ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127372 / ڈاؤنلوڈ: 4234
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

گھوڑے پر سوار ہوکر لوگوں کے درمیاں اعلان کرو کہ '' بہشت مؤمنوں کے علاوہ کسی کا حق نہیں ہے اور کہہ دو کہ لوگ نماز کیلئے جمع ہوجائیں ''

عرباض کہتا ہے :

لوگ تمام اطراف سے نماز ادا کرنے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیانات سننے کیلئے جمع ہوئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ۔ اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں سے بعض لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے گمان کررہے ہو ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں حرام قرار دی گئی چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کو حرام قرار نہیں دیا ہے؟!

ہوشیار رہو! میں نے تمہیں نصیحت کی ہے اور بعض امور کو انجام دینے اور بعض سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے یہ سب قرآن مجید کے حکم کے برابر ہیں یا اس سے بھی زیا دہ( یہ حائز اہمیت اور واجب العمل ہیں ) خدائے تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز نہیں قرار دیا ہے کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل ہوجاؤ یا ان کی عورتوں کو اذیت پہنچاؤ گے یا ان کے میوے کھا ؤگے جبکہ انہوں نے اپنے ذمہ لیا ہوا کام انجام دیا ہے۔

٤۔ '' مسند ا'' احمد حنبل میں ابو ہریرہ ١ سے نقل کرکے آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

١۔ ابوہریرہ قحطانی دوسی یہ لقب '' ابو ہریرہ ''(بلی باز ) ا س لئے پڑا تھا کہ اس کے پاس ایک پالتو بلی تھی یا یہ ایک بار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی پالتو بلی آستین میں چھپائے ہوئے تھا ، اس لئے آنحضرت نے اسے '' ابو ہریرہ ' ' خطاب فرمایا ۔ ابو ہریرہ خیبر کی جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لایا ہے ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٥٣٧٤ حدیثیں روایت کی ہیں ۔ ان احادیث کو عام اصحاب حدیث نے نقل کیا ہے '' اسد الغابہ '' ( ٣١٥٥ ) ، '' جوامع السیرہ '' ص ٢٧٥ ،'' عبدا للہ بن سبا '' (١٦٠١ طبع آفسٹ ١٣٩٣ ھ )

۲۱

میں تم میں سے ایک شخص کو نہ دیکھو ں کہ جس کے سامنے بیان کی جائے تو وہ آرام سے اپنی جگہ پر تکیہ لگائے ہوئے کہے : اس سلسلے میں مجھے قرآن مجید سے بتاؤ!!

'' سنن'' دارمی کے مقدمہ میں حسان بن ثابت انصاری ١سے روایت نقل ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جس طرح جبرئیل پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے قرآن لے کر نازل ہوئے تھے ، اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے سنت لے کر بھی نازل ہوتے تھے ۔

کَان جِبرئُیل یَنزِلُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ بالسُّنةِ ، کَمٰا یَنْزِلُ عَلَیهِ بِالقُرآن ۔

یہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبوی کے چند نمونے ہیں جن میں امت اسلامیہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی اطاعت کرنے کا حکم ہوا ہے اور ان کی نافرمانی سے منع کیا ہے ۔ جو لوگ صرف قرآن مجید سے تمسک کرکے سنت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پامال کرتے ہیں اور اس کی اعتنا نہیں کرتے پیغمبر نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی سرزنش و ملامت کی ہے۔

اس کے پیش نظر بنیادی طور پر اسلام کو سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن مجید کی آیات سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ چند مثالوں سے اس حقیقت کو واضح اور روشن کیا جاسکتا ہے:

____________________

١۔ ابو عبدا لرحمان یا ابو الولید ،حسان بن ثابت انصاری خزرجی ، یہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا شاعر اور مسجد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مناقب پڑھتا تھا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں فرمایا ہے :'' خدائے تعالیٰ حسان کی اس وقت تک روح القدس کے عنوان سے تائید کرے جب تک وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتا ہے '' حسان اپنے زمانے کا ایک ڈرپوک آدمی تھا اسی لئے اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات میں سے کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی ہے ۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماریہ کی بہن ، شیرین سے اس کا عقد کیا ، اس سے اس کا بیٹا عبدا لرحمان پیدا ہوا ۔ حسان نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صرف ایک حدیث روایت کی ہے کہ '' ترمذی'' کے علاوہ دیگر لوگو ں نے اسے نقل کیا ہے ۔ حسان ٤٠ یا ٥٠ یا ٥٤ ھ کو ١٢٠ سال کی عمر میں وفات پا ئی ، ''اسد الغابہ'' ( ٢۔ ٥۔٧) ، ''جوامع السیرہ ''(ص ٣٠٨) اور ''تقریب التہذیب ''(١ ١٦١)

۲۲

قرآن مجید میں نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ لیکن سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کئے بغیر معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ عبادت کس طرح اور کن شرائط میں انجام دی جاسکتی ہے ۔ ہم احادیث و سیرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کرکے رکعتوں اور سجدوں کی تعداد ، اذکار ، قوانین اور مبطلات نماز کے احکام سیکھ سکتے ہیں نماز کو ادا کرنے کی کیفیت اور طریقۂ کار معلوم کرسکتے ہیں ۔

حج بھی اسی طرح ہے ، ہم سنت پیغمبر کی طرف رجوع کرکے ، احرام باندھنے کی نیت، میقات کی پہچان اور ان کی تشخیص ، طواف کی کیفیت ، مشعر و منیٰ میں توقف و حرکت ، اپنے مخصوص اور محدود زمان و مکان میں رمی جمرات ، قربانی اور حلق و تقصیر کے علاوہ حج کے واجبات ، مستحبات و مکروہات اور محرمات کے بارے میں مسائل و احکام سیکھتے ہیں ۔

ان ہی دو مثالوں سے واضح طور سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کرکے مذکورہ دو فریضہ اور واجب شرعی کو انجام دینا ممکن نہیں ہے جبکہ شرع مقدس اسلام کے تمام احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔

اس لئے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اسلام کو حاصل کرنے اور احکام الٰہی کی پیروی کرنے کیلئے قرآن مجید اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی جانب ایک ساتھ رجوع کریں اور اگر ایک شخص ان دو میں سے صرف ایک کی طرف رجوع کرے اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کرے تو بیشک اس نے اپنے آپ کو اسلام کی پابندیوں سے آزاد کرکے اس کے قوانین کی من پسند تفسیر و تعبیر کی ہے کیونکہ کلید فہم و مفسر قرآن یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حذف کرنے سے انسان آزادی کے ساتھ اپنی رای اور سلیقہ سے تعبیر و سکتاہے ۔

۲۳

گزشتہ ادیان میں تحریف کا مسئلہ

ہمیں معلوم ہوا کہ صحیح اسلام کو معلوم کرنے اور قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کیلئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ جب ہم سنت کی جانب رجوع کرتے ہیں تو انتہائی افسوس کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہیں کہ تحریفات ، لفظی تغیرات ، معنی میں تاویل کرکے دوسرو ں کی سنتوں کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں شامل کرنے ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تہمتیں لگانے ، حق کو چھپانے ، افتراء باندھنے اور اسی طرح انحرافات اور تحریفات کی دوسری قسموں سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت بھری پڑی ہے پیغمبر اسلام کی سنت میں داخل ہونے والے تحریفات بالکل ویسے ہیں ہے جیسے کہ گزشتہ امتوں میں واقع ہوئی ہے اور خداوند تعالی نے قرآن مجید میں ان کی خبر دے دی ہے اور ہم یہاں پر بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں :

( وَ اِذْاَخَذَاﷲُ مِیثَاقَ الّذِینَ اُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَهُ لِلنَّاسِ وَ لٰا تَکْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرٰاء ظُهُورِهِم وَ اْشْتَرَوا بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ) ١

اس موقع کو یاد کرو جب خدا نے جن کو کتاب دی ان سے عہد لیا کہ اسے لوگوں کیلئے بیان کریں گے اور چھپائیں گے نہیں ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈالدیا اور تھوڑی قیمت پر بیچ دیا ا یا تو یہ بہت برا سودا کیا ہے۔

٢۔(فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیْثَاقَهُمْ لَعَنَّا هُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوبُهُمْ قَاسِیةً یُحَرِّفُونَ

____________________

١۔ آل عمران ١٨٧

۲۴

الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ نَسُوا حَظّاًمِمَّا ذُکِّرُوا بِهِ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَائِنَةٍ مِنْهُم ِلَّا قَلِیلاً مِنْهُمْ) (۱)

پھر ان کی عہد شکنی کی بناء پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا ۔ وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یا ددہانی کا اکثر حصہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں سے ہمیشہ مطلع ہوتے رہو گے علاوہ چندافراد کے۔

٣۔(یَا اَهْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُونَ الحَقَّ وَ اَنْتمُ تَعْلَمُونَ ) ٢

اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل سے مشتبہ کرتے ہو او رجانتے ہوئے حق کی پردہ پوشی کرتے ہو۔

٤۔( یَا اَهْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رُسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیراً مِمَّا کُنْتُم تُخْفُونَ مِنَ الکِتَابِ وَ یَعْفُو عَن کَثِیرٍ) ٣

اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو ان میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کررہا ہے ، جن کو تم کتاب خدا میں سے چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر بھی کرتا ہے

____________________

١۔ مائدہ ١٣

٢۔آل عمران ٧١

٣۔مائدہ ١٥

۲۵

٥۔( وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُموا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ١

حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو۔

٦۔( اَلَّذِینَ آَتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَماَ یَعْرِفُونَ اَبْنَائَهُمْ وَ اِنَّ فَرِیقاً مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقّ وَ هُمْ یَعْلَمُونَ) ٢

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ رسول کو بھی اپنی اولاد ہی کی طرح پہچانتے ہیں بس ان کا ایک گروہ ہے جو حق کو دیدہ و دانستہ چھپا رہا ہے۔

٧۔( اَفَتَطْمَعُونَ اَنْ یُوْمِنُوا لَکمُ وَ قَدْ کَانَ فَرِیق مِنْهُمْ یَسْمَعُونَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ یُحَرِفُونه مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوه وَ هُمْ یَعْلَمُونَ ) ٣

مسلمانو! کیا تمہیں امید ہے کہ یہ یہودی ایمان لائیں گے جبکہ ان کے اسلاف کا ایک گروہ کلام خدا کو سنکرتحریف کریتا تھا حالانکہ وہ سب سمجھتے بھی تھے اور جانتے بھی تھے۔

٨۔(مِنَ الَّذِینَ هَادُوا یُحَرِِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ یَقُوْلُونَ سَمِعْنَا و عَصَیْنَا ) ٤

یہودیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو کلمات الہیہ کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بات سنی اور نافرمانی کی۔

____________________

١۔بقرہ ٤٢

٢۔بقرہ ١٤٦

٣۔ بقرہ ٤٥

٤۔ نساء ٤٦

۲۶

٩۔( وَ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَْتُوکَ یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِه یَقُولُونَ اِنْ اُوْتِیتُم هٰذَا فَخُذُوه وَ اِنْ لَمْ تُوْتَوْهُ فَاحذرُوا ) ١

اور یہودیوں میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو جھوٹی باتیں سنتے ہیں اور دوسری قوم والے جو آپ کے پاس حاضر نہیں ہوئے انھیں سناتے ہیں ۔ یہ لوگ کلمات کو ان اکی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر کی طرف سے یہی دیا جائے تو لے لینا اور اگر یہ نہ دیا جائے تو پرہیز کرنا ۔

١٠۔(اِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اَنْزَ لَ اﷲُ مِنَ الْکِتَابِ وَ یَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً اُولٰئِکَ مَا یَْ کُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ اِلاَّا لنَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُهُمُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ لَا یُزَکِّیْهِمْ وَ لَهُمْ عَذَاب اَلِیم ) ٢

لو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ ہی انھیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔

١١۔( اِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا َنْزَلْنَا مِنَ البَیِّنَاتِ وَ الْهُدیٰ مِنْ بَعْدِ مَا

____________________

١۔ بقرہ ١٧٤

٢۔بقرہ ١٥٩

۲۷

بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُهُُمُ اﷲُ و َیلْعَنُهمُ اللاَعِنُونَ )

جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں ۔

یہ نمونے کے طور پر چند آیتیں تھیں کہ جن میں خدائے تعالیٰ گزشتہ امتوں کے ذریعہ سے حقائق کی تحریف اور حقیقتوں کے چھپانے کی خبر دیتا ہے۔

سنت میں تحریف کی خبر اور اسلاف کی تقلید

ہم ذیل میں چند ایسی احادیث درج کرتے ہیں ، جن میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کی خبر دی ہے کہ کس طرح یہ امت اپنی تمام رفتار و کردار میں گزشتہ امتوں کی تقلید کرے گی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واضح فرماتے ہیں کہ امت اسلامیہ گزشتہ امتوں کے کاموں پر قدم بہ قدم عمل کرے گی:

١۔ شیخ صدو ق اعلی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب '' اکمال'' میں حضرت امام جعفر صادق اور آپ کے آباو اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کل ما کان فی الامم السالفة فانه یکون فی هٰذه الا مة مثله ، خذو النعل بالنعل و القذة بالذة''

جو کچھ گزشتہ امتوں میں واقع ہوا ہے اسی کے مانند اس امت میں بھی واقع ہوگا، جوتوں کے جوڑوں اور تیر کے پروں کے مانند۔ ١

____________________

١۔ اس حدیث کے اہل بیت میں سے راویوں کا سلسلہ یوں ہے : امام صادق (ت ١٤٨ ھ ) نے اپنے والد گرامی محمد باقر (ت ١١٤ھ) سے، انہوں نے اپنے والد امام زین العابدین ( ت ٩٥ھ ) سے انہوں نے اپنے والد امام حسین شہید ، نواسہ رسول خدا ( ت ٦١ ھ) سے انہوں نے اپنے والد امام علی بن ابیطالت ( ت ٤٠ ھ) سے اور انہوں نے اپنے چچازاد بھائی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین ) سے روایت کی ہے۔

۲۸

ابن رستہ کتاب '' الاعلاق النفسیہ'' ص ٢٣ پر لکھتے ہیں : کرۂ زمین پر جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابیطالب ( رضہم) کے علاوہ کوئی بھی ایسے پانچ افراد نہیں ملتے جنہوں نے سلسلسہ وار حدیث نقل کی ہو۔

شیخ صدوق نے مزید اپنی کتاب '' اکمال'' میں حضرت امام صادق اور آپ کے آباء و اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''والذی بعثنی بالحق نبیا و بشیرا لترکبنّ امتی سنن من کا ن قبلها حذو النعل بالنعل ، حتی لو ان حیة من بنی اسرائیل دخلت فی جحرٍ لدخلت فی هٰذه الامة حیّة مثلها ''

قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبی اور بشارت دینے والے کی حیثیت سے بر حق مبعوث فرمایا ہے ، میری امت کسی تفاوت کے بغیر اپنے اسلاف کی راہ کو انتخاب کرے گی ، اس طرح کہ اگر بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک سانپ کسی بِل میں داخل ہوا ہوگا تو اس امت میں بھی ایک سانپ اسی بل میں داخل ہوگا ۔

٢۔ابن حجر نے اپنی کتاب '' فتح الباری '' میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فرمائشات کو یوں بیان فرمایا ہے:

شافعی ١ نے اسی صحیح سند کے ساتھ عبد اللہ عمرو ٢سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

____________________

١۔ابو عبدا للہ ، محمد بن ادریس بن عباس شافعی مطلبّی : ان کی ماں کے ہاشمی ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے اس لئے بعض نے ان کے بارے میں کہا ہے: ہم نے ہاشم کی اولاد میں سے ہر گز کسی کو نہیں دیکھا کہ ابوبکر ، و عمر کو علی پرترجیح دی ہو ، جیسا کہ '' طبقات شافعیہ '' میں آیا ہے کہ ان کو اس لئے ہاشم سے نسبت دی گئی ہے کہ وہ ہاشم کے بھائی کی اولاد میں سے تھے ۔ شافعی ٢٠٤ ھ میں ٥٤ سال کی عمر میں مصرمیں فوت ہوا '' تقریب التہذیب'' (٢ ١٤٣)

٢۔ عبد اللہ بن عمرو عاص اپنے باپ سے ١٢ سال چھوٹا تھا ۔ باپ سے پہلے اسلام لایا تھا ۔ اسلاف کی کتابیں پڑھ چکا تھا ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٧٠٠ احادیث روایت کی ہیں ۔ عبدا للہ نے اپنے باپ کے ہمراہ صفین کی جنگ میں معاویہ کی حمایت میں شرکت کی لیکن بعد میں نادم ہوکر کہتا تھا : کاش اس سے بیس سال پہلے مرچکا ہوتا۔ اس کی موت کے بارے سال اور مکان میں اختلاف ہے ۔ کیا ٦٣ھ یا ٦٥ ھ میں مصر میں یا ٦٧ ھ میں مکہ میں اور یا ٥٥ ھ میں طائف میں یا ٦٨ ھ میں فوت ہوا ہے ۔ عبدا ﷲ کی زندگی کے حالات '' اسد الغابہ'' ٣ ٢٣٣۔ ٢٣٥) اور '' جوامع السیرہ '' ابن حزم ص ٢٨٦ میں ملاحظہ ہو۔

۲۹

'' لترکبن سنن من کان قبلکم حلوها و مرّها''

تم لوگ اپنے اسلاف کی تلخ و شیرین ( بری اور بھلی) روش کو اپناؤ گے ۔

٣۔ احمد بن حنبل نے اپنی کتاب '' ُسند '' میں اور مسلم و بخاری نے اپنی '' صحیح '' میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ابو سعید خدری ١سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''لتتبعن سنن من کان قبلکم شِبراً بشبرٍ و ذراعاً ذراعاً حتی لو دخلوا حجر ضبِّ تبعتموهم '' ۔ ٢

اپنے اسلاف کی رفتار کو تم لوگ قدم بہ قدم اور موبمو اپناؤ گے ، حتی اگر وہ کسی چھپکلی کے بِل میں بھی گئے ہوگے تو تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے۔

ہم نے سوال کیا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا : پھر کون ؟!

یہ حدیث ایک اور روایت کے مطابق '' مسند'' احمد میں یوں درج ہوئی ہے :

____________________

١۔ ابو سعید ، سعید بن مالک بن سنان انصاری خندق کی جنگ میں تیرہ سالہ تھا ۔ اس کے باپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور لاکر کہا : یہ نوجوان قوی ہیکل ہے ۔ لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے قبول نہیں کیا اور اجازت نہ دی تا کہ وہ جنگ میں شرکت کرے ۔ ابو سعید خدری نے جنگ بنی المصطلق میں شرکت کی ہے وہ مکثرین حدیث میں شمار ہوتا ہے اس نے تقریباً ١١٧٠ حدیثیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہیں صحاح کے مؤلفین نے اس کی تمام احادیث کو نقل کیا ہے ۔ ابو سعید نے ٧٤ ھ میں وفات پائی ہے۔ '' اسد الغابہ'' و ' جوامع السیرہ'' میں اس کی زندگی کے حالات بیان کئے گئے ہیں ۔

ابوسعید خدری کی حدیث میں جسے بخاری نے اس سے ایک اور روایت میں نقل کیا ہے کہ '' لو دخلوا'' کے بجائے'' لو سلکوا جحر ضبِّ لسلکتموہ'' آیا ہے جس کا تقریباً وہی مفہوم ہے۔

٢۔ شِبر =بالشت ، ذراع = کہنی سے درمیانی انگلی کی انتہا تک کا فاصلہ ، باع = دو ہاتھوں کے درمیان کا وہ فاصلہ دونوں ہاتھ اٹھا کر شانوں کے برابر کھینچ لئے جائیں ۔

۳۰

لتتّبعن سنن بنی اسرائیل ، حتی لو دخل رجل من بنی اسرائیل جحر ضبٍّ لتبعتموه ۔

تم لوگ بنی اسرائیل کی روش اپناؤ گے اس طرح کہ اگر بنی ا سرائیل میں کوئی شخص سوسمار کے بل میں داخل ہوا ہوگا تو تم بھی اس کی پیروی میں جاؤ گے۔

٤۔ ابن ماجہ نے اپنی '' سنن'' میں ، احمد نے اپنی '' مسند '' میں ، متقی نے '' کنزل العمال'' میں اور بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لا تقوم الساعة حتّٰی تخذ امتی بخذِ القرون قبلها شبراً بشبرٍ و ذراعاً بذراعٍ ۔

تب تک قیامت برپا نہیں ہوگی ، جب تک کہ میری امت گزشتہ امتوں کی روش پر مو بمو پیروی نح کر لے گی ۔ سوال کیا گیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کیا مجوسیوں اور رومیوں کی طرح؟ فرمایا: ان کے علاوہ ، اور کون لوگ ہیں ؟!

اسی مطلب کو '' مسند'' احمد میں یوں بیان کیا گیا ہے :

وَ الّذی نفسی بیده لتتبعنَّ سنن الذین من قبلکم شبراً بشبر و ذراعاً بزراعٍ و باعاً فباعاً حتی لو دخلوا جحر ضبّ لدخلتموه

قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ اپنے اسلاف کی روش پر مو بمو اور قدم بہ قدم پیروی کرو گے، حتی اگر وہ چھپکلی کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں داخل گے۔ پوچھاگیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کن کے بارے میں ، کیا اہل کتاب کے بارے میں فرما رہے ہیں ؟

۳۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

پھر کون لوگ؟!

٥۔ طیالسی اور احمد نے اپنی '' مسندوں '' میں ، متقی ہندی نے '' کنزل العمال ''' میں اور ترمذی نے اپنی '' صحیح'' میں ابو واقدلیثی (۱)سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

والذی نفسی بیده لترکبن سنة من کان قبلکم

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم لوگ اپنے اسلاف کی روش کی پیروی کروگے۔

یہی حدیث '' مسند'' احمد میں یوں آئی ہے۔

لترکبن سنن من کان قبلکم سنّة سنّة

تم لوگ روش روش پر اپنے اسلاف کی تقلید کرو گے۔

٦۔ حاکم نے پر اپنی '' مستدرک بر صحیحین'' میں اور ''مجمع الزوائد'' میں '' بزاز'' سے نقل کرکے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لترکبن سنن من کان قبلکم شبراً بشبرٍ و زراعاً بزراع و باعاً بباع حتی لو ان احدهم دخل حجر ضبّ لدخلتم ۔

تم لوگ موبمو اور قدم بہ قدم اپنی اسلاف کی روش پر چلو گے حتی اگر ان میں سے کوئی

____________________

١۔ابو واقد لیثی بنی لیث بن بکر سے ہے ۔ اس کے نام اور اسلام لانے کی تاریخ میں اختلاف ہے کہ کیآیا س نے جنگ بدر میں شرکت کی ہے یا فتح مکہ میں یا ان میں سے کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی ہے اور بعد میں اسلام لایا ہے ابو واقد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٢٤ حدیثیں روایت کی ہیں جسے بخاری نے ادب المفرد میں درج کیا ہے۔ ابو واقد نے مکہ میں رہائش اختیار کی اور ٦٨ھ میں ٧٥ یا ٨٥ سال کی عمر میں وہیں پر فوت ہوا اس کی زندگی کے حالات '' اسد الغابہ'' ( ٥ ٣١٩) و '' جوامع السیرہ'' ص ٢٨٢ میں مطالعہ فرمائیں ۔

۳۲

چھپکلی کے بلِ میں گھس گیا ہوگا تو تم لوگ بھی اس میں گھس جاؤ گے۔

٧۔ ترمذی نے اپنی '' صحیح'' میں اور حاکم نے اپنی '' مستدرک '' میں سیوطی کی تفسیر کے پیش نظر بیان کیا ہے کہ عبدا للہ عمرو نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لیاتین علیٰ امتی ما اَتیٰ علیٰ بنی اسرائیل ، حذو النعل بالنعل ، حتی ان کان فی بنی اسرائیل من اتٰی امه علانیة لکان فی امتی من فعل ذالک

جو کچھ بنی اسرائیل پر گزری ہے بالکل ویسے ہی میری امت پر بھی گزرے گی ، حتی اگر بنی اسرائیل میں کسی نے اپنی ماں سے علانیہ طور پر ہمبستری کی ہوگی تو میری امت میں ایسا شخص پیدا ہوگا جو اس کام کو انجام دے گا!

٨۔ '' مجمع الزوائد'' میں بزاز کی '' مسند'' سے اور متقی نے حاکم کی ''مستدرک '' سے نقل کرکے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لترکبن سنن من کان قبلکم شبراً بشبر و ذراعاً بذراع و باعاً بباعٍ ، حتی لو ان احدهم دخل حجر ضب لدخلتم حتی لو ان احدهم جامع امه لفعلتم!

تم لوگ موبمو اور قدم بقدم اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلو گے حتی اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بلِ میں گھس گیا ہو گاتو تم لوگ بھی ویسا ہی کرو گے بلکہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے مباشرت کی ہوگی تو تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے۔

۳۳

٩۔ احمد بن حنبل نے اپنی '' مسند'' میں '' مجمع الزوائد'' کے مصنف نے '' سہل بن سعد انصاری'' ١ سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

والذی نفسی بیده لترکبن سنن من کان قبلکم مثلاً به مثل

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر موبمو چلو گے!

جیسا کہ '' مجمع الزوائد'' کے مطابق طبرانی نے مذکورہ حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے ضمن میں فرمایا:

حتی لو دخلوا جحر ضبٍّ لاتبعتموه ۔

ہم نے سوال کیا :

اے رسول خدا ! کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا:

ان یہود و نصاریٰ کے علاوہ اور کون ہو سکتے ہیں ؟!

____________________

١۔سہل بن سعد بن مالک انصاری : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے دن سہل کی عمر پندرہ سال تھی ۔ سہل نے حجاج بن یوسف کے زمانہ کو بھی درک کیا ہے ، حجاج نے سہل کے عثمان کی مدد کرنے کے جرم میں حکم دیا تھا کہ اس کی گردن پر غلامی کی مہر لگادی جائے۔

سہل نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ١٨٨ حدیثیں روایت کی ہیں کہ اصحاب صحاح نے ان سب کو درج کیا ہے سہل نے ٨٨ ھ یا ٩١ ھ میں وفات پائی ہے ۔ کہتے ہیں کہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آخری صحابی تھا جس نے وفات پائی۔ '' اسد الغابہ'' ( ٢ ٣٦٦) ، '' جوامع السیر'' ٢٧٧ ، '' تقریب التہذیب '' (١ ٣٣٦)

۳۴

١٠۔ '' مجمع الزوائد'' میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا گیا ہے کہ '' عبداللہ مسعود'' ١ نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

انتم اشبه الامم بننی اسرائیل ، لترکبن طریقهم حذو القذة با لقذة حتی لا یکون فیهم شیء الا فیکم مثله

تم بنی اسرائیل سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والی امت ہو ۔ تم لوگ ان کے راستہ پر اس طرح چلو گے جیسے تیر کے پیچھے اس کے پر حتی ان میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جائے گی جو تم لوگوں میں موجود نہ ہو!

١١۔ '' مجمع الزوائد '' میں طبرانی کی '' اوسط '' اور '' کنز ل العمال 'سے نقل کرکے '' مستورد بن شداد '' ۲ سے

____________________

١۔ابو عبدا لرحمن ، عبدا للہ بن مسعود بن غا فل ہذلی قبیلۂ قریش میں سے ہیں جو پہلے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جن دنوں مکہ میں اظہار اسلام کرنے پر سختیوں وا ذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، ابن مسعود پہلے مسلمان تھے جو مکہ میں بلند آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ ابن مسعود نے پہلے حبشہ پھر مدینہ ہجرت کی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ، ابن مسعود سے ٨٤٨ حدیثیں روایت ہوئی ہیں تمام حدیث لکھنے والوں نے انھیں نقل کیا ہے ، عمر نے ابن مسعود کو کوفہ میں دینی امورکے معلم اور بیت المال میں حکومت کا امین و کلید دار معین کیا تھا ۔ ابن مسعود حکومت عثمان تک اس عہدہ پر برقرار تھے،کوفہ کا گورنر ولید بن عقبہ ، ابن مسعود کے اسلامی احکام کے نفاذ میں دقت خاص کر بیت المال اور حکومتی خزانہ کے امور میں ان کی دقت سے تنگ آچکا تھا .۔ لہذا اس نے خلیفہ عثمان کے پاس ان کی شکایت کی اور عثمان نے بھی اپنے بھانجے کی خواہش کے مطابق ابن مسعود کو مدینہ بلایا اور حکم دیا کہ ان کی پٹائی کی جائے اور سخت پٹائی کی گئی جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اس کے بعد حکم دیا کہ ان کی تنخواہ بند کردی جائے ، ابن مسعود اسی جسمانی اذیت کی وجہ سے بیمار ہوئے اور قریب مرگ پہنچے ۔ اس حالت میں عثمان ان کے سراہنے پر آئے اور حکم دیا کہ دو سال کے بعد دوبارہ انہیں تنخواہ دی جائے لیکن ابن مسعود نے قبول نہیں کیا۔ ابن مسعود نے ٣٢ھ میں وفات پا ئی اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ عثمان ان کے جنازہ پر حاضر نہ ہوجائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھے اور اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔ '' اسد الغابہ'' ( ٣ ٢٥٦۔ ٢٥٨)، '' جوامع السیرہ'' ص ٢٧٦ '' تقریب التہذیب '' ( ١ ٤٥٠)، تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار ( ١ ١٦٠ ۔١٦٧)

٢۔مستور دبن شداد بن عمرو قرشی فہری : اس کی ماں دعد بنتِ زین بن جابر بن حسل ہے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت نوجوان تھا ۔ مستورد نے سات حدیثیں روایت کی ہیں ۔ اس کی تمام احادیث کو حدیث لکھنے والوں نے نقل کیا ہے ، مستورد نے کوفہ اور مصر میں سکونت کی ہے اور ٤٥ ھ میں وفات پائی ہے '' اسد الغابہ'' ( ٤ ٣٥٤) ، '' مجمع الزوائد'' ص ٢٨٧ اور ' ' تقریب التہذیب '' ( ٢ ٢٤٢)

۳۵

روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ۔

لا تترک هٰذه الامة شیئاً من سنن الاولین حتیٰ تاتیه

گزشتہ قوموں کی کوئی روش باقی نہیں رہے گی مگر یہ کہ یہ امت اسے انجام دے ۔

١٢۔ احمدبن حنبل نے اپنی '' مسند'' میں اور '' مجمع الزوائد'' نے طبرانی سے نقل کرکے شداد بن اوس ١ سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لیحملن شرار هذه الامة علی سنن الذین خلوا من قبلهم اهل الکتاب حذو القذة بالقذة ''

اس امت کے بر ے لوگ اپنے سے پہلے اہل کتاب کی روش کی موبمو پیروی کریں گے۔

یہی حدیث شداد بن اوس کے حالات کی تشریح میں ابن اثیر کی کتاب '' اسد الغابہ'' میں '' اپنے سے پہلے '' کی جگہ '' آپ لوگوں سے پہلے'' کی تبدیلی کے ساتھ درج ہوئی ہے۔

____________________

١۔ شداد بن اوس ، حسان بن ثابت انصاری خزرجی کا بھتیجا ہے ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ١٥٠ حدیثیں روایت کی ہیں کہ تمام حدیث لکھنے والوں نے انھیں نقل کیا ہے ۔ شدا د نے بیت المقدس میں رہائش اختیار کی اور ٤١ یا ٥٨ یا ٦٤ ھ میں شام میں وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ'' ( ٢ ٢٨٧۔ ٢٨٥ ) ، جوامع السیرہ ص ٢٧٩ ، '' تقریب التہذیب '' ( ١ ٣٤٧)

۳۶

آسمانی کتابوں میں گزشتہ امتوں کی تحریفیں :

گزشتہ بحث میں ہمیں معلوم ہوا کہ گذشتہ امتوں میں واقع ہونے والی تحریفوں کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے خبر دیدی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی خبر دی ہے کہ یہ امت گزشتہ امتوں کی تمام روشوں پر موبمو عمل کرکے ان کی پیروی کرے گی۔

اب اگرہم اس امت میں واقع ہوئی تحریفات کا گزشتہ امتوں میں واقع ہوئی تحریفات سے موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ امتوں نے ان تحریفات کو آسمانی کتابوں میں انجام دیا ہے اور خدائے تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو یوں یاد فرمایا ہے:

(قُل مَنْ اَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَائَ بِهِ مُوسیٰ نُوراً وَ هُدیً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِیسَ تُبْدُونَهَا وَ تُخْفُونَ کَثیراً ) ١

ان سے پوچھئے کہ جو کتاب موسٰی لے کر آئے تھے وہ نور اور لوگوں کیلئے ہدایت تھی اسے تم لوگ کچھ ظاہر کرکے اور اکثر چھپا کر ایک کتاب قرار دے رہے ہو ، بتاؤ اسے کس نے نازل کیا ہے

یا فرمایا ہے:

وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیقاً یَلُونَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالکِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْکِتَابِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْکِتَابِ وَ یَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اﷲِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ

____________________

١۔انعام ٩١

۳۷

یُقُولُون عَلَی اﷲِ الکَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُونَ ا

انہیں یہودیوں میں سے بعض وہ ہیں جو کتاب پڑھنے میں زبان کو توڑ موڑ دیتے ہیں تا کہ تم لوگ اس تحریف کو بھی اصل کتاب سمجھنے لگو ،حالانکہ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ اللہ کی طرف سے ہر گز نہیں ہے یہ خدا کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں ۔

یا یوں فرماتا ہے :

(فَوَیل لِلَّذِینَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ هٰذا مِنْ عِنْدِ اللهِ لِیَشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَوَیل لَهمُ مِمَّاکَتَبَتْ اَیْدیْهِمْ وَ وَیْل لَهُم مِمَّا یَکْسِبُونَ ) ٢

واے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تا کہ اسے تھوڑے دام میں بیچ لیں ان کیلئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے اور اس کی کمائی پر بھی ۔

ہم خدا ئے تعالیٰ کی آیات کے مصداق کو ان کی موجودہ رائج کتابوں میں واضح اور روشن طور پر دیکھتے ہیں ، جیسا کہ تورات کے تکوینی سفر کے تیسرے باب میں آدم کی تخلیق کے بارے میں یوں پڑھتے ہیں ۔

خدائے تعالیٰ نے آدم سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: خیر و شر کی معرفت والے درخت

____________________

١۔آل عمران ٧٨

٢۔بقرہ ٧٩

۳۸

سے کچھ نہ کھانا ، اگر کسی دن اس سے کھایا تو مرجاؤ گے ، سانپ، جو خشکی کے حیوانوں میں مکار ترین حیوان ہے ، نے ''حوا '' سے کہا: اگر آپ لوگ اس درخت سے کھائیں گے تو مرے گیں نہیں ، بلکہ خدا جانتا ہے جس دن اس سے کھائیں گے آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی اور خداکے مانند خیر و شر سے واقف ہو جائیں گے ۔ آدم اور حوا نے اس درخت سے کھایا ' آنکھیں کھل گئیں تو انہوں نے اپنے آپ کو برہنہ پایا اور خدا کی آواز اس وقت سنی جب نسیم صبح کے وقت بہشت میں رہا تھا لہذا انہوں نے اپنے آپ کو اس سے چھپا یا ۔ خدائے تعالیٰ نے بلند آواز میں آدم سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم کہاں ہو؟ آدم نے کہا : تیری آواز کو میں نے بہشت میں سنا لیکن چونکہ میں عریاں تھا ، ڈر گیا ، اس لئے خود کو چھپا لیا ۔ خدا نے کہا : کس نے تمہیں اس امر سے آگاہ کیا کہ تم برہنہ ہو؟ کیا تم نے اس درخت سے کھایا جسے میں نے منع کیا تھا ؟! آدم نے اپنی داستان خدا کوسنائی، تو خدا نے کہا اب جبکہ آدم بھی ہماری طرح خیر و شر سے آگاہ ہو گئے ہیں لہذا بعید نہیں کہ اپنے ہاتھ کو بڑھا کر درختِ حیات سے بھی کھالیں اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں ۔ لہذا انسان کو نکال باہر کیا اوربہشت کے مشرقی حصہ میں کروبیوں کو بسایا.. اور درخت حیات کی نگہبانی کے لئے ایک چمکتی ہوئی تیز دھار تلوار معین فرمائی!!

توریت نے بہشت میں آدم کی داستان کو اس طرح بیان کیا ہے جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ شیطان تھا جس نے ان دونوں کو اس ممنوعہ درخت سے کھانے پر اکسایا ۔ قرآن مجید کا بیان یوں ہے۔

(وَ قَاسَمَهُمَا اِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِینَ فَدَلِّا هُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجََرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوَآتُهُما وَ طَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیهِمَا مِنْ وَرَقِ الجَنَّةِ وَ نَادَاهُمَا رَ بُّهُمَا اَلَمْ اَنْهَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَکُمَا اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوّ مُبِین) (اعراف ٢١' ٢٢)

اور (شیطان نے) دونوں سے قسم کھائی کہ میں تمہیں نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں ، پھر انھیں دھوکہ کے ذریعہ درخت کی طرف جھکا دیا اور جیسے ہی ان دونوں نے چکھا ، شرم گاہیں کھل گئیں اور انہوں نے درختوں کے پتے جوڑ کر شرم گاہوں کو چھپانا شروع کردیا تو ان کے رب نے آواز دی کہ کیا ہم نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور کیا میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟

۳۹

ہم نے توریت میں ذکر ہوئی آدم کی داستان کا قرآن مجید میں ذکر ہوئی اسی داستان سے موازنہ کیا اور دیکھا کہ توریت میں کس طرح حقیقت تحریف ہوکر خرافات میں تبدیل ہوئی ہے ۔

توریت کا مطالعہ جاری رکھتے ہوئے ہم اس کے سفرِ تکوینی کے انیسویں باب میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوط بنی کی بیٹیاں رات میں اپنے باپ کو مست کرکے ان کے ساتھ ہمبستری کرتی ہیں اور حاملہ ہوتی ہیں ۔ اس داستان کو توریت میں یوں پڑھتے ہیں :لوط کی بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوگئیں ان کی بڑی بیٹی نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام '' مو آب'' رکھا کہ جس سے قبیلۂ ماآبی کی نسل چلی ہے' چھوٹی بیٹی نے بھی ایک بیٹے کوجنم دیا جس کا نام '' بنی عمی'' رکھا جس سے بنی عمون کی نسل آج تک باقی ہے!!

جب ہم اس مطالعہ کے دوران اس کے تکوینی سفر کے تینتیسویں باب پر پہنچتے ہیں تو پڑھتے ہیں یعقوب پیغمبر ابتدائے شب سے صبح تک ایک قوی پہلوان سے کشتی لڑتے رہے سر انجام ان کا حریف انہیں اسرائیل کا لقب دیتا ہے یہ داستان توریت میں یوں آئی ہے:

یعقوب کا حریف جب دیکھتا ہے کہ وہ یعقوب کو مغلوب نہیں کرسکتا تو یعقوب کی ران پر ہاتھ مار کر زور سے دباتا ہے اور کہتا ہے : مجھے چھوڑدو ، پوپھٹنے کو ہے؟! یعقوب جواب میں کہتے ہیں :

جب تک مجھے مبارکباد نہ دو گے تمہیں نہیں چھوڑوں گا وہ پوچھتا ہے : تمہارانام کیا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں : یعقوب

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سر انجام جریر نے کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ٥٠ ھ کے بعد وفات پائی ۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف اپنے خلق کردہ صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کا ہم نام بتاتا ہے ۔ اس نے اسی شیوہ سے اپنے جعلی اصحاب کو ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ابودجانہ دو حقیقی اصحاب کے ہم نام کیا ہے ۔ اس کے بعد جریر بجلی کی بعض سرگرمیوں کو اپنے جعلی صحابی جریر حمیری سے نسبت دیتا ہے ۔

اس سلسلے میں ہم بلاذری کی کتاب '' فتوح البلدان '' کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' جریر بجلی'' وہی شخص ہے جس نے بانقیا کے باشندوں کے نما ئندہ '' بصبہری'' سے ایک ہزار درہم اور طیلسانی ١ وصول کرنے کی بنیاد پر صلح کرکے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے ۔

جیسا کہ کہتا ہے :

خالد نے اس بنا پر ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور جنگ نخیلہ کے بعد جریر بجلی وہاں گیا اور ان سے معاہدہ کی مقررہ رقم وصول کی انھیں اس کی رسید دی۔

اسی طرح بلاذری کہتا ہے :

'' بانقیاد '' سے واپس آنے کے بعد ، خالد بن ولید '' فلالیج'' کی طرف روانہ ہوا چونکہ ایرانیوں کا ایک گروہ وہاں پر جمع ہو کرجنگ کا نقشہ کھینچ رہا تھا خالد کے فلالیج میں داخل ہونے کے بعد ایرانی فوری طور پر متفرق ہوئے اور ان کے منصوبے نقش بر آب ہوگئے۔

____________________

١۔ایک قسم کے سبز رنگ کا اورکوٹ ہے جسے خاص طور سے ایران کی بزرگ شخصیتیں اور علماء پہنتے تھے۔

۱۴۱

بلاذری ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

خلافت عمر کے زمانے میں جریر بن عبد اﷲ بجلی نے ''' انبار'' کے باشندوں کے ساتھ ان کی سرزمینوں کی حدود کے بارے میں سالانہ چار لاکھ درہم اور ایک ہزار '' قطوانیہ''١ عبا ؤں کے مقابلے میں معاہدہ کیا ہے۔

بلاذری جیسے دانشور کے لکھنے کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر نے '' جریر بن عبد اللہ ''جیسے صحابی کے بانقیا کی صلح ، جزیہ کا وصول کرناور رسید دینے کے جیسے کارناموں کو اپنے جعلی صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' سے نسبت دی ہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے جس نے '' مصیخ بنی البرشاء '' کی جنگ کے افسانہ کو اس آب و تاب کے ساتھ خلق کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''' فتوح '' میں درج کیا ہے جسے طبری اور طبری کی پیروی کرنے والوں نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور ہم نے اس کی تفصیلات اسی کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے بے مثال سورما ''قعقاع بن عمر و تمیمی'' کی زندگی کے حالات میں بیان کی ہیں ۔

اسی طرح سیف تنہا شخص ہے جس نے ان دو بھائیوں کے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی مقرر ہونے کی بات کی ہے۔

اور یہی دوسری صدی ہجری کا تنہا افسانہ ساز ہے جس نے خیمے نصب کرنے اور سپہ سالار اعظم

''نعمان بن مقرن '' کیلئے خصوصی خیمہ نصب کرنے کی داستانیں گڑھی ہیں ۔

____________________

١۔ قطوانیہ قطوان سے منسوب اسی علاقہ میں ایک جگہ تھی جو ایسا لگتا ہے کہ شہر کوفہ کی بنیاد پڑنے کے بعد وجود میں آئی ہے ، معجم البلدان میں کوفہ کے ملحقات میں شمار کیا گیا ہے ۔

۱۴۲

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے ، اقرع بن عبد اللہ اور اس کے بھائی جریر بن عبد اللہ حمیری کو خلق کرکے بعض کارنامے اور تاریخی داستانیں ان سے منسوب کی ہیں ۔

امام المؤرخین طبری نے مذکورہ داستانوں کو سیف سے نقل کرکے ١٢ ھ سے ٢١ ھ تک کے حوادث کے ضمن میں حقیقی اور ناقابل انکار مآخذ کے طور پر اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن عبد البر ، کتاب '' استیعاب '' کا مصنف ، سیف کی تالیفات پر اعتماد کرکے مذکورہ افسانوں کو صحیح سمجھتے ہوئے اقرع بن عبد اللہ حمیری کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

اقرع کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایلچی کے طور پر '' ذی مران '' اور یمن کے سرداروں کے ایک گروہ کے پاس بھیجا تھا ۔

معروف عالم اور کتاب '' اسد الغابہ '' کے مصنف ابن اثیراور کتاب '' اصابہ '' کے مؤلف ابن حجر نے اسی خبر کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر مذکورہ خبر کو '' استیعاب '' سے نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

اس خبر کو سیف بن عمر نے اپنی کتاب ' ' فتوح '' میں ضحاک بن یربوع سے اس نے اپنے باپ یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔

اس طرح ابن حجر ، ابن عبد البر کے اپنی کتاب '' استیعاب'' میں لائے گئیمآخذ سے پرہیز کرکے وضاحب سے کہتا ہے کہ وہی سیف کی کتاب '' فتوح '' ہے

۱۴۳

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ روایت ۔۔ اقرع کی یمن میں مموریت کے بارے میں ابن عبد البر کی روایتسے الگ ہے جسے ہم نے طبری سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی مموریت کے بارے میں اس حصہ کہ ابتدا ء میں ذکر کیا ہے ۔

سیف نے اس روایت کو گڑھ کر ، اپنی پہلی روایت کی تائید کی ہے ۔ یہ اس کی عادت ہے کہ اپنی جعل کردہ چیزوں کو متعدد روایتوں میں منعکس کرتا ہے ۔ تا کہ اس طرح اس کی روایتیں ایک دوسرے کی مؤید ہوں اور اس کا جھوٹ سچ دکھائی دے ۔

اس کے بعد ابن حجر طبری کی روایت کو سیف سے نقل کرکے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی خلافت ابوبکر میں اپنی ممور یتوں سے واپس مدینہ آنے کے واقعات کو' جنہیں ہم نے گزشتہ صفحات میں درج کیا ہے ۔۔ کو اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

مذکورہ علماء نے '' اقرع بن عبد اللہ حمیری'' کے بارے میں حالات لکھ کر اورسیف کی باتوں اور روایتوں پر اس قدر اعتماد کرکے اپنی گراں قدر کتابوں کو اس قسم کے افسانوں سے آلودہ کیا ہے ۔

یہ امر اقرع کے خیالی بھائی '' جریر بن عبد اﷲحمیری'' کے بارے میں لکھے گئے حالات پر بھی صادق آتا ہے ۔ کیونکہ ابن اثیر '' جریر '' کے حالت کی تشریح میں لکھتا ہے :

وہ ۔۔ جریر بن عبد اللہ حمیری۔۔ یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ۔ جریر نے عراق اور شام کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں سرگرم حصہ لیا ہے ۔ اس نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید خلفیہ عمر ابن خطاب کو پہنچائی ہے (یہ سیف کا کہنا ہے ) ان مطالب کو '' ابو القاسم ابن عساکر '' نے بھی جریر کے بارے میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر بھی '' جریر بن عبد اللہ '' کے حالات کے بارے میں اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھتا ہے :

ابن عساکر کہتا ہے کہ وہ ۔۔ جریر ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔ اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے مطابق کہ اس نے '' محمد '' سے اور اس نے ''' عثمان '' سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ جب خالد بن ولید نے یمامہ سے عراق کی طرف جنگ کا عزم کیا ، اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا ۔ اس سلسلے میں پہلے اصحاب پر نظر ڈالی اور ان میں سے جنگجو اور شجاع افراد کا انتخاب کیا ان جنگجوؤں کی کمانڈ '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو سونپی ، جو اقرع بن عبد اللہ کا بھائی اور یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ( تاآخر )

اس کے علاوہ سیف نے نقل کیا ہے کہ اسی جریر بن عبدا للہ نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید مدینہ خلیفہ عمر کو پہنچائی ہے ۔

سیف نے مختلف جگہوں پر اس '' جریر'' کا نام لیا ہے اور ابن فتحون نے جریر کے حالات کو دوسرے مآخذ سے درک کیا ہے اور

۱۴۴

ابن عساکر کی نظر میں افسانۂ جریر کا راوی '' محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ '' ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔

اس طرح ان علماء نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کرکے ان دو حمیری اور سیف کے خیالی بھائیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیکران کے حالاتلکھے ہیں ۔

خلاصہ

سیف نے اقرع اور جریر کو عبد اللہ کے بیٹوں کے عنوان سے خلق کیا ہے اور ان دونوں کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر یمن بھیجا ہے تاکہ کافروں اور اسلام سے منحرف لوگوں کے خلاف جنگ کا انتظام کریں ۔ اور ان دونوں کو ان افراد میں شمار کیا ہے جو مدینہ واپس آئے ہیں اور یمانی مرتدوں کی خبر خلیفہ ابو بکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ جب خالد بن ولید یمامہ سے عراق کی جنگ کیلئے روانہ ہوا ، تو اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا اور اس سلسلے میں پہلے اصحاب کو مدنظر رکھا ، ان میں سے مجاہدوں اور شجاعوں کا انتخاب کیا جن میں جرید بن عبد اللہ حمیری بھی تھا خالد نے، قضاعہ دستہ کے فوجیوں اور جنگجوؤں کی کمانڈ اسے سونپی ہے ۔

جریر عراق میں خالد کی جنگوں اور فتوحات میں سر گرم عمل رہا ہے اور ''' بانقیا '' ، '' بسما'' '' فلالیج'' سے ''ہر مزگرد ''تک کے صلح ناموں میں عینی گواہ کے طور پر رہا ہے ۔ خالد نے اسے بانقیا و بسما کی حکمرانی سونپی ہے ۔

جریران اصحاب میں سے تھا جو خراج و جزیہ کی رقومات عراق کے علاقوں کے لوگوں سے وصول کرتا تھا جو تسخیر ہونے کے بعد ان پر مقرر کیا گیا تھا ۔ یہ رقومات وصول کرنے کے بعد انھیں رسید دیا کرتا تھا ۔

خالد کے ''مصیخ بنی البرشا'' پر بجلی جیسے حملہ میں جریر اس کے ہمراہ تھا اور اس نے کفار کے درمیان ایک مسلمان کو بھی قتل کر ڈالا ۔

وہ کہتا ہے کہ جریر نے خالد کے ہمراہ شام کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خالد کی طرف سے قاصد کے طور پر مدینہ جاکر خلیفہ عمر کو یرموک کی فتح کی نوید پہنچائی ہے۔

۱۴۵

جریر وہ بہادر ہے جسے '' سعد بن وقاص '' نے خلیفہ عمر کے صریح حکم کے مطابق '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہمراہ ایرانی فوج کے کمانڈر ہرمزان سے مقابلہ کیلئے بھیجا ہے ۔

سیف نے مزید کہا ہے کہ جریر نے ٢١ ھ کی جنگِ نہاوند میں شرکت کی ہے اور اپنے بھائی اقرع اور جریر بن عبدا للہ بجلی اور دیگر اشرافِ کوفہ سپہ سالار اعظم '' نعمان بن مقرن '' کا خیمہ نصب کرنے میں ہاتھ بٹایا ہے ۔

یہ سیف بن عمر تمیمی کی روایتوں کا خلاصہ تھا جو اس نے اپنے خلق کئے گئے دو جعلی اصحاب کے بارے میں گڑھ لی ہیں ۔

سیف نے اپنے خیالی افسانوی پہلوان '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کرکے اس کی بعض فتوحات اور جنگی کارناموں کو اپنے اس خیالی بہادر سے منسوب کیا ہے ۔

نہیں معلوم ، شاید جریر کے بھائی ''' اقرع '' کو اس نے '' اقرع بن حابس تمیمی '' یا '' اقرع عکی '' اور یا کسی اور اقرع کے ہم نام خلق کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نام ۔۔ ''اقرع بن عبد اللہ حمیری '' یوں ہی اچانک اس کے ذہن میں آیا ہو اور اس نے اپنے افسانوں میں اس کیلئے اہم اور حساس رول رکھے ہوں ۔

یہ بھی ہم بتا دیں کہ ہمارے اس افسانہ گو سیف بن عمر نے ان دو حمیری بھائیوں کی داستان تقریباً اس کے دو نامدار عظیم الجثہ تمیمی پہلوان عمر و تمیمی کے بیٹے '' قعقاع'' اور '' عاصم '' کے افسانہ کے مشابہ خلق کی ہے ۔

سرانجام یہ افسانہ اور اس کے مانند سیکڑوں افسانے جن سے اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے اور جو دانشوروں اور اکثر مسلمانوں کیلئے اس حد تک افتخار و سر بلندی کا سبب بنے ہیں کہ وہ کسی قیمت ان سے دستبردار ہونے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے

یہ افسانے درج ذیل معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں قطعی اور حقیقی سند کے عنوان سے در ج ہوئے ہیں ۔

۱۴۶

دو حمیری بھائیوں کے افسانہ کے راوی :

سیف نے مذکورہ دو بھائیوں کے افسانہ کو درج ذیل راویوں کی زبانی نقل کیا ہے :

١۔ محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ

٢۔ مھلب بن عطیہ اسدی

٣۔ غصن بن قاسم۔

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن ییوسفسلمی۔

مذکورہ سبھی راوی سیف کے جعل کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

ان دو بھائیوں کا افسانہ نقل کرنے والے علما:

١۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر بن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ۔

٣۔ ابن عساکر نے '' تاریخ دمشق'' میں ۔

٤۔ ابن فتحون نے کتاب' ' استیعاب ''کے حاشیہ پر ۔

٥۔ ابن اثیر نے '' اسد الغابہ '' میں

٦۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید میں ''

٧۔ ابن حجر نے کتاب '' اصابہ '' میں

٨۔ محمد حمید اللہ نے کتاب '' وثائق الساسبہ '' میں ۔

۱۴۷

مصادر و مآخذ

دو حمیری بھائیوں '' اقرع '' و جریر '' کے بارے میں سیف کی روایات :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨، ١٩٨٨، ١٩٩٨، ٢٠٤٩، ٢٠٥٢، ٢٠٥٥، ٢٠٧٠، ٢١٧٦، ٢٥٥٢، اور ٢٦١٩)

اقرع کے حالات

١۔ کتاب '' استیعاب ''' طبع حیدر آباد دکن (١ ٦٤ ) نمبر : ١٠٠

٢۔ اسد الغابہ ( ١ ١١٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' (١ ٢٦)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (١ ٧٣) نمبر : ٢٣٣

جریر حمیری کے حالات :

١۔ ابن اثیرکی '' اسد الغابہ '' (١ ٢٧٩)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٢٣٤)نمبر: ١١٣٧

تاریخ لکھنے کے سلسلہ میں عمر بن خطاب کا صلاح و مشورہ

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ٢٤٨٠)

جریر بن عبد اللہ بجلی کے بارے میں روایت اور اس کے حالات :

'' استیعاب '' ، اسد الغابہ ، اصابہ ، اور بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ( ص ٢٩٩، ٣٠٠، ٣٠١ ) ، قبیلہ ٔ بجیلہ پر جریر بن عبدا للہ بجلی کی حکمرانی:

١۔ تاریخ طبری (١ ٣٢٠٠ ۔ ٣٢٠٢)

۱۴۸

اڑتیسواں جعلی صحابی صلصل بن شرحبیل

صلصل ، ایک گمنام سفیر :

سیف کی اس روایت میں جس میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے نام آئے ہیں ، صلصل کے بارے میں یوں ذکر ہوا ہے :

صلصل بن شرحبیل کو '' سبرۂ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری ، اوربنی عمرو کے عمروبن الخفاجی '' کے پاس اپنی طرف سے سفیر بنا کر بھیجا ۔ ابن حجر نے ''صفوان بن صفوان اسید '' کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

اسی طرح سیف نے ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ابن عباس سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل بن شرحبیل کو اپنے ایلچی کے طور پر صفوان بن صفوان تمیمی ، وکیع بن عدس دارمی اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ انہیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دے ۔

ہم نے سیف کی ان دو روایتوں کے علاوہ ۔۔ جوخود اس صحابی کے نام کو خلق کرنے والا ہے ۔۔ صلصل کا نام کہیں اور نہیں پایا۔

کتاب ' استیعاب '' کے مصنف ابو عمر ، ابن عبد البر نے صلصل کے حالات کی تشریح میں لکھاہے:

۱۴۹

صلصل بن شرحبیل : میں نہیں جانتا کہ کس خاندان سے ہے۔ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا ، لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ اس کی خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے چند ایلچیوں کو روانہ کرنے کے ضمن میں آئی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے سفیر کے طور پر '' صفوان بن صفوان ١ ، سبرہ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری اور بنی عامر کے عمرو بن الخفاجی '' کے پاس بھیجا تھا ، وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک سفیر تھا ۔

ابن اثیر نے ، ابن عبد البر کی عین عبارت کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے '' تجرید '' میں صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اسے خلاصہ کرکے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کرکے یوں لکھا ہے :

اس کا ۔۔ صلصل بن شرحبیل۔۔ نام صفوان بن صفوان کے حالات کی تشریح میں گزرا ، ابو عمر ۔۔ استیعاب کامصنف ۔۔ کہتا ہے کہ میں اس کے خاندان کو نہیں جانتا اور مجھے اس کی روایت کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ان نامور علماء نے ، سیف کے خلق کردہ صلصل بن شرحبیل کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت سے اسی پر اکتفاء کیا ہے ۔ چونکہ سیف نے بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھاہے لہذا وہ بھی نہ اس کے نسب کے بارے میں اور نہ ہی اس کی روایتوں کے بارے میں اطلاع رکھتے ہیں ۔

____________________

١۔ صفوان کے باپ کا نام ابن عبدالبر کی کتاب '' استیعاب '' میں '' امیہ '' آیا ہے جو غلط ہے ۔ کیونکہ صفوان بن امیہ اسلام لانے کے بعد مکہ سے باہر نہیں نکلا ہے ۔ اس خبر کا مآخذ بھی سیف کی روایت ہے جس میں '' صفوان بن صفوان '' بتایا گیا ہے ۔

۱۵۰

انتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن محجوب عامری

جعلی روایتوں کا ایک سلسلہ

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی مذکورہ دو روایتوں پر مکمل اعتماد کرکے سیف کی ایک اور مخلوق '' عمرو بن محجوب عامری '' کو ایک مسلم حقیقت کے عنوان سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سیف نے اپنے خلق کردہ صحابی کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ عامری ہے ۔ اور یہ '' عامر '' کی طرف نسبت ہے جو قبائل '' ُمعد اور قحطانی '' کے خاندانوں سے متعلق ہے ۔

لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس صحابی کو ان قبیلوں میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔

عمرو بن محجوب کی داستان :

ہم نے دیکھا کہ طبری نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے ضمن میں سیف سے روایت کرکے صلصل کا نام لیا ہے اور اس کی ممور یتوں کے بارے میں یوں بیان کیا ہے کہ وہ پیغمبرا خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور تھا کہ '' بنی عامر عمرو بن محجوب اور عمرو بن خفاجی '' سے ملاقات کرے۔

ابن حجر نے '' اصابہ '' میں اس عمرو بن محجوب کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :

عمروبن محجوب عامری وہ صحابی ہے جسے ابن فتحون نے دریافت کیا ہے اور سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابن عباس سے دو سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ عمروبن محجوب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں میں سے تھا ، اور زیاد بن حنظلہ کے ذریعہ اسے فرمان دیا گیا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو ۔ ہم نے اس عمرو کا نام '' صفوان بن صفوان '' کے حالات پر روشنی ڈالنے کے ضمن میں ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس لحاظ سے عمرو بن محجوب کا نام سیف کی ایک روایت کے مطابق تاریخ طبری میں اور دو روایتوں کے مطابق سیف کی کتاب فتوح میں آیا ہے ،اور ابن حجر نے ان کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں نقل کیا ہے ۔

چوتھی روایت وہاں ہے جہاں ابن حجر نے صفوان کے حالات کی تشریح میں اس کا نام لیا ہے کہ ہم نے اسے صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔

۱۵۱

یہ امر قابل توجہ و دقت ہے کہ ان روایتوں میں سے ہر ایک دوسری پر ناظر اور اس کی مؤید شمار ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ عمرو بن محجوب عامری پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان گماشتوں اور کارندوں میں سے ہے کہ جس کی مموریت کے دوران اسے دو خط ملے ہیں ایک صلصل کے ذریعہ اور دوسرا زیاد بن حنظلہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے ذریعہ ، ان دو خطوط میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے شرک و ارتداد کے خلاف ثابت قدم رہنے کاحکم دیا ہے ۔

انہی روایتوں پر ، ابن فتحون اور ابن حجر جیسے علماء نے پوراا عتماد کر کے پہلے (ابن فتحون) ابن فتحون نے سیف کے اس جعلی صحابی کے حالات '' استیعاب ''کے حاشیہ میں درج کئے اور دوسرے (ابن حجر) نے اپنی معتبر کتاب اصابہ میں اس کیلئے مخصوص جگہ وقف کی ہے

چالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

مسیلمہ سے جنگ کی مموریت

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی انہی گزشتہ روایتوں پر اعتماد کرکے ، عمرو بن خفاجی عامری کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ کے لئے ایک فصل مخصوص کی ہے اور اس فصل میں نمبر : ٥٨٢٧ حرف '' ع'' کے تحت لکھا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری ، اس کا نام صلصل بن شرحبیل کے حالات میں آیا ہے ۔ '' رشاطی'' ١نے لکھا ہے کہ وہ ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک خط کے ذریعہ اسے اور عمرو بن محجوب کو حکم دیا کہ وہ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ انہی مطالب کو طبری نے بھی نقل کیا ہے ۔

____________________

١۔ رشاطی ، ابو محمد عبدا للہ بن علی بن عبد اللہ بن خلف لخمی اندلسی ایک عالم ، محدث، فقیہ ،مؤرخ ، نسب شناس ، ادیب اور لغت شناس تھا، رشاطی ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی سال(٤٦٦ ھ ۔ ١٠٧٤ء )میں ''ادریولہ '' مرسیہ میں پیدا ہوا ۔ اور جمادی الاول یا جمادی الثانی سال ٥٤٢ ھ = ١١٤٧ئ) میں رومیوں کے حملے میں اپنے وطن میں ہی قتل ہوا ۔ اس کی تصنیفات میں '' اقتباس الانوار و التماس الازہار'' یہ کتاب انساب صحابہ اور روات اخبار کے بارے میں ہے اور دوسری کتاب '' المؤتلف '' قابل ذکر ہیں ، معلوم کہ ان دو کتابوں میں سے کس میں اس نے '' عمرو'' کے حالات لکھے ہیں !!۔

۱۵۲

سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ جو صحابی مرتدوں سے جنگ کرنے کے بارے میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خط عمروبن خفاجی کے نام لایا تھا۔ وہ زیاد بن حنظلہ تھا (ز)

ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر کے حرف (ز) لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی کے حالات دوسروں کے مقابلہ میں اس نے دریافت کئے ہیں ۔

۱۵۳

اکتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

ابن حجر کی غلط فہمی سے وجود میں آیا ہوا صحابی

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' کے تیسرے حصہ کو ان اصحاب سے مخصوص رکھا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں زندہ تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور دیدار سے شرفیاب نہیں ہوئے تھے وہ حرف '' ع'' کے تحت لکھتا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری : سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ اور عمرو بن محجوب عامری کو پیغام بھیجا اور انھیں ممور فرمایا وہ کہ مسیلمۂ کذاب سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن فتحون نے اس کے نام کو دوسرے مصادر سے دریافت کیا ہے (ز)۔

اس طرح ابن حجر جیسے مشہور علامّہ نے بھی غلط فہمی کا شکار ہوکر '' عمرو بن خفاجی '' کے حالات اپنی کتاب میں دو جگہوں پر لکھے ہیں ۔

جبکہ خودسیف جو اس شخص کا افسانہ گڑھنے کرنے والا ہے ، نے اسے صرف ایک شخص جعل کیا ہے۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری میں عمرو بن خفاجی کا نسب '' بنی عمرو '' لکھا گیا ہے ۔ جبکہ ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں صلصل کے حالات کی تشریح میں یہ نسب (بنی عامر ) ذکر ہوا ہے ۔

اس داستان کا خلاصہ اور نتیجہ

سیف بن عمر نے اپنے ایک ہی مقصد کو اپنی دو بناوٹی روایتوں میں بیان کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل نام کے ایک شخص کو قاصد و ایلچی کے طور پر اپنے گماشتوں اور کارندوں کے پاس بھیجا اور اسے علاقہ کے مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ سیف کی اسی ایک جھوٹی داستان کے نتیجہ میں علماء نے اس کے افسانوی صحابیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں شمار کیا ہے اور درج ذیل جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات لکھے ہیں :

١۔ صلصل بن شرحبیل

٢۔ عمروبن محجوب عامری

٣۔ عمروبن خفاجی عامری

٤۔ عمرو بن خفاجی عامری

۱۵۴

صفوان بن صفوان

ہمیں اس صفوان بن صفوان کے سیف کے جعلی صحابی ہونے پر شک ہے ، اگر ایسے شخص کو سیف نے خلق بھی نہ کیا ہوپھر بھی اس کا صحابی ہونا سیف بن عمر کے خلق کرنے سے کچھ کم نہیں ہے ۔

جو کچھ بیان ہوا اس کے علاوہ سیف نے اپنی جعلی روایتوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں ہی مسلمانوں کے اسلام سے منہ موڑنے کی بات کی ہے ۔ اس نے ان جھوٹے اور بے بنیاد مطالب کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں بہانہ فراہم کیاہے کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ اسلام نے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور اس زمانے کے قبائل کے لوگوں کے وجود کی گہرائیوں میں اسلام نے اثر نہیں ڈالا تھا ، اسی لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ہی اسلام کے مقابلے میں آکر تلوار کھینچیلی ہے!

پھر یہی سیف کی روایتیں اور جھوٹ کے پلندے اور ارتداد کی جنگوں کی منظر کشی ، قارئین کے ذہن کو یہ قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام نے ایک بار پھر ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں تلوار کی نوک پر اور بے رحمانہ قتل عام کے نتیجہ میں استحکام حاصل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا ''میں مفصل بحث و تحقیق کی ہے ۔

سر انجام ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق انہی جھوٹ اور افسانوں کو مکتب خلفاء کے پیرؤ علماء نے حسبذیل معتبر مآخذ میں درج کیا ہے :

١۔ امام المؤرخین ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ، ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں

٣۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن فتحون نے ، استیعاب کے ذیل میں ۔

٥۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ۔

٦۔ رشاطی نے '' انساب الصحابہ'' میں ۔

٧۔ ذہبی نے ''تجرید'' میں ۔

٨۔ ابن حجر نے '' الاصابہ'' میں ۔

۱۵۵

مصادر و مآخذ

صلصل کے حالات :

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدر آباد دکن ( ١ ٣٢٥) نمبر : ١٤١٨

٢۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٣ ٢٩)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '(١ ٢٨٢)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ١٨٧) نمبر : ٤٠٩٩

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨) ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

صفوان بن صفوان کے حالات

١۔ ابن حجرکی '' اصابہ ''(٢ ١٨٣) نمبر : ٤٠٧٦

عمر و بن محجوب عامری کے حالات

١۔ابن حجر کی اصابہ (١٥٣) نمبر ١٩٥٦

٢۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨)

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ٥٢٨) نمبر : ٥٨٢٧

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١١٤) نمبر: ٦٤٨٤

۱۵۶

بیالیسواں اور تینتالیسواں جعلی صحابی عوف ورکانی اور عویف زرقانی

سیف کی ایک مخلوق تین روپوں میں

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں یوں لکھا ہے :

...اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ضرار بن ازور اسدی'' کو اپنے ایلچی کے طور پر قبیلۂ بنی صیدا کے '' عوف زرقانی'' اور اور قضاعی دئلی کے پاس بھیجا۔

عوف کا نسب

سیف بن عمر نے اپنے صحابی عوف کو بنی صیداء سے جعلی کیا ہے جس قبیلہ کے سردار کا نام ''عمرو بن قعین بن حرث بن ثعلبہ بن دودان بن خزیمہ '' ہے ۔ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا طلیحہ بھی اسدی ہے جو بنی صیدا کا ایک قبیلہ ہے۔

عوف ورکانی کی داستان

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں دو صحابیوں کے حالات کی تشریح یکے بعد دیگر آئی ہے ۔ ان میں سے ایک نمبر ٦١٠٨ کے تحت یوں درج ہے:

عوف ورکانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو اپنے ایلچی کے طور پر اس کے پاس بھیجا اور اسے مرتدوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حکم دیا ہے ۔

اس کی داستان کو سیف بن عمر نے ذکر کیا ہے ہم نے اس کے مآخذ کا صلصل کی داستان کے ضمن میں اشارہ کیا ہے ۔

عویف ورقانی

اس کے بعد ابن حجر نمبر ٦١١٣ کے تحت عویف ورقانی کے حالات اس طرح لکھتا ہے:

سیف ارتدار کی خبروں میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:کہ جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پیغمبری کے مدعی طلیحہ کی بغاوت اور قیام کی خبر ملی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عویف ورقانی کو اس سے جنگ کرنے اور اس سے دفاع کرنے پر مامور فرمایا۔

۱۵۷

عوف ورقانی

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید '' میں عوف ورقانی نامی ایک صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :

جب پیغمبری کے مدعی طلیحہ کا مسئلہ زور پکڑنے لگا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' عوف ورقانی '' کی قیادت میں ایک فوج کو اس مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے روانہ فرمایا۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مکتب خلفاء کے پیرو جن علماء نے تین افراد کے حالات لکھے ہیں ، وہ سب کے سب سیف کی ایک روایت پر مبنی ہیں ، اس طرح کہ '' عوف '' کا نام بعض نسخوں میں '' عویف '' لکھا گیا ہے اور اس کی شہرت '' زرقانی '' سے ''ورقانی '' اور پھر '' ورکانی '' لکھی گئی ہے ۔ اس طرح سیف کا خلق کردہ ایک صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تین صحابیوں کے روپ میں مجسم ہوا ہے۔

جی ہاں ، یہ سب سیف کی روایتوں کے وجود کی برکت کا نتیجہ ہیں جو مکتب خلفا کے علماء کے قلموں کے ذریعہ کر ان کی کتابوں میں درج ہوئے ہیں !!

قضاعی بن عمرو سے متعلق ایک داستان

تاریخ طبری میں ذکر ہوئی سیف کی روایت میں آیا ہے کہ قضاعی بن عمرو کا تعارف دئلی کے طور پر کیا گیا ہے اور یہ شہرت '' دئلی'' عرب کے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس '' دئلی'' سے سیف کا مقصود کون سا عرب قبیلہ ہے ۔

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں ' ' قضاعی بن عمرو'' کا نام یوں آیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے واپسی پر '' سنان بن ابی سنان '' اور ''قضاعی بن عمرو'' کو قبیلہ بنی اسد کی طرف مموریت پر بھیجا۔

قضائی کی مموریت کی جگہ کے بارے میں '' تاریخ طبری'' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے:

قضائی بن عمرو ، بنی حرث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ بنی حرث سے سیف کا مقصود دو دان بن اسد کا پوتا بنی حارث ہے ۔

تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے منقول ہے کہ :

۱۵۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو ایلچی کے طور پر '' سنان بن ابی سنان '' اور '' قضاعی بن عمرو'' ۔۔ جو بنی اسد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے تھے ۔۔ کے پاس بھیجا اور انھیں طلیحہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ لکھتا ہے :

ضرار ، قضاعی ، سنان اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بنی اسد میں دیگر کا رندے جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مسئولیت کا عہدہ دار تھا ، سب کے سب طلیحہ کے ڈر سے بھاگ کر مدینہ ابو بکر کے پاس پہنچ گئے اور روداد ابو بکر سے بیان کی ان کے دیگر حامی اور دوست وا حباب بھی طلیحہ سے ڈر کر مختلف اطراف میں بھاگ گئے۔

طبری نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ پر سیف سے نقل کرکے ١٦ ھ میں جلولا کی جنگ کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

اور سعد بن ابی وقاص نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو قضاعی کے ہاتھ مدینہ میں خلیفۂ عمر کے پاس بھیجدیا۔

سیف کی روایتوں میں قضاعی بن عمرو کی داستان یہی تھی کہ جسے ہم نے بیان کیا ۔

افسانۂ قضاعی کے مآخذ اور راویوں کی پڑتال

سیف نے قضاعی کی داستان میں درج ذیل نام بعنوان راوی بیان کئے ہیں :

١۔ سعید بن عبید۔

٢۔ حریث بن معلی۔

٣۔ حبیب بن ربیعۂ اسدی۔

٤۔ عمارة بن فلان اسدی۔

٥۔ اور چند دوسرے مجہول الہویہ راوی کہ سب سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جی ہاں علماء نے اس اعتماد کے پیش نظر جو وہ سیف کی روایتوں پر رکھتے تھے، قضاعی بن عمرو کو صحابی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابیسمجھا اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۵۹

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قضاعی بن عمر : سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ وہ خاندان بنی اسد میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا ۔ابن دباغ نے اس کا نام لیا ہے اور اس کے عبد البر کی کتاب ''استیعاب '' میں موجود ہونے کا تصور کیا ہے، اورخدا بہتر جانتا ہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ)

بہر حال ہم نے اس قضاعی کے نام کو جعلیصحابیوں کی فہرست سے حذف کر دیا ہے ، کیونکہ ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں اس کے ہم نام کا ذکر کرکے اس کے نسب کو ' بنی عذر ہ '' بتایا ہے۔ ابن سعد نے اس کے بارے میں اپنی بات کا آغاز یوں کیا ہے

... الحدیث

لیکن مذکورہ حدیث ذکر نہیں کی ہے اور نہ اس کا کوئی مآخذ بیان کیا ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329