ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138366 / ڈاؤنلوڈ: 4324
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس کی لاش روم کے مرغزار میں پڑی تھی نہ کہ اس کے باپ کی ملکیت میں جہاں وہ چاہتا تھا۔

رومیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا آغاز یہ تھا کہ عامر نے اس کے سر پر اپنی تلوار کی ایک ضرب سے کمر تک اسے دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا !

ابن عساکر یہ چند شعر ذکر کرنے کے بعد نافع کے حالات کو دار قطنی اور ابن ماکولا سے سیف کے ذریعہ نقل کرکے اپنی بات تمام کرتا ہے ۔

لیکن طبری سیف سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے نافع کے اشعار سے صرف درج ذیل دو شعر نقل کرتا ہے :

ہمارے سوار فوجیوں نے سمندر جیسی زیبا اور وسیع سرزمین ''مدائن'' پر قدم رکھا....

اس کے بعد ١٦ھکے حوادث کے ضمن میں جلولا کی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرتا ہے ۔سیف سے ایک روایت میں جلولا کی جنگ کے بارے میں نافع سے منسوب چار شعر کو حسب ذیل نقل کرتاہے :

'' جلولا '' کی جنگ میں ہمارے پہلوانوں نے قوی شیروں کی طرح میدان کا رزار میں حملے کئے ۔

میں ایرانیوں کو چیر پھاڑ کے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتا تھا ،اور کہتا تھا ،مجوسیوں کے ناپاک بدن نابود ہو جائیں ۔

اس دن جب سر تن سے جدا ہو رہے تھے ،'' فیروزان '' ہمارے چنگل سے بچ نکلا اور بھاگ گیا لیکن '' مہران '' مارا گیا۔

جب ہمارے دشمن موت کے گھاٹ اتاردئے گئے تو رات کو بیابانوں کے درندے ان کی لاشوں کے استقبال کے لئے آئے ۔

ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہم نے طبری کی کتاب میں مذکورہ اشعار کے چھ قطعات کے علاوہ نافع سے مربوط کوئی اور شعر نہیں پایا ،جب کہ ابن ماکولا''نافع '' کی تشریح میں کہتا ہے :

۸۱

سیف نے کہا ہے کہ اس نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کافی شہرت حاصل کی ہے اور بہت سے شعر کہے ہیں

ابن حجر کہتا ہے:

سیف نے اس سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جن میں نافع نے اپنے خاندان پر ناز کیا ہے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی سورما کے نام پر بہت سے اشعار کہے ہیں اور طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان اشعار کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔

ہم نے '' نافع'' کے کافی تعداد میں کہے گئے اشعار کی جستجو کی لیکن ان میں سے تھوڑے ہی اشعار حموی اور حمیری کے ہاں دستیاب ہوئے کہ ان دو عالموں نے اپنی بات کے اقتضا کے مطابق مقامات کی تشریح کرتے ہوے شاہد کے طور پر ان سے استناد کیا ہے ۔ہم ہر ایک فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے خلاصہ بیان کرنے کے بعد ان اشعار کی طرف بھی اشارہ کریں گے ۔

شاعر نافع ،ایران میں

طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر فتح '' ہمدان'' ''رے'' اور ''گرگان '' کے بارے میں اپنی تاریخ میں مفصل طور پر درج کیا ہے ہم یہاں پر اس کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں :

خلیفہ عمر نے ہمدان اور اس کے مشرق میں واقع دیگر سر زمینوں کو خراسان تک فتح کرنے کا حکم '' نعیم بن مقرن '' کے نام جاری کیا اور اسے حکم دیا کہ ان علاقوں کو فتح کرے ۔

نعیم نے اطاعت کرتے ہوئے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی ،اس جنگ میں گرگان کے لوگ بادشاہ کی مدد کے لئے آئے دونوں لشکر کوہ رے کے دامن میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے نعیم اپنے فوجیوں کے ایک حصے کو چوری چھپے محاذ جنگ کے پیچھے بھیج چکا تھا ۔اس نے پوری طاقت کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا ۔ایرانی چوں کہ آگے پیچھے دونوں طرف سے اسلامی فوج کی زد میں آچکے تھے اس لئے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے سخت شکست و حزیمت سے دو چار ہوئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔اس گیرودار میں بے شمار ایرانی کام آئے ۔

۸۲

نعیم نے فتح پانے کے بعد غنائم جنگی کا پانچویں حصہ ''اسود بن قطبہ'' کی سرپرستی میں چند دیگر معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا ۔

جب عمر کو فتح کا پیغام پہنچا خلیفہ نے حکم دیا کہ '' نعیم '' اپنے بھائی '' سوید بن مقرن '' کو ''قومس'' کی فتح پر مامور کرے۔

سوید خلیفہ کے حکم سے ایک لشکر لے کر '' قومس '' کی طرف روانہ ہوا اور اس جگہ کو کسی قسم کی مزاحمت اور خوں ریز ی کے بغیر فتح کر لیا۔

اس کے بعد طبرستان کے علاقہ پر بھی ایک فوجی معاہدے کے تحت قبضہ کیا ۔ وہا ں سے گرگان کا رخ کیا اور '' بسطام'' کے مقام پر پڑائو ڈالا اور وہیں سے بادشاہ '' رزبان صول'' کے نام خط لکھا اور اسے تسلیم و اطاعت کرنے کو کہا ''رزبان '' نے مثبت جواب دیا اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دے کر جنگ سے دوری اختیار کی ۔ یہ عہد نامہ ١٨ ھ کو لکھا گیا اور طرفین میں رد و بدل ہوا۔

مذکورا بالا باتیں طبری کے بیانات کا خلاصہ تھیں :

حمیری لفظ '' رے '' کی طرف اشارہ کرکے اسی داستان کو لکھتا ہے :

.....اور ابو بجید نافع بن اسود نے ''رے'' کی جنگ میں یہ اشعار کہے تھے : کیا ہماری محبوبہ کو یہ خبر ملی کہ جو گروہ ''رے '' میں ہمارے مقابلے میں جنگ کے لئے اٹھا تھا، وہ موت کا زہر کھا کر ہلاک ہوگیا؟!

وہ دو محاذوں پر پوری قدرت کے ساتھ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ہمارے مقابلے میں آئے

ان کے گھوڑے یک رنگ ، یا سیاہ تھے یا سرخ ۔ ایسے گھوڑ ے تھے کہ بعض اوقات ہمارے حملوں کے مقابلے میں تاب نہ لاتے ہوئے فرار کو قرار پر ترجیح دیتے تھے ہم نے ان کو پہاڑ کے دامن میں ایک ایک کرکے یا دو دو کرکے پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کو قتل کرکے اپنی تمنا پوری کی۔

خدا جزائے خیر دے اس گروہ کو جس نے دشمن کے سر پر انتقام کی تلوار ماری اور اجر دے انھیں جنہوں نے ایسا کام انجام دیا۔

۸۳

حموی نے بھی ''بسطام'' اور ''گرگان'' کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں پر استناد کرکے ''نافع بن اسود '' کا نام لیا ہے۔ مثلاً ''بسطام اور اس کی فتح کے بارے میں لکھتا ہے:

خلیفہ عمر نے حکم جاری کیا تھا کہ ''نعیم بن مقرن'' ''رے'' اور ''قومس'' کی طرف لشکر کشی کرے اور یہ لشکر کشی ١٨و١٩ھ میں واقع ہوئی ہے۔

نعیم کا ہراول دستہ اس کے بھائی ''سوید بن مقرن '' کی سرپرستی میں ''رے '' اور ''قومس'' کی طرف روانہ ہوا ۔ چونکہ ان دونوں علاقوں کے باشندوں میں لڑنے کی طاقت نہ تھی ۔ اس لئے انہوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سرانجام ان کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم! اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ ہم میدانِ جنگ میں حاضر ہونے اور اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے میں دوسروں سے زیادہ سزاوار ہیں !

جب صبح سویرے جنگ کا بگل بجتا ہے تو یہ ہم خاندان تمیمی ہیں جو خوشی خوشی اس کا مثبت جواب دیتے ہیں ۔

ہم نے ''بسطام '' کی سخت اور وسیع جنگ میں دشمن کو نابود کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی۔

اس کام میں ہم نے اپنے نیزے گھمائے اور انھیں دشمن کے خون سے رنگین کیا۔

لفظ ''گرگان'' اور ''رے'' کے سلسلہ میں حموی کی دلیل

حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لکھتا ہے :

جب سوید بن مقرن نے ١٨ھمیں ''بسطام '' کی فتح سے فراغت پائی تو اس نے گرگان کے بادشاہ ''زربان صول'' کے نام ایک خط لکھا اور اسے اطاعت کرنے کا حکم دیا اور خود سپاہ لے کر گرگان کی طرف روانہ ہوا۔ زربان نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوا۔ سوید صلح کو قبول کرتے ہوئے گرگان میں داخل ہوا اور صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے مین یہ شعر کہے ہیں :

۸۴

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا، جس سے پہلے رے ہے ۔ اس کے بعد صحرا نشین گرگان کی طرف روانہ ہوئے۔

حموی شہر ''رے''کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ابوبجید، جو لشکر میں شامل تھا''رے'' کا یوں ذکر کرتا ہے:

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا جس کے پہلے رے ہے۔ اس کے بعد صحرا نشین اس کی طرف بڑھے ۔ ہمیں ''رے '' کی چراگاہ اور سبزہ زار جو زینت و نعمت کے سبب ہیں بہت پسند آئے۔

پوپھٹتے ان سبزوں میں عجیب رونق ہوتی ہے جو بڑے بادشاہوں کی شادیوں کی یاد

تازہ کرتی ہے.

حموی مذکورہ اشعار کو بیان کرنے کے بعد ''گرگان'' کے بارے میں تشریح کرکے اپنی بات ختم کرتا ہے.

مذکورہ مطالب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے ''رے '' اور ''گرگان ''کی تشریح میں سیف کی باتوں اور اس کی داستانوں پر اعتماد کیا ہے ۔ اس نے ان داستانوں کی سیف سے نقل کرکے اپنی عادت کے مطابق رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں سے ان ہی دلاور یوں کو ذکرکیا ہے جو فرضی ابو بجید اور جعلی کمانڈر سوید سے مربوط ہیں ، اور سوید کو ''صیغۂ تکبیر ''سے ''سواد '' نقل کیاہے ۔ اس کے بعد اسے بلاذری اور دیگر دانشوروں کی روایتوں سے ربط دیتا ہے جنہوں نے سپاہ کی قیادت کا عہدہ دار ''عروۂ طائی '' کو بتایا ہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

بلا ذری نے ''رے ''اور ''قومس''کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر نے اپنے کارگزار عمار یاسر کو حکم دیا کہ ''عروة بن خیل طائی'' کو ''رے '' کو فتح کرنے پر مامور کرے ۔ عروہ نے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی اور اسے فتح کیا۔ اس کے بعد خود مدینہ چلاگیا اور اس فتح کی نوید خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی۔

۸۵

''رے '' کی فتح کے بعد خلیفہ کے حکم سے ''سلمة الضبی'' نے سپاہ کی کمانڈ سنبھالی اور فوج کے ساتھ ''قومس'' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کی طرف لشکر کشی کی ''قومس '' کے باشندوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سلمہ کے ساتھ معاہدہ کیا اور پانچ لاکھ درہم جزیہ کے طور پر ادا کئے۔

بلاذری نے گرگان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے:

خلیفہ ٔعثمان نے ٢٩ھ میں کوفہ کی حکومت پر ''سعید بن عاص اموی'' کو مقرر کیا .سعید نے گرگان کو فتح کرنے کی غرض سے اس علاقہ کی طرف فوج کشی کی اور گرگان کے بادشاہ کے ساتھ دولاکھ درہم پر صلح کی اور اس علاقے کو اپنے علاقوں میں شامل کیا .اس کے بعد سرزمین طبرستان کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا.

ہم نے یہاں پر بلاذری کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

موازنہ کا نتیجہ

سیف نے اپنی روایت میں سرزمین رے کے فاتح کے طور پر ''نعیم بن مقرن'' کا ذکر کیا ہے اور ''قومس'' ''طبرستان'' ''بسطام'' اور ''گرگان'' کے فاتح کے طور پر اس کے بھائی ''سوید '' کا نام لیا ہے اور ان تمام فتوحات کو ١٨و١٩ھ میں انجام پانا بتاتاہے، جبکہ دوسرے معروف اور نامور مورخین نے سرزمین ''رے'' کا فاتح ''عروة بن زید خیل طائی '' کو بتایا ہے اور ''قومس '' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کو فتح کرنے والے اس کے جانشین کا نام ''سلمةالضبی'' بیان کیا ہے اور گرگان اور طبرستان کا فاتح ''سعید اموی '' کو بنایاہے خاص کر اس موخر الذکر فتح کی تاریخ خلافت ِعثمان کا زمانہ ٢٩ھ ثبت کیا ہے !!یہ سیف اور دیگر مورخین کی روایتوں میں نمایاں اختلافات کے نکات ہیں ۔

ان روایتوں کا مذکورہ سرسری جائزہ اور مختصر موازنہ انجام دینے سے یہ آسانی کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں پر کس قدر اعتماد کیا ہے اور ان روایتوں اور علاقوں کی فتح کو صحیح اور معتبر جانا ہے کہ اس طرح نظم و نثر کی صورت میں سیف کی روایتوں کو قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ یہاں پر ہم ایک بار پھر حموی کی تحریر پر غور کرتے ہیں

۸۶

برجان برگان!

حموی کی ''معجم البلدان''میں لفظ ''برجان'' کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:

مسلمانوں نے ''برجان '' کو عثمان کی خلافت کے دوران فتح کیا .ابوبجید تمیمی نے اس فتح کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

پہلے ہم نے گرگان پر حملہ کیا، ہمارے سوار دستوں کو میدان کا ر زار میں دیکھ کر اس کی حکومت متزلزل ہوکر سرنگوں ہوگئی۔

شام کے وقت جب ہم نے حملہ روکا، تو وہاں کے لوگ سرزمین روم اور برجان کے درمیان سراسیمہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

اسی کتاب میں لفظ ''رزیق '' کے بارے میں آیا ہے:

ایران کے بادشاہ کسریٰ کے بیٹے ، یزدگرد شہریار کے قتل کا واقعہ ایک پن چکی میں پیش آیا ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

ہم تمیمیوں نے سراسیمہ بھاگتے ہوئے یزدگرد کے شکم کو خنجر سے چاک کرکے ہلاک کردیا ۔ ''مرو'' کی جنگ میں ہم ان کے مقابلے پر آئے ۔کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تیز پنجوں والے پہاڑی چیتے ہیں !

ہم نے ''رزیق'' کی جنگ میں ان کو تہس نہس کرکے ان کی ہڈیوں کو چکلنا چور کرڈالا.

سورج ڈوبنے تک ہم ان کے میمنہ اور میسرہ پر مسلسل حملے کرتے رہے

خدا کی قسم !اگر خدا کا ارادہ نہ ہوتا، تو ''رزیق'' کی جنگ میں دشمنوں میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچتا۔

رزیق

طبری نے ''برجان '' کی فتح کے بارے میں جس کا حموی نے نام لیا ہے اور اسی طرح ''رزیق'' میں یزدگرد شہریار کے تمیمیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بارے میں سیف سے کچھ نقل نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کرتے ۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ساسانیوں کا آخری بادشاہ یزدگردخود ایرانیوں کے ہاتھوں ماراگیا ہے۔

۸۷

اگر طبری نے یزد گرد کے مارے جانے کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتاب میں در ج کیا ہوتا ، تو ہمیں پتہ چلتا کہ سیف نے آوارہ اور دربدر ہوئے ساسانی بادشاہ کے تمیمی دلاوروں کے خنجر کی ضربات سے مارے جانے کی کیسی منظر کشی کی ہے تا کہ اپنے افسانوی شاعر ابوبجید کے ذریعہ یزدگرد کے مارے جانے کے بارے میں شعر کہلوا کر قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخار کا اضافہ کرتا.

ابوبجید ، کتاب ''صفین''میں

یہاں تک بیان شدہ مطالب نافع کے بارے میں تھے، جو ہم نے ان علماء کے ہاں پائے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نصر بن مزاحم نے بھی جنگ صفین میں ابوبجید کا نام لیا ہے اپنی کتاب ''صفین'' کے صفحہ ٥٦٤ میں لکھتا ہے:

ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے جنگ صفین میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :

میری طرف سے ''علی کو درود پہنچاؤاور ان سے کہنا : جس نے آپ کا فرمان قبول کیا ، اس نے سختیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے

علی نے اسلام کے گنبد کو ویرانی کے بعد پھر سے تعمیر کیا ۔ یہ عمارت پھر سے کھڑی ہوکر پائیدار ہوگئی ہے۔

گویا اسلام کی ویر انی کے بعد ایک نیا پیغمبر آیا اور اس نے نابود شدہ طریقوں کو پھر سے زندہ کیا ۔

نصر اس داستان میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

اور جب علی جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو نافع نے یہ اشعار کہے:

ہم نے دمشق اور اس کے اطراف کی سرزمینوں کے کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا!

کتنی جوان عورتیں اس جنگ صفین میں اپنے شوہروں کے قتل ہونے کے بعد ان کے نیزوں کی وارث بن کر بیوہ ہوچکی ہیں ؟!

وہ اپنے شوہروں کے سوگ میں بیٹھی ہیں ، جو انھیں قیامت تک نہیں ملیں گے ۔

ہم تمیمی ایسے جنگجوہیں کہ ہمارے نیزے دشمن کو اس طرح لگتے ہیں کہ ان کا بچنا

۸۸

مشکل ہوتا ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ نصر ابوبجید کے رزمیہ اشعار کہاں سے لایا ہے ؟کیا نافع کانام اور اس کے اشعار سیف کے علاوہ کسی اور کی زبان پر بھی آئے ہیں ؟

اس سلسلے میں ہم نصر بن مزاحم کی کتا ب ''صفین'' کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں اور اس کے صفحہ ٦١٢ پرا س طرح پڑھتے ہیں :

...''عمر وبن شمر'' سے متعلق گفتگو کے ضمن میں اس طرح آیا ہے:

جب علی صفین کی جنگ سے واپس ہوئے ، (تو عمرو بن شمرنے) اس طرح شعر کہے :

وکم قدر ترکنا فی دمشق و ارضھا...

کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ہم نے ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا ؟!...تا آخر۔

یہاں تک کہ وہ صفحہ ٦١٣ پر لکھتا ہے:

اور سیف کی روایت میں آیا ہے کہ: ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح نغمہ سرائی کی ہے:

الا ابلغا عنی علیا تحیة ، فقد قبل

میرا سلام علی کو پہنچاؤ اور ان سے کہو کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے مشکلات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے... تاآخر۔

یہاں پر نصر بھی اپنے مآخذ ،یعنی سیف کا کھلم کھلا نام لیتا ہے.

۸۹

لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اسلام کی مشہور اور فیصلہ کن جنگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے اور ان جنگوں کو بھی اپنے خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے وجود سے محروم نہیں کیا ہے تا کہ اس طرح وہ ہر جنگ میں اپنے خاندان یعنی قبیلۂ تمیم کے کسی طرح افتخارات کا اضافہ کرنے کی کوشش کرے ۔ حقیقت میں سیف کے بارے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ''کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر اس مکار لومڑی کے نقش قدم نہ پائے جائیں ''!!

اس طرح علماء اور دانشوروں نے سیف کے افسانوں اور اس کی ذہنی مخلوقات کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ بعض اوقات ان مطالب کو سیف سے نسبت دیکر مآخذ کو کھلم کھلا بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی روایت کے راوی کانام نہیں لیتے ۔ یہی امر سبب ہوتا ہے کہ محقق ایسی روایتوں سے دوچار ہوکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اور یہ امور تاریخی حقائق کی تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لئے حیرت و تعجب کا سبب بنتے ہیں ، ان ہی میں ابن حجر کے وہ مطالب بھی ہیں جو اس نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں نافع کے حالات کے بارے میں درج کئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو:

دار ''قطنی '' نے اپنی کتاب ''مؤلف'' میں لکھا ہے کہ ابوبجید نافع بن اسود نے عراق کی سرزمینوں کی فتح میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں اس نے چند اشعار بھی کہے ہیں ، من جملہ

وہ کہتا ہے:

اگر پوچھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میرا خاندان ''اسید ''ہے اور میری اصل ، افتخارات کا منبع و سرچشمہ ہے

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

...اور سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں

۹۰

ہم اس بات کونہیں بھولے ہیں کہ سیف کی نظر میں قبیلۂ ''اسید'' جو افتخارات کا منبع اور شرافت کا معدن ہے ، حقیقیت میں وہی سیف کا خاندان یعنی قبیلۂ تمیم ہے۔

جو کچھ بیان ہوا ، اس کے پیش نظر ہم ، ادیب اور نامور عالم ''مرزبانی'' کویہ حق دیتے ہیں کہ وہ سیف کے افسانوی شاعر اور صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، نافع بن اسود کے لئے اپنی کتاب ''معجم الشعراء '' میں جگہ معین کرے اور اس کے وجود کو ایک مسلم حقیقت تصور کرے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالے اور سیف نے اس سے نسبت دیکر جو اشعار لکھے ہیں ان کو اپنی کتاب میں درج کرے۔

کتاب ''معجم الشعرائ'' تالیف مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ ) میں مؤلف کی حیات تک پانچ ہزار سے زائد عرب شعراء کی زندگی کے حالات درج ہیں ۔لیکن اس کتاب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہمیں دستیاب ہواہے اور اس کابڑا حصہ ،مؤلف کی وفات کو ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کی وجہ سے نیست ونابود ہوگیاہے۔اسی لئے اس میں نافع اور اس کے باپ ،اسود کے حالات نہیں پائے جاتے۔

لیکن ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے سیف کے ان دو جعلی اصحاب کے اشعار نقل کرکے ان دو افسانوی شاعروں کے بارے میں ہمارے لئے مذکورہ کتاب میں موجود کمی کی کسی حد تک تلافی کی ہے ۔اگر چہ مذکورہ کتاب کسی کمی کے بغیر بھی ہم تک پہنچ جاتی تو وہ ہمیں اس بارے میں کسی صورت سے مدد نہ کرتی ،کیونکہ ''مرزبانی'' نے اکثرو بیشتر شعراء کے حالات کی تشریح اور ان کے اشعار مآخذ اور سند کا ذکرکئے بغیر اپنی کتاب میں درج کئے ہیں ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ سیف کے تمام یا اکثر افسانوی شعراء اور ان کے اشعار حقیقی شعراء کے عنوان سے مرزبانی کی کتاب میں درج نہ ہوئے ہوں ؟!

ہم دوبارہ اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں اور نافع کے بارے میں ابن حجر کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ابن حجر نے مرزبانی کی کتاب ''معجم الشعرائ'' کا حوالہ دے کر نافع کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے:

۹۱

مرزبانی کہتاہے :ابو بجید نے جس نے دوران جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو درک کیا ہے عبد اللہ بن منذر حلاحل تمیمی کے سوگ میں چند دردناک اشعار کہے ہیں ۔

اس عبد اللہ نے ،خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور وہاں پر مارا گیاہے ۔اس (مرزبانی) نے عبد اللہ منذر کے سوگ میں نافع کے مرثیہ ''ماکان یعدل...'' کے مطلع سے درج کیاہے کہ میں (ابن حجر ) نے مذکورہ اشعار اسی عبداللہ منذر کی تشریح کے ذیل میں نقل کئے ہیں ۔

اس کے بعد ابن حجر اپنی کتاب ''اصابہ'' میں عبد اللہ منذر کی تشریح میں لکھتاہے :

''مرزبانی '' نے اپنی کتاب ''معجم الشعراء ''میں ذکر کیاہے کہ عبد اللہ منذر نے خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جگہ پر ماراگیا۔نافع بن اسود تمیمی ،جو خود اس جنگ میں موجود تھا ،نے عبد اللہ کے سوگ میں یہ اشعار کہے ہیں :

جاؤ ،خدا تمھیں ایسے جواں مرد سے دور نہ رکھے جو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ،بذل وبخشش کرنے والا اور انجمنوں اور محفلوں والا انسان تھا !

تمام لوگوں میں اس جیسا مردنہ تھا اور جدوجہد اور بذل وبخشش میں اس کا کوئی مانند نہ تھا۔

تم (عبد اللہ )چلے گئے اور خاندان عمرو اور قبیلہ تمیم کے دوسرے خاندانوں کو تنہا چھوڑ گئے تا کہ وہ نیازمندی اور بیچارگی کے وقت فخر کے ساتھ تمھارا نام زبان پر لائیں ۔

اس شعر میں سیف کے قبیلہ تمیم کے بارے میں خاص کر اس کے اپنے خاندان بنی عمرو کے بارے میں افتخارات کا اظہار واضح طور سے مشہود ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے نقل کرکے نافع بن اسود کے حالات کی تشریح میں مندرجہ ذیل دوشعر اور درج کئے ہیں :

جنگی غنائم کی کتنی بڑی مقدار ہمارے ہاتھ آئی جب کہ ہم بلند قامت گھوڑوں پر سوار تھے۔

۹۲

کتنے بہادروں کو ہم نے تلوار کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتاردیا اور لاش خور ، ان کی لاشوں پر اچھل کود کررہے تھے۔

''ابن حجر''،''مرزبانی'' کی تحریر اور اس کی کتاب میں درج کئے گئے اشعار پر اعتماد کرتے ہوئے عبد اللہ منذر حلاحل کو اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیتاہے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتاہے ،جبکہ کسی بھی دوسرے تاریخی مآخذ اور عربوں کے شجرہ نسب میں اس کا نام کہیں ذکر نہیں ہواہے ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ یہ عبد اللہ بھی سیف کے دوسرے افسانوی سورماؤں کی طرح اس کاجعل کردہ اور خیالی کردار نہ ہو؟

ہم نافع کے بارے میں گفتگو کا خاتمہ ابن عساکر کی اس بات سے کرتے ہیں جہاں وہ اپنی بات کے آغاز پر نافع کے بارے میں لکھتاہے :

اس شاعر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کازمانہ درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور

۹۳

پہنچاہے :

ہمیں ابن عساکر کی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی ،صرف نافع کے اشعار کے پانچویں بند میں آیاہے :

صدر اسلام میں ایسے پیشرو تھے،جو اپنی مہاجرت میں عظمت وافتخار سے سربلند ہوکر مھاجرین کے مقام تک پہنچاہے۔

ابن عساکر کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ نافع نے خلیفہ عمر سے حدیث نقل کی ہے ۔

ہمیں اس سلسلے میں سیف کے جعلیات میں نافع کی زبانی عمر کی حدیث نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

روایت کی تحقیق

نصر بن مزاحم ،ابن ماکولا ،ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء ودانشور ،نافع کے بارے میں اپنی بات کو بلاواسطہ سیف سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں سیف کے کسی راوی یا راویوں کا نام نہیں لیتے اور صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ :

''سیف کہتاہے ....'' اور ان علماء نے دار قطنی سے نقل کرتے ہوئے بھی اس روش کی رعایت کی ہے۔

لیکن ابن عساکر جہاں پر فتح دمشق کے بارے میں نافع کے اشعار کو اپنی کتاب میں سیف سے نقل کرتاہے وہاں سیف کے راویوں کانام اس صورت میں لیتاہے ۔

سیف نے ''ابو عثمان '' سے اور اس نے ''خالد'' و''عبادہ'' سے یوں نقل کیاہے

اور اس طرح حدیث کے راویوں کاذکر کرتاہے ۔

ان راویوں کی تحقیق کے سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ابو عثمان کا سیف نے ذکر کیا ہے ، در حقیقت یہ '' یزید بن غسان '' کے لئے سیف کی جعل کردہ کنیت ہے ۔ہم نے سیف کے اسناد کی تحقیق کے دوران اسی کتاب کی پہلی جلد میں اس نام کے سلسلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا حقیقت میں ہر گز کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ '' خالد '' اور ''عبادہ'' دونوں مجہول الھویہ ہیں ۔

۹۴

تاریخ طبری میں نافع کے بارے میں سیف سے دو روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں چند راویوں کا نام لیا گیا ہے کہ یہ نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں حقیقت میں سیف ان کا نام لے کر دوسرے موارد کی طرح یہاں پر بھی اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے ان حدیثوں کو حقیقی راویوں سے منسوب کرتا ہے ۔اور ہم بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سیف کی دروغ بافی کے گناہ کو ان راویوں کی گردن پر نہ ڈالیں ،خاص کر جب کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جو ان راویوں پر اس قسم کی تہمتیں لگاتاہے۔

بحث کا خلاصہ

قطبہ بن مالک تمیمی عمر ی کا پوتا ابو بجید نافع بن اسود ایک افسانوی صحابی ہے جسے سیف نے ایک قوی اور مشہور شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔

اسے یمامہ کی جنگ میں خالد بن ولید کے ساتھ دکھایا ہے '' عبد اللہ حلاحلی تمیمی '' کے سوگوار کی حیثیت سے پیش کیا ہے دمشق اور بصری کی فتوحات میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور ان تمام واقعات کے بارے میں اس کی زبان سے اشعار ذکر کئے ہیں ۔

اس نے قادسیہ اور مدائن کی جنگیں دیکھی ہیں اور ان سے ہر ایک کے لئے دلفریب رزمیہ اشعار لکھے ہیں ۔

رومیوں کے ساتھ جنگ کے بارے میں ایک شعلہ بار قصیدہ اور '' جلولا'' و ''رے '' کی جنگوں کے بارے میں رزمیہ اشعار بھی اس کے نام درج ہیں ۔

سیف کی روایتوں کے مطابق گرگان ،گیلان اور برجان کی جنگوں کے بارے میں بھی اس نے زیبا اشعار کہے ہیں اور اپنے قبیلہ تمیم کے بارے میں دلاوریوں اور افتخارات کے قصیدہ لکھے ہیں ؛

۹۵

نافع کے افسانہ کا سر چشمہ

ان تمام افسانوں کا سر چشمہ سیف کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے لیکن ان افسانوں کی اشاعت اور پھیلائو میں درج ذیل دانشوروں اور علماء نے اپنی اپنی نوبت کے مطابق ابو بجید نافع بن اسود کی داستان کو بلا واسطہ یا با واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

١)۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ھ )

٢)۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ )

٣)۔ ابن ماکولا ( وفات ٤٧٥ھ )

ان تینوں علماء نے صراحت سے کہا ہے کہ نافع کی داستان انھوں نے سیف سے نقل کی ہے

٤)۔ ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ) اس نے اپنے مطالب کو سیف اور ابن ماکولا سے نقل کیا ہے

٥)۔ طبری ( وفات ٣١٠ھ ) اس نے سیف سے مطالب نقل کرکے ان کے اسناد کا بھی ذکر کیا ہے.

٦)۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ )

٧)۔ ابن کثیر (وفات ٧٧٤ھ)

٨)۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ)

ان تین دانشوروں نے بھی نافع کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

٩)۔ مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ)

١٠)۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ)

١١)۔ حمیری (وفات ٩٢٠ھ)

نافع کے بارے میں جن مطالب کو با واسطہ یا بلا واسطہ مذکورہ بالا دانشوروں نے نقل کیا ہے مؤخرالذکر تین علماء نے بھی اپنی روایت کے مآخذ کی طرف اشارہ کئے بغیر ان ہی مطالب کو اپنی کتابوں میں نقل اور درج کیا ہے ۔

۹۶

نافع کے بارے میں سیف کے افسانوں کے نتائج

سیف نے مالک تمیمی کے پوتے بو بجید نافع بن اسود کو اپنے خیال میں خاندان بنی عمرو تمیم سے خلق کیا ہے ،اسے ایک شریف ،شاعر اور ایک صحابی کی حیثیت سے ذکر کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہا ت اور سربلندی کا سبب قرار دیا ہے ۔

اسے بالکل اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے وفادار اور ثابت قدم صحابیوں میں شمار کیا ہے ۔ جیسے اس سے پہلے اس کے قبیلے کے بھائی قعقاع بن عمرو کو وقت کے نامور سورما اور دلاور کے طور پر خلق کرکے حضرت علی علیہ السلام کے دوستدارکی حیثیت سے ذکر کیا تھا ۔چوں کہ ہم نے حدیث اور رجال کی کتابوں کے علاوہ دیگر مأخذ میں کافی جستجو اور تحقیق کے باوجود ان افسانوی باپ بیٹے کا سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نام و نشاں نہیں پایا ۔ اس لئے ان کو سیف کے جعلی اور افسانوی اشخاص میں شمار کرتے ہیں ۔

سیف جو اپنے قبیلے اور خاندان کے افتخارات کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں کرتا ،اپنے افسانوی شاعر کے ذریعہ اپنے قبیلہ تمیم بالاخص خاندان ''اسید'' وبنی عمرو کے بارے میں ستائشوں کے دلخواہ قصیدے لکھواکر ان کو سر بلندی اور شہرت بخشتاہے اور نافع کے باپ ''اسود بن قطبہ'' کی زبان پر جاری کرائے گئے اشعار میں بھی انہی مقاصد کی پیروی کرتاہے ۔

غور کیجئے کہ ،وہ کس طرح اپنے خاندان کے حق میں داد سخن دیتے ہوئے خود ستائی کرتاہے ، ملاحظہ ہو:

حجاز کے تمام منصفوں نے اس کی گواہی دی اور اعتراف کیا ہے کہ خاندان تمیم دنیا کے عظیم بادشاہوں کے برابر ہے!

یہ تلاش کوششیں ،خاندان تمیم کی سخاوت وبخشش کا نتیجہ ہے نہ کہ سست اور کمزور اشخاص کا۔

خدائے تعالیٰ نے ایسا ارادہ کیاہے کہ صرف قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے افراد دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرکے انھیں دور کریں ۔

۹۷

قبائل تمیم کے تمام افراد بخوبی جانتے ہیں کہ میدان جنگ میں حاضری اور غنائم کو حاصل کرنے میں قیادت وسرپرستی کی باگ ڈور قدیم زمانے سے قبیلہ اسید کے خاندان بنی عمرو ہی کے ہاتھوں میں تھی۔

یہ اور ان سے کہیں زیادہ اشعار کو سیف نے ان دو شاعر باپ بیٹوں کی زبان پر جاری کیاہے ۔اور ان کے ذریعہ قبیلہ تمیم اور اسید کے خاندان بنی عمرو کی اسی طرح ستائش کی ہے جیسے اس سے پہلے اس نے خاندان تمیم کے اپنے دو بے مثال افسانوی سورما،''قعقاع''و''عاصم'' کی جنگوں میں ان کی تعجب خیز شجاعتوں اور دلاوریوں کو دکھاکر مالک تمیمی کے خاندان کو قبیلہ تمیم کے تمام افتخارات کا سرچشمہ ثابت کیاتھا اسے اپنے قبیلے کا چمکتا ستارہ بناکر پیش کیاتھا۔

اس قابل فخر خاندان تمیم کے افراد کا جس طرح سیف نے تصورکیا ہے ،اس کا اندازہ اس کے مندرجہ ذیل شجرہ نسب کے خاکہ سے کیا جاسکتاہے :

مالک تمیمی

عمرو

قطبہ

قعقاع

عاصم

اسود

اعور

عمرو

نافع

۹۸

سیف نے اپنے اسی خیالی خاندان میں چار اصحاب وجنگی سردار ،دو تابعین،چھ رزمیہ شعراء اور احادیث کے راوی جعل کئے ہیں ۔

اس قبیلہ کے لئے سیف کے جعل کئے گئے مذکورہ فخرومباہات کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے چند منہ بولے بیٹے بھی خلق کرکے اس خاندان کے افتخارات میں چارچاند لگائے ہیں کہ انشاء اللہ ہم اس موضوع پر الگ سے بحث وتحقیق کریں گے۔

قارئین محترم سے گذارش ہے کہ تاریخ ،حدیث ،انساب ،ادبیات،طبقات صحابی،شعرائ، رجال اوراخبار واحادیث کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کیا سیف کی احادیث اور اس کے افسانوں کے علاوہ بھی کہیں اس افسانوی خاندان کا نام ونشان ملتاہے ؟!

۹۹

چوتھا حصہ : قبیلہ تمیم کے چند اصحاب

* ٦۔عفیف بن منذر تمیمی

* ٧۔زیاد بن حنظلہ تمیمی

* ٨۔حرملہ بن مریطہ تمیمی

* ٩۔حرملہ بن سلمی تمیمی

* ١٠۔ربیع بن مطر بن ثلج تمیمی

* ١١۔ربعی بن افکل تمیمی

* ١٢۔اط بن ابی اط تمیمی

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

۳۔ اے کاش ایاس بن عبد اللہ معروف بہ ''الفجاة'' کو نہ جلایا ہوتا۔(۱)

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے کے مشہور شاعر محمد حافظ ابراہیم مصری جن کا انتقال ۱۳۵۱ھ میں ہوا اپنے قصیدے ''عمریہ'' میں خلیفہ دوم نے جو حضرت فاطمہ کی شان میں گستاخی اوراہانت کی اس کی ستائش کی ، وہ کہتا ہے۔

و قولةٍ لعلٍّ قالها عمرُ-----اکرمِ بسامعِها اعظم بملقیها

حرقتُ دارَک لا أبُقی علیک بها-----ان لم تبایعُ و بنتُ المصطفی فیها

ماکان غیرُ ابی حفص یفوه بها-----امام فارسِ عدنانٍ و حامیها(۲)

اس بات کو یاد کرو جو عمر نے علی ـسے کہاتھا: سننے والے کا احترام کرو اور کہنے والے کو محترم جانو ۔

عمر نے علی ـ سے کہا: اگر بیعت نہیں کرو گے تو تمہارے گھر کو جلادوں گا اور اس گھر میں رکنے کی اجازت نہیں دوں گا اوراس نے یہ بات اس وقت کہی کہ پیغمبر کی بیٹی گھر میں موجود تھیں۔یہ بات عمر کے علاوہ کوئی نہیں کہہ سکتا وہ بھی عدنان عرب اور اس کے حامیوں کے شہسوار کے مقابلے میں یہ شاعر عقل و خرد سے دور رہ کر وہ ظلم و فساد جس سے عرش الہی لرز جاتا ہے چاہتا ہے کہ خلیفہ کے اس عمل کو مفاخر میں شمار کرے کیا یہ افتخار کی بات ہے کہ پیغمبر کی بیٹی کا عمر کے نزدیک کوئی احترام نہیں تھا اور وہ صرف ابوبکر کی بیعت لینے کے اس خاطر پیغمبر کے گھر اور ان کی بیٹی کو جلادے؟!

اور یہ بات بھی عجیب ہے جسے عقد الفرید نے نقل کیا ہے جس وقت علی کو مسجد میں لائے تو خلیفہ نے ان سے کہا کہ کیا میری خلافت سے آپ ناراض ہیں؟ تو علی ـنے کہا: نہیں ۔ بلکہ میں نے خود عہد کیا تھا کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد اپنے دوش پر ردا نہیں ڈالوں گا جب تک کہ قرآن کو جمع نہیں کرلوں گا اور اسی وجہ سے میں دوسروں سے پیچھے رہ گیا. اور پھر خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی(۳) جب کہ وہ خود اور دوسرے افراد

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۲۳۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۴۶۳

(۲) دیوان شاعر نیل ج۱ ص ۸۴

(۳) عقد الفرید ج۴ص ۲۶۰

۱۸۱

عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ چھ مہینے تک جب تک حضرت فاطمہ زندہ تھیں علی ـنے بیعت نہیں کیا اور ان کی شہادت کے بعد خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔(۱)

لیکن نہ صرف یہ کہ علی ـ نے بیعت نہیں کیا اور نہج البلاغہ کے خطبات آپ کی اس حقانیت پر گواہ ہیں، بلکہ وہ افراد بھی جن کے نام سے واقعہ سقیفہ کی تشریح کرتے وقت ہم آشنا ہوئے ہیں ان لوگوںنے بھی خلیفہ کی بیعت نہ کی، اور جناب سلمان جو حضرت علی کی ولایت کے سب سے بڑے حامی تھے ابوبکر کی خلافت کے بارے میں کہتے ہیں:

''خلافت کو ایسے شخص کے حوالے کیا کہ جو فقط تم سے عمر میں بڑا ہے اور پیغمبر کے اہلبیت کو نظر انداز کردیا حالانکہ اگر خلافت کو اس کے محور سے خارج نہ کرتے تو ہرگز اختلاف نہ ہوتا اور سبھی خلافت کے بہترین میوے (حق) سے بہرہ مند ہوتے۔(۲)

______________________

(۱) عقد الفرید ج۴ص ۲۶۰

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۶۹

۱۸۲

چوتھی فصل

حضرت علی علیہ السلام اور فدک

فدک کی اقتصادی اہمیت

سقیفہ کی الجھنیں خلیفہ کے انتخاب کی وجہ سے ختم ہوئیں اور ابوبکر نے خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی. حضرت علی اپنے باوفا اصحاب کے ہمراہ حکومت کے جاہ و حشتم سے دور ہوگئے لیکن اپنی نوارنی فکروں اور عام لوگوں کے ذہنوں کی فکر و آگہی کے لئے اتحاد و اتفاق کی برقراری کے لئے حکومت کی مخالفت نہیں کی ، بلکہ قرآن کی تفسیر و تعلیمات اوراعلی مفاہیم ، صحیح فیصلوں اوراہل کتاب کے دانشمندوں کے ساتھ استدلال و احتجاجات وغیرہ اور اجتماعی و فردی خدمات انجام دینے لگے۔

امام تمام مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ باکمال تھے اور کبھی بھی یہ ممکن نہ تھا کہ آپ کے دشمن آپ سے یہ کمالات چھین سکیں ، آپ پیغمبر کے چچازاد بھائی اور داماد، وصی ٔ بلافصل اور مجاہد نامدار، اور اسلام کے بڑے جانباز اورشہر علم پیغمبر کے دروازہ تھے، کسی بھی شخص میں اتنی ہمت نہیں جو اسلام میں ان کی سبقت اور آپ کے وسیع علم اور قرآن و حدیث، اصول و فروع دین اور آسمانی کتابوں پر تسلط کا انکار کرسکے، یا ان تمام فضائل کوان سے چھین سکے۔

ان فضائل کے علاوہ امام علیہ السلام کے پاس ایک ایسی چیز تھی جس کی وجہ سے ممکن تھا کہ آئندہ، خلفاء اس کی وجہ سے مشکل میں گرفتار ہوتے اور وہ اقتصادی و آمدنی جیسی قدرت تھی جو فدک کے ذریعے آپ کو حاصل ہو رہی تھی۔

اسی وجہ سے خلیفہ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے چاہاکہ اس قدرت کو امام کے ہاتھوں سے لے لے، کیونکہ یہ امتیاز دوسرے امتیازات کی طرح نہ تھا جو امام کے ہاتھوں سے نہ لیا جاسکے(۱)

________________

(۱) اس بحث کی تفصیلات کو باب 'فدک غصب کرنے کا مقصد ''میں پڑھیں گے۔

۱۸۳

فدک کا جغرافیہ

بہترین اور آباد سرزمین جو خیبر کے قریب واقع ہے اور مدینے سے فدک کا فاصلہ تقریباً ۱۴۰ کیلو میٹرہے اورقلعہ خیبر کے بعد حجاز کے یہودیوں کے ٹھہرنے کی جگہ کے نام سے مشہور تھا اسی جگہ کو قریۂ ''فدک'' کہتے ہیں۔(۱) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہودیوں کے لشکر کو ''خیبر'' اور ''وادی القریٰ'' اور ''تیما'' میں شکست دینے کے بعدجب مدینہ کے شمال میں ایک بڑے خلاء کا احساس کیا تو اسے اسلام کے سپاہیوں سے پر کردیا اور اس سرزمین سے یہودیوں کی طاقت و قدرت کو ختم کرنے کے لئے جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرہ کا سبب اور اسلام کی مخالفت شمار ہوتی تھی ایک سفیر جس کا نام ''محیط'' تھااسے فدک کے سردار کے پاس بھیجا یوشع بن نون جو اس دیہات کا رئیس تھا اس نے صلح و آشتی کو جنگ پر ترجیح دیا اور وہاں کے رہنے والے اس بات پر راضی ہوگئے کہ ہر سال کا آدھا غلہ پیغمبر اسلام کو دیں گے اور اسلام کے پرچم تلے زندگی بسر کریں گے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہیں کریں گے۔ اسلامی حکومت نے بھی ان کی حفاظت و سلامتی کی ذمہ داری قبول کرلی اسلامی قانون کے مطابق ہر وہ زمین جو جنگ و جدال کے ذریعے حاصل ہو وہ تمام مسلمانوں کی ملکیت ہوتی ہے ا ور اس کی ذمہ داری اور نظارت حاکم شرع کے ہاتھ میںہوتی ہے لیکن وہ زمینیں جو بغیر کسی حملہ اور جنگ کے مسلمانوں کو حاصل ہوں.وہ پیغمبر یا اس کے بعد کے امام کی ملکیت ہوتی ہیں اور جو قوانین و شرائط اسلام نے معین کئے ہیں الٰہی موارد میںصرف ہوتی ہیں ایک مورد یہ ہے کہ پیغمبراور امام اپنے قریبی افراد کی شرعی حاجتوں کو پورا کرنے اور ان کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کے لئے خرچ کریں۔(۲)

فدک، پیغمبراسلام(ص) کی طرف سے حضرت فاطمہ کو ہدیہ تھا

شیعہ محدثین و مورخین اور اہل سنت کے دانشمندوں کا ایک گروہ تحریر کرتا ہے:جب آیت( وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْل ) (۳) نازل ہوئی اس وقت پیغمبر(ص) نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کو بلایااور فدک کو ان کے

________________

(۱) معجم البلدان و مراصد الاطلاع میں ''مادۂ فدک'' کی طرف رجوع کریں۔

(۲) سورۂ حشر، آیت ۶ و ۷، فقہ کی کتابوںمیں باب جہاد بحث ''فیٔ'' میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔

(۳) سورۂ اسرائ، آیت ۲۶، یعنی اپنے رشتہ داروں، مسکینوں، اور مفلسوں کے حق کو ادا کرو۔

۱۸۴

حوالے کیا(۱) اور اس مطلب کو پیغمبرکے ایک بزرگ صحابی ابوسعیدخدری نے نقل کیا ہے۔تمام مفسرین شیعہ و سنی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت پیغمبر کے قریبی رشتہ داروںکی شان میں نازل ہوئی ہے اور آپ کی بیٹی ''ذا القربی'' کی بہترین مصداق ہیں، یہاں تک کہ جب شام کے ایک شخص نے حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام سے کہا کہ آپ اپنا تعارف کرائیے اس وقت آپ نے شامیوں کے سامنے اپنے کو پہچنوانے کے لئے اسی آیت کی تلاوت کی اور یہ مطلب مسلمانوں کے درمیان اتنا واضح و روشن تھاکہ اس شامی نے تصدیق کے طور پر سر کو ہلاتے ہوئے حضرت سے یہ کہا کہ آپ کی رسول اسلام سے قربت اور خاص رشتہ داری کی وجہ سے ہی خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ آپ کے حق کو آپ کو دے دیں ''(۲)

خلاصہ یہ کہ یہ آیت حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے فرزندوں کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اس سلسلے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے لیکن یہ بات کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پیغمبر نے فدک کو اپنی بیٹی کو بطور ہدیہ دیاتھا یا نہیں تو اس بارے میں. تمام شیعہ محققین اور کچھ سنی محققین قائل ہیں کہ اس کو آپ نے اپنی بیٹی کو ہدیہ میں دیا تھا

______________________

(۱) مجمع البیان ج۳ ص ۴۱۱ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۶۸ الدر المنثورج۴ص ۱۷۷

(۲) الدر المنثور ج۴ ص ۱۷۶

۱۸۵

پیغمبراسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی کو کیوں دیا؟

پیغمبراسلام اور آپ کے خاندان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ کبھی بھی دنیا کے دلدادہ نہیں تھے اور جس چیز کی ان کی نظر میں وقعت نہیں رکھتی تھی وہ دنیا کی دولت تھی اس کے باوجودہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی کودے دیا اور اسے حضرت علی کے خاندان سے مخصوص کردیااب یہاں پر یہ سوال پیداہوتا ہے کہ آخر کیوں پیغمبر نے فدک فاطمہ زہرا کو دیااس سوال کے جواب کی کئی وجہیں ذکر ہوئی ہیں۔

۱۔ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی تمام ذمہ داریاں حضرت علی علیہ السلام پر تھیں اور یہ مقام و منصب بہت سنگین اوراسکے لئے زیادہ دولت کی ضروررت تھی حضرت علی خلافت کے تمام امور کی دیکھ بھال فدک سے حاصل ہوئی آمدنی سے اچھے طریقے سے کرسکتے تھے، مگر لگتا ہے کہ خلفاء ،پیغمبر کی اس پیشنگوئی سے آگاہ ہوگئے تھے اسی لئے خلافت کی مسند پر بیٹھتے ہی فدک کو پیغمبر کے خاندان سےچھین لیا ۔

۲۔ خاندان پیغمبر جس میںمظہر کامل آپ کی بیٹی اور آپ کے دو نور چشم حضرت حسن اور حضرت حسین علیھما السلام تھے ضروری تھاکہ پیغمبر کی وفات کے بعد عزت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور رسول اسلام کی عزت و شرافت وحیثیت اوران کا خاندان ہر طرح سے محفوظ رہے اسی مقصد کے تحت پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی کو دیا تھا۔

۱۸۶

۳۔ پیغمبر اسلام یہ جانتے تھے کہ ایک گروہ حضرت علی سے اپنے دل میں کینہ رکھے ہوئے ہے کیونکہ ان کے بہت سے رشتہ دار و احباب مختلف جنگوں میں حضرت علی کی تلوار سے مارے گئے ہیں ان کے دلوں سے کینہ دور کرنے کا ایک راستہ یہ تھا کہ امام مالی امداد کر کے ان کی دلجوئی کریں ،ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کریں، اسی طرح بیواؤں اور مفلسوں اور لاچاروں کی مدد کریں اور اس طرح سے ان تمام موانع کو جو آپ کو خلافت سے قریب ہونے سے روک رہے تھے ان کو دور کریں پیغمبر اسلام (ص) اگرچہ ظاہری طور پر فدک حضرت زہرا کو دیا تھا لیکن اس کی درآمد کا اختیار صاحب ولایت کے ہاتھوں میں تھا. تاکہ اس کے ذریعے سے اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے اور اسلام و مسلمین کے فائدے کے لئے خرچ کریں۔

فدک کی آمدنی

تاریخ پر نگاہ کرنے کے بعدیہ تینوں باتیں صحیح معلوم ہوتی ہیں کیونکہ فدک ایک سرسبز و شاداب زمین تھی جو حضرت علی علیہ السلام کے مقصد کی کامیابی کے لئے بہترین معاون ثابت ہوتی۔

مشہور مورخ حلبی اپنی کتاب سیرۂ حلبی میں لکھتے ہیں:

''ابوبکر مائل تھے کہ فدک پیغمبر کی بیٹی کے پاس رہے اور فاطمہ کی ملکیت کوانہوں نے ایک کاغذ پر لکھ دیا لیکن عمر نے فاطمہ کووہ توشہ دینے سے منع کردیا اور ابوبکر کی طرف رخ کر کے کہا : آئندہ تمہیں فدک کی آمدنی کی سخت ضرورت پڑے گی کیونکہ اگر مشرکین عرب مسلمانوں کے خلاف قیام کریں تو جنگ کے تمام اخراجات کو کہاں سے پورا کرو گے؟(۱)

اس جملے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فدک کی آمدنی اس قدر تھی کہ دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے

______________________

(۱) سیرۂ حلبی ج۳ص ۴۰۰

۱۸۷

میں جو اخراجات ہوتے اس کو پورا کردیتی اسی وجہ سے ضروری تھا کہ پیغمبر اس اقتصادی قدرت کو حضرت علی کے اختیار میں دیدے۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

میں نے مذہب امامیہ کے ایک دانشورسے فدک کے بارے میں کہا: فدک کا علاقہ اتنا وسیع نہ تھا اور اتنی کم زمین کہ جس میں چند کھجور کے درخت کے علاوہ کچھ نہ تھا، لہذا مخالفین فاطمہ کے لئے اتنا اہم نہ تھا کہ اس کی لالچ کرتے، تو انھوں نے میرے جواب میں کہا کہ تم غلط کہہ رہے ہو، وہاں پر کھجور کے درخت آج کے درختوں سے کم نہ تھے اور مکمل طریقے سے اس حاصل خیز زمین سے خاندان پیغمبر کو استفاد ہ کرنے سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ ہو کہ حضرت علی اس کی آمدنی سے خلافت کے خلاف قیام کریں اس لئے نہ صرف فاطمہ کو فدک سے محروم کیا بلکہ تمام بنی ہاشم او رعبد المطلب کے فرزندوں کو ان کے شرعی حقوق (خمس، غنیمت) سے بھی محروم کردیا۔

کیونکہ جو لوگ ہمیشہ اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیںوہ کبھی جنگ و جدال کے خیال کو اپنی ذہن میں نہیں لاتے۔(۱)

امام موسیٰ بن جعفرعلیہ السلام فدک کے حدود و علاقہ کو اس حدیث میں معین کرتے ہیں: ''فدک کا رقبہ ایک سمت سے عدن اور دوسری طرف سے سمر قند اورتیسری طرف سے افریقہ اور چوتھی طرف سے بہت سے دریاؤںاورجزیروں اور جنگلوں سے ملتا ہے'(۲)

حقیقت میں فدک جو کہ خیبر کا جزء تھا اتنا وسیع و عریض نہ تھا بلکہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ صرف ہم سے فدک کو غصب نہیں کیا ہے بلکہ تمام اسلامی ممالک کی حکومت کو اتنی مقدار میں جتنی امام نے معین کئے ہیںاہلبیت سے چھین لیا گیا۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فدک کو چوبیس ہزار دینار میں کرایہ پر دیدیا بعض حدیثوں میں ۷۰ ہزار دینار نقل ہوا ہے اور یہ فرق سالانہ آمدنی کی وجہ سے ہے۔

_____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ج۱۶ص ۲۳۶

(۲) بحار الانوار ج۴۸ ص ۱۴۴

۱۸۸

قطب الدین راوندی لکھتے ہیں:

جب معاویہ خلافت کی کرسی پر بیٹھا تواس نے فدک کو تین حصوں میں تقسیم کیا ایک تہائی مروان بن حکم اور ایک تہائی عمر بن عثمان اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو دیااور جب مروان خلیفہ بنا تو اس نے فدک کو اپنی جاگیر بنالیا(۱) اس طرح کی تقسیم سے واضح ہوتا ہے کہ فدک ایک اہم ترین سرزمین تھی جسے معاویہ نے تین آدمیوں میں تقسم کیا اور تینوں اس کے اہم رشتہ داروں میں سے تھے۔

جس وقت حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر سے فدک کے سلسلے میں گفتگو کی اور اپنی بات کی صداقت کے لئے گواہوں کو ان کے پاس لے گئیںاس وقت انہوں نے پیغمبر کی بیٹی کے جواب میں کہا: فدک پیغمبر کا مال نہیں تھابلکہ مسلمانوں کا مال تھا جس کی آمدنی سے سپاہیوں کے اخراجات پورے ہوتے تھے اور دشمنوں سے جنگ کے لئے بھیجے جاتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔(۲)

پیغمبر اسلام (ص ) فدک کی آمدنی سے سپاہیوں کو آمادہ کرتے تھے یا اسے بنی ہاشم اور درماندہ لوگوں میں تقسیم کرتے تھے اور یہ زمین خیبر کی ایسی زمینوں میں سے تھی جس کی آمدنی بہت زیادہ تھی جو سپاہیوں کے خرچ کے لئے کافی تھی۔

جب عمر نے چاپاکہ شبہہ جزیرہ کو یہودیوں سے خالی کرائیںتو ان لوگوں کو دھمکی دی کہ اپنی اپنی زمینوں کو اسلامی حکومت کے حوالے کرو اور اس کی قیمت لے لو اور فدک کو خالی کردو۔

پیغمبراسلام(ص) نے ابتدا سے ہی فدک میں رہنے والے افراد سے معاہدہ کیا تھا کہ آدھی زمین ان کے اختیار میں رہے گی اور بقیہ آدھی زمین کو رسول خدا کے حوالے کریںگے اسی وجہ سے خلیفہ نے ابن تیہان ،فروہ، حباب، اور زید بن ثابت کو فدک بھیجا تاکہ جتنی مقدار میں ان لوگوں نے غصب کیا تھا اس کی اجرت و قیمت معین ہونے کے بعد یہودیوں کو جو وہاں ساکن تھے ادا کریں ان لوگوں نے یہودیوں کا حصہ پچاس ہزار درہم معین کیا اور عمر نے اس رقم کو اس مال سے ادا کیا جو عراق سے حاصل ہوا تھا۔(۳)

_____________________

(۱) بحار الانوارج۱۶ص ۲۱۶

(۲) بحار الانوارج ۱۶ص ۲۱۴

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ص ۲۱۱

۱۸۹

فدک غصب کرنے کا مقصد

پیغمبر اسلام کے دنیا پرست اصحاب کے لئے ابوبکر کی خلافت و جانشینی کامیابی کا پہلا زینہ تھا اور خزرج جو گروہ انصار کے سب سے زیادہ طاقتور افراد تھے دوسرے گروہ سے مخالفت کر کے داخلی جنگ سے پیچھے ہٹ گئے تھے اور بنی ہاشم نے جس کے رئیس حضرت علی علیہ السلام تھے ان علتوں کی بنا پر جس کا ہم نے ذکر کیاہے لوگوں کے سامنے حقیقت آشکار کرنے کے بعد گروہ بندی اور مسلحانہ قیام سے پرہیز کیا۔لیکن مدینہ میں صرف یہی کامیابی خلافت کے لئے کافی نہ تھی بلکہ مکہ کی حمایت بھی ضروری تھی لیکن بنی امیہ جس کا سرپرست ابوسفیان تھا ،جس کے پاس بہت زیادہ افراد تھے اس نے خلیفہ کی خلافت کو رسماً قبول نہیں کیا تھا، وہ لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ ابوسفیان خلافت کی تائید کرے گا اور تمام احکامات و قوانین کو معین کرے گا۔

جب مکہ میں پیغمبر کے رحلت کی خبر پہونچی اس وقت مکہ کا حاکم عتاب بن اسید بن العاص تھا جس کی عمر ۲۰ سال تھی اس نے تمام لوگوں کو پیغمبر کے رحلت کی خبر سنائی لیکن خلافت و جانشینی کی خبر کے بارے میں لوگوں سے کچھ نہ کہا جب کہ دونوں واقع ایک ہی ساتھ آئے تھے اور دونوں کی خبر پھیل گئی تھی بہت بعید ہے کہ دونوں میں سے ایک واقعہ کی خبر مکہ پہونچے لیکن دوسرے واقعہ کی خبر مکہ نہ پہونچے مکہ کے اموی حاکم کی خاموشی کی علت صرف یہ تھی کہ وہ اپنے خاندان کے رئیس ابوسفیان کے نظریہ سے باخبر ہو جائے پھر اس کے نظریہ کے مطابق عمل کرے۔ان تمام حقایق کے پیش نظر، خلیفہ یہ بات جانتا تھا کہ اس کی حکومت مخالفین کے مقابلے میں بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی. لہذا ضروری تھاکہ مخالفوں کے عقائد و نظریات سے باخبر ہو تاکہ ان سے زیادہ عقائد و نظریات کو پیش کرے جس کی بنا پر ان کے عقائد و غیرہ کا اثر لوگوں کے دلوں پر نہ پڑے کیونکہ ایسی صورت میں حکومت کا بہت دنوں تک قائم رہنا بہت مشکل کام تھا۔

تمام لوگوں میں سے ایک با اثر شخص بنی امیہ کے عزیزوں کا رئیس ابوسفیان تھا اس کا نظریہ معلوم ہوسکتا تھا کیونکہ وہ ابوبکر کی حکومت کا مخالف تھااور جب اس نے سنا کہ ابوبکر نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے تو اس نے اعتراض کیا ''مجھے ابوفضیل سے کیا مطلب؟'' یہ وہی تھا جو مدینہ میں داخل ہونے کے بعد حضرت علی اور عباس کے گھر گیا اوردونوں کو مسلحانہ قیام کے لئے دعوت دی اور کہا کہ ''میں مدینے کو سواروں اور سپاہیوں سے بھر دوں گا، تم لوگ اٹھو اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لو''

۱۹۰

ابوبکرنے اس کو خاموش کرنے اور اس کو خریدنے کے لئے جو مال و دولت ابوسفیان لے کر آیاتھا اسی کو دیدیااور ایک دینار تک اس میں سے نہ لیا، بلکہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بیٹے یزید (معاویہ کا بھائی) کو شام کی حکومت کے لئے منتخب کرلیا، جب ابوسفیان کو یہ خبر ملی کہ اس کے بیٹے کو حکومت ملی ہے تو فوراً اس نے کہا: ابوبکر نے صلۂ رحم کیاہے(۱) جب کہ اس سے پہلے ابوسفیان ابوبکر سے کسی بھی طرح کا رشتہ جوڑ نے کا قائل نہیں تھا۔

ابوسفیان کے علاوہ اور دوسرے افراد جن کا عقیدہ خریدا جارہا تھا ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہاں پر بیان نہیں ہوسکتاکیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوبکر کی بیعت مہاجروں کی غیر موجودگی میں ہوئی تھی اور مہاجرین میں سے صرف تین آدمی موجود تھے خود خلیفہ اور ان کے دو ہمفکرو ہم خیال عمر اور ابوعبیدہ ،ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح سے بیعت لینے اور مہاجروں کواپنے گروہ میں شامل کرنے کی وجہ سے دوسرا گروہ ناراض ہو گا اس لئے ضروری تھا کہ خلیفہ ان کی ناراضگی کو دور کرے، اور انن سے رابطہ برقرار کرے اس کے علاوہ انصار خصوصاًقبیلہ خزرج والے جنہوں نے سقیفہ میں ہی ان کی بیعت نہیں کی تھی اور غم و غصہ کے عالم میں سقیفہ چھوڑ کر باہر آگئے تھے ان کو خلیفہ کی طرف سے محبت و الفت ملتی رہے۔

خلیفہ نے نہ صرف لوگوں کے عقائد کا سودا کیا بلکہ مال و دولت کو انصار کی عورتوں میں تقسیم کیا جب زید بن ثابت، بنی عدی کی ایک عورت کا حصہ اس کے گھر لایا تو اس محترم عورت نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ زید نے کہا: یہ تمہارا حصہ ہے اور خلیفہ نے تمام عورتوں کے درمیان تقسیم کیا ہے، عورت نے اپنی ذہانت سے سمجھ لیا یہ پیسہ رشوت دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے لہذا اس سے کہا: میرے دین کو خریدنے کے لئے رشوت دے رہے ہو؟ خدا کی قسم! اس کی طرف سے میں کوئی چیز نہیں لوں گی یہ کہہ کر اسے واپس کردیا۔(۱)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۱۳۳

۱۹۱

حکومت کے لئے مالی بحران

پیغمبر اسلام(ص) نے اپنی بیماری کے دوران ان تمام چیزوں کو جو آپ کے پاس تھا لوگوں میں تقسیم کردیاتھا بیت المال خالی تھاپیغمبر کے نمائندے آپ کی رحلت کے بعد بہت کم مال لے کر مدینہ واپس آئے یا اس کو متدین اور امین شخص کے ہاتھوں بھجوا دیا، لیکن یہ مختصر آمدنی (مال) اس حکومت کے لئے جو مخالفوں کے عقیدوں کا سودا کرنا چاہ رہی تھی بہت کم تھی۔

دوسری طرف اطراف کے قبیلے والے مخالفت کا پرچم اٹھائے تھے اور خلیفہ کے نمائندوں کو زکوٰة دینے سے منع کر رہے تھے اس وجہ سے حکومت اقتصادی مشکلا ت سے دوچار ہو رہی تھی ۔

اسی وجہ سے حاکم کے سامنے کوئی راہ نہ تھی مگر یہ کہ حکومت کے اخراجات کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پھیلائے اور مال جمع کرے اور اس وقت فدک سے بہتر کوئی چیز نہ تھی، اور اس سلسلے میں پیغمبر سے حدیث کو نقل کیا جس کا تنہا راوی خود خلیفہ تھا(۱) اور فدک کو حضرت فاطمہ سے چھین لیا اور اس کی بے شمار آمدنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے خرچ کیا۔

عمر نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ابوبکر سے کہا: کل تمہیں فدک کی بہت سخت ضرورت پڑے گی کیونکہ اگر مشرکین عرب مسلمانوں کے خلاف قیام کریں تو تم کہاں سے جنگ کے تمام اخراجات کو لاؤ پورا کرو گے۔(۲)

خلیفہ اور ان کے ہمفکروں کا عمل بھی اسی بات کی گواہی دیتا ہے ،کیونکہ جب حضرت فاطمہ نے ان سے فدک کا مطالبہ کیا تو جواب میں کہا: پیغمبر نے تمہاری زندگی کے اخراجات کا انتظام کردیا ہے اور اس کی بقیہ آمدنی کو مسلمانوں میں تقسیم کیا ہے اس لئے تم یہ سب لے کر کیا کرو گی؟

پیغمبر کی بیٹی نے فرمایا: میں بھی اپنے بابا کے عمل کی پیروی کروں گی اور بقیہ آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کروں گی۔

______________________

(۱) وہ جعلی حدیث یہ ہے ''نحن معاشر الانبیاء لانورث'' یعنی ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ۔

(۲) سیرۂ حلبی ج۳ص ۴۰۰

۱۹۲

جب حضرت فاطمہ نے خلیفہ کو بے جواب کردیاتوانہوں نے کہا: میں بھی یہی کام انجام دوں گا جو تمہارے بابا نے انجام دیا ہے۔(۱)

اگر خلیفہ کا مقصد فدک کے تصرف و خرچ کرنے میں فقط حکم الہی کا جاری کرنا تھا اور فدک کی آمدنی میں سے پیغمبر کے اخراجات نکال کر مسلمانوں کے امور میں صرف کرنا تھا تو کیا فرق تھاکہ اس کام کو وہ انجام دے یا پیغمبر کی بیٹی یا اس کا شوہر انجام دیں جو نص قرآنی کے مطابق گناہوں اور نافرمانیوں سے پاک و منزہ تھا خلیفہ کا اس بات پر اصرار کرنا کہ فدک کی آمدنی ان کے اختیار میں ہو اس بات پر گواہ ہیں کہ ان کی نگاہیں اس آمدنی پر تھی تاکہ اس کے ذریعے اپنی حکومت کو مضبوط اوردیگر امور میں اسکو خرچ کریں۔

فدک غصب کرنے کی ایک اور وجہ

فدک غصب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی ہے جیساکہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام کی اقتصادی طاقت کا ڈر تھا. امام کے اندر رہبری کے شرائط موجود تھے کیونکہ علم، تقوی، اورتابناک ماضی پیغمبر سے قرابت اور پیغمبر کا ان کے متعلق وصیت کرنا یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کرسکتے، اور جب بھی کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ مالی طاقت و قدرت بھی رکھتا ہو اور چاہتاہو کہ خلافت کی ڈگمگاتی کرسی کو سہارا دے تو ایسا شخص بہت بڑے خطرے میں پڑ سکتا ہے ایسی صورت میں اگر حضرت علی کے تمام شرائط و امکانات کو غصب کرنا ممکن نہ ہو اور ان کی ذاتی چیزوں کو لینا ممکن نہ ہوتو بھی مگر حضرت علی کی اقتصادی طاقت کوتو غصب کرسکتے تھے اسی وجہ سے خاندان اور حضرت علی کے حالات کو ضعیف کرنے کے لئے فدک کوا س کے حقیقی مالک سے چھین لیا اور پیغمبر کے خاندان کو خلافت و حکومت کا محتاج بنادیا۔یہ حقیقت عمر او رخلیفہ کی گفتگو سے واضح ہوتی ہے انہوں نے ابوبکر سے کہا:

''لوگ دنیا کے بندے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا ہدف بھی کچھ نہیں ہے تم خمس اور مال غنیمت کو علی سے لے لو فدک بھی ان کے ہاتھوں سے چھین لو اور جب لوگ انھیں خالی ہاتھ دیکھیں گے تو انھیں چھوڑ کر تمہاری طرف مائل ہو جائیں گے۔(۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۳۱۶

(۲) ناسخ التواریخ جلد مربوط بہ حضرت زہرا(س)، ۱۲۲

۱۹۳

اس مطلب پر دوسرا گواہ یہ ہے کہ خلیفہ نے نہ صرف خاندان پیغمبر کو فدک سے محروم کیا بلکہ انھیںجنگ کے مال غنیمت میں سے پانچواںحصہ جو نص قرآن کے اعتبارسے خاندان پیغمبر کا حق تھا(۱) اس سے بھی محروم کردیا۔

اکثرمورخین کا خیال ہے کہ خلیفہ سے حضرت فاطمہ زہرا کا اختلاف صرف فدک کی وجہ سے تھا جب کہ آپ کا خلیفہ سے تین چیزوں کی بناپر اختلاف تھا۔

۱۔ فدک جو پیغمبر نے آپ کو دیا تھا۔

۲۔ وہ میراث جو پیغمبر اسلام نے آپ کے لئے چھوڑی تھی۔

۳۔ ذوی القربیٰ کا حصہ جو نص قرآنی کے مطابق غنائم کے خمس کا تعلق ان سے بھی تھا۔

عمر کا بیان ہے کہ جب فاطمہ نے فدک اورذوی القربیٰ کے حق کا خلیفہ سے مطالبہ کیا تو خلیفہ نے منع کردیا اور انھیں نہیں دیا۔

انس ابن مالک کہتے ہیں:

فاطمہ(س) خلیفہ کے پاس آئیں اور آیت خمس کی تلاوت کی جس میں پیغمبر کے رشتہ داروں کا حصہ معین تھا خلیفہ نے کہا: تم جو قرآن پڑھتی ہو میں بھی وہی قرآن پڑھتا ہوں میں ذو القربیٰ کا حق تمہیں ہرگز نہیں دوں گا بلکہ میںتمہاری کی زندگی کے تمام اخراجات برداشت کروں گا اور بقیہ مال کو مسلمانوں کے امور میں صرف کروں گا۔

فاطمہ (س)نے کہا: یہ حکم خدا نہیں ہے جب آیت خمس نازل ہوئی تو پیغمبر نے فرمایا: خاندان محمد کے تمام افراد کو بشارت ہو کہ خدا نے (اپنے فضل و کرم سے) ان لوگوں کو بے نیاز کردیاہے۔

خلیفہ نے کہا: میں عمر اور ابوعبیدہ سے مشورہ کروں گا اگر تمہارے بارے میں موافقت کی تو میں ذوی القربیٰ کا پورا حصہ تمہیں دیدوں گا۔جب ان دونوں سے سوال ہوا تو ان لوگوں نے خلیفہ کے نظریہ کی تائید کی ،فاطمہ کواس وقت بہت

___________________

(۱) سورۂ انفال، ''واعلموا انما غنمتم من شیئٍ فان لله خمسه و للرسول و لذی القربیٰ''

۱۹۴

زیادہ تعجب ہوا اور سمجھ گئیں کہ تینوں آپس میں مشورہ کرچکے ہیں۔(۱)

خلیفہ کا کام صرف نص کے مقابلے میں اجتہاد ہی نہ تھا ، قرآن کریم صراحةً اعلان کر رہاہے کہ مال غنیمت میں سے ایک حصہ پیغمبر کے عزیزوں کا ہے لیکن انہوں نے بہانہ بناتے ہوئے کہ اس سلسلے میں پیغمبر سے کچھ نہیں سنا ہے آیت کی تفسیر کی اور کہا: ''آل محمد کو ان کے خرچ کے برابر دیدو اور بقیہ مال کو اسلام کی راہ میں خرچ کرو''

یہ کوشش صرف اس لئے تھی کہ امام کے ہاتھ میں مال دنیا سے کچھ نہ رہے اورانھیں اپنا محتاج بنائیں تاکہ وہ حکومت کے خلاف اقدام نہ کرسکیں۔

شیعہ فقہ کی نظر میں،جانشین پیغمبر کے ذریعہ پہونچنے والی روایتوں کی رو سے ذوی القربٰی کا حصہ ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اس لئے کہ قرآن نے ان کا جو حصہ معین کیا ہے وہ اس عنوان سے کہ بعد پیغمبر وہی مسلمانوں کے زعیم اور امام ہیں ،اور خمس کا نصف پہنچنے والا مال ان کے زیر نظر خرچ ہو

خلیفہ اس بات سے باخبر تھا کہ اگر حضرت فاطمہ زہرا ذی القربی کا حق مانگ رہی ہیں تو وہ اپنا حق نہیں مانگ رہی ہیں بلکہ وہ حصہ مانگ رہی ہیں جو شخص ذی القربی کے زمرے میں آتا ہے اسے دریافت کر کے مسلمانوں کے زعیم و رہبر کے عنوان سے مسلمانوں کے دینی موارد میں صرف کرے اور رسول اسلام کے بعد ایسا شخص سوائے حضرت علی کے کوئی اور نہیں ہے اور حضرت علی کو حصہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ خلافت کو چھوڑ دینا اورامیر المومنین کی زعامت و رہبری کااعتراف کرنا تھا اسی وجہ سے ابوبکر نے فاطمہ سے مخاطب ہوکر کہا:

ذی القربیٰ کا حصہ تمہیں ہرگز نہیں دوں گا اور تمہاری زندگی کے اخراجات نکالنے کے بعد باقی تمام مال کو اسلام کی راہ میں خرچ کروں گا۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۳۱۔ ۲۳۰۔

۱۹۵

فدک ہمیشہ مختلف گروہوں اور سیاستوں کا شکار

خلافت کے شروع کے ایام میں پیغمبر کی بیٹی کے باغ فدک کو غصب کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ حکومت کے خزانے کو مستحکم اور خلیفہ اصلی کو مال دنیا سے محروم کردیا جائے لیکن اسلامی حکومت کے بننے اور بڑی بڑی جنگوں میں فتح حاصل ہونے کے بعد حکومت کے پاس دولت و ثروت کا ریل پیل ہونے لگااور اب حکومت نے فدک کی آمدنی سے اپنے کو بے نیاز سمجھا دوسری طرف زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ خلفاء کی خلافت اسلامی معاشرہ میں اور محکم ہوگئی اور کسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ حقیقی خلیفہ حضرت امیر المومنین فدک کی آمدنی سے خلیفہ کی مخالفت کریں گے اور ان کے مقابلے میں صف آرائی کریں گے۔

دوسرے خلفاء کے زمانے میں اگرچہ فدک کے غصب کرنے کی جو علت تھی یعنی خلافت کو مالی اعتبار سے مضبوط کرناوہ ختم ہوگئی تھی لیکن سرزمین فدک اور اس کی آمدنی پھر بھی سیاسی شخصیتوں اور خلیفہ وقت کی ملکیت تھی اور ان کی خاندان پیغمبر سے جیسی وابستگی ہوتی تھی اس لحاظ سے اس کے بارے میں نظریئے قائم کرتے تھے ،اگر ان کا قلبی رابطہ خاندان پیغمبر نہیں ہوتا تھا تو فدک کو حقیقی مالک (اہلبیت ) نہیں کرتے تھے اوراسے مسلمانوں کی اور حکومت کی جائیداد قرار دیتے تھے لیکن جن کو اہلبیت سے محبت ہوتی تھی یا وقت کا تقاضا تھا کہ اولاد فاطمہ کے ساتھ دلجوئی کی جائے وہ فدک کو اولاد فاطمہ کے حوالے کر دیتے تھے ،ایسا سلسلہ وقت تک رہتا تھا جب تک کہ بعد کے خلیفہ کی سیاست نہ بدلے۔اسی وجہ سے فدک کبھی ایک حالت پر نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ مختلف گروہوں اور متضاد سیاستوں کا شکار رہا کبھی اپنے حقیقی مالکوں کی طرف واپس آتاتو کبھی بلکہ اکثر غصب کیا جاتا تھا۔

خلفاء کے زمانے سے حضرت علی کے زمانے تک فدک اپنی جگہ پر ثابت رہا اور اس کی آمدنی سے تھوڑا سا خاندان پیغمبر کی زندگی کے اخراجات کے طور پر دیا جاتا تھا اور باقی مال دوسرے عمومی مال کی طرح خلفاء کی نگرانی میں خرچ ہوتا تھا۔

لیکن جب معاویہ کے ہاتھ میں حکومت آئی تو اس نے فدک کو تین حصوں میں تقسیم کیا ، ایک حصہ مروان کو اور ایک حصہ عمر و بن عثمان بن عفان کو اور ایک حصہ اپنے بیٹے یزید کو دیا۔

فدک اسی طرح ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ میں جاتا رہا یہاں تک کہ جب مروان بن حکم کی حکومت آئی تو اس نے اپنی خلافت کے زمانے میں باقی دو حصوں کو ان لوگوں سے خرید لیا اور خود اپنا حصہ بنالیا اور پھر اسے اپنے بیٹے عبد العزیز کو دے دیا. اور اس نے بھی اپنے بیٹے عمر بن عبد العزیز کو دیدیا اس کے لئے بطور میراث چھوڑا۔

۱۹۶

جب عمر بن عبد العزیز کی خلافت آئی تو اس نے چاہا کہ بنی امیہ کے تمام بدنما دھبوں کو اسلامی معاشرہ کے دامن سے پاک کردے چنانچہ خاندان پیغمبر سے محبت کی وجہ سے سب سے پہلے جس چیز کو اس نے اس کے حقیقی مالک کو واپس کیا وہ فدک ہی تھا اس نے فدک کو حسن بن علی علیہ السلام کے حوالے کیا اور ایک روایت کے مطابق امام سجاد علیہ السلام کے حوالے کیا۔(۱)

اس نے مدینہ کے گورنر ابوبکر بن عمرو کے نام خط لکھا اور حکم دیا کہ فدک کو حضرت فاطمہ کے بچوں کو واپس کردے دھوکہ بازحاکم نے خط کا جواب دیتے ہوئے خلیفہ کو لکھا:

مدینے میں فاطمہ کی اولاد بہت زیادہ ہے اور ہر شخص اپنے گھر میں زندگی بسر کر رہا ہے میں فدک کو ان میں سے کس کو واپس کروں؟

عبد العزیز کے بیٹے نے جب حاکم کے خط کو پڑھا تو بہت ناراض ہوا اور کہا:

اگر میں تجھے گائے کو قتل کرنے کا حکم دوں تو تم بنی اسرائیل کی طرح کہو گے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہو جیسے ہی میرا خط تجھ تک پہونچے فوراً فدک کو فاطمہ کے ان بچوں میں تقسیم کردے جو علی کی اولاد ہیں۔

خلافت کے ٹکڑوں پر پلنے والے جو سب کے سب بنی امیہ کے ماننے والے تھے خلیفہ کی اس عدالت سے بہت سخت ناراض ہوئے اور کہا: تو نے اپنے اس عمل سے شیخین کو گناہگار ٹھہرایا ،زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ عمر بن قیس اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے شام پہونچا اور خلیفہ کے اس کام پر تنقید کرنے لگا۔

خلیفہ نے ان سب کے جواب میں کہا:

تم لوگ جاہل و نادان ہو جو کچھ مجھے یاد ہے تم لوگوں نے بھی اسے سنا ہے لیکن فراموش کردیاہے ،میرے استاد ابوبکر بن محمد عمر وبن حزم نے اپنے باپ سے اورانہوں نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ

______________________

(۱) اس دوسرے احتمال کواگرچہ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ عمر بن عبد العزیز ۹۹ھ میں خلیفہ ہوا جبکہ امام سجاد کی وفات ۹۴ھ میں ہو چکی تھی یہ ممکن ہے کہ محمد بن علی بن الحسین رہے ہوں اور لفظ محمد چھوٹ گیا ہو۔

۱۹۷

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''فاطمہ میراٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا'' خلفاء کے زمانے میں فدک اموال عمومی اور حکومت کا حصہ تھا پھر وہ مروان تک پہونچا اور انھوں نے میرے باپ عبدالعزیز کے حوالے کیااور اپنے باپ کے انتقال کے بعدمجھے اور میرے بھائیوں کو بطور میراث حاصل ہوااور میرے بھائیوں نے اپنے حصوں کو مجھے بیچ دیا یا مجھے دیدیا اور میں نے حدیث رسول کے حکم سے زہرا کے بچوں کو واپس کردیا۔

عمر بن عبد العزیز کے انتقال کے بعد، آل مروان ایک کے بعد دوسرے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے رہے اور سب نے عمر بن عبد العزیز کے برخلاف قدم اٹھایااور فدک مروان کے بیٹوں کی خلافت کے زمانے تک ان لوگوں کے تصرف میں تھااور پیغمبر کا خاندان اس کی آمدنی سے بالکل محروم تھا، بنی امیہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب بنی عباس کی حکومت وجود میں آئی تو فدک کی خاص اہمیت تھی، بنی عباس کے پہلے خلیفہ ''سفاح'' نے فدک عبد اللہ بن حسن کو واپس کردیا اس کے بعد جب منصور آیا تو اس نے واپس لے لیا. منصور کے بیٹے مہدی نے اپنے باپ کی پیروی نہیں کی اور فدک کو حضرت زہراکے بچوں کو واپس کردیا مہدی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے موسی اور ہارون جنھوں نے یکے بعد دیگرے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی فدک کو پیغمبر کے خاندان سے چھین لیا اور اپنے تصرف میں لے لیا یہاں تک کہ ہارون کے بیٹے مامون نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔

ایک دن مامون رد مظالم اور لوگوں کی شکایت وغیرہ سننے کے لئے رسماً بیٹھ گیااور جو خطوط مظلوموں نے لکھے تھے اس کی تحقیق کرنے لگا۔

سب سے پہلا خط جو اس کے ہاتھ میں تھا وہ ایسے شخص کا تھا جس نے اپنے کو حضرت فاطمہ کا وکیل و نمائندہ لکھا تھا اس نے خاندان پیغمبر کے لئے فدک واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا خلیفہ خط پڑھ کر رویا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اس نے حکم دیاکہ خط لکھنے والے کو بلایاجائے، کچھ دیر کے بعد خلیفہ کے محل میں ایک بوڑھا شخص لایا گیااور مامون سے فدک کے بارے میں بحث کرنے لگا ، تھوڑی ہی دیر مناظرہ ہوا تھا کہ مامون قانع ہوگیا اور حکم دیا کہ رسمی طور پر مدینے کے حاکم کو خط لکھو کہ فدک کو فاطمہ زہرا کے بچوں کو واپس کردے خط لکھا گیا اور خلیفہ نے اس پر مہر لگائی اور مدینہ بھیج دیا گیا۔خاندان پیغمبر کو فدک مل جانے سے شیعہ بہت خوش ہوئے اور دعبل خزاعی نے اس موقع پر ایک قصیدہ بھی کہا جس کا پہلا شعر یہ تھا:

۱۹۸

اصبح وجه الزمان قد ضحکا

برد مامون هاشم فدکا(۱)

زمانے کے چہرے پر خوشیوں کے آثار نظر آنے لگے کیونکہ مامون نے فدک کو بنی ہاشم کے بچوں (جو واقعی مالک تھے) کو واپس کردیا۔

حیرت انگیزوہ خط ہے جو مامون نے ۲۱۰ھ میں فدک کے سلسلے میں مدینہ کے حاکم قیم بن جعفر کو لکھا جسکا خلاصہ یہ ہے:

''امیر المومنین جس کی خدا کے دین اور خلافت اسلامی میں بہت زیادہ اہمیت ہے اور خاندان نبوت سے رشتہ داری کی بنا پر بہترین و شائستہ شخص ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبر کی سنتوں کی رعایت کرے اور جو کچھ بھی انھوں نے دوسروں کودیا ہے اس کو ان کے حوالے کردے پیغمبر اسلام نے فدک فاطمہ زہرا کو دیا ہے اور یہ بات اتنی زیادہ واضح و روشن ہے کہ پیغمبر کے بیٹوں میں سے کسی نے بھی اس سلسلے میں اختلاف نہیں کیا ہے اور کسی نے اس سے زیادہ کا بھی دعوی نہیں کیا ہے کہ تصدیق کی ضرورت ہوتی''

اسی بنا پر امیر المومنین مامون نے مصلحت سمجھا کہ خدا کی مرضی حاصل ہونے اور عدالت جاری کرنے اور حق کو حقدار تک پہونچانے کے لئے فدک کو ان کے وارثوں کے حوالے کردے اور اس کے لئے حکم جاری کرے ، اسی لئے اس نے اپنے مشیروں اور کاتبوں کو حکم دیا کہ اس مطلب کو حکومتی رجسٹر میں تحریر کریں پیغمبر کے انتقال کے بعد جب بھی حج کی بجا آوری کے موقع پر یہ اعلان کیا گیا کہ جس شخص کا پیغمبر کے پاس صدقہ یا ہدیہ یا اور کوئی چیز ہو وہ مجھے مطلع کرے تو مسلمانوں نے اس بات کو قبول کرلیا تو پھر پیغمبر کی بیٹی کا کیا مقابلہ، ان کی بات کی تو یقیناتصدیق و تائید ہونا چاہئیے۔

امیر المومنین نے مبارک طبری کو حکم دیاکہ فدک کو تمام حدود و حقوق کے ساتھ فاطمہ کے وارثوں کو واپس کردو اور جو کچھ بھی فدک کے علاقے میں غلام، غلے اور دوسری چیزیں ہیں وہ سب محمد بن یحییٰ بن حسن بن زید بن علی بن الحسین اور محمد بن عبد اللہ بن حسن بن علی بن الحسین کو واپس کردو، تم جان لو یہ وہ فکر و نظر ہے

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۱۸۔ ۲۱۶۔

۱۹۹

جو امیر المومنین نے خدا سے الہام کے ذریعے حاصل کیا ہے اور خدا نے ان کو کامیاب کیا ہے کہ خدا اور پیغمبر سے توسل و تقرب کریں۔

اس مطلب کو جو افراد بھی تمہاری طرف سے کام کر رہے ہیں ان تک پہونچا دو اور فدک کی تعمیر و آبادی میں ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو۔(۱)

فدک حضرت زہرا کے بچوں کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ متوکل کو خلافت کے لئے منتخب کیا گیاوہ خاندان رسالت کا بہت سخت دشمن تھا لہذا فدک کو حضرت زہرا کے بچوں سے چھین لیا اور عبد اللہ بن عمر بازیار کی جاگیر قرار دیا۔

سرزمین فدک پر ۱۱ کھجور کے درخت تھے جنہیں خود پیغمبر اسلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے لگائے تھے لوگ حج کے زمانے میں ان درختوں کی کھجوروں کو بطور تبرک اور مہنگی قیمت پر خریدتے تھے جس سے خاندان نبوت کی شایان شان مدد ہوتی تھی۔

عبداللہ اس مسئلہ سے بہت زیادہ ناراض تھا لہذا ایک شخص کو جس کا نام بشیران تھا اسے مدینہ روانہ کیا تاکہ کھجور کے ان درختوں کو کاٹ دے، اس نے بھی شقاوت قلبی کے ساتھ اس کے حکم پر عمل کیا لیکن جب بصرہ پہونچا تو مفلوج ہو گیا۔

اس دور حکومت کے بعد فدک خاندان پیغمبر سے چھین لیا گیا اور پھرظالم حکومتوں نے وارثان زہرا کو فدک واپس نہیں کیا۔

______________________

(۱) فتوح البلدان ۴۱۔ ۳۹ تاریخ یعقوبی ج۳ ص ۴۸۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371