ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130745 / ڈاؤنلوڈ: 4465
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سر انجام جریر نے کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ٥٠ ھ کے بعد وفات پائی ۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف اپنے خلق کردہ صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کا ہم نام بتاتا ہے ۔ اس نے اسی شیوہ سے اپنے جعلی اصحاب کو ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ابودجانہ دو حقیقی اصحاب کے ہم نام کیا ہے ۔ اس کے بعد جریر بجلی کی بعض سرگرمیوں کو اپنے جعلی صحابی جریر حمیری سے نسبت دیتا ہے ۔

اس سلسلے میں ہم بلاذری کی کتاب '' فتوح البلدان '' کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' جریر بجلی'' وہی شخص ہے جس نے بانقیا کے باشندوں کے نما ئندہ '' بصبہری'' سے ایک ہزار درہم اور طیلسانی ١ وصول کرنے کی بنیاد پر صلح کرکے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے ۔

جیسا کہ کہتا ہے :

خالد نے اس بنا پر ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور جنگ نخیلہ کے بعد جریر بجلی وہاں گیا اور ان سے معاہدہ کی مقررہ رقم وصول کی انھیں اس کی رسید دی۔

اسی طرح بلاذری کہتا ہے :

'' بانقیاد '' سے واپس آنے کے بعد ، خالد بن ولید '' فلالیج'' کی طرف روانہ ہوا چونکہ ایرانیوں کا ایک گروہ وہاں پر جمع ہو کرجنگ کا نقشہ کھینچ رہا تھا خالد کے فلالیج میں داخل ہونے کے بعد ایرانی فوری طور پر متفرق ہوئے اور ان کے منصوبے نقش بر آب ہوگئے۔

____________________

١۔ایک قسم کے سبز رنگ کا اورکوٹ ہے جسے خاص طور سے ایران کی بزرگ شخصیتیں اور علماء پہنتے تھے۔

۱۴۱

بلاذری ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

خلافت عمر کے زمانے میں جریر بن عبد اﷲ بجلی نے ''' انبار'' کے باشندوں کے ساتھ ان کی سرزمینوں کی حدود کے بارے میں سالانہ چار لاکھ درہم اور ایک ہزار '' قطوانیہ''١ عبا ؤں کے مقابلے میں معاہدہ کیا ہے۔

بلاذری جیسے دانشور کے لکھنے کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر نے '' جریر بن عبد اللہ ''جیسے صحابی کے بانقیا کی صلح ، جزیہ کا وصول کرناور رسید دینے کے جیسے کارناموں کو اپنے جعلی صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' سے نسبت دی ہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے جس نے '' مصیخ بنی البرشاء '' کی جنگ کے افسانہ کو اس آب و تاب کے ساتھ خلق کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''' فتوح '' میں درج کیا ہے جسے طبری اور طبری کی پیروی کرنے والوں نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور ہم نے اس کی تفصیلات اسی کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے بے مثال سورما ''قعقاع بن عمر و تمیمی'' کی زندگی کے حالات میں بیان کی ہیں ۔

اسی طرح سیف تنہا شخص ہے جس نے ان دو بھائیوں کے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی مقرر ہونے کی بات کی ہے۔

اور یہی دوسری صدی ہجری کا تنہا افسانہ ساز ہے جس نے خیمے نصب کرنے اور سپہ سالار اعظم

''نعمان بن مقرن '' کیلئے خصوصی خیمہ نصب کرنے کی داستانیں گڑھی ہیں ۔

____________________

١۔ قطوانیہ قطوان سے منسوب اسی علاقہ میں ایک جگہ تھی جو ایسا لگتا ہے کہ شہر کوفہ کی بنیاد پڑنے کے بعد وجود میں آئی ہے ، معجم البلدان میں کوفہ کے ملحقات میں شمار کیا گیا ہے ۔

۱۴۲

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے ، اقرع بن عبد اللہ اور اس کے بھائی جریر بن عبد اللہ حمیری کو خلق کرکے بعض کارنامے اور تاریخی داستانیں ان سے منسوب کی ہیں ۔

امام المؤرخین طبری نے مذکورہ داستانوں کو سیف سے نقل کرکے ١٢ ھ سے ٢١ ھ تک کے حوادث کے ضمن میں حقیقی اور ناقابل انکار مآخذ کے طور پر اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن عبد البر ، کتاب '' استیعاب '' کا مصنف ، سیف کی تالیفات پر اعتماد کرکے مذکورہ افسانوں کو صحیح سمجھتے ہوئے اقرع بن عبد اللہ حمیری کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

اقرع کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایلچی کے طور پر '' ذی مران '' اور یمن کے سرداروں کے ایک گروہ کے پاس بھیجا تھا ۔

معروف عالم اور کتاب '' اسد الغابہ '' کے مصنف ابن اثیراور کتاب '' اصابہ '' کے مؤلف ابن حجر نے اسی خبر کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر مذکورہ خبر کو '' استیعاب '' سے نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

اس خبر کو سیف بن عمر نے اپنی کتاب ' ' فتوح '' میں ضحاک بن یربوع سے اس نے اپنے باپ یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔

اس طرح ابن حجر ، ابن عبد البر کے اپنی کتاب '' استیعاب'' میں لائے گئیمآخذ سے پرہیز کرکے وضاحب سے کہتا ہے کہ وہی سیف کی کتاب '' فتوح '' ہے

۱۴۳

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ روایت ۔۔ اقرع کی یمن میں مموریت کے بارے میں ابن عبد البر کی روایتسے الگ ہے جسے ہم نے طبری سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی مموریت کے بارے میں اس حصہ کہ ابتدا ء میں ذکر کیا ہے ۔

سیف نے اس روایت کو گڑھ کر ، اپنی پہلی روایت کی تائید کی ہے ۔ یہ اس کی عادت ہے کہ اپنی جعل کردہ چیزوں کو متعدد روایتوں میں منعکس کرتا ہے ۔ تا کہ اس طرح اس کی روایتیں ایک دوسرے کی مؤید ہوں اور اس کا جھوٹ سچ دکھائی دے ۔

اس کے بعد ابن حجر طبری کی روایت کو سیف سے نقل کرکے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی خلافت ابوبکر میں اپنی ممور یتوں سے واپس مدینہ آنے کے واقعات کو' جنہیں ہم نے گزشتہ صفحات میں درج کیا ہے ۔۔ کو اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

مذکورہ علماء نے '' اقرع بن عبد اللہ حمیری'' کے بارے میں حالات لکھ کر اورسیف کی باتوں اور روایتوں پر اس قدر اعتماد کرکے اپنی گراں قدر کتابوں کو اس قسم کے افسانوں سے آلودہ کیا ہے ۔

یہ امر اقرع کے خیالی بھائی '' جریر بن عبد اﷲحمیری'' کے بارے میں لکھے گئے حالات پر بھی صادق آتا ہے ۔ کیونکہ ابن اثیر '' جریر '' کے حالت کی تشریح میں لکھتا ہے :

وہ ۔۔ جریر بن عبد اللہ حمیری۔۔ یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ۔ جریر نے عراق اور شام کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں سرگرم حصہ لیا ہے ۔ اس نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید خلفیہ عمر ابن خطاب کو پہنچائی ہے (یہ سیف کا کہنا ہے ) ان مطالب کو '' ابو القاسم ابن عساکر '' نے بھی جریر کے بارے میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر بھی '' جریر بن عبد اللہ '' کے حالات کے بارے میں اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھتا ہے :

ابن عساکر کہتا ہے کہ وہ ۔۔ جریر ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔ اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے مطابق کہ اس نے '' محمد '' سے اور اس نے ''' عثمان '' سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ جب خالد بن ولید نے یمامہ سے عراق کی طرف جنگ کا عزم کیا ، اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا ۔ اس سلسلے میں پہلے اصحاب پر نظر ڈالی اور ان میں سے جنگجو اور شجاع افراد کا انتخاب کیا ان جنگجوؤں کی کمانڈ '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو سونپی ، جو اقرع بن عبد اللہ کا بھائی اور یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ( تاآخر )

اس کے علاوہ سیف نے نقل کیا ہے کہ اسی جریر بن عبدا للہ نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید مدینہ خلیفہ عمر کو پہنچائی ہے ۔

سیف نے مختلف جگہوں پر اس '' جریر'' کا نام لیا ہے اور ابن فتحون نے جریر کے حالات کو دوسرے مآخذ سے درک کیا ہے اور

۱۴۴

ابن عساکر کی نظر میں افسانۂ جریر کا راوی '' محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ '' ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔

اس طرح ان علماء نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کرکے ان دو حمیری اور سیف کے خیالی بھائیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیکران کے حالاتلکھے ہیں ۔

خلاصہ

سیف نے اقرع اور جریر کو عبد اللہ کے بیٹوں کے عنوان سے خلق کیا ہے اور ان دونوں کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر یمن بھیجا ہے تاکہ کافروں اور اسلام سے منحرف لوگوں کے خلاف جنگ کا انتظام کریں ۔ اور ان دونوں کو ان افراد میں شمار کیا ہے جو مدینہ واپس آئے ہیں اور یمانی مرتدوں کی خبر خلیفہ ابو بکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ جب خالد بن ولید یمامہ سے عراق کی جنگ کیلئے روانہ ہوا ، تو اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا اور اس سلسلے میں پہلے اصحاب کو مدنظر رکھا ، ان میں سے مجاہدوں اور شجاعوں کا انتخاب کیا جن میں جرید بن عبد اللہ حمیری بھی تھا خالد نے، قضاعہ دستہ کے فوجیوں اور جنگجوؤں کی کمانڈ اسے سونپی ہے ۔

جریر عراق میں خالد کی جنگوں اور فتوحات میں سر گرم عمل رہا ہے اور ''' بانقیا '' ، '' بسما'' '' فلالیج'' سے ''ہر مزگرد ''تک کے صلح ناموں میں عینی گواہ کے طور پر رہا ہے ۔ خالد نے اسے بانقیا و بسما کی حکمرانی سونپی ہے ۔

جریران اصحاب میں سے تھا جو خراج و جزیہ کی رقومات عراق کے علاقوں کے لوگوں سے وصول کرتا تھا جو تسخیر ہونے کے بعد ان پر مقرر کیا گیا تھا ۔ یہ رقومات وصول کرنے کے بعد انھیں رسید دیا کرتا تھا ۔

خالد کے ''مصیخ بنی البرشا'' پر بجلی جیسے حملہ میں جریر اس کے ہمراہ تھا اور اس نے کفار کے درمیان ایک مسلمان کو بھی قتل کر ڈالا ۔

وہ کہتا ہے کہ جریر نے خالد کے ہمراہ شام کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خالد کی طرف سے قاصد کے طور پر مدینہ جاکر خلیفہ عمر کو یرموک کی فتح کی نوید پہنچائی ہے۔

۱۴۵

جریر وہ بہادر ہے جسے '' سعد بن وقاص '' نے خلیفہ عمر کے صریح حکم کے مطابق '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہمراہ ایرانی فوج کے کمانڈر ہرمزان سے مقابلہ کیلئے بھیجا ہے ۔

سیف نے مزید کہا ہے کہ جریر نے ٢١ ھ کی جنگِ نہاوند میں شرکت کی ہے اور اپنے بھائی اقرع اور جریر بن عبدا للہ بجلی اور دیگر اشرافِ کوفہ سپہ سالار اعظم '' نعمان بن مقرن '' کا خیمہ نصب کرنے میں ہاتھ بٹایا ہے ۔

یہ سیف بن عمر تمیمی کی روایتوں کا خلاصہ تھا جو اس نے اپنے خلق کئے گئے دو جعلی اصحاب کے بارے میں گڑھ لی ہیں ۔

سیف نے اپنے خیالی افسانوی پہلوان '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کرکے اس کی بعض فتوحات اور جنگی کارناموں کو اپنے اس خیالی بہادر سے منسوب کیا ہے ۔

نہیں معلوم ، شاید جریر کے بھائی ''' اقرع '' کو اس نے '' اقرع بن حابس تمیمی '' یا '' اقرع عکی '' اور یا کسی اور اقرع کے ہم نام خلق کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نام ۔۔ ''اقرع بن عبد اللہ حمیری '' یوں ہی اچانک اس کے ذہن میں آیا ہو اور اس نے اپنے افسانوں میں اس کیلئے اہم اور حساس رول رکھے ہوں ۔

یہ بھی ہم بتا دیں کہ ہمارے اس افسانہ گو سیف بن عمر نے ان دو حمیری بھائیوں کی داستان تقریباً اس کے دو نامدار عظیم الجثہ تمیمی پہلوان عمر و تمیمی کے بیٹے '' قعقاع'' اور '' عاصم '' کے افسانہ کے مشابہ خلق کی ہے ۔

سرانجام یہ افسانہ اور اس کے مانند سیکڑوں افسانے جن سے اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے اور جو دانشوروں اور اکثر مسلمانوں کیلئے اس حد تک افتخار و سر بلندی کا سبب بنے ہیں کہ وہ کسی قیمت ان سے دستبردار ہونے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے

یہ افسانے درج ذیل معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں قطعی اور حقیقی سند کے عنوان سے در ج ہوئے ہیں ۔

۱۴۶

دو حمیری بھائیوں کے افسانہ کے راوی :

سیف نے مذکورہ دو بھائیوں کے افسانہ کو درج ذیل راویوں کی زبانی نقل کیا ہے :

١۔ محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ

٢۔ مھلب بن عطیہ اسدی

٣۔ غصن بن قاسم۔

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن ییوسفسلمی۔

مذکورہ سبھی راوی سیف کے جعل کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

ان دو بھائیوں کا افسانہ نقل کرنے والے علما:

١۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر بن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ۔

٣۔ ابن عساکر نے '' تاریخ دمشق'' میں ۔

٤۔ ابن فتحون نے کتاب' ' استیعاب ''کے حاشیہ پر ۔

٥۔ ابن اثیر نے '' اسد الغابہ '' میں

٦۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید میں ''

٧۔ ابن حجر نے کتاب '' اصابہ '' میں

٨۔ محمد حمید اللہ نے کتاب '' وثائق الساسبہ '' میں ۔

۱۴۷

مصادر و مآخذ

دو حمیری بھائیوں '' اقرع '' و جریر '' کے بارے میں سیف کی روایات :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨، ١٩٨٨، ١٩٩٨، ٢٠٤٩، ٢٠٥٢، ٢٠٥٥، ٢٠٧٠، ٢١٧٦، ٢٥٥٢، اور ٢٦١٩)

اقرع کے حالات

١۔ کتاب '' استیعاب ''' طبع حیدر آباد دکن (١ ٦٤ ) نمبر : ١٠٠

٢۔ اسد الغابہ ( ١ ١١٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' (١ ٢٦)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (١ ٧٣) نمبر : ٢٣٣

جریر حمیری کے حالات :

١۔ ابن اثیرکی '' اسد الغابہ '' (١ ٢٧٩)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٢٣٤)نمبر: ١١٣٧

تاریخ لکھنے کے سلسلہ میں عمر بن خطاب کا صلاح و مشورہ

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ٢٤٨٠)

جریر بن عبد اللہ بجلی کے بارے میں روایت اور اس کے حالات :

'' استیعاب '' ، اسد الغابہ ، اصابہ ، اور بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ( ص ٢٩٩، ٣٠٠، ٣٠١ ) ، قبیلہ ٔ بجیلہ پر جریر بن عبدا للہ بجلی کی حکمرانی:

١۔ تاریخ طبری (١ ٣٢٠٠ ۔ ٣٢٠٢)

۱۴۸

اڑتیسواں جعلی صحابی صلصل بن شرحبیل

صلصل ، ایک گمنام سفیر :

سیف کی اس روایت میں جس میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے نام آئے ہیں ، صلصل کے بارے میں یوں ذکر ہوا ہے :

صلصل بن شرحبیل کو '' سبرۂ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری ، اوربنی عمرو کے عمروبن الخفاجی '' کے پاس اپنی طرف سے سفیر بنا کر بھیجا ۔ ابن حجر نے ''صفوان بن صفوان اسید '' کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

اسی طرح سیف نے ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ابن عباس سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل بن شرحبیل کو اپنے ایلچی کے طور پر صفوان بن صفوان تمیمی ، وکیع بن عدس دارمی اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ انہیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دے ۔

ہم نے سیف کی ان دو روایتوں کے علاوہ ۔۔ جوخود اس صحابی کے نام کو خلق کرنے والا ہے ۔۔ صلصل کا نام کہیں اور نہیں پایا۔

کتاب ' استیعاب '' کے مصنف ابو عمر ، ابن عبد البر نے صلصل کے حالات کی تشریح میں لکھاہے:

۱۴۹

صلصل بن شرحبیل : میں نہیں جانتا کہ کس خاندان سے ہے۔ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا ، لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ اس کی خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے چند ایلچیوں کو روانہ کرنے کے ضمن میں آئی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے سفیر کے طور پر '' صفوان بن صفوان ١ ، سبرہ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری اور بنی عامر کے عمرو بن الخفاجی '' کے پاس بھیجا تھا ، وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک سفیر تھا ۔

ابن اثیر نے ، ابن عبد البر کی عین عبارت کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے '' تجرید '' میں صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اسے خلاصہ کرکے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کرکے یوں لکھا ہے :

اس کا ۔۔ صلصل بن شرحبیل۔۔ نام صفوان بن صفوان کے حالات کی تشریح میں گزرا ، ابو عمر ۔۔ استیعاب کامصنف ۔۔ کہتا ہے کہ میں اس کے خاندان کو نہیں جانتا اور مجھے اس کی روایت کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ان نامور علماء نے ، سیف کے خلق کردہ صلصل بن شرحبیل کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت سے اسی پر اکتفاء کیا ہے ۔ چونکہ سیف نے بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھاہے لہذا وہ بھی نہ اس کے نسب کے بارے میں اور نہ ہی اس کی روایتوں کے بارے میں اطلاع رکھتے ہیں ۔

____________________

١۔ صفوان کے باپ کا نام ابن عبدالبر کی کتاب '' استیعاب '' میں '' امیہ '' آیا ہے جو غلط ہے ۔ کیونکہ صفوان بن امیہ اسلام لانے کے بعد مکہ سے باہر نہیں نکلا ہے ۔ اس خبر کا مآخذ بھی سیف کی روایت ہے جس میں '' صفوان بن صفوان '' بتایا گیا ہے ۔

۱۵۰

انتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن محجوب عامری

جعلی روایتوں کا ایک سلسلہ

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی مذکورہ دو روایتوں پر مکمل اعتماد کرکے سیف کی ایک اور مخلوق '' عمرو بن محجوب عامری '' کو ایک مسلم حقیقت کے عنوان سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سیف نے اپنے خلق کردہ صحابی کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ عامری ہے ۔ اور یہ '' عامر '' کی طرف نسبت ہے جو قبائل '' ُمعد اور قحطانی '' کے خاندانوں سے متعلق ہے ۔

لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس صحابی کو ان قبیلوں میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔

عمرو بن محجوب کی داستان :

ہم نے دیکھا کہ طبری نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے ضمن میں سیف سے روایت کرکے صلصل کا نام لیا ہے اور اس کی ممور یتوں کے بارے میں یوں بیان کیا ہے کہ وہ پیغمبرا خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور تھا کہ '' بنی عامر عمرو بن محجوب اور عمرو بن خفاجی '' سے ملاقات کرے۔

ابن حجر نے '' اصابہ '' میں اس عمرو بن محجوب کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :

عمروبن محجوب عامری وہ صحابی ہے جسے ابن فتحون نے دریافت کیا ہے اور سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابن عباس سے دو سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ عمروبن محجوب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں میں سے تھا ، اور زیاد بن حنظلہ کے ذریعہ اسے فرمان دیا گیا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو ۔ ہم نے اس عمرو کا نام '' صفوان بن صفوان '' کے حالات پر روشنی ڈالنے کے ضمن میں ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس لحاظ سے عمرو بن محجوب کا نام سیف کی ایک روایت کے مطابق تاریخ طبری میں اور دو روایتوں کے مطابق سیف کی کتاب فتوح میں آیا ہے ،اور ابن حجر نے ان کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں نقل کیا ہے ۔

چوتھی روایت وہاں ہے جہاں ابن حجر نے صفوان کے حالات کی تشریح میں اس کا نام لیا ہے کہ ہم نے اسے صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔

۱۵۱

یہ امر قابل توجہ و دقت ہے کہ ان روایتوں میں سے ہر ایک دوسری پر ناظر اور اس کی مؤید شمار ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ عمرو بن محجوب عامری پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان گماشتوں اور کارندوں میں سے ہے کہ جس کی مموریت کے دوران اسے دو خط ملے ہیں ایک صلصل کے ذریعہ اور دوسرا زیاد بن حنظلہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے ذریعہ ، ان دو خطوط میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے شرک و ارتداد کے خلاف ثابت قدم رہنے کاحکم دیا ہے ۔

انہی روایتوں پر ، ابن فتحون اور ابن حجر جیسے علماء نے پوراا عتماد کر کے پہلے (ابن فتحون) ابن فتحون نے سیف کے اس جعلی صحابی کے حالات '' استیعاب ''کے حاشیہ میں درج کئے اور دوسرے (ابن حجر) نے اپنی معتبر کتاب اصابہ میں اس کیلئے مخصوص جگہ وقف کی ہے

چالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

مسیلمہ سے جنگ کی مموریت

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی انہی گزشتہ روایتوں پر اعتماد کرکے ، عمرو بن خفاجی عامری کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ کے لئے ایک فصل مخصوص کی ہے اور اس فصل میں نمبر : ٥٨٢٧ حرف '' ع'' کے تحت لکھا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری ، اس کا نام صلصل بن شرحبیل کے حالات میں آیا ہے ۔ '' رشاطی'' ١نے لکھا ہے کہ وہ ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک خط کے ذریعہ اسے اور عمرو بن محجوب کو حکم دیا کہ وہ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ انہی مطالب کو طبری نے بھی نقل کیا ہے ۔

____________________

١۔ رشاطی ، ابو محمد عبدا للہ بن علی بن عبد اللہ بن خلف لخمی اندلسی ایک عالم ، محدث، فقیہ ،مؤرخ ، نسب شناس ، ادیب اور لغت شناس تھا، رشاطی ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی سال(٤٦٦ ھ ۔ ١٠٧٤ء )میں ''ادریولہ '' مرسیہ میں پیدا ہوا ۔ اور جمادی الاول یا جمادی الثانی سال ٥٤٢ ھ = ١١٤٧ئ) میں رومیوں کے حملے میں اپنے وطن میں ہی قتل ہوا ۔ اس کی تصنیفات میں '' اقتباس الانوار و التماس الازہار'' یہ کتاب انساب صحابہ اور روات اخبار کے بارے میں ہے اور دوسری کتاب '' المؤتلف '' قابل ذکر ہیں ، معلوم کہ ان دو کتابوں میں سے کس میں اس نے '' عمرو'' کے حالات لکھے ہیں !!۔

۱۵۲

سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ جو صحابی مرتدوں سے جنگ کرنے کے بارے میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خط عمروبن خفاجی کے نام لایا تھا۔ وہ زیاد بن حنظلہ تھا (ز)

ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر کے حرف (ز) لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی کے حالات دوسروں کے مقابلہ میں اس نے دریافت کئے ہیں ۔

۱۵۳

اکتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

ابن حجر کی غلط فہمی سے وجود میں آیا ہوا صحابی

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' کے تیسرے حصہ کو ان اصحاب سے مخصوص رکھا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں زندہ تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور دیدار سے شرفیاب نہیں ہوئے تھے وہ حرف '' ع'' کے تحت لکھتا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری : سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ اور عمرو بن محجوب عامری کو پیغام بھیجا اور انھیں ممور فرمایا وہ کہ مسیلمۂ کذاب سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن فتحون نے اس کے نام کو دوسرے مصادر سے دریافت کیا ہے (ز)۔

اس طرح ابن حجر جیسے مشہور علامّہ نے بھی غلط فہمی کا شکار ہوکر '' عمرو بن خفاجی '' کے حالات اپنی کتاب میں دو جگہوں پر لکھے ہیں ۔

جبکہ خودسیف جو اس شخص کا افسانہ گڑھنے کرنے والا ہے ، نے اسے صرف ایک شخص جعل کیا ہے۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری میں عمرو بن خفاجی کا نسب '' بنی عمرو '' لکھا گیا ہے ۔ جبکہ ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں صلصل کے حالات کی تشریح میں یہ نسب (بنی عامر ) ذکر ہوا ہے ۔

اس داستان کا خلاصہ اور نتیجہ

سیف بن عمر نے اپنے ایک ہی مقصد کو اپنی دو بناوٹی روایتوں میں بیان کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل نام کے ایک شخص کو قاصد و ایلچی کے طور پر اپنے گماشتوں اور کارندوں کے پاس بھیجا اور اسے علاقہ کے مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ سیف کی اسی ایک جھوٹی داستان کے نتیجہ میں علماء نے اس کے افسانوی صحابیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں شمار کیا ہے اور درج ذیل جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات لکھے ہیں :

١۔ صلصل بن شرحبیل

٢۔ عمروبن محجوب عامری

٣۔ عمروبن خفاجی عامری

٤۔ عمرو بن خفاجی عامری

۱۵۴

صفوان بن صفوان

ہمیں اس صفوان بن صفوان کے سیف کے جعلی صحابی ہونے پر شک ہے ، اگر ایسے شخص کو سیف نے خلق بھی نہ کیا ہوپھر بھی اس کا صحابی ہونا سیف بن عمر کے خلق کرنے سے کچھ کم نہیں ہے ۔

جو کچھ بیان ہوا اس کے علاوہ سیف نے اپنی جعلی روایتوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں ہی مسلمانوں کے اسلام سے منہ موڑنے کی بات کی ہے ۔ اس نے ان جھوٹے اور بے بنیاد مطالب کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں بہانہ فراہم کیاہے کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ اسلام نے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور اس زمانے کے قبائل کے لوگوں کے وجود کی گہرائیوں میں اسلام نے اثر نہیں ڈالا تھا ، اسی لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ہی اسلام کے مقابلے میں آکر تلوار کھینچیلی ہے!

پھر یہی سیف کی روایتیں اور جھوٹ کے پلندے اور ارتداد کی جنگوں کی منظر کشی ، قارئین کے ذہن کو یہ قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام نے ایک بار پھر ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں تلوار کی نوک پر اور بے رحمانہ قتل عام کے نتیجہ میں استحکام حاصل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا ''میں مفصل بحث و تحقیق کی ہے ۔

سر انجام ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق انہی جھوٹ اور افسانوں کو مکتب خلفاء کے پیرؤ علماء نے حسبذیل معتبر مآخذ میں درج کیا ہے :

١۔ امام المؤرخین ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ، ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں

٣۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن فتحون نے ، استیعاب کے ذیل میں ۔

٥۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ۔

٦۔ رشاطی نے '' انساب الصحابہ'' میں ۔

٧۔ ذہبی نے ''تجرید'' میں ۔

٨۔ ابن حجر نے '' الاصابہ'' میں ۔

۱۵۵

مصادر و مآخذ

صلصل کے حالات :

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدر آباد دکن ( ١ ٣٢٥) نمبر : ١٤١٨

٢۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٣ ٢٩)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '(١ ٢٨٢)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ١٨٧) نمبر : ٤٠٩٩

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨) ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

صفوان بن صفوان کے حالات

١۔ ابن حجرکی '' اصابہ ''(٢ ١٨٣) نمبر : ٤٠٧٦

عمر و بن محجوب عامری کے حالات

١۔ابن حجر کی اصابہ (١٥٣) نمبر ١٩٥٦

٢۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨)

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ٥٢٨) نمبر : ٥٨٢٧

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١١٤) نمبر: ٦٤٨٤

۱۵۶

بیالیسواں اور تینتالیسواں جعلی صحابی عوف ورکانی اور عویف زرقانی

سیف کی ایک مخلوق تین روپوں میں

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں یوں لکھا ہے :

...اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ضرار بن ازور اسدی'' کو اپنے ایلچی کے طور پر قبیلۂ بنی صیدا کے '' عوف زرقانی'' اور اور قضاعی دئلی کے پاس بھیجا۔

عوف کا نسب

سیف بن عمر نے اپنے صحابی عوف کو بنی صیداء سے جعلی کیا ہے جس قبیلہ کے سردار کا نام ''عمرو بن قعین بن حرث بن ثعلبہ بن دودان بن خزیمہ '' ہے ۔ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا طلیحہ بھی اسدی ہے جو بنی صیدا کا ایک قبیلہ ہے۔

عوف ورکانی کی داستان

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں دو صحابیوں کے حالات کی تشریح یکے بعد دیگر آئی ہے ۔ ان میں سے ایک نمبر ٦١٠٨ کے تحت یوں درج ہے:

عوف ورکانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو اپنے ایلچی کے طور پر اس کے پاس بھیجا اور اسے مرتدوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حکم دیا ہے ۔

اس کی داستان کو سیف بن عمر نے ذکر کیا ہے ہم نے اس کے مآخذ کا صلصل کی داستان کے ضمن میں اشارہ کیا ہے ۔

عویف ورقانی

اس کے بعد ابن حجر نمبر ٦١١٣ کے تحت عویف ورقانی کے حالات اس طرح لکھتا ہے:

سیف ارتدار کی خبروں میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:کہ جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پیغمبری کے مدعی طلیحہ کی بغاوت اور قیام کی خبر ملی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عویف ورقانی کو اس سے جنگ کرنے اور اس سے دفاع کرنے پر مامور فرمایا۔

۱۵۷

عوف ورقانی

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید '' میں عوف ورقانی نامی ایک صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :

جب پیغمبری کے مدعی طلیحہ کا مسئلہ زور پکڑنے لگا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' عوف ورقانی '' کی قیادت میں ایک فوج کو اس مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے روانہ فرمایا۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مکتب خلفاء کے پیرو جن علماء نے تین افراد کے حالات لکھے ہیں ، وہ سب کے سب سیف کی ایک روایت پر مبنی ہیں ، اس طرح کہ '' عوف '' کا نام بعض نسخوں میں '' عویف '' لکھا گیا ہے اور اس کی شہرت '' زرقانی '' سے ''ورقانی '' اور پھر '' ورکانی '' لکھی گئی ہے ۔ اس طرح سیف کا خلق کردہ ایک صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تین صحابیوں کے روپ میں مجسم ہوا ہے۔

جی ہاں ، یہ سب سیف کی روایتوں کے وجود کی برکت کا نتیجہ ہیں جو مکتب خلفا کے علماء کے قلموں کے ذریعہ کر ان کی کتابوں میں درج ہوئے ہیں !!

قضاعی بن عمرو سے متعلق ایک داستان

تاریخ طبری میں ذکر ہوئی سیف کی روایت میں آیا ہے کہ قضاعی بن عمرو کا تعارف دئلی کے طور پر کیا گیا ہے اور یہ شہرت '' دئلی'' عرب کے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس '' دئلی'' سے سیف کا مقصود کون سا عرب قبیلہ ہے ۔

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں ' ' قضاعی بن عمرو'' کا نام یوں آیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے واپسی پر '' سنان بن ابی سنان '' اور ''قضاعی بن عمرو'' کو قبیلہ بنی اسد کی طرف مموریت پر بھیجا۔

قضائی کی مموریت کی جگہ کے بارے میں '' تاریخ طبری'' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے:

قضائی بن عمرو ، بنی حرث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ بنی حرث سے سیف کا مقصود دو دان بن اسد کا پوتا بنی حارث ہے ۔

تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے منقول ہے کہ :

۱۵۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو ایلچی کے طور پر '' سنان بن ابی سنان '' اور '' قضاعی بن عمرو'' ۔۔ جو بنی اسد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے تھے ۔۔ کے پاس بھیجا اور انھیں طلیحہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ لکھتا ہے :

ضرار ، قضاعی ، سنان اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بنی اسد میں دیگر کا رندے جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مسئولیت کا عہدہ دار تھا ، سب کے سب طلیحہ کے ڈر سے بھاگ کر مدینہ ابو بکر کے پاس پہنچ گئے اور روداد ابو بکر سے بیان کی ان کے دیگر حامی اور دوست وا حباب بھی طلیحہ سے ڈر کر مختلف اطراف میں بھاگ گئے۔

طبری نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ پر سیف سے نقل کرکے ١٦ ھ میں جلولا کی جنگ کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

اور سعد بن ابی وقاص نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو قضاعی کے ہاتھ مدینہ میں خلیفۂ عمر کے پاس بھیجدیا۔

سیف کی روایتوں میں قضاعی بن عمرو کی داستان یہی تھی کہ جسے ہم نے بیان کیا ۔

افسانۂ قضاعی کے مآخذ اور راویوں کی پڑتال

سیف نے قضاعی کی داستان میں درج ذیل نام بعنوان راوی بیان کئے ہیں :

١۔ سعید بن عبید۔

٢۔ حریث بن معلی۔

٣۔ حبیب بن ربیعۂ اسدی۔

٤۔ عمارة بن فلان اسدی۔

٥۔ اور چند دوسرے مجہول الہویہ راوی کہ سب سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جی ہاں علماء نے اس اعتماد کے پیش نظر جو وہ سیف کی روایتوں پر رکھتے تھے، قضاعی بن عمرو کو صحابی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابیسمجھا اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۵۹

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قضاعی بن عمر : سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ وہ خاندان بنی اسد میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا ۔ابن دباغ نے اس کا نام لیا ہے اور اس کے عبد البر کی کتاب ''استیعاب '' میں موجود ہونے کا تصور کیا ہے، اورخدا بہتر جانتا ہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ)

بہر حال ہم نے اس قضاعی کے نام کو جعلیصحابیوں کی فہرست سے حذف کر دیا ہے ، کیونکہ ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں اس کے ہم نام کا ذکر کرکے اس کے نسب کو ' بنی عذر ہ '' بتایا ہے۔ ابن سعد نے اس کے بارے میں اپنی بات کا آغاز یوں کیا ہے

... الحدیث

لیکن مذکورہ حدیث ذکر نہیں کی ہے اور نہ اس کا کوئی مآخذ بیان کیا ہے ۔

۱۶۰

چوالیسواں جعلی صحابی قحیف بن سلیک ہالکی

قحیف ، طلیحہ سے جنگ میں

گزشتہ داستانوں کے ضمن میں ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قحیف بن سلیک ہالکی ، بنی اسد کے ایک قبیلہ '' بنی ہالک '' ''ہ'' کے ساتھ بنی اسد کے خاندان سے ہے ۔

قحیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں اسلام قبول کیا ہے ۔ اس کے بعد اس نے ضرار بن ازور ، قضاعی بن عمرو اور سنان بن ابی سنان کے ہمراہ طلیحہ اسدی سے جنگ میں شرکت کی ہے اور پیکار کے دوران اس نے طلیحہ پر ایک مہلک اور کاری ضرب لگائی جس کے نتیجہ میں وہ زمین پر ڈھیر ہوکر بیہوش ہوگیا اسی اثناء میں طلیحہ کے حامی آ پہنچے اورقحیف کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

کچھ دیر کے بعد طلیحہ ہوش میں آگیا اور اپنا معالجہ کیا ، صحت یاب ہونے کے بعد یہ افواہ پھیلادی کہ اس پر کوئی اسلحہ اثر نہیں کرسکتا۔ اس طرح اس نے لوگوں کو تعجب میں ڈالدیا ۔

ابن حجر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

البتہ ان مطالب کو سیف بن عمر نے قحیف بن سلیک کے بارے میں اپنی کتاب ''فتوح '' میں بدر بن حرث' اس نے عثمان بن قطبہ سے اور اس نے بنی اسد کے ذریعہ نقل کیا ہے ان کا باپ بھی ان میں سے تھا !!(ز)

اس داستان کے راویوں کے بارے میں ایک بحث

سیف نے روایت کے راوی کے طور پر '' بدر بن حارث '' کا تعارف کرایا ہے ۔ بدر کے باپ حارث کا نام غلط ہے ، اور صحیح '' بدر بن خلیل'' ہے جو سیف کے جعلی روایوں میں سے ایک تھا ، سیف نے اپنے اکثر افسانے اور جھوٹ اسی سے نقل کئے ہیں ۔

اور اگر غلطی سرزد نہ ہوئی ہو اور وہی '' بدر بن حارث '' ہو تو اس نام کو سیف کے دوسرے جعلی راویوں کی فہرست میں قرار دینا چاہئے۔

۱۶۱

قحیف کی داستان کی تحقیق

سیف بن عمر کے زمانہ میں یمن میں قحیف نامی ایک نامور شاعر تھا ، ابن اثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب '' کامل '' میں ١٢٤ ھ کے حوادث کے ضمن میں اس کا نام لیا ہے ۔ ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کیا سیف نے اپنے جعلی قحیف کو شاعر قحیف کا ہم نام خلق کیا ہے ، یعنی وہی کام کیا ہے جو اس نے ''خزیمہ بن ثابت '' سماک بن خرشہ اور جریر بن عبد اللہ کے بارے میں انجام دیا ہے یایوں ہی اچانک یہ نام اس کے ذہن میں آیا اور اس نے اپنے خلق کردہ صحابی کا نام یہی رکھا ہے اور اسی پر افسانہ گڑھ لیا ہے ۔

موضوع جو بھی ہو کوئی فرق نہیں ، ہم نے خاص طور سے اس موضوع کے بارے میں اس لئے اشارہ کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ابن اثیر کی تاریخ کی طرف رجوع کرکے یہ خیال کرے کہ سیف جعل کردہ شخصحقیقت میں تاریخ میں موجود ہے ۔

لیکن سیف نے ضرار بن ازور کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر عوف ورکانی اور قضاعی بن عمرو کے پاس بھیجنے کا جوذکر کیا ہے اور ان دونوں نمائندوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسود کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت دی کہ اسے قتل کر ڈالیں ،یہ سب کا سب جعل اور جھوٹ ہے اور ہم نے اس سلسلے میں اپنی کتاب '' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں مکمل تفصیل لکھی ہے ۔

مصادر و مآخذ

قضاعی بن عمرو کی داستان :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨ ، (١٧٩٩، ١٨٩٣ اور ٢٤٦٥)

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٠٥)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٣ ٢٢٧)

٤۔ ابن سعد کی ''طبقات'' (١ ٢٣٢)

۱۶۲

قضاعی بن عامر کی داستان

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' (٤ ٢٠٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (٣ ٢٧٧) نمبر : ٧١١٧

قحیف بن سلیک کی داستان

١۔ ابن حجر کی اصابہ ( ٣ ٢٥٦ )نمبر : ٧٢٨١

ہالک بن عمرو کا نسب

١۔ اللباب (٣ ٢٨٣)

٢۔ ابن حزم کی جمہرہ ( ص١٩٠ ۔ ١٩٢)

شاعر قحیف کی داستان

١۔ ابن اثیر کی '' تاریخ کامل'' طبع دار صادء (٥ ٣٠٠)

۱۶۳

پینتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن حکم قضاعی

عمرو کا نسب

ابن اثیر کی کتاب '' اللباب فی تھذیب الانساب'' میں یوں آیا ہے:

قضاعہ ایک بڑی قوم ہے جو متعدد قبائل پر مشتمل ہے اس میں شامل قبیلوں میں '' قبیلۂ کلب ، قبیلہ بلی اور قبیلۂ و جہینہ وغیرہ قابل ذکر ہیں '' قینی '' بھی '' قین '' کی طرف نسبت ہے جو خود قضاعہ کا ایک قبیلہ ہے ، یہ نعمان بن جسر کا پوتا اور قضاعہ کی اولاد میں سے ہے جو '' قین '' کے نام سے معروف تھا۔

عمرو بن حکم کی داستان کا سرچشمہ

طبری اور ابن عساکر کی '' تاریخوں '' میں ہم پڑھتے ہیں :

سیف بن عمر نے ابو عمرو سے اور اس نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت قضاعہ کے مختلف قبائل میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے اور گماشتے حسب ذیل تھے :

١۔ خاندان بنی عبدا للہ سے امرؤ القیس ، قبیلۂ کلب میں ۔

٢۔ عمرو بن حکم ، قبیلۂ قین میں ۔

٣۔ معاویہ بن فلان وائلی قبیلہ '' سعدھذیم '' میں ۔

قبیلہ کلب سے ودیعۂ کلبی اپنے ہمفکروں اور دوست و احباب کی ایک جماعت کے ساتھ مرتد ہوکر دین اسلام سے منحرف ہوگیا تھا ۔لیکن '' امرؤ القیس'' بدستور اسلام کا وفادار رہ کر اسلام پر باقی رہا۔

زمیل بن قطبہ قینی بھی قبیلۂ ''بنی قین ''سے اپنے دوستوں کے گروہ کے ساتھ مرتد ہوا لیکن رسول خدا کا کارندہ عمرو بن حکم بدستور مسلمان رہا۔

۱۶۴

معاویہ بن فلان وائلی بھی قبیلۂ ''سعد ھذیم '' کے اپنے چند ہمفکروں کے ساتھ دین اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو۔

مذکورہ لوگوں کے مرتد ہونے کے بعد ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امام حسین کی بیٹی سیکنہ کے نانا '' امرؤ القیس'' کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ ودیعہ اور اس کے دوستوں کا مقابلہ کرکے ان کی بغاوت کو کچل ڈالے۔

ایک دوسرے خط کے ذریعہ عمرو بن حکم قضاعی اور معاویۂ عذری کو حکم دیا کہ ایک دوسرے کی مدد سے '' زمیل'' اور اس کے ساتھیوں کی شورش کو سرکوب کریں ۔

جب اسامہ بن زید ، خلیفہ کے حکم پر شام کی جنگ سے واپسی پر قبائل قضاعہ کے مرکز میں پہنچا تو اس نے اپنی فوج کے مختلف دستوں کو مختلف قبائل میں متفرق کرکے انھیں حکم دیا کہ اسلام پر پابند لوگوں کو منظم کرکے قبیلۂ کے مرتدوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں ۔

اسامہ کے اس اقدام پر قضاعہ کے مختلف قبیلوں کے مرتدوں نے اپنے خاندان سے فرار کرکے '' دومة الجندل '' میں اجتماع کیا اور '' ودعیۂ کلبی'' کی حمایت پر اتر آئے اور اس طرح اس کی ہمت افزائی ہوئی ۔

اسامہ کے سوار اپنی ڈیوٹی انجام دے کر واپس پلٹے تو اسامہ نے ان کے ہمراہ بے خبر اور اچانک مرتدوں کے جمع ہونے کی جگہ (حمقتین ) پر حملہ کیا اور قضاعہ کے مختلف قبائل جیسے قبیلۂ ''جذام ''' کے بنی ضعیف'' قبیلۂ '' بنی لخم'' کے '' خلیل'' اور ان کے دیگر حامیوں پر ٹوٹ پڑے اور انھیں بڑی بے رحمی کے ساتھ تہ تیغ کیا اور مرتدوں کے گروہ کا '' آبل'' تک پیچھا کیا ۔ اس علاقہ کو ان کے ناپاک و جود سے پاک کیا اور کافی مقدار میں جنگی غنائم لے کر فاتح کی صورت میں واپس لوٹا۔

سیف کی اسی ایک روایت سے استفادہ کرتے ہوئے مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو صحابی اور کارندوں کا انکشاف کیا ہے.ان علماء میں سے ابو عمر ، ابن عبد البر اپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے :

عمرو بن حکم قضاعی قینی ، ایک ایسا صحابی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتہ اور کارندے کے طور پر قبیلۂ '' قین '' میں منصوب فرمایا ہے ۔۔ میں ابن عبد البر ۔۔ اس سے زیادہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔

جب قبائل قضاعہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض کارندے مرتد ہوئے ، تو عمرو بن حکم اور امرؤ القیس بن اصبغ ان کارندوں میں سے تھے جو اسلام پر ثابت قدم رہے اور مرتد نہیں ہوئے ( ابن عبد البر کی بات کا خاتمہ)

۱۶۵

ابن اثیر نے بھی استیعاب کی مذکورہ روایت کوعین عبارت کے ساتھ اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں نقل کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ دو علما۔۔ ابن عبدا لبر اور ابن اثیر ۔۔ نے مذکورہ خبر کے مآخذ کو اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے ۔ لیکن ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ '' میں زیر بحث روایت کے مآخذ کے بارے میں یوں رقمطراز ہے :

عمروبن حکم قضاعی '' قینی'' : سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں حفص بن میسرہ کے قول کو یزید بن اسلم سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمروبن حکم کو اپنے عامل و کارگزار کے طور پر قبیلۂ قین میں منصوب فرمایا ' لیکن جس وقت قبائل قضاعہ کے بعض افراد مرتد ہوگئے ، تو عمرو بن حکم اور امرؤ القیس بن اصبغ ، ان کارندوں میں سے تھے جو بدستور ( داستان کی آخر تک)

ان روایتوں کے علاوہ ، ابن حجر نے ایک اور روایت سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کی ہے اور اس میں اسی خبر کی تکرار ہوئی ہے ، لیکن طبری اسے اپنی تاریخ میں نہیں لایا ہے ۔ اور سیف کا یہ کام ہمارے لئے نیا نہیں ہے ، کیونکہ اس کی روش ایسی ہے کہ ایک خبر کو متعدد اور مختلف روایتوں میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی مؤید ہوں تا کہ روایتوں کی زیادہ تعدادکے ذریعہ اس کے جعلی ہونے کی پردہ پوشی ہوجائے۔

۱۶۶

چھیالیسواں جعلی صحابی '' بنی عبداللہ '' سے امرؤ القیس

علماء کے ذریعہ امرؤ القیس کا تعارف

مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی اسی روایت سے استفادہ کرکے بنی عبد اللہ سے ''امرؤ القیس بن اصبغ '' نامی ایک صحابی ، عامل اور کارندے کے وجود پر یقین کرکے اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابو عمر ، ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں '' امرؤ القیس '' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں لکھا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ ، بنی عبد اللہ بن کلب بن وبرہ وہ صحابی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبائل قضاعہ کے قبیلۂ '' کلب'' میں اپنے عامل و کارندے کے عنوان سے منصوب فرمایا ہے ۔ قبائل قضاعہ کے بعض افراد کے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہونے کے بعد امرؤ القیس بدستور اسلام پر پابند رہا ہے ۔

میرے خیال میں ۔۔ البتہ خدا بہتر جانتا ہے ۔۔ یہ امرؤ القیس ابو سلمہ بن عبد الرحمان بن عوف کا ماموں ہوگا ، کیونکہ ابو سلمہ کی والدہ ، جس کا نام '' تماضر '' تھا '' اصبغ بن ثعلبہ بن ضمضم کلبی کی بیٹی تھی ۔ اور خود اصبغ اپنے قبیلہ کا سردار تھا ( ابن عبد البر کی بات کا خاتمہ)

مذکورہ روایت کو کتاب '' الجمع بین الاستیعاب و معرفة الصحابہ'' کے مصنف نے کسی کمی بیشی کے بغیر امرؤ القیس کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ۔

ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی خبر کو بعینہ نقل کیا ہے اور '' بنی عبد الدار '' کا نسب بھی اس میں اضافہ کیاہے ۔ ابن اثیر کہتا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی بنی عبد اللہ بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید اللات بن رفیدة بن ثور بن وبرہ ایک صحابی ہے جسے رسول خدا نے بعنوان ( عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں ذکر ہوئی داستان کے آخر تک ) پھر وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :

البتہ ان مطالب کو ابو عمر ابن عبدا لبر نے بیان کیا ہے اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسے مطالب ذکر کئے ہیں ۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید'' میں امرؤ القیس کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

کہتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے قبیلۂ کلب پر ممور فرمایا تھا۔ صرف ابن عبد البر نے اس کے سلسلہ میں یہ بات کہی ہے ۔

۱۶۷

اس طرح ان تین علما۔۔ ابن عبد البر ، ابن اثیر اور ذہبی ۔۔ نے امرؤ القیس کے حالات پر اپنی کتابوں میں روشنی ڈالیہے ۔ لیکن اپنی روایت کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

لیکن ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ' میں ابن عبد البر کی روایت کو صراحت کے ساتھ اس کا نام لے کر لیکن خلاصہ کے طور پر نقل کرکے آخر میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے کہ امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ میں سے تھا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ و کارندہ کی حیثیت سے قبائل بنی قضاعہ کے قبیلہ ٔ کلب میں ممور تھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد مرتد نہیں ہوا ۔ سیف نے اپنی کتاب میں دوسری جگہوں پر بھی امرو القیس کا نام لیا ہے ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

عمرو اور امرؤ القیس کے بارے میں ا یک بحث

اس روایت میں دو جگہوں پر ایک محقق کیلئے مطلب پیچیدہ اور مبہم ہے پہلے یہ کہ ابو عمر ، ابن عبد البر نے ، عمرو بن حکم قضاعی کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت ، سیف بن عمر کی بات کو اس کے بارے میں مختصر ذکر کرکے فقط اس پر اکتفا کی ہے کہ:

وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا ، ارتداد کے مسئلہ میں اسلام پر باقی رہا ہے ۔ ( آخر میں تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے ): میں اس سے زیادہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہوں ۔

ابن اثیر نے بھی کتا ب'' اسد الغابہ '' میں ابن عبد البر کی پیروی کرتے ہوئے اس میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔ لیکن ابن حجر نے ان دوعلماء کی روایت کے مآخذ سے پردہ اٹھا کر انہیں بیان کیا ہے ۔جس نے محققین کے کام کو آسان بنادیا ہے ۔

اور اس کی پیچیدگی کا سبب نہیں بنا ہے لیکن امرؤ القیس کے حالات کی تشریح کے بارے میں یہ مسئلہ بر عکس ہوا ہے ، کیونکہ اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس سے بیشتر بیان کیا گیا ہے جوکچھ سیف بن عمر نے اس کے بارے میں کہا ہے ۔

ملاحظہ فرمائیے :

سیف کی روایت میں امرؤ القیس کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ ، بنی عبد اللہ سے ہے۔

۱۶۸

لیکن یہی سادہ تعارف ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں اس طرح آیا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ بن وبرہ سے ہے!

آخر میں ابن اثیر اس نسبی تعارف میں اضافہ کرکے کہتا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ بن کنانة بن بکر تا ابن کلب بن وبرہ !!!

یہی امر سبب بنتا ہے کہ انسان یہ گمان کرے کہ کیا ابن اثیر امرؤ القیس کے نسب کو کلب بن وبرہ تک جانتا تھا اور اسے مکمل طور پر پہچانتا تھا جو اس طرح یقین اور قطعی صورت میں اس کا سب بیان کررہا ہے ؟ لیکن جب ابن اثیر اپنی بات کے خاتمہ تک پہنچتا ہے تو اس طرح کہتا ہے :

البتہ یہ ابو عمر ، ابن عبد البر کا کہنا اور وہ تنہا شخص ہے جس نے امرؤ القیس کے بارے میں اس طرح کی بات کہی ہے ۔

اس طرح حقیقت سامنے آجاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ ابن اثیر نے بنی عبد اللہ کے سلسلہ نسب کو ''کلب بن وبرہ''تک پہنچا یا ہے نہ کہ سیف کے خیالات کی تخلیق '' امرؤ القیس '' کے نسب ۔

امرؤ القیس عدی کی جگہ امرؤ القیس اصبغ کی جانشینی

دوسری جگہ یہ کہ سیف نے اپنی مخلوق امرؤ القیس کو '' اصبغ '' کے بیٹے کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ اصبغ '' اصبغ کلبی '' کا ہم نام ہے جو '' دومة الجندل '' میں رئیس قبیلہ تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبد الرحمان عوف کو اسلام کے سپاہیوں کے ایک گروہ کے ہمراہ اس کے پاس بھیجا تھا۔

اس ملاقات کے دوران عبد الرحمان نے '' اصبغ'' کی بیٹی '' تماضر'' سے عقد کرکے اسے اپنی بیوی بنالیا اور اس نے ایک بیٹے ''' ابو سلمہ '' کو جنم دیا ہے ۔

۱۶۹

ابن عبد البر اصبغ کے نام میں اس ہم نامی کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور تصور کیا ہے کہ جس اصبغ کا سیف نے نام لیا ہے وہ وہی اصبغ ہونا چاہئے جو دومة الجندل میں قبیلۂ کلب کا سردار تھا اور اس نے یہیں سے یہ خیال کیا ہے کہ سیف کا امرؤ القیس '' تماضر'' کا بھائی اور ابو سلمہ بن عبد الرحمان عوف کا ماموں ہے ۔ جبکہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ '' تماضر '' کے باپ کے '' امرؤ القیس'' نامی کوئی بیٹا تھا۔

اس طرح ابن عبد البر اس امر سے بھی غافل تھا کہ سیف بن عمر نے اپنی داستان کے ہیرو ''امرو القیس '' کو امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جد کے طور پر خلق کیا ہے ۔ جبکہ سکینہ بنت امام حسین کا جدِ مادری امرؤ القیس بن عدی ہے نہ اصبغ !! اور یہ امرؤ القیس بن عدی بھی خلافت عمر کے زمانے میں اسلام لایا ہے ، نہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں اور یہ کسی صورت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اورکارندہ نہیں تھا ١ اس بنا پر جس امرؤ القیس کو سیف نے خلق کیا ہے وہ اس اصبغ کا بیٹا نہیں تھا ، جو دومة الجندل میں سردار قبیلہ تھا اور نہ سکینہ کا نانا تھا اور نہ ہی ابو سلمہ بن عبد الرحمان عوف کا ماموں تھا بلکہ یہ صرف ایک نام تھا ان ناموں کی فہرست میں جنھیں سیف نے اپنے افکار کے نفاذ کیلئے خلق کیا ہے اور اپنے افسانوں میں اس کیلئے کردار معین کیا ہے تا کہ آسانی کے ساتھ تاریخ اسلام کو ذلیل و خوار کرے اور محققین کو حیرت اور پریشانی سے دوچار کرے ۔

بے شک سیف اس قسم کے دو ہمنام دلاوروں کو خلق کرکے اور انھیں تاریخ کے حقیقی چہرے کے طور پر دکھا کر علماء کو حیرت اور پریشانی سے دوچار کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوا ہے اسی طرح اپنے افسانوں کو خلق کرنے میں ، '' ابو دجانہ ، سماک بن خرشہ ، جریر بن عبد اللہ اور سبائیان '' جیسے اسلام کے واقعی چہروں کا نام لیا ہے اور تاریخ میں دخل و تصرف کرکے حقیقتوں کو تحریف کرنے کے بعد علماء و اور محقیقین کیلئے پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا کی ہیں ۔

یہاں پر یہ سؤال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حقیقت میں سیف کے زندیقی ہونے کی نسبت صحیح نہ ہوتی تو کون سی چیز اس کیلئے اسلام کے ساتھ اتنی دشمنی کرنے کا سبب بنتی اور وہ تاریخ اسلام کو ذلیل کرنے پر اتر آتا ؟!!

____________________

١ امرؤ القیس بن عدی کے اسلام قبول کرنے کے طریقہ کے بارے میں '' اسلام کی جنگوں کے سپہ سالار '' کی فصل میں ذکر ہوگا''

۱۷۰

تاریخ کی مسلم حقیقتیں

موضوع کی حقیقت کی تحقیق کرنے کیلئے گزشتہ بحث پر ایک مختصر نظر ڈالنا بے فائدہ نہ ہوگا۔

سیف نے اپنی خلق کی گئی روایتوں اور افسانوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے چند ایسے کارندے اور گماشتے جعل کئے ہیں جن کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قضاعہ کیلئے ممور فرمایا تھا ۔ اس سلسلے میں کہا ہے کہ ان کارندوں میں سے بعض رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہوگئے اور اس واقعہ کی وجہ سے خلیفہ ابو بکر نے مجبور ہو کر ان لوگوں میں دین اسلام پر ثابت قدم رہنے والے افراد کو حکم دیا ہے کہ وہ مرتدوں سے جنگ کریں اور انھیں پھیلنے سے روکیں ۔ جب اس دوران اسامہ موتہ کی جنگ سے واپس آتا ہے ۔ جیسا کہ سیف نے اس مطلب کو ایک دوسری روایت میں بیان کیا ہے ۔۔ تو ابو بکر اسے قضاعہ کے مرتدوں کی سرکوبی کیلئے ممور فرماتے ہیں ۔ اسامہ نے بھی مرتدوں کا '' حمقتین '' سیف نے ایک دوسری روایت میں اس جگہ کو شام کی سرحدوں کے عنوان سے پیش کیا ہے تک پیچھا کرتا ہے ان میں سے بہت سے گروہوں کا قتل عام کرکے کافی مقدار میں غنائم حاصل کرکے واپس لوٹتا ہے ۔

سیف نے اس روایت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے قضاعہ کے مختلف قبائل میں چند گماشتے اور کارندے خلق کئے ہیں ۔ جس کی تفصیل ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمیمی کارندے اور حاکم'' کے عنوان سے بیان کرکے اس کے آخر میں سیرت لکھنے والوں کے امام و پیشوا ابو اسحق کا یہ قول نقل کیا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام کی قلمرو میں موجود سرزمینوں میں اپنے گورنر اور گماشتے حسب ذیل منصوب فرمائے

ہم نے ابو اسحق کا مذکورہ بیان اس لئے نقل کیا ہے تا کہ تاریخ کے مسلم حقائق کے مقابلے میں سیف کی روایتوں کا افسانہ ہونا اور ان کی قدر و منزلت واضح ہوجائے ۔

یہاں پر بھی ہم ایک دوسرے دانشور اور تاریخ نویس '' خلیفہ بن خیاط '' کے بیانات نقل کرتے ہیں جنھیں انہوں نے اپنی تاریخ میں '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کے نام '' کے عنوان سے ایک الگ فصل میں درج کیا ہے ، تا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں سے مربوط بحث مکمل ہوجائے۔

۱۷۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی کارگزار

ابن خیاط لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ابن ام مکتوم '' کو مختلف غزوات اور دیگر مواقع پر مدینہ منورہ میں تیرہ بار ١اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے:

١۔٣ ،' ابواء '' ، '' بواط'' اور ذی العشیرہ '' کے غزوات میں ۔

٤۔ '' کُرزَبن جابر '' نامی ایک باغی سے نبرد آزما ہونے کیلئے '' جہینہ '' پر حملہ کے دوران ۔

٥۔ جب جنگ بدر کے سلسلے میں باہر تشریف لے جارہے تھے ۔ کچھ دنوں کے بعد'' ابن

____________________

١۔ ابن خیاط کی روایت ابن مکتوم کی ١٣ بار جانشینی کی حاکی ہے جبکہ اس دانشور نے صرف ١٢ موارد ذکر کئے ہیں

۱۷۲

ام مکتوم'' کو اس عہدہ سے برطرف کرکے ان کی جگہ '' ابو لبابہ ''کو منصوب فرمایا:

٦۔١٢ ۔ '' سویق'' ، '' غطفان '' ا، '' احد '' ، '' حمراء الاسد'' ، بحران '' '' ذات الرقاع '' اور آخر میں حجة الوداع میں ۔

درج ذیل اصحاب کو بھی دوسرے غزوات میں مدینہ منورہ میں اپنی جگہ جانشین مقرر فرمایا ہے :

____________________

١۔ '' ابو رہم غفاری '' اور کلثوم بن حصین '' کو اس وقت جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''مکہ '' ''حنین'' اور ''طائف'' عزیمت فرمائی۔

۱۷۳

۔ محمد بن مسلمہ '' کو غزوۂ '' قرقرة الکدر '' میں ۔

۔ '' نمیلة بن عبد اللہ اللیثی '' کو غزوۂ '' بنی المصطلق ''میں ۔

۔ بنی دئل سے '' عویف بن الاضبط '' کو غزوۂ حدیبیہ میں ۔

۔ دوبارہ '' ابورہم غفاری '' کوغزوۂ '' خیبر '' اور '' عمرة القضاء میں ''

۔ '' سباع بن عرفطۂ غفاری '' کو غزوۂ '' تبوک '' میں ۔

۔ '' غالب بن عبدا للہ اللیثی '' کو ایک دوسرے غزوہ میں ۔

۔ مندجہ ذیل اصحاب کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسب ذیل علاقوں کی حکومت اور ولایت سونپی ہے :

۔ عتاب بن اسید ' کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ سے اپنی واپسی کے وقت مکہ میں اپنے جانشین و حاکم کے عنوان سے منصوب فرمایا ۔ ابو بکر کی وفات تک ' عتاب ' اس عہدہ پر برقرار تھا ۔

۔ ' عثمان بن ابو العاص ثقفی '' کو طائف پر ۔

۔ '' سالم بن معتب '' کو ثقیف کے ہم پیمانوں پر۔

۔ ایک اور صحابی کو '' بنی مالک '' پر۔

۔ عمروبن سعید '' کو '' خیبر''،' 'وادی القری ، '' تیما'' اور '' تبوک '' کے عرب نشین قصبوں پر ۔

۔ اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک '' عمرو '' وہاں پر حکومت کرتا رہا۔

۔ '' حکم بن سعید بن عاص '' کو مدینہ کے بازار کے امور میں اپنا مؤکل منصوب فرمایا ۔

یمن کے علاقہ کو مختلف حصوں میں تقسیم فرماکر ہر ایک حصہ پر اپنے درج ذیل اصحاب میں سے کسی ایک کو منصوب فرمایا:

۔ '' خالد بن سعید بن عاص کو ''یمن کے صنعا ''پر ۔

۔ '' مہاجربن امیہ '' کو '' کندہ '' او ر'' صدف '' پر ۔

۔ '' زیاد بن لبید انصاری بیاضی '' کو حضرموت پر ۔

۔ معاذ بن جبل '' کو''جند'' پر ، اس کے علاوہ معاذ کے فرائض میں علاقہ کے دعاوی ( جھگڑوں ) کا فیصلہ کرنا: قوانین اسلام کی تربیت اور لوگوں کو قرآن مجید سکھانا بھی شامل تھا۔

۱۷۴

۔ ابو موسی اشعری کو '' زبید '' ، ''رمع ''''عدن'' او ر''ساحل ''(بندر) پر ممور فرمایا اور حکم دیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں اور گماشتوں کے ذریعہ حاصل شدہ صدقات وغیرہ کو معاذ بن جبل ان سے وصول کرے گا۔

'' عمرو بن حزم'' کو '' بلحارث بن کعب'' کے قبائل پر ۔

''ابو سفیان بن حرب '' کو نجران پر ۔

۔'' علی بن ابیطالب '' کو حکم دیا کہ علاقہ نجران کے صدقات کو جمع کرے ں ۔

امام نے بھی جمع کی گئیں رقومات کو حجة الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔

۔ سعید بن قشب ازدی ''بنی امیہ کے ہم پیمان کو '' جرش'' اور اس کے سمندری علاقوں پر ۔

۔ '' علاء بن حضرمی'' کو بحرین میں اس کے بعد اسے وہاں سے معزول کرکے اس کی جگہ ''ابان بن سعید '' کو منصوب فرمایا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے آخری تک '' ابان '' بحرین اور اسکے سمندوری علاقوں پر حکومت کرتا رہا۔

۔ عمروبن عاص '' کو سرزمین عمان کیلئے منتخب فرمایا اور وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخر تک وہاں حکومت کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ابو زید انصاری '' کو عمان کی حکومت پر منصوب فرمایا تھا

بنی عامر بن لوئی سے ایک فرد''سلیط بن سلیط '' کو یمامہ پر منصوب فرمایا یمامہ کے باشندوں نے جب اسلام قبول کیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے مال و منال میں ہاتھ نہیں لگایا اور اسے بدستور ان کے ہی اختیار میں رکھا ( ابن خیاط کی بات کا خاتمہ )

جیسا کہ ملاحظہ فرمایا کہ اس نامور عالم نے ان تمام افراد کانام لیا ہے جنہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری حیات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں ، گماشتوں یا علاقوں کے حاکم کے طور پر ذمہ داری سنبھالی تھی ۔ اور اس سلسلے میں ایک فرد کو بھی لکھے بغیرنہیں چھوڑا ہے حتی اس نے '' ابوزید انصاری'' کی عمان پر حکومت کی ضعیف روایت سے بھی چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ اور اس علاقہ پر اس کی حکومت کے بارے میں '' کہتے ہیں ...''' کی عبار ت لائی ہے ۔ لیکن اس لمبی چوڑی فہرست میں کہیں بھی سیف کے جعل کردہ افراد میں سے کسی ایک کا نام نہیں ملتا ۔

۱۷۵

اس افسانہ سے سیف کے نتائج

سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے کارندوں کا نام لیا ہے کہ نہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں دیکھا ہے اور نہ ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب نے ۔

سیف نے اپنے ان خلق کئے گئے بعض چہروں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کے عنوان سے پیش کیا ہے کہ ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ان میں سے چھ افراد کو حسب ذیل پیش کیا ہے۔

١۔ سعیر بن خفاف تمیمی

٢۔ عوف بن علاء بن خالد بن جشمی

٣۔ اوس بن جذیمہ، ہجیمی

٤۔ سہل بن منجاب ، تمیمی

٥۔ وکیع بن مالک ، تمیمی

٦۔ حصین بن نیار ، حنظلی

مذکورہ افراد کے بارے میں ہم نے ہر ایک کی تفصیل سے وضاحت کی ہے ۔

یہاں بھی ہم سیف کے خلق کئے گئے درج ذیل ایسے کارندوں اور گماشتوں سے روبرو ہوتے ہیں ، جنہیں سیف کے بقول پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قضاعہ میں ممور فرمایا تھا :

٧۔ عمرو بن حکم ، قضاعی

٨ ۔امرؤ القیس بن اصبغ

ہم نے دیکھا کہ ابن اسحاق نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان تمام گماشتوں اور کارندوں کا نام لیا ہے جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے سال تک، مموریت پر تھے اور اسی طرح خلیفہ بن خیاط نے ان تمام افراد کا نام لیا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری زندگی میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ میں کسی نہ کسی قسم کی مموریت انجام دی چکے ہیں ۔ لیکن ان مذکورہ لمبی چوڑی فہرستوں میں سیف کے خلق کئے گئے گماشتوں اور کارندوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ۔ کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے ان کارندوں اور قبائل قضاعہ کے مرتد ہونے کا افسانہ گڑھ لیا ہے ۔

۱۷۶

یہ سیف بن عمر ہے جو کہتا ہے کہ خلیفہ ابو بکر نے ابتدا میں مرتدوں سے سیاسی طور پر برتاؤ کیا تا کہ ان کی سرکشی کو مسالمت آمیزطریقے سے خاتمہ بخشے لیکن جب ا س طرح کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا تو مجبور ہو کر ان کی بغاوت اور سرکشی کو کچلنے کیلئے اسامہ اور اس کے لشکر کو روانہ کیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کے بغیر ان کی خوب گوشمالی کرے ۔ نتیجہ کے طور پر اسامہ نے تابڑتوڑ حملوں کے ذریعہ قضاعہ کے مرتدوں کا '' حمقتین '' تک پیچھا کیا اور انہیں بھگا کر علاقہ کو ان کے وجود سے پاک کردیا!

آخر میں یہی مکتب خلفاء کے پیرو علماء ہیں جنہوں نے سیف کی روایات اور افسانوں سے استفادہ کرکے اس کے خیالی کرداروں کو حقیقت کا لبادہ پہنایا ہے اور ان کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے ۔ اس کے علاوہ سیف کے جعل کردہ مقامات جیسے '' حمقتین '' کی بھی تشریح کرکے انھیں اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

سیف کی انہی روایتوں سے یہ افواہ پھیلی ہے کہ اسلام تلوار اور خون کی ہولی کھیل کر پھیلا ہے نہ کہ فطری طور پر اور اپنی خصوصیت کی وجہ سے !! ہم نے اس موضو ع کو اپنی کتاب '' عبدا للہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں ثابت کیا ہے ۔

سر انجام سیف کے تمام جھوٹ سے زیادہ تکلیف دہ وہ جھوٹ ہے جسے اس نے آخر میں خلق کرکے یہ کہا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض گماشتے اور کارندے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہوگئے اور باقی بچے ثابت قدم لوگوں نے ان سے جنگ کی ہے !

اس بات سے پتا چلتا ہے کہ اسلام نے اس کے پیرؤں کے دلوں پر ہی نہیں بلکہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں اور خصوصی گماشتوں کے دلوں پر بھی اثر نہیں کیا تھا جبھی انہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد دین سے منحرف ہوکر ارتداد کا راستہ اختیار کیاکر لیا تھا، اس طرح سیف نے ثابت کیا ہے کہ اسلام تلوار کی ضرب سے پھیلا ہے نہ کہ کسی اور طریقے سے۔

۱۷۷

اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

ان تمام افسانوں کو سیف بن عمر نے اکیلے ہی خلق کیا ہے اور درج ذیل علماء نے اپنی معتبر اور گراں قدر کتابوں میں ان کی اشاعت کی ہے :

١۔ امام المؤرخین '' محمد بن جریر طبری'' نے اپنی تاریخ کبیر میں ، مآخذ کے ذکر کے ساتھ

٢۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ،سند کے ساتھ۔

٣۔ ابو عمر ابن عبد البر نے استیعاب میں سند کے بغیر ۔

٤۔ یاقوت حموی نے ''شرح بر حمقتین'' کے عنوان سے کتاب ''معجم البلدان ''میں سند کے ساتھ۔

٥۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب '' کامل '' میں طبری سے نقل کرکے ۔

٦۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ''اسد الغابہ ''میں عبدا لبر کی استیعاب سے ۔

٧۔ کتاب ''الجمع بین الاستیعاب ''و ''معرفة الصحابہ ''کے مصنف نے عبد البر کی استیعاب سے۔

٨۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید '' میں ابن اثیر کی اسد الغابہ سے نقل کرکے ۔

٩۔ ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں کتاب فتوح سے نقل کرکے۔

یہ سب سیف بن عمر تمیمی کی جھوٹی اور جعلی روایتوں کی برکت سے ہے جو زندیقی ہونے کا ملزم بھی ٹھہرایا گیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

قضاعہ کے نسب کے بارے میں مادۂ '' القضاعی '' و القینی '' کتاب اللباب (٢ ٢٦٥) اور (٣ ١٨ ) ملاحظہ ہو۔

عمرو بن حکم قضائی کی داستان :

١۔ تاریخ طبری (١ ١٨٧٢)

٢۔ تاریخ ابن عساکر (١ ٤٣٢)

٣۔ ابن عبد البر کی استیعاب طبع حیدر آباد دکن ( ٢ ٤٤٣) نمبر : ١٩٣٣

۱۷۸

٤۔ الجمع بن الاستیعاب و معرفة الصحابہ قلمی نسخہ ، کتابخانہ ظاہریہ ص ١٩ نئے سطرے سکینہ بنت امام حسین کے جد کی داستان

١۔ ''اغانی ''اصفہانی ( ١٤ ١٥٧)

٢۔کتاب '' شذرات الذہب '' ( ١ ١٥٤)

رسول خدا کے گماشتوں اور کارندوں کے نام اور ان کا تعارف

١۔ خلیفہ بن خیاط کی تاریخ ( ١ ٦١ ۔ ٦٢)

سیف کے خیالی اماکن حموی کی '' معجم البلدان '' میں لفظ '' حمقتین ''اور آبل کے تحت ۔

۱۷۹

چھٹا حصہ

ہم نام اصحاب

* خزیمہ بن ثابت انصاری ( ذو الشہادتین کے علاوہ )

*سماک بن خرشہ انصاری ( ابو دجانہ کے علاوہ )

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329