ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130748 / ڈاؤنلوڈ: 4466
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

انہی روایتوں سے استناد کرکے ابن حجر نے عبد اللہ اور عبید اللہ کے صحابی ہونے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی مصاحبت پر استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے :

ہم نے بارہا کہا ہے کہ اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو حاکم و سپہ سالار معین نہیں کیا جاتا تھا۔

وہ سیف کی روایتوں سے اس مطلب کو بھی حاصل کرکے لکھتا ہے :

ابو بکر نے ان دونوں کو مرتدوں جنگ میں سپہ سالاری کا عہدہ سونپا اور '' جرش'' کی حکومت اسے دی۔

اس طرح یہ روایات سیف کے ذریعہ اسلامی مصادر میں داخل ہوئی ہیں ۔

فرزندان ثور کے افسانہ کے راوی

سیف اپنے جعل کئے ہوئے ثور کے بیٹوں کے افسانوں کو مندرجہ ذیل اپنے ہی جعلی راویوں کی زبانی نقل کیا ہے۔

١۔ سہل بن یوسف نے

٢۔ یوسف بن سہل سے ، اس نے

٣۔ عبید بن صخر سے

٤۔ مستنیر بن یزید

٥۔ عروة بن غزیہ

ان افسانوں کی اشاعت کرنے والے ذرائع

١۔ طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں ، اور درج ذیل علماء نے اس سے نقل کیا ہے

٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ۔

٣۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں

۱۲۱

٥۔ میر خواند نے اپنی کتاب '' روضة الصفا '' میں

٦۔ سمعانی نے '' انساب'' میں ۔

٧۔ ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے ''لباب'' میں

٨۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں ۔

٩۔ ابن اثیر نے ا'' اسد الغابہ '' میں استیعاب سے نقل کرکے ۔

١٠۔ ذہبی نے '' تجرید'' میں ، '' اسد الغابہ '' سے نقل کرکے۔

١١۔ ابن حجر نے سیف کی '' فتوح'' سے اور '' استیعاب '' سے نقل کرے '' اصابہ '' میں ۔ لیکن '' تصبیر '' میں سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

١٢۔ ابن ماکولا نے سیف سے نقل کرکے '' اکمال'' میں ۔

١٣۔ ١٤۔ اور ان سے فیروز آبادی اور زبیدی نے بالترتیب ' ' قاموس '' اور اس کی شرح '' تاج العروس'' میں نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ میر خواند نے کتاب '' روضة الصفا '' طبع ، تہران ، خیام (٢ ٦٠) میں ۔

مصادر و مآخذ

عکاشہ کے حالات اور اس کی حدیث

١۔ '' تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢ ، ١٨٥٣، ١٨٥٤، اور ٢٠٠)

٢۔ '' تاریخ ابن اثیر'' ( ٢ ٢٥٥)

٣۔ تاریخ ابن کثیر ( ٦ ٣٠٧)

٤۔ '' ابن خلدون'' ( ٢ ٢٦٣، ٢٧٥۔ ٢٧٧)

٥۔ '' استیعاب '' ابن عبد البر ( ٢ ٥٠٩) نمبر : ٢١٥٠ طبع حیدر آباد

٦۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر (٤ ٢)

٧۔ '' تجرید ذہبی'' ( ١ ٣١٨)

۱۲۲

٨۔ '' انساب سمعانی '' لفظ '' غوثی '' ( ٤١٣)

٩۔ '' اکمال '' ( ص٩٦)

عبد اللہ بن ثور کے حالات :

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٩٩٧، ١٩٩٨، ٢١٣٦)

٢۔ '' اصابہ'' ابن حجر ( ٢ ٢٧٧) نمبر :٦٥٩٧

چھوٹا خط رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اورگورنروں کے نام:

١۔ خلیفہ بن خیاط ( ١ ٦٣)

٢۔ '' تاریخ اسلام '' ذہبی ( ٢ ٢)

٣۔ لفظ '' غوثی'' '' تحریر المشتبہ '' ذہبی ( ١ ٤٨٩)

٤۔ '' تبصیر المشتبہ '' ابن حجر ( ٣ ١٠٣٤)

۱۲۳

پانچواں حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی

*٣٥۔ وبرة بن یحنس،خزاعی۔

*٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری

*٣٧۔ جریر بن عبد اللہ حمیری

*٣٨۔صلصل بن شرحبیل

*٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

*٤٠۔ عمر وبن خفاجی ، عامری

*٤١۔ عمرو بن خفاجی عامری

*٤٢۔ عوف ورکانی۔

*٤٣۔ عویف زرقانی

*٤٤۔ قحیف بن سلیک ھالکی

*٤٥۔ عمرو بن حکم قضاعی

*٤٦۔ امرؤ القیس ( بنی عبد اللہ سے )

۱۲۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی اور گورنر

طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے طلیحة بن خویلد کی بغاوت کی خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی، وہ بنی مالک میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ'' سنان بن ابی سنان'' تھا۔

وہ ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خبر کے سننے کے بعد ، اپنی طرف سے ایک ایلچی کو یمن میں مقیم چند سرکردہ ایرانیوں کے پاس بھیجا اور انھیں لکھا کہ طلیحہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھیں اور تمیم و بنی قیس کے لوگوں پر مشتمل ایک فوج کو منظم کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ وہ طلیحہ سے جنگ کرنے کیلئے اٹھیں انہوں نے اس حکم کی اطاعت کی اور اس طرح مرتدوں کیلئے ہر طرف سے راستہ بند کیا گیا۔

پیغمبری کا مدعی، '' اسود'' پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں ہی مارا گیا اور طلیحہ و مسیلمہ بھی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے محاصرہ میں پھنس گئے ۔

بیماری کی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو درد و تکلیف ہورہی تھی، وہ بھی آپ کیلئے فرمان الٰہی کی اطاعت اور دین کی حمایت کرنے میں رکاوٹ نہ بنی اور آنحضرت نے اسی حالت میں مندرجہ ذیل افراد کو پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے کیلئے اپنے ایلچیوں کے طور پر روانہ فرمایا:

١۔ وبرة بن یحنس کو '' فیروز ، جشیش دیلمی اور دازویہ استخری '' کے پاس بھیجا۔

٢۔ جریر بن عبد اللہ کو ایلچی کے طور پر '' ذی الکلاع اور ذی ظلیم '' کے ہاں روانہ فرمایا۔

٣۔ اقرع بن عبد اللہ حمیری نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' کو پہنچایا۔

٤۔ فرات بن حیان عجلی کو ایلچی کے طور پر '' ثمامۂ آثال '' بھیجا۔

٥۔ زیاد بن خنظلہ تمیمی عمری کو '' قیس بن عاصم'' اور '' زبر قان بن بدر '' سے ملاقات کرنے کی مموریت عطا فرمائی۔

٦۔ صلصل بن شرجیل کو سبرة بن عنبری ، وکیع دارمی، عمرو بن محجوب عامری عمرو بن محجوب عامری اور بنی عمرو کے عمرو بن خفاجی کے پاس بھیجا۔

۱۲۵

٧۔ ضرار بن ازور اسدی کو بنی صیدا کے عوف زرقانی ، سنان اسدی غنمی اور قضاعی دئلی کے ہاں جانے پرممورکیا۔

٨۔نعیم بن مسعود اشجعی کو ذی اللحیہ اور ابنمسیمصہجبیری سے ملاقات کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

ابن حجر کی اصابہ میں '' صفوان بن صفوان '' کے حالات کی تشریح کے ضمن میں سیف کی روایت یوں ذکر ہوئی ہے:

صلصل بن شرحبیل کو ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۔۔ اپنے ایلچی کے طور پر اسے صفوان بن صفوان تمیمی اور وکیع بن عدس دارمی وغیرہ کے پاس بھیجا اور انھیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی دعوت اور ترغیب دی۔

تاریخی حقائق پر ایک نظر

تاریخ نویسوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان تمام ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام درج کیا ہے جنھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف بادشاہوں ، قبیلہ کے سرداروں اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تھا۔لیکن ان کے ہاں کسی صورت میں مذکورہ افراد کا نام اور ان کے پیغام رسانی کے موضوع کا ذکر نہیں ہوا ہے۔

'' ابن خیاط'' نے اپنی تاریخ میں ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں بحث کے دوران لکھا ہے :

١۔ عثمان بن عفان کو حدیبیہ کے سال مکہ کے باشندوں کے پاس۔

٢۔ عمرو بن امیہ صمری کو ایک تحفہ کے ساتھ مکہ ، ابو سفیان بن حرب کے پاس۔

٣۔ عروة بن مسعود ثقفی کو طائف ، اپنے خاندان کے پاس۔

٤۔ جریر بن عبد اللہ کو یمن ، ذی کلاع اور ذی رعین کے پاس۔

٥۔ وبر بن یحنس کو یمن میں ایرانی سرداروں کے پاس۔

٦۔ خبیب بن زید بن عاصم ۔۔ کو مسیلمہ کذاب کے پاس جو مسیلمہ کے ہاتھوں قتل ہوا ۔۔

٧۔ سلیط بن سلیط کو یمامہ کے باشندوں کے پاس۔

٨۔ عبد اللہ بن خدافہ سہمی کو بادشاہ ایران کسریٰ کے پاس۔

٩۔ دحیة بن خلیفہ کلبی کو قیصر ، روم کے بادشاہ کے پاس۔

۱۲۶

١٠۔ شجاع بن ابی وہب اسدی کو، حارث بن ابی شمّر غسانی یا جبلة بن ایہم کے پاس

١١۔ حاطب بن ابی بلتعہ کو مقوقس ، اسکندریہ کے حکمران کے پاس

١٢۔ عمروبن امیہ ضمری کو نجاشی حبشہ کے پاس۔

اس طرح خلیفہ بن خیاط ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام اپنی کتاب میں لیتا ہے جنہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف علاقوں اور شخصیتوں کے پاس بھیجا ہے ۔ لیکن ان میں سیف کے خلق کردہ ایلچیوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔

سیف کی حدیث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آٹھ ایلچیوں کے نام لئے گئے ہیں جنہوں نے مختلف بیس شخصیتوں سے ملاقات کی ہے ۔ ان پیغام رسانوں اور پیغام حاصل کرنے والوں کے مجموعہ میں سیف کے دس جعلی صحابی بھی نظر آتے ہیں جن کے بارے میں ہم الگ الگ بحث کریں گے۔

پینتیسواں جعلی صحابی وبرة بن یحنس

سیف کی روایتوں کے مطابق تاریخ طبری میں آیا ہے کہ وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آٹھ ایلچیوں میں سے ایک ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حیات کے آخری ایام میں بیماری کے دوران ١١ ھ میں یمن میں مقیم ایرانی سرداروں سے ملاقات کرنے کیلئے اسے ممور کیاہے۔

وبرہ ان سرداروں کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط ساتھ لے گیا ، جس میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں امر فرمایا تھا کہ '' اسود'' کے خلاف جنگ کرکے اسے قتل کر ڈالیں اور تاکید فرمائی تھی کہ اسود کو قتل کیا جائے ، چاہے مکر و فریب اور جنگ وخونریزی کے ذریعہ ہی سہی۔

وبرہ ، یمن میں '' دا زویۂ فارسی '' کے پاس پہنچتا ہے ، سر انجام '' فیروز'' اور ''جشیش دیلمان'' کی ساتھ ایک نشست تشکیل دیتے ہیں اور '' قیس بن عبد یغوث '' ۔۔ جوبقول سیف اسود کی سپاہ کا سپہ سالار اعظم تھا۔۔ سے سازش کرکے '' اسود '' کو قتل کرنے میں اس کی موافقت حاصل کرتے ہیں ۔

۱۲۷

یہ لوگ رات کے اندھیرے میں '' اسود'' کے گھر میں جمع ہوکر اسے قتل کر ڈالتے ہیں ۔ طلوع فجر ہوتے ہی ''جشیش'' یا '' وبرہ '' نماز کیلئے اذان دیتا ہے اور '' وبرة '' کی امامت میں فجر کی نماز پڑھی جاتی ہے۔

اپنی مموریت کو انجام دینے کے بعد ''وبرہ'' ابو بکر کے پاس مدینہ پلٹتا ہے۔

کتاب '' استیعاب '' اور '' اصابہ'' میں یہ داستان سیف سے نقل ہوئی ہے اور اس نے ضحاک بن یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔

مذکورہ دو کتابوں میں '' وبرة بن یحنس'' کے بارے میں طبری سے نقل کرکے سیف کی روایتیں اس مختصر سند اور اس تفاوت کے ساتھ درج ہوئی ہیں کہ تاریخ طبری میں '' وبرہ'' '' ازدی '' ہے جبکہ مذکورہ دو کتابوں میں '' خزاعی '' ذکر ہوا ہے۔

سیف کی احادیث میں وبرہ کی داستان یہی تھی جو اوپر ذکر ہوئی ۔ ہاں جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حقیقی صحابی تھا ، اس کا نام '' وبر بن یحنس کلبی '' تھا ، اس کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں '' وبر '' کو مموریت دے کر ایرانی سرداروں کے پاس یمن بھیجا۔ '' وبر '' وہاں پر '' نعمان بن بزرج'' سے ملا اور کچھ لوگوں نے اس کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ ''نعمان بن بزرج'' نے '' وبر '' سے روایت کی ہے: کہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے وبر سے فرمایا تھا کہ صنعا میں داخل ہونے کے بعد '' ضبیل '' کے اطراف صنعا میں واقع پہاڑ میں واقع مسجد میں نماز پڑھنا۔

نقل کیا گیا ہے کہ اس کا بیٹا '' عطاء '' پہلا شخص تھا جس نے یمن میں قرآن مجید کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیاتھا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''' اصابہ '' میں '' وبر بن یحنس'' کی زندگی کے حالات نمبر ٩١٠٥ کے تحت اور سیف کی تخلیق '' وبرة بن یحنس '' کے حالات بھی نمبر ١٩٠٩ کے تحت درج کئے ہیں ۔

یہاں پر ابن اثیر غلط فہمی کا شکار ہوا ہے ۔ اس نے اس خیال سے کہ یہ دونوں ایک ہی شخص ہیہیں ، دو خبروں کو یکجااپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں لکھا ہے :

۱۲۸

''وبر'' اور کہا گیا ہے '' وبرة بن یحنس'' خزاعی ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور آپ کی فرمائشات سن رہا تھا ۔ نعمان بن بزرج نے اس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا ہے : جب ''ضبیل'' کے اطراف میں واقع صنعاء کی مسجد میں پہنچنا تو وہاں پر نماز پڑھنا۔

ان مطالب کو تین مصادر نے ذکر کیا ہے ۔ ابو عمر کہتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''داذویہ '' ، فیروز دیلمی'' اور '' جشیش دیلمی '' کے پاس اپنے ایلچی کے طور پر بھیجا تھا تا کہ پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی'' کو قتل کر ڈالیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

ابن اثیر نے غلطی کی ہے کیونکہ نعمان نے مسجد صنعاء میں جس شخص کے نماز پڑھنے کے بارے میں روایت کی ہے وہ '' کلبی ''ہے۔

اور جسے سیف نے خلق کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کے طور پر اسود کو قتل کرنے کیلئے یمن بھیجا ہے وہ ''خزاعی'' یا '' ازدی'' ہے۔

بعید نہیں کہ ابن اثیر کی غلط فہمی کا سرچشمہ یہ ہو کہ اس نے سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر کی کتا ب استیعاب سے مختصر علامت '' ب'' سے نقل کیا ہے لیکن '' وبر کلبی '' کی داستان کو ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' سے مختصر علامت '' د'' سے اور ابو نعیم کی کتاب '' معرفة الصحابہ ' سے مختصر علامت ''ع'' سے نقل کیا ہو۔

اسی لئیابن اثیر نے دو داستانوں کو آپس میں ملا کر اسے ایک شخص کے بارے میں درج کیا ہے۔

اس افسانہ میں سیف کے مآخذکی تحقیق

'' وبرة بن یحنس'' کی داستان کے بارے میں سیف کے راوی اور مآخذ جو تاریخ طبری میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :

١۔ مستنیز بن یزید نے عروة بن غزیہ دثینی سے ۔ یعنی سیف کے ایک جعلی کردہ راوی نے سیف ہی کی تخلیق دوسرے راوی سے روایت کی ہے ، ہم نے اس مطلب کی وضاحت کتاب '' عبدا للہ بن سبا'' کی دوسری جلد میں کی ہے ۔

٢۔ سہل ، سیف کا ایک اور راوی ہے کہ جس کا تعارف انصار میں سے یوسف سلمی کے بیٹے کے طور پر کیا گیا ہے ۔ ہم نے اپنی کتاب '' رواةمختلقون '' میں اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۲۹

ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' اور ابن حجر کی کتاب '' اصابہ '' میں '' وبرہ'' کے بارے میں سیف کی روایت کی سند حسب ذیل ہے ۔

'' ضحاک بن یرع''کہ ہم نے اسی کتاب میں ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں کہا ہے کہ ہمیں شک ہے کہ وہ بھی سیف کا جعل کردہ اور اس کا خیالی راوی ہے۔

داستان کی حقیقت

سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود'' کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت عطافرمائی اور حکم دیا کہ یمن میں مقیم ایرانیوں سے رابطہ قائم کرکے اس کام میں ان سے مدد حاصل کرے ۔

قیس پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کو نافذ کرنے کیلئے راہی صنعاء ہوا اور وہاں پر اپنے آپ کو اسود کا حامی اور مرید جتلایا ۔ نتیجہ کے طور پر اسود اس کے صنعاء میں داخل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنا اس طرح وہ قبائل مذحج ، ہمدان اور دیگر قبائل کی ایک جماعت لے کر صنعاء میں داخل ہوا۔

قیس نے صنعا میں داخل ہونے کے بعد مخفیانہ طور پر فیروزنامی ایرانی سردار سے رابطہ قائم کیا ، جس نے پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد اس کے ہمرا ہ'' داذویہ '' سے ملاقات کی اور اس کی تبلیغ کی وجہ سے سر انجام دازویہ نے بھی اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد داذویہ نے اپنے مبلغین کو ایرانیوں کے درمیان یمن بھیجا اور انھیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے بھی اسلام قبول کیا اور اسود کو قتل کرنے میں ان کی مدد کی۔

کچھ مدت کے بعد قیس اور اس کی دو ایرانی بااثر شخصیتوں نے اسود کی بیوی کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں اسکی موافقت حاصل کی تا کہ اسود کا کام تمام کرسکیں ۔

اس پروگرام کے تحت ایک دن وہ لوگ پو پھٹتے ہی نگہبانوں سے بچ کر اچانک اسود کے گھر میں داخل ہوئے اور اس پر حملہ کیا، فیروز نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ، قیس نے اس کے سرکو تن سے جدا کرکے شہر کے دروازہ پر لٹکا دیا اور نماز کیلئے اذان دی اور اذاں کے آخر میں بلند آواز میں کہا کہ '' اسود جھوٹا اور خدا کا دشمن ہے '' ۔

اس طرح صنعاء کے باشندے اسود کے قتل کئے جانے کی خبر سے آگاہ ہوئے ۔

۱۳۰

داستان کی حقیقت اور افسانہ کا موازنہ

سیف کی روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی طرف سے چند ایلچیوں کو یمن میں مقیم ایرانی سرداروں اور بزرگوں اور اسی طرح اسود کی فوج کے سپہ سالار '' قیس بن عبد یغوث'' کے پاس روانہ کیا، اور حکم دیا کہ یہ لوگ اسود کو قتل کرکے اس کا خاتمہ کردیں ۔

یہ لوگ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم بجالاتے ہیں ۔ اسود کو قتل کرنے کے بعد '' جشیش'' یا '' وبرہ'' اذان دیتا ہے اور '' وبرہ'' کی امامت میں نماز جماعت پڑھی جاتی ہے ۔

جبکہ سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود '' کو قتل کرنے کی مموریت عطا فرمائی ہے اور اس نے یمن میں مقیم ایرانی سرداروں کی مدد سے '' اسود '' کو قتل کیا ہے ۔ قیس نے '' اسود'' کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکانے کے بعد خود نما زکیلئے اذان دی ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے سیف نے حقائق کو بدل کر داستان کے مرکزی کردار یعنی قیس کے باپ کا نام '' ھبیرہ'' سے تغیر دیکر ''عبد یغوث '' بتایا ہے ۔

اسی طرح اپنے جعلی صحابی کو '' وبر بن یحنس کلبی'' کا ہم نام یعنی '' وبرة بن یحنس'' ازدی خلق کیا ہے اور سیف کا یہ کام نیا نہیں ہے کیونکہ وہ حقیقی صحابیوں کے ہم نام صحابی جعل کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے جس طرح اس نے اپنے خزیمہ کو '' خزیمة بن ثابت انصاری ذی شہادتین '' کے ہم نام اور اپنے ' سماک بن خُرشۂ انصاری کو '' سماک بن خُرشۂ انصاری '' معروف بہ ابی دجانہ کا ہم نام خلق کیا ہے ۔

۱۳۱

افسانۂ وبرہ کے مآخذ

سیف نے '' وبرہ '' کے افسانہ کے راویوں کا حسبِ ذیل صورت میں نام لیا ہے :

١۔ مستنیر بن یزید نے

٢۔ عروة بن غزیہ سے ۔ یہ دونوں سیف کے خلق کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٣۔ ' ' ضحاک بن یربوع'' ہم نے کہا کہ اس کے بارے میں ہم مشکوک ہیں کہ اسے سیف نے جعل کیا ہے یا نہیں ۔

'' وبرہ '' کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں ۔ بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے ۔

٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ، طبری سے نقل کرکے۔

٣۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں سیف سے بلاواسطہ نقل کرکے ۔

٤۔ ابن حجر نے '' اصابہ'' میں براہ راست سیف سے نقل کرکے ۔

مصادر و مآخذ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی روایت

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٩١١)

٢۔ '' اصابہ'' ( ٢ ١٨٢) صفوان کے حالات کے ضمن میں ۔

٣۔ '' تاریخ ابن خیاط'' ( ١۔ ٦٢ ۔٦٣) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے نام میں نئی سطر سے ''وبرة بن یحنس'' کے بارے میں سیف کی روایات:

١۔'' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٨١، ١٨٥٦، ١٨٥٧، ١٨٦٢، ١٨٦٤ ، ١٨٦٧، اور ١٩٨٤ )

٢۔'' استیعاب ''طبع حیدر آبار دکن ( ٢ ٦٠٦)

٣۔ '' اصابہ '' ( ٣ ٥٩٤)

۱۳۲

'' وبر بن یحنس '' کلبی کی داستان :

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ١٧٦٣)

٢۔ '' اصابہ '' ابن حجر ( ٣ ٥٩٣)

٣۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٥ ٨٣)

اسود عنسی کی داستان

١۔ '' فتوح البلدان '' بلاذری ( ١ ١٢٥۔ ١٢٦)

٢۔ '' عبدا للہ بن سبا'' دوسری جلد۔

۱۳۳

چھتیس اور سینتیس ویں جعلی اصحاب اقرع بن عبدا للہ حمیری اور جریر بن عبد اللہ حمیری

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حمیری ایلچی :

سیف نے '' اقرع'' اور '' جریر'' عبدا للہ حمیری کے دوبیٹے خلق کئے ہیں تاریخ طبری میں سیف سے نقل کرکے دو روایتوں کے مطابق ان دو بھائیوں کی داستان یوں آئی ہے :

١۔ طبری نے ١١ ھ کے حوادت کے ضمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفراء کے بارے میں بیان ہوئی روایت۔۔ جس کا ذکر اس حصہ کے شروع میں ہوا۔۔ میں یوں کہا ہے :

اس کے علاوہ جریر بن عبدا للہ کو ایلچی کے طور پر'' ذی کلاع'' اور ''ذی ظلیم '' کے پاس بھیجا اور اقرع بن عبد اللہ حمیری کو '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' سے ملاقات کرنے کی مموریت دی۔

اس کے علاوہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد یمانیوں کے ارتداد کے بارے میں لکھتا ہے :

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض ایلچی گراں قیمت خبروں کے ساتھ ۔۔ خلافت ابو بکر کے دوران ۔۔ مدینہ پلٹے ، ان میں عبد اللہ حمیری کے بیٹے جریر اور اقرع اور وبرة بن یحنس بھی تھے۔ ابو بکر بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح مرتدوں اور دین سے منحرف ہوئے لوگوں سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اسامہ بن زید شام کی جنگ سے واپس آیا جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ، یہ دو خبریں من جملہ ان خبروں میں سے ہیں جسے سیف نے دونوں بھائیوں کے بارے میں ایک ساتھ لکھا ہے اور طبری نے انھیں ١١ ھ کے ضمن میں درج کیا ہے ۔

٢۔ طبری نے '' فتح نہاوند '' کی خبر کو ٢١ ھ کے حوادث و روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

جب مسلمان نہاوند پہنچے تو سپہ سالار اعظم نعمان بن مقرن نے حکم دیا کہ ساز و سامان کے ساتھ وہیں پڑاؤ ڈالیں ۔

نعمان کھڑے ہوکر کام کی نگرانی کررہا تھا اور فوجی خیمے لگانے میں مصروف تھے کہ کوفہ کے سرداروں اور اشراف نے نعمان کی خدمت کرنے کیلئے آگے بڑھ کر اس کیلئے ایک خیمہ نصب کیا ۔ سپہ سالار اعظم کیلئے خیمہ نصب کرنے کا کام کوفہ کے چودہ سردار اشراف نے انجام دیا ان میں یہ افراد تھے : جریر بن عبد اﷲ حمیری ، اقرع بن عبد اللہ حمیری اور جریر بن عبد اللہ بجلی اور آج تک خیمہ نصب کرنے والے ایسے لوگ دکھائی نہیں دئے ہیں

۱۳۴

صرف ان دو خبروں میں طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے دو جعلی حمیری بھائیوں کا نام ایک ساتھ لیا ہے ۔

لیکن تاریخ طبری میں سیف کی دوسری روایتوں میں ایک ایسی خبر موجود ہے جس میں تنہا جریر کا نام لیا گیا ہے اور اس کے بھائی اقرع کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ ذیل میں ملاحظہ ہو :

جریر بن عبد اللہ حمیری

صلح ناموں کا معتبر گواہ :

حیرہ کے بعد والے حوادث اور رودادوں کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے طبری لکھتا ہے :

'' حیرہ کے باشندوں کے ساتھ خالدبن ولید کی صلح کے بعد '' قس الناطف '' ١ کاسردار اور حاکم '' صلوبا بن نسطونا'' خالد کی خدمت میں حاضر ہوا ور '' بانقیا '' اور '' بسما'' کے بعض حصے اور ان دو جگہوں سے مربوط دریائے فرات کے کنارے پر واقع کھیتی کی زمینوں کے سلسلے جو آپ فرات سے سیراب ہوئے تھے اور دس ہزار دینار یعنی فی نفر چار درہم ۔۔ بادشاہ ایران کو ادا کرنے والی رقم سے زیادہ ۔۔ ٹیکس ادا کرکے صلح کی ۔ سر انجام اس کے اور سپہ سالار اعظم کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا اور جریر بن عبد اللہ حمیری نے اس کی تائید کرکے گواہی دی۔

اس صلح نامہ کے آخر میں جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ '' ماہ صفر ١٢ ھ '' ہے اس روایت کے بعد طبری ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :

____________________

١۔'' قس الناطف '' کوفہ کے نزدیک دریائے فرات کے مشرق میں واقع ہے اور بانقیا اور بسما بھی کوفہ کے اطراف میں تھے ۔معجم البلدان

۱۳۵

'' صلوبا بن بصبہری '' اور '' نسطونا '' نے '' خالد '' کے ساتھ '' فلالیج '' سے'' ہر مزگرد '' ١ کے درمیان شہروں اور زمینون کے بارے میں ، صلح نامہ کی رقم کے علاوہ بیس لاکھ کی رقم پر صلح نامہ پر دستخط کئے اس صلح نامہ کا گواہ جریر بن عبد اللہ حمیری تھا ۔

سیف کہتا ہے کہ اس کے بعد خالد بن ولید نے اپنے کارگزار معین کردئے اور فتح شدہ علاقوں میں مسلح فوج کو معین کردیا ۔ اس کے گماشتوں اور گزار میں ایک '' جرید بن عبد اللہ حمیری '' تھا جو خالد کی طرف سے نمائندہ کی حیثیت سے '' بانقیا '' اور '' بسما'' کا ممور قرار پایا۔

طبری ، سیف سے نقل کر کے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

خالد کے کارگزار خراج ادا کرنے والوں کو درج ذیل صورت میں رسید دیتے تھے :

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

یہ ورقہ بعنوان رسید ہے ان افراد کیلئے جنہوں نے یہ رقم یا یہ مقدا رجزیہ ، جسے خالد نے صلح کی بنیاد قرار دیاتھا ، ادا کیا ہے ۔ خالد اور تمام مسلمان اس شخص کا سختی سے مقابلہ کریں گے جو صلح نامہ میں مقرر شدہ جزیہ کی رقم ادا کرنے میں کسی قسم کی تبدیلی لائے گا ۔ اس بنا پر جو امان تمہیں دی گئی ہے اور جو صلح تمہارے ساتھ ہوئی ہے ، پوری طاقت کے ساتھ برقرار ہے اور ہم بھی ا س کے اصولوں پر پابند رہیں گے۔

اس رسید کے آخر میں جن چند اصحاب سے خالد نے دستخط لئے تھے جوحسب ذیل تھے :

____________________

١۔ ہر مزگرد عراق میں ایک شہر تھا جو عمر کی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔

۱۳۶

ہشام ، جابر بن طارق ، جریر بن عبد اللہ اور

طبری ، سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

'' فلالیج'' اور اسکے دور ترین شہروں اور علاقوں کے تمام لوگوں کو خالد نے مسلمان بنانے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی اطاعت میں لانے کے بعد علاقۂ حیرہ کی حکومت '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو سونپی ۔

جریر ، مصیخ کی جنگ میں :

مصیخ کی داستان کے ضمن میں طبری نے لکھتا ہے :

اس اچانک حملہ میں ، حتی عبد العزی بن ابی رہم نمری بھی جرید بن عبد اللہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ '' عبد العزی ، اوس بن مناة'' کا بھائی تھا ۔ وہ دشمن کی سپاہ میں تھا، لیکن اسلام لایا تھا ، اسلام لانے کے سلسلے میں ابو بکر کی طرف سے ایک تائید نامہ بھی اپنے پاس رکھتاتھا لیکن وہ اس برق آسا حملہ میں جرید بن عبداللہ کے ہاتھوں مارا گیا جبکہ اس شب وہ اس طرح پڑھ رہا تھا :

جس وقت اچانک حملہ ہوا ، میں نے کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا !تو پاک و منزہ ہے ۔

میرا اللہ جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے جو تمام زمینوں اور انسانو ں کا پیدا کرنے والا اور ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔ ١

اسی طرح طبری ، سیف سے نقل کرکے حدیث جسر ۔۔ جسر ابو عبید ۔۔ میں ١٣ ھ کے حوادت

____________________

١۔ اسی کتاب کی پہلی جلد ( فارسی ) ( ١ ١٥٦ ۔ ١٥٧) ملاحظہ ہو۔

۱۳۷

کے ضمن میں کہتا ہے :

یرموک کی جنگ اور جسر کی داستان کے درمیان چالیس دن رات کا فاصلہ تھا ۔ جس شخص نے خلیفہ عمر ۔۔ کو یرموک کی فتح کی نوید دی وہ جریر بن عبد اللہ حمیری تھا۔

یہاں اور آنے والی بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے صحابی '' جریر '' کو ایسا خلق کیا ہے کہ خالد بن ولید '' حیرہ '' کی فتح کے بعد اسے اپنے ساتھ شام لے جاتا ہے ۔

جریر ، ہرمزان کا ہم پلہ

طبری نے '' رامہرمز ، شوش اور شوشتر '' کی فتح کے موضوع کے بارے میں ١٧ ھ کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے یوں ذکرکیا ہے :

خلیفۂ عمر نے ''سعد وقاص'' کو لکھا کہ فوری طور پر ایک عظیم فوج کو ''نعمان بن مقرن'' کی کمانڈ میں اہواز بھیجدے اور جریر بن عبدا ﷲ حمیری و جریر بن عبد اللہ بجلی اور کوہرمزان سے مقابلہ کرنے کیلئے ممور کرے تا کہ اس کا کام تمام کردیں ۔

طبری'سیف سے نقل کرکے '' حیرہ کی روداد اور خالد بن ولید اور '' قس الناطف '' کے سردار کے درمیان صلح نامہ کے موضوع کے ضمن میں لکھتا ہے :

اس صلح نامہ کے آخر میں لکھی گئی تاریخ '' ٢٠'' ماہ صفر ١٢ھ ہے ۔

طبری سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

خطوط کے آخر میں تاریخ لکھنے والے پہلے شخص عمر تھے اور وہ بھی ١٦ ھ میں ان کی خلافت کے ڈھائی سال گزرنے کے بعد ، تاریخ کی یہ قید امیر المؤمنین علی بن ابیطالب کی مشورت اور راہنمائی سے انجام پائی ہے ۔

اس کے بعد طبری اسی موضوع کی وضاحت میں لکھتا ہے :

عمر نے لوگوں کو جمع کرکے ان سے پوچھا : کس دن کو تاریخ کا آغاز قرار دیں ؟ امیر المؤمنین علی نے فرمایا: اس دن کو جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت فرمائی اور دیار شرک کو ترک فرمایا ۔

۱۳۸

عمر نے اسی نظریہ کو منظور کرکے اسی پر عمل کیا ۔

طبری سے جو مطالب ہم نے نقل کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کا موضوع اور اس کے خطوط و عہد ناموں کے آخر میں درج کرنے کا رواج ١٦ ھ تک نہیں تھا اور اس وقت تک خطوط اور عہد ناموں کے آخر میں تاریخ نہیں لکھی جاتی تھی لہذا ١٦ ھ سے پہلے والے جتنے بھی خطوط اور عہد ناموں پر تاریخ لکھی گئی ہوگی ، وہ جعلی ہیں جیسے سیف کا وہ عہد نامہ جسے اس نے ١٢ ھ کے ماہ صفر میں لکھنے کی نسبت خالد بن ولید سے دی ہے ۔

'' اقرع'' اور ''جریر'' کے افسانوں کی تحقیق

سیف نے اقرع و جریر کے بارے میں اپنے افسانہ کے راویوں کا یوں تعارف کیا ہے:

١۔'' محمد'' اس نام کی پانچ بار تکرار کی ہے اور اسے محمد بن عبد اللہ بن سواد کہا ہے ۔

٢۔ '' مہلب '' اس کا نام دوبار ذکر کیا ہے اور اسے مہلب بن عقبہ اسدی کہا ہے۔

اس کے علاوہ درج ذیل ناموں میں سے ہر نام ایک بار ذکر ہوا ہے ۔

٣۔ غصن بن قاسم

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن یوسف سلمی انصاری

۱۳۹

ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے اشارہ اور ابہام کی صورت میں چند دیگر راویوں کا نام بھی لیا ہے کہ جنہیں پہچاننا ممکن نہیں ہے ، جیسے کہ کہتا ہے :

بنی کنانہ کے ایک شخص سے ! ، یہ شخص کون ہے ؟!

یا یہ کہتا ہے :

عمرو سے کون سا عمرو؟ اسی کے مانند

تاریخی حقائق اور سیف کا افسانہ

یہ حقیقت ہے کہ اصحاب کے درمیان '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' نام کا ایک صحابی موجود تھا (۱) نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ عمر نے حکم دیا کہ اس کا قبیلہ نقل و حرکت کرے اور جریرنے ان (عمر ) کے سپہ سالار کی حیثیت سے عراق کی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔

____________________

١۔ہم نے اس جریر کو ، مؤرخین کی روش کے مطابق کہ ''جس کسی نے اسلام لاکر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے ، اسے صحابی کہتے ہیں '' ، صحابی کہا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

” واخرج الحکیم الترمذی والطبرانی وابن مردویه وابونعیم والبیهقی معاً فی الدلائل عن ابن عباس رضی الله عنهما قال رسول الله -( ص) - انّ اللّه قسّم الخلاق قسمیں فجعلنی فی خیرهما قسماً، فذلک قوله( واصحاب الیمین ) (۱) ( واصحاب الشمال ) (۲) فاٴنامن اٴصحاب الیمین واٴناخبراٴصحاب الیمین ثمّ جعل القسمین اٴثلاثاً،فجعلنی فی خیرها ثلثاً،فذلک قوله :( واٴصحاب المیمنة مااٴصحاب المیمنةواٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المشئمةالسابقون ) (۳) فاٴنامن السابقین واٴناخیرالسابقین، ثمّ جعل الاٴثلاث قبائل،فجعلنی فی خیرها قبیلة،وذلک قوله:( وجعلنا کم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اٴکرمکم عنداللّٰه اٴتقاکم ) (۴) واٴنااٴتقی ولدآدم واٴکرمهم عنداللّٰه تعالی ولافخر،ثمّ جعل القبائل بیوتاًوجعلنی فی خیرها بیتاً،فذلک قوله: ا( ٕنّما یریداللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) (۵) فاٴناواٴهل بیتی مطهّرون من الذنوب“(۶)

____________________

۱۔سورئہ واقعہ/۲۷ ۲۔سورئہ واقعہ/۴۱ ۳۔سورئہ واقعہ/۸۔۱۰ ۴۔سورئہ حجرات/۱۳ ۵۔سورئہ/احزاب/۳۳

۶۔الدرالمنثور، ج ۵، ص ۳۷۸، دارالکتاب، العلمیہ، بیروت، فتح، القدیر، شوکافی، ج ۴، ص ۳۵۰ دارالکتاب العلمیہ، بیروت۔المعروفہ و التاریخ، ج ۱، ص ۲۹۸

۱۸۱

”حکیم ترمذی،طبرانی،ابن مردویہ،ابو نعیم اور بیہقی نے کتاب”الدلائل‘میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اپنی مخلوقات کودو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور مجھ کوان میں سے برترقراردیاہے اورخداوندمتعال کاقول یہ ہے:( و اصحاب الیمین ) ( واصحاب الشمال ) اور میں اصحاب یمین میں سے سب سے افضل ہوں۔اس کے بعدمذکورہ دوقسموں)اصحاب یمین اوراصحاب شمال)کوپھرسے تین حصوں میں تقسیم کیااورمجھ کوان میں افضل ترین لو گوں میں قرار دیا اور یہ ہے خدا وند کریم کا قول:( واٴصحاب المیمنةمااٴصحاب المیمنة واٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المسئمةوالسابقون السابقون ) اورمیں سابقین اور افضل ترین لو گوں میں سے ہوں۔اس کے بعدان تینوں گروہوں کوکئی قبیلوں میں تقسیم کردیا،چنانچہ فر ما یا:

( وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اکرمکم عنداللّه اٴتقاکم )

”اورپھرتم کو خاندان اور قبائل میں بانٹ دیاتاکہ آپس میں ایک دوسرے کوپہچان سکوبیشک تم میں سے خداکے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیزگارہے“ اورمیں فرزندان آدم میں پرہیزگار ترین اور خدا کے نزدیک محترم ترین بندہ ہوں اورفخرنہیں کرتاہوں۔

”اس کے بعدقبیلوں کوگھرانوں میں تقسیم کر دیااورمیرے گھرانے کوبہترین گھرانہ قرار دیااورفرمایا( انمّا یرید اللّه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) ”بس اللّہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت!تم سے ہر طرح کی آلودگی وبرائی کودوررکھے اور اس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کاحق ہے“پس مجھے اورمیرے اہل بیت کو )برائیوں) گناہوں سے پاک قراردیاگیاہے۔“

۱۸۲

۲ ” حدثني الحسن بن زید، عن عمربن علي، عن اٴبیه عليّ بن الحسین قال خطب الحسن بن علي الناس حین قتل عليّ فحمداللّه و اٴثنی علیه ثمّ قال:لقد قبض في هذه اللیلة رجل لایسبقه الاٴوّلون بعمل و لایدرکه الآخرون، و قدکان رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعطیه رایته فیقاتل وجبرئیل عن یمینه ومیکائیل عن یساره حتی یفتح اللّه علیه، وما ترک علی اٴهل الاٴرض صفراء ولابیضاء إلّا سبع مائة درهم فضلت عن عطایاه اٴراد اٴن یبتاع بهاخادماً لاٴهله

ثمّ قال: اٴیّها الناس! من عرفني فقد عرفني ومن ُلم یعرفنيفاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبيّ واٴنا ابن الوصيّ واٴناابن البشیر، واٴنا ابن النذیر، واٴناابن الداعي إلی اللّه باذنه، واٴنا ابن السراج المنیر، و اٴنا من اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلیناویصعدمن عندنا، و اٴنامن اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلینا و یصعدمن عندنا، واٴنا من اٴهل البیت الّذی اٴذهب اللّه عنهم الرجس وطهّرهم تطهیراً و اٴنا من اٴهل البیت الّذی افترض اللّه مودّتهم علی کلّ مسلم، فقال تبارک و تعالی لنبیة:( قل لااٴسئلکم علیه اٴجراً،إلّاالمودّة فی ا لقربی و من یقترف حسنة نزدله فیهاحسناً ) (۱) فاقتراف الحسنة مودّتنااٴهل البیت(۲)

____________________

۱۔ سورہ شوریٰ/۲۳

۲۔مستدرک الصحیحین، ج۳،ص۱۷۲، دارالکتب العلمیہ، بیروت

۱۸۳

”عمربن علی نے اپنے باپ علی بن حسین (علیہ السلام)سے روایت کی ہے انہوں نے کہا: حسن بن علی (علیہ السلام)نے)اپنے والدگرامی)حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعدلوگوں کے در میان ایک خطبہ دیا جس میں ۔حمدوثنائے الہی کے بعدفرمایا:

آج کی شب ایک ایساشخص اس دنیا سے رحلت کرگیاکہ گزشتہ انسانوں میں سے کسی نے ان پرسبقت حاصل نہیں کی اورنہ ہی مستقبل میں کوئی ا س کے مراتب و مدا رج تک پہو نچنے والا ہے۔

پیغمبراسلام (ص)اسلامی جنگوں میں ان کے ہاتھ پرچم اسلام تھما کر انہیں جنگ کے لئے روانہ کر تے تھے، جبکہ اس طرح سے کہ جبرئیل)امورتشریعی میں فیض الہٰی کے وسیلہ)ان کی دائیں جانب اورمیکائیل)امورارزاق میں فیض الہٰی کے ذریعہ)ان کی بائیں جانب ہوا کرتے تھے۔او روہ جنگ سے فتح کامرانی کے حاصل ہو نے تک واپس نہیں لوٹتے تھے۔

انھوں نے اپنے بعد زر وجواہرات میں سے صرف سات سودرہم بہ طور ”تر کہ“ چھوڑے جو صدقہ و خیرات کے بعد باقی بچ گئے تھے اور وہ اس سے اپنے اہل بیت کے لئے ایک خادم خریدناچاہئے تھے۔

اس کے بعدفرمایا:اے لوگو!جو مجھے پہچانتا ہے، وہ پہنچاتا ہے اورجونہیں پہچانتاوہ پہچان لے کہ میں حسن بن علی (ع) ہوں، میں پیغمبر کافرزندہوں، ان کے جانشین کا فرزند، بشیر)بشارت دینے والے)ونذیر)ڈرانے والے)کافرزندہوں،جوخداکے حکم سے لوگوں کوخداکی طرف دعوت دیتاتھا،میں شمع فروزان الٰہی کا بیٹاہوں، اس خاندان کی فرد ہوں کہ جہاں ملائکہ نزول اور جبرئیل رفت وآمد کر تے تھے۔میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ خدائے متعال نے ان سے برائی کودورکیاہے اورانھیں خاص طور سے پاک وپاکیزہ بنایاہے۔میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ خداوندمتعال نے ان کی دوستی کوہرمسلمان پرواجب قراردیاہے اورخدا وندمتعال نے اپنے پیغمبرسے فرمایا:” اے پیغمبر!کہدیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کے بد لے کسی اجرت کا مطا لبہ نہیں کر تا ہوں سواء اس کے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرواورجوشخص بھی کوئی نیکی دے گا ہم اس کی نیکیوں کی جزامیں اضافہ کردیں گے ”لہذانیک عمل کاکام انجام دینا ہی ہم اہل بیت(ع)کی دوستی ہے۔“

۱۸۴

ان دواحادیث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں خداکی مخصوص طہارت کے خارج میں متحقق ہو نے سے مرادان کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔اور یہ بیان واضح طور پر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آیہء شریفہ میں ارادہ سے مراد ارادہ،تکوینی ہے۔

آیہء تطہیر میں اہل بیت علیہم السلام

اس آیہء شریفہ کی بحث کاتیسراپہلویہ ہے کہ آیہء کریمہ میں ”اہل البیت“سے مراد“کون ہیں؟اس بحث میں دوزاویوں سے توجہ مبذول کرناضروری ہے:

۱ ۔اہل بیت کا مفہوم کیاہے؟

۲ ۔اہل بیت کے مصادیق کون ہیں؟

اگرلفظ”اہل“کا استعمال تنہاہوتویہ مستحق اورشائستہ ہو نے کامعنی دیتاہے اوراگراس لفظ کی کسی چیز کی طرف اضافت ونسبت دی جائے توا س اضا فت کے لحاظ سے اس کے معنی ہوں گے۔مثلاً”اہل علم“اس سے مرادوہ لوگ ہیں جن میں علم ومعرفت موجودہے اور”اہل شہروقریہ“سے مرادوہ لوگ ہیں جواس شہریاقریہ میں زندگی بسرکرتے ہیں،اہل خانہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس گھر میں سکونت پذیر ہیں،مختصریہ کہ:”اہل“کامفہوم اضافت کی صورت میں مزید اس شی کی خصوصیت پردلالت کرتاہے کہ جس کی طرف اس کی نسبت دی گئی ہے۔۔۔

۱۸۵

لفظ”بیت“میں ایک احتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد مسکن اور گھرہواور دوسرااحتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد حسب ونَسَب ہوکہ اس صورت میں ”اہل بیت“کامعنی خاندان کے ہوں گے۔ایک اوراحتمال یہ ہے کہ” اہل بیت “میں ”بیت“سے مراد،خا نہ نبوت ہواور یہاں پر قابل مقبول احتمال یہی موخرالذکراحتمال ہے،اس کی وضاحت انشاء اللہ آیندہ چل کر آئے گی۔

ان صفات کے پیش نظر”اہل بیت“سے مرادوہ افراد ہیں جواس گھرکے محرم اسرار ہوں اورجوکچھ نبی (ص)کے گھرمیں واقع ہوتاہے اس سے واقف ہوں۔

اب جبکہ”اہل بیت“کامفہوم واضح اورمعلوم ہوگیا توہم دیکھتے ہیں کہ خارج میں اس کے مصادیق کون لوگ ہیں اور یہ عنوان کن افرادپر صادق آتاہے؟

اس سلسلہ میں تین قول پائے جاتے ہیں:

۱ ۔”اہل بیت“سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں۔(۱)

۲ ۔”اہل بیت“سے مراد خودپیغمبر،علی وفاطمہ،حسن وحسین )علیہم السلام)نیزپیغمبر (ص)کی بیویاں ہیں۔(۲)

۳ ۔شیعہ امامیہ کانظریہ یہ ہے کہ”اہل بیت“سے مرادپیغمبر (ص)آپکی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اوربارہ ائمہ معصومین) علیہم السلام)ہیں۔

بعض سنی علماء جیسے:طحاوی نے”مشکل ا لآثار“میں اورحاکم نیشابوری نے”المستدرک“میں ”اہل بیت“سے صرف پنجتن پاک )علہیم السلام )کو مراد لیاہے۔

”اہل بیت“کوواضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس سلسلہ میں دوجہات سے

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۲۹۱

۲۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲

۱۸۶

بحث کریں:

۱ ۔آیہء شریفہ کے مفاد کے بارے میں بحث۔

۲ ۔آیہء شریفہ کے ضمن میں نقل کی گئی احادیث اورروایات کے بارے بحث۔

آیت کے مفاد کے بارے میں بحث

آیت کے مفہوم پر بحث کے سلسلہ میں درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:لغوی اور عرفی لحاظ سے”اہل بیت“کا مفہوم پنجتن پاک کے عنوان کوشامل ہے۔

دوسرے یہ کہ آیہء شریفہ میں ضمیر”عنکم)جوجمع مذکر کے لئے ہے)کی وجہ سے اہل بیت کے مفہوم میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں شامل نہیں ہیں۔

تیسرے یہ کہ:بہت سی ایسی روایتیں مو جودہیں جن میں ”اہل بیت“کے مرادسے پنجتن پاک)علیہم السلام)کو لیاگیاہے۔لہذایہ قول کہ اہل بیت سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں،ایک بے بنیاد بلکہ برخلاف دلیل قول ہے۔یہ قول عکرمہ سے نقل کیا گیا ہے وہ کہتاتھا:

”جوچاہتا ہے،میں اس کے ساتھ اس بابت مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ آیہ شریفہ میں ”اہل بیت کا مفہوم“پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مختص ہے(۱)“

اے کاش کہ اس نے)اس قول کی نسبت اس کی طرف صحیح ہونے کی صورت میں )مباہلہ کیاہوتا اورعذاب الہٰی میں گرفتار ہواہوتا!کیونکہ اس نے پنجتن پاک(ع)کی شان میں نقل کی گئی ان تمام احادیث سے چشم بستہ انکار کیا ہے جن میں آیہء تطہیرکی شان نزول بیان کی گئی ہے۔

____________________

۱۔روح المعانی ،ج۲۲،ص۱۳،داراحیائ التراث العربی،بیروت

۱۸۷

لیکن دوسرے قول کہ جس کے مطابق”اہل بیت کے مفہوم“میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں نیزعلی،فاطمہ،حسن اورحسین)علیہم السلام)شامل ہیں کوبہت سے اہل سنت،بلکہ ان کی اکثریت نے قبول کیا۔

اور انھوں نے،اس نظریہ کو ثابت کر نے کے لئے آیات کے سیاق سے استدلال کیا ہے۔اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ آیہء تطہیرسے پہلے والی آیتیں اور آیت تطہیر کے بعد والی آیتیں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے متعلق ہیں۔چونکہ آیہء تطہیر ان کے درمیان میں واقع ہے،اس لئے مفہوم اہل بیت کی صلا حیت اورقرینہء سیاق کے لحاظ سے،اس میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں شامل ہیں۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر،قرینہء سیاق کے پیش نظر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کو یقینی طو رپر اہل بیت کی فہرست میں شامل جاناہے۔

سیاق آیہء تطہیر

کیا آیہء تطہیر کے سیاق کے بارے میں کیا گیا دعویٰ قابل انعقادہے؟اورپیغمبر (ص)کی بیویوں کے اہل بیت کے زمرے میں شامل ہونے کو ثابت کرسکتاہے؟مطلب کوواضح کرنے کے لئے درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:چند آیات کے بعد صرف ایک آیت کا واقع ہو نا سیاق کے واقع ہو نے کا سبب نہیں بن سکتا ہے اوردوسری طرف سے یہ یقین پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیتیں ایک ساتھ ایک مر تبہ نازل ہوئی ہیں،کیونکہ سیاق کے واقع ہو نے کے سلسلہ میں شر ط یہ ہے کہ آیات کا نزول ایک دوسرے کے ساتھ انجام پایا ہو۔لہذاہم شک کرتے ہیں اورممکن نہیں ہے کہ ہم سیاق کو احراز)متعین)کر سکیں جبکہ موجودہ قرآن مجیدکی تر تیب نزول قرآن کی ترتیب کے متفاوت ہے،اس لئے اس مسئلہ پرکبھی اطمینان پیدانہیں کیا جا سکتا ہے کہ آیہء تطہیر کا نزول پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کے بعد واقع ہواہے۔

۱۸۸

اگریہ کہا جائے کہ:اگرچہ یہ آیتیں ایک ساتھ نازل نہیں ہوئی ہیں،لیکن ہرآیہ اورسورئہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مو جودگی میں ان کی نظروں کے سامنے ایک خاص جگہ پرانھیں رکھا گیا ہے،اس لئے آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ معنوی رابطہ کے پیش نظران آیات میں سیاق واقع ہو اہے لہذاپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں پنجتن پاک علیہم السلام کے ساتھ اہل بیت کے زمرے میں شامل ہوں گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ:اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ آیہء تطہیر کا اس خاص جگہ پرواقع ہو ناآیات کے معنوی پیوند کے لحاظ سے ہے اور وہ چیز کہ جس پر دلیل قائم ہے صرف یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی مصلحت کے پیش نظر اس آیت کواپنی بیویوں سے مربوط آیات کے درمیان قراردیا ہے،لیکن یہ کہ مصلحت صرف آیات کے درمیان معنوی رابطہ کی وجہ سے ہے اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ممکن ہے اس کی مصلحت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کے لئے ایک انتباہ ہوکہ تمہارااہل بیت“کے ساتھ ایک رابطہ اور ہے ،اس لئے اپنے اعمال کے بارے میں ہوشیار رہنا،نہ یہ کہ وہ خود”اہل بیت“کی مصداق ہیں۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں کئی جہتوں سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ آیہء تطہیر کا سیاق اس کی قبل اور بعد والی آیات کے سیاق سے متفاوت ہے اوریہ دو الگ الگ سیاق ہیں اور ان میں سے ہر ایک ،ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے جس کا دوسرے سے کوئی ربط نہیں ہے۔وہ جہتیں حسب ذیل ہیں:

پہلی جہت:پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیوں سے مربوط آیات کا سیاق سرزنش کے ساتھ ہے)چنانچہ آیت ۲۸ کے بعدغورکرنے سے معلوم ہو تا ہے)اوران آیات میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں کی کسی قسم کی ستائش اور تعریف نہیں کی گئی ہے،جبکہ آیہء تطہیر کے سیاق میں فضیلت وبزرگی اورمدح و ستا ئش ہے اورآیہ تطہیر کے ذیل میں ذکر ہو نے والی احادیث سے یہ مطلب اور بھی زیادہ روشن و نمایاں ہو جا تا ہے۔

دوسری جہت:یہ کہ آیہء تطہیر کی شان نزول مستقل ہے اورآنحضرت (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کی شان نزول بھی مستقل ہے چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں نے اپنے حق سے زیادہ نفقہ کاتقاضا کیا تھا لہذا مذکورہ آیتیں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہیں۔اس شان نزول کے بارے میں مزیدآگاہی حاصل کرنے کے لئے شیعہ وسنی تفسیروں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں پہلے ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے مربوط آیات کی طرف اشارہ کر تے ہیں کہ اور اس کے بعد اس حدیث کا ترجمہ پیش کریں گے جسے ابن کثیر نے ان آیات کی شان نزول کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے:

۱۸۹

( یااٴیّهاالنبیّ قل لازواجک ان کنتنّ تردن الحیوةالدنیا وزینتها فتعالین اٴُمّتعکنّ واٴُسرّحکنّ سراحاًجمیلاًوإن کنتنّتردن اللّٰه ورسوله والدار الآخرة فإنّ اللّٰه اٴعدّ للمحسنات منکنّ اٴجراً عظیماًیانساء النبیّ من یاٴت منکنّ بفاحشة مبیّنة یضاعف لها العذاب ضعفین وکان ذلک علی اللّٰه یسیراًً ومن یقنت منکنّ للّٰه ورسوله وتعمل صالحاً نؤتهااجرهامرّتین واٴعتد نا لهارزقاً کریماًیانساء النبیّ لستنّ کاٴحد من النساء إن اتقیتنّ فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض وقلن قولاً معروفاًوقرن فی بیوتکنّ ولا تبرّجن الجا هلیة الاُولی واٴقمن الصلوة وء اتین الزکوة واٴطعن اللّٰه ورسوله إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراًواذکرن مایتلی فی بیوتکنّ من آیات اللّٰه والحکمةإنّ اللّٰه کان لطیفاًخبیرا ) (احزاب/ ۲۸ ۔ ۳۴)

”پیغمبر!آپ اپنی بیویوں سے کہد جئے کہ اگر تم سب زندگانی دنیااوراس کی زینت کی طلبگارہوتوآؤمیں تمہارامہرتمھیں دیدوں اورخوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اوراگراللہ اور رسول اورآخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے اجر عظیم قرار دیا ہے ۔اے زنان پیغمبرجو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائیوں کاارتکاب کرے گااس کو دھرا عذاب کر دیا جائے گا اوریہ بات خد اکے لئے بہت آسان ہے۔اورجوبھی تم میں سے خدااوررسول کی اطاعت کرے اورنیک عمل انجام دے اسے دہرا اجر عطا کیا جائے گا اورہم نے اس کے لئے بہترین رزق فراہم کیا ہے ۔اے زنان پیغمبر!تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمھارامرتبہ عام عورتوں کے جیسا نہیں ہے،لہذا کسی آدمی سے نازکی)دل لبھانے والی کیفیت) سے بات نہ کرو کہ بیمار دل افراد کوتمہاری طمع پیدا ہو اور ہمیشہ شائستہ و نیک باتیں کیا کرواور اپنے گھروں میں بیٹھی رہواور جاہلیت کے زما نہ کی طرح بناؤ سنگار نہ کرواور نماز قائم کرو اورزکوةادا کرو اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو۔بس اللہ کا ارادہ ہے اے اہل بیت!کہ تم سے ہر طرح کی برائی کو دور رکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔اورازواج پیغمبر!تمھارے گھروں میں جن آیات الہٰی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یادرکھو خدا لطیف اور ہرشے سے آگاہ ہے۔“

۱۹۰

ابن کثیر نے ابی الزبیر سے اوراس نے جابر سے روایت کی ہے:

”لوگ پیغمبر (ص)کے گھر کے سامنے بیٹھے تھے،اسی حالت میں ابوبکراورعمرآگئے اورداخل خا نہ ہونے کی اجازت چاہی۔پہلے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔جب انھیں اجازت ملی اور وہ خا نہ رسول میں ہوئے توانہوں نے کیادیکھاکہ آنحضرت (ص)بیٹھے ہوئے ہیں اورآپ کی بیویاں بھی آپکے گردبیٹھی ہوئی ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خاموش تھے۔عمر نے آنحضرت (ص)کو ہنسا نے کے قصد سے کہا:یارسول اللہ!اگرآپ دیکھتے کہ بنت زید) اس سے مراد عمر کی زوجہ ہے) نے جب مجھ سے نفقہ کا تقاضا کیا تو میں نے کیسی اس کی پٹائی کی!یہ سن کرپیغمبراکرم (ص)ایسا ہنسے کہ آپکے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ )میری بیویاں)میرے گردجمع ہوئی ہیں ا ور مجھ سے)بیشتر)نفقہ کا تقاضا کرتی ہیں۔اس وقت ابوبکرعائشہ کو مار نے کے لئے آگے بڑھے اور عمر بھی اٹھے اوردونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں سے نصیحت کر تے ہو ئے کہا:تم پیغمبر (ص)سے ایسی چیزکامطالبہ کرتی ہوجوپیغمبر کے پا س نہیں ہے؟آنحضرت (ص)نے انھیں مار نے سے منع فرمایا۔اس قضیہ کے بعد آنحضرت (ص)کی بیویوں نے کہا:ہم آج کے بعد سے پیغمبر (ص)سے کبھی ایسی چیز کا تقاضا نہیں کریں گے،جوان کے پاس موجود نہ ہو۔خدا وند متعال نے مذکورہ آیات کو نازل فرمایا جس میں آنحضرت (ص)کی بیویوں کو پیغمبر کی زوجیت میں باقی رہنے یا انھیں طلاق کے ذریعہ آنحضرت کو چھوڑ کے جا نے کا اختیار دیا گیاہے۔(۱)

یہ تھی،آنحضرت (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول۔جبکہ آیہء تطہیر کی شان نزول پنجتن آل عبا اورائمہ معصومین (علیہم السلام) سے متعلق ہے۔اس سلسلہ میں شیعہ وسنی تفسیر اورحدیث کی کتا بوں میں کافی تعداد میں روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر احادیث کے باب میں کریں گے۔

____________________

۱۔تفسیر ابن کثیر،ج۳،ص۴۹۱

۱۹۱

اس شان نزول اورپیغمبراکرم (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول میں احتمالاً کئی سالوں کا فاصلہ ہے۔اب کیسے ان آیا ت کے در میان وحدت سیاق کے قول کو تسلیم کیا جا سکتا ہے اورکیاان دو مختلف واقعات کو ایک سیاق میں ضم کرکے آیت کے معنی کی توجیہ کی جاسکتی ہے؟

تیسری جہت:یہ کہ سیاق کے انعقادکو مختل کرنے کاایک اورسبب پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات اور آیہء تطہیر کے ضمیروں میں پا یا جا نے والا اختلاف ہے۔مجموعی طورپر مذکورہ آیات میں جمع مونث مخاطب کی ۲۲ ضمیریں ہیں۔ان میں سے ۲۰ ضمیریں ایہء تطہیرسے پہلے اوردوضمیریں ایہء تطہیر کے بعداستعمال ہوئی ہیں،جبکہ آیہء تطہیر میں مخاطب کی دوضمیریں ہیں اوردونوں مذکر ہیں۔اس اختلاف کے پیش نظر کیسے سیاق محقق ہوسکتا ہے؟

اعتراض:آیہء تطہیرمیں ”عنکم“اور”یطھّرکم“سے مراد صرف مرد نہیں ہیں،کیونکہ عورتوں کے علاوہ خود پیغمبر (ص)علی ،حسن وحسین (علیہم السلام) بھی اس میں داخل تھے۔اس لئے”کم“کی ضمیر آئی ہے اورعربی ادبیات میں اس قسم کے استعمال کو ”تغلیب“کہتے ہیں اوراس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی حکم کا ذکرکرنا چاہیں اوراس میں دوجنس کے افراد شامل ہوں،تو مذکر کو مونث پر غلبہ دے کر لفظ مذکر کو ذکر کریں گے اوراس سے دونوں جنسوں کا ارادہ کریں گے۔

اس کے علاوہ،مذکرکی ضمیرکا استعمال ایسی جگہ پر کہ جہاں مونث کا بھی ارادہ کیا گیا ہے قرآن مجید میں اور بھی جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے،جیسے درج ذیل آیات میں( قالو ااٴتعجبین من اٴمراللهرحمت اللهوبرکاته عليکم اٴهل البیت ) (۱) کہ حضرت ابراھیم) علیہ السلام) کی زوجہ سے خطاب کے بعد جمع مذکر حاضر کی ضمیر اور اہل بیت کا عنوان ذکر ہوا ہے۔

( قال لاهله امکثوا ) (۲) کہ حضرت موسی علیہ اسلام کے اہل خاندان )کہ جس سے

____________________

۱۔ ہود/۷۳

۲۔قصص/۲۹

۱۹۲

مرادان کی زوجہ ہے) کے ذکرکے بعد ضمیرجمع مذکر حاضر کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے۔

جواب: ہر کلام کا اصول یہ ہے کہ الفاظ کو اس کے حقیقی معنی پر حمل کیا جائے اور”اصالة الحقیقة“ایک ایسا عقلائی قاعدہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہر لغت وزبان کے محاورات و مکالمات میں استناد کیا جاتاہے۔

اس عقلائی قاعدے کی بنیاد پر جس لفظ کے بارے میں یہ شک پیدا ہو کہ وہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں، اسے اس کے حقیقی معنی پر حمل کرنا چاہے۔ اس لحاظ سے آیہء تطہیر میں دو جگہ پراستعمال ہوئی”کم“کی ضمیرسے مراد اس کے حقیقی معنی ہیں اور یہ کہ آ یہ شریفہء مذکور میں تمام افراد اہلبیت مذکر تھے، صرف قرینہ خارجی اور آیت کی ذیل میں روآیت کی گئی احادیث کی وجہ سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کی فہرست میں حضرت فاطمہ زہراسلام الله علیہابھی شامل ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی مونث فرد اہل بیت میں شامل نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ میں قاعدئہ”اقرب المجازات“جاری ہوگا۔

لیکن شواہدکے طور پر پیش کی گئی آیات میں قرینہ کی وجہ سے مونث کی جگہ ضمیر مذکر کا استعمال ہوا ہے اوریہ استعمال مجازی ہے اور ایک لفظ کا مجازی استعمال قرینہ کے ساتھ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ قرینہ کے بغیر بھی یہ عمل انجام دیا جائے اور جیسا کہ کہا گیاکہ اصل استعمال یہ ہے کہ لفظ اس کے حقیقی معنی میں استعمال ہواور ایسا نہ ہونے کی صورت میں قاعدہ”اقرب المجازات“کی رعآیت کی جانی چاہئے۔

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث

ش یعہ اور اہل سنت کے منابع میں بڑی تعداد میں ذکر ہونے والی احادیث سے واضح طور پریہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آیہ تطہیر میں ”اہل بیت“سے مراد صرف پنجتن پاک) علیہم السلام) ہیں اور ان میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں کسی جہت سے شامل نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں مذکورہ

۱۹۳

منابع میں اتنی زیادہ حدیثیں نقل ہوئی ہیں کہ حاکم حسکانی(۱) نے اپنی کتاب”شواہد التنزیل“ کے صفحہ ۱۸ سے لیکر ۱۴۰ تک انہی احادیث سے مخصوص کیا ہے۔(۲) ہم ذیل )حاشیہ) میں اہل سنت

____________________

۱۔ذہبی،تذکرةالحافظ،ج۲،ص۱۲۰۰پر کہتا ہے:حاکم حسکانی علم حدیث کے کامل عنایت رکھنے والاایک محکم اورمتقن سند ہے۔

۲۔ اسدالغابة/ج۵ص۵۲۱/داراحیائ التراث العربی ،بیروت، الاصابة/ج۲/ص۵۰۹/دارالفکر، اضوائ البیان /ج۶/ص۵۷۸/عالم الکتب بیروت، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۵۴/دارالفکر، بحار الانوار،ج۳۵،ازص۲۰۶،باب آیة تطہیر تاص۲۳۲ مؤسسة الوفائ بیروت، تاریخ بغداد /ج۹/ص۱۲۶/ وج۱۰/ص۲۷۸/دارالفکر، تاریخ مدینہ دمشق/ج۱۳/ص۲۰۳و ۲۰۶و۲۰۷وج۱۴/ ص۱۴۱و۱۴۵، تفسیر ابن ابی حاتم /ج۹/ص۳۱۲۹/المکتبة المصربة بیروت، تفسیر ابی السعود/ ج۷/ ص۱۰۳/دارالحیائ التراث العربی بیروت، تفسیر البیضاوی/ج۲۳/ص ۳۸۲/دارالکتاب العلمیة، تفسیر فرات الکوفی/ج۱/ص۳۳۲ تا۳۴۲/مؤسسة النعمان، تفسیر القرآن العظیم ابن کثیر/ج۳/ص۵۴۸/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر اللباب ابن عادل دمشقی/ج۱۵/ص۵۴۸/ دارالکتاب العلمیة بیروت، تفسیر الماوردی/ج۴/ص۴۰۱/دارالمعرفة بیروت، التفسیر المنبر/ج۲۳/ص۱۴/دارالفکرالمعاصر، تھذیب التھذیب/ج۲/ص۲۵۸/دارالفکر، جامع البیان/ طبری/ج۲۲/ص۵/دارالمعرفة بیروت، جامع احکام القرآن/ قرطبی/ج۱۴/ص۱۸۳/دارالفکر، الدار المنثور/ج۶/ص۶۰۴/دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۲۱تا۲۴، روح البیان/ج۷/ص۱۷۱/داراحیائ التراث العربی، روح المعانی/ آلوسی/ج۲۲/ص۱۴/دار احیائ التراث العربی/الریاض النضرة/ج۲)۴-۴)/ص۱۳۵/دار الندوة الجدیدة بیروت، زاد المسیر/ ابن جوزی/ج۶/ص۱۹۸/ دارالفکر، سنن الترمذی/ج۵/ص۳۲۸-۳۲۷و ۶۵۶/ دارالفکر، السنن الکبری / بیھقی/ ج۲ / ص۱۴۹/ دارالمعرفة بیروت، سیر اعلام النبلاء/ ذہبی/ج۳/ص۲۵۴و ۲۸۳/ مؤسسة الرسالة بیروت، شرح السنة بغوی/ج۱۴/ص۱۱۶/المکتب الاسلامی بیروت، شواہد التنزبل/ج۲/ص۸۱-۱۴۰/ موسسة الطبع و النشر لوزرارة الارشاد، صحیح ابن حبان/ج۱۵/ص۴۴۲ الٰی ۴۴۳/موسسة الی سالة بیروت، صحیح مسلم/ج۵/ص۳۷/ کتاب الفضائل باب فضائل / مؤسسة عزالدین بیروت، فتح القدیر/ شوکانی/ج۴/ص۳۴۹تا۳۵۰/ دار الکتاب العلمیة بیروت، فرائد السمطین/ جوینی/ج۱/ص۳۶۷/مؤسسة المحمودی بیروت، کفایة الطالب/ص۳۷۱تا۳۷۷/داراحیاء تراث اہل البیت، مجمع الزوائد/ج۹/ص۱۶۶-۱۶۹/دارالکتب العربی بیروت، المستدرک علی الصحیحین /ج۲/ص۴۱۶وج۳/ص۱۴۷/دارالمعرفة بیروت، مسند ابی یعلی/ج۱۲/ ص۳۴۴و۴۵۶/ دار الہامون للتراث، مسند احمد/ج۴/ص۱۰۷وج۶/ص۲۹۲/دارصادر بیروت، مسند اسحاق بن راہویہ/ ج۳/ص۶۷۸/مکتبة الایمان مدینة المنورة، مسندطیالسی/ص۲۷۴/ دارالکتب اللبنانی، مشکل الآثار/ طحاوی/ج۱/ص۳۳۵/دارالباز، المعجم الصغیر/طبرانی/ج۱/ص ۱۳۵/ دارالفکر، المعجم الاوسط/طبرانی/ج۲/ص۴۹۱/ مکتبة المعارف ریاض، المعجم لکبیر/طبرانی/ ج۲۳/ ص۲۴۵و۲۸۱و ۲۸۶و ۳۰۸و۳۲۷و۳۳۰و۳۳۳و۳۳۴و۳۳۷و۳۵۷و۳۹۳و۳۹۶، المعرفة و التاریخ بسوی/ ج۱/۳۹۸، المنتخب من مسند عبد بن حمید/ص۱۷۳ و ۳۶۷/عالم الکتب قاہرہ مناقب ابن مغازلی/ص۳۰۱-۳۰۲/ المکتبةالاسلامیة

۱۹۴

کے بعض منابع کا ذکرکرتے ہیں کہ جن میں مذکورہ احادیث یا درج ہو ئی ہے یاان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ان احادیث کے رادیوں کا سلسلہ جن اصحاب پرمنتہی ہو تا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام

۲ ۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام الله علیہا

۳ ۔ حسن بن علی علیہ السلام

۴ ۔ انس بن مالک

۵ ۔ براء بن عازب انصاری

۶ ۔ جابربن عبد الله انصاری

۷ ۔ سعد بن ابی وقاص

۸ ۔ سید بن مالک)ابو سعید خدومی)

۹ ۔ عبد اللهبن عباس

۱۰ ۔ عبدالله بن جعفرطیار

۱۱ ۔ عائشہ

۲۱ ۔ ام سلمہ

۱۳ ۔ عمربن ابی سلم

۱۴ ۔ واثلة بن اسقع

۱۵ ۔ ابی الحمرائ

اس کے علاوہ شیعوں کی حدیث اور تفسیر کی کتابوں اور بعض اہل سنت منابع میں درج کی گئی احادیث اور روایتوں سے استفادہ ہو تا ہے کہ ” اہل بیت “سے مراد پیغمبر اسلام (ص)علی، فاطمہ نیز شیعوں کے گیارہ ائمہ معصومین )علیہم السلام )ہیں۔

۱۹۵

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث کی طبقہ بندی

آیہ تطہیر سے مربوط احادیث کو اہل سنت کے مصادر میں مطالعہ کرنے اور شیعوں کے منابع میں موجود ان احادیث کا سرسری جائزہ لینے کے بعد انھیں چند طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱ ۔ وہ حدیثیں جن میں ” اہل بیت “ کی تفسیر علی و فاطمہ، حسن وحسین علیہم السلام کے ذریعہ کی گئی ہے۔

۲ ۔ وہ حدیثیں جن کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی، وفاطمہ،حسن و حسین علیہم السلام کو کساء کے نیچے قرار دیا پھر آیہ تطہر نازل ہوئی ، اور یہ واقعہ ” حدیث کساء “ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ ام سلمہ یا عائشہ نے سوال کیا کہ : کیا ہم بھی اہل بیت میں شامل ہیں؟

۳ ۔ وہ حدیثیں جن میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرروز صبح کو یا روزانہ پانچوں وقت حضرت علی و فاطمہ علیہماالسلام کے کھرکے دروازے پر تشریف لے جاتے تھے اور سلام کر تے تھے نیز آیہ تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔

۴ ۔ وہ حدیثیں جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ تطہیر پنجتن پاک علیہم السلام یا پنجتن پاک علیہم السلام نیز جبرئیل ومیکائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

یہاں پرمناسب ہے کہ احادیث کے مذکورہ چارطبقات میں سے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا جاے:

۱۹۶

۱ ۔ ”اہل بیت“کی پنجتن پاک سے تفسیر

ذیل میں چند ایسی احادیث بیان کی جاتی ہیں جن میں آیہء تطہیر میں ”اہل بیت“کی تفسیرپنجتن پاک) علیہم السلام )سے کی گئی ہے:

الف:کتاب”المستدرک علی الصحیحین“میں عبداللہ بن جعفر سے روایت کی گئی ہے:

لمّا نظر رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إلی الرحمة هابطة قال: اٴُدعوالی، اٴُدعوالی فقالت صفیة: من یا رسول اللّٰه؟ قال:اٴهل بیتی:علیاً وفاطمه والحسن و الحسین - علیهم السلام - فجیئی بهم،فاٴلقی علیهم النبییّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کساء ه ثم رفع یدیه ثمّ قال: ”اللّهمّ هؤلاء آلی فصل علی محمد و علی آل محمد“ و اٴنزل اللّٰه عزّوجلّ ( : إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) هذا حدیث صحیح الاسناد ۔(۱)

”جب پیغمبر خدا (ص)نے رحمت الہی )جو آسمان سے نازل ہوئی تھی) کا مشاہدہ کیا تو فرمایا: میرے پاس بلاؤ!میرے پاس بلاؤ!صفیہ نے کہا:یارسول اللہ کس کو بلاؤں؟آپ نے فرمایا:میرے اہل بیت،علی وفاطمہ، حسن وحسین )علیہم السلام)کو۔

جب ان کو بلایا گیا،تو پیغمبراکرم (ص)نے اپنی کساء )ردا)کوان پر ڈال دیااوراپنے ہاتھ پھیلاکر یہ دعا کی:خدایا!”یہ میرے اہل بیت ہیں۔محمد اور ان کے اہل بیت پر دورد ورحمت نازل کر۔“اس وقت خدا وند متعال نے آیہء شریفہ إنمّا یرید اللہ۔۔۔ نازل فرمائی۔

اس حدیث کے بارے میں حاکم نیشاپوری کا کہنا ہے:

هذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه ۔“

”اس حدیث کی سند صحیح ہے اگرچہ بخاری اورمسلم نے اپنی صحیحین میں سے نقل نہیں

_____________________

۱۔المستدرک علی الصحیحین،ج۳،ص۱۴۸

۱۹۷

کیا ہے۔“(۱)

قابل غوربات ہے کہ حاکم نیشاپوری کا خود اہل سنت کے حدیث ورجال کے بزرگ علماء اور امام میں شمار کیا جاتا ہے ۔

ب:عن ابی سعید الخدری عن اٴُم سلمة قالت: ”نزلت هذه الآیة فی بیتی: ( إنّما یرید اللّهٰ لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) قلت: یا رسول اللّٰه، اٴلست من اٴهل البیت؟ قال: إنّک إلی خیر، إنّک من اٴزواج رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالت: و اٴهل البیت رسول اللّٰه و علیّ و فاطمة والحسن والحسن(۲)

”ابی سعیدخدری نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:یہ آیت:

( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الّرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیرا ) میرے گھر میں نازل ہوئی میں نے عرض کی یارسول اللہ!کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟فرمایا:تمھارا انجام بخیر ہے،تم رسولکی بیوی ہوپھرام سلمہ نے کہا:”اہل بیت“رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی و فاطمہ، حسن وحسین (علیہم السلام) ہیں۔

____________________

۱۔حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین“میں ان ا حادیث کودرج کیا ہے جو بخاری کے نزدیک صحیح ہو نے کی شرط رکھتی تھیں،لیکن انہوں نے انھیں اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے۔جو کچھ ذہبی اس حدیث کے خلاصہ کے ذیل میں ۔ اس کے ایک راوی ۔ملیکی کے بارے میں کہتا ہیں کہ:”قلت: الملیکی ذاھب الحدیث“اس کے عدم اعتماد کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔کیونکہ اس کے بارے میں جیسا کہ ابن حجر نے”تہذیب التہذیب“ج۶،ص۱۳۲ پر”ساجی“سے نقل کر کے”صدوق“ کی تعبیرکی ہے۔ اس کی صداقت اور سچ کہنے کی دلیل ہے۔اوراس کی مدح میں جوتعبیرات نقل کی گئی ہے وہ اس کی حدیث کے بارے میں ہے اورخود صحیح بخاری ومسلم میں بھی ہم بہت سے ابواب میں ان کے راویوں کوپاتے ہیں کہ بہت سی تعرفیں کی گئی ہیں۔

۲۔تاریخ مدینة دمشق،ج۱۳،ص۲۰۶

۱۹۸

۲ ۔آیہء تطہیر کی تفسیرمیں حدیث کساء کی تعبیر

ش یعہ اور اہل سنت کی تفاسیر و احادیث کی کتابوں میں اس مضمون کی فراون حدیثیں موجود ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو ایک کساء کے نیچے جمع کیا اور اس کے بعد ان کے بارے میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔ ہم اس کتاب میں ان احادیث میں سے چند ایک کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

قابل توجہ بات ہے کہ ش یعہ امامیہ کے نزدیک حدیث کساء ایک خاص اہمیت و منزلت کی حامل ہے۔ یہ حدیث مرحوم بحرانی(۱) کی کتاب،”عوالم العلوم“میں حضرت فاطمہ زہرا )سلام الله علیہا) سے روآیت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں میں ش یعوں کے نا مور علماء اور فقہا کے نام سے مزّین اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ نیز یہ حدیث ش یعوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پڑھی جاتی ہے اور توسّل اور تبّرک کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔

احادیث کے اس گروہ میں درجہ ذیل تعبیر یں توجہ کا باعث ہیں اور ان تعبیروں میں سے ہر ایک ”اہل بیت “ کے دائرے کو پنجتن پاک )علیہم اسلام) کی ذات میں متعین کرتی ہیں:

۱ ۔”إنّک الی خیر “ یا جملہء”انّک من ازواج النبّی “ سے ضمیمہ کے ساتھ(۲)

۲ ۔”تنحّی، فإنّک علی خیر ۔“(۳)

۳ ۔”فجذبه من یدی ۔“(۴)

۴ ۔”ماقال إنّک من ٍهل البیت ۔“(۵)

۵ ۔”لا،واٴنت علی خیر ۔“(۶)

____________________

۱۔ عوام العوم، جلد حضرت زہراء علیہماسلام۔ ج۱۱،ص ۶۳۸موسسہ الامامم مھدی علیہ اسلام

۲۔الدر المنثور،ج۶،ص۶۳۸،موسسة الامام مھدی

۳۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۳

۴۔الدر المنثور،ج۶،ص۱۶۰۴۔المعجم الکبیرج،۲۳،ص۳۳۶ ۵۔تاریخ مدینةدمشق ج۱۴،ص۱۴۵

۶۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۰۶ ۲

۱۹۹

۶ ۔”فواللّٰه مااٴنعم ۔“(۱)

۷ ۔”مکانک،اٴنت علی خیر ۔“(۲)

۸ ۔”فوددت اٴنّه قال:نعم ۔۔۔“(۳)

۹ ۔”تنحیّ لی عن اٴهل بیتی ۔“(۴)

۱۰ ۔”إنّک لعلی خیر،ولم ید خلنی معهم ۔“(۵)

۱۱ ۔”فواللّٰه ماقال:اٴنت معهم ۔“(۶)

۱۲ ۔”اجلسی مکا نک،فانک علی خیر ۔“(۷)

۱۳ ۔”إنّک لعلی خیر،وهؤلائ اٴهل بیتی ۔“(۸)

۱ ۔”إنک إلی خیر “کی تعبیر

”اٴخرج ابن جریر و ابن حاتم و الطبرانی و ابن مردویه عن اٴمّ سلمة زوج النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إنّ رسول اللّٰه( ص) کان ببیتها علی منامة له علیه کساء خیبریّ! فجا ء ت فاطمة - رضی اللّٰه عنها - ببرمة فیها خزیره فقال رسول اللّه( ص) : اُدعی زوجک و ابنیک حسناً و حسیناً فدعتهم، فبینما هم یاٴکلون إذنزلت علی رسول اللّٰه( ص) :( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) فاٴخذ النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بفضلة ازاراه فشّاهم إیاّها، ثمّ اٴخرج یده من الکساء و اٴومابها إلی السماء ثمّ قال: ”اللّهمَّ هؤلاء

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲،تفسیر طبری ج،۲۲ص،۵

۲۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۴،ص۱۴۱ ۳۔مشکلا آثار،ج۱،ص۳۳۶

۴۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۲۰۳

۵۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۶۱

۶۔شواہد التنزیل،ج۲،ص۱۳۴

۷۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۱۹

۸۔المستدرک علی الصحیحین،ج۲،ص۴۱۶

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329