ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 371
مشاہدے: 115439
ڈاؤنلوڈ: 2886


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115439 / ڈاؤنلوڈ: 2886
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 2

مؤلف:
اردو

سیف نے اسود بن عبس سے اسود بن ربیعہ کا نام اقتباس کرنے میں اس کی داستان میں وہی کام انجام دیا ہے جو اس نے زربن عبد اللہ و غیرہ کے سلسلے میں کیا ہے ۔

سیف اپنے کام کو مستحکم کرنے کے لئے اسود بن ربیعہ حنظلی کی روایت کے ایک حصہ کو حنظلی نام کے ایک راوی سے نقل کرتا ہے تاکہ روایت کو صحیح ثابت کر سکے ۔ کیوں کہ حنظلی نام کا یہ راوی اپنے قبیلہ کی روایتوں کے بارے میں دوسروں سے آگاہ تر ہے ۔ معروف ضرب المثل '' رب البیت ادریٰ بما فی البیت '' ( گھر کا مالک بہتر جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے ) اس پر صادق آتی ہے ۔ جب کہ یہ دونوں خواہ صحابی حنظلی یا راوی حنظلی سیف بن عمر تمیمی جس پر جھوٹ اور زندیقی ہونے کا الزام ہے کی تخلیق ہیں ۔

حدیث کے اسناد کی تحقیق

زر اور اسود اور ان کی نمائندگی ، زر کے ذریعہ نہاوند کا محاصرہ اور جندی شاپور کے بارے میں سیف کی احادیث کے اسناد میں حسب ذیل نام نظر آتے ہیں :

محمد ، مہلب ، ابو سفیان عبد الرحمن ۔ ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوا ہے کہ یہ سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

'' ابلہ '' کی روایت کے بارے میں سیف کی سند حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے سیف نے اسے اپنے جعلی صحابی زیاد کا بیٹا تصور کیا ہے ؟

'' اسود بن ربیعہ '' اور اس کی داستان اور تمیم کے نمائندوں کے بارے میں روایت کی سند کے طور پر '' ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی'' کا نام لیا ہے چوں کہ ہم نے اس نام کو سیف کی رو ایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے خیالی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ اس کے بعض روایت کے اسناد میں مجہول اشخاص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایسے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔

کتاب '' التجرید'' میں ذہبی کی یہ بات قابل غور ہے ، جہاں پر وہ لکھتا ہے :

اسود بن حنظلی کانام ایک ایسی روایت میں آیا ہے جو مردود اور ناقابل قبول ہے ! اس ناقابل قبول روایت سے اس کا مقصود وہ روایت ہے جسے سیف بن عمر نے اسود کے بارے میں نقل کیا ہے جس کی تفصیل گزری ۔

۲۶۱

چھٹا حصہ

خاندان تمیم سے رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے

* ٢١ ۔حارث بن ابی ہالہ تمیمی

* ٢٢۔زبیر بن ابی ہالہ تمیمی

* ٢٣۔طاہر بن ابی ہالہ تمیمی

۲۶۲

اکیسواں جعلی صحابی حارث بن ابی ہالہ تمیمی

حارث خدیجہ کا بیٹا

سیف کے سخت ، پیچیدہ اور دشوار کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قارئین کو گمراہ کرنے کے لئے اپنی خیالی شخصیتوں کو تاریخ کی حقیقی شخصیتوں کے طور پر ایسے پیش کرتا ہے کہ ایک محقق کے لئے ، وہ بھی صدیاں گزر نے کے بعد حق کو باطل سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات ناممکن

بن جاتا ہے ۔

شائد حارث ، زبیر اور طاہر جیسے سیف کے مہم جو جعلی اصحاب ، جنھیں اس نے ام المومنین حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ تمیمی کی اولاد کے طور پر پیش کیا ہے ، اس کے اس قسم کی مخلوق ہیں ۔

حضرت خدیجہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کرنے سے پہلے ابوہالہ تمیمی کے عقد میں تھیں ۔ ابو ہالہ کون تھا ؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔ بعضوں نے اسے ہند کچھ لوگوں نے زرارہ اور ایک گروہ نے اسے نباش نام دیا ہے ۔ بہر حال جو چیز واضح ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کی کنیت اس کے نام کی نسبت معروف تر ہے اس لئے وہ اسی کنیت سے مشہور ہے ۔

حضرت خدیجہ سے ابو ہالہ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں طبری نے لکھا ہے :

ابو ہالہ نے خویلد کی بیٹی سے ازدواج کیا ۔ خدیجہ نے پہلے ہند کو جنم دیا پھر ہالہ کو۔ البتہ ہالہ کا بچپن میں ہیانتقال ہو گیا...(یہاں تک کہ لکھتاہے )

۲۶۳

خدیجہ ابو ہالہ کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقد میں آگئیں ، اس وقت ہند نامی ابوہالہ کا بیٹا ان کے ہمراہ تھا ۔

ہند نے اسلام کا زمانہ درک کیا ہے اور اسلام لایا ہے ، امام حسن ابن علی علیہ السلام نے اس سے روایت نقل کی ہے ۔ ١

ہیثمی نے بھی اپنی کتاب مجمع الزوائد ٥١٠ میں اسی سلسلے میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا ہے :

ام المومنین خدیجہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے ابو ہالہ کی بیوی تھیں ۔ انھوں نے پہلے ہند کو اور پھر ہالہ کو جنم دیا ہے ۔ ابو ہالہ کی وفات کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے ازدواج کیا ۔

ابن ماکولا نے زبیر بن بکار سے نقل کرکے لکھا ہے :

خدیجہ نے پہلے ہند اس کے بعد ہالہ کو جنم دیا ہے ۔

ابو ہالہ کے نواسہ ، یعنی ہند بن ہند نے جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شرکت کی اور شہید ہوا ہے ۔

سیف کی نظر میں اسلام کا پہلا شہید

ابن کلبی سے روایت ہوئی ہے کہ ابو ہالہ کا نواسہ ہند بن ہند عبد اللہ بن زبیر کی معیت میں قتل ہوا اور اس کی کوئی اولاد باقی نہیں بچی ہے ۔ ٢

تمام مؤرخین ،جیسے ابن ہشام ، ابن درید ،ابن حبیب ،طبری ،بلاذری ابن سعد ،ابن ماکولا وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت خدیجہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کیا تو ،اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے صرف ایک بیٹا ہند کو ہمراہ لے کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر ہیں داخل ہوئیں ۔ حقیقت میں ہند کے علاوہ ابو ہالہ سے اس کی کوئی اور اولاد نہیں تھی ۔ ٣

ان حالات کے پیش نظر انتہائی حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ نساب عرب '' میں لکھا ہے :

خدیجہ نے اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے ہند نامی ایک بیٹا کو جنم دیا اور اس کے بعد حارث نام کے ایک اور بیٹے کو جنم دیا ۔ کہا گیا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید تھا جو خانہ خدا میں رکن یمانی کے پاس شہید کیا گیا ہے۔

۲۶۴

حیرت کی بات ہے ! یہ کیسے ممکن ہے ایک ایسا اہم حادثہ رونما ہو جائے یعنی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ شخص اس عظمت و شان کے ساتھ خدا کے گھر میں رکن یمانی کے پاس قتل ہو کر اسلام کے پہلے شہید کا درجہ حاصل کرے اور تاریخ اس کے ساتھ اتنی بے انصافی اور ظلم کرے کہ وہ فراموشی اور بے اعتنائی کا شکار ہو جائے ؟!!

ہم نے اس سلسلے میں انتہائی تلاش و جستجو کی تاکہ یہ دیکھیں کہ انساب عرب کو پہچاننے والے اس ماہر شخص ابن حزم نے اس روایت کو کہاں سے نقل کیا ہے !!

اس حقیقت و تلاش کے دوران ہم نے اس مسئلہ کے جواب کو ابن حجر کے ہاں پا یا وہ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں حارث بن ابی ہالہ کی تشریح میں لکھتا ہے :

حارث بن ابی ہالہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ اور ہند کا بھائی ہے ابن کلبی اور ابن حزم نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید ہے جو رکن یمانی کے پاس قتل ہوا ہے ۔

عسکری بھی کتاب '' اوائل '' میں لکھتا ہے :

جب خدا ئے تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں امر ہوا ہے اسے اعلان فرمائیں تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں کھڑے ہو گئے اور اپنی رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بلند آواز میں لولے '' قولو ا لاالہ الا اللّٰہ تفلحوا'' '' یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دو تاکہ کامیاب ہو جائو ! '' قریش کے کفار نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کیا ۔ شور و غل کی آواز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر تک پہنچی ْ حارث بن ابی ہالہ آپ کی مدد کے لئے دوڑکر آیا اور اس نے کفار پر حملہ کیا ۔ قریش نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوچھوڑ کر حارث پر حملہ کیا اور اسے رکن یمانی کے پاس موت کے گھاٹ اتار دیا ۔حارث اسلام کا پہلا شہید ہے ۔ اس کے علاوہ سیف کی کتاب '' فتوح '' میں سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عثمان بن مظعون سے روایت کی ہے : سب سے پہلا حکم جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں دیا ، اس وقت تھا جب ہماری تعداد چالیس افراد پر مشتمل تھی ۔ ہم سب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین پر تھے ۔ مکہ میں ہمارے علاوہ کوئی ایسا نہیں تھا جو اس دین کا پابند ہو ۔ یہ وہ وقت تھا ،جب حارث بن ابی ہالہ شہید ہوا ۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں فرمان ہوا ہے (آخر تک ) ابن حجر کی بات کا خاتمہ ۔

۲۶۵

لہٰذا معلوم ہو ا کہ حارث بن ابی ہالہ کی داستان کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے ۔ ابن کلبی ، عسکری ،ابن حزم اور ابن حجر سبوں نے اس روایت کو اس سے نقل کیا ہے ۔ ان کے مقابلے میں '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' طبقات '' جیسی کتابوں کے مؤلفوں نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہ کرتے ہوئے اس کی جعلی داستان کو اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔

دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ابن حزم حارث کی شہادت کی داستان کو '' کہا گیا ہے '' کے جملہ سے آغاز کرتا ہے تاکہ اس روایت کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کرے ۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حارث کی داستان کے صحیح ہونے کے سلسلے میں شک و شبہ میں تھا ۔

اس لحاظ سے ''حارث ابو ہالہ ''سیف اور ان لوگوں کے لئے اسلام کا پہلا شہید ہے جنھوں نے سیف کی بات پر اعتماد کرکے اس داستان کی اشاعت کی کوشش کی ہے ۔جب کہ عام تاریخ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کی پہلی شہید ''سمیہ ''عمار یاسر کی والدہ تھیں ۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ''یاسر ''ان کا بیٹا ''عمار ''اور یاسر کی بیوی ''سمیہ ''وہ افراد تھے جنھیں راہ اسلام میں مختلف قسم کی جسمانی اذیتو ں کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ ان پہلے سات افراد میں سے ہیں جنھوں نے مکہ میں اپنے دین کا کھل کر اظہار کیا ۔اور کفار قریش نے اس جرم میں ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر تپتی دھوپ میں رکھا اور انھیں شدید جسمانی اذیتیں پہنچائیں ۔

ایسی ہی وحشتناک اذیت گاہوں میں سے ایک میں ''ابو جہل ''آگ بگولا حالت میں سمیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے داخل ہوا اور آگے بڑھتے ہوئے اس نے نیزہ سمیہ کے قلب پر مار کر انھیں شہید کیا۔ اس لحاظ سے سمیہ راہ اسلام کی پہلی شہید ہیں نہ اور کوئی ۔

اس کے علاوہ لکھا ہے کہ اسی حالت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہا ں تشریف لائے اور فرمایا : اے خا ندان یا سر !صبر کرو ،بہشت تمھارے انتظارمیں ہے ۔

۲۶۶

ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ عمار یاسر نے ان تمام درد و الم اور اذیتوں کی شکایت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیان کرتے ہوئے عرض کی :

ہم پر کفار کی اذیت و آزار حد سے گزر گئی !

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

صبر و شکیبایی سے کام لو !اس کے بعد ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :

خداوندا !یاسر کے اہل خانہ میں سے کسی ایک کو عذاب نہ کرنا !

حدیث کا موازنہ اور قدر و قیمت

سیف نے لکھا ہے کہ راہ اسلام کے پہلے شہید ''حارث بن ابی ہالہ ''اور ''خدیجہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرشی مضری ''تھے ۔ ابن کلبی اور ابن حزم نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب''جمہرہ '' میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی انہی مطالب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات کی تشریح کے ضمن میں اپنی کتاب ''الاصابہ''میں درج کیا ہے ۔عسکری نے بھی اپنی کتا ب''اوائل ''میں حارث کو اسلام کے پہلے شہید کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ حقیقت میں اسلام کی پہلی شہید سمیہ تھیں اور ان کے بعد ان کے شوہر یاسر تھے ،اور اس مطلب کو ان دو شخصیتوں کی سوانح لکھنے والے سبھی علماء ،و محققین نے بیان کیا ہے ۔

سیف شدید طور پر خاندانی تعصب کا شکار تھا ،خاص کر قحطانیوں اور یمانیوں کے بارے میں اس کے اس تعصب کے آثار کا ہم نے مختلف مواقع پر مشاہدہ کیا ۔وہ اس تعصب کے پیش نظر ایک یمانی قحطانی شخص کو راہ اسلام میں پہلے شہید کا فخر حاصل کرنے کی حقیقت کو دیکھ کر آرام سے نہیں بیٹھ سکتا تھا !کیونکہ وہ تمام امور میں پہلا مقام حاصل کرنے کے فخر کا مستحق صرف اپنے قبیلہ تمیم ،خاص کر خاندان بنی عمرو کو جانتا ہے ۔غور فرمائیں کہ وہ خاندان تمیم کے بنی عمرو میں پہلا مقام حاصل کرنے کے سلسلے میں کیسے تشریح کرتا ہے :

۲۶۷

اس کا افسانوی سورما قعقاع پہلا شخص تھا جو دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر چڑھ کر قلعہ کے محافظوں کو اپنی تلوار سے موت کی گھاٹ اتار کر قلعہ کے د ر و ا ز و ں کو ا سلا می فو ج کے لئے کھول دیتا ہے !

کیا یہی اس کا افسانوی قعقاع کچھار کا پہلا شیر نہیں تھا جس نے یرموک کی جنگ میں سب سے پہلے جنگ کے شعلے بھڑکادئے ،قادسیہ کی جنگ میں لیلة الھریر کو وجود میں لایا ،پہلے پہلوان کی حیثیت سے دشمن کے جنگی ہاتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ؟وہ پہلا پہلوان تھا جس نے جلولا کی جنگ میں سب سے پہلے دشمن کے مورچوں پر قدم رکھا ،پہلا دلیر اور پہلا سورما اور

سیف اپنے افسانوی عاصم کے ''اہوال ''نامی فوجی دستہ کو پہلا فوجی دستہ بتا تا ہے کہ جس نے سب سے پہلے شہر مدائن میں قدم رکھا ہے !

کیا اسی سیف نے ''زیاد بن حنظلہ تمیمی''کو پہلے شہسوار کے طور پر خلق نہیں کیا ہے جس نے سب سے پہلے سرزمین ''رہا''پر قدم رکھا ۔حرملہ اور سلمی اس کے پہلے پہلوان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرزمین ایران پر قدم رکھے ؟!

جب ہم سیف کے جھوٹ اور افسانوں میں قبیلہ تمیم کے لئے بے شمار فضیلتیں اور پہلا مقام حاصل کرنے کے موارد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسلام کے سب سے پہلے شہید کا افتخار بھی اسی خاندان کو نصیب نہ ہو ؟اور ''سمیہ''نام کی ایک کنیز اور اس کا قحطانی شوہر ''یاسر ''اس افتخار کے مالک بن جائیں اور اسلام کے پہلے شہید کی حیثیت سے پہچانے جائیں ؟!

سیف ،قحطانیوں کی ایسی فضیلت کو دیکھ کر ہرگز بے خیال نہیں بیٹھ سکتا ،لہٰذا ایک افسانہ گڑھتا ہے حضرت خدیجہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ابو ہالہ سے ایک بیٹا خلق کرکے اسے اسلام کے پہلے شہید کا افتخار بخش کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں ذخیرہ کرتا ہے ۔

ہم راہ اسلام میں سیف کے اس پہلے شہید میں اس کے دوسرے افسانوی پہلوانوں کی شجاعتوں اور جاں نثار یوں کا واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں ۔وہ کہتا ہے :

۲۶۸

قریش نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کی غرض سے حملہ کیا ،شور وغل کی آواز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل خانہ تک پہنچی (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حامی اور حقیقی پشت و پناہ ابو طالب ،حمزہ ، جعفر اور بنی ہاشم کے دیگر سرداروں اور جوانوں کے بجائے )حارث تمیمی پہلا شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے کے لئے اٹھا اور دوڑتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور دفاع میں آپ کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے کفار قریش پر حملہ کیا ،کفار نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ دیا اور حارث پر ٹوٹ پڑے اور سر انجام

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اپنے خاندان تمیم سے یاور و مدد گار جعل کرکے اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے اور اسے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تربیت یافتہ کے طور پر پہچنواتا ہے تا کہ خاندان تمیم میں ہر ممکن حد تک افتخارات کا اضافہ کرسکے ۔

حارث کے افسانے کا نتیجہ

سیف نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پالے ہوئے ایک صحابی کو خلق کیا ہے تا کہ مؤرخین پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے حقیقی اصحاب کے ضمن میں اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالیں اور اس کے نام ونسب کو انساب کی کتابوں میں تفصیل سے لکھیں ۔

سیف نے اپنے تخیل کی مخلوق ،''حارث تمیمی''کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ،چچا زاد بھائی اور بنی ہاشم کی جوانوں کی موجودگی کے باوجود ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے جاں نثار کے طور پر پیش کرکے خاندان تمیم ،خاص کر قبیلہ اسید کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضا فہ کیا ہے ۔

۲۶۹

حارث کے افسانہ کی تحقیق

سیف اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے تا کہ اسلام کی سب سے پہلی حقیقی شہید سمیہ قحطانی کی جگہ پر بٹھادے اور اس طرح اپنے خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخا ر کا اضافہ کرے۔

سیف نے حارث کی داستان کو سہل بن یوسف سلمی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیاہے ۔چونکہ ہم نے ان دو ر اویوں ۔ باپ بیٹے ۔ کانام سیف کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ،اس لئے ان کو سیف کے تخیل کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔

حارث ابو ہالہ تمیمی کی داستان سیف سے نقل کرکے عسکری کی ''اوائل ''،ابن کلبی کی ''انساب ''،ابن حزم کی ''جمہرہ''اور ابن حجر کی کتا ب ''الاصا بہ ''میں درج کی گئی ہے اور ابن حجر نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اس کی وضاحت کی ہے ۔

سیف کے جعلی صحابی حارث ابو ہالہ کا افسانہ اتنا ہی تھا جو ہم نے بیان کیا ۔لیکن سیف نے صرف اسی ایک افسانہ کو خلق کرنے پر اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اسی ماں باپ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک اور پالے ہوئے کی تخلیق کرکے اس کانام ''زبیر بن ابی ہالہ ''رکھا ہے کہ انشاء اللہ اس کی داستا ن پر بھی نظر ڈالیں گے ۔

۲۷۰

بائیسواں جعلی صحابی زبیر بن ابی ہالہ

حضرت خدیجہ کادوسرابیٹا

دانشوروں نے اس زبیر کانام دوحدیثوں میں ذکرکیاہے۔ہم یہاں پران دوحدیثوں کے بارے میں بحث وتحقیق کریں گے۔

پہلی حدیث

نجیرمی(۱) (وفات ٤٥٠ھ)نے اپنی کتاب ''فوائد'' میں ابو حاتم(۲) (وفات ٢٧٧)سے نقل کرکے اس طرح لکھاہے:

سیف بن عمر سے اس نے وائل بن داودسے اس نے بہی بن یزید سے اوراس نے زبیر بن ابی ہالہ سے روایت کی ہے ،کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

( ۱)۔ابو عثمان سعد بن احمد نیشابوری معروف بہ نجیرمی نے علم و دانش حاصل کرنے کے لئے بغداد ،گرگان اور دیگر شہروں کا سفر کیا ہے یہ نام اسی طرح لباب اللباب (٢١٦٣)میں ذکر ہوا ہے اور بصرہ میں واقع محلہ ''نجارم ''و ''نجیرم''کی ایک نسبت ہے ۔

(۲)۔محمد بن ادریس بن منذر حنظلی معروف بہ ابو حاتم رازی (١٩٥۔٢٧٧) ہے ۔اس کے حالات تذکرہ الحفاظ (٩٢و٥٦٧ )میں آئے ہیں ۔

۲۷۱

خداوندا !تو نے مجھے برکت والے اصحاب عطا فرمائے ۔لہٰذا اب میرے اصحاب کو ابو بکر کے وجود سے برکت فرما !اور ان سے اپنی برکت نہ چھین لینا ! انھیں ابوبکر کے گرد جمع کرنا !کیونکہ ابوبکر تیرے حکم کو اپنے ارادہ پر

ترجیح دیتا ہے ۔

خداوندا !عمربن خطاب کو سرداری عطا فرما !عثمان کو صبر وشکیبایی عطا فرما !اور علی بن ابیطالب علیہ السلام کو توفیق عطا فرما !زبیر کو ثابت قدمی عطا فرما !اور طلحہ کو مغفرت عطا فرما!سعد کو سلامتی عطا فرما !،اور عبد الرحمان کو کامیابی عطا فرما !

خداوندا !نیک و پیش قدم مہاجر و انصار اور میرے اصحاب کے تابعین کو مجھ سے ملحق فرما !تا کہ میرے لئے اور میری امت کے اسلاف کے لئے دعائے خیر کریں ۔ ہوشیار رہو کہ میں اور میری امت کے نیک افراد تکلف

سے بیزار ہیں ۔

نجیرمی کہتا ہے کہ ابو حاتم رازی نے کہا ہے :زبیر بن ابی ہالہ ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا تھا ۔

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث کا آخری راوی زبیر ابو ہالہ ہے اور ابو حاتم رازی تاکید کرتاہے کہ یہ زبیر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا ہے ۔

یہیں سے زبیر بن ابی ہالہ کا نام اسلامی مآخذ و مدارک میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پالے ہوئے کے عنوان سے درج ہوا ہے ۔جب کہ یہی حدیث ابن جوزی کی کتا ب موضوعات(۱) میں یوں بیان ہوئی ہے :

____________________

الف )۔موضوعات یعنی جھوٹی اور جعلی احادیث ۔ابن جوزی کی کتاب موضوعات اسی سلسلے میں تالیف کی گئی ہے ۔

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح ''میں وائل بن دائود سے اس نے بہی سے اور اس نے زبیر سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا (حدیث کی آخر تک)

۲۷۲

ابن حجر نے مذکورہ حدیث کے آخر پر حسب ذیل اضافہ کیاہے :

اکثر نسخوں میں اس زبیر کو ''زبیر بن العوام ''لکھا گیا ہے ،خدا بہتر جانتا ہے !

گزشتہ مطالب کے پیش نظر اس حدیث کو ''ابو حاتم رازی ''نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور یہیں سے ''زبیر ابو ہالہ ''کانام حضرت خدیجہ کے بیٹے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ کی حیثیت سے شہرت پاتا ہے ۔

لیکن ابن جوزی نے اسی حدیث کو سیف بن عمر سے اسی متن اور مآخذ کے ساتھ زبیر کے باپ کا نام لئے بغیر اپنی کتا ب ''موضوعات ''میں درج کیا ہے اور ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو زبیر کے باپ کانام لئے بغیر اس کے حالات کی وضا حت کرتے ہوئے ذکر کیا ہے اور آخرمیں اضافہ کرتا ہے کہ بہت سے نسخوں میں آیا ہے کہ یہ '' زبیر ' ' '' زبیر العوام '' ہے۔

اس اختلاف کے سلسلے میں ہماری نظر میں یہ احتمال قوی ہے کہ سیف بن عمر نے مذکورہ حدیث ایک بار زبیر بن ابی ہالہ کے نام سے روایت کی ہے ۔ اور مصنفین کی ایک جماعت نے اسی صورت میں اس حدیث کو سیف سے نقل کیا ہے ۔

سیف نے اسی حدیث کو دوسری جگہ پر زبیر کے باپ کا نام لئے بغیر ذکر کیا ہے ۔ مصنفین کے ایک گروہ نے بھی اس روایت کو اسی صورت میں نقل کیا ہے ۔ اس متأ خر گروہ نے اس زبیر کو زبیر بن العوام تصور کیا ہے ۔ یہی امر دانشوروں کے لئے حقیقت کے پوشیدہ رہنے کا سبب بنا ہے ۔

بہر حال ،جو بھی ہو، اہم یہ ہے کہ سیف کی حدیث میں حضرت خدیجہ کے بیٹے '' زبیر بن ابی ہالہ '' کا نام آیا ہے اور حدیث و تاریخ کی کتابوں میں اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور پروردہ کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔

''زبیر ابو ہالہ '' کے بارے میں روایت کی گئی پہلی حدیث کی حالت یہ تھی ۔

لیکن دوسری حدیث کے بارے میں بحث شروع کرنے سے پہلے اس پہلی حدیث کے متن پر ایک سرسری نظرڈالنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔

۲۷۳

مذکورہ حدیث کی ترکیب بندی میں سیف کی مہارت ، چالاکی اور چابک دستی دلچسپ اور قابل غور ہے ، ملاحظہ ہو:

١۔ سیف اس حدیث میں شخصیات کا نام اسی ترتیب سے لیتا ہے جیسے کہ وہ مسند حکومت پر بیٹھے تھے : (ابوبکر ،عمر ، عثمان اور حضرت علی علیہ السلام )۔

٢۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان میں سے ہر ایک کے حق میں جو دعا فرمائی ہے ، وہ ہرشخص کی حالت کے مطابق ہے ملاحظہ ہو :

ا)۔ ابو بکر کے لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کے گرد جمع کرے اور یہ سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان زبر دست اختلاف کے بعد ابو بکر کی بیعت کے سلسلے میں متناسب ہے ۔

ب)۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمر کے لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ انھیں صاحب شہرت بنائے اور ان کی شان و شوکت میں افزائیش فرمائے ۔ یہ وہی چیز ہے جو سر زمین عربستان سے باہر اسلام کے سپاہیوں کی فتوحات کے نتیجہ میں دوسرے خلیفہ کو حاصل ہوئی ہے ۔

ج)۔ سیف کہتا ہے کہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان کے لئے دعا کرتے ہوئے رو نما ہونے والے واقعات اور فتنوں کے سلسلے میں ان کے لئے خدا ئے تعالیٰ سے صبر و شکیبائی کی درخواست کی ہے ۔

د)۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدائے تعالیٰ سے قطعا ًچاہتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام وقت کے تاریخی حوادث اور فتنوں کے مقابلے میں کامیاب و کامران ہو جائیں ۔ یا یہ کہ عبد الرحمن عوف کواپنے منظور نظر شخص ( عثمان ) کو خلافت کے امور سونپنے میں کامیابی عطا کرے ۔

ھ)۔ اور آخرمیں جنگ جمل میں میدان کا رزار سے بھاگنے والے زبیر کی ایک طعنہ زنی کے ذریعہ سرزنش فرماتے ہیں ۔ طلحہ کے لئے، مضری خلیفہ عثمان کے خلاف بغاوت کے آغاز سے محاصرہ اور پھر اسے قتل کئے جانے تک کی گئی اس کی خیانتوں کے بارے میں بارگاہ الٰہی میں عفو و بخشش کی درخواست کرتے ہیں ۔

۲۷۴

دوسری حدیث

ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ھ ) کی کتاب '' معرفة الصحابہ ''میں سیف کی دوسری حدیث یوں بیان ہوئی ہے :

عیسیٰ ا بن یونس نے وائل بن دائود سے ، اس نے بہی سے اور اس نے زبیر سے یوں روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا سنائی اور اس کے بعد فرمایا:آج کے بعد عثمان کے قاتل کے علاوہ کسی قرشی کو موت کی سزا نہ دینا ۔ اگر اسے ( عثمان کے قاتل کو ) قتل نہ کرو گے تو تمھاری عورتوں کو قتل کر ڈالیں گے۔

ابو نعیم نے اس حدیث کے ضمن میں یوں اضافہ کیا ہے :

ابو حاتم رازی مدعی ہے کہ یہ زبیر ، زبیر بن ابی ہالہ ہے ۔

کتاب اسد الغابہ کے مصنف نے بھی ابو مندہ اور ابو نعیم سے نقل کرکے اس حدیث کو زبیر بن ابی ہالہ کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے درج کیا ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ :'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا دی اور ....'' اور اس قرشی کے قتل ہونے کی جگہ بھی معین کی ہے اور آخر میں رازی کی بات کا یوں اضافہ کیا ہے : '' یہ زبیر ، زبیر بن ابی ہالہ ہے ''

کتاب '' التجرید '' کے مصنف نے اس حدیث کے سلسلے میں صرف ایک اشارہ پر اکتفا کی ہے ،اور اسے زبیر ابو ہالہ کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے : وائل نے بہی سے اور اس نے اس زبیر ابو ہالہ سے اس طرح نقل کیا ہے اور آخرمیں لکھتا ہے کہ : یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ (د۔ع )

کتاب اسد الغابہ اور کتاب التجرید میں حرف ''د '' و حرف '' ع '' ترتیب سے '' ابو مندہ '' اور ''ابو نعیم '' کے بارے میں اشارہ ہے

کتاب الاصابہ کے مصنف نے بھی اس حدیث کو ابن مندہ سے نقل کیا ہے اور اس کے آخر پر لکھتا ہے :

ابن ابو حاتم رازی کہتا ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر تمیمی سے روایت ہوئی ہے ۔

۲۷۵

صاف نظر آتا ہے کہ دوسری حدیث میں بنیادی طور پر زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا گیا ہے اور ابو حاتم رازی سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ زبیر ابو ہالہ ہے اسی دانشور کے بیٹے یعنی ابن ابی حاتم رازی سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ یہ حدیث سیف سے نقل کی گئی ہے ۔

لیکن پہلی حدیث سیف سے روایت ہوئی ہے ۔نہ دوسری حدیث !پہلی حدیث کی سندکے طورپرجو''زبیربن ہالہ''کانام آیا ہے ،اس کے بار ے میں ابوحاتم رازی نے کہاہے کہ یہ ''زبیر ابو ہالہ'' حضرت خدیجہ کابیٹاہے ۔دوسری حدیث کو سیف بن عمرسے نسبت دینے کی یہ غلط فہمی اوراس حدیث کے راوی زبیر کوابوہالہ سے منسوب کرناایک ایسا مطلب ہے جس کی ذیل میں وضاحت کی جائے گی۔

دونوں حدیثوں کے مآخذ کی تحقیق میں پہلاموضوع جو نظرآتاہے وہ یہ ہے کہ دونوں حدیثوں کے راویوں کاسلسلہ یکساں ہے (وائل بن داودنے بہی بن یزیدسے اور اس نے زبیر سے ) شائد اس حدیث کے راویوں کے سلسلے میں یہی وحدت اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا سبب بنی ہوگی ۔خاص طور پر ابو حاتم رازی باپ کہتا ہے :یہ زبیر ،خدیجہ کا بیٹا ہے ۔اور اس دانشور کا بیٹاابن ابی حاتم رازی بھی کہتا ہے:''زبیر ابو ہالہ ''کی حدیث ہم تک صرف سیف کے ذریعہ پہنچی ہے پہاں پرعلماء کو شبہ ہوا اور ان دونوں باتوں کو دونوں حدیثوں میں بیان کیا ہے ۔

بہرحال ،مطلب جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ،اہم یہ ہے کہ ''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے نہ دوسری جگہ پر ۔اس کے علاوہ اس حقیقت کے اعلان اور وضاحت کے بارے میں ''ابو حاتم رازی ''کی بات بڑی دلچسپ ہے ،وہ کہتا ہے :

''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے ،جو متروک ہے اور اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔اسی لئے نہ میں سیف کی روایت کو لکھتا ہوں اور نہ اس کے راوی کو !

ان مطالب کے پیش نظر قطعی نتیجہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ ''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے اور اسی میں محدود ہے ۔

۲۷۶

بحث کا خلاصہ

''زبیر ابوہالہ'' کا نام صرف دو حدیثوں میں آیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں :

١۔ پہلی حدیث میں سیف نے ''زبیر بن ابی ہالہ '' سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آٹھ اصحاب کے لئے دعا کی ۔یہ دعا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان اصحاب کے بارے میں رو نما ہونے والے واقعات اور اختلافات کے متناسب ہے ۔

جس حدیث میں '' زبیر بن ابی ہالہ ''راوی کی حیثیت سے ذکر ہوا ہے ابو حاتم رازی نے اسے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ۔ نجیرمی نے بھی اسے اسی حالت میں ابو حاتم رازی سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اس کے مقابلے میں ابن جوزی اور ابن حجر نے اسی حدیث کو زبیر کے باپ ابو ہالہ کا نام لئے بغیر سیف کی زبانی نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہمیں یقین ہے کہ یہ اختلاف اس سبب سے پیدا ہوا ہے کہ سیف نے اس حدیث کو ایک بار زبیر بن ابی ہالہ کے باپ کانام لے کر اور دوسری جگہ پر اسی حدیث کو اس کے باپ کا نام لئے بغیر تنہا زبیر سے روایت کی ہے اور یہی دوسری حالت اس کی کتاب فتوح میں بھی درج کی گئی ہے ۔

٢۔ دوسری حدیث میں زبیر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا دی اور اس کے بعد عثمان کے قاتل کے علاوہ کسی بھی قریشی کو اس طرح موت کی سزا دینے سے منع فرمایا :

اس حدیث میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ضمناً یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر سے روایت کی گئی ہو ! اس حدیث کے آخر میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ابو حاتم زاری نے لکھا ہے کہ یہ زبیر زبیر ابو ہالہ ہے !

اسی طرح روایت کی گئی ہے کہ ابن ابی حاتم رازی نے کہا ہے کہ یہ حدیث سیف سے روایت ہوئی ہے جب کہ دوسری حدیث ہر گز سیف سے روایت نہیں ہوئی ہے اور اس میں زبیر کے باپ کا نام ذکر نہیں ہوا ہے ۔ صرف پہلی حدیث ہے ، جسے سیف نے روایت کی ہے اور بعض جگہوں پر اس کی روایتوں میں زبیر کے باپ ابو ہالہ کا نام لیا گیا ہے ، اسی نام کے پیش نظر ابو حاتم رازی نے کہا کہ یہ زبیر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا تھا !گویا یہ غلط فہمی اس لئے پیدا ہوئی کہ دونوں حدیثوں کے راویوں میں واضح اشتراک پایا جاتا ہے ( وائل نے بہی سے اور اس نے زبیر سے )

۲۷۷

مطلب جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ، اہم بات یہ ہے کہ زبیر ابو ہالہ کا نام صرف سیف بن عمر کی حدیث میں آیا ہے ،علماء کے نزدیک سیف کی روایت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ شائد ذہبی نے '' التجرید '' میں اسی موضوع کی طرف اشارہ کرکے لکھا ہے : اس سیف کی بات صحیح نہیں ہے اور قابل اعتبار بھی نہیں ہے یعنی اس کی حدیث جھوٹی ہے ۔

فیروزآبادی نے بھی ان دو حدیثوں پر اعتبار کرکے اپنی کتاب '' قاموس '' میں لفظ '' زبر '' کی تشریح میں لکھا ہے :

زبیر بن و '' زبیر بن ابی ہالہ '' دونوں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تھے ۔

زبیدی نے بھی اپنی کتاب '' تاج العروس '' میں اسی حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

وائل بن دائود نے بہی سے اور اس نے زبیر سے نقل کیا ہے !

افسانہ ٔ زبیر کے مآخذ کی جانچ پڑتال

زبیر کا نام صرف دو حدیثوں میں آیا ہے :

ان میں سے ایک حدیث میں احتمال دے کر کہا گیا ہے کہ یہ زبیر وہی زبیر بن ابی ہالہ ہے اور اس کی زبیر ابو ہالہ کے طور پر تشریح کی گئی ہے جب کہ اس حدیث کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حدیث کا زبیر ابو ہالہ کے بارے میں لکھنا بلا و جہ ہے ۔

دوسری حدیث کو خود سیف نے وائل سے ، اس نے بہی سے اور اس نے زبیر ابو ہالہ سے نقل کیا ہے یہاں پر روایت کا آخری مآخذ سیف کا خلق کردہ شخص زبیر ہے ۔ خلاصہ یہ کہ سیف اپنی مخلوق سے روایت کرتا ہے !! اس لحاظ سے جو حدیث افسانہ نگار سیف سے شروع ہو کر اس کی اپنی خیالی مخلوق پر ختم ہوتی ہو ،اس کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے ؟! ان حالات کے پیش نظر کیا اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ حدیث میں ذکر ہوئے راویوں کے نام اور ان کے سلسلے کے صحیح یا عدم صحیح ہونے پر بحث و تحقیق کی جائے ؟! اس کے باوجود کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم سیف کی دروغ بافی کا گناہ ان صحیح راویوں کی گردن پر نہیں ڈالیں گے جن کا نام سیف نے اپنی روایتوں میں لیا ہے ۔

۲۷۸

داستان کا نتیجہ

اس داستان سے سیف نے اپنے لئے مندرجہ ذیل نتائج حاصل کئے ہیں :

١۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ایک صحابی کو خلق کیا ہے تاکہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرا ر پائے ۔

ٍ ٢۔ خاندان تمیم کے ایک مرد کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے راویوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔

٣۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک ایسی حدیث نقل کرتا ہے جو صحابہ کے فضائل و مناقب کے دلدادوں اور قبائل نزار کے متعصب افراد کو خوشحال کرے کیوں کہ اس حدیث میں صرف خاندان قریش سے تعلق رکھنے والے اصحاب کا نام لیا گیا ہے اور یمانی قحطانی انصار کا کہیں ذکر تک نہیں ہے ۔

سر انجام سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو پروردہ اور خدیجہ و ابو ہالہ تمیمی کے بیٹے خلق کرکے خاندان تمیم خاص کر اسید کو ایک بڑا افتخار بخشا ہے ۔ اور اس طرح قبائل نزار کے لئے یہ سب افتخار و برکتیں سیف کی احادیث کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں ۔

راویوں کا سلسلہ

زبیر ابو ہالہ کے افسانہ کے راویوں کا سلسلہ حسب ذیل ہے :

١۔ سیف نے اپنی پہلی حدیث اپنے ہی خلق کردہ راوی زبیر ابو ہالہ سے روایت کی ہے ۔

٢۔ دوری حدیث میں آخر ی راوی زبیر ہے چوں کہ دونوں احادیث میں راویوں میں یکجہتی اور اشتراک پایا جاتاہے اس لئے یہ خیال کیا گیا ہے کہ یہ زبیر بھی وہی زبیر ابو ہالہ ہے ۔ اسی لئے دوسری حدیث کو بھی زبیر ابو ہالہ کے حالات کی وضاحت میں ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ ابو حاتم رازی نے زبیر ابو ہالہ کی حدیث کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اسی دانشور کا بیٹا ابن ابی حاتم رازی (وفات ٣٢٧ھ) اپنی کتاب جرح و تعدیل میں تاکید کرتا ہے کہ زبیر ابوہالہ کی حدیث صرف سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہے ۔

٤۔ ابن جوزی ( وفات ٥٩٧ھ) نے اپنی کتاب موضوعات میں سیف کی حدیث نقل کی ہے لیکن اس میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا ہے ۔

۲۷۹

٥۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے اپنی کتاب الاصابہ میں سیف کی حدیث ابن جوزی کی موضوعات سے نقل کی ہے ۔ لیکن اس میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا ہے ۔

مندرجہ بالا علماء نے مذکورہ حدیث کو اپنی سند سے سیف سے نقل کیا ہے ۔

٦۔ نجیرمی ( وفات ٤٥١ھ ) نے اپنی کتاب فوائد میں سیف کی حدیث کو ابن ابی ہالہ کی وضاحت کرتے وقت رازی سے نقل کیا ہے ۔

چوں کہ تصور یہ کیا گیا ہے کہ کہ دوسری حدیث میں زبیر وہی زبیر ابو ہالہ ہے لہٰذا درج ذیل علماء نے دوسری حدیث زبیر ابو ہالہ کے حالات کے سلسلے میں درج کی ہے :

٧۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ھ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں ۔

٨۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ھ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ'' میں ۔

٩۔ ابن اثیر ( وفات ٦٠٣ھ) نے کتاب اسد الغابہ میں ۔

١٠۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب التجرید میں ۔

١١۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب الاصابہ میں ۔

١٢۔ فیروز آبادی ( وفات ٨١٧ھ) نے کتاب قاموس میں ۔

١٣۔ زبیدی ( وفات ١٢٠٥ھ) نے اپنی کتاب تاج العروس میں ۔

۲۸۰