ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138177 / ڈاؤنلوڈ: 4300
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

دھمکی اور دباؤ

ہمارے ان مباحث کے شائع ہونے کے بعد جو مؤلفین کی حیرت اور بے یقینی کا باعث ہوئے ان کے علاوہ ہم یونیورسٹیوں ،اداروں ،دینی مدرسوں اور بعض اشخاص کی طرف سے علمی ظلم وستم یا دھمکی اور دباؤ کے شکار ہوئے ،اور بعض فرقوں نے ہماری کتاب کا پڑھنا حرام قرار دے دیا!اور بعض حکومتوں نے اپنے ملک میں اس کتاب کے داخلہ پر پابندی لگادی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے مباحث کے شائع ہونے کے سبب ان تمام سختیوں اور دھمکیوں کا سرچشمہ ان کے بیہودہ اور بے بنیاد فخرو مباہات کادرہم برہم ہوناہے ۔کیونکہ جو لوگ ایک ہزار سال سے آج تک تاریخ وسیرت وغیرہ کی اپنی مورد اعتماد اور قابل اطمینان کتابوں سے اپنے اسلاف کی کرامتوں اور مناقب کے قابل افتخار معلومات وراثت میں حاصل کرچکے ہیں ،اس پر ہرگز آمادہ نہیں ہوسکتے کہ اپنے ان اعتقادات کو آسانی کے ساتھ تعجب خیز اور حیرت انگیز صورت میں سر نگوں ہوتے دیکھیں اور کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہ کریں !

اس قسم کی علمی اور کاری ضرب کے مقابلے میں تہمت وافتراء ایک قدرتی امر ہے اور خلاف توقع نہیں ہے ۔کیونکہ اگر کسی نے اپنے اعتقادات کی بنیاد پر عمدہ ،گراں قیمت اور قدیم اشیاء کاایک مجموعہ جمع کیاہو اور ان جمع کردہ تمام اشیاء کے اصلی ہونے کا ایمان رکھتاہو اور اچانک ایک تجربہ کار اور آثار قدیمہ کا ماہر آکر یہ کہے کہ یہ سب چیزیں نقلی اور مصنوعی ہیں ،تو قدرتی طور پر اس کا مالک ہرگز خاموش نہیں بیٹھے گا بلکہ اس ماہر کے نظریہ کے مقابلے میں ضرور رد عمل دکھائے گا۔

گزشتہ کاخلاصہ

ہم نے بیان کیاکہ علم تاریخ اور دیگر اسلامی مصادر ومآخذ کی بنیاد روایت پر ہے۔اس صورت میں کہ کسی مطلب کے اظہار کے لئے ہر نسل اپنی پیشرونسل اور ہر راوی اپنے گزشتہ زمانے کے راوی سے استناد کرتاہے تا کہ خبر کے زمانے اور اس کے سرچشمہ تک پہنچ جائے۔

۴۱

اس راہ میں '' طبری'' جیسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اپنی روایت کے منبع یامنابع کا نام لے لیتے ہیں ۔اور ''مسعودی''جیسے بھی ہیں جو روایت کے اسناد ومنابع کانام نہیں لیتے۔

جیسا کہ بیان ہوا روایت کو متأخر اپنے متقدم سے حاصل کرتاہے ۔اگر ہم متقدم اور متاخر کے ہاں ایک روایت یا خبر کو ایک دوسرے سے مشابہ پائیں تو اگر چہ اس متاخر نے اپنی روایت کی سند کو مشخص نہ کیا ہو پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ:اس خبر کو متاخر شخص نے اپنے متقدم سے لیاہے۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً دس صدیوں سے دانشوروں نے سبائیوں کے افسانہ کو ہمارے زمانے تک دست بدست منتقل کیاہے،حالانکہ ان سب کی سند صرف سیف پر منتہی ہوتی ہے جو زمانے کے لحاظ سے ان سب کا متقدم تھا۔چونکہ ہمیں معلوم ہواہے کہ سیف کی سرگرمیوں کے آغاز کازمانہ دوسری صدی ہجری کا ابتدائی چوتھائی دور تھا اس لئے اس کے بعد آنے والے تمام اسلامی مولفین نے ان افسانوں کو اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور اپنی بات کو سیف سے نقل کیاہے۔

اسی طرح ہم نے دیکھا کہ اس قابل مذمت خاندانی تعصب نے سیف کے زمانے میں ہنگامہ برپاکررکھا تھا،حتیٰ قبائل ''عدنان ومضر'' کے متعصب لوگوں کو اس تعصب نے قبائل''قحطان ویمانی'' کو بدنام کرنے کے لئے اشعار کہنے پر آمادہ کیا اور وہ اپنی تعریف وتجلیل کرکے اپنے فخرو مباہات بیان کرتے تھے۔''قحطانی'' بھی اسی رویہ پر چل کر مضریوں اور نزاریوں کی مذمت میں کسی قسم کی کسر باقی نہیں رکھتے تھے۔

تعصب کی اس نبرد آزمائی میں سیف نے عدنانیوں کی مدح وستائش اور یمانی قحطانیوں کی مذمت وناسزا گوئی میں افسانے گڑھ کر دونوں قبیلوں کے درمیان اس تعصب کی جنگ میں سبقت حاصل کی ہے۔

سیف کا پیدائشی وطن عراق زندیقیوں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔وہ سر توڑ کوشش کررہے تھے کہ حدیث وخبر جعل کرکے مسلم تاریخی ودینی حقائق کو مسلمانوں سے مخفی رکھیں اور انھیں گمراہ ومنحرف کریں ۔یہاں پر سیف نے افسانے گڑھ کے اس فریضہ کو انجام دیا اور حقیقت میں اس نے اس مشن کو کامیابی کے ساتھ انجام دے کر سب پر سبقت حاصل کی ہے۔

۴۲

کتاب ''عبدا للہ بن سبا'' کی پہلی جلد میں جہاں ہم نے سیف کی باتوں کی وقعت کے بارے میں چھان بین کی ہے،وہاں ہم نے دیکھا کہ مخلص اور غیر جانبدار علماء اور دانشوروں نے سیف کو جھوٹا ،حدیث گڑھنے والا اور ناقابل اعتبار شخص بتایا ہے۔ہم نے مزید تحقیقات کے نتیجہ میں پایا کہ سیف نے اپنی حدیثوں میں تاریخی حقائق اور واقعی حوادث میں تحریف کی ہے اور بہت سے افسانے جعل کئے ہیں اور ان سب افسانوں کو ،روایت کی بنیاد پر لکھاہے اور اپنی ہر روایت کے لئے خیالی شخصیتوں پر مشتمل اسناد ،جو خود ان افسانوں کے تخلیق کار ہیں اور جنھیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

اس نے افسانوں میں پہلوان اور سورماخلق کئے ہیں اور ان سے حیرت انگیز کارنامے اور غیر معمولی کرامتیں منسوب کی ہیں ۔بعض علماء نے سیف اور اس کی باتوں پر اعتماد کرکے اس کی خیالی اور افسانوی شخصیتوں کو سیف کے ذریعہ مشخص کی گئی حیثیت ،منصب اور عہدہ کے مطابق اپنی کتابوں میں ،''اصحاب ر سولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،احادیث کے راوی ،سپہ سالار ،گورنر،ڈپٹی کمشنر،شعرااور رجز خوانوں '' کی حیثیت سے تشریح کرکے سیف کے افسانوں کے پھیلاؤ میں مدد کی ہے ۔ہم نے ان مطالب کی ، اپنی کتاب ''عبد اللہ ابن سبا'' اور اس کتاب (١٥٠ جعلی اصحاب )کی بحثوں کے ضمن میں تحقیق کی ہے

ہم نے سیف کے چند جعلی اصحاب کاذکر اس کتاب کی پہلی جلد میں اور بعض دیگر کاذکر اس کی (دوسری)جلد میں کیاہے ۔گزشتہ بیان اور طریقہ کارکے مطابق ہم مشکوک وجود والے صحابی کی تمام روایتیں ایک جگہ پرجمع کرتے ہیں تاکہ متقدمین کے ہاں اس کی سند پاسکیں ۔اگر اس تحقیق کے دوران اس صحابی کانام یا اس کی کوئی روایت سیف کے علاوہ کہیں اور پائی جاتی ،توہم شک وشبہہ سے نکل کراسے سیف کی تخلیق محسوب نہیں کرتے اور اس کے سلسلے میں تحقیق وجستجو سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں ۔

لیکن اگر اس قسم کے صحابی کی روایت سیف ہی کے یہاں منحصر ہوتو اس صورت میں سیف کی اس روایت کو کسی دوسرے راوی کی اس سے مشابہ روایت کے ساتھ مقابلہ و موازنہ کرتے ہیں اور تحقیق کے خاتمہ پر نتیجہ کا اعلان کرتے ہوئے زیر بحث صحابی کو سیف کے جملہ افسانوی اور جعلی صحابیوں میں شمار کرتے ہیں ۔

۴۳

اس سلسلے میں ہم نے خاندان مالک تمیمی کے ''قعقاع'' اس کے بھائی ''عاصم '' اور ا''اسود بن نافع'' کو مثال کے طور پر ذکر کیا ہے ،جنھیں سیف نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر پیش کیاہے۔ا ن کے بارے میں باسند یا بدون سندروایتوں کو مختلف منابع سے جمع کرنے کے بعد ہم متوجہ ہوئے کہ ان سے متعلق تمام ایک سو تیس روایات سیف بن عمر تمیمی پر منتہی ہوتی ہیں ۔اس طرح ان روایتوں کے اسناد اور دسیوں دیگر مذکورہ راویوں سے نقل کی گئی تمام کی تمام روایات سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں !

ان کے بارے میں سیف نے جو روایات نقل کی ہیں وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے معاویہ کی حکومت کے زمانے تک پھیلی ہوئی ہیں ۔یہ اخبار وروایات جنگوں میں ان کی شجاعتوں ،ان کی کرامتوں اور معجزوں اور ان کی رجز خوانیوں اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث نقل کرنے سے متعلق ہیں اور سب کی سب سیف کی نقل کردہ ہیں !

ان کی تحقیق کے لئے ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاریخ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے کے بارے میں لکھی گئی سیرت کی کتابوں ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی زبانی ثبت کی گئی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی کتابوں اور اصحاب وتابعین کے گروہوں ان کی جائے پیدائش کے مطابق ترتیب دی گئی طبقات کی کتابوں کی طرف رجوع کیا۔لیکن ان میں سے ایک میں بھی سیف کی روایتوں کا نام ونشان نہیں پایا۔

ہم نے ،اخبار کے راویوں کا ذکر کرنے والی کتابوں ،انساب کی کتابوں ،اصحاب کی سوانح حیات کی کتابوں اور تاریخ وادبیات کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور مشاہدہ کیا کہ وہ تمام روایتیں یا اخبار جن میں اس خاندان (مالک تمیمی)کا کوئی نام ذکر ہواہے ،ان کی تمام سندیں سیف بن عمر تمیمی پر منتہی ہوتی ہیں ۔سیف کی ان روایتوں اور احادیث کے اسناد کی تحقیق کے علاوہ ہم نے سیف کی ان سے منسوب کی گئی ہر خبر وروایت کا دوسرے راویوں کی نقل کردہ اس سے مشابہ خبر اور حدیث کے ساتھ موازنہ ومقابلہ کیا اور نتیجہ کے طور پر ہمیں درج ذیل دو صورتوں میں سے کسی ایک کا سامنا ہوا:

١۔ خبر یاحدیث سرتاپا،سند ومتن سے لے کر اشخاص اور مقامات تک،افسانہ اور جھوٹ ہے۔

٢۔ صحیح خبر وحدیث مین تحریف کی گئی ہے ،خبرکے مرکزی کردار کے طور پر کسی جعلی سور ماکوقرار دیا گیا ہے !

۴۴

اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ سیف کے جعلی صحابی اور حقیقی صحابی میں یہ فرق ہے کہ حقیقی صحا بی کی خبر کی سند ،خالد بن ولید اور اس جیسے دیگر اصحاب کے مانند ہوتی ہے ،جب کہ جعلی صحابی کی روایت کی سند صرف ایک مصدر (سیف ) سے مخصوص ہے ۔

حقیقی اصحاب کے نام اور ان کی زندگی کے حالات سیکڑوں احادیث میں دسیوں راویوں سے نقل ہوئے ہیں ۔ان کے نام سیرت ،حدیث اور طبقات کی ان کتابوں میں آئے ہیں جن میں سیف کے جھوٹ پر مبنی روایات کو درج کرنے سے اجتناب کیاگیاہے ۔جب کہ سیف کے جھوٹ اور اس کے افسانے ''جیسے اصحاب کے حالات ،جنگوں کے سپہ سالار ۔شعراء ،شجرۂ نسب ،جغرافیہ ،تاریخ ، ادب اور حدیث وغیرہ ''اس کی اپنی کتابوں کے علاوہ ان کتابوں میں درج ہوئے ہیں ،جنھوں نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرکے ان پر یقین کیاہے اور اس سلسلے میں سیف کے افسانوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور ہم نے گزشتہ بحثوں میں ان کا ذکر کیاہے۔

سیف کے جعل کردہ چند اصحاب کے نام

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے جعلی اصحاب میں سے دویعنی :

١۔ قعقاع بن عمرو تمیمی اور

٢۔عاصم بن عمرو تمیمی

کی زندگی کے حالات ،ان کی شجاعتوں ،کرامتوں اور ان کے غیر معمولی کارناموں کی تفصیل بیان کی ہے۔سیف نے ان کو تخلیق کرکے اپنے خاندان (بنی تمیم) کے لئے فخرومباہات جعل کئے ہیں اور ان کے وجود پر ناز کیاہے۔یہاں پر ہم اس کتاب میں ذکر ہوئے سیف کے چند دیگر جعلی اصحاب کا نام لیتے ہیں :

٣۔ اسودبن قطبہ ،مالک تمیمی کا پوتا

٤۔ ابو مفزر تمیمی

٥۔نافع بن اسود ،قطبۂ تمیمی کا پوتا ۔اسے اس نے شیعہ ٔامیرالمؤمنین علی ـکے عنوان سے ذکر کیاہے۔

٦۔ عفیف بن منذر تمیمی

۴۵

٧۔ زیاد بن حنظلہ تمیمی۔اسے بھی اس نے شیعہ امیرالمومنین ـکے طور پر پیش کیاہے۔

٨۔ حرملہ بن مریطہ تمیمی

٩۔حرملة بن سلمی تمیمی

١٠۔ربیع بن مطر بن ثلج تمیمی

١١۔ربعی بن افکل تمیمی

١٢۔اطّ بن ابی اطّ تمیمی

١٣۔سعیر بن خفاف تمیمی

١٤۔عوف بن علاء جشمی تمیمی

١٥۔اوس بن جذیمہ تمیمی

١٦۔سہل بن منجاب تمیمی

١٧۔وکیع بن مالک تمیمی

١٨۔حصین بن نیار حنظلی تمیمی

١٩۔زر بن ابن عبد اللہ فقیمی تمیمی

٢٠۔اسود بن ربیعہ تمیمی

٢١۔حارث بن ابی ہالہ تمیمی ۔جسے ا س نے حضرت خدیجہ کا بیٹا اور حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں تربیت یافتہ بتایاہے۔

٢٢۔زبیر بن ابی ہالہ تمیمی ۔اسے بھی ام المومنین حضرت خدیجہ کا بیٹا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تربیت یافتہ بتایاہے۔

٢٣۔طاہر بن ابی ہالہ تمیمی کہ اسے اس نے خدیجہ کا بیٹا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں تربیت یافتہ شمار کیا ہے ۔

۴۶

تیسرا حصہ :

خاندان مالک تمیمی سے چند اصحاب

اس کتاب کی پہلی جلد میں خاندان مالک تمیمی کے دو اصحاب ''قعقاع بن عمرو'' اور ''عاصم بن عمرو''کے حالات زندگی کی تشریح کی گئی ہے ۔

یہاں پر ہم اس خاندان کے مزید تین افراد ،اسود ، ابو مفزر ،اور نافع کے حالات پر روشنی ڈالیں گے ۔

* ٣۔اسود بن قطبہ تمیمی

* ٤۔ابو مفزر تمیمی

* ٥۔نافع بن اسود تمیمی

سیف کا تیسرا جعلی صحابی اسود بن قطبہ تمیمی

ابن ماکولانے اپنی کتاب ''الاکمال'' میں لکھا ہے :

سیف بن عمر کہتا ہے کہ : اسود نے فتح قادسیہ اور اس کے بعد والی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔ اس نے سعد وقاص کی طرف سے فتح جلولا کی نوید عمر کو پہنچائی ہے ۔ دارقطنی نے کتاب'' المؤتلف'' میں اسود کے حالات بیان کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے :

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں سیف بن عمر نے اسود کے بارے میں اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ۔

ابن عساکر نے بھی اسود کے حالات میں لکھا ہے :

وہ ایک نام آور شاعر ہے ۔اس نے یرموک ،قادسیہ اور دیگر جنگوں میں شرکت کی ہے اور ہر ایک جنگ میں حسب حال اشعار بھی کہے ہیں اور ان میں اپنی اور اپنے خاندان کی شجاعتوں کا ذکر کیا ہے ۔

۴۷

اس کے بعد ابن عساکر نے اسود کے اشعار کے ضمن میں سیف کی روایتوں کو اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور جو کچھ ہم نے کتاب ''اکمال '' اور کتاب '' والمؤتلف'' سے نقل کیا ہے اس نے ان ہی سے اپنے مطالب کو اختتام بخشا ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں گزشتہ منبع سے نقل کرنے کے علاوہ سیف کی کتاب ''فتوح'' سے اسود کے حالات نقل کئے ہیں ۔

اس طرح ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اسود بن قطبہ تمیمی کے بارے میں تمام باتوں کا منبع و سرچشمہ صرف اور صرف سیف بن عمر ہے ۔

اب ہم بھی سیف کے افسانوی افراد ابو مفزر اور اسود بن قطبہ تمیمی کو خود اس کی باتوں سے ثابت کریں گے کہ وہ جعلی شخصیتیں ہیں ۔

سیف کی نظر میں اسود کا خاندان

سیف نے ابو بجیدہ نافع بن اسود ،یعنی اپنے اس افسانوی شخص کے بیٹے سے نقل کی گئی روایتوں میں اسود کے شجرہ ٔنسب کو اس طرح تصور کیا ہے :

اسود ،جس کی کنیت ابو مفزر ہے ،قطبہ کا بیٹا اور مالک عمری کا پوتا ہے جو قبیلہ تمیم سے تعلق رکھتا تھا۔

سیف نے اسود کے لئے اس کا ایک بھائی بھی فرض کیا ہے اور اس کا نام اعور رکھا ہے ۔

اسود خالد کے ساتھ عراق میں

سیف کی باتوں کو نقل کرنے والے ،اسود کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں :

ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں اسود بن قطبہ نے خالد بن ولید کے ہمراہ جنگوں میں شرکت کی ہے ۔

اس مطلب کو ہم درج ذیل روایتوں میں پڑھتے ہیں :

۴۸

امغیشیا کی جنگ

طبری نے ١٢ھکے حوادث کے ضمن میں امغشیا کی جنگ کے بارے میں لکھا ہے :

الیس کی جنگ کے بعد خالد بن ولید نے امغیشیا کی طرف فوج کشی کی ۔یہ ''حیرہ'' جیسی سرزمین تھی اور فرات '' باذقلی '' اس زمین کو سیراب کرتی تھی ۔وہاں کے باشندے خالد کے بے امان حملوں کے خوف سے اپنا تمام مال ومتاع چھوڑ کر عراق کے دوسرے شہروں کی طرف بھاگ گئے تھے

خالد جب محافظوں سے خالی شہر میں داخل ہوا تو اس نے حکم دیا کہ شہر کو تباہ کرکے اسے نیست و نابود کردیں ۔خالد کے سپاہیوں کو شہر امغشیا کو اپنے قبضے میں لینے کے نتیجہ میں ایسا مال ملا کہ اس دن تک ایسی ثروت کبھی ان کے ہاتھ نہیں آئی تھی ۔ہر ایک سوار کے حصے میں صرف مال غنیمت کے طور پر ایک ہزار پانچ سو ملا ۔یہ مال اس انعام و اکرام کے علاوہ تھا جو عموما جنگجوئوں کو انعام کے طور پر دیا جاتا تھا ۔

جب امغیشیا کی فتح کی خبر ابوبکر کو پہنچی تو اس خبر کے پہنچانے والے نے یہ شعر کہا:

''آپ کے شیر خالد نے ایک شیر پر حملہ کرکے اس کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کا تر و تازہ گوشت اس کے ہاتھ آیا ہے !بے شک ،عورتیں خالد جیسے کسی اور پہلوان کو ہر گز جنم نہیں دیں گی!!''

یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں طبری کی مذکورہ داستان کو امغشیا کے حالات میں خلاصہ کے طور پر یہاں تک بیان کیا ہے کہ سپاہیوں کو غنیمت کے طور پر بہت سا مال ملا اس کے بعد وہ اضافہ کرتا ہے : '' ابو مفزر '' نے اس جنگ میں چند اشعار کہے ہیں اس کے بعد اس کے چار شعر ذکر کئے ہیں :

۴۹

اسود ،'' الثنی'' اور ''زمیل '' کی جنگوں میں

طبری ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :

'' ربیعة ابن بجیر تغلبی '' اپنے لشکر کے ہمراہ سر زمین '' الثنی '' و ''بشر '' میں داخل ہوا یہ وہی سرزمین '' زمیل '' ہے اور قبیلہ '' ہذیل'' والے وہاں کے ساکن تھے ۔خالد جب جنگ '' مصیخ'' سے فارغ ہوا تو وہ ''الثنی ''و '' زمیل'' کی طرف روانہ ہوا ۔یہ علاقہ آج کل ''رصافہ'' کی مشرق میں واقع ہے ۔خالد نے دشمن کو تین جانب سے محاصرہ میں لے لیا اور رات کی تاریکی میں تین طرف سے ان پر حملہ کرکے ایسی تلوار چلائی کہ اس جنگ میں ان کا ایک آدمی بھی صحیح و سالم بھاگ نہ سکا کہ اس خوفناک قتل عام کی خبر دوسروں تک پہنچائے ۔خالد نے وہاں کے جنگی غنائم کا پانچواں حصہ (خمس) ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا۔

طبری اس داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتاہے :

قبیلہ ٔ ہذیل والے اس جنگ سے بھاگ گئے اور انھوں نے زمیل میں پناہ لے لی سیف اس جگہ کو ''بشر '' کہتا ہے اور'' عتاب بن فلان'' کا سہارا لیا ۔عتاب نے ''بشر '' میں ایک بڑا لشکر تشکیل دیا تھا ،خالد نے اسی جنگی چال کو یہاں پر بھی عملی جامہ پہنایا ،جس سے اس نے ''الثنی ''کی جنگ میں استفادہ کیا تھا اور '' عتاب'' کی فوج پر رات کی اندھیری میں تین جانب سے حملہ کیا اور دشمن کے ایسے کشتوں کے پشتے لگا دئے کہ اس دن تک کسی نے ایسا قتل عام نہیں دیکھا تھا خالد اور اس کے سپاہیوں نے اس جنگ میں کافی مال غنیمت پایا۔

یہ وہ مطالب تھے جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور دوسرے مؤلفین نے بعد میں یہی مطالب اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں ۔

حموی نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کرکے '' الثنی'' کی تشریح میں لکھا ہے :

۵۰

'' الثنی'' اول پر فتحہ دوسرے پر کسرہ اور یائے مشدد ''رصافہ'' کے مشرق میں ایک معروف سر زمین ہے '' تغلب '' اور'' بنو بحیر'' کے خاندان خالد بن ولید سے لڑنے کے لئے وہاں پر جمع ہوئے تھے اور ایک لشکر گاہ تشکیل دی تھی ۔لیکن خالد نے اپنی جنگی چال سے ان پر فتح پائی اور سب کو قتل کر ڈالا ۔یہ جنگ ابوبکر کی خلافت کے زمانے میں ١٢ھ میں واقع ہوئی ہے اور ابو مفزر نے اس جنگ سے متعلق اشعار کہے ہیں ۔

اس کے بعد حموی ان مطالب کے شاہد و گواہ ابو مفزر کے پانچ اشعار اپنی کتاب میں نقل کرتاہے ۔

یہی دانشور لفظ ''زمیل '' کے بارے میں سیف کی کتاب ''فتوح'' سے نقل کرکے لکھتاہے :

'' زمیل'' رصافہ کی مشرق میں ''بشر'' کے نزدیک ایک سر زمین ہے ۔خالد بن ولید نے ١٢ھ میں ابوبکر کی حکومت کے زمانے میں اس علاقہ کے '' تغلب '' و ''نمیر'' اور دیگر قبیلوں پر حملہ کرکے ان سے جنگ کی ابو مفزر نے اس جنگ کے بارے میں کچھ اشعار کہے ہیں ۔

مذکورہ مطالب کے ضمن میں حموی نے ابو مفزر کے پانچ اشعار شاہد کے طور پر سیف سے نقل کئے ہیں ۔ ان اشعار میں ابو مفزر نے '' الثنی'' اور اس جگہ کی جنگ کا تصور پیش کیا ہے اور '' زمیل'' و ''بشر '' کا نام لیا ہے ۔اس کے علاوہ ''ہذیل '' ،'' عتاب'' ''و عمرو'' اور دیگر پہلوانوں کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے کس طرح اپنے بے امان حملوں سے ان کے فوجیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور ان کے مال و متاع حتی عورتوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا !

عبد المؤمن نے بھی حموی کے مطالب کا خلاصہ اپنی کتاب ''مراصدالاطلاع'' میں نقل کیا ہے ۔

ابن عساکر ابو مفزر کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :

ابو مفزر نے خلافت ابوبکر کے زمانے میں ''حیرہ'' کی فتح کے بعد اپنے چند اشعار کے ضمن میں یوں کہا ہے :

'' ہماری طرف سے ابوبکر کو یہ پیغمام پہنچا ئو اور یہ کہہ دو کہ :ہم نے ساسانی بادشاہوں کی نصف سے زیادہ سرزمینوں اور شہروں پر قبضہ کر لیا ہے ۔

۵۱

جو کچھ ہم نے یہاں تک ذکر کیا یہ سیف کے وہ مطالب ہیں جو اس نے '' امغشیا '' ،'' بشر '' اور حیرہ کی فتوحات اور خالد کی کارکردگیوں اور اس کی جنگی چالوں کے بارے میں لکھے ہیں ۔ جبکہ بلاذری نے صدر اسلام کی جنگوں اور حوادث کے بارے میں اپنی کتاب میں انتہائی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ان واقعات کے تمام جزئیات کو قلم بند کیا ہے اور ان میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے، لیکن سیف کے مذکورہ مطالب میں سے کسی ایک کی طرف بھی اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں اشارہ تک نہیں کیاہے۔

سیف کی روایات کی تحقیق

''امغیشیا'' کے بارے میں سیف کی٩ روایتوں کی ایک سند کے طور پر طبری نے ''محمد بن نویرہ '' کانام لیا ہے اور ہم نے قعقاع کی داستان میں کہا ہے کہ وہ سیف کا جعلی راوی ہے اور حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتا۔ دوسرا ''بحر بن فرات عجلی'' ہے کہ ہم نے اس راوی کو بھی سیف سے ہی پہچانا ہے کہ اس کی دوروایتوں میں اس کا نام لیا گیا ہے اور اس کے علاوہ یہ نام حدیث کی ان تمام کتابوں میں کہیں نہیں پایا جاتا جن میں حدیث کے راویوں کے نام اور ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم اسے بھی سیف کی تخلیق شمار کرتے ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ

١۔حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں سیف سے نقل کرکے ''امغیشیا'' نام کے ایک شہر کا ذکر کرتاا ہے اور سیف کے افسانوی شاعر ابو مفزر کی زبانی اپنے مطالب کی تائید میں اشعار ذکر کرتا ہے۔ لیکن طبری نے اپنی روش کے مطابق ابو مفزرکے بارے میں اپنے مطالب کے آخر میں ان اشعار کو حذف کردیا ہے۔

۵۲

جس شہر ''امغیشیا'' کی بڑی عظمت اور اہمیت کے ساتھ سیف نے تعریف کی ہے.ممکن تھا کہ سیف کے زمانہ سے نزدیک ہونے اور ابوبکرکے زمانہ میں اس جنگ کے واقع ہونے کی وجہ سے لوگ سیف کے جھوٹ کو شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ،لہٰذا اس نے بڑی چالاکی و شیطنت سے اس کا بھی حل نکال لیا، لہٰذا وہ اپنے افسانوی شہر امغشیا کی روئیداد کو اس حد تک پہنچاتا ہے کہ خالد نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ شہر کو ایسا ویران اورنیست و نابود کردیں کہ زمین پر اس کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ اس طرح سیف اطمینان کا سانس لیتا ہے اور ''امغشیا'' کے نام سے جعل کئے گئے اپنے شہر کے وجود کے بارے میں اٹھنے والے ممکنہ سوالات سے اپنے آپ کو بچالے جاتا ہے۔

٢۔سیف نے اپنے افسانوی شہر ''امغشیا'' کو خالد مضر ی کے ہاتھوں ویران اور نابود کرکے ایک طرف خاندان قریش و تمیم کے لئے فخر و مباہات کا اظہار کر کے اپنے خاندانی تعصبات کی پیاس بجھائی ہے اور دوسری طرف اپنے زندیقی مقصد کے حصول کے لئے ایسے بے رحمانہ اور وحشتناک قتل عام کو اسلام کے سپاہیوں کے سر تھوپتا ہے کہ ایک ہزار دوسو سال تک دہشت گردی اور بے رحمی کا یہ قصہ تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوتارہے اور اسلام کے دشمنوں کو بہانہ ہاتھ آئے !جبکہ اسلام کے سپاہیوں کا دامن ایسے جرائم سے پاک اور منزہ ہے۔

٣۔''الثنی'' و''زمیل'' کی جنگوں کی داستان کو طبری نے سیف سے رجز خوانیوں کے بغیر نقل کیاہے۔ لیکن حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے مصدر یعنی سیف کی کتاب ''فتوح '' کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے صرف ''زمیل'' کے بارے میں نقل کیا ہے۔

سیف نے ان دوروایتوں میں خاندان تمیم کے لئے افتخار حاصل کیا ہے اور اپنے دیرینہ دشمن ربیعہ پر کیچڑ اچھا لتے ہوئے کہتا ہے:وہ اپنی عورتوں کو تمیم کے طاقت ور مردوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہوتے دیکھ کر رسوا ہوگئے۔

۵۳

سیف کی روایتوں کا ماحصل

١۔اس نے تین جگہیں تخلیق کی ہیں تا کہ جغرافیہ کی کتابوں میں ان کا نام درج ہوجائے.

٢۔ایک مختصر جملہ میں خالد کی تعریف کی ہے تا کہ اسے شہرت بخشے :''عورتیں خالد جیسے سور ماکو ہرگز جنم نہیں دے سکتیں ''۔

٣۔اس نے خاندان تمیم کے لئے افتخارات جعل کئے ہیں اور قبائل ربیعہ پر مذمت اور طعنہ زنی کی بوچھار کی ہے۔

٤۔اس نے اشعار کہے ہیں تا کہ شعر و ادب کی کتابوں میں درج ہو جائیں ۔

٥۔سر انجام اس نے تاریخ اسلام میں قبائل تمیم سے ''اسود بن قطبہ'' نامی ایک صحابی ، سپہ سالار اور حماسی شاعر کا اضافہ کیا ہے جو سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتا۔

۵۴

اسود بن قطبہ، سرزمین شام میں

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا ہے وہ ابو مفزر کے رزمیہ اشعار اور خالد کے ساتھ عراق کی جنگ میں اس کے بارے میں سیف کے بیان کردہ مطالب تھے۔ اس سلسلے میں اس کے بہت سے اشعار ہم نے ذکر نہیں کئے ہیں ۔

اب ہم سیف کے اس جعلی صحابی کو شام کی جنگوں میں اپنے رزمیہ اشعار کے ساتھ تاریخ ابن عساکر میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ یہ عالم ''اسود'' کے حالات میں صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر کہتا ہے:

سیف بن عمر کہتا ہے کہ اسود بن قطبہ نے یرموک کی جنگ میں شرکت کی ہے اس کے بعد اس نے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے۔ وہ جنگ یرموک کے بارے میں اپنے اشعار میں یوں تعریف کرتا ہے:

اس کے بعد ابن عساکر، اس کے اشعار میں سے تقریباً٦ ١،اشعار کو تین حصوں میں ا پنی کتاب میں درج کرتا ہے کہ ابو مفزر ان اشعار میں یرموک کی جنگ، ہر اکلیوس کی شکست اور اسلامی سپاہیوں کے ہاتھوں رومیوں کے بے رحمانہ قتل عام کاذکر کرتا ہے ۔ اور قبیلہ بنی عمرو کے مقا بلے میں دشمن کی فوج کی کثرت اور ان کی بے لیاقتی کا مذاق اڑاتا ہے ۔ ان کے کشتوں کے پشتے لگا دینے ، ان کے تمام افراد کو خاک و خون میں لت پت کرنے اور زمین کو رومیوں کے خون سے سیراب کرکے اپنے دلوں کو آرام بخشنے پر داد سخن دیتا ہے. سر انجام نحویوں کی روش کے مطابق ''عمر ووزید '' کو اپنے مطالب پر گواہ قرار دیتا ہے .لیکن ''عمرو و زید کو گواہ قرار دینا بذات خود مذکورہ رزمیہ اشعار کا ان جنگوں کی روئیداد کی تاریخ کے بعد کہے جانے کی واضح اور قطعی دلیل ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر کوفہ و بصرہ کے عملی مراکز قرار پانے کے بعد عربی ادب کے گروہ اور اس زبان کے صرف و نحو کے قواعد نے شہرت پائی اور اسی زمانے سے لفظ ''زید و عمرو '' کو عربی زبان کے نحو کے قواعد میں مثال کے طور پر لانا رائج ہوا جیسے کہتے تھے:

''ضرب زید عمرا '' یا ''جاء زید ثم عمرو '' یا ان اکرمت زیدا ''لأکرمت عمرا''۔اس طرح ''زید و عمرو '' کو فاعل و مفعول اور مبتداء و خبر کے لئے و سیلہ قرار دیتے تھے۔ تدریس کے اس طریقہ کارنے عام مقبولیت حاصل کرکے نمایاں شہرت پائی اور عربی زبان کی کتابوں میں ثبت اور تدریس میں مورد استفادہ قرار پایا.

۵۵

لیکن صدر اسلام کی فتوحات میں یہ رسم نہیں تھی کہ ''زید و عمرو'' کا نام لیا جاتا. بلکہ سخن کے مخاطب ان کی اپنی کنیزیں ، قبیلہ یا خاندان ہوتے تھے۔

ابن عساکر نے یرموک کی جنگ سے مربوط مذکورہ رزمیہ اشعار کے تیسرے قطعہ کو اپنی تاریخ کی کتا ب ''تاریخ دمشق'' میں نقل کیا ہے اور ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے۔

ہم نے ان مطالب کو اس کیفیت میں سیف کے علاوہ کہین نہیں پایا جبکہ دوسرے راویوں سے جنگ یرموک کے بارے میں صحیح اور متواتر روایتیں دستیاب ہیں اور ابن عساکر نے بھی ان روایتوں کو اپنی تاریخ میں ، اور بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں درج کیاہے اور یہ سب سیف کی روایتوں سے اختلاف رکھتی ہیں ۔

طبری نے یرموک کی خبر کے بارے میں سیف کی روایتوں کو نقل کیا ہے لیکن اس کے رزم ناموں کو اپنی روش کے مطاق در ج نہیں کیا ہے۔

جستجو

ابو مفزر جیسے شخص کے رزمی اشعار صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ، جبکہ دوسرے راوی نہ ابو مفزر کو جانتے ہیں نہ انھیں اس کے رزمیہ اشعار کی کوئی خبر ہے.اگر سیف کے ان اشعار پر غور و خوض کیا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ سیف اسی کوشش میں ہے کہ اپنے آپ کو ایک داخلی و نفسیاتی رنجش و غم و غصہ سے نجات دے اور اپنے خاندانی تعصبات کو اس قسم کے ا شعار کہہ کر ٹھنڈا کرے اور اپنے دل کو تسکین بخشے اور اپنے قبیلہ ''خاندان بنی عمرو '' کے لئے فخر و مباہات کے نمونے تخلیق کرے ملاحظہ ہو ، کہتا ہے :

۵۶

عمر و و زید جانتے ہیں کہ جب عرب قبائل ہمارے جاہ و جلال سے خوف زدہ ہوتے ہیں تو ڈر کے مارے بھاک کھڑے ہوتے ہیں .پھر ہم آسانی کے ساتھ ان کی سرزمینوں پر قبضہ جمالیتے ہیں ۔

ہم نے یرموک میں اس قدر تاخیر کی تا کہ رومی ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے خود کو آمادہ کرسکیں ، پھر ہم نے ان پر حملہ کرکے انھیں تہ تیغ کیا اور اپنی پیاسو ان کے خون سے بجھائی !

کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے یرموک میں ہر کلیوس کے جنگی دستوں کا کوئی پاس نہیں کیا اور انھیں مکمل طور پر تہس نہس کرکے رکھدیا؟

یہاں پرسیف اس احتمال سے کہ کہیں ان اشعار کے بارے میں قارئین یہ تصور نہ کریں کہ اسلام کے یہ سپاہی مھاجر وانصار تھے اور انھوں نے تجربہ کار اورجنگ آزمودہ رومیوں کا کوئی خوف نہ کیا ! لہٰذا اس شبہہ کو دور کرنے کی کوشش کرتاہے اور ابو مفزر کی زبانی یہ شعر کہتاہے:

یہ خاندان بنی عمرو اور قبیلہ تمیم کے افراد سیف خود بنی عمرو سے تھا تھے جو رومیوں کے مقابلے میں نبرد آزما ہوئے کیوں کہ وہ میدان جنگ کے ماہرجنگجو تھے ۔ ایسے جنگجو جو میدان کارزار میں کبھی تلوار وں کی جھنکار اور خوں ریزی سے خائف نہیں ہوتے تھے ،بلکہ مشکلات اور سختیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں ۔

بنی عمر و کے خاندان میں قوی ہیکل اور دلیر سردار پائے جاتے ہیں جو خطر ات کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہتے ہیں ۔

ہم خاندان بنی عمرو نے میدان کارزار میں بارہا دشمن کے مرکز پر حملہ کرکے ان پر خوف و دحشت طاری کی ہے ۔

یہ ہم خاندان بنی عمرو تھے جنھوں نے یرموک کی جنگ میں دشمن کی منظم صفوں کو چیر تے ہوئے آگے بڑھ کر رومیوں کے جنگل میں پھنسے اسلام کے سپاہیوں کو رہا ئی دلائی۔

اس کے بعد دعا کی صورت میں کہتا ہے :

خدا ایسا دن نہ دکھلائے جب ہر ا کلیوس کے سپاہی اپنے مقابلے میں خاندان تمیم کے بہادروں اور دلاوروں کو نہ پائیں ،تاکہ وہ ہماری کاری ضربوں کو کبھی فراموش نہ کر سکیں !

۵۷

سیف کے افسانہ کا نتیجہ

یہ شعلہ بار رجز خوانیاں اور رزم نامے ہیں جو سیف کے جعلی پہلوانوں کی شجاعتوں اور دلاوریوں کی تائید کرتے ہیں ۔اس طرح سیف قارئین کو خاندان تمیم کے ابو مفزر ،اسود بن قطبہ جیسے رزمی شاعر اور رجز گو کے وجود کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔

ابو مفزر ،عراق اور ایران میں

طبری ١٤ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :

خلیفہ عمر نے قادسیہ کی جنگ کے بعد اس جنگ کے مامور جنگجوئوں کو انعام و اکرام سے نوازا اور ابو مفزر کو '' دار الفیل '' نام کا ایک گھر یا زمین کا ٹکڑا عطا کیا

مزید ١٦ھ کے ضمن میں بہر سیریا '' ویہ اردشیر'' کی فتح کی خبر کو سیف سے نقل کرکے خلاصہ کے طور پر لکھا ہے :

اسلام کے سپاہیوں نے ہرسیر ( یا ویہ اردشیر ) کے اطراف میں جو مدائن کسریٰ کے نزدیک سے اور پادشاہ ایران جہا ں رہتا ہے پڑائو ڈالا۔

شہر کو مسلمانوں کی دسترس سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے چاروں طرف ایک گہری خندق کھود ی گئی تھی اور محافظ اس کی حفاظت کرتے تے ،لشکر اسلام نے اس شہر کا محاصرہ کیا ،بیس عدد سنگ انداز منجنیقوں کے ذریعہ شہر پر زبر دست پتھر ائو ہو رہا تھا۔

اسلامی سپاہیوں کی طرف سے شہر و یہ اردشیر پر دبائو اور محاصرہ کے طولانی ہونے کی وجہ سے محاصرہ میں پھنسے لوگ بری طرح قحط زدہ ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتے اور بلیوں کو کاٹ کاٹ کر کھانے پر مجبور ہوئے ۔

سیف، انس بن جلیس سے نقل کرکے کہتا ہے :

جب ویہ اردشیر پر ہمارا محاصرہ جاری تھا اسی حالت میں ایران کے پادشاہ کی طرف سے ایک ایلچی ہمارے پاس آیا اور اس نے کہا:پادشاہ کہتاہے:کیاتم لوگ اس شرط پر صلح کرنے پر راضی ہوکہ دجلہ ہماری مشترک سرحد ہو ،دجلہ کے اس طرف کی زمین اور پہاڑ ہمارے اور دجلہ کے اس طرف کی زمین تمھاری ہو؟ اگر اس پر بھی سیر نہیں ہوتے تو خدا تمھارے شکموں کو کبھی سیر نہ کرے !!

۵۸

ایران کے پادشاہ کے ایلچی کی باتوں کے سننے کے بعد مسلمان فوجیوں میں سے ابو مفزر اسود بن قطبہ آگے بڑھا اور پادشاہ کے ایلچی کے سامنے کھڑا ہوا اور اس سے ایک ایسی زبان میں بات کی کہ نہ وہ خود جانتاتھا کہ کیا کہہ رہاہے اور نہ اس کے ساتھی!حقیقت میں وہ فارسی زبان نہ جاننے کے باوجود پادشاہ کے ایلچی سے فارسی میں بات کررہاتھا!!

پادشاہ کا ایلچی ابو مفزر کی باتوں کو سننے کے بعد واپس چلاگیا اور تھوڑی ہی دیر میں لوگوں نے دیکھا کہ ایرانی سپاہی تیزی کے ساتھ دریائے دجلہ کو عبور کرکے اس کے مشرقی علاقہ میں مدائن کی طرف پیچھے ہٹے ۔مسلمانوں نے ابو مفزر سے سوال کیا :آخر تم نے پادشاہ کے ایلچی سے کیاکہا؟کہ خدا کی قسم وہ سب فرار کرگئے؟!ابو مفزر نے جواب میں کہا:قسم اس خدا کی جس نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھیجاہے ،مجھے خود بھی معلوم نہیں کہ میں کیا کہہ رہاتھا!صرف اس قدر جانتاہوں کہ خود بخود میری زبان پر کچھ کلمات جاری ہوئے ۔امید رکھتاہوں جو کچھ میں نے کہا ہوگا وہ ہمارے فائدے میں ہوگا۔

سعد وقاص اور دیگر لوگوں نے بھی ابو مفزر سے پادشاہ کے ایلچی سے اس کی باتوں کے معنی پوچھے لیکن ابو مفزر خود ان کے معنی سے بے خبر تھا !

اس کے بعد سعد نے حملہ کا حکم جاری کیا ۔لیکن اس بڑے شہر سے ایک آدمی بھی اسلامی سپاہ سے لڑنے کے لئے آگے نہیں آیا ،صرف ایک آدمی نے فریاد بلند کی اور امان کی درخواست کی ۔ مسلمانوں نے اسے امان دے دی ۔اس کے بعد اس مرد نے کہا:شہر میں داخل ہوجاؤ،یہاں پر کوئی فوجی موجود نہیں ہے جو تمھارا مقابلہ کرے ۔

اسلامی فوج شہر میں داخل ہوئی ۔چند بے پناہ افراد کے علاوہ وہاں پر کسی کو نہ پایا ،جنھیں انھوں نے اسیر بنایا۔اسیروں سے پادشاہ اور اس کے لشکر کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کیوں فرار کرگئے ۔انھوں نے جواب میں کہا: پادشاہ نے تم سے جنگ کی راہ ترک کرکے صلح کرنے کا پیغام بھیجا تھا۔لیکن تم لوگوں نے جواب میں کہاتھا''ہمارے درمیان تب تک ہرگز کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا جب تک ہم افریدون علاقہ کا شہدا اور سرزمین کوثی کا چکوترانہ کھا لیں !'' پادشاہ نے آپ کا پیغام سننے کے بعد کہا:افسوس ہوہم پر!ان کی زبان سے فرشتے بولتے ہیں !! اس کے بعد وہ یہاں سے دورترین شہر کی طرف بھاگ گئے ۔

۵۹

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کیاہے ۔البتہ سیف نے جو اشعار اپنے افسانوی سورمااسود کی زبانی بیان کئے ہیں ان کو طبری نے نقل نہیں کیاہے ۔ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو طبری سے نقل کیاہے ۔ابن عساکر نے بھی ان مطالب کو ابو مفزر کی تشریح کے سلسلے میں صراحت کے ساتھ سیف کے نام لے کر اپنی تاریخ میں درج کیاہے اور آخر میں ابو مفزر کی زبانی سیف کے رزمیہ اشعار کے تین قطعے بھی نقل کئے ہیں ۔

ان اشعار میں سیف نے ابو مفزر کی زبانی ویہ اردشیر کی فتح کی وضاحت کرتے ہوئے کہاہے :

یہ شہر صرف چند فارسی کلمات کے ذریعہ فتح ہواہے ،جنھیں خدائے تعالیٰ نے ابو مفزر نامی ایک عرب کی زبان پر جاری کیا!

اور خدانے صرف مجھے ابو مفزر کو صرف اس ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے پیدا کیاہے ۔

دشمن خوف ووحشت سے اپنی زبان دانتوں تلے دباتے ہوئے اپنے سامنے موت کے سائے منڈلاتے دیکھ کر ہلاکت ورسوائی کے گڑھے میں گرگئے۔

اس کے بعد ابو مفزر اسی جگہ سے یعنی مدائن ،ویہ اردشیر کے فتح شدہ شہر سے مکہ ومدینہ والوں خاص کر خلیفہ وقت ابا حفص عمر کو نوید بھیجتے ہوئے کہتاہے:

خلیفہ مطمئن رہیں ،یہ میں ہوں ! ابو مفزر جو ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ پیکار کے لئے آمادہ ہے۔

یہ میں ہوں !جو ان کی صفوں کو چیرنے کا افتخار حاصل کرتاہوں ۔

یہ میں ہوں !جس نے خدا کی طرف سے زبان پر جاری کئے گئے کلمات کی بناء پر ویہ اردشیر کو فتح کرکے کسریٰ کا موت کے گھاٹ تک پیچھا کیااور.....

حموی لفظ''بہرسیر'' کے بارے میں لکھتاہے :

ابو مفزر بہر سیر کی فتح کے بارے میں یوں کہتاہے

اس کے بعد ابن عساکر کے نقل کئے گئے اشعار میں سے تین اشعار کو نقل کرتاہے اور کہتاہے کہ :اس سلسلے میں اس نے بہت سارے اشعار کہے ہیں اس کے بعد ویہ اردشیر کی داستان کو اس طرح شروع کرتاہے :

۶۰

میں جن کو روح کے قرطاس پہ محسوس کرتا ہوں

وہ جذے کاش کاغذ پر اتر جائیں تو اچھا ہو

٭

وہاں کیسی محت دل جہاں سجدوں سے قاصر ہو

جینِ دل کو لے کر ان کے در جائیں تو اچھا ہو

٭

خیالوں میں کئی الفاظ نے آ کر تمنا کی !!

نی کی نعت سے ہم ھی سنور جائیں تو اچھا ہو

٭

اسی ہی آس میں رہتی ہیں اکثر منتظر آنکھیں

لاوا آئے، ہم ا چشمِ تر جائیں تو اچھا ہو

٭٭٭

۶۱

سوادِعشق نبی کیا کمال ہوتا ہے

سوادِ عشق نی کیا کمال ہوتا ہے

دیارِ روح میں حسن و جمال ہوتا ہے

٭

جو اس چراغ کا پروانہ ن کے رہ جائے

اسے نہ کھال نہ جاں کا خیال ہوتا ہے

٭

سخاوتوں کے خزانے نثار ہوتے ہیں

عقیدتوں کا سفر لازوال ہوتا ہے

٭

پھر ایک ار زیارت سے جاں مشرف ہو

لوں پہ شام و سحر یہ سوال ہوتا ہے

٭

تمام وقت کے حاکم اسے سلام کریں

تمہاری راہ میں جو پائمال ہوتا ہے

٭

گزر کے اس کی محت کے امتحانوں سے

کوئی حسین (ع) تو کوئی لال ہوتا ہے

٭

نی کا ہو کے جسے آس موت آ جائے

وہ شخص مرتا نہیں لازوال ہوتا ہے

٭٭٭

۶۲

لوں نام نبی قلب ٹھہرجائے ادب سے

لوں نام نی قل ٹھہر جائے اد سے

صد شکر یہ اعزاز ملا ہے مجھے ر سے

٭

دنیا ہی دل دی ہے مرے ذوق نے میری

میں صاح کردار ہوا تیرے س سے

٭

اے سرورِ کونین تیرے در کے تصدق

ملتا ہے یہاں س کو سوا اپنی طل سے

٭

احسان ترا کیسے ھلا دوں شہِ والا

پہچان ہوئی ر کی ہمیں تیرے س سے

٭

مشکل کوئی مشکل نہیں ٹھہری مرے آگے

مدحت شہِ لولاک کی ہاتھ آئی ہے ج سے

٭

اے خالقِ کونین دعا ہے مری تجھ سے

ٹوٹے نہ کھی راطہ اس عالی نس سے

٭

کرتا نہیں دنیا میں اصولوں کا وہ سودا

ہے آس محت جسے سلطانِ عر سے

٭٭٭

۶۳

نبی کی چشمِ کرم کے صدقے فضائے عالم میں دلکشی ہے

نی کی چشمِ کرم کے صدقے فضائے عالم میں دلکشی ہے

گلوں میں کلیوں میں رنگ و نگہت ہے چاند تاروں میں روشنی ہے

٭

جو آپ آتے نہ اس جہاں میں وجودِ کونین ھی نہ ہوتا

س آپ کے دم قدم سے آقا جہاں کی محفل سجی ہوئی ہے

٭

ہوا ہے ظلمت کا چاک سینہ گرے ہیں جھوٹے خدا زمیں پر

کرن نوت کی پھوٹتے ہی جہاں کی قسمت دل گئی ہے

٭

کمالِ اہلِ ہنر سے اعلیٰ خیال اہلِ نظر سے الا

مثال جس کی کہیں نہیں وہ جمال حسنِ محمدی ہے

٭

شیر ھی ہیں نذیر ھی ہیں سراج ھی ہیں منیر ھی ہیں

رؤف ھی ہیں رحیم ھی ہیں انہی کی دو جگ میں سروری ہے

٭

کہیں پہ یٰسین کہیں پہ طہٰ کلام حق ہے ترا قصیدہ

تری ہر اک ات حکم ری خدا کا تو لاڈلا نی ہے

٭

خدا سے جو مانگنا ہے مانگو ہے آس ہر سو عطا کی ارش

خدا نہ ٹالے گا ات کوئی کہ آج میلاد کی گھڑی ہے

٭٭٭

۶۴

دیوانہ وار مانگیے رب سے اٹھا کے ہاتھ

دیوانہ وار مانگیے ر سے اٹھا کے ہاتھ

آئیں گے پھول نعت کے تم تک صا کے ہا تھ

٭

لکھنے سے پہلے نعت کے آنکھیں ہوں ا وضو

آئیں گے ت ہی غی سے گوہر ثنا کے ، ہا تھ

٭

نتی نہیں ہے ات عطا کے نا کھی

آتا نہیں ہے کچھ ھی سوائے عطا کے ہا تھ

٭

اک چشم التفات ادھر ھی ذرا حضور(ص)

امت کی سمت ڑھ گئے مکر و ریا کے ہا تھ

٭

الفت ملی ہے آپ کی س کچھ عطا ہوا

ا کیا کمی رہی جو اٹھائیں دعا کے ہا تھ

٭

سیلا عشقِ شافعِ محشر ہے میرے گرد

"دیکھے تو مجھ کو نار جہنم لگا کے ہاتھ"

٭

وہ فیصلے خدا کی رضا آس ن گئے

جن فیصلوں کے حق میں اٹھے مصطفےٰ کے ہا تھ

٭٭٭

۶۵

فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے

فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے

تیری مدحت کے چرچے پھر ھی آقا کم نہیں ہوں گے

٭

ہر اک فانی ہے شے اور ذکر لا فانی تیرا ٹھہرا

تیری توصیف ت ھی ہو گی ج آدم نہیں ہوں گے

٭

توسل سے انھی کے در کھلیں گے کامرانی کے

وہ جن پر ہاتھ رکھ دیں گے انہیں کچھ غم نہیں ہوں گے

٭

کروڑوں وصف تیرے لکھ گئے اور لکھ رہے ھی ہیں

کروڑوں اور لکھیں گے مگر یہ کم نہیں ہوں گے

٭

خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا ہے

وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے

٭

کریں گے کس طرح سے سامنا وہ روز محشر کا

تاؤ آس جن کے سرورِ عالم نہیں ہوں گے

٭٭٭

۶۶

تو روحِ کائنات ہے تو حسن کائنات

تو روحِ کائنات ہے تو حسن کائنات

پنہاں ہیں تیری ذات میں ر کی تجلیات

٭

ہر شے کو تیری چشمِ عنایت سے ہے ثات

ہر شے میں تیرے حسنِ مکمل کے معجزات

٭

کونین کو ہے ناز تیری ذاتِ پاک پر

احسان مند ہیں تیری ہستی کے شش جہات

٭

پژ مردہ صورتوں کو ملی تجھ سے زندگی

نقطہ وروں کو سہل ہوئیں تجھ سے مشکلات

٭

ظلمت کدوں میں نور کے چشمے ال پڑے

رحمت سے تیری ٹل گئی ظلم و ستم کی رات

٭

تاروں کو ضو فشانیاں تجھ سے ہوئیں نصی

پھولوں کی نازکی پہ تیری چشمِ التفات

٭

۶۷

ہر شے میں زندگی کی کرن تیری ذات سے

افشا یہ راز کر گئی معراج کی وہ رات

٭

اپنے دل و نگاہ کے آئینے صاف رکھ

گر دیکھنے کی چاہ ہے تجھ کو نی کی ذات

٭

کن الجھنوں میں پڑ گیا واعظ خدا سے ڈر

الا ہے تیری سوچ سے سرکار کی حیات

٭

انکی محتوں کا گزر ہے خیال میں

یونہی نہیں ہیں آس کی ایسی نگارشات

٭٭٭

۶۸

ہمیشہ مری چشمِ تر میں رہیں

ہمیشہ مری چشمِ تر میں رہیں

حضور(ص) آپ دل کے نگر میں رہیں

٭

مری سوچ کے دائروں میں رہیں

خیالات کے ام و در میں رہیں

٭

گماں فرقتوں کا میں کیسے کروں

کہ ج آپ(ص) ہر سو نظر میں رہیں

٭

مرے حرف میں میرے الفاظ میں

مرے شعر میرے ہنر میں رہیں

٭

مرے دن کی مصروفیت میں ہوں آپ

مری رات کے ہر پہر میں رہیں

٭

مری ش کی ہو اتدا آپ سے

مری انتہائے سحر میں رہیں

٭

تمنا ہے یہ آس وقتِ نزع

حضور آپ ہر سو نظر میں رہیں

٭٭٭

۶۹

ہم بے کسوں پہ فضل خدا ہے حضور (ص)سے

ہم ے کسوں پہ فضل خدا ہے حضور (ص)سے

اسلام کا شعور ملا ہے حضور (ص) سے

٭

آدم کو اپنی ذات کی پہچان تک نہ تھی

انسان آدمی تو ہوا ہے حضور (ص)سے

٭

ے کیف ے سرور تھی ے نور زندگی

اس میں سکوں کا رنگ ھرا ہے حضور(ص) سے

٭

ہوں اہلِ یتِ پاک یا اصحا مصطفےٰ

وحدت کا س نے جام پیا ہے حضور سے

٭

کشمیر ہو عراق، فلسطیں کہ کوئی ملک

ہر کلمہ گو تو آس جڑا ہے حضور (ص)سے

٭٭٭

۷۰

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

پیارے نی کی اتیں کرنا اچھا لگتا ہے

انکی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭

ٹھنڈی ٹھنڈی مہکی مہکی ہلکی ہلکی آہٹ سے

یادِ نی کا دل میں اترنا اچھا لگتا ہے

٭

ج ہستی کی چاہت کا ہے محور تیری ذات

پل پل تیرا ہی دم ھرنا اچھا لگتا ہے

٭

میں ھی ثنا کے پھول سمیٹوں تم ھی درود پڑھو

پتھر دل سے پھوٹتا جھرنا اچھا لگتا ہے

٭

تجھ سے میری من نگری کے روشن شام و سحر

تیرے نام کی آہیں ھرنا اچھا لگتا ہے

٭

غوث، قلندر اور ولی ہیں تیرے عشق کے روگی

س کو تری توقیر پہ مرنا اچھا لگتا ہے

٭

ماتھے پر امید کا جھومر مانگ میں آس کی افشاں

ایسا مجھ کو ننا سنورنا اچھا لگتا ہے

٭٭٭

۷۱

میں غریب سے بھی غریب ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے

میں غریب سے ھی غری ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے

اے قسیم راحتِ دو جہاں مری سانس سانس محال ہے

٭

تو خدائے پاک کا راز داں تیرا ذکر زینتِ دو جہاں

تیرے وصف کیا میں کروں یاں تیری ات ات کمال ہے

٭

میں ہوں ے نوا تو ہے ادشہ میرا تاجِ سر تیری خاکِ پا

میں ہوں ایک ھٹکی ہوئی صدا تری ذات حسنِ مآل ہے

٭

تو ہی فرش پر تو ہی عرش پر تیرا یہ ھی گھر تیرا وہ ھی گھر

جہاں ختم ہوتا ہے ہر سفر تیرا اس سے آگے جمال ہے

٭

تیری ذات عالی شہ عر کہاں میں کہاں یہ مری طل

جو ملا، ملا وہ ترے س مرا اس میں کیسا کمال ہے

٭

نہیں تیرے عد کوئی نی ہوئی ختم تجھ پر پیمری

تیری ذاتِ حسن و جمال کی نہ نظیر ہے نہ مثال ہے

٭

میں یہ کیوں کہوں کہ غری ہوں شہ دوسرا کے قری ہوں

میں تو آس روشن نصی ہوں غمِ مصطفےٰ مری ڈھال ہے

٭٭٭

۷۲

سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زباں سے بکھرنے لگے

سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زاں سے کھرنے لگے

مدحتِ مصطفےٰ تیرا احسان ہے تجھ سے کیا کیا مقدر سنورنے لگے

٭

یہ تو ان کی عنایات کی ات ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری اوقات ہے

جس کا دنیا میں پرسان کوئی نہ تھا اس کے دامن میں تارے اترنے لگے

٭

یونہی مجھ پر کرم اپنا رکھنا سدا اے مرے چارہ گر اے شہ دوسرا

تیری چشمِ کرم جس طرف کو اٹھی اس طرف نور سینوں میں ھرنے لگے

٭

قط و ادال غوث و ولی متقی س کی محسن ہے نورِ تجلی تیری

روشنی تیرے کردار کی پا کے س سینہ ٔ سنگ کو موم کرنے لگے

٭

عشق سچا اگر ہو تو دیدار کی قید کوئی نہیں فاصلے کچھ نہیں

ہو گئی جن کے دل کو صارت عطا لمحہ لمحہ وہ دیدار کرنے لگے

٭

کچھ عج وضع سے کر رہے ہیں سر تیرے عشاق س اپنے شام و سحر

جیتا دیکھا کسی کو تو جینے لگے مرتا دیکھا کسی کو تو مرنے لگے

٭

اے خدا آس کو وہ عطا نعت کر جو منور کرے س کے قل و نظر

ے سہاروں کو تسکین جو خش دے غم کے ماروں کے جو زخم ھرنے لگے

٭٭٭

۷۳

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ بے نور کو روشنی مل گئی

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ ے نور کو روشنی مل گئی

ہاتھ اٹھاوں میں ا کس دعا کے لیے انکی نست سے ج ہر خوشی مل گئی

٭

ذوق میرا عادت میں ڈھلنے لگا زاویہ گفتگو کا دلنے لگا

ساعتیں میری پرکیف ہونے لگیں دھڑکنوں کو مری ندگی مل گئی

٭

ناز اپنے مقدر پہ آنے لگا ہر کوئی ناز میرے اٹھانے لگا

دھل گیا آئینہ میرے کردار کا ج سے ہونٹوں کو نعتِ نی مل گئی

٭

ان کی چشمِ عنایت کا اعجاز ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری پرواز ہے

خامیاں میری نتی گئیں خویاں زندگی کو مری زندگی مل گئی

٭

میری تقدیر گڑی نائی گئی ات جو ھی کہی کہلوائی گئی

میں نے تو صرف تھاما قلم ہاتھ میں جانے کیسے کڑی سے کڑی مل گئی

٭

زندگی ج سے ان کی پناہوں میں ہے ایک تاندگی سی نگاہوں میں ہے

مجھ کو اقرار ہے اس کے قال نہ تھا ذاتِ وحدت سے جو روشنی مل گئی

٭

مدحتِ مصطفےٰ ہے وہ نورِ میں جس کا ثانی دو عالم میں کوئی نہیں

آس اس کی شعاعوں کے ادراک سے راہ ھٹکوں کو ھی رہری مل گئی

٭٭٭

۷۴

اپنی اوقات کہاں، ان کے سبب سے مانگوں

اپنی اوقات کہاں، ان کے س سے مانگوں

ر ملا ان سے تو کیوں ان کو نہ ر سے مانگوں

٭

ان کی نست ہے ہت ان کا وسیلہ ہے ہت

کیوں میں کم ظرف نوں ڑھ کے طل سے مانگوں

٭

جس ضیا سے صدا جگ مگ ر ہے دنیا من کی

اس کی ہلکی سی رمق ماہِ عر سے مانگوں

٭

آندھیاں جس کی حفاظت کو رہیں سرگرداں

پیار کا دیپ وہ ازارِ اد سے مانگوں

٭

کوئی اسلو سلیقہ نہ قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انھیں کسی طور سے، ڈھ سے مانگوں

٭

کارواں نعت کا اے کاش رواں یوں ہی رہے

اور میں نِت نئے عنوان اد سے مانگوں

٭

آس آاد رہے شہر مری الفت کا

ہر گھڑی اس کی خوشی دستِ طل سے

٭٭٭

۷۵

جمال عکس محمدی سے فضائے عالم سجی ہوئی ہے

جمال عکس محمدی سے فضائے عالم سجی ہوئی ہے

قرارِ جاں ن کے زندگی میں انہی کی خوشو سی ہوئی ہے

٭

خدائے واحد کی ن کے رہاں حضور آئے ہیں اس جہاں میں

دکھوں سے جلتی ہوئی زمیں پھر ہر ایک غم سے ری ہوئی ہے

٭

نجانے کیسا کمال دیکھا نی(ص) کا جس نے جمال دیکھا

حواس گم سم نگاہ حیراں زاں کو چپ سی لگی ہوئی ہے

٭

سمندروں کی تہوں سے لے کر مقام سدرہ کی رفعتوں تک

مرے نی کے کرم کی چادر ہر اک جہاں پر تنی ہوئی ہے

٭

تمام چاہت کے روگیوں کا عجی ہم نے کمال دیکھا

جدا جدا صورتیں ہیں لیکن دلوں کی دھڑکن جڑی ہوئی ہے

٭

وہی حقیقت میں زندگی ہے وہی حقیقت میں ندگی ہے

جو میرے سرکار کی محت کے راستوں پر پڑی ہوئی ہے

٭

انگشتری میں نگینہ جیسے زمیں کے دل پر مدینہ جیسے

حضور(ص) اس طرح آس تیری، مری نظر میں جڑی ہوئی ہے

٭٭٭

۷۶

رنگ لائی مرے دل کی ہر اک صدا لوٹنے زندگی کے خزینے چلا

رنگ لائی مرے دل کی ہر اک صدا لوٹنے زندگی کے خزینے چلا

میرے ر نے کیا مجھ کو منص عطا میں مدینے چلا میں مدینے چلا

٭

میری مدت کی یہ آس پوری ہوئی رشک کرنے لگا مجھ پہ ہر آدمی

ہونے والی ہے ا زندگی، زندگی سیکھنے زندگی کے قرینے چلا

٭

میرے گھر ملنے والوں کی یلغار ہے آج س کو مری ذات سے پیار ہے

آرزوؤں کے غنچوں کی مہکار ہے کس مقدس مارک مہینے چلا

٭

ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ میرے لیے جا کے روضے پہ رکھنا دعا کے دیے

اور یہ کہنا کہ چشم کرم اک ادھر ہر کوئی جام کوثر کے پینے چلا

٭

سوچتا ہوں سفر کا ارادہ تو ہے شوق جانے کا ھی کچھ زیادہ تو ہے

عشق کا معصیت پہ لادہ تو ہے پر میں کیا ساتھ لیکر خزینے چلا

٭

میں نے پورے کیے کیا حقوق ا لعاد اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے فساد

کیا مسلماں میں پیدا کیا اتحاد کون سا مان لے کر مدینے چلا

٭

آس کیا منہ دکھاؤں گا سرکار کو اپنے ہمدرد کو اپنے غم خوار کو

کیوں گراؤں میں فرقت کی دیوار کو کس لیے ہجر کے زخم سینے چلا

٭٭٭

۷۷

مرے دل میں یونہی تڑپ رہے مری آنکھ میں یونہی نم رہے

مرے دل میں یونہی تڑپ رہے مری آنکھ میں یونہی نم رہے

مری ہر نگارشِ شوق پر اے کریم تیرا کرم رہے

٭

میں لکھوں جو نعت حضور(ص) کی دلِ مضطر کے سرور کی

کھی چشم ناز لند ہو کھی سر نیاز سے خم رہے

٭

مری سانس سانس مہک اٹھے مجھے روشنی سی دکھائی دے

میرا حرف حرف دعا نے مری آہ آہ قلم رہے

٭

یہ یقین ہے جو میں مر گیا تو کہیں گے س یہ ملائکہ

یہ ہے شاعرِ شاہِ دوسرا ذرا اس کا پاس، ھرم رہے

٭

یہ دعا ہے آس حضور(ص) کا کھی دل سے پیار نہ ہو جدا

مری زندگی کی جین پر سدا ان کا نام رقم رہے

٭٭٭

۷۸

آپ(ص) سے حسن کائنات آپ کہاں کہاں نہیں

آپ(ص) سے حسن کائنات آپ کہاں کہاں نہیں

آپ کا ذکر نہ ہو جہاں ایسا کوئی جہاں نہیں

٭

ایک جاں سرور آگ سلگی ہے میری ذات میں

ہے یہ عجی ماجرا راکھ نہیں دھواں نہیں

٭

جن فیصلوں پہ آپ کی مہر ثت ہو گئی

اس کے عد ا خدا کوئی ھی این و آں نہیں

٭

اوصافِ پاک آپ کے جس سے تمام ہوں یاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زاں نہیں

٭

واعظ کی ات ھی پرکھ اپنے ھی من کی ات سن

جس سر سے اٹھ گئے وہ ہاتھ اس کی کہیں اماں نہیں

٭

حضرت لال دے گئے آس یہ ہم کو فلسفہ

جس کے نا ھی ہو سحر، ایسی اذاں، اذاں نہیں

٭٭٭

۷۹

ہے یہ دربارِ نبی خاموش رہ

ہے یہ درارِ نی خاموش رہ

چپ کو ھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

ولنا حدِ اد میں جرم ہے

خامشی س سے ھلی خاموش رہ

٭

ان کے در کی مانگ ر سے چاکری

تجھ کو جنت کی پڑ ی خاموش رہ

٭

ہے ذریعہ ہترین اظہار کا

اک زانِ خامشی خاموش رہ

٭

دل سے ان کو یاد کر کے دیکھ تو

پاس ہیں وہ ہر گھڑی خاموش رہ

٭

ھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضط کر دیوانگی خاموش رہ

٭

جیسے کی ہے میرے آقا نے سر

ویسے تو کر زندگی خاموش رہ

٭

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371