ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130638 / ڈاؤنلوڈ: 4446
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

انہی روایتوں سے استناد کرکے ابن حجر نے عبد اللہ اور عبید اللہ کے صحابی ہونے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی مصاحبت پر استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے :

ہم نے بارہا کہا ہے کہ اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو حاکم و سپہ سالار معین نہیں کیا جاتا تھا۔

وہ سیف کی روایتوں سے اس مطلب کو بھی حاصل کرکے لکھتا ہے :

ابو بکر نے ان دونوں کو مرتدوں جنگ میں سپہ سالاری کا عہدہ سونپا اور '' جرش'' کی حکومت اسے دی۔

اس طرح یہ روایات سیف کے ذریعہ اسلامی مصادر میں داخل ہوئی ہیں ۔

فرزندان ثور کے افسانہ کے راوی

سیف اپنے جعل کئے ہوئے ثور کے بیٹوں کے افسانوں کو مندرجہ ذیل اپنے ہی جعلی راویوں کی زبانی نقل کیا ہے۔

١۔ سہل بن یوسف نے

٢۔ یوسف بن سہل سے ، اس نے

٣۔ عبید بن صخر سے

٤۔ مستنیر بن یزید

٥۔ عروة بن غزیہ

ان افسانوں کی اشاعت کرنے والے ذرائع

١۔ طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں ، اور درج ذیل علماء نے اس سے نقل کیا ہے

٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ۔

٣۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں

۱۲۱

٥۔ میر خواند نے اپنی کتاب '' روضة الصفا '' میں

٦۔ سمعانی نے '' انساب'' میں ۔

٧۔ ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے ''لباب'' میں

٨۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں ۔

٩۔ ابن اثیر نے ا'' اسد الغابہ '' میں استیعاب سے نقل کرکے ۔

١٠۔ ذہبی نے '' تجرید'' میں ، '' اسد الغابہ '' سے نقل کرکے۔

١١۔ ابن حجر نے سیف کی '' فتوح'' سے اور '' استیعاب '' سے نقل کرے '' اصابہ '' میں ۔ لیکن '' تصبیر '' میں سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

١٢۔ ابن ماکولا نے سیف سے نقل کرکے '' اکمال'' میں ۔

١٣۔ ١٤۔ اور ان سے فیروز آبادی اور زبیدی نے بالترتیب ' ' قاموس '' اور اس کی شرح '' تاج العروس'' میں نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ میر خواند نے کتاب '' روضة الصفا '' طبع ، تہران ، خیام (٢ ٦٠) میں ۔

مصادر و مآخذ

عکاشہ کے حالات اور اس کی حدیث

١۔ '' تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢ ، ١٨٥٣، ١٨٥٤، اور ٢٠٠)

٢۔ '' تاریخ ابن اثیر'' ( ٢ ٢٥٥)

٣۔ تاریخ ابن کثیر ( ٦ ٣٠٧)

٤۔ '' ابن خلدون'' ( ٢ ٢٦٣، ٢٧٥۔ ٢٧٧)

٥۔ '' استیعاب '' ابن عبد البر ( ٢ ٥٠٩) نمبر : ٢١٥٠ طبع حیدر آباد

٦۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر (٤ ٢)

٧۔ '' تجرید ذہبی'' ( ١ ٣١٨)

۱۲۲

٨۔ '' انساب سمعانی '' لفظ '' غوثی '' ( ٤١٣)

٩۔ '' اکمال '' ( ص٩٦)

عبد اللہ بن ثور کے حالات :

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٩٩٧، ١٩٩٨، ٢١٣٦)

٢۔ '' اصابہ'' ابن حجر ( ٢ ٢٧٧) نمبر :٦٥٩٧

چھوٹا خط رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اورگورنروں کے نام:

١۔ خلیفہ بن خیاط ( ١ ٦٣)

٢۔ '' تاریخ اسلام '' ذہبی ( ٢ ٢)

٣۔ لفظ '' غوثی'' '' تحریر المشتبہ '' ذہبی ( ١ ٤٨٩)

٤۔ '' تبصیر المشتبہ '' ابن حجر ( ٣ ١٠٣٤)

۱۲۳

پانچواں حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی

*٣٥۔ وبرة بن یحنس،خزاعی۔

*٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری

*٣٧۔ جریر بن عبد اللہ حمیری

*٣٨۔صلصل بن شرحبیل

*٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

*٤٠۔ عمر وبن خفاجی ، عامری

*٤١۔ عمرو بن خفاجی عامری

*٤٢۔ عوف ورکانی۔

*٤٣۔ عویف زرقانی

*٤٤۔ قحیف بن سلیک ھالکی

*٤٥۔ عمرو بن حکم قضاعی

*٤٦۔ امرؤ القیس ( بنی عبد اللہ سے )

۱۲۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی اور گورنر

طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے طلیحة بن خویلد کی بغاوت کی خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی، وہ بنی مالک میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ'' سنان بن ابی سنان'' تھا۔

وہ ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خبر کے سننے کے بعد ، اپنی طرف سے ایک ایلچی کو یمن میں مقیم چند سرکردہ ایرانیوں کے پاس بھیجا اور انھیں لکھا کہ طلیحہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھیں اور تمیم و بنی قیس کے لوگوں پر مشتمل ایک فوج کو منظم کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ وہ طلیحہ سے جنگ کرنے کیلئے اٹھیں انہوں نے اس حکم کی اطاعت کی اور اس طرح مرتدوں کیلئے ہر طرف سے راستہ بند کیا گیا۔

پیغمبری کا مدعی، '' اسود'' پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں ہی مارا گیا اور طلیحہ و مسیلمہ بھی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے محاصرہ میں پھنس گئے ۔

بیماری کی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو درد و تکلیف ہورہی تھی، وہ بھی آپ کیلئے فرمان الٰہی کی اطاعت اور دین کی حمایت کرنے میں رکاوٹ نہ بنی اور آنحضرت نے اسی حالت میں مندرجہ ذیل افراد کو پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے کیلئے اپنے ایلچیوں کے طور پر روانہ فرمایا:

١۔ وبرة بن یحنس کو '' فیروز ، جشیش دیلمی اور دازویہ استخری '' کے پاس بھیجا۔

٢۔ جریر بن عبد اللہ کو ایلچی کے طور پر '' ذی الکلاع اور ذی ظلیم '' کے ہاں روانہ فرمایا۔

٣۔ اقرع بن عبد اللہ حمیری نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' کو پہنچایا۔

٤۔ فرات بن حیان عجلی کو ایلچی کے طور پر '' ثمامۂ آثال '' بھیجا۔

٥۔ زیاد بن خنظلہ تمیمی عمری کو '' قیس بن عاصم'' اور '' زبر قان بن بدر '' سے ملاقات کرنے کی مموریت عطا فرمائی۔

٦۔ صلصل بن شرجیل کو سبرة بن عنبری ، وکیع دارمی، عمرو بن محجوب عامری عمرو بن محجوب عامری اور بنی عمرو کے عمرو بن خفاجی کے پاس بھیجا۔

۱۲۵

٧۔ ضرار بن ازور اسدی کو بنی صیدا کے عوف زرقانی ، سنان اسدی غنمی اور قضاعی دئلی کے ہاں جانے پرممورکیا۔

٨۔نعیم بن مسعود اشجعی کو ذی اللحیہ اور ابنمسیمصہجبیری سے ملاقات کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

ابن حجر کی اصابہ میں '' صفوان بن صفوان '' کے حالات کی تشریح کے ضمن میں سیف کی روایت یوں ذکر ہوئی ہے:

صلصل بن شرحبیل کو ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۔۔ اپنے ایلچی کے طور پر اسے صفوان بن صفوان تمیمی اور وکیع بن عدس دارمی وغیرہ کے پاس بھیجا اور انھیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی دعوت اور ترغیب دی۔

تاریخی حقائق پر ایک نظر

تاریخ نویسوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان تمام ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام درج کیا ہے جنھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف بادشاہوں ، قبیلہ کے سرداروں اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تھا۔لیکن ان کے ہاں کسی صورت میں مذکورہ افراد کا نام اور ان کے پیغام رسانی کے موضوع کا ذکر نہیں ہوا ہے۔

'' ابن خیاط'' نے اپنی تاریخ میں ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں بحث کے دوران لکھا ہے :

١۔ عثمان بن عفان کو حدیبیہ کے سال مکہ کے باشندوں کے پاس۔

٢۔ عمرو بن امیہ صمری کو ایک تحفہ کے ساتھ مکہ ، ابو سفیان بن حرب کے پاس۔

٣۔ عروة بن مسعود ثقفی کو طائف ، اپنے خاندان کے پاس۔

٤۔ جریر بن عبد اللہ کو یمن ، ذی کلاع اور ذی رعین کے پاس۔

٥۔ وبر بن یحنس کو یمن میں ایرانی سرداروں کے پاس۔

٦۔ خبیب بن زید بن عاصم ۔۔ کو مسیلمہ کذاب کے پاس جو مسیلمہ کے ہاتھوں قتل ہوا ۔۔

٧۔ سلیط بن سلیط کو یمامہ کے باشندوں کے پاس۔

٨۔ عبد اللہ بن خدافہ سہمی کو بادشاہ ایران کسریٰ کے پاس۔

٩۔ دحیة بن خلیفہ کلبی کو قیصر ، روم کے بادشاہ کے پاس۔

۱۲۶

١٠۔ شجاع بن ابی وہب اسدی کو، حارث بن ابی شمّر غسانی یا جبلة بن ایہم کے پاس

١١۔ حاطب بن ابی بلتعہ کو مقوقس ، اسکندریہ کے حکمران کے پاس

١٢۔ عمروبن امیہ ضمری کو نجاشی حبشہ کے پاس۔

اس طرح خلیفہ بن خیاط ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام اپنی کتاب میں لیتا ہے جنہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف علاقوں اور شخصیتوں کے پاس بھیجا ہے ۔ لیکن ان میں سیف کے خلق کردہ ایلچیوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔

سیف کی حدیث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آٹھ ایلچیوں کے نام لئے گئے ہیں جنہوں نے مختلف بیس شخصیتوں سے ملاقات کی ہے ۔ ان پیغام رسانوں اور پیغام حاصل کرنے والوں کے مجموعہ میں سیف کے دس جعلی صحابی بھی نظر آتے ہیں جن کے بارے میں ہم الگ الگ بحث کریں گے۔

پینتیسواں جعلی صحابی وبرة بن یحنس

سیف کی روایتوں کے مطابق تاریخ طبری میں آیا ہے کہ وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آٹھ ایلچیوں میں سے ایک ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حیات کے آخری ایام میں بیماری کے دوران ١١ ھ میں یمن میں مقیم ایرانی سرداروں سے ملاقات کرنے کیلئے اسے ممور کیاہے۔

وبرہ ان سرداروں کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط ساتھ لے گیا ، جس میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں امر فرمایا تھا کہ '' اسود'' کے خلاف جنگ کرکے اسے قتل کر ڈالیں اور تاکید فرمائی تھی کہ اسود کو قتل کیا جائے ، چاہے مکر و فریب اور جنگ وخونریزی کے ذریعہ ہی سہی۔

وبرہ ، یمن میں '' دا زویۂ فارسی '' کے پاس پہنچتا ہے ، سر انجام '' فیروز'' اور ''جشیش دیلمان'' کی ساتھ ایک نشست تشکیل دیتے ہیں اور '' قیس بن عبد یغوث '' ۔۔ جوبقول سیف اسود کی سپاہ کا سپہ سالار اعظم تھا۔۔ سے سازش کرکے '' اسود '' کو قتل کرنے میں اس کی موافقت حاصل کرتے ہیں ۔

۱۲۷

یہ لوگ رات کے اندھیرے میں '' اسود'' کے گھر میں جمع ہوکر اسے قتل کر ڈالتے ہیں ۔ طلوع فجر ہوتے ہی ''جشیش'' یا '' وبرہ '' نماز کیلئے اذان دیتا ہے اور '' وبرة '' کی امامت میں فجر کی نماز پڑھی جاتی ہے۔

اپنی مموریت کو انجام دینے کے بعد ''وبرہ'' ابو بکر کے پاس مدینہ پلٹتا ہے۔

کتاب '' استیعاب '' اور '' اصابہ'' میں یہ داستان سیف سے نقل ہوئی ہے اور اس نے ضحاک بن یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔

مذکورہ دو کتابوں میں '' وبرة بن یحنس'' کے بارے میں طبری سے نقل کرکے سیف کی روایتیں اس مختصر سند اور اس تفاوت کے ساتھ درج ہوئی ہیں کہ تاریخ طبری میں '' وبرہ'' '' ازدی '' ہے جبکہ مذکورہ دو کتابوں میں '' خزاعی '' ذکر ہوا ہے۔

سیف کی احادیث میں وبرہ کی داستان یہی تھی جو اوپر ذکر ہوئی ۔ ہاں جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حقیقی صحابی تھا ، اس کا نام '' وبر بن یحنس کلبی '' تھا ، اس کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں '' وبر '' کو مموریت دے کر ایرانی سرداروں کے پاس یمن بھیجا۔ '' وبر '' وہاں پر '' نعمان بن بزرج'' سے ملا اور کچھ لوگوں نے اس کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ ''نعمان بن بزرج'' نے '' وبر '' سے روایت کی ہے: کہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے وبر سے فرمایا تھا کہ صنعا میں داخل ہونے کے بعد '' ضبیل '' کے اطراف صنعا میں واقع پہاڑ میں واقع مسجد میں نماز پڑھنا۔

نقل کیا گیا ہے کہ اس کا بیٹا '' عطاء '' پہلا شخص تھا جس نے یمن میں قرآن مجید کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیاتھا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''' اصابہ '' میں '' وبر بن یحنس'' کی زندگی کے حالات نمبر ٩١٠٥ کے تحت اور سیف کی تخلیق '' وبرة بن یحنس '' کے حالات بھی نمبر ١٩٠٩ کے تحت درج کئے ہیں ۔

یہاں پر ابن اثیر غلط فہمی کا شکار ہوا ہے ۔ اس نے اس خیال سے کہ یہ دونوں ایک ہی شخص ہیہیں ، دو خبروں کو یکجااپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں لکھا ہے :

۱۲۸

''وبر'' اور کہا گیا ہے '' وبرة بن یحنس'' خزاعی ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور آپ کی فرمائشات سن رہا تھا ۔ نعمان بن بزرج نے اس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا ہے : جب ''ضبیل'' کے اطراف میں واقع صنعاء کی مسجد میں پہنچنا تو وہاں پر نماز پڑھنا۔

ان مطالب کو تین مصادر نے ذکر کیا ہے ۔ ابو عمر کہتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''داذویہ '' ، فیروز دیلمی'' اور '' جشیش دیلمی '' کے پاس اپنے ایلچی کے طور پر بھیجا تھا تا کہ پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی'' کو قتل کر ڈالیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

ابن اثیر نے غلطی کی ہے کیونکہ نعمان نے مسجد صنعاء میں جس شخص کے نماز پڑھنے کے بارے میں روایت کی ہے وہ '' کلبی ''ہے۔

اور جسے سیف نے خلق کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کے طور پر اسود کو قتل کرنے کیلئے یمن بھیجا ہے وہ ''خزاعی'' یا '' ازدی'' ہے۔

بعید نہیں کہ ابن اثیر کی غلط فہمی کا سرچشمہ یہ ہو کہ اس نے سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر کی کتا ب استیعاب سے مختصر علامت '' ب'' سے نقل کیا ہے لیکن '' وبر کلبی '' کی داستان کو ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' سے مختصر علامت '' د'' سے اور ابو نعیم کی کتاب '' معرفة الصحابہ ' سے مختصر علامت ''ع'' سے نقل کیا ہو۔

اسی لئیابن اثیر نے دو داستانوں کو آپس میں ملا کر اسے ایک شخص کے بارے میں درج کیا ہے۔

اس افسانہ میں سیف کے مآخذکی تحقیق

'' وبرة بن یحنس'' کی داستان کے بارے میں سیف کے راوی اور مآخذ جو تاریخ طبری میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :

١۔ مستنیز بن یزید نے عروة بن غزیہ دثینی سے ۔ یعنی سیف کے ایک جعلی کردہ راوی نے سیف ہی کی تخلیق دوسرے راوی سے روایت کی ہے ، ہم نے اس مطلب کی وضاحت کتاب '' عبدا للہ بن سبا'' کی دوسری جلد میں کی ہے ۔

٢۔ سہل ، سیف کا ایک اور راوی ہے کہ جس کا تعارف انصار میں سے یوسف سلمی کے بیٹے کے طور پر کیا گیا ہے ۔ ہم نے اپنی کتاب '' رواةمختلقون '' میں اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۲۹

ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' اور ابن حجر کی کتاب '' اصابہ '' میں '' وبرہ'' کے بارے میں سیف کی روایت کی سند حسب ذیل ہے ۔

'' ضحاک بن یرع''کہ ہم نے اسی کتاب میں ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں کہا ہے کہ ہمیں شک ہے کہ وہ بھی سیف کا جعل کردہ اور اس کا خیالی راوی ہے۔

داستان کی حقیقت

سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود'' کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت عطافرمائی اور حکم دیا کہ یمن میں مقیم ایرانیوں سے رابطہ قائم کرکے اس کام میں ان سے مدد حاصل کرے ۔

قیس پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کو نافذ کرنے کیلئے راہی صنعاء ہوا اور وہاں پر اپنے آپ کو اسود کا حامی اور مرید جتلایا ۔ نتیجہ کے طور پر اسود اس کے صنعاء میں داخل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنا اس طرح وہ قبائل مذحج ، ہمدان اور دیگر قبائل کی ایک جماعت لے کر صنعاء میں داخل ہوا۔

قیس نے صنعا میں داخل ہونے کے بعد مخفیانہ طور پر فیروزنامی ایرانی سردار سے رابطہ قائم کیا ، جس نے پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد اس کے ہمرا ہ'' داذویہ '' سے ملاقات کی اور اس کی تبلیغ کی وجہ سے سر انجام دازویہ نے بھی اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد داذویہ نے اپنے مبلغین کو ایرانیوں کے درمیان یمن بھیجا اور انھیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے بھی اسلام قبول کیا اور اسود کو قتل کرنے میں ان کی مدد کی۔

کچھ مدت کے بعد قیس اور اس کی دو ایرانی بااثر شخصیتوں نے اسود کی بیوی کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں اسکی موافقت حاصل کی تا کہ اسود کا کام تمام کرسکیں ۔

اس پروگرام کے تحت ایک دن وہ لوگ پو پھٹتے ہی نگہبانوں سے بچ کر اچانک اسود کے گھر میں داخل ہوئے اور اس پر حملہ کیا، فیروز نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ، قیس نے اس کے سرکو تن سے جدا کرکے شہر کے دروازہ پر لٹکا دیا اور نماز کیلئے اذان دی اور اذاں کے آخر میں بلند آواز میں کہا کہ '' اسود جھوٹا اور خدا کا دشمن ہے '' ۔

اس طرح صنعاء کے باشندے اسود کے قتل کئے جانے کی خبر سے آگاہ ہوئے ۔

۱۳۰

داستان کی حقیقت اور افسانہ کا موازنہ

سیف کی روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی طرف سے چند ایلچیوں کو یمن میں مقیم ایرانی سرداروں اور بزرگوں اور اسی طرح اسود کی فوج کے سپہ سالار '' قیس بن عبد یغوث'' کے پاس روانہ کیا، اور حکم دیا کہ یہ لوگ اسود کو قتل کرکے اس کا خاتمہ کردیں ۔

یہ لوگ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم بجالاتے ہیں ۔ اسود کو قتل کرنے کے بعد '' جشیش'' یا '' وبرہ'' اذان دیتا ہے اور '' وبرہ'' کی امامت میں نماز جماعت پڑھی جاتی ہے ۔

جبکہ سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود '' کو قتل کرنے کی مموریت عطا فرمائی ہے اور اس نے یمن میں مقیم ایرانی سرداروں کی مدد سے '' اسود '' کو قتل کیا ہے ۔ قیس نے '' اسود'' کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکانے کے بعد خود نما زکیلئے اذان دی ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے سیف نے حقائق کو بدل کر داستان کے مرکزی کردار یعنی قیس کے باپ کا نام '' ھبیرہ'' سے تغیر دیکر ''عبد یغوث '' بتایا ہے ۔

اسی طرح اپنے جعلی صحابی کو '' وبر بن یحنس کلبی'' کا ہم نام یعنی '' وبرة بن یحنس'' ازدی خلق کیا ہے اور سیف کا یہ کام نیا نہیں ہے کیونکہ وہ حقیقی صحابیوں کے ہم نام صحابی جعل کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے جس طرح اس نے اپنے خزیمہ کو '' خزیمة بن ثابت انصاری ذی شہادتین '' کے ہم نام اور اپنے ' سماک بن خُرشۂ انصاری کو '' سماک بن خُرشۂ انصاری '' معروف بہ ابی دجانہ کا ہم نام خلق کیا ہے ۔

۱۳۱

افسانۂ وبرہ کے مآخذ

سیف نے '' وبرہ '' کے افسانہ کے راویوں کا حسبِ ذیل صورت میں نام لیا ہے :

١۔ مستنیر بن یزید نے

٢۔ عروة بن غزیہ سے ۔ یہ دونوں سیف کے خلق کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٣۔ ' ' ضحاک بن یربوع'' ہم نے کہا کہ اس کے بارے میں ہم مشکوک ہیں کہ اسے سیف نے جعل کیا ہے یا نہیں ۔

'' وبرہ '' کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں ۔ بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے ۔

٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ، طبری سے نقل کرکے۔

٣۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں سیف سے بلاواسطہ نقل کرکے ۔

٤۔ ابن حجر نے '' اصابہ'' میں براہ راست سیف سے نقل کرکے ۔

مصادر و مآخذ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی روایت

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٩١١)

٢۔ '' اصابہ'' ( ٢ ١٨٢) صفوان کے حالات کے ضمن میں ۔

٣۔ '' تاریخ ابن خیاط'' ( ١۔ ٦٢ ۔٦٣) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے نام میں نئی سطر سے ''وبرة بن یحنس'' کے بارے میں سیف کی روایات:

١۔'' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٨١، ١٨٥٦، ١٨٥٧، ١٨٦٢، ١٨٦٤ ، ١٨٦٧، اور ١٩٨٤ )

٢۔'' استیعاب ''طبع حیدر آبار دکن ( ٢ ٦٠٦)

٣۔ '' اصابہ '' ( ٣ ٥٩٤)

۱۳۲

'' وبر بن یحنس '' کلبی کی داستان :

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ١٧٦٣)

٢۔ '' اصابہ '' ابن حجر ( ٣ ٥٩٣)

٣۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٥ ٨٣)

اسود عنسی کی داستان

١۔ '' فتوح البلدان '' بلاذری ( ١ ١٢٥۔ ١٢٦)

٢۔ '' عبدا للہ بن سبا'' دوسری جلد۔

۱۳۳

چھتیس اور سینتیس ویں جعلی اصحاب اقرع بن عبدا للہ حمیری اور جریر بن عبد اللہ حمیری

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حمیری ایلچی :

سیف نے '' اقرع'' اور '' جریر'' عبدا للہ حمیری کے دوبیٹے خلق کئے ہیں تاریخ طبری میں سیف سے نقل کرکے دو روایتوں کے مطابق ان دو بھائیوں کی داستان یوں آئی ہے :

١۔ طبری نے ١١ ھ کے حوادت کے ضمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفراء کے بارے میں بیان ہوئی روایت۔۔ جس کا ذکر اس حصہ کے شروع میں ہوا۔۔ میں یوں کہا ہے :

اس کے علاوہ جریر بن عبدا للہ کو ایلچی کے طور پر'' ذی کلاع'' اور ''ذی ظلیم '' کے پاس بھیجا اور اقرع بن عبد اللہ حمیری کو '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' سے ملاقات کرنے کی مموریت دی۔

اس کے علاوہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد یمانیوں کے ارتداد کے بارے میں لکھتا ہے :

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض ایلچی گراں قیمت خبروں کے ساتھ ۔۔ خلافت ابو بکر کے دوران ۔۔ مدینہ پلٹے ، ان میں عبد اللہ حمیری کے بیٹے جریر اور اقرع اور وبرة بن یحنس بھی تھے۔ ابو بکر بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح مرتدوں اور دین سے منحرف ہوئے لوگوں سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اسامہ بن زید شام کی جنگ سے واپس آیا جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ، یہ دو خبریں من جملہ ان خبروں میں سے ہیں جسے سیف نے دونوں بھائیوں کے بارے میں ایک ساتھ لکھا ہے اور طبری نے انھیں ١١ ھ کے ضمن میں درج کیا ہے ۔

٢۔ طبری نے '' فتح نہاوند '' کی خبر کو ٢١ ھ کے حوادث و روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

جب مسلمان نہاوند پہنچے تو سپہ سالار اعظم نعمان بن مقرن نے حکم دیا کہ ساز و سامان کے ساتھ وہیں پڑاؤ ڈالیں ۔

نعمان کھڑے ہوکر کام کی نگرانی کررہا تھا اور فوجی خیمے لگانے میں مصروف تھے کہ کوفہ کے سرداروں اور اشراف نے نعمان کی خدمت کرنے کیلئے آگے بڑھ کر اس کیلئے ایک خیمہ نصب کیا ۔ سپہ سالار اعظم کیلئے خیمہ نصب کرنے کا کام کوفہ کے چودہ سردار اشراف نے انجام دیا ان میں یہ افراد تھے : جریر بن عبد اﷲ حمیری ، اقرع بن عبد اللہ حمیری اور جریر بن عبد اللہ بجلی اور آج تک خیمہ نصب کرنے والے ایسے لوگ دکھائی نہیں دئے ہیں

۱۳۴

صرف ان دو خبروں میں طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے دو جعلی حمیری بھائیوں کا نام ایک ساتھ لیا ہے ۔

لیکن تاریخ طبری میں سیف کی دوسری روایتوں میں ایک ایسی خبر موجود ہے جس میں تنہا جریر کا نام لیا گیا ہے اور اس کے بھائی اقرع کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ ذیل میں ملاحظہ ہو :

جریر بن عبد اللہ حمیری

صلح ناموں کا معتبر گواہ :

حیرہ کے بعد والے حوادث اور رودادوں کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے طبری لکھتا ہے :

'' حیرہ کے باشندوں کے ساتھ خالدبن ولید کی صلح کے بعد '' قس الناطف '' ١ کاسردار اور حاکم '' صلوبا بن نسطونا'' خالد کی خدمت میں حاضر ہوا ور '' بانقیا '' اور '' بسما'' کے بعض حصے اور ان دو جگہوں سے مربوط دریائے فرات کے کنارے پر واقع کھیتی کی زمینوں کے سلسلے جو آپ فرات سے سیراب ہوئے تھے اور دس ہزار دینار یعنی فی نفر چار درہم ۔۔ بادشاہ ایران کو ادا کرنے والی رقم سے زیادہ ۔۔ ٹیکس ادا کرکے صلح کی ۔ سر انجام اس کے اور سپہ سالار اعظم کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا اور جریر بن عبد اللہ حمیری نے اس کی تائید کرکے گواہی دی۔

اس صلح نامہ کے آخر میں جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ '' ماہ صفر ١٢ ھ '' ہے اس روایت کے بعد طبری ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :

____________________

١۔'' قس الناطف '' کوفہ کے نزدیک دریائے فرات کے مشرق میں واقع ہے اور بانقیا اور بسما بھی کوفہ کے اطراف میں تھے ۔معجم البلدان

۱۳۵

'' صلوبا بن بصبہری '' اور '' نسطونا '' نے '' خالد '' کے ساتھ '' فلالیج '' سے'' ہر مزگرد '' ١ کے درمیان شہروں اور زمینون کے بارے میں ، صلح نامہ کی رقم کے علاوہ بیس لاکھ کی رقم پر صلح نامہ پر دستخط کئے اس صلح نامہ کا گواہ جریر بن عبد اللہ حمیری تھا ۔

سیف کہتا ہے کہ اس کے بعد خالد بن ولید نے اپنے کارگزار معین کردئے اور فتح شدہ علاقوں میں مسلح فوج کو معین کردیا ۔ اس کے گماشتوں اور گزار میں ایک '' جرید بن عبد اللہ حمیری '' تھا جو خالد کی طرف سے نمائندہ کی حیثیت سے '' بانقیا '' اور '' بسما'' کا ممور قرار پایا۔

طبری ، سیف سے نقل کر کے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

خالد کے کارگزار خراج ادا کرنے والوں کو درج ذیل صورت میں رسید دیتے تھے :

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

یہ ورقہ بعنوان رسید ہے ان افراد کیلئے جنہوں نے یہ رقم یا یہ مقدا رجزیہ ، جسے خالد نے صلح کی بنیاد قرار دیاتھا ، ادا کیا ہے ۔ خالد اور تمام مسلمان اس شخص کا سختی سے مقابلہ کریں گے جو صلح نامہ میں مقرر شدہ جزیہ کی رقم ادا کرنے میں کسی قسم کی تبدیلی لائے گا ۔ اس بنا پر جو امان تمہیں دی گئی ہے اور جو صلح تمہارے ساتھ ہوئی ہے ، پوری طاقت کے ساتھ برقرار ہے اور ہم بھی ا س کے اصولوں پر پابند رہیں گے۔

اس رسید کے آخر میں جن چند اصحاب سے خالد نے دستخط لئے تھے جوحسب ذیل تھے :

____________________

١۔ ہر مزگرد عراق میں ایک شہر تھا جو عمر کی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔

۱۳۶

ہشام ، جابر بن طارق ، جریر بن عبد اللہ اور

طبری ، سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

'' فلالیج'' اور اسکے دور ترین شہروں اور علاقوں کے تمام لوگوں کو خالد نے مسلمان بنانے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی اطاعت میں لانے کے بعد علاقۂ حیرہ کی حکومت '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو سونپی ۔

جریر ، مصیخ کی جنگ میں :

مصیخ کی داستان کے ضمن میں طبری نے لکھتا ہے :

اس اچانک حملہ میں ، حتی عبد العزی بن ابی رہم نمری بھی جرید بن عبد اللہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ '' عبد العزی ، اوس بن مناة'' کا بھائی تھا ۔ وہ دشمن کی سپاہ میں تھا، لیکن اسلام لایا تھا ، اسلام لانے کے سلسلے میں ابو بکر کی طرف سے ایک تائید نامہ بھی اپنے پاس رکھتاتھا لیکن وہ اس برق آسا حملہ میں جرید بن عبداللہ کے ہاتھوں مارا گیا جبکہ اس شب وہ اس طرح پڑھ رہا تھا :

جس وقت اچانک حملہ ہوا ، میں نے کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا !تو پاک و منزہ ہے ۔

میرا اللہ جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے جو تمام زمینوں اور انسانو ں کا پیدا کرنے والا اور ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔ ١

اسی طرح طبری ، سیف سے نقل کرکے حدیث جسر ۔۔ جسر ابو عبید ۔۔ میں ١٣ ھ کے حوادت

____________________

١۔ اسی کتاب کی پہلی جلد ( فارسی ) ( ١ ١٥٦ ۔ ١٥٧) ملاحظہ ہو۔

۱۳۷

کے ضمن میں کہتا ہے :

یرموک کی جنگ اور جسر کی داستان کے درمیان چالیس دن رات کا فاصلہ تھا ۔ جس شخص نے خلیفہ عمر ۔۔ کو یرموک کی فتح کی نوید دی وہ جریر بن عبد اللہ حمیری تھا۔

یہاں اور آنے والی بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے صحابی '' جریر '' کو ایسا خلق کیا ہے کہ خالد بن ولید '' حیرہ '' کی فتح کے بعد اسے اپنے ساتھ شام لے جاتا ہے ۔

جریر ، ہرمزان کا ہم پلہ

طبری نے '' رامہرمز ، شوش اور شوشتر '' کی فتح کے موضوع کے بارے میں ١٧ ھ کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے یوں ذکرکیا ہے :

خلیفۂ عمر نے ''سعد وقاص'' کو لکھا کہ فوری طور پر ایک عظیم فوج کو ''نعمان بن مقرن'' کی کمانڈ میں اہواز بھیجدے اور جریر بن عبدا ﷲ حمیری و جریر بن عبد اللہ بجلی اور کوہرمزان سے مقابلہ کرنے کیلئے ممور کرے تا کہ اس کا کام تمام کردیں ۔

طبری'سیف سے نقل کرکے '' حیرہ کی روداد اور خالد بن ولید اور '' قس الناطف '' کے سردار کے درمیان صلح نامہ کے موضوع کے ضمن میں لکھتا ہے :

اس صلح نامہ کے آخر میں لکھی گئی تاریخ '' ٢٠'' ماہ صفر ١٢ھ ہے ۔

طبری سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

خطوط کے آخر میں تاریخ لکھنے والے پہلے شخص عمر تھے اور وہ بھی ١٦ ھ میں ان کی خلافت کے ڈھائی سال گزرنے کے بعد ، تاریخ کی یہ قید امیر المؤمنین علی بن ابیطالب کی مشورت اور راہنمائی سے انجام پائی ہے ۔

اس کے بعد طبری اسی موضوع کی وضاحت میں لکھتا ہے :

عمر نے لوگوں کو جمع کرکے ان سے پوچھا : کس دن کو تاریخ کا آغاز قرار دیں ؟ امیر المؤمنین علی نے فرمایا: اس دن کو جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت فرمائی اور دیار شرک کو ترک فرمایا ۔

۱۳۸

عمر نے اسی نظریہ کو منظور کرکے اسی پر عمل کیا ۔

طبری سے جو مطالب ہم نے نقل کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کا موضوع اور اس کے خطوط و عہد ناموں کے آخر میں درج کرنے کا رواج ١٦ ھ تک نہیں تھا اور اس وقت تک خطوط اور عہد ناموں کے آخر میں تاریخ نہیں لکھی جاتی تھی لہذا ١٦ ھ سے پہلے والے جتنے بھی خطوط اور عہد ناموں پر تاریخ لکھی گئی ہوگی ، وہ جعلی ہیں جیسے سیف کا وہ عہد نامہ جسے اس نے ١٢ ھ کے ماہ صفر میں لکھنے کی نسبت خالد بن ولید سے دی ہے ۔

'' اقرع'' اور ''جریر'' کے افسانوں کی تحقیق

سیف نے اقرع و جریر کے بارے میں اپنے افسانہ کے راویوں کا یوں تعارف کیا ہے:

١۔'' محمد'' اس نام کی پانچ بار تکرار کی ہے اور اسے محمد بن عبد اللہ بن سواد کہا ہے ۔

٢۔ '' مہلب '' اس کا نام دوبار ذکر کیا ہے اور اسے مہلب بن عقبہ اسدی کہا ہے۔

اس کے علاوہ درج ذیل ناموں میں سے ہر نام ایک بار ذکر ہوا ہے ۔

٣۔ غصن بن قاسم

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن یوسف سلمی انصاری

۱۳۹

ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے اشارہ اور ابہام کی صورت میں چند دیگر راویوں کا نام بھی لیا ہے کہ جنہیں پہچاننا ممکن نہیں ہے ، جیسے کہ کہتا ہے :

بنی کنانہ کے ایک شخص سے ! ، یہ شخص کون ہے ؟!

یا یہ کہتا ہے :

عمرو سے کون سا عمرو؟ اسی کے مانند

تاریخی حقائق اور سیف کا افسانہ

یہ حقیقت ہے کہ اصحاب کے درمیان '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' نام کا ایک صحابی موجود تھا (۱) نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ عمر نے حکم دیا کہ اس کا قبیلہ نقل و حرکت کرے اور جریرنے ان (عمر ) کے سپہ سالار کی حیثیت سے عراق کی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔

____________________

١۔ہم نے اس جریر کو ، مؤرخین کی روش کے مطابق کہ ''جس کسی نے اسلام لاکر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے ، اسے صحابی کہتے ہیں '' ، صحابی کہا ہے

۱۴۰

سر انجام جریر نے کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ٥٠ ھ کے بعد وفات پائی ۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف اپنے خلق کردہ صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کا ہم نام بتاتا ہے ۔ اس نے اسی شیوہ سے اپنے جعلی اصحاب کو ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ابودجانہ دو حقیقی اصحاب کے ہم نام کیا ہے ۔ اس کے بعد جریر بجلی کی بعض سرگرمیوں کو اپنے جعلی صحابی جریر حمیری سے نسبت دیتا ہے ۔

اس سلسلے میں ہم بلاذری کی کتاب '' فتوح البلدان '' کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' جریر بجلی'' وہی شخص ہے جس نے بانقیا کے باشندوں کے نما ئندہ '' بصبہری'' سے ایک ہزار درہم اور طیلسانی ١ وصول کرنے کی بنیاد پر صلح کرکے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے ۔

جیسا کہ کہتا ہے :

خالد نے اس بنا پر ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور جنگ نخیلہ کے بعد جریر بجلی وہاں گیا اور ان سے معاہدہ کی مقررہ رقم وصول کی انھیں اس کی رسید دی۔

اسی طرح بلاذری کہتا ہے :

'' بانقیاد '' سے واپس آنے کے بعد ، خالد بن ولید '' فلالیج'' کی طرف روانہ ہوا چونکہ ایرانیوں کا ایک گروہ وہاں پر جمع ہو کرجنگ کا نقشہ کھینچ رہا تھا خالد کے فلالیج میں داخل ہونے کے بعد ایرانی فوری طور پر متفرق ہوئے اور ان کے منصوبے نقش بر آب ہوگئے۔

____________________

١۔ایک قسم کے سبز رنگ کا اورکوٹ ہے جسے خاص طور سے ایران کی بزرگ شخصیتیں اور علماء پہنتے تھے۔

۱۴۱

بلاذری ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

خلافت عمر کے زمانے میں جریر بن عبد اﷲ بجلی نے ''' انبار'' کے باشندوں کے ساتھ ان کی سرزمینوں کی حدود کے بارے میں سالانہ چار لاکھ درہم اور ایک ہزار '' قطوانیہ''١ عبا ؤں کے مقابلے میں معاہدہ کیا ہے۔

بلاذری جیسے دانشور کے لکھنے کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر نے '' جریر بن عبد اللہ ''جیسے صحابی کے بانقیا کی صلح ، جزیہ کا وصول کرناور رسید دینے کے جیسے کارناموں کو اپنے جعلی صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' سے نسبت دی ہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے جس نے '' مصیخ بنی البرشاء '' کی جنگ کے افسانہ کو اس آب و تاب کے ساتھ خلق کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''' فتوح '' میں درج کیا ہے جسے طبری اور طبری کی پیروی کرنے والوں نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور ہم نے اس کی تفصیلات اسی کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے بے مثال سورما ''قعقاع بن عمر و تمیمی'' کی زندگی کے حالات میں بیان کی ہیں ۔

اسی طرح سیف تنہا شخص ہے جس نے ان دو بھائیوں کے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی مقرر ہونے کی بات کی ہے۔

اور یہی دوسری صدی ہجری کا تنہا افسانہ ساز ہے جس نے خیمے نصب کرنے اور سپہ سالار اعظم

''نعمان بن مقرن '' کیلئے خصوصی خیمہ نصب کرنے کی داستانیں گڑھی ہیں ۔

____________________

١۔ قطوانیہ قطوان سے منسوب اسی علاقہ میں ایک جگہ تھی جو ایسا لگتا ہے کہ شہر کوفہ کی بنیاد پڑنے کے بعد وجود میں آئی ہے ، معجم البلدان میں کوفہ کے ملحقات میں شمار کیا گیا ہے ۔

۱۴۲

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے ، اقرع بن عبد اللہ اور اس کے بھائی جریر بن عبد اللہ حمیری کو خلق کرکے بعض کارنامے اور تاریخی داستانیں ان سے منسوب کی ہیں ۔

امام المؤرخین طبری نے مذکورہ داستانوں کو سیف سے نقل کرکے ١٢ ھ سے ٢١ ھ تک کے حوادث کے ضمن میں حقیقی اور ناقابل انکار مآخذ کے طور پر اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن عبد البر ، کتاب '' استیعاب '' کا مصنف ، سیف کی تالیفات پر اعتماد کرکے مذکورہ افسانوں کو صحیح سمجھتے ہوئے اقرع بن عبد اللہ حمیری کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

اقرع کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایلچی کے طور پر '' ذی مران '' اور یمن کے سرداروں کے ایک گروہ کے پاس بھیجا تھا ۔

معروف عالم اور کتاب '' اسد الغابہ '' کے مصنف ابن اثیراور کتاب '' اصابہ '' کے مؤلف ابن حجر نے اسی خبر کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر مذکورہ خبر کو '' استیعاب '' سے نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

اس خبر کو سیف بن عمر نے اپنی کتاب ' ' فتوح '' میں ضحاک بن یربوع سے اس نے اپنے باپ یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔

اس طرح ابن حجر ، ابن عبد البر کے اپنی کتاب '' استیعاب'' میں لائے گئیمآخذ سے پرہیز کرکے وضاحب سے کہتا ہے کہ وہی سیف کی کتاب '' فتوح '' ہے

۱۴۳

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ روایت ۔۔ اقرع کی یمن میں مموریت کے بارے میں ابن عبد البر کی روایتسے الگ ہے جسے ہم نے طبری سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی مموریت کے بارے میں اس حصہ کہ ابتدا ء میں ذکر کیا ہے ۔

سیف نے اس روایت کو گڑھ کر ، اپنی پہلی روایت کی تائید کی ہے ۔ یہ اس کی عادت ہے کہ اپنی جعل کردہ چیزوں کو متعدد روایتوں میں منعکس کرتا ہے ۔ تا کہ اس طرح اس کی روایتیں ایک دوسرے کی مؤید ہوں اور اس کا جھوٹ سچ دکھائی دے ۔

اس کے بعد ابن حجر طبری کی روایت کو سیف سے نقل کرکے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی خلافت ابوبکر میں اپنی ممور یتوں سے واپس مدینہ آنے کے واقعات کو' جنہیں ہم نے گزشتہ صفحات میں درج کیا ہے ۔۔ کو اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

مذکورہ علماء نے '' اقرع بن عبد اللہ حمیری'' کے بارے میں حالات لکھ کر اورسیف کی باتوں اور روایتوں پر اس قدر اعتماد کرکے اپنی گراں قدر کتابوں کو اس قسم کے افسانوں سے آلودہ کیا ہے ۔

یہ امر اقرع کے خیالی بھائی '' جریر بن عبد اﷲحمیری'' کے بارے میں لکھے گئے حالات پر بھی صادق آتا ہے ۔ کیونکہ ابن اثیر '' جریر '' کے حالت کی تشریح میں لکھتا ہے :

وہ ۔۔ جریر بن عبد اللہ حمیری۔۔ یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ۔ جریر نے عراق اور شام کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں سرگرم حصہ لیا ہے ۔ اس نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید خلفیہ عمر ابن خطاب کو پہنچائی ہے (یہ سیف کا کہنا ہے ) ان مطالب کو '' ابو القاسم ابن عساکر '' نے بھی جریر کے بارے میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر بھی '' جریر بن عبد اللہ '' کے حالات کے بارے میں اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھتا ہے :

ابن عساکر کہتا ہے کہ وہ ۔۔ جریر ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔ اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے مطابق کہ اس نے '' محمد '' سے اور اس نے ''' عثمان '' سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ جب خالد بن ولید نے یمامہ سے عراق کی طرف جنگ کا عزم کیا ، اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا ۔ اس سلسلے میں پہلے اصحاب پر نظر ڈالی اور ان میں سے جنگجو اور شجاع افراد کا انتخاب کیا ان جنگجوؤں کی کمانڈ '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو سونپی ، جو اقرع بن عبد اللہ کا بھائی اور یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ( تاآخر )

اس کے علاوہ سیف نے نقل کیا ہے کہ اسی جریر بن عبدا للہ نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید مدینہ خلیفہ عمر کو پہنچائی ہے ۔

سیف نے مختلف جگہوں پر اس '' جریر'' کا نام لیا ہے اور ابن فتحون نے جریر کے حالات کو دوسرے مآخذ سے درک کیا ہے اور

۱۴۴

ابن عساکر کی نظر میں افسانۂ جریر کا راوی '' محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ '' ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔

اس طرح ان علماء نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کرکے ان دو حمیری اور سیف کے خیالی بھائیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیکران کے حالاتلکھے ہیں ۔

خلاصہ

سیف نے اقرع اور جریر کو عبد اللہ کے بیٹوں کے عنوان سے خلق کیا ہے اور ان دونوں کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر یمن بھیجا ہے تاکہ کافروں اور اسلام سے منحرف لوگوں کے خلاف جنگ کا انتظام کریں ۔ اور ان دونوں کو ان افراد میں شمار کیا ہے جو مدینہ واپس آئے ہیں اور یمانی مرتدوں کی خبر خلیفہ ابو بکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ جب خالد بن ولید یمامہ سے عراق کی جنگ کیلئے روانہ ہوا ، تو اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا اور اس سلسلے میں پہلے اصحاب کو مدنظر رکھا ، ان میں سے مجاہدوں اور شجاعوں کا انتخاب کیا جن میں جرید بن عبد اللہ حمیری بھی تھا خالد نے، قضاعہ دستہ کے فوجیوں اور جنگجوؤں کی کمانڈ اسے سونپی ہے ۔

جریر عراق میں خالد کی جنگوں اور فتوحات میں سر گرم عمل رہا ہے اور ''' بانقیا '' ، '' بسما'' '' فلالیج'' سے ''ہر مزگرد ''تک کے صلح ناموں میں عینی گواہ کے طور پر رہا ہے ۔ خالد نے اسے بانقیا و بسما کی حکمرانی سونپی ہے ۔

جریران اصحاب میں سے تھا جو خراج و جزیہ کی رقومات عراق کے علاقوں کے لوگوں سے وصول کرتا تھا جو تسخیر ہونے کے بعد ان پر مقرر کیا گیا تھا ۔ یہ رقومات وصول کرنے کے بعد انھیں رسید دیا کرتا تھا ۔

خالد کے ''مصیخ بنی البرشا'' پر بجلی جیسے حملہ میں جریر اس کے ہمراہ تھا اور اس نے کفار کے درمیان ایک مسلمان کو بھی قتل کر ڈالا ۔

وہ کہتا ہے کہ جریر نے خالد کے ہمراہ شام کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خالد کی طرف سے قاصد کے طور پر مدینہ جاکر خلیفہ عمر کو یرموک کی فتح کی نوید پہنچائی ہے۔

۱۴۵

جریر وہ بہادر ہے جسے '' سعد بن وقاص '' نے خلیفہ عمر کے صریح حکم کے مطابق '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہمراہ ایرانی فوج کے کمانڈر ہرمزان سے مقابلہ کیلئے بھیجا ہے ۔

سیف نے مزید کہا ہے کہ جریر نے ٢١ ھ کی جنگِ نہاوند میں شرکت کی ہے اور اپنے بھائی اقرع اور جریر بن عبدا للہ بجلی اور دیگر اشرافِ کوفہ سپہ سالار اعظم '' نعمان بن مقرن '' کا خیمہ نصب کرنے میں ہاتھ بٹایا ہے ۔

یہ سیف بن عمر تمیمی کی روایتوں کا خلاصہ تھا جو اس نے اپنے خلق کئے گئے دو جعلی اصحاب کے بارے میں گڑھ لی ہیں ۔

سیف نے اپنے خیالی افسانوی پہلوان '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کرکے اس کی بعض فتوحات اور جنگی کارناموں کو اپنے اس خیالی بہادر سے منسوب کیا ہے ۔

نہیں معلوم ، شاید جریر کے بھائی ''' اقرع '' کو اس نے '' اقرع بن حابس تمیمی '' یا '' اقرع عکی '' اور یا کسی اور اقرع کے ہم نام خلق کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نام ۔۔ ''اقرع بن عبد اللہ حمیری '' یوں ہی اچانک اس کے ذہن میں آیا ہو اور اس نے اپنے افسانوں میں اس کیلئے اہم اور حساس رول رکھے ہوں ۔

یہ بھی ہم بتا دیں کہ ہمارے اس افسانہ گو سیف بن عمر نے ان دو حمیری بھائیوں کی داستان تقریباً اس کے دو نامدار عظیم الجثہ تمیمی پہلوان عمر و تمیمی کے بیٹے '' قعقاع'' اور '' عاصم '' کے افسانہ کے مشابہ خلق کی ہے ۔

سرانجام یہ افسانہ اور اس کے مانند سیکڑوں افسانے جن سے اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے اور جو دانشوروں اور اکثر مسلمانوں کیلئے اس حد تک افتخار و سر بلندی کا سبب بنے ہیں کہ وہ کسی قیمت ان سے دستبردار ہونے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے

یہ افسانے درج ذیل معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں قطعی اور حقیقی سند کے عنوان سے در ج ہوئے ہیں ۔

۱۴۶

دو حمیری بھائیوں کے افسانہ کے راوی :

سیف نے مذکورہ دو بھائیوں کے افسانہ کو درج ذیل راویوں کی زبانی نقل کیا ہے :

١۔ محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ

٢۔ مھلب بن عطیہ اسدی

٣۔ غصن بن قاسم۔

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن ییوسفسلمی۔

مذکورہ سبھی راوی سیف کے جعل کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

ان دو بھائیوں کا افسانہ نقل کرنے والے علما:

١۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر بن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ۔

٣۔ ابن عساکر نے '' تاریخ دمشق'' میں ۔

٤۔ ابن فتحون نے کتاب' ' استیعاب ''کے حاشیہ پر ۔

٥۔ ابن اثیر نے '' اسد الغابہ '' میں

٦۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید میں ''

٧۔ ابن حجر نے کتاب '' اصابہ '' میں

٨۔ محمد حمید اللہ نے کتاب '' وثائق الساسبہ '' میں ۔

۱۴۷

مصادر و مآخذ

دو حمیری بھائیوں '' اقرع '' و جریر '' کے بارے میں سیف کی روایات :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨، ١٩٨٨، ١٩٩٨، ٢٠٤٩، ٢٠٥٢، ٢٠٥٥، ٢٠٧٠، ٢١٧٦، ٢٥٥٢، اور ٢٦١٩)

اقرع کے حالات

١۔ کتاب '' استیعاب ''' طبع حیدر آباد دکن (١ ٦٤ ) نمبر : ١٠٠

٢۔ اسد الغابہ ( ١ ١١٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' (١ ٢٦)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (١ ٧٣) نمبر : ٢٣٣

جریر حمیری کے حالات :

١۔ ابن اثیرکی '' اسد الغابہ '' (١ ٢٧٩)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٢٣٤)نمبر: ١١٣٧

تاریخ لکھنے کے سلسلہ میں عمر بن خطاب کا صلاح و مشورہ

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ٢٤٨٠)

جریر بن عبد اللہ بجلی کے بارے میں روایت اور اس کے حالات :

'' استیعاب '' ، اسد الغابہ ، اصابہ ، اور بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ( ص ٢٩٩، ٣٠٠، ٣٠١ ) ، قبیلہ ٔ بجیلہ پر جریر بن عبدا للہ بجلی کی حکمرانی:

١۔ تاریخ طبری (١ ٣٢٠٠ ۔ ٣٢٠٢)

۱۴۸

اڑتیسواں جعلی صحابی صلصل بن شرحبیل

صلصل ، ایک گمنام سفیر :

سیف کی اس روایت میں جس میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے نام آئے ہیں ، صلصل کے بارے میں یوں ذکر ہوا ہے :

صلصل بن شرحبیل کو '' سبرۂ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری ، اوربنی عمرو کے عمروبن الخفاجی '' کے پاس اپنی طرف سے سفیر بنا کر بھیجا ۔ ابن حجر نے ''صفوان بن صفوان اسید '' کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

اسی طرح سیف نے ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ابن عباس سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل بن شرحبیل کو اپنے ایلچی کے طور پر صفوان بن صفوان تمیمی ، وکیع بن عدس دارمی اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ انہیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دے ۔

ہم نے سیف کی ان دو روایتوں کے علاوہ ۔۔ جوخود اس صحابی کے نام کو خلق کرنے والا ہے ۔۔ صلصل کا نام کہیں اور نہیں پایا۔

کتاب ' استیعاب '' کے مصنف ابو عمر ، ابن عبد البر نے صلصل کے حالات کی تشریح میں لکھاہے:

۱۴۹

صلصل بن شرحبیل : میں نہیں جانتا کہ کس خاندان سے ہے۔ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا ، لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ اس کی خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے چند ایلچیوں کو روانہ کرنے کے ضمن میں آئی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے سفیر کے طور پر '' صفوان بن صفوان ١ ، سبرہ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری اور بنی عامر کے عمرو بن الخفاجی '' کے پاس بھیجا تھا ، وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک سفیر تھا ۔

ابن اثیر نے ، ابن عبد البر کی عین عبارت کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے '' تجرید '' میں صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اسے خلاصہ کرکے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کرکے یوں لکھا ہے :

اس کا ۔۔ صلصل بن شرحبیل۔۔ نام صفوان بن صفوان کے حالات کی تشریح میں گزرا ، ابو عمر ۔۔ استیعاب کامصنف ۔۔ کہتا ہے کہ میں اس کے خاندان کو نہیں جانتا اور مجھے اس کی روایت کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ان نامور علماء نے ، سیف کے خلق کردہ صلصل بن شرحبیل کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت سے اسی پر اکتفاء کیا ہے ۔ چونکہ سیف نے بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھاہے لہذا وہ بھی نہ اس کے نسب کے بارے میں اور نہ ہی اس کی روایتوں کے بارے میں اطلاع رکھتے ہیں ۔

____________________

١۔ صفوان کے باپ کا نام ابن عبدالبر کی کتاب '' استیعاب '' میں '' امیہ '' آیا ہے جو غلط ہے ۔ کیونکہ صفوان بن امیہ اسلام لانے کے بعد مکہ سے باہر نہیں نکلا ہے ۔ اس خبر کا مآخذ بھی سیف کی روایت ہے جس میں '' صفوان بن صفوان '' بتایا گیا ہے ۔

۱۵۰

انتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن محجوب عامری

جعلی روایتوں کا ایک سلسلہ

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی مذکورہ دو روایتوں پر مکمل اعتماد کرکے سیف کی ایک اور مخلوق '' عمرو بن محجوب عامری '' کو ایک مسلم حقیقت کے عنوان سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سیف نے اپنے خلق کردہ صحابی کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ عامری ہے ۔ اور یہ '' عامر '' کی طرف نسبت ہے جو قبائل '' ُمعد اور قحطانی '' کے خاندانوں سے متعلق ہے ۔

لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس صحابی کو ان قبیلوں میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔

عمرو بن محجوب کی داستان :

ہم نے دیکھا کہ طبری نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے ضمن میں سیف سے روایت کرکے صلصل کا نام لیا ہے اور اس کی ممور یتوں کے بارے میں یوں بیان کیا ہے کہ وہ پیغمبرا خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور تھا کہ '' بنی عامر عمرو بن محجوب اور عمرو بن خفاجی '' سے ملاقات کرے۔

ابن حجر نے '' اصابہ '' میں اس عمرو بن محجوب کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :

عمروبن محجوب عامری وہ صحابی ہے جسے ابن فتحون نے دریافت کیا ہے اور سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابن عباس سے دو سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ عمروبن محجوب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں میں سے تھا ، اور زیاد بن حنظلہ کے ذریعہ اسے فرمان دیا گیا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو ۔ ہم نے اس عمرو کا نام '' صفوان بن صفوان '' کے حالات پر روشنی ڈالنے کے ضمن میں ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس لحاظ سے عمرو بن محجوب کا نام سیف کی ایک روایت کے مطابق تاریخ طبری میں اور دو روایتوں کے مطابق سیف کی کتاب فتوح میں آیا ہے ،اور ابن حجر نے ان کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں نقل کیا ہے ۔

چوتھی روایت وہاں ہے جہاں ابن حجر نے صفوان کے حالات کی تشریح میں اس کا نام لیا ہے کہ ہم نے اسے صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔

۱۵۱

یہ امر قابل توجہ و دقت ہے کہ ان روایتوں میں سے ہر ایک دوسری پر ناظر اور اس کی مؤید شمار ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ عمرو بن محجوب عامری پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان گماشتوں اور کارندوں میں سے ہے کہ جس کی مموریت کے دوران اسے دو خط ملے ہیں ایک صلصل کے ذریعہ اور دوسرا زیاد بن حنظلہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے ذریعہ ، ان دو خطوط میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے شرک و ارتداد کے خلاف ثابت قدم رہنے کاحکم دیا ہے ۔

انہی روایتوں پر ، ابن فتحون اور ابن حجر جیسے علماء نے پوراا عتماد کر کے پہلے (ابن فتحون) ابن فتحون نے سیف کے اس جعلی صحابی کے حالات '' استیعاب ''کے حاشیہ میں درج کئے اور دوسرے (ابن حجر) نے اپنی معتبر کتاب اصابہ میں اس کیلئے مخصوص جگہ وقف کی ہے

چالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

مسیلمہ سے جنگ کی مموریت

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی انہی گزشتہ روایتوں پر اعتماد کرکے ، عمرو بن خفاجی عامری کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ کے لئے ایک فصل مخصوص کی ہے اور اس فصل میں نمبر : ٥٨٢٧ حرف '' ع'' کے تحت لکھا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری ، اس کا نام صلصل بن شرحبیل کے حالات میں آیا ہے ۔ '' رشاطی'' ١نے لکھا ہے کہ وہ ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک خط کے ذریعہ اسے اور عمرو بن محجوب کو حکم دیا کہ وہ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ انہی مطالب کو طبری نے بھی نقل کیا ہے ۔

____________________

١۔ رشاطی ، ابو محمد عبدا للہ بن علی بن عبد اللہ بن خلف لخمی اندلسی ایک عالم ، محدث، فقیہ ،مؤرخ ، نسب شناس ، ادیب اور لغت شناس تھا، رشاطی ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی سال(٤٦٦ ھ ۔ ١٠٧٤ء )میں ''ادریولہ '' مرسیہ میں پیدا ہوا ۔ اور جمادی الاول یا جمادی الثانی سال ٥٤٢ ھ = ١١٤٧ئ) میں رومیوں کے حملے میں اپنے وطن میں ہی قتل ہوا ۔ اس کی تصنیفات میں '' اقتباس الانوار و التماس الازہار'' یہ کتاب انساب صحابہ اور روات اخبار کے بارے میں ہے اور دوسری کتاب '' المؤتلف '' قابل ذکر ہیں ، معلوم کہ ان دو کتابوں میں سے کس میں اس نے '' عمرو'' کے حالات لکھے ہیں !!۔

۱۵۲

سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ جو صحابی مرتدوں سے جنگ کرنے کے بارے میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خط عمروبن خفاجی کے نام لایا تھا۔ وہ زیاد بن حنظلہ تھا (ز)

ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر کے حرف (ز) لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی کے حالات دوسروں کے مقابلہ میں اس نے دریافت کئے ہیں ۔

۱۵۳

اکتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

ابن حجر کی غلط فہمی سے وجود میں آیا ہوا صحابی

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' کے تیسرے حصہ کو ان اصحاب سے مخصوص رکھا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں زندہ تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور دیدار سے شرفیاب نہیں ہوئے تھے وہ حرف '' ع'' کے تحت لکھتا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری : سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ اور عمرو بن محجوب عامری کو پیغام بھیجا اور انھیں ممور فرمایا وہ کہ مسیلمۂ کذاب سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن فتحون نے اس کے نام کو دوسرے مصادر سے دریافت کیا ہے (ز)۔

اس طرح ابن حجر جیسے مشہور علامّہ نے بھی غلط فہمی کا شکار ہوکر '' عمرو بن خفاجی '' کے حالات اپنی کتاب میں دو جگہوں پر لکھے ہیں ۔

جبکہ خودسیف جو اس شخص کا افسانہ گڑھنے کرنے والا ہے ، نے اسے صرف ایک شخص جعل کیا ہے۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری میں عمرو بن خفاجی کا نسب '' بنی عمرو '' لکھا گیا ہے ۔ جبکہ ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں صلصل کے حالات کی تشریح میں یہ نسب (بنی عامر ) ذکر ہوا ہے ۔

اس داستان کا خلاصہ اور نتیجہ

سیف بن عمر نے اپنے ایک ہی مقصد کو اپنی دو بناوٹی روایتوں میں بیان کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل نام کے ایک شخص کو قاصد و ایلچی کے طور پر اپنے گماشتوں اور کارندوں کے پاس بھیجا اور اسے علاقہ کے مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ سیف کی اسی ایک جھوٹی داستان کے نتیجہ میں علماء نے اس کے افسانوی صحابیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں شمار کیا ہے اور درج ذیل جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات لکھے ہیں :

١۔ صلصل بن شرحبیل

٢۔ عمروبن محجوب عامری

٣۔ عمروبن خفاجی عامری

٤۔ عمرو بن خفاجی عامری

۱۵۴

صفوان بن صفوان

ہمیں اس صفوان بن صفوان کے سیف کے جعلی صحابی ہونے پر شک ہے ، اگر ایسے شخص کو سیف نے خلق بھی نہ کیا ہوپھر بھی اس کا صحابی ہونا سیف بن عمر کے خلق کرنے سے کچھ کم نہیں ہے ۔

جو کچھ بیان ہوا اس کے علاوہ سیف نے اپنی جعلی روایتوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں ہی مسلمانوں کے اسلام سے منہ موڑنے کی بات کی ہے ۔ اس نے ان جھوٹے اور بے بنیاد مطالب کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں بہانہ فراہم کیاہے کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ اسلام نے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور اس زمانے کے قبائل کے لوگوں کے وجود کی گہرائیوں میں اسلام نے اثر نہیں ڈالا تھا ، اسی لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ہی اسلام کے مقابلے میں آکر تلوار کھینچیلی ہے!

پھر یہی سیف کی روایتیں اور جھوٹ کے پلندے اور ارتداد کی جنگوں کی منظر کشی ، قارئین کے ذہن کو یہ قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام نے ایک بار پھر ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں تلوار کی نوک پر اور بے رحمانہ قتل عام کے نتیجہ میں استحکام حاصل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا ''میں مفصل بحث و تحقیق کی ہے ۔

سر انجام ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق انہی جھوٹ اور افسانوں کو مکتب خلفاء کے پیرؤ علماء نے حسبذیل معتبر مآخذ میں درج کیا ہے :

١۔ امام المؤرخین ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ، ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں

٣۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن فتحون نے ، استیعاب کے ذیل میں ۔

٥۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ۔

٦۔ رشاطی نے '' انساب الصحابہ'' میں ۔

٧۔ ذہبی نے ''تجرید'' میں ۔

٨۔ ابن حجر نے '' الاصابہ'' میں ۔

۱۵۵

مصادر و مآخذ

صلصل کے حالات :

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدر آباد دکن ( ١ ٣٢٥) نمبر : ١٤١٨

٢۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٣ ٢٩)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '(١ ٢٨٢)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ١٨٧) نمبر : ٤٠٩٩

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨) ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

صفوان بن صفوان کے حالات

١۔ ابن حجرکی '' اصابہ ''(٢ ١٨٣) نمبر : ٤٠٧٦

عمر و بن محجوب عامری کے حالات

١۔ابن حجر کی اصابہ (١٥٣) نمبر ١٩٥٦

٢۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨)

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ٥٢٨) نمبر : ٥٨٢٧

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١١٤) نمبر: ٦٤٨٤

۱۵۶

بیالیسواں اور تینتالیسواں جعلی صحابی عوف ورکانی اور عویف زرقانی

سیف کی ایک مخلوق تین روپوں میں

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں یوں لکھا ہے :

...اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ضرار بن ازور اسدی'' کو اپنے ایلچی کے طور پر قبیلۂ بنی صیدا کے '' عوف زرقانی'' اور اور قضاعی دئلی کے پاس بھیجا۔

عوف کا نسب

سیف بن عمر نے اپنے صحابی عوف کو بنی صیداء سے جعلی کیا ہے جس قبیلہ کے سردار کا نام ''عمرو بن قعین بن حرث بن ثعلبہ بن دودان بن خزیمہ '' ہے ۔ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا طلیحہ بھی اسدی ہے جو بنی صیدا کا ایک قبیلہ ہے۔

عوف ورکانی کی داستان

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں دو صحابیوں کے حالات کی تشریح یکے بعد دیگر آئی ہے ۔ ان میں سے ایک نمبر ٦١٠٨ کے تحت یوں درج ہے:

عوف ورکانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو اپنے ایلچی کے طور پر اس کے پاس بھیجا اور اسے مرتدوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حکم دیا ہے ۔

اس کی داستان کو سیف بن عمر نے ذکر کیا ہے ہم نے اس کے مآخذ کا صلصل کی داستان کے ضمن میں اشارہ کیا ہے ۔

عویف ورقانی

اس کے بعد ابن حجر نمبر ٦١١٣ کے تحت عویف ورقانی کے حالات اس طرح لکھتا ہے:

سیف ارتدار کی خبروں میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:کہ جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پیغمبری کے مدعی طلیحہ کی بغاوت اور قیام کی خبر ملی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عویف ورقانی کو اس سے جنگ کرنے اور اس سے دفاع کرنے پر مامور فرمایا۔

۱۵۷

عوف ورقانی

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید '' میں عوف ورقانی نامی ایک صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :

جب پیغمبری کے مدعی طلیحہ کا مسئلہ زور پکڑنے لگا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' عوف ورقانی '' کی قیادت میں ایک فوج کو اس مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے روانہ فرمایا۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مکتب خلفاء کے پیرو جن علماء نے تین افراد کے حالات لکھے ہیں ، وہ سب کے سب سیف کی ایک روایت پر مبنی ہیں ، اس طرح کہ '' عوف '' کا نام بعض نسخوں میں '' عویف '' لکھا گیا ہے اور اس کی شہرت '' زرقانی '' سے ''ورقانی '' اور پھر '' ورکانی '' لکھی گئی ہے ۔ اس طرح سیف کا خلق کردہ ایک صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تین صحابیوں کے روپ میں مجسم ہوا ہے۔

جی ہاں ، یہ سب سیف کی روایتوں کے وجود کی برکت کا نتیجہ ہیں جو مکتب خلفا کے علماء کے قلموں کے ذریعہ کر ان کی کتابوں میں درج ہوئے ہیں !!

قضاعی بن عمرو سے متعلق ایک داستان

تاریخ طبری میں ذکر ہوئی سیف کی روایت میں آیا ہے کہ قضاعی بن عمرو کا تعارف دئلی کے طور پر کیا گیا ہے اور یہ شہرت '' دئلی'' عرب کے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس '' دئلی'' سے سیف کا مقصود کون سا عرب قبیلہ ہے ۔

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں ' ' قضاعی بن عمرو'' کا نام یوں آیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے واپسی پر '' سنان بن ابی سنان '' اور ''قضاعی بن عمرو'' کو قبیلہ بنی اسد کی طرف مموریت پر بھیجا۔

قضائی کی مموریت کی جگہ کے بارے میں '' تاریخ طبری'' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے:

قضائی بن عمرو ، بنی حرث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ بنی حرث سے سیف کا مقصود دو دان بن اسد کا پوتا بنی حارث ہے ۔

تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے منقول ہے کہ :

۱۵۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو ایلچی کے طور پر '' سنان بن ابی سنان '' اور '' قضاعی بن عمرو'' ۔۔ جو بنی اسد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے تھے ۔۔ کے پاس بھیجا اور انھیں طلیحہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ لکھتا ہے :

ضرار ، قضاعی ، سنان اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بنی اسد میں دیگر کا رندے جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مسئولیت کا عہدہ دار تھا ، سب کے سب طلیحہ کے ڈر سے بھاگ کر مدینہ ابو بکر کے پاس پہنچ گئے اور روداد ابو بکر سے بیان کی ان کے دیگر حامی اور دوست وا حباب بھی طلیحہ سے ڈر کر مختلف اطراف میں بھاگ گئے۔

طبری نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ پر سیف سے نقل کرکے ١٦ ھ میں جلولا کی جنگ کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

اور سعد بن ابی وقاص نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو قضاعی کے ہاتھ مدینہ میں خلیفۂ عمر کے پاس بھیجدیا۔

سیف کی روایتوں میں قضاعی بن عمرو کی داستان یہی تھی کہ جسے ہم نے بیان کیا ۔

افسانۂ قضاعی کے مآخذ اور راویوں کی پڑتال

سیف نے قضاعی کی داستان میں درج ذیل نام بعنوان راوی بیان کئے ہیں :

١۔ سعید بن عبید۔

٢۔ حریث بن معلی۔

٣۔ حبیب بن ربیعۂ اسدی۔

٤۔ عمارة بن فلان اسدی۔

٥۔ اور چند دوسرے مجہول الہویہ راوی کہ سب سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جی ہاں علماء نے اس اعتماد کے پیش نظر جو وہ سیف کی روایتوں پر رکھتے تھے، قضاعی بن عمرو کو صحابی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابیسمجھا اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۵۹

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قضاعی بن عمر : سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ وہ خاندان بنی اسد میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا ۔ابن دباغ نے اس کا نام لیا ہے اور اس کے عبد البر کی کتاب ''استیعاب '' میں موجود ہونے کا تصور کیا ہے، اورخدا بہتر جانتا ہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ)

بہر حال ہم نے اس قضاعی کے نام کو جعلیصحابیوں کی فہرست سے حذف کر دیا ہے ، کیونکہ ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں اس کے ہم نام کا ذکر کرکے اس کے نسب کو ' بنی عذر ہ '' بتایا ہے۔ ابن سعد نے اس کے بارے میں اپنی بات کا آغاز یوں کیا ہے

... الحدیث

لیکن مذکورہ حدیث ذکر نہیں کی ہے اور نہ اس کا کوئی مآخذ بیان کیا ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329