ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130552 / ڈاؤنلوڈ: 4439
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اس بنا پر قرآن نے انسان کی زندگی کی چھوٹی، بڑی تمام مشکلات کو ایک ایک کر کے بیان نہیں کیا ہے۔ بلکہ قرآن نے انسان کی سعادت و تکامل کے بنیادی اور کلی طریقوں کو بیان کیا ہے اور مسلمانوں کے لئے ان کی نشاندہی کردی ہے۔ اس حصہ میں قرآن کے شافی ہونے کے متعلق حضرت علی ـ کا ارشاد ذکر کرتے ہوئے قرآن میں مذکور ان کلی طریقوں میں سے ایک طریقہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور نمونہ کے طور پر اس کی وضاحت کر رہے ہیں۔

قرآن کی کلی راہنمائی کا ایک نمونہ

قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ لَو أَنَّ أَهلَ القُریٰ آمَنُوا وَ اتَّقَوا لَفَتَحنَا عَلَیهِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمآئِ وَ الأَرضِ وَ لٰکِن کَذَّبُوا فَأَخَذنَاهُم بِمَا کانُوا یَکسِبُونَ) 1

یہ آیت ان آیات محکمات میں سے ایک ہے جن میں کسی طرح کا تشابہ نہیں پایا جاتا اور اس کے معنی ایسے صریح و واضح ہیں کہ جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے، اس طرح کہ اس آیت کے الفاظ اور جملوں سے اس بات کے علاوہ کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ جس کو ہر اہل زبان او رعربی داں سمجھ سکتا ہے، ان کج فکروں اور ان لوگوں کو چھوڑیئے جو کہ مختلف قرائتوں اور نئے نئے معانی کے قائل ہیں، ممکن ہے وہ

(1)سورۂ اعراف، آیت96۔

۲۱

کہیں کہ ہم لفظ لیل (شب) سے نہار (دن) اور حجاب سے عریانیت سمجھتے ہیں۔ البتہ یہ یاد دلادیں کہ آئندہ دین کی مختلف قرآئتوں کے متعلق تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

یہ آیۂ کریمہ اعتقاد کے کلی قوانین میں سے ایک کو نیز اقتصادی مشکلات کے علاج اور معاشی سختیوں کے برطرف کرنے کے طریقوں کو بیان کرتی ہے۔ آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: ''اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو یقینا ہم آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے ان کے اوپر کھول دیتے، لیکن ان لوگوں نے تقویٰ اختیار نہ کیا، بلکہ کفر اختیار کیا او رالٰہی نعمتوں کی ناشکری کی، نتیجہ میں مختلف مشکلوں اور بلاؤں میں گرفتار ہوگئے''۔

اس بنا پر قرآن کریم پوری وضاحت کے ساتھ مومنین کی زندگی میں کشائش پیدا ہونے، اقتصادی توسیع، اقتصادی بحرانوں کو دور کرنے اور نعمت نازل ہونے کونیز کلی طور سے آسمان و زمین کی برکتیں نازل ہونے کو ایمان و تقویٰ کا مرہون منت جانتا ہے، اور اسی کے مقابل، الٰہی نعمتوں کی ناشکری کو نعمتوں کے زوال، بلاؤں کے نزول اور مختلف مشکلوں کا سبب بتاتا ہے۔ اور نعمت کے شکر اور اس کی قدر دانی کو نعمت کے اضافہ کا ذریعہ اور نعمت کی ناشکری کو عذاب کا سبب جانتا ہے، قرآن فرماتا ہے:(لَئِنْ شَکَرتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرتُمْ إنّ عَذَابِیْ لَشَدِید) 1 اگر تم نعمتوں کا شکر بجا لاؤ گے تو میں یقینا تمھارے لئے نعمتوں کو زیادہ کردوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو بے شک میرا عذاب بہت ہی سخت ہے۔

(1)سورۂ ابراہیم، آیت 7۔

۲۲

یہاں پر ایک بہت بڑی الٰہی نعمت کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں جو قرآن کریم کی پیروی کے نتیجہ میں ایران کی عظیم قوم کو حاصل ہوئی ہے، اور خداوند عزو جل سے دعا کرتے ہیں کہ لوگوں کو اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اوراسی کی ذات اقدس کی پناہ چاہتے ہیں اس بات سے کہ کہیں ناشکری کے نتیجہ میں یہ عظیم نعمت ہم سے چھن نہ جائے۔

اسلامی حکومت کی تشکیل میں عطائے الٰہی کی جھلک

ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی ـ کی شہادت کے بعد ہم مسلمانوں کی سب سے بڑی تمنا، الٰہی وحی و احکام پر مبنی ایک عادلانہ حکومت قائم کرنے کی رہی ہے۔ صدیوں سے ہمارے بزرگ اور آباء و اجداد ایسی حکومت قائم کرنے کی تمنا دل میں لئے رہے اور ظالم و جابر بادشاہوں اور حاکموں کے زیر تسلط گھٹن کی زندگی گزارتے رہے اور وہ اپنے اجتماعی امور کو نافذ نہیں کرسکتے تھے، ایسی صورت میں ان کو اسلامی حکومت کا وجود فقط دلی ارمان اور ناممکن چیز نظر آتی تھی۔

تیرہ سو سال سے زیادہ گزر جانے کے بعد تاریخ کے اس دور میں ایرانی مسلمانوں کے قرآن کریم پر عمل کرنے نیز امام معصوم ـ کے نائب اور ولی فقیہ کی رہبری کو تسلیم کرنے کے نتیجہ میں خداوند متعال نے اپنی ایک بہت بڑی نعمت یعنی اسلامی حکومت مسلمانوں کو عنایت فرمائی۔ واضح رہے کہ ہم نواقص کی توجیہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ جو بات یہاں قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس مقدس نظام و حکومت کا اصل وجود، الٰہی عطاؤں اور عنایتوں سے اس مقصد کے تحت ہے کہ الٰہی احکام نافذ ہوں اور انھیں عملی جامہ پہنایا جائے۔

۲۳

انقلاب کے بیس سال گزر جانے کے بعد اب جو بات قابل توجہ ہے کہ جس نے دینی و اخلاقی اقدار کے پاسداروں اورنگہبانوں نیز انقلاب کے دلسوز افراد کی تشویش کو دو گنا کردیا ہے وہ یہ ہے کہ کہیں (خدا نخواستہ) ایسا نہ ہو کہ معاشرہ اپنے ایمان و تقویٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور دھیرے دھیرے اس کی دینی و انقلابی قدریں پھیکی پڑ جائیںاور نتیجہ میں اسلام و ایران کے دشمن ثقافتی حملہ اور شبخون مار کے اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو جائیں، اور لوگوں کو خصوصاً جوانوں کو دینی و انقلابی اقدار سے جدا کر کے دوبارہ ایران کے مسلمانوں پر تسلط حاصل کرلیں۔

ممکن ہے یہاں یہ سوال کیا جائے کہ تو پھر اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ جس سے ایک طرف معاشرہ کے دینی و اعتقادی اقدار محفوظ رہیں اور نتیجہ میں دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام ہوجائے اور دوسری طرف ہم تمام مشکلات پر غالب آجائیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ نہج البلاغہ میں خطبہ کے شروع میں اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور فردی و اجتماعی مشکلات کے حل کا راستہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام پر عمل کرنے کو بتاتے ہیں۔

اجتماعی مشکلات کا حل قرآن کی پیروی میں ہے

اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کا کلام، حضرت رسول اسلام کے نہایت ہی قیمتی ارشاد کی ایک دوسری توضیح ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:''اِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَیکُمْ بِالْقُرآن'' 1 یعنی جب بھی اضطراب و

(1)بحار الانوار، ج92، ص 17۔

۲۴

مشکلات، فتنے اور فسادات، اندھیری رات کے ٹکڑوں کے مانند تم پر چھا جائیں اور ان مشکلات کو حل کرنے میں عاجز ہو جاؤ تو تم پر لازم ہے کہ قرآن کی طرف رجوع کرو اور اس کی نجات بخش ہدایات کو عمل کا معیار قرار دو۔

قرآن کریم کے امید بخش احکام، امید، مشکلات پر غلبہ، نجات و کامیابی، سعادت اور خوشبختی کی روح کو دلوں میں زندہ کرتے ہیں اور انسانوں کو یاس و ناامیدی کے بھنور سے نکال کر نجات دلاتے ہیں۔

واضح ہے کہ ہر کامیابی انسانوں کی خواہش و کوشش کی مرہون منت ہے۔ اس بنا پر اگر ہم چاہیں کہ اسی طرح اپنے استقلال، اپنی آزادی اور اسلامی حکومت کو محفوظ رکھیں اور ہر قسم کی سازش سے خداوند متعال کی پناہ میں رہیں تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ خدا اور قرآن کے نجات بخش احکام کی طرف رجوع کریں اور اس ناشکری اور بے حرمتی کے سبب توبہ کریں جو بعض مغرب زدہ افراد کی طرف سے دینی اقدار کو پامال کرنے کے لئے کی گئی ہیں۔

نہایت ہی احمقانہ بات ہے اگر ہم یہ خیال کریں کہ سامراجی طاقتیں کسی چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ میں بھی جو کہ ایران کی مسلمان قوم کے نفع میں ہو اور ان کے استعماری منافع کے خلاف ہو، اسلامی جمہوریۂ ایران کے ارباب حکومت کا ساتھ دیں گی اور یہ بہت بڑی ناشکری ہے کہ ہم نجات و سعادت کے ضامن اور نبی اکرم کے ابدی معجزہ قرآن کریم کو چھوڑدیں اور مشکلات کے حل کے لئے دشمنوں کی طرف دست نیاز بڑھائیں، اور ولایت فقیہ جو کہ انبیاء اور ائمۂ معصومین (ع) کی ولایت ہی کی ایک کڑی ہے، اس کو چھوڑ کر شیاطین اور دشمنان خدا کی ولایت و تسلط کو قبول کریں۔ خدا کی پناہ مانگنی چاہئے اس بات سے کہ کسی دن ایران کی مسلمان قوم، استقلال و آزادی، عزت و امنیت کی عظیم نعمت کی ناشکری کے سبب غضب کا مستحق قرار پائے اور اپنی ذلت و اہانت، اپنے سقوط و انحطاط کا ذریعہ دوبارہ اپنے ہی ہاتھوں سے فراہم کرے۔

۲۵

بہرحال پوری ملت خصوصاً ملک کے ثقافتی امور کے عہدہ داروں اور کارندوں کا فریضہ ہے کہ معاشرہ کے اخلاقی و دینی اعتقادات و اقدار کی حفاظت کریں۔

بعض ایسے لوگ جو کہ دینی علوم و معارف میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے اور سیکولرازم اور اصالت فرد ( Individualism ) کے نظریوں سے متاثر ہیں، حضرت علی ـ کے اس ارشاد کے متعلق (کہ تمھارے تمام درد اور مشکلات کا حل قرآن میں ہے)، ان لوگوں کا تصور یہ ہے کہ اس ارشاد میں درد اور مشکلات سے مراد لوگوں کے انفرادی، معنوی اور اخلاقی درد اور مشکلات ہیں۔ لیکن ہماری نظر میں یہ توضیح صحیح نہیں ہے اس لئے کہ یہاں پر انفرادی و اجتماعی دونوں طرح کے مسائل موضوع بحث ہیں۔ یہ بات کہنا ضروری ہے کہ دین کی سیاست سے جدائی اور نظریۂ سیکولرازم کے بے بنیاد ہونے کے متعلق یہاں پر تفصیل سے بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اس کے باوجود اس بحث کے ضمن میں حضرت علی ـ کے ارشاد کی توضیح بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی سیاست سے جدائی کے نظریہ کا بے بنیاد ہونا اور سیکولرازم کے نظریہ کا باطل ہونا بھی واضح ہو جائے گا۔

۲۶

قرآن کی ہدایات کے مطابق اجتماعی امور کا نظم و نسق

حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

'' اَلا إنّ فِیهِ عِلمَ مَا یَأتِی وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ وَ دَوَائَ دَائِکُمْ وَ نَظمَ مَابَینَکُمْ'' 1

حضرت اس بات کے بیان کے بعد کہ گزشتہ و آئندہ کا علم قرآن میں ہے اور قرآن تمام دردوں کی دوا ہے، یہ نکتہ یاد دلاتے ہیں کہ: ''وَ نَظمَ مَابَینَکُم''تم مسلمانوں کے باہمی امور کی شیرازہ بندی قرآن میں ہے۔ یہ آسمانی کتاب تمھارے اجتماعی روابط کی کیفیت کو بھی معین کرتی ہے۔ یوں تو یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے لیکن یہی مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ضامن ہے، ہم اس کی توضیح پیش کر رہے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک چھوٹا سا مقدمہ ذکر کرنا ضروری ہے۔

ہر سیاسی اور اجتماعی نظام کا سب سے بڑا مقصد، اجتماعی نظم اور امنیت کو بحال اور برقرار رکھنا ہے۔ کوئی بھی سیاسی مکتب فکر دنیا میں ایسا نہیں پایا جاسکتا جو اس مقصد کا انکار کرے، بلکہ امنیت کی بحالی اور نظم کی برقراری ہر حکومت کے فرائض میں سرفہرست ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاسی و اجتماعی نظم کا برقرار رکھنا علم سیاست کے مقاصد میں سے ہے، جیسا کہ انسانی معاشروں پر حاکم تمام سیاسی نظام کم از کم اپنی تبلیغات اور اپنے نعروں میں اس مقصد کو اپنے حکومتی نظام کے سب سے بڑے مقصد کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 157۔

۲۷

اجتماعی زندگی میںمقصد کا اثر

یہاں پر اجتماعی زندگی میں مقصد کے اثر کی طرف توجہ دلا دینا بھی ضروری ہے اس لئے کہ اجتماعی زندگی میں مقصد کی طرف توجہ دیئے بغیر، اجتماعی نظم کے متعلق کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ مقصد ہی ہے جو کہ منطقی طور پر خاص رفتار و گفتار کا موجب و سبب بنتا ہے، انسان اپنی اس خاص رفتار و گفتار کے ذریعہ اجتماعی زندگی میں اس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مقصد خود، افراد معاشرہ کے نظریات اور مکتب فکر سے پیدا ہوتا ہے، اس طرح کہ ہر معاشرہ فطرت اوّلی کے اعتبار سے اپنے نظریات اور مکتب فکر کے تحت ایک خاص اجتماعی نظم کو پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سامراجی طاقتیں اپنی استکباری سیاستوں کے تحت کوشش کرتی ہیں کہ دوسری قوموں کو اپنے سامراجی مقاصد کی طرف کھینچ لائیں، ان کو ان کے اصلی مکتب فکر سے دور کردیں اور بیرونی مکتب فکر کو لاد کر ان قوموں کے نظم و تمدن اور مکتب فکر کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

اس بنا پر یہ دیکھنا چاہئے کہ معاشرہ پر حاکم مکتب فکر کیا نظم پیدا کرتا ہے؟ یہ بات ہے کہ قرآن اور توحیدی مکتب فکر سے پیدا شدہ دینی مکتب فکر ایسے نظم اور ایسی سیاست کا سبب اور نافذ کرنے والا ہوتا ہے کہ جس سے دنیا و آخرت میں انسان کی خلقت کا مقصد حاصل ہو اور وہ سعادت و خوشبختی حاصل کرسکے۔ یعنی جو بات اصالتاً اسلام و قرآن کے پیش نظر ہے، وہ انسان کی سعادت اور اس کا تکامل ہے۔

۲۸

نہایت افسوس ہے کہ بعض روشن فکر اور لیبرل افراد جو ایک طرف مسلمان ہیں اور دوسری طرف اسلام کے سیاسی اور اجتماعی مسائل میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے، نتیجہ میں ان میں دینداری اور دین سے لگاؤ نہیں ہے، اور وہ اس بنیادی نکتہ سے غافل ہیں، چنانچہ جس وقت اجتماعی نظم کی بات کہی جاتی ہے تو ان کے ذہن میں مغربی ڈیموکراسی (عوامی حکومت ) سے حاصل شدہ اجتماعی نظم ابھرتا ہے، اس حال میں کہ مغرب کا وہ اجتماعی نظام اس کے سیکولرازم نظریہ سے پیدا ہوا ہے یہ روشن فکر افراد اپنی ناقص دینی معلومات کے سبب گمان کرتے ہیں کہ اجتماعی امور کے نظام پر مبنی معاشرہ کی ادارت، صرف دین کی سیاست سے جدائی میں ممکن ہے کہ یہ بات خود استعماری مکتب فکر کا نتیجہ ہے اور اس کو سامراجی طاقتوں کی ایک کامیابی سمجھا جاتا ہے تاکہ تیسری دنیا کے ممالک کے روشن فکر افراد کی فکروں کو بے جان کر کے ان کو دینی فکر سے دور کرسکیں اور اپنی سامراجی ثقافت کی ترویج کے عوامل و اسباب میں تبدیل کرسکیں۔

بہرحال توحیدی و اسلامی مکتب فکر میں ہر چیز منجملہ ان کے اجتماعی نظام کی تعیین، خلقت کے ہدف و مقصد کی روشنی میں ہوتی ہے، اور واضح ہے کہ دینی و قرآنی مکتب فکر میں اجتماعی نظام کا ہدف فقط مادی فائدے اور دنیوی منافع ہی کا تحقق نہیں ہے بلکہ دنیوی فائدے کے تحقق کے علاوہ، انسان کے تکامل اور اخروی سعادت پر بھی توجہ دی گئی ہے، اور واضح ہے کہ تعارض (ٹکراؤ) کی صورت میں دنیوی امور پر اخروی سعادت کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔

۲۹

اب ہم اس مقدمہ کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی نظام کے تحقق کے متعلق قرآن کے اثر کے بارے میں حضرت علی ـ کے بیان کی طرف واپس آتے ہیں، اور حضرت کے ارشاد پر غور و خوض کرتے ہیں تاکہ ولایت کی راہنمائی میں اجتماعی زندگی میں قرآن کے اثر اور اس کی اہمیت سے زیادہ آگاہ ہوسکیں۔

حضرت علی ـ معجز نما تعبیر کے ساتھ قرآن کے اثر کو معاشرہ کے اجتماعی امور کی تنظیم کے متعلق بیان فرماتے ہیں اور اس کی طرف ہمیں توجہ دلاتے ہیں تاکہ ہم اس سے غفلت نہ برتیں۔

حضرت یہ بیان فرمانے کے بعد کہ قرآن تمھاری مشکلات کو حل کرنے کے لئے بہترین نسخہ ہے، فرماتے ہیں:''وَ نَظْمَ مَابَینَکُمْ'' تمھارے امور اور روابط کا نظم و نسق قرآن میں ہے، یعنی اگر تم مطلوب و معقول نظام کو چاہتے ہو کہ جس کے سایہ میں معاشرہ کے تمام افراد اپنے جائز حقوق حاصل کرسکیں تو تمھارے لئے لازم ہے کہ اپنے امور قرآن کی ہدایات کے مطابق منظم کرو۔

صاحبان علم و دانش پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ''وَ نَظْمَ مَابَینَکُمْ'' کی تعبیر لوگوں کے اجتماعی روابط و امور پر مشتمل ہے، اگرچہ لوگوں کا فریضہ ہے کہ اپنے شخصی و فردی امور کو بھی قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر منظم کریں، لیکن ''وَ نَظمَ مَابَینَکُم'' کی تعبیر لوگوں کے شخصی و فردی امور کے نظم و نسق کو شامل نہیں ہے جیسا کہ اہل زبان پر پوشیدہ نہیںہے، حضرت علی ـ اپنے اس خطبہ میں قرآن کریم کے اجتماعی پہلوؤں کے اثر کو بیان فرما رہے ہیں۔

۳۰

حضرت اس نکتہ کے بیان کے ساتھ کہ تمھارا اجتماعی نظم و نسق قرآن کریم میں ہے، مسلمانوں او راپنے پیروؤں سے فرماتے ہیں کہ تمھیں اپنے سیاسی امور اور اجتماعی روابط کو قرآن کی بنیاد پر قرار دینا چاہئے۔

البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ مذکورہ فرمان اور نصیحتیں جب تک اسلامی نظام کے عہدہ دار اور ذمہ دار افراد کی طرف سے صرف ایسی اخلاقی نصیحتیں سمجھی جائیں کہ جن کا جاری کرنا لازم نہ ہو اور ان کے قلبی ایمان او راعتقاد و یقین میں رچی بسی نہ ہوں، تو اس وقت تک ''یہ آسمانی نسخۂ شافیہ'' ہمارے معاشرہ کے کسی بھی درد کی دوا نہ بنے گا۔

حضرت علی ـ دینی نظام کی سیاست کے کلیدی اور اہم نکات کے بیان کے ساتھ ایسی واقعیتوں اور حقیقتوں کو بیان فرما رہے ہیں کہ جن پر عمل کئے بغیر، عدل و انصاف پر مبنی اس انسانی معاشرہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے جس میں تمام افراد اپنے حقوق اور مطلوب تکامل کو حاصل کرسکیں۔

اس بنا پر سب سے زیادہ اصلی اور کارساز و مفید عامل ، قرآن کریم کی کلی سیاستوں اور اس کے دستور العمل پر، حکومت کے مسئولین اور عہدہ داروں کا ایمان واعتقاد اور یقین رکھنا ہے۔ جب تک وہ لوگ، معاشرہ کی مشکلات کے حل اور افراد کی کامیابی کے سلسلہ میں قرآن اور اس کے ہدایات کے مفید و کارآمد ہونے پر قلبی ایمان اور پختہ اعتقاد نہ رکھیں گے، اس وقت تک نہ صرف عمل میں، قرآن کو اپنا نمونہ قرار نہیں دیں گے، بلکہ قرآن کے علوم و معارف کو سمجھنا بھی نہ چاہیں گے۔

البتہ چونکہ وہ اسلامی ملک اور مسلمان عوام پر حکومت کرتے ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو محفوظ رکھنے کے لئے ظاہری طور سے اور نعروں کی حد تک، اپنی عوام اور دوسری مسلمان قوموں کے درمیان اپنے کو مسلمان اور اپنی حکومت کو اسلامی حکومت کہیں، جبکہ اس حکومت کا نمونہ جو کہ ان کے لئے اہم بات نہیں ہے،

۳۱

وہ حکومت ہے جو اسلامی قوانین اور قرآنی نمونوں پر استوار ہے لیکن دین اور قرآنی مکتب فکر سے نام نہاد اسلامی حکومتوں کی بیگانگی، خصوصاً معاشرہ کے نظم و نسق اور سیاست کے شعبہ میں، ایسی بات نہیں ہے جو مسلمانوں کے لئے اجنبی اور غیر معروف ہو، اس لئے کہ تمام مسلمان قومیں جانتی ہیں کہ ان کے ممالک کے حکومتی نظام اسلامی نہیں ہیں، اور حکومت کے عہدہ داروں پر حاکم ذہنیت و مکتب فکر، اس ذہنیت اور مکتب فکر سے جو کہ قرآنی مکتب فکر کی بنیاد پر قائم ہیں، کلی طور پر مختلف ہے۔

جو بات انسان کو حیرت و تعجب میں ڈالتی ہے اوراسی کے ساتھ افسوس اور تشویش کا باعث ہے، ہمارے عزیز اسلامی ملک ایران کی موجودہ ثقافتی حالت ہے۔ جس ملک میں ہدایات قرآن اور دینی مکتب فکر کی بنیاد پر اور ولایت فقیہ کی رہبری میں انقلاب آیا اور کامیاب ہوا، نہایت افسوس اور تشویش کی بات ہے کہ بعض ثقافتی عہدہ داروں کے بیانات، ان کے موقف اوران کے افکار کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ بھی اس آسمانی کتاب کی اچھی طرح معرفت نہیں رکھتے اور اس سے اخذ شدہ حکومتی نمونہ کے مفید و کارآمد ہونے کو دوسرے مشرقی اور مغربی نمونوں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ چنانچہ یہ لوگ مسلسل اسلامی انقلاب کے اصول اور دینی اقدار سے پیچھے ہٹتے جارہے ہیں اور پختہ ایمان اور قلبی اعتقاد نہ رکھنے کے سبب کبھی کبھی اشاروں، کنایوں سے اور کبھی کبھی تصریح کے ساتھ، نہایت بے شرمی سے ایسا اظہار کرتے ہیں کہ قرآن کی حاکمیت اور دینی مکتب فکر پر عمل کا زمانہ حکومت کے میدان میں گزر چکا ہے اور اس دور میں انسانی معاشرہ وحی الٰہی کی احتیاج نہیں رکھتا اور خود تنہا معاشرہ کی ادارت، امنیت کی بحالی اور نظم برقرار رکھنے کے لئے بہتر راستے دکھا سکتا ہے۔

مناسب تھا کہ ہم یہاں پر دنیا میں موجودہ ظالمانہ حکومتی نظام اور ترقی یافتہ نظاموں کے نام پر مختلف اقوام و مذاہب پر جو ظلم ہو رہا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ، تاکہ مذکورہ قول کی بے مائگی اور اس کے قائلین کی خود فروشی و بے ایمانی پہلے سے زیادہ برملا ہو جائے، لیکن اصل موضوع سے دور ہونے اور بیان کے طویل ہو جانے کے خوف سے، انسانی نظاموں میں موجود بے عدالتی، انسانوں کے حقوق کی پامالی اور ظلم و جور کے بیان سے گریز کرتے ہیں لہٰذا آپ حضرات ان موضوعات سے متعلق کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔

۳۲

بہرحال یہ بات واضح ہے کہ ہدایات قرآن کی بنیاد پر حکومت کی صلاحیت و افادیت، معاشرہ کے درمیان عدل و انصاف اور نظم و نسق کے تحقق میںاس وقت منصّۂ شہود پر ظاہر ہوتی ہے جس وقت کہ حکومت کے عہدہ دار اور کارندے اس پر یقین و اعتقاد رکھیں اور منزل عمل میں قرآن کے احکام و قوانین کو اپنا نصب العین قرار دیں، اس لئے کہ جب تک ایسا نہ ہوگا معاشرہ پر قرآن کی حکومت نہیں ہوگی۔

اس بنا پر معاشرہ میں قرآن کی حاکمیت کے لئے، حکومت کے عہدہ داروں اور کارندوں کا اس آسمانی کتاب پر قلبی یقین و ایمان رکھنا ضروری ہے اسی طرح خود اس بات کے لئے لازم ہے کہ وہ لوگ اس الٰہی نسخۂ شافیہ کی شناخت، نیز الٰہی حکومت اوردین کی احتیاج کا احساس رکھتے ہوں۔ یہ احساس بھی صرف اور صرف اسی صورت میں حاصل ہوگا جبکہ بندگی کی روح پیدا کریں اور خداوند متعال کی حاکمیت کے مقابل کبر و غرور و خود پسندی اوراستکباری روح کو نکال باہر کریں۔ یہ استکباری روح وہی مذموم روح ہے جس نے شیطان کو عالم ملکوت اور بارگاہ خداوندی سے باہر نکال دیا اور اس کی ابدی شقاوت کا باعث بن گئی۔

مناسب ہے کہ یہاں پر ہم حضرت علی ـ کے خطبہ ، پر توجہ دیں کہ جس میں حضرت نے قرآن کریم سے دوری کے برے نتائج کو بیان فرمایا ہے۔ یہ بیان ان افراد کے لئے ایک تنبیہ اور ٹہوکا ہے جو ایک طرف اپنے کو حضرت علی ـکا پیرو بتاتے ہیں اور دوسری طرف قرآن اور اس سے اخذ شدہ حکومتی نمونہ کو آج کے انسانی معاشرہ کی ادارت کے لئے ناکافی سمجھتے ہیں، نیز حکومتی سیاستوں کو پیش کرنے میں انسان کی ناقص فکری اُپج کو قرآن کی ولائی حکومت پر ترجیح دیتے ہیں۔ امید ہے کہ ایسی ہدایتوں کی روشنی میں ہمارے معاشرہ کے تمام لوگ خصوصاً حکومتی امور کے عہدہ دار اور دستور ساز افراد، پہلے سے زیادہ اسلامی معاشرہ میں قرآن کے محور ہونے کے لزوم پر ایمان پیدا کریں گے اور یہ ہدایات منزل عمل میں بروئے کار لائی جائیں گی۔

۳۳

بے نیازی، قرآن کی پیروی میں

حضرت علی ـ مذکورہ خطبہ میں قرآن کریم کا تعارف شاخص و رہنما کے عنوان سے کراتے ہیں اور فرماتے ہیں: یقین رکھو! قرآن ایسا ناصح ہے جو کہ اپنے پیرووں کے ارشاد میں خیانت نہیں کرتا اور ایسا ہادی ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور ایسا بولنے والا ہے جو اپنی بات میں جھوٹ نہیں بولتا، کوئی شخص اس قرآن کے ساتھ نہیں بیٹھا اور کسی نے اس میں تدبر و تفکر نہیں کیا مگر یہ کہ جب اس کے پاس سے اٹھا تو اس کی ہدایت و رستگاری میں اضافہ ہی ہوا اور اس کی گمراہی ختم ہوگئی، پھر حضرت فرماتے ہیں:

''وَ اعْلَمُوا أَنَّهُ لَیسَ عَلٰی اَحَدٍ بَعدَ الْقُرآنِ مِن فَاقَةٍ وَ لَا لِأَحَدٍ قَبلَ الْقُرآنِ مِن غِنًی فَاسْتَشفُوهُ مِن اَدْوَائِکُم وَ اسْتَعِینُوا بِهِ عَلٰی لَأوَائِکُم فَإنّ فِیهِ شِفَائً مِن أَکْبَرِ الدَّائِ وَ هُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلاَلُ'' 1

قرآن، اور معاشرہ پر اس کی حاکمیت ہونے کی صورت میں کسی کے لئے کوئی ایسی نیاز و احتیاج باقی نہیں رہ جاتی جو کہ پوری نہ ہو، اس لئے کہ قرآن کریم موحدین کی زندگی کے لئے سب سے زیادہ بلند و عالی، الٰہی دستور العمل ہے اور خداوند متعال نے اس آسمانی کتاب کے پیرؤوں کی دنیا و آخرت کی عزت و کامیابی کی ضمانت لی ہے۔ اس بنا پر جب ہمارا اسلامی معاشرہ قرآن کے حیات بخش احکام و فرامین پر عمل کرے او راس کے وعدوں کی سچائی پر ایمان رکھتے ہوئے اس کو اپنے عمل کا نمونہ قراردے، تو قرآن معاشرہ کی تمام فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اسلامی معاشرہ کو ہر چیز اور ہر شخص سے بے نیاز کردیتا ہے۔

اسی کے مقابل، حضرت علی ـ قرآن سے جدائی کے خطرے کو بھی گوش زد فرماتے ہیں اور اس نظریہ کو رد کرتے ہیں کہ اس الٰہی ثقل اکبر، قرآن کے بغیر معاشرہ کی فردی و اجتماعی مشکلات اور ضرورتوں کو برطرف کیا جاسکتا ہے، حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:''وَ لَا لِأَحَدٍ قَبلَ الْقُرآنِ مِن غِنًی'' کوئی بھی شخص قرآن کے بغیر بے نیاز نہیں

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 175۔

۳۴

ہوسکتا اور کبھی بھی معاشرہ قرآن سے مستغنی نہیں ہوسکتا، یعنی عدل و انصاف اور اخلاقی و انسانی اقدار کی بنیاد پر ایک معاشرہ وجود میں لانے کے لئے اگر تمام انسانی علوم اور تجربوں کواستعمال کیا جائے اور تمام افکار و خیالات اکٹھا ہو جائیں، تب بھی قرآن کے بغیر ہرگز صحیح راستہ اور صحیح منزل نہیں پاسکتے، اس لئے کہ بے نیازی کسی شخص کے لئے بھی قرآن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی بنا پر آپ فرماتے ہیں:''فَاسْتَشفُوهُ مِن اَدْوَائِکُم وَ اسْتَعِینُوا بِهِ عَلیٰ لَأوَائِکُم'' اپنی مشکلات اور بیماریوں کا علاج قرآن سے طلب کرو اور سختیوں اور پریشانیوں میں قرآن سے مدد حاصل کرو۔ پھر سب سے بڑی فردی و اجتماعی بیماری یعنی کفر و ضلالت و نفاق کو یاد دلا کر فرماتے ہیں کہ ان مشکلات اور بیماریوں کے علاج کا طریقہ قرآن میں موجود ہے، تمھیں چاہئے کہ قرآن کی طرف رجوع کر کے اپنے درد اور مشکلات کا علاج کرو۔

اس بنا پر بنیادی اصولوں کو قرآن سے لینا چاہئے اور ان کلی اصولوں کی پیروی کر کے نیز تدبر و تفکر اور تجربوں سے استفادہ کر کے مشکلات کے حل کا راستہ پیدا کرنا چاہئے۔ اگر ا س نظریہ کے ساتھ مشکلات کو حل کرنا چاہیں تو ہم یقینا تمام مشکلات پر، تمام شعبوںمیں غلبہ اور قابو پالیں گے، اس لئے کہ یہ الٰہی وعدہ ہے، خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:(و مَن یَّتقِ اللّٰهَ یَجعَل لَّهُ مَخرَجاً) 1 جو شخص تقوائے الٰہی اختیار کرتا ہے اوراحکام خدا سے روگردانی نہیں کرتا خداوند متعال اس کے لئے نجات اور مشکلات سے نکلنے کا راستہ فراہم کردیتا ہے۔

(1)سورۂ طلاق، آیت 2۔

۳۵

قرآن سب سے بڑی بیماری کی دوا

البتہ ممکن ہے مذکورہ باتیں مغرور انسانوں کے ذوق کے موافق نہ ہوں اور ان لوگوں کواچھی نہ لگیں جو کہ تقوائے الٰہی اور قرآن واہلبیت کے علوم سے بالکل بے بہرہ ہیں نیز بشری علوم کی چند اصطلاحیں جاننے کے سبب اپنے کو خداوندمتعال کے مقابل سمجھتے ہیں، لیکن ہر عقلمند انسان اعتراف کرتا ہے کہ انسان نے جو کچھ اپنی نت نئی علمی ترقیوں کے ساتھ انکشاف اور ایجاد کیا ہے وہ اس کی مجہول و نامعلوم باتوں کے مقابل ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابل ایک قطرہ، اور انسانی مدینۂ فاضلہ کا نمونہ پیش کرنے میں تمام غیر الٰہی اخلاقی مکاتب فکر کے نظریات اوردعوے، خدا کے لامحدود علم اور علوم اہلبیت (ع) (جن کا سرچشمہ الٰہی الہامات ہیں)کے مقابلہ میں صفر سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

بہرحال حضرت علی ـ انسانی معاشرہ کی سب سے بڑی بیماری کفر و نفاق اور گمراہی کو جانتے ہیں۔ یہی روحی بیماریاں ہیں جو کہ معاشرہ کو مختلف مشکلوں اور پریشانیوں سے دوچار کرتی ہیں اور ان کا علاج بھی قرآن ہی سے حاصل کرنا چاہئے:'' فَإنّ فِیهِ شِفَائً مِن اَکْبَرِ الدَّائِ وَ هُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلاَلُ '' سب سے بڑی بیماری سے مراد کفر و نفاق اور ضلالت و گمراہی ہے، اور دوا اور علاج سے مراد قرآن پر ایمان اور اس کی پیروی ہے۔

۳۶

البتہ توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ بات (کہ اپنی بیماریوں کی دوا قرآن سے طلب کرو، اس لئے کہ قرآن تمام مشکلات اوربیماریوں کی دوا ہے)، اس کا مفہوم یہ نہیںہے کہ قرآن نے ڈاکٹر کے نسخہ کے مانند تمھارے جسمانی امراض کو بیان کردیا ہے اور ہر ایک مرض سے شفایابی کے لئے ایک دوا کا مشورہ دیا ہے یا اقتصادی و فوجی مشکلات کے باب میں نیز صنعت اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں مسائل کے حل کے فارمولوں کو قرآن سے لینا چاہئے، جو شخص دینی معارف سے ذرا سا بھی واقف ہے وہ ہرگز حضرت علی ـ کے اس کلام کی توضیح ا س معنی میں نہیں کرتا، اس لئے کہ جسمانی بیماریوں اور بقیہ تمام مشکلات کا حل اپنے طبیعی وسیلوں کا محتاج ہے، قرآن کریم ان مشکلات کے حل کے لئے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کلی اصولوں کو بیان کرتا ہے اب لوگوں کا فریضہ ہے کہ قرآن کے ان کلی اصولوں کو سر مشق اور نمونہ قرار دیکر نیز عقل، خداداد قوتوں اور انسانی علوم کے تجربوں سے استفادہ کر کے اپنے مشکلات کو حل کریں اور اپنی بیماریوں کا علاج کریں۔

یہاں پر ہم عزیز قارئین کی توجہ دو نکتوں کی طرف مبذول کر رہے ہیں:

پہلا نکتہ٭ یہ ہے کہ طبیعی اور مادی اسباب و علل اگرچہ اپنے معلول اور مسبب کو مستلزم ہیں، لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ تمام موجودات کی علت العلل خداوند تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔ اسی نے عالم کے نظام کو علت و معلول کے رابطہ کی بنیاد پر خلق کیا ہے اور وہی ہمیشہ اسباب و علل کو سببیت اور علیت عطا کرتا ہے اور یہ اس کا تکوینی ارادہ ہے اور جب تک یہ تکوینی ارادہ نہ ہوگا اس وقت تک کسی فعل کا براہ راست کوئی اثر نہیں ہوگا۔

۳۷

اس بنا پر تمام دردوں کی دوا اور تمام مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ بنیادی طور پر خداوند متعال کی طرف توجہ کریں اور چشم امید اسی کی طرف رکھیں، اگرچہ مشکلات کو حل کرنے میں اور بیماری سے شفا حاصل کرنے میں طبیعی اسباب و علل کا بھی سہارا لیں لیکن توحید افعالی کے اقتضاء کی بنا پر شفا اور مشکلات کے حل کو اصل میں اسی سے سمجھنا چاہئے اور اسی سے امید رکھنا چاہئے۔

دوسرا نکتہ٭ یہ ہے کہ مشکلات کے حل اور بیماریوں کے علاج کا راستہ فقط عادی اور طبیعی اسباب و علل میں منحصر نہیں سمجھنا چاہئے، یعنی ایسا نہیںہے کہ مشکلات کے حل میں مادی اور طبیعی اسباب و علل نہ پائے جانے سے یا ان کے مفید و کارآمد نہ ہونے سے مشکل کے حل، بہبودی کے حصول، امراض کی شفا یا انسان کی جائز اور برحق خواہشات کے پورا ہونے کا امکان نہ ہو۔

خداوند متعال نے علّی اور معلولی نظام خلق کرکے اپنے کو غیر طبیعی طریقے سے کوئی شے ایجاد کرنے سے عاجز نہیں کیا ہے، بلکہ سنت الٰہی اس بات پر قائم ہے کہ پہلے مرحلہ میں امور عادی اور طبیعی راستے سے انجام پائیں، لیکن امور کا انجام پذیر ہونا طبیعی طریقہ میں منحصر نہیں ہے بلکہ خاص حالات میں خداوند متعال کچھ امور کو طبیعی راستے کے بغیر بھی خود ایجاد کرتا ہے کہ اس کو بھی سنت الٰہی کہا جاسکتا ہے۔ مرض سے شفا اور بہبودی ممکن ہے طبیعی راستے سے اور ڈاکٹری علاج سے واقع ہو اورممکن ہے کہ خاص شرائط و حالات کے تحت غیر مادی علتوں کے واسطے سے، جیسے ائمۂ معصومین (ع) یا دوسرے اولیاء خدا کی دعا سے حاصل ہو جائے۔ جیسا کہ ممکن ہے محاذ توحید کے مجاہدین مادی وسائل اور اسلحہ نیز طبیعی حالات کے اعتبار سے دشمن کے مقابل (لوگوں کی نظر میں) شکست کھانے والے ہوں، لیکن غیبی امداد اور غیر طبیعی اسباب کے ذریعے فتحیاب ہو جائیں کہ یہ بات بھی الٰہی اسباب و علل میں سے سمجھی جاتی ہے۔

۳۸

قرآن کریم میں ایسے واقعات کے بہت سے نمونے مذکور ہیں جو کہ غیر مادی اور غیر طبیعی اسباب کے راستے سے واقع ہوئے ہیں، مثال کے طور پر نزول باران اگر طبیعی اسباب و عوامل کے راستے سے واقع ہو تو ضروری ہے کہ دریا اور سمندروں کا پانی سورج کی دھوپ اور گرمی کی تپش سے بخار اوربھاپ بن کر بادل کی صورت اختیار کریں، پھر دریا اور خشکی کے درجۂ حرارت کے نتیجے میں ہوا چلنے سے بادل دریاؤں کے اوپر سے زمین کے تمام علاقوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ خاص حالات کے تحت بادل میں موجود پانی، بارش کے قطروں، یا برف کے دانوں یا اولوں کی صورت میں زمین پر برسے۔

بارش کی امید اس کے طبیعی اسباب و علل کے بغیر، مادی نظر سے ایک بیجا اور نامعقول امید سمجھی جاتی ہے، لیکن حضرت نوح ـ نزول باران کے لئے طبیعی عوامل کو نظر میں رکھے بغیر اپنی قوم کو خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ استغفار اور توبہ کرو تا کہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش ہو،(وَ یَا قَومِ اسْتَغفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوالیهِ یُرسِلِ السَّمَائَ عَلَیکُم مِدْرَاراً وَ یَزِدْکُم قُوَّةً ِلٰی قُوَّتِکُمْ وَ لاتَتَوَلَّوْا مُجرِمِینَ) 1 اے میری قوم والو! اپنے پروردگار سے استغفار کرو پھر اسی کی طرف ،ہمہ تن گوش ہو جاؤ اور اس کی طرف پلٹ آؤ تاکہ خداوند متعال آسمان سے تم پر موسلادھار بارش نازل کرے اور رحمت الٰہی اور بارش کے نزول کے ذریعہ تمھاری موجودہ قوت کو اور قوت دیکر

(1)سورۂ ہود، آیت 52 ۔

۳۹

زیادہ کردے، پھر فرمایا:(وَ لاتَتَوَلَّوا مُجرِمِینَ)، خبردار! توبہ و استغفار کے بغیر اور اس حال میں کہ تم مجرم و گنہگار ہو خدا سے منھ مت پھیرو او راپنے کو رحمت الٰہی سے محروم مت کرو۔

اگر چہ نزول باران کے طبیعی اسباب و علل اور طبیعت میں جاری تمام علّی و معلولی نظام، سب قدرت الٰہی کے ہاتھ میں ہیںاور اسی کے ارادے سے کام کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و عوامل کو نظر میں رکھے بغیر خداوند متعال فرماتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو اور خدا کی طرف واپس آجاؤ، ہم آسمان سے کہہ دیں گے کہ تم پر موسلادھار برسے۔

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ خداوند متعال کا مقصود یہ نہیں ہے کہ طبیعی عوامل کے تحقق کے بغیر بارش نازل ہو، بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہم طبیعی عوامل کو پیدا کر کے تم پر بارش برسائیں گے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظریہ توحیدی مکتب فکر کے موافق نہیں ہے، اس لئے کہ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا، ایسا نہیں ہے کہ خداوند متعال نے علّی و معلولی نظام کو خلق کر کے، طبیعی اسباب و علل کے بغیر موجودات کو ایجاد کرنے سے اپنے کو عاجز کر رکھا ہے۔ خداوند متعال موجودات کی ایجاد و خلقت پر اپنی قدرت کے متعلق اس طرح فرماتا ہے:(اِذَا أَرادَ شَیئاً أَن یَّقُولَ لَهُ کُن فَیَکُون) جب بھی خداوند متعال کسی شے سے یہ کہنے کا ارادہ کرتا ہے کہ ہو جا، تو وہ شے فوراً ہوجاتی ہے۔

(1)سورہ یٰس، آیت 82۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

چوالیسواں جعلی صحابی قحیف بن سلیک ہالکی

قحیف ، طلیحہ سے جنگ میں

گزشتہ داستانوں کے ضمن میں ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قحیف بن سلیک ہالکی ، بنی اسد کے ایک قبیلہ '' بنی ہالک '' ''ہ'' کے ساتھ بنی اسد کے خاندان سے ہے ۔

قحیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں اسلام قبول کیا ہے ۔ اس کے بعد اس نے ضرار بن ازور ، قضاعی بن عمرو اور سنان بن ابی سنان کے ہمراہ طلیحہ اسدی سے جنگ میں شرکت کی ہے اور پیکار کے دوران اس نے طلیحہ پر ایک مہلک اور کاری ضرب لگائی جس کے نتیجہ میں وہ زمین پر ڈھیر ہوکر بیہوش ہوگیا اسی اثناء میں طلیحہ کے حامی آ پہنچے اورقحیف کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

کچھ دیر کے بعد طلیحہ ہوش میں آگیا اور اپنا معالجہ کیا ، صحت یاب ہونے کے بعد یہ افواہ پھیلادی کہ اس پر کوئی اسلحہ اثر نہیں کرسکتا۔ اس طرح اس نے لوگوں کو تعجب میں ڈالدیا ۔

ابن حجر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

البتہ ان مطالب کو سیف بن عمر نے قحیف بن سلیک کے بارے میں اپنی کتاب ''فتوح '' میں بدر بن حرث' اس نے عثمان بن قطبہ سے اور اس نے بنی اسد کے ذریعہ نقل کیا ہے ان کا باپ بھی ان میں سے تھا !!(ز)

اس داستان کے راویوں کے بارے میں ایک بحث

سیف نے روایت کے راوی کے طور پر '' بدر بن حارث '' کا تعارف کرایا ہے ۔ بدر کے باپ حارث کا نام غلط ہے ، اور صحیح '' بدر بن خلیل'' ہے جو سیف کے جعلی روایوں میں سے ایک تھا ، سیف نے اپنے اکثر افسانے اور جھوٹ اسی سے نقل کئے ہیں ۔

اور اگر غلطی سرزد نہ ہوئی ہو اور وہی '' بدر بن حارث '' ہو تو اس نام کو سیف کے دوسرے جعلی راویوں کی فہرست میں قرار دینا چاہئے۔

۱۶۱

قحیف کی داستان کی تحقیق

سیف بن عمر کے زمانہ میں یمن میں قحیف نامی ایک نامور شاعر تھا ، ابن اثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب '' کامل '' میں ١٢٤ ھ کے حوادث کے ضمن میں اس کا نام لیا ہے ۔ ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کیا سیف نے اپنے جعلی قحیف کو شاعر قحیف کا ہم نام خلق کیا ہے ، یعنی وہی کام کیا ہے جو اس نے ''خزیمہ بن ثابت '' سماک بن خرشہ اور جریر بن عبد اللہ کے بارے میں انجام دیا ہے یایوں ہی اچانک یہ نام اس کے ذہن میں آیا اور اس نے اپنے خلق کردہ صحابی کا نام یہی رکھا ہے اور اسی پر افسانہ گڑھ لیا ہے ۔

موضوع جو بھی ہو کوئی فرق نہیں ، ہم نے خاص طور سے اس موضوع کے بارے میں اس لئے اشارہ کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ابن اثیر کی تاریخ کی طرف رجوع کرکے یہ خیال کرے کہ سیف جعل کردہ شخصحقیقت میں تاریخ میں موجود ہے ۔

لیکن سیف نے ضرار بن ازور کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر عوف ورکانی اور قضاعی بن عمرو کے پاس بھیجنے کا جوذکر کیا ہے اور ان دونوں نمائندوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسود کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت دی کہ اسے قتل کر ڈالیں ،یہ سب کا سب جعل اور جھوٹ ہے اور ہم نے اس سلسلے میں اپنی کتاب '' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں مکمل تفصیل لکھی ہے ۔

مصادر و مآخذ

قضاعی بن عمرو کی داستان :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨ ، (١٧٩٩، ١٨٩٣ اور ٢٤٦٥)

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٠٥)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٣ ٢٢٧)

٤۔ ابن سعد کی ''طبقات'' (١ ٢٣٢)

۱۶۲

قضاعی بن عامر کی داستان

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' (٤ ٢٠٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (٣ ٢٧٧) نمبر : ٧١١٧

قحیف بن سلیک کی داستان

١۔ ابن حجر کی اصابہ ( ٣ ٢٥٦ )نمبر : ٧٢٨١

ہالک بن عمرو کا نسب

١۔ اللباب (٣ ٢٨٣)

٢۔ ابن حزم کی جمہرہ ( ص١٩٠ ۔ ١٩٢)

شاعر قحیف کی داستان

١۔ ابن اثیر کی '' تاریخ کامل'' طبع دار صادء (٥ ٣٠٠)

۱۶۳

پینتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن حکم قضاعی

عمرو کا نسب

ابن اثیر کی کتاب '' اللباب فی تھذیب الانساب'' میں یوں آیا ہے:

قضاعہ ایک بڑی قوم ہے جو متعدد قبائل پر مشتمل ہے اس میں شامل قبیلوں میں '' قبیلۂ کلب ، قبیلہ بلی اور قبیلۂ و جہینہ وغیرہ قابل ذکر ہیں '' قینی '' بھی '' قین '' کی طرف نسبت ہے جو خود قضاعہ کا ایک قبیلہ ہے ، یہ نعمان بن جسر کا پوتا اور قضاعہ کی اولاد میں سے ہے جو '' قین '' کے نام سے معروف تھا۔

عمرو بن حکم کی داستان کا سرچشمہ

طبری اور ابن عساکر کی '' تاریخوں '' میں ہم پڑھتے ہیں :

سیف بن عمر نے ابو عمرو سے اور اس نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت قضاعہ کے مختلف قبائل میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے اور گماشتے حسب ذیل تھے :

١۔ خاندان بنی عبدا للہ سے امرؤ القیس ، قبیلۂ کلب میں ۔

٢۔ عمرو بن حکم ، قبیلۂ قین میں ۔

٣۔ معاویہ بن فلان وائلی قبیلہ '' سعدھذیم '' میں ۔

قبیلہ کلب سے ودیعۂ کلبی اپنے ہمفکروں اور دوست و احباب کی ایک جماعت کے ساتھ مرتد ہوکر دین اسلام سے منحرف ہوگیا تھا ۔لیکن '' امرؤ القیس'' بدستور اسلام کا وفادار رہ کر اسلام پر باقی رہا۔

زمیل بن قطبہ قینی بھی قبیلۂ ''بنی قین ''سے اپنے دوستوں کے گروہ کے ساتھ مرتد ہوا لیکن رسول خدا کا کارندہ عمرو بن حکم بدستور مسلمان رہا۔

۱۶۴

معاویہ بن فلان وائلی بھی قبیلۂ ''سعد ھذیم '' کے اپنے چند ہمفکروں کے ساتھ دین اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو۔

مذکورہ لوگوں کے مرتد ہونے کے بعد ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امام حسین کی بیٹی سیکنہ کے نانا '' امرؤ القیس'' کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ ودیعہ اور اس کے دوستوں کا مقابلہ کرکے ان کی بغاوت کو کچل ڈالے۔

ایک دوسرے خط کے ذریعہ عمرو بن حکم قضاعی اور معاویۂ عذری کو حکم دیا کہ ایک دوسرے کی مدد سے '' زمیل'' اور اس کے ساتھیوں کی شورش کو سرکوب کریں ۔

جب اسامہ بن زید ، خلیفہ کے حکم پر شام کی جنگ سے واپسی پر قبائل قضاعہ کے مرکز میں پہنچا تو اس نے اپنی فوج کے مختلف دستوں کو مختلف قبائل میں متفرق کرکے انھیں حکم دیا کہ اسلام پر پابند لوگوں کو منظم کرکے قبیلۂ کے مرتدوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں ۔

اسامہ کے اس اقدام پر قضاعہ کے مختلف قبیلوں کے مرتدوں نے اپنے خاندان سے فرار کرکے '' دومة الجندل '' میں اجتماع کیا اور '' ودعیۂ کلبی'' کی حمایت پر اتر آئے اور اس طرح اس کی ہمت افزائی ہوئی ۔

اسامہ کے سوار اپنی ڈیوٹی انجام دے کر واپس پلٹے تو اسامہ نے ان کے ہمراہ بے خبر اور اچانک مرتدوں کے جمع ہونے کی جگہ (حمقتین ) پر حملہ کیا اور قضاعہ کے مختلف قبائل جیسے قبیلۂ ''جذام ''' کے بنی ضعیف'' قبیلۂ '' بنی لخم'' کے '' خلیل'' اور ان کے دیگر حامیوں پر ٹوٹ پڑے اور انھیں بڑی بے رحمی کے ساتھ تہ تیغ کیا اور مرتدوں کے گروہ کا '' آبل'' تک پیچھا کیا ۔ اس علاقہ کو ان کے ناپاک و جود سے پاک کیا اور کافی مقدار میں جنگی غنائم لے کر فاتح کی صورت میں واپس لوٹا۔

سیف کی اسی ایک روایت سے استفادہ کرتے ہوئے مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو صحابی اور کارندوں کا انکشاف کیا ہے.ان علماء میں سے ابو عمر ، ابن عبد البر اپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے :

عمرو بن حکم قضاعی قینی ، ایک ایسا صحابی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتہ اور کارندے کے طور پر قبیلۂ '' قین '' میں منصوب فرمایا ہے ۔۔ میں ابن عبد البر ۔۔ اس سے زیادہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔

جب قبائل قضاعہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض کارندے مرتد ہوئے ، تو عمرو بن حکم اور امرؤ القیس بن اصبغ ان کارندوں میں سے تھے جو اسلام پر ثابت قدم رہے اور مرتد نہیں ہوئے ( ابن عبد البر کی بات کا خاتمہ)

۱۶۵

ابن اثیر نے بھی استیعاب کی مذکورہ روایت کوعین عبارت کے ساتھ اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں نقل کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ دو علما۔۔ ابن عبدا لبر اور ابن اثیر ۔۔ نے مذکورہ خبر کے مآخذ کو اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے ۔ لیکن ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ '' میں زیر بحث روایت کے مآخذ کے بارے میں یوں رقمطراز ہے :

عمروبن حکم قضاعی '' قینی'' : سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں حفص بن میسرہ کے قول کو یزید بن اسلم سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمروبن حکم کو اپنے عامل و کارگزار کے طور پر قبیلۂ قین میں منصوب فرمایا ' لیکن جس وقت قبائل قضاعہ کے بعض افراد مرتد ہوگئے ، تو عمرو بن حکم اور امرؤ القیس بن اصبغ ، ان کارندوں میں سے تھے جو بدستور ( داستان کی آخر تک)

ان روایتوں کے علاوہ ، ابن حجر نے ایک اور روایت سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کی ہے اور اس میں اسی خبر کی تکرار ہوئی ہے ، لیکن طبری اسے اپنی تاریخ میں نہیں لایا ہے ۔ اور سیف کا یہ کام ہمارے لئے نیا نہیں ہے ، کیونکہ اس کی روش ایسی ہے کہ ایک خبر کو متعدد اور مختلف روایتوں میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی مؤید ہوں تا کہ روایتوں کی زیادہ تعدادکے ذریعہ اس کے جعلی ہونے کی پردہ پوشی ہوجائے۔

۱۶۶

چھیالیسواں جعلی صحابی '' بنی عبداللہ '' سے امرؤ القیس

علماء کے ذریعہ امرؤ القیس کا تعارف

مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی اسی روایت سے استفادہ کرکے بنی عبد اللہ سے ''امرؤ القیس بن اصبغ '' نامی ایک صحابی ، عامل اور کارندے کے وجود پر یقین کرکے اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابو عمر ، ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں '' امرؤ القیس '' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں لکھا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ ، بنی عبد اللہ بن کلب بن وبرہ وہ صحابی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبائل قضاعہ کے قبیلۂ '' کلب'' میں اپنے عامل و کارندے کے عنوان سے منصوب فرمایا ہے ۔ قبائل قضاعہ کے بعض افراد کے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہونے کے بعد امرؤ القیس بدستور اسلام پر پابند رہا ہے ۔

میرے خیال میں ۔۔ البتہ خدا بہتر جانتا ہے ۔۔ یہ امرؤ القیس ابو سلمہ بن عبد الرحمان بن عوف کا ماموں ہوگا ، کیونکہ ابو سلمہ کی والدہ ، جس کا نام '' تماضر '' تھا '' اصبغ بن ثعلبہ بن ضمضم کلبی کی بیٹی تھی ۔ اور خود اصبغ اپنے قبیلہ کا سردار تھا ( ابن عبد البر کی بات کا خاتمہ)

مذکورہ روایت کو کتاب '' الجمع بین الاستیعاب و معرفة الصحابہ'' کے مصنف نے کسی کمی بیشی کے بغیر امرؤ القیس کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ۔

ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی خبر کو بعینہ نقل کیا ہے اور '' بنی عبد الدار '' کا نسب بھی اس میں اضافہ کیاہے ۔ ابن اثیر کہتا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی بنی عبد اللہ بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید اللات بن رفیدة بن ثور بن وبرہ ایک صحابی ہے جسے رسول خدا نے بعنوان ( عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں ذکر ہوئی داستان کے آخر تک ) پھر وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :

البتہ ان مطالب کو ابو عمر ابن عبدا لبر نے بیان کیا ہے اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسے مطالب ذکر کئے ہیں ۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید'' میں امرؤ القیس کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

کہتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے قبیلۂ کلب پر ممور فرمایا تھا۔ صرف ابن عبد البر نے اس کے سلسلہ میں یہ بات کہی ہے ۔

۱۶۷

اس طرح ان تین علما۔۔ ابن عبد البر ، ابن اثیر اور ذہبی ۔۔ نے امرؤ القیس کے حالات پر اپنی کتابوں میں روشنی ڈالیہے ۔ لیکن اپنی روایت کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

لیکن ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ' میں ابن عبد البر کی روایت کو صراحت کے ساتھ اس کا نام لے کر لیکن خلاصہ کے طور پر نقل کرکے آخر میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے کہ امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ میں سے تھا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ و کارندہ کی حیثیت سے قبائل بنی قضاعہ کے قبیلہ ٔ کلب میں ممور تھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد مرتد نہیں ہوا ۔ سیف نے اپنی کتاب میں دوسری جگہوں پر بھی امرو القیس کا نام لیا ہے ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

عمرو اور امرؤ القیس کے بارے میں ا یک بحث

اس روایت میں دو جگہوں پر ایک محقق کیلئے مطلب پیچیدہ اور مبہم ہے پہلے یہ کہ ابو عمر ، ابن عبد البر نے ، عمرو بن حکم قضاعی کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت ، سیف بن عمر کی بات کو اس کے بارے میں مختصر ذکر کرکے فقط اس پر اکتفا کی ہے کہ:

وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا ، ارتداد کے مسئلہ میں اسلام پر باقی رہا ہے ۔ ( آخر میں تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے ): میں اس سے زیادہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہوں ۔

ابن اثیر نے بھی کتا ب'' اسد الغابہ '' میں ابن عبد البر کی پیروی کرتے ہوئے اس میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔ لیکن ابن حجر نے ان دوعلماء کی روایت کے مآخذ سے پردہ اٹھا کر انہیں بیان کیا ہے ۔جس نے محققین کے کام کو آسان بنادیا ہے ۔

اور اس کی پیچیدگی کا سبب نہیں بنا ہے لیکن امرؤ القیس کے حالات کی تشریح کے بارے میں یہ مسئلہ بر عکس ہوا ہے ، کیونکہ اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس سے بیشتر بیان کیا گیا ہے جوکچھ سیف بن عمر نے اس کے بارے میں کہا ہے ۔

ملاحظہ فرمائیے :

سیف کی روایت میں امرؤ القیس کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ ، بنی عبد اللہ سے ہے۔

۱۶۸

لیکن یہی سادہ تعارف ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں اس طرح آیا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ بن وبرہ سے ہے!

آخر میں ابن اثیر اس نسبی تعارف میں اضافہ کرکے کہتا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ بن کنانة بن بکر تا ابن کلب بن وبرہ !!!

یہی امر سبب بنتا ہے کہ انسان یہ گمان کرے کہ کیا ابن اثیر امرؤ القیس کے نسب کو کلب بن وبرہ تک جانتا تھا اور اسے مکمل طور پر پہچانتا تھا جو اس طرح یقین اور قطعی صورت میں اس کا سب بیان کررہا ہے ؟ لیکن جب ابن اثیر اپنی بات کے خاتمہ تک پہنچتا ہے تو اس طرح کہتا ہے :

البتہ یہ ابو عمر ، ابن عبد البر کا کہنا اور وہ تنہا شخص ہے جس نے امرؤ القیس کے بارے میں اس طرح کی بات کہی ہے ۔

اس طرح حقیقت سامنے آجاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ ابن اثیر نے بنی عبد اللہ کے سلسلہ نسب کو ''کلب بن وبرہ''تک پہنچا یا ہے نہ کہ سیف کے خیالات کی تخلیق '' امرؤ القیس '' کے نسب ۔

امرؤ القیس عدی کی جگہ امرؤ القیس اصبغ کی جانشینی

دوسری جگہ یہ کہ سیف نے اپنی مخلوق امرؤ القیس کو '' اصبغ '' کے بیٹے کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ اصبغ '' اصبغ کلبی '' کا ہم نام ہے جو '' دومة الجندل '' میں رئیس قبیلہ تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبد الرحمان عوف کو اسلام کے سپاہیوں کے ایک گروہ کے ہمراہ اس کے پاس بھیجا تھا۔

اس ملاقات کے دوران عبد الرحمان نے '' اصبغ'' کی بیٹی '' تماضر'' سے عقد کرکے اسے اپنی بیوی بنالیا اور اس نے ایک بیٹے ''' ابو سلمہ '' کو جنم دیا ہے ۔

۱۶۹

ابن عبد البر اصبغ کے نام میں اس ہم نامی کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور تصور کیا ہے کہ جس اصبغ کا سیف نے نام لیا ہے وہ وہی اصبغ ہونا چاہئے جو دومة الجندل میں قبیلۂ کلب کا سردار تھا اور اس نے یہیں سے یہ خیال کیا ہے کہ سیف کا امرؤ القیس '' تماضر'' کا بھائی اور ابو سلمہ بن عبد الرحمان عوف کا ماموں ہے ۔ جبکہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ '' تماضر '' کے باپ کے '' امرؤ القیس'' نامی کوئی بیٹا تھا۔

اس طرح ابن عبد البر اس امر سے بھی غافل تھا کہ سیف بن عمر نے اپنی داستان کے ہیرو ''امرو القیس '' کو امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جد کے طور پر خلق کیا ہے ۔ جبکہ سکینہ بنت امام حسین کا جدِ مادری امرؤ القیس بن عدی ہے نہ اصبغ !! اور یہ امرؤ القیس بن عدی بھی خلافت عمر کے زمانے میں اسلام لایا ہے ، نہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں اور یہ کسی صورت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اورکارندہ نہیں تھا ١ اس بنا پر جس امرؤ القیس کو سیف نے خلق کیا ہے وہ اس اصبغ کا بیٹا نہیں تھا ، جو دومة الجندل میں سردار قبیلہ تھا اور نہ سکینہ کا نانا تھا اور نہ ہی ابو سلمہ بن عبد الرحمان عوف کا ماموں تھا بلکہ یہ صرف ایک نام تھا ان ناموں کی فہرست میں جنھیں سیف نے اپنے افکار کے نفاذ کیلئے خلق کیا ہے اور اپنے افسانوں میں اس کیلئے کردار معین کیا ہے تا کہ آسانی کے ساتھ تاریخ اسلام کو ذلیل و خوار کرے اور محققین کو حیرت اور پریشانی سے دوچار کرے ۔

بے شک سیف اس قسم کے دو ہمنام دلاوروں کو خلق کرکے اور انھیں تاریخ کے حقیقی چہرے کے طور پر دکھا کر علماء کو حیرت اور پریشانی سے دوچار کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوا ہے اسی طرح اپنے افسانوں کو خلق کرنے میں ، '' ابو دجانہ ، سماک بن خرشہ ، جریر بن عبد اللہ اور سبائیان '' جیسے اسلام کے واقعی چہروں کا نام لیا ہے اور تاریخ میں دخل و تصرف کرکے حقیقتوں کو تحریف کرنے کے بعد علماء و اور محقیقین کیلئے پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا کی ہیں ۔

یہاں پر یہ سؤال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حقیقت میں سیف کے زندیقی ہونے کی نسبت صحیح نہ ہوتی تو کون سی چیز اس کیلئے اسلام کے ساتھ اتنی دشمنی کرنے کا سبب بنتی اور وہ تاریخ اسلام کو ذلیل کرنے پر اتر آتا ؟!!

____________________

١ امرؤ القیس بن عدی کے اسلام قبول کرنے کے طریقہ کے بارے میں '' اسلام کی جنگوں کے سپہ سالار '' کی فصل میں ذکر ہوگا''

۱۷۰

تاریخ کی مسلم حقیقتیں

موضوع کی حقیقت کی تحقیق کرنے کیلئے گزشتہ بحث پر ایک مختصر نظر ڈالنا بے فائدہ نہ ہوگا۔

سیف نے اپنی خلق کی گئی روایتوں اور افسانوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے چند ایسے کارندے اور گماشتے جعل کئے ہیں جن کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قضاعہ کیلئے ممور فرمایا تھا ۔ اس سلسلے میں کہا ہے کہ ان کارندوں میں سے بعض رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہوگئے اور اس واقعہ کی وجہ سے خلیفہ ابو بکر نے مجبور ہو کر ان لوگوں میں دین اسلام پر ثابت قدم رہنے والے افراد کو حکم دیا ہے کہ وہ مرتدوں سے جنگ کریں اور انھیں پھیلنے سے روکیں ۔ جب اس دوران اسامہ موتہ کی جنگ سے واپس آتا ہے ۔ جیسا کہ سیف نے اس مطلب کو ایک دوسری روایت میں بیان کیا ہے ۔۔ تو ابو بکر اسے قضاعہ کے مرتدوں کی سرکوبی کیلئے ممور فرماتے ہیں ۔ اسامہ نے بھی مرتدوں کا '' حمقتین '' سیف نے ایک دوسری روایت میں اس جگہ کو شام کی سرحدوں کے عنوان سے پیش کیا ہے تک پیچھا کرتا ہے ان میں سے بہت سے گروہوں کا قتل عام کرکے کافی مقدار میں غنائم حاصل کرکے واپس لوٹتا ہے ۔

سیف نے اس روایت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے قضاعہ کے مختلف قبائل میں چند گماشتے اور کارندے خلق کئے ہیں ۔ جس کی تفصیل ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمیمی کارندے اور حاکم'' کے عنوان سے بیان کرکے اس کے آخر میں سیرت لکھنے والوں کے امام و پیشوا ابو اسحق کا یہ قول نقل کیا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام کی قلمرو میں موجود سرزمینوں میں اپنے گورنر اور گماشتے حسب ذیل منصوب فرمائے

ہم نے ابو اسحق کا مذکورہ بیان اس لئے نقل کیا ہے تا کہ تاریخ کے مسلم حقائق کے مقابلے میں سیف کی روایتوں کا افسانہ ہونا اور ان کی قدر و منزلت واضح ہوجائے ۔

یہاں پر بھی ہم ایک دوسرے دانشور اور تاریخ نویس '' خلیفہ بن خیاط '' کے بیانات نقل کرتے ہیں جنھیں انہوں نے اپنی تاریخ میں '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کے نام '' کے عنوان سے ایک الگ فصل میں درج کیا ہے ، تا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں سے مربوط بحث مکمل ہوجائے۔

۱۷۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی کارگزار

ابن خیاط لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ابن ام مکتوم '' کو مختلف غزوات اور دیگر مواقع پر مدینہ منورہ میں تیرہ بار ١اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے:

١۔٣ ،' ابواء '' ، '' بواط'' اور ذی العشیرہ '' کے غزوات میں ۔

٤۔ '' کُرزَبن جابر '' نامی ایک باغی سے نبرد آزما ہونے کیلئے '' جہینہ '' پر حملہ کے دوران ۔

٥۔ جب جنگ بدر کے سلسلے میں باہر تشریف لے جارہے تھے ۔ کچھ دنوں کے بعد'' ابن

____________________

١۔ ابن خیاط کی روایت ابن مکتوم کی ١٣ بار جانشینی کی حاکی ہے جبکہ اس دانشور نے صرف ١٢ موارد ذکر کئے ہیں

۱۷۲

ام مکتوم'' کو اس عہدہ سے برطرف کرکے ان کی جگہ '' ابو لبابہ ''کو منصوب فرمایا:

٦۔١٢ ۔ '' سویق'' ، '' غطفان '' ا، '' احد '' ، '' حمراء الاسد'' ، بحران '' '' ذات الرقاع '' اور آخر میں حجة الوداع میں ۔

درج ذیل اصحاب کو بھی دوسرے غزوات میں مدینہ منورہ میں اپنی جگہ جانشین مقرر فرمایا ہے :

____________________

١۔ '' ابو رہم غفاری '' اور کلثوم بن حصین '' کو اس وقت جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''مکہ '' ''حنین'' اور ''طائف'' عزیمت فرمائی۔

۱۷۳

۔ محمد بن مسلمہ '' کو غزوۂ '' قرقرة الکدر '' میں ۔

۔ '' نمیلة بن عبد اللہ اللیثی '' کو غزوۂ '' بنی المصطلق ''میں ۔

۔ بنی دئل سے '' عویف بن الاضبط '' کو غزوۂ حدیبیہ میں ۔

۔ دوبارہ '' ابورہم غفاری '' کوغزوۂ '' خیبر '' اور '' عمرة القضاء میں ''

۔ '' سباع بن عرفطۂ غفاری '' کو غزوۂ '' تبوک '' میں ۔

۔ '' غالب بن عبدا للہ اللیثی '' کو ایک دوسرے غزوہ میں ۔

۔ مندجہ ذیل اصحاب کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسب ذیل علاقوں کی حکومت اور ولایت سونپی ہے :

۔ عتاب بن اسید ' کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ سے اپنی واپسی کے وقت مکہ میں اپنے جانشین و حاکم کے عنوان سے منصوب فرمایا ۔ ابو بکر کی وفات تک ' عتاب ' اس عہدہ پر برقرار تھا ۔

۔ ' عثمان بن ابو العاص ثقفی '' کو طائف پر ۔

۔ '' سالم بن معتب '' کو ثقیف کے ہم پیمانوں پر۔

۔ ایک اور صحابی کو '' بنی مالک '' پر۔

۔ عمروبن سعید '' کو '' خیبر''،' 'وادی القری ، '' تیما'' اور '' تبوک '' کے عرب نشین قصبوں پر ۔

۔ اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک '' عمرو '' وہاں پر حکومت کرتا رہا۔

۔ '' حکم بن سعید بن عاص '' کو مدینہ کے بازار کے امور میں اپنا مؤکل منصوب فرمایا ۔

یمن کے علاقہ کو مختلف حصوں میں تقسیم فرماکر ہر ایک حصہ پر اپنے درج ذیل اصحاب میں سے کسی ایک کو منصوب فرمایا:

۔ '' خالد بن سعید بن عاص کو ''یمن کے صنعا ''پر ۔

۔ '' مہاجربن امیہ '' کو '' کندہ '' او ر'' صدف '' پر ۔

۔ '' زیاد بن لبید انصاری بیاضی '' کو حضرموت پر ۔

۔ معاذ بن جبل '' کو''جند'' پر ، اس کے علاوہ معاذ کے فرائض میں علاقہ کے دعاوی ( جھگڑوں ) کا فیصلہ کرنا: قوانین اسلام کی تربیت اور لوگوں کو قرآن مجید سکھانا بھی شامل تھا۔

۱۷۴

۔ ابو موسی اشعری کو '' زبید '' ، ''رمع ''''عدن'' او ر''ساحل ''(بندر) پر ممور فرمایا اور حکم دیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں اور گماشتوں کے ذریعہ حاصل شدہ صدقات وغیرہ کو معاذ بن جبل ان سے وصول کرے گا۔

'' عمرو بن حزم'' کو '' بلحارث بن کعب'' کے قبائل پر ۔

''ابو سفیان بن حرب '' کو نجران پر ۔

۔'' علی بن ابیطالب '' کو حکم دیا کہ علاقہ نجران کے صدقات کو جمع کرے ں ۔

امام نے بھی جمع کی گئیں رقومات کو حجة الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔

۔ سعید بن قشب ازدی ''بنی امیہ کے ہم پیمان کو '' جرش'' اور اس کے سمندری علاقوں پر ۔

۔ '' علاء بن حضرمی'' کو بحرین میں اس کے بعد اسے وہاں سے معزول کرکے اس کی جگہ ''ابان بن سعید '' کو منصوب فرمایا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے آخری تک '' ابان '' بحرین اور اسکے سمندوری علاقوں پر حکومت کرتا رہا۔

۔ عمروبن عاص '' کو سرزمین عمان کیلئے منتخب فرمایا اور وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخر تک وہاں حکومت کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ابو زید انصاری '' کو عمان کی حکومت پر منصوب فرمایا تھا

بنی عامر بن لوئی سے ایک فرد''سلیط بن سلیط '' کو یمامہ پر منصوب فرمایا یمامہ کے باشندوں نے جب اسلام قبول کیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے مال و منال میں ہاتھ نہیں لگایا اور اسے بدستور ان کے ہی اختیار میں رکھا ( ابن خیاط کی بات کا خاتمہ )

جیسا کہ ملاحظہ فرمایا کہ اس نامور عالم نے ان تمام افراد کانام لیا ہے جنہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری حیات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں ، گماشتوں یا علاقوں کے حاکم کے طور پر ذمہ داری سنبھالی تھی ۔ اور اس سلسلے میں ایک فرد کو بھی لکھے بغیرنہیں چھوڑا ہے حتی اس نے '' ابوزید انصاری'' کی عمان پر حکومت کی ضعیف روایت سے بھی چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ اور اس علاقہ پر اس کی حکومت کے بارے میں '' کہتے ہیں ...''' کی عبار ت لائی ہے ۔ لیکن اس لمبی چوڑی فہرست میں کہیں بھی سیف کے جعل کردہ افراد میں سے کسی ایک کا نام نہیں ملتا ۔

۱۷۵

اس افسانہ سے سیف کے نتائج

سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے کارندوں کا نام لیا ہے کہ نہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں دیکھا ہے اور نہ ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب نے ۔

سیف نے اپنے ان خلق کئے گئے بعض چہروں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کے عنوان سے پیش کیا ہے کہ ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ان میں سے چھ افراد کو حسب ذیل پیش کیا ہے۔

١۔ سعیر بن خفاف تمیمی

٢۔ عوف بن علاء بن خالد بن جشمی

٣۔ اوس بن جذیمہ، ہجیمی

٤۔ سہل بن منجاب ، تمیمی

٥۔ وکیع بن مالک ، تمیمی

٦۔ حصین بن نیار ، حنظلی

مذکورہ افراد کے بارے میں ہم نے ہر ایک کی تفصیل سے وضاحت کی ہے ۔

یہاں بھی ہم سیف کے خلق کئے گئے درج ذیل ایسے کارندوں اور گماشتوں سے روبرو ہوتے ہیں ، جنہیں سیف کے بقول پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قضاعہ میں ممور فرمایا تھا :

٧۔ عمرو بن حکم ، قضاعی

٨ ۔امرؤ القیس بن اصبغ

ہم نے دیکھا کہ ابن اسحاق نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان تمام گماشتوں اور کارندوں کا نام لیا ہے جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے سال تک، مموریت پر تھے اور اسی طرح خلیفہ بن خیاط نے ان تمام افراد کا نام لیا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری زندگی میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ میں کسی نہ کسی قسم کی مموریت انجام دی چکے ہیں ۔ لیکن ان مذکورہ لمبی چوڑی فہرستوں میں سیف کے خلق کئے گئے گماشتوں اور کارندوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ۔ کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے ان کارندوں اور قبائل قضاعہ کے مرتد ہونے کا افسانہ گڑھ لیا ہے ۔

۱۷۶

یہ سیف بن عمر ہے جو کہتا ہے کہ خلیفہ ابو بکر نے ابتدا میں مرتدوں سے سیاسی طور پر برتاؤ کیا تا کہ ان کی سرکشی کو مسالمت آمیزطریقے سے خاتمہ بخشے لیکن جب ا س طرح کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا تو مجبور ہو کر ان کی بغاوت اور سرکشی کو کچلنے کیلئے اسامہ اور اس کے لشکر کو روانہ کیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کے بغیر ان کی خوب گوشمالی کرے ۔ نتیجہ کے طور پر اسامہ نے تابڑتوڑ حملوں کے ذریعہ قضاعہ کے مرتدوں کا '' حمقتین '' تک پیچھا کیا اور انہیں بھگا کر علاقہ کو ان کے وجود سے پاک کردیا!

آخر میں یہی مکتب خلفاء کے پیرو علماء ہیں جنہوں نے سیف کی روایات اور افسانوں سے استفادہ کرکے اس کے خیالی کرداروں کو حقیقت کا لبادہ پہنایا ہے اور ان کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے ۔ اس کے علاوہ سیف کے جعل کردہ مقامات جیسے '' حمقتین '' کی بھی تشریح کرکے انھیں اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

سیف کی انہی روایتوں سے یہ افواہ پھیلی ہے کہ اسلام تلوار اور خون کی ہولی کھیل کر پھیلا ہے نہ کہ فطری طور پر اور اپنی خصوصیت کی وجہ سے !! ہم نے اس موضو ع کو اپنی کتاب '' عبدا للہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں ثابت کیا ہے ۔

سر انجام سیف کے تمام جھوٹ سے زیادہ تکلیف دہ وہ جھوٹ ہے جسے اس نے آخر میں خلق کرکے یہ کہا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض گماشتے اور کارندے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہوگئے اور باقی بچے ثابت قدم لوگوں نے ان سے جنگ کی ہے !

اس بات سے پتا چلتا ہے کہ اسلام نے اس کے پیرؤں کے دلوں پر ہی نہیں بلکہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں اور خصوصی گماشتوں کے دلوں پر بھی اثر نہیں کیا تھا جبھی انہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد دین سے منحرف ہوکر ارتداد کا راستہ اختیار کیاکر لیا تھا، اس طرح سیف نے ثابت کیا ہے کہ اسلام تلوار کی ضرب سے پھیلا ہے نہ کہ کسی اور طریقے سے۔

۱۷۷

اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

ان تمام افسانوں کو سیف بن عمر نے اکیلے ہی خلق کیا ہے اور درج ذیل علماء نے اپنی معتبر اور گراں قدر کتابوں میں ان کی اشاعت کی ہے :

١۔ امام المؤرخین '' محمد بن جریر طبری'' نے اپنی تاریخ کبیر میں ، مآخذ کے ذکر کے ساتھ

٢۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ،سند کے ساتھ۔

٣۔ ابو عمر ابن عبد البر نے استیعاب میں سند کے بغیر ۔

٤۔ یاقوت حموی نے ''شرح بر حمقتین'' کے عنوان سے کتاب ''معجم البلدان ''میں سند کے ساتھ۔

٥۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب '' کامل '' میں طبری سے نقل کرکے ۔

٦۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ''اسد الغابہ ''میں عبدا لبر کی استیعاب سے ۔

٧۔ کتاب ''الجمع بین الاستیعاب ''و ''معرفة الصحابہ ''کے مصنف نے عبد البر کی استیعاب سے۔

٨۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید '' میں ابن اثیر کی اسد الغابہ سے نقل کرکے ۔

٩۔ ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں کتاب فتوح سے نقل کرکے۔

یہ سب سیف بن عمر تمیمی کی جھوٹی اور جعلی روایتوں کی برکت سے ہے جو زندیقی ہونے کا ملزم بھی ٹھہرایا گیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

قضاعہ کے نسب کے بارے میں مادۂ '' القضاعی '' و القینی '' کتاب اللباب (٢ ٢٦٥) اور (٣ ١٨ ) ملاحظہ ہو۔

عمرو بن حکم قضائی کی داستان :

١۔ تاریخ طبری (١ ١٨٧٢)

٢۔ تاریخ ابن عساکر (١ ٤٣٢)

٣۔ ابن عبد البر کی استیعاب طبع حیدر آباد دکن ( ٢ ٤٤٣) نمبر : ١٩٣٣

۱۷۸

٤۔ الجمع بن الاستیعاب و معرفة الصحابہ قلمی نسخہ ، کتابخانہ ظاہریہ ص ١٩ نئے سطرے سکینہ بنت امام حسین کے جد کی داستان

١۔ ''اغانی ''اصفہانی ( ١٤ ١٥٧)

٢۔کتاب '' شذرات الذہب '' ( ١ ١٥٤)

رسول خدا کے گماشتوں اور کارندوں کے نام اور ان کا تعارف

١۔ خلیفہ بن خیاط کی تاریخ ( ١ ٦١ ۔ ٦٢)

سیف کے خیالی اماکن حموی کی '' معجم البلدان '' میں لفظ '' حمقتین ''اور آبل کے تحت ۔

۱۷۹

چھٹا حصہ

ہم نام اصحاب

* خزیمہ بن ثابت انصاری ( ذو الشہادتین کے علاوہ )

*سماک بن خرشہ انصاری ( ابو دجانہ کے علاوہ )

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329