملاتى مباحث كو دى ہے _ بہت سے فقہا نے تو اس قسم كى فقہى فروعات كو بيان ہى نہيں كيا اور انہيں مورد بحث ہى قرار نہيں ديا _ اور اگر بيان بھى كياہے تو بہت مختصر اور اس كے مختلف پہلوؤں اور مسائل كا اس طرح دقيق تجزيہ و تحليل نہيں كيا جس طرح عبادى اور معاملاتى مسائل كا كيا ہے _ يہ بات دوسرے فقہى ابواب كى نسبت ''فقہ سياسي'' كے باب كے ضعف كا باعث بنى ہے _ يقينا اگر شيعوں كے جليل القدر فقہاء دوسرے عبادى ابواب كى طرح '' فقہ الحكومة '' كے باب ميں بھى دقيق بحث كرتے تو آج شيعوں كے سياسى تفكر ميں مزيد ارتكاء ديكھنے كو ملتا _

امويوں اور عباسيوں كے زمانہ ميں حكمرانوں كى طرف سے شيعوں پر اس قدر دباؤ تھا اور ان كے حالات اسقدر ناسازگار تھے كہ اولاً ائمہ معصومين تك دسترسى كے امكان كى صورت ميں بھى تقيہ كى وجہ سے اس قسم كے حساس سياسى مسائل پر گفتگو كرنے سے اجتناب كرتے تھے _ كيونكہ اس سے موجودہ حكومتوں كى واضح نفى ہوتى تھى لہذا اس قسم كے مسائل پر بحث كرنے كيلئے حالات سازگار نہيں تھے _ ثانياً يہ اقليت اس قدر دباؤ اور محروميت كا شكار تھى كہ خود كو بر سر اقتدار لانے اور ايك صحيح دينى حكومت كى تشكيل كو انتہائي مشكل سمجھتى

۱۱۳

تھى لہذا اس نے اپنى تمام تر ہمت اپنى بقا اور غاصب حكومتوں سے نفرت ميں صرف كردى اور حكومتى روابط ، مسائل اور سياسى نظام كے متعلق سوالات كے بارے ميں بہت كم فكر كى _بنابريں عبادى احكام كى نسبت'' فقہ سياسي'' كے متعلق روايات كا ذخيرہ بہت كم ہے _

اسى طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے بعد بھى شيعوں كيلئے اجتماعى اور سياسى حالات سازگار نہيں تھے_ لہذا علماء شيعہ نے سياسى مباحث كے پھيلاؤ اور اس كى تحقيقات ميں كوئي خاص اہتمام نہيں كيا _

۱۱۴

خلاصہ :

۱) شيعہ ائمہ معصومين كيلئے سياسى ولايت سے وسيع تر مقام و منزلت كے قائل ہيں _

۲) يہ مخصوص شان و منزلت جو ان كى افضليت كے اعتقاد كا باعث ہے _ شيعہ كى پہچان ہے اور امامت كے متعلق شيعہ اور سنى كے درميان وجہ افتراق يہى ہے _

۳) مكتب اہلبيت اور معصومين كى روايات كى روشنى ميں امامت ايك عظيم اجتماعى اور دينى شان ومنزلت كى حامل ہے اور سياسى ولايت ميں محدود نہيں ہے _

۴) شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _

الف : امام معصوم كے زمانہ ظہور ميں

ب : زمانہ غيبت ميں

۵) زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر زمانہ حضور ميں سياسى تفكر كى طرح واضح اور روشن نہيں ہے _

۶) زمانہ غيبت ميں تمام شيعہ علمائ'' اصل ولايت فقيہ ''كے قائل ہيں ليكن اس ولايت كے دائرہ اختيار ميں اختلاف نظر ركھتے ہيں _

۷) شيعہ علماء كے درميان ''سياسى فقہ'' كے متعلق مباحث كى كمى كى وجہ ظالم اور فاسق حكومتوں كا دباؤ ہے _

۱۱۵

سوالات :

۱) اہل تشيع كے نظريہ'' امامت ''اور اہلسنت كے نظريہ ''خلافت ''كے در ميان دو بنيادى فرق بيان كيجيئے _

۲) روايات اہلبيت نے امامت كيلئے كونسى اجتماعى اور ايمانى شان و منزلت كو بيان كيا ہے ؟

۳) شيعوں كے زمانہ حضور اور زمانہ غيبت كے سياسى تفكر ميں كيا فرق ہے ؟

۴) زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ كے متعلق علماء شيعہ كے درميان وجہ اشتراك اور وجہ اختلاف كيا ہے ؟

۵) شيعہ علماء كے درميان عبادى مباحث كى نسبت ''سياسى فقہ'' كى مباحث كے كم ہونے كى وجہ كيا ہے ؟

۱۱۶

تيرہواں سبق:

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۱-

اہلسنت كے سياسى نظريہ كى وضاحت كے دوران ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو چكا ہے كہ وہ آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت كے سلسلہ ميں دينى متون كو ساكت سمجھتے ہيں اور معتقد ہيں كہ سياسى ولايت كا كام خود امت كے سپرد كيا گيا ہے _ شورى يعنى ''اہل حل و عقد'' كى رائے اور'' بيعت مسلمين ''اسلامى حاكم كى تعيين كرتے ہيں _ واضح ہے كہ ايسا دعوى شيعہ عقائد كے ساتھ سازگار نہيں ہے _ علم كلام كى كتابوں ميں امامت كے متعلق جو معتبر اور متعدد ادلّہ قائم كى گئي ہيں وہ اس دعوى كو بے معنى قرار ديتى ہيں _ ائمہ معصومين كى امامت ''انتصابى ''يعنى خدا كى طرف سے مقرركردہ ہے_ لوگوں كى بيعت صرف امام كے اختيارات كو عملى جامعہ پہنانے ميں مددگار ثابت ہوتى ہے اوراس كا امامت كى حقيقت ميں كوئي كردار نہيں ہوتا_ ليكن سوال يہ ہے كہ كيا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران بھى اس دعوے كو تسليم كيا جاسكتا ہے ؟ اور كيازمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا اختيار خود شيعوں كو حاصل ہے اور بيعت اور شورى سياسى رہبر كا انتخاب كرے گي؟ يہ بحث اس مفروضہ كى بناپر ہے كہ ائمہ معصومين كى نيابت عامہ موجود نہيں ہے اور روايات كى روسے فقيہ

۱۱۷

عادل كو ولايت تفويض نہيں كى گئي _

اس سبق اور اگلے سبق ميں ہم ان دونكتوں كى تحقيق كريں گے _ پہلا يہ كہ كيا روايات ميں اس دعوى كے تسليم كرنے پر كوئي دليل موجود ہے ؟ اور كيا زمانہ غيبت ميں بيعت اور شورى ''سياسى زندگي'' كا تعيّن كرسكتے ہيں ؟ دوسرا يہ كہ اصولى طور پر اسلام كے سياسى تفكر ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے ؟

حضرت اميرالمومنين سے بعض ايسى روايات منقول ہوئي ہيں جو صريحاً كہتى ہيں كہ سياسى ولايت كا حق خود امت كو حاصل ہے _ لہذا اگر مسلمانوں كى شورى كسى كو مقرر كردے اور لوگ اس كى بيعت كرليں تو وہى مسلمانوں كا حاكم اور ولى ہے _ اس قسم كى روايات كى تحقيق سے پہلے ضرورى ہے كہ بيعت اور اس كى اقسام كے متعلق مختصر سى وضاحت كردى جائے _

بيعت كا مفہوم اور اس كى اقسام :

بيعت ايك قسم كا عہد و پيمان اور عقد ہے جو ظہور اسلام سے پہلے عرب قبائل ميں رائج اور مرسوم تھا لہذا يہ ايسا مفہوم نہيں ہے جسے اسلام نے متعارف كروايا ہو _ البتہ متعدد مواقع پر سيرت نبوى (ص) نے بيعت مسلمين كو شرعى جواز بخشا ہے _

بيعت اور بيع لفظ ''باع'' كے دو مصدر ہيں اسى وجہ سے بيعت كا مفہوم بڑى حد تك بيع كے مفہوم سے مطابقت ركھتا ہے جو كہ خريد و فروخت كے معنى ميں ہے _ بيع وہ عقد اور معاملہ ہے جس ميں فروخت كرنے والے اور خريدار كے در ميان مال كا تبادلہ ہوتا ہے _ اسى طرح بيعت وہ معاملہ ہے جو ايك قوم كے رہبر اور اس كے افراد كے درميان قرار پاتا ہے اس بنياد پر كہ بيعت كرنے والے اپنى اطاعت ، اپنے وسائل و امكانات اور اموال كو اس كے زير فرمان قرار دے ديتے ہيں_

۱۱۸

جس طرح بيع (خريد و فروخت)ميں معاملہ كرنے والوں كے درميان ابتدا ميں قيمت اور دوسرى شرائط طے پاتى ہيں پھر معاملہ انجام پاتا ہے _ '' غالباًيہ معاملہ گفتگو كے ذريعہ انجام ديا جاتا ہے ليكن كبھى كبھى فعل يعنى صرف عملى طور پر بھى انجام پاتا ہے كہ جسے بيع معاطات كہتے ہيں ''_ بيعت ميں بھى اسى طرح پہلے گفتگو ہوتى ہے اور تمام شرائط پر رضايت حاصل كى جاتى ہے پھر دوسرے كے ہاتھ ميں ہاتھ دے كر اپنى رضايت كا اقرار كيا جاتا ہے _ اس طرح بيعت ہوجاتى ہے يہ معاہدہ بيعت مختلف طرح كا ہوسكتا ہے اسى لئے ہميں بيعت كى مختلف قسميں ديكھنے كو ملتى ہيں _بيعت كى جو قسم غالب اور رائج ہے وہ مقابل كى سياسى ولايت كو قبو ل كرنے سے متعلق ہے_ عربوں كے در ميان ايك شخص بيعت كے ذريعہ دوسرے شخص كى سياسى ولايت كو قبول كرليتا تھا _ سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ، قتل عثمان كے بعد امير المومنين حضرت على كى بيعت اور خليفہ كے تعيّن كے لئے حضرت عمر نے جو شورى تشكيل دى تھى اس ميں عبدالرحمن ابن عوف كا حضرت عثمان كى بيعت كرنا يہ سب خلافت اور سياسى ولايت پر بيعت كرنے كے موارد ہيں_ ليكن بيعت صرف اسى قسم ميں منحصر نہيں ہے كيونكہ كبھى بيعت اس لئے كى جاتى تھى تا كہ دشمن كے مقابلہ ميں جہاد اور ثابت قدمى كا عہد ليا جائے _ جس طرح بيعت رضوان كا واقعہ ہے جو كہ حديبيہ كے مقام پر ۶ ہجرى ميں لى گئي_ سورہ فتح كى اٹھارہويں آيت ميں اس كى طرح اشارہ ہے _

( ''لَقَد رَضيَ الله ُ عَن المؤمنينَ اذيُبا يعُونَك تَحْتَ الشَّجرة فَعَلمَ ما فى قلُوبهم فا نْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْهم'' )

خدا صاحبان ايمان سے راضى ہوگيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے جو كچھ ان كے دلوں ميں تھاوہ اسے جانتا تھا پس اس نے ان پر سكون نازل كيا _

۱۱۹

۶ ہجرى تك مسلمانوں پر رسولخدا (ص) كى سياسى اور دينى قيادت اور ولايت كو كئي سال گذر چكے تھے _ لہذا يہ بيعت آنحضرت (ص) كو سياسى قيادت سونپے كيلئے نہيں ہوسكتى _ جناب جابر جو كہ اس بيعت ميںموجود تھے كہتے ہيں : ہم نے يہ بيعت اس بناپر كى تھى كہ دشمن كے مقابلہ ميں فرار نہيں كريںگے_ ''بايَعنا رسول الله (يَومَ الحُدَيبية) على ا ن لانَفرّ'' (۱) _

بعض اوقات بيعت كا مقصد ايك شخص كى اس كے دشمنوں كے مقابلہ ميں حمايت اور دفاع كا اعلان كرنا ہوتاتھا _ جس طرح بعثت كے تيرہويں سال مقام عقبہ ميں اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _(۲)

بيعت كى ان تمام اقسام ميں يہ بات مشترك ہے كہ ''بيعت كرنے والا ''بيعت كى تمام طے شدہ شرائط كا پابند ہوتا ہے _ بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جس كا پورا كرنا بيعت كرنے والے كيلئے ضرورى ہوتا ہے _

بيعت كے مفہوم كى وضاحت كے بعد ان بعض روايات كو ذكر كرتے ہيں جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ اسى شخص كى ولايت قابل اعتبار ہے جس كى لوگ بيعت كر ليں _ ظاہرى طور پر يہ روايات ''نظريہ انتخاب'' كى تائيد كرتى ہيںيعنى سياسى ولايت كے تعيّن كا حق خود مسلمانوں كو دياگيا ہے _

نظريہ انتخاب كى مؤيد روايات

امير المومنين حضرت على فرماتے ہيں :

''إنّه بايعنى القوم الذين بايعوا أبابكر و عمر و عثمان على ما

____________________

۱) جامع البيان ابن جرير طبري، جلد ۲۶، صفحہ ۱۱۰، ۱۱۳ مذكورہ آيت كے ذيل ميں_

۲) السيرة النبويہ، جلد۲، صفحہ ۸۴،۸۵_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

سیف نے اسود بن عبس سے اسود بن ربیعہ کا نام اقتباس کرنے میں اس کی داستان میں وہی کام انجام دیا ہے جو اس نے زربن عبد اللہ و غیرہ کے سلسلے میں کیا ہے ۔

سیف اپنے کام کو مستحکم کرنے کے لئے اسود بن ربیعہ حنظلی کی روایت کے ایک حصہ کو حنظلی نام کے ایک راوی سے نقل کرتا ہے تاکہ روایت کو صحیح ثابت کر سکے ۔ کیوں کہ حنظلی نام کا یہ راوی اپنے قبیلہ کی روایتوں کے بارے میں دوسروں سے آگاہ تر ہے ۔ معروف ضرب المثل '' رب البیت ادریٰ بما فی البیت '' ( گھر کا مالک بہتر جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے ) اس پر صادق آتی ہے ۔ جب کہ یہ دونوں خواہ صحابی حنظلی یا راوی حنظلی سیف بن عمر تمیمی جس پر جھوٹ اور زندیقی ہونے کا الزام ہے کی تخلیق ہیں ۔

حدیث کے اسناد کی تحقیق

زر اور اسود اور ان کی نمائندگی ، زر کے ذریعہ نہاوند کا محاصرہ اور جندی شاپور کے بارے میں سیف کی احادیث کے اسناد میں حسب ذیل نام نظر آتے ہیں :

محمد ، مہلب ، ابو سفیان عبد الرحمن ۔ ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوا ہے کہ یہ سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

'' ابلہ '' کی روایت کے بارے میں سیف کی سند حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے سیف نے اسے اپنے جعلی صحابی زیاد کا بیٹا تصور کیا ہے ؟

'' اسود بن ربیعہ '' اور اس کی داستان اور تمیم کے نمائندوں کے بارے میں روایت کی سند کے طور پر '' ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی'' کا نام لیا ہے چوں کہ ہم نے اس نام کو سیف کی رو ایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے خیالی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ اس کے بعض روایت کے اسناد میں مجہول اشخاص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایسے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔

کتاب '' التجرید'' میں ذہبی کی یہ بات قابل غور ہے ، جہاں پر وہ لکھتا ہے :

اسود بن حنظلی کانام ایک ایسی روایت میں آیا ہے جو مردود اور ناقابل قبول ہے ! اس ناقابل قبول روایت سے اس کا مقصود وہ روایت ہے جسے سیف بن عمر نے اسود کے بارے میں نقل کیا ہے جس کی تفصیل گزری ۔

۲۶۱

چھٹا حصہ

خاندان تمیم سے رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے

* ٢١ ۔حارث بن ابی ہالہ تمیمی

* ٢٢۔زبیر بن ابی ہالہ تمیمی

* ٢٣۔طاہر بن ابی ہالہ تمیمی

۲۶۲

اکیسواں جعلی صحابی حارث بن ابی ہالہ تمیمی

حارث خدیجہ کا بیٹا

سیف کے سخت ، پیچیدہ اور دشوار کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قارئین کو گمراہ کرنے کے لئے اپنی خیالی شخصیتوں کو تاریخ کی حقیقی شخصیتوں کے طور پر ایسے پیش کرتا ہے کہ ایک محقق کے لئے ، وہ بھی صدیاں گزر نے کے بعد حق کو باطل سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات ناممکن

بن جاتا ہے ۔

شائد حارث ، زبیر اور طاہر جیسے سیف کے مہم جو جعلی اصحاب ، جنھیں اس نے ام المومنین حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ تمیمی کی اولاد کے طور پر پیش کیا ہے ، اس کے اس قسم کی مخلوق ہیں ۔

حضرت خدیجہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کرنے سے پہلے ابوہالہ تمیمی کے عقد میں تھیں ۔ ابو ہالہ کون تھا ؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔ بعضوں نے اسے ہند کچھ لوگوں نے زرارہ اور ایک گروہ نے اسے نباش نام دیا ہے ۔ بہر حال جو چیز واضح ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کی کنیت اس کے نام کی نسبت معروف تر ہے اس لئے وہ اسی کنیت سے مشہور ہے ۔

حضرت خدیجہ سے ابو ہالہ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں طبری نے لکھا ہے :

ابو ہالہ نے خویلد کی بیٹی سے ازدواج کیا ۔ خدیجہ نے پہلے ہند کو جنم دیا پھر ہالہ کو۔ البتہ ہالہ کا بچپن میں ہیانتقال ہو گیا...(یہاں تک کہ لکھتاہے )

۲۶۳

خدیجہ ابو ہالہ کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقد میں آگئیں ، اس وقت ہند نامی ابوہالہ کا بیٹا ان کے ہمراہ تھا ۔

ہند نے اسلام کا زمانہ درک کیا ہے اور اسلام لایا ہے ، امام حسن ابن علی علیہ السلام نے اس سے روایت نقل کی ہے ۔ ١

ہیثمی نے بھی اپنی کتاب مجمع الزوائد ٥١٠ میں اسی سلسلے میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا ہے :

ام المومنین خدیجہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے ابو ہالہ کی بیوی تھیں ۔ انھوں نے پہلے ہند کو اور پھر ہالہ کو جنم دیا ہے ۔ ابو ہالہ کی وفات کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے ازدواج کیا ۔

ابن ماکولا نے زبیر بن بکار سے نقل کرکے لکھا ہے :

خدیجہ نے پہلے ہند اس کے بعد ہالہ کو جنم دیا ہے ۔

ابو ہالہ کے نواسہ ، یعنی ہند بن ہند نے جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شرکت کی اور شہید ہوا ہے ۔

سیف کی نظر میں اسلام کا پہلا شہید

ابن کلبی سے روایت ہوئی ہے کہ ابو ہالہ کا نواسہ ہند بن ہند عبد اللہ بن زبیر کی معیت میں قتل ہوا اور اس کی کوئی اولاد باقی نہیں بچی ہے ۔ ٢

تمام مؤرخین ،جیسے ابن ہشام ، ابن درید ،ابن حبیب ،طبری ،بلاذری ابن سعد ،ابن ماکولا وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت خدیجہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کیا تو ،اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے صرف ایک بیٹا ہند کو ہمراہ لے کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر ہیں داخل ہوئیں ۔ حقیقت میں ہند کے علاوہ ابو ہالہ سے اس کی کوئی اور اولاد نہیں تھی ۔ ٣

ان حالات کے پیش نظر انتہائی حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ نساب عرب '' میں لکھا ہے :

خدیجہ نے اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے ہند نامی ایک بیٹا کو جنم دیا اور اس کے بعد حارث نام کے ایک اور بیٹے کو جنم دیا ۔ کہا گیا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید تھا جو خانہ خدا میں رکن یمانی کے پاس شہید کیا گیا ہے۔

۲۶۴

حیرت کی بات ہے ! یہ کیسے ممکن ہے ایک ایسا اہم حادثہ رونما ہو جائے یعنی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ شخص اس عظمت و شان کے ساتھ خدا کے گھر میں رکن یمانی کے پاس قتل ہو کر اسلام کے پہلے شہید کا درجہ حاصل کرے اور تاریخ اس کے ساتھ اتنی بے انصافی اور ظلم کرے کہ وہ فراموشی اور بے اعتنائی کا شکار ہو جائے ؟!!

ہم نے اس سلسلے میں انتہائی تلاش و جستجو کی تاکہ یہ دیکھیں کہ انساب عرب کو پہچاننے والے اس ماہر شخص ابن حزم نے اس روایت کو کہاں سے نقل کیا ہے !!

اس حقیقت و تلاش کے دوران ہم نے اس مسئلہ کے جواب کو ابن حجر کے ہاں پا یا وہ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں حارث بن ابی ہالہ کی تشریح میں لکھتا ہے :

حارث بن ابی ہالہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ اور ہند کا بھائی ہے ابن کلبی اور ابن حزم نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید ہے جو رکن یمانی کے پاس قتل ہوا ہے ۔

عسکری بھی کتاب '' اوائل '' میں لکھتا ہے :

جب خدا ئے تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں امر ہوا ہے اسے اعلان فرمائیں تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں کھڑے ہو گئے اور اپنی رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بلند آواز میں لولے '' قولو ا لاالہ الا اللّٰہ تفلحوا'' '' یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دو تاکہ کامیاب ہو جائو ! '' قریش کے کفار نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کیا ۔ شور و غل کی آواز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر تک پہنچی ْ حارث بن ابی ہالہ آپ کی مدد کے لئے دوڑکر آیا اور اس نے کفار پر حملہ کیا ۔ قریش نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوچھوڑ کر حارث پر حملہ کیا اور اسے رکن یمانی کے پاس موت کے گھاٹ اتار دیا ۔حارث اسلام کا پہلا شہید ہے ۔ اس کے علاوہ سیف کی کتاب '' فتوح '' میں سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عثمان بن مظعون سے روایت کی ہے : سب سے پہلا حکم جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں دیا ، اس وقت تھا جب ہماری تعداد چالیس افراد پر مشتمل تھی ۔ ہم سب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین پر تھے ۔ مکہ میں ہمارے علاوہ کوئی ایسا نہیں تھا جو اس دین کا پابند ہو ۔ یہ وہ وقت تھا ،جب حارث بن ابی ہالہ شہید ہوا ۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں فرمان ہوا ہے (آخر تک ) ابن حجر کی بات کا خاتمہ ۔

۲۶۵

لہٰذا معلوم ہو ا کہ حارث بن ابی ہالہ کی داستان کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے ۔ ابن کلبی ، عسکری ،ابن حزم اور ابن حجر سبوں نے اس روایت کو اس سے نقل کیا ہے ۔ ان کے مقابلے میں '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' طبقات '' جیسی کتابوں کے مؤلفوں نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہ کرتے ہوئے اس کی جعلی داستان کو اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔

دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ابن حزم حارث کی شہادت کی داستان کو '' کہا گیا ہے '' کے جملہ سے آغاز کرتا ہے تاکہ اس روایت کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کرے ۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حارث کی داستان کے صحیح ہونے کے سلسلے میں شک و شبہ میں تھا ۔

اس لحاظ سے ''حارث ابو ہالہ ''سیف اور ان لوگوں کے لئے اسلام کا پہلا شہید ہے جنھوں نے سیف کی بات پر اعتماد کرکے اس داستان کی اشاعت کی کوشش کی ہے ۔جب کہ عام تاریخ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کی پہلی شہید ''سمیہ ''عمار یاسر کی والدہ تھیں ۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ''یاسر ''ان کا بیٹا ''عمار ''اور یاسر کی بیوی ''سمیہ ''وہ افراد تھے جنھیں راہ اسلام میں مختلف قسم کی جسمانی اذیتو ں کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ ان پہلے سات افراد میں سے ہیں جنھوں نے مکہ میں اپنے دین کا کھل کر اظہار کیا ۔اور کفار قریش نے اس جرم میں ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر تپتی دھوپ میں رکھا اور انھیں شدید جسمانی اذیتیں پہنچائیں ۔

ایسی ہی وحشتناک اذیت گاہوں میں سے ایک میں ''ابو جہل ''آگ بگولا حالت میں سمیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے داخل ہوا اور آگے بڑھتے ہوئے اس نے نیزہ سمیہ کے قلب پر مار کر انھیں شہید کیا۔ اس لحاظ سے سمیہ راہ اسلام کی پہلی شہید ہیں نہ اور کوئی ۔

اس کے علاوہ لکھا ہے کہ اسی حالت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہا ں تشریف لائے اور فرمایا : اے خا ندان یا سر !صبر کرو ،بہشت تمھارے انتظارمیں ہے ۔

۲۶۶

ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ عمار یاسر نے ان تمام درد و الم اور اذیتوں کی شکایت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیان کرتے ہوئے عرض کی :

ہم پر کفار کی اذیت و آزار حد سے گزر گئی !

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

صبر و شکیبایی سے کام لو !اس کے بعد ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :

خداوندا !یاسر کے اہل خانہ میں سے کسی ایک کو عذاب نہ کرنا !

حدیث کا موازنہ اور قدر و قیمت

سیف نے لکھا ہے کہ راہ اسلام کے پہلے شہید ''حارث بن ابی ہالہ ''اور ''خدیجہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرشی مضری ''تھے ۔ ابن کلبی اور ابن حزم نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب''جمہرہ '' میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی انہی مطالب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات کی تشریح کے ضمن میں اپنی کتاب ''الاصابہ''میں درج کیا ہے ۔عسکری نے بھی اپنی کتا ب''اوائل ''میں حارث کو اسلام کے پہلے شہید کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ حقیقت میں اسلام کی پہلی شہید سمیہ تھیں اور ان کے بعد ان کے شوہر یاسر تھے ،اور اس مطلب کو ان دو شخصیتوں کی سوانح لکھنے والے سبھی علماء ،و محققین نے بیان کیا ہے ۔

سیف شدید طور پر خاندانی تعصب کا شکار تھا ،خاص کر قحطانیوں اور یمانیوں کے بارے میں اس کے اس تعصب کے آثار کا ہم نے مختلف مواقع پر مشاہدہ کیا ۔وہ اس تعصب کے پیش نظر ایک یمانی قحطانی شخص کو راہ اسلام میں پہلے شہید کا فخر حاصل کرنے کی حقیقت کو دیکھ کر آرام سے نہیں بیٹھ سکتا تھا !کیونکہ وہ تمام امور میں پہلا مقام حاصل کرنے کے فخر کا مستحق صرف اپنے قبیلہ تمیم ،خاص کر خاندان بنی عمرو کو جانتا ہے ۔غور فرمائیں کہ وہ خاندان تمیم کے بنی عمرو میں پہلا مقام حاصل کرنے کے سلسلے میں کیسے تشریح کرتا ہے :

۲۶۷

اس کا افسانوی سورما قعقاع پہلا شخص تھا جو دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر چڑھ کر قلعہ کے محافظوں کو اپنی تلوار سے موت کی گھاٹ اتار کر قلعہ کے د ر و ا ز و ں کو ا سلا می فو ج کے لئے کھول دیتا ہے !

کیا یہی اس کا افسانوی قعقاع کچھار کا پہلا شیر نہیں تھا جس نے یرموک کی جنگ میں سب سے پہلے جنگ کے شعلے بھڑکادئے ،قادسیہ کی جنگ میں لیلة الھریر کو وجود میں لایا ،پہلے پہلوان کی حیثیت سے دشمن کے جنگی ہاتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ؟وہ پہلا پہلوان تھا جس نے جلولا کی جنگ میں سب سے پہلے دشمن کے مورچوں پر قدم رکھا ،پہلا دلیر اور پہلا سورما اور

سیف اپنے افسانوی عاصم کے ''اہوال ''نامی فوجی دستہ کو پہلا فوجی دستہ بتا تا ہے کہ جس نے سب سے پہلے شہر مدائن میں قدم رکھا ہے !

کیا اسی سیف نے ''زیاد بن حنظلہ تمیمی''کو پہلے شہسوار کے طور پر خلق نہیں کیا ہے جس نے سب سے پہلے سرزمین ''رہا''پر قدم رکھا ۔حرملہ اور سلمی اس کے پہلے پہلوان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرزمین ایران پر قدم رکھے ؟!

جب ہم سیف کے جھوٹ اور افسانوں میں قبیلہ تمیم کے لئے بے شمار فضیلتیں اور پہلا مقام حاصل کرنے کے موارد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسلام کے سب سے پہلے شہید کا افتخار بھی اسی خاندان کو نصیب نہ ہو ؟اور ''سمیہ''نام کی ایک کنیز اور اس کا قحطانی شوہر ''یاسر ''اس افتخار کے مالک بن جائیں اور اسلام کے پہلے شہید کی حیثیت سے پہچانے جائیں ؟!

سیف ،قحطانیوں کی ایسی فضیلت کو دیکھ کر ہرگز بے خیال نہیں بیٹھ سکتا ،لہٰذا ایک افسانہ گڑھتا ہے حضرت خدیجہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ابو ہالہ سے ایک بیٹا خلق کرکے اسے اسلام کے پہلے شہید کا افتخار بخش کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں ذخیرہ کرتا ہے ۔

ہم راہ اسلام میں سیف کے اس پہلے شہید میں اس کے دوسرے افسانوی پہلوانوں کی شجاعتوں اور جاں نثار یوں کا واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں ۔وہ کہتا ہے :

۲۶۸

قریش نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کی غرض سے حملہ کیا ،شور وغل کی آواز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل خانہ تک پہنچی (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حامی اور حقیقی پشت و پناہ ابو طالب ،حمزہ ، جعفر اور بنی ہاشم کے دیگر سرداروں اور جوانوں کے بجائے )حارث تمیمی پہلا شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے کے لئے اٹھا اور دوڑتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور دفاع میں آپ کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے کفار قریش پر حملہ کیا ،کفار نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ دیا اور حارث پر ٹوٹ پڑے اور سر انجام

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اپنے خاندان تمیم سے یاور و مدد گار جعل کرکے اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے اور اسے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تربیت یافتہ کے طور پر پہچنواتا ہے تا کہ خاندان تمیم میں ہر ممکن حد تک افتخارات کا اضافہ کرسکے ۔

حارث کے افسانے کا نتیجہ

سیف نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پالے ہوئے ایک صحابی کو خلق کیا ہے تا کہ مؤرخین پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے حقیقی اصحاب کے ضمن میں اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالیں اور اس کے نام ونسب کو انساب کی کتابوں میں تفصیل سے لکھیں ۔

سیف نے اپنے تخیل کی مخلوق ،''حارث تمیمی''کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ،چچا زاد بھائی اور بنی ہاشم کی جوانوں کی موجودگی کے باوجود ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے جاں نثار کے طور پر پیش کرکے خاندان تمیم ،خاص کر قبیلہ اسید کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضا فہ کیا ہے ۔

۲۶۹

حارث کے افسانہ کی تحقیق

سیف اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے تا کہ اسلام کی سب سے پہلی حقیقی شہید سمیہ قحطانی کی جگہ پر بٹھادے اور اس طرح اپنے خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخا ر کا اضافہ کرے۔

سیف نے حارث کی داستان کو سہل بن یوسف سلمی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیاہے ۔چونکہ ہم نے ان دو ر اویوں ۔ باپ بیٹے ۔ کانام سیف کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ،اس لئے ان کو سیف کے تخیل کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔

حارث ابو ہالہ تمیمی کی داستان سیف سے نقل کرکے عسکری کی ''اوائل ''،ابن کلبی کی ''انساب ''،ابن حزم کی ''جمہرہ''اور ابن حجر کی کتا ب ''الاصا بہ ''میں درج کی گئی ہے اور ابن حجر نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اس کی وضاحت کی ہے ۔

سیف کے جعلی صحابی حارث ابو ہالہ کا افسانہ اتنا ہی تھا جو ہم نے بیان کیا ۔لیکن سیف نے صرف اسی ایک افسانہ کو خلق کرنے پر اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اسی ماں باپ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک اور پالے ہوئے کی تخلیق کرکے اس کانام ''زبیر بن ابی ہالہ ''رکھا ہے کہ انشاء اللہ اس کی داستا ن پر بھی نظر ڈالیں گے ۔

۲۷۰

بائیسواں جعلی صحابی زبیر بن ابی ہالہ

حضرت خدیجہ کادوسرابیٹا

دانشوروں نے اس زبیر کانام دوحدیثوں میں ذکرکیاہے۔ہم یہاں پران دوحدیثوں کے بارے میں بحث وتحقیق کریں گے۔

پہلی حدیث

نجیرمی(۱) (وفات ٤٥٠ھ)نے اپنی کتاب ''فوائد'' میں ابو حاتم(۲) (وفات ٢٧٧)سے نقل کرکے اس طرح لکھاہے:

سیف بن عمر سے اس نے وائل بن داودسے اس نے بہی بن یزید سے اوراس نے زبیر بن ابی ہالہ سے روایت کی ہے ،کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

( ۱)۔ابو عثمان سعد بن احمد نیشابوری معروف بہ نجیرمی نے علم و دانش حاصل کرنے کے لئے بغداد ،گرگان اور دیگر شہروں کا سفر کیا ہے یہ نام اسی طرح لباب اللباب (٢١٦٣)میں ذکر ہوا ہے اور بصرہ میں واقع محلہ ''نجارم ''و ''نجیرم''کی ایک نسبت ہے ۔

(۲)۔محمد بن ادریس بن منذر حنظلی معروف بہ ابو حاتم رازی (١٩٥۔٢٧٧) ہے ۔اس کے حالات تذکرہ الحفاظ (٩٢و٥٦٧ )میں آئے ہیں ۔

۲۷۱

خداوندا !تو نے مجھے برکت والے اصحاب عطا فرمائے ۔لہٰذا اب میرے اصحاب کو ابو بکر کے وجود سے برکت فرما !اور ان سے اپنی برکت نہ چھین لینا ! انھیں ابوبکر کے گرد جمع کرنا !کیونکہ ابوبکر تیرے حکم کو اپنے ارادہ پر

ترجیح دیتا ہے ۔

خداوندا !عمربن خطاب کو سرداری عطا فرما !عثمان کو صبر وشکیبایی عطا فرما !اور علی بن ابیطالب علیہ السلام کو توفیق عطا فرما !زبیر کو ثابت قدمی عطا فرما !اور طلحہ کو مغفرت عطا فرما!سعد کو سلامتی عطا فرما !،اور عبد الرحمان کو کامیابی عطا فرما !

خداوندا !نیک و پیش قدم مہاجر و انصار اور میرے اصحاب کے تابعین کو مجھ سے ملحق فرما !تا کہ میرے لئے اور میری امت کے اسلاف کے لئے دعائے خیر کریں ۔ ہوشیار رہو کہ میں اور میری امت کے نیک افراد تکلف

سے بیزار ہیں ۔

نجیرمی کہتا ہے کہ ابو حاتم رازی نے کہا ہے :زبیر بن ابی ہالہ ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا تھا ۔

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث کا آخری راوی زبیر ابو ہالہ ہے اور ابو حاتم رازی تاکید کرتاہے کہ یہ زبیر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا ہے ۔

یہیں سے زبیر بن ابی ہالہ کا نام اسلامی مآخذ و مدارک میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پالے ہوئے کے عنوان سے درج ہوا ہے ۔جب کہ یہی حدیث ابن جوزی کی کتا ب موضوعات(۱) میں یوں بیان ہوئی ہے :

____________________

الف )۔موضوعات یعنی جھوٹی اور جعلی احادیث ۔ابن جوزی کی کتاب موضوعات اسی سلسلے میں تالیف کی گئی ہے ۔

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح ''میں وائل بن دائود سے اس نے بہی سے اور اس نے زبیر سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا (حدیث کی آخر تک)

۲۷۲

ابن حجر نے مذکورہ حدیث کے آخر پر حسب ذیل اضافہ کیاہے :

اکثر نسخوں میں اس زبیر کو ''زبیر بن العوام ''لکھا گیا ہے ،خدا بہتر جانتا ہے !

گزشتہ مطالب کے پیش نظر اس حدیث کو ''ابو حاتم رازی ''نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور یہیں سے ''زبیر ابو ہالہ ''کانام حضرت خدیجہ کے بیٹے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ کی حیثیت سے شہرت پاتا ہے ۔

لیکن ابن جوزی نے اسی حدیث کو سیف بن عمر سے اسی متن اور مآخذ کے ساتھ زبیر کے باپ کا نام لئے بغیر اپنی کتا ب ''موضوعات ''میں درج کیا ہے اور ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو زبیر کے باپ کانام لئے بغیر اس کے حالات کی وضا حت کرتے ہوئے ذکر کیا ہے اور آخرمیں اضافہ کرتا ہے کہ بہت سے نسخوں میں آیا ہے کہ یہ '' زبیر ' ' '' زبیر العوام '' ہے۔

اس اختلاف کے سلسلے میں ہماری نظر میں یہ احتمال قوی ہے کہ سیف بن عمر نے مذکورہ حدیث ایک بار زبیر بن ابی ہالہ کے نام سے روایت کی ہے ۔ اور مصنفین کی ایک جماعت نے اسی صورت میں اس حدیث کو سیف سے نقل کیا ہے ۔

سیف نے اسی حدیث کو دوسری جگہ پر زبیر کے باپ کا نام لئے بغیر ذکر کیا ہے ۔ مصنفین کے ایک گروہ نے بھی اس روایت کو اسی صورت میں نقل کیا ہے ۔ اس متأ خر گروہ نے اس زبیر کو زبیر بن العوام تصور کیا ہے ۔ یہی امر دانشوروں کے لئے حقیقت کے پوشیدہ رہنے کا سبب بنا ہے ۔

بہر حال ،جو بھی ہو، اہم یہ ہے کہ سیف کی حدیث میں حضرت خدیجہ کے بیٹے '' زبیر بن ابی ہالہ '' کا نام آیا ہے اور حدیث و تاریخ کی کتابوں میں اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور پروردہ کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔

''زبیر ابو ہالہ '' کے بارے میں روایت کی گئی پہلی حدیث کی حالت یہ تھی ۔

لیکن دوسری حدیث کے بارے میں بحث شروع کرنے سے پہلے اس پہلی حدیث کے متن پر ایک سرسری نظرڈالنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔

۲۷۳

مذکورہ حدیث کی ترکیب بندی میں سیف کی مہارت ، چالاکی اور چابک دستی دلچسپ اور قابل غور ہے ، ملاحظہ ہو:

١۔ سیف اس حدیث میں شخصیات کا نام اسی ترتیب سے لیتا ہے جیسے کہ وہ مسند حکومت پر بیٹھے تھے : (ابوبکر ،عمر ، عثمان اور حضرت علی علیہ السلام )۔

٢۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان میں سے ہر ایک کے حق میں جو دعا فرمائی ہے ، وہ ہرشخص کی حالت کے مطابق ہے ملاحظہ ہو :

ا)۔ ابو بکر کے لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کے گرد جمع کرے اور یہ سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان زبر دست اختلاف کے بعد ابو بکر کی بیعت کے سلسلے میں متناسب ہے ۔

ب)۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمر کے لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ انھیں صاحب شہرت بنائے اور ان کی شان و شوکت میں افزائیش فرمائے ۔ یہ وہی چیز ہے جو سر زمین عربستان سے باہر اسلام کے سپاہیوں کی فتوحات کے نتیجہ میں دوسرے خلیفہ کو حاصل ہوئی ہے ۔

ج)۔ سیف کہتا ہے کہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان کے لئے دعا کرتے ہوئے رو نما ہونے والے واقعات اور فتنوں کے سلسلے میں ان کے لئے خدا ئے تعالیٰ سے صبر و شکیبائی کی درخواست کی ہے ۔

د)۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدائے تعالیٰ سے قطعا ًچاہتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام وقت کے تاریخی حوادث اور فتنوں کے مقابلے میں کامیاب و کامران ہو جائیں ۔ یا یہ کہ عبد الرحمن عوف کواپنے منظور نظر شخص ( عثمان ) کو خلافت کے امور سونپنے میں کامیابی عطا کرے ۔

ھ)۔ اور آخرمیں جنگ جمل میں میدان کا رزار سے بھاگنے والے زبیر کی ایک طعنہ زنی کے ذریعہ سرزنش فرماتے ہیں ۔ طلحہ کے لئے، مضری خلیفہ عثمان کے خلاف بغاوت کے آغاز سے محاصرہ اور پھر اسے قتل کئے جانے تک کی گئی اس کی خیانتوں کے بارے میں بارگاہ الٰہی میں عفو و بخشش کی درخواست کرتے ہیں ۔

۲۷۴

دوسری حدیث

ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ھ ) کی کتاب '' معرفة الصحابہ ''میں سیف کی دوسری حدیث یوں بیان ہوئی ہے :

عیسیٰ ا بن یونس نے وائل بن دائود سے ، اس نے بہی سے اور اس نے زبیر سے یوں روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا سنائی اور اس کے بعد فرمایا:آج کے بعد عثمان کے قاتل کے علاوہ کسی قرشی کو موت کی سزا نہ دینا ۔ اگر اسے ( عثمان کے قاتل کو ) قتل نہ کرو گے تو تمھاری عورتوں کو قتل کر ڈالیں گے۔

ابو نعیم نے اس حدیث کے ضمن میں یوں اضافہ کیا ہے :

ابو حاتم رازی مدعی ہے کہ یہ زبیر ، زبیر بن ابی ہالہ ہے ۔

کتاب اسد الغابہ کے مصنف نے بھی ابو مندہ اور ابو نعیم سے نقل کرکے اس حدیث کو زبیر بن ابی ہالہ کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے درج کیا ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ :'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا دی اور ....'' اور اس قرشی کے قتل ہونے کی جگہ بھی معین کی ہے اور آخر میں رازی کی بات کا یوں اضافہ کیا ہے : '' یہ زبیر ، زبیر بن ابی ہالہ ہے ''

کتاب '' التجرید '' کے مصنف نے اس حدیث کے سلسلے میں صرف ایک اشارہ پر اکتفا کی ہے ،اور اسے زبیر ابو ہالہ کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے : وائل نے بہی سے اور اس نے اس زبیر ابو ہالہ سے اس طرح نقل کیا ہے اور آخرمیں لکھتا ہے کہ : یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ (د۔ع )

کتاب اسد الغابہ اور کتاب التجرید میں حرف ''د '' و حرف '' ع '' ترتیب سے '' ابو مندہ '' اور ''ابو نعیم '' کے بارے میں اشارہ ہے

کتاب الاصابہ کے مصنف نے بھی اس حدیث کو ابن مندہ سے نقل کیا ہے اور اس کے آخر پر لکھتا ہے :

ابن ابو حاتم رازی کہتا ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر تمیمی سے روایت ہوئی ہے ۔

۲۷۵

صاف نظر آتا ہے کہ دوسری حدیث میں بنیادی طور پر زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا گیا ہے اور ابو حاتم رازی سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ زبیر ابو ہالہ ہے اسی دانشور کے بیٹے یعنی ابن ابی حاتم رازی سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ یہ حدیث سیف سے نقل کی گئی ہے ۔

لیکن پہلی حدیث سیف سے روایت ہوئی ہے ۔نہ دوسری حدیث !پہلی حدیث کی سندکے طورپرجو''زبیربن ہالہ''کانام آیا ہے ،اس کے بار ے میں ابوحاتم رازی نے کہاہے کہ یہ ''زبیر ابو ہالہ'' حضرت خدیجہ کابیٹاہے ۔دوسری حدیث کو سیف بن عمرسے نسبت دینے کی یہ غلط فہمی اوراس حدیث کے راوی زبیر کوابوہالہ سے منسوب کرناایک ایسا مطلب ہے جس کی ذیل میں وضاحت کی جائے گی۔

دونوں حدیثوں کے مآخذ کی تحقیق میں پہلاموضوع جو نظرآتاہے وہ یہ ہے کہ دونوں حدیثوں کے راویوں کاسلسلہ یکساں ہے (وائل بن داودنے بہی بن یزیدسے اور اس نے زبیر سے ) شائد اس حدیث کے راویوں کے سلسلے میں یہی وحدت اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا سبب بنی ہوگی ۔خاص طور پر ابو حاتم رازی باپ کہتا ہے :یہ زبیر ،خدیجہ کا بیٹا ہے ۔اور اس دانشور کا بیٹاابن ابی حاتم رازی بھی کہتا ہے:''زبیر ابو ہالہ ''کی حدیث ہم تک صرف سیف کے ذریعہ پہنچی ہے پہاں پرعلماء کو شبہ ہوا اور ان دونوں باتوں کو دونوں حدیثوں میں بیان کیا ہے ۔

بہرحال ،مطلب جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ،اہم یہ ہے کہ ''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے نہ دوسری جگہ پر ۔اس کے علاوہ اس حقیقت کے اعلان اور وضاحت کے بارے میں ''ابو حاتم رازی ''کی بات بڑی دلچسپ ہے ،وہ کہتا ہے :

''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے ،جو متروک ہے اور اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔اسی لئے نہ میں سیف کی روایت کو لکھتا ہوں اور نہ اس کے راوی کو !

ان مطالب کے پیش نظر قطعی نتیجہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ ''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے اور اسی میں محدود ہے ۔

۲۷۶

بحث کا خلاصہ

''زبیر ابوہالہ'' کا نام صرف دو حدیثوں میں آیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں :

١۔ پہلی حدیث میں سیف نے ''زبیر بن ابی ہالہ '' سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آٹھ اصحاب کے لئے دعا کی ۔یہ دعا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان اصحاب کے بارے میں رو نما ہونے والے واقعات اور اختلافات کے متناسب ہے ۔

جس حدیث میں '' زبیر بن ابی ہالہ ''راوی کی حیثیت سے ذکر ہوا ہے ابو حاتم رازی نے اسے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ۔ نجیرمی نے بھی اسے اسی حالت میں ابو حاتم رازی سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اس کے مقابلے میں ابن جوزی اور ابن حجر نے اسی حدیث کو زبیر کے باپ ابو ہالہ کا نام لئے بغیر سیف کی زبانی نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہمیں یقین ہے کہ یہ اختلاف اس سبب سے پیدا ہوا ہے کہ سیف نے اس حدیث کو ایک بار زبیر بن ابی ہالہ کے باپ کانام لے کر اور دوسری جگہ پر اسی حدیث کو اس کے باپ کا نام لئے بغیر تنہا زبیر سے روایت کی ہے اور یہی دوسری حالت اس کی کتاب فتوح میں بھی درج کی گئی ہے ۔

٢۔ دوسری حدیث میں زبیر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا دی اور اس کے بعد عثمان کے قاتل کے علاوہ کسی بھی قریشی کو اس طرح موت کی سزا دینے سے منع فرمایا :

اس حدیث میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ضمناً یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر سے روایت کی گئی ہو ! اس حدیث کے آخر میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ابو حاتم زاری نے لکھا ہے کہ یہ زبیر زبیر ابو ہالہ ہے !

اسی طرح روایت کی گئی ہے کہ ابن ابی حاتم رازی نے کہا ہے کہ یہ حدیث سیف سے روایت ہوئی ہے جب کہ دوسری حدیث ہر گز سیف سے روایت نہیں ہوئی ہے اور اس میں زبیر کے باپ کا نام ذکر نہیں ہوا ہے ۔ صرف پہلی حدیث ہے ، جسے سیف نے روایت کی ہے اور بعض جگہوں پر اس کی روایتوں میں زبیر کے باپ ابو ہالہ کا نام لیا گیا ہے ، اسی نام کے پیش نظر ابو حاتم رازی نے کہا کہ یہ زبیر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا تھا !گویا یہ غلط فہمی اس لئے پیدا ہوئی کہ دونوں حدیثوں کے راویوں میں واضح اشتراک پایا جاتا ہے ( وائل نے بہی سے اور اس نے زبیر سے )

۲۷۷

مطلب جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ، اہم بات یہ ہے کہ زبیر ابو ہالہ کا نام صرف سیف بن عمر کی حدیث میں آیا ہے ،علماء کے نزدیک سیف کی روایت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ شائد ذہبی نے '' التجرید '' میں اسی موضوع کی طرف اشارہ کرکے لکھا ہے : اس سیف کی بات صحیح نہیں ہے اور قابل اعتبار بھی نہیں ہے یعنی اس کی حدیث جھوٹی ہے ۔

فیروزآبادی نے بھی ان دو حدیثوں پر اعتبار کرکے اپنی کتاب '' قاموس '' میں لفظ '' زبر '' کی تشریح میں لکھا ہے :

زبیر بن و '' زبیر بن ابی ہالہ '' دونوں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تھے ۔

زبیدی نے بھی اپنی کتاب '' تاج العروس '' میں اسی حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

وائل بن دائود نے بہی سے اور اس نے زبیر سے نقل کیا ہے !

افسانہ ٔ زبیر کے مآخذ کی جانچ پڑتال

زبیر کا نام صرف دو حدیثوں میں آیا ہے :

ان میں سے ایک حدیث میں احتمال دے کر کہا گیا ہے کہ یہ زبیر وہی زبیر بن ابی ہالہ ہے اور اس کی زبیر ابو ہالہ کے طور پر تشریح کی گئی ہے جب کہ اس حدیث کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حدیث کا زبیر ابو ہالہ کے بارے میں لکھنا بلا و جہ ہے ۔

دوسری حدیث کو خود سیف نے وائل سے ، اس نے بہی سے اور اس نے زبیر ابو ہالہ سے نقل کیا ہے یہاں پر روایت کا آخری مآخذ سیف کا خلق کردہ شخص زبیر ہے ۔ خلاصہ یہ کہ سیف اپنی مخلوق سے روایت کرتا ہے !! اس لحاظ سے جو حدیث افسانہ نگار سیف سے شروع ہو کر اس کی اپنی خیالی مخلوق پر ختم ہوتی ہو ،اس کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے ؟! ان حالات کے پیش نظر کیا اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ حدیث میں ذکر ہوئے راویوں کے نام اور ان کے سلسلے کے صحیح یا عدم صحیح ہونے پر بحث و تحقیق کی جائے ؟! اس کے باوجود کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم سیف کی دروغ بافی کا گناہ ان صحیح راویوں کی گردن پر نہیں ڈالیں گے جن کا نام سیف نے اپنی روایتوں میں لیا ہے ۔

۲۷۸

داستان کا نتیجہ

اس داستان سے سیف نے اپنے لئے مندرجہ ذیل نتائج حاصل کئے ہیں :

١۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ایک صحابی کو خلق کیا ہے تاکہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرا ر پائے ۔

ٍ ٢۔ خاندان تمیم کے ایک مرد کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے راویوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔

٣۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک ایسی حدیث نقل کرتا ہے جو صحابہ کے فضائل و مناقب کے دلدادوں اور قبائل نزار کے متعصب افراد کو خوشحال کرے کیوں کہ اس حدیث میں صرف خاندان قریش سے تعلق رکھنے والے اصحاب کا نام لیا گیا ہے اور یمانی قحطانی انصار کا کہیں ذکر تک نہیں ہے ۔

سر انجام سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو پروردہ اور خدیجہ و ابو ہالہ تمیمی کے بیٹے خلق کرکے خاندان تمیم خاص کر اسید کو ایک بڑا افتخار بخشا ہے ۔ اور اس طرح قبائل نزار کے لئے یہ سب افتخار و برکتیں سیف کی احادیث کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں ۔

راویوں کا سلسلہ

زبیر ابو ہالہ کے افسانہ کے راویوں کا سلسلہ حسب ذیل ہے :

١۔ سیف نے اپنی پہلی حدیث اپنے ہی خلق کردہ راوی زبیر ابو ہالہ سے روایت کی ہے ۔

٢۔ دوری حدیث میں آخر ی راوی زبیر ہے چوں کہ دونوں احادیث میں راویوں میں یکجہتی اور اشتراک پایا جاتاہے اس لئے یہ خیال کیا گیا ہے کہ یہ زبیر بھی وہی زبیر ابو ہالہ ہے ۔ اسی لئے دوسری حدیث کو بھی زبیر ابو ہالہ کے حالات کی وضاحت میں ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ ابو حاتم رازی نے زبیر ابو ہالہ کی حدیث کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اسی دانشور کا بیٹا ابن ابی حاتم رازی (وفات ٣٢٧ھ) اپنی کتاب جرح و تعدیل میں تاکید کرتا ہے کہ زبیر ابوہالہ کی حدیث صرف سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہے ۔

٤۔ ابن جوزی ( وفات ٥٩٧ھ) نے اپنی کتاب موضوعات میں سیف کی حدیث نقل کی ہے لیکن اس میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا ہے ۔

۲۷۹

٥۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے اپنی کتاب الاصابہ میں سیف کی حدیث ابن جوزی کی موضوعات سے نقل کی ہے ۔ لیکن اس میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا ہے ۔

مندرجہ بالا علماء نے مذکورہ حدیث کو اپنی سند سے سیف سے نقل کیا ہے ۔

٦۔ نجیرمی ( وفات ٤٥١ھ ) نے اپنی کتاب فوائد میں سیف کی حدیث کو ابن ابی ہالہ کی وضاحت کرتے وقت رازی سے نقل کیا ہے ۔

چوں کہ تصور یہ کیا گیا ہے کہ کہ دوسری حدیث میں زبیر وہی زبیر ابو ہالہ ہے لہٰذا درج ذیل علماء نے دوسری حدیث زبیر ابو ہالہ کے حالات کے سلسلے میں درج کی ہے :

٧۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ھ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں ۔

٨۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ھ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ'' میں ۔

٩۔ ابن اثیر ( وفات ٦٠٣ھ) نے کتاب اسد الغابہ میں ۔

١٠۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب التجرید میں ۔

١١۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب الاصابہ میں ۔

١٢۔ فیروز آبادی ( وفات ٨١٧ھ) نے کتاب قاموس میں ۔

١٣۔ زبیدی ( وفات ١٢٠٥ھ) نے اپنی کتاب تاج العروس میں ۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371