ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 371
مشاہدے: 115353
ڈاؤنلوڈ: 2880


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115353 / ڈاؤنلوڈ: 2880
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 2

مؤلف:
اردو

سیف کی کتاب '' فتوح ''میں آیاہے

حمیری نے بھی اپنی کتاب ''الروض المعطار '' میں لفظ''مدائن '' کے بارے میں سیف سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھاہے :

قعقاع بن عمرو نے اپنے اشعار میں کہاہے :

ہم نے شہر ویہ اردشیر کو صرف اس کلام کے ذریعہ فتح کیا جسے خدا نے ہماری زبان پر جاری کیاتھا.....

اسی طرح اشعار کو آخر تک بیان کرتاہے جنھیں ہم نے قعقاع کے حالات میں اس کتاب کی پہلی جلد میں درج کیاہے ۔

اس کے بعد حمیری مزید کہتاہے :

اسود بن قطبہ نے دریائے دجلہ سے مخاطب ہوکر کہا:

اے دجلہ! خدا تجھے برکت دے ۔اس وقت اسلام کے سپاہی تیرے ساحل پر لشکر گاہ تشکیل دے چکے ہیں ۔خدا کا شکر ادا کرکہ ہم تیرے لئے عطا کئے گئے ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں میں سے کسی ایک کوبھی نہ ڈرانا۔ وہ لفظ ''افریدون '' کے بارے میں لکھتاہے :

''افریدون'' عراق میں مدائن کے نزدیک ایک جگہ ہے ۔انس بن حلیس نے کہاہے کہ ہم نے اس زمانے میں ویہ اردشیر کو اپنے محاصرے میں لے لیاتھا

اور داستان کو آخر تک بیان کرتے ہوئے کہتاہے :

جب تک علاقۂ افریدون کا شہد نہ کھالیں

۶۱

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ

جو کچھ یہاں تک کہاگیا وہ سیف بن عمر کے ابو مفزر اور اس کے کلام کے ذریعہ شہر ویہ اردشیر کی فتح کے بارے میں جعل کئے گئے مطالب ہیں ۔اور اس کے یہی افسانے مسلمہ سند اور تاریخی متون کے عنوان سے شعرو ادب ،تاریخ اور اسلام کے سیاسی اسناد کی کتابوں میں درج ہوگئے ہیں کہ ہم نے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا،جب کہ دوسرے مؤرخین ،جو سیف پر اعتماد نہیں کرتے ،جیسے بلاذری اور ابن قتبہ دینوری نے ویہ اردشیر کی فتح کو اس سے مختلف صورت میں ذکرکیاہے جو سیف کی روایتوں سے مطابقت نہیں رکھتے ،انھوں نے لکھاہے کہ ویہ اردشیر کی فتح ایک شدید جنگ اور طولانی محاصرہ کے بعد حاصل ہوئی ہے کہ محاصرے کے دوران خرما کے درختوں نے دوبارہ میوے دیدئے اور دوبارے قربانی کی گئی ، یعنی مسلمان فوجوں نے شہر ویہ اردشیر کی دیواروں کے پاس دو عید قربان منائیں اور اس مدت تک وہاں پر رکے رہے ۔یہی اس بات کا اشارہ ہے کہ محاصرہ کی مدت دوسال تک جاری رہی ۔ دینوری لکھتاہے :

جب اسلام کے سپاہیوں کے ذریعہ شہر کا محاصرہ طولانی ہواتو شہر کے باشندے تنگ آگئے ، سر انجام اس علاقے کے بڑے زمینداروں نے مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی ،جب ایرانی پادشاہ یزدگرد نے یہ حالت دیکھی تو اس نے سرداروں اور سرحد بانوں کو اپنے پاس بلاکر اپنا خزانہ اور مال ومتاع ان میں تقسیم کیا اور ضروری قبالے انھیں لکھ کے دئے اور ان سے کہا:

اگر یہ طے ہوکہ ہمارا یہ مال ومتاع ہمارے ہاتھ سے چلا جائے تو تم لوگ اجنبیوں سے زیادہ مستحق ہو۔اگر حالات دوبارہ ہمارے حق میں بدل گئے اور ہم اپنی حکومت کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لے سکے تو اس وقت جو کچھ ہم نے آج تمھیں بخش دیاہے ،ہمیں واپس کردینا ۔

اس کے بعد اپنے نوکر چاکر ،خاص افراد اور پردہ نشینوں کو لے کر ''حلوان'' کی طرف روانہ ہوا اور جنگ قادسیہ میں کام آنے والے رستم فرخ زاد کے بھائی خرداد بن حرمز کو اپنی جگہ پر حاکم مقرر کرگیا۔

۶۲

سند کی تحقیق

بہرسیر(یا ویہ اردشیر) کے افسانے کو سیف نے سماک بن فلان ہجیمی سے اور اس نے اپنے باپ محمد بن عبد اللہ نویرہ اور انس بن حلیس سے نقل کیاہے ۔ہم نے محمد بن عبداللہ کو قعقاع وعاصم کی داستانوں میں پہچان لیا کہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ،دلچسپ بات یہ ہے کہ سیف نے انس بن حلیس کو محمد بن عبد اللہ کا چچا بتایاہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس قسم کا راوی کس حد تک حقیقی ہوسکتاہے !

اس کے با وجود ہم نے سماک بن فلان ،اس کے باپ اور انس بن حلیس کے سلسلے میں تمام مصادر کی طرف رجوع کیا ۔لیکن انھیں سیف کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔اس بناء پر ہم ان تینوں راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

دو روایتوں کا موازنہ

بہر سیر (یا ویہ اردشیر ) کی فتح صرف ابو مفزر تمیمی کے ان کلمات سے حاصل ہوئی ہے جنھیں ملائکہ نے فارسی زبان میں اس کی زبان پر جاری کردیاتھا۔ایسے کلمات جن کے معنی وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اور نہ اس کے ساتھی ۔اس دعوے کی دلیل ایک شعر سے جسے خود اسود بن قطبہ نے کہاہے اور وہ اس میں کہتاہے :

میں نے بہرسیر کوخدا کے حکم سے صرف فارسی میں چند کلمات کے ذریعہ فتح کیا۔

اس کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ بڑے افسانوی سورما قعقاع نے بھی ایک شعر کے ضمن میں کہاہے کہ:

بہر سیر کو ہم نے ان کلمات سے فتح کیا جنھیں خدا نے ہماری زبان پر جاری کیاتھا!

اس طرح وہ افسانہ کو آخر تک بیان کرتاہے ۔

دیگر مؤرخین ،جنھوں نے دوسرے منابع سے روایتیں حاصل کی ہیں اور سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیاہے ،کہتے ہیں :

بہر سیر(یاویہ اردشیر) کی فتح ایک شدید جنگ اور دوسال کے طولانی محاصرہ کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے ۔اس طولانی محاصرہ کے دوران بڑے اور عام زمینداروں نے تنگ آکر مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی اور اس طرح محاصرہ سے رہاپائی ۔

۶۳

سیف کا کارنامہ

قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے لئے ایک ایسی کرامت ثبت کرنا جس کے جیسی کوئی اور کرامت نہ ہو!کیونکہ وہ اس خاندان کے ایک ایسے معنوی فرد کو پیش کرتاہے جس کی زبان پر ملائکہ ایسے کلمات جاری کرتے ہیں کہ ان کے معنی نہ وہ خود جانتاہے اور نہ اس کے ساتھی ۔اس قسم کے کلام کے نتیجہ میں ایک بڑا شہر مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوتاہے اور اس طرح خاندان تمیم کے حق میں تاریخ کے صفحات میں ایک عظیم افتخار ثبت ہوجاتاہے ۔اس لحاظ سے کہ:

خاندان بنی عمرو تمیمی صرف تلوار سے ہی مشکل کشائی اور سرزمینوں کو فتح نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے کلام سے بھی یہ کارنامے انجام دیتے ہیں ۔

زمین پر '' افریدون '' جیسے مقامات اور جگہوں کی تخلیق کرنا ،تا کہ ان کا نام ''معجم البلدان '' اور '' الروض المعطار'' جیسی کتابوں میں درج ہوجائے ۔

ابو مفزر اسود بن قطبہ کی سرگرمیوں کے چند نمونے

طبری کی گراں قدر اور معتبر کتاب تاریخ کے مندرجہ ذیل موارد میں صراحت کے ساتھ سیف سے نقل کرتے ہوئے ابو مفزر اسود بن قطبہ تمیمی کانام لیاگیاہے:

١۔ جلولاء کی جنگ اور اس کی فتح کے بعد سعد وقاص نے جنگی اسیروں کو اسود کے ہمراہ خلیفہ عمر کے پاس مدینہ بھیجاہے ۔

٢۔رے کی فتح کے بعد سپہ سالار ''نعیم بن مقرن'' نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ (خمس) کو ''اسود'' اور چند معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیجا۔

٣۔ ٣٢ھ کے حوادث کے ضمن میں ''اسود'' تمیمی کانام دیگر تین افراد کے ساتھ لیاگیا ہے جنھوں نے ایک خیمہ کے نیچے ایک انجمن تشکیل دی تھی ۔

۶۴

٤۔ اس کے علاوہ ٣٢ھ میں ابو مفزر اسود بن قطبہ '' نے ابن مسعود اور چند دیگر نیک نام ایرانی مسلمانوں کے ہمراہ ،جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کی جلا وطنی کی جگہ ''ربذہ '' میں پہنچ کر اس عظیم شخصیت کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی ہے ۔

٥۔ قادسیہ کی جنگ میں ''اغواث'' کے دن ''اعور ابن قطبہ'' نامی ایک شخص کی ''شہر براز''کے ساتھ جنگ کی داستان بیان کی گئی ہے کہ طبری کے مطابق سیف نے روایت کی ہے کہ اس نبرد میں دونوں پہلوان مارے گئے اور اعور کے بھائی نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

ہم نے ''اغواث''کا جیسا تلخ و شیرین کوئی دن نہیں دیکھا کیونکہ اس دن کی جنگ واقعاً خوشی اور غم کا سبب تھی۔

اس کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ آیا سیف نے اپنے خیال میں ابو مفزر بن قطبہ کے لئے اعور نام کا کوئی بھائی تخلیق کیاہے کہ اسود نے اس طرح اس کاسوگ منایاہے ،یایہ کہ اعور بن قطبہ کانام کسی اور شخص کے لئے تصور کیاہے ؟!

یہ پنجگانہ موارد اور دوسروں کی روایتیں

طبری نے مذکورہ پنجگانہ موارد کو اسود بن قطبہ کے بارے میں نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ،جب کہ دوسرے مؤرخین جنھوں نے جلولا،قادسیہ،رے اور عثمان کے محاصرے کی روائیداد کی تشریح کی ہے ،نہ صرف ''اسود'' اور اس کی سرگرمیوں کا کہیں نام تک نہیں لیاہے بلکہ ان واقعات سے مربوط باتوں کو ایسے ذکر کیاہے کہ سیف کے بیان کردہ روایتوں جنھیں طبری نے نقل کیاہے سے مغایرت رکھتی ہیں ۔

سیف نے اپنے افسانوی شخص'' اسود'' کو تمام جنگوں میں شرکت کرتے دکھایاہے اور اسے خوب رو ،معروف ،موثق اور بااطمینان حکومتی رکن کی حیثیت سے پہچنوایاہے اسیروں اور جنگی غنائم کو اس کی سرپرستی میں قرار دیاہے اور خاص کر اسے جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کی تجہیز وتکفین میں ، مشہور ومعروف صحابی مسعود کے ساتھ دکھایاہے ۔ہم اس آخری مورد پر الگ سے بحث وتحقیق کرینگے

۶۵

اسود بن قطبہ کے افسانہ کی تحقیق:

طبری نے رے کی فتح کے بارے میں روایت کی سند ذکر نہیں کی ہے ۔لیکن دیگر جنگوں اور واقعات جیسے :قادسیہ ،جلولا،محاصرہ ٔعثمان اور ابوذر کی تجہیز وتکفین میں شرکت کے بارے میں سیف کی روایتوں کی سندیں حسب ذیل ہیں :

محمد ،زیاد،مھلب،مستنیر بن یزید اپنے بھائی قیس اور باپ یزید سے ،اور کلیب بن حلحال ، حلحال بن ذری سے ۔ہم نے پہلے ثابت کیاہے کہ یہ سب راوی سیف کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

اسی طرح اپنے راویوں کاذکر کرتے ہوئے ''ایک مرد سے '' (عن رجل ) روایت کی ہے اور اسے کسی صورت سے ظاہر نہیں کیاہے اور ہم نہیں جانتے سیف کے خیال میں ''یہ مرد'' کون ہے ؟

اس کے علاوہ مجہول الہویہ دو افراد سے بھی روایت کی ہے اور ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ سیف کی نظرمیں یہ دو آدمی کون ہیں تا کہ ان کے وجود یا عدم کے سلسلے مین بحث و تحقیق کرتے !!

اس کے علاوہ ہم نے سیف کی داستان کے ہیرو ابو مفزر اسود بن قطبہ کا سیف اور اس کے افسانوی راویوں کے علاوہ کسی اور کے ہاں سراغ نہیں پایا۔

لگتاہے کہ نقل کرنے والوں سے ''اسود'' کی کنیت لکھنے میں غلطی ہوئی ہو اور انھوں نے اسے ''ابو مقرن '' لکھاہو ۔جیساکہ ہم اس جیسے ایک مورد سے پہلے دوچار ہوچکے ہیں اور شائد اسی اندراج میں غلطی نے ہی ابن حجر کو بھی شک وشبہہ سے دوچار کیاکہ اس نے ''ابومقرن ''اور '' ابو مفزر'' کو دو اشخاص تصور کیاہے ۔ان میں سے ایک ابومقرن اسودبن قطبہ ،کہ جس کا ذکر سیف کے افسانوں میں گزرا اور دوسرا '' ابو مفزر '' کے لقب سے نام ذکر کئے بغیر۔ابن حجر نے ''اصابہ'' میں ''الکنی '' سے مربوط حصہ میں اس کا ذکر کیاہے ۔

۶۶

چوتھا جعلی صحابی ابو مفزر تمیمی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' کے ''الکنی ''سے مربوط حصہ میں ابو مفزر تمیمی کا ذکر یوں کیا ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابو ذر غفاری کی وفات کے سلسلے میں بعض راویوں ،جیسے '' اسماعیل بن رافع نے محمد بن کعب سے نقل کرتے ہوئے ابو مفزر کے اس موقع پر موجود ہونے کی خبر دی ہے ،اور ابوذر کی وفات کی داستان کے ضمن میں لکھا ہے:

....جو افراد '' ربذہ'' میں ابو ذر غفاری کی تدفین کے موقع پر ابن مسعود کے ہمراہ موجود تھے ،ان کی تعداد ( ١٣ ) تھی اور ان میں سے ایک ابومفزر تمیمی تھا ۔اس کے علاوہ کہتا ہے :

ابومفزر ان افراد میں سے ہے جس پر خلافت عمر کے زمانے میں شراب پینے کے جرم میں خلیفہ کے حکم سے حد جاری کی گئی ہے ،اور ابو مفزر نے ایک شعر میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے :

اگر چہ مشکلات او ر سختیوں کو برداشت کرنے کی ہمیں عادت تھی ہم شراب و کباب کی محفلوں میں قدم رکھنے کے آغاز سے ہی صبر و شکیبائی کی راہ

۶۷

اپنا چکے تھے ۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ ابن حجر دو آدمیوں کو فرض کرکے شک و شبہ سے دو چار ہو ا ہے ایک کو ''ابو مقرن اسود بن قطبہ '' فرض کیا ہے اور اس کا نام اور اس کے حالات کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے حصے میں درج کیا ہے اور دوسرا '' ابو مفزر'' کو فرض کیا ہے اور اس کی داستان کو کتاب ''اصابہ'' کے ''الکنی''کے حصہ میں ذکر کیا ہے جو اصحاب کی کنیت سے مخصوص ہے ۔

لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ ابن حجر نے ابوذر غفاری کی تدفین کے موقع پر ابو مفزر کی موجودگی کے بارے میں جو روایت سیف سے نقل کی ہے ،وہ اسی موضوع پر طبری کی سیف سے نقل کی گئی دوسری روایت سے سند اور ابوذر غفاری کی تدفین کے مراسم میں افراد کی تعداد کے لحاظ سے واضح اختلاف رکھتی ہے اور ہم نے اسے نقل کیا ہے ۔

اس کے علاوہ ابن حجر کے بیان میں یہ مطلب ذکر ہوا ہے کہ ابو مفزر تمیمی پر شراب پینے کے جرم میں خلیفہ عمر کے حکم سے حد جاری کرنے کا موضوع سیف کی روایات میں تین الگ الگ داستانوں میں ذکر ہو ا ہے اور ان میں سے کسی ایک میں بھی اسود بن قطبہ یا اس کے شعر کا نام و نشان نہیں ہے ۔شاید سیف کے لئے اس قسم کے صحابی کو جعل کرنے ،اس کی شجاعتیں اور کمالات دکھانے ، بہر شیر ( یا اردشیر ) کے میدان کا رزار میں فرشتوں کے ذریعہ اس کی زبان پر فارسی کلمات جاری کرکے ایرانیوں کو میدان جنگ سے معجزا تی طور پربھگا نے کا سبب یہ ہوگا کہ سیف کے مذہب میں جس پرزندیقی ہونے کا الزام ہے شراب پینا معمول کے مطابق ہے اور اسے ذکر کرنا کوئی اہم نہیں ہے

۶۸

نسخہ برداری میں مزید غلطیاں

حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لفظ '' گرگان'' کی تشریح میں سیف سے نقل کرنے کے بعد اس کی فتح کے طریقے کے بارے میں '' سوید بن قطبہ '' کے مندرجہ ذیل دو اشعار کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔

لوگو! ہمارے قبیلہ بنی تمیم کے خاندان اسید سے کہہ دو کہ ہم سر زمین گرگان کے سر سبز مرغزاروں میں لطف اٹھا رہے ہیں ۔

جب کہ گرگان کے باشندے ہمارے حملہ اور جنگ سے خوف زدہ ہوئے اور ان کے حکام نے ہمارے سامنے سر تسلیم خم کیا !

'' سوید بن قطبہ '' در اصل '' اسود بن قطبہ '' ہے کہ نقل کرنے والے سے کتاب سے نسخہ برداری کے وقت یہ غلطی سرزد ہوئی ہے ۔

طبری نے بھی سیف بن عمر سے ایک داستان نقل کرتے ہوئے '' سوید بن مقرن '' اور گرگان کے باشندوں کے درمیان انجام پانے والی صلح کے ایک عہدنامہ کا ذکر کیاہے اس کے آخر میں ''سواد بن قطبہ ''نے گواہ کے طور دستخط کئے ہیں یہ '' سواد '' بھی در اصل '' اسود'' ہے جو حروف کے ہیر پھیر کی وجہ سے غلط لکھا گیا ہے ۔

اسناد کی تحقیق

سیف کی احادیث میں مندرجہ ذیل راویوں کے نام نظر آتے ہیں :

محمد ،بحرین فرات عجلی ، سماک بن فلاں ہجیمی اپنے باپ سے ،انس بن حلیس، زیاد ، مہلب ، مستنیربن یزید اپنے بھائی اور باپ سے ،کلیب بن حلحال ذری نے اپنے باپ سے خصوصیات کے بغیر ایک مرد سے اور مزید دو مجہول افراد اورعامر ،مسلم ،ابی امامہ ،ابن عثمان عطیہ اور طلحہ۔ ان افراد کے بارے میں ہم اس کی روایات میں کسی قسم کا تعارف اور خصوصیات نہیں پائے کہ ان کو پہچان سکیں مثلا ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ عامر سے اس کا مقصود شعبی ہے یا کوئی اور ؟!او ر طلحہ سے اس کا مقصود طلحہ ابن عبد الرحمن ہے یا اور کوئی ۔ بہر حال اس نے اپنی روایتوں میں ایسے راویوں کا نام لیا ہے کہ جن کے بارے میں ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ اس کے جعلی راوی اور اس کی ذہنی تخلیق ہیں !!

اس کی روایت کے ضمن میں چند دیگر راویوں کا نام بھی ذکر ہوا ہے کہ ہم سیف کی بیہودہ گوئیوں اور افسانہ سرائیوں کے گناہ کا مرتکب انھیں نہیں ٹھہراتے ،خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سیف تنہا شخص ہے جو ان افسانوں کو ایسے راویوں سے نسبت دیتا ہے ۔

۶۹

بحث کا خلاصہ

سیف نے ابومفزر اسود بن قطبہ کو بنی عمرو تمیمی کے خاندان سے ذکر کرکے انھیں فتوحات میں مسلمانوں کے مشہور شاعر اور ترجمان کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔

سیف نے اسے حیرہ کی فتوحات میں ،جیسے : الیس ،امغشیا، مقر ،الثنی اور زمیل کی جنگوں میں خالد کے ساتھ شرکت کرتے دکھایا ہے اور اس سے چھ رزم نامے اور رجز بھی کہلوائے ہیں ۔

اس نے یرموک اور قادسیہ کی جنگوں میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور اس سلسلے میں اس کی زبان سے تین رزمیہ قصیدے بھی کہلوائے ہیں ۔

'' ویہ اردشیر'' کی جنگ میں اس کی عظمت کو بڑھا کے پیش کیاہے اور اس کو ایک معنوی مقام کا مالک بنا کر اطمینان و سکون کا سانس لیا ہے ۔ایرانی پادشاہ کے ایلچی کے جواب میں ، اس کی زبان پر ملائکہ کے ذریعہ فارسی زبان کے کلمات جاری کئے ہیں ، جبکہ نہ خود اس زبان سے آشنا تھا اور نہ اس کے ساتھی فارسی جانتے تھے۔

اس نے فارسی میں پادشاہ کے ایلچی سے کہا تھا:

ہم ہرگز تمہارے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے جب تک علاقہ ٔافریدون کا شہد اور کوثی کے مالٹے نہ کھالیں ۔

مشرکین نے ان ہی کلکمات کے سبب ڈر کے مارے میدان کا رزار سے فرار کیا اور شہر کو محافظوں سے خالی اور تمام مال ومتاع کے سمیت مسلمانوں کے اختیار میں دیدیا اور سیف نے اپنے افسانوی شاعر کی زبانی اس سلسلے میں تین رجز کہلوائے ہیں ۔

اسی طرح سیف نے ابو مفزر کے لئے جعل کئے گئے ایک بھائی جو جنگ قادسیہ میں اغوا ث کے دن اپنے حریف کے ہاتھوں ماراگیا تھا کے سوگ میں شعر کہکر اپنے افسانوی شاعر ابومفزر سے منسوب کئے ہیں !

اور سر انجام اس نے اپنے خیالی سورماکو جلولا اور رے کی جنگوں میں شریک کر کے اسے جنگی اسیروں اور مال غنیمت کو خلیفہ عمر کے حضور مدینہ پہنچانے کی سرپرستی سونپی ہے۔

۷۰

اور ان تمام افسانوں کو ایسے راویوں کی زبانی روایت کی ہے جو سیف کی داستان کے خیالی ہیرو کے ہی مانند خیالی تھے، جیسے:محمد،زیاد،مھلب،مستنیربن یزید اس کے بھائی قیس سے اور اس نے اپنے باپ سے، کلیب بن حلحال ذری نے اپنے باپ سے ،بحرین فرات عجلی، سماک بن فلان ہجیمی اپنے باپ سے ، انس بن حلیس اور ایک بے نام و نشان، اور دیگر مجہول راوی سے۔

یہاں پر یہ دیکھنا لطف سے خالی نہیں ہے کہ ابو مفزر کے بارے میں سیف کی روایات اور افسانوں کو کن اسلامی مصادر میں درج کیا گیا ہے اور کن مؤلفین نے دانستہ یا نادانستہ طور پر سیف کے جھوٹ اور افسانوں کی اشاعت کی ہے۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما

ابو مفزر تمیمی کے بارے میں سیف کے مذکورہ افسانے مندرجہ ذیل منابع و مصادر میں پائے جاتے ہیں :

١۔طبری نے اپنی تاریخ کی عظیم کتاب میں ١٢۔٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور اس کے اسناد بھی درج کئے ہیں ۔

٢۔دار قطنی (وفات ٣٨٥ھ) نے اپنی کتاب ''مؤتلف'' میں ''اسود'' کے حالات کے ذیل میں ،سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

٣۔ابن ماکولا(وفات ٤٨٧ھ)نے اپنی کتاب ''اکمال'' میں اسود'' کے حالات کے ذیل میں ، سند کے ساتھ ذکر کیاہے۔

٤۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ ) نے اپنی کتاب '' تاریخ دمشق'' میں اسود کے حالات کے ذیل میں سیف بن عمر ،دار قطنی اور ابن ماکولا سے نقل کرکے سند کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ٍ ٥۔ حموی ( وفات ٦٢٦ھ ) نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں شہروں اور علاقوں کے بارے میں لکھے گئے تفصیلات کے ضمن میں نقل کیا ہے ۔

٦۔ حمیری ( وفات ٩٠٠ ھ) نے اپنی کتاب '' الروض المعطار'' میں شہروں اور علاقوں کے بارے میں لکھے گئے تفصیلات کے ضمن میں درج کیا ہے ۔

۷۱

٧۔ مرز بانی (وفات ٣٨٤ ھ ) نے اپنی کتاب '' معجم الشعراء ) میں شعراء اور رجز خوانوں کے حالات کی تشریح کے ضمن میں اپنے پیشرئوں سے نقل کرتے ہوئے سند کی طرف اشارہ کئے بغیر درج کیا ہے ۔

٨۔ عبد المومن ( وفات ٧٣٩ ھ ) نے اپنی کتاب '' مراصد الاطلاع'' میں حموی سے نقل کرکے درج کیاہے۔

٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

١٠۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧٤ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

١١۔ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔

١٢۔مقریزی (وفات ٨٤٥ھ) نے اپنی کتاب '' خطط'' میں درج کیا ہے ۔

١٣۔ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں '' ابو مفزر'' کی داستان کو دارقطنی سے اور بہرسیرومیں فارسی زبان میں بات کرنے کے افسانہ کو سند ذکر کئے بغیرمر زبانی سے نقل کیا ہے ۔

١٤۔ ابن بدران (وفات ١٣٤٦ھ ) نے اپنی کتاب '' تہذیب تاریخ ابن عساکر '' میں ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ ) سے نقل کیا ہے ۔

مذکورہ اخبار و روایات سیف بن عمر تمیمی کے وہ مطالب ہیں جو اس نے اپنے جعلی صحابی اسود بن قطبہ تتمیمی کے بارے میں تخلیق کئے ہیں ۔

لیکن جس '' اسود'' کو سیف نے جعل کیا ہے وہ اس '' اسود بن قطبہ'' کے علاوہ ہے جسے امام علی علیہ السلام نے حلوان کا کمانڈرمقرر کیا تھا اور امام نے اس کے نام ایک خط بھی لکھا تھا امام کا یہ خط آپ کے دیگر خطوط کے ضمن میں نہج البلاغہ میں درج ہے حلوان میں امام کا مقرر کردہ سپہ سالار '' اسود '' خاندان تمیم سے تعلق نہیں رکھتا تھا ۔ابن ابی الحدید نے '' شرح نہج البلاغہ' ' میں اسود کا ذکر کرتے ہوئے اسے سبائی قحطانی بتایا ہے ۔ ابن ابی الحدید لکھتا ہے :

۷۲

میں نے متعدد نسخوں میں پڑھا ہے کہ وہ اسود بن قطبہ ،حلوان میں امام کا سپہ سالار جس کے نام امام نے خط بھی لکھا ہے حارثی ہے اور خاندان بنی حارث بن کعب سے تعلق رکھتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ بنی حارث بن کعب کا شجرہ نسب چند پشت کے بعد سبائی قحطانی قبائل کے '' مالک بں اود'' سے ملتا ہے ۔اس کے حالات اور سوانح حیات کو ابن حزم نے '' جمہرہ انساب'' کے صفحہ ٣٩١میں درج کیا ہے ۔

موخر الذکر '' اسود '' کے باپ کانام نہج البلاغہ کے بعض نسخوں میں ''قطیبہ '' لکھا گیا ہے اور نصر بن مزاحم کی کتاب '' صفین'' میں اس کا نام '' قطنہ '' ذکر ہو اہے ۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ سیف نے اپنے جعلی صحابی یعنی اسود بن قطبہ تمیمی کا نام امام کے نمایندہ کے نام کے مشابہ جعل کیا ہے ۔اور یہی شیوہ اس نے خزیمة بن ثابت سماک بن خرشہ اور زربن عبداللہ کا نام رکھنے میں بھی اختیار کیا ہے انشاء اللہ ہم اس کتاب میں ان کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے۔

۷۳

سیف کا پانچواں جعلی صحابی نافع بن اسود تمیمی

سیف کی زبانی اسود کا تعارف

ابو بجید ،نافع بن اسود ،قطبہ بن مالک کا پوتا اور خاندان بنی عمرو تمیمی کا چشم و چراغ ہے سیف بن عمر نے نافع کے بارے میں یہ شجرہ نسب اپنے تصور کے مطابق جعل کیا ہے ۔

ابن ماکو لانے نافع کے حالات کے بارے میں اس طرح لکھا ہے :

سیف کہتا ہے : ابو بجید نافع بن اسود تمیمی نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں دلاوریاں دکھانے اور رزمیہ اشعار کہنے کی وجہ سے کافی شہرت پائی ہے ۔

ابن عساکر نے بھی اس کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :

نافع بن اسود تمیمی جس کی کنیت ابو بجید ہے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک صحابی ہے اور اس نے عمر سے حدیث نقل کی ہے ،نافع نے دمشق اور عراق کے شہروں کی فتوحات میں شرکت کی ہے اور ان جنگوں کے بارے میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے ہیں ۔

دلاوریاں

اس کے بعد ابن عساکر نافع کے ساٹھ سے زائد اشعار سیف ابن عمر سے روایت کرکے چھ قطعات میں نقل کرتا ہے اور اس کے پہلے قطعہ میں کہتا ہے :

سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح شعر کہے ہیں :

مجھے اور میرے خاندان والوں کو ایسا تصور نہ کرنا کہ ہم جنگ کے شعلوں سے ڈر کر آہ و زاری کر تے ہیں !ہم نے دمشق کو فتح کرنے کے بعد دشمن کے لئے اسے آفت و بلا میں تبدیل کردیا۔

۷۴

لگتا ہے کہ تم نے دمشق اور بصری کی جنگ کو نہیں دیکھا ہے کہ اس دن ہمارے دشمن خاک و خون میں کیسے غلطاں ہوئے ؟

اس دن ہم میدان کارزار میں دشمن پر طوفانی ابر کی مانند موت کی بارش برسارہے تھے ۔

ہم نے دشمن کے ہاتھ کو تمھارے دامنوں سے جدا کردیا ۔کیونکہ پناہ لینے والوں کی حمایت کرنا ہماری پرانی عادت تھی۔

اے میرے مغرور دشمن ! اس وقت جب صرف خالی نعرے سے لوگوں کی حمایت کرنا کافی نہ تھا ،تم بیچارے اور ذلیل وخوار ہوکر خاک وخون یں لت پھت پڑے تھے۔

سب جانتے ہیں کہ خاندان تمیم جنگوں میں فتح وکامرانی اور افتخارات اور دلاوریاں حاصل کرنے میں قدیم زمانے سے معروف ہے اور جنگی غنائم کو حاصل کرنا ہمارا حق ہوتا تھا۔

آزاد ہوکر ہماری پناہ میں آنے والے افراد عزیز ومحترم اور دوست ہیں اور جنھوں نے تمھارے ہاں پناہ لے لی ہے ،وہ ذلیل وخوار اور نابودہیں ۔

اس کے دوسرے رزمیہ اشعار میں یوں آیا ہے :

جس وقت گھمسان کی جنگ چل رہی تھی ،اس وقت ہماری شجاعت ،سربلندی و افتخار کے برابر کسی نے شجاعت نہیں دکھائی ۔

جنگ دمشق میں ہماری کاری ضربوں کے نتیجہ میں موت کے منڈلاتے ہوئے سایوں کے بارے میں رومیوں کے سپہ سالار ''نسطاص'' سے پوچھو ! اگر اس سے پوچھوگے تو وہ جواب میں کہے گا ، ہم وہ بہادرہیں جو ایرانیوں کے جوش وخروش کے باوجود سیلاب بن کر ان کی سرحدوں سے گزرے اور ان لوگوں پر حملہ آور ہوئے جو آرام کی زندگی بسر کررہے تھے اور وسیع زمینوں کے مالک تھے ۔

۷۵

خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ صرف تمیم کا خاندان سیف کا قبیلہ اپنی تلاش و کوشش سے جنگ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے ۔

مذکورہ دو حماسی اشعار کو ابن عساکر نے سیف سے نقل کرکے فتح دمشق میں ذکر کیاہے ۔

تیسرے رزمیہ اشعار کے حصہ کے بارے میں کہتاہے کہ :

ابو بجید ،نافع بن اسود نے اس طرح شعر کہے ہیں :

اور یہ ہم تھے جو دجلہ کی جنگ میں صبح سویرے اپنے سپاہیوں کے ایک گرواہ کے ہمراہ تلوار اور نیزوں سے دشمن پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑے ۔

اس دن جب تیروں کی بارش تھم گئی اور تلواروں کی باری آئی تو یہ ہماری تلواریں تھیں جودشمنوں پر ٹوٹ پڑیں اور ان کا قتل عام کرکے رکھ دیا۔

ہم انھیں دجلہ اور فرات کے در میانی بیابانوں میں نہروان تک پیچھا کرکے تہ تیغ کیا۔

چوتھے حماسی حصہ کے بارے میں ابن عساکر سیف سے نقل کرکے ابو بجید نافع بن اسود کے درج ذیل اشعار بیان کئے ہیں :

ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو اندھے پن کے کاجل سے دشمنوں کی آنکھوں کا علاج کرتے ہیں اور ان کے درد بھرے سروں کو میان سے نکالی گئی ننگی تلواروں سے شفا دیتے ہیں ۔

تم ہمارے گھوڑوں کو دیکھ رہے ہو جو مسلح سواروں کے ساتھ میدان کارزار میں جولانی کررہے ہیں ؟

خدائے تعالیٰ نے میرے لئے عزت ،شرافت اور سربلندی کا گھر

۷۶

عطاکیاہے ۔

میرے دوست ویاور بھی ایسے مہربان اور بخشش والے ہیں کہ ہرگز کسی پر ظلم نہیں کرتے اور ہمیشہ سخاوت ووفاداری کا دامن پکڑے رہتے ہیں ۔

ہمارے گھر میں عظمت اور عزت نازل ہوئی ہے ،جو ہرگز اس سے باہر نہیں جائے گی۔

دشمنوں کے لئے کون سا دن اس دن کے برابر سخت اور بد قسمتی والا گزرا ، جب ہمارے جوانوں نے ان کو خاک وخون میں غلطاں کرکے رکھ دیا ؟

ان کے علمدار کو ہم نے اس طرح موت کے گھاٹ اتاردیا کہ پتھروں کے نشان اس کے بدن پر نمایاں تھے!

بادشاہوں کے کتنے تاج اور قیمتی دست بند ہم نے غنیمت میں لے لئے ؟

خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے ہمارے جنگجو ایسے قدر ومنزلت کے مالک ہیں کہ جہاں جہاں پر قدم رکھیں گے وہاں پر خوشی ومسرت کی بہار لائیں گے۔

ہم نے دشمن کے قلب پر حملہ کیا ۔دشمن پر فتح پانے کے بعد میدان کارزار سے گزرگئے ۔اس مدت میں ہماری آنکھوں نے نیند نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی ۔

چھ دن کی نبرد آزمائی کے بعد دشمن پر ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ وہ پھر سر اٹھانے کے لائق نہ رہے ۔اس کے بعد ان کے جنگی ساز وسامان کو مال غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔

اس کے بعد ہم نے کسریٰ پر حملہ کیا اور اس کی سپاہ کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔

اس وسیع میدان کارزار میں ہم قبیلہ تمیم کے علاوہ کوئی ایسا اپنے وطن سے دور موجود نہ تھا جو دشمن کے جگر کو نیزوں کے ذریعہ ان کے سینوں سے چیر کر نکال لیتا۔

۷۷

اس کے بعد ہم نے مدائن کی سرزمینوں پر حملہ کیا جن کے بیابان وسیع اور دلکش تھے۔ہم نے کسریٰ کے خزانوں کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا اور وہ شکست کے بعد بھاگ کھڑا ہوا۔

طبری نے بھی سیف سے نقل کرتے ہوئے مدائن پر مسلمانوں کی فتح کی صورت حال بیان کرنے کے بعد اس حماسہ کے دوشعر شاہد کے عنوان سے درج کئے ہیں ۔ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو نقل کرنے میں طبری کی پیروی کی ہے اور اس سے نقل کیاہے۔

پانچویں قطعہ کے بارے میں جو بذات خود ایک طولانی قصیدہ ہے ابن عساکر یوں بیان کرتاہے :ابو بجید نافع بن اسود یوں کہتاہے:

قبائل''معد ''(۱) اور دیگر قبائل کے منصفوں کا اعتراف ہے کہ تمیمی بڑے بادشاہوں کے برابر تھے ۔

وہ فخر و عزت ،جاہ و جلال اور عظمت والے افراد ہیں خاندان '' معد'' میں ان کی سر بلندی پہاڑ کی چوٹی کے مانند ہے ۔

وہ پناہ گاہ ہیں اور ان کے ہمسائے جب تک ان کی پناہ میں ہوں ہر قسم کی ضرورت و احتیاج سے بے نیاز ہوتے ہیں ۔

جو بھی ان کا دوست و ہمدم بن جائے اور ان کی سخاوت کے دسترخوان پر حاضر ہو جائے وہ فربہ او رچاق چوبند اونٹ کے گوشت سے اس کی مہمان نوازی کرتے ہیں ۔

کیسے ممکن ہے کہ غیر عرب خاندان تمیم سے برابری کا دعوی کریں جب کہ یہ لوگ ہرقسم کی سماجی سر بلندی اور بزرگواری کے لحاظ سے مشہور و معروف ہیں ؟

وہ حاجتمند وں اور بیچاروں کو بذل و بخشش کرکے انھیں پنجہ مرگ سے نجات دلانے میں بے مثال ہیں ۔

جب دوسروں کے ہاتھ عظمت و افتخار کی بلندی تک پہنچنے سے محروم ہوتے ہیں ،اس وقت بھی خاندان تمیم پوری طاقت کے ساتھ عظمت و سر بلندی تک پہنچنے کے لئے دراز ہوتے ہیں ۔

حاجتمند وں کی حاجت روائی اور درد مندوں کی دستگیری میں تمام مال و متاع

____________________

۱)۔ حجاز کے اعراب ،جزیرہ نمائے عرب کے شمال کے باشندوں جو مختلف قبائل پر مشتمل ہیں کو ''معد'' کہتے ہیں قریش اور تمیم بھی انہی میں سے ہیں ۔

۷۸

بخش دینے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے !

یہ خاندان تمیم کے ہی شہسوار ہیں جو اپنے نجیب گھوڑوں کو پہاڑوں پر سے دوڑاتے ہوئے میدان کار زار میں پہنچادیتے ہیں ۔

ان کے گھوڑے راستے کی مشکلات کے باوجود سستی ،کمزوری اور تھکاوٹ کا اظہار نہیں کرتے یہ گھوڑے خاندان تمیم کے شہسوار وں کو مال غنیمت تک پہنچاتے ہیں اسی لئے تمیمی ہمیشہ مال غنیمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

ان کے بہت سے دلاوروں نے نخلستانوں اور باغوں کو غنیمت میں لے لیا ہے۔

مال غنیمت میں خاندان تمیم کا حصہ جنگ کے سرداروں کے برابر ہوتا تھا خدائے تعالیٰ نے پہلے سے ہی خاندان تمیم کو ان نیک خصوصیات سے نوازا تھا۔

اور جب اسلام آیا،تب بھی قبائل ''معد'' کی قیادت کی باگ ڈور خاندان تمیم کے ہی ہاتھوں میں رہی اور خدا نے انھیں ان جگہوں کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت کی جہاں پر ان کی دنیا وآخرت کی بھلائی تھی۔

ان مقامات اور مرغزاروں کی طرف اگر عرب ہجرت نہ کرتے تو وہ عجم کے بادشاہوں کے نشیمن بن جاتے!

تمیمی اس عظیم ہجرت میں منظم گروہوں اور صفوف کی شکل میں جنگلی شیروں اور فتح و کامرانی کے ہراول دستوں کی طرح آگے بڑھتے تھے۔

(تمیمی ) شہسوار، بلند قامت اور تیز رفتار اور سرکش گھوڑوں پر پوری طرح مسلح ہوکر جنگ کے لئے آمادہ تھے، کہ

۷۹

خطاب آیا: اے تمیمیو! تم سر بلندی اور بہتر زندگی کی راہ میں اچھی طرح لڑو کیوں کہ فقط تم ہی مشکلات اور سختیوں میں لوگوں کے کام آنے والے ہو !

تم ۔مشرکوں کے مقابلے میں اپنی صفوف کو منظم کرو اور ننگی تلواروں سے ان پر ٹوٹ پڑو!

اس جنگ میں تمیمیوں نے دشمنوں کو اپنی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ، کیوں کہ تمیمی دلیر کبھی ناقص کام انجام نہیں دیتے ،

شہسوار ،گردو غبار میں اٹے ہوئے اپنے نیزوں اور تلواروں سے میدان کا رزار میں دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے ان کے قلب پر حملہ کرتے تھے ۔

یہ کام صرف خاندان تمیم کے بہادر ،دلاور اور شجاع جوانمرد وں کے ہاتھوں انجام پاتا تھا نہ ڈر پوک اور سست مردوں کے ہاتھوں !

ابن حجر نے بھی نافع کے اس قصیدہ کے ٩اشعارسیف سے نقل کرکے اپنی بات کے شاہد کے طور پر درج کئے ہیں ،اور کہتا ہے :

سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جس میں وہ اپنے خاندان پر افتخار کرتا ہے ۔شام و عراق کی جنگوں میں اپنی شرکت پر داد سخن دیتا ہے ،منجملہ کہتا ہے :

'' معد'' کے انصاف پسندوں اور تمام منصفوں نے گواہی دی ہے کہ صرف خاندان تمیم ہی بڑے بادشاہوں کی ذمہ داریاں نبھاسکتے ہیں اور ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ...۔

ابن عساکر نے نافع کے اشعار کا چھٹا بند یوں بیان کیا ہے :

ہم نے رومیوں کے'' سقس''(ساکس)رومی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو زمین پرپھینک دیا جب کہ لنگڑی لومڑیوں نے اس کا محاصرہ کر رکھا تھا۔

۸۰