ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127371 / ڈاؤنلوڈ: 4234
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

گھوڑے پر سوار ہوکر لوگوں کے درمیاں اعلان کرو کہ '' بہشت مؤمنوں کے علاوہ کسی کا حق نہیں ہے اور کہہ دو کہ لوگ نماز کیلئے جمع ہوجائیں ''

عرباض کہتا ہے :

لوگ تمام اطراف سے نماز ادا کرنے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیانات سننے کیلئے جمع ہوئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ۔ اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں سے بعض لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے گمان کررہے ہو ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں حرام قرار دی گئی چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کو حرام قرار نہیں دیا ہے؟!

ہوشیار رہو! میں نے تمہیں نصیحت کی ہے اور بعض امور کو انجام دینے اور بعض سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے یہ سب قرآن مجید کے حکم کے برابر ہیں یا اس سے بھی زیا دہ( یہ حائز اہمیت اور واجب العمل ہیں ) خدائے تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز نہیں قرار دیا ہے کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل ہوجاؤ یا ان کی عورتوں کو اذیت پہنچاؤ گے یا ان کے میوے کھا ؤگے جبکہ انہوں نے اپنے ذمہ لیا ہوا کام انجام دیا ہے۔

٤۔ '' مسند ا'' احمد حنبل میں ابو ہریرہ ١ سے نقل کرکے آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

١۔ ابوہریرہ قحطانی دوسی یہ لقب '' ابو ہریرہ ''(بلی باز ) ا س لئے پڑا تھا کہ اس کے پاس ایک پالتو بلی تھی یا یہ ایک بار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی پالتو بلی آستین میں چھپائے ہوئے تھا ، اس لئے آنحضرت نے اسے '' ابو ہریرہ ' ' خطاب فرمایا ۔ ابو ہریرہ خیبر کی جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لایا ہے ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٥٣٧٤ حدیثیں روایت کی ہیں ۔ ان احادیث کو عام اصحاب حدیث نے نقل کیا ہے '' اسد الغابہ '' ( ٣١٥٥ ) ، '' جوامع السیرہ '' ص ٢٧٥ ،'' عبدا للہ بن سبا '' (١٦٠١ طبع آفسٹ ١٣٩٣ ھ )

۲۱

میں تم میں سے ایک شخص کو نہ دیکھو ں کہ جس کے سامنے بیان کی جائے تو وہ آرام سے اپنی جگہ پر تکیہ لگائے ہوئے کہے : اس سلسلے میں مجھے قرآن مجید سے بتاؤ!!

'' سنن'' دارمی کے مقدمہ میں حسان بن ثابت انصاری ١سے روایت نقل ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جس طرح جبرئیل پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے قرآن لے کر نازل ہوئے تھے ، اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے سنت لے کر بھی نازل ہوتے تھے ۔

کَان جِبرئُیل یَنزِلُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ بالسُّنةِ ، کَمٰا یَنْزِلُ عَلَیهِ بِالقُرآن ۔

یہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبوی کے چند نمونے ہیں جن میں امت اسلامیہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی اطاعت کرنے کا حکم ہوا ہے اور ان کی نافرمانی سے منع کیا ہے ۔ جو لوگ صرف قرآن مجید سے تمسک کرکے سنت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پامال کرتے ہیں اور اس کی اعتنا نہیں کرتے پیغمبر نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی سرزنش و ملامت کی ہے۔

اس کے پیش نظر بنیادی طور پر اسلام کو سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن مجید کی آیات سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ چند مثالوں سے اس حقیقت کو واضح اور روشن کیا جاسکتا ہے:

____________________

١۔ ابو عبدا لرحمان یا ابو الولید ،حسان بن ثابت انصاری خزرجی ، یہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا شاعر اور مسجد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مناقب پڑھتا تھا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں فرمایا ہے :'' خدائے تعالیٰ حسان کی اس وقت تک روح القدس کے عنوان سے تائید کرے جب تک وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتا ہے '' حسان اپنے زمانے کا ایک ڈرپوک آدمی تھا اسی لئے اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات میں سے کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی ہے ۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماریہ کی بہن ، شیرین سے اس کا عقد کیا ، اس سے اس کا بیٹا عبدا لرحمان پیدا ہوا ۔ حسان نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صرف ایک حدیث روایت کی ہے کہ '' ترمذی'' کے علاوہ دیگر لوگو ں نے اسے نقل کیا ہے ۔ حسان ٤٠ یا ٥٠ یا ٥٤ ھ کو ١٢٠ سال کی عمر میں وفات پا ئی ، ''اسد الغابہ'' ( ٢۔ ٥۔٧) ، ''جوامع السیرہ ''(ص ٣٠٨) اور ''تقریب التہذیب ''(١ ١٦١)

۲۲

قرآن مجید میں نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ لیکن سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کئے بغیر معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ عبادت کس طرح اور کن شرائط میں انجام دی جاسکتی ہے ۔ ہم احادیث و سیرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کرکے رکعتوں اور سجدوں کی تعداد ، اذکار ، قوانین اور مبطلات نماز کے احکام سیکھ سکتے ہیں نماز کو ادا کرنے کی کیفیت اور طریقۂ کار معلوم کرسکتے ہیں ۔

حج بھی اسی طرح ہے ، ہم سنت پیغمبر کی طرف رجوع کرکے ، احرام باندھنے کی نیت، میقات کی پہچان اور ان کی تشخیص ، طواف کی کیفیت ، مشعر و منیٰ میں توقف و حرکت ، اپنے مخصوص اور محدود زمان و مکان میں رمی جمرات ، قربانی اور حلق و تقصیر کے علاوہ حج کے واجبات ، مستحبات و مکروہات اور محرمات کے بارے میں مسائل و احکام سیکھتے ہیں ۔

ان ہی دو مثالوں سے واضح طور سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کرکے مذکورہ دو فریضہ اور واجب شرعی کو انجام دینا ممکن نہیں ہے جبکہ شرع مقدس اسلام کے تمام احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔

اس لئے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اسلام کو حاصل کرنے اور احکام الٰہی کی پیروی کرنے کیلئے قرآن مجید اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی جانب ایک ساتھ رجوع کریں اور اگر ایک شخص ان دو میں سے صرف ایک کی طرف رجوع کرے اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کرے تو بیشک اس نے اپنے آپ کو اسلام کی پابندیوں سے آزاد کرکے اس کے قوانین کی من پسند تفسیر و تعبیر کی ہے کیونکہ کلید فہم و مفسر قرآن یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حذف کرنے سے انسان آزادی کے ساتھ اپنی رای اور سلیقہ سے تعبیر و سکتاہے ۔

۲۳

گزشتہ ادیان میں تحریف کا مسئلہ

ہمیں معلوم ہوا کہ صحیح اسلام کو معلوم کرنے اور قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کیلئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ جب ہم سنت کی جانب رجوع کرتے ہیں تو انتہائی افسوس کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہیں کہ تحریفات ، لفظی تغیرات ، معنی میں تاویل کرکے دوسرو ں کی سنتوں کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں شامل کرنے ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تہمتیں لگانے ، حق کو چھپانے ، افتراء باندھنے اور اسی طرح انحرافات اور تحریفات کی دوسری قسموں سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت بھری پڑی ہے پیغمبر اسلام کی سنت میں داخل ہونے والے تحریفات بالکل ویسے ہیں ہے جیسے کہ گزشتہ امتوں میں واقع ہوئی ہے اور خداوند تعالی نے قرآن مجید میں ان کی خبر دے دی ہے اور ہم یہاں پر بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں :

( وَ اِذْاَخَذَاﷲُ مِیثَاقَ الّذِینَ اُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَهُ لِلنَّاسِ وَ لٰا تَکْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرٰاء ظُهُورِهِم وَ اْشْتَرَوا بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ) ١

اس موقع کو یاد کرو جب خدا نے جن کو کتاب دی ان سے عہد لیا کہ اسے لوگوں کیلئے بیان کریں گے اور چھپائیں گے نہیں ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈالدیا اور تھوڑی قیمت پر بیچ دیا ا یا تو یہ بہت برا سودا کیا ہے۔

٢۔(فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیْثَاقَهُمْ لَعَنَّا هُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوبُهُمْ قَاسِیةً یُحَرِّفُونَ

____________________

١۔ آل عمران ١٨٧

۲۴

الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ نَسُوا حَظّاًمِمَّا ذُکِّرُوا بِهِ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَائِنَةٍ مِنْهُم ِلَّا قَلِیلاً مِنْهُمْ) (۱)

پھر ان کی عہد شکنی کی بناء پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا ۔ وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یا ددہانی کا اکثر حصہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں سے ہمیشہ مطلع ہوتے رہو گے علاوہ چندافراد کے۔

٣۔(یَا اَهْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُونَ الحَقَّ وَ اَنْتمُ تَعْلَمُونَ ) ٢

اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل سے مشتبہ کرتے ہو او رجانتے ہوئے حق کی پردہ پوشی کرتے ہو۔

٤۔( یَا اَهْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رُسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیراً مِمَّا کُنْتُم تُخْفُونَ مِنَ الکِتَابِ وَ یَعْفُو عَن کَثِیرٍ) ٣

اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو ان میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کررہا ہے ، جن کو تم کتاب خدا میں سے چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر بھی کرتا ہے

____________________

١۔ مائدہ ١٣

٢۔آل عمران ٧١

٣۔مائدہ ١٥

۲۵

٥۔( وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُموا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ١

حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو۔

٦۔( اَلَّذِینَ آَتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَماَ یَعْرِفُونَ اَبْنَائَهُمْ وَ اِنَّ فَرِیقاً مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقّ وَ هُمْ یَعْلَمُونَ) ٢

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ رسول کو بھی اپنی اولاد ہی کی طرح پہچانتے ہیں بس ان کا ایک گروہ ہے جو حق کو دیدہ و دانستہ چھپا رہا ہے۔

٧۔( اَفَتَطْمَعُونَ اَنْ یُوْمِنُوا لَکمُ وَ قَدْ کَانَ فَرِیق مِنْهُمْ یَسْمَعُونَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ یُحَرِفُونه مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوه وَ هُمْ یَعْلَمُونَ ) ٣

مسلمانو! کیا تمہیں امید ہے کہ یہ یہودی ایمان لائیں گے جبکہ ان کے اسلاف کا ایک گروہ کلام خدا کو سنکرتحریف کریتا تھا حالانکہ وہ سب سمجھتے بھی تھے اور جانتے بھی تھے۔

٨۔(مِنَ الَّذِینَ هَادُوا یُحَرِِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ یَقُوْلُونَ سَمِعْنَا و عَصَیْنَا ) ٤

یہودیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو کلمات الہیہ کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بات سنی اور نافرمانی کی۔

____________________

١۔بقرہ ٤٢

٢۔بقرہ ١٤٦

٣۔ بقرہ ٤٥

٤۔ نساء ٤٦

۲۶

٩۔( وَ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَْتُوکَ یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِه یَقُولُونَ اِنْ اُوْتِیتُم هٰذَا فَخُذُوه وَ اِنْ لَمْ تُوْتَوْهُ فَاحذرُوا ) ١

اور یہودیوں میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو جھوٹی باتیں سنتے ہیں اور دوسری قوم والے جو آپ کے پاس حاضر نہیں ہوئے انھیں سناتے ہیں ۔ یہ لوگ کلمات کو ان اکی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر کی طرف سے یہی دیا جائے تو لے لینا اور اگر یہ نہ دیا جائے تو پرہیز کرنا ۔

١٠۔(اِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اَنْزَ لَ اﷲُ مِنَ الْکِتَابِ وَ یَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً اُولٰئِکَ مَا یَْ کُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ اِلاَّا لنَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُهُمُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ لَا یُزَکِّیْهِمْ وَ لَهُمْ عَذَاب اَلِیم ) ٢

لو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ ہی انھیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔

١١۔( اِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا َنْزَلْنَا مِنَ البَیِّنَاتِ وَ الْهُدیٰ مِنْ بَعْدِ مَا

____________________

١۔ بقرہ ١٧٤

٢۔بقرہ ١٥٩

۲۷

بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُهُُمُ اﷲُ و َیلْعَنُهمُ اللاَعِنُونَ )

جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں ۔

یہ نمونے کے طور پر چند آیتیں تھیں کہ جن میں خدائے تعالیٰ گزشتہ امتوں کے ذریعہ سے حقائق کی تحریف اور حقیقتوں کے چھپانے کی خبر دیتا ہے۔

سنت میں تحریف کی خبر اور اسلاف کی تقلید

ہم ذیل میں چند ایسی احادیث درج کرتے ہیں ، جن میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کی خبر دی ہے کہ کس طرح یہ امت اپنی تمام رفتار و کردار میں گزشتہ امتوں کی تقلید کرے گی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واضح فرماتے ہیں کہ امت اسلامیہ گزشتہ امتوں کے کاموں پر قدم بہ قدم عمل کرے گی:

١۔ شیخ صدو ق اعلی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب '' اکمال'' میں حضرت امام جعفر صادق اور آپ کے آباو اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کل ما کان فی الامم السالفة فانه یکون فی هٰذه الا مة مثله ، خذو النعل بالنعل و القذة بالذة''

جو کچھ گزشتہ امتوں میں واقع ہوا ہے اسی کے مانند اس امت میں بھی واقع ہوگا، جوتوں کے جوڑوں اور تیر کے پروں کے مانند۔ ١

____________________

١۔ اس حدیث کے اہل بیت میں سے راویوں کا سلسلہ یوں ہے : امام صادق (ت ١٤٨ ھ ) نے اپنے والد گرامی محمد باقر (ت ١١٤ھ) سے، انہوں نے اپنے والد امام زین العابدین ( ت ٩٥ھ ) سے انہوں نے اپنے والد امام حسین شہید ، نواسہ رسول خدا ( ت ٦١ ھ) سے انہوں نے اپنے والد امام علی بن ابیطالت ( ت ٤٠ ھ) سے اور انہوں نے اپنے چچازاد بھائی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین ) سے روایت کی ہے۔

۲۸

ابن رستہ کتاب '' الاعلاق النفسیہ'' ص ٢٣ پر لکھتے ہیں : کرۂ زمین پر جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابیطالب ( رضہم) کے علاوہ کوئی بھی ایسے پانچ افراد نہیں ملتے جنہوں نے سلسلسہ وار حدیث نقل کی ہو۔

شیخ صدوق نے مزید اپنی کتاب '' اکمال'' میں حضرت امام صادق اور آپ کے آباء و اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''والذی بعثنی بالحق نبیا و بشیرا لترکبنّ امتی سنن من کا ن قبلها حذو النعل بالنعل ، حتی لو ان حیة من بنی اسرائیل دخلت فی جحرٍ لدخلت فی هٰذه الامة حیّة مثلها ''

قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبی اور بشارت دینے والے کی حیثیت سے بر حق مبعوث فرمایا ہے ، میری امت کسی تفاوت کے بغیر اپنے اسلاف کی راہ کو انتخاب کرے گی ، اس طرح کہ اگر بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک سانپ کسی بِل میں داخل ہوا ہوگا تو اس امت میں بھی ایک سانپ اسی بل میں داخل ہوگا ۔

٢۔ابن حجر نے اپنی کتاب '' فتح الباری '' میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فرمائشات کو یوں بیان فرمایا ہے:

شافعی ١ نے اسی صحیح سند کے ساتھ عبد اللہ عمرو ٢سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

____________________

١۔ابو عبدا للہ ، محمد بن ادریس بن عباس شافعی مطلبّی : ان کی ماں کے ہاشمی ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے اس لئے بعض نے ان کے بارے میں کہا ہے: ہم نے ہاشم کی اولاد میں سے ہر گز کسی کو نہیں دیکھا کہ ابوبکر ، و عمر کو علی پرترجیح دی ہو ، جیسا کہ '' طبقات شافعیہ '' میں آیا ہے کہ ان کو اس لئے ہاشم سے نسبت دی گئی ہے کہ وہ ہاشم کے بھائی کی اولاد میں سے تھے ۔ شافعی ٢٠٤ ھ میں ٥٤ سال کی عمر میں مصرمیں فوت ہوا '' تقریب التہذیب'' (٢ ١٤٣)

٢۔ عبد اللہ بن عمرو عاص اپنے باپ سے ١٢ سال چھوٹا تھا ۔ باپ سے پہلے اسلام لایا تھا ۔ اسلاف کی کتابیں پڑھ چکا تھا ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٧٠٠ احادیث روایت کی ہیں ۔ عبدا للہ نے اپنے باپ کے ہمراہ صفین کی جنگ میں معاویہ کی حمایت میں شرکت کی لیکن بعد میں نادم ہوکر کہتا تھا : کاش اس سے بیس سال پہلے مرچکا ہوتا۔ اس کی موت کے بارے سال اور مکان میں اختلاف ہے ۔ کیا ٦٣ھ یا ٦٥ ھ میں مصر میں یا ٦٧ ھ میں مکہ میں اور یا ٥٥ ھ میں طائف میں یا ٦٨ ھ میں فوت ہوا ہے ۔ عبدا ﷲ کی زندگی کے حالات '' اسد الغابہ'' ٣ ٢٣٣۔ ٢٣٥) اور '' جوامع السیرہ '' ابن حزم ص ٢٨٦ میں ملاحظہ ہو۔

۲۹

'' لترکبن سنن من کان قبلکم حلوها و مرّها''

تم لوگ اپنے اسلاف کی تلخ و شیرین ( بری اور بھلی) روش کو اپناؤ گے ۔

٣۔ احمد بن حنبل نے اپنی کتاب '' ُسند '' میں اور مسلم و بخاری نے اپنی '' صحیح '' میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ابو سعید خدری ١سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''لتتبعن سنن من کان قبلکم شِبراً بشبرٍ و ذراعاً ذراعاً حتی لو دخلوا حجر ضبِّ تبعتموهم '' ۔ ٢

اپنے اسلاف کی رفتار کو تم لوگ قدم بہ قدم اور موبمو اپناؤ گے ، حتی اگر وہ کسی چھپکلی کے بِل میں بھی گئے ہوگے تو تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے۔

ہم نے سوال کیا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا : پھر کون ؟!

یہ حدیث ایک اور روایت کے مطابق '' مسند'' احمد میں یوں درج ہوئی ہے :

____________________

١۔ ابو سعید ، سعید بن مالک بن سنان انصاری خندق کی جنگ میں تیرہ سالہ تھا ۔ اس کے باپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور لاکر کہا : یہ نوجوان قوی ہیکل ہے ۔ لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے قبول نہیں کیا اور اجازت نہ دی تا کہ وہ جنگ میں شرکت کرے ۔ ابو سعید خدری نے جنگ بنی المصطلق میں شرکت کی ہے وہ مکثرین حدیث میں شمار ہوتا ہے اس نے تقریباً ١١٧٠ حدیثیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہیں صحاح کے مؤلفین نے اس کی تمام احادیث کو نقل کیا ہے ۔ ابو سعید نے ٧٤ ھ میں وفات پائی ہے۔ '' اسد الغابہ'' و ' جوامع السیرہ'' میں اس کی زندگی کے حالات بیان کئے گئے ہیں ۔

ابوسعید خدری کی حدیث میں جسے بخاری نے اس سے ایک اور روایت میں نقل کیا ہے کہ '' لو دخلوا'' کے بجائے'' لو سلکوا جحر ضبِّ لسلکتموہ'' آیا ہے جس کا تقریباً وہی مفہوم ہے۔

٢۔ شِبر =بالشت ، ذراع = کہنی سے درمیانی انگلی کی انتہا تک کا فاصلہ ، باع = دو ہاتھوں کے درمیان کا وہ فاصلہ دونوں ہاتھ اٹھا کر شانوں کے برابر کھینچ لئے جائیں ۔

۳۰

لتتّبعن سنن بنی اسرائیل ، حتی لو دخل رجل من بنی اسرائیل جحر ضبٍّ لتبعتموه ۔

تم لوگ بنی اسرائیل کی روش اپناؤ گے اس طرح کہ اگر بنی ا سرائیل میں کوئی شخص سوسمار کے بل میں داخل ہوا ہوگا تو تم بھی اس کی پیروی میں جاؤ گے۔

٤۔ ابن ماجہ نے اپنی '' سنن'' میں ، احمد نے اپنی '' مسند '' میں ، متقی نے '' کنزل العمال'' میں اور بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لا تقوم الساعة حتّٰی تخذ امتی بخذِ القرون قبلها شبراً بشبرٍ و ذراعاً بذراعٍ ۔

تب تک قیامت برپا نہیں ہوگی ، جب تک کہ میری امت گزشتہ امتوں کی روش پر مو بمو پیروی نح کر لے گی ۔ سوال کیا گیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کیا مجوسیوں اور رومیوں کی طرح؟ فرمایا: ان کے علاوہ ، اور کون لوگ ہیں ؟!

اسی مطلب کو '' مسند'' احمد میں یوں بیان کیا گیا ہے :

وَ الّذی نفسی بیده لتتبعنَّ سنن الذین من قبلکم شبراً بشبر و ذراعاً بزراعٍ و باعاً فباعاً حتی لو دخلوا جحر ضبّ لدخلتموه

قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ اپنے اسلاف کی روش پر مو بمو اور قدم بہ قدم پیروی کرو گے، حتی اگر وہ چھپکلی کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں داخل گے۔ پوچھاگیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کن کے بارے میں ، کیا اہل کتاب کے بارے میں فرما رہے ہیں ؟

۳۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

پھر کون لوگ؟!

٥۔ طیالسی اور احمد نے اپنی '' مسندوں '' میں ، متقی ہندی نے '' کنزل العمال ''' میں اور ترمذی نے اپنی '' صحیح'' میں ابو واقدلیثی (۱)سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

والذی نفسی بیده لترکبن سنة من کان قبلکم

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم لوگ اپنے اسلاف کی روش کی پیروی کروگے۔

یہی حدیث '' مسند'' احمد میں یوں آئی ہے۔

لترکبن سنن من کان قبلکم سنّة سنّة

تم لوگ روش روش پر اپنے اسلاف کی تقلید کرو گے۔

٦۔ حاکم نے پر اپنی '' مستدرک بر صحیحین'' میں اور ''مجمع الزوائد'' میں '' بزاز'' سے نقل کرکے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لترکبن سنن من کان قبلکم شبراً بشبرٍ و زراعاً بزراع و باعاً بباع حتی لو ان احدهم دخل حجر ضبّ لدخلتم ۔

تم لوگ موبمو اور قدم بہ قدم اپنی اسلاف کی روش پر چلو گے حتی اگر ان میں سے کوئی

____________________

١۔ابو واقد لیثی بنی لیث بن بکر سے ہے ۔ اس کے نام اور اسلام لانے کی تاریخ میں اختلاف ہے کہ کیآیا س نے جنگ بدر میں شرکت کی ہے یا فتح مکہ میں یا ان میں سے کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی ہے اور بعد میں اسلام لایا ہے ابو واقد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٢٤ حدیثیں روایت کی ہیں جسے بخاری نے ادب المفرد میں درج کیا ہے۔ ابو واقد نے مکہ میں رہائش اختیار کی اور ٦٨ھ میں ٧٥ یا ٨٥ سال کی عمر میں وہیں پر فوت ہوا اس کی زندگی کے حالات '' اسد الغابہ'' ( ٥ ٣١٩) و '' جوامع السیرہ'' ص ٢٨٢ میں مطالعہ فرمائیں ۔

۳۲

چھپکلی کے بلِ میں گھس گیا ہوگا تو تم لوگ بھی اس میں گھس جاؤ گے۔

٧۔ ترمذی نے اپنی '' صحیح'' میں اور حاکم نے اپنی '' مستدرک '' میں سیوطی کی تفسیر کے پیش نظر بیان کیا ہے کہ عبدا للہ عمرو نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لیاتین علیٰ امتی ما اَتیٰ علیٰ بنی اسرائیل ، حذو النعل بالنعل ، حتی ان کان فی بنی اسرائیل من اتٰی امه علانیة لکان فی امتی من فعل ذالک

جو کچھ بنی اسرائیل پر گزری ہے بالکل ویسے ہی میری امت پر بھی گزرے گی ، حتی اگر بنی اسرائیل میں کسی نے اپنی ماں سے علانیہ طور پر ہمبستری کی ہوگی تو میری امت میں ایسا شخص پیدا ہوگا جو اس کام کو انجام دے گا!

٨۔ '' مجمع الزوائد'' میں بزاز کی '' مسند'' سے اور متقی نے حاکم کی ''مستدرک '' سے نقل کرکے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لترکبن سنن من کان قبلکم شبراً بشبر و ذراعاً بذراع و باعاً بباعٍ ، حتی لو ان احدهم دخل حجر ضب لدخلتم حتی لو ان احدهم جامع امه لفعلتم!

تم لوگ موبمو اور قدم بقدم اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلو گے حتی اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بلِ میں گھس گیا ہو گاتو تم لوگ بھی ویسا ہی کرو گے بلکہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے مباشرت کی ہوگی تو تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے۔

۳۳

٩۔ احمد بن حنبل نے اپنی '' مسند'' میں '' مجمع الزوائد'' کے مصنف نے '' سہل بن سعد انصاری'' ١ سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

والذی نفسی بیده لترکبن سنن من کان قبلکم مثلاً به مثل

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر موبمو چلو گے!

جیسا کہ '' مجمع الزوائد'' کے مطابق طبرانی نے مذکورہ حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے ضمن میں فرمایا:

حتی لو دخلوا جحر ضبٍّ لاتبعتموه ۔

ہم نے سوال کیا :

اے رسول خدا ! کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا:

ان یہود و نصاریٰ کے علاوہ اور کون ہو سکتے ہیں ؟!

____________________

١۔سہل بن سعد بن مالک انصاری : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے دن سہل کی عمر پندرہ سال تھی ۔ سہل نے حجاج بن یوسف کے زمانہ کو بھی درک کیا ہے ، حجاج نے سہل کے عثمان کی مدد کرنے کے جرم میں حکم دیا تھا کہ اس کی گردن پر غلامی کی مہر لگادی جائے۔

سہل نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ١٨٨ حدیثیں روایت کی ہیں کہ اصحاب صحاح نے ان سب کو درج کیا ہے سہل نے ٨٨ ھ یا ٩١ ھ میں وفات پائی ہے ۔ کہتے ہیں کہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آخری صحابی تھا جس نے وفات پائی۔ '' اسد الغابہ'' ( ٢ ٣٦٦) ، '' جوامع السیر'' ٢٧٧ ، '' تقریب التہذیب '' (١ ٣٣٦)

۳۴

١٠۔ '' مجمع الزوائد'' میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا گیا ہے کہ '' عبداللہ مسعود'' ١ نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

انتم اشبه الامم بننی اسرائیل ، لترکبن طریقهم حذو القذة با لقذة حتی لا یکون فیهم شیء الا فیکم مثله

تم بنی اسرائیل سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والی امت ہو ۔ تم لوگ ان کے راستہ پر اس طرح چلو گے جیسے تیر کے پیچھے اس کے پر حتی ان میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جائے گی جو تم لوگوں میں موجود نہ ہو!

١١۔ '' مجمع الزوائد '' میں طبرانی کی '' اوسط '' اور '' کنز ل العمال 'سے نقل کرکے '' مستورد بن شداد '' ۲ سے

____________________

١۔ابو عبدا لرحمن ، عبدا للہ بن مسعود بن غا فل ہذلی قبیلۂ قریش میں سے ہیں جو پہلے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جن دنوں مکہ میں اظہار اسلام کرنے پر سختیوں وا ذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، ابن مسعود پہلے مسلمان تھے جو مکہ میں بلند آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ ابن مسعود نے پہلے حبشہ پھر مدینہ ہجرت کی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ، ابن مسعود سے ٨٤٨ حدیثیں روایت ہوئی ہیں تمام حدیث لکھنے والوں نے انھیں نقل کیا ہے ، عمر نے ابن مسعود کو کوفہ میں دینی امورکے معلم اور بیت المال میں حکومت کا امین و کلید دار معین کیا تھا ۔ ابن مسعود حکومت عثمان تک اس عہدہ پر برقرار تھے،کوفہ کا گورنر ولید بن عقبہ ، ابن مسعود کے اسلامی احکام کے نفاذ میں دقت خاص کر بیت المال اور حکومتی خزانہ کے امور میں ان کی دقت سے تنگ آچکا تھا .۔ لہذا اس نے خلیفہ عثمان کے پاس ان کی شکایت کی اور عثمان نے بھی اپنے بھانجے کی خواہش کے مطابق ابن مسعود کو مدینہ بلایا اور حکم دیا کہ ان کی پٹائی کی جائے اور سخت پٹائی کی گئی جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اس کے بعد حکم دیا کہ ان کی تنخواہ بند کردی جائے ، ابن مسعود اسی جسمانی اذیت کی وجہ سے بیمار ہوئے اور قریب مرگ پہنچے ۔ اس حالت میں عثمان ان کے سراہنے پر آئے اور حکم دیا کہ دو سال کے بعد دوبارہ انہیں تنخواہ دی جائے لیکن ابن مسعود نے قبول نہیں کیا۔ ابن مسعود نے ٣٢ھ میں وفات پا ئی اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ عثمان ان کے جنازہ پر حاضر نہ ہوجائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھے اور اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔ '' اسد الغابہ'' ( ٣ ٢٥٦۔ ٢٥٨)، '' جوامع السیرہ'' ص ٢٧٦ '' تقریب التہذیب '' ( ١ ٤٥٠)، تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار ( ١ ١٦٠ ۔١٦٧)

٢۔مستور دبن شداد بن عمرو قرشی فہری : اس کی ماں دعد بنتِ زین بن جابر بن حسل ہے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت نوجوان تھا ۔ مستورد نے سات حدیثیں روایت کی ہیں ۔ اس کی تمام احادیث کو حدیث لکھنے والوں نے نقل کیا ہے ، مستورد نے کوفہ اور مصر میں سکونت کی ہے اور ٤٥ ھ میں وفات پائی ہے '' اسد الغابہ'' ( ٤ ٣٥٤) ، '' مجمع الزوائد'' ص ٢٨٧ اور ' ' تقریب التہذیب '' ( ٢ ٢٤٢)

۳۵

روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ۔

لا تترک هٰذه الامة شیئاً من سنن الاولین حتیٰ تاتیه

گزشتہ قوموں کی کوئی روش باقی نہیں رہے گی مگر یہ کہ یہ امت اسے انجام دے ۔

١٢۔ احمدبن حنبل نے اپنی '' مسند'' میں اور '' مجمع الزوائد'' نے طبرانی سے نقل کرکے شداد بن اوس ١ سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لیحملن شرار هذه الامة علی سنن الذین خلوا من قبلهم اهل الکتاب حذو القذة بالقذة ''

اس امت کے بر ے لوگ اپنے سے پہلے اہل کتاب کی روش کی موبمو پیروی کریں گے۔

یہی حدیث شداد بن اوس کے حالات کی تشریح میں ابن اثیر کی کتاب '' اسد الغابہ'' میں '' اپنے سے پہلے '' کی جگہ '' آپ لوگوں سے پہلے'' کی تبدیلی کے ساتھ درج ہوئی ہے۔

____________________

١۔ شداد بن اوس ، حسان بن ثابت انصاری خزرجی کا بھتیجا ہے ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ١٥٠ حدیثیں روایت کی ہیں کہ تمام حدیث لکھنے والوں نے انھیں نقل کیا ہے ۔ شدا د نے بیت المقدس میں رہائش اختیار کی اور ٤١ یا ٥٨ یا ٦٤ ھ میں شام میں وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ'' ( ٢ ٢٨٧۔ ٢٨٥ ) ، جوامع السیرہ ص ٢٧٩ ، '' تقریب التہذیب '' ( ١ ٣٤٧)

۳۶

آسمانی کتابوں میں گزشتہ امتوں کی تحریفیں :

گزشتہ بحث میں ہمیں معلوم ہوا کہ گذشتہ امتوں میں واقع ہونے والی تحریفوں کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے خبر دیدی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی خبر دی ہے کہ یہ امت گزشتہ امتوں کی تمام روشوں پر موبمو عمل کرکے ان کی پیروی کرے گی۔

اب اگرہم اس امت میں واقع ہوئی تحریفات کا گزشتہ امتوں میں واقع ہوئی تحریفات سے موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ امتوں نے ان تحریفات کو آسمانی کتابوں میں انجام دیا ہے اور خدائے تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو یوں یاد فرمایا ہے:

(قُل مَنْ اَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَائَ بِهِ مُوسیٰ نُوراً وَ هُدیً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِیسَ تُبْدُونَهَا وَ تُخْفُونَ کَثیراً ) ١

ان سے پوچھئے کہ جو کتاب موسٰی لے کر آئے تھے وہ نور اور لوگوں کیلئے ہدایت تھی اسے تم لوگ کچھ ظاہر کرکے اور اکثر چھپا کر ایک کتاب قرار دے رہے ہو ، بتاؤ اسے کس نے نازل کیا ہے

یا فرمایا ہے:

وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیقاً یَلُونَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالکِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْکِتَابِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْکِتَابِ وَ یَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اﷲِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ

____________________

١۔انعام ٩١

۳۷

یُقُولُون عَلَی اﷲِ الکَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُونَ ا

انہیں یہودیوں میں سے بعض وہ ہیں جو کتاب پڑھنے میں زبان کو توڑ موڑ دیتے ہیں تا کہ تم لوگ اس تحریف کو بھی اصل کتاب سمجھنے لگو ،حالانکہ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ اللہ کی طرف سے ہر گز نہیں ہے یہ خدا کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں ۔

یا یوں فرماتا ہے :

(فَوَیل لِلَّذِینَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ هٰذا مِنْ عِنْدِ اللهِ لِیَشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَوَیل لَهمُ مِمَّاکَتَبَتْ اَیْدیْهِمْ وَ وَیْل لَهُم مِمَّا یَکْسِبُونَ ) ٢

واے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تا کہ اسے تھوڑے دام میں بیچ لیں ان کیلئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے اور اس کی کمائی پر بھی ۔

ہم خدا ئے تعالیٰ کی آیات کے مصداق کو ان کی موجودہ رائج کتابوں میں واضح اور روشن طور پر دیکھتے ہیں ، جیسا کہ تورات کے تکوینی سفر کے تیسرے باب میں آدم کی تخلیق کے بارے میں یوں پڑھتے ہیں ۔

خدائے تعالیٰ نے آدم سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: خیر و شر کی معرفت والے درخت

____________________

١۔آل عمران ٧٨

٢۔بقرہ ٧٩

۳۸

سے کچھ نہ کھانا ، اگر کسی دن اس سے کھایا تو مرجاؤ گے ، سانپ، جو خشکی کے حیوانوں میں مکار ترین حیوان ہے ، نے ''حوا '' سے کہا: اگر آپ لوگ اس درخت سے کھائیں گے تو مرے گیں نہیں ، بلکہ خدا جانتا ہے جس دن اس سے کھائیں گے آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی اور خداکے مانند خیر و شر سے واقف ہو جائیں گے ۔ آدم اور حوا نے اس درخت سے کھایا ' آنکھیں کھل گئیں تو انہوں نے اپنے آپ کو برہنہ پایا اور خدا کی آواز اس وقت سنی جب نسیم صبح کے وقت بہشت میں رہا تھا لہذا انہوں نے اپنے آپ کو اس سے چھپا یا ۔ خدائے تعالیٰ نے بلند آواز میں آدم سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم کہاں ہو؟ آدم نے کہا : تیری آواز کو میں نے بہشت میں سنا لیکن چونکہ میں عریاں تھا ، ڈر گیا ، اس لئے خود کو چھپا لیا ۔ خدا نے کہا : کس نے تمہیں اس امر سے آگاہ کیا کہ تم برہنہ ہو؟ کیا تم نے اس درخت سے کھایا جسے میں نے منع کیا تھا ؟! آدم نے اپنی داستان خدا کوسنائی، تو خدا نے کہا اب جبکہ آدم بھی ہماری طرح خیر و شر سے آگاہ ہو گئے ہیں لہذا بعید نہیں کہ اپنے ہاتھ کو بڑھا کر درختِ حیات سے بھی کھالیں اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں ۔ لہذا انسان کو نکال باہر کیا اوربہشت کے مشرقی حصہ میں کروبیوں کو بسایا.. اور درخت حیات کی نگہبانی کے لئے ایک چمکتی ہوئی تیز دھار تلوار معین فرمائی!!

توریت نے بہشت میں آدم کی داستان کو اس طرح بیان کیا ہے جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ شیطان تھا جس نے ان دونوں کو اس ممنوعہ درخت سے کھانے پر اکسایا ۔ قرآن مجید کا بیان یوں ہے۔

(وَ قَاسَمَهُمَا اِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِینَ فَدَلِّا هُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجََرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوَآتُهُما وَ طَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیهِمَا مِنْ وَرَقِ الجَنَّةِ وَ نَادَاهُمَا رَ بُّهُمَا اَلَمْ اَنْهَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَکُمَا اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوّ مُبِین) (اعراف ٢١' ٢٢)

اور (شیطان نے) دونوں سے قسم کھائی کہ میں تمہیں نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں ، پھر انھیں دھوکہ کے ذریعہ درخت کی طرف جھکا دیا اور جیسے ہی ان دونوں نے چکھا ، شرم گاہیں کھل گئیں اور انہوں نے درختوں کے پتے جوڑ کر شرم گاہوں کو چھپانا شروع کردیا تو ان کے رب نے آواز دی کہ کیا ہم نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور کیا میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟

۳۹

ہم نے توریت میں ذکر ہوئی آدم کی داستان کا قرآن مجید میں ذکر ہوئی اسی داستان سے موازنہ کیا اور دیکھا کہ توریت میں کس طرح حقیقت تحریف ہوکر خرافات میں تبدیل ہوئی ہے ۔

توریت کا مطالعہ جاری رکھتے ہوئے ہم اس کے سفرِ تکوینی کے انیسویں باب میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوط بنی کی بیٹیاں رات میں اپنے باپ کو مست کرکے ان کے ساتھ ہمبستری کرتی ہیں اور حاملہ ہوتی ہیں ۔ اس داستان کو توریت میں یوں پڑھتے ہیں :لوط کی بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوگئیں ان کی بڑی بیٹی نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام '' مو آب'' رکھا کہ جس سے قبیلۂ ماآبی کی نسل چلی ہے' چھوٹی بیٹی نے بھی ایک بیٹے کوجنم دیا جس کا نام '' بنی عمی'' رکھا جس سے بنی عمون کی نسل آج تک باقی ہے!!

جب ہم اس مطالعہ کے دوران اس کے تکوینی سفر کے تینتیسویں باب پر پہنچتے ہیں تو پڑھتے ہیں یعقوب پیغمبر ابتدائے شب سے صبح تک ایک قوی پہلوان سے کشتی لڑتے رہے سر انجام ان کا حریف انہیں اسرائیل کا لقب دیتا ہے یہ داستان توریت میں یوں آئی ہے:

یعقوب کا حریف جب دیکھتا ہے کہ وہ یعقوب کو مغلوب نہیں کرسکتا تو یعقوب کی ران پر ہاتھ مار کر زور سے دباتا ہے اور کہتا ہے : مجھے چھوڑدو ، پوپھٹنے کو ہے؟! یعقوب جواب میں کہتے ہیں :

جب تک مجھے مبارکباد نہ دو گے تمہیں نہیں چھوڑوں گا وہ پوچھتا ہے : تمہارانام کیا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں : یعقوب

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا کہ انصاریوں کے سلمی بنی سلمہ بن سعد، بنی تزید بن جشم بن خزرج سے ہیں کسی اور قبیلہ سے نہیں ۔

ساتویں صدی ہجری کا نامور نسب شناس ابن قدامہ عبید بن صخر اور اس کی داستان کو مندرجہ ذیل مشہور و معروف کتابوں میں دیکھ کر متثر ہوا ہے ِ:

١۔ سیف ابن عمر کی کتاب ' ' فتوح'' ( ١٢٠ ھ تک با حیات تھا)

٢۔۔ امام المؤرخین طبری کی تاریخ ( وفات ٣١٠ ھ

٣۔ بغوی کی '' معجم الصحابہ'' ( وفات ٣١٧ ھ )

٤۔ ابن قانع کی '' معجم الصحابہ'' (وفات ٣٥١ ھ)

٥۔ اسحاق بن مندہ کی '' اسماء الصحابہ'' ( وفات ٣٩٥ھ)

٦۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ) کی '' معرفة الصحابہ'' ابن اثیر کی روایت کے مطابق '' اسد الغابہ' ' میں ۔

٧۔ ابن عبدا لبر ( وفات ٤٦٣ ھ کی '' استیعاب'' میں

٨۔ ابن مندہ ( وفات ٤٧٠ ھ) کی '' التاریخ المستخرج من الحدیث''

٩۔آخر میں ابن قدامہ ( وفات ٦٢٠ ھ ) کی '' نسب الصحابہ من الانصار '' ۔ابن قدامہ نے مذکورہ کتابوں کے علاوہ ان جیسی دیگر کتابوں میں عبید کا نام دیکھا ہے اور یہ تصور کیا ہے کہ عبید رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا صحابی تھا۔اسی لئے اس کے نام کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔

لیکن اس نے اور مذکورہ دوسرے دانشوروں نے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ ان تمام روایتوں کا ماخذ صرف سیف بن عمر ہے جو کہ دروغ سازی اور زندیقی ہونے کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

عبید بن صخر کو اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالنے والے تمام علماء نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے زمرے میں قرار دیا ہے ۔لیکن ان حجر کے بقول ابن سکن ( وفات ٣٥٣ ھ) کا کہنا ہے: کہ

۱۰۱

لوگ کہتے ہیں : وہ ۔۔ عبید۔۔ اصحاب میں سے ہے ۔ لیکن اس کی حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں ۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ ابن سکن اس صحابی اور اس کی حدیث کے بارے میں مشکوک تھا لیکن اس نے اپنے شک و شبہہ کے سبب کا اظہار نہیں کیا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ ابن حجر بھی اس صحابی کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوا ہے شاید اسی لئے اس نے اپنی بات کے اختتام پر اس کے بارے میں '' ز'' کی علامت لگائی ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر اس رمز سے اس وقت کام لیتا جب اس صحابی کے بارے میں دوسرے تذکرہ نویسوں جیسے ، ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' میں اور ذہبی کی '' تجرید '' میں لکھے گئے مطالب پر کچھ اضافہ کرتا یا ممکن ہے یہ غلطی عبارت نقل کرنے والے کی ہو۔

خلاصہ

ہم نے عبید بن صخر کو جس طرح اسے سیف نے خلق کیا ہے اس کی مذکورہ سات روایتوں میں پایا اور سیف نے اپنی اس تخلیق کو اس طرح پہنچوایا ہے:

١۔ عبید وہ شخص تھا جسے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے بعد اپنے گماشتے کی حیثیت سے یمن بھیجا تھا ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن اپنے کارندوں اور گماشتوں کو یمن کیلئے ممور فرماتے ہوئے تاکید فرمائی ہے کہ اپنے امور میں زیادہ تر قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور

٣۔ تیس گائے کیلئے حد نصاب گائے کے ایک سالہ ایک بچھڑے کو تعیین فرمایا ہے و...

٤۔ اور معاذ بن جبل کو اس کے ہمراہ اہالی یمن اور حضرموت کیلئے معلم معین فرماکر فرمایا: میں نے تحفہ و تحائف تمہارے لئے حلال کردیے ہیں ۔ اور معاذ تیس جانوروں کو لئے مدینہ لوٹا ، جو اسے تحفہ کے طور پر ملے تھے۔

٥۔ یہاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: وہ قیامت کے دن اس حالت میں اٹھے گا کہ اس کا مقام تمام علماء اور محققین سے بلند ہوگا۔

٦۔ جھوٹی پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے '' اسود'' نے پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کو لکھا کہ ہماری جن سرزمینوں پر قابض ہوئے ہو ، انھیں واپس کردو، اس نے ایرانیوں سے جنگ کرکے انھیں شکست دی اور نتیجہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو گماشتے اور گورنر معاذ اور ابو موسی جو یمانی قحطانی تھے ، حضرموت بھاگ گئے اور باقی افراد نے یمانی گورنر طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوکر وہاں پناہ لی۔

۱۰۲

داستان عبید کے ماخذ کی پڑتال

سیف بن عمر نے مذکورہ سات احادیث کو سہل بن یوسف بن سہل سلمی سے اس نے اپنے باپ سے اور اس عبید بن صخر سے کہ سہل ، یوسف اور عبید تینوں سیف کے خیالات کی ہیں ، نقل کرکے بیان کیا ہے

اس بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے روایت کی ہے کہ عبید بن صخر یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ و گماشتہ تھا ، لیکن ہم نے اس کا نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کی فہرست میں سیف کے علاوہ اور وہ بھی افسانۂ طاہر میں ، کہیں اور نہیں دیکھا ۔ سیف نے عبید کی زبانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک حدیث نقل کی ہے جو کہ گائے کی زکات کا نصاب مقرر کرنے ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کی راہنمائی معاذ کیلئے تحفہ لینے کو حلال قرار دینے سے مربوط ہے اس کے علاوہ اس کی زبان سے مدعی پیغمبر '' اسود'' کی بغاوت ، پیغمبر کے گماشتوں اور کارندوں کے ابو ہالہ مضری کے ہاں پناہ لینے اورارتداد کے دیگر واقعات کے بارے میں بھی ایک روایت نقل کی ہے ہمیں اس قسم کے مطالب رجال اور روات کی تشریح سے مربوط کتابوں میں کہیں بھی نہیں ملے۔

جو کچھ ہم نے سیف کے ہاں عبید بن صخر کے بارے پایا یہی تھا جس کا ہم نے ذکر کیا سیف نے ان روایتوں میں عبید کی شجاعتوں اور دلاوریوں کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اور قصیدوں ، رزمی اشعار اور میدان کارزار میں خودستائیو کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیف شجاعتوں ' پہلوانیوں ، جنگی کارناموں اور رجزخوانیوں کو پہلے مرحلہ میں صرف خاندان تمیم کیلئے اور دوسرے درجے میں مضر اور ان کے ہم پیمانوں کیلئے خلق کرتا ہے اس کے بعد کے درجے کے کردار ان کے حامیوں اور طرفداروں کیلئے مخصوص کرتا ہے تاکہ وہ سیف کے اصلی سورماؤں کیلئے مداحی اور قصیدہ خوانی کریں ، اور گرفتاری و مشکلات میں ان کے ہاں پناہ لیں اور ان کے سائے میں اطمینان اور آرام کا سانس لیں ۔ اور یہ وہی دوسرا کردار ہے جسے سیف نے اس افسانہ میں عیبد بن صخر انصاری سبائی یمانی کیلئے بیان کیا ہے ۔

۱۰۳

یہاں پر بیجا نہیں ہوگا اگر ہم یہ کہیں کہ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت دی گئی جھوٹی حدیث کے مطابق اور اس کے دعوے کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاذ بن جبل سے فرماتے ہیں '' تحفہ و تحائف کو میں نے تم پر حلال کردیا ہے ' ' یہاں تک کہ کہتا ہے : '' معاذ اپنی ماموریت کی جگہ سے تیس حیوانوں کولے کر مدینہ لوٹے ، جو انہیں تحفہ کے طور پر ملے تھے'' یہ سب اسلئے ہے کہ سیف خاندان '' بنی امیہ '' کے حکام کا دفاع کرے اور حکمرانی کے دوران ان کے نامناسب اقدام اور جبری طور پر لوگوں سے مال لینے اور رشوت ستانیوں کی معاذ کے اس افسانہ کے ذریعہ توجیہ کرے

بنی امیہ کے سرداروں کے اجبار، زبردستی اور رشوت ستانی کی توجیہ کرنے کی سیف کی کوشش اس لئے ہے کہ وہ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مقام و منزلت کا تحفظ اور ان کے افتخارات کا دفاع در حقیقت سیف کا اپنا مشن ہے ۔

۱۰۴

اکتیسواں جعلی صحابی صخر بن لوذان انصاری

یہاں تک جو کچھ ہم نے بیان کیا وہ سیف بن عمر کے صرف ایک جعلی اور خیالی صحابی عبید بن صخر کے بارے میں اس کے جھوٹ پر مبنی روایتیں تھیں ۔ لیکن بعض علماء اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور اسی سیف کے ایک جعلی صحابی کو دو شخص تصور کر بیٹھے ہیں اور ہر ایک کے حالات پر الگ الگ تشریحیں لکھی ہیں ، ملاحظہ فرمائیے:

ابو القاسم ، عبد الرحمان بن محمد بن اسحاق بن مندہ ( وفات ٤٧٠ ھ) ١ اپنی کتاب ''التاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث'' کے باب ''صاد'' میں یوں لکھتا ہے :

صخر بن لوذان ، حجاز کا رہنے والا اور عبید کا باپ ہے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے عمار کے ہمراہ مموریت پربھیجا ہے ۔ درج ذیل حدیث اس کے بیٹے عبید نے اس سے روایت کی ہے:

تعاهدو الناس بالتذکرة و الموعظة

اس کے بعد باب '' عین'' میں لکھتا ہے:

عبید بن صخر بن لوذان حجاز کا باشندہ ہے اور یوسف بن سہل انصاری نے اس سے حدیث قرآن اور

____________________

١۔ جیسا کہ کتاب ا'' العبر'' (٣ ٢٧٤) میں آیا ہے کہ ابو القاسم در اصل اصفہانی تھا ، وہ حافظِ حدیث اور بہت سی کتابوں کا مصنف تھا ، اس کے بہت سے مرید تھے اہل سنت ، مکتف خلفاء کی پیروی کرنے میں سخت متعصب انسان تھا اور خدا کے لئے جسم کا قائل تھا ، ابو القاسم نے ٨٩ سال زندگی کی ہے)

۱۰۵

کتاب کی روایت کی ہے ۔

اس طرح ابن مندہ کا پوتا ابو القاسم غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور سیف کے ایک جعلی صحابی کو دو شخص سمجھ کر اس کی ایک من گڑھت حدیث کو دو حدیث تصور کیا ہے اور انہیں اپنی کتاب میں درج کیا ہے !

یہ اس حالت میں ہے کہ سیف کا جعلی صحابی وہی عبید بن صخر لوذان ہے جس کے لئے سیف نے حدیث گڑھی ہے جو ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' اور ابن حجر کی '' اصابہ'' میں درج ہوئی ہے ، حسبِ ذیل ہے:

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتوں اور کارندوں کو یمن میں متعین کرکے فرمایا :

تعاهدوا القرآن بالمذاکرة و اتبعوا الموعظة

لیکن اس جعلی حدیث کا متن ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں تحریف ہو کر یوں ذکر ہوا ہے:

تعاهدوا الناس بالمذاکرة و اتبعوا الموعظة

اور یہی امر ابو القاسم کے غلط فہمی سے دوچار ہونے کا سبب بنا ہے اوروہ اس ایک حدیث کو دو تصور کر بیٹھا ہے ان میں سے ایک '' تعاھدوا الناس بالمذاکرہ'' کو اس کے خیال میں عبید نے اپنے باپ صخر سے نقل کیا ہے اور دوسری '' تعاھدوا القرآن بالمذاکرہ...'' جسے اس کے زعم میں یوسف بن سہل نے عبید سے قرآن و کتاب کے بارے میں نقل کیا ہے۔

یہاں پر ہم تقریباً یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان دو دانشوروں کے سیف کی ایک خیالی حدیث کو دو جاننے کا سبب یہی تھا ۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قا صر ہیں کہ کس طرح عبید کے باپ ، صخر کے بارے میں غلطی فہمی کا شکار ہو اہے اور تصور کیا ہے کہ سیف نے اس سے اس کے بیٹے عبید کے ذریعہ یہ حدیث روایت کی ہے ؟ جبکہ ہم نے گزشتہ تمام مصادر میں کہیں ایسی چیز نہیں دیکھی ۔

ہم یہ بھی کہہ دیں کہ یہدانشور اسی سلسلہ میں چند دیگر غلط فہمیوں کا بھی شکار ہوا ہے جیسے لکھتا ہے : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صخر کو عمار کے ہمراہ یمن بھیجا ، جبکہ اس قسم کا کوئی مطلب سیف کی احادیث میں نہیں آیا ہے۔

بہر حال سیف کی حدیث کو غلط پڑھنا اس امر کا سبب بنا ہے کہ سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں '' صخر بن لوذان'' نامی ایک اور صحابی کا اضافہ ہوجائے اور اس کے جعلی صحابیوں کی تعداد بڑھ جائے۔

۱۰۶

سیف کی احادیث کا نتیجہ

١۔ انصار میں سے دو صحابیوں کی تخلیق جن کے حالات کی تشریح اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کتابوں میں آئی ہے ۔ ان میں سے ایک کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ اور کارندہ بننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی

٢۔ آداب و احکام کے سلسلے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک حدیث۔

٣۔ ارتداد کی جنگوں کے بارے میں ایک خبر۔

یہ سب چیزیں اس سیف کی احادیث کے وجود کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں جو وہ زندیقی ہونے کا ملزم بھی ہے۔

٤۔ حجاز کے باشندوں میں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے چند راویوں کی تخلیق ، جن کے حالات پر علم رجال کی کتابوں میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

سیف نے کن سے روایت کی؟

گزشتہ روایات کو سیف نے چند خیالی راویوں سے نقل کیا ہے۔

١۔ سہل بن یوسف بن سہل سلمی اور ایسا ظاہر کیا ہے کہ اس سہل نے اپنے باپ یوسف سے روایت کی ہے۔

٢۔ یوسف بن سہل سلمی' کہ اس یوسف نے خود داستان کے کردار عبید سے روایت کی ہے۔

٣۔ عبید بن صخر بن لوذان سلمی' کہ یہ تینوں راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

۱۰۷

اس جھوٹ کو پھیلانے کے منابع:

ہم نے اس بحث کے دوران عبید کی روایت کو سیف سے نقل کرنے و الے آٹھ منابع کا ذکر کیا ہے ۔ باقی مصادر حسبِ ذیل ہیں :

٩۔ ابن سکن ( وفات ٣٥٣ ھ) ابن حجر کی روایت کے مطابق اس نے اپنی کتاب '' حروف الصحابہ'' میں ذکر کیا ہے ۔

١٠۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ ) نے '' اسد الغابہ '' میں ۔

١١۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ) نے اپنی ان کتابوں میں :

الف) '' تجرید اسماء الصحابہ''

ب) '' سیر اعلام النبلائ''

١٢۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ) نے '' اصابہ '' میں ۔

مصادر و مآخذ

عبید بن صخر کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی استیعاب ( ٢ ٤٠٨)

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٣ ٣٥١)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٨٥٢)

٤۔ تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢)

٥۔ ابن قانع کی '' معجم الصحابہ'' اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ حضرت امیر المؤمنین نجف اشرف میں موجود ہے ۔ ورقۂ ١٠٧ ب

٦۔ ابن مندہ کی '' تاریخ مستخرج '' ( ص ١٥٢)

٧۔ ''نسب الصحابہ من الانصار'' از ابن قدامہ (١٨٢ اور ٣٥٠)

۱۰۸

بنی سلمہ کا نسب

١۔ ابن حزم کی'' جمہرة انساب'' ( ٣٥٨۔ ٣٦١)

٢۔ '' اللباب '' لفظ '' سلمی'' ( ١ ٥٥٤)

قبیلۂ اوس میں بنی لوذان کا نسب

١۔ ابن حزم کی '' جمہرہ'' صفحات ( ٣٣٢ ، ٣٣٧، ٧٤٠) اور( ٣٥٣، ٣٦٢، ٣٦٣، ٣٥٦)

اسود عنسی کی داستان اور عبید بن صخر کی بات

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٨٥٣، و ١٨٦٨)

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ'' عبید کے حالات کے ضمن میں ۔

اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ '' عارف افندی ' مدینۂ منورہ میں موجود ہے۔

معاذ بن جبل کے حالات

١۔ بغوی کی ''معجم الصحابہ'' ( ٢١ ١٠٦ ) اس کتاب کا ایک نسخہ کتاب خانۂ آیت اللہ مرعشی نجفی ، قم میں موجود ہے۔

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٣ ٤٠٦)

٣۔ ذہبی کی '' سیر اعلام النبلائ'' ( ١ ٣١٨ ۔ ٣٢٥)

صخر بن لوذان کے حالات :

١۔ تاریخ المستخرج '' تالیف ابو القاسم عبد الرحمان بن اسحاق بن مندہ، ورقہ ١٤٠۔

۱۰۹

بتیسواں جعلی صحابی عکاشہ بن ثور الغوثی

عکاشہ ، یمن میں ایک کارگزار کی حیثیت سے :

طبری ، مدعی پیغمبری '' اسود '' کی داستان اور ١١ھ کے واقعات کے ضمن میں سیف بن عمرسے نقل کرکے لکھتا ہے :

١٠ ھ میں جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فریضہ حج ( وہی حجة الوداع' انجام دیا ، تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ ''باذام '' نے یمن میں وفات پائی ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی مموریت کے علاقہ کو حسبِ ذیل چند اصحاب میں تقسیم فرمایا:

اس کے بعد طبری، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یمن کیلئے مموریت پر بھیجے گئے اشخاص میں طاہر ابو ہالہ جسے سیف نے حضرت خدیجہ کا بیٹا اور رسول اللہ کاپروردہ بتایا ہے کا نام لے کر کہتا ہے:

اور زیاد بن لبید بیاضی کوحضرموت پر اور عکاشہ بن ثور بن اصغرغوثی کو سکاسک و سکون اور بنی معاویہ بن کندہ پر ممور فرمایا.... ( تا آخر)طبری نے ، اس روایت کے بعد ایک دوسری روایت میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ لوٹے اور یمن کی حکومت کو چند سر کردہ اصحاب کے درمیان تقسیم فرمایا اور ان میں سے ہر ایک کی مموریت کے حدود کو معین فرمایا۔

(یہاں تک کہ لکھتا ہے :)

عک اور اشعریین پر طاہر ابو ہالہ کو معین فرمایا اور حضرموت کے اطراف جیسے ، سکاسک و سکون پر عکاشہ بن ثور کو ممور فرمایا اور بنی معاویہ بن کندہ پر عبد اللہ ١ یا مہاجر کونامزد فرمایا۔ لیکن مہاجر بیمار ہوگیا اور مموریت کی جگہ پر نہ جا سکا مگر، صحت یاب ہونے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی رحلت کے بعد ابوبکر نے اسے مموریت پر بھیجا۔ عکاشہ ٢ اور دیگر لوگ اپنی مموریت کی طرف روانہ ہوئے۔

حضرموت پر زیا بن لبید کو ممور فرمایا گیا اور وہ مہاجر کی عدم موجودگی میں اس کی مسئولیت کو بھی نبھاتا رہا۔

یہ لوگ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت تک یمن اور حضرموت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارگزار تھے۔ طبری نے ایک اور روایت میں عبید بن صخر۔ سیف کے افسانہ کے مطابق جو خود بھی یمن میں رسول

___________________

١۔ یہاں پر عبد اللہ سے سیف کی مراد عبد اللہ بن ثور ہے جو اس کا اپنا خلق کردہ ہے ، تعجب کی بات ہے کہ سیف اپنے جھوٹ کو پیش کرنے میں اس طرح احتیاط و تقدس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: مجھے نہیں معلوم یہ عبد اللہ تھا یا مہاجر !! تا کہ اس کا جھوٹ حق کی جگہ لے لے اور دلوں کو آرام ملے۔

٢۔اصل میں '' محصن '' لکھا گیا ہے جو غلط ہے ، کیونکہ عکاشہ بن محصن مدینہ میں تھا اور اس نے خالد کی فوج میں ہر اول دستے کے طور پر طلیحہ سے جنگ میں شرکت کی ہے اور اس کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اس مطلب کو سیف اور دوسروں نے ذکر کیا ہے لیکن جو کچھ یمن میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارگزاروں کے بارے اور حضرموت میں ارتداد کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں میں آیا ہے وہ '' عکاشہ بن ثور'' سے مربوط ہے۔

۱۱۰

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارگزارتھا۔ سے نقل کرکے لکھا ہے :

جب ہم اس علاقہ ۔۔ مموریت کی جگہ۔۔ کو شائستہ طریقے پر چلا رہے تھے ، ہمیں پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے اسود کا ایک خط ملا، اس میں لکھا تھا۔

اے لوگو! جو ناخواستہ ہم پر مسلط ہوئے ہو ! اورہماری ملکیت میں داخل ہوئے ہو جو کچھ ہماری سرزمین سے لوٹ چکے ہو' اسے ایک جگہ ہمارے لئے جمع کردو، ہم تمہاری نسبت اس پر تصرف کرنے کے زیادہ سزاوار ہیں ( یہاں تک لج کہتا ہے:)

ہمیں خبر ملی کہ اسود نے صنعا پر قبضہ کیاکر لیا ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام کارگزار وہاں سے بھاگ گئے ہیں اور باقی امراء اور حاکم طاہر ابو ہالہ کے ہاں جا کر پناہ لے چکے ہیں ۔

طبری حضرموت کے باشندوں کے مرتد ہونے کے بارے میں ١١ ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھتا ہے :

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت حضرموت اور دیگر شہروں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارگزار حسبِ ذیل تھے:

زیاد بن لبید بیاضی، حضرموت پر ، عکاشہ بن ثور سکاسک و سکون پر اور مہاجر کندہ پر ، مہاجر اسی طرح مدینہ میں رہا اور جائے مموریت پر نہ گیا یہاں تک کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی۔ اس کے بعد ابو بکر نے اسے باغیوں سے نمٹنے کیلئے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ بغاوت کو کچلنے کے بعد اپنی مموریت کی جگہ پر جائے۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد طبری ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجربن ابی امیہ کو کندہ کیلئے ممور فرمایا لیکن مہاجر بیمار ہو گیا اور مموریت کی جگہ پر نہ جا سکا ، لہذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زیاد کے نام ایک خط لکھا تا کہ مہاجر کے فرائض نبھائے ۔

مہاجر کے صحت یاب ہونے کے بعد ، ابو بکر نے اس کی مموریت کی تائید کی اور حکم دیا کہ پہلے نجران کے باغیوں سے نپٹنے کیلئے یمن کے دور دراز علاقوں تک جائے ۔ یہی وجہ تھی کہ زیاد بن ولید اور عکاشہ نے کندہ کی لڑائی میں مہاجر کے آنے تک تاخیر کی۔

۱۱۱

تینتیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن ثور الغوثی

عبد اﷲ ثور ، ابوبکر کا کارگزار

طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے طاہر ابو ہالہ کی داستان میں لکھا ہے :

اس سے پہلے ابو بکر نے '' عبد اللہ بن ثور بن اصغر '' کو فرمان جاری کیا تھا کہ اعراب اور تہامہ کے لوگوں میں سے جوبھی چاہے اس کی فوج میں شامل ہوسکتا ہے ، اور عبداﷲ کو تاکید کی تھی کہ ابو بکر کے حکم کے پہنچنے تک وہیں پر رکا رہے ..

سیف کہتا ہے:

جب مہاجر ابو بکر سے رخصت لے کر مموریت پر روانہ ہوا تو عبدا للہ ثور تمام سپاہیوں سمیت اس سے ملحق ہوا ( اس کے بعد کہتا ہے :)

مہاجر نجران سے '' لحجیہ'' کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں پر اسود کے بھاگے مرتد سپاہیوں نے اس سے پناہ کی درخواست کی ۔ لیکن مہاجر نے ان کی یہ درخواست منظور نہیں کی ۔

طبری اس مطلب کے ضمن میں لکھتا ہے :

مہاجر کے سوار فوجیوں کی کمانڈ عبدا ﷲ بن ثور غوثی کے ہاتھ میں تھی اخابث کے راستہ پر عبدا للہ کی ان فراریوں سے مڈ بھیڑ ہوئی ۔ اس نے ان سب کا قتل عام کیا ۔

طبری نے ان تمام روایتوں کو صراحت کے ساتھ سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اس کے بعد طبری صدقات کے امور میں ابو بکر کے کارگزاروں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :

کہتے ہیں اس کے علاوہ عبد اللہ بن ثور نے ۔۔۔ قبیلۂ غوث کے افراد میں سے ایک شخص ۔۔ کو علاقہ '' جرش'' پر مامور کیا۔

طبری نے اس حدیث کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن ابن حجر عبد اﷲ کے حالات کی تشریح میں صراحت سے کہتا ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہے۔

۱۱۲

عکاشہ اور عبد اللہ کی داستان کے مآخذ کی تحقیق

ہم نے جو روایتیں سیف سے نقل کیں ہیں ، ان میں درج ذیل جعلی راویوں کے نام دکھائی دیتے ہیں :

١۔ سہل بن یوسف، چار روایتوں میں ۔

٢۔ یوسف بن سہل ، دو روایتوں میں ۔

٣۔ اور درج ذیل سیف کے جعلی راوی میں سے ہر ایک نے ایک روایت نقل کی ہے :

٣۔ عبید بن صخر

٤۔ مستنیر بن یزید

٥۔ عرو ہ بن غزیہ

سیف کی روایتوں کا موازنہ

مذکورہ روایت ، داستانِ اخابث ( ناپاک ) اور داستان عبید بن صخر میں طاہر ابو ہالہ کی روایت کی متمم ہے اور ہم نے ان دو صحابیوں کی بحث کے دوران ثابت کیا ہے کہ خود یہ اور ان کی داستانیں جعلی اور سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

ان میں سے بعض روایات پیغمبری کے مدعی ، اسود عنسی کی داستان سے مربوط ہیں ' ہم نے کتاب '' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں اس پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور وہاں پر ہم نے بتایا ہے کہ سیف نے کس طرح حقائق کو بدل کر رکھدیا ہے اور کن چیزوں میں تحریف اور تبدیلی کی ہے ۔ یہاں پر اس کی تکرار کی مجال اور گنجائش نہیں ہے ۔

ہاں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کی طرف سے ان کی نمائندگی اور کارندوں کی حیثیت سے مموریت کے بارے میں سیف کی روایت کو ہم نے تحقیق کے دوران خلیفہ بن خیاط اور ذہبی جیسے دانشوروں کے ہاں نہیں پایا اور نہ ہی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے کارگزاروں کے حالات کی تشریح لکھنے والوں کے ہاں ۔ یہ دو جعلی اصحاب کہیں دکھائی دیئے۔

۱۱۳

روایت کا نتیجہ

سیف نے عکاشہ بن ثور غوثی اور اس کے بھائی عبد اللہ بن ثور غوثی کی روایت اپنی کتاب ''فتوح '' میں درج کرکے طبری جیسے دانشور کو ١٠ ۔ ١٢ ھ کے حوادث کے ضمن میں ان ہی مطالب کو نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن خلدون اور میر خواند نے بھی ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے ۔

ابن عبد البر نے سیف کی تحریر پر اعتماد کرکے حسبِ ذیل مطالب کو اپنی کتاب '' استیعاب'' میں نقل کیا ہے :

عکاشہ بن ثور بن اصغر قرشی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے سکاسک ، سکون او ر بنی معاویۂ کندہ پر بعنوان گماشتہ اور کارندہ ممور تھا ۔ ان مطالب کو سیف نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ، اور میں ۔۔ ابن عبد البر ۔۔ اس کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں ۔

ابن اثیر نے ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' سے عین عبارت کو نقل کیا ہے اور ذہبی نے انہی مطالب کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' تجرید '' میں نقل کیا ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں یوں لکھا ہے :

عکاشہ بن ثور بن اصغر کا نام سیف نے داستان ارتداد کی ابتدا ء میں سہل بن یوسف سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبدی بن صخر بن لوذان سے نقل کرکے لکھا ہے کہ وہ سکاسک و سکون پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ تھا ۔ ابو عمر ۔۔ ابن عبد البر ۔۔نے ان مطالب کو نقل کیا ہے۔

اس طرح ان دانشوروں نے سیف کی روایت پر اعتماد کرکے عکاشہ کے حالات سند کے ذکر کے ساتھ اپنی کتابوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے حالات کی فہرست میں درج کیا کئے ہیں ۔

روایات سیف پر اس اعتماد کی بنا پر ، اس کے خیالی بھائی کے حالات کو بھی دیگر اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیا گیا ہے ۔ توجہ فرمائیے کہ ابن حجر اس سلسلے میں کہتا ہے :

۱۱۴

عبدا ﷲ بن ثور ، قبیلۂ بنی غوث کا ایک فرد ہے۔ اس کا نام سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں چندجگہوں پر ذکر کیا ہے ۔ وہ ارتداد کی جنگوں میں سپاہ اسلام کا ایک سپہ سالار تھا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر نے اس کے حق میں ایک فرمان جاری کیا کہ اعراب اور تہامہ کے باشندے اس کی اطاعت کریں اور اسی ۔۔ عبد اللہ ۔۔ کے پرچم تلے جمع ہوجائیں ۔ اور عبد اللہ وہیں پر رکا رہے جب تک اس کیلئے حکم نہ پہنچے ۔ سیف نے یہ بھی روایت کی ہے کہ وہ مہاجر بن ابی امیہ کے ہمراہ '' جرش '' کی گورنری کا عہدہ سنبھالنے کیلئے وہاں گیا اور وہاں سے صوب کی طرف کوچ کیا۔ اور ہم نے ۔۔ ابن حجر ۔۔ چند بار کہا ہے کہ ان دنوں رسم یہ تھی علاقائی حکومت یا فوجی کمانڈ کیلئے صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کو ہی منصوب کرتے تھے (ز)

ابن حجر نے جو تشریح عبد اﷲ کے بارے میں لکھی ہے اس میں یہ مطالب ظاہر ہوتے ہیں :

١۔ سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں چند جگہوں پر عبد اللہ ابن ثور کا نام ذکر کیا ہے ۔

٢۔ عبد اللہ ارتداد کی جنگوں میں سپہ سالار تھا۔

٣۔ ابو بکر نے اس کیلئے فرمان جاری کیا ہے کہ اعراب اور تہامہ میں اس کے حامی اس کے گرد جمع ہوکر حکم پہچنے تک منتظر رہیں ۔

٤۔ عبد اللہ جب '' جرش'' کے گورنر کے طور پر منصوب ہوا تو وہ مہاجر کے ہمراہ روانہ ہوا تھا۔

تمام مطالب کو طبری نے سیف کی سند کے ذکر کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

صرف عبداللہ کی گورنری' جس کی سند طبری نے ذکر نہیں کی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اس حصہ کی سند بھی سیف کے نام کی صراحت کے ساتھ ذکر کی ہے۔

۱۱۵

چونتیسواں جعلی صحابی عبید اللہ بن ثور غوثی

ایسا لگتا ہے کہ ابن حجر جیسا جلیل القدر عالم سیف کی کتاب '' فتوح '' میں عبد اللہ بن ثور کا نام پڑھتے وقت سخت غلطی کا شکا رہوا ہے اور اسے '' عبید اﷲبن ثور '' پڑھا ہے یا یہ کہ اس کے پاس موجود نسخہ میں اس نام میں یہ تبدیلی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پائی ہو۔

بہر حال خواہ یہ غلطی کتابت کی ہو یا محترم دانشور نے اسے غلط پڑھا ہو ، اصل میں جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ابن حجر نے عبید اللہ بن ثور کے حالات پر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں الگ سے روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے :

عکاشہ کے بھائی ، عبید اللہ بن ثور بن اصغر عرنی کے بارے میں سیف نے کہا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عکاشہ کو سکاسک اور سکون کیلئے اپنا گماشتہ مقرر فرمایا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ابو بکر نے اس کے بھائی عبید اللہ کو یمن کی حکمرانی پر منصوب کیا ۔

ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ ان دنوں رسم یہ تھیکہ صرف صحابی کو حکومت اور سپہ سالاری پر منصوب کیا جاتا تھا ۔(ز)

ابن حجر کی اس بات '' اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ اس زمانے میں یہ رسم....'' پر انشاء اللہ ہم اگلی بحثوں میں وضاحت کریں گے ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک کہا وہ ثور کے تین بیٹوں کی داستان تھی جسے ہم نے تاریخ کی عام کتابوں اور رجال اور اصحاب کے حالات پر لکھی گئی کتابوں سے حاصل کیا ہے ۔

لیکن جس چیز کو آپ ذیل میں مشاہدہ کررہے ہیں وہ سیف کے ان تین جعلی اصحاب کے بارے میں انساب کی کتابو ں میں درج ذیل مطالب ہیں :

۱۱۶

مذکورہ تین اصحاب کا نسب

تاریخ طبری میں ، سیف کی روایتوں کے مطابق ان تین '' غوثی '' صحابیوں کا شجرۂ نسب درج ہوا ہے ۔ لیکن '' استیعاب '' میں غلطی سے '' قرشی '' ، ' اسد الغابہ'' اور '' تجرید ' میں '' غرثی '' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں ''' عرنی '' ثبت ہوا ہے ۔

یہ اس حالت میں ہے کہ ہم نے ان نسب شناس علماء کے ہاں '' عکاشہ '' اور '' عبید اللہ '' کا نام نہیں پایا، جنہوں نے بنی غوث بن طے کے بارے میں تفصیلات لکھی ہیں ۔ جیسے ابن حزم نے اپنی کتاب'' جمہرہ '' میں اور ابن درید نے '' اشتقاق '' میں اور اس طرح کی دوسری کتابوں کا بھی ہم نے مطالعہ کیا لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی اس سلسلے میں درج ذیل مطالب کے علاوہ کچھ نہیں پایا:

ابن ماکو لا اپنی کتاب '' اکمال '' میں لفظ ' غوثی'' کے بارے میں لکھتا ہے :

عکاشہ بن ثور بن غوثی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سکاسک ، سکون اور معاویہ بن کندہ کیلئے ممور فرمایا تھا اور ابو بکر صدیق نے اس کے بھائی عبد اللہ بن ثور اصغر کو یمن کا حاکم منصوب کیا تھا۔

سمعانی نے بھی لفظ '' غوثی'' کے بارے میں اپنی کتاب انساب میں لکھا ہے :

'' غوثی '' در حقیقت غوث کی طرف نسبت ہے ۔ اس قبیلہ کے سرکردہ صحابیوں میں عکاشہ بن ثور بن اصغر غوثی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سکاسک ،سکون اور معاویہ بن کندہ کا حاکم مقرر فرمایا تھا۔

ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے اس کی عبارت کو من عن اپنی کتاب '' لباب الانساب ''۔۔ جو سمعانی کی کتاب '' انساب '' کا خلاصہ ہے ۔۔ میں ثبت کیا ہے اور اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے۔

ا بن حجر بھی اپنی دوسری کتاب '' تحر یر المشتبہ '' میں لکھتا ہے :

عکاشہ بن ثور غوثی اصحاب میں سے تھا

۱۱۷

فیروزآبادی نے اپنی کتاب '' قاموس '' میں لفظ '' عکش '' میں یوں لکھا ہے:

عکاشہ الغوثی ، ابن ثور اور ابن محصن تینوں اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ۔

زبیدی بھی اپنی کتاب شرح '' تاج العروس '' میں لکھتا ہے :

جیسا کہ کہا گیا ہے عکاشہ بن ثوربن اصغر غوثی ، سکاسک میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارگزار تھا۔

مختلف عرب قبائل کے نسب شناس علماء میں سے کسی ایک نے اب تک کسی کو غوثی کے طور پر متعارف نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ بنی غث کے سرکردہ افراد بنی غث بن طی '' طائی'' کے نام سے مشہور ہیں نہ غوثی ۔ جیسے حاتم طائی اور اس کا بیٹا عدی طائی ۔ اسی لئے سمعانی لکھتا ہے ١

____________________

١۔عکاشہ بن ثور ، سمعانی کے زمانے میں '' غوثی'' کے نام سے مشہور تھا کیونکہ اس سے پہلے عکاشہ کا نام اسی انتساب سے سیف کی کتاب '' فتوح'' میں آیا ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے بعد رجال و اصحاب کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں میں ، جنہوں نے اس کے حالات سیف سے نقل کئے ہیں ، غوثی کا نام آیا ہے ، جیسا کہ '' تاریخ طبری '' ، ابن عبد البر کی '' استیعاب '' اور ابن ماکولا کی ''اکمال' ' میں درج ہوا ہے ۔

۱۱۸

'' غوثی '' عکاشہ اس انتساب سے مشہور ہے ۔

ابن اثیر کو اس مطلب کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ملی اس لئے اسی کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' لباب '' میں لکھا ہے ۔

''جو کچھ ذہبی کی '' تحریر المشتبہ '' میں آیا ہے حسب ذیل ہے :

' ' الغوثی ۔ ابو الھیثم ، احمد بن محمد بن غوث ، حافظ ابو نعیم کا مرشد اور استاد تھا''

اور معلوم ہے کہ یہ غوث انساب عرب میں سے ہمارا مورد بحث نسب نہیں ہے۔

خلاصہ :

سیف نے عکاشہ بن ثور بن اصغر غوثی کو بنی غوث سے خلق کیا ہے اور لفظ '' غوثی'' سے '' قرشی'' ، '' غرثی'' ، '' عرنی '' لکھا گیا ہے اور تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ' بنی غوث ' تغیر کرکے '' بنی یغوث'' درج ہوا ہے ۔

سیف ، عکاشہ کے بارے میں کہتا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ حجة الوداع سے واپسی پر اسے سکاسک اور سکون کی مموریت عطا فرمائی تھی اور ابوبکر کی خلافت تک عکاشہ وہیں پر تھا۔

سیف نے عکاشہ کیلئے ایک بھائی خلق کرکے اس کا نام عبدا للہ بن ثور رکھا ہے ۔ اور کہا ہے کہ ارتداد کی جنگوں میں ابو بکر نے اس کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ افراد کو اپنی مدد کیلئے آمادہ کرکے حکم کا انتظار کرے۔

جب مہاجربن ابی امیہ ، مرتدوں سے لڑنے کیلئے روانہ ہوتا ہے ، تو اسود کے قتل ہونے کے بعد عبدا للہ ، مہاجر کی فوج کے سواروں کا کمانڈر مقرر ہوتا ہے اور اسود کے تتر بتر ہوئے مرتد فراری فوجیوں سے اس کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے ، اس جنگ میں وہ ان سب کا قتل عام کر تا ہے اس کے بعد ابو بکر ایک فرمان کے ذریعہ '' جرش'' کا حاکم مقر ہوتا ہے ۔

ابن حجر اس عبدا للہ کے نام کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے اور اپنی کتاب میں دو شرحیں لکھتا ہے ، ایک اسی عبدا للہ کیلئے اور دوسری '' عبید اللہ '' کے نام سے۔

۱۱۹

سیف نے ان تین یا دو بھائیوں کو سبائی یمانیوں سے خلق کیا ہے تا کہ دوسرے درجے کا رول یعنی قبیلہ مضر کے سرداروں کی اطاعت اور فرمانبرداری انھیں سونپے ۔

توجہ فرمائیے!

یہ عبد اللہ بن ثور ہے جو قریش کے ایک معروف شخص '' مہاجربن ابی امیہ'' کے پیچھے پڑتا ہے، اسی طرح اس کا بھائی عکاشہ بھی ، پروردۂ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور خاندان تمیم کے ایک نامور شخص یعنی طاہر ابو ہالہ ، کے ہاں پناہ لیتا ہے۔

سیف ، مضر کے سرداروں اور شجاعوں کیلئے حامی اور طرفدار خلق کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ لیکن اس کیلئے ہرگز یہ چیز اہمیت نہیں رکھتی کہ یہ لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کی سعادت حاصل کرکے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے کے طور پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور ہوں یا نہ! بلکہ سیف کی نظر میں سرفرازی اور افتخار اس میں ہے کہ ان کے ہاتھوں دنیا کو تباہ و برباد کرکے زندگیوں کا خاتمہ اور بستیوں کو آگ لگوادے اور ان سب گستاخیوں کے بعد اپنے آتشین قصیدوں میں فخر و مباہات کے نغمے گائے اور دنیا کو جوش و خروش سے بھر دے تا کہ اس طرح اس کے خلق کئے ہوئے یہ مجد و افتخارات تاریخ میں ثبت ہوجائیں اور رہتی دنیا تک باقی رہیں ۔

سیف کی کوشش یہ ہے کہ خاندان مضر کیلئے بیہودہ اور بے بنیاد معجزے اور کرامتیں خلق کرے تا کہ مناقب لکھنے والے قصہ گو و جد میں آئیں اور اسلام کے دشمن مسلمانوں کا مذاق اڑائیں ۔

سیف بن عمر نے جو ذمہ داری عبید بن صخر بن لوذان قحطانی یمانی عکاشہ بن ثور یمانی پر ڈالی ہے یہی چیزیں تھیں ۔ سیف نے ان کیلئے قبیلہ مضر کے سرداروں کی اطاعت اور خدمت گزاری معین کرکے مذکورہ قبیلہ کیلئے بہادریاں اور کرامتیں خلق کی ہیں ۔

اصحابِ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والے علماء نے عکاشہ ، عبدا للہ اور عبید اللہ کا نام سیف کی روایتوں سے لیا ہے اور ان کے نسب اور داستانین بھی اس کی روایتوں سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کی ہیں ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329