ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138246 / ڈاؤنلوڈ: 4318
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اس کے علاوہ کتاب بخاری ، شرح فتح الباری '' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی فرمائش :

لتتبعن سنن من کان قبلکم '' (١٧ ٦٣ ۔ ٦٤)

٥۔ کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١)

حدیث ابو ہریرہ :

١۔ '' فتح الباری '' در شرح صحیح بخاری ( ٦٣١٧)

٢۔ '' سنن '' ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ٣٩٩٤۔

٣۔ '' مسند '' احمد بن حنبل (٢ ٣٢٧ ، ٣٦٧، ٤٥٠، ٥١١، ٥٢٧)

٤۔ کنز العمال (١١ ١٢٣)

ابو واقد لیثی کی حدیث:

١۔'' سنن'' ترمذی ( ٩ ٢٧ ۔٢٨)

٢۔ '' مسند '' طیالسی ، حدیث نمبر ١٣٤٦۔

٣۔ '' مسند '' احمد ( ٥ ٢١٨)

٤۔ '' کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١) باب ( الاقوال من کتاب الفتن)

عبدا للہ بن عمرو کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٠ ١٠٩) ابواب الایمان۔

٢۔ '' در المنثور '' سیوطی ( ٤ ٦٢) تفسیر آیۂ ' ' وَلَا تَکُونوا کَالَّذِین تَفَرَّقُوا '' آل عمران مستدرک حاکم کے مطابق ۔

۶۱

ابن عباس کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١) بزاز اور حاکم سے روایت کی ہے۔

٢۔ '' کنزل العمال '' ( ١١ ١٢٣) مستدرک حاکم سے نقل کیا ہے۔

سہل بن سعد کی حدیث :

١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٥ ٢٤٠)

٢۔ '' مجمع الزوائد'' (٧ ٢٦١) طبرانی سے نقل کرکے۔

عبد اللہ مسعود کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٢٦١٧) طبرانی سے نقل کرکے۔

مستورد کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١)

٢۔ کنز ل العمال ( ١١ ١٢٣) طبرانی کی '' اوسط '' سے نقل کرکے ۔

شداد بن اوس کی حدیث:

١۔ '' مسند '' احمد ( ٤ ١٢٥)

٢۔ '' مجمع الزوائد '' ( ٧ ٢٦١)

٣۔ قاموس الکتاب المقدس '' تالیف: مسٹر ماکس ، امریکی ، طبع امریکی مطبع، بیروت١٩٢٨ ئ

٤۔ '' توریت'' ، طبع ، امریکی مطبع، بیروت ، ١٩٠٧ ء

۶۲

آیۂ رجم کے بارے میں عمر کی روایت :

١۔ '' صحیح '' بخاری ( ٤ ١٢٠) کتاب حدود۔

٢۔ '' صحیح'' مسلم ( ٥ ١١٦)

٣۔ '' سنن '' ابی داؤد ( ٢ ٢٢٩) باب رجم ، کتاب حدود۔

٤۔ '' صحیح '' ترمذی ( ٢٠٤٦)باب '' ما جاء فی تحقیق الرجم '' کتاب حدود

٥۔'' سنن '' ابن ماجہ ، باب رجم ، کتاب حدود، نمبر: ٢٥٥٣

٦۔ '' سنن'' دارمی( ٢ ١٧٩) باب حد زنائے محصنہ ، کتاب حدود۔

٧۔ ''موطاء مالک'' ( ٣ ٤٢) کتاب حدود۔

٨۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٠) : ٢٧٦،نمبر ( ١ ٤٧) ٣٣١ ، نمبر : (٥٥١)٣٩١' نمبر

بناوٹی آیت لا تَرغبُو عَنْ آبَائِکُمْ کی روایت:

١۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٧) نمبر: ٣٣١

٢۔ ''مسند '' احمد (٥٥١) نمبر ٣٩١

'' دس مرتبہ دودھ پلانے '' کے بارے میں عائشہ کی روایت :

١۔'' صحیح'' مسلم (٤ ١٦٧) باب '' التحریم بخمس رضعات '' کتاب رضاع

٢۔ '' سنن'' ابی داؤد ١ ٢٧٩ ) باب '' ھل یحرم ما دون خمس رضعات؟'' کتاب نکاح

٣۔ '' سنن '' نسائی ( ٢ ٨٢) باب '' القدر الذی یحرم من الرضاعة '' کتاب نکاح سے ۔

٤۔ سنن ابن ماجہ ( ١ ٦٢٦ ) باب '' رضاع الکبیر '' کتاب نکاح ، نمبر ١٩٤٤۔

٥۔ سنن دارمی ( ١ ١٥٧) باب '' کم رضعة ترحم '' کتاب نکاح

٦۔ '' موطأ '' مالک ( ٢ ١١٨) باب '' جامع ما جاء فی الرضاعة '' کتاب نکاح

دو خیالی سورتوں کے بارے میں ابو موسیٰ کی روایت

١۔'' صحیح '' مسلم ( ٣ ١٠٠) باب '' لو ان لابن آدم '' کتاب زکات۔

٣۔ '' حلیہ'' ابو نعیم ، '' ابو موسی'' کے حالات کی تشریح میں ۔

۶۳

دوسرا حصہ

سیف بن عمر تمیمی کا تحفہ

*سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ۔

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

*پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند ایلچی

*ہم نام اصحاب

*گروہ انصار سے چند اصحاب

۶۴

سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ

ہم نے اس کتاب کی پہلی اور دوسری جلد کو سیف کے قبیلۂ تمیم سے جعل کئے گئے اصحاب اور ان کے بارے میں خیالی عظمت و افتخارات کیلئے مخصوص کیا ، اور اس کے افسانوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی نظر میں پوری دنیا قبیلۂ تمیم میں خلاصہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف اسی خاندان کے افراد تھے جنہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد جمع ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور اطاعت کا شرف حاصل کیا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیف کے خیال میں رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ، گماشتے اور کارندے ، نمائندے اور ایلچی بھی قبیلۂ تمیم سے تعلق رکھتے تھے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی اسی قبیلہ کی معروف شخصیتیں تھیں جنہوں نے سقیفۂ بنی ساعدہ کی میٹینگ میں شریک ہوکر ، ابو بکر کی بیعت کی اور اس سلسلے میں اپنے نظریات پیش کئے !!

ارتداد کی جنگوں میں بھی ، تمیمیوں کی ایک جماعت دین سے منحرف ہوکر مرتد ہو گئی تھی۔ اورانہوں نے اپنے عقائدکے دفاع میں سخت جنگ کرکے اپنی پائیداری کا ثبوت دیا ہے ۔

اور اس خاندان کے ان لوگوں نے بھی اپنے ایمان و عقیدہ کے دفاع میں مجاہدانہ طور پر تلوار کھینچ کر شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں ، جو اسلام پر باقی اور پائندہ رہے تھے۔

اسی قبیلۂ تمیم کے افراد تھے ، جنہوں نے جنگوں اور لشکر کشیوں میں سپہ سالاری کے عہدے سنبھال کر میدان کارزار میں شجاعت ، بہادری اور دلاوریوں کے جوہر دکھائے ہیں اور کافی رجز خوانیاں کی ہیں ۔

خلاصہ کے طور پر یہ تمیمی ہی تھے جنہوں نے رزم و بزم کے تمام میدانوں میں دوسروں پر سبقت حاصل کرکے پہلا مقام حاصل کیا ہے :

٭پہلا شخص جس نے راہ خدا میں مکہ میں شہادت پائی تمیمی تھا۔

٭پہلا شہسوار جس نے جنگ اور کشور گشائی کیلئے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اسی قبیلہ سے تھا ۔

٭پہلا شخص اور دلاور جس نے دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر کمند ڈالکر اوپر چڑھنے کے بعد اسے فتح کیا ، ایک تمیمی سردار تھا۔

٭پہلا شخص جس نے سرزمیں '' رہا '' پر قدم رکھا انہی میں سے تھا۔

٭پہلا بہادر جس نے گھوڑے پر سوار ہوکر دریائے دجلہ کو عبور کرکے اسلامی فوج کے حوصلے بلند کئے تا کہ اس کی اطاعت کریں ، تمیمی تھا ۔

۶۵

٭پہلا سورما جو فاتح کی حیثیت سے مدائن میں داخل ہوا انہی میں سے تھا ۔

٭پہلا بہادر جو کسی خوف و وحشت کے بغیر جلولا کی جنگ میں دشمن کے مورچوں پر حملہ کرکے انھیں شکست دینے میں کامیاب ہوا، تمیمی تھا۔

''ارماث ، اغواث و عماس '' کے خونین دنوں کو خلق کرنے والے یہی ہیں ۔ یہی ہیں جنہوں نے اس وقت کے دنیا کے پادشاہوں ، جیسے کسریٰ ، ہرمز ، قباد ، فیروز، ہراکلیوس ، چین کے خاقان ، ہندوستان کے پادشاہ داہر ، بہرام ، سیاوش ،نعمان اور دیگر عرب پادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔

انہوں نے ہی علاقوں اور شہروں پر حکومت اور فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے

عمر کے قاتل کو موت کی سزا دینے والے بھی یہی ہیں ۔

خلافتِ عثمان کے دوران کوفیوں کی بغاوت کو کچلنے والے بھی یہی ہیں ۔

یہی تھے جو عثمان کی مدد کیلئے دوڑپڑے۔

انہوں نے ہی جنگِ جمل میں امیر المؤمنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زیبر کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کی ۔

جنگِ جمل میں عام معافی کا اعلان کرکے جنگ کے شعلوں کو خاموش کرنے والا بھی انہی میں سے تھا ۔

جنگلی جانوروں نے جس سے فصیح زبان میں گفتگو کی ہے وہ ان ہی میں سے تھا ۔

جس کی زبان پر فرشتوں نے فارسی کے کلمات جاری کئے اور وہ ایک بڑی فتح کا سبب بنا ، ان ہی میں سے تھا۔

جی ہاں ! یہی خیالی خصوصیات سبب بنی ہیں کہ فرشتے اور جنات یک زبان ہوکر قبیلۂ تمیم کے فضائل اور افتخارات کے نغموں کو سیف کے خیالی راویوں کے کانوں تک پہنچائیں تا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ان افسانوں کو سیف کے کان میں گنگنائیں ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیاہے اسے بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہم نے سیف کے تئیس (٢٣) جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران حاصل کی ہیں ۔

اب ہم اس جلد میں بھی خاندان تمیم سے متعلق سیف کے چھ جعلی اصحاب کے علاوہ دیگر عرب قبائل سے خلق کئے گئے سیف کے انیس جعلی اصحاب کے سلسلہ میں حسب ذیل مطالعہ اور بحث وتحقیق کریں گے :

۶۶

تیسرا حصہ: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے :

٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری ۔

٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

٢٨۔ حر ، یا حارث بن حکیم خضرامہ ضبی

٢٩۔ کبیس بن ہوذہ ، سدوسی ۔

چوتھا حصہ : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان ، انصاری۔

٣١۔ صخر بن لوذان انصاری۔

٣٢ عکاشہ بن ثور ، الغوثی۔

٣٣۔ عبدا ﷲ بن ثور، الغوثی۔

٣٤۔ عبید اللہ بن ثور الغوثی

پانچواں حصہ : رسول خدا کے ایلچی اور کارندے

٣٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی

٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری۔

٣٧۔ جریر بن عبدا للہ حمیری ۔

٣٨۔ صلصل بن شرحبیل

٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

٤٠۔ عمرو بن خفاجی عامری

۶۷

٤١۔ عمر بن خفاجی عامری

٤٢۔ عوف ورکانی

٤٣۔ عویف ، زرقانی۔

٤٤۔ قحیف بن سلیک ،ہالکی۔

٤٥۔ عمر وبن حکیم ، قضاعی ، قینی۔

٤٦۔ امرؤ القیس ، از بنی عبدا للہ۔

چھٹا حصہ : ہم نام اصحاب

٤٧۔ خزیمة بن ثابت انصاری ( غیو از ذی شہادتین )

٤٨۔ سماک بن خرشہ ، انصاری ( غیر از ابی دجانہ )

ساتواں حصہ : گروہ انصار سے چند اصحاب

٤٩۔ ابو بصیرہ

٥٠۔ حاجب بن زید۔

٥١۔ سہل بن مالک

٥٢۔ سہل بن یربوع

٥٣۔ ام زُمل ، سلمیٰ بنت حضیفہ

۶۸

تیسرا حصہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف قبائل کے منتخب نمائندے

*٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری

*٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

*٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

*٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

*٢٨۔حر، یا حارث بن خضرامہ ضبی

*٢٩۔کبیس بن ہوذہ ، سدوسی۔

۶۹

چوبیسواں جعلی صحابی عبدة بن قرط تمیمی

اس نام کا ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں یوں تعارف ہوا ہے :

عبدة بن قرط، خباب بن حرث تمیمی عنبری کا پوتا ہے ۔ ابن شاہین نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ، قیس بن سلیمان بن عبدہ عنبری سے اس نے اپنے باپ اور جد سے ، انہوں نے عبدة بن قرط سے ۔۔ جو بنی عنبر کے نمائندوں کے ساتھ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔۔ روایت کی ہے :

'' وردان '' اور '' حیدہ '' ، محزم بن مخرمہ بن قرط کے بیٹے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے ۔

میں ۔۔ ابن حجر ۔۔ نے '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابن حجر نے اس سے قبل '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

انشاء اللہ اس کے حالات کی تشریح حرف '' ع'' میں '' عبدہ '' کی تشریح کے دوران آئے گی ۔ یہ بھی کہدوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ہے ۔

عبدہ کا خاندان اور اس کی داستان کا آغاز

سیف نے عبدہ کو ' عمرو بن تمیم '' کے خاندان ِبنی عنبر سے خلق کیا ہے ۔ اس کی داستان کے آغاز کو یوں جعل کیاہے کہ بنی عنبر کے نمائندوں کا ایک گروہ ، جس میں ' ' حیدہ'' اور '' وردان '' کے علاوہ عبدة بن قرط بھی تھا ، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' حیدہ '' اور '' وردان '' کے لئے مخصوص دعائے خیر کی ۔

۷۰

داستان کے مآخذ کی تحقیق

سیف کہتا ہے کہ مذکورہ داستان عبدة بن قرط نے اپنے بیٹے عبدہ سے اور اس نے اپنے بیٹے سلیمان سے اور سلیمان نے بھی اپنے بیٹے قیس سے بیان کی ہے ۔ جبکہ جس عبدة بن قرط کو ۔۔ سیف نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں قبیلے کے سفیر کے عنوان سے پہنچوایا ہے اس کا حقیقت میں کوئی وجود تھا اور نہ اس کے ان بیٹوں کا جن کی فہرست سیف نے مرتب کی ہے۔

بلکہ عبدة بن قرط نامی سیف کا صحابی۔ جسے اس نے نمایندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچایاہے ۔ اور اس کے بیٹے '' عبدہ ، سلیمان ، اور قیس'' سب کے سب سیف کی تخلیق ہیں ۔

روایت کی تحقیق

ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،جہاں '' اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں گفتگو کی ہے ، تمیم کے نمائندوں کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے تاریخی حقائق بیان کئے ہیں اور واضح کیا ہے کہ سیف نے مذکورہ روایت میں کیوں اور کس طرح تحریف کی ہے !! یہاں پر اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ۔

یہ بھی ہم بتادیں کہ تمیم کے نمائندوں کے بارے میں سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں نہ تو عبدة بن قرط کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کی روایت کے راویوں کے سلسلہ کا سراغ ملتا ہے ، کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے یہ داستان خلق کی ہے اور ابن حجرنے بھی اس پر اعتماد کرکے عبدة بن قرط کے نام کو حرف '' ع'' میں اپنی کتاب '' الاصابة '' میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے اصحاب میں درج کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

'' عبدة بن قرط '' کے حالات :

١۔الاصابتہ' ابن حجر' (٤٢٧٢) نمبر ٥٢٨٦ کے نیچے

۷۱

حیدہ کے حالات

١۔ الاصابة '' ابن حجر ، ( ٢ ٣٦٤)

بنی عنبر کا شجرۂ نسب :

١۔ '' جمہرۂ انساب '' ابن حزم ( ٢٠٨ ۔ ٢٠٩)

اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبدکے حالات :

١۔ '' الاصابة'' ابن حجر اور اس کے علاوہ دیگر منابع میں بھی آئے ہیں ۔

۷۲

پچیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

سیف بن عمر نے صعب بن عطیہ بن بلال بن ہلال سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے '' عبد الحارث بن حکیم '' سے روایت کی ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

تمہارا نام کیا ہے ؟

اس نے جواب دیا: عبدا لحارث بن حکیم

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تمہارا نام عبد اللہ ہوگا۔

اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے قبیلہ '' بنی ضبہ''کے صدقات جمع کرنے کے لئے ممور فرمایا:

ابو موسیٰ نے اس صحابی کو ابن مندہ سمجھ لیا ہے

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' الاصابة'' میں یوں بیان کیا ہے :

دار قطنی نے سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے صعب ابن عطیہ سے روایت کی ہے ...اور اسی مذکورہ داستان کونقل کیا ہے

اس صحابی کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب '' التجرید'' میں اس طرح درج کئے گئے ہیں :

سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوا ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

چھبیسواں جعلی صحابی حارث بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

ابو موسیٰ کی کتاب میں آیا ہے ( اس کے بعد عبد الحارث کی وہی داستان اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کے طور پر پہنچنے کا موضوع بیان کیا ہے !)

۷۳

کتاب ' ' الاصابة'' میں یوں آیا ہے :

ابن شاہین اور ابو موسیٰ دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے ( یہاں پر عبدا لحارث کی وہی مذکورہ داستان بیان ہوئی ہے )

ذہبی بھی اپنی '' التجرید'' میں لکھتا ہے :

ناقابل اطمینان طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام عبد الحارث تھا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا ۔

ہم نے سیف کی گزشتہ روایت میں دیکھا کہ اس نے ایک نمائندہ کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی خبر دی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام عبد الحارث بن حکیم سے بدل کر '' عبداللہ بن حکیم '' رکھا ہے۔

لیکن دانشوروں نے سیف کے تخلیق کردہ اسی ایک آدمی کو دو آدمیوں میں تبدیل کرکے صحابی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے زندگی کے حالات پر الگ الگ روشنی ڈالی ہے۔

لیکن '' اسد الغابہ '' کے مطابق سیف نے دوسری روایت میں ان کی اس داستان کو '' عبدا للہ بن زید بن صفوان '' سے ٍمنسوب کیا ہے ۔ ابن اثیر لکھتا ہے :

دارقطنی نے سیف بن عمر سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے بلال بن ابی بلال ضبی سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ عبد الحارث بن زید ضبی نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس نے اپنا تعارف کرایا، اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ۔

یہ صحابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے کے بعد اسلام لایا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:کہ

اس کے بعد تمہارا نام '' عبدا للہ '' ہوگا نہ عبد الحارث۔ اس نے جواب میں کہا :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق پر ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا اچھا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پرہیز گاری اور تقویٰ تائید الٰہی کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، شائستہ ترین کام وہ ہے جس کی انجام دہی میں ثواب ہو اور جس چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس کے پیچھے عذاب الٰہی ہوتا ہے۔

اللہ جیسے خدا کو رکھتے ہوئے ہم خوش ہیں ، ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں تاکہ اس کے اچھے اور خیر خواہانہ وعدوں سے استفادہ کرسکیں اور اس کے غضب اور عذاب سے امان میں رہیں !

عبد الحارث جو '' عبدا للہ '' بن چکا تھا اپنے قبیلے کی طرف لوٹا اور اس نے ہجرت نہیں کی۔

۷۴

اس مطلب کو ابو موسیٰ نے بھی ذکر کیا ہے

ابن حجر کی '' الاصابة'' میں بھی آیا ہے :

دار قطنی نے سیف بن عمر سے اس نے بلال بن ابی بلال سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

مذکورہ روایت ابن کلبی کی '' جمہرہ '' میں یوں آئی ہے :

عبد الحارث بن زید... ( اس کا نسب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :)

وہ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے نام کو بدل کر '' عبداللہ '' رکھا۔

ابن حزم نے بھی اپنی کتاب '' جمہرہ''' میں ان ہی مطالب کو بیان کیا ہے ۔

مذکورہ داستان کو ابن عبدا لبر نے '' استیعاب '' میں ، ابن اثیر نے '' اسدا لغابہ'' میں اور ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں ابن کلبی ، محمد بن حبیب اور ابن ماکولا جیسے دانشوروں سے نقل کیا ہے۔

اس بناء پر اس روایت کی سند ابن کلبی پر ختم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ابن حبیب ابن حزم اور ابن ماکولا سب کے سب ابن کلبی سے روایت کرنے والے تھے۔ اور چونکہ اس دانشور نے ٢٠٤ ھ میں وفات پائی ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح'' بھی اس تاریخ سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ لہذا یہ اطلاعات ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ : ابن کلبی نے مذکورہ خبر کو سیف سے نقل کرکے اسے خلاصہ کیا ہے ۔

بہر حال ہم زید بن صفوان کو سیف کی تخلیق شمار نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں ابن کلبی کی کتاب '' جمہرہ'' نہیں ملی جس کے ذریعہ ہم اس کی خبر کی یقینی طور پر تائید کرتے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی ایک شخص ۔۔۔ زید بن صفوان ۔۔ رجال کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں میں حسب ذیل تین روپوں میں درج ہوا ہے :

۷۵

١۔ عبدا للہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' ، '' الاصابہ'' اور ابو موسی کے ذیل میں اسی نام سے آیا ہے۔

٢۔ '' عبد اللہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' اور ابو موسیٰ ذیل میں اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔

٣۔ ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں عبدا للہ بن حارث کا دو شخصیتوں کے عنوان سے دوجگہ پر تعارف کیا گیا ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ہوئے نمائندہ '' عبدا للہ بن حارث'' کے نام میں تعدّد کا سر چشمہ شاید پہلی بار '' استیعاب '' میں واقع ہونے والی تحریف جس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ ہے نے بھی غلطی کی ہے اور اپنی کتاب ذیل میں ایک بار '' عبد اللہ بن حارث بن زید '' دوسری بار '' عبد اللہ بن زید '' کی زندگی کے حالات لکھے ہیں اور اس کے بعد دانشوروں نے اس کی پیروی کی ہے۔

ابن حجر اس غلطی کے علاوہ ایک دوسری غلطی کا بھی مرتکب ہوا ہے اور '' عبد اللہ بن حارث بن زید''کی زندگی کے حالات پر دوبار' دو جگہوں پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح ایک جعلی شخص تین روپوں میں نمودار ہوا ہے۔

ستائیسواں جعلی صحابی حلیس بن زید بن صفوان

اس صحابی کا ' ' اسد الغابہ '' میں یوں تعارف کیا گیا ہے :

ابو موسیٰ نے ابن شاہین سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ وہ حلیس بن زید بن صفوان اپنے بھائی ' ' حارث'' کی وفات کے بعد نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کے بعدا س کے حق میں د عا فرمائی ہے ۔

حلیس نے اس ملاقات میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

اگر مجھ پر کسی قسم کا ظلم ہوتو اس کی تلافی کیلئے اٹھتا ہوں تا کہ اپنا حق حاصل کرسکوں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

۷۶

شائستہ ترین کا م جسے انجام دیا جا سکتا ہے ، عفو و بخشش ہے ۔

حلیس نے کہا:

اگر کوئی حسد کرے گا تو اس سے زبردست مقابلہ کرکے تلافی کروں گا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

کون ہے جو کرم کرنے والوں کے لطف و کرم کا برا جواب دے ؟! جو بھی لوگوں سے حسدکرتا ہے اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کا دل آرام نہیں پاتا۔یہ مطالب ابو موسی نے بیان کئے ہیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

کتاب '' اصابہ'' میں ہم یوں پڑھتے ہیں :

ابن شاہین نے اس کا نام لیا ہے اور سیف بن عمر سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مندرجہ بالا داستان نقل کی گئی ہے )

لیکن کتاب '' تجرید'' میں اس صحابی '' حلیس بن زید '' ۔۔ کے تعارف اور زندگی کے حالات کے بارے میں حسب ذیل مطالب پر اکتفا کی گئی ہے :

غیر مطمئن طریقہ سے روایت ہوئی ہے کہ وہ ۔۔ حلیس ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

اٹھائیسواں جعلی صحابی حر، یا حارث بن خضرامہ ، ضبی

'' اسدا لغابہ'' میں یوں ذکر ہوا ہے:

حارث بن خصرامہ ضبی ہلالی کے بارے میں '' حارث بن حکیم '' کے سلسلے میں بیان کئے گئے مآخذ کے مطابق آیا ہے کہ سیف بن عمر نے صعب بن ہلال ضبی اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

حر، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچا ( تا آخر )

۷۷

حر بن خضرامہ ضبی یا ہلالی :

ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں حر کی داستان یوں درج ہوئی ہے :

ابن شاہین نے سیف سے نقل کرکے صعب بن ہلال ضبی سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روات کی ہے :

حر بن خضرامہ بنی عباس کا ہم پیمان تھا ۔ گوسفندوں کے ایک ریوڈ اور چند غلاموں کے ہمراہ مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ایک کفن اور قدرے حنوط عنایت فرمایا ! اس کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا کہ حر مدینہ میں فوت ہوگیا ۔ اس کے پسماندگان مدینہ آگئے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گوسفندوں کو انھیں لوٹا دیا اور حکم دیا کہ غلاموں کو مدینہ میں بیچ کر انکی قیمت انہیں دی جائے۔ابو موسی مدائنی نے دار قطنی سے ابن شاہین کے راوی سے روایت کی ہے کہ اس نے اس صحابی کے بارے میں کہا ہے : حارث بن خضرامہ ، ! اور خدا زیادہ جاننے والا ہے !

ضبّہ کا شجرۂ نسب

ضبی ، یہ ایک نسبتی لفظ ہے اور یہ نسبت تمیم کے چچا ''صنبتہ بن ادبن طابختہ بن الیاس بن مضر '' تک پہنچتیہے ۔

داستان کے مآخذ کی تحقیق:

علماء نے سیف کے اسنادحلیس کی داستان میں ذکر نہیں کئے ہیں ۔ لیکن باقی حدیث کو سیف کے ذریعہ ، صعب سے، بلال بن ابی بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے۔

یعنی حقیقت میں ایک بناوٹی راوی نے دوسرے جعلی اور خیالی راوی سے اور اس نے بھی ایک جعلی شخص سے نقلِ قول اور روایت کی ہے۔

ساتھ ہی سیف نے اپنے افسانوں میں سے ایک افسانہ کو اسی ماخذ کے ذریعہ اپنے جعلی صحابی تک ربط دیکر نقل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع کے بارے میں ا پنی کتاب '' رواة مخلتقون'' میں اشارہ کیا ہے ۔

۷۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ داستانوں کی روایت کی ہے ۔ جبکہ جن افراد نے انتہائی دقت اور احتیاط کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچے وفود اورنمائندوں کے بارے میں تفصیلات لکھے ہیں ،ان میں سیف کے مذکورہ مطالب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن سعد جیسے عالم نے اپنی کتاب ''طبقات'' میں سیف کی روایتوں پر کوئی توجہ نہیں کی ہے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا ہے۔

بلاذری نے بھی ۔۔ اپنی کتاب ' ' انساب '' کے پہلے حصہ میں ، جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مخصوص ہے ۔۔ سیف کی روایتوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا ہے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ '' عبدا للہ بن زید صفوان '' کے بارے میں نمائندگی کی روایت کو ہم نے ابن کلبی کے ہاں پایا ۔ مگر خود ابن کلبی نے اس روایت کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، ہمیں اب تک اس کے مآخذ کا پتہ نہ مل سکا۔

خلاصہ :

سیف نے قبیلہ بنی ضبّہ کے چند افراد کے نمائندہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی داستان کو چار روایتوں میں بیان کیا ہے ۔علماء نے بھی دیگر صحابیوں کے ضمن میں ان کی زندگی کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالی ہے :

١۔ سیف کی روایت کے پیش نظر '' عبد الحارث بن حکیم ضبی'' کی نمایندگی ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس کا نام بدل کر '' عبدا للہ '' رکھنے اور اسے اپنے قبیلہ کے صدقات جمع کرنے کی ماموریت دینے کے مسئلہ کو علماء نے دو صحابیوں کے حق میں الگ الگ بیان کیا ہے :

الف : حارث بن حکیم ضبی

ب: عبد اللہ بن حکیم ضبی

اور اسی ترتیب سے مذکورہ دو صحابی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں ثبت ہوئے ہیں ۔

۷۹

٢۔ سیف' عبد الحارث بن زید بن صفوان کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بعنوان نمایندہ پہنچنے کی روایت نقل کرکے مدعی ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر '' عبد اللہ بن زید '' رکھا ہے ، اور نام بدلنے کے بعد یہ نیا عبد اللہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم و نصیحت کرنے پر اتر کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتا ہے:

کوئی پرہیز گاری و تقویٰ خدا کی توفیق حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ بہترین اور شائشتہ ترین کام جسے انجام دیا جاسکتا ہے وہ ہے جس میں ثواب ہو اور جس کام سے پرہیز کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس پر پروردگار غصہ اور غضب کرے

اس طرح یہ عبدا للہ بن زید صفوان ہے جو خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم اور درس دیتا ہیچہ جائے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے درس دیں !!!

اس کے علاوہ اس صحابی کی نمائندگی کی خبر ' اس کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نصیحت اور تعلیم کے ذکر کے بغیر ہمیں ابن کلبی اور اس کی حدیث کے راویوں کے ہاں ملی ہے۔ چونکہ سیف زمانہ ابن کلبی سے پہلے ہے لہذا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ابن کلبی نے بھی اس خبر کو سیف سے نقل کیا ہوگا!

ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہی ایک شخص، اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والوں کے ہاں تین روپوں میں ظاہر ہوا ہے !!!

٣۔ سیف بن عمر نے حلیس بن زید کی نمائندگی کا ذکر اس کے بھائی '' حارث بن زید '' کی وفات کے بعد کیا ہے اور اس امر کی تاکید کی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیر کہ اس کیلئے دعا کی پھر نصیحت کی ہے۔

علماء نے اسی روایت کے پیش نظر اور اسی پر اعتماد کرکے حلیس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اور حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٤۔ سیف نے حر یا حارث بن خضرامہ کی گوسفندوں کے ریوڑ اور چند غلاموں کے ہمراہ پیغمبر خدا کی خدمت میں نمائندگی کو بیان کیا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ اپنے اس نئے خلق کئے ہوئے صحابی کو صحیح و سالم اپنے وطن اور اہل و عیال کے پاس لوٹا دے ، بلکہ اس کے بر عکس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کیلئے کفن اور قدرے حنوط لے لیتا ہے اور اس مفلس کو وہیں پر مسافرت میں مار ڈالتا ہے اور وہیں پر اسے دفن کرتا ہے ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایسی شخصیت کے مرنے کے بعد حکم دیتے ہیں کہ اس کے غلاموں کے بیچنے کے بعد ان کی قیمت اور گوسفندوں کے ریوڑ کو مرحوم کے پسماندگان کے حوالے کردیں ۔ اس طرح اسے اصحاب کی فہرست میں قرار دیکر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

منابع و مصادر

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو پروردہ صحابیوں کی حدیث کے منابع و مصادر حسب ذیل ہیں :

الف )۔ ابو ہالہ کے بیٹوں '' حارث '' و '' زبیر '' کے بارے میں :

١۔ طبری ،٢٣٥٦٣ و ٣٤٢٩

٢۔ ابن ماکولا کی کتاب اکمال ٥٢٣١

٣۔ ابن ہشام نے سیرہ ٣٢١٤میں ، ابن درید نے اشتقاق ٢٠٨میں ، ابن حبیب نے المحبر ٧٨۔٧٩و ٤٥٢میں ، بلاذری نے انساب الاشراف ٣٩٠١میں اور ابن سعد نے طبقات میں ۔

۲)۔ صرف زبیر ابو ہالہ کے بارے میں

١۔ رازی کتاب الجرع وا لتعدیل ٥٧٩١میں

٢۔ نجیر می کتاب الفوائد ولمخرجہ نسخہ عکسی ،کتب خانہ حضرت امیر المؤمنین نجف اشرف ۔

٣۔ ابن جوزی کتاب الموضوعات ٣٠٣میں ۔

٤۔ ابو نعیم نے المعرفة الصحابہ ٢٠٠١ ،نسخہ عکسی کتب خانہ حضرت امیر المؤمنین نجف اشرف ۔

٥۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ ٢ ١٩٩ ، میں ۔

٦۔ ذہبی نے التجرید ٢٠٢١ ، میں ۔

٧۔ ابن حجر نے الاصابہ ٥٢٨١ ،میں ۔

٨و٩۔ قاموس و تاج العروس لفظ زبر کی تشریح میں ۔

۲۸۱

تیئیسواں جعلی صحابی طاہر بن ابی ہالہ تمیمی

طاہر ، گور نر کے عہدے پر

سیف نے خاندان اسید تمیم کے ابو ہالہ کی نسل سے حضرت خدیجہ کے بیٹے کے طور پر پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک تیسرے پرورش یافتہ کو خلق کرکے اس کا نام طاہر بن ابی ہالہ رکھا ہے ۔

ابو عمر ابن عبد البر اپنی کتاب استیعاب میں طاہر ابو ہالہ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھتا ہے :

طاہر بن ابی ہالہ ہند اور ہالہ کا بھائی اور ابو ہالہ تمیمی کا بیٹا ہے ۔ وہ بنی عبد الدار کا ہم پیمان تھا ۔ اس کی والدہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ تھیں رسول خدا نے طاہر کو یمن کے بعض علاقوں میں اپنے گماشتہ و کارندہ کے عنوان سے مأمور فرمایا تھا ۔ طاہر کے بارے میں سیف بن عمر لکھتا ہے :

جریر بن یزید جعفی نے ابی بردہ سے اور اس نے ابو موسیٰ سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے ہمیں دیگر چار افراد کے ہمراہ ماموریت پر یمن بھیج دیا ۔یہ چار افراد حسب ذیل تھے : معاذ بن جبل ، خالد بن سعید ، طاہر بن ہالہ اور عکاشتہ بن ثور ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں سفارش فرمائی کہ کوگوں کے معاملات میں تساہل پسندی اور نرم رویہ سے پیش آئیں ، رحم دل بنیں اور کسی پر سختی نہ کریں ۔ لوگوں کو محبت و نوازش سے اپنی طرف جذب کریں اور غصہ و بد اخلاقی سے ان کو اپنے سے دور نہ کریں ۔ اس کے علاوہ حکم دیا کہ جب معاذ جبل آپ لوگوں کے پاس پہنچے گا تو اس کی اطاعت کرنا اور نافرمانی سے پرہیز کرنا اور

ذہبی نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں بعض دخل و تصرف کے ساتھ معاذ جبل کی وضاحت کرتے ہوئے درج کیا ہے :

ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابہ میں اس سلسلہ میں لکھتا ہے :

طاہر ، ابو ہالہ کا بیٹا اور ہند کا بھائی خاندان اسید تمیم سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کی والدہ خویلد کی بیٹی خدیجہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ ہیں ۔

۲۸۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طاہر کو یمن کے اطراف میں اپنے کار ندہ اور گماشتہ کی حیثیت سے ماموریت دی ۔ سیف بن عمر اس سلسلے میں لکھتا ہے

ابن اثیر مذکورہ حدیث کے آخر میں اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ اس حدیث کو ابو عمر ابن عبد البر نے نقل کیا ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب الاصابہ میں یوں بیان کیا ہے :

طاہر بن ابی ہالہ تمیمی اسید ی ہند کا بھائی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ ہے ، سیف نے اپنی کتاب '' ردّہ'' کی جنگ کے آغاز پر ابو موسیٰ سے نقل کرکے ذکر کیا ہے ( حدیث مذکور کے آخر تک )

اس کے بعد ابن حجر اس سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کھتا ہے :

عبید بن صخر لوذان کے سلسلے میں لکھی گئی تشریح میں بغوی رقمطراز ہے :

جب باذان نے وفات پائی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی مأموریت کے علاقہ کو حسب ذیل افراد میں تقسیم فرمایا: شہر بن باذام ،عامر بن شہر ،اور طاہر بن ابی ہالہ ...آخرمیں لکھتا ہے کہ :مرز بانی نے ''ردہ ''کی جنگ میں طاہر ابو ہالہ کے بارے میں مندرجہ ذیل اشعار کہے ہیں :

میری آنکھوں نے آج تک ایسا دن کبھی نہیں دیکھا ،جس دن قبیلہ ''اخابث ''کے گروہوں کو اپنی کثافت اور ننگ آور اعمال کی وجہ سے ذلیل و خوار ہونا پڑا ۔

خدا کی قسم !اگر اس خدا کی مدد اور یاری نہ ہوتی جس کے سوا کوئی خدا نہیں تو قبیلہ ''اخابث '' کے گروہ ہرگز اس طرح دربدر اور پراکندہ نہ ہوتے !!

ابن حجران مطالب کے ضمن میں لکھتا ہے :

خاندان ''ازد ''سے جو پہلا قبیلہ مرتد ہوا وہ ''تہامہ عک ''تھا کہ طاہر نے ان پر حملہ کیا ،ان پر غلبہ پاکر شورش وبغاو توں کو سرکوب کرکے علاقہ میں امن وامان برقرار کیا ۔اس لئے اس علاقے کے مرتدوں کا ''اخابث''یعنی ''ناپاک ''نام پڑا ہے ۔

۲۸۳

طاہر کی داستان پر بحث و تحقیق

طاہر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ ابو ہالہ کا بیٹا تھا اور اس کی والدہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ تھیں ۔علما ء کے نزدیک اس روایت کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

سیف کی حدیث کا راوی عبد البر ہے ۔ابن اثیر نے بھی ''طاہر ابوہالہ ''کا ذکر کرتے وقت سیف کی حدیث پر عبد البر کے ذریعہ متوجہ ہوا ہے ،اس نسب شناس دانشور نے عبدا لبرسے مطالب نقل کرکے اس کی باتوں پر اپنی طرف سے بھی کچھ اضافہ کرتے ہوئے ''ابو ہالہ ''کے شجرہ ٔنسب کو اسید بن تمیم تک پہنچایا ہے !ابن اثیر نے ابوہالہ کو اسید بن تمیم سے وصل کرنے میں علم انساب کے رو سے صحیح راستہ کا انتخا ب کیا ہے ۔لیکن اصل مسئلہ میں یہ مشکل موجود ہے کہ ''ابو ہالہ ''کا جب ''طاہر ''نامی کوئی بیٹا نہ تھا تو یہ شجرہ ٔنسب کیسے مفید اور حقیقت بن سکتا ہے ؟! جب ''طاہر ''ہی حقیقت میں وجود نہ رکھتا ہو تو ایسے ''طاہر ''کے لئے شجرہ نسب کا ثابت کرنا ''ابو ہالہ ''کے لئے کسی بیٹے کو جنم نہیں دے سکتا ہے !

لیکن ابن حجر نے اپنی کتا ب ''الاصابہ ''میں ''طاہر ابو ہالہ ''کے بارے میں دو حدیثیں نقل کی ہیں ۔ان میں سے ایک کے مطابق ''طاہر '' ''باذان ''کا جا نشین انتخاب ہو ا ہے تا کہ رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے کی حیثیت سے عہدہ سنبھالے ۔دوسری روایت میں علاقہ ''اعلاب ''کے مرتدوں سے اس کی جنگ اور ''اخابث ''کے بارے میں اس کی دلاوریوں پر مشتمل اشعار بیان کئے گئے ہیں ۔

ان دو روایتوں میں ابن حجر نے کہیں پر سیف کا نام نہیں لیا ہے ۔لیکن ہم نے تاریخ طبری میں سیف کی احادیث کی تحقیق کے دوران اس کے مآخذ تلاش کئے ہیں جن پر ہم ذیل میں نظر ڈالتے ہیں :

۲۸۴

طاہر کے بارے میں سیف کی احادیث

١۔ ''لوذان انصاری'' کے نواسہ ''عبید بن صخر ''سے سیف نقل کرکے روایت کرتا ہے کہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے لوٹتے ہوئے ١٠ھ کو ''باذام '' جو فوت ہو چکا تھا کی ماموریت کے علا قہ کو اور طاہر بن ابی ہالہ کے درمیان تقسیم کیا ۔

جیسا کہ بیان ہوا ،اس حدیث کو بغوی نے ''عبید صخر ''کے حالات کی تشریح میں بیان کیا ہے اور ابن حجر نے ''باذان ''کے جانشین کے طور پر ''طاہر ''کے انتخاب کے سلسلے میں اسی مطلب کو بغوی سے نقل کرکے اپنی کتا ب میں درج کیا ہے ۔

٢۔ اس کے بعد سیف سے متعلق ایک دوسری روایت میں کہا گیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حج کے بعد مدینہ لوٹے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سرزمین یمن کی حکومت اپنے اصحاب کو سونپی .....(یہاں تک کہتا ہے ) اور ''عک ''و ''اشعریو ں ''پر ''طاہر بن ابی ہالہ ''کو مقرر فرمایا ۔

٣۔ آخر میں طبری نے یما نیوں کے ارتداد کے موضوع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یمن میں مقرر کئے گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں کے بارے میں سیف سے نقل کرکے مفصل طور پر بیان کیا ہے کہ ہم اسے ذیل میں درج کرتے ہیں :

طبری نے سیف سے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت اسلام کے قلمرو میں آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے حسب ذیل تھے :

مکہ اور اس کے اطراف میں درج ذیل دو افراد مامور تھے :

قبیلہ ''کنانہ ''میں ''عتاب بن اسید ''اور ''عک ''میں طاہر ابی ہالہ ۔اس قسم کی تقسیم بندی کا سبب یہ تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تھا ،''عک ''کے کارندے ان کے اپنے قبیلہ یعنی ''معد بن عدنان ''سے انتخاب کئے جائیں ۔

طائف اور اس کی سرزمینوں میں حسب ذیل دو افراد کو مقرر فرمایا تھا: ''عثمان بن ابی العاص''کو شہر نشینوں میں اور ''مالک بن عوف نصری ''کو صحرا نشینوں کے لئے انتخاب فرمایا تھا ۔

۲۸۵

نجران اور اس کے اطراف کے علاقوں کے لئے ''عمر ابن حزم ''کو امام جماعت کے طور پر اور ''ابو سفیان حرب ''کو علاقہ کے صدقات جمع کرنے کے لئے مامور فرمایا تھا ۔

''عاص ''کے نواسہ ''خالد بن سعید ''کو ''ربیع و زبید ''کی سرزمینوں سے نجران کی سرحدوں تک کے علاقے پر ،عامر بن شہر کو ہمدان کے تمام قبائل پر اور ''فیروز دیلمی ''کو ''داذویہ ''و ''قیس بن مکشوح ''کے تعاون سے یمن کے شہر صنعا پر مامور فرمایا تھا ۔

''یعلی بن امیہ ''کو سرزمین جند پر ،''طاہر بن ابی ہالہ ''کو عک کی حکومت کے علاوہ اشعریوں کے قبیلہ پر اور ''ابو موسی اشعری ''کو مارب کی سرزمینوں پر مامور فرمایا تھا ۔

اس کے علاوہ ''معاذ بن جبل ''کو معلم احکام اور حاکم شرع کے عنوان سے یمن اور حضر موت کے لئے منصوب فرمایا تھا ۔

طبری نے ایک اور روایت میں سیف بن عمر سے نقل کرکے ذکر کیا ہے :

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضر موت کے اطراف من جملہ قبائل ''سکاسک و سکون ''کے لئے ''عکاشہ بن ثور ''کو اورقبائل معاویہ بن کندہ کے لئے ''عبداللہ ''یا ''مہاجر ''کو مامور فرمایا ۔

مہاجر بیمار ہوا اور مجبور ہوکر ماموریت پر روانہ نہ ہوسکا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ابوبکر نے اسے ماموریت پر بھیج دیا ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''زیاد بن لبید ''کو حضر موت کی ماموریت دی اور یہی زیاد تھا جو مہاجر کی عدم موجودگی میں اس کی ذمہ داری بھی نبھاتا تھا ۔

یہ سب گماشتے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت تک اپنی اپنی جگہوں پر فرائض انجام دیتے رہے۔ صرف ''باذام ''کی وفات کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی ماموریت دوسرے لوگوں میں تقسیم فرمائی ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ''اسود عنسی'' نے ''شہر بن باذام'' کی مأموریت کے علاقہ پر حملہ کرکے اسے قتل کرڈالا۔

٤۔طبری نے سیف سے نقل کرکے ''اسود عنسی'' کی خبر کے بارے میں یوں لکھا ہے :

''اسود عنسی '' نے جب پیغمبری کا دعویٰ کرنے کے بعد نجران پر حملہ کیا اور ''عمر بن حزم'' و ''خالد بن سعید'' کو وہاں سے بھگا دیا تو یہ دونوں مدینہ بھاگ گئے اور''اسود ''نے نجران پر قبضہ کرلیا۔

۲۸۶

نجران پر قبضہ کرنے کے بعد اسود نے صنعاء کی طرف رخ کیا اور ''شہر بن باذام'' جو صنعاء کا حاکم تھا کو قتل کرڈالا۔ ''معاذ بن جبل'' ڈر کے مارے بھاگ کر ''ابو موسیٰ'' کے پاس'' مأرب'' پہنچا اور وہاں سے دونوں خوف و وحشت کی وجہ سے بھاگ کر حضر موت کی طرف چلے گئے!! ان کے بھاگنے کی وجہ سے اسود نے یمن کے پورے علاقہ پر قبضہ جما لیا۔

اسود سے ڈر کے یمن میں مأمور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے کارندے اور گماشتے بھی وہاں سے فرار کر کے ''عک'' کے اطراف میں صنعا ء کے پہاڑوں کی طرف چلے گئے جہاں پر'' طاہر ابوہالہ'' ٹھکانا لگائے بیٹھا تھا۔

اس کے بعد طبری نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں کی روایت کے آخر میں ان کی مأموریت کے حدود کے بارے میں ذکر ہوئی روایت اور ''اخابث'' کی خبر کے بارے میں یوں لکھا ہے:

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر پھیلنے کے بعد ''تہامہ'' کے جس علاقے میں سب سے پہلے گڑ بڑ اور بغاوت پھیلی، وہ ''عک'' اور ''اشعری'' قبائل تھے۔ وہ آپس میں جمع ہوکر '' اعلاب ''

جو سمندر کے راستے پر واقع ہے میں تاک لگا کر بیٹھ گئے ۔

''طاہر بن ابی ہالہ'' نے اس موضوع کی رپورٹ ابو بکر کو بھیجی اور اس کے بعد اپنے سپاہیوں کے ساتھ ''مسروق عکی'' کے ہمراہ باغیوں کی طرف روانہ ہوا اور ان کے ساتھ گھمسان کی جنگ لڑی۔ اس جنگ میں ان کے کشتوں کے ایسے پشتے لگائے کہ سارے بیابان میں ان کی لاشوں کی بد بو پھیل گئی۔ سر انجام مشرکین نے شکست کھائی ، علاقہ شر پسندوں سے پاک ہو اا ور امن و امان برقرار ہوا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد طاہر ابو ہالہ کے ہاتھوں مرتدوں کی یہ شکست مسلمانوں کی ایک عظیم کامیابی تھی۔

ابوبکر نے طاہر کی طرف سے اس کامیابی کی نوید پر مشتمل خط کے پہنچنے سے پہلے ہی اس خط کے جواب میں لکھا :

تمھارا خط مجھے ملا، جس خط میں تو نے اپنی اختیار کی گئی راہ اور ''مسروق'' اور اس کے خاندان سے اخابث (ناپاکوں ) کے خلاف لڑنے میں جو مدد کرنے کا ذکر کیا تھا، یہ ایک اچھا کام تھااسی راہ پر آگے بڑھو اور ان ناپاکوں کو آرام سے سانس لینے کی فرصت نہ دو، اس کے بعد ''اعلاب'' جاکر رُکنا اور میرے خط کا انتظار کرنا۔

۲۸۷

چونکہ ابوبکر نے اس جگہ پر باغیوں کو ''اخابث'' (ناپاک) کا نام دیا ہے لہٰذا یہ جگہ آج تک طریق الاخابث (ناپاکوں کی گزرگاہ) سے مشہور ہے ۔ اور ''طاہر بن ابی ہالہ'' نے اس سلسلہ میں یہ اشعار کہے ہیں :

خدا کی قسم اگر اس خدا کی مدد نہ ہوتی جس کے سوا کوئی خد ا نہیں ہے تو قبیلہ عثاعث ہرگز وادیوں میں در بدر نہ ہوتے !

میری آنکھوں نے آج تک ایسا دن کبھی نہیں دیکھا ، جس دن قبیلہ ''اخابث'' کے گروہ کو ذلیل و خوار ہونا پڑا۔

ہم نے ان کو کوہ خامر کی چوٹی اور سرخ زمینوں کی کھاڑیوں کے درمیان تہ تیغ کرکے رکھدیا۔

اور ہم ان سے چھینی ہوئی دولت کے ساتھ لوٹے اور ان کے شور و شر پر کوئی توجہ نہ کی۔

طبری نے اس داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے:

طاہر نے مسروق اور قبیلہ عک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ دریائے اخابث کے ساحل پر کیمپ لگا دیا اور وہیں پر ابوبکر کے حکم کا انتظار کرنے لگا۔

(یہ روایت اسی خبر کا مآخذہے جسے ابن حجر نے مرز بانی سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے )

٥۔طبری اس داستان کے آخر میں سیف سے نقل کرکے لکھا ہے:

ابوبکر نے طاہر اور مسروق کو حکم دیدیا کہ صنعا ء جاکر ''احرار ''نامی ایران نسل کے لوگوں کی مددکریں

''طاہر ابو ہالہ ''کے بارے میں سیف سے نقل کی گئی جس روایت کو ہم نے طبری کے ہاں وہ یہی تھے جس کا ذکر ہوا ۔

سیف سے نقل کی گئی طبری کی روایت کے پیش نظر یاقوت حموی نے''اخابث ''کی جغرافیائی موقعیت کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''اخابث'' گویا''اخبث'' کا جمع ہے ! ''بنوعک بن عدنان '' کا خاندان، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد نافرمانی کرکے مرتد ہوا اور منطقہ ''اعلاب''جہاں ان کی سر زمین تھی میں بغاوت کی ( یہاں تک لکھا ہے کہ :) طاہر ابو ہالہ نے اعلاب میں ان کے ساتھ مقابلہ کیا اور گھمسان کی جنگ کے بعد ان سبوں کو قتل کر ڈالا ۔ ابو بکر نے طاہر کی طرف سے اس فتح کی نوید پہنچنے سے پہلے ہی اس طرح لکھا ( تاآخر)

۲۸۸

حموی نے ابو بکر کے خط کو نقل کرنے کے بعد جس کا متن اوپر ذکر کیا گیا ہے احادیث کے بارے میں اپنی بات کو یوں خاتمہ بخشا ہے ۔

اس طرح عکیوں اور ہم فکر دوست و یاوروں کو اسی دن سے آج تک اخابث کہا جاتا ہے اور ان کے اس منطقہ کی گزرگاہ کو بھی طریق الاخابث کہا جاتا ہے ۔ طاہر ابو ہالہ نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں .( وہی اشعار جو اوپر درج ہوئے ہیں )

اس طرح حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرکے اخابث کو ایک خاص منطقہ کے نام کے طور پر اپنی جغرافیہ کی کتاب میں ثبت کیا ہے اور سیف کی اس عین عبارت کو ( اور ان کے منطقہ کی گزرگاہ کو آج تک طریق الاخابث کہا جاتا ہے ) اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔

حموی کی کتاب '' معجم البلدان '' میں لفظ اخابث کے سلسلے میں سیف کا یہی آخری جملہ قارئین کے لئے یہ شک و شبہ پیدا کرتا ہے کہ یہ بات حموی کی ذاتی تحقیقات کا نتیجہ ہے کہ وہ تاکید کرتا ہے کہ یہ گزر گاہ ابھی بھی گزر گاہ اخابث کے نام سے مشہور ہے اور خود حموی نے اس جگہ کا نزدیک سے مشاہدہ بھی کیا ہوگا جب کہ ہم نے ملاحظہ کیا کہ یہ جملہ من و عن سیف کا نقل قول ہے ، نہ کہ حموی کی تحقیقات کا نتیجہ ! ۔

پھر بھی حموی سیف کی باتوں کے پیش نظر اس پر اعتماد کرکے لفظ اعلاب کے بارے میں لکھتا ہے :

علاب خاندان عک و عدنان کی سر زمین کو کہا جاتا ہے جو مکہ اور سمندر کے ساحل کے درمیان واقع ہے ، اس کا نام ردہ کے واقعات میں بیان ہو چکا ہے ۔

اس کے علاوہ لفظ خامر کے بارے میں سیف کی باتوں سے استفادہ کرکے لکھتا ہے :

خامر حجاز میں عک کی سر زمینوں میں ایک پہاڑ ہے جس کی توصیف میں طاہر بن ابی ہالہ نے یہ اشعار کہے ہیں :

ہم نے ان کو کوہ خامر کی چوٹی اور سرخ زمینوں میں کھودی گئی کھاڑیوں کے درمیان موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

عبد المومن نے بھی حموی کے مطالب کے پیش نظر سیف کے انہی خیالی مقامات کو اپنی کتاب مراصد الاطلاع میں حموی سے نقل کرکے ان کی وضاحت کی ہے ۔

۲۸۹

ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی طاہر ابو ہالہ کی روایت کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

علامہ مرحوم سید عبد الحسین شرف الدین نے بھی ان کتابوں میں درج طاہر سے متعلق روایتوں پر اعتماد کرکے طاہر ابو ہالہ کو حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔

اس طرح سیف کے افسانوی طاہر ابو ہالہ کی روایت اسلامی مآخذ اور منابع کے متون میں درج ہوئی ہے ، ہم طاہر سے متعلق روایتوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔

١۔ ابو ہالہ اور حضرت خدیجہ کے لئے طاہر نامی ایک بیٹے کے وجود کا مسئلہ ،سیف کے اس دعوے کے بے بنیاد ہونے کے سلسلے میں ہم نے اسی طاہر کے دوسرے دو بھائی حارثاور زبیر کی نفی میں ثابت کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جب ام المومنین حضرت خدیجہ نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں قدم رکھا تو اس وقت ان کے ہمراہ ابو ہالہ سے ہند کے علاوہ کوئی اور بیٹا نہیں تھا۔

٢۔ دوسرا موضوع رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے آخری دنوں میں طاہر کا چند اصحاب کے ہمراہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے کے طور پر مامور ہونا ہے ہم نے اس سلسلے میں تحقیق کرنے کے لئے سیف کے علاوہ دوسرے مآخذ و منابع کی طرف رجوع کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ بن ہشام و طبری نے ابن اسحاق کی روایت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ١٠ ھکے کارندوں کی تعداد اور ان کے نام حسب ذیل ذکر کئے ہیں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں اسلام کے قلمرو میں مندرجہ ذیل گورنر وں اور کارندوں کو مامور فرمایا ہے :

مہا جر بن ابی امید کو صنعاء کی ماموریت دی جو کہ اسود عنسی کے دعوائے نبوت اور بغاوت کے وقت بھی ماموریت انجام دے رہا تھا ۔

زیاد بن لبید کو حضر موت کے لئے مامور فرمایا اور حکم دیا کہ اس علاقے کے صدقات کو بھی جمع کرے ۔

عدی بن حاتم کو قبائل طے اور بنی اسد کے لئے کارندہ اور صدقات جمع کرنے کیماموریت دے دی ۔

مالک نویرہ کو بنی حنظلہ کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی بن سعد کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری اسی خاندان کے دوافراد ، زبرقان بدر اور قیس بن عاصم کے ذمہ کی اور ان میں سے ہر ایک کو اس علاقے کے ایک حصہ کی ذمہ داری سونپی ۔

۲۹۰

اعلا ء حضرمی کو بحرین کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی اور علی ابن ابی طالب کو نجران کے صدقات اور وہاں کے عیسائیوں سے جزیہ وصول کرنے کی مسئولیت بخشی ۔(۱)

جب ١٠ ھ میں ذیقعدہ کا مہینہ آیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حج کا فریضہ انجام دینے کے لئے مکہ کی طرف عازم ہوئے اور حکم فرمایا کہ دوسرے لوگ بھی اس سفر میں آپ کی ہمراہی کریں ۔

اس کے بعد طبری اور ابن ہشام نے راوی سے نقل کرکے حضرت علی علیہ السلام کی نجران سے واپسی ، مکہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملحق ہو کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ فریضہ حج انجام دینے کے بارے میں ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد رسول اللہ کے مدینہ لوٹنے اور ماہ صفر میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے واقعات کو ترتیب سے ذکر کیا ہے ۔

مختصر تحقیق اور موازنہ

سیف نے اپنی روایت میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سولہ کارندوں اور گماشتوں کا نام لیا ہے جب کہ ابن اسحاق کی روایت میں ان افراد کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ اسی طرح پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند حقیقی کارندوں کے نام جو ابن اسحاق کے ہاں پائے جاتے ہیں سیف کی روایت میں دکھائی نہیں دیتے ۔

سیف نے اپنے خیالی طاہر کے لئے سر زمین مکہ اور یمن کے ایک وسیع علاقے کو اس کی مامور یت کے حد و د کے طو ر پر معین کیا ہے جو تاریخی حقائق کے ساتھ کسی صو ر ت میں مطابقت نہیں رکھتا ۔

سیف نے طاہر کی داستان عک او ر اشعریوں کے سلسلے میں جو روایت نقل کی ہے وہ مکمل طور پر افسانہ اور جھوٹ ہے اور اس کی روایت میں جنگ کی کمانڈ ، میدان کا رزار ، دلاوریوں کے اشعار ،خط و کتابت خون ریز جنگ ، بے رحمانہ قتل عام اور اخابث ، اعلاب و خامر کی نام گزاری کا ذکر کیا

____________________

الف )۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خمس جمع کرنے کے لئے یمن بھیجا ۔ اس سلسلے میں ہماری تحقیق کا نتیجہ ہماری کتاب '' مرا ة العقول '' کے مقدمہ (صفحہ ٨١ ) میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔

۲۹۱

گیا ہے جب کہ تاریخ کے قابل اعتبار و اہم منابع و مصادر میں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا جس کے ذریعہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کر سکیں ۔ کیوں کہ یہ داستان دوسری صدی ہجری کے افسانہ نگار سیف بن عمر تمیمی کے سر اسر جھوٹ ، بہتان اور توہمات کے علاوہ کچھ نہیں ہے !

داستان کے مآخذ کی پڑتال

ہم نے سیف کی پانچ روایتوں میں طاہرا بو ہالہ کی داستان کو پایا ۔ ان میں سے چار روایتوں کو طبری نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور اس کے بعد دیگر تاریخ نویسوں نے طاہر کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں ثبت کیا ہے ۔

طاہر کے بارے میں سیف کی پانچویں روایت بھی کتاب استیعاب میں درج ہوئی ہے ۔ بعض علماء نے اس روایت کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ان روایتوں کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ سیف نے اپنی دو روایتوں کے مآخذ یوں بیان کئے ہیں سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے یہ دونوں راوی سیف کے تخیل کی مخلوق ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ایک اور روایت میں سہل نے قاسم سے روایت کی ہے ۔ جن کے بارے میں ہم نے پہلے ہی بتایا ہے کہ علم رجال کی کتابوں میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا اس لئے کہ ان کابھی حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

٢۔ دو روایتوں مین عبید بن صخر بن لوذان کو راوی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ہم عبید کے حالات کے بارے میں اس کتاب کی اگلی جلدوں میں سیف کے افسانوی تخلیقات کے ضمن میں بحث و تحقیق کریں گے ۔

٣۔ ایک روایت میں جریر بن یزید جعفی کوبھی راوی کے طورپہچنوایا گیا ہے ، ہم نے اس نام کو رجال اور راویوں کی کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی نہیں پایا ۔ اس لئے ہم اسے بھی سیف کے تخیل کی مخلوق جانتے ہیں ۔

۲۹۲

٤۔ اس کے علاوہ ان روایتوں کے راویوں کے طور پر دو مجہول الہویہ افراد ابو عمر اور مولی ابراہیم بن طلحہ کا نام بھی لیا گیا ہے اور اس قسم کے مجہول الہویہ افراد کی پہچان کرنا نا ممکن ہے ۔

٥۔ اسی طرح سیف محققین اور علماء کو حیرت و پریشانی میں ڈالنے کے لئے ایسے راویوں کے ضمن میں کہ جنھیں خدا نے ابھی خلق ہی نہیں کیا ہے چہ جائے کہ پہچانا جائے ، بعض حقیقی اور مشہور راویوں کا بھی نام لے کر اپنی روایت کے مآخذ کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ لیکن سیف کے بارے میں گزشتہ تجربہ کے پیش نظر ہم سیف کے جھوٹ کے گناہوں کو ان راویوں کی گردن پر ڈالنا نہیں چاہتے

گزشتہ بحث کا ایک خلاصہ

ہم نے طاہر ابو ہالہ کی داستان کو سیف کی پانچ روایتوں میں پایا جو ایک دوسرے کی مکمل اور ناظر ہیں ۔

ابن عبد البر نے اپنی کتاب استیعاب میں مذکورہ پانچ روایتوں میں سے ایک کو نقل کیا ہے اور ذہبی نے اسے سیر اعلام النبلاء میں اور ابن اثیر نے اسی روایت کو استیعاب سے نقل کرکے اسد الغابہ میں درج کیا ہے ۔

اس کے علاوہ ابن اثیر نے اپنی بات کی ابتدا میں طاہر سے روایت کرکے ابو ہالہ کا شجرہ نسب اس طرح بیان کیا ہے کہ انسان خیال کرتا ہے کہ حقیقت میں کوئی طاہر تھا جس کا نسب اسد بن عمرو تمیمی تک پہنچتا ہے ۔

طبری نے بھی طاہر کے بارے میں سیف کی روایتوں میں چار روایتوں کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور بغوی نے ان چار روایتوں میں سے ایک کو عبید بن صخر کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔

مر زبانی نے بھی اپنی کتاب معجم الشعراء میں سیف بن عمر کی باتوں سے استفادہ کرکے اخابث کی داستان اور طاہر کے رزمینہ اشعار کو درج کیا ہے ۔

۲۹۳

ابن حجر نے طاہر کی داستان کو ابن عبد البر کی استیعاب اور مرز بانی کی معجم الشعراء اور تاریخ بغوی سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔

جغرافیہ شناس دانشور حموی اعلاب ، خامر او ر اخابث جیسے الفاظ کی تشریح میں اپنی کتاب معجم البلدان میں سیف کی احادیث کے مطابق طاہر کا نام اور اس کے اشعار اپنے دعوے کے شاہد کے طور پر لائے ہیں ۔ عبد المؤمن صاحب کتاب مراصد الاطلاع نے مذکورہ مقامات کی تشریح کو حموی سے لیا ہے ۔

لیکن مندرجہ ذیل حقائق کے پیش نظر یہ تمام احادیث و اخبار ، متن ، مآخذ اور اس کا رول ادا کرنے والے سب کے سب جعلی او ر بالکل جھوٹ پر مبنی ہیں ۔

سیف کی روایتوں کے مطالب

طاہر کے بارے میں سیف کی روایتیں درج ذیل تین مطالب پر مشتمل ہیں :

١۔ طاہر ، خدیجہ کا بیٹا:۔ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کے لئے اس کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے طاہر نام کا ایک بیٹا خلق کرتا ہے ۔ ہم نے اس کے دوسرے دو بھائیوں '' حارث '' و '' زبیر '' کے بارے میں جو تحقیق کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدیجہ کا اس کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے ہند کے علاوہ کوئی دوسرا بیٹا ہی نہیں تھا !

٢۔ طاہر ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ:۔ تمام تاریخ نویسوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے آخری دنوں میں اسلام کے قلمرو میں مختلف مناطق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منصوب کئے گئے گماشتوں اور کارندوں کا نام لیا ہے ، لیکن ان میں نہ طاہر ابو ہالہ کا کہیں نام ہے اور نہ ہی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے جعل کئے گئے سیف کے کارندوں کا کہیں ذکر ہے ۔ انشاء اللہ ہم اس سلسلے میں مناسب موقع پر مزید تشریح کریں گے ۔

۲۹۴

اس کے علاوہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ معتبر تاریخ نویسوں نے لکھاہے کہ مہاجرا میہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے صنعا ء میں مامور تھایہاں تک کہ پیغمبری کا مدعی ''اسود عنسی ''نے اس پر حملہ کرکے اسے اقتدار سے ہٹادیا ۔لیکن سیف کہتا ہے ،''مہاجر ''بیمار ہوا اور ماموریت کی جگہ پر نہ جاسکا بلکہ کسی دوسرے شخص نے اس کی ذمہ داری انجام دی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات اور مہاجر کی صحت یابی کے بعد خلیفہ ابو بکر نے اسے ماموریت کی جگہ پر روانہ کیا ۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سیف اپنے قبیلہ تمیم اور مضر کے لئے فخر و مباہات کسب کرنے کی فکر میں ہے ۔یہی جذبہ اسے مجبور کرتا ہے کہ ابوسفیان اور اس کے ہم فکروں کے لئے عہدے اور مقام خلق کرے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاں ان کو کارندے کی حیثیت تفویض کرکے خاندان بنی عمر و کو عزت و افتخار بخشے ۔

لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کونسے عوامل سیف کے لئے اس امر کے محرک بن گئے کہ وہ مہاجر ابی امیہ اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر گماشتوں کی روایت میں تحریف کرے ؟! کیونکہ یہ روایت ظاہرا ًسیف کے لئے کسی قسم کا افتخار ثابت نہیں کرتی ،مگر یہ کہ ہم ،اس کا زندیقی اور دشمن اسلام ہونا اس امر کا سبب مان لیں ! اور اس طرح وہ محققین اور تاریخ نویسوں کے لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں سے متعلق روایتوں کو مشکوک اور ناقابل اعتبار بنا کر ان کی قدر و منزلت کو گھٹادے ۔

٣۔ اخابث کا علاقہ :۔ سیف کے کہنے کے مطابق قبائل ''عک ''اور ''اشعری ''مرتد ہوکر بغاوت کرتے ہیں ۔ ''طاہر ''،مقام خلافت کے کسی حکم اور مرکز خلافت سے فوجی مدد کا انتظا ر کئے بغیر مذکورہ قبائل پر حملہ کرتا ہے ،ان کے کشتوں کے پشتے لگاتا ہے ،اور علاقہ کو ''اخابث ''یعنی ناپاکوں کے وجود سے پاک و صاف کرتا ہے ۔یہی امر سبب بن جاتا ہے کہ ڈر کے مارے فرار کرنے والے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے گماشتے اور کارندے اس تمیمی پہلوان کے ہا ں پناہ لے کر اطمینان کا سانس لیں ،جب کہ ان مطالب میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہے اور سب کے سب جھوٹ اور افسانہ ہے۔ قابل اعتبار اسلامی مصادر میں یہ مطالب کہیں درج نہیں ہوئے ہیں ۔بلکہ یہ سب دوسری صدی ہجری کے افسانہ گو سیف بن عمر تمیمی کے تخیل کے خلق کئے گئے افسانے ہیں تا کہ اس طرح وہ اپنے خاندان تمیم کے لئے ہر ممکن طور پر فخرو مباہات کسب کرسکے ۔

۲۹۵

طاہر کی داستان کے نتائج

١۔خاندان بنی عمرو اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تیسرے پروردہ ''طاہر ابو ہالہ ''کی تخلیق ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایک گماشتہ تخلیق کرنا تا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر گماشتوں کے ضمن میں اس کا نام لیا جا ئے ۔

٣۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے خاندان تمیم سے ایک فرماں بردار صحابی خلق کرنا تا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب کی فہرست میں اس کا نام درج کیا جائے ۔

٤۔ خاندان تمیم میں سے ایک شاعر خلق کرنا تا کہ اس کا نام دوسر ے شعراء اور دلاوریاں بیان کرنے والوں میں شامل ہوجائے ۔

٥۔ خیالی میدان کارزار اور ''ردہ ''کی جنگوں کے نام سے فرضی جنگوں کے نقشے کھینچنا ،تا کہ ایک طرف سے عربوں کے دلوں میں اسلام کی نسبت ضعف و ناتوانی ایجاد کرے اور دوسری جانب سے ان کی بے رحمی اور سنگدلی دکھائے جیسا کہ اپنے دشمنوں کے کشتوں کے پشتے لگا کر میدان کارزار کو لاشوں کی بدبو سے ناقابل تنفس بنانا، تا کہ اس طرح اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک دلیل بن جائے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے ۔

٦۔ سیف کے خلق کئے گئے دلاوری کے اشعار اور سیاسی و سرکاری خط وکتابت کو ادب اور اسلامی سیاست کی کتابوں میں درج کرانا ۔

٧۔ کچھ جگہیں جیسے ،''اعلاب ''،''اخابث ''،اور ''خامر ''و غیرہ خلق کی ہیں تا کہ جغرافیہ کی کتابوں میں انھیں جگہ ملے ۔سر انجام ان سب چیزوں کو سیف نے اپنے خاندان تمیم ،خاص کر قبیلہ اسید کے لئے فخرو مباہات کے طور پر ایجاد کیا ہے تا کہ قبائل قحطانی اور یمانیوں کو نیچا دکھا سکے ۔

۲۹۶

افسانہ ٔطاہر کی اشاعت کا سرچشمہ

۱) ۔ سیف کے افسانوں کے راوی :

سیف نے ،''طاہر ''کو پانچ روایتوں کے ذریعہ جعل کیا ہے اور ان روایتوں کو حسب ذیل راویوں سے نقل کیا ہے :

١۔ سہل بن یوسف ،اپنے باپ سے دو روایتوں میں ۔

٢۔ سہل بن یوسف ،قاسم سے ایک روایت میں ۔

٣۔ عبید بن صخر بن لوذان ، دو روایتوں میں ۔

٤۔ جریر بن یزید جعفی ، ایک روایت میں ۔

یہ سب راوی سیف کے تخیل کی مخلوق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔ اسی طرح روایت کے مآخذ کے طور پر ایسے نامعلوم افراد ،راوی کے عنوان سے ذکر کیا ہے جن کو پہچاننا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بعض معروف اور مشہور راوی کا نام بھی لیتا ہے مگر ہم ہر گز سیف کے گناہوں کو ان کی گر د ن پر ڈ ا لنا نہیں چاہتے ۔ جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ افسانہ صرف اور صرف سیف کا خلق کیا ہو ا ہے ۔

۲)۔ طاہر ابو ہالہ کے افسانہ کو سیف سے نقل کرنے والے علما:

مندرجہ ذیل علماء نے طاہر ابوہالہ کی روایت کو بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے :

١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں سند کے ساتھ سیف بن عمر سے ۔

٢۔ ابن عبدا لبر نے استیعاب میں سند کے ساتھ سیف سے ۔

٣۔ بغوی نے معجم الصحابہ میں سند کے ساتھ سیف سے۔

٤۔ حموی نے معجم البلدان میں سندذکر کئے بغیر ۔

٥۔ مرزبانی نے معجم الشعراء میں ۔

۲۹۷

٦۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں استیعاب سے سیف بن عمر کے نام کی صراحت کے ساتھ ۔

٧۔ عبد المومن نے مراصد الاطلاع میں حموی کی کتاب معجم البلدان سے ۔

٨۔ ذہبی نے سیر النبلاء میں براہ راست سیف بن عمرسے ۔

٩۔ پھر ذہبی نے کتاب التجرید میں کتاب اسد الغابہ سے ۔

١٠۔ ابن حجر نے '' الاصابہ '' میں مرزبانی کی کتاب '' معجم الشعراء ''سے اور براہ راست سیف بن عمرسے بھی۔

١١،١٢،١٣،١٤۔ ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن خلدون ، اور میر خواند ، ہر ایک نے الگ الگ افسانۂ طاہر کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

یہاں تک سیف بن عمر کے قبائل تمیم سے جعل کئے گئے ٢٣ ،اصحاب کے سلسلے میں بحث و تحقیق مکمل ہوئی ۔

بارگاہ الٰہی سے دعا ہے کہ ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم دوسرے جعلی اصحاب اور سیف کے افسانوں کے بارے میں بحث و تحقیق کا نتیجہ علماء اور محققین کی خدمت میں پیش کریں ۔ مزید تمنا ہے کہ خدائے تعالیٰ مومنین کو بھی اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا نے کی توفیق عطا کرے خدائے تعالیٰ ہماری اس ادنیٰ کوشش کو قبول فرمائے ۔

و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین

مرتضیٰ العسکری

بغداد ٢٥ربیع الثانی ١٣٨٩ھ

۲۹۸

فہرستیں

مآخذ و مدارک

ابو مفزر

اسود بن قطبہ :

اسود کے حالات : '' مؤتلف دار قطنی ، اکمال ابن ماکولا ،اصابہ ابن حجر ( ١١٤١) اور تاریخ

دمشق ،قلمی نسخہ '' میں

ابو مفزر ، اسود بن قطبہ ، خالد کے ساتھ :

طبری،٢٠٣٦١۔٢٠٣،٢٠٧٢١

'' امغیشیا ، زمیل ، الثنی ، کی تشریح ، یاقوت حموی کی معجم البلدان میں ۔

ابو مفزر شام میں :

تاریخ ابن عساکر میں '' زیاد '' کے حالات کی تشریح ۔

یرموک کی جنگ ( ١ ٥٥٢ ) تاریخ ابن عساکر (٤٧٣) تہذیب ( ١٥٧ ) تاریخ ابن کثیر

اسود بن قطبہ ، عراق و ایران میں :

تاریخ طبری ، ٤ھ کے حوادث( ص٢٢٧٦)و ١٦ھ کے حوادث ( ص٢٤٣٣و

ص٢٤٢٩) ابن اثیہ ( ٣٩٧٧٢)و (٦٣٧) ابن کثیر ۔

مدائن کی تشریح میں اس کے اشعار ( ٢٨٣١) اس طرح بلاذری کی فتوح البلدان ص٣٦٦

دینوری کی اخبار الطوال (ص١٢٦)

۲۹۹

ابو مفزر کی سرگرمیاں :

تاریخ طبری ، ٤ھ حوادث کے( ص ٢٢٧٦ ) اور ١٦ ھ کے حوادث ( ص ٢٤٣٣) و

(ص٢٤٢٩) و ابن اثیر ( ٢ ٣٩٧٧ ) اور ابن کثیر ( ٧ ٦٣ )۔

معجم البلدان میں '' بہر سیر'' کی تشریح وا'' الروض المعطار'' ( ١ ٢٦ ) میں مدائن اور فریدون

کی تشریح ۔

ابو مفزر:

اصابۂ ابن حجر(١٩١٤،نمبر ١١٢١ق٣)

طبری (٢٥٧١١۔٢٥٧٣)،(٢٦٥٩١)

نہج البلاغہ ،شرح ابن ابی الحدید خط نمبر ٩٥ ،نصر مزاحم کی ''صفین ''(ص١٠٦)

نافع بن اسود تمیمی

طبری (٢٤٣٤١اور ٢٤٧٢)

ابن اثیر (٤٠٠٢)

ابن کثیر (٥٨١ و٧١ )

تاریخ ابن عساکر (٥١٨١۔٥١٩ )اور اسود کی داستان ،کتاب خانہ دمشق میں موجود قلمی نسخہ اکمال ابن ماکولا (مصر کے دارالکتب میں قلمی نسخہ ) ج١ ص١٩،٢٩و٤٠

ابن حجر کی اصابہ (٥٥٠٣ نمبر٨٨٥٠ق٣)

حموی کی ''معجم البلدان ''میں لفظ ''برجان ،بسطام ،جرجان ، رزیق اور رے ''کی تشریح ۔ حمیری (١٥٤٢)اور (١٥٥١)

نصر مزاحم کی ''صفین ''

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371