ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 329
مشاہدے: 121049
ڈاؤنلوڈ: 3884


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121049 / ڈاؤنلوڈ: 3884
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 3

مؤلف:
اردو

سر انجام جریر نے کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ٥٠ ھ کے بعد وفات پائی ۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف اپنے خلق کردہ صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کا ہم نام بتاتا ہے ۔ اس نے اسی شیوہ سے اپنے جعلی اصحاب کو ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ابودجانہ دو حقیقی اصحاب کے ہم نام کیا ہے ۔ اس کے بعد جریر بجلی کی بعض سرگرمیوں کو اپنے جعلی صحابی جریر حمیری سے نسبت دیتا ہے ۔

اس سلسلے میں ہم بلاذری کی کتاب '' فتوح البلدان '' کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' جریر بجلی'' وہی شخص ہے جس نے بانقیا کے باشندوں کے نما ئندہ '' بصبہری'' سے ایک ہزار درہم اور طیلسانی ١ وصول کرنے کی بنیاد پر صلح کرکے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے ۔

جیسا کہ کہتا ہے :

خالد نے اس بنا پر ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور جنگ نخیلہ کے بعد جریر بجلی وہاں گیا اور ان سے معاہدہ کی مقررہ رقم وصول کی انھیں اس کی رسید دی۔

اسی طرح بلاذری کہتا ہے :

'' بانقیاد '' سے واپس آنے کے بعد ، خالد بن ولید '' فلالیج'' کی طرف روانہ ہوا چونکہ ایرانیوں کا ایک گروہ وہاں پر جمع ہو کرجنگ کا نقشہ کھینچ رہا تھا خالد کے فلالیج میں داخل ہونے کے بعد ایرانی فوری طور پر متفرق ہوئے اور ان کے منصوبے نقش بر آب ہوگئے۔

____________________

١۔ایک قسم کے سبز رنگ کا اورکوٹ ہے جسے خاص طور سے ایران کی بزرگ شخصیتیں اور علماء پہنتے تھے۔

۱۴۱

بلاذری ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

خلافت عمر کے زمانے میں جریر بن عبد اﷲ بجلی نے ''' انبار'' کے باشندوں کے ساتھ ان کی سرزمینوں کی حدود کے بارے میں سالانہ چار لاکھ درہم اور ایک ہزار '' قطوانیہ''١ عبا ؤں کے مقابلے میں معاہدہ کیا ہے۔

بلاذری جیسے دانشور کے لکھنے کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر نے '' جریر بن عبد اللہ ''جیسے صحابی کے بانقیا کی صلح ، جزیہ کا وصول کرناور رسید دینے کے جیسے کارناموں کو اپنے جعلی صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' سے نسبت دی ہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے جس نے '' مصیخ بنی البرشاء '' کی جنگ کے افسانہ کو اس آب و تاب کے ساتھ خلق کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''' فتوح '' میں درج کیا ہے جسے طبری اور طبری کی پیروی کرنے والوں نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور ہم نے اس کی تفصیلات اسی کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے بے مثال سورما ''قعقاع بن عمر و تمیمی'' کی زندگی کے حالات میں بیان کی ہیں ۔

اسی طرح سیف تنہا شخص ہے جس نے ان دو بھائیوں کے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی مقرر ہونے کی بات کی ہے۔

اور یہی دوسری صدی ہجری کا تنہا افسانہ ساز ہے جس نے خیمے نصب کرنے اور سپہ سالار اعظم

''نعمان بن مقرن '' کیلئے خصوصی خیمہ نصب کرنے کی داستانیں گڑھی ہیں ۔

____________________

١۔ قطوانیہ قطوان سے منسوب اسی علاقہ میں ایک جگہ تھی جو ایسا لگتا ہے کہ شہر کوفہ کی بنیاد پڑنے کے بعد وجود میں آئی ہے ، معجم البلدان میں کوفہ کے ملحقات میں شمار کیا گیا ہے ۔

۱۴۲

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے ، اقرع بن عبد اللہ اور اس کے بھائی جریر بن عبد اللہ حمیری کو خلق کرکے بعض کارنامے اور تاریخی داستانیں ان سے منسوب کی ہیں ۔

امام المؤرخین طبری نے مذکورہ داستانوں کو سیف سے نقل کرکے ١٢ ھ سے ٢١ ھ تک کے حوادث کے ضمن میں حقیقی اور ناقابل انکار مآخذ کے طور پر اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن عبد البر ، کتاب '' استیعاب '' کا مصنف ، سیف کی تالیفات پر اعتماد کرکے مذکورہ افسانوں کو صحیح سمجھتے ہوئے اقرع بن عبد اللہ حمیری کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

اقرع کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایلچی کے طور پر '' ذی مران '' اور یمن کے سرداروں کے ایک گروہ کے پاس بھیجا تھا ۔

معروف عالم اور کتاب '' اسد الغابہ '' کے مصنف ابن اثیراور کتاب '' اصابہ '' کے مؤلف ابن حجر نے اسی خبر کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر مذکورہ خبر کو '' استیعاب '' سے نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

اس خبر کو سیف بن عمر نے اپنی کتاب ' ' فتوح '' میں ضحاک بن یربوع سے اس نے اپنے باپ یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔

اس طرح ابن حجر ، ابن عبد البر کے اپنی کتاب '' استیعاب'' میں لائے گئیمآخذ سے پرہیز کرکے وضاحب سے کہتا ہے کہ وہی سیف کی کتاب '' فتوح '' ہے

۱۴۳

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ روایت ۔۔ اقرع کی یمن میں مموریت کے بارے میں ابن عبد البر کی روایتسے الگ ہے جسے ہم نے طبری سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی مموریت کے بارے میں اس حصہ کہ ابتدا ء میں ذکر کیا ہے ۔

سیف نے اس روایت کو گڑھ کر ، اپنی پہلی روایت کی تائید کی ہے ۔ یہ اس کی عادت ہے کہ اپنی جعل کردہ چیزوں کو متعدد روایتوں میں منعکس کرتا ہے ۔ تا کہ اس طرح اس کی روایتیں ایک دوسرے کی مؤید ہوں اور اس کا جھوٹ سچ دکھائی دے ۔

اس کے بعد ابن حجر طبری کی روایت کو سیف سے نقل کرکے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی خلافت ابوبکر میں اپنی ممور یتوں سے واپس مدینہ آنے کے واقعات کو' جنہیں ہم نے گزشتہ صفحات میں درج کیا ہے ۔۔ کو اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

مذکورہ علماء نے '' اقرع بن عبد اللہ حمیری'' کے بارے میں حالات لکھ کر اورسیف کی باتوں اور روایتوں پر اس قدر اعتماد کرکے اپنی گراں قدر کتابوں کو اس قسم کے افسانوں سے آلودہ کیا ہے ۔

یہ امر اقرع کے خیالی بھائی '' جریر بن عبد اﷲحمیری'' کے بارے میں لکھے گئے حالات پر بھی صادق آتا ہے ۔ کیونکہ ابن اثیر '' جریر '' کے حالت کی تشریح میں لکھتا ہے :

وہ ۔۔ جریر بن عبد اللہ حمیری۔۔ یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ۔ جریر نے عراق اور شام کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں سرگرم حصہ لیا ہے ۔ اس نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید خلفیہ عمر ابن خطاب کو پہنچائی ہے (یہ سیف کا کہنا ہے ) ان مطالب کو '' ابو القاسم ابن عساکر '' نے بھی جریر کے بارے میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر بھی '' جریر بن عبد اللہ '' کے حالات کے بارے میں اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھتا ہے :

ابن عساکر کہتا ہے کہ وہ ۔۔ جریر ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔ اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے مطابق کہ اس نے '' محمد '' سے اور اس نے ''' عثمان '' سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ جب خالد بن ولید نے یمامہ سے عراق کی طرف جنگ کا عزم کیا ، اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا ۔ اس سلسلے میں پہلے اصحاب پر نظر ڈالی اور ان میں سے جنگجو اور شجاع افراد کا انتخاب کیا ان جنگجوؤں کی کمانڈ '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو سونپی ، جو اقرع بن عبد اللہ کا بھائی اور یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ( تاآخر )

اس کے علاوہ سیف نے نقل کیا ہے کہ اسی جریر بن عبدا للہ نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید مدینہ خلیفہ عمر کو پہنچائی ہے ۔

سیف نے مختلف جگہوں پر اس '' جریر'' کا نام لیا ہے اور ابن فتحون نے جریر کے حالات کو دوسرے مآخذ سے درک کیا ہے اور

۱۴۴

ابن عساکر کی نظر میں افسانۂ جریر کا راوی '' محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ '' ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔

اس طرح ان علماء نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کرکے ان دو حمیری اور سیف کے خیالی بھائیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیکران کے حالاتلکھے ہیں ۔

خلاصہ

سیف نے اقرع اور جریر کو عبد اللہ کے بیٹوں کے عنوان سے خلق کیا ہے اور ان دونوں کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر یمن بھیجا ہے تاکہ کافروں اور اسلام سے منحرف لوگوں کے خلاف جنگ کا انتظام کریں ۔ اور ان دونوں کو ان افراد میں شمار کیا ہے جو مدینہ واپس آئے ہیں اور یمانی مرتدوں کی خبر خلیفہ ابو بکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ جب خالد بن ولید یمامہ سے عراق کی جنگ کیلئے روانہ ہوا ، تو اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا اور اس سلسلے میں پہلے اصحاب کو مدنظر رکھا ، ان میں سے مجاہدوں اور شجاعوں کا انتخاب کیا جن میں جرید بن عبد اللہ حمیری بھی تھا خالد نے، قضاعہ دستہ کے فوجیوں اور جنگجوؤں کی کمانڈ اسے سونپی ہے ۔

جریر عراق میں خالد کی جنگوں اور فتوحات میں سر گرم عمل رہا ہے اور ''' بانقیا '' ، '' بسما'' '' فلالیج'' سے ''ہر مزگرد ''تک کے صلح ناموں میں عینی گواہ کے طور پر رہا ہے ۔ خالد نے اسے بانقیا و بسما کی حکمرانی سونپی ہے ۔

جریران اصحاب میں سے تھا جو خراج و جزیہ کی رقومات عراق کے علاقوں کے لوگوں سے وصول کرتا تھا جو تسخیر ہونے کے بعد ان پر مقرر کیا گیا تھا ۔ یہ رقومات وصول کرنے کے بعد انھیں رسید دیا کرتا تھا ۔

خالد کے ''مصیخ بنی البرشا'' پر بجلی جیسے حملہ میں جریر اس کے ہمراہ تھا اور اس نے کفار کے درمیان ایک مسلمان کو بھی قتل کر ڈالا ۔

وہ کہتا ہے کہ جریر نے خالد کے ہمراہ شام کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خالد کی طرف سے قاصد کے طور پر مدینہ جاکر خلیفہ عمر کو یرموک کی فتح کی نوید پہنچائی ہے۔

۱۴۵

جریر وہ بہادر ہے جسے '' سعد بن وقاص '' نے خلیفہ عمر کے صریح حکم کے مطابق '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہمراہ ایرانی فوج کے کمانڈر ہرمزان سے مقابلہ کیلئے بھیجا ہے ۔

سیف نے مزید کہا ہے کہ جریر نے ٢١ ھ کی جنگِ نہاوند میں شرکت کی ہے اور اپنے بھائی اقرع اور جریر بن عبدا للہ بجلی اور دیگر اشرافِ کوفہ سپہ سالار اعظم '' نعمان بن مقرن '' کا خیمہ نصب کرنے میں ہاتھ بٹایا ہے ۔

یہ سیف بن عمر تمیمی کی روایتوں کا خلاصہ تھا جو اس نے اپنے خلق کئے گئے دو جعلی اصحاب کے بارے میں گڑھ لی ہیں ۔

سیف نے اپنے خیالی افسانوی پہلوان '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کرکے اس کی بعض فتوحات اور جنگی کارناموں کو اپنے اس خیالی بہادر سے منسوب کیا ہے ۔

نہیں معلوم ، شاید جریر کے بھائی ''' اقرع '' کو اس نے '' اقرع بن حابس تمیمی '' یا '' اقرع عکی '' اور یا کسی اور اقرع کے ہم نام خلق کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نام ۔۔ ''اقرع بن عبد اللہ حمیری '' یوں ہی اچانک اس کے ذہن میں آیا ہو اور اس نے اپنے افسانوں میں اس کیلئے اہم اور حساس رول رکھے ہوں ۔

یہ بھی ہم بتا دیں کہ ہمارے اس افسانہ گو سیف بن عمر نے ان دو حمیری بھائیوں کی داستان تقریباً اس کے دو نامدار عظیم الجثہ تمیمی پہلوان عمر و تمیمی کے بیٹے '' قعقاع'' اور '' عاصم '' کے افسانہ کے مشابہ خلق کی ہے ۔

سرانجام یہ افسانہ اور اس کے مانند سیکڑوں افسانے جن سے اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے اور جو دانشوروں اور اکثر مسلمانوں کیلئے اس حد تک افتخار و سر بلندی کا سبب بنے ہیں کہ وہ کسی قیمت ان سے دستبردار ہونے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے

یہ افسانے درج ذیل معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں قطعی اور حقیقی سند کے عنوان سے در ج ہوئے ہیں ۔

۱۴۶

دو حمیری بھائیوں کے افسانہ کے راوی :

سیف نے مذکورہ دو بھائیوں کے افسانہ کو درج ذیل راویوں کی زبانی نقل کیا ہے :

١۔ محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ

٢۔ مھلب بن عطیہ اسدی

٣۔ غصن بن قاسم۔

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن ییوسفسلمی۔

مذکورہ سبھی راوی سیف کے جعل کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

ان دو بھائیوں کا افسانہ نقل کرنے والے علما:

١۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر بن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ۔

٣۔ ابن عساکر نے '' تاریخ دمشق'' میں ۔

٤۔ ابن فتحون نے کتاب' ' استیعاب ''کے حاشیہ پر ۔

٥۔ ابن اثیر نے '' اسد الغابہ '' میں

٦۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید میں ''

٧۔ ابن حجر نے کتاب '' اصابہ '' میں

٨۔ محمد حمید اللہ نے کتاب '' وثائق الساسبہ '' میں ۔

۱۴۷

مصادر و مآخذ

دو حمیری بھائیوں '' اقرع '' و جریر '' کے بارے میں سیف کی روایات :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨، ١٩٨٨، ١٩٩٨، ٢٠٤٩، ٢٠٥٢، ٢٠٥٥، ٢٠٧٠، ٢١٧٦، ٢٥٥٢، اور ٢٦١٩)

اقرع کے حالات

١۔ کتاب '' استیعاب ''' طبع حیدر آباد دکن (١ ٦٤ ) نمبر : ١٠٠

٢۔ اسد الغابہ ( ١ ١١٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' (١ ٢٦)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (١ ٧٣) نمبر : ٢٣٣

جریر حمیری کے حالات :

١۔ ابن اثیرکی '' اسد الغابہ '' (١ ٢٧٩)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٢٣٤)نمبر: ١١٣٧

تاریخ لکھنے کے سلسلہ میں عمر بن خطاب کا صلاح و مشورہ

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ٢٤٨٠)

جریر بن عبد اللہ بجلی کے بارے میں روایت اور اس کے حالات :

'' استیعاب '' ، اسد الغابہ ، اصابہ ، اور بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ( ص ٢٩٩، ٣٠٠، ٣٠١ ) ، قبیلہ ٔ بجیلہ پر جریر بن عبدا للہ بجلی کی حکمرانی:

١۔ تاریخ طبری (١ ٣٢٠٠ ۔ ٣٢٠٢)

۱۴۸

اڑتیسواں جعلی صحابی صلصل بن شرحبیل

صلصل ، ایک گمنام سفیر :

سیف کی اس روایت میں جس میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے نام آئے ہیں ، صلصل کے بارے میں یوں ذکر ہوا ہے :

صلصل بن شرحبیل کو '' سبرۂ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری ، اوربنی عمرو کے عمروبن الخفاجی '' کے پاس اپنی طرف سے سفیر بنا کر بھیجا ۔ ابن حجر نے ''صفوان بن صفوان اسید '' کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

اسی طرح سیف نے ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ابن عباس سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل بن شرحبیل کو اپنے ایلچی کے طور پر صفوان بن صفوان تمیمی ، وکیع بن عدس دارمی اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ انہیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دے ۔

ہم نے سیف کی ان دو روایتوں کے علاوہ ۔۔ جوخود اس صحابی کے نام کو خلق کرنے والا ہے ۔۔ صلصل کا نام کہیں اور نہیں پایا۔

کتاب ' استیعاب '' کے مصنف ابو عمر ، ابن عبد البر نے صلصل کے حالات کی تشریح میں لکھاہے:

۱۴۹

صلصل بن شرحبیل : میں نہیں جانتا کہ کس خاندان سے ہے۔ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا ، لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ اس کی خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے چند ایلچیوں کو روانہ کرنے کے ضمن میں آئی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے سفیر کے طور پر '' صفوان بن صفوان ١ ، سبرہ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری اور بنی عامر کے عمرو بن الخفاجی '' کے پاس بھیجا تھا ، وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک سفیر تھا ۔

ابن اثیر نے ، ابن عبد البر کی عین عبارت کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے '' تجرید '' میں صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اسے خلاصہ کرکے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کرکے یوں لکھا ہے :

اس کا ۔۔ صلصل بن شرحبیل۔۔ نام صفوان بن صفوان کے حالات کی تشریح میں گزرا ، ابو عمر ۔۔ استیعاب کامصنف ۔۔ کہتا ہے کہ میں اس کے خاندان کو نہیں جانتا اور مجھے اس کی روایت کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ان نامور علماء نے ، سیف کے خلق کردہ صلصل بن شرحبیل کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت سے اسی پر اکتفاء کیا ہے ۔ چونکہ سیف نے بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھاہے لہذا وہ بھی نہ اس کے نسب کے بارے میں اور نہ ہی اس کی روایتوں کے بارے میں اطلاع رکھتے ہیں ۔

____________________

١۔ صفوان کے باپ کا نام ابن عبدالبر کی کتاب '' استیعاب '' میں '' امیہ '' آیا ہے جو غلط ہے ۔ کیونکہ صفوان بن امیہ اسلام لانے کے بعد مکہ سے باہر نہیں نکلا ہے ۔ اس خبر کا مآخذ بھی سیف کی روایت ہے جس میں '' صفوان بن صفوان '' بتایا گیا ہے ۔

۱۵۰

انتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن محجوب عامری

جعلی روایتوں کا ایک سلسلہ

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی مذکورہ دو روایتوں پر مکمل اعتماد کرکے سیف کی ایک اور مخلوق '' عمرو بن محجوب عامری '' کو ایک مسلم حقیقت کے عنوان سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سیف نے اپنے خلق کردہ صحابی کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ عامری ہے ۔ اور یہ '' عامر '' کی طرف نسبت ہے جو قبائل '' ُمعد اور قحطانی '' کے خاندانوں سے متعلق ہے ۔

لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس صحابی کو ان قبیلوں میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔

عمرو بن محجوب کی داستان :

ہم نے دیکھا کہ طبری نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے ضمن میں سیف سے روایت کرکے صلصل کا نام لیا ہے اور اس کی ممور یتوں کے بارے میں یوں بیان کیا ہے کہ وہ پیغمبرا خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور تھا کہ '' بنی عامر عمرو بن محجوب اور عمرو بن خفاجی '' سے ملاقات کرے۔

ابن حجر نے '' اصابہ '' میں اس عمرو بن محجوب کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :

عمروبن محجوب عامری وہ صحابی ہے جسے ابن فتحون نے دریافت کیا ہے اور سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابن عباس سے دو سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ عمروبن محجوب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں میں سے تھا ، اور زیاد بن حنظلہ کے ذریعہ اسے فرمان دیا گیا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو ۔ ہم نے اس عمرو کا نام '' صفوان بن صفوان '' کے حالات پر روشنی ڈالنے کے ضمن میں ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس لحاظ سے عمرو بن محجوب کا نام سیف کی ایک روایت کے مطابق تاریخ طبری میں اور دو روایتوں کے مطابق سیف کی کتاب فتوح میں آیا ہے ،اور ابن حجر نے ان کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں نقل کیا ہے ۔

چوتھی روایت وہاں ہے جہاں ابن حجر نے صفوان کے حالات کی تشریح میں اس کا نام لیا ہے کہ ہم نے اسے صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔

۱۵۱

یہ امر قابل توجہ و دقت ہے کہ ان روایتوں میں سے ہر ایک دوسری پر ناظر اور اس کی مؤید شمار ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ عمرو بن محجوب عامری پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان گماشتوں اور کارندوں میں سے ہے کہ جس کی مموریت کے دوران اسے دو خط ملے ہیں ایک صلصل کے ذریعہ اور دوسرا زیاد بن حنظلہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے ذریعہ ، ان دو خطوط میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے شرک و ارتداد کے خلاف ثابت قدم رہنے کاحکم دیا ہے ۔

انہی روایتوں پر ، ابن فتحون اور ابن حجر جیسے علماء نے پوراا عتماد کر کے پہلے (ابن فتحون) ابن فتحون نے سیف کے اس جعلی صحابی کے حالات '' استیعاب ''کے حاشیہ میں درج کئے اور دوسرے (ابن حجر) نے اپنی معتبر کتاب اصابہ میں اس کیلئے مخصوص جگہ وقف کی ہے

چالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

مسیلمہ سے جنگ کی مموریت

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی انہی گزشتہ روایتوں پر اعتماد کرکے ، عمرو بن خفاجی عامری کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ کے لئے ایک فصل مخصوص کی ہے اور اس فصل میں نمبر : ٥٨٢٧ حرف '' ع'' کے تحت لکھا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری ، اس کا نام صلصل بن شرحبیل کے حالات میں آیا ہے ۔ '' رشاطی'' ١نے لکھا ہے کہ وہ ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک خط کے ذریعہ اسے اور عمرو بن محجوب کو حکم دیا کہ وہ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ انہی مطالب کو طبری نے بھی نقل کیا ہے ۔

____________________

١۔ رشاطی ، ابو محمد عبدا للہ بن علی بن عبد اللہ بن خلف لخمی اندلسی ایک عالم ، محدث، فقیہ ،مؤرخ ، نسب شناس ، ادیب اور لغت شناس تھا، رشاطی ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی سال(٤٦٦ ھ ۔ ١٠٧٤ء )میں ''ادریولہ '' مرسیہ میں پیدا ہوا ۔ اور جمادی الاول یا جمادی الثانی سال ٥٤٢ ھ = ١١٤٧ئ) میں رومیوں کے حملے میں اپنے وطن میں ہی قتل ہوا ۔ اس کی تصنیفات میں '' اقتباس الانوار و التماس الازہار'' یہ کتاب انساب صحابہ اور روات اخبار کے بارے میں ہے اور دوسری کتاب '' المؤتلف '' قابل ذکر ہیں ، معلوم کہ ان دو کتابوں میں سے کس میں اس نے '' عمرو'' کے حالات لکھے ہیں !!۔

۱۵۲

سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ جو صحابی مرتدوں سے جنگ کرنے کے بارے میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خط عمروبن خفاجی کے نام لایا تھا۔ وہ زیاد بن حنظلہ تھا (ز)

ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر کے حرف (ز) لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی کے حالات دوسروں کے مقابلہ میں اس نے دریافت کئے ہیں ۔

۱۵۳

اکتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

ابن حجر کی غلط فہمی سے وجود میں آیا ہوا صحابی

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' کے تیسرے حصہ کو ان اصحاب سے مخصوص رکھا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں زندہ تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور دیدار سے شرفیاب نہیں ہوئے تھے وہ حرف '' ع'' کے تحت لکھتا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری : سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ اور عمرو بن محجوب عامری کو پیغام بھیجا اور انھیں ممور فرمایا وہ کہ مسیلمۂ کذاب سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن فتحون نے اس کے نام کو دوسرے مصادر سے دریافت کیا ہے (ز)۔

اس طرح ابن حجر جیسے مشہور علامّہ نے بھی غلط فہمی کا شکار ہوکر '' عمرو بن خفاجی '' کے حالات اپنی کتاب میں دو جگہوں پر لکھے ہیں ۔

جبکہ خودسیف جو اس شخص کا افسانہ گڑھنے کرنے والا ہے ، نے اسے صرف ایک شخص جعل کیا ہے۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری میں عمرو بن خفاجی کا نسب '' بنی عمرو '' لکھا گیا ہے ۔ جبکہ ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں صلصل کے حالات کی تشریح میں یہ نسب (بنی عامر ) ذکر ہوا ہے ۔

اس داستان کا خلاصہ اور نتیجہ

سیف بن عمر نے اپنے ایک ہی مقصد کو اپنی دو بناوٹی روایتوں میں بیان کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل نام کے ایک شخص کو قاصد و ایلچی کے طور پر اپنے گماشتوں اور کارندوں کے پاس بھیجا اور اسے علاقہ کے مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ سیف کی اسی ایک جھوٹی داستان کے نتیجہ میں علماء نے اس کے افسانوی صحابیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں شمار کیا ہے اور درج ذیل جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات لکھے ہیں :

١۔ صلصل بن شرحبیل

٢۔ عمروبن محجوب عامری

٣۔ عمروبن خفاجی عامری

٤۔ عمرو بن خفاجی عامری

۱۵۴

صفوان بن صفوان

ہمیں اس صفوان بن صفوان کے سیف کے جعلی صحابی ہونے پر شک ہے ، اگر ایسے شخص کو سیف نے خلق بھی نہ کیا ہوپھر بھی اس کا صحابی ہونا سیف بن عمر کے خلق کرنے سے کچھ کم نہیں ہے ۔

جو کچھ بیان ہوا اس کے علاوہ سیف نے اپنی جعلی روایتوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں ہی مسلمانوں کے اسلام سے منہ موڑنے کی بات کی ہے ۔ اس نے ان جھوٹے اور بے بنیاد مطالب کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں بہانہ فراہم کیاہے کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ اسلام نے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور اس زمانے کے قبائل کے لوگوں کے وجود کی گہرائیوں میں اسلام نے اثر نہیں ڈالا تھا ، اسی لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ہی اسلام کے مقابلے میں آکر تلوار کھینچیلی ہے!

پھر یہی سیف کی روایتیں اور جھوٹ کے پلندے اور ارتداد کی جنگوں کی منظر کشی ، قارئین کے ذہن کو یہ قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام نے ایک بار پھر ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں تلوار کی نوک پر اور بے رحمانہ قتل عام کے نتیجہ میں استحکام حاصل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا ''میں مفصل بحث و تحقیق کی ہے ۔

سر انجام ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق انہی جھوٹ اور افسانوں کو مکتب خلفاء کے پیرؤ علماء نے حسبذیل معتبر مآخذ میں درج کیا ہے :

١۔ امام المؤرخین ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ، ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں

٣۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن فتحون نے ، استیعاب کے ذیل میں ۔

٥۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ۔

٦۔ رشاطی نے '' انساب الصحابہ'' میں ۔

٧۔ ذہبی نے ''تجرید'' میں ۔

٨۔ ابن حجر نے '' الاصابہ'' میں ۔

۱۵۵

مصادر و مآخذ

صلصل کے حالات :

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدر آباد دکن ( ١ ٣٢٥) نمبر : ١٤١٨

٢۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٣ ٢٩)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '(١ ٢٨٢)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ١٨٧) نمبر : ٤٠٩٩

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨) ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

صفوان بن صفوان کے حالات

١۔ ابن حجرکی '' اصابہ ''(٢ ١٨٣) نمبر : ٤٠٧٦

عمر و بن محجوب عامری کے حالات

١۔ابن حجر کی اصابہ (١٥٣) نمبر ١٩٥٦

٢۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨)

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ٥٢٨) نمبر : ٥٨٢٧

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١١٤) نمبر: ٦٤٨٤

۱۵۶

بیالیسواں اور تینتالیسواں جعلی صحابی عوف ورکانی اور عویف زرقانی

سیف کی ایک مخلوق تین روپوں میں

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں یوں لکھا ہے :

...اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ضرار بن ازور اسدی'' کو اپنے ایلچی کے طور پر قبیلۂ بنی صیدا کے '' عوف زرقانی'' اور اور قضاعی دئلی کے پاس بھیجا۔

عوف کا نسب

سیف بن عمر نے اپنے صحابی عوف کو بنی صیداء سے جعلی کیا ہے جس قبیلہ کے سردار کا نام ''عمرو بن قعین بن حرث بن ثعلبہ بن دودان بن خزیمہ '' ہے ۔ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا طلیحہ بھی اسدی ہے جو بنی صیدا کا ایک قبیلہ ہے۔

عوف ورکانی کی داستان

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں دو صحابیوں کے حالات کی تشریح یکے بعد دیگر آئی ہے ۔ ان میں سے ایک نمبر ٦١٠٨ کے تحت یوں درج ہے:

عوف ورکانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو اپنے ایلچی کے طور پر اس کے پاس بھیجا اور اسے مرتدوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حکم دیا ہے ۔

اس کی داستان کو سیف بن عمر نے ذکر کیا ہے ہم نے اس کے مآخذ کا صلصل کی داستان کے ضمن میں اشارہ کیا ہے ۔

عویف ورقانی

اس کے بعد ابن حجر نمبر ٦١١٣ کے تحت عویف ورقانی کے حالات اس طرح لکھتا ہے:

سیف ارتدار کی خبروں میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:کہ جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پیغمبری کے مدعی طلیحہ کی بغاوت اور قیام کی خبر ملی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عویف ورقانی کو اس سے جنگ کرنے اور اس سے دفاع کرنے پر مامور فرمایا۔

۱۵۷

عوف ورقانی

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید '' میں عوف ورقانی نامی ایک صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :

جب پیغمبری کے مدعی طلیحہ کا مسئلہ زور پکڑنے لگا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' عوف ورقانی '' کی قیادت میں ایک فوج کو اس مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے روانہ فرمایا۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مکتب خلفاء کے پیرو جن علماء نے تین افراد کے حالات لکھے ہیں ، وہ سب کے سب سیف کی ایک روایت پر مبنی ہیں ، اس طرح کہ '' عوف '' کا نام بعض نسخوں میں '' عویف '' لکھا گیا ہے اور اس کی شہرت '' زرقانی '' سے ''ورقانی '' اور پھر '' ورکانی '' لکھی گئی ہے ۔ اس طرح سیف کا خلق کردہ ایک صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تین صحابیوں کے روپ میں مجسم ہوا ہے۔

جی ہاں ، یہ سب سیف کی روایتوں کے وجود کی برکت کا نتیجہ ہیں جو مکتب خلفا کے علماء کے قلموں کے ذریعہ کر ان کی کتابوں میں درج ہوئے ہیں !!

قضاعی بن عمرو سے متعلق ایک داستان

تاریخ طبری میں ذکر ہوئی سیف کی روایت میں آیا ہے کہ قضاعی بن عمرو کا تعارف دئلی کے طور پر کیا گیا ہے اور یہ شہرت '' دئلی'' عرب کے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس '' دئلی'' سے سیف کا مقصود کون سا عرب قبیلہ ہے ۔

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں ' ' قضاعی بن عمرو'' کا نام یوں آیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے واپسی پر '' سنان بن ابی سنان '' اور ''قضاعی بن عمرو'' کو قبیلہ بنی اسد کی طرف مموریت پر بھیجا۔

قضائی کی مموریت کی جگہ کے بارے میں '' تاریخ طبری'' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے:

قضائی بن عمرو ، بنی حرث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ بنی حرث سے سیف کا مقصود دو دان بن اسد کا پوتا بنی حارث ہے ۔

تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے منقول ہے کہ :

۱۵۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو ایلچی کے طور پر '' سنان بن ابی سنان '' اور '' قضاعی بن عمرو'' ۔۔ جو بنی اسد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے تھے ۔۔ کے پاس بھیجا اور انھیں طلیحہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ لکھتا ہے :

ضرار ، قضاعی ، سنان اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بنی اسد میں دیگر کا رندے جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مسئولیت کا عہدہ دار تھا ، سب کے سب طلیحہ کے ڈر سے بھاگ کر مدینہ ابو بکر کے پاس پہنچ گئے اور روداد ابو بکر سے بیان کی ان کے دیگر حامی اور دوست وا حباب بھی طلیحہ سے ڈر کر مختلف اطراف میں بھاگ گئے۔

طبری نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ پر سیف سے نقل کرکے ١٦ ھ میں جلولا کی جنگ کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

اور سعد بن ابی وقاص نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو قضاعی کے ہاتھ مدینہ میں خلیفۂ عمر کے پاس بھیجدیا۔

سیف کی روایتوں میں قضاعی بن عمرو کی داستان یہی تھی کہ جسے ہم نے بیان کیا ۔

افسانۂ قضاعی کے مآخذ اور راویوں کی پڑتال

سیف نے قضاعی کی داستان میں درج ذیل نام بعنوان راوی بیان کئے ہیں :

١۔ سعید بن عبید۔

٢۔ حریث بن معلی۔

٣۔ حبیب بن ربیعۂ اسدی۔

٤۔ عمارة بن فلان اسدی۔

٥۔ اور چند دوسرے مجہول الہویہ راوی کہ سب سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جی ہاں علماء نے اس اعتماد کے پیش نظر جو وہ سیف کی روایتوں پر رکھتے تھے، قضاعی بن عمرو کو صحابی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابیسمجھا اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۵۹

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قضاعی بن عمر : سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ وہ خاندان بنی اسد میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا ۔ابن دباغ نے اس کا نام لیا ہے اور اس کے عبد البر کی کتاب ''استیعاب '' میں موجود ہونے کا تصور کیا ہے، اورخدا بہتر جانتا ہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ)

بہر حال ہم نے اس قضاعی کے نام کو جعلیصحابیوں کی فہرست سے حذف کر دیا ہے ، کیونکہ ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں اس کے ہم نام کا ذکر کرکے اس کے نسب کو ' بنی عذر ہ '' بتایا ہے۔ ابن سعد نے اس کے بارے میں اپنی بات کا آغاز یوں کیا ہے

... الحدیث

لیکن مذکورہ حدیث ذکر نہیں کی ہے اور نہ اس کا کوئی مآخذ بیان کیا ہے ۔

۱۶۰