ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138321 / ڈاؤنلوڈ: 4320
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس کی لاش روم کے مرغزار میں پڑی تھی نہ کہ اس کے باپ کی ملکیت میں جہاں وہ چاہتا تھا۔

رومیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا آغاز یہ تھا کہ عامر نے اس کے سر پر اپنی تلوار کی ایک ضرب سے کمر تک اسے دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا !

ابن عساکر یہ چند شعر ذکر کرنے کے بعد نافع کے حالات کو دار قطنی اور ابن ماکولا سے سیف کے ذریعہ نقل کرکے اپنی بات تمام کرتا ہے ۔

لیکن طبری سیف سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے نافع کے اشعار سے صرف درج ذیل دو شعر نقل کرتا ہے :

ہمارے سوار فوجیوں نے سمندر جیسی زیبا اور وسیع سرزمین ''مدائن'' پر قدم رکھا....

اس کے بعد ١٦ھکے حوادث کے ضمن میں جلولا کی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرتا ہے ۔سیف سے ایک روایت میں جلولا کی جنگ کے بارے میں نافع سے منسوب چار شعر کو حسب ذیل نقل کرتاہے :

'' جلولا '' کی جنگ میں ہمارے پہلوانوں نے قوی شیروں کی طرح میدان کا رزار میں حملے کئے ۔

میں ایرانیوں کو چیر پھاڑ کے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتا تھا ،اور کہتا تھا ،مجوسیوں کے ناپاک بدن نابود ہو جائیں ۔

اس دن جب سر تن سے جدا ہو رہے تھے ،'' فیروزان '' ہمارے چنگل سے بچ نکلا اور بھاگ گیا لیکن '' مہران '' مارا گیا۔

جب ہمارے دشمن موت کے گھاٹ اتاردئے گئے تو رات کو بیابانوں کے درندے ان کی لاشوں کے استقبال کے لئے آئے ۔

ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہم نے طبری کی کتاب میں مذکورہ اشعار کے چھ قطعات کے علاوہ نافع سے مربوط کوئی اور شعر نہیں پایا ،جب کہ ابن ماکولا''نافع '' کی تشریح میں کہتا ہے :

۸۱

سیف نے کہا ہے کہ اس نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کافی شہرت حاصل کی ہے اور بہت سے شعر کہے ہیں

ابن حجر کہتا ہے:

سیف نے اس سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جن میں نافع نے اپنے خاندان پر ناز کیا ہے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی سورما کے نام پر بہت سے اشعار کہے ہیں اور طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان اشعار کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔

ہم نے '' نافع'' کے کافی تعداد میں کہے گئے اشعار کی جستجو کی لیکن ان میں سے تھوڑے ہی اشعار حموی اور حمیری کے ہاں دستیاب ہوئے کہ ان دو عالموں نے اپنی بات کے اقتضا کے مطابق مقامات کی تشریح کرتے ہوے شاہد کے طور پر ان سے استناد کیا ہے ۔ہم ہر ایک فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے خلاصہ بیان کرنے کے بعد ان اشعار کی طرف بھی اشارہ کریں گے ۔

شاعر نافع ،ایران میں

طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر فتح '' ہمدان'' ''رے'' اور ''گرگان '' کے بارے میں اپنی تاریخ میں مفصل طور پر درج کیا ہے ہم یہاں پر اس کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں :

خلیفہ عمر نے ہمدان اور اس کے مشرق میں واقع دیگر سر زمینوں کو خراسان تک فتح کرنے کا حکم '' نعیم بن مقرن '' کے نام جاری کیا اور اسے حکم دیا کہ ان علاقوں کو فتح کرے ۔

نعیم نے اطاعت کرتے ہوئے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی ،اس جنگ میں گرگان کے لوگ بادشاہ کی مدد کے لئے آئے دونوں لشکر کوہ رے کے دامن میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے نعیم اپنے فوجیوں کے ایک حصے کو چوری چھپے محاذ جنگ کے پیچھے بھیج چکا تھا ۔اس نے پوری طاقت کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا ۔ایرانی چوں کہ آگے پیچھے دونوں طرف سے اسلامی فوج کی زد میں آچکے تھے اس لئے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے سخت شکست و حزیمت سے دو چار ہوئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔اس گیرودار میں بے شمار ایرانی کام آئے ۔

۸۲

نعیم نے فتح پانے کے بعد غنائم جنگی کا پانچویں حصہ ''اسود بن قطبہ'' کی سرپرستی میں چند دیگر معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا ۔

جب عمر کو فتح کا پیغام پہنچا خلیفہ نے حکم دیا کہ '' نعیم '' اپنے بھائی '' سوید بن مقرن '' کو ''قومس'' کی فتح پر مامور کرے۔

سوید خلیفہ کے حکم سے ایک لشکر لے کر '' قومس '' کی طرف روانہ ہوا اور اس جگہ کو کسی قسم کی مزاحمت اور خوں ریز ی کے بغیر فتح کر لیا۔

اس کے بعد طبرستان کے علاقہ پر بھی ایک فوجی معاہدے کے تحت قبضہ کیا ۔ وہا ں سے گرگان کا رخ کیا اور '' بسطام'' کے مقام پر پڑائو ڈالا اور وہیں سے بادشاہ '' رزبان صول'' کے نام خط لکھا اور اسے تسلیم و اطاعت کرنے کو کہا ''رزبان '' نے مثبت جواب دیا اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دے کر جنگ سے دوری اختیار کی ۔ یہ عہد نامہ ١٨ ھ کو لکھا گیا اور طرفین میں رد و بدل ہوا۔

مذکورا بالا باتیں طبری کے بیانات کا خلاصہ تھیں :

حمیری لفظ '' رے '' کی طرف اشارہ کرکے اسی داستان کو لکھتا ہے :

.....اور ابو بجید نافع بن اسود نے ''رے'' کی جنگ میں یہ اشعار کہے تھے : کیا ہماری محبوبہ کو یہ خبر ملی کہ جو گروہ ''رے '' میں ہمارے مقابلے میں جنگ کے لئے اٹھا تھا، وہ موت کا زہر کھا کر ہلاک ہوگیا؟!

وہ دو محاذوں پر پوری قدرت کے ساتھ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ہمارے مقابلے میں آئے

ان کے گھوڑے یک رنگ ، یا سیاہ تھے یا سرخ ۔ ایسے گھوڑ ے تھے کہ بعض اوقات ہمارے حملوں کے مقابلے میں تاب نہ لاتے ہوئے فرار کو قرار پر ترجیح دیتے تھے ہم نے ان کو پہاڑ کے دامن میں ایک ایک کرکے یا دو دو کرکے پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کو قتل کرکے اپنی تمنا پوری کی۔

خدا جزائے خیر دے اس گروہ کو جس نے دشمن کے سر پر انتقام کی تلوار ماری اور اجر دے انھیں جنہوں نے ایسا کام انجام دیا۔

۸۳

حموی نے بھی ''بسطام'' اور ''گرگان'' کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں پر استناد کرکے ''نافع بن اسود '' کا نام لیا ہے۔ مثلاً ''بسطام اور اس کی فتح کے بارے میں لکھتا ہے:

خلیفہ عمر نے حکم جاری کیا تھا کہ ''نعیم بن مقرن'' ''رے'' اور ''قومس'' کی طرف لشکر کشی کرے اور یہ لشکر کشی ١٨و١٩ھ میں واقع ہوئی ہے۔

نعیم کا ہراول دستہ اس کے بھائی ''سوید بن مقرن '' کی سرپرستی میں ''رے '' اور ''قومس'' کی طرف روانہ ہوا ۔ چونکہ ان دونوں علاقوں کے باشندوں میں لڑنے کی طاقت نہ تھی ۔ اس لئے انہوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سرانجام ان کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم! اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ ہم میدانِ جنگ میں حاضر ہونے اور اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے میں دوسروں سے زیادہ سزاوار ہیں !

جب صبح سویرے جنگ کا بگل بجتا ہے تو یہ ہم خاندان تمیمی ہیں جو خوشی خوشی اس کا مثبت جواب دیتے ہیں ۔

ہم نے ''بسطام '' کی سخت اور وسیع جنگ میں دشمن کو نابود کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی۔

اس کام میں ہم نے اپنے نیزے گھمائے اور انھیں دشمن کے خون سے رنگین کیا۔

لفظ ''گرگان'' اور ''رے'' کے سلسلہ میں حموی کی دلیل

حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لکھتا ہے :

جب سوید بن مقرن نے ١٨ھمیں ''بسطام '' کی فتح سے فراغت پائی تو اس نے گرگان کے بادشاہ ''زربان صول'' کے نام ایک خط لکھا اور اسے اطاعت کرنے کا حکم دیا اور خود سپاہ لے کر گرگان کی طرف روانہ ہوا۔ زربان نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوا۔ سوید صلح کو قبول کرتے ہوئے گرگان میں داخل ہوا اور صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے مین یہ شعر کہے ہیں :

۸۴

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا، جس سے پہلے رے ہے ۔ اس کے بعد صحرا نشین گرگان کی طرف روانہ ہوئے۔

حموی شہر ''رے''کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ابوبجید، جو لشکر میں شامل تھا''رے'' کا یوں ذکر کرتا ہے:

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا جس کے پہلے رے ہے۔ اس کے بعد صحرا نشین اس کی طرف بڑھے ۔ ہمیں ''رے '' کی چراگاہ اور سبزہ زار جو زینت و نعمت کے سبب ہیں بہت پسند آئے۔

پوپھٹتے ان سبزوں میں عجیب رونق ہوتی ہے جو بڑے بادشاہوں کی شادیوں کی یاد

تازہ کرتی ہے.

حموی مذکورہ اشعار کو بیان کرنے کے بعد ''گرگان'' کے بارے میں تشریح کرکے اپنی بات ختم کرتا ہے.

مذکورہ مطالب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے ''رے '' اور ''گرگان ''کی تشریح میں سیف کی باتوں اور اس کی داستانوں پر اعتماد کیا ہے ۔ اس نے ان داستانوں کی سیف سے نقل کرکے اپنی عادت کے مطابق رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں سے ان ہی دلاور یوں کو ذکرکیا ہے جو فرضی ابو بجید اور جعلی کمانڈر سوید سے مربوط ہیں ، اور سوید کو ''صیغۂ تکبیر ''سے ''سواد '' نقل کیاہے ۔ اس کے بعد اسے بلاذری اور دیگر دانشوروں کی روایتوں سے ربط دیتا ہے جنہوں نے سپاہ کی قیادت کا عہدہ دار ''عروۂ طائی '' کو بتایا ہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

بلا ذری نے ''رے ''اور ''قومس''کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر نے اپنے کارگزار عمار یاسر کو حکم دیا کہ ''عروة بن خیل طائی'' کو ''رے '' کو فتح کرنے پر مامور کرے ۔ عروہ نے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی اور اسے فتح کیا۔ اس کے بعد خود مدینہ چلاگیا اور اس فتح کی نوید خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی۔

۸۵

''رے '' کی فتح کے بعد خلیفہ کے حکم سے ''سلمة الضبی'' نے سپاہ کی کمانڈ سنبھالی اور فوج کے ساتھ ''قومس'' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کی طرف لشکر کشی کی ''قومس '' کے باشندوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سلمہ کے ساتھ معاہدہ کیا اور پانچ لاکھ درہم جزیہ کے طور پر ادا کئے۔

بلاذری نے گرگان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے:

خلیفہ ٔعثمان نے ٢٩ھ میں کوفہ کی حکومت پر ''سعید بن عاص اموی'' کو مقرر کیا .سعید نے گرگان کو فتح کرنے کی غرض سے اس علاقہ کی طرف فوج کشی کی اور گرگان کے بادشاہ کے ساتھ دولاکھ درہم پر صلح کی اور اس علاقے کو اپنے علاقوں میں شامل کیا .اس کے بعد سرزمین طبرستان کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا.

ہم نے یہاں پر بلاذری کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

موازنہ کا نتیجہ

سیف نے اپنی روایت میں سرزمین رے کے فاتح کے طور پر ''نعیم بن مقرن'' کا ذکر کیا ہے اور ''قومس'' ''طبرستان'' ''بسطام'' اور ''گرگان'' کے فاتح کے طور پر اس کے بھائی ''سوید '' کا نام لیا ہے اور ان تمام فتوحات کو ١٨و١٩ھ میں انجام پانا بتاتاہے، جبکہ دوسرے معروف اور نامور مورخین نے سرزمین ''رے'' کا فاتح ''عروة بن زید خیل طائی '' کو بتایا ہے اور ''قومس '' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کو فتح کرنے والے اس کے جانشین کا نام ''سلمةالضبی'' بیان کیا ہے اور گرگان اور طبرستان کا فاتح ''سعید اموی '' کو بنایاہے خاص کر اس موخر الذکر فتح کی تاریخ خلافت ِعثمان کا زمانہ ٢٩ھ ثبت کیا ہے !!یہ سیف اور دیگر مورخین کی روایتوں میں نمایاں اختلافات کے نکات ہیں ۔

ان روایتوں کا مذکورہ سرسری جائزہ اور مختصر موازنہ انجام دینے سے یہ آسانی کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں پر کس قدر اعتماد کیا ہے اور ان روایتوں اور علاقوں کی فتح کو صحیح اور معتبر جانا ہے کہ اس طرح نظم و نثر کی صورت میں سیف کی روایتوں کو قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ یہاں پر ہم ایک بار پھر حموی کی تحریر پر غور کرتے ہیں

۸۶

برجان برگان!

حموی کی ''معجم البلدان''میں لفظ ''برجان'' کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:

مسلمانوں نے ''برجان '' کو عثمان کی خلافت کے دوران فتح کیا .ابوبجید تمیمی نے اس فتح کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

پہلے ہم نے گرگان پر حملہ کیا، ہمارے سوار دستوں کو میدان کا ر زار میں دیکھ کر اس کی حکومت متزلزل ہوکر سرنگوں ہوگئی۔

شام کے وقت جب ہم نے حملہ روکا، تو وہاں کے لوگ سرزمین روم اور برجان کے درمیان سراسیمہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

اسی کتاب میں لفظ ''رزیق '' کے بارے میں آیا ہے:

ایران کے بادشاہ کسریٰ کے بیٹے ، یزدگرد شہریار کے قتل کا واقعہ ایک پن چکی میں پیش آیا ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

ہم تمیمیوں نے سراسیمہ بھاگتے ہوئے یزدگرد کے شکم کو خنجر سے چاک کرکے ہلاک کردیا ۔ ''مرو'' کی جنگ میں ہم ان کے مقابلے پر آئے ۔کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تیز پنجوں والے پہاڑی چیتے ہیں !

ہم نے ''رزیق'' کی جنگ میں ان کو تہس نہس کرکے ان کی ہڈیوں کو چکلنا چور کرڈالا.

سورج ڈوبنے تک ہم ان کے میمنہ اور میسرہ پر مسلسل حملے کرتے رہے

خدا کی قسم !اگر خدا کا ارادہ نہ ہوتا، تو ''رزیق'' کی جنگ میں دشمنوں میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچتا۔

رزیق

طبری نے ''برجان '' کی فتح کے بارے میں جس کا حموی نے نام لیا ہے اور اسی طرح ''رزیق'' میں یزدگرد شہریار کے تمیمیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بارے میں سیف سے کچھ نقل نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کرتے ۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ساسانیوں کا آخری بادشاہ یزدگردخود ایرانیوں کے ہاتھوں ماراگیا ہے۔

۸۷

اگر طبری نے یزد گرد کے مارے جانے کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتاب میں در ج کیا ہوتا ، تو ہمیں پتہ چلتا کہ سیف نے آوارہ اور دربدر ہوئے ساسانی بادشاہ کے تمیمی دلاوروں کے خنجر کی ضربات سے مارے جانے کی کیسی منظر کشی کی ہے تا کہ اپنے افسانوی شاعر ابوبجید کے ذریعہ یزدگرد کے مارے جانے کے بارے میں شعر کہلوا کر قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخار کا اضافہ کرتا.

ابوبجید ، کتاب ''صفین''میں

یہاں تک بیان شدہ مطالب نافع کے بارے میں تھے، جو ہم نے ان علماء کے ہاں پائے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نصر بن مزاحم نے بھی جنگ صفین میں ابوبجید کا نام لیا ہے اپنی کتاب ''صفین'' کے صفحہ ٥٦٤ میں لکھتا ہے:

ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے جنگ صفین میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :

میری طرف سے ''علی کو درود پہنچاؤاور ان سے کہنا : جس نے آپ کا فرمان قبول کیا ، اس نے سختیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے

علی نے اسلام کے گنبد کو ویرانی کے بعد پھر سے تعمیر کیا ۔ یہ عمارت پھر سے کھڑی ہوکر پائیدار ہوگئی ہے۔

گویا اسلام کی ویر انی کے بعد ایک نیا پیغمبر آیا اور اس نے نابود شدہ طریقوں کو پھر سے زندہ کیا ۔

نصر اس داستان میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

اور جب علی جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو نافع نے یہ اشعار کہے:

ہم نے دمشق اور اس کے اطراف کی سرزمینوں کے کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا!

کتنی جوان عورتیں اس جنگ صفین میں اپنے شوہروں کے قتل ہونے کے بعد ان کے نیزوں کی وارث بن کر بیوہ ہوچکی ہیں ؟!

وہ اپنے شوہروں کے سوگ میں بیٹھی ہیں ، جو انھیں قیامت تک نہیں ملیں گے ۔

ہم تمیمی ایسے جنگجوہیں کہ ہمارے نیزے دشمن کو اس طرح لگتے ہیں کہ ان کا بچنا

۸۸

مشکل ہوتا ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ نصر ابوبجید کے رزمیہ اشعار کہاں سے لایا ہے ؟کیا نافع کانام اور اس کے اشعار سیف کے علاوہ کسی اور کی زبان پر بھی آئے ہیں ؟

اس سلسلے میں ہم نصر بن مزاحم کی کتا ب ''صفین'' کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں اور اس کے صفحہ ٦١٢ پرا س طرح پڑھتے ہیں :

...''عمر وبن شمر'' سے متعلق گفتگو کے ضمن میں اس طرح آیا ہے:

جب علی صفین کی جنگ سے واپس ہوئے ، (تو عمرو بن شمرنے) اس طرح شعر کہے :

وکم قدر ترکنا فی دمشق و ارضھا...

کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ہم نے ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا ؟!...تا آخر۔

یہاں تک کہ وہ صفحہ ٦١٣ پر لکھتا ہے:

اور سیف کی روایت میں آیا ہے کہ: ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح نغمہ سرائی کی ہے:

الا ابلغا عنی علیا تحیة ، فقد قبل

میرا سلام علی کو پہنچاؤ اور ان سے کہو کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے مشکلات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے... تاآخر۔

یہاں پر نصر بھی اپنے مآخذ ،یعنی سیف کا کھلم کھلا نام لیتا ہے.

۸۹

لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اسلام کی مشہور اور فیصلہ کن جنگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے اور ان جنگوں کو بھی اپنے خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے وجود سے محروم نہیں کیا ہے تا کہ اس طرح وہ ہر جنگ میں اپنے خاندان یعنی قبیلۂ تمیم کے کسی طرح افتخارات کا اضافہ کرنے کی کوشش کرے ۔ حقیقت میں سیف کے بارے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ''کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر اس مکار لومڑی کے نقش قدم نہ پائے جائیں ''!!

اس طرح علماء اور دانشوروں نے سیف کے افسانوں اور اس کی ذہنی مخلوقات کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ بعض اوقات ان مطالب کو سیف سے نسبت دیکر مآخذ کو کھلم کھلا بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی روایت کے راوی کانام نہیں لیتے ۔ یہی امر سبب ہوتا ہے کہ محقق ایسی روایتوں سے دوچار ہوکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اور یہ امور تاریخی حقائق کی تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لئے حیرت و تعجب کا سبب بنتے ہیں ، ان ہی میں ابن حجر کے وہ مطالب بھی ہیں جو اس نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں نافع کے حالات کے بارے میں درج کئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو:

دار ''قطنی '' نے اپنی کتاب ''مؤلف'' میں لکھا ہے کہ ابوبجید نافع بن اسود نے عراق کی سرزمینوں کی فتح میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں اس نے چند اشعار بھی کہے ہیں ، من جملہ

وہ کہتا ہے:

اگر پوچھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میرا خاندان ''اسید ''ہے اور میری اصل ، افتخارات کا منبع و سرچشمہ ہے

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

...اور سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں

۹۰

ہم اس بات کونہیں بھولے ہیں کہ سیف کی نظر میں قبیلۂ ''اسید'' جو افتخارات کا منبع اور شرافت کا معدن ہے ، حقیقیت میں وہی سیف کا خاندان یعنی قبیلۂ تمیم ہے۔

جو کچھ بیان ہوا ، اس کے پیش نظر ہم ، ادیب اور نامور عالم ''مرزبانی'' کویہ حق دیتے ہیں کہ وہ سیف کے افسانوی شاعر اور صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، نافع بن اسود کے لئے اپنی کتاب ''معجم الشعراء '' میں جگہ معین کرے اور اس کے وجود کو ایک مسلم حقیقت تصور کرے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالے اور سیف نے اس سے نسبت دیکر جو اشعار لکھے ہیں ان کو اپنی کتاب میں درج کرے۔

کتاب ''معجم الشعرائ'' تالیف مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ ) میں مؤلف کی حیات تک پانچ ہزار سے زائد عرب شعراء کی زندگی کے حالات درج ہیں ۔لیکن اس کتاب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہمیں دستیاب ہواہے اور اس کابڑا حصہ ،مؤلف کی وفات کو ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کی وجہ سے نیست ونابود ہوگیاہے۔اسی لئے اس میں نافع اور اس کے باپ ،اسود کے حالات نہیں پائے جاتے۔

لیکن ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے سیف کے ان دو جعلی اصحاب کے اشعار نقل کرکے ان دو افسانوی شاعروں کے بارے میں ہمارے لئے مذکورہ کتاب میں موجود کمی کی کسی حد تک تلافی کی ہے ۔اگر چہ مذکورہ کتاب کسی کمی کے بغیر بھی ہم تک پہنچ جاتی تو وہ ہمیں اس بارے میں کسی صورت سے مدد نہ کرتی ،کیونکہ ''مرزبانی'' نے اکثرو بیشتر شعراء کے حالات کی تشریح اور ان کے اشعار مآخذ اور سند کا ذکرکئے بغیر اپنی کتاب میں درج کئے ہیں ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ سیف کے تمام یا اکثر افسانوی شعراء اور ان کے اشعار حقیقی شعراء کے عنوان سے مرزبانی کی کتاب میں درج نہ ہوئے ہوں ؟!

ہم دوبارہ اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں اور نافع کے بارے میں ابن حجر کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ابن حجر نے مرزبانی کی کتاب ''معجم الشعرائ'' کا حوالہ دے کر نافع کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے:

۹۱

مرزبانی کہتاہے :ابو بجید نے جس نے دوران جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو درک کیا ہے عبد اللہ بن منذر حلاحل تمیمی کے سوگ میں چند دردناک اشعار کہے ہیں ۔

اس عبد اللہ نے ،خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور وہاں پر مارا گیاہے ۔اس (مرزبانی) نے عبد اللہ منذر کے سوگ میں نافع کے مرثیہ ''ماکان یعدل...'' کے مطلع سے درج کیاہے کہ میں (ابن حجر ) نے مذکورہ اشعار اسی عبداللہ منذر کی تشریح کے ذیل میں نقل کئے ہیں ۔

اس کے بعد ابن حجر اپنی کتاب ''اصابہ'' میں عبد اللہ منذر کی تشریح میں لکھتاہے :

''مرزبانی '' نے اپنی کتاب ''معجم الشعراء ''میں ذکر کیاہے کہ عبد اللہ منذر نے خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جگہ پر ماراگیا۔نافع بن اسود تمیمی ،جو خود اس جنگ میں موجود تھا ،نے عبد اللہ کے سوگ میں یہ اشعار کہے ہیں :

جاؤ ،خدا تمھیں ایسے جواں مرد سے دور نہ رکھے جو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ،بذل وبخشش کرنے والا اور انجمنوں اور محفلوں والا انسان تھا !

تمام لوگوں میں اس جیسا مردنہ تھا اور جدوجہد اور بذل وبخشش میں اس کا کوئی مانند نہ تھا۔

تم (عبد اللہ )چلے گئے اور خاندان عمرو اور قبیلہ تمیم کے دوسرے خاندانوں کو تنہا چھوڑ گئے تا کہ وہ نیازمندی اور بیچارگی کے وقت فخر کے ساتھ تمھارا نام زبان پر لائیں ۔

اس شعر میں سیف کے قبیلہ تمیم کے بارے میں خاص کر اس کے اپنے خاندان بنی عمرو کے بارے میں افتخارات کا اظہار واضح طور سے مشہود ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے نقل کرکے نافع بن اسود کے حالات کی تشریح میں مندرجہ ذیل دوشعر اور درج کئے ہیں :

جنگی غنائم کی کتنی بڑی مقدار ہمارے ہاتھ آئی جب کہ ہم بلند قامت گھوڑوں پر سوار تھے۔

۹۲

کتنے بہادروں کو ہم نے تلوار کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتاردیا اور لاش خور ، ان کی لاشوں پر اچھل کود کررہے تھے۔

''ابن حجر''،''مرزبانی'' کی تحریر اور اس کی کتاب میں درج کئے گئے اشعار پر اعتماد کرتے ہوئے عبد اللہ منذر حلاحل کو اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیتاہے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتاہے ،جبکہ کسی بھی دوسرے تاریخی مآخذ اور عربوں کے شجرہ نسب میں اس کا نام کہیں ذکر نہیں ہواہے ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ یہ عبد اللہ بھی سیف کے دوسرے افسانوی سورماؤں کی طرح اس کاجعل کردہ اور خیالی کردار نہ ہو؟

ہم نافع کے بارے میں گفتگو کا خاتمہ ابن عساکر کی اس بات سے کرتے ہیں جہاں وہ اپنی بات کے آغاز پر نافع کے بارے میں لکھتاہے :

اس شاعر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کازمانہ درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور

۹۳

پہنچاہے :

ہمیں ابن عساکر کی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی ،صرف نافع کے اشعار کے پانچویں بند میں آیاہے :

صدر اسلام میں ایسے پیشرو تھے،جو اپنی مہاجرت میں عظمت وافتخار سے سربلند ہوکر مھاجرین کے مقام تک پہنچاہے۔

ابن عساکر کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ نافع نے خلیفہ عمر سے حدیث نقل کی ہے ۔

ہمیں اس سلسلے میں سیف کے جعلیات میں نافع کی زبانی عمر کی حدیث نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

روایت کی تحقیق

نصر بن مزاحم ،ابن ماکولا ،ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء ودانشور ،نافع کے بارے میں اپنی بات کو بلاواسطہ سیف سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں سیف کے کسی راوی یا راویوں کا نام نہیں لیتے اور صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ :

''سیف کہتاہے ....'' اور ان علماء نے دار قطنی سے نقل کرتے ہوئے بھی اس روش کی رعایت کی ہے۔

لیکن ابن عساکر جہاں پر فتح دمشق کے بارے میں نافع کے اشعار کو اپنی کتاب میں سیف سے نقل کرتاہے وہاں سیف کے راویوں کانام اس صورت میں لیتاہے ۔

سیف نے ''ابو عثمان '' سے اور اس نے ''خالد'' و''عبادہ'' سے یوں نقل کیاہے

اور اس طرح حدیث کے راویوں کاذکر کرتاہے ۔

ان راویوں کی تحقیق کے سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ابو عثمان کا سیف نے ذکر کیا ہے ، در حقیقت یہ '' یزید بن غسان '' کے لئے سیف کی جعل کردہ کنیت ہے ۔ہم نے سیف کے اسناد کی تحقیق کے دوران اسی کتاب کی پہلی جلد میں اس نام کے سلسلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا حقیقت میں ہر گز کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ '' خالد '' اور ''عبادہ'' دونوں مجہول الھویہ ہیں ۔

۹۴

تاریخ طبری میں نافع کے بارے میں سیف سے دو روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں چند راویوں کا نام لیا گیا ہے کہ یہ نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں حقیقت میں سیف ان کا نام لے کر دوسرے موارد کی طرح یہاں پر بھی اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے ان حدیثوں کو حقیقی راویوں سے منسوب کرتا ہے ۔اور ہم بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سیف کی دروغ بافی کے گناہ کو ان راویوں کی گردن پر نہ ڈالیں ،خاص کر جب کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جو ان راویوں پر اس قسم کی تہمتیں لگاتاہے۔

بحث کا خلاصہ

قطبہ بن مالک تمیمی عمر ی کا پوتا ابو بجید نافع بن اسود ایک افسانوی صحابی ہے جسے سیف نے ایک قوی اور مشہور شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔

اسے یمامہ کی جنگ میں خالد بن ولید کے ساتھ دکھایا ہے '' عبد اللہ حلاحلی تمیمی '' کے سوگوار کی حیثیت سے پیش کیا ہے دمشق اور بصری کی فتوحات میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور ان تمام واقعات کے بارے میں اس کی زبان سے اشعار ذکر کئے ہیں ۔

اس نے قادسیہ اور مدائن کی جنگیں دیکھی ہیں اور ان سے ہر ایک کے لئے دلفریب رزمیہ اشعار لکھے ہیں ۔

رومیوں کے ساتھ جنگ کے بارے میں ایک شعلہ بار قصیدہ اور '' جلولا'' و ''رے '' کی جنگوں کے بارے میں رزمیہ اشعار بھی اس کے نام درج ہیں ۔

سیف کی روایتوں کے مطابق گرگان ،گیلان اور برجان کی جنگوں کے بارے میں بھی اس نے زیبا اشعار کہے ہیں اور اپنے قبیلہ تمیم کے بارے میں دلاوریوں اور افتخارات کے قصیدہ لکھے ہیں ؛

۹۵

نافع کے افسانہ کا سر چشمہ

ان تمام افسانوں کا سر چشمہ سیف کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے لیکن ان افسانوں کی اشاعت اور پھیلائو میں درج ذیل دانشوروں اور علماء نے اپنی اپنی نوبت کے مطابق ابو بجید نافع بن اسود کی داستان کو بلا واسطہ یا با واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

١)۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ھ )

٢)۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ )

٣)۔ ابن ماکولا ( وفات ٤٧٥ھ )

ان تینوں علماء نے صراحت سے کہا ہے کہ نافع کی داستان انھوں نے سیف سے نقل کی ہے

٤)۔ ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ) اس نے اپنے مطالب کو سیف اور ابن ماکولا سے نقل کیا ہے

٥)۔ طبری ( وفات ٣١٠ھ ) اس نے سیف سے مطالب نقل کرکے ان کے اسناد کا بھی ذکر کیا ہے.

٦)۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ )

٧)۔ ابن کثیر (وفات ٧٧٤ھ)

٨)۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ)

ان تین دانشوروں نے بھی نافع کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

٩)۔ مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ)

١٠)۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ)

١١)۔ حمیری (وفات ٩٢٠ھ)

نافع کے بارے میں جن مطالب کو با واسطہ یا بلا واسطہ مذکورہ بالا دانشوروں نے نقل کیا ہے مؤخرالذکر تین علماء نے بھی اپنی روایت کے مآخذ کی طرف اشارہ کئے بغیر ان ہی مطالب کو اپنی کتابوں میں نقل اور درج کیا ہے ۔

۹۶

نافع کے بارے میں سیف کے افسانوں کے نتائج

سیف نے مالک تمیمی کے پوتے بو بجید نافع بن اسود کو اپنے خیال میں خاندان بنی عمرو تمیم سے خلق کیا ہے ،اسے ایک شریف ،شاعر اور ایک صحابی کی حیثیت سے ذکر کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہا ت اور سربلندی کا سبب قرار دیا ہے ۔

اسے بالکل اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے وفادار اور ثابت قدم صحابیوں میں شمار کیا ہے ۔ جیسے اس سے پہلے اس کے قبیلے کے بھائی قعقاع بن عمرو کو وقت کے نامور سورما اور دلاور کے طور پر خلق کرکے حضرت علی علیہ السلام کے دوستدارکی حیثیت سے ذکر کیا تھا ۔چوں کہ ہم نے حدیث اور رجال کی کتابوں کے علاوہ دیگر مأخذ میں کافی جستجو اور تحقیق کے باوجود ان افسانوی باپ بیٹے کا سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نام و نشاں نہیں پایا ۔ اس لئے ان کو سیف کے جعلی اور افسانوی اشخاص میں شمار کرتے ہیں ۔

سیف جو اپنے قبیلے اور خاندان کے افتخارات کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں کرتا ،اپنے افسانوی شاعر کے ذریعہ اپنے قبیلہ تمیم بالاخص خاندان ''اسید'' وبنی عمرو کے بارے میں ستائشوں کے دلخواہ قصیدے لکھواکر ان کو سر بلندی اور شہرت بخشتاہے اور نافع کے باپ ''اسود بن قطبہ'' کی زبان پر جاری کرائے گئے اشعار میں بھی انہی مقاصد کی پیروی کرتاہے ۔

غور کیجئے کہ ،وہ کس طرح اپنے خاندان کے حق میں داد سخن دیتے ہوئے خود ستائی کرتاہے ، ملاحظہ ہو:

حجاز کے تمام منصفوں نے اس کی گواہی دی اور اعتراف کیا ہے کہ خاندان تمیم دنیا کے عظیم بادشاہوں کے برابر ہے!

یہ تلاش کوششیں ،خاندان تمیم کی سخاوت وبخشش کا نتیجہ ہے نہ کہ سست اور کمزور اشخاص کا۔

خدائے تعالیٰ نے ایسا ارادہ کیاہے کہ صرف قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے افراد دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرکے انھیں دور کریں ۔

۹۷

قبائل تمیم کے تمام افراد بخوبی جانتے ہیں کہ میدان جنگ میں حاضری اور غنائم کو حاصل کرنے میں قیادت وسرپرستی کی باگ ڈور قدیم زمانے سے قبیلہ اسید کے خاندان بنی عمرو ہی کے ہاتھوں میں تھی۔

یہ اور ان سے کہیں زیادہ اشعار کو سیف نے ان دو شاعر باپ بیٹوں کی زبان پر جاری کیاہے ۔اور ان کے ذریعہ قبیلہ تمیم اور اسید کے خاندان بنی عمرو کی اسی طرح ستائش کی ہے جیسے اس سے پہلے اس نے خاندان تمیم کے اپنے دو بے مثال افسانوی سورما،''قعقاع''و''عاصم'' کی جنگوں میں ان کی تعجب خیز شجاعتوں اور دلاوریوں کو دکھاکر مالک تمیمی کے خاندان کو قبیلہ تمیم کے تمام افتخارات کا سرچشمہ ثابت کیاتھا اسے اپنے قبیلے کا چمکتا ستارہ بناکر پیش کیاتھا۔

اس قابل فخر خاندان تمیم کے افراد کا جس طرح سیف نے تصورکیا ہے ،اس کا اندازہ اس کے مندرجہ ذیل شجرہ نسب کے خاکہ سے کیا جاسکتاہے :

مالک تمیمی

عمرو

قطبہ

قعقاع

عاصم

اسود

اعور

عمرو

نافع

۹۸

سیف نے اپنے اسی خیالی خاندان میں چار اصحاب وجنگی سردار ،دو تابعین،چھ رزمیہ شعراء اور احادیث کے راوی جعل کئے ہیں ۔

اس قبیلہ کے لئے سیف کے جعل کئے گئے مذکورہ فخرومباہات کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے چند منہ بولے بیٹے بھی خلق کرکے اس خاندان کے افتخارات میں چارچاند لگائے ہیں کہ انشاء اللہ ہم اس موضوع پر الگ سے بحث وتحقیق کریں گے۔

قارئین محترم سے گذارش ہے کہ تاریخ ،حدیث ،انساب ،ادبیات،طبقات صحابی،شعرائ، رجال اوراخبار واحادیث کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کیا سیف کی احادیث اور اس کے افسانوں کے علاوہ بھی کہیں اس افسانوی خاندان کا نام ونشان ملتاہے ؟!

۹۹

چوتھا حصہ : قبیلہ تمیم کے چند اصحاب

* ٦۔عفیف بن منذر تمیمی

* ٧۔زیاد بن حنظلہ تمیمی

* ٨۔حرملہ بن مریطہ تمیمی

* ٩۔حرملہ بن سلمی تمیمی

* ١٠۔ربیع بن مطر بن ثلج تمیمی

* ١١۔ربعی بن افکل تمیمی

* ١٢۔اط بن ابی اط تمیمی

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

سیف نے اسود بن عبس سے اسود بن ربیعہ کا نام اقتباس کرنے میں اس کی داستان میں وہی کام انجام دیا ہے جو اس نے زربن عبد اللہ و غیرہ کے سلسلے میں کیا ہے ۔

سیف اپنے کام کو مستحکم کرنے کے لئے اسود بن ربیعہ حنظلی کی روایت کے ایک حصہ کو حنظلی نام کے ایک راوی سے نقل کرتا ہے تاکہ روایت کو صحیح ثابت کر سکے ۔ کیوں کہ حنظلی نام کا یہ راوی اپنے قبیلہ کی روایتوں کے بارے میں دوسروں سے آگاہ تر ہے ۔ معروف ضرب المثل '' رب البیت ادریٰ بما فی البیت '' ( گھر کا مالک بہتر جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے ) اس پر صادق آتی ہے ۔ جب کہ یہ دونوں خواہ صحابی حنظلی یا راوی حنظلی سیف بن عمر تمیمی جس پر جھوٹ اور زندیقی ہونے کا الزام ہے کی تخلیق ہیں ۔

حدیث کے اسناد کی تحقیق

زر اور اسود اور ان کی نمائندگی ، زر کے ذریعہ نہاوند کا محاصرہ اور جندی شاپور کے بارے میں سیف کی احادیث کے اسناد میں حسب ذیل نام نظر آتے ہیں :

محمد ، مہلب ، ابو سفیان عبد الرحمن ۔ ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوا ہے کہ یہ سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

'' ابلہ '' کی روایت کے بارے میں سیف کی سند حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے سیف نے اسے اپنے جعلی صحابی زیاد کا بیٹا تصور کیا ہے ؟

'' اسود بن ربیعہ '' اور اس کی داستان اور تمیم کے نمائندوں کے بارے میں روایت کی سند کے طور پر '' ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی'' کا نام لیا ہے چوں کہ ہم نے اس نام کو سیف کی رو ایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے خیالی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ اس کے بعض روایت کے اسناد میں مجہول اشخاص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایسے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔

کتاب '' التجرید'' میں ذہبی کی یہ بات قابل غور ہے ، جہاں پر وہ لکھتا ہے :

اسود بن حنظلی کانام ایک ایسی روایت میں آیا ہے جو مردود اور ناقابل قبول ہے ! اس ناقابل قبول روایت سے اس کا مقصود وہ روایت ہے جسے سیف بن عمر نے اسود کے بارے میں نقل کیا ہے جس کی تفصیل گزری ۔

۲۶۱

چھٹا حصہ

خاندان تمیم سے رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے

* ٢١ ۔حارث بن ابی ہالہ تمیمی

* ٢٢۔زبیر بن ابی ہالہ تمیمی

* ٢٣۔طاہر بن ابی ہالہ تمیمی

۲۶۲

اکیسواں جعلی صحابی حارث بن ابی ہالہ تمیمی

حارث خدیجہ کا بیٹا

سیف کے سخت ، پیچیدہ اور دشوار کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قارئین کو گمراہ کرنے کے لئے اپنی خیالی شخصیتوں کو تاریخ کی حقیقی شخصیتوں کے طور پر ایسے پیش کرتا ہے کہ ایک محقق کے لئے ، وہ بھی صدیاں گزر نے کے بعد حق کو باطل سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات ناممکن

بن جاتا ہے ۔

شائد حارث ، زبیر اور طاہر جیسے سیف کے مہم جو جعلی اصحاب ، جنھیں اس نے ام المومنین حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ تمیمی کی اولاد کے طور پر پیش کیا ہے ، اس کے اس قسم کی مخلوق ہیں ۔

حضرت خدیجہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کرنے سے پہلے ابوہالہ تمیمی کے عقد میں تھیں ۔ ابو ہالہ کون تھا ؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔ بعضوں نے اسے ہند کچھ لوگوں نے زرارہ اور ایک گروہ نے اسے نباش نام دیا ہے ۔ بہر حال جو چیز واضح ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کی کنیت اس کے نام کی نسبت معروف تر ہے اس لئے وہ اسی کنیت سے مشہور ہے ۔

حضرت خدیجہ سے ابو ہالہ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں طبری نے لکھا ہے :

ابو ہالہ نے خویلد کی بیٹی سے ازدواج کیا ۔ خدیجہ نے پہلے ہند کو جنم دیا پھر ہالہ کو۔ البتہ ہالہ کا بچپن میں ہیانتقال ہو گیا...(یہاں تک کہ لکھتاہے )

۲۶۳

خدیجہ ابو ہالہ کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقد میں آگئیں ، اس وقت ہند نامی ابوہالہ کا بیٹا ان کے ہمراہ تھا ۔

ہند نے اسلام کا زمانہ درک کیا ہے اور اسلام لایا ہے ، امام حسن ابن علی علیہ السلام نے اس سے روایت نقل کی ہے ۔ ١

ہیثمی نے بھی اپنی کتاب مجمع الزوائد ٥١٠ میں اسی سلسلے میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا ہے :

ام المومنین خدیجہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے ابو ہالہ کی بیوی تھیں ۔ انھوں نے پہلے ہند کو اور پھر ہالہ کو جنم دیا ہے ۔ ابو ہالہ کی وفات کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے ازدواج کیا ۔

ابن ماکولا نے زبیر بن بکار سے نقل کرکے لکھا ہے :

خدیجہ نے پہلے ہند اس کے بعد ہالہ کو جنم دیا ہے ۔

ابو ہالہ کے نواسہ ، یعنی ہند بن ہند نے جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شرکت کی اور شہید ہوا ہے ۔

سیف کی نظر میں اسلام کا پہلا شہید

ابن کلبی سے روایت ہوئی ہے کہ ابو ہالہ کا نواسہ ہند بن ہند عبد اللہ بن زبیر کی معیت میں قتل ہوا اور اس کی کوئی اولاد باقی نہیں بچی ہے ۔ ٢

تمام مؤرخین ،جیسے ابن ہشام ، ابن درید ،ابن حبیب ،طبری ،بلاذری ابن سعد ،ابن ماکولا وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت خدیجہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کیا تو ،اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے صرف ایک بیٹا ہند کو ہمراہ لے کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر ہیں داخل ہوئیں ۔ حقیقت میں ہند کے علاوہ ابو ہالہ سے اس کی کوئی اور اولاد نہیں تھی ۔ ٣

ان حالات کے پیش نظر انتہائی حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ نساب عرب '' میں لکھا ہے :

خدیجہ نے اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے ہند نامی ایک بیٹا کو جنم دیا اور اس کے بعد حارث نام کے ایک اور بیٹے کو جنم دیا ۔ کہا گیا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید تھا جو خانہ خدا میں رکن یمانی کے پاس شہید کیا گیا ہے۔

۲۶۴

حیرت کی بات ہے ! یہ کیسے ممکن ہے ایک ایسا اہم حادثہ رونما ہو جائے یعنی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ شخص اس عظمت و شان کے ساتھ خدا کے گھر میں رکن یمانی کے پاس قتل ہو کر اسلام کے پہلے شہید کا درجہ حاصل کرے اور تاریخ اس کے ساتھ اتنی بے انصافی اور ظلم کرے کہ وہ فراموشی اور بے اعتنائی کا شکار ہو جائے ؟!!

ہم نے اس سلسلے میں انتہائی تلاش و جستجو کی تاکہ یہ دیکھیں کہ انساب عرب کو پہچاننے والے اس ماہر شخص ابن حزم نے اس روایت کو کہاں سے نقل کیا ہے !!

اس حقیقت و تلاش کے دوران ہم نے اس مسئلہ کے جواب کو ابن حجر کے ہاں پا یا وہ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں حارث بن ابی ہالہ کی تشریح میں لکھتا ہے :

حارث بن ابی ہالہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ اور ہند کا بھائی ہے ابن کلبی اور ابن حزم نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید ہے جو رکن یمانی کے پاس قتل ہوا ہے ۔

عسکری بھی کتاب '' اوائل '' میں لکھتا ہے :

جب خدا ئے تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں امر ہوا ہے اسے اعلان فرمائیں تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں کھڑے ہو گئے اور اپنی رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بلند آواز میں لولے '' قولو ا لاالہ الا اللّٰہ تفلحوا'' '' یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دو تاکہ کامیاب ہو جائو ! '' قریش کے کفار نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کیا ۔ شور و غل کی آواز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر تک پہنچی ْ حارث بن ابی ہالہ آپ کی مدد کے لئے دوڑکر آیا اور اس نے کفار پر حملہ کیا ۔ قریش نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوچھوڑ کر حارث پر حملہ کیا اور اسے رکن یمانی کے پاس موت کے گھاٹ اتار دیا ۔حارث اسلام کا پہلا شہید ہے ۔ اس کے علاوہ سیف کی کتاب '' فتوح '' میں سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عثمان بن مظعون سے روایت کی ہے : سب سے پہلا حکم جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں دیا ، اس وقت تھا جب ہماری تعداد چالیس افراد پر مشتمل تھی ۔ ہم سب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین پر تھے ۔ مکہ میں ہمارے علاوہ کوئی ایسا نہیں تھا جو اس دین کا پابند ہو ۔ یہ وہ وقت تھا ،جب حارث بن ابی ہالہ شہید ہوا ۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں فرمان ہوا ہے (آخر تک ) ابن حجر کی بات کا خاتمہ ۔

۲۶۵

لہٰذا معلوم ہو ا کہ حارث بن ابی ہالہ کی داستان کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے ۔ ابن کلبی ، عسکری ،ابن حزم اور ابن حجر سبوں نے اس روایت کو اس سے نقل کیا ہے ۔ ان کے مقابلے میں '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' طبقات '' جیسی کتابوں کے مؤلفوں نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہ کرتے ہوئے اس کی جعلی داستان کو اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔

دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ابن حزم حارث کی شہادت کی داستان کو '' کہا گیا ہے '' کے جملہ سے آغاز کرتا ہے تاکہ اس روایت کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کرے ۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حارث کی داستان کے صحیح ہونے کے سلسلے میں شک و شبہ میں تھا ۔

اس لحاظ سے ''حارث ابو ہالہ ''سیف اور ان لوگوں کے لئے اسلام کا پہلا شہید ہے جنھوں نے سیف کی بات پر اعتماد کرکے اس داستان کی اشاعت کی کوشش کی ہے ۔جب کہ عام تاریخ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کی پہلی شہید ''سمیہ ''عمار یاسر کی والدہ تھیں ۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ''یاسر ''ان کا بیٹا ''عمار ''اور یاسر کی بیوی ''سمیہ ''وہ افراد تھے جنھیں راہ اسلام میں مختلف قسم کی جسمانی اذیتو ں کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ ان پہلے سات افراد میں سے ہیں جنھوں نے مکہ میں اپنے دین کا کھل کر اظہار کیا ۔اور کفار قریش نے اس جرم میں ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر تپتی دھوپ میں رکھا اور انھیں شدید جسمانی اذیتیں پہنچائیں ۔

ایسی ہی وحشتناک اذیت گاہوں میں سے ایک میں ''ابو جہل ''آگ بگولا حالت میں سمیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے داخل ہوا اور آگے بڑھتے ہوئے اس نے نیزہ سمیہ کے قلب پر مار کر انھیں شہید کیا۔ اس لحاظ سے سمیہ راہ اسلام کی پہلی شہید ہیں نہ اور کوئی ۔

اس کے علاوہ لکھا ہے کہ اسی حالت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہا ں تشریف لائے اور فرمایا : اے خا ندان یا سر !صبر کرو ،بہشت تمھارے انتظارمیں ہے ۔

۲۶۶

ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ عمار یاسر نے ان تمام درد و الم اور اذیتوں کی شکایت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیان کرتے ہوئے عرض کی :

ہم پر کفار کی اذیت و آزار حد سے گزر گئی !

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

صبر و شکیبایی سے کام لو !اس کے بعد ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :

خداوندا !یاسر کے اہل خانہ میں سے کسی ایک کو عذاب نہ کرنا !

حدیث کا موازنہ اور قدر و قیمت

سیف نے لکھا ہے کہ راہ اسلام کے پہلے شہید ''حارث بن ابی ہالہ ''اور ''خدیجہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرشی مضری ''تھے ۔ ابن کلبی اور ابن حزم نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب''جمہرہ '' میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی انہی مطالب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات کی تشریح کے ضمن میں اپنی کتاب ''الاصابہ''میں درج کیا ہے ۔عسکری نے بھی اپنی کتا ب''اوائل ''میں حارث کو اسلام کے پہلے شہید کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ حقیقت میں اسلام کی پہلی شہید سمیہ تھیں اور ان کے بعد ان کے شوہر یاسر تھے ،اور اس مطلب کو ان دو شخصیتوں کی سوانح لکھنے والے سبھی علماء ،و محققین نے بیان کیا ہے ۔

سیف شدید طور پر خاندانی تعصب کا شکار تھا ،خاص کر قحطانیوں اور یمانیوں کے بارے میں اس کے اس تعصب کے آثار کا ہم نے مختلف مواقع پر مشاہدہ کیا ۔وہ اس تعصب کے پیش نظر ایک یمانی قحطانی شخص کو راہ اسلام میں پہلے شہید کا فخر حاصل کرنے کی حقیقت کو دیکھ کر آرام سے نہیں بیٹھ سکتا تھا !کیونکہ وہ تمام امور میں پہلا مقام حاصل کرنے کے فخر کا مستحق صرف اپنے قبیلہ تمیم ،خاص کر خاندان بنی عمرو کو جانتا ہے ۔غور فرمائیں کہ وہ خاندان تمیم کے بنی عمرو میں پہلا مقام حاصل کرنے کے سلسلے میں کیسے تشریح کرتا ہے :

۲۶۷

اس کا افسانوی سورما قعقاع پہلا شخص تھا جو دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر چڑھ کر قلعہ کے محافظوں کو اپنی تلوار سے موت کی گھاٹ اتار کر قلعہ کے د ر و ا ز و ں کو ا سلا می فو ج کے لئے کھول دیتا ہے !

کیا یہی اس کا افسانوی قعقاع کچھار کا پہلا شیر نہیں تھا جس نے یرموک کی جنگ میں سب سے پہلے جنگ کے شعلے بھڑکادئے ،قادسیہ کی جنگ میں لیلة الھریر کو وجود میں لایا ،پہلے پہلوان کی حیثیت سے دشمن کے جنگی ہاتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ؟وہ پہلا پہلوان تھا جس نے جلولا کی جنگ میں سب سے پہلے دشمن کے مورچوں پر قدم رکھا ،پہلا دلیر اور پہلا سورما اور

سیف اپنے افسانوی عاصم کے ''اہوال ''نامی فوجی دستہ کو پہلا فوجی دستہ بتا تا ہے کہ جس نے سب سے پہلے شہر مدائن میں قدم رکھا ہے !

کیا اسی سیف نے ''زیاد بن حنظلہ تمیمی''کو پہلے شہسوار کے طور پر خلق نہیں کیا ہے جس نے سب سے پہلے سرزمین ''رہا''پر قدم رکھا ۔حرملہ اور سلمی اس کے پہلے پہلوان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرزمین ایران پر قدم رکھے ؟!

جب ہم سیف کے جھوٹ اور افسانوں میں قبیلہ تمیم کے لئے بے شمار فضیلتیں اور پہلا مقام حاصل کرنے کے موارد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسلام کے سب سے پہلے شہید کا افتخار بھی اسی خاندان کو نصیب نہ ہو ؟اور ''سمیہ''نام کی ایک کنیز اور اس کا قحطانی شوہر ''یاسر ''اس افتخار کے مالک بن جائیں اور اسلام کے پہلے شہید کی حیثیت سے پہچانے جائیں ؟!

سیف ،قحطانیوں کی ایسی فضیلت کو دیکھ کر ہرگز بے خیال نہیں بیٹھ سکتا ،لہٰذا ایک افسانہ گڑھتا ہے حضرت خدیجہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ابو ہالہ سے ایک بیٹا خلق کرکے اسے اسلام کے پہلے شہید کا افتخار بخش کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں ذخیرہ کرتا ہے ۔

ہم راہ اسلام میں سیف کے اس پہلے شہید میں اس کے دوسرے افسانوی پہلوانوں کی شجاعتوں اور جاں نثار یوں کا واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں ۔وہ کہتا ہے :

۲۶۸

قریش نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کی غرض سے حملہ کیا ،شور وغل کی آواز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل خانہ تک پہنچی (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حامی اور حقیقی پشت و پناہ ابو طالب ،حمزہ ، جعفر اور بنی ہاشم کے دیگر سرداروں اور جوانوں کے بجائے )حارث تمیمی پہلا شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے کے لئے اٹھا اور دوڑتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور دفاع میں آپ کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے کفار قریش پر حملہ کیا ،کفار نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ دیا اور حارث پر ٹوٹ پڑے اور سر انجام

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اپنے خاندان تمیم سے یاور و مدد گار جعل کرکے اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے اور اسے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تربیت یافتہ کے طور پر پہچنواتا ہے تا کہ خاندان تمیم میں ہر ممکن حد تک افتخارات کا اضافہ کرسکے ۔

حارث کے افسانے کا نتیجہ

سیف نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پالے ہوئے ایک صحابی کو خلق کیا ہے تا کہ مؤرخین پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے حقیقی اصحاب کے ضمن میں اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالیں اور اس کے نام ونسب کو انساب کی کتابوں میں تفصیل سے لکھیں ۔

سیف نے اپنے تخیل کی مخلوق ،''حارث تمیمی''کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ،چچا زاد بھائی اور بنی ہاشم کی جوانوں کی موجودگی کے باوجود ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے جاں نثار کے طور پر پیش کرکے خاندان تمیم ،خاص کر قبیلہ اسید کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضا فہ کیا ہے ۔

۲۶۹

حارث کے افسانہ کی تحقیق

سیف اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے تا کہ اسلام کی سب سے پہلی حقیقی شہید سمیہ قحطانی کی جگہ پر بٹھادے اور اس طرح اپنے خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخا ر کا اضافہ کرے۔

سیف نے حارث کی داستان کو سہل بن یوسف سلمی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیاہے ۔چونکہ ہم نے ان دو ر اویوں ۔ باپ بیٹے ۔ کانام سیف کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ،اس لئے ان کو سیف کے تخیل کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔

حارث ابو ہالہ تمیمی کی داستان سیف سے نقل کرکے عسکری کی ''اوائل ''،ابن کلبی کی ''انساب ''،ابن حزم کی ''جمہرہ''اور ابن حجر کی کتا ب ''الاصا بہ ''میں درج کی گئی ہے اور ابن حجر نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اس کی وضاحت کی ہے ۔

سیف کے جعلی صحابی حارث ابو ہالہ کا افسانہ اتنا ہی تھا جو ہم نے بیان کیا ۔لیکن سیف نے صرف اسی ایک افسانہ کو خلق کرنے پر اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اسی ماں باپ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک اور پالے ہوئے کی تخلیق کرکے اس کانام ''زبیر بن ابی ہالہ ''رکھا ہے کہ انشاء اللہ اس کی داستا ن پر بھی نظر ڈالیں گے ۔

۲۷۰

بائیسواں جعلی صحابی زبیر بن ابی ہالہ

حضرت خدیجہ کادوسرابیٹا

دانشوروں نے اس زبیر کانام دوحدیثوں میں ذکرکیاہے۔ہم یہاں پران دوحدیثوں کے بارے میں بحث وتحقیق کریں گے۔

پہلی حدیث

نجیرمی(۱) (وفات ٤٥٠ھ)نے اپنی کتاب ''فوائد'' میں ابو حاتم(۲) (وفات ٢٧٧)سے نقل کرکے اس طرح لکھاہے:

سیف بن عمر سے اس نے وائل بن داودسے اس نے بہی بن یزید سے اوراس نے زبیر بن ابی ہالہ سے روایت کی ہے ،کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

( ۱)۔ابو عثمان سعد بن احمد نیشابوری معروف بہ نجیرمی نے علم و دانش حاصل کرنے کے لئے بغداد ،گرگان اور دیگر شہروں کا سفر کیا ہے یہ نام اسی طرح لباب اللباب (٢١٦٣)میں ذکر ہوا ہے اور بصرہ میں واقع محلہ ''نجارم ''و ''نجیرم''کی ایک نسبت ہے ۔

(۲)۔محمد بن ادریس بن منذر حنظلی معروف بہ ابو حاتم رازی (١٩٥۔٢٧٧) ہے ۔اس کے حالات تذکرہ الحفاظ (٩٢و٥٦٧ )میں آئے ہیں ۔

۲۷۱

خداوندا !تو نے مجھے برکت والے اصحاب عطا فرمائے ۔لہٰذا اب میرے اصحاب کو ابو بکر کے وجود سے برکت فرما !اور ان سے اپنی برکت نہ چھین لینا ! انھیں ابوبکر کے گرد جمع کرنا !کیونکہ ابوبکر تیرے حکم کو اپنے ارادہ پر

ترجیح دیتا ہے ۔

خداوندا !عمربن خطاب کو سرداری عطا فرما !عثمان کو صبر وشکیبایی عطا فرما !اور علی بن ابیطالب علیہ السلام کو توفیق عطا فرما !زبیر کو ثابت قدمی عطا فرما !اور طلحہ کو مغفرت عطا فرما!سعد کو سلامتی عطا فرما !،اور عبد الرحمان کو کامیابی عطا فرما !

خداوندا !نیک و پیش قدم مہاجر و انصار اور میرے اصحاب کے تابعین کو مجھ سے ملحق فرما !تا کہ میرے لئے اور میری امت کے اسلاف کے لئے دعائے خیر کریں ۔ ہوشیار رہو کہ میں اور میری امت کے نیک افراد تکلف

سے بیزار ہیں ۔

نجیرمی کہتا ہے کہ ابو حاتم رازی نے کہا ہے :زبیر بن ابی ہالہ ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا تھا ۔

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث کا آخری راوی زبیر ابو ہالہ ہے اور ابو حاتم رازی تاکید کرتاہے کہ یہ زبیر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا ہے ۔

یہیں سے زبیر بن ابی ہالہ کا نام اسلامی مآخذ و مدارک میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پالے ہوئے کے عنوان سے درج ہوا ہے ۔جب کہ یہی حدیث ابن جوزی کی کتا ب موضوعات(۱) میں یوں بیان ہوئی ہے :

____________________

الف )۔موضوعات یعنی جھوٹی اور جعلی احادیث ۔ابن جوزی کی کتاب موضوعات اسی سلسلے میں تالیف کی گئی ہے ۔

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح ''میں وائل بن دائود سے اس نے بہی سے اور اس نے زبیر سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا (حدیث کی آخر تک)

۲۷۲

ابن حجر نے مذکورہ حدیث کے آخر پر حسب ذیل اضافہ کیاہے :

اکثر نسخوں میں اس زبیر کو ''زبیر بن العوام ''لکھا گیا ہے ،خدا بہتر جانتا ہے !

گزشتہ مطالب کے پیش نظر اس حدیث کو ''ابو حاتم رازی ''نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور یہیں سے ''زبیر ابو ہالہ ''کانام حضرت خدیجہ کے بیٹے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ کی حیثیت سے شہرت پاتا ہے ۔

لیکن ابن جوزی نے اسی حدیث کو سیف بن عمر سے اسی متن اور مآخذ کے ساتھ زبیر کے باپ کا نام لئے بغیر اپنی کتا ب ''موضوعات ''میں درج کیا ہے اور ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو زبیر کے باپ کانام لئے بغیر اس کے حالات کی وضا حت کرتے ہوئے ذکر کیا ہے اور آخرمیں اضافہ کرتا ہے کہ بہت سے نسخوں میں آیا ہے کہ یہ '' زبیر ' ' '' زبیر العوام '' ہے۔

اس اختلاف کے سلسلے میں ہماری نظر میں یہ احتمال قوی ہے کہ سیف بن عمر نے مذکورہ حدیث ایک بار زبیر بن ابی ہالہ کے نام سے روایت کی ہے ۔ اور مصنفین کی ایک جماعت نے اسی صورت میں اس حدیث کو سیف سے نقل کیا ہے ۔

سیف نے اسی حدیث کو دوسری جگہ پر زبیر کے باپ کا نام لئے بغیر ذکر کیا ہے ۔ مصنفین کے ایک گروہ نے بھی اس روایت کو اسی صورت میں نقل کیا ہے ۔ اس متأ خر گروہ نے اس زبیر کو زبیر بن العوام تصور کیا ہے ۔ یہی امر دانشوروں کے لئے حقیقت کے پوشیدہ رہنے کا سبب بنا ہے ۔

بہر حال ،جو بھی ہو، اہم یہ ہے کہ سیف کی حدیث میں حضرت خدیجہ کے بیٹے '' زبیر بن ابی ہالہ '' کا نام آیا ہے اور حدیث و تاریخ کی کتابوں میں اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور پروردہ کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔

''زبیر ابو ہالہ '' کے بارے میں روایت کی گئی پہلی حدیث کی حالت یہ تھی ۔

لیکن دوسری حدیث کے بارے میں بحث شروع کرنے سے پہلے اس پہلی حدیث کے متن پر ایک سرسری نظرڈالنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔

۲۷۳

مذکورہ حدیث کی ترکیب بندی میں سیف کی مہارت ، چالاکی اور چابک دستی دلچسپ اور قابل غور ہے ، ملاحظہ ہو:

١۔ سیف اس حدیث میں شخصیات کا نام اسی ترتیب سے لیتا ہے جیسے کہ وہ مسند حکومت پر بیٹھے تھے : (ابوبکر ،عمر ، عثمان اور حضرت علی علیہ السلام )۔

٢۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان میں سے ہر ایک کے حق میں جو دعا فرمائی ہے ، وہ ہرشخص کی حالت کے مطابق ہے ملاحظہ ہو :

ا)۔ ابو بکر کے لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کے گرد جمع کرے اور یہ سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان زبر دست اختلاف کے بعد ابو بکر کی بیعت کے سلسلے میں متناسب ہے ۔

ب)۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمر کے لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ انھیں صاحب شہرت بنائے اور ان کی شان و شوکت میں افزائیش فرمائے ۔ یہ وہی چیز ہے جو سر زمین عربستان سے باہر اسلام کے سپاہیوں کی فتوحات کے نتیجہ میں دوسرے خلیفہ کو حاصل ہوئی ہے ۔

ج)۔ سیف کہتا ہے کہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان کے لئے دعا کرتے ہوئے رو نما ہونے والے واقعات اور فتنوں کے سلسلے میں ان کے لئے خدا ئے تعالیٰ سے صبر و شکیبائی کی درخواست کی ہے ۔

د)۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدائے تعالیٰ سے قطعا ًچاہتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام وقت کے تاریخی حوادث اور فتنوں کے مقابلے میں کامیاب و کامران ہو جائیں ۔ یا یہ کہ عبد الرحمن عوف کواپنے منظور نظر شخص ( عثمان ) کو خلافت کے امور سونپنے میں کامیابی عطا کرے ۔

ھ)۔ اور آخرمیں جنگ جمل میں میدان کا رزار سے بھاگنے والے زبیر کی ایک طعنہ زنی کے ذریعہ سرزنش فرماتے ہیں ۔ طلحہ کے لئے، مضری خلیفہ عثمان کے خلاف بغاوت کے آغاز سے محاصرہ اور پھر اسے قتل کئے جانے تک کی گئی اس کی خیانتوں کے بارے میں بارگاہ الٰہی میں عفو و بخشش کی درخواست کرتے ہیں ۔

۲۷۴

دوسری حدیث

ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ھ ) کی کتاب '' معرفة الصحابہ ''میں سیف کی دوسری حدیث یوں بیان ہوئی ہے :

عیسیٰ ا بن یونس نے وائل بن دائود سے ، اس نے بہی سے اور اس نے زبیر سے یوں روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا سنائی اور اس کے بعد فرمایا:آج کے بعد عثمان کے قاتل کے علاوہ کسی قرشی کو موت کی سزا نہ دینا ۔ اگر اسے ( عثمان کے قاتل کو ) قتل نہ کرو گے تو تمھاری عورتوں کو قتل کر ڈالیں گے۔

ابو نعیم نے اس حدیث کے ضمن میں یوں اضافہ کیا ہے :

ابو حاتم رازی مدعی ہے کہ یہ زبیر ، زبیر بن ابی ہالہ ہے ۔

کتاب اسد الغابہ کے مصنف نے بھی ابو مندہ اور ابو نعیم سے نقل کرکے اس حدیث کو زبیر بن ابی ہالہ کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے درج کیا ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ :'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا دی اور ....'' اور اس قرشی کے قتل ہونے کی جگہ بھی معین کی ہے اور آخر میں رازی کی بات کا یوں اضافہ کیا ہے : '' یہ زبیر ، زبیر بن ابی ہالہ ہے ''

کتاب '' التجرید '' کے مصنف نے اس حدیث کے سلسلے میں صرف ایک اشارہ پر اکتفا کی ہے ،اور اسے زبیر ابو ہالہ کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے : وائل نے بہی سے اور اس نے اس زبیر ابو ہالہ سے اس طرح نقل کیا ہے اور آخرمیں لکھتا ہے کہ : یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ (د۔ع )

کتاب اسد الغابہ اور کتاب التجرید میں حرف ''د '' و حرف '' ع '' ترتیب سے '' ابو مندہ '' اور ''ابو نعیم '' کے بارے میں اشارہ ہے

کتاب الاصابہ کے مصنف نے بھی اس حدیث کو ابن مندہ سے نقل کیا ہے اور اس کے آخر پر لکھتا ہے :

ابن ابو حاتم رازی کہتا ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر تمیمی سے روایت ہوئی ہے ۔

۲۷۵

صاف نظر آتا ہے کہ دوسری حدیث میں بنیادی طور پر زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا گیا ہے اور ابو حاتم رازی سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ زبیر ابو ہالہ ہے اسی دانشور کے بیٹے یعنی ابن ابی حاتم رازی سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ یہ حدیث سیف سے نقل کی گئی ہے ۔

لیکن پہلی حدیث سیف سے روایت ہوئی ہے ۔نہ دوسری حدیث !پہلی حدیث کی سندکے طورپرجو''زبیربن ہالہ''کانام آیا ہے ،اس کے بار ے میں ابوحاتم رازی نے کہاہے کہ یہ ''زبیر ابو ہالہ'' حضرت خدیجہ کابیٹاہے ۔دوسری حدیث کو سیف بن عمرسے نسبت دینے کی یہ غلط فہمی اوراس حدیث کے راوی زبیر کوابوہالہ سے منسوب کرناایک ایسا مطلب ہے جس کی ذیل میں وضاحت کی جائے گی۔

دونوں حدیثوں کے مآخذ کی تحقیق میں پہلاموضوع جو نظرآتاہے وہ یہ ہے کہ دونوں حدیثوں کے راویوں کاسلسلہ یکساں ہے (وائل بن داودنے بہی بن یزیدسے اور اس نے زبیر سے ) شائد اس حدیث کے راویوں کے سلسلے میں یہی وحدت اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا سبب بنی ہوگی ۔خاص طور پر ابو حاتم رازی باپ کہتا ہے :یہ زبیر ،خدیجہ کا بیٹا ہے ۔اور اس دانشور کا بیٹاابن ابی حاتم رازی بھی کہتا ہے:''زبیر ابو ہالہ ''کی حدیث ہم تک صرف سیف کے ذریعہ پہنچی ہے پہاں پرعلماء کو شبہ ہوا اور ان دونوں باتوں کو دونوں حدیثوں میں بیان کیا ہے ۔

بہرحال ،مطلب جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ،اہم یہ ہے کہ ''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے نہ دوسری جگہ پر ۔اس کے علاوہ اس حقیقت کے اعلان اور وضاحت کے بارے میں ''ابو حاتم رازی ''کی بات بڑی دلچسپ ہے ،وہ کہتا ہے :

''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے ،جو متروک ہے اور اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔اسی لئے نہ میں سیف کی روایت کو لکھتا ہوں اور نہ اس کے راوی کو !

ان مطالب کے پیش نظر قطعی نتیجہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ ''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے اور اسی میں محدود ہے ۔

۲۷۶

بحث کا خلاصہ

''زبیر ابوہالہ'' کا نام صرف دو حدیثوں میں آیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں :

١۔ پہلی حدیث میں سیف نے ''زبیر بن ابی ہالہ '' سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آٹھ اصحاب کے لئے دعا کی ۔یہ دعا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان اصحاب کے بارے میں رو نما ہونے والے واقعات اور اختلافات کے متناسب ہے ۔

جس حدیث میں '' زبیر بن ابی ہالہ ''راوی کی حیثیت سے ذکر ہوا ہے ابو حاتم رازی نے اسے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ۔ نجیرمی نے بھی اسے اسی حالت میں ابو حاتم رازی سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اس کے مقابلے میں ابن جوزی اور ابن حجر نے اسی حدیث کو زبیر کے باپ ابو ہالہ کا نام لئے بغیر سیف کی زبانی نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہمیں یقین ہے کہ یہ اختلاف اس سبب سے پیدا ہوا ہے کہ سیف نے اس حدیث کو ایک بار زبیر بن ابی ہالہ کے باپ کانام لے کر اور دوسری جگہ پر اسی حدیث کو اس کے باپ کا نام لئے بغیر تنہا زبیر سے روایت کی ہے اور یہی دوسری حالت اس کی کتاب فتوح میں بھی درج کی گئی ہے ۔

٢۔ دوسری حدیث میں زبیر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا دی اور اس کے بعد عثمان کے قاتل کے علاوہ کسی بھی قریشی کو اس طرح موت کی سزا دینے سے منع فرمایا :

اس حدیث میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ضمناً یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر سے روایت کی گئی ہو ! اس حدیث کے آخر میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ابو حاتم زاری نے لکھا ہے کہ یہ زبیر زبیر ابو ہالہ ہے !

اسی طرح روایت کی گئی ہے کہ ابن ابی حاتم رازی نے کہا ہے کہ یہ حدیث سیف سے روایت ہوئی ہے جب کہ دوسری حدیث ہر گز سیف سے روایت نہیں ہوئی ہے اور اس میں زبیر کے باپ کا نام ذکر نہیں ہوا ہے ۔ صرف پہلی حدیث ہے ، جسے سیف نے روایت کی ہے اور بعض جگہوں پر اس کی روایتوں میں زبیر کے باپ ابو ہالہ کا نام لیا گیا ہے ، اسی نام کے پیش نظر ابو حاتم رازی نے کہا کہ یہ زبیر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا تھا !گویا یہ غلط فہمی اس لئے پیدا ہوئی کہ دونوں حدیثوں کے راویوں میں واضح اشتراک پایا جاتا ہے ( وائل نے بہی سے اور اس نے زبیر سے )

۲۷۷

مطلب جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ، اہم بات یہ ہے کہ زبیر ابو ہالہ کا نام صرف سیف بن عمر کی حدیث میں آیا ہے ،علماء کے نزدیک سیف کی روایت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ شائد ذہبی نے '' التجرید '' میں اسی موضوع کی طرف اشارہ کرکے لکھا ہے : اس سیف کی بات صحیح نہیں ہے اور قابل اعتبار بھی نہیں ہے یعنی اس کی حدیث جھوٹی ہے ۔

فیروزآبادی نے بھی ان دو حدیثوں پر اعتبار کرکے اپنی کتاب '' قاموس '' میں لفظ '' زبر '' کی تشریح میں لکھا ہے :

زبیر بن و '' زبیر بن ابی ہالہ '' دونوں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تھے ۔

زبیدی نے بھی اپنی کتاب '' تاج العروس '' میں اسی حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

وائل بن دائود نے بہی سے اور اس نے زبیر سے نقل کیا ہے !

افسانہ ٔ زبیر کے مآخذ کی جانچ پڑتال

زبیر کا نام صرف دو حدیثوں میں آیا ہے :

ان میں سے ایک حدیث میں احتمال دے کر کہا گیا ہے کہ یہ زبیر وہی زبیر بن ابی ہالہ ہے اور اس کی زبیر ابو ہالہ کے طور پر تشریح کی گئی ہے جب کہ اس حدیث کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حدیث کا زبیر ابو ہالہ کے بارے میں لکھنا بلا و جہ ہے ۔

دوسری حدیث کو خود سیف نے وائل سے ، اس نے بہی سے اور اس نے زبیر ابو ہالہ سے نقل کیا ہے یہاں پر روایت کا آخری مآخذ سیف کا خلق کردہ شخص زبیر ہے ۔ خلاصہ یہ کہ سیف اپنی مخلوق سے روایت کرتا ہے !! اس لحاظ سے جو حدیث افسانہ نگار سیف سے شروع ہو کر اس کی اپنی خیالی مخلوق پر ختم ہوتی ہو ،اس کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے ؟! ان حالات کے پیش نظر کیا اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ حدیث میں ذکر ہوئے راویوں کے نام اور ان کے سلسلے کے صحیح یا عدم صحیح ہونے پر بحث و تحقیق کی جائے ؟! اس کے باوجود کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم سیف کی دروغ بافی کا گناہ ان صحیح راویوں کی گردن پر نہیں ڈالیں گے جن کا نام سیف نے اپنی روایتوں میں لیا ہے ۔

۲۷۸

داستان کا نتیجہ

اس داستان سے سیف نے اپنے لئے مندرجہ ذیل نتائج حاصل کئے ہیں :

١۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ایک صحابی کو خلق کیا ہے تاکہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرا ر پائے ۔

ٍ ٢۔ خاندان تمیم کے ایک مرد کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے راویوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔

٣۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک ایسی حدیث نقل کرتا ہے جو صحابہ کے فضائل و مناقب کے دلدادوں اور قبائل نزار کے متعصب افراد کو خوشحال کرے کیوں کہ اس حدیث میں صرف خاندان قریش سے تعلق رکھنے والے اصحاب کا نام لیا گیا ہے اور یمانی قحطانی انصار کا کہیں ذکر تک نہیں ہے ۔

سر انجام سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو پروردہ اور خدیجہ و ابو ہالہ تمیمی کے بیٹے خلق کرکے خاندان تمیم خاص کر اسید کو ایک بڑا افتخار بخشا ہے ۔ اور اس طرح قبائل نزار کے لئے یہ سب افتخار و برکتیں سیف کی احادیث کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں ۔

راویوں کا سلسلہ

زبیر ابو ہالہ کے افسانہ کے راویوں کا سلسلہ حسب ذیل ہے :

١۔ سیف نے اپنی پہلی حدیث اپنے ہی خلق کردہ راوی زبیر ابو ہالہ سے روایت کی ہے ۔

٢۔ دوری حدیث میں آخر ی راوی زبیر ہے چوں کہ دونوں احادیث میں راویوں میں یکجہتی اور اشتراک پایا جاتاہے اس لئے یہ خیال کیا گیا ہے کہ یہ زبیر بھی وہی زبیر ابو ہالہ ہے ۔ اسی لئے دوسری حدیث کو بھی زبیر ابو ہالہ کے حالات کی وضاحت میں ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ ابو حاتم رازی نے زبیر ابو ہالہ کی حدیث کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اسی دانشور کا بیٹا ابن ابی حاتم رازی (وفات ٣٢٧ھ) اپنی کتاب جرح و تعدیل میں تاکید کرتا ہے کہ زبیر ابوہالہ کی حدیث صرف سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہے ۔

٤۔ ابن جوزی ( وفات ٥٩٧ھ) نے اپنی کتاب موضوعات میں سیف کی حدیث نقل کی ہے لیکن اس میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا ہے ۔

۲۷۹

٥۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے اپنی کتاب الاصابہ میں سیف کی حدیث ابن جوزی کی موضوعات سے نقل کی ہے ۔ لیکن اس میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا ہے ۔

مندرجہ بالا علماء نے مذکورہ حدیث کو اپنی سند سے سیف سے نقل کیا ہے ۔

٦۔ نجیرمی ( وفات ٤٥١ھ ) نے اپنی کتاب فوائد میں سیف کی حدیث کو ابن ابی ہالہ کی وضاحت کرتے وقت رازی سے نقل کیا ہے ۔

چوں کہ تصور یہ کیا گیا ہے کہ کہ دوسری حدیث میں زبیر وہی زبیر ابو ہالہ ہے لہٰذا درج ذیل علماء نے دوسری حدیث زبیر ابو ہالہ کے حالات کے سلسلے میں درج کی ہے :

٧۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ھ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں ۔

٨۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ھ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ'' میں ۔

٩۔ ابن اثیر ( وفات ٦٠٣ھ) نے کتاب اسد الغابہ میں ۔

١٠۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب التجرید میں ۔

١١۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب الاصابہ میں ۔

١٢۔ فیروز آبادی ( وفات ٨١٧ھ) نے کتاب قاموس میں ۔

١٣۔ زبیدی ( وفات ١٢٠٥ھ) نے اپنی کتاب تاج العروس میں ۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371