ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138198 / ڈاؤنلوڈ: 4306
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

اصلاح ونظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیش کش : معاونت فرہنگی، ادارہ ترجمہ

کمپوزنگ: محمد جواد یعقوبی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہ السلام

طبع اول: ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ئ

تعداد: ٣٠٠٠

مطبع : لیلیٰ

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ سید مرتضیٰ عسکری کی گرانقدر کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

تمہید :

* ایک ذمہ دار دانشور کے خطوط

* ایک جامع خلاصہ

* مقدمۂ مولف

۷

ایک ذمہ دار دانشورکے خطوط:

عام اسلام کے خیر خواہ علماء اور دانشوروں نے ہماری تالیفات کے سلسلہ میں کئی شفقت بھرے خطوط لکھے ہیں ان میں سے ایک حلب (شام) کے دنیائے علم و دانش کے شہرت یافتہ عالم ، مرحوم شیخ محمدسعید دحدوح ہیں ۔یہاں پر ہم یاد گار کے طور پر مرحوم کے دو خطوط کا ترجمہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرحوم نے اپنا دوسرا خط ہماری کتاب ''١٥٠جعلی اصحاب '' کی پہلی جلد حاصل کرنے کے بعد ہمیں ارسال کیا تھا۔

(مؤلف)

۸

پہلا خط:

بسمه تعالٰی و له الحمد ،وصلاته و سلامه علی سید نا محمد وعلی آله

میرے دینی بھائی اور ایمانی دوست حجة الاسلام جناب مرتضیٰ عسکری صاحب :

سلام علیکم و رحمة الله و برکاته

آپ کی اتنی محبت و مہربانیاں ،تحقیق و نیک کاموں میں انتھک کوششیں اور سچ اور جھوٹ کو جدا کرکے حقائق کو واضح کرنے کی آپ کی یہ ہمت و ثابت قدمی قابل ستائش ہے ۔

جو امر مجھے آپ سے آپ کی کتابیں اور تالیفات کی درخواست کرنے کا سبب بنا ،وہ حقائق کو پانے کی میری شدید طلب ،صحیح مطالب کی تلاش و جستجو کی نہ بجھنے والی پیاس ، آزاد فکر و اندیشہ کے نتائج کو جاننے کی بے انتہا چاہت اور محققین کے نظریات کو جاننے کی میری انتہائی دلچسپی ہے ،تاکہ اختلافی مسائل کے سلسلے میں ایسے محکم و قوی دلائل و برہان کو پا سکوں جن میں کسی قسم کی چوں و چرا کی گنجائش نہ ہو۔

خدا ئے تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب عنایت فرمائے،گزشتہ کئی مہینوں سے میرے ساتھ روا رکھے لطف و محبت کے سلوک کے ضمن میں آپ نے اظہار فرمایا ہے کہ میری مطلوبہ کتاب کے علاوہ تازہ تالیف کی گئی کتاب بھی پوسٹ کرنے کے لئے میں اپنا پتا بھیج دوں (تاکہ اس کے پہنچنے کا اطمینان حاصل ہو سکے ) مہر بانی کرکے اسے میرے درج ذیل پتہ پر ارسال فرمائیں ۔

...میں آپ کی ان محنتوں اور زحمتوں کے لئے پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں اور رحمتوں سے مالا مال دن اور راتوں والے مبارک رمضان کی آمد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں

اپنے چاہنے والے اور بھائی کا سلام و درود قبول فرمایئے۔

محمد سعید دحدوح

سوریہ ۔حلب النوحیہ ،الزقاق المصبنہ

٢٠ شعبان ١٣٩٤ھ مطابق ١٨ستمبر ١٩٧٤ ع

۹

دوسرا خط :

بسم اللّٰه الرّحمٰن الرّحیم

بسمه تعالی و له الحمد ،وصلاته و سلامه علی سید نا محمد وعلی آله و من اتبع هداه

میرے دینی بھائی اور ایمانی دوست جناب سید مرتضیٰ عسکری صاحب :

سلام علیکم و رحمة الله و برکاته

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی تعریف ،تجلیل اور شکر گزاری میں کن الفاظ اور جملات کا سہارا لوں تاکہ جہل و نادانی کی تاریکی سے حقائق کو نکال کر حق و حقیقت کے متلاشیوں کے حوالے کرنے میں آپ کی انتھک کوششوں کے حق کی ادائی ہو سکے ،اور عصر حاضر و مستقبل کی نسلوں کے لئے صدیوں تک مسلم اور ناقابل انکار حقائق کے طور پر قبول کئے گئے مطالب سے پردہ اٹھا کر حقائق کا انکشاف کرنے کی آپ کی قابل تحسین مجاہد توں اور کوششوں کی قدر دانی ہوسکے۔

ہمارے متقدمین علماء نے سیف کی یوں تعریف کی ہے:

''سیف سبوں کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے اور اس کی باتیں بے بھروسہ ہیں ۔''

اور ابن حبان کہتا ہے: سیف پر زندیقیت کا الزام ہے ۔

وہ مزید کہتا ہے :

''اس کی باتیں جھوٹی ہیں ۔''

اس کے باوجود ان میں سے کسی نے یہ جرأت نہیں کی ہے کہ اس کے جھوٹے چہرے سے پردہ چاک کرکے لوگوں میں یہ اعلان کرے کہ اس کی داستانیں افسانوی ہیں اور اس طرح اس کی تخیلاتی مخلوق کی نشاندھی کرے۔ آخر کار آپ جیسے محقق اور ماہر شخص نے آکر عصر حاضر اور آئندہ نسلوں کے لئے اس معنی خیز ضرب المثل کو ثابت کرکے دکھا دیا کہ:''کم ترک الاول للآخر'' ''اسلاف نے آنے والی نسلوں کے لئے کتنے اہم کام چھوڑ رکھے اور ابو العلاء معری کی یہ بات آپ کے حق میں صادق آتی ہے:وانیّ ''لآت بما لم تستطعہ الاوائل'' میں ایک ایسا کام انجام دونگا جسے اسلاف انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے تھے!''

بے شک ، آپ نے اس ناہموار راہ کو ہموار بنادیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے جلائے ہوئے چراغ سے اس راہ کو روشن و منور کردیا ہے اور ایسے متعدد دلائل اور راہنمائیاں فراہم کی ہیں جن سے حق و حقیقت کے متلاشیوں کے لئے اس جھوٹ کو پہچاننے میں مدد ملے گی، جسے لوگ صدیوں سے حقیقت

۱۰

سمجھ بیٹھے تھے اور اس کے عادی ہو چکے تھے، اب آئندہ نسلیں اس بارے میں وسیع النظری ، کے ساتھ حقائق سے آشنا ہوکر بحث و مباحثہ کریں گی۔

یہاں پر میرا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ:

''اسلاف کی بزرگی و احترام اپنی جگہ محفوظ و مسلم ہے۔''

ہمیں اس بات پر تعجب ہے کہ ایک پڑھا لکھا اور محقق شخص ، جس نے قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی سے علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، نے محمد بن عثمان ذہبی کی کتاب ''المغنی فی الضعفاء '' جس میں سیف کو زندیق کہا گیا ہے پر ایک مقدمہ کے ضمن میں لکھا ہے :

''سیف کے زندیقی ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ دستیاب اخبار و روایات اس کے برعکس مطالب کو ثابت کرتے ہیں ۔''

گویا ڈاکٹر صاحب کی نظر میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کی فتوحات کے مجاہدین پر چھوٹے الزامات لگانا اور ان پر ظلم و دہشتگردی کی تہمتیں لگانا کوئی ناروا کام نہیں ہے!!

خدا کے حضور آپ کا یہ کام محترم و معزز قرار پائے! اور پروردگار آپ کے اس اہم کام اور آپ کے نتیجہ خیز افکار و نظریات پر مبنی دیگر تحقیقاتی کاموں کو سہل و آسان فرمائے اور ہم عنقریب دیکھیں کہ علم و دانش کی موجودہ دنیا کا ہر محقق آپ کی گراں قدر اور قابل تحسین زحمتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر کے آپ کی شب و روز کی انتہک جدو جہد کی قدر کرے گا۔

درود و سلام ہو ان بلند ہمت افراد پر جنہوں نے آپ کی اس گراں قدر تالیف کی اشاعت میں آپ کا تعاون کرکے ہمیں اس قیمتی تحفے سے نوازا ہے ۔

اُمید ہے اپنی اس تالیف کی باقی جلدیں بھی چھپتے ہی مجھے ارسال کرکے مشکور فرمائیں گے...

اپنے اس عزیز بھائی کا سلام قبول فرمائیے۔

دستخط

محمد سعید دحدوح

٢٧شوال ١٣٩٤ھ ۔١٩٧٤١١١١ئ

۱۱

ایک جامع خلاصہ

چونکہ اس قسم کے علمی مباحث کی گزشتہ بحثوں کا ایک جائزہ لینا قارئین کرام کو مطالب کے سمجھنے اور ہمارے مقصد کو درک کرنے میں مدد دے گا ،اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ یہاں پر لبنان کے معاصر مفکر و دانشور اور قابل قدر استاد جناب رشاد دارغوث کا وہ خلاصہ پیش کریں جو انھوں نے اس کتاب کی پہلی جلد کی ایک مفید و اہم بحث کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے:

کتاب کی شکل و صورت

'' اصول دین کا لج '' بغداد کے پر نسپل جناب استاد عسکری کی کتاب ''١٥٠جعلی اصحاب'' ، شکل و صورت ، مطالب اور موضوع کے لحاظ سے انتہائی گراں بہا و دلکش علمی کتابوں میں سے ایک ہے ،جو ابھی کچھ دنوں پہلے دنیائے علم و دانش میں منظر عام پر آئی ہے ۔مذکورہ کتاب بغداد کے ''اصول دین کالج '' کے پرنسپل جناب مرتضی عسکری کی تالیف ہے اور یہ کتاب بیروت کے ''درارالکتاب پبلیشنز'' کی طرف سے ٤٢٠صفحات پر مشتمل درجہ ذیل صورت میں شائع ہوئی ہے :

اس کے ٧٠ صفحات مختلف فہرستوں پر مشتمل ہیں ۔ان فہرستوں کے مطالعہ سے کتاب میں موجود مختلف مطالب کاآسانی کے ساتھ اندازہ کیاجاسکتاہے ۔جن مصادر واسناد پر کتاب میں تکیہ کیا گیا ہے اوران سے استناد کیاگیاہے وہ اس فہرست میں مشخص کئے گئے ہیں ۔اس طرح اس کتاب میں ذکرکئے گئے قبائل وخاندان کے نام ،معروف حکومتوں کے نام ،ہرمذہب کے پیروؤں اور ہر گروہ کے طرفداروں کے نام حدیث کے راویوں ،شعراء ،مؤلفین نیز،قرآن مجید کی آیات ،پیغمبر اسلام کی احادیث،دلیل وشواہد کے طور پرپیش کئے گئے اشعار ،شہروں کے نام،گاؤں کے نام ،جغرافیائی مقامات اور ممالک ،تاریخی واقعات ،خطوط،عہدناموں اور فرمان ناموں کو اس کتاب میں علمی روش کے تحت اپنی اپنی جگہ پر حروف تہجی کی ترتیب سے منظم اور مرتب فہرست کی صورت میں پیش کیا گیا ہے

۱۲

کتاب کے مطالب

یہ کتاب سیف بن عمر تمیمی کے گڑھے ہوئے ''١٥٠ جعلی اصحاب'' میں سے ٣٩(۱) جعلی اصحاب کے تعارف پر مشتمل ہے،جنھیں سیف نے ذاتی طور پر جعل کرکے ان کے خیالی وجود کو واقعی صورت میں پیش کیاہے ،ان سے حدیث روایت کی ہے اور عظیم تاریخی واقعات کو جو کہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے ،ان سے منسوب کیاہے۔

مؤلف محترم اس تلخ حقیقت تک پہنچنے کے لئے سیف کی زندگی کے مطالعہ کے دوران اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ :سیف پر جھوٹ بولنے اور حدیث گڑھنے میں شہرت رکھنے کے علاوہ زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا۔لیکن ہمارے گزشتہ مصنفین اور مؤلفین نے صرف اس لئے کہ اس نے

''الفتوح الکبیرة'' و''الجمل ومسیرعلی وعائشہ'' نام کی دوکتابیں تالیف کی ہیں ،سیف کونہ صرف ایک نامور واقعہ نگار جاناہے بلکہ اس کی روایتوں اور باتوں کو صدر اسلام کے مہمترین تاریخی اسناد کے طور پر پہچانا ہے۔

____________________

(۱) طبع اول ان ٣٩ صحابیوں میں سے ٢١ افراد خاندان تمیمی کے ذکر ہوئے تھے لیکن دوسری طبع میں ان کی تعداد ٢٣ تک بڑھ گئی ہے۔

۱۳

زندیقیوں کا مسئلہ

اس کے بعد مؤلف ،''زندیق'' اور ''زندیقیت'' کے عام معنی کی تشریح کرتے ہیں پھر اس کے اصلی معنی ومفہوم پر بحث کرتے ہیں اور سیف بن عمر کے زمانے کے چند نامور زندیقیوں جیسے ''ابن مقفع،ابن ابی العوجاء اور مطیع بن ایاس'' کا ذکر کرتاہے۔اور اس سلسلے میں ایک مفصل بحث کے بعد نتیجہ حاصل کرتاہے کہ اس زمانے میں زندیقیت نے ان لوگوں کے درمیان پوری طرح رواج پالیاتھا جو دین مانی اور مانوی گری سے دلوں میں ایمان پیدا کئے بغیر اسلام کی طرف مائل ہوئے تھے ۔اس کے بعد لکھتے ہیں :

''یہ زندیقیوں کے چند نمونے تھے ،جن کا عمل وکردار سیف کے زمانے کے مانویوں کی سرگرمیوں کا مظہر ہے۔ ان میں سے ایک شخص زندیقیوں کی کتابوں کا ترجمہ کرتاہے اور مسلمان معاشرے میں انھیں رائج کرتاہے ۔ دوسرا ،بے باکی اور بے شرمی وبے حیا ئی ،اور کھلم کھلا فسق وفجور ،بد کاری ،بد اخلاقی اور غیر انسانی عادات کا نمونہ ہے اور ان افعال کو مسلمان نوجوانوں میں پھیلاتاہے،اور تیسرا اپنے دو پیشرؤں سے زیادہ سرگرمی ،پشتکار کے ساتھ ہر شہر ودیہات میں ایک عجیب ثابت قدمی سے مسلمانوں کے ایمان وعقائد میں شک وشبہہ اور تشویش پھیلانے میں سرگرم ہو تاہے اور فتنوں وبغاوتوں کو برپاکرنے اور لوگوں کے اسلامی اعتقادات کو سست کرنے کی سر توڑ کوشش کرتاہے اور اپنے دو پیشرو ساتھیوں کی طرح زندیقیوں کے عقائد وافکار کی ترویج میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتاہے حتی جلاد کی تلوار کے نیچے بھی مسلمانوں میں شک وشبہہ پیدا کرنے سے گریز نہیں کرتاہے اور اعتراف کرتاہے کہ اس نے اکیلے ہی چار ہزار احادیث جعل کی ہیں اور انھیں لوگوں میں اس طرح رائج کردیا ہے کہ حلال کوحرام اور حرام کو حلال کردیاہے !!اگر اس شخص ابن ابی العوجاء نے اکے لئے ہی چار ہزار جھوٹی حدیث جعل کی ہیں ....تو سیف نے ہزار ہا ایسی احادیث جعل ہیں جن میں

۱۴

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاک ترین اور با ایمان ترین صحابیوں کو پست ،کمینہ اور بے دین ثابت کرکے ان کے مقابلے میں ظاہری اسلام لانے والوں اور جھوٹ بول کر اسلام کا اظہار کرنے والوں کو پاک دامن ،دین دار اور قابل احترام بناکر پیش کیاہے!اس طرح دنیائے علم وتحقیق کو حق و حقیقت کے خلاف ان دو موضوعوں کے مد مقابل حیرانی و پریشانی سے دوچار کردیاہے۔

وہ اسلام میں خرافات سے بھرے ہوئے افسانے وارد کرنے میں کامیاب ہواہے تا کہ مسلم حقائق کو شک وشبہات کے پردے کے پیچھے مخفی کردے اس طرح وہ مسلمانوں کے عقائد وافکار پر بُرا اور ناپسند اثر ڈالنے اور اس دین الٰہی کے بارے میں غیروں کے افکار کو دھندلا اور مکدر بنانے میں کامیاب ہواہے''

جذبات کو بھڑکانا

سیف کی خراب کاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے جاہلیت کے تعصب کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔وہ قبائل نزار جو زر وزور اور اقتدار وقانون کے مالک تھے اور خلفائے راشدین نیز اموی اور عباسی خلفاء سب کے سب اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے کے بارے میں اپنے تعجب خیز تعصباتی لگاؤکا اظہار کرتاہے ،یہاں پر محترم ودانشور مولف قبائل نزار ومضر اور قبائل قیس ویمانی کے درمیان اسلام سے پہلے کے خشک خاندانی تعصبات اور اپنے تئیں فخرو مباہات کے اظہار نیز دوسرے قبائل کے خلاف دشنام ،توہین اور برا بھلا کہنے اور اسلام کے سائے میں بھی اس تعصب و دشمنی کے استمرار کے سلسلے میں تشریح کرتے ہوئے لکھاہے :

۱۵

''پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی ،وہاں پر اوس وخزرج نامی دو قبیلے رہتے تھے ، دونوں قبیلے یمانی تھے۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے والے جنھوں نے ''مہاجر'' کالقب پایاتھا قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔یہ دو دشمن قبیلے جو آپس میں دیرینہ دشمنی رکھتے تھے ،شہر مدینہ میں اپنی باہم زندگی کے دوران دو بار ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے قرار پائے کہ قریب تھا جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں ۔ پہلی بار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذاتی طور پر مداخلت فرمائی اور ان بھڑکنے والے شعلوں کو جو خاندانوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے تھے،اپنی تدبیر،حکمت عملی اور اسلام کی طاقت سے بجھادیا۔دوسری بار جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اس خاندانی جذبات اور جاہلیت کے تعصبات نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے مسئلے پر پھر سے سر اٹھایا تو حالات ایسے رونما ہوئے کہ نزدیک تھا خوں ریزی برپا ہو جائے اور تازہ قائم ہوا اسلام نابود ہوجائے ۔یہاں پر خاندانی تعصب ودشمنی کے شعلے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی ـکی فہم وفراست کے نتیجہ میں بجھ گئے''

محترم مؤلف نے بہترین انداز میں تشریح کی ہے کہ بنیادی طور پر تعصب مردود ومنفور اور قابل نفرت ہے اور دنیائے شعرو ادب کے لئے افراط وزیادتی کا سبب ہے لیکن سیف ان میں سے کسی ایک کی طرف توجہ کئے بغیر جو کچھ انجام دیتاہے اپنے تعصب کے بنا پر انجام دیتاتھا۔اسی لئے اس نے شعراء کی ایک جماعت کو خلق کیاہے تاکہ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ قبیلہ مضر،خاص کر خاندان تمیم کے لئے سیف کے جعل کردہ فخرومباہات کا تحفظ کریں ۔اس کے علاوہ اپنے خاندان ''تمیم ومضر'' سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اصحاب جعل کئے ہیں اور ان کے بارے میں ثابت کیاہے کہ وہ اسلام کو قبول کرنے میں پیش قدم ہونے کی وجہ سے صاحب فضیلت واعتبار ہیں ۔مزید یہ کہ خاندان مضر سے ایک گروہ کو فوج کے سپہ سالار اور حدیث کے راویوں کے طور پر جعل کیاہے ۔اس نے قبیلہ مضر اور اپنے خاندان تمیم کے بارے میں اس قدر فضیلت وبرتری پر ہی اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اس نے اپنے تعصب اور احساس برتری کی بناء پر اپنے قبیلہ کے افتخارات کو محکم وپائیدار کرنے کے لئے جنوں سے بھی کام لیا ہے اور ایسے جنات تخلیق کئے ہیں جو تمیم اور مضر کے خاندان کے بہادروں اور دلاوروں کی فضیلتوں کے اشعار کو فضا میں گاتے ہیں تاکہ دنیا والوں کے کانوں تک ان کی فضیلتوں کو پہنچادیں ! اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان مضر سے باہر بھی چند افراد خلق کئے ہیں جو اس کے قبیلے کے خیر خواہ ،طرفدار کی حیثیت سے خاندان تمیم اور مضر کانام روشن کرنے کے لئے ان کے پرچم تلے جنگوں میں شرکت کرتے ہیں تاکہ خاندان تمیم ومضر کے فضل وشرف سے دوسرے درجے کی فضیلت کے مالک بن جائیں ۔

۱۶

علم ولغت کے مصادر میں سیف کا رول

اس طرح ،سیف کی تخلیق کی بناء پر جھوٹے اور افسانوی اصحاب اور تابعین کی ایک بڑی جماعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب وتابعین کی صف میں شامل ہوجاتی ہے اور یہ لوگ تاریخ اسلا م میں اپنے لئے ایک مقام بنالیتے ہیں !!سرانجام مولف محترم ثابت کرتے ہیں کہ سیف کے اس جھوٹ ،افسانوں ،حقائق میں ترمیم اور مجاز کے منحوس سائے بعد میں اصحاب وتابعین کے حالات کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں پر وسیع پیمانے پر نظر آتے ہیں اور ان میں سیف کے جعل کردہ اصحاب وتابعین مخصوص مقام پر دکھائی دیتے ہیں ،جیسے:

بغوی (وفات ٣١٧ھ )کی ''معجم الصحابہ''

ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ)کی '' اسد الغابہ''

ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) کی '' الاصابہ''

ان کے علاوہ حالات زندگی بیان کرنے والے اور بہت سے مأخذ بھی ہیں ان ہی مقاصد کو فتوحات سے مربوط فوجی سرداروں کے حالات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں مد نظر رکھا گیا ہے ، جیسے:

''طبقات ابوزکریا'' (وفات ٣٣٤ھ )

''تاریخ دمشق '' ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ)

اور دوسری کتابیں ۔

اس حد تک کہ سیف کے جعل کردہ اس قسم کے افسانوی پہلوانوں کے خاندان اور شہرت ، مقامات اور جھوٹے و فرضی کیمپوں کے بارے میں ابہام و اشکالات کو دور کرنے کے لئے مجبور ا کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان پر شرح و تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں یہ افسانے اور جھوٹ ،کا بوس بن کر تاریخ کی گراں سنگ اور معتبر کتابوں ،جیسے : تاریخ طبری ،ابن اثیر ،ذہبی ،ابن کثیر اور ابن خلدون پر چھا گئے ہیں ۔حتیٰ ادب کی کتابیں ،جیسے : اصفہانی کی '' اغانی'' لغت کی کتابیں ،جیسے '' لسان العرب '' ابن منظور اور حدیث کی کتابیں جیسے : ''صحیح ترمذی '' بھی سیف کے تصرف اور اس کے جھوٹ اور افسانوں کے نفوذ سے محفوظ نہیں رہی ہیں ۔

۱۷

خلاصہ:

یہ کہ استاد عسکری نے اپنی کتاب کی اس جلد میں ١٥٠جھوٹے اصحاب میں ٣٩ ،اصحاب (جو برسوں اور صدیوں تک حقیقت اور عینی وجود کے پردے کے پیچھے خود کو مخفی کئے ہوئے تھے اور ان کا وجود ناقابل انکار بن چکا تھا ) کی شناسائی کرکے انھیں تشت از بام کیا ہے ۔ان افسانوی اصحاب میں سے بیس اصحاب خاندان تمیم یعنی سیف کے اقربا ہیں اور مولف نے ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک الگ فصل مخصوص کی ہے ۔اور دقت نظر اور علمی روش کے تحت ان کے بارے میں بحث و تحقیق کی ہے اس کے بعد ان کے بارے میں سیف اور دیگر مورخین کے نظریات کا موازنہ کرکے قطعی اور ناقابل انکار دلائل کے ذریعہ ان میں سے ہر ایک کا افسانوی ،خیالی،و فرضی ہونا ثابت کیا ہے ۔

ہمار ا اعتقاد یہ ہے کہ اس قسم کی موضوعی تحقیق و بحث جو صرف علمی پہلو کی حامل ہے ،اس پر خطر اور نشیب و فراز والی راہ میں جس کا آغاز ،استاد عسکری نے اپنی تحقیق اور اس کتاب کے ذریعہ کیا ہے ،علماے دین اور حقائق کے متلاشیوں کی ہمت و کوشش سے جو اس سلسلے میں دوسروں سے زیادہ سرگرمی دکھانے کے مستحق ہیں گراں قیمت اسلامی آثار کو آلودگیوں سے نہ صرف اعتقادی لحاظ سے بلکہ ہر دو لحاظ سے ،یعنی فقہی و دینی لحاظ سے پاک کرنے کی ضرورت ہے کہ ممکن ہے کہ ان موارد کے پیچھے جھوٹ یا دخل و تصرف دونوں کے کتنے ہی چہرے پوشیدہ اور مخفی ہوں ۔

اس قسم کے حقائق کو رائج اور ایسی سرگرمیوں کا آغاز کرکے استاد عسکری نے اپنی ثمربخش اور نتیجہ خیز کو ششوں کو دنیائے علم و دانش خاص کر عالم اسلام جو تہذیب و تمدن اور دنیا و آخرت کی بھلائی کو وجودمیں لانے والی عظیم طاقت ہے کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔

رشاد دار غوث

۱۸

مقدمۂ مؤلف

اس کتاب کی پہلی جلد ١٣٨٧ھ میں پہلی بار چھپ کر منظر عام پر آگئی ،لیکن اس میں درج کئے گئے اشعار کے بارے میں تحقیق کرنے کی فرصت پیدا نہ ہو سکی ۔اس کا سبب یہ تھا کہ میں نے مذکورہ اشعار کو بد خط قلمی نسخوں سے نقل کیا تھا کہ غالبا الفاظ اور عبارتوں کے لحاظ سے ان میں بہت سی غلطیاں موجود تھیں ۔

کتاب کی طباعت میں یہ عجلت اور اشعار کے بارے میں عدم تحقیق و دقت اس لئے تھی کہ بغداد میں(۱) '' اصول دین کالج '' کی جو بنیاد ہم نے ڈالی تھی ،انہی دنوں اس کی عملی سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں ،اس لئے ہم مجبور تھے کہ ایک علمی کتاب شائع کرکے دیگر اداروں ،کالجوں اور یونیور سٹیوں میں اس کا تعارف کرائیں ۔

اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ کتاب کو اس صورت میں کالج کی مطبوعات میں سے ایک

____________________

۱۔'' اصول دین قومی کالج '' کی بنیاد ١٣٧٤ھ کو بغداد میں ڈالی گئی ۔طالب علموں کو اس کا لج سے علوم قرآن ، حدیث، عربی، ادبیات میں گریجویش کی ڈگری دی جاتی تھی ۔ہم ان دنوں اس کوشش میں تھے کہ اس کالج کے پہلے گروپ کے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی اس کی اسناد کوبغداد یونیورسٹی اور دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں سے رجسڑیشن کرائیں ۔

۱۹

کتاب کے طور پر شائع کرکے منظر عام پر لائیں ۔شعر و شاعری حتیٰ حوادث و واقعات ،جو ایسی رجز خوانیوں اور رزم ناموں کو وجود میں لانے کا سبب بنے تھے ،کے جعلی ثابت ہونے کے بعدان کی عبارتوں اور اشعار کے تلفظ کے بارے میں تحقیق نہ فقط غیر ضروری تھی بلکہ اس سے کتاب کے بنیادی مقصد اور اس کے علمی مطالب کوکوئی ضرر نہیں پہنچتاتھا۔

اس کے علاوہ طے یہ پا یاتھا کہ اس کتاب کی پہلی جلد ،خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے مخصوص ہو۔لیکن ہم نے دروغ بافی کے تنوع اور غیر تمیمی صحابیوں کی تخلیق ثابت کرنے کے لئے یہ مناسب سمجھاکہ کتاب کی آخر میں چند غیر تمیمی افسانوی اصحاب کابھی اضافہ کریں اس طرح اس کتاب کی پہلی جلد (عربی میں )بیروت سے شائع ہوئی۔

اس کتاب کی طباعت کے فوراًبعد اس کاپرجوش استقبال کیاگیا،حتیٰ بعض ناشروں نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کتاب کو دوبارہ آفسٹ پرنٹنگ میں چھاپنے کی اجازت دیدوں ۔میں نے اپنے گزشتہ تجربہ کے پیش نظر انھین اس چیز کی اجازت نہیں دی لیکن میری عدم موافقت کے باوجود یہ کتاب دوبارہ چھاپی گئی اور اس کے ہزاروں نسخے چاہنے والوں تک پہنچے ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں ان دنوں زیر بحث اشعار کی تحقیق و تصحیح میں لگا ہوا تھا۔ اس کام سے فراغت پانے کے بعد میں نے اس کتاب کی آخر سے دو غیر تمیمی اصحاب کو حذف کرکے ان کی جگہ پر سیف کے دو دیگر جعلی تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات کا اضافہ کرکے اس کی دوبارہ طباعت کا اقدام کیا ۔اس طرح حقیقت میں اب کہا جاسکتا ہے کہ کتاب ''جعلی اصحاب'' کی پہلی جلد مکمل اور تصحیح شدہ صورت میں ١٣٨٩ھ میں بعداد سے شائع ہو ئی ہے ۔

خدائے تبارک و تعالیٰ اس کام کو جاری رکھنے اور ان عملی مباحث کو مکمل کرنے میں میری مدد فرمائے!۔

مرتضیٰ عسکری

۲۰

ہم جیسے

احمد فراز

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

*

برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا

تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

*

وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں

جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

*

یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں

یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

*

بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے

سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

*

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں

ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

*

تُو سر بریدہ ہوا شہرِ نا سپاساں میں

زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

*

۲۱

پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز

بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے

***

(مجموعہ۔"نابیناشہرمیںآئینہ")

۲۲

کوثر نیازی

دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے

تصورات میں روشن فضائے بدر و حُنین

*

خوشا یہ اوجِ مقدر، زہے یہ عز و شرف

مری زباں پہ جاری ہے آج ذکرِ حُسین

**

نہ فکر سود و زیاں کی، نہ ذکرِ تیغ و تبر

حُسین، راہِ خدا میں تری یہ بے تابی

*

بہار گلشنِ اسلام میں پلٹ آئی

کہ تیرے خون سے قائم ہے اس کی شادابی

**

کہیں بھی اہلِ محبت کی تشنگی نہ بجھی

فرات و نیل کے ساحل سے تا بہ گنگ و جمن

*

برائے لالہ و گل اجنبی ہے فصلِ بہار

خزاں کے دستِ تصرف میں آگیا ہے چمن

**

ہر ایک سمت میں عفریت ظلم کے رقصاں

خدا کے دین کا حلقوم ہے تہِ شمشیر

*

نئے یزید، نئی کربلا ہوئی پیدا

زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا شبّیر

***

۲۳

مرثیۂ امام

فیض احمد فیض

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے

ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے

*

مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے

مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

*

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے

یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

**

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی

پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی

*

ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی

یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

*

رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے

تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

**

۲۴

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار

اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار

*

تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار

اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

*

مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے

ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

**

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی

ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی

*

ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی

ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

*

پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا

پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

**

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل

الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل

*

بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل

وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

*

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو

باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

**

۲۵

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی

اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی

*

نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی

شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

*

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا

خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

**

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا

تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا

*

ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا

یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

*

کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے

خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

**

فرمایا کہ کیوں در پئے ‌آزار ہو لوگو

حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو

*

واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو

معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

*

کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے

معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

**

۲۶

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو

اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو

*

زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو

جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

*

سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے

اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

**

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار

باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار

*

انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار

ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

*

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے

جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

**

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا

تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا

*

جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا

جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

*

نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا

نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

**

۲۷

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر

پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر

*

قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر

خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

*

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا

اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

***

(مجموعہ۔"شامِ.شہرِیاراں")

۲۸

سلام

منیر نیازی

خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حُسین

شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسین

*

حیراں وہ بے یقینیِ اہلِ جہاں سے ہے

دنیا کی بیوفائی سے دلگیر ہے حسین

*

یہ زیست ایک دشت ہے لا حد و بے کنار

اس دشتِ غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسین

*

روشن ہے اس کے دم سے الم خانۂ جہاں

نورِ خدائے عصر کی تنویر ہے حسین

*

ہے اس کا ذکر شہر کی مجلس میں رہنما

اجڑے نگر میں حسرتِ تعمیر ہے حسین

***

(مجموعہ۔"ساعتِ.سیّار")

۲۹

حفیظ تائب

رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں

حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

*

انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود

انہی کے گھر کو میں دارالسلام جانتا ہوں

*

میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز

کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

*

مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات

سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

*

نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر

جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں

*

میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں

جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

*

شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب

جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں

***

۳۰

مرثیہ

از میر تقی میر

بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار

جاویں گے مارے آنکھوں کے آگے سب ایک بار

*

ناچار اپنے مرنے کا ہو گا امیدوار

ہے آج رات اور یہ مہمان روزگار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

یک دم کہ تیری ہستی میں ہو جائے گا غضب

سادات مارے جائیں گے دریا پہ تشنہ لب

*

برسوں فلک کے رونے کا پھر ہے یہی سبب

مت آ عدم سے عالمِ ہستی میں زینہار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

ماریں گے تیر شام کے نامرد سارے لوگ

دیویں گے ساتھ اس کا جنہوں نے لیا ہے جوگ

*

۳۱

تا حشر خلق پہنے رہیں گے لباسِ سوگ

ہو گا جہاں جوان سیہ پوش سوگوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

اکبر مرے گا جان سے قاسم بھی جائے گا

عباس دل جہان سے اپنا اٹھائے گا

*

اصغر بغل میں باپ کی اک تیر کھائے گا

شائستہ ایسے تیر کا وہ طفل شیر خوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

اے کاش کوئی روز شبِ تیغ اب رہے

تا اور بھی جہاں میں وہ عالی نسب رہے

*

لیکن عزیز جس کے مریں سب وہ کب رہے

بے چارہ سینہ خستہ و بے یار و بے وتار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۲

ذات مقدس ابن علی کی ہے مغتنم

اک دم میں اس کے ہوویں الٰہی بزار دم

*

کیا شب رہے تو ہووے ہے ایام ہی میں کم

آتا ہے کون عالمِ خاکی میں بار بار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

کاکل میں تیرے فتنے ہیں ہر اک شکن کے ساتھ

ہنگامہ لگ رہا ہے ترے دم زدن کے ساتھ

*

رہ کوئی دن عدم میں ہی رنج و محن کے ساتھ

یہ بات دونوں صمع میں رکھتی ہے اشتہار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

جلوے میں تیرے سینکڑوں جلووں کی مے فنا

یعنی سحر پہ آنا قیامت کا ہے رہا

*

دن ہو گیا کہ سبط نبی مرنے کو چلا

ساتھ اپنے دے چکا ہے تلف ہونے کا قرار

*

۳۳

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

آبِ فرات پر تو بہ شب دن نہ پھر کبھی

خوں ریز ورنہ ہونے لگے گا بہم ابھی

*

سیِّد تڑپ کے پیاس سے مر جائیں گے سبھی

پیغمبرِ خدا ہی کا پروردۂ کنار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

دن شب کو کس امید کے اوپر کرے بھلا

جو جانتا ہو یہ کہ ستم ہو گا برملا

*

نکلے گی تیغِ جور کٹے گا مرا گلا

اے وائے دل میں اپنے لیے حسرتیں ہزار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

ایسا نہ ہو کہیں کہ نکل آوے آفتاب

وہ جو غیور مرنے میں اپنے کرے شتاب

*

۳۴

دے بیٹھے سر کو مصر کے میں کھا کے پیچ و تاب

تر خوں میں دونوں کسو ہوں سر پر پڑے غبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

جس دم خطِ شعاعی ہوئے رونقِ زمیں

افگار ہو کے نیزہ خطی سیوہ حسیں

*

ہوویں گے جمع پیادے سوار آن کر وہیں

ہو گا جدا وہ گھوڑے سے مجروح بے شمار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

لوہو جبیں کے زخم سے جاوے گا کر کے جوش

فرق مبارک اس کے میں مطلق نہ ہو گا ہوش

*

سجدے میں ہو رہے گا جھکا سر کے تئیں خموش

آنے کا اپنے آپ میں کھینچے گا انتظار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۵

خورشید کی بلند نہ ہو تیغ خوں فشاں

ہے درمیاں نبی کے نواسے کا پائے جاں

*

ایسا اگر ہوا تو قیامت ہوئی عیاں

وہ حلق تشنہ ہو گا تہِ تیغ آب دار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

روشن ہوا جو روز تو اندھیر ہے نداں

میداں میں صاف ہو کے کھڑا دے چکے گا جاں

*

ناموس کی پھر اس کے نہ عزت ہے کچھ نہ شاں

اک شش جہت سے ہو گی بلا آن کر دو چار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

پھر بعد قتل اس کے غضب ایک ہے یہ اور

بختی چرخ راہ چلے گا انہوں کے طور

*

شیوہ جفا شعار ستم طرز جن کی جور

عابد کے دست بستہ میں دی جائے گی مہار

*

۳۶

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

خورشید سا سر اس کا سناں پر چڑھائیں گے

عالم میں دن وہی ہے سیہ کر دکھائیں گے

*

بیٹے کے تئیں سوار پیادہ چلائیں گے

ہو گا عنان دل پہ نہ کچھ اس کا اختیار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

پیکر میں ایک کشتہ کے ہو گی نہ نیم جان

خیل و حشم کا اس کے نہ پاویں گے کچھ نشاں

*

شوکت کہاں سر اس کا کہاں جاہ وہ کہاں

یہ جائے اعتبار ہے کیا یاں کا اعتبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

صاحب موئے اسیر ہوئے شام جائیں گے

سو کر جھکائے شرم سے ہر گام جائیں گے

*

۳۷

ناچار رنج کھینچتے ناکام جائیں گے

لطف خدائے عز و جل کے امیدوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

لازم ہے خوں چکان روش گفتگو سے شرم

کر اس نمود کرنے کی ٹک آرزو سے شرم

*

تجھ کو مگر نہیں ہے محمد کے رو سے شرم

بے خانماں بے دل و بے خویش بے تبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

راہِ رضا میں عاقبتِ کار سر گیا

ایسی گھڑی چلا کہ مدینے نہ پھر گیا

*

ہوں آفتاب جانبِ شام آ کے گھر گیا

خاطر شکستہ غم زدہ آزردہ دل فگار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۸

آثار دکھ کے ہیں در و دیوار سے عیاں

چھایا ہے غم زمین سے لے تا بہ آسماں

*

کچھ میر ہی کے چہرے پہ آنسو نہیں رواں

آیا ہے ابر شام سے روتا ہے زار زار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*****

۳۹

شامِ غریباں

پروین شاکر

غنیم کی سرحدوں کے اندر

زمینِ نا مہرباں پہ جنگل کے پاس ہی

شام پڑ چکی ہے

ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے

اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو

جو اپنی نو خیزیوں کی پہلی رتوں میں

رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے

اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک

جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر

ردائے عفت اڑھانے والے

بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں

بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ

ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا

مگر وفا کی سبیل بن کر

فضا سے اب تک چھلک رہا ہے

برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371