ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130738 / ڈاؤنلوڈ: 4462
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

'' ( و انزلنا اليك الذكر لتبين للناس ما نزّل اليهم ) ''(۱)

اور آپ (ص) كى طرف قرآن كو نازل كيا تا كہ لوگوں كيلئے جواحكام آئے ہيں انہيں بيان كرديں_

اس حقيقت كو ديكھتے ہوئے كہ آنحضرت (ص) مختلف مناصب كے حامل تھے معلوم ہوتاہے كہ عبدالرازق كى پيش كردہ آيات ميں موجود '' حصر'' حقيقى نہيں بلكہ ''اضافي'' ہے _ حصر اضافى كا مطلب يہ ہے كہ جب سامنے والا يہ سمجھ رہا ہو كہ موصوف دو صفتوں كے ساتھ متصف ہے تو متكلم تاكيداً مخاطب پر يہ واضح كرتا ہے كہ نہيں موصوف ان ميں سے صرف ايك صفت كے ساتھ متصف ہے _ مثلاً لوگ يہ سمجھتے تھے كہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى پيام الہى كا پہنچانا بھى اور لوگوں كو زبردستى ہدايت كى طرف لانا بھى ہے_ اس و ہم كو دور كرنے كيلئے آيت نے حصر اضافى كے ذريعہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كو پيام الہى كے ابلاغ ميں منحصر كر ديا ہے اور فرمايا ہے :( ''و ما على الرسول الا البلاغ'' ) اور رسول كے ذمہ تبليغ كے سوا كچھ نہيں ہے(۲) يعنى پيغمبر اكرم (ص) كا كام لوگوں كو زبردستى ايمان پر مجبور كرنا نہيں ہے بلكہ صرف خدا كا پيغام پہنچانا اور لوگوں كو راہ ہدايت دكھانا ہے_ لوگ خود راہ ہدايت كو طے كريں اور نيك كاموں كى طرف بڑھيں_ پس آنحضرت (ص) لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہيں بلكہ صرف راہ ہدايت دكھانے كے ذمہ دا ر ہيں آنحضرت (ص) صرف ہادى ہيں اور لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہے _ بلكہ لوگ خود ہدايت حاصل كرنے اور نيك اعمال بجا لانے كے ذمہ دار ہيں_ اس حقيقت كو آيت نے حصر اضافى كے قالب ميں يوں بيان فرمايا ہے_(۳)

____________________

۱) سورہ نحل آيت۴۴_

۲) سورہ نورآيت ۵۴_

۳) تفسير ميزان ج ۱۲ ، ص ۲۴۱، ۲۴۲ سورہ نحل آيت ۳۵ كے ذيل ميں _ ج ۱۰ ص ۱۳۳ سورہ يونس آيت نمبر۱۰۸ كے ذيل ميں _

۸۱

( ''فمن اهتدى فانما يهتدى لنفسه و من ضل فانما يضّل عليها و ما انا عليكم بوكيل'' ) (۱)

پس اب جو ہدايت حاصل كرے گا وہ اپنے فائدہ كيلئے كرے گا اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنے آپ كا نقصان كرے گا اور ميں تمہارا ذمہ دار نہيں ہوں _

بنابريں عبدالرازق سے غلطى يہاں ہوئي ہے كہ انہوں نے مذكورہ آيات ميںحصر كو حقيقى سمجھا ہے اور ان آيات ميں مذكورمخصوص صفت كے علاوہ باقى تمام اوصاف كى آنحضرت (ص) سے نفى كى ہے_ حالانكہ ان آيات ميںحصر'' اضافي'' ہے بنيادى طور پريہ آيات دوسرے اوصاف كو بيان نہيں كررہيںبلكہ ہر آيت صرف اس وصف كى نفى كر رہى ہے جس وصف كا وہم پيدا ہوا تھا_

دوسرى دليل كا جواب :

ظہور اسلام سے پہلے كى تاريخ عرب كااگر مطالعہ كيا جائے تو يہ حقيقت واضح ہوجاتى ہے كہ ظہور اسلام سے پہلے جزيرہ نما عرب ميں كوئي منظم حكومت نہيں تھى _ ايسى كوئي حكومت موجود نہيں تھى جو ملك ميں امن و امان برقرار كر سكے اور بيرونى دشمنوں كا مقابلہ كر سكے صرف قبائلى نظام تھا جو اس وقت اس سرزمين پر رائج تھا_ اس دور كى مہذب قوموں ميں جو سياسى ڈھانچہ اور حكومتى نظام موجود تھا جزيرة العرب ميں اس كا نشان تك نظر نہيں آتا _ ہر قبيلے كا ايك مستقل وجود اور رہبر تھا_ ان حالات كے باوجود آنحضرت (ص) نے جزيرة العرب ميں كچھ ايسے بنيادى اقدامات كئے جو سياسى نظم و نسق اور تأسيس حكومت كى حكايت كرتے ہيں حالانكہ اس ماحول ميں كسى مركزى حكومت كا كوئي تصور نہيں تھا_ يہاں ہم آنحضرت (ص) كے ان بعض اقدامات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو آپ (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كے قيام پر دلالت كرتے ہيں_

____________________

۱) سورہ يونس آيت نمبر۱۰۸_

۸۲

الف _ آنحضرت (ص) نے مختلف اور پراگندہ قبائل كے درميان اتحاد قائم كيا _ يہ اتحاد صرف دينى لحاظ سے نہيں تھا بلكہ اعتقادات اور مشتركہ دينى تعليمات كے ساتھ ساتھ سياسى اتحاد بھى اس ميں شامل تھا _ كل كے مستقل اور متخاصم قبائل آج اس سياسى اتحاد كى بركت سے مشتركہ منافع اور تعلقات كے حامل ہوگئے تھے_ اس سياسى اتحاد كا نماياں اثر يہ تھا كہ تمام مسلمان قبائل غير مسلم قبائل كيساتھ جنگ اور صلح كے موقع پر متحد ہوتے تھے_

ب _ آنحضرت (ص) نے مدينہ كو اپنا دارالحكومت قرار ديا اور وہيں سے دوسرے علاقوں ميں والى اور حكمران بھيجے طبرى نے ايسے بعض صحابہ كے نام ذكر كئے ہيں_ اُن ميں سے بعض حكومتى امور كے علاوہ دينى فرائض كى تعليم پر بھى مامور تھے جبكہ بعض صرف اس علاقہ كے مالى اور انتظامى امور سنبھالنے كيلئے بھيجے گئے تھے جبكہ مذہبى امور مثلانماز جماعت كا قيام اور قرآن كريم اور شرعى احكام كى تعليم دوسرے افراد كى ذمہ دارى تھى _

طبرى كے بقول آنحضرت (ص) نے سعيد ابن عاص كو ''رمَعْ و زبيد '' كے درميانى علاقے پر جو نجران كى سرحدوں تك پھيلا ہوا تھا عامر ابن شمر كو ''ہمدان ''اور فيروز ديلمى كو ''صنعا ''كے علاقے كى طرف بھيجا _ اقامہ نماز كيلئے عمرو ابن حزم كو اہل نجران كى طرف بھيجا جبكہ اسى علاقہ سے زكات اور صدقات كى جمع آورى كيلئے ابوسفيان ابن حرب كو مامور فرمايا_ ابو موسى اشعرى كو ''مأرب ''اور يعلى ابن اميہ كو ''الجند ''نامى علاقوں كى طرف روانہ كيا(۱)

ج _ مختلف علاقوں كى طرف آنحضرت (ص) كا اپنے نمائندوںكو خطوط ديكر بھيجنا اس بات كى واضح دليل ہے كہ آپ (ص) نے اپنى قيادت ميں ايك وسيع حكومت قائم كى تھى _ ان ميں سے بعض خطوط اور عہد نامے ايسے ہيں جو دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے ان افراد كو حاكم اور والى كے عنوان سے بھيجا تھا_ عمرو بن حزم

____________________

۱) تاريخ طبرى ( تاريخ الرسل و الملوك ) ج ۳ ص ۳۱۸_

۸۳

كو آپ نے حكم نامہ ديا تھا اس ميں آپ (ص) نے لكھا تھا :لوگوں سے نرمى سے پيش آنا ليكن ظالموں سے سخت رويہ ركھنا _ غنائم سے خمس وصول كرنا اور اموال سے زكات ان ہدايات كے مطابق وصول كرنا جو اس خط ميں لكھى گئي ہيں (۱) واضح سى بات ہے كہ ايسے امور حاكم اور والى ہى انجام دے سكتا ہے_

د _ آنحضرت (ص) كے ہاتھوں حكومت كے قيام كى ايك اور دليل يہ ہے كہ آپ (ص) نے مجرموں اور ان افراد كيلئے سزائيں مقرر كيں جو شرعى حدود كى پائمالى اور قانون شكنى كے مرتكب ہوتے تھے اور آپ (ص) نے صرف اخروى عذاب پر اكتفاء نہيں كيا اورحدود الہى كا نفاذ اور مجرموں كيلئے سزاؤں كا اجراحكو متى ذمہ داريوں ميں سے ہيں_

ہ_ قرآن كريم اور صدر اسلام كے مومنين كى زبان ميں حكومت اور سياسى اقتدار كو لفظ''الامر''سے تعبير كيا جاتا تھا_

''( و شاورهم فى الامر'' ) (۲) اور اس امر ميں ان سے مشورہ كرو _( ''و امرهم شورى بينهم'' ) (۳) اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں _

اگر آنحضرت (ص) كى رہبرى اور قيادت صرف دينى رہبرى ميں منحصر تھى تو پھر رسالت الہى كے ابلاغ ميں آپ (ص) كو مشورہ كرنے كا حكم دينا ناقابل قبول اور بے معنى ہے لہذا ان دو آيات ميں لفظ ''امر'' سياسى فيصلوں اور معاشرتى امور كے معنى ميں ہے_

____________________

۱) اس خط كى عبارت يہ تھى _''امره ان ياخذ بالحق كما امره الله ، يخبر الناس بالذى لهم و الذى عليهم ، يلين للناس فى الحق و يشتدّ عليهم فى الظلم ، امره ان ياخذ من المغانم خمس الله ''

ملاحظہ ہو: نظام الحكم فى الشريعة و التاريخ الاسلامى ، ظافر القاسمي، الكتاب الاول ص ۵۲۹_

۲) سورہ العمران آيت ۱۵۹_

۳) سورہ شورى آيت ۳۸_

۸۴

خلاصہ :

۱) آنحضرت (ص) اپنى امت كے قائد تھے اور تمام مسلمان قائل ہيں كہ آپ نے حكومت تشكيل دى تھى _ موجودہ دور كے بعض مسلمان مصنفين آپ (ص) كى دينى قيادت كے معترف ہيں ليكن تشكيل حكومت كا انكار كرتے ہيں_

۲) آپ (ص) كى حكومت كے بعض منكرين نے ان آيات كا سہارا ليا ہے جو شان پيغمبر كو ابلاغ وحى ، بشارت دينے اور ڈرانے والے ميں منحصر قرار ديتى ہيں اور ان آيات ميں آپ كى حاكميت كاكوئي تذكرہ نہيں ہے_

۳) ان آيات سے'' حصر اضافي'' كا استفادہ ہوتا ہے نہ كہ'' حصر حقيقي'' كا _ لہذايہ آنحضر ت (ص) كے سياسى اقتدار كى نفى كى دليل نہيں ہيں_

۴)بعض منكرين كى دوسرى دليل يہ ہے كہ مسلمانوں پر آپ (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين امور بھى نہيں پائے جاتے جو ايك حكومت كى تشكيل كيلئے انتہائي ضرورى ہوتے ہيں_

۵) تاريخ شاہد ہے كہ آنحضرت (ص) نے اس دور كے اجتماعى ، ثقافتى اور ملكى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے حكومتى انتظامات كئے تھے_

۶) مختلف علاقوں كى طرف صاحب اختيار نمائندوں كا بھيجنا اور مجرموں كيلئے سزائيں اور قوانين مقرر كرنا آنحضرت (ص) كى طرف سے تشكيل حكومت كى دليل ہے_

۸۵

سوالات :

۱) آنحضرت (ص) كى زعامت اور رياست كے متعلق كونسى دو اساسى بحثيں ہيں؟

۲) آنحضرت (ص) كے ہاتھوں تشكيل حكومت كى نفى پر عبدالرازق كى پہلى دليل كونسى ہے؟

۳) عبدالرازق كى پہلى دليل كے جواب كو مختصر طور پر بيان كيجئے_

۴)عبدالرزاق كى دوسرى دليل كيا ہے ؟

۵) آنحضرت (ص) كے ذريعے تشكيل حكومت پر كونسے تاريخى شواہد دلالت كرتے ہيں؟

۸۶

دسواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تأسيس حكومت -۲-

محمد عابد الجابرى نامى ايك عرب مصنف آنحضرت (ص) كى دينى حكومت كى نفى كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ آپ (ص) نے كوئي سياسى نظام اور دينى حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ آپ (ص) كى پورى كوشش ايك ''امت مسلمہ ''كى تاسيس تھى _ آپ (ص) نے كوئي حكومت قائم نہيں كى تھى بلكہ آپ (ص) نے لوگوں ميں ايك خاص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى كو رائج كيا اور ايسى امت كو وجود ميں لائے جو ہميشہ دين الہى كى حفاظت كيلئے كوشش كرتى رہى اور اسلام اور بعثت نبوى كى بركت سے ايك منظم معنوى اور اجتماعى راہ كو طے كيا_ اس معنوى و اجتماعى راہ كى توسيعكى كوششوں اور امت مسلمہ كى پرورش كے باوجود آنحضرت (ص) نے اپنے آپ (ص) كو بادشاہ ، حكمران يا سلطان كا نام نہيں ديا _ بنابريںدعوت محمدى سے ابتدا ميں ايك ''امت مسلمہ'' وجود ميں آئي پھر امتداد زمانہ كے ساتھ ايك خاص سياسى ڈھانچہ تشكيل پايا جسے اسلامى حكومت كا نام ديا گيا _ سياسى نظم و نسق اور

۸۷

حكومت كى تشكيل عباسى خلفا كے عہد ميں وقوع پذير ہوئي _ صدر اسلامكےمسلمان اسلام اور دعوت محمدى كو دين خاتم كے عنوان سے ديكھتے تھے نہحكومت كے عنوان سے_ اسى لئے ان كى تمام تر كوشش اس دين كى حفاظت اور اس امت مسلمہ كى بقا كيلئےرہى نہ كہ سياسى نظام اور نوزائيدہ مملكت كى حفاظت كيلئے_ صدر اسلام ميں جو چيز اسلامى معاشرے ميں وجود ميں آئي وہ امت مسلمہ تھى پھر اس دينى پيغام اور الہى رسالت كے تكامل اور ارتقاء سے دينى حكومت نے جنم ليا_

عابد جابرى نے اپنے مدعا كى تائيد كيلئے درج ذيل شواہد كا سہارا ليا ہے_

الف _ زمانہ بعثت ميں عربوںكے پاس كوئي مملكت اور حكومت نہيں تھى _ مكہ اور مدينہ ميں قبائلى نظام رائج تھا جسے حكومت نہيں كہا جا سكتا تھا كيونكہ حكومت كا وجود چند امور سے تشكيل پاتا ہے: اس سرزمين كى جغرافيائي حدود معين ہوں ،لوگ مستقل طور پر وہاں سكونت اختيار كريں_ايك مركزى قيادت ہو جو قوانين كے مطابق ان لوگوں كے مسائل حل كرے _جبكہ عرب ميں اس قسم كى كوئي شئے موجود نہيں تھي_

ب _ آنحضرت (ص) نے اس دينى اور معاشرتى رسم و رواج اور طرز زندگى كى ترويج كى جسے اسلام لايا تھا اور خود كو حكمران يا سلطان كہلو انے سے اجتناب كيا _

ج _ قرآن مجيد نے كہيں بھى اسلامى حكومت كى بات نہيں كى بلكہ ہميشہ امت مسلمہ كا نام ليا ہے ''و كنتم خير امّة ا ُخرجت للناس''تم بہترين امت ہو جسے لوگوں كيلئے لايا گيا ہے_(۱)

د _ حكومت ايك سياسى اصطلاح كے عنوان سے عباسى دور ميں سامنے آئي _ اس سے پہلے صرف'' امت مسلمہ '' كا لفظ استعمال كيا جاتا تھا جب امويوں سے عباسيوں كى طرف اقتدار منتقل ہوا تو ان كى اور ان

____________________

۱) سورہ آل عمران آيت ۱۱۰_

۸۸

كے حاميوں كى زبان پر'' ہذہ دولتنا'' ( يہ ہمارى حكومت ہے) جيسے الفاظ جارى ہوئے جو كہ دين و حكومت كے ارتباط كى حكايت كرتے ہيں اور امت كى بجائے حكومت اور رياست كا لفظ استعمال ہونے لگا _ (۱)

جابرى كے نظريئےکا جواب :

گذشتہ سبق كا وہ حصہ جو عبدالرازق كى دوسرى دليل كے جواب كے ساتھ مربوط ہے جابرى كے اس نظريہ كے رد كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ يہاں ہم جابرى كے نظريہ كے متعلق چند تكميلى نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱_ اسلام اور ايمان كى بركت سے عرب كے متفرق اور مختلف قبائل كے درميان ايك امت مسلمہ كى تشكيل اور ايك مخصوص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى اس سے مانع نہيں ہے كہ يہ امت ايك مركزى حكومت قائم كر لے _كسى كو بھى اس سے انكار نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) مختلف اور متعدد قبائل سے'' امت واحدہ'' كو وجود ميں لائے_ بحث اس ميں ہے كہ يہ امت سياسى اقتداراور قدرت كى حامل تھى _ حكومت كا عنصراس امت ميں موجود تھا اور اس حكومت اور سياسى اقتدار كى قيادت و رہبرى آنحضرت (ص) كے ہاتھ ميں تھى _

گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم نے جو شواہد بيان كئے ہيں وہ اس مدعا كو ثابت كرتے ہيں_

۲_ عبدالرازق اور جابرى دونوں اس بنيادى نكتہ سے غافل رہے ہيں: كہ ہر معاشرہ كى حكومت اس معاشرہ كے مخصوص اجتماعى اور تاريخى حالات كى بنياد پر تشكيل پاتى ہے_ ايك سيدھا اور سادہ معاشرہ جو كہ پيچيدہ مسائل كا حامل نہيں ہے اس كى حكومت بھى طويل و عريض اداروں پر مشتمل نہيں ہوگى _جبكہ ايك وسيع معاشرہ جو كہ مختلف اجتماعى روابط اور پيچيدہ مسائل كا حامل ہے واضح سى بات ہے اسے ايك ايسى حكومت

____________________

۱) الدين و الدولہ و تطبيق الشريعة محمد عابد جابرى ص ۱۳_ ۲۴ _

۸۹

كى ضرورت ہے جو وسيع انتظامى امور اور اداروں پر مشتمل ہوتا كہ اس كے مسائل حل كر سكے _ جس غلط فہمى ميں يہ دو افراد مبتلا ہوئے ہيں وہ يہ ہے كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كے دور كے اجتماعى حالات پر غور نہيں كيا _ انہوں نے حكومت كے متعلق ايك خاص قسم كا تصور ذہن ميں ركھا ہے لہذا جب آنحضرت (ص) كے دور ميں انہيں حكومت كے متعلق وہ تصور نہيں ملا توكہنے لگے آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى بلكہ عباسيوں كے دور ميں ا سلامى حكومت وجود ميں آئي _

يہ نظريہ كہ جس كا سرچشمہ عبدالرازق كا كلام ہے كى ردّ ميں ڈاكٹر سنہورى كہتے ہيں :

عبد الرازق كى بنيادى دليل يہ ہے كہ ايك حكومت كيلئے جو انتظامى امور اور ادارے ضرورى ہوتے ہيں_ وہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں نہيںتھے_ ليكن يہ بات عبدالرازق كے اس مدعاكى دليل نہيں بن سكتى كہ آپ (ص) كے دور ميں حكومت كا وجود نہيں تھا_ كيونكہ اس وقت جزيرة العرب پر ايك سادہ سى طرز زندگى حاكم تھى جو اس قسم كے پيچيدہ اور دقيق نظم و نسق كى روادار نہيں تھى لہذا اس زمانہ ميں جو بہترين نظم و نسق ممكن تھا آنحضرت (ص) نے اپنى حكومت كيلئے قائم كيا _ پس اس اعتراض كى كوئي گنجائشے نہيں رہتى كہ ''اگر آپ نے حكومت تشكيل دى تھى تو اس ميں موجود ہ دور كى حكومتوں كى طرح كا نظم و نسق اور انتظامى ادارے كيوں نہيں ملتے_ كيونكہ اس قسم كانظم و نسق اور طرز حكومت آنحضرت (ص) كے زمانہ كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا تھا ليكن اس كے باوجود آپ نے اپنى اسلامى حكومت كيلئے ماليات ، قانون گذارى ، انتظامى امور اور فوجى ادارے قائم كئے_(۱)

۳_ ہمارا مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) سياسى اقتدار اور ايك مركزى حكومت كى ماہيت كو وجود ميں لائے_ ہمارى بحث اس ميں نہيں ہے كہ اس وقت لفظ حكومت استعمال ہوتا تھا يا نہيں يا وہ الفاظ جو كہ عموماً حكمران

____________________

۱) ''فقہ الخلافة و تطورہا ''عبدالرزاق احمد سنہورى ص ۸۲_

۹۰

استعمال كرتے تھے مثلاً امير ، بادشاہ يا سلطان و غيرہ آنحضرت (ص) نے اپنے لئے استعمال كئے يا نہيں؟تاكہ جابرى صرف اس بنا پر كہ آپ (ص) نے خود كو حكمران يا بادشاہ نہيںكہلوايا ياعباسيوں كے دور ميں ''ہمارى حكومت '' جيسے الفاظ رائج ہوئے تشكيل حكومت كو بعد والے ادوار كى پيداوار قرار ديں_

وہ تاريخى حقيقت كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كے دور ميں مدينہ ميں سياسى اقتدار وجود ميں آچكا تھا _ البتہ يہ حكومت جو كہ اسلامى تعليمات كى بنياد پر قائم تھى شكل و صورت اور لوگوں كے ساتھ تعلقات ميں اس دور كى دوسرى مشہور حكومتوں سے بہت مختلف تھى _

آنحضرت (ص) كى حكومت كا الہى ہونا :

اس نكتہ كى وضاحت كے بعد كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت تشكيل دى تھى اور آپ كى رسالت اور نبوت سياسى ولايت كے ساتھ ملى ہوئي تھى _ اس اہم بحث كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ آنحضرت (ص) كو يہ حكومت اور سياسى ولايت خداوند كريم كى طرف سے عطا ہوئي تھى يا اس كا منشأ رائے عامہ اور بيعت تھى ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا آ پ (ص) كى سياسى ولايت كا منشأدينى تھا يا عوامى اورمَدني؟

اس سوال كا جواب اسلام اور سياست كے رابطہ كى تعيين ميں اہم كردار ادا كرے گا _ اگر آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور حكومت كا منشا دينى تھا_ اور يہ منصب آپ (ص) كو خدا كى طرف سے عطا كيا گيا تھا تو پھر اسلام اور سياست كا تعلق'' ذاتي'' ہوگا _ بايں معنى كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں حكومت پر توجہ دى ہے اور مسلمانوں سے دينى حكومت كے قيام كا مطالبہ كيا ہے لہذا آنحضرت (ص) نے اس دينى مطالبہ پر لبيك كہتے ہوئے حكومت كى تشكيل اور مسلمانوں كے اجتماعى اور سياسى امور كے حل كيلئے اقدام كيا ہے_ اور اگر آنحضرت (ص) كى حكومت اور سياسى ولايت كا منشأ و سرچشمہ صرف لوگوں كى خواہش اور مطالبہ تھا تو اس صورت ميں اسلام اور حكومت كے درميان تعلق ايك ''تاريخى تعلق ''كہلائے گا _ اس تاريخى تعلق سے مراد يہ

۹۱

ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں دينى حكومت كى تشكيل كا مطالبہ نہيں كيا اور آنحضرت (ص) كيلئے سياسى ولايت جيسا منصب يا ذمہ دارى قرار نہيں دى بلكہ رسولخدا (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كا قيام ايك تاريخى واقعہ تھا جو اتفاقاً وجود ميں آگيا _ اگر مدينہ كے لوگ آپ(ص) كو سياسى قائد كے طور پر منتخب نہ كرتے اور آپ (ص) كى بيعت نہ كرتے تو اسلام اورحكومت كے درميان اس قسم كا تعلق پيدا نہ ہوتا كيونكہ اس نظريہ كے مطابق اسلام اور سياست كے درميان كوئي ''ذاتى تعلق'' نہيں ہے اور نہ ہى اس دين ميں سياسى ولايت كے متعلق اظہار رائے كياگيا ہے _

اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں :

آسمانى پيغام كو پہنچانے كيلئے رسولخدا (ص) كى اجتماعى ، سياسى اور اخلاقى قيادت سب سے پہلے لوگوں كے منتخب كرنے اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي پھر اس بيعت كو خداوند كريم نے پسند فرمايا جيسا كہ سورہ فتح كى آيت'' لقد رضى اللہ عن المومنين اذ يبايعونك تحت الشجرة ''(۱) ''بے شك اللہ تعالى مومنوں سے اس وقت راضى ہو گيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے''_ سے معلوم ہوتا ہے ايسا نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى قيادت الہى ماموريت اور رسالت كا ايك حصہ ہو بلكہ آپ كى سياسى قيادت اورفرمانروائي جو كہ لوگوں كى روزمرہ زندگى اور عملى و اجرائي دستورات پر مشتمل تھى لوگوں كے انتخاب اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي لہذا يہ رہبرى وحى الہى كے زمرے ميں نہيں آتي_

يہ نظريہ صحيح نہيں ہے كہ دين اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق ہے اور آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت ايك مدنى ضرورت تھى _ آپ (ص) كى حكومت اس دور كے تقاضے اور لوگوں كے مطالبہ سے اتفاقاً وجود ميں نہيں

____________________

۱) سورہ فتح آيت نمبر۱۸_

۹۲

آئي تھى _بلكہ اس كا سرچشمہ اسلامى تعليمات تھيں اور جيسا كہ آگے ہم وضاحت كريں گے كہ لوگوں كى خواہش اور بيعت نے درحقيقت اس دينى دعوت كے عملى ہونے كى راہ ہموار كى _ متعدد دلائل سے ثابت كيا جاسكتا ہے كہ آپ (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ اسلام اور وحى الہى تھى ان ميں سے بعض دلائل يہ ہيں_

الف _ اسلام كچھ ايسے قوانين اور شرعى فرائض پر مشتمل ہے كہ جنہيں دينى حكومت كى تشكيل كے بغير اسلامى معاشرہ ميں جارى نہيں كيا جاسكتا _ اسلامى سزاؤں كا نفاذ اور مسلمانوں كے مالى واجبات مثلا ً زكوة ، اور اموال و غنائم كے خمس كى وصولى اور مصرف ايسے امور ہيں كہ دينى حكومت كى تشكيل كے بغير ان كا انجام دينا ممكن نہيں ہے _ بنابريں دينى تعليمات كے اس حصہ كو انجام دينے كيلئے آپ (ص) كيلئے سياسى ولايت ناگزير تھي_ ہاں اگر مسلمان آپ (ص) كا ساتھ نہ ديتے اور بيعت اور حمايت كے ذريعہ آپ (ص) كى پشت پناہى نہ كرتے تو آپ كى سياسى ولايت كو استحكام حاصل نہ ہوتا اور دينى تعليمات كا يہ حصہ نافذ نہ ہوتا _ ليكن اس كا يہ معنى نہيںہے كہ آپ(ع) كى سياسى ولايت كا منشأ عوام تھے اور اسلام سے اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_

ب _ قرآنى آيات رسولخدا (ص) كى سياسى ولايت كو ثابت كرتى ہيں اورمؤمنين سے مطالبہ كرتى ہيں كہ وہ آپ (ص) كى طرف سے ديے گئے اوامر اور نواہى كى اطاعت كريں:

( '' النبى اولى بالمومنين من انفسهم '' ) (۱)

بے شك نبى تمام مومنوں سے ان كے نفس كى نسبت اولى ہيں _

( '' انما وليّكم الله و رسوله و الذين آمنوا الذين يقيمون الصلوة و يؤتون الزكوة و هم راكعون'' ) (۲)

____________________

۱) سورہ احزاب آيت ۶_

۲) سورہ مائدہ آيت۵۵_

۹۳

يقينا ً تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ صاحبان ايمان ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _

( '' انا انزلنا اليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما اريك الله'' ) (۱)

ہم نے تمہارى طرف بر حق كتاب نازل كى تا كہ لوگوں كے درميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_

اس قسم كى آيات سے ثابت ہوتا ہے كہ آنحضرت (ص) مومنين پر ولايت ،اولويت اور حق تقدم ركھتے ہيں_ بحث اس ميں ہے كہ يہ ولايت اور اولويت كن امور ميں ہے _ ان آيات سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ ولايت اور اولويت ان امور ميں ہے جن ميں لوگ معمولاً اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتے ہيں يعنى وہ اجتماعى امور جن كے ساتھ معاشرہ اور نظام كى حفاظت كا تعلق ہے _ مثلاً نظم و نسق كا برقرار ركھنا ،لوگوں كے حقوق كى پاسدارى ، ماليات كى جمع آورى ، انكى تقسيم اورمستحقين تك ان كا پہنچانا اور اس طرح كے دوسرے ضرورى مصارف ، مجرموں كو سزا دينا اور غيروں سے جنگ اور صلح جيسے امور _

ج_ وہ افراد جو آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كو مدنى اور غير الہى سمجھتے ہيں ان كى اہم ترين دليل مختلف موقعوں پر مسلمانوں كا رسولخدا ا(ص) كى بيعت كرنا ہے _ بعثت كے تير ہويں سال اہل يثرب كى بيعت اور بيعت شجرہ( بيعت رضوان) كہ جس كى طرف اسى سبق ميں اشارہ كيا گيا ہے يہ وہ بيعتيں ہيں جن سے ان افراد نے تمسك كرتے ہوئے كہا ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت كا منشأ دينى نہيں تھا _

بعثت كے تير ہويں سال اعمال حج انجام دينے كے بعد اور رسولخدا (ص) كى مدينہ ہجرت سے پہلے اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _ جسے بيعت عقبہ كہتے ہيں_ اگر اس كا پس منظر ديكھا

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۱۰۵_

۹۴

جائے تو بخوبى واضح ہوجاتا ہے كہ اس بيعت كا مقصد مشركين مكہ كى دھمكيوں كے مقابلہ ميں رسولخدا (ص) كى حمايت كرنا تھا _ اس بيعت ميں كوئي ايسى چيز نہيں ہے جو دلالت كرتى ہو كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كو سياسى رہبر كے عنوان سے منتخب كيا ہو _ اس بيعت كے وقت آنحضرت (ص) نے فرمايا:

''امّا مالى عليكم فتنصروننى مثل نسائكم و ابنائكم و ان تصبروا على عضّ السّيف و ان يُقتل خياركم ''

بہر حال ميرا تم پر يہ حق ہے كہ تم ميرى اسى طرح مدد كرو جس طرح اپنى عورتوں اور بچوں كى مدد كرتے ہو اور يہ كہ تلواروں كے كاٹنے پر صبر كرو اگر چہ تمہارے بہترين افراد ہى كيوں نہ مارے جائيں_

براء بن معرور نے آنحضرت (ص) كا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليا اور كہا :

''نعم و الذى بعثك بالحق لنمنعنّك ممّا نمنع منه ازرنا ''(۱ )

ہاں اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كيا ہے ہم ہراس چيز سے آپ كا دفاع كريں گے جس سے اپنى قوت و طاقت كا دفاع كرتے ہيں_

بيعت رضوان كہ جس كى طرف سورہ فتح كى اٹھارويں آيت اشارہ كر رہى ہے سن چھ ہجرى ميں ''حديبيہ'' كے مقام پر ہوئي اس بيعت سے يہ استدلال كرنا كہ آنحضرت(ص) كى حكومت كا منشا مدنى اور عوامى تھا ناقابل فہم بہت عجيب ہے كيونكہ يہ بيعت مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور اقتدار كے استحكام كے كئي سال بعد ہوئي پھر اس بيعت كا مقصد مشركين كے ساتھ جنگ كى تيارى كا اظہار تھا _ لہذا سياسى رہبر كے انتخاب كے مسئلہ كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا _

____________________

۱) مناقب آل ابى طالب ج ۱، ص ۱۸۱_

۹۵

خلاصہ :

۱) عصر حاضر كے بعض مصنفين قائل ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ ايك امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى _ امت مسلمہ كى تشكيل كے بعد عباسيوں كے دور ميں دينى حكومت قائم ہوئي _

۲) اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ رسولخد ا (ص) كے دور ميں جو قبائلى نظام رائج تھا اس پر حكومت كى تعريف صادق نہيں آتى _ دوسرا يہ كہ آنحضرت (ص) نے اپنے آپ كو امير يا حاكم كا نام نہيں ديا نيز قرآن نے بھى مسلمانوں كيلئے ''امت ''كا لفظ استعمال كيا ہے _

۳) اس نظريہ كے حامى اس نكتہ سے غافل رہے ہيں كہ ہر معاشرے اور زمانے كى حكومت اس دور كے اجتماعى حالات كے مطابق ہوتى ہے لہذا دور حاضر ميں حكومت كى جو تعريف كى جاتى ہے اس كا رسولخدا (ص) كے زمانے كى حكومت پر صادق نہ آنا اس بات كى نفى نہيں كرتاكہ مدينہ ميں آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى _

۴) دوسرا نكتہ جس سے غفلت برتى گئي ہے وہ يہ ہے كہ بحث لفظ ''حكومت، رياست اور امارت'' ميں نہيں ہے _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں حكومت اور سياسى ولايت موجود تھى _

۵) مسلمانوں ميں حكومت كا وجود ان پر لفظ ''امت'' كے اطلاق كے منافى نہيں ہے _

۶) اصلى مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اسلام اور سياست كے در ميان ذاتى تعلق كا نتيجہ ہے نہ كہ ايك اتفاقى اور تاريخى واقعہ _ پس اسلام اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق نہيں ہے_

۷) آنحضرت (ص) كى حكومت كے الہى اور غير مدنى ہونے پر بہت سى ادلّہ موجود ہيں _

۹۶

سوالات :

۱) جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت كى بجائے امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى اس سے ان كى مراد كيا ہے ؟

۲) اس مدعا پر انہوں نے كونسى ادلّہ پيش كى ہيں ؟

۳) آنحضرت (ص) كے ہاتھوںتشكيل حكومت كے منكرين كے اس گروہ كو كيا جواب ديا گيا ہے؟

۴) اسلام اور سياست كے درميان ''ذاتى تعلق'' اور ''تاريخى تعلق'' سے كيا مراد ہے ؟

۵)اس بات كى كيا دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت الہى تھى اور اس كا سرچشمہ دين تھا ؟ اور يہ كہ آپ (ص) كى حكومت مدنى نہ تھي_

۹۷

گيا رہواں سبق:

آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

گذشتہ سبق ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ كرچكے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت، شرعى نص اور وحى الہى كى بنياد پر تھى اور اس ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا _ اب سوال يہ ہے كہ كيا رحلت كے بعد مسلمانوں كے سياسى نظام اور امت كے سياسى اقتدار كے متعلق اسلامى تعليمات اور دينى نصوص ميں اظہار رائے كيا گيا ہے ؟ يا اسلام اس بارے ميں خاموش رہا ہے اور امر ولايت اور سياسى اقتدار اور اس كى كيفيت كو خود امت اور اس كے اجتہاد و فكر پر چھوڑ ديا ہے ؟

يہ مسئلہ جو كہ'' كلام اسلامي'' ميں ''مسئلہ امامت'' كے نام سے موسوم ہے طول تاريخ ميں عالم اسلام كى اہم ترين كلامى مباحث ميں رہا ہے اوراسلام كے دو بڑے فرقوں يعنى شيعہ و سنى كے درميان نزاع كا اصلى محور يہى ہے _ اہلسنت كہتے ہيں: آنحضرت(ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت كے متعلق دينى نصوص ساكت ہيں اور نظام حكومت ، مسلمانوں كے حكمران كى شرائط اور اس كے طرزانتخاب كے متعلق كوئي واضح فرمان نہيں ديا گيا _ آنحضرت(ص) كے بعد جو كچھ ہوا وہ صدر اسلام كے مسلمانوں كے اجتہاد كى بناپرتھا _ اہل سنت اس اجتہاد كا نتيجہ

۹۸

''نظام خلافت''كے انتخا ب كو قرار ديتے ہيں _

جبكہ اس كے مقابلے ميں اہل تشيع يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى ميں ہى حكم خدا سے متعدد شرعى نصوص كے ذريعہ امت كى سياسى ولايت اور'' نظام امامت'' كى بنياد ركھ دي_

ان دو بنيادى نظريات كى تحقيق سے پہلے جو كہ آپس ميں بالكل متضاد ہيں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اہلسنت نے ''مسئلہ امامت'' كو وہ اہميت اور توجہ نہيں دى جو شيعوں نے دى ہے _ اہلسنت كے نزديك مسئلہ خلافت ، شرائط خليفہ اور اس كى تعيين كا طريقہ ايك فقہى مسئلہ ہے _ جس كا علم كلام اور اعتقاد سے كوئي تعلق نہيں ہے _ اسى لئے انہوں نے اسے اتنى اہميت نہيں دى _ ان كى كلامى كتب ميںاس مسئلہ پر جووسيع بحث كى گئي ہے وہ در حقيقت ضد اور شيعوں كے رد عمل كے طور پر كى گئي ہے _ كيونكہ شيعوں نے اس اہم مسئلہ پر بہت زور ديا ہے اور'' مسئلہ امامت'' كو اپنى اعتقادى مباحث كے زمرہ ميں شمار كرتے ہوئے اسے بہت زيادہ اہميت دى ہے _ لہذا اہلسنت بھى مجبوراً اس فرعى اور فقہى بحث كو علم كلام اور اعتقادات ميں ذكر كرنے لگے بطور مثال ،غزالى مسئلہ امامت كے متعلق كہتے ہيں :

''النظر فى الامامة ليس من المهمات و ليس ايضاً من فنّ المعقولات بل من الفقهيات''

امامت كے بارے ميں غور كرنا اتنا اہم نہيں ہے اور نہ ہى يہ علم كلام كے مسائل ميں سے ہے بلكہ اس كا تعلق فقہ سے ہے(۱)

مسئلہ امامت شيعوں كے نزديك صرف ايك فرعى اور فقہى مسئلہ نہيں ہے اور نہ ہى معاشرتى نظام كے چلانے كى كيفيت اور سياسى ولايت ميں منحصر ہے بلكہ ايك كلامى مسئلہ ہے اور جزء ايمان ہے لہذا ائمہ

____________________

۱) الاقتصاد فى الاعتقاد، ابوحامد غزالى ص ۹۵_

۹۹

معصومين كى امامت پر اعتقاد نہ ركھنا در حقيقت دين كے ايك حصّے كے انكار اور بعض نصوص اور دينى تعليمات سے صرف نظر كرنے كے مترادف ہے ،جس كے نتيجہ ميں ايمان ناقص رہ جاتا ہے _ شيعوں كے نزديك امامت ايك ايسا بلند منصب ہے كہ سياسى ولايت اس كا ايك جزء ہے _ شيعہ ہونے كا اساسى ركن امامت كا معتقد ہونا ہے _ يہى وجہ ہے كہ اہلسنت كے مشہور عالم ''شہرستاني'' '' شيعہ'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں: الشيعة ہم الذين شايعوا علياً على الخصوص و قالوا بامامتہ و خلافتہ نصاً و وصيتاً اما جلياً و اما خفيا و اعتقدوا ان امامتہ لا تخرج من اولادہ (۱ ) شيعہ وہ لوگ ہيں جو بالخصوص حضرت على كا اتباع كرتے ہيں اور آنحضرت (ص) كى ظاہرى يا مخفى وصيت اور نص كى روسے انكى امامت اور خلافت كے قائل ہيں اور معتقد ہيں كہ امامت ان كى اولاد سے باہر نہيں جائے گى _

اہلسنت اور نظريہ خلافت :

اگر موجودہ صدى كے بعض روشن فكر عرب مسلمانوں كے سياسى مقاصد اور نظريات سے چشم پوشى كرليں تو اہلسنت كا سياسى تفكر تاريخى لحاظ سے نظام خلافت كے قبول كرنے پر مبتنى ہے _

اہلسنت كے وہ پہلے مشہور عالم ماوردى(۲) كہ جنہوں نے اسلام كى سياسى فقہ كے متعلق ايك مستقل كتاب لكھى ہے كے زمانہ سے ليكر آج تك سياسى تفكر كے بارے ميں انكى سب تحريروں كا محور نظريہ خلافت ہے_

اہلسنت كى فقہ سياسى اور فلسفہ سياسى دينى نصوص كى بجائے صحابہ كے عمل سے متاثر ہے _ اہلسنت سمجھتے ہيں كہ خليفہ كى تعيين كى كيفيت اورشرائط كے متعلق قرآن اور سنت ميں كوئي واضح تعليمات موجو د نہيں ہيں

____________________

۱) الملل و النحل، شہرستانى ج ۲ ص ۱۳۱_

۲) على ابن محمد ابن حبيب ابوالحسن ماوردى ( ۳۶۴ _ م ۴۵۰ ق) شافعى مذہب كے عظيم فقہا ميں سے ہيں فقہ سياسى كے متعلق ''احكام سلطانيہ'' كے علاوہ ديگر كتب كے بھى مؤلف ہيں جيسے ''الحاوي'' اور ''تفسير قرآن'' _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سر انجام جریر نے کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ٥٠ ھ کے بعد وفات پائی ۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف اپنے خلق کردہ صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کا ہم نام بتاتا ہے ۔ اس نے اسی شیوہ سے اپنے جعلی اصحاب کو ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ابودجانہ دو حقیقی اصحاب کے ہم نام کیا ہے ۔ اس کے بعد جریر بجلی کی بعض سرگرمیوں کو اپنے جعلی صحابی جریر حمیری سے نسبت دیتا ہے ۔

اس سلسلے میں ہم بلاذری کی کتاب '' فتوح البلدان '' کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' جریر بجلی'' وہی شخص ہے جس نے بانقیا کے باشندوں کے نما ئندہ '' بصبہری'' سے ایک ہزار درہم اور طیلسانی ١ وصول کرنے کی بنیاد پر صلح کرکے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے ۔

جیسا کہ کہتا ہے :

خالد نے اس بنا پر ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور جنگ نخیلہ کے بعد جریر بجلی وہاں گیا اور ان سے معاہدہ کی مقررہ رقم وصول کی انھیں اس کی رسید دی۔

اسی طرح بلاذری کہتا ہے :

'' بانقیاد '' سے واپس آنے کے بعد ، خالد بن ولید '' فلالیج'' کی طرف روانہ ہوا چونکہ ایرانیوں کا ایک گروہ وہاں پر جمع ہو کرجنگ کا نقشہ کھینچ رہا تھا خالد کے فلالیج میں داخل ہونے کے بعد ایرانی فوری طور پر متفرق ہوئے اور ان کے منصوبے نقش بر آب ہوگئے۔

____________________

١۔ایک قسم کے سبز رنگ کا اورکوٹ ہے جسے خاص طور سے ایران کی بزرگ شخصیتیں اور علماء پہنتے تھے۔

۱۴۱

بلاذری ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

خلافت عمر کے زمانے میں جریر بن عبد اﷲ بجلی نے ''' انبار'' کے باشندوں کے ساتھ ان کی سرزمینوں کی حدود کے بارے میں سالانہ چار لاکھ درہم اور ایک ہزار '' قطوانیہ''١ عبا ؤں کے مقابلے میں معاہدہ کیا ہے۔

بلاذری جیسے دانشور کے لکھنے کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر نے '' جریر بن عبد اللہ ''جیسے صحابی کے بانقیا کی صلح ، جزیہ کا وصول کرناور رسید دینے کے جیسے کارناموں کو اپنے جعلی صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' سے نسبت دی ہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے جس نے '' مصیخ بنی البرشاء '' کی جنگ کے افسانہ کو اس آب و تاب کے ساتھ خلق کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''' فتوح '' میں درج کیا ہے جسے طبری اور طبری کی پیروی کرنے والوں نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور ہم نے اس کی تفصیلات اسی کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے بے مثال سورما ''قعقاع بن عمر و تمیمی'' کی زندگی کے حالات میں بیان کی ہیں ۔

اسی طرح سیف تنہا شخص ہے جس نے ان دو بھائیوں کے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی مقرر ہونے کی بات کی ہے۔

اور یہی دوسری صدی ہجری کا تنہا افسانہ ساز ہے جس نے خیمے نصب کرنے اور سپہ سالار اعظم

''نعمان بن مقرن '' کیلئے خصوصی خیمہ نصب کرنے کی داستانیں گڑھی ہیں ۔

____________________

١۔ قطوانیہ قطوان سے منسوب اسی علاقہ میں ایک جگہ تھی جو ایسا لگتا ہے کہ شہر کوفہ کی بنیاد پڑنے کے بعد وجود میں آئی ہے ، معجم البلدان میں کوفہ کے ملحقات میں شمار کیا گیا ہے ۔

۱۴۲

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے ، اقرع بن عبد اللہ اور اس کے بھائی جریر بن عبد اللہ حمیری کو خلق کرکے بعض کارنامے اور تاریخی داستانیں ان سے منسوب کی ہیں ۔

امام المؤرخین طبری نے مذکورہ داستانوں کو سیف سے نقل کرکے ١٢ ھ سے ٢١ ھ تک کے حوادث کے ضمن میں حقیقی اور ناقابل انکار مآخذ کے طور پر اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن عبد البر ، کتاب '' استیعاب '' کا مصنف ، سیف کی تالیفات پر اعتماد کرکے مذکورہ افسانوں کو صحیح سمجھتے ہوئے اقرع بن عبد اللہ حمیری کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

اقرع کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایلچی کے طور پر '' ذی مران '' اور یمن کے سرداروں کے ایک گروہ کے پاس بھیجا تھا ۔

معروف عالم اور کتاب '' اسد الغابہ '' کے مصنف ابن اثیراور کتاب '' اصابہ '' کے مؤلف ابن حجر نے اسی خبر کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر مذکورہ خبر کو '' استیعاب '' سے نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

اس خبر کو سیف بن عمر نے اپنی کتاب ' ' فتوح '' میں ضحاک بن یربوع سے اس نے اپنے باپ یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔

اس طرح ابن حجر ، ابن عبد البر کے اپنی کتاب '' استیعاب'' میں لائے گئیمآخذ سے پرہیز کرکے وضاحب سے کہتا ہے کہ وہی سیف کی کتاب '' فتوح '' ہے

۱۴۳

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ روایت ۔۔ اقرع کی یمن میں مموریت کے بارے میں ابن عبد البر کی روایتسے الگ ہے جسے ہم نے طبری سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی مموریت کے بارے میں اس حصہ کہ ابتدا ء میں ذکر کیا ہے ۔

سیف نے اس روایت کو گڑھ کر ، اپنی پہلی روایت کی تائید کی ہے ۔ یہ اس کی عادت ہے کہ اپنی جعل کردہ چیزوں کو متعدد روایتوں میں منعکس کرتا ہے ۔ تا کہ اس طرح اس کی روایتیں ایک دوسرے کی مؤید ہوں اور اس کا جھوٹ سچ دکھائی دے ۔

اس کے بعد ابن حجر طبری کی روایت کو سیف سے نقل کرکے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی خلافت ابوبکر میں اپنی ممور یتوں سے واپس مدینہ آنے کے واقعات کو' جنہیں ہم نے گزشتہ صفحات میں درج کیا ہے ۔۔ کو اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

مذکورہ علماء نے '' اقرع بن عبد اللہ حمیری'' کے بارے میں حالات لکھ کر اورسیف کی باتوں اور روایتوں پر اس قدر اعتماد کرکے اپنی گراں قدر کتابوں کو اس قسم کے افسانوں سے آلودہ کیا ہے ۔

یہ امر اقرع کے خیالی بھائی '' جریر بن عبد اﷲحمیری'' کے بارے میں لکھے گئے حالات پر بھی صادق آتا ہے ۔ کیونکہ ابن اثیر '' جریر '' کے حالت کی تشریح میں لکھتا ہے :

وہ ۔۔ جریر بن عبد اللہ حمیری۔۔ یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ۔ جریر نے عراق اور شام کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں سرگرم حصہ لیا ہے ۔ اس نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید خلفیہ عمر ابن خطاب کو پہنچائی ہے (یہ سیف کا کہنا ہے ) ان مطالب کو '' ابو القاسم ابن عساکر '' نے بھی جریر کے بارے میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر بھی '' جریر بن عبد اللہ '' کے حالات کے بارے میں اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھتا ہے :

ابن عساکر کہتا ہے کہ وہ ۔۔ جریر ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔ اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے مطابق کہ اس نے '' محمد '' سے اور اس نے ''' عثمان '' سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ جب خالد بن ولید نے یمامہ سے عراق کی طرف جنگ کا عزم کیا ، اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا ۔ اس سلسلے میں پہلے اصحاب پر نظر ڈالی اور ان میں سے جنگجو اور شجاع افراد کا انتخاب کیا ان جنگجوؤں کی کمانڈ '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو سونپی ، جو اقرع بن عبد اللہ کا بھائی اور یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ( تاآخر )

اس کے علاوہ سیف نے نقل کیا ہے کہ اسی جریر بن عبدا للہ نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید مدینہ خلیفہ عمر کو پہنچائی ہے ۔

سیف نے مختلف جگہوں پر اس '' جریر'' کا نام لیا ہے اور ابن فتحون نے جریر کے حالات کو دوسرے مآخذ سے درک کیا ہے اور

۱۴۴

ابن عساکر کی نظر میں افسانۂ جریر کا راوی '' محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ '' ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔

اس طرح ان علماء نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کرکے ان دو حمیری اور سیف کے خیالی بھائیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیکران کے حالاتلکھے ہیں ۔

خلاصہ

سیف نے اقرع اور جریر کو عبد اللہ کے بیٹوں کے عنوان سے خلق کیا ہے اور ان دونوں کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر یمن بھیجا ہے تاکہ کافروں اور اسلام سے منحرف لوگوں کے خلاف جنگ کا انتظام کریں ۔ اور ان دونوں کو ان افراد میں شمار کیا ہے جو مدینہ واپس آئے ہیں اور یمانی مرتدوں کی خبر خلیفہ ابو بکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ جب خالد بن ولید یمامہ سے عراق کی جنگ کیلئے روانہ ہوا ، تو اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا اور اس سلسلے میں پہلے اصحاب کو مدنظر رکھا ، ان میں سے مجاہدوں اور شجاعوں کا انتخاب کیا جن میں جرید بن عبد اللہ حمیری بھی تھا خالد نے، قضاعہ دستہ کے فوجیوں اور جنگجوؤں کی کمانڈ اسے سونپی ہے ۔

جریر عراق میں خالد کی جنگوں اور فتوحات میں سر گرم عمل رہا ہے اور ''' بانقیا '' ، '' بسما'' '' فلالیج'' سے ''ہر مزگرد ''تک کے صلح ناموں میں عینی گواہ کے طور پر رہا ہے ۔ خالد نے اسے بانقیا و بسما کی حکمرانی سونپی ہے ۔

جریران اصحاب میں سے تھا جو خراج و جزیہ کی رقومات عراق کے علاقوں کے لوگوں سے وصول کرتا تھا جو تسخیر ہونے کے بعد ان پر مقرر کیا گیا تھا ۔ یہ رقومات وصول کرنے کے بعد انھیں رسید دیا کرتا تھا ۔

خالد کے ''مصیخ بنی البرشا'' پر بجلی جیسے حملہ میں جریر اس کے ہمراہ تھا اور اس نے کفار کے درمیان ایک مسلمان کو بھی قتل کر ڈالا ۔

وہ کہتا ہے کہ جریر نے خالد کے ہمراہ شام کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خالد کی طرف سے قاصد کے طور پر مدینہ جاکر خلیفہ عمر کو یرموک کی فتح کی نوید پہنچائی ہے۔

۱۴۵

جریر وہ بہادر ہے جسے '' سعد بن وقاص '' نے خلیفہ عمر کے صریح حکم کے مطابق '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہمراہ ایرانی فوج کے کمانڈر ہرمزان سے مقابلہ کیلئے بھیجا ہے ۔

سیف نے مزید کہا ہے کہ جریر نے ٢١ ھ کی جنگِ نہاوند میں شرکت کی ہے اور اپنے بھائی اقرع اور جریر بن عبدا للہ بجلی اور دیگر اشرافِ کوفہ سپہ سالار اعظم '' نعمان بن مقرن '' کا خیمہ نصب کرنے میں ہاتھ بٹایا ہے ۔

یہ سیف بن عمر تمیمی کی روایتوں کا خلاصہ تھا جو اس نے اپنے خلق کئے گئے دو جعلی اصحاب کے بارے میں گڑھ لی ہیں ۔

سیف نے اپنے خیالی افسانوی پہلوان '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کرکے اس کی بعض فتوحات اور جنگی کارناموں کو اپنے اس خیالی بہادر سے منسوب کیا ہے ۔

نہیں معلوم ، شاید جریر کے بھائی ''' اقرع '' کو اس نے '' اقرع بن حابس تمیمی '' یا '' اقرع عکی '' اور یا کسی اور اقرع کے ہم نام خلق کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نام ۔۔ ''اقرع بن عبد اللہ حمیری '' یوں ہی اچانک اس کے ذہن میں آیا ہو اور اس نے اپنے افسانوں میں اس کیلئے اہم اور حساس رول رکھے ہوں ۔

یہ بھی ہم بتا دیں کہ ہمارے اس افسانہ گو سیف بن عمر نے ان دو حمیری بھائیوں کی داستان تقریباً اس کے دو نامدار عظیم الجثہ تمیمی پہلوان عمر و تمیمی کے بیٹے '' قعقاع'' اور '' عاصم '' کے افسانہ کے مشابہ خلق کی ہے ۔

سرانجام یہ افسانہ اور اس کے مانند سیکڑوں افسانے جن سے اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے اور جو دانشوروں اور اکثر مسلمانوں کیلئے اس حد تک افتخار و سر بلندی کا سبب بنے ہیں کہ وہ کسی قیمت ان سے دستبردار ہونے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے

یہ افسانے درج ذیل معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں قطعی اور حقیقی سند کے عنوان سے در ج ہوئے ہیں ۔

۱۴۶

دو حمیری بھائیوں کے افسانہ کے راوی :

سیف نے مذکورہ دو بھائیوں کے افسانہ کو درج ذیل راویوں کی زبانی نقل کیا ہے :

١۔ محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ

٢۔ مھلب بن عطیہ اسدی

٣۔ غصن بن قاسم۔

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن ییوسفسلمی۔

مذکورہ سبھی راوی سیف کے جعل کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

ان دو بھائیوں کا افسانہ نقل کرنے والے علما:

١۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر بن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ۔

٣۔ ابن عساکر نے '' تاریخ دمشق'' میں ۔

٤۔ ابن فتحون نے کتاب' ' استیعاب ''کے حاشیہ پر ۔

٥۔ ابن اثیر نے '' اسد الغابہ '' میں

٦۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید میں ''

٧۔ ابن حجر نے کتاب '' اصابہ '' میں

٨۔ محمد حمید اللہ نے کتاب '' وثائق الساسبہ '' میں ۔

۱۴۷

مصادر و مآخذ

دو حمیری بھائیوں '' اقرع '' و جریر '' کے بارے میں سیف کی روایات :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨، ١٩٨٨، ١٩٩٨، ٢٠٤٩، ٢٠٥٢، ٢٠٥٥، ٢٠٧٠، ٢١٧٦، ٢٥٥٢، اور ٢٦١٩)

اقرع کے حالات

١۔ کتاب '' استیعاب ''' طبع حیدر آباد دکن (١ ٦٤ ) نمبر : ١٠٠

٢۔ اسد الغابہ ( ١ ١١٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' (١ ٢٦)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (١ ٧٣) نمبر : ٢٣٣

جریر حمیری کے حالات :

١۔ ابن اثیرکی '' اسد الغابہ '' (١ ٢٧٩)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٢٣٤)نمبر: ١١٣٧

تاریخ لکھنے کے سلسلہ میں عمر بن خطاب کا صلاح و مشورہ

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ٢٤٨٠)

جریر بن عبد اللہ بجلی کے بارے میں روایت اور اس کے حالات :

'' استیعاب '' ، اسد الغابہ ، اصابہ ، اور بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ( ص ٢٩٩، ٣٠٠، ٣٠١ ) ، قبیلہ ٔ بجیلہ پر جریر بن عبدا للہ بجلی کی حکمرانی:

١۔ تاریخ طبری (١ ٣٢٠٠ ۔ ٣٢٠٢)

۱۴۸

اڑتیسواں جعلی صحابی صلصل بن شرحبیل

صلصل ، ایک گمنام سفیر :

سیف کی اس روایت میں جس میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے نام آئے ہیں ، صلصل کے بارے میں یوں ذکر ہوا ہے :

صلصل بن شرحبیل کو '' سبرۂ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری ، اوربنی عمرو کے عمروبن الخفاجی '' کے پاس اپنی طرف سے سفیر بنا کر بھیجا ۔ ابن حجر نے ''صفوان بن صفوان اسید '' کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

اسی طرح سیف نے ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ابن عباس سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل بن شرحبیل کو اپنے ایلچی کے طور پر صفوان بن صفوان تمیمی ، وکیع بن عدس دارمی اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ انہیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دے ۔

ہم نے سیف کی ان دو روایتوں کے علاوہ ۔۔ جوخود اس صحابی کے نام کو خلق کرنے والا ہے ۔۔ صلصل کا نام کہیں اور نہیں پایا۔

کتاب ' استیعاب '' کے مصنف ابو عمر ، ابن عبد البر نے صلصل کے حالات کی تشریح میں لکھاہے:

۱۴۹

صلصل بن شرحبیل : میں نہیں جانتا کہ کس خاندان سے ہے۔ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا ، لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ اس کی خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے چند ایلچیوں کو روانہ کرنے کے ضمن میں آئی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے سفیر کے طور پر '' صفوان بن صفوان ١ ، سبرہ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری اور بنی عامر کے عمرو بن الخفاجی '' کے پاس بھیجا تھا ، وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک سفیر تھا ۔

ابن اثیر نے ، ابن عبد البر کی عین عبارت کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے '' تجرید '' میں صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اسے خلاصہ کرکے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کرکے یوں لکھا ہے :

اس کا ۔۔ صلصل بن شرحبیل۔۔ نام صفوان بن صفوان کے حالات کی تشریح میں گزرا ، ابو عمر ۔۔ استیعاب کامصنف ۔۔ کہتا ہے کہ میں اس کے خاندان کو نہیں جانتا اور مجھے اس کی روایت کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ان نامور علماء نے ، سیف کے خلق کردہ صلصل بن شرحبیل کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت سے اسی پر اکتفاء کیا ہے ۔ چونکہ سیف نے بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھاہے لہذا وہ بھی نہ اس کے نسب کے بارے میں اور نہ ہی اس کی روایتوں کے بارے میں اطلاع رکھتے ہیں ۔

____________________

١۔ صفوان کے باپ کا نام ابن عبدالبر کی کتاب '' استیعاب '' میں '' امیہ '' آیا ہے جو غلط ہے ۔ کیونکہ صفوان بن امیہ اسلام لانے کے بعد مکہ سے باہر نہیں نکلا ہے ۔ اس خبر کا مآخذ بھی سیف کی روایت ہے جس میں '' صفوان بن صفوان '' بتایا گیا ہے ۔

۱۵۰

انتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن محجوب عامری

جعلی روایتوں کا ایک سلسلہ

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی مذکورہ دو روایتوں پر مکمل اعتماد کرکے سیف کی ایک اور مخلوق '' عمرو بن محجوب عامری '' کو ایک مسلم حقیقت کے عنوان سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سیف نے اپنے خلق کردہ صحابی کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ عامری ہے ۔ اور یہ '' عامر '' کی طرف نسبت ہے جو قبائل '' ُمعد اور قحطانی '' کے خاندانوں سے متعلق ہے ۔

لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس صحابی کو ان قبیلوں میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔

عمرو بن محجوب کی داستان :

ہم نے دیکھا کہ طبری نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے ضمن میں سیف سے روایت کرکے صلصل کا نام لیا ہے اور اس کی ممور یتوں کے بارے میں یوں بیان کیا ہے کہ وہ پیغمبرا خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور تھا کہ '' بنی عامر عمرو بن محجوب اور عمرو بن خفاجی '' سے ملاقات کرے۔

ابن حجر نے '' اصابہ '' میں اس عمرو بن محجوب کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :

عمروبن محجوب عامری وہ صحابی ہے جسے ابن فتحون نے دریافت کیا ہے اور سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابن عباس سے دو سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ عمروبن محجوب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں میں سے تھا ، اور زیاد بن حنظلہ کے ذریعہ اسے فرمان دیا گیا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو ۔ ہم نے اس عمرو کا نام '' صفوان بن صفوان '' کے حالات پر روشنی ڈالنے کے ضمن میں ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس لحاظ سے عمرو بن محجوب کا نام سیف کی ایک روایت کے مطابق تاریخ طبری میں اور دو روایتوں کے مطابق سیف کی کتاب فتوح میں آیا ہے ،اور ابن حجر نے ان کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں نقل کیا ہے ۔

چوتھی روایت وہاں ہے جہاں ابن حجر نے صفوان کے حالات کی تشریح میں اس کا نام لیا ہے کہ ہم نے اسے صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔

۱۵۱

یہ امر قابل توجہ و دقت ہے کہ ان روایتوں میں سے ہر ایک دوسری پر ناظر اور اس کی مؤید شمار ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ عمرو بن محجوب عامری پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان گماشتوں اور کارندوں میں سے ہے کہ جس کی مموریت کے دوران اسے دو خط ملے ہیں ایک صلصل کے ذریعہ اور دوسرا زیاد بن حنظلہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے ذریعہ ، ان دو خطوط میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے شرک و ارتداد کے خلاف ثابت قدم رہنے کاحکم دیا ہے ۔

انہی روایتوں پر ، ابن فتحون اور ابن حجر جیسے علماء نے پوراا عتماد کر کے پہلے (ابن فتحون) ابن فتحون نے سیف کے اس جعلی صحابی کے حالات '' استیعاب ''کے حاشیہ میں درج کئے اور دوسرے (ابن حجر) نے اپنی معتبر کتاب اصابہ میں اس کیلئے مخصوص جگہ وقف کی ہے

چالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

مسیلمہ سے جنگ کی مموریت

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی انہی گزشتہ روایتوں پر اعتماد کرکے ، عمرو بن خفاجی عامری کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ کے لئے ایک فصل مخصوص کی ہے اور اس فصل میں نمبر : ٥٨٢٧ حرف '' ع'' کے تحت لکھا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری ، اس کا نام صلصل بن شرحبیل کے حالات میں آیا ہے ۔ '' رشاطی'' ١نے لکھا ہے کہ وہ ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک خط کے ذریعہ اسے اور عمرو بن محجوب کو حکم دیا کہ وہ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ انہی مطالب کو طبری نے بھی نقل کیا ہے ۔

____________________

١۔ رشاطی ، ابو محمد عبدا للہ بن علی بن عبد اللہ بن خلف لخمی اندلسی ایک عالم ، محدث، فقیہ ،مؤرخ ، نسب شناس ، ادیب اور لغت شناس تھا، رشاطی ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی سال(٤٦٦ ھ ۔ ١٠٧٤ء )میں ''ادریولہ '' مرسیہ میں پیدا ہوا ۔ اور جمادی الاول یا جمادی الثانی سال ٥٤٢ ھ = ١١٤٧ئ) میں رومیوں کے حملے میں اپنے وطن میں ہی قتل ہوا ۔ اس کی تصنیفات میں '' اقتباس الانوار و التماس الازہار'' یہ کتاب انساب صحابہ اور روات اخبار کے بارے میں ہے اور دوسری کتاب '' المؤتلف '' قابل ذکر ہیں ، معلوم کہ ان دو کتابوں میں سے کس میں اس نے '' عمرو'' کے حالات لکھے ہیں !!۔

۱۵۲

سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ جو صحابی مرتدوں سے جنگ کرنے کے بارے میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خط عمروبن خفاجی کے نام لایا تھا۔ وہ زیاد بن حنظلہ تھا (ز)

ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر کے حرف (ز) لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی کے حالات دوسروں کے مقابلہ میں اس نے دریافت کئے ہیں ۔

۱۵۳

اکتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

ابن حجر کی غلط فہمی سے وجود میں آیا ہوا صحابی

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' کے تیسرے حصہ کو ان اصحاب سے مخصوص رکھا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں زندہ تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور دیدار سے شرفیاب نہیں ہوئے تھے وہ حرف '' ع'' کے تحت لکھتا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری : سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ اور عمرو بن محجوب عامری کو پیغام بھیجا اور انھیں ممور فرمایا وہ کہ مسیلمۂ کذاب سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن فتحون نے اس کے نام کو دوسرے مصادر سے دریافت کیا ہے (ز)۔

اس طرح ابن حجر جیسے مشہور علامّہ نے بھی غلط فہمی کا شکار ہوکر '' عمرو بن خفاجی '' کے حالات اپنی کتاب میں دو جگہوں پر لکھے ہیں ۔

جبکہ خودسیف جو اس شخص کا افسانہ گڑھنے کرنے والا ہے ، نے اسے صرف ایک شخص جعل کیا ہے۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری میں عمرو بن خفاجی کا نسب '' بنی عمرو '' لکھا گیا ہے ۔ جبکہ ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں صلصل کے حالات کی تشریح میں یہ نسب (بنی عامر ) ذکر ہوا ہے ۔

اس داستان کا خلاصہ اور نتیجہ

سیف بن عمر نے اپنے ایک ہی مقصد کو اپنی دو بناوٹی روایتوں میں بیان کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل نام کے ایک شخص کو قاصد و ایلچی کے طور پر اپنے گماشتوں اور کارندوں کے پاس بھیجا اور اسے علاقہ کے مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ سیف کی اسی ایک جھوٹی داستان کے نتیجہ میں علماء نے اس کے افسانوی صحابیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں شمار کیا ہے اور درج ذیل جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات لکھے ہیں :

١۔ صلصل بن شرحبیل

٢۔ عمروبن محجوب عامری

٣۔ عمروبن خفاجی عامری

٤۔ عمرو بن خفاجی عامری

۱۵۴

صفوان بن صفوان

ہمیں اس صفوان بن صفوان کے سیف کے جعلی صحابی ہونے پر شک ہے ، اگر ایسے شخص کو سیف نے خلق بھی نہ کیا ہوپھر بھی اس کا صحابی ہونا سیف بن عمر کے خلق کرنے سے کچھ کم نہیں ہے ۔

جو کچھ بیان ہوا اس کے علاوہ سیف نے اپنی جعلی روایتوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں ہی مسلمانوں کے اسلام سے منہ موڑنے کی بات کی ہے ۔ اس نے ان جھوٹے اور بے بنیاد مطالب کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں بہانہ فراہم کیاہے کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ اسلام نے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور اس زمانے کے قبائل کے لوگوں کے وجود کی گہرائیوں میں اسلام نے اثر نہیں ڈالا تھا ، اسی لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ہی اسلام کے مقابلے میں آکر تلوار کھینچیلی ہے!

پھر یہی سیف کی روایتیں اور جھوٹ کے پلندے اور ارتداد کی جنگوں کی منظر کشی ، قارئین کے ذہن کو یہ قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام نے ایک بار پھر ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں تلوار کی نوک پر اور بے رحمانہ قتل عام کے نتیجہ میں استحکام حاصل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا ''میں مفصل بحث و تحقیق کی ہے ۔

سر انجام ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق انہی جھوٹ اور افسانوں کو مکتب خلفاء کے پیرؤ علماء نے حسبذیل معتبر مآخذ میں درج کیا ہے :

١۔ امام المؤرخین ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ، ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں

٣۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن فتحون نے ، استیعاب کے ذیل میں ۔

٥۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ۔

٦۔ رشاطی نے '' انساب الصحابہ'' میں ۔

٧۔ ذہبی نے ''تجرید'' میں ۔

٨۔ ابن حجر نے '' الاصابہ'' میں ۔

۱۵۵

مصادر و مآخذ

صلصل کے حالات :

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدر آباد دکن ( ١ ٣٢٥) نمبر : ١٤١٨

٢۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٣ ٢٩)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '(١ ٢٨٢)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ١٨٧) نمبر : ٤٠٩٩

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨) ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

صفوان بن صفوان کے حالات

١۔ ابن حجرکی '' اصابہ ''(٢ ١٨٣) نمبر : ٤٠٧٦

عمر و بن محجوب عامری کے حالات

١۔ابن حجر کی اصابہ (١٥٣) نمبر ١٩٥٦

٢۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨)

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ٥٢٨) نمبر : ٥٨٢٧

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١١٤) نمبر: ٦٤٨٤

۱۵۶

بیالیسواں اور تینتالیسواں جعلی صحابی عوف ورکانی اور عویف زرقانی

سیف کی ایک مخلوق تین روپوں میں

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں یوں لکھا ہے :

...اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ضرار بن ازور اسدی'' کو اپنے ایلچی کے طور پر قبیلۂ بنی صیدا کے '' عوف زرقانی'' اور اور قضاعی دئلی کے پاس بھیجا۔

عوف کا نسب

سیف بن عمر نے اپنے صحابی عوف کو بنی صیداء سے جعلی کیا ہے جس قبیلہ کے سردار کا نام ''عمرو بن قعین بن حرث بن ثعلبہ بن دودان بن خزیمہ '' ہے ۔ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا طلیحہ بھی اسدی ہے جو بنی صیدا کا ایک قبیلہ ہے۔

عوف ورکانی کی داستان

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں دو صحابیوں کے حالات کی تشریح یکے بعد دیگر آئی ہے ۔ ان میں سے ایک نمبر ٦١٠٨ کے تحت یوں درج ہے:

عوف ورکانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو اپنے ایلچی کے طور پر اس کے پاس بھیجا اور اسے مرتدوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حکم دیا ہے ۔

اس کی داستان کو سیف بن عمر نے ذکر کیا ہے ہم نے اس کے مآخذ کا صلصل کی داستان کے ضمن میں اشارہ کیا ہے ۔

عویف ورقانی

اس کے بعد ابن حجر نمبر ٦١١٣ کے تحت عویف ورقانی کے حالات اس طرح لکھتا ہے:

سیف ارتدار کی خبروں میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:کہ جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پیغمبری کے مدعی طلیحہ کی بغاوت اور قیام کی خبر ملی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عویف ورقانی کو اس سے جنگ کرنے اور اس سے دفاع کرنے پر مامور فرمایا۔

۱۵۷

عوف ورقانی

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید '' میں عوف ورقانی نامی ایک صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :

جب پیغمبری کے مدعی طلیحہ کا مسئلہ زور پکڑنے لگا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' عوف ورقانی '' کی قیادت میں ایک فوج کو اس مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے روانہ فرمایا۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مکتب خلفاء کے پیرو جن علماء نے تین افراد کے حالات لکھے ہیں ، وہ سب کے سب سیف کی ایک روایت پر مبنی ہیں ، اس طرح کہ '' عوف '' کا نام بعض نسخوں میں '' عویف '' لکھا گیا ہے اور اس کی شہرت '' زرقانی '' سے ''ورقانی '' اور پھر '' ورکانی '' لکھی گئی ہے ۔ اس طرح سیف کا خلق کردہ ایک صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تین صحابیوں کے روپ میں مجسم ہوا ہے۔

جی ہاں ، یہ سب سیف کی روایتوں کے وجود کی برکت کا نتیجہ ہیں جو مکتب خلفا کے علماء کے قلموں کے ذریعہ کر ان کی کتابوں میں درج ہوئے ہیں !!

قضاعی بن عمرو سے متعلق ایک داستان

تاریخ طبری میں ذکر ہوئی سیف کی روایت میں آیا ہے کہ قضاعی بن عمرو کا تعارف دئلی کے طور پر کیا گیا ہے اور یہ شہرت '' دئلی'' عرب کے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس '' دئلی'' سے سیف کا مقصود کون سا عرب قبیلہ ہے ۔

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں ' ' قضاعی بن عمرو'' کا نام یوں آیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے واپسی پر '' سنان بن ابی سنان '' اور ''قضاعی بن عمرو'' کو قبیلہ بنی اسد کی طرف مموریت پر بھیجا۔

قضائی کی مموریت کی جگہ کے بارے میں '' تاریخ طبری'' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے:

قضائی بن عمرو ، بنی حرث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ بنی حرث سے سیف کا مقصود دو دان بن اسد کا پوتا بنی حارث ہے ۔

تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے منقول ہے کہ :

۱۵۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو ایلچی کے طور پر '' سنان بن ابی سنان '' اور '' قضاعی بن عمرو'' ۔۔ جو بنی اسد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے تھے ۔۔ کے پاس بھیجا اور انھیں طلیحہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ لکھتا ہے :

ضرار ، قضاعی ، سنان اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بنی اسد میں دیگر کا رندے جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مسئولیت کا عہدہ دار تھا ، سب کے سب طلیحہ کے ڈر سے بھاگ کر مدینہ ابو بکر کے پاس پہنچ گئے اور روداد ابو بکر سے بیان کی ان کے دیگر حامی اور دوست وا حباب بھی طلیحہ سے ڈر کر مختلف اطراف میں بھاگ گئے۔

طبری نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ پر سیف سے نقل کرکے ١٦ ھ میں جلولا کی جنگ کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

اور سعد بن ابی وقاص نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو قضاعی کے ہاتھ مدینہ میں خلیفۂ عمر کے پاس بھیجدیا۔

سیف کی روایتوں میں قضاعی بن عمرو کی داستان یہی تھی کہ جسے ہم نے بیان کیا ۔

افسانۂ قضاعی کے مآخذ اور راویوں کی پڑتال

سیف نے قضاعی کی داستان میں درج ذیل نام بعنوان راوی بیان کئے ہیں :

١۔ سعید بن عبید۔

٢۔ حریث بن معلی۔

٣۔ حبیب بن ربیعۂ اسدی۔

٤۔ عمارة بن فلان اسدی۔

٥۔ اور چند دوسرے مجہول الہویہ راوی کہ سب سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جی ہاں علماء نے اس اعتماد کے پیش نظر جو وہ سیف کی روایتوں پر رکھتے تھے، قضاعی بن عمرو کو صحابی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابیسمجھا اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۵۹

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قضاعی بن عمر : سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ وہ خاندان بنی اسد میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا ۔ابن دباغ نے اس کا نام لیا ہے اور اس کے عبد البر کی کتاب ''استیعاب '' میں موجود ہونے کا تصور کیا ہے، اورخدا بہتر جانتا ہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ)

بہر حال ہم نے اس قضاعی کے نام کو جعلیصحابیوں کی فہرست سے حذف کر دیا ہے ، کیونکہ ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں اس کے ہم نام کا ذکر کرکے اس کے نسب کو ' بنی عذر ہ '' بتایا ہے۔ ابن سعد نے اس کے بارے میں اپنی بات کا آغاز یوں کیا ہے

... الحدیث

لیکن مذکورہ حدیث ذکر نہیں کی ہے اور نہ اس کا کوئی مآخذ بیان کیا ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329