ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138377 / ڈاؤنلوڈ: 4326
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس کی لاش روم کے مرغزار میں پڑی تھی نہ کہ اس کے باپ کی ملکیت میں جہاں وہ چاہتا تھا۔

رومیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا آغاز یہ تھا کہ عامر نے اس کے سر پر اپنی تلوار کی ایک ضرب سے کمر تک اسے دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا !

ابن عساکر یہ چند شعر ذکر کرنے کے بعد نافع کے حالات کو دار قطنی اور ابن ماکولا سے سیف کے ذریعہ نقل کرکے اپنی بات تمام کرتا ہے ۔

لیکن طبری سیف سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے نافع کے اشعار سے صرف درج ذیل دو شعر نقل کرتا ہے :

ہمارے سوار فوجیوں نے سمندر جیسی زیبا اور وسیع سرزمین ''مدائن'' پر قدم رکھا....

اس کے بعد ١٦ھکے حوادث کے ضمن میں جلولا کی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرتا ہے ۔سیف سے ایک روایت میں جلولا کی جنگ کے بارے میں نافع سے منسوب چار شعر کو حسب ذیل نقل کرتاہے :

'' جلولا '' کی جنگ میں ہمارے پہلوانوں نے قوی شیروں کی طرح میدان کا رزار میں حملے کئے ۔

میں ایرانیوں کو چیر پھاڑ کے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتا تھا ،اور کہتا تھا ،مجوسیوں کے ناپاک بدن نابود ہو جائیں ۔

اس دن جب سر تن سے جدا ہو رہے تھے ،'' فیروزان '' ہمارے چنگل سے بچ نکلا اور بھاگ گیا لیکن '' مہران '' مارا گیا۔

جب ہمارے دشمن موت کے گھاٹ اتاردئے گئے تو رات کو بیابانوں کے درندے ان کی لاشوں کے استقبال کے لئے آئے ۔

ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہم نے طبری کی کتاب میں مذکورہ اشعار کے چھ قطعات کے علاوہ نافع سے مربوط کوئی اور شعر نہیں پایا ،جب کہ ابن ماکولا''نافع '' کی تشریح میں کہتا ہے :

۸۱

سیف نے کہا ہے کہ اس نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کافی شہرت حاصل کی ہے اور بہت سے شعر کہے ہیں

ابن حجر کہتا ہے:

سیف نے اس سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جن میں نافع نے اپنے خاندان پر ناز کیا ہے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی سورما کے نام پر بہت سے اشعار کہے ہیں اور طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان اشعار کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔

ہم نے '' نافع'' کے کافی تعداد میں کہے گئے اشعار کی جستجو کی لیکن ان میں سے تھوڑے ہی اشعار حموی اور حمیری کے ہاں دستیاب ہوئے کہ ان دو عالموں نے اپنی بات کے اقتضا کے مطابق مقامات کی تشریح کرتے ہوے شاہد کے طور پر ان سے استناد کیا ہے ۔ہم ہر ایک فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے خلاصہ بیان کرنے کے بعد ان اشعار کی طرف بھی اشارہ کریں گے ۔

شاعر نافع ،ایران میں

طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر فتح '' ہمدان'' ''رے'' اور ''گرگان '' کے بارے میں اپنی تاریخ میں مفصل طور پر درج کیا ہے ہم یہاں پر اس کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں :

خلیفہ عمر نے ہمدان اور اس کے مشرق میں واقع دیگر سر زمینوں کو خراسان تک فتح کرنے کا حکم '' نعیم بن مقرن '' کے نام جاری کیا اور اسے حکم دیا کہ ان علاقوں کو فتح کرے ۔

نعیم نے اطاعت کرتے ہوئے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی ،اس جنگ میں گرگان کے لوگ بادشاہ کی مدد کے لئے آئے دونوں لشکر کوہ رے کے دامن میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے نعیم اپنے فوجیوں کے ایک حصے کو چوری چھپے محاذ جنگ کے پیچھے بھیج چکا تھا ۔اس نے پوری طاقت کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا ۔ایرانی چوں کہ آگے پیچھے دونوں طرف سے اسلامی فوج کی زد میں آچکے تھے اس لئے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے سخت شکست و حزیمت سے دو چار ہوئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔اس گیرودار میں بے شمار ایرانی کام آئے ۔

۸۲

نعیم نے فتح پانے کے بعد غنائم جنگی کا پانچویں حصہ ''اسود بن قطبہ'' کی سرپرستی میں چند دیگر معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا ۔

جب عمر کو فتح کا پیغام پہنچا خلیفہ نے حکم دیا کہ '' نعیم '' اپنے بھائی '' سوید بن مقرن '' کو ''قومس'' کی فتح پر مامور کرے۔

سوید خلیفہ کے حکم سے ایک لشکر لے کر '' قومس '' کی طرف روانہ ہوا اور اس جگہ کو کسی قسم کی مزاحمت اور خوں ریز ی کے بغیر فتح کر لیا۔

اس کے بعد طبرستان کے علاقہ پر بھی ایک فوجی معاہدے کے تحت قبضہ کیا ۔ وہا ں سے گرگان کا رخ کیا اور '' بسطام'' کے مقام پر پڑائو ڈالا اور وہیں سے بادشاہ '' رزبان صول'' کے نام خط لکھا اور اسے تسلیم و اطاعت کرنے کو کہا ''رزبان '' نے مثبت جواب دیا اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دے کر جنگ سے دوری اختیار کی ۔ یہ عہد نامہ ١٨ ھ کو لکھا گیا اور طرفین میں رد و بدل ہوا۔

مذکورا بالا باتیں طبری کے بیانات کا خلاصہ تھیں :

حمیری لفظ '' رے '' کی طرف اشارہ کرکے اسی داستان کو لکھتا ہے :

.....اور ابو بجید نافع بن اسود نے ''رے'' کی جنگ میں یہ اشعار کہے تھے : کیا ہماری محبوبہ کو یہ خبر ملی کہ جو گروہ ''رے '' میں ہمارے مقابلے میں جنگ کے لئے اٹھا تھا، وہ موت کا زہر کھا کر ہلاک ہوگیا؟!

وہ دو محاذوں پر پوری قدرت کے ساتھ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ہمارے مقابلے میں آئے

ان کے گھوڑے یک رنگ ، یا سیاہ تھے یا سرخ ۔ ایسے گھوڑ ے تھے کہ بعض اوقات ہمارے حملوں کے مقابلے میں تاب نہ لاتے ہوئے فرار کو قرار پر ترجیح دیتے تھے ہم نے ان کو پہاڑ کے دامن میں ایک ایک کرکے یا دو دو کرکے پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کو قتل کرکے اپنی تمنا پوری کی۔

خدا جزائے خیر دے اس گروہ کو جس نے دشمن کے سر پر انتقام کی تلوار ماری اور اجر دے انھیں جنہوں نے ایسا کام انجام دیا۔

۸۳

حموی نے بھی ''بسطام'' اور ''گرگان'' کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں پر استناد کرکے ''نافع بن اسود '' کا نام لیا ہے۔ مثلاً ''بسطام اور اس کی فتح کے بارے میں لکھتا ہے:

خلیفہ عمر نے حکم جاری کیا تھا کہ ''نعیم بن مقرن'' ''رے'' اور ''قومس'' کی طرف لشکر کشی کرے اور یہ لشکر کشی ١٨و١٩ھ میں واقع ہوئی ہے۔

نعیم کا ہراول دستہ اس کے بھائی ''سوید بن مقرن '' کی سرپرستی میں ''رے '' اور ''قومس'' کی طرف روانہ ہوا ۔ چونکہ ان دونوں علاقوں کے باشندوں میں لڑنے کی طاقت نہ تھی ۔ اس لئے انہوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سرانجام ان کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم! اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ ہم میدانِ جنگ میں حاضر ہونے اور اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے میں دوسروں سے زیادہ سزاوار ہیں !

جب صبح سویرے جنگ کا بگل بجتا ہے تو یہ ہم خاندان تمیمی ہیں جو خوشی خوشی اس کا مثبت جواب دیتے ہیں ۔

ہم نے ''بسطام '' کی سخت اور وسیع جنگ میں دشمن کو نابود کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی۔

اس کام میں ہم نے اپنے نیزے گھمائے اور انھیں دشمن کے خون سے رنگین کیا۔

لفظ ''گرگان'' اور ''رے'' کے سلسلہ میں حموی کی دلیل

حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لکھتا ہے :

جب سوید بن مقرن نے ١٨ھمیں ''بسطام '' کی فتح سے فراغت پائی تو اس نے گرگان کے بادشاہ ''زربان صول'' کے نام ایک خط لکھا اور اسے اطاعت کرنے کا حکم دیا اور خود سپاہ لے کر گرگان کی طرف روانہ ہوا۔ زربان نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوا۔ سوید صلح کو قبول کرتے ہوئے گرگان میں داخل ہوا اور صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے مین یہ شعر کہے ہیں :

۸۴

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا، جس سے پہلے رے ہے ۔ اس کے بعد صحرا نشین گرگان کی طرف روانہ ہوئے۔

حموی شہر ''رے''کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ابوبجید، جو لشکر میں شامل تھا''رے'' کا یوں ذکر کرتا ہے:

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا جس کے پہلے رے ہے۔ اس کے بعد صحرا نشین اس کی طرف بڑھے ۔ ہمیں ''رے '' کی چراگاہ اور سبزہ زار جو زینت و نعمت کے سبب ہیں بہت پسند آئے۔

پوپھٹتے ان سبزوں میں عجیب رونق ہوتی ہے جو بڑے بادشاہوں کی شادیوں کی یاد

تازہ کرتی ہے.

حموی مذکورہ اشعار کو بیان کرنے کے بعد ''گرگان'' کے بارے میں تشریح کرکے اپنی بات ختم کرتا ہے.

مذکورہ مطالب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے ''رے '' اور ''گرگان ''کی تشریح میں سیف کی باتوں اور اس کی داستانوں پر اعتماد کیا ہے ۔ اس نے ان داستانوں کی سیف سے نقل کرکے اپنی عادت کے مطابق رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں سے ان ہی دلاور یوں کو ذکرکیا ہے جو فرضی ابو بجید اور جعلی کمانڈر سوید سے مربوط ہیں ، اور سوید کو ''صیغۂ تکبیر ''سے ''سواد '' نقل کیاہے ۔ اس کے بعد اسے بلاذری اور دیگر دانشوروں کی روایتوں سے ربط دیتا ہے جنہوں نے سپاہ کی قیادت کا عہدہ دار ''عروۂ طائی '' کو بتایا ہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

بلا ذری نے ''رے ''اور ''قومس''کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر نے اپنے کارگزار عمار یاسر کو حکم دیا کہ ''عروة بن خیل طائی'' کو ''رے '' کو فتح کرنے پر مامور کرے ۔ عروہ نے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی اور اسے فتح کیا۔ اس کے بعد خود مدینہ چلاگیا اور اس فتح کی نوید خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی۔

۸۵

''رے '' کی فتح کے بعد خلیفہ کے حکم سے ''سلمة الضبی'' نے سپاہ کی کمانڈ سنبھالی اور فوج کے ساتھ ''قومس'' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کی طرف لشکر کشی کی ''قومس '' کے باشندوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سلمہ کے ساتھ معاہدہ کیا اور پانچ لاکھ درہم جزیہ کے طور پر ادا کئے۔

بلاذری نے گرگان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے:

خلیفہ ٔعثمان نے ٢٩ھ میں کوفہ کی حکومت پر ''سعید بن عاص اموی'' کو مقرر کیا .سعید نے گرگان کو فتح کرنے کی غرض سے اس علاقہ کی طرف فوج کشی کی اور گرگان کے بادشاہ کے ساتھ دولاکھ درہم پر صلح کی اور اس علاقے کو اپنے علاقوں میں شامل کیا .اس کے بعد سرزمین طبرستان کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا.

ہم نے یہاں پر بلاذری کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

موازنہ کا نتیجہ

سیف نے اپنی روایت میں سرزمین رے کے فاتح کے طور پر ''نعیم بن مقرن'' کا ذکر کیا ہے اور ''قومس'' ''طبرستان'' ''بسطام'' اور ''گرگان'' کے فاتح کے طور پر اس کے بھائی ''سوید '' کا نام لیا ہے اور ان تمام فتوحات کو ١٨و١٩ھ میں انجام پانا بتاتاہے، جبکہ دوسرے معروف اور نامور مورخین نے سرزمین ''رے'' کا فاتح ''عروة بن زید خیل طائی '' کو بتایا ہے اور ''قومس '' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کو فتح کرنے والے اس کے جانشین کا نام ''سلمةالضبی'' بیان کیا ہے اور گرگان اور طبرستان کا فاتح ''سعید اموی '' کو بنایاہے خاص کر اس موخر الذکر فتح کی تاریخ خلافت ِعثمان کا زمانہ ٢٩ھ ثبت کیا ہے !!یہ سیف اور دیگر مورخین کی روایتوں میں نمایاں اختلافات کے نکات ہیں ۔

ان روایتوں کا مذکورہ سرسری جائزہ اور مختصر موازنہ انجام دینے سے یہ آسانی کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں پر کس قدر اعتماد کیا ہے اور ان روایتوں اور علاقوں کی فتح کو صحیح اور معتبر جانا ہے کہ اس طرح نظم و نثر کی صورت میں سیف کی روایتوں کو قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ یہاں پر ہم ایک بار پھر حموی کی تحریر پر غور کرتے ہیں

۸۶

برجان برگان!

حموی کی ''معجم البلدان''میں لفظ ''برجان'' کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:

مسلمانوں نے ''برجان '' کو عثمان کی خلافت کے دوران فتح کیا .ابوبجید تمیمی نے اس فتح کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

پہلے ہم نے گرگان پر حملہ کیا، ہمارے سوار دستوں کو میدان کا ر زار میں دیکھ کر اس کی حکومت متزلزل ہوکر سرنگوں ہوگئی۔

شام کے وقت جب ہم نے حملہ روکا، تو وہاں کے لوگ سرزمین روم اور برجان کے درمیان سراسیمہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

اسی کتاب میں لفظ ''رزیق '' کے بارے میں آیا ہے:

ایران کے بادشاہ کسریٰ کے بیٹے ، یزدگرد شہریار کے قتل کا واقعہ ایک پن چکی میں پیش آیا ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

ہم تمیمیوں نے سراسیمہ بھاگتے ہوئے یزدگرد کے شکم کو خنجر سے چاک کرکے ہلاک کردیا ۔ ''مرو'' کی جنگ میں ہم ان کے مقابلے پر آئے ۔کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تیز پنجوں والے پہاڑی چیتے ہیں !

ہم نے ''رزیق'' کی جنگ میں ان کو تہس نہس کرکے ان کی ہڈیوں کو چکلنا چور کرڈالا.

سورج ڈوبنے تک ہم ان کے میمنہ اور میسرہ پر مسلسل حملے کرتے رہے

خدا کی قسم !اگر خدا کا ارادہ نہ ہوتا، تو ''رزیق'' کی جنگ میں دشمنوں میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچتا۔

رزیق

طبری نے ''برجان '' کی فتح کے بارے میں جس کا حموی نے نام لیا ہے اور اسی طرح ''رزیق'' میں یزدگرد شہریار کے تمیمیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بارے میں سیف سے کچھ نقل نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کرتے ۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ساسانیوں کا آخری بادشاہ یزدگردخود ایرانیوں کے ہاتھوں ماراگیا ہے۔

۸۷

اگر طبری نے یزد گرد کے مارے جانے کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتاب میں در ج کیا ہوتا ، تو ہمیں پتہ چلتا کہ سیف نے آوارہ اور دربدر ہوئے ساسانی بادشاہ کے تمیمی دلاوروں کے خنجر کی ضربات سے مارے جانے کی کیسی منظر کشی کی ہے تا کہ اپنے افسانوی شاعر ابوبجید کے ذریعہ یزدگرد کے مارے جانے کے بارے میں شعر کہلوا کر قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخار کا اضافہ کرتا.

ابوبجید ، کتاب ''صفین''میں

یہاں تک بیان شدہ مطالب نافع کے بارے میں تھے، جو ہم نے ان علماء کے ہاں پائے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نصر بن مزاحم نے بھی جنگ صفین میں ابوبجید کا نام لیا ہے اپنی کتاب ''صفین'' کے صفحہ ٥٦٤ میں لکھتا ہے:

ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے جنگ صفین میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :

میری طرف سے ''علی کو درود پہنچاؤاور ان سے کہنا : جس نے آپ کا فرمان قبول کیا ، اس نے سختیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے

علی نے اسلام کے گنبد کو ویرانی کے بعد پھر سے تعمیر کیا ۔ یہ عمارت پھر سے کھڑی ہوکر پائیدار ہوگئی ہے۔

گویا اسلام کی ویر انی کے بعد ایک نیا پیغمبر آیا اور اس نے نابود شدہ طریقوں کو پھر سے زندہ کیا ۔

نصر اس داستان میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

اور جب علی جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو نافع نے یہ اشعار کہے:

ہم نے دمشق اور اس کے اطراف کی سرزمینوں کے کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا!

کتنی جوان عورتیں اس جنگ صفین میں اپنے شوہروں کے قتل ہونے کے بعد ان کے نیزوں کی وارث بن کر بیوہ ہوچکی ہیں ؟!

وہ اپنے شوہروں کے سوگ میں بیٹھی ہیں ، جو انھیں قیامت تک نہیں ملیں گے ۔

ہم تمیمی ایسے جنگجوہیں کہ ہمارے نیزے دشمن کو اس طرح لگتے ہیں کہ ان کا بچنا

۸۸

مشکل ہوتا ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ نصر ابوبجید کے رزمیہ اشعار کہاں سے لایا ہے ؟کیا نافع کانام اور اس کے اشعار سیف کے علاوہ کسی اور کی زبان پر بھی آئے ہیں ؟

اس سلسلے میں ہم نصر بن مزاحم کی کتا ب ''صفین'' کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں اور اس کے صفحہ ٦١٢ پرا س طرح پڑھتے ہیں :

...''عمر وبن شمر'' سے متعلق گفتگو کے ضمن میں اس طرح آیا ہے:

جب علی صفین کی جنگ سے واپس ہوئے ، (تو عمرو بن شمرنے) اس طرح شعر کہے :

وکم قدر ترکنا فی دمشق و ارضھا...

کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ہم نے ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا ؟!...تا آخر۔

یہاں تک کہ وہ صفحہ ٦١٣ پر لکھتا ہے:

اور سیف کی روایت میں آیا ہے کہ: ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح نغمہ سرائی کی ہے:

الا ابلغا عنی علیا تحیة ، فقد قبل

میرا سلام علی کو پہنچاؤ اور ان سے کہو کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے مشکلات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے... تاآخر۔

یہاں پر نصر بھی اپنے مآخذ ،یعنی سیف کا کھلم کھلا نام لیتا ہے.

۸۹

لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اسلام کی مشہور اور فیصلہ کن جنگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے اور ان جنگوں کو بھی اپنے خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے وجود سے محروم نہیں کیا ہے تا کہ اس طرح وہ ہر جنگ میں اپنے خاندان یعنی قبیلۂ تمیم کے کسی طرح افتخارات کا اضافہ کرنے کی کوشش کرے ۔ حقیقت میں سیف کے بارے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ''کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر اس مکار لومڑی کے نقش قدم نہ پائے جائیں ''!!

اس طرح علماء اور دانشوروں نے سیف کے افسانوں اور اس کی ذہنی مخلوقات کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ بعض اوقات ان مطالب کو سیف سے نسبت دیکر مآخذ کو کھلم کھلا بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی روایت کے راوی کانام نہیں لیتے ۔ یہی امر سبب ہوتا ہے کہ محقق ایسی روایتوں سے دوچار ہوکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اور یہ امور تاریخی حقائق کی تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لئے حیرت و تعجب کا سبب بنتے ہیں ، ان ہی میں ابن حجر کے وہ مطالب بھی ہیں جو اس نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں نافع کے حالات کے بارے میں درج کئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو:

دار ''قطنی '' نے اپنی کتاب ''مؤلف'' میں لکھا ہے کہ ابوبجید نافع بن اسود نے عراق کی سرزمینوں کی فتح میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں اس نے چند اشعار بھی کہے ہیں ، من جملہ

وہ کہتا ہے:

اگر پوچھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میرا خاندان ''اسید ''ہے اور میری اصل ، افتخارات کا منبع و سرچشمہ ہے

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

...اور سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں

۹۰

ہم اس بات کونہیں بھولے ہیں کہ سیف کی نظر میں قبیلۂ ''اسید'' جو افتخارات کا منبع اور شرافت کا معدن ہے ، حقیقیت میں وہی سیف کا خاندان یعنی قبیلۂ تمیم ہے۔

جو کچھ بیان ہوا ، اس کے پیش نظر ہم ، ادیب اور نامور عالم ''مرزبانی'' کویہ حق دیتے ہیں کہ وہ سیف کے افسانوی شاعر اور صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، نافع بن اسود کے لئے اپنی کتاب ''معجم الشعراء '' میں جگہ معین کرے اور اس کے وجود کو ایک مسلم حقیقت تصور کرے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالے اور سیف نے اس سے نسبت دیکر جو اشعار لکھے ہیں ان کو اپنی کتاب میں درج کرے۔

کتاب ''معجم الشعرائ'' تالیف مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ ) میں مؤلف کی حیات تک پانچ ہزار سے زائد عرب شعراء کی زندگی کے حالات درج ہیں ۔لیکن اس کتاب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہمیں دستیاب ہواہے اور اس کابڑا حصہ ،مؤلف کی وفات کو ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کی وجہ سے نیست ونابود ہوگیاہے۔اسی لئے اس میں نافع اور اس کے باپ ،اسود کے حالات نہیں پائے جاتے۔

لیکن ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے سیف کے ان دو جعلی اصحاب کے اشعار نقل کرکے ان دو افسانوی شاعروں کے بارے میں ہمارے لئے مذکورہ کتاب میں موجود کمی کی کسی حد تک تلافی کی ہے ۔اگر چہ مذکورہ کتاب کسی کمی کے بغیر بھی ہم تک پہنچ جاتی تو وہ ہمیں اس بارے میں کسی صورت سے مدد نہ کرتی ،کیونکہ ''مرزبانی'' نے اکثرو بیشتر شعراء کے حالات کی تشریح اور ان کے اشعار مآخذ اور سند کا ذکرکئے بغیر اپنی کتاب میں درج کئے ہیں ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ سیف کے تمام یا اکثر افسانوی شعراء اور ان کے اشعار حقیقی شعراء کے عنوان سے مرزبانی کی کتاب میں درج نہ ہوئے ہوں ؟!

ہم دوبارہ اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں اور نافع کے بارے میں ابن حجر کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ابن حجر نے مرزبانی کی کتاب ''معجم الشعرائ'' کا حوالہ دے کر نافع کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے:

۹۱

مرزبانی کہتاہے :ابو بجید نے جس نے دوران جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو درک کیا ہے عبد اللہ بن منذر حلاحل تمیمی کے سوگ میں چند دردناک اشعار کہے ہیں ۔

اس عبد اللہ نے ،خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور وہاں پر مارا گیاہے ۔اس (مرزبانی) نے عبد اللہ منذر کے سوگ میں نافع کے مرثیہ ''ماکان یعدل...'' کے مطلع سے درج کیاہے کہ میں (ابن حجر ) نے مذکورہ اشعار اسی عبداللہ منذر کی تشریح کے ذیل میں نقل کئے ہیں ۔

اس کے بعد ابن حجر اپنی کتاب ''اصابہ'' میں عبد اللہ منذر کی تشریح میں لکھتاہے :

''مرزبانی '' نے اپنی کتاب ''معجم الشعراء ''میں ذکر کیاہے کہ عبد اللہ منذر نے خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جگہ پر ماراگیا۔نافع بن اسود تمیمی ،جو خود اس جنگ میں موجود تھا ،نے عبد اللہ کے سوگ میں یہ اشعار کہے ہیں :

جاؤ ،خدا تمھیں ایسے جواں مرد سے دور نہ رکھے جو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ،بذل وبخشش کرنے والا اور انجمنوں اور محفلوں والا انسان تھا !

تمام لوگوں میں اس جیسا مردنہ تھا اور جدوجہد اور بذل وبخشش میں اس کا کوئی مانند نہ تھا۔

تم (عبد اللہ )چلے گئے اور خاندان عمرو اور قبیلہ تمیم کے دوسرے خاندانوں کو تنہا چھوڑ گئے تا کہ وہ نیازمندی اور بیچارگی کے وقت فخر کے ساتھ تمھارا نام زبان پر لائیں ۔

اس شعر میں سیف کے قبیلہ تمیم کے بارے میں خاص کر اس کے اپنے خاندان بنی عمرو کے بارے میں افتخارات کا اظہار واضح طور سے مشہود ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے نقل کرکے نافع بن اسود کے حالات کی تشریح میں مندرجہ ذیل دوشعر اور درج کئے ہیں :

جنگی غنائم کی کتنی بڑی مقدار ہمارے ہاتھ آئی جب کہ ہم بلند قامت گھوڑوں پر سوار تھے۔

۹۲

کتنے بہادروں کو ہم نے تلوار کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتاردیا اور لاش خور ، ان کی لاشوں پر اچھل کود کررہے تھے۔

''ابن حجر''،''مرزبانی'' کی تحریر اور اس کی کتاب میں درج کئے گئے اشعار پر اعتماد کرتے ہوئے عبد اللہ منذر حلاحل کو اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیتاہے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتاہے ،جبکہ کسی بھی دوسرے تاریخی مآخذ اور عربوں کے شجرہ نسب میں اس کا نام کہیں ذکر نہیں ہواہے ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ یہ عبد اللہ بھی سیف کے دوسرے افسانوی سورماؤں کی طرح اس کاجعل کردہ اور خیالی کردار نہ ہو؟

ہم نافع کے بارے میں گفتگو کا خاتمہ ابن عساکر کی اس بات سے کرتے ہیں جہاں وہ اپنی بات کے آغاز پر نافع کے بارے میں لکھتاہے :

اس شاعر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کازمانہ درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور

۹۳

پہنچاہے :

ہمیں ابن عساکر کی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی ،صرف نافع کے اشعار کے پانچویں بند میں آیاہے :

صدر اسلام میں ایسے پیشرو تھے،جو اپنی مہاجرت میں عظمت وافتخار سے سربلند ہوکر مھاجرین کے مقام تک پہنچاہے۔

ابن عساکر کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ نافع نے خلیفہ عمر سے حدیث نقل کی ہے ۔

ہمیں اس سلسلے میں سیف کے جعلیات میں نافع کی زبانی عمر کی حدیث نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

روایت کی تحقیق

نصر بن مزاحم ،ابن ماکولا ،ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء ودانشور ،نافع کے بارے میں اپنی بات کو بلاواسطہ سیف سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں سیف کے کسی راوی یا راویوں کا نام نہیں لیتے اور صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ :

''سیف کہتاہے ....'' اور ان علماء نے دار قطنی سے نقل کرتے ہوئے بھی اس روش کی رعایت کی ہے۔

لیکن ابن عساکر جہاں پر فتح دمشق کے بارے میں نافع کے اشعار کو اپنی کتاب میں سیف سے نقل کرتاہے وہاں سیف کے راویوں کانام اس صورت میں لیتاہے ۔

سیف نے ''ابو عثمان '' سے اور اس نے ''خالد'' و''عبادہ'' سے یوں نقل کیاہے

اور اس طرح حدیث کے راویوں کاذکر کرتاہے ۔

ان راویوں کی تحقیق کے سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ابو عثمان کا سیف نے ذکر کیا ہے ، در حقیقت یہ '' یزید بن غسان '' کے لئے سیف کی جعل کردہ کنیت ہے ۔ہم نے سیف کے اسناد کی تحقیق کے دوران اسی کتاب کی پہلی جلد میں اس نام کے سلسلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا حقیقت میں ہر گز کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ '' خالد '' اور ''عبادہ'' دونوں مجہول الھویہ ہیں ۔

۹۴

تاریخ طبری میں نافع کے بارے میں سیف سے دو روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں چند راویوں کا نام لیا گیا ہے کہ یہ نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں حقیقت میں سیف ان کا نام لے کر دوسرے موارد کی طرح یہاں پر بھی اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے ان حدیثوں کو حقیقی راویوں سے منسوب کرتا ہے ۔اور ہم بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سیف کی دروغ بافی کے گناہ کو ان راویوں کی گردن پر نہ ڈالیں ،خاص کر جب کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جو ان راویوں پر اس قسم کی تہمتیں لگاتاہے۔

بحث کا خلاصہ

قطبہ بن مالک تمیمی عمر ی کا پوتا ابو بجید نافع بن اسود ایک افسانوی صحابی ہے جسے سیف نے ایک قوی اور مشہور شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔

اسے یمامہ کی جنگ میں خالد بن ولید کے ساتھ دکھایا ہے '' عبد اللہ حلاحلی تمیمی '' کے سوگوار کی حیثیت سے پیش کیا ہے دمشق اور بصری کی فتوحات میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور ان تمام واقعات کے بارے میں اس کی زبان سے اشعار ذکر کئے ہیں ۔

اس نے قادسیہ اور مدائن کی جنگیں دیکھی ہیں اور ان سے ہر ایک کے لئے دلفریب رزمیہ اشعار لکھے ہیں ۔

رومیوں کے ساتھ جنگ کے بارے میں ایک شعلہ بار قصیدہ اور '' جلولا'' و ''رے '' کی جنگوں کے بارے میں رزمیہ اشعار بھی اس کے نام درج ہیں ۔

سیف کی روایتوں کے مطابق گرگان ،گیلان اور برجان کی جنگوں کے بارے میں بھی اس نے زیبا اشعار کہے ہیں اور اپنے قبیلہ تمیم کے بارے میں دلاوریوں اور افتخارات کے قصیدہ لکھے ہیں ؛

۹۵

نافع کے افسانہ کا سر چشمہ

ان تمام افسانوں کا سر چشمہ سیف کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے لیکن ان افسانوں کی اشاعت اور پھیلائو میں درج ذیل دانشوروں اور علماء نے اپنی اپنی نوبت کے مطابق ابو بجید نافع بن اسود کی داستان کو بلا واسطہ یا با واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

١)۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ھ )

٢)۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ )

٣)۔ ابن ماکولا ( وفات ٤٧٥ھ )

ان تینوں علماء نے صراحت سے کہا ہے کہ نافع کی داستان انھوں نے سیف سے نقل کی ہے

٤)۔ ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ) اس نے اپنے مطالب کو سیف اور ابن ماکولا سے نقل کیا ہے

٥)۔ طبری ( وفات ٣١٠ھ ) اس نے سیف سے مطالب نقل کرکے ان کے اسناد کا بھی ذکر کیا ہے.

٦)۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ )

٧)۔ ابن کثیر (وفات ٧٧٤ھ)

٨)۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ)

ان تین دانشوروں نے بھی نافع کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

٩)۔ مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ)

١٠)۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ)

١١)۔ حمیری (وفات ٩٢٠ھ)

نافع کے بارے میں جن مطالب کو با واسطہ یا بلا واسطہ مذکورہ بالا دانشوروں نے نقل کیا ہے مؤخرالذکر تین علماء نے بھی اپنی روایت کے مآخذ کی طرف اشارہ کئے بغیر ان ہی مطالب کو اپنی کتابوں میں نقل اور درج کیا ہے ۔

۹۶

نافع کے بارے میں سیف کے افسانوں کے نتائج

سیف نے مالک تمیمی کے پوتے بو بجید نافع بن اسود کو اپنے خیال میں خاندان بنی عمرو تمیم سے خلق کیا ہے ،اسے ایک شریف ،شاعر اور ایک صحابی کی حیثیت سے ذکر کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہا ت اور سربلندی کا سبب قرار دیا ہے ۔

اسے بالکل اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے وفادار اور ثابت قدم صحابیوں میں شمار کیا ہے ۔ جیسے اس سے پہلے اس کے قبیلے کے بھائی قعقاع بن عمرو کو وقت کے نامور سورما اور دلاور کے طور پر خلق کرکے حضرت علی علیہ السلام کے دوستدارکی حیثیت سے ذکر کیا تھا ۔چوں کہ ہم نے حدیث اور رجال کی کتابوں کے علاوہ دیگر مأخذ میں کافی جستجو اور تحقیق کے باوجود ان افسانوی باپ بیٹے کا سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نام و نشاں نہیں پایا ۔ اس لئے ان کو سیف کے جعلی اور افسانوی اشخاص میں شمار کرتے ہیں ۔

سیف جو اپنے قبیلے اور خاندان کے افتخارات کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں کرتا ،اپنے افسانوی شاعر کے ذریعہ اپنے قبیلہ تمیم بالاخص خاندان ''اسید'' وبنی عمرو کے بارے میں ستائشوں کے دلخواہ قصیدے لکھواکر ان کو سر بلندی اور شہرت بخشتاہے اور نافع کے باپ ''اسود بن قطبہ'' کی زبان پر جاری کرائے گئے اشعار میں بھی انہی مقاصد کی پیروی کرتاہے ۔

غور کیجئے کہ ،وہ کس طرح اپنے خاندان کے حق میں داد سخن دیتے ہوئے خود ستائی کرتاہے ، ملاحظہ ہو:

حجاز کے تمام منصفوں نے اس کی گواہی دی اور اعتراف کیا ہے کہ خاندان تمیم دنیا کے عظیم بادشاہوں کے برابر ہے!

یہ تلاش کوششیں ،خاندان تمیم کی سخاوت وبخشش کا نتیجہ ہے نہ کہ سست اور کمزور اشخاص کا۔

خدائے تعالیٰ نے ایسا ارادہ کیاہے کہ صرف قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے افراد دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرکے انھیں دور کریں ۔

۹۷

قبائل تمیم کے تمام افراد بخوبی جانتے ہیں کہ میدان جنگ میں حاضری اور غنائم کو حاصل کرنے میں قیادت وسرپرستی کی باگ ڈور قدیم زمانے سے قبیلہ اسید کے خاندان بنی عمرو ہی کے ہاتھوں میں تھی۔

یہ اور ان سے کہیں زیادہ اشعار کو سیف نے ان دو شاعر باپ بیٹوں کی زبان پر جاری کیاہے ۔اور ان کے ذریعہ قبیلہ تمیم اور اسید کے خاندان بنی عمرو کی اسی طرح ستائش کی ہے جیسے اس سے پہلے اس نے خاندان تمیم کے اپنے دو بے مثال افسانوی سورما،''قعقاع''و''عاصم'' کی جنگوں میں ان کی تعجب خیز شجاعتوں اور دلاوریوں کو دکھاکر مالک تمیمی کے خاندان کو قبیلہ تمیم کے تمام افتخارات کا سرچشمہ ثابت کیاتھا اسے اپنے قبیلے کا چمکتا ستارہ بناکر پیش کیاتھا۔

اس قابل فخر خاندان تمیم کے افراد کا جس طرح سیف نے تصورکیا ہے ،اس کا اندازہ اس کے مندرجہ ذیل شجرہ نسب کے خاکہ سے کیا جاسکتاہے :

مالک تمیمی

عمرو

قطبہ

قعقاع

عاصم

اسود

اعور

عمرو

نافع

۹۸

سیف نے اپنے اسی خیالی خاندان میں چار اصحاب وجنگی سردار ،دو تابعین،چھ رزمیہ شعراء اور احادیث کے راوی جعل کئے ہیں ۔

اس قبیلہ کے لئے سیف کے جعل کئے گئے مذکورہ فخرومباہات کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے چند منہ بولے بیٹے بھی خلق کرکے اس خاندان کے افتخارات میں چارچاند لگائے ہیں کہ انشاء اللہ ہم اس موضوع پر الگ سے بحث وتحقیق کریں گے۔

قارئین محترم سے گذارش ہے کہ تاریخ ،حدیث ،انساب ،ادبیات،طبقات صحابی،شعرائ، رجال اوراخبار واحادیث کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کیا سیف کی احادیث اور اس کے افسانوں کے علاوہ بھی کہیں اس افسانوی خاندان کا نام ونشان ملتاہے ؟!

۹۹

چوتھا حصہ : قبیلہ تمیم کے چند اصحاب

* ٦۔عفیف بن منذر تمیمی

* ٧۔زیاد بن حنظلہ تمیمی

* ٨۔حرملہ بن مریطہ تمیمی

* ٩۔حرملہ بن سلمی تمیمی

* ١٠۔ربیع بن مطر بن ثلج تمیمی

* ١١۔ربعی بن افکل تمیمی

* ١٢۔اط بن ابی اط تمیمی

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

ایک اور حدیث اس نے مقدام ابن ابی مقدام اور اس نے اپنے باپ سے اور اس نے کرب ابن ابی کرب کے ذریعہ روایت کی ہے ۔علمائے رجال نے شیوخ مقدام کے ضمن میں ان کے باپ اور کرب کا کوئی نام نہیں لیا ہے ۔یعنی کسی روایت میں مقدام نے اپنے باپ یا کرب سے کوئی حدیث نقل نہیں کی ہے ١٣ اور یہ تنہا سیف ہے جس نے اپنی حدیث کے لئے ایسی سندجعل کی ہے اس کے علاوہ سیف بن عمر نے اپنے راویوں کے طور پر بعض دیگر نام لئے ہیں کہ سیف کے سابقہ ریکارڈ کے پیش نظر ہم نہیں چاہتے کہ سیف کے جھوٹ اور افسانوی گناہ ایسے اشخاص کے کندھوں پر ڈالیں ۔

جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ سیف تنہا شخص ہے جس نے ایسی احادیث ان راویوں کی زبانی نقل کی ہیں ۔بے شک سیف ایک جھوٹا اور افسانہ نگار شخص ہے ۔

جن لوگوں نے عاصم کے افسانہ کو سیف سے نقل کیا ہے

ہم نے قعقاع کے افسانہ کو سیف ابن عمر تمیمی کی تقریبا ستّر روایات میں اور اس کے بھائی عاصم کے افسانہ کو سیف کی چالیس سے زاید روایات میں بیان کیا ہے ۔

طبری نے ان دو بھائیوں کے بارے میں احادیث کے ایک بڑے حصے کو سیف سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور اس کے بعد والے مورخین جیسے : ابن اثیر ،ابن کثیر ،ابن خلدون ،ابو الفرج نے اغانی میں اور ابن عبدون نے شرح القصیدہ میں ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کیاہے ۔اس کے علاوہ '' اسد الغابہ'' ''استیعاب'' ''التجرید '' اور '' الاصابہ'' جیسی کتاب کے مولفین نے بھی ان مطالب کو براہ راست سیف یا طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ابن عساکر ،حموی اور حمیری نے ''الجرح والتعدیل '' میں تمام مطالب بلا واسطہ سیف سے نقل کئے ہیں ۔

مذکورہ اور دسیوں دیگر مصادر نے خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو افسانوی سورما قعقاع اور عاصم کے بارے میں ان مطالب کو بالواسطہ یا بلاواسطہ سیف ابن عمر تمیمی سے لیا ہے ۔

۳۴۱

سیف کی احادیث سے استناد نہ کرنے والے مورخین

مذکورہ مصادر کے مقابلہ میں ایسے مصادر بھی پائے جاتے ہیں ،جنھوں نے فتوحات اور ارتدادکی جنگوں کے بارے میں وضاحت کی ہے یا اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سوانح لکھی ہیں ،لیکن سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا ہے اور سیف کے ان دو جعلی اور افسانوی بھائیوں ،قعقاع اور عاصم کا نام و نشان تک ان کی تحریروں میں نہیں پایا جاتا ۔یہ مصادر حسب ذیل ہیں :

طبقات ابن سعد میں (جس حصہ میں کوفہ جانے والے اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بعد جو تابعین کوفہ میں ساکن ہوئے ہیں ،کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے )نہ ا ن دو تمیمی بھائیوں کا کہیں نام ملتاہے اور نہ عمرو ابن عاصم کو تابعین میں شمار کیا گیا ہے اور نہ اس کتاب کے دیگر حصوں میں ان کا کوئی ذکر ہے ۔

اس کے علاوہ بلاذری کی کتاب ''فتوح البلدان ''اور شیخ مفید کی کتاب ''جمل ''میں بھی سیف کے جعل کردہ ان دو تمیمی بھائیوں کا کسی صورت میں کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

دوسری جانب طبری اور ابن عساکر نے باوجود اس کے کہ ''فتوح ''اور ''ارتداد''کے سلسلہ میں ان دو افسانوی بھائیوں کے بارے میں بہت سارے مطالب سیف بن عمر تمیمی سے نقل کئے ہیں ، لیکن حسب ذیل راویوں :

١۔ابن شہاب زہری وفات ١٢٤ ھ

٢ ۔موسی بن عقبہ وفات ١٤١ ھ

٣۔محمد بن اسحاق وفات ١٥٢ ھ

٤۔ابو مخنف لوط بن یحییٰ وفات ١٥٧ ھ

٥۔محمد بن سائب کلبی وفات ١٤٦ ھ

٦۔ھشام بن محمد بن سائب وفات ٢٠٦ ھ

٧۔محمد بن عمر الواقدی وفات ٢٠٧ ھ

اور

۳۴۲

٨۔زبیر بن بکار وفات ٢٥٧ ھ

نیزان کے علاوہ دسیوں دیگر راویوں سے بھی مطالب نقل کرکے اپنی کتابوں میں ثبت کئے ہیں ۔ ان احادیث میں سے کسی ایک میں بھی ان دوتمیمی افسانوی سور مائو ں ،قعقاع اور عاصم کے نام نہیں پائے جاتے ۔

ابن عساکر نے بھی اپنی تاریخ کے پہلے حصہ میں خالد بن ولید کے یمامہ سے عراق اور عراق سے شام اور فتوح شام کی طرف عزیمت کے بارے میں ساٹھ روایات میں مذکورہ بالا راویوں سے نقل کیا ہے اور انھوں نے بھی ان ہی واقعات کو نقل کیا ہے ،جس کی تشریح سیف نے کی ہے ۔لیکن ان دو افسانوی تمیمی سور مائوں کا کسی ایک حدیث میں ذکر نہیں پایا جاتا اور ان کی شجاعتوں اور حیرت انگیز کارناموں کا کہیں اشارہ تک نہیں ملتا ۔

طبری نے بھی فتوح اور ارتداد کی جنگوں میں ١٣ ھسے ٣٢ ھکے حوادث اور واقعات کے ضمن میں پچاس سے زیادہ روایات مذکورہ طریقہ سے ان ہی راویوں سے بیان کی ہیں جن کے بارے میں اوپر اشارہ ہوا ۔اس کے علاوہ خلافت عثمان کے زمانے کے حوادث و واقعات کو بھی پچاس سے زیادہ روایات اور جنگ جمل کے بارے میں انتالیس روایات مذکورہ راویوں سے نقل کی ہیں اور ان ہی حوادث و واقعات کی تشریح کی ہے جن کی سیف نے وضاحت کرتے ہوئے خاندان تمیم کے دو افسانوی بہادر بھائیوں کا ذکر کیا ہے ،لیکن ان میں سے ایک روایت میں بھی ان دو بھائیوں کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ،ان کے حیرت انگیز کارناموں کا تذکرہ تو دور کی بات ہے ۔

اس کے علاوہ کتاب انساب میں بھی ان دو تمیمی بھائیوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا اور اس کتاب میں سیف ابن عمرتمیمی زندیق ،جھوٹے اور افسانہ ساز کی باتوں کو کسی قدر و منزلت کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھا گیا ہے ۔

یہ تھے سیف کے خیالی اور جعلی صحابیوں کے دو نمونے جنھیں اس نے اپنی خیالی قدرت سے خلق کرکے اپنے خاندان تمیم کے سور مائوں کے عنوان سے پہچنوایا ہے ۔انشاء اللہ ہم اس کے دیگر جعلی اصحاب کے بارے میں اس کتاب کی اگلی جلدوں میں بحث و تحقیق کریں گے ۔

واللّٰه ولی التوفیق

۳۴۳

فہرستیں :

٭ کتاب کے اسناد

٭ اس کتاب میں مذکور شخصیتوں کے نام

٭ اس کتاب میں مذکور قبیلوں کے نام

٭ اس کتاب میں مذکور مقامات کے نام

٭ اس کتاب میں ذکر شدہ سیف کے افسانوی دنوں کے نام

۳۴۴

کتاب کے اسناد

مباحث کے حوالے :

١۔ ''عبد اللہ بن سبا'' ،''سیف بن عمر'' کے حالات سے مربوط فصل۔

٢۔''تاریخ طبری'' ،طبع یورپ ٢٦٨١١ وطبع مصر ٢٦٣٤

زندیق وزندیقان :

١۔ ''مروج الذہب'' حاشیہ ''ابن اثیر'' میں ٨٤٢و ١١٦ عبارتوں میں تغیر کے ساتھ۔

٢۔ Browne, vo ٭ ,۱,P,۱۶۰

٣۔''دائرة المعارف الاسلامیة'' انگریزی ١ ٤٤٥

٤۔ ''الطبری'' طبع یورپ ٣ ٥٨٨ موسیٰ عباسی کے زمانے کے حوادث میں اور '' ابن اثیر ''میں ۔

٥۔ ''الطبری'' ،طبع یورپ ٣ ٥٤٩۔٥٥١اور طبع مصر ١٤١٠ ١٦٩ھ کے حوادث میں اور ''ابن اثیر'' ٢٩٦۔

٦۔ ''الطبری'' ،طبع یورپ ٤٩٩٣

٧۔ ''الطبری'' طبع یورپ ٣ ٥٢٢

٨۔''مروج الذہب'' ،''ابن اثیر'' کے حاشیہ میں ٧٩۔٩ مأمون کے مختصر حالات کے بیان میں ۔

مانی اور اس کا دین :

٩۔ ''مانی و دین او'' ٥و٦

١٠۔''الفہرست'' ٤٥٨ اور ''مانی ودین او '' ٧و ٢٩۔٣٧۔

۳۴۵

مانی کا دین

١١۔ ''مانی ودین او'' عبد الکریم شہرستانی سے منقول مانیوں کے ایک سردار ابن سعید کے بقول

١٢۔'' الفہرست'' ٤٥٦۔٤٦٤ اور '' مانی ودین او'' ٢٧۔٥٤۔

انبیاء کے بارے میں مانی کانظریہ :

١٣۔ '' الفہرست'' ٤٥٧ اور '' مانی ودین او'' ٥٧و ٥٨

١٤۔'' مانی ودین او'' ٢٢۔

مانی کی شریعت:

١٥۔'' الفہرست'' ٤٦٥ و٤٦٦ اور '' مانی ودین او'' ٤٩۔٥٤

مانی اور اس کے دین کاخاتمہ:

١٦ ۔'' مانی ودین او''١۔١٦و٥٨

١٧۔'' مانی ودین او'' ١٨۔٢٠

١٨۔'' الفہرست'' ٤٧٢،'' الاغانی ''١٣١٦،'' ابن اثیر ''طبع یورپ ٣٢٩٥

١٩۔'' الفہرست''٤٧٢

مانیوں کی سرگرمیاں :

٢٠۔'' الفہرست'' ٤٧١۔٤٧٤اور '' مروج الذہب''زمانہ قاہر عباسی کے حوادث کے بیان میں ۔

۳۴۶

عبد اللہ بن مقفّع:

٢١۔'' ابن خلکان'' ٤١٣١

عبد الکریم ابن ابی العوجائ:

٢٢۔ '' طبری'' اور '' ابن اثیر'' میں ١٥٥ھ کے حوادث کے ضمن میں آیاہے وہ کہ معن بن زائدہ کا ماموں تھا۔صاحب '' لسان المیزان '' نے اس کے حالات کے بارے میں ٥٢٤ اور صالح کی شرح حالات میں ١٧٣٣ میں لکھاہے کہ وہ پہلے بصرہ میں زندگی بسر کرتاتھا۔

٢٣۔ '' بحار الانوار '' ١١٢ '' احتجاج'' سے نقل کرتے ہوئے کہ یہاں پر مختصر بیان ہواہے ۔

٢٤۔ '' بحار الانوار'' ٣ ١٩٩ اور ١٤١٤۔

٢٥۔ '' بحار الانوار'' ١٤٢۔١٥ ایک مفصل روایت نقل کی گئی ہے کہ اس میں '' عالم '' سے مقصود حضرت امام صادق ـ ہیں ۔

٢٦۔'' بحار الانوار ''١٣٧١١

٢٧۔'' بحار الانوار ''١٨٤ توحید کے موضوع پر ایک مفصل حدیث ہے جسے حضرت امام صادق ـ نے تین دن کے اندر مفضل بن عمر کو املاء فرمایاہے۔

٢٨۔'' لسان المیزان''٥٢٤۔

٢٩۔'' طبری ''طبع یورپ ٣٧٦٣،'' ابن اثیر''٣٦،'' ابن کثیر''١١٣١٠، '' میزان الاعتدال''ذہبی طبع دار الکتب العربیہ تحقیق علی محمد البجادی ٦٤٤٢،'' لسان المیزان ''نے اسی کے حالات تفصیل سے ذکر کئے ہیں ۔

۳۴۷

مطیع بن ایاس:

٣٠۔'' اغانی'' ٩٩١٢

٣١۔'' اغانی'' ٨٦١٢

٣٢۔'' اغانی'' ٨١١٢

٣٣۔'' اغانی'' ٨١١٢

٣٤۔'' اغانی'' ٩٩١٢۔١٠١

٣٥۔'' اغانی'' ٩٤١٢

٣٦۔'' اغانی'' ١٠٠١٢

٣٧۔'' اغانی'' ٩٦١٢

٣٨۔'' اغانی'' ٨٦١٢

٣٩۔'' اغانی'' ٨٧١٢ و ''الدیارات''شابشتی ١٦٠۔١٦٢

٤٠۔'' اغانی'' ٨٧١٢

٤١۔'' اغانی'' ١٠٥١٢

٤٢۔'' اغانی'' ٨٥١٢

٤٣۔''تاریخ بغداد'' خطیب ٢٢٥١٣

٤٤۔''اغانی'' ٩٦١٢

٤٥۔''اغانی' ٩٨١٢

٤٦۔''الفہرست'' ٤٦٧و٤٦٨

٤٧۔فصل شریعت مانی۔اسی کتاب میں

٤٨۔''اغانی'' ٨٥١٢

٤٩۔''تہذیب''ابن عساکر ١١٢۔١٢ اور ''الموضوعات'' ابن جوزی ٣٨١

۳۴۸

نزاریوں اور یمانیوں کے درمیان خاندانی تعصبات :

١۔ ''طبری '' ١٥٢٦١،''اغالی'' ١٢٤، از زہری و ۔ل۔م (بیض)

٢۔'' امتاع الاسماع'' مقریزی ٢١٠۔٢١٢ ،اوردیوان حسان

٣۔''طبری ''سقیفہ کی داستان میں ١٨٣٨١و ١٩٤٩

٤۔کتاب '' سقیفہ '' کا قلمی نسخہ از مولف جس میں اس واقعہ کے مفصل اسناد پیش کئے گئے ہیں

٥۔ '' التنبیہ والاشراف '' مسعودی طبع ١٣٥٧ھ،دارالصاوی مصر ٩٤۔٩٥

٦۔ مذکورہ سند ٢٨٠۔٢٨١

٧۔ '' طبری '' ١٧٨١٢قصیدہ کے الفاظ میں تھوڑے فرق کے ساتھ ،مسعوی سے منقول ''ابن اثیر '' ١٠٤٥

٨۔'' مروج الذہب '' ''ابن اثیر'' کے حاشیہ میں ١٨٠٧و١٨١

نزاریوں کی حمایت میں سیف کا تعصب:

٩۔ قعقاع ،ابی بجید و ابی مفز ز،سیف کے افسانوں کے سورمائوں کی روئیداد اسی کتا ب کی اگلی فصلوں میں

١٠۔ '' طبری '' طبع یورپ ٣٢٦٤١۔ ٣٢٦٥ اور طبع مصر ١٤٤٤،داستان جنگ قادسیہ ١٤ھ میں '' ابن کثیر '' ٤٧٧

١١۔'' عبداللہ ابن سبا '' طبع دارالکتب بیروت ٧٧ ( سقیفہ کے بارے میں سیف کی ساتویں حدیث )اور ١٢٤ ( خالد بن سعید اموی کے بارے میں )

١٢۔ابو موسیٰ کی معزولی کے بارے میں سیف کی روایت کا ''طبری '' ٢٨٩٩١ اور اسی کتاب میں دوسروں کی روایت سے ٢٨٢٨١۔٢٨٣١ میں اور '' استیعاب'' میں شبل کے حالات میں موازنہ کیا جا سکتا ہے ۔

۳۴۹

سیف سے روایت نقل کرنے والی کتابیں :

١۔ روئیداد '' عبید بن صخر بن لوذان'' اسی کتاب '' ١٥٠جعلی اصحاب '' کے طبع اول میں

٢۔'' اسد الغابہ '' ۔'' الاصابہ'' اور سیوطی کی ''اللئالی المصنوعہ''کے باب مناقب سائر الصحابہ ٤٢٧۔٤٢٨ ،میں عاصم کے بیٹے قریمہ و عدس کی روئیداد۔

٣۔'' عبیدبن صخر '' کی روئیداد ،اسی کتاب کی پہلی طبع میں اور ''الاصابة '' میں قعقاع کے حالات کی وضاحت ۔

٤۔''اسد الغابہ''اور ''الاصابہ '' میں ''منجاب بن راشد'' اور کبیس بن ہوذہ'' کے حالات

٥۔'' الاصابہ ''میں '' کبیس بن ہوذہ'' کے حالات

٦۔ ''اسد الغابہ'' میں '' کبیس بن ہوذہ ''کے حالات۔

٧۔ ''قعقاع '' کے حالات اسی کتاب '' جعلی اصحاب'' میں ۔

٨۔ اسی کتاب میں '' عبید بن صخر بن لوذان'' کے حالات ۔

٩۔ '' الاصابہ '' اور اسی کتاب میں ''اط''اور ''عبد بن فدکی'' کے حالات زندگی ۔

١٠۔'' اسد الغابہ'' میں ''حارث بن حکیم ضبی'' اور ''عبد اللہ بن حکیم '' کے حالات۔

١١۔'' اسد الغابہ'' اور اسی کتاب میں '' قعقاع '' کے حالات۔

١٢۔''التجرید ''میں ''قعقاع''اور'' عبد اللہ بن عبد اللہ بن عتبان''کے حالات۔

١٣۔اسی کتاب کی (١٥٠ جعلی اصحا۲) تمام داستانیں ۔

١٤۔''اسد الغابہ ''اور ''الاصابہ'' میں ''عبد اللہ بن المعتم ''کی داستان۔

١٥۔''اسد الغابہ ''اور ''الاصابہ'' میں ''عبد اللہ بن عتبان ''کے حالات۔

١٦۔کتاب ''تاریخ جرجان''٤۔٢٧٨ فاتحین شہر گرگان کے باب میں ۔

١٧۔ابو نعیم کی ''تاریخ اصبہان'' اصفہان جانے والے اصحاب کی روئیداد کی فصل میں ۔

١٨۔''تاریخ بغداد''''عتبہ بن غزوان''کے حالات ١٥٥١ اور بشیر بن الخصاصیہ کے حالات ١٩٥١۔

١٩۔'' تاریخ دمشق''کتب خانہ ظاہریہ دمشق میں موجود قلمی نسخہ میں '' قعقاع''کی روئیداد۔

۳۵۰

٢٠۔'' التہذیب''میں '' قعقاع''کے حالات ۔

٢١۔'' الاصابہ''اور اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحا۲) میں '' نافع الاسود''اور '' عبداللہ بن المنذر''کے حالات۔

٢٢۔'' الاصابہ''اور اسی کتاب کا آخری شخص '' عبد اللہ بن صفوان''اور '' اسود بن قطبہ''کی زندگی کے حالات۔

٢٣۔اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحا۲)طبع اول میں '' خزیمہ غیر ذی الشہادتین''کی روئیداد

٢٤۔دارالکتب مصر میں موجود '' الاکمال''کے قلمی نسخہ ج١،ورق ١١١(۲) ٤٠(۲) '' جاریہ ابن عبد اللہ ''اور'' ابی بجید''کے حالات۔

٢٥۔'' الاصابہ ''میں '' حزیمة بن عاصم''کے حالات اور اسی کتاب میں '' عمرو بن الخفاجی '' کی روئیداد۔

٢٦۔'' اسد الغابہ''میں '' عدس بن عاصم ''کے حالات ۔

٢٧۔'' جمہرة انساب العرب''١٩٩ اور اسی کتاب میں '' حارث بن ابی ھالہ ''کی زندگی کے حالات۔

٢٨اور ٣٠۔'' الانساب''میں '' الاقفانی ''کی زندگی کے حالات اور اسی کتاب میں '' حرملہ '' کے حالات۔

٢٩۔ابن قدامہ مقدسی کی '' الاستبصار''٣٣٨۔

٣١۔'' الجرح والتعدیل''طبع حیدر آباد ١٣٧١ھ میں '' قعقاع''اور '' زبیر بن ابی ھالہ''کے حالات ۔

٣٢۔'' میزان الاعتدال''میں '' عمرو بن ریان ''٢٦٠٣ اور '' مبشر بن فضیل ''٤٣٤٣ کے حالات۔

٣٣۔'' لسان المیزان ''میں ١٢٢٣ '' سہل بن یوسف''،'' عمرو بن ریان''٣٤٦٤ اور '' مبشر بن فضیل''١٣٥ کے حالات۔

٣٤۔ابن فقیہ کی کتاب '' مختصر البلدان''١٣٩۔

٣٥۔٣٦۔٣٧۔کتاب '' عبد اللہ بن سبا''فصل '' شہر ہای جعلی سیف''۔

٣٨۔اسی کتاب (١٥٠جعلی اصحا۲)میں '' 'عاصم 'اور'' قعقاع''کے حالات ۔

٣٩و٤١۔اسی کتاب کے مقدماتی بحثوں کی ابتدائی بحث۔

٤٠۔'' نضربن مزاحم ''کی کتاب '' صفین ''٥۔٦۔٩۔١٠۔٥٣٣.

٤٢۔کتاب'' عبد اللہ بن سبا''فصل'' افسانہ سبا کی پیدائش کی بنیاد ''۔

٤٣۔'' ابن خیاط''کی '' تاریخ خلیفہ''طبع اول نجف١٣٨٦ھ ١٠٧۔١٠٨.

۳۵۱

٤٤۔'' فتوح البلدان ''طبع ١٩٥٨ھ دارالنشر للجامعین بیروت ٣٥٤و٤٣١

٤٥۔٤٩۔(اسی فہرست کا) مأخذ نمبر ٤٢۔

٥٠۔سیوطی کی '' تاریخ الخلفائ''٩٧۔

٥١۔٥٢۔٥٤۔٥٦۔٦٠۔٦١۔اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحاب )کی فصل '' لیلة الھریر''میں '' قعقاع ''کی سوانح ۔

٥٣۔٦٣۔اسی کتاب میں '' زبیر بن ابی ہالہ''کی زندگی کے حالات۔

٥٥۔اسی کتاب کی فصل '' یوم الجراثیم ''میں '' عاصم ''کے حالات۔

٥٧۔'' الخاقانی''کی تحقیق '' نہایة الارب''طبع بغداد ١٣٧٨ھ ٤٢٥۔

٥٨۔'' اغانی''٥٥١٥و٥٦۔

٥٩۔ابن بدرون کی '' شرح قصیدہ ''طبع سعادہ ،قاہرہ ١٣٤٠ھ ١٤٢و١٤٤۔

٦٢۔'' ترمذی ''طبع دار الصاوی،مصر ١٣٥٢ھ ٢٤٥١٣ اور '' ذہبی''کی '' میزان الاعتدال '' ٢ ٢٥٦میں '' سیف''کے حالات ۔

٦٤۔ابن'' حجر''کی '' فتح الباری''٥٨٨۔

٦٥۔'' کنزالعمال''٣٢٣١١اور ٦٩١٥و٢٣٣۔

٦٦۔'' عقیلی''میں '' عمروبن ریان''کے حالات۔

٦٧۔ابن '' جوزی''کی '' الموضوعات''۔

٦٨۔'' اللئالی المصنوعہ''باب '' مناقب سائر الصحابة''٤٢٧و ٤٢٨۔

۳۵۲

روایات سیف کی اشاعت کے اسباب:

١۔''عبد اللہ بن سبا''طبع بیروت ١٥٩۔١٦٣

٢۔'' ذہبی''کی '' النبلائ''١٩٢ اور '' طبقات ابن سعد''٣٦٢٤

٣۔'' عبد اللہ ابن سبا''طبع قاہرہ ١٥٢ فصل '' حوادث وواقعات کے سال میں تحریف''

٤۔'' طبری''٢٢٢٢١و٢٩٤٤و٣١٦٣ از عبد الرحمن بن ملجم

٥۔'' طبری''٢٧٠٢١

٦۔'' عبد اللہ ابن سبا''طبع بیروت ،فصل '' سیف کی زندگی کے حالات ''سیف کے بارے میں علماء کے نظریات

قعقاع بن عمرو

١۔ یہاں پرہم نے کتاب ''الاستیعاب'' طبع حیدر آباد ١٣٣٦ھ پر اعتماد کیاہے۔

٢۔'' ظاہریہ ''لائبریری دمشق کاقلمی نسخہ جس کی فوٹو کاپی ہمارے پاس موجود ہے۔

٣۔ استاد ابراہیم واعظ کی '' خریجو مدرسہ محمد''

٤۔مجلہ'' المسلمون ''شمارہ ٤و٥سال ہفتم اور محمود شیت خطاب کی '' قادة الفتوح''

اس کاشجرۂ نسب :

١۔ '' طبری ''طبع یورپ ١٩٢٠١ اس سند کے ساتھ :''عن سیف عن الصعب بن عطیہ بن بلال عن ابیہ''

٢۔'' طبری ''٣١٥٦١و٣١٥٨تا ٣١٦٤ اس سند کے ساتھ '' عن سیف عن محمد وطلحہ باسنادھا''

٣۔'' طبری ''٢٤٣٧١ اس سند کے ساتھ:'' عن سیف عن ابی عمرو دثار عن ابی عثمان النھدی''

٤۔ '' طبری''٢٣٦٣١ اس سند کے ساتھ:'' عن سیف عن محمد والمھلب و الطلحہ قالوا''

۳۵۳

قعقاع رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی:

١۔ '' طبری''٣١٥٦١ اور '' تاریخ ابن عساکر ''سیف سے نقل '' قعقاع''کے حالات میں ۔

٢۔'' الاصابہ''٢٣٠٣ میں '' قعقاع''کے حالات کی تشریح ۔

قعقاع سے منقول ایک حدیث:

١۔ ابن حجر کی '' الاصابہ ''اور الرازی کی '' الجرح والتعدیل''١٣٦٢٣ میں '' قعقاع''کے حالات میں ۔

سند کی تحقیقات:

١۔سیف کی روایتیں '' صعب''سے'' تاریخ طبری''١٩٦٢١ میں ،'' سہم بن منجاب ''اور '' صعب''نیز اس کے باپ سے ١٩٠٨١و١٩٢١و٣١٩٥،اور ٣٢٠٦۔٣٢١٠میں چار روایتیں ہیں ۔اور ''اسد الغابہ ''١٣٨٣و ١٤٥و١٦٧ اور '' الاصابہ ''٣٠٦ میں آئی ہیں اور '' الاستیعاب''میں عبد اللہ بن حارث کے حالات میں اس کی سند بھی روایت ہوئی ہے اور محمد بن عبد اللہ سے سیف کی روایتیں '' طبری''٢٠٢٥١۔٣٢٥٥ میں ١٢ تا ٣٦ ھ کے حوادث کے ضمن میں ذکر ہوئی ہیں ۔اور '' مھلب بن عقبہ ''سے سیف کی روایتیں '' طبری ''٢٠٢٣١۔٢٧١٠ میں ٢ ١ ھ سے ٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں ذکر ہوئی ہیں ۔

ابوبکر کے زمانہ میں :

١۔ اس روایت کو '' طبری''طبع یورپ ١٨٩٩١ نے '' السری ''سے'' سیف ''سے '' سہل ''اور '' عبد اللہ ''سے نقل کیاہے اور ابوالفرج اصفہانی نے '' الاغانی ''٥٥١٥ طبع ساسی میں طبری سے روایت کرکے لکھاہے:روایت کی ہے ہم سے '' محمد بن جریر طبری''نے '' السری''سے اور اس نے '' شعیب ''سے اور اس نے '' سیف بن عمر''سے اور '' ابن حجر''نے اسے '' علقمہ ''کے حالات میں '' الاصابہ'' ٤٩٧٢ نمبر ٥٦٧٧میں بیان کرتے ہوئے لکھاہے: '' سیف نے فتوح میں یوں کہاہے''اور ابن '' اثیر''نے '' الکامل''١٣٣ میں اسے مختصر طور پر ذکر کیاہے۔

٢۔''ابوالفرج اصفہانی'' نے '' الاغانی '' ٥٥١٥میں '' عامر '' کے حالات میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہتا ہے : '' مدائنی '' نے اس طرح نقل کیا ہے ۔

۳۵۴

سند کی پڑتال:

١۔''طبری '' ١٨٤٤١ ۔٣١٢٠میں ''سہل ''سے ''سیف'' کی رواتیں ١١ھ سے ٣٦ھ تک کے حوادث کے ضمن میں نقل ہوئی ہیں اور تاریخ طبری ١٧٥٠١۔٣٠٩٥ میں عبداللہ سے نقل کی گئی سیف کی روایتیں سنہ ١٠،١١،١٣،١٦،١٧،٣٥،اور٣٧ہجری کے حوادث کے ضمن میں پراکندہ صورت میں پائی جاتی ہیں ۔

قعقاععراق کی جنگ میں :

١۔''طبری '' ٢٠١٦١ و ٢٠٢٠تا ٢٠٢٦ ، '' ابن اثیر '' ١٤٨٢۔ ١٤٩، '' ابن خلدون '' ٢٩٥٢ و٢٩٦ ،'' تاریخ الاسلام الکبیر '' ذہبی ٣٧٤١،اور '' ابن کثیر '' ٣٤٢٦

٢۔''طبری '' ٢٣٧٧١۔ ٢٣٨٩

سند کی پڑتال:

١۔ ''طبری '' ٢٠٢٤١و٢٠٧٦و٣١٥١،اور روایت عبدالرحمن ٢٠٢١١۔٢١١٠،اور حنظلہ ٢٠٢٥۔٢٠٢٦ ۔زیاد بن حنظلہ کی روئیداد بعد میں بیان ہوگی۔

قعقاعحیرہ کی جنگوں میں :

١۔''طبری '' ٢٠٢٦١۔ ٢٠٣٦،'' ابن اثیر '' ١٤٨٢۔١٤٩،ابن کثیر ٣٤٤٦۔٣٤٦، اور'' ابن خلدون'' ٢٩٧٢۔٢٩٨

٢۔''طبری '' ٢٠٤٦١۔٢٠٤٧

٣۔ بلاذری '' فتوح البلدان'' ٣٥٣و٤٧٨ میں ۔

٤۔بلاذری '' فتوح البلدان''٣٣٩و٣٤٢۔

٥۔'' ابن درید '' کی '' الاشتقاق'' اور '' ابن حزم '' کی '' الجمہرہ '' ٢٩٥۔

۳۵۵

سند کی جانچ و پڑتال:

١۔ ''طبری '' ٢٠٢٦١و٢٤٩٥میں '' زیاد بن سرجس'' سے ''سیف '' کی روایت ١٢سے١٧ھ تک کے حوادث کے ضمن میں ذکر ہوئی ہیں اور '' ابو عثمان النھدی عبدالرحمن بن مل ،'' طبری ٢٤٨١٣ و ٢٥٤٧ میں اور '' ابو عثمان یزید بن اسید '' سیف کے جعلی صحابی ہیں ۔فہرست طبری ٣٧٨ ۔کہ یہ لوگ ''محمد بن طلحہ '' کے ہمراہ تین افراد ہوتے ہیں ،فہرست طبری ٥١٦ میں ذکر ہوئے ہیں ۔

قعقاعحیرہ کے حوادث کے بعد :

١۔ ''طبری '' ٢٠٤٩١و٢٠٥٥،'' ابن اثیر '' ١٥٠٢،'' ابن کثیر ٣٤٨٦۔ابن خلدون ٢٩٩٢ حیدرآبادی '' مجموعة الوثائق السیاسیہ '' مکتوبات نمبر ٢٩٣و ٣٠١ اور ٣٤٠ میں ۔

٢۔ ''طبری '' ٢٠١٦١و٢٠١٨میں کلبی سے اور '' ابی مخنف '' سے اور '' ابن اسحاق '' سے اور بلاذری نے فتوح البلدان ٣٤٢ اور معجم البلدان میں '' بانقیائ'' کے حالات میں ۔

سند کی پڑتال:

١۔روایت غصن '' طبری''١٩٧٧١۔٢٩٨٠میں سنہ ١١و١٢و١٤و٢٢و٣٠و٣٤ ہجری کے حوادث کے ضمن میں اور ابن مکنف سے ٢٠٥٠١ میں اور بنی کنانہ کے ایک مرد سے ٢٠٣٩١۔٢٨٩٠ میں سنہ ١٢۔٣٢ ہجری کے حوادث کے ضمن میں ۔

حدیث المصینح کی سند:

١۔ '' طبری''٢٠٧٤١ میں '' بنی سعد سے ایک مرد''نقل ہواہے۔

۳۵۶

خالد کی شام کی شام کی جانب روانگی کی داستان:

١۔ '' ابن عساکر''٤٤٧١ اور ٤٤٦ میں مختصر طور سے ذکر ہے۔

٢۔ '' طبری''٢٠٧٠١ اور ٢٠٧٦ اور ٢٠٨٥۔

٣۔ '' ابن عساکر''٤٦٤١۔

٤۔ عراق میں خالد کی فتوحات کے بارے میں جو نقل ہواہے: '' طبری''٢٠٢٠١ ۔٢٠٧٧ '' ابن اثیر''١٤٧٢۔١٥٣، '' ابن کثیر''٦ ٣٤٢۔٣٥٢، '' ابن خلدون''٢٩٥٢۔٣٠٣، '' بلاذری''، '' فتوح البلدان''کے باب '' فتوح السواد میں ''٣٣٧۔٣٥٠ اور دینوری کے'' اخبار الطوال''١١١۔١١٢

٥۔مؤرخین کے روایات میں اختلافات کو '' ابن عساکر''نے ٤٤٧١ ۔٤٧٠،طبری نے ٢١١٠١۔٢١٢٧اور ابن اثیر نے ٣١٢٢۔٤میں ذکر کیاہے۔

سند کی پڑتال:

١۔'' طبری''٢١١٣١۔٢٤٦٠میں '' عبید اللہ بن محفز''سنہ ١٣اور ١٦ہجری کے حوادث کے ضمن میں آیاہے اور '' ابن عساکر ''٤٦٦١میں '' عبد اللہ''اور وہ جس نے اس کے لئے '' بکر بن وائل ''سے روایت نقل کی ہے '' طبری''٢١١٣١اور ابن عساکر ٤٦٦١۔

شام کی جنگوں میں :

١۔ '' طبری ''٢٠٩٣١۔٢٠٩٧،ابن عساکر ٥٤١اور قعقاع کے حالات میں نیز ابن کثیر ٧٧۔١٦ ،داستان یرموک ابن اثیر وابن خلدون اور فتوح البلدان ١٥٧و١٨٤ اور ''عبد اللہ ابن سبا'' کی فصل ''حوادث کے سنوں میں سیف کی تحریف''ملاحظہ فرمائیے۔

سند کی تحقیق:

١۔ روایت '' ابو عثمان یزید'''' طبری ''٢٠٨٤١۔٢٥٨٦ سنہ ١٣ اور ١٨ ہجری کے حوادث کے ضمن میں اور تاریخ ابن عساکر ٤٨٤١۔٥٤٦ میں آئی ہے ۔

۳۵۷

فتح دمشق:

١۔طبری ٢١٥٠١۔٢١٥٦،ابن عساکر ٥١٥١۔٥١٨،اور قعقاع کے حالات میں سیف کے اشعار نقل ہوئے ہیں ،فتوح البلدان ١٦٥،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے انھیں طبری سے نقل کیاہے۔

سند کی تحقیق:

١۔ '' طبری''٢٠٨٤١۔٢٨٢٢میں سنہ ١٣۔١٨ ہجری کے حوادث کے ضمن میں اور تاریخ ابن عساکر ٤٨٤١۔٥٤٥میں '' خالد''و'' عبادہ''سے سیف کی روایتیں ۔

فحل کی جنگ:

١۔ طبری ٥٩٤۔٦٠،ابن عساکر ٤٨٥١۔٤٨٨و٥٣٥اور '' فتوح البلدان''بلاذری ١٥٨

٢۔طبری ٢١٥٤١ سنہ ١٣ ہجری کے حوادث کے ضمن میں وطبع مصر ١٢٠٤،تاریخ ابن عساکر ٥١٧١،ابن کثیر ٢٥٧اور کتاب عبد اللہ ابن سبا کی فصل '' حوادث کے سالوں میں تحریف''کے ذیل میں ۔

عراق میں دوبارہ جنگیں ۔قادسیہ:

١۔ طبری ٢٣٠٥١۔٣٣٢٧ اور طبع مصر ١٢٠٤ ۔١٢٨ ١٤ھ کے حوادث۔

٢۔'' شرح قصیدہ ابن عبدون ''طبع لیدن ١٤٤۔١٤٦۔

٣۔'' نہایة الارب''تحقیق علی الخاقانی ٤٢٥اور تاج العروس ٦٣٧١۔

٤۔ طبری ٢٣٢٧١۔٢٣٣٣

٥۔ طبری ٢٣٠٥١۔٢٣٣٨ اور طبع مصر ١٢٠٤۔١٣٣، نیز '' ابن عساکر ''قعقاع کے حالات ٥١٧١،شرح قصیدہ ابن عبدون،ابن کلبی کی '' انساب الخلیل'' ،'''قاموس'' فیروزہ آبادی ، ''لسان العرب'' ابن منظور،'' نہایة الارب'' قلقشندی اور ابن کثیر ٤٥٧۔

٦۔ '' ابن اثیر '' ٣٤٥٢۔٣٧٧، ابن کثیر ٣٥٧۔٤٧، ابن خلدون٣٠٨٢و٣١٥اور ''روضة الصفا'' ٦٨٢٢۔٦٨٥

۳۵۸

سند کی تحقیق:

١۔روایت عمرو '' طبری'' ٢٢٩٥١۔٢٤٩٨میں آئی ہے اور اس کے حالات '' میزان الاعتدال'' ٢٦٠٣،اور لسان المیزان ٣٤٦٤میں سنہ ١٤و ١٧ ہجری کے حوادث کے ضمن میں آئے ہیں ۔حمید نے ''طبری '' ٢٣٢٩١میں ،جحذب و عصمة نے طبری ٢٣٢١١میں اور ابن محراق جو قبیلہ طی کے ایک مرد سے نقل کرتا ہے ،نے طبری ٢٣١٢١میں روایت کی ہے ۔

جنگ کے بعد کے حوادث:

١۔طبری ٢٣٥٧١۔٢٣٦٤اور طبع مصر ١٣٦٤۔١٤٣،اور'' قعقاع ''کے حالات ''الاصابہ'' و '' فتح البلدان '' میں اور '' الاخبار الطوال '' فتح قادسیہ۔

فتح مدائن اور جنگی غنائم:

١۔ '' طبری '' ٢٤٣٤١۔٢٤٣٦،اور ٢٤٤٧۔٢٤٤٩و ابن اثیر ٣٩٥٢۔٤٠٤،ابن کثیر ٦١٧۔٦٨،ابن خلدون ٣٢٨٢۔٣٣٠،'' الروض '' ورق ٢٢٨٢سے مدائن کی روئیداد۔

سند کی تحقیق :

١۔ان کی روایت طبری میں اس طرح نقل ہوئی ہے : '' بنی الحارث '' سے ایک مرد اور ''عصمة '' ٢٤٤٨١و مرد گمنام ٢٤٣٥١و الرفیل اور اس کابیٹا ٢٢٤٩١۔٢٤٤٥ سنہ ١٤،١٥ و ١٦ہجری کے واقعات میں اور النضر ٢١٧١١۔٢٤٤٥ ،سنہ ١٣،١٤و١٦ہجری کے واقعات میں ۔

جلولاء میں :

١۔''طبری ''٢٤٥٦١۔٢٤٧٤اور طبع مصر ١٧٩٤ و١٨٦و١٩١ و١٩٤،''اخبار الطوال '' ١٢٧۔ ١٢٩،'' فتوح البلدان'' ٣٦٨۔٤٢٣،'' معجم البلدان'' ،ابن اثیر ٤٠٤٢۔٧٠٠'' ابن کثیر '' ٦٩٧، ''ابن خلدون'' ٣٣١٢۔٣٣٢،اور '' روضة الصفا'' ٦٨٩٢۔

۳۵۹

سند کی تحقیق:

١۔''طبری میں حدیث '' حماد'' ٢٤٦٣١۔٣٢١٤و '' بطان'' ٢٤٥٨١و عبداللہ ٢١١٣١۔ ٢٤٦٠سنہ ١٣۔١٦ہجری کے حوادث اور '' المستنیر'' ١٧٩٥١۔ ٣٠٣٤سنہ ١١۔٣٤ہجری کے حوادث میں ۔

شام کی دوبارہ جنگوں میں :

١۔''طبری '' طبع مصر ١٩٥٤ و١٩٧،قعقاع کے حالات ابن ''عساکر '' اور '' الاصابہ'' میں ، ابن اثیر ٤١٣٢،ابن کثیر ٧٥٧،اور ابن خلدون ٣٣٨٢۔

نہاوند میں :

١۔ ''طبری '' طبع مصر ٢٣١٤۔٢٤٥طبع یورپ ٢٥٩٦١۔٢٦٣٤،الاخبار الطوال ١٣٣۔ ١٣٧، بلاذری ٤٢٤۔٤٣٣، '' الوثائق السیاسیہ'' مکتوب نمبر ٣٣٢، معجم البلدان میں '' ثنیة الرکاب '' ''ماہان''''وایہ خرد''اور نہاوند کی روداد ،'' ابن اثیر ''٤٣،'' ابن کثیر ''١٠٥٧۔١١٠،'' ابن خلدون'' ٣٥٠٢ ''ابن کثیر '' اس باب کی ابتداء میں لکھتا ہے جو کچھ اس نے سیف سے نقل کیا ہے '' طبری '' سے لیا ہے ۔

سند کی تحقیق :

١۔ ان کی روایات '' طبری '' ٢٥٠٥١و٢٦٣١میں ہیں ۔

بحث کا خلاصہ :

١۔'' طبری '' ٢٩٢٨١۔٢٩٣٠و٢٩٣٦و٢٩٥٠،اور طبع مصر ٩٢٥۔٩٣و ٩٦و١٠١۔

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371