ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130751 / ڈاؤنلوڈ: 4466
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

انہی روایتوں سے استناد کرکے ابن حجر نے عبد اللہ اور عبید اللہ کے صحابی ہونے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی مصاحبت پر استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے :

ہم نے بارہا کہا ہے کہ اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو حاکم و سپہ سالار معین نہیں کیا جاتا تھا۔

وہ سیف کی روایتوں سے اس مطلب کو بھی حاصل کرکے لکھتا ہے :

ابو بکر نے ان دونوں کو مرتدوں جنگ میں سپہ سالاری کا عہدہ سونپا اور '' جرش'' کی حکومت اسے دی۔

اس طرح یہ روایات سیف کے ذریعہ اسلامی مصادر میں داخل ہوئی ہیں ۔

فرزندان ثور کے افسانہ کے راوی

سیف اپنے جعل کئے ہوئے ثور کے بیٹوں کے افسانوں کو مندرجہ ذیل اپنے ہی جعلی راویوں کی زبانی نقل کیا ہے۔

١۔ سہل بن یوسف نے

٢۔ یوسف بن سہل سے ، اس نے

٣۔ عبید بن صخر سے

٤۔ مستنیر بن یزید

٥۔ عروة بن غزیہ

ان افسانوں کی اشاعت کرنے والے ذرائع

١۔ طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں ، اور درج ذیل علماء نے اس سے نقل کیا ہے

٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ۔

٣۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں

۱۲۱

٥۔ میر خواند نے اپنی کتاب '' روضة الصفا '' میں

٦۔ سمعانی نے '' انساب'' میں ۔

٧۔ ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے ''لباب'' میں

٨۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں ۔

٩۔ ابن اثیر نے ا'' اسد الغابہ '' میں استیعاب سے نقل کرکے ۔

١٠۔ ذہبی نے '' تجرید'' میں ، '' اسد الغابہ '' سے نقل کرکے۔

١١۔ ابن حجر نے سیف کی '' فتوح'' سے اور '' استیعاب '' سے نقل کرے '' اصابہ '' میں ۔ لیکن '' تصبیر '' میں سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

١٢۔ ابن ماکولا نے سیف سے نقل کرکے '' اکمال'' میں ۔

١٣۔ ١٤۔ اور ان سے فیروز آبادی اور زبیدی نے بالترتیب ' ' قاموس '' اور اس کی شرح '' تاج العروس'' میں نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ میر خواند نے کتاب '' روضة الصفا '' طبع ، تہران ، خیام (٢ ٦٠) میں ۔

مصادر و مآخذ

عکاشہ کے حالات اور اس کی حدیث

١۔ '' تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢ ، ١٨٥٣، ١٨٥٤، اور ٢٠٠)

٢۔ '' تاریخ ابن اثیر'' ( ٢ ٢٥٥)

٣۔ تاریخ ابن کثیر ( ٦ ٣٠٧)

٤۔ '' ابن خلدون'' ( ٢ ٢٦٣، ٢٧٥۔ ٢٧٧)

٥۔ '' استیعاب '' ابن عبد البر ( ٢ ٥٠٩) نمبر : ٢١٥٠ طبع حیدر آباد

٦۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر (٤ ٢)

٧۔ '' تجرید ذہبی'' ( ١ ٣١٨)

۱۲۲

٨۔ '' انساب سمعانی '' لفظ '' غوثی '' ( ٤١٣)

٩۔ '' اکمال '' ( ص٩٦)

عبد اللہ بن ثور کے حالات :

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٩٩٧، ١٩٩٨، ٢١٣٦)

٢۔ '' اصابہ'' ابن حجر ( ٢ ٢٧٧) نمبر :٦٥٩٧

چھوٹا خط رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اورگورنروں کے نام:

١۔ خلیفہ بن خیاط ( ١ ٦٣)

٢۔ '' تاریخ اسلام '' ذہبی ( ٢ ٢)

٣۔ لفظ '' غوثی'' '' تحریر المشتبہ '' ذہبی ( ١ ٤٨٩)

٤۔ '' تبصیر المشتبہ '' ابن حجر ( ٣ ١٠٣٤)

۱۲۳

پانچواں حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی

*٣٥۔ وبرة بن یحنس،خزاعی۔

*٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری

*٣٧۔ جریر بن عبد اللہ حمیری

*٣٨۔صلصل بن شرحبیل

*٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

*٤٠۔ عمر وبن خفاجی ، عامری

*٤١۔ عمرو بن خفاجی عامری

*٤٢۔ عوف ورکانی۔

*٤٣۔ عویف زرقانی

*٤٤۔ قحیف بن سلیک ھالکی

*٤٥۔ عمرو بن حکم قضاعی

*٤٦۔ امرؤ القیس ( بنی عبد اللہ سے )

۱۲۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی اور گورنر

طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے طلیحة بن خویلد کی بغاوت کی خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی، وہ بنی مالک میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ'' سنان بن ابی سنان'' تھا۔

وہ ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خبر کے سننے کے بعد ، اپنی طرف سے ایک ایلچی کو یمن میں مقیم چند سرکردہ ایرانیوں کے پاس بھیجا اور انھیں لکھا کہ طلیحہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھیں اور تمیم و بنی قیس کے لوگوں پر مشتمل ایک فوج کو منظم کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ وہ طلیحہ سے جنگ کرنے کیلئے اٹھیں انہوں نے اس حکم کی اطاعت کی اور اس طرح مرتدوں کیلئے ہر طرف سے راستہ بند کیا گیا۔

پیغمبری کا مدعی، '' اسود'' پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں ہی مارا گیا اور طلیحہ و مسیلمہ بھی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے محاصرہ میں پھنس گئے ۔

بیماری کی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو درد و تکلیف ہورہی تھی، وہ بھی آپ کیلئے فرمان الٰہی کی اطاعت اور دین کی حمایت کرنے میں رکاوٹ نہ بنی اور آنحضرت نے اسی حالت میں مندرجہ ذیل افراد کو پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے کیلئے اپنے ایلچیوں کے طور پر روانہ فرمایا:

١۔ وبرة بن یحنس کو '' فیروز ، جشیش دیلمی اور دازویہ استخری '' کے پاس بھیجا۔

٢۔ جریر بن عبد اللہ کو ایلچی کے طور پر '' ذی الکلاع اور ذی ظلیم '' کے ہاں روانہ فرمایا۔

٣۔ اقرع بن عبد اللہ حمیری نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' کو پہنچایا۔

٤۔ فرات بن حیان عجلی کو ایلچی کے طور پر '' ثمامۂ آثال '' بھیجا۔

٥۔ زیاد بن خنظلہ تمیمی عمری کو '' قیس بن عاصم'' اور '' زبر قان بن بدر '' سے ملاقات کرنے کی مموریت عطا فرمائی۔

٦۔ صلصل بن شرجیل کو سبرة بن عنبری ، وکیع دارمی، عمرو بن محجوب عامری عمرو بن محجوب عامری اور بنی عمرو کے عمرو بن خفاجی کے پاس بھیجا۔

۱۲۵

٧۔ ضرار بن ازور اسدی کو بنی صیدا کے عوف زرقانی ، سنان اسدی غنمی اور قضاعی دئلی کے ہاں جانے پرممورکیا۔

٨۔نعیم بن مسعود اشجعی کو ذی اللحیہ اور ابنمسیمصہجبیری سے ملاقات کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

ابن حجر کی اصابہ میں '' صفوان بن صفوان '' کے حالات کی تشریح کے ضمن میں سیف کی روایت یوں ذکر ہوئی ہے:

صلصل بن شرحبیل کو ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۔۔ اپنے ایلچی کے طور پر اسے صفوان بن صفوان تمیمی اور وکیع بن عدس دارمی وغیرہ کے پاس بھیجا اور انھیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی دعوت اور ترغیب دی۔

تاریخی حقائق پر ایک نظر

تاریخ نویسوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان تمام ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام درج کیا ہے جنھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف بادشاہوں ، قبیلہ کے سرداروں اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تھا۔لیکن ان کے ہاں کسی صورت میں مذکورہ افراد کا نام اور ان کے پیغام رسانی کے موضوع کا ذکر نہیں ہوا ہے۔

'' ابن خیاط'' نے اپنی تاریخ میں ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں بحث کے دوران لکھا ہے :

١۔ عثمان بن عفان کو حدیبیہ کے سال مکہ کے باشندوں کے پاس۔

٢۔ عمرو بن امیہ صمری کو ایک تحفہ کے ساتھ مکہ ، ابو سفیان بن حرب کے پاس۔

٣۔ عروة بن مسعود ثقفی کو طائف ، اپنے خاندان کے پاس۔

٤۔ جریر بن عبد اللہ کو یمن ، ذی کلاع اور ذی رعین کے پاس۔

٥۔ وبر بن یحنس کو یمن میں ایرانی سرداروں کے پاس۔

٦۔ خبیب بن زید بن عاصم ۔۔ کو مسیلمہ کذاب کے پاس جو مسیلمہ کے ہاتھوں قتل ہوا ۔۔

٧۔ سلیط بن سلیط کو یمامہ کے باشندوں کے پاس۔

٨۔ عبد اللہ بن خدافہ سہمی کو بادشاہ ایران کسریٰ کے پاس۔

٩۔ دحیة بن خلیفہ کلبی کو قیصر ، روم کے بادشاہ کے پاس۔

۱۲۶

١٠۔ شجاع بن ابی وہب اسدی کو، حارث بن ابی شمّر غسانی یا جبلة بن ایہم کے پاس

١١۔ حاطب بن ابی بلتعہ کو مقوقس ، اسکندریہ کے حکمران کے پاس

١٢۔ عمروبن امیہ ضمری کو نجاشی حبشہ کے پاس۔

اس طرح خلیفہ بن خیاط ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام اپنی کتاب میں لیتا ہے جنہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف علاقوں اور شخصیتوں کے پاس بھیجا ہے ۔ لیکن ان میں سیف کے خلق کردہ ایلچیوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔

سیف کی حدیث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آٹھ ایلچیوں کے نام لئے گئے ہیں جنہوں نے مختلف بیس شخصیتوں سے ملاقات کی ہے ۔ ان پیغام رسانوں اور پیغام حاصل کرنے والوں کے مجموعہ میں سیف کے دس جعلی صحابی بھی نظر آتے ہیں جن کے بارے میں ہم الگ الگ بحث کریں گے۔

پینتیسواں جعلی صحابی وبرة بن یحنس

سیف کی روایتوں کے مطابق تاریخ طبری میں آیا ہے کہ وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آٹھ ایلچیوں میں سے ایک ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حیات کے آخری ایام میں بیماری کے دوران ١١ ھ میں یمن میں مقیم ایرانی سرداروں سے ملاقات کرنے کیلئے اسے ممور کیاہے۔

وبرہ ان سرداروں کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط ساتھ لے گیا ، جس میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں امر فرمایا تھا کہ '' اسود'' کے خلاف جنگ کرکے اسے قتل کر ڈالیں اور تاکید فرمائی تھی کہ اسود کو قتل کیا جائے ، چاہے مکر و فریب اور جنگ وخونریزی کے ذریعہ ہی سہی۔

وبرہ ، یمن میں '' دا زویۂ فارسی '' کے پاس پہنچتا ہے ، سر انجام '' فیروز'' اور ''جشیش دیلمان'' کی ساتھ ایک نشست تشکیل دیتے ہیں اور '' قیس بن عبد یغوث '' ۔۔ جوبقول سیف اسود کی سپاہ کا سپہ سالار اعظم تھا۔۔ سے سازش کرکے '' اسود '' کو قتل کرنے میں اس کی موافقت حاصل کرتے ہیں ۔

۱۲۷

یہ لوگ رات کے اندھیرے میں '' اسود'' کے گھر میں جمع ہوکر اسے قتل کر ڈالتے ہیں ۔ طلوع فجر ہوتے ہی ''جشیش'' یا '' وبرہ '' نماز کیلئے اذان دیتا ہے اور '' وبرة '' کی امامت میں فجر کی نماز پڑھی جاتی ہے۔

اپنی مموریت کو انجام دینے کے بعد ''وبرہ'' ابو بکر کے پاس مدینہ پلٹتا ہے۔

کتاب '' استیعاب '' اور '' اصابہ'' میں یہ داستان سیف سے نقل ہوئی ہے اور اس نے ضحاک بن یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔

مذکورہ دو کتابوں میں '' وبرة بن یحنس'' کے بارے میں طبری سے نقل کرکے سیف کی روایتیں اس مختصر سند اور اس تفاوت کے ساتھ درج ہوئی ہیں کہ تاریخ طبری میں '' وبرہ'' '' ازدی '' ہے جبکہ مذکورہ دو کتابوں میں '' خزاعی '' ذکر ہوا ہے۔

سیف کی احادیث میں وبرہ کی داستان یہی تھی جو اوپر ذکر ہوئی ۔ ہاں جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حقیقی صحابی تھا ، اس کا نام '' وبر بن یحنس کلبی '' تھا ، اس کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں '' وبر '' کو مموریت دے کر ایرانی سرداروں کے پاس یمن بھیجا۔ '' وبر '' وہاں پر '' نعمان بن بزرج'' سے ملا اور کچھ لوگوں نے اس کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ ''نعمان بن بزرج'' نے '' وبر '' سے روایت کی ہے: کہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے وبر سے فرمایا تھا کہ صنعا میں داخل ہونے کے بعد '' ضبیل '' کے اطراف صنعا میں واقع پہاڑ میں واقع مسجد میں نماز پڑھنا۔

نقل کیا گیا ہے کہ اس کا بیٹا '' عطاء '' پہلا شخص تھا جس نے یمن میں قرآن مجید کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیاتھا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''' اصابہ '' میں '' وبر بن یحنس'' کی زندگی کے حالات نمبر ٩١٠٥ کے تحت اور سیف کی تخلیق '' وبرة بن یحنس '' کے حالات بھی نمبر ١٩٠٩ کے تحت درج کئے ہیں ۔

یہاں پر ابن اثیر غلط فہمی کا شکار ہوا ہے ۔ اس نے اس خیال سے کہ یہ دونوں ایک ہی شخص ہیہیں ، دو خبروں کو یکجااپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں لکھا ہے :

۱۲۸

''وبر'' اور کہا گیا ہے '' وبرة بن یحنس'' خزاعی ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور آپ کی فرمائشات سن رہا تھا ۔ نعمان بن بزرج نے اس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا ہے : جب ''ضبیل'' کے اطراف میں واقع صنعاء کی مسجد میں پہنچنا تو وہاں پر نماز پڑھنا۔

ان مطالب کو تین مصادر نے ذکر کیا ہے ۔ ابو عمر کہتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''داذویہ '' ، فیروز دیلمی'' اور '' جشیش دیلمی '' کے پاس اپنے ایلچی کے طور پر بھیجا تھا تا کہ پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی'' کو قتل کر ڈالیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

ابن اثیر نے غلطی کی ہے کیونکہ نعمان نے مسجد صنعاء میں جس شخص کے نماز پڑھنے کے بارے میں روایت کی ہے وہ '' کلبی ''ہے۔

اور جسے سیف نے خلق کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کے طور پر اسود کو قتل کرنے کیلئے یمن بھیجا ہے وہ ''خزاعی'' یا '' ازدی'' ہے۔

بعید نہیں کہ ابن اثیر کی غلط فہمی کا سرچشمہ یہ ہو کہ اس نے سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر کی کتا ب استیعاب سے مختصر علامت '' ب'' سے نقل کیا ہے لیکن '' وبر کلبی '' کی داستان کو ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' سے مختصر علامت '' د'' سے اور ابو نعیم کی کتاب '' معرفة الصحابہ ' سے مختصر علامت ''ع'' سے نقل کیا ہو۔

اسی لئیابن اثیر نے دو داستانوں کو آپس میں ملا کر اسے ایک شخص کے بارے میں درج کیا ہے۔

اس افسانہ میں سیف کے مآخذکی تحقیق

'' وبرة بن یحنس'' کی داستان کے بارے میں سیف کے راوی اور مآخذ جو تاریخ طبری میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :

١۔ مستنیز بن یزید نے عروة بن غزیہ دثینی سے ۔ یعنی سیف کے ایک جعلی کردہ راوی نے سیف ہی کی تخلیق دوسرے راوی سے روایت کی ہے ، ہم نے اس مطلب کی وضاحت کتاب '' عبدا للہ بن سبا'' کی دوسری جلد میں کی ہے ۔

٢۔ سہل ، سیف کا ایک اور راوی ہے کہ جس کا تعارف انصار میں سے یوسف سلمی کے بیٹے کے طور پر کیا گیا ہے ۔ ہم نے اپنی کتاب '' رواةمختلقون '' میں اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۲۹

ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' اور ابن حجر کی کتاب '' اصابہ '' میں '' وبرہ'' کے بارے میں سیف کی روایت کی سند حسب ذیل ہے ۔

'' ضحاک بن یرع''کہ ہم نے اسی کتاب میں ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں کہا ہے کہ ہمیں شک ہے کہ وہ بھی سیف کا جعل کردہ اور اس کا خیالی راوی ہے۔

داستان کی حقیقت

سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود'' کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت عطافرمائی اور حکم دیا کہ یمن میں مقیم ایرانیوں سے رابطہ قائم کرکے اس کام میں ان سے مدد حاصل کرے ۔

قیس پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کو نافذ کرنے کیلئے راہی صنعاء ہوا اور وہاں پر اپنے آپ کو اسود کا حامی اور مرید جتلایا ۔ نتیجہ کے طور پر اسود اس کے صنعاء میں داخل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنا اس طرح وہ قبائل مذحج ، ہمدان اور دیگر قبائل کی ایک جماعت لے کر صنعاء میں داخل ہوا۔

قیس نے صنعا میں داخل ہونے کے بعد مخفیانہ طور پر فیروزنامی ایرانی سردار سے رابطہ قائم کیا ، جس نے پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد اس کے ہمرا ہ'' داذویہ '' سے ملاقات کی اور اس کی تبلیغ کی وجہ سے سر انجام دازویہ نے بھی اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد داذویہ نے اپنے مبلغین کو ایرانیوں کے درمیان یمن بھیجا اور انھیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے بھی اسلام قبول کیا اور اسود کو قتل کرنے میں ان کی مدد کی۔

کچھ مدت کے بعد قیس اور اس کی دو ایرانی بااثر شخصیتوں نے اسود کی بیوی کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں اسکی موافقت حاصل کی تا کہ اسود کا کام تمام کرسکیں ۔

اس پروگرام کے تحت ایک دن وہ لوگ پو پھٹتے ہی نگہبانوں سے بچ کر اچانک اسود کے گھر میں داخل ہوئے اور اس پر حملہ کیا، فیروز نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ، قیس نے اس کے سرکو تن سے جدا کرکے شہر کے دروازہ پر لٹکا دیا اور نماز کیلئے اذان دی اور اذاں کے آخر میں بلند آواز میں کہا کہ '' اسود جھوٹا اور خدا کا دشمن ہے '' ۔

اس طرح صنعاء کے باشندے اسود کے قتل کئے جانے کی خبر سے آگاہ ہوئے ۔

۱۳۰

داستان کی حقیقت اور افسانہ کا موازنہ

سیف کی روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی طرف سے چند ایلچیوں کو یمن میں مقیم ایرانی سرداروں اور بزرگوں اور اسی طرح اسود کی فوج کے سپہ سالار '' قیس بن عبد یغوث'' کے پاس روانہ کیا، اور حکم دیا کہ یہ لوگ اسود کو قتل کرکے اس کا خاتمہ کردیں ۔

یہ لوگ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم بجالاتے ہیں ۔ اسود کو قتل کرنے کے بعد '' جشیش'' یا '' وبرہ'' اذان دیتا ہے اور '' وبرہ'' کی امامت میں نماز جماعت پڑھی جاتی ہے ۔

جبکہ سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود '' کو قتل کرنے کی مموریت عطا فرمائی ہے اور اس نے یمن میں مقیم ایرانی سرداروں کی مدد سے '' اسود '' کو قتل کیا ہے ۔ قیس نے '' اسود'' کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکانے کے بعد خود نما زکیلئے اذان دی ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے سیف نے حقائق کو بدل کر داستان کے مرکزی کردار یعنی قیس کے باپ کا نام '' ھبیرہ'' سے تغیر دیکر ''عبد یغوث '' بتایا ہے ۔

اسی طرح اپنے جعلی صحابی کو '' وبر بن یحنس کلبی'' کا ہم نام یعنی '' وبرة بن یحنس'' ازدی خلق کیا ہے اور سیف کا یہ کام نیا نہیں ہے کیونکہ وہ حقیقی صحابیوں کے ہم نام صحابی جعل کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے جس طرح اس نے اپنے خزیمہ کو '' خزیمة بن ثابت انصاری ذی شہادتین '' کے ہم نام اور اپنے ' سماک بن خُرشۂ انصاری کو '' سماک بن خُرشۂ انصاری '' معروف بہ ابی دجانہ کا ہم نام خلق کیا ہے ۔

۱۳۱

افسانۂ وبرہ کے مآخذ

سیف نے '' وبرہ '' کے افسانہ کے راویوں کا حسبِ ذیل صورت میں نام لیا ہے :

١۔ مستنیر بن یزید نے

٢۔ عروة بن غزیہ سے ۔ یہ دونوں سیف کے خلق کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٣۔ ' ' ضحاک بن یربوع'' ہم نے کہا کہ اس کے بارے میں ہم مشکوک ہیں کہ اسے سیف نے جعل کیا ہے یا نہیں ۔

'' وبرہ '' کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں ۔ بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے ۔

٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ، طبری سے نقل کرکے۔

٣۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں سیف سے بلاواسطہ نقل کرکے ۔

٤۔ ابن حجر نے '' اصابہ'' میں براہ راست سیف سے نقل کرکے ۔

مصادر و مآخذ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی روایت

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٩١١)

٢۔ '' اصابہ'' ( ٢ ١٨٢) صفوان کے حالات کے ضمن میں ۔

٣۔ '' تاریخ ابن خیاط'' ( ١۔ ٦٢ ۔٦٣) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے نام میں نئی سطر سے ''وبرة بن یحنس'' کے بارے میں سیف کی روایات:

١۔'' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٨١، ١٨٥٦، ١٨٥٧، ١٨٦٢، ١٨٦٤ ، ١٨٦٧، اور ١٩٨٤ )

٢۔'' استیعاب ''طبع حیدر آبار دکن ( ٢ ٦٠٦)

٣۔ '' اصابہ '' ( ٣ ٥٩٤)

۱۳۲

'' وبر بن یحنس '' کلبی کی داستان :

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ١٧٦٣)

٢۔ '' اصابہ '' ابن حجر ( ٣ ٥٩٣)

٣۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٥ ٨٣)

اسود عنسی کی داستان

١۔ '' فتوح البلدان '' بلاذری ( ١ ١٢٥۔ ١٢٦)

٢۔ '' عبدا للہ بن سبا'' دوسری جلد۔

۱۳۳

چھتیس اور سینتیس ویں جعلی اصحاب اقرع بن عبدا للہ حمیری اور جریر بن عبد اللہ حمیری

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حمیری ایلچی :

سیف نے '' اقرع'' اور '' جریر'' عبدا للہ حمیری کے دوبیٹے خلق کئے ہیں تاریخ طبری میں سیف سے نقل کرکے دو روایتوں کے مطابق ان دو بھائیوں کی داستان یوں آئی ہے :

١۔ طبری نے ١١ ھ کے حوادت کے ضمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفراء کے بارے میں بیان ہوئی روایت۔۔ جس کا ذکر اس حصہ کے شروع میں ہوا۔۔ میں یوں کہا ہے :

اس کے علاوہ جریر بن عبدا للہ کو ایلچی کے طور پر'' ذی کلاع'' اور ''ذی ظلیم '' کے پاس بھیجا اور اقرع بن عبد اللہ حمیری کو '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' سے ملاقات کرنے کی مموریت دی۔

اس کے علاوہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد یمانیوں کے ارتداد کے بارے میں لکھتا ہے :

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض ایلچی گراں قیمت خبروں کے ساتھ ۔۔ خلافت ابو بکر کے دوران ۔۔ مدینہ پلٹے ، ان میں عبد اللہ حمیری کے بیٹے جریر اور اقرع اور وبرة بن یحنس بھی تھے۔ ابو بکر بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح مرتدوں اور دین سے منحرف ہوئے لوگوں سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اسامہ بن زید شام کی جنگ سے واپس آیا جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ، یہ دو خبریں من جملہ ان خبروں میں سے ہیں جسے سیف نے دونوں بھائیوں کے بارے میں ایک ساتھ لکھا ہے اور طبری نے انھیں ١١ ھ کے ضمن میں درج کیا ہے ۔

٢۔ طبری نے '' فتح نہاوند '' کی خبر کو ٢١ ھ کے حوادث و روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

جب مسلمان نہاوند پہنچے تو سپہ سالار اعظم نعمان بن مقرن نے حکم دیا کہ ساز و سامان کے ساتھ وہیں پڑاؤ ڈالیں ۔

نعمان کھڑے ہوکر کام کی نگرانی کررہا تھا اور فوجی خیمے لگانے میں مصروف تھے کہ کوفہ کے سرداروں اور اشراف نے نعمان کی خدمت کرنے کیلئے آگے بڑھ کر اس کیلئے ایک خیمہ نصب کیا ۔ سپہ سالار اعظم کیلئے خیمہ نصب کرنے کا کام کوفہ کے چودہ سردار اشراف نے انجام دیا ان میں یہ افراد تھے : جریر بن عبد اﷲ حمیری ، اقرع بن عبد اللہ حمیری اور جریر بن عبد اللہ بجلی اور آج تک خیمہ نصب کرنے والے ایسے لوگ دکھائی نہیں دئے ہیں

۱۳۴

صرف ان دو خبروں میں طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے دو جعلی حمیری بھائیوں کا نام ایک ساتھ لیا ہے ۔

لیکن تاریخ طبری میں سیف کی دوسری روایتوں میں ایک ایسی خبر موجود ہے جس میں تنہا جریر کا نام لیا گیا ہے اور اس کے بھائی اقرع کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ ذیل میں ملاحظہ ہو :

جریر بن عبد اللہ حمیری

صلح ناموں کا معتبر گواہ :

حیرہ کے بعد والے حوادث اور رودادوں کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے طبری لکھتا ہے :

'' حیرہ کے باشندوں کے ساتھ خالدبن ولید کی صلح کے بعد '' قس الناطف '' ١ کاسردار اور حاکم '' صلوبا بن نسطونا'' خالد کی خدمت میں حاضر ہوا ور '' بانقیا '' اور '' بسما'' کے بعض حصے اور ان دو جگہوں سے مربوط دریائے فرات کے کنارے پر واقع کھیتی کی زمینوں کے سلسلے جو آپ فرات سے سیراب ہوئے تھے اور دس ہزار دینار یعنی فی نفر چار درہم ۔۔ بادشاہ ایران کو ادا کرنے والی رقم سے زیادہ ۔۔ ٹیکس ادا کرکے صلح کی ۔ سر انجام اس کے اور سپہ سالار اعظم کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا اور جریر بن عبد اللہ حمیری نے اس کی تائید کرکے گواہی دی۔

اس صلح نامہ کے آخر میں جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ '' ماہ صفر ١٢ ھ '' ہے اس روایت کے بعد طبری ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :

____________________

١۔'' قس الناطف '' کوفہ کے نزدیک دریائے فرات کے مشرق میں واقع ہے اور بانقیا اور بسما بھی کوفہ کے اطراف میں تھے ۔معجم البلدان

۱۳۵

'' صلوبا بن بصبہری '' اور '' نسطونا '' نے '' خالد '' کے ساتھ '' فلالیج '' سے'' ہر مزگرد '' ١ کے درمیان شہروں اور زمینون کے بارے میں ، صلح نامہ کی رقم کے علاوہ بیس لاکھ کی رقم پر صلح نامہ پر دستخط کئے اس صلح نامہ کا گواہ جریر بن عبد اللہ حمیری تھا ۔

سیف کہتا ہے کہ اس کے بعد خالد بن ولید نے اپنے کارگزار معین کردئے اور فتح شدہ علاقوں میں مسلح فوج کو معین کردیا ۔ اس کے گماشتوں اور گزار میں ایک '' جرید بن عبد اللہ حمیری '' تھا جو خالد کی طرف سے نمائندہ کی حیثیت سے '' بانقیا '' اور '' بسما'' کا ممور قرار پایا۔

طبری ، سیف سے نقل کر کے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

خالد کے کارگزار خراج ادا کرنے والوں کو درج ذیل صورت میں رسید دیتے تھے :

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

یہ ورقہ بعنوان رسید ہے ان افراد کیلئے جنہوں نے یہ رقم یا یہ مقدا رجزیہ ، جسے خالد نے صلح کی بنیاد قرار دیاتھا ، ادا کیا ہے ۔ خالد اور تمام مسلمان اس شخص کا سختی سے مقابلہ کریں گے جو صلح نامہ میں مقرر شدہ جزیہ کی رقم ادا کرنے میں کسی قسم کی تبدیلی لائے گا ۔ اس بنا پر جو امان تمہیں دی گئی ہے اور جو صلح تمہارے ساتھ ہوئی ہے ، پوری طاقت کے ساتھ برقرار ہے اور ہم بھی ا س کے اصولوں پر پابند رہیں گے۔

اس رسید کے آخر میں جن چند اصحاب سے خالد نے دستخط لئے تھے جوحسب ذیل تھے :

____________________

١۔ ہر مزگرد عراق میں ایک شہر تھا جو عمر کی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔

۱۳۶

ہشام ، جابر بن طارق ، جریر بن عبد اللہ اور

طبری ، سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

'' فلالیج'' اور اسکے دور ترین شہروں اور علاقوں کے تمام لوگوں کو خالد نے مسلمان بنانے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی اطاعت میں لانے کے بعد علاقۂ حیرہ کی حکومت '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو سونپی ۔

جریر ، مصیخ کی جنگ میں :

مصیخ کی داستان کے ضمن میں طبری نے لکھتا ہے :

اس اچانک حملہ میں ، حتی عبد العزی بن ابی رہم نمری بھی جرید بن عبد اللہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ '' عبد العزی ، اوس بن مناة'' کا بھائی تھا ۔ وہ دشمن کی سپاہ میں تھا، لیکن اسلام لایا تھا ، اسلام لانے کے سلسلے میں ابو بکر کی طرف سے ایک تائید نامہ بھی اپنے پاس رکھتاتھا لیکن وہ اس برق آسا حملہ میں جرید بن عبداللہ کے ہاتھوں مارا گیا جبکہ اس شب وہ اس طرح پڑھ رہا تھا :

جس وقت اچانک حملہ ہوا ، میں نے کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا !تو پاک و منزہ ہے ۔

میرا اللہ جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے جو تمام زمینوں اور انسانو ں کا پیدا کرنے والا اور ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔ ١

اسی طرح طبری ، سیف سے نقل کرکے حدیث جسر ۔۔ جسر ابو عبید ۔۔ میں ١٣ ھ کے حوادت

____________________

١۔ اسی کتاب کی پہلی جلد ( فارسی ) ( ١ ١٥٦ ۔ ١٥٧) ملاحظہ ہو۔

۱۳۷

کے ضمن میں کہتا ہے :

یرموک کی جنگ اور جسر کی داستان کے درمیان چالیس دن رات کا فاصلہ تھا ۔ جس شخص نے خلیفہ عمر ۔۔ کو یرموک کی فتح کی نوید دی وہ جریر بن عبد اللہ حمیری تھا۔

یہاں اور آنے والی بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے صحابی '' جریر '' کو ایسا خلق کیا ہے کہ خالد بن ولید '' حیرہ '' کی فتح کے بعد اسے اپنے ساتھ شام لے جاتا ہے ۔

جریر ، ہرمزان کا ہم پلہ

طبری نے '' رامہرمز ، شوش اور شوشتر '' کی فتح کے موضوع کے بارے میں ١٧ ھ کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے یوں ذکرکیا ہے :

خلیفۂ عمر نے ''سعد وقاص'' کو لکھا کہ فوری طور پر ایک عظیم فوج کو ''نعمان بن مقرن'' کی کمانڈ میں اہواز بھیجدے اور جریر بن عبدا ﷲ حمیری و جریر بن عبد اللہ بجلی اور کوہرمزان سے مقابلہ کرنے کیلئے ممور کرے تا کہ اس کا کام تمام کردیں ۔

طبری'سیف سے نقل کرکے '' حیرہ کی روداد اور خالد بن ولید اور '' قس الناطف '' کے سردار کے درمیان صلح نامہ کے موضوع کے ضمن میں لکھتا ہے :

اس صلح نامہ کے آخر میں لکھی گئی تاریخ '' ٢٠'' ماہ صفر ١٢ھ ہے ۔

طبری سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

خطوط کے آخر میں تاریخ لکھنے والے پہلے شخص عمر تھے اور وہ بھی ١٦ ھ میں ان کی خلافت کے ڈھائی سال گزرنے کے بعد ، تاریخ کی یہ قید امیر المؤمنین علی بن ابیطالب کی مشورت اور راہنمائی سے انجام پائی ہے ۔

اس کے بعد طبری اسی موضوع کی وضاحت میں لکھتا ہے :

عمر نے لوگوں کو جمع کرکے ان سے پوچھا : کس دن کو تاریخ کا آغاز قرار دیں ؟ امیر المؤمنین علی نے فرمایا: اس دن کو جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت فرمائی اور دیار شرک کو ترک فرمایا ۔

۱۳۸

عمر نے اسی نظریہ کو منظور کرکے اسی پر عمل کیا ۔

طبری سے جو مطالب ہم نے نقل کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کا موضوع اور اس کے خطوط و عہد ناموں کے آخر میں درج کرنے کا رواج ١٦ ھ تک نہیں تھا اور اس وقت تک خطوط اور عہد ناموں کے آخر میں تاریخ نہیں لکھی جاتی تھی لہذا ١٦ ھ سے پہلے والے جتنے بھی خطوط اور عہد ناموں پر تاریخ لکھی گئی ہوگی ، وہ جعلی ہیں جیسے سیف کا وہ عہد نامہ جسے اس نے ١٢ ھ کے ماہ صفر میں لکھنے کی نسبت خالد بن ولید سے دی ہے ۔

'' اقرع'' اور ''جریر'' کے افسانوں کی تحقیق

سیف نے اقرع و جریر کے بارے میں اپنے افسانہ کے راویوں کا یوں تعارف کیا ہے:

١۔'' محمد'' اس نام کی پانچ بار تکرار کی ہے اور اسے محمد بن عبد اللہ بن سواد کہا ہے ۔

٢۔ '' مہلب '' اس کا نام دوبار ذکر کیا ہے اور اسے مہلب بن عقبہ اسدی کہا ہے۔

اس کے علاوہ درج ذیل ناموں میں سے ہر نام ایک بار ذکر ہوا ہے ۔

٣۔ غصن بن قاسم

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن یوسف سلمی انصاری

۱۳۹

ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے اشارہ اور ابہام کی صورت میں چند دیگر راویوں کا نام بھی لیا ہے کہ جنہیں پہچاننا ممکن نہیں ہے ، جیسے کہ کہتا ہے :

بنی کنانہ کے ایک شخص سے ! ، یہ شخص کون ہے ؟!

یا یہ کہتا ہے :

عمرو سے کون سا عمرو؟ اسی کے مانند

تاریخی حقائق اور سیف کا افسانہ

یہ حقیقت ہے کہ اصحاب کے درمیان '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' نام کا ایک صحابی موجود تھا (۱) نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ عمر نے حکم دیا کہ اس کا قبیلہ نقل و حرکت کرے اور جریرنے ان (عمر ) کے سپہ سالار کی حیثیت سے عراق کی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔

____________________

١۔ہم نے اس جریر کو ، مؤرخین کی روش کے مطابق کہ ''جس کسی نے اسلام لاکر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے ، اسے صحابی کہتے ہیں '' ، صحابی کہا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

کرتی ہیں۔ اگر اس قسم کی آفات و بلیات ختم ہوجائیں تو لوگ سرکشی، معصیت، اور غلو میں غرق ہوکر رہ جائیں گے، جیسا کہ پہلے زمانہ میں ہو اکہ انہیں طوفان کے ذریعہ ہلاک کرکے زمین کو ان کے وجود سے پاک کیا گیا، ایک چیز اور کہ جس کا لوگ انکار کرتے ہیں ، وہ موت و فنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بشر ہمیشہ دنیا میں رہتا اور کسی بھی قسم کی آفت و بلاء میں گرفتار نہ ہوتا، اور آخر تک اسی حالت پر باقی رہتا۔

تو اس بات کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر کوئی دنیامیں آتا اور ہمیشہ باقی رہتا اور نہ مرتا تو کیا زمین خدا کی مخلوق پر تنگ نہ ہوجاتی؟ اور انکے رہنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ ہوتی، اور کاروبار اور زراعت وغیرہ ختم ہوکر رہ جاتی کیا تم لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ اس بات کو جانتے ہیں ، اوریقین رکھتے ہیں کہ انہیں تدریجاً فنا اور موت سے ہم کنار ہونا ہے اس کے باوجود وہ مسکن اور زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اسی کش مکش میں آپس میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے ، تو پھر اس وقت انسانوں کی کیا حالت و کیفیت ہوتی جبکہ وہ موت و فنا سے بری ہوتے، حرص ، آرزو و طمع اور مختلف فسادات ان پر غلبہ کرلیتے کہ جب یہ اس بات کا یقین کرلیتے کہ ان کے لئے موت و فنا نہیں ، ایسی صورت میں کوئی بھی حاصل شدہ اشیاء پر قانع نہ ہوتا اور کوئی بھی اپنی مصیبت اور رنج و الم سے نجات نہ پاتا ، اس لئے کہ موت و فناء نہیں، اس کے علاوہ ایسا شخص زندگی کا مارا ہوجاتا اور دنیا کی ہرچیز سے تنگ آجاتا، جیسا کہ وہ شخص زندگی سے تنگ آجاتا ہے۔کہ جس کی عمر حیات طولانی ہو، تو وہ موت کی آرزو کرتا ہے تاکہ دنیا کی مصیبتوں سے راحت و آرام پائے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کو چاہیے کہ وہ اپنے بندوں سے ہر قسم کے مرض و مصیبت کو برطرف کردے، تاکہ وہ موت کی آرزو نہ کرے اوراس کا مشتاق نہ ہو، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ایسا ہوجائے تو لوگ سرکشی اور شرارت کی طرف کھینچے چلے جائیں گے جس سے

۱۶۱

انکی دنیا اور دین دونوں برباد ہوجائیں گے اور اب اگر کوئی یہ کہے کہ انسانوں کے درمیان تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا ،تاکہ لوگ اپنی کثرت و زیادتی کی وجہ سے مسکن ومعیشت کیلئے پریشان نہ ہوتے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں دوسری صدی کے لوگ نعمت حیات، نعمت دنیاوی و أخروی اور اُن چیزوں سے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو دیں ہیں ، محروم رہ جاتے ایسی صورت میں ایک صدی سے زیادہ صدی وجود میں نہ آتی ، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ہی اچھا تھا کہ سب لوگ ایک دفعہ خلق ہوجاتے اور پھر بعد میں کوئی خلق نہ ہوتا؟ تو اس کے جواب کے لئے ہم پھر دوبارہ اپنے پہلے والے سوال کے جواب کو دہرائینگے، کہ اگر ایسا ہوتا تو اس سے معیشت و مسکن کی تنگی واقع ہوجاتی اور اسکے علاوہ اگر سب ایک ہی ساتھ خلق ہوجاتے اور ان میں تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا تو وہ محبت و اُنسیت جو لوگوں میں اس وقت دیکھائی دیتی ہے باقی نہ رہتی اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے پریشانی ومجبوری میں مدد مانگ سکتے تھے اور وہ لذت و خوشی جو تربیت اولاد سے حاصل ہوتی ہے سب ختم ہوجاتی لہٰذا یہ جواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو بھی فکروں میں آتا ہے ، وہ اس کے علاوہ ہے کہ جس میں تدبیر ہے اور وہ سب خطا ہے۔

( خالق و مبدأ جہاں پر طعنہ زنی کرنے والے لوگ کیا کہتے ہیں )

شاید اب کوئی دوسری جہت سے خالق دوجہان کی تدبیر پر طعنہ زنی کرے اور کہے کہ یہ کس قسم کی تدبیر ہے کہ جو عالم کے اندر دیکھنے میں آتی ہے اور وہ یہ کہ جو بھی قدرت مند و قوی ہے وہ بہت زیادہ ظلم کرتاہے اور وہ لوگ جو ضعیف و کمزورہیں وہی ذلیل و خوار ہوتے ہیں ، نیک اور اچھے لوگ مصیبتوں میں مبتلاء ہوتے ہیں ، جبکہ فاجر و فاسق چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور اگر کوئی برا کام کرتا ہے تو اُس پر جلد ہی عذاب نازل بھی نہیں ہوتا ،لہٰذا یہ بات تدبیر کے نہ ہونے پر دلیل ہے اس لئے اگر

۱۶۲

تدبیر شامل حال ہوتی تو مسلماً تمام کام ایک اندازہ کے تحت انجام پاتے کہ جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو صالح اور نیک ہیں اپنی روزی وسعت کے ساتھ پاتے اور ظالم افراد اس سے محروم رہ جاتے اور کوئی قوی و طاقتور کسی کمزور اور ضعیف پر ہرگز ظلم نہ کرتا اور وہ شخص جو برے کام انجام دیتا، جلد ہی اپنے برے انجام کو پہنچ جاتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ نظریہ درست ہو اور اسے عملی جامہ پہنا دیا جائے، تو وہ فضیلت جو خداوند عالم نے انسان کو تمام حیوانات پر عطا کی ختم ہوجاتی، اس کے علاوہ یہ کہ وہ امید بھی محو ہوجاتی کہ انسان اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ نیک اور اچھے اعمال انجام دے گا تاکہ آخرت میں اس کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو کہ جس کا خداوند متعال نے اس سے وعدہ کیا ہے۔ تو گویا انسان بھی چوپاؤں کی طرح ہوکر رہ جاتا کہ جو عصاء کے خوف اور گھاس کی طلب میں کام کو صحیح طور پر انجام دیتے ہیں پس انسان کسی بھی کام کو آخرت کے عقاب یا ثواب کی خاطر انجام نہ دیتا پس یہی معنی بشر کو انسانیت سے نکال کر حیوانیت کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں فکر مند نہ ہوتا اور کسی بھی کام کو بغیر کسی حاضر یا نقدی چیز کے علاوہ بجا نہ لاتا پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ صالح اور نیک افراد کسی کام کو اس لئے انجام دیتے تاکہ ان کی روزی میں وسعت ہو، اور اگر کوئی برائیوں اور گناہوں سے بچتا تو فقط اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس پر عذاب الٰہی نازل ہوجائے ، نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے تمام کام حاضر اور نقدی چیزوں کے لئے ہوتے، ایسی صورت میں قیامت پر یقین ثابت نہ ہوتا اور لوگ ہرگز آخرت کے ثواب اور اسکی نعمتوں کے مستحق نہ ہوتے اب وہ شخص جو طعنہ زنی کرتے ہوئے جن امور کا ذکر کرتا ہے (جیسے ۔توانگری وفقیری ، موت وحیات، سلامتی وگرفتاری) یہ سب اس کے خیال وقیاس اور اندازے کے خلاف ہیں تو اسکی یہ فکر خطا ہے جبکہ بعض اوقات تم مشاہدہ کروگے، کہ اس کے قیاس و قاعدہ کے مطابق ، نیکو کار و صالح افراد خوشحال و خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں ایسا اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے درمیان یہ خیال پیدا

۱۶۳

ہوجائے کہ فقط کفار ہی دولت مند ہیں اور صالح و نیک افراد ہمیشہ فقیری اورغربت کی زندگی گذارتے ہیں اور یہ خیال انہیں اس بات پر مجبور کرتا کہ وہ غلط راستے کو صحیح پر ترجیح دیں، اور اسی طرح تم بہت سے فاسقوں کو دیکھو گے کہ جب ان کا ظلم اور سرکشی حد سے بڑھ جائے اور لوگ کسی بھی صورت ان کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو ان پر جلدی ہی عذاب الٰہی نازل ہوجاتا ہے چنانچہ ''فرعون'' دریا میں غرق ہوگیا ''بخت نصر'' کو حیرانی و سرگردانی میں ہلاک کردیا ''بلبیس'' کو قتل کردیا گیا۔

اگر بہت سے ظالموں کے عذاب ہونے میں تاخیر ہو، یا اسی طرح نیک اور اچھے لوگوں کے اجروثواب میں دیر ہو تو یہ بعض ایسی وجوہات کی بناء پر ہے کہ جسے بندے نہیں جانتے اور یہ موارد کسی بھی صورت تدبیر کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ بادشاہ وغیرہ بھی اس قسم کے کام کرتے ہیںاور کوئی بھی ان کے کاموں کو تدبیر سے خالی نہیں کہتا بلکہ اس کی تاخیر اور عجلت کو حسن تدبیر سے تعبیر کیا جاتا ہے تمام چیزوں کا قواعد و ضوابط کے تحت انجام پانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا بنانے والا حکیم ہے۔ اور کوئی بھی چیز اس کی تدبیر کے سامنے رُکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ کسی بھی خالق کو اپنی مخلوق کے مہمل چھوڑنے کی تین وجوہات میں سے کوئی ایک ہوسکتی ہے۔(1)عاجز (2)جاہل (3)شریر۔ اور یہ سب باتیں خداوند متعال کی ذات میں محال ہیں ، اس لئے کہ کوئی بھی عاجز اس قسم کی عجیب و غریب مخلوق خلق نہیں کرسکتا، اور جاہل کے پاس تدبیر نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، جبکہ کائنات میں کوئی بھی چیز تدبیر و حکمت سے خالی دکھائی نہیں دیتی ۔ اور شریر کبھی بھی اپنی مخلوق پر احسان نہیں کرتا ، اور نہ اس کے لئے بھلائی چاہتا ہے ، خالق پر واجب ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو تدبیر کے ساتھ پیدا کرے اگرچہ وہ تدبیر اسکی مخلوق سے پوشیدہ ہو جیسا کہ بادشاہ کے بہت سے کاموں کے علل و اسباب اسکی رعایا نہیں جانتی کیونکہ وہ بادشاہ کے امور میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں رکھتی، کہ وہ جانے کہ اس کے اس کام میں کیا راز پوشیدہ ہے لیکن جب وہ کسی کام کی علت جان لیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر

۱۶۴

کام بہتر انداز سے انجام پایاہے۔ ملوک کے بعض اعمال کی مدد سے ملک الملوک کے اعمال پر استدلال کیا جاتا ہے۔

اگر تم کچھ دواؤں یا غذاؤں کے بارے میں یہ خیال کرو کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لئے کچھ نا کچھ خاصیتیں رکھتی ہے اور پھر تمہیں دو تین راہوں سے یہ بات پتہ چل جائے کہ انکا مزاج گرم یا سرد ہے تو کیا تم فقط اس مقدار کو جاننے کے بعد یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ یہ گرم یا سرد مزاج رکھتی ہے (یقینا تم ایسا کروگے) اور س کے بعد تم اپنے خیال کو اس یقین میں بدل دو گے یہ دوائیں اور غذائیں سرد اور گرم مزاج رکھتی ہیں تو جب دو، تین گواہوں اور شواہد کے بعد انسان کسی چیز پر یقین کر لیتا ہے تو پھرکس طرح اُس ذات کو جھٹلاتاہے جس کے وجو د پر اس قدر شواہد و گواہ موجود ہیں کہ جن کوشمار نہیں کیا جاسکتا، کیا وہ ان شواہد کا مشاہدہ نہیں کرتے؟! اگر ان لوگوں کو فقط نصف عالم کی وجوہات کے بارے میں معلومات نہ ہوتی، تو تب بھی یہ فیصلہ کرنا کہ عالم اتفاق کا نتیجہ ہے ، عدل و انصاف سے خالی ہوتا اس لئے کہ دوسری نصف مخلوق میں تو حسن تدبیر کے وہ عظیم اور ظاہری دلائل موجو دہیں کہ جو انہیں اس قسم کے فکر سے روکتے ہیں کہ محض عجلت میں عالم کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے، جب کہ وہ کائنات کی جس چیز کے بارے میں بھی تحقیق و تجربہ کرتے ہیں تو وہ اس میں حسن تدبیر و حسن کمال پاتے ہیں۔

( عالم کا نام یونانی زبان میں )

اے مفضل جان لو کہ اہل یونان کے درمیان عالم کا نام ''قوسموس'' مشہور ہے کہ جس کا مطلب زینت و خوبصورتی ہے اور حکماء اور فلاسفہ نے بھی اس عالم کو اس قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے ، کیا یہ بات اس چیز پر دلالت نہیں کرتی کہ انہوں نے اس عالم میں تدبیر و نظام کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیکھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عالم کوا س قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی

۱۶۵

راضی نہ تھے کہ وہ عالم کا نام نظام اور اندازہ رکھیں، بلکہ انہوں نے اس کا نام زینت رکھا تاکہ وہ یہ بتاسکیں کہ عالم کی ہرچیز کے اندر حسن تدبیر و استحکام اور زیبائی موجود ہے۔

( تعجب اس قوم پر جو حکمت پر یقین رکھ کر حکیم کو جھٹلاتی ہے )

اے مفضل۔ ذرا تعجب کرواُس قوم پر کہ جو حکمت کو خطا نہیں کہتی مگر حکیم کو جھٹلاتی ہے، اور اس کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کہتی ہے ، جب کہ وہ اس میں کوئی مہمل چیز نہیں دیکھتی اور تعجب کرو کہ جو حکمت کا دعویدار ہے اوروہ اُس حکمت کو جھٹلاتا ہے جو اس عالم میں جاری ہے اور اپنی تند وتیز زبان کو خالق دوجہاں کے بارے میں دراز کرتا ہے، اور تعجب تو بدبخت فرقہ مانویہ پر ہے کہ جو علم اسرار کے جاننے کا دعویدار ہے مگر وہ اُن دلائل حکمت کو مخلوق میں دیکھنے سے اندھا ہے کہ جو مخلوق میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں اوراپنے جہل و نادانی کی وجہ سے مخلوق اور خالق کی طرف خطا کی نسبت دیتا ہے جس کی ذات حکیم و کریم اور بلند و بالا ہے۔

( عقل اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی )

( اے مفضل) ان سب میں سب سے زیادہ تعجب فرقہ معطلہ پر ہے ، جو اس چیز کا دعویدار ہے کہ جس چیز کو عقل درک نہیں کرسکتی اُسے حس سے درک ہونا چاہیے اورکیونکہ یہ چیز خداوندعالم کے بارے میں امکان پذیر نہیں لہٰذا وہ اسی چیز کو دلیل بناکر اپنے خالق کا انکار کر بیٹھتا ہے اور اُس کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خالق وجود رکھتا ہے تو وہ عقل سے درک کیوں نہیں ہوتا؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خالق دوجہاں عقل سے بھی بلند وبرتر ہے لہٰذا عقل اُسے درک کرنے سے قاصر

۱۶۶

وعاجز ہے ، جیسا کہ وہ چیز جو آنکھوں سے زیادہ بلند مرتبہ رکھتی ہے ، آنکھوں سے درک نہیں ہوسکتی جیسا کہ جب تم کسی پتھر کو ہوا میں بلند دیکھتے ہو تو فوراً جان لیتے ہو کہ اُسے کوئی اُچھال رہا ہے ، اور تمہارا یہ جان لینا آنکھوں کے ذریعہ نہیں بلکہ عقل کے ذریعہ ہے ، اس لئے کہ اس قسم کے فیصلے عقل کرتی ہے اور وہ اس بات کو جانتی ہے کہ پتھر خودبخود ہوا میں بلند نہیں ہوسکتا ۔ توتم نے دیکھا کہ آنکھ کس طرح اپنی حد سے تجاوز نہ کرسکی، بالکل اسی طرح عقل بھی اپنی حد پر ٹھہر جاتی ہے اور ہرگز اس سے تجاوز نہیں کرتی ، اس کے باوجود وہ جانتی ہے کہ ایک صانع ہے کہ جس نے اُسے بنایا ہے لیکن وہ اس کی ذات وصفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ تو پھر یہ ضعیف انسان اپنی عقل لطیف کے ذریعہ کس طرح مکلف ہے کہ وہ خداوندمتعال کو جانے ، جب کہ اسکی عقل اسکا احاطہ کرنے سے قاصروعاجز ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ بندگان کو اس قدر مکلف بنایا ہے کہ جتنی وہ طاقت رکھتے ہیں اور ان کی طاقت یہ ہے کہ وہ اس کے وجود پر یقین رکھیں، اور اس کے أمرونہی کے پابندرہیں کبھی بھی خداوند عالم نے بندوں کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا کہ وہ جانیں کہ اسکی ذات و صفات کی حقیقت کیا ہے ، جس طرح سے کوئی بھی بادشاہ اپنی رعایا کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا کہ وہ جانے کہ انکا بادشاہ بلند قامت کا ہے یا کوتاہ، سفید ہے یا گندمی ، بلکہ وہ انہیں اس بات کا مکلف بناتا ہے کہ وہ اسکی سلطنت کا اقرار کریں اور اسکے فرمان کے آگے اپنی گردنوں کو جھکائے رکھیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بادشاہ کے دربار میں جاکر یہ کہے کہ جب تک تم اپنے آپ کو میرے حوالے نہ کروگے، کہ میں اچھی طرح تمہیں جان لو، تو میں اس وقت تک تمہاری اطاعت نہ کرونگا تو اس شخص نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو عقوبت اور خطرہ میں ڈال دیا، پس اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں اس وقت تک اپنے خالق کی اطاعت نہ کروں گا جب تک کہ اچھی طرح اس کی حقیقت اور اس کا کامل احاطہ نہ کرلوں ، تویقینا اُس نے اپنے آپ کو معرض غضب الٰہی قراردیا، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا بعض دفعہ

۱۶۷

اسکی تعریف و توصیف بیان نہیں کی جاتی ،اور نہیں کہا جاتا کہ وہ عزیز ہے ، حکیم و جوادوکریم ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تمام صفتیں اسکا اقرار ہیں نہ یہ کہ اس کا احاطہ اور درک حقیقت ، اس لئے کہ ہم کہتے ہیں کہ وہ حکیم ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کے حکیم ہونے کی حقیقت کیا ہے اور اسی طرح دوسری تمام صفتیں ، اسکی مثال ایسی ہے کہ ہم آسمان کو تو دیکھتے ہیں ، لیکن اس بات سے ابھی تک آگاہ نہیں ہوئے کہ وہ کس مادہ کا بنا ہے، دریا، دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ اس کی انتہاء کہاں ہے، تو پس اس خداوندعالم کا امر تو ان تمام چیزوں سے بھی بلند و بالا ہے کہ جس کے لئے کوئی انتہاء نہیں ، اس لئے کہ مثال کیسی بھی ہو، اس کے امر کے مقابلے میں کوتاہ ہے ،لیکن عقل اس کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

( خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں؟ )

( اے مفضل) اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کے بارے میں اختلاف لوگوں کے کم عقل ہونے پر دلیل ہے کہ ان میں سے بعض نے یہ چاہا کہ وہ اسکی معرفت حاصل کرنے کے لئے اور اسکی ذات و صفات کے احاطہ کے لئے اپنی حد سے تجاوز کریں ، جب کہ اوہام ا س کام سے عاجز ہیں بلکہ وہ اس سے بھی چھوٹی چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں جیسے سورج کہ جو تمام عالم پر تابانی کرتا ہے، مگر کوئی بھی اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، اس بات کی دلیل اسکے بارے میں مختلف اقوال ہیں ، فلسفیوںنے اسکے بارے میں مختلف نظریے پیش کئے ہیں ، بعض نے کہا کہ وہ ایک ستارہ ہے ، اور آگ سے بھرا ہوا ہے، اور یہ اپنے لئے منھ رکھتا ہے کہ جس کے ذریعہ حرارت و شعاعیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ ایک أبر ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک شفاف جسم ہے ، شیشہ کی مانند جو عالم سے حرارت کو جذب کرنے کے بعد اپنی

۱۶۸

شعاعوں کو عالم کی طرف ارسال کرتا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ ایک لطیف و صاف چیز ہے کہ جو دریا کے پانی سے بنا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ آگ کے ذرات ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں ،ا ور بعض نے کہا کہ وہ چار عنصروں کے علاوہ پانچواں عنصر ہے، اس کے علاوہ اس کی شکل میں بھی اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک صفحہ کی مانند پھیلا ہوا ہے، اور بعض نے کہا کہ وہ گیند کی مانند ہے کہ جو حالت گردش میں ہے، اور اسی طرح اسکی مقدار اور اسکے وزن میں بھی اختلاف ہے ، بعض نے کہا کہ وہ زمین کے برابر ہے، بعض نے کہا کہ وہ زمین سے چھوٹا ہے، بعض نے کہا کہ وہ بزرگ ترین جزیروں میں سے ایک جزیرہ ہے، ریاضی دان لوگوں نے کہا کہ وہ ایک سو ستر برابر زمین کے ہے ۔ پس یہی اختلاف اس بات پر دلیل ہے کہ وہ سورج کی حقیقت سے واقف نہیں ہوئے، وہ سورج جو آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے، اور حس جسے درک کرتی ہے لیکن عقول اسکی حقیقت کو پانے سے قاصر وعاجز دکھائی دیتی ہیں تو اب ذرا بتاؤ کہ پھر کس طرح عقول اُس ذات مقدس کو در ک کرلیں کہ جو احساسات کے ادراک سے بھی باہر ہے اور لطیف و پوشیدہ ہے، اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ وہ پوشیدہ کیوں ہے؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خداوندمتعال نے اپنی حکمت و تدبیر سے خود کو پوشیدہ کر رکھا ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو پردہ یا دروازہ کے پیچھے پوشیدہ کرلے، یہ جو کہا جاتا ہے کہ خداوندعالم پوشیدہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم اس قدر لطیف ہے کہ عقل و فہم میں نہیں آتا، اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ لطیف و برتر کیوں ہے؟ تو یہ کہنا تو خودبخود غلط ہے ، اس لئے کہ وہ ذات جو سب کی خالق ہے ، اس کے لئے ضروری و لازم ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برترہو، وہ منزہ وپاک وپاکیزہ ہے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کیسے معقول ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برتر ہو، تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ کسی بھی چیز کی اطلاع ومعرفت کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں ۔ (1)یہ جانا جائے کہ اس چیز کا وجود ہے یا نہیں ۔ (2)یہ جانا جائے کہ اس کا جوہر ومادہ کیا ہے۔ (3)یہ جانا جائے کہ اسکی کیفیت و صفت کیا

۱۶۹

ہے۔ (4)وہ کس علت کے تحت وجود میں آیا، اور اس کا سبب کیا ہے ۔ لیکن ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعہ بھی مخلوق اپنے خالق کی حقیقت کو نہیں پہچان سکتی فقط یہ کہ وہ جانے کے وہ موجود ہے، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ وہ کیسا ہے اور کیا ہے؟ تو یہ وہ منزل ہے کہ جہاں پہنچنا ناممکن ومحال ہے ، کہ اسکی ذات کی حقیقت کو پالیا جائے ، یا یہ کہ اسکی معرفت میں کمال پیدا کرلیا جائے، اور اگر کہا جائے کہ وہ کیوں موجود ہے؟ اور اسکی علت کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں چیز خداوندمتعال کی ذات سے ساقط ہیں اس لئے کہ خداوندعالم ہرچیز کی علت ہے، مگر کائنات کی کوئی چیز اس کی علت نہیں ،اور پھر یہ کہ انسان کا یہ جاننا کہ وہ موجود ہے، اس بات کا موجب نہیں بنتا وہ جانے کہ وہ کیسا ہے ، جیسا کہ اس کے خود اپنے نفس کو جاننا کہ وہ موجود ہے اس بات کا موجب نہیں بنتا ، کہ وہ جانے کہ وہ کیسا ہے، اور اسی طرح دوسرے لطیف اور معنوی امور، اب اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے اپنے کوتاہ علم کی روشنی میں جس لحاظ سے خداوند متعال کی وصف و تعریف بیان کی ہے اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے پہچانا نہیں جاسکتا، تو جواب میں کہا جائے گا کہ یقینا فقط وہاں تک جہاں تک کہ عقل کی رسائی ممکن ہو، اور اسکا احاطہ کرنے کی کوشش کرے، لیکن دوسری جہت سے وہ ہم سب سے بہت نزدیک اور اس کے آثار تمام چیزوں سے زیادہ روشن ہیں وہ اس قدر واضح ہے کہ کسی بھی چیز سے پوشیدہ نہیں اور دوسری جہت سے وہ اس قدر لطیف ہے کہ کوئی بھی اُسے درک نہیں کرسکتا، جس طرح سے عقل کہ اس کے دلائل تو ظاہر ہیں ، مگر اس کی ذات پوشیدہ ہے۔

۱۷۰

( طبیعت حکم خدا کے تحت )

اور اب دہریوں کے اس سوال کا جواب جو یہ کہتے ہیں کہ طبیعت وہ کام جو بے معنی ہوں انجام نہیں دیتی، اور نہ ہی وہ کسی بھی چیز کے مقابلے میں اپنی حد سے تجاوز کرتی ہے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے اس عقیدہ کی دلیل حکمت ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ وہ کون ہے جس نے طبیعت کو یہ حکمت عطا کی کہ کوئی بھی چیز اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ اور یہ وہ چیز ہے کہ جس تک عقل انسان طویل تجربوں کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتی اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموںکو خود اپنی حکمت اور قدرت سے انجام دیتی ہے تو درحقیقت وہ اس صورت میں اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ جس چیز کا وہ انکار کرچکے ہیں، اس لئے کہ بالکل یہی صفات خالق ہیں، اور اگر وہ اس بات کا انکار کریں تو ایسی صورت میں کائنات کا ہر ذرہ ایک آواز ہو کر یہ صدا بلند کریگا، کہ یہ تمام امور خالق حکیم کی طرف سے ہیں۔

( انسان کا ناقص الخلقت ہونا اس کے اتفاقاً پیدا ہونے پر دلیل نہیں )

گذشتہ زمانے میں بعض افراد اشیاء میں کار فرما قصد و ارادہ اور تدبیر کے منکرتھے، اور وہ خیال کرتے تھے کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور انکی دلیل وہ آفتیں تھیں کہ جو زمانے میں رونما ہوتی ہیں ، مثلاً انسان کا ناقص الخلقت پیدا ہونا، انگلیوں کا زیادہ ہونا، بدشکل و بدقیافہ ہوناوغیرہ وہ لوگ ان تمام باتوں کو دلیل بنا کراس بات پر متفق تھے کہ یہ تمام چیزیں بغیر قصد و ارادہ اور تدبیر سے وجود میں آتی ہیں ۔ حکیم ارسطو ، انکے کلام کو اس طرح رد کرتا ہے کہ جو چیز اتفاق سے وجود میں آتی ہے وہ ہر لحاظ سے نقصان میں ہے ،کائنات میں حادثات رونما ہونے کا سبب ایک ایسی چیز ہے جو طبیعت کو اپنی اصلی

۱۷۱

راہ سے منحرف کردیتی ہے ، اور اُن حادثات کا واقعہ ہونا امور طبیعی کی طرح نہیں ہے کہ جو ہمیشہ پیش آتے ہیں (بلکہ کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں)۔

اے مفضل۔ تم اکثر حیوانات کو دیکھتے ہو کہ وہ ایک ہی حالت پر اور ایک ہی جیسے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ انسان، کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دوہاتھ، دوپاؤں، اور ہر ہاتھ اور پیر میں پانچ پانچ انگلیاں ہوتی ہیں، اور ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اس کے علاوہ دوسرے انسان ، لیکن وہ شخص جو اس حالت کے برخلاف پیدا ہو تو اس کا سبب وہ علت ہے کہ جو رحم مادر میں موجود بچہ کو پہنچی ، جیسا کہ بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم صنعت میں بھی کرتے ہو کہ صنعت کار ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ چیز صحیح وسالم وجود میں آئے ، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی دوسری چیز کے مانع ہونے کی وجہ سے صنعت کار کی بنائی ہوئی چیز ناقص وجود میں آتی ہے ، اب چاہے وہ چیز جو مانع ہوئی وہ صنعت کار کے قصد و ارادہ سے تھی یا پھر ان آلات کی وجہ سے کہ جو اس چیز کو بنانے کا کام انجام دے رہے ہیں، اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ کبھی تم حیوانات میں بھی کرتے ہو، مختصر یہ کہ کسی چیز کے عارض ومانع ہونے کہ وجہ سے بچہ ناقص الخلقت پیدا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات بالکل صحیح وسالم پیدا ہوتے ہیں پس اکثر امور کے ناقص ہونے کی علت وہ مانع ہے کہ جو کبھی کسی وجہ سے عارض ہوجاتا ہے ، اور یہ چیز اس بات کا ہرگز موجب نہیں بنتی کہ اُسے اتفاق کا نتیجہ کہاجائے، پس بالکل یہی امر خلقت میں بھی ہے اور اس شخص کا یہ کہنا کہ ہر چیز اتفاق کا نتیجہ ہے اس چیز کی مانند ہے کہ جو صنعتگر کی چاہت و طلب کے خلاف مانع کے عارض ہونے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے ۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ آخر اس قسم کے غیر عادی واقعات رونما ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے، تاکہ جان لیا جائے کہ چیزوں کا طبیعت پر ہونا اضطراری نہیں ، بلکہ خداوندمتعال کے قصد و ارادہ اور اسکی تدبیر کے تحت ہے اور خالق دوجہاں نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ ہمیشہ اپنی معین روش اور خاص

۱۷۲

طریقہ کے تحت کام انجام دے اور کسی علت کے مانع ہونے کی بناء پر اپنی روش کے خلاف عمل کرے پس یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کائنات کی ہرچیزاپنے کمال پر پہنچنے کے لئے اپنے پیدا کرنے والے کی قدرت کی نیاز مند ومحتاج ہے، کہ وہ بابرکت اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے عطا کیا اسے لے لو،اور جو کچھ میری بخشیشیں تمہارے ساتھ ہیں انکی حفاظت کرو اور خداوندمتعال کااس کے احسانات پر شکر ادا کرو ، اسکی اور اسکے اولیاء کی توصیف بیان کرو، اور اُن کے فرماںبردار ہوجاؤ، یقینا کہ میں نے تمہارے لئے بہت میں سے کچھ اور کل میں سے جزء کے ذریعہ کائنات کی صحیح تدبیر اور قصد و ارادہ پر محکم دلیلیں بیان کیں ، اب تمہیں چاہیے کہ تم اس میں تدبر اور تفکر کرو، اور اس سے عبرت حاصل کرو، مفضل کابیان ہے کہ میں نے عرض کی ، کہ اے میرے آقاو مولا میں آپ کی مدد سے ان مطالب میں مزید بصیرت پیدا کروں گا، اور اپنے مطلوب تک

پہنچ جاؤں گا، پس اس مقام پر میرے آقا ومولا نے اپنے دست مبارک کو میرے سینہ پر رکھا، اور ارشاد فرمایا:حْفِظ بمشیة اللّٰه وَلا تنس انشاء اللّٰه

'' مشیّت خدا کے ذریعہ حفاظت کر اور اسے ہرگز فراموش نہ کر ''

یہ سنتے ہی میں گرگیا اور مجھ پر غشی طاری ہوگئی اور جب غشی سے افاقہ ہوا تو امام نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے مفضل اپنے نفس کو کیسا پاتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے آقا ومولا کی مدد سے بے نیاز ہوگیا، اور اس کتاب (توحید مفضل) کے مطالب جو میں نے لکھے اس طرح میرے سامنے ہیں جیسا کہ کفِ دست اور میں ان سب کو پڑھ رہا ہوں، اور اپنے آقاومولا کا اس قدر شکر گزار ہوں کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔

پھر آپ نے ارشاد فرمایا: کہ اے مفضل، اپنے دل ودماغ، ذہن و عقل کو آمادہ اور اس کے سکون کی حفاظت کرو، میں بہت ہی جلد تمہارے لئے علم ملکوتِ سماوی وأرضی اور ان اشیاء کا علم کہ جنہیں

۱۷۳

خداوندمتعال نے زمین و آسمان کے درمیان خلق کیا ہے ، کہ جن میں عجائبات ، ِ ملائکہ کی خلقت صفتیں ، ان کے مراتب، سدرة المنتہیٰ، اور تمام جن وانس کے اوصاف اور جو کچھ تحت الثریٰ میں ہے، یہ سب اس مقدار میں بیان کروں گا کہ جو مقدار کل میں سے جزء کی میں تمہارے پاس بطور امانت رکھ چکا ہوں، اب اگر تم چاہو، تو جاسکتے ہو، میں اُمید رکھتا ہوں کہ تم ہمارے صحابی، محافظ، اور حامی بنو، تمہاری میرے نزدیک بہت بلند منزلت ہے اور تمہاری قدروقیمت مومنین کے دلوں میں ایسی ہے جیسے پیاس کے مقابلے میںپانی۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے تم سے وعدہ کیا اس کے بارے میں اس وقت تک مجھ سے سوال نہ کرنا جب تک میں خود اُسے تمہارے لئے بیان نہ کردوں۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں اپنے آقا ومولا کی خدمت میں سے ایسی کرامت کے ساتھ

پلٹا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔

تمّت بالخیر

سید نسیم حیدر زیدی

۱۷۴

۱۷۵

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329