ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130560 / ڈاؤنلوڈ: 4439
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

چوالیسواں جعلی صحابی قحیف بن سلیک ہالکی

قحیف ، طلیحہ سے جنگ میں

گزشتہ داستانوں کے ضمن میں ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قحیف بن سلیک ہالکی ، بنی اسد کے ایک قبیلہ '' بنی ہالک '' ''ہ'' کے ساتھ بنی اسد کے خاندان سے ہے ۔

قحیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں اسلام قبول کیا ہے ۔ اس کے بعد اس نے ضرار بن ازور ، قضاعی بن عمرو اور سنان بن ابی سنان کے ہمراہ طلیحہ اسدی سے جنگ میں شرکت کی ہے اور پیکار کے دوران اس نے طلیحہ پر ایک مہلک اور کاری ضرب لگائی جس کے نتیجہ میں وہ زمین پر ڈھیر ہوکر بیہوش ہوگیا اسی اثناء میں طلیحہ کے حامی آ پہنچے اورقحیف کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

کچھ دیر کے بعد طلیحہ ہوش میں آگیا اور اپنا معالجہ کیا ، صحت یاب ہونے کے بعد یہ افواہ پھیلادی کہ اس پر کوئی اسلحہ اثر نہیں کرسکتا۔ اس طرح اس نے لوگوں کو تعجب میں ڈالدیا ۔

ابن حجر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

البتہ ان مطالب کو سیف بن عمر نے قحیف بن سلیک کے بارے میں اپنی کتاب ''فتوح '' میں بدر بن حرث' اس نے عثمان بن قطبہ سے اور اس نے بنی اسد کے ذریعہ نقل کیا ہے ان کا باپ بھی ان میں سے تھا !!(ز)

اس داستان کے راویوں کے بارے میں ایک بحث

سیف نے روایت کے راوی کے طور پر '' بدر بن حارث '' کا تعارف کرایا ہے ۔ بدر کے باپ حارث کا نام غلط ہے ، اور صحیح '' بدر بن خلیل'' ہے جو سیف کے جعلی روایوں میں سے ایک تھا ، سیف نے اپنے اکثر افسانے اور جھوٹ اسی سے نقل کئے ہیں ۔

اور اگر غلطی سرزد نہ ہوئی ہو اور وہی '' بدر بن حارث '' ہو تو اس نام کو سیف کے دوسرے جعلی راویوں کی فہرست میں قرار دینا چاہئے۔

۱۶۱

قحیف کی داستان کی تحقیق

سیف بن عمر کے زمانہ میں یمن میں قحیف نامی ایک نامور شاعر تھا ، ابن اثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب '' کامل '' میں ١٢٤ ھ کے حوادث کے ضمن میں اس کا نام لیا ہے ۔ ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کیا سیف نے اپنے جعلی قحیف کو شاعر قحیف کا ہم نام خلق کیا ہے ، یعنی وہی کام کیا ہے جو اس نے ''خزیمہ بن ثابت '' سماک بن خرشہ اور جریر بن عبد اللہ کے بارے میں انجام دیا ہے یایوں ہی اچانک یہ نام اس کے ذہن میں آیا اور اس نے اپنے خلق کردہ صحابی کا نام یہی رکھا ہے اور اسی پر افسانہ گڑھ لیا ہے ۔

موضوع جو بھی ہو کوئی فرق نہیں ، ہم نے خاص طور سے اس موضوع کے بارے میں اس لئے اشارہ کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ابن اثیر کی تاریخ کی طرف رجوع کرکے یہ خیال کرے کہ سیف جعل کردہ شخصحقیقت میں تاریخ میں موجود ہے ۔

لیکن سیف نے ضرار بن ازور کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر عوف ورکانی اور قضاعی بن عمرو کے پاس بھیجنے کا جوذکر کیا ہے اور ان دونوں نمائندوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسود کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت دی کہ اسے قتل کر ڈالیں ،یہ سب کا سب جعل اور جھوٹ ہے اور ہم نے اس سلسلے میں اپنی کتاب '' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں مکمل تفصیل لکھی ہے ۔

مصادر و مآخذ

قضاعی بن عمرو کی داستان :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨ ، (١٧٩٩، ١٨٩٣ اور ٢٤٦٥)

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٠٥)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٣ ٢٢٧)

٤۔ ابن سعد کی ''طبقات'' (١ ٢٣٢)

۱۶۲

قضاعی بن عامر کی داستان

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' (٤ ٢٠٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (٣ ٢٧٧) نمبر : ٧١١٧

قحیف بن سلیک کی داستان

١۔ ابن حجر کی اصابہ ( ٣ ٢٥٦ )نمبر : ٧٢٨١

ہالک بن عمرو کا نسب

١۔ اللباب (٣ ٢٨٣)

٢۔ ابن حزم کی جمہرہ ( ص١٩٠ ۔ ١٩٢)

شاعر قحیف کی داستان

١۔ ابن اثیر کی '' تاریخ کامل'' طبع دار صادء (٥ ٣٠٠)

۱۶۳

پینتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن حکم قضاعی

عمرو کا نسب

ابن اثیر کی کتاب '' اللباب فی تھذیب الانساب'' میں یوں آیا ہے:

قضاعہ ایک بڑی قوم ہے جو متعدد قبائل پر مشتمل ہے اس میں شامل قبیلوں میں '' قبیلۂ کلب ، قبیلہ بلی اور قبیلۂ و جہینہ وغیرہ قابل ذکر ہیں '' قینی '' بھی '' قین '' کی طرف نسبت ہے جو خود قضاعہ کا ایک قبیلہ ہے ، یہ نعمان بن جسر کا پوتا اور قضاعہ کی اولاد میں سے ہے جو '' قین '' کے نام سے معروف تھا۔

عمرو بن حکم کی داستان کا سرچشمہ

طبری اور ابن عساکر کی '' تاریخوں '' میں ہم پڑھتے ہیں :

سیف بن عمر نے ابو عمرو سے اور اس نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت قضاعہ کے مختلف قبائل میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے اور گماشتے حسب ذیل تھے :

١۔ خاندان بنی عبدا للہ سے امرؤ القیس ، قبیلۂ کلب میں ۔

٢۔ عمرو بن حکم ، قبیلۂ قین میں ۔

٣۔ معاویہ بن فلان وائلی قبیلہ '' سعدھذیم '' میں ۔

قبیلہ کلب سے ودیعۂ کلبی اپنے ہمفکروں اور دوست و احباب کی ایک جماعت کے ساتھ مرتد ہوکر دین اسلام سے منحرف ہوگیا تھا ۔لیکن '' امرؤ القیس'' بدستور اسلام کا وفادار رہ کر اسلام پر باقی رہا۔

زمیل بن قطبہ قینی بھی قبیلۂ ''بنی قین ''سے اپنے دوستوں کے گروہ کے ساتھ مرتد ہوا لیکن رسول خدا کا کارندہ عمرو بن حکم بدستور مسلمان رہا۔

۱۶۴

معاویہ بن فلان وائلی بھی قبیلۂ ''سعد ھذیم '' کے اپنے چند ہمفکروں کے ساتھ دین اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو۔

مذکورہ لوگوں کے مرتد ہونے کے بعد ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امام حسین کی بیٹی سیکنہ کے نانا '' امرؤ القیس'' کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ ودیعہ اور اس کے دوستوں کا مقابلہ کرکے ان کی بغاوت کو کچل ڈالے۔

ایک دوسرے خط کے ذریعہ عمرو بن حکم قضاعی اور معاویۂ عذری کو حکم دیا کہ ایک دوسرے کی مدد سے '' زمیل'' اور اس کے ساتھیوں کی شورش کو سرکوب کریں ۔

جب اسامہ بن زید ، خلیفہ کے حکم پر شام کی جنگ سے واپسی پر قبائل قضاعہ کے مرکز میں پہنچا تو اس نے اپنی فوج کے مختلف دستوں کو مختلف قبائل میں متفرق کرکے انھیں حکم دیا کہ اسلام پر پابند لوگوں کو منظم کرکے قبیلۂ کے مرتدوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں ۔

اسامہ کے اس اقدام پر قضاعہ کے مختلف قبیلوں کے مرتدوں نے اپنے خاندان سے فرار کرکے '' دومة الجندل '' میں اجتماع کیا اور '' ودعیۂ کلبی'' کی حمایت پر اتر آئے اور اس طرح اس کی ہمت افزائی ہوئی ۔

اسامہ کے سوار اپنی ڈیوٹی انجام دے کر واپس پلٹے تو اسامہ نے ان کے ہمراہ بے خبر اور اچانک مرتدوں کے جمع ہونے کی جگہ (حمقتین ) پر حملہ کیا اور قضاعہ کے مختلف قبائل جیسے قبیلۂ ''جذام ''' کے بنی ضعیف'' قبیلۂ '' بنی لخم'' کے '' خلیل'' اور ان کے دیگر حامیوں پر ٹوٹ پڑے اور انھیں بڑی بے رحمی کے ساتھ تہ تیغ کیا اور مرتدوں کے گروہ کا '' آبل'' تک پیچھا کیا ۔ اس علاقہ کو ان کے ناپاک و جود سے پاک کیا اور کافی مقدار میں جنگی غنائم لے کر فاتح کی صورت میں واپس لوٹا۔

سیف کی اسی ایک روایت سے استفادہ کرتے ہوئے مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو صحابی اور کارندوں کا انکشاف کیا ہے.ان علماء میں سے ابو عمر ، ابن عبد البر اپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے :

عمرو بن حکم قضاعی قینی ، ایک ایسا صحابی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتہ اور کارندے کے طور پر قبیلۂ '' قین '' میں منصوب فرمایا ہے ۔۔ میں ابن عبد البر ۔۔ اس سے زیادہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔

جب قبائل قضاعہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض کارندے مرتد ہوئے ، تو عمرو بن حکم اور امرؤ القیس بن اصبغ ان کارندوں میں سے تھے جو اسلام پر ثابت قدم رہے اور مرتد نہیں ہوئے ( ابن عبد البر کی بات کا خاتمہ)

۱۶۵

ابن اثیر نے بھی استیعاب کی مذکورہ روایت کوعین عبارت کے ساتھ اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں نقل کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ دو علما۔۔ ابن عبدا لبر اور ابن اثیر ۔۔ نے مذکورہ خبر کے مآخذ کو اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے ۔ لیکن ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ '' میں زیر بحث روایت کے مآخذ کے بارے میں یوں رقمطراز ہے :

عمروبن حکم قضاعی '' قینی'' : سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں حفص بن میسرہ کے قول کو یزید بن اسلم سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمروبن حکم کو اپنے عامل و کارگزار کے طور پر قبیلۂ قین میں منصوب فرمایا ' لیکن جس وقت قبائل قضاعہ کے بعض افراد مرتد ہوگئے ، تو عمرو بن حکم اور امرؤ القیس بن اصبغ ، ان کارندوں میں سے تھے جو بدستور ( داستان کی آخر تک)

ان روایتوں کے علاوہ ، ابن حجر نے ایک اور روایت سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کی ہے اور اس میں اسی خبر کی تکرار ہوئی ہے ، لیکن طبری اسے اپنی تاریخ میں نہیں لایا ہے ۔ اور سیف کا یہ کام ہمارے لئے نیا نہیں ہے ، کیونکہ اس کی روش ایسی ہے کہ ایک خبر کو متعدد اور مختلف روایتوں میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی مؤید ہوں تا کہ روایتوں کی زیادہ تعدادکے ذریعہ اس کے جعلی ہونے کی پردہ پوشی ہوجائے۔

۱۶۶

چھیالیسواں جعلی صحابی '' بنی عبداللہ '' سے امرؤ القیس

علماء کے ذریعہ امرؤ القیس کا تعارف

مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی اسی روایت سے استفادہ کرکے بنی عبد اللہ سے ''امرؤ القیس بن اصبغ '' نامی ایک صحابی ، عامل اور کارندے کے وجود پر یقین کرکے اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابو عمر ، ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں '' امرؤ القیس '' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں لکھا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ ، بنی عبد اللہ بن کلب بن وبرہ وہ صحابی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبائل قضاعہ کے قبیلۂ '' کلب'' میں اپنے عامل و کارندے کے عنوان سے منصوب فرمایا ہے ۔ قبائل قضاعہ کے بعض افراد کے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہونے کے بعد امرؤ القیس بدستور اسلام پر پابند رہا ہے ۔

میرے خیال میں ۔۔ البتہ خدا بہتر جانتا ہے ۔۔ یہ امرؤ القیس ابو سلمہ بن عبد الرحمان بن عوف کا ماموں ہوگا ، کیونکہ ابو سلمہ کی والدہ ، جس کا نام '' تماضر '' تھا '' اصبغ بن ثعلبہ بن ضمضم کلبی کی بیٹی تھی ۔ اور خود اصبغ اپنے قبیلہ کا سردار تھا ( ابن عبد البر کی بات کا خاتمہ)

مذکورہ روایت کو کتاب '' الجمع بین الاستیعاب و معرفة الصحابہ'' کے مصنف نے کسی کمی بیشی کے بغیر امرؤ القیس کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ۔

ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی خبر کو بعینہ نقل کیا ہے اور '' بنی عبد الدار '' کا نسب بھی اس میں اضافہ کیاہے ۔ ابن اثیر کہتا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی بنی عبد اللہ بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید اللات بن رفیدة بن ثور بن وبرہ ایک صحابی ہے جسے رسول خدا نے بعنوان ( عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں ذکر ہوئی داستان کے آخر تک ) پھر وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :

البتہ ان مطالب کو ابو عمر ابن عبدا لبر نے بیان کیا ہے اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسے مطالب ذکر کئے ہیں ۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید'' میں امرؤ القیس کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

کہتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے قبیلۂ کلب پر ممور فرمایا تھا۔ صرف ابن عبد البر نے اس کے سلسلہ میں یہ بات کہی ہے ۔

۱۶۷

اس طرح ان تین علما۔۔ ابن عبد البر ، ابن اثیر اور ذہبی ۔۔ نے امرؤ القیس کے حالات پر اپنی کتابوں میں روشنی ڈالیہے ۔ لیکن اپنی روایت کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

لیکن ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ' میں ابن عبد البر کی روایت کو صراحت کے ساتھ اس کا نام لے کر لیکن خلاصہ کے طور پر نقل کرکے آخر میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے کہ امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ میں سے تھا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ و کارندہ کی حیثیت سے قبائل بنی قضاعہ کے قبیلہ ٔ کلب میں ممور تھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد مرتد نہیں ہوا ۔ سیف نے اپنی کتاب میں دوسری جگہوں پر بھی امرو القیس کا نام لیا ہے ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

عمرو اور امرؤ القیس کے بارے میں ا یک بحث

اس روایت میں دو جگہوں پر ایک محقق کیلئے مطلب پیچیدہ اور مبہم ہے پہلے یہ کہ ابو عمر ، ابن عبد البر نے ، عمرو بن حکم قضاعی کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت ، سیف بن عمر کی بات کو اس کے بارے میں مختصر ذکر کرکے فقط اس پر اکتفا کی ہے کہ:

وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا ، ارتداد کے مسئلہ میں اسلام پر باقی رہا ہے ۔ ( آخر میں تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے ): میں اس سے زیادہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہوں ۔

ابن اثیر نے بھی کتا ب'' اسد الغابہ '' میں ابن عبد البر کی پیروی کرتے ہوئے اس میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔ لیکن ابن حجر نے ان دوعلماء کی روایت کے مآخذ سے پردہ اٹھا کر انہیں بیان کیا ہے ۔جس نے محققین کے کام کو آسان بنادیا ہے ۔

اور اس کی پیچیدگی کا سبب نہیں بنا ہے لیکن امرؤ القیس کے حالات کی تشریح کے بارے میں یہ مسئلہ بر عکس ہوا ہے ، کیونکہ اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس سے بیشتر بیان کیا گیا ہے جوکچھ سیف بن عمر نے اس کے بارے میں کہا ہے ۔

ملاحظہ فرمائیے :

سیف کی روایت میں امرؤ القیس کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ ، بنی عبد اللہ سے ہے۔

۱۶۸

لیکن یہی سادہ تعارف ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں اس طرح آیا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ بن وبرہ سے ہے!

آخر میں ابن اثیر اس نسبی تعارف میں اضافہ کرکے کہتا ہے :

امرؤ القیس بن اصبغ کلبی ، بنی عبد اللہ بن کنانة بن بکر تا ابن کلب بن وبرہ !!!

یہی امر سبب بنتا ہے کہ انسان یہ گمان کرے کہ کیا ابن اثیر امرؤ القیس کے نسب کو کلب بن وبرہ تک جانتا تھا اور اسے مکمل طور پر پہچانتا تھا جو اس طرح یقین اور قطعی صورت میں اس کا سب بیان کررہا ہے ؟ لیکن جب ابن اثیر اپنی بات کے خاتمہ تک پہنچتا ہے تو اس طرح کہتا ہے :

البتہ یہ ابو عمر ، ابن عبد البر کا کہنا اور وہ تنہا شخص ہے جس نے امرؤ القیس کے بارے میں اس طرح کی بات کہی ہے ۔

اس طرح حقیقت سامنے آجاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ ابن اثیر نے بنی عبد اللہ کے سلسلہ نسب کو ''کلب بن وبرہ''تک پہنچا یا ہے نہ کہ سیف کے خیالات کی تخلیق '' امرؤ القیس '' کے نسب ۔

امرؤ القیس عدی کی جگہ امرؤ القیس اصبغ کی جانشینی

دوسری جگہ یہ کہ سیف نے اپنی مخلوق امرؤ القیس کو '' اصبغ '' کے بیٹے کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ اصبغ '' اصبغ کلبی '' کا ہم نام ہے جو '' دومة الجندل '' میں رئیس قبیلہ تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبد الرحمان عوف کو اسلام کے سپاہیوں کے ایک گروہ کے ہمراہ اس کے پاس بھیجا تھا۔

اس ملاقات کے دوران عبد الرحمان نے '' اصبغ'' کی بیٹی '' تماضر'' سے عقد کرکے اسے اپنی بیوی بنالیا اور اس نے ایک بیٹے ''' ابو سلمہ '' کو جنم دیا ہے ۔

۱۶۹

ابن عبد البر اصبغ کے نام میں اس ہم نامی کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور تصور کیا ہے کہ جس اصبغ کا سیف نے نام لیا ہے وہ وہی اصبغ ہونا چاہئے جو دومة الجندل میں قبیلۂ کلب کا سردار تھا اور اس نے یہیں سے یہ خیال کیا ہے کہ سیف کا امرؤ القیس '' تماضر'' کا بھائی اور ابو سلمہ بن عبد الرحمان عوف کا ماموں ہے ۔ جبکہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ '' تماضر '' کے باپ کے '' امرؤ القیس'' نامی کوئی بیٹا تھا۔

اس طرح ابن عبد البر اس امر سے بھی غافل تھا کہ سیف بن عمر نے اپنی داستان کے ہیرو ''امرو القیس '' کو امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جد کے طور پر خلق کیا ہے ۔ جبکہ سکینہ بنت امام حسین کا جدِ مادری امرؤ القیس بن عدی ہے نہ اصبغ !! اور یہ امرؤ القیس بن عدی بھی خلافت عمر کے زمانے میں اسلام لایا ہے ، نہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں اور یہ کسی صورت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اورکارندہ نہیں تھا ١ اس بنا پر جس امرؤ القیس کو سیف نے خلق کیا ہے وہ اس اصبغ کا بیٹا نہیں تھا ، جو دومة الجندل میں سردار قبیلہ تھا اور نہ سکینہ کا نانا تھا اور نہ ہی ابو سلمہ بن عبد الرحمان عوف کا ماموں تھا بلکہ یہ صرف ایک نام تھا ان ناموں کی فہرست میں جنھیں سیف نے اپنے افکار کے نفاذ کیلئے خلق کیا ہے اور اپنے افسانوں میں اس کیلئے کردار معین کیا ہے تا کہ آسانی کے ساتھ تاریخ اسلام کو ذلیل و خوار کرے اور محققین کو حیرت اور پریشانی سے دوچار کرے ۔

بے شک سیف اس قسم کے دو ہمنام دلاوروں کو خلق کرکے اور انھیں تاریخ کے حقیقی چہرے کے طور پر دکھا کر علماء کو حیرت اور پریشانی سے دوچار کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوا ہے اسی طرح اپنے افسانوں کو خلق کرنے میں ، '' ابو دجانہ ، سماک بن خرشہ ، جریر بن عبد اللہ اور سبائیان '' جیسے اسلام کے واقعی چہروں کا نام لیا ہے اور تاریخ میں دخل و تصرف کرکے حقیقتوں کو تحریف کرنے کے بعد علماء و اور محقیقین کیلئے پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا کی ہیں ۔

یہاں پر یہ سؤال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حقیقت میں سیف کے زندیقی ہونے کی نسبت صحیح نہ ہوتی تو کون سی چیز اس کیلئے اسلام کے ساتھ اتنی دشمنی کرنے کا سبب بنتی اور وہ تاریخ اسلام کو ذلیل کرنے پر اتر آتا ؟!!

____________________

١ امرؤ القیس بن عدی کے اسلام قبول کرنے کے طریقہ کے بارے میں '' اسلام کی جنگوں کے سپہ سالار '' کی فصل میں ذکر ہوگا''

۱۷۰

تاریخ کی مسلم حقیقتیں

موضوع کی حقیقت کی تحقیق کرنے کیلئے گزشتہ بحث پر ایک مختصر نظر ڈالنا بے فائدہ نہ ہوگا۔

سیف نے اپنی خلق کی گئی روایتوں اور افسانوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے چند ایسے کارندے اور گماشتے جعل کئے ہیں جن کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قضاعہ کیلئے ممور فرمایا تھا ۔ اس سلسلے میں کہا ہے کہ ان کارندوں میں سے بعض رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہوگئے اور اس واقعہ کی وجہ سے خلیفہ ابو بکر نے مجبور ہو کر ان لوگوں میں دین اسلام پر ثابت قدم رہنے والے افراد کو حکم دیا ہے کہ وہ مرتدوں سے جنگ کریں اور انھیں پھیلنے سے روکیں ۔ جب اس دوران اسامہ موتہ کی جنگ سے واپس آتا ہے ۔ جیسا کہ سیف نے اس مطلب کو ایک دوسری روایت میں بیان کیا ہے ۔۔ تو ابو بکر اسے قضاعہ کے مرتدوں کی سرکوبی کیلئے ممور فرماتے ہیں ۔ اسامہ نے بھی مرتدوں کا '' حمقتین '' سیف نے ایک دوسری روایت میں اس جگہ کو شام کی سرحدوں کے عنوان سے پیش کیا ہے تک پیچھا کرتا ہے ان میں سے بہت سے گروہوں کا قتل عام کرکے کافی مقدار میں غنائم حاصل کرکے واپس لوٹتا ہے ۔

سیف نے اس روایت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے قضاعہ کے مختلف قبائل میں چند گماشتے اور کارندے خلق کئے ہیں ۔ جس کی تفصیل ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمیمی کارندے اور حاکم'' کے عنوان سے بیان کرکے اس کے آخر میں سیرت لکھنے والوں کے امام و پیشوا ابو اسحق کا یہ قول نقل کیا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام کی قلمرو میں موجود سرزمینوں میں اپنے گورنر اور گماشتے حسب ذیل منصوب فرمائے

ہم نے ابو اسحق کا مذکورہ بیان اس لئے نقل کیا ہے تا کہ تاریخ کے مسلم حقائق کے مقابلے میں سیف کی روایتوں کا افسانہ ہونا اور ان کی قدر و منزلت واضح ہوجائے ۔

یہاں پر بھی ہم ایک دوسرے دانشور اور تاریخ نویس '' خلیفہ بن خیاط '' کے بیانات نقل کرتے ہیں جنھیں انہوں نے اپنی تاریخ میں '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کے نام '' کے عنوان سے ایک الگ فصل میں درج کیا ہے ، تا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں سے مربوط بحث مکمل ہوجائے۔

۱۷۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی کارگزار

ابن خیاط لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ابن ام مکتوم '' کو مختلف غزوات اور دیگر مواقع پر مدینہ منورہ میں تیرہ بار ١اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے:

١۔٣ ،' ابواء '' ، '' بواط'' اور ذی العشیرہ '' کے غزوات میں ۔

٤۔ '' کُرزَبن جابر '' نامی ایک باغی سے نبرد آزما ہونے کیلئے '' جہینہ '' پر حملہ کے دوران ۔

٥۔ جب جنگ بدر کے سلسلے میں باہر تشریف لے جارہے تھے ۔ کچھ دنوں کے بعد'' ابن

____________________

١۔ ابن خیاط کی روایت ابن مکتوم کی ١٣ بار جانشینی کی حاکی ہے جبکہ اس دانشور نے صرف ١٢ موارد ذکر کئے ہیں

۱۷۲

ام مکتوم'' کو اس عہدہ سے برطرف کرکے ان کی جگہ '' ابو لبابہ ''کو منصوب فرمایا:

٦۔١٢ ۔ '' سویق'' ، '' غطفان '' ا، '' احد '' ، '' حمراء الاسد'' ، بحران '' '' ذات الرقاع '' اور آخر میں حجة الوداع میں ۔

درج ذیل اصحاب کو بھی دوسرے غزوات میں مدینہ منورہ میں اپنی جگہ جانشین مقرر فرمایا ہے :

____________________

١۔ '' ابو رہم غفاری '' اور کلثوم بن حصین '' کو اس وقت جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''مکہ '' ''حنین'' اور ''طائف'' عزیمت فرمائی۔

۱۷۳

۔ محمد بن مسلمہ '' کو غزوۂ '' قرقرة الکدر '' میں ۔

۔ '' نمیلة بن عبد اللہ اللیثی '' کو غزوۂ '' بنی المصطلق ''میں ۔

۔ بنی دئل سے '' عویف بن الاضبط '' کو غزوۂ حدیبیہ میں ۔

۔ دوبارہ '' ابورہم غفاری '' کوغزوۂ '' خیبر '' اور '' عمرة القضاء میں ''

۔ '' سباع بن عرفطۂ غفاری '' کو غزوۂ '' تبوک '' میں ۔

۔ '' غالب بن عبدا للہ اللیثی '' کو ایک دوسرے غزوہ میں ۔

۔ مندجہ ذیل اصحاب کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسب ذیل علاقوں کی حکومت اور ولایت سونپی ہے :

۔ عتاب بن اسید ' کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ سے اپنی واپسی کے وقت مکہ میں اپنے جانشین و حاکم کے عنوان سے منصوب فرمایا ۔ ابو بکر کی وفات تک ' عتاب ' اس عہدہ پر برقرار تھا ۔

۔ ' عثمان بن ابو العاص ثقفی '' کو طائف پر ۔

۔ '' سالم بن معتب '' کو ثقیف کے ہم پیمانوں پر۔

۔ ایک اور صحابی کو '' بنی مالک '' پر۔

۔ عمروبن سعید '' کو '' خیبر''،' 'وادی القری ، '' تیما'' اور '' تبوک '' کے عرب نشین قصبوں پر ۔

۔ اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک '' عمرو '' وہاں پر حکومت کرتا رہا۔

۔ '' حکم بن سعید بن عاص '' کو مدینہ کے بازار کے امور میں اپنا مؤکل منصوب فرمایا ۔

یمن کے علاقہ کو مختلف حصوں میں تقسیم فرماکر ہر ایک حصہ پر اپنے درج ذیل اصحاب میں سے کسی ایک کو منصوب فرمایا:

۔ '' خالد بن سعید بن عاص کو ''یمن کے صنعا ''پر ۔

۔ '' مہاجربن امیہ '' کو '' کندہ '' او ر'' صدف '' پر ۔

۔ '' زیاد بن لبید انصاری بیاضی '' کو حضرموت پر ۔

۔ معاذ بن جبل '' کو''جند'' پر ، اس کے علاوہ معاذ کے فرائض میں علاقہ کے دعاوی ( جھگڑوں ) کا فیصلہ کرنا: قوانین اسلام کی تربیت اور لوگوں کو قرآن مجید سکھانا بھی شامل تھا۔

۱۷۴

۔ ابو موسی اشعری کو '' زبید '' ، ''رمع ''''عدن'' او ر''ساحل ''(بندر) پر ممور فرمایا اور حکم دیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں اور گماشتوں کے ذریعہ حاصل شدہ صدقات وغیرہ کو معاذ بن جبل ان سے وصول کرے گا۔

'' عمرو بن حزم'' کو '' بلحارث بن کعب'' کے قبائل پر ۔

''ابو سفیان بن حرب '' کو نجران پر ۔

۔'' علی بن ابیطالب '' کو حکم دیا کہ علاقہ نجران کے صدقات کو جمع کرے ں ۔

امام نے بھی جمع کی گئیں رقومات کو حجة الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔

۔ سعید بن قشب ازدی ''بنی امیہ کے ہم پیمان کو '' جرش'' اور اس کے سمندری علاقوں پر ۔

۔ '' علاء بن حضرمی'' کو بحرین میں اس کے بعد اسے وہاں سے معزول کرکے اس کی جگہ ''ابان بن سعید '' کو منصوب فرمایا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے آخری تک '' ابان '' بحرین اور اسکے سمندوری علاقوں پر حکومت کرتا رہا۔

۔ عمروبن عاص '' کو سرزمین عمان کیلئے منتخب فرمایا اور وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخر تک وہاں حکومت کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ابو زید انصاری '' کو عمان کی حکومت پر منصوب فرمایا تھا

بنی عامر بن لوئی سے ایک فرد''سلیط بن سلیط '' کو یمامہ پر منصوب فرمایا یمامہ کے باشندوں نے جب اسلام قبول کیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے مال و منال میں ہاتھ نہیں لگایا اور اسے بدستور ان کے ہی اختیار میں رکھا ( ابن خیاط کی بات کا خاتمہ )

جیسا کہ ملاحظہ فرمایا کہ اس نامور عالم نے ان تمام افراد کانام لیا ہے جنہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری حیات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں ، گماشتوں یا علاقوں کے حاکم کے طور پر ذمہ داری سنبھالی تھی ۔ اور اس سلسلے میں ایک فرد کو بھی لکھے بغیرنہیں چھوڑا ہے حتی اس نے '' ابوزید انصاری'' کی عمان پر حکومت کی ضعیف روایت سے بھی چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ اور اس علاقہ پر اس کی حکومت کے بارے میں '' کہتے ہیں ...''' کی عبار ت لائی ہے ۔ لیکن اس لمبی چوڑی فہرست میں کہیں بھی سیف کے جعل کردہ افراد میں سے کسی ایک کا نام نہیں ملتا ۔

۱۷۵

اس افسانہ سے سیف کے نتائج

سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے کارندوں کا نام لیا ہے کہ نہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں دیکھا ہے اور نہ ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب نے ۔

سیف نے اپنے ان خلق کئے گئے بعض چہروں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کے عنوان سے پیش کیا ہے کہ ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ان میں سے چھ افراد کو حسب ذیل پیش کیا ہے۔

١۔ سعیر بن خفاف تمیمی

٢۔ عوف بن علاء بن خالد بن جشمی

٣۔ اوس بن جذیمہ، ہجیمی

٤۔ سہل بن منجاب ، تمیمی

٥۔ وکیع بن مالک ، تمیمی

٦۔ حصین بن نیار ، حنظلی

مذکورہ افراد کے بارے میں ہم نے ہر ایک کی تفصیل سے وضاحت کی ہے ۔

یہاں بھی ہم سیف کے خلق کئے گئے درج ذیل ایسے کارندوں اور گماشتوں سے روبرو ہوتے ہیں ، جنہیں سیف کے بقول پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قضاعہ میں ممور فرمایا تھا :

٧۔ عمرو بن حکم ، قضاعی

٨ ۔امرؤ القیس بن اصبغ

ہم نے دیکھا کہ ابن اسحاق نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان تمام گماشتوں اور کارندوں کا نام لیا ہے جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے سال تک، مموریت پر تھے اور اسی طرح خلیفہ بن خیاط نے ان تمام افراد کا نام لیا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری زندگی میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ میں کسی نہ کسی قسم کی مموریت انجام دی چکے ہیں ۔ لیکن ان مذکورہ لمبی چوڑی فہرستوں میں سیف کے خلق کئے گئے گماشتوں اور کارندوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ۔ کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے ان کارندوں اور قبائل قضاعہ کے مرتد ہونے کا افسانہ گڑھ لیا ہے ۔

۱۷۶

یہ سیف بن عمر ہے جو کہتا ہے کہ خلیفہ ابو بکر نے ابتدا میں مرتدوں سے سیاسی طور پر برتاؤ کیا تا کہ ان کی سرکشی کو مسالمت آمیزطریقے سے خاتمہ بخشے لیکن جب ا س طرح کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا تو مجبور ہو کر ان کی بغاوت اور سرکشی کو کچلنے کیلئے اسامہ اور اس کے لشکر کو روانہ کیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کے بغیر ان کی خوب گوشمالی کرے ۔ نتیجہ کے طور پر اسامہ نے تابڑتوڑ حملوں کے ذریعہ قضاعہ کے مرتدوں کا '' حمقتین '' تک پیچھا کیا اور انہیں بھگا کر علاقہ کو ان کے وجود سے پاک کردیا!

آخر میں یہی مکتب خلفاء کے پیرو علماء ہیں جنہوں نے سیف کی روایات اور افسانوں سے استفادہ کرکے اس کے خیالی کرداروں کو حقیقت کا لبادہ پہنایا ہے اور ان کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے ۔ اس کے علاوہ سیف کے جعل کردہ مقامات جیسے '' حمقتین '' کی بھی تشریح کرکے انھیں اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

سیف کی انہی روایتوں سے یہ افواہ پھیلی ہے کہ اسلام تلوار اور خون کی ہولی کھیل کر پھیلا ہے نہ کہ فطری طور پر اور اپنی خصوصیت کی وجہ سے !! ہم نے اس موضو ع کو اپنی کتاب '' عبدا للہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں ثابت کیا ہے ۔

سر انجام سیف کے تمام جھوٹ سے زیادہ تکلیف دہ وہ جھوٹ ہے جسے اس نے آخر میں خلق کرکے یہ کہا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض گماشتے اور کارندے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہوگئے اور باقی بچے ثابت قدم لوگوں نے ان سے جنگ کی ہے !

اس بات سے پتا چلتا ہے کہ اسلام نے اس کے پیرؤں کے دلوں پر ہی نہیں بلکہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں اور خصوصی گماشتوں کے دلوں پر بھی اثر نہیں کیا تھا جبھی انہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد دین سے منحرف ہوکر ارتداد کا راستہ اختیار کیاکر لیا تھا، اس طرح سیف نے ثابت کیا ہے کہ اسلام تلوار کی ضرب سے پھیلا ہے نہ کہ کسی اور طریقے سے۔

۱۷۷

اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

ان تمام افسانوں کو سیف بن عمر نے اکیلے ہی خلق کیا ہے اور درج ذیل علماء نے اپنی معتبر اور گراں قدر کتابوں میں ان کی اشاعت کی ہے :

١۔ امام المؤرخین '' محمد بن جریر طبری'' نے اپنی تاریخ کبیر میں ، مآخذ کے ذکر کے ساتھ

٢۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ،سند کے ساتھ۔

٣۔ ابو عمر ابن عبد البر نے استیعاب میں سند کے بغیر ۔

٤۔ یاقوت حموی نے ''شرح بر حمقتین'' کے عنوان سے کتاب ''معجم البلدان ''میں سند کے ساتھ۔

٥۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب '' کامل '' میں طبری سے نقل کرکے ۔

٦۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ''اسد الغابہ ''میں عبدا لبر کی استیعاب سے ۔

٧۔ کتاب ''الجمع بین الاستیعاب ''و ''معرفة الصحابہ ''کے مصنف نے عبد البر کی استیعاب سے۔

٨۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید '' میں ابن اثیر کی اسد الغابہ سے نقل کرکے ۔

٩۔ ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں کتاب فتوح سے نقل کرکے۔

یہ سب سیف بن عمر تمیمی کی جھوٹی اور جعلی روایتوں کی برکت سے ہے جو زندیقی ہونے کا ملزم بھی ٹھہرایا گیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

قضاعہ کے نسب کے بارے میں مادۂ '' القضاعی '' و القینی '' کتاب اللباب (٢ ٢٦٥) اور (٣ ١٨ ) ملاحظہ ہو۔

عمرو بن حکم قضائی کی داستان :

١۔ تاریخ طبری (١ ١٨٧٢)

٢۔ تاریخ ابن عساکر (١ ٤٣٢)

٣۔ ابن عبد البر کی استیعاب طبع حیدر آباد دکن ( ٢ ٤٤٣) نمبر : ١٩٣٣

۱۷۸

٤۔ الجمع بن الاستیعاب و معرفة الصحابہ قلمی نسخہ ، کتابخانہ ظاہریہ ص ١٩ نئے سطرے سکینہ بنت امام حسین کے جد کی داستان

١۔ ''اغانی ''اصفہانی ( ١٤ ١٥٧)

٢۔کتاب '' شذرات الذہب '' ( ١ ١٥٤)

رسول خدا کے گماشتوں اور کارندوں کے نام اور ان کا تعارف

١۔ خلیفہ بن خیاط کی تاریخ ( ١ ٦١ ۔ ٦٢)

سیف کے خیالی اماکن حموی کی '' معجم البلدان '' میں لفظ '' حمقتین ''اور آبل کے تحت ۔

۱۷۹

چھٹا حصہ

ہم نام اصحاب

* خزیمہ بن ثابت انصاری ( ذو الشہادتین کے علاوہ )

*سماک بن خرشہ انصاری ( ابو دجانہ کے علاوہ )

۱۸۰

سینتالیسواں جعلی صحابی

خزیمہ بن ثابت ، غیر ذی شہادتین

اپنے افسانوں میں کلیدی رول ادا کرنے والوں کو خلق کرنے میں سیف کا ایک خاص طریقہ یہ ہے کہ اپنے خلق کردہ بعض اصحاب کو ایسے صحابیوں کے ہم نام خلق کرتا ہے جو حقیقت میں وجود رکھتے تھے اور صاحب شہرت بھی تھے اس کے بعد وہ اپنے خلق کئے ہوئے ایسے اصحاب کیلئے افسانے اور کارنامے گڑھ لیتا ہے اور تاریخ اسلام میں ان کے کاندھے پر ایسی ذمہ داریاں ڈالتا ہے ، جس سے مؤرخین و محققین اور پریشانیوں سے دوچار ہوتے ہیں ۔

یہاں ایک حقیقی تاریخی شخصیت جو سیف کا مورد توجہ قرار پایا ہے اور جس کا اس نے ہم نام خلق کیا ہے ، '' خزیمہ بن ثابت انصاری '' ہے۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں انصار میں سے قبیلۂ '' اوس '' میں '' خزیمہ بن ثابت '' نام کا ایک شخص تھا جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ بدر اور اس کے بعد کی جنگوں میں یا جنگ احد اور اس کے بعد کی جنگوں میں شرکت کی ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کیا ہے ۔

خزیمہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے '' ذی الشہادتین '' کا لقب ملا تھا اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے تھا۔ اس افتخار کو پانے کی داستان ، جسے تمام تاریخ نویسوں نے درج کیاہے حسب ذیل ہے :

ذو الشہادتین ، ایک قابل افتخار لقب

ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سواء بن قیس محاربی نام کے ایک بدو عرب سے ایک گھوڑا خریدا ۔ چونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے ، اس لئے اعرابی سے فرمایا کہ پیسے وصول کرنے کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ساتھ آئے ۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تیزی سے قدم بڑھارہے تھے ، اسلئے اعرابی پیچھے رہ گیا، اسی اثناء میں چندا فراد جو اس اعرابی کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کئے گئے معاملہ سے آگاہ نہ تھے اعرابی کے پاس پہنچ کر گھوڑے کی قیمت کے بارے میں مول تول کرنے لگے ۔ آخر ان میں سے ایک شخص نے زیادہ پیسے دینے کی تجویز دی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس اعرابی سے کچھ آگے بڑھ چکے تھے ۔ اسی لئے اس ماجرا سے بے خبر تھے ۔ اس کے بعد اعرابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوکر فریاد بلند کی :

۱۸۱

اگر اس گھوڑے کو خریدنا چاہتے ہو تو خرید لو ، ورنہ میں اسے پیچ دوں گا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکے اور فرمایا : کیا میں نے اسے تجھ سے نہیں خریدا ہے ؟

سواء نے جواب دیا : نہیں ، خدا کی قسم میں نے اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فروخت نہیں کیا ہے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا : میں نے اسے تجھ سے خریدلیا ہے اور معاملہ طے پاچکا ہے

لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس بدو عرب کے ارد گرد جمع ہوئے اور ان کی باتوں کو سن رہے تھے۔

اسی اثناء سواء نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوکر کہا : گواہ لائیں کہ میں نے اس گھوڑے کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ بیچا ہے !

جو بھی مسلمان وہاں سے گزرہا تھا اور اس موضوع سے آگاہ ہوتا تھا ، اس اعرابی سے کہتا تھا کہ لعنت ہو تم پر! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔

اسی اثناء میں ' ' خزیمہ بن ثابت '' وہاں پہنچے اور اعرابی کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اختلاف سے آگاہ ہوئے ، اور اس نے سناکہ سواء پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گواہ طلب کررہا ہے اور کہتا ہے :

گواہ لائیں کہ میں نے اس گھوڑے کو آپ کے ہاتھ بیچا ہے :

خزیمہ نے فوراً کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے اس گھوڑے کو بیچ دیا ہے !

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خزیمہ سے مخاطب ہوکر فرمایا : جس معاملے میں حاضر نہ تھے اس کی گواہی کیوں دی؟

خزیمہ نے جواب دیا : جس دین کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لائے ہیں میں نے اسے قبول کرکے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سچ بولنے والا جانا ہے اور جانتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچ کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے !

ایک اور روایت میں خزیمہ کا جواب یوں بیان ہوا ہے: میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات آسمانوں کے بارے میں جو تمام بشریت کی دست رس سے دور ہے سنی اور اسے قبول کیا ہے، تو کیا اس موضوع کے بارے میں آاپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق نہ کروں اور اس کے صحیح اور سچ ہونے کی گواہی نہ دوں ؟

۱۸۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' آج کے بعد ہر مسئلہ میں خزیمہ کی گواہ دو گواہی کے برابر ہے '' یہی امر سبب بنا کہ اس تاریخ کے بعد خزیمہ '' ذی الشہادتین'' کے نام سے معروف و مشہور ہوئے اور وہ تنہا شخض تھے جن کی گواہی دو مردوں کے برابر شمار ہوتی تھی۔

یہ سلسلہ تب تک جاری رہا کہ خلیفہ عمر نے قرآن مجید کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیا ، جو تب تک پراکندہ اوراق ، تختیوں اور کھجور کے درختوں کی چھال پر لکھا ہوا تھا ، اور حکم دیا کہ اصحاب میں سے جس کسی نے بھی جتنی مقدار میں قرآن مجید کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن کر حفظ کیا ہو اسے لے آئے اور اس سلسلے میں احتیاط کی جاتی تھی اور خلیفہ کسی آیت کو تب تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک دومرد اس کے صحیح ہونے کی شہادت نہ دیتے اس موقع پر خزیمہ بن ثابت آیۂ

(وَمِن َ الُموْ مِنِینَ رِجَال صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اﷲعَلَیهِْ ....)

لے کر آئے، اور خلیفہ نے اس کی گواہی پر اکتفا کرکے کہا: تیرے علاوہ کسی اور کی گواہی نہیں چاہتا ہوں ۔

خزیمہ کی '' ذو الشہادتین '' کے نام سے شہرت قبیلہ '' اوس'' کیلئے فخر و مباہات کا سبب بنی، حتی جب قبیلۂ '' اوس'' و '' خزرج '' اپنے اپنے افتخارات گننے پر آتے تھے تو '' اوس'' سر بلندی سے ادعا کرتے تھے کہ ''... اور خزیمہ ہم میں سے ہے جس کی گواہی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے ''

خزیمۂ '' ذو الشہادتین'' نے ٣٧ ھ میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے پرچم تلے صفین کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جنگ میں شہید ہوئے ۔ تاریخ نویسوں نے ان کی شہادت کے بارے میں یون بیان کیا ہے:

خزیمہ نے علی کے ہمراہ جمل اور صفین کی جنگوں میں مسلح ہوکر شرکت کی اور صفین کی جنگ میں کہتے تھے : میں عمار کے قتل ہونے تک نہیں لڑوں گا۔ میں منتظر دیکھ رہا ہوں کہ عمار کو کون قتل کرتا ہے ، کیونکہ میں نے خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے : عمار کو باغی اور سرکشوں کا ایک گروہ قتل کر ڈالے گا۔

اور جب عمار اسی جنگِ صفین میں معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تو خزیمہ نے کہا: میں نے گمراہوں کو مکمل طور سے پہچان لیا ۔اس کے بعد میدان جنگ میں قدم رکھ کر تب تک امام کی صف میں لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔

۱۸۳

خزیمۂ '' غیر ذی الشہادتین'' کو خلق کرنے میں سیف کا مقصد

'' خزیمہ بن ثابت ذی الشہادتین '' کے معاویہ کا سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہونا خاندان بنی امیہ کیلئے دو جہت سے بری اور معنوی شکست تھی ۔ ایک تو یہ کہ انہیں اس حالت میں قتل کیا گیا کہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے '' ذو الشہادتین ''' کا لقب پاچکے تھے اور یہ ان کے لئے ایک بڑا افتخار تھا اور وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے اور قبیلۂ اوس کیلئے فخر و مباہات کا سبب تھے، دوسری جانب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گواہی کہ عمار ایک دین سے منحرف اور سرکش گروہ کے ہاتھوں قتل کئے جائیں گے ، خود خزیمہ کی طرف سے ایک اور گواہی تھی کہ معاویہ اور اس کے حامی دین اسلام سے منحرف ہوکر سرکش و گمراہ ہوئے تھے اور حق امیر المؤمنین علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا۔

سیف جو کہ خاندان بنی امیہ کی طرفداری میں عمار جیسوں کو رسوا و بدنام کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے' ان کے خلاف جھوٹ کے پلندے گڑھتاہے ، تو کیا وہ عمار کی اس فضیلت و منقبت کے مقابلے میں آرام سے بیٹھ سکتا ہے ؟

وہ کیسے اس دوہری معنوی شکست رسوائی کے مقابلے میں خاموش بیٹھ سکتا ہے؟

جو معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں عمار یاسر کے قتل ہونے اور خزیمہ بن ثابت کی گواہی کی وجہ سے خاندان بنی امیہ کو اٹھانی پڑی ہے جبکہ اس نے ہر قیمت پر بنی امیہ کا دفاع کرنے کا مصمم ارادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کاروائی انجام دینے سے گریز نہیں کرتا ؟!

سیف ، جس نے بنی امیہ کی قصیدہ خوانی اور مداحی کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے ، ہر گز خاندان بنی امیہ کیلئے ایسے نازک اور رسوا کن موقع پر خاموش نہیں بیٹھ سکتا ہے ۔ لہذا وہ مجبور ہوکر اس مسئلہ کے معالجہ کیلئے قدم اٹھاتا ہے اور تاریخ میں دخل و تصرف کرکے ایک اور صحابی خلق کرتا ہے ، اور موضوع کی اصل حقیقت کو بدل دیتا ہے اس طرح اپنے خیال میں بنی امیہ کے دامن میں لگے ننگ و رسوائی کے داغ کو پاک کرتا ہے ۔

۱۸۴

وہ اس سلسلے میں ایک صحابی کو خلق کرکے اس کا نام خزیمہ بن ثابت رکھتا ہے تا کہ اسے اصلی خزیمۂ ذو الشہادتین کی جگہ پر قرار دے اور اسے صفین کی جنگ کے دوران بنی امیہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے دکھا کراصلی خزیمۂ کی شہادت اور معاویہ اور اس کے حامیوں کی سر کشی کے بارے میں کوئی گواہ باقی نہ رکھے۔

اس بناوٹی خزیمہ کی داستان کو امام المؤرخیں طبری نے سیف بن عمر سے ، اس نے محمد سے اور اس نے طلحہ سے نقل کرکے یوں درج کیا ہے :

١۔ امیر المؤمنین علی نے جب اپنے بارے میں مدینہ کے باشندوں کے عدم میلان کا احساس کیا توآپ نے ان کے سرداروں اور معروف شخصیتوں کو بلایا اور ایک تقریر کے دوران ان سے مددکرنے کو کہا۔

سیف کہتا ہے : حضاّر میں سے دو معروف شخصیتیں '' ابو الھیثم بن تیہان '' بدری جنگ بدر میں شرکت کرنے والا صحابی اور '' خزیمہ بن ثابت '' اپنی جگہ سے اور امام کی حمایت اور مدد کا اعلان کیا ۔

سیف بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

یہ خزیمہ ، '' خزیمہ ذو الشہادتین '' کے علاوہ ہے کیونکہ '' ذو الشہادتین '' عثمان کی خلافت کے زمانہ میں فوت ہوچکا تھا !!

٢۔ اس کے بعد طبری نے ایک دوسری روایت میں سیف سے ، اس نے محمد سے نقل کیا ہے کہ ۔۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا لقب '' عرزمی '' تھا اس نے عبیدا ﷲ سے اس نے حکم بن عتیبہ سے نقل کرکے یوں لکھا ہے :

حکم بن عتیبہ سے پوچھا گیا : کیا خزیمہ ذو الشہادتین نے جمل کی جنگ میں شرکت کی ہے؟

حکم نے جواب دیا: نہیں ، جس نے جنگِ جمل میں شرکت کی ہے وہ ذو الشہادتین نہیں تھا بلکہ انصار میں سے ایک اور خزیمہ تھا چونکہ ذو الشہادتین عثمان کی خلافت کے دوران فوت ہوچکا تھا !!

سیف ان دو روایتوں کو '' شعبی'' کی دو دوسری جعلی روایتوں سے تقویت بخشتا ہے تا کہ بہر صورت اپنی اس بات کو ثابت کرے کہ خزیمہ ذو الشہادتین خلافت عثمان کے زمانہ میں فوت ہوچکے تھے ۔ توجہ فرمائیے:

۱۸۵

٣۔ سیف بن عمر نے مجالد کے اس قول سے لکھا کو کہ شعبی نے کہا:

قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، جمل کی جنگ میں صرف چھ یا سات افراد ایسے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔

٤۔ سیف ، دوسری روایت میں عمرو بن محمد سے نقل کرکے کہتا ہے کہ شعبی نے کہا ہے کہ :

قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی خد ا نہیں ہے ، جنگِ جمل میں اصحاب بدر میں سے صرف چھ افراد نے شرکت کی ہے۔

میں سیف بن عمرنے عمرو سے کہا : جمل کی جنگ میں اصحاب بدر کی شرکت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں تمہاری اور ''مجادلہ '' کی بات میں اختلاف ہے ؟ عمرو نے جواب میں کہا:نہیں ، ایسا نہیں ہے ، ہمارا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، مگر یہ کہ خود شعبی اس امر شک کرتا تھا کہ ابو ایوب انصاری نے اس جنگ میں شرکت کی ہے یا نہیں اس نے شک کیاہے کہ کیا جب ام سلمہ نے اسے جنگ صفین کے بعد امام کی خدمت میں بھیجا ، تو ابو ایوب انصاری امام کی خدمت میں پہنچا ہے یا نہیں ، کیونکہ جب ابو ایوب انصاری امام کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت امام نے نہروان میں قدم رکھا تھا ۔

آخر میں سیف پانچویں روایت کے مطابق ،معاویہ سے جنگ کرنے میں لوگوں کے میلان کے سلسلے میں اپنے جعلی صحابی زیاد بن حنظلہ کے افسانے میں اپنی گزشتہ بات کی تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے :

٥۔ جب زیاد نے معاویہ سے جنگ کے بارے میں لوگوں کے عدم میلان کا مشاہد کیا تو امام کو بے یار و یاور دیکھ کر ، آپ کی خدمت میں پہنچ کر کہا:

اگر لوگ آپ کی مدد کرنے کامیلان نہیں رکھتے ، ہم خوشیکے ساتھ آپ کی مدد کریں گے اور آپ کے سامنے دشمنوں سے جنگ کریں گے ۔

۱۸۶

افسانہ کے مآخذ اور راوی

سیف نے اپنی پہلی روایت کو محمد اور طلحہ سے نقل کیا ہے ۔ سیف کے ان دونوں راویوں محمد و طلحہنے کیسے اور کہاں پر ایک ساتھ بیٹھ کر بات کی ہے ،یہ خود ایک الگ موضوع ہے جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ سیف نے اس محمد کو '' محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ '' خلق کیا ہے جبکہ طلحہ ، طلحہ بن اعلم حنفی ہے او روہ ایک حقیقی شخصیت ہے ، جو ''رے ''کے '' حبان '' نامی گاؤں کا رہنے والاتھا اور ایک مشہور و معروف راوی تھا ۔ سیف عراق کے شہر کوفہ میں زندگی بسرکرتا تھا ، معلوم نہیں اس نے ''حبان '' میں رہنے والے طلحہ سے کیسے ملاقات کی یا پھر اسے دیکھے بغیر اپنی روایت اس کی زبانی گڑھ لی ہے؟!

دوسری روایت کو سیف نے محمد بن عبید اﷲ بن ابی سلیمان ، معروف بہ عرزمی سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے حکم بن عتیبہ سینقل کیا ۔

عرزمی کو علم حدیث کے علماء اور دانشوروں نے ضعیف جانا ہے اور اس کی روایتوں کو قبول نہیں کرتے۔ کیا معلوم شاید اسے ضعیف جاننے اور اس پر اعتماد نہ کرنے کا سبب یہ ہو کہ سیف نے اپنے جھوٹ اس سے نقل کئے ہیں !

لیکن حکم ، علما، حکم نام کے دو اشخاص کو جانتے ہیں ۔ ان میں سے ایک کوفہ کا قاضی تھا اور دوسرا مشہور و معروف راوی تھا ۔ لیکن بات یہ ہے کہ کیا سیف نے انھیں دیکھا ہے۔ ان کی روایتیں سنی ہیں اور پھر ان کی زبانی جھوٹ کہلوایا ہے ، یا یہ کہ بن دیکھے 'سنے ان کی زبان سے جھوٹ جاری کیا ہے ؟!

بہر صورت ، سیف نے انھیں دیکھا ہو یا نہیں ، ان کی باتیں سنی ہوں یا نہیں ، موضوع کی ماہیت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، کیونکہ ہم ہرگز سیف کے جھوٹ کے گناہوں کو ایسے راویوں کی گردن پر نہیں ڈالتے ، جبکہ سیف تنہا شخص ہے جس نے ایسی روایتیں ایسے اشخاص سے نقل کی ہیں ۔

سیف نے اپنی پانچویں روایت کو عبد اللہ بن سعید بن ثابت سے نقل کرکے '' ایک شخص'' کے بقول بیان کیاہے جبکہ عبد اللہ بن سعید بن ثابت سیف کے مخلوق راویوں میں سے ہے اور ہم نے اس موضوع کی وضاحت گزشتہ بحثوں میں کی ہے ۔ لیکن وہ گمنام '' مرد'' کون ہے جس سے عبد اللہ نے روایت سنی ہے اور سیف نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ؟ تا کہ ہم اس کو پہچانتے ؟!

۱۸۷

سیف کے افسانے اور تاریخی حقائق

سیف نے مذکورہ پنجگانہ روایتوں میں یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی ہے کہ مدینہ کے باشندوں ، خاص کر مہاجر و انصار نے امام کی سپاہ میں شامل ہونے سے انکار اور جمل و صفین کی جنگوں میں امام کے پرچم تلے لڑنے سے بے دلی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں اپنے جھوٹ پر تکیہ کرکے قسم کھاتا ہے کہ بدر کے مجاہدوں میں سے چھ یا سات افراد سے زیادہ صفین و جمل کی جنگوں میں امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں شامل نہیں ہوئے ہیں ۔

تعجب کی بات ہے کہ سیف ریا کاری اور مکروفریب سے اپنے جھوٹ کو چھپانے کیلئے امام علی کی جنگوں میں بدر کے مجاہدوں کی شرکت کو چھ یا سات افراد میں محدود کر دیتا ہے اور اپنی چوتھی جعلی روایت میں ابو ایوب انصاری کی داستان کو گڑھ کر اس اختلاف کی توجیہ کرتا ہے !

یہاں پر ہم حقائق کا انکشاف کرنے کیلئے سیف کی روایتوں اور اس کی داستانوں کو دوسروں کے بیان کردہ تاریخی وقائع اور جنگِ جمل و صفین میں ا میر المؤمنین امام علی کے ساتھ رسول خدا کے صحابیوں کے حالات پر حسب ذیل بحث و تحقیق کرنے پر مجبور ہیں :

١۔ بیعت کے موقع پر امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں خزیمہ اور دیگر اصحاب کا نظریہ

اس سلسلے میں '' یعقوبی '' اپنی تاریخ میں یوں لکھتا ہے :

جب علی کی بیعت کی گئی ، انصار میں سے چند افراد نے اٹھ کر تقریر یں کیں اس کے بعد خزیمہ بن ثابت انصاری ذو الشہادتین اٹھے اوریوں بولے :

اے امیر المؤمنین ! آپ کے علاوہ کوئی ہم پر حکومت کی شائستگی نہیں رکھتا اور ہم آپ کے علاوہ کسی کی اطاعت نہیں کریں گے اگر ہمارے ضمیر آپ کے بارے میں انصاف پر مبنی فیصلہ سنادیں تو آپ سب سے پہلے ایمان لائے ہیں اور سب سے زیادہ خدا کا عرفان رکھنے والے ہیں اور تمام مؤمنین میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزدیک تر ہیں ، جو کچھ سب لوگوں کے پاس ہے آپ اکیلے اس کے مالک ہیں اور جو کچھ آپ کے پاس ہے اس سے دوسرے محروم ہیں

۱۸۸

٢۔ جمل کی جنگ میں خزیمہ اورمدینہ کے باشندوں کا نظریہ :

'' ابن اعثم '' اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھتا ہے :

جب امام علی علیہ السلام عائشہ کے مکہ سے بصرہ کی طرف روانگی سے آگاہ ہوئے تو آپ نے اپنے دوست و احباب کو جمع کرکے ان سے یوں خطاب کیا :

اے لوگو! خدائے تبارک و تعالی نے تمہارے درمیان ایک قرآن ناطق بھیجا ہے جو بھی قرآن مجید سے منہ موڑے اور اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا ۔ بدعت اور مشتبہ چیزیں نابودی اور ہلاکت کے اسباب ہیں اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا مگر خدائے تعالیٰ اسے لغزشوں سے بچاے حکومت الہی کا دامن پکڑلو اور اس کے ماتحت رہو وہ تمہاری نجات و سربلندی کا سبب ہے اس لئے پر اس خدائی حکومت کی اطاعت کرو ۔ اپنے آپ کو اس گروہ سے لڑنے کیلئے آمادہ کرلو جو تمہاری یکجہتی و اتحاد پر نظر جمائے ہے اور تم لوگوں میں اختلاف و افتراق ڈالنا چاہتا ہے اپنے آپ کو آمادہ کرلوتا کہ خدئے تعالی ٰ تمہارے ہاتھوں ان گمراہوں کی اصلاح فرمائے ۔ اور یہ جان لوکہ طلحہ و زیبر نے ایک دوسرے کی مدد کرکے ارادہ کیا ہے کہ میرے رشتہ داروں کو میرے خلاف اکسائیں اور لوگوں کو میری مخالفت پرمجبور کریں ۔ میں ان کی طرف روانہ ہورہا ہوں تا کہ ان سے جنگ کروں یہاں تک کہ خدائے تعالی ہمارے درمیان فیصلہ کردے ۔

والسلام

لوگوں نے بھی اپنی آمادگی کا اعلان کیا

٣۔ خزیمہ جمل کی جنگ میں

''مسعودی '' نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ امیر المؤمنین نے جنگ ِ جمل میں پر چم اپنے بیٹے محمد کے ہاتھ میں دیا اور احکم دیا کہ حملہ کرتے ہوئے آگے بڑے ۔

محمد نے اپنے حملوں میں متوقع جرت و شجاعت نہیں دکھائی ، اس لئے امام ان کے نزدیک تشریف لے گئے اور پرچم کو ان سے لے کر خود دشمن کے قلب پر حملہ کیا ۔

۱۸۹

اس کے بعد اضافہ کرتے ہوئے مسعودی لکھتا ہے :

خزیمہ بن ثابت انصاری ذوالشہادتین امام کی خدمت میں حاضر ہو کر بولے اے امیر المؤمنین ! محمد کی شرمندگی کا سبب نہ بنئے ، پرچم کو اسے سونپئے ۔ امام نے محمد کو بلا کر دوبارہ جنگ کا پرچم ان کے ہاتھ میں دیا۔

٤۔ جنگ جمل میں بدر کے مجاہدوں اور دوسرے اصحاب کی موجودگی:

'' ذہبی '' نے '' سعید بن جبیر '' سے نقل کرکے لکھا ہے جنگ جمل میں آٹھ سو افراد انصار میں سے اور سات سو ایسے اصحاب امام کی خدمت میں سرگرمعمل تھے جنہوں نے بیعت رضوان کو درک کیا تھا۔

اور '' سدی '' سے نقل کرکے مزید لکھتا ہے :

جنگ جمل میں امیر المؤمنین کے ہمراہ ایک سو تیس بدریوں نے شرکت کی ہے ۔

٥۔ صفین کی جنگ کے بارے میں اصحاب کا نظریہ :

'' نصر بن مزاحم '' نے اپنی کتاب '' صفین '' میں لکھا ہے:

جب علی علیہ السلام شام کی طرف عازم ہوئے تا کہ وہاں کے لوگوں سے نبرد آزما ہوں ، اپنے حامی مہاجر و انصار کو بلایا ۔ جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے کھڑے ہوکر خدا کی حمد و ثنا بجالانے کے بعدفرمایا:

آپ لوگ عقلمند ، متواضع ،سنجیدہ ، حق گو اور صحیح کردار کے مالک ہیں اب جبکہ ہم اپنے مشترک دشمن پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں ، ہمیں اپنی آراء اور نظریات سے آگاہ کرئے ۔

امام کی تقریر کے بعد ابو وقاص کا پوتا '' ہاشم بن عتبہ '' اپنی جگہ سے اٹھا اور بہترین صورت میں حمد و ثنا الٰہی بجا لا کر بولا:

۱۹۰

اما بعد ، اے امیر المؤمنین ! میں ان لوگوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں یہ آپ کے اور آپ کے حامیوں کے سخت دشمن ہیں اور مال و دنیا پرست ہیں وہ آپ سے جنگ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے یہ ایسے دنیا پرست ہیں جو کسی بھی قیمت حاصل کی گئی چیزوں سے چشم پوشی نہیں کرتے اور اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہاتھ میں نہیں رکھتے ۔ یہ لوگ نادانوں کو عثمان بن عفان کی خونخواہی کے عنوان سے فریب دیتے ہیں ۔ یہ جھوٹ بولتے ہیں ان کے خون کا انتقام لینا نہیں چاہتے بلکہ اس بہانے سے طاقت و دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔

ہمارے ساتھ ان پر حملہ کیجئے ۔ اگر حق کو قبول کیا تو اس صورت میں گمراہی سے نجات پائیں گے اور اگر اختلاف و افتراق کے علاوہ کسی اور راستہ کو اختیار نہ کیا کہ گمان ہے ایسا ہی کریں گے ۔اور خدا کی قسم میں یہ تصور نہیں کرتا کہ وہ آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ ان پر ایک ایسا شخص حکومت کرتا ہے جس کے ہر حکم کی وہ اطاعت کرتے ہیں اور ان کیلئے اس کی نافرمانی کرنا محال ہے !

ہاشم بن عتبہ کے بعد '' عمار یاسر '' اپنی جگہ سے اٹھ کرخدائے تعالیٰ کی حمدو ثنا بجالانے کے بعد بولے :

اے امیر المؤمنین ! اگر ہو سکے تو ایک دن بھی نہ ٹھہرئے اور اس کام کو انجام دیجئے ۔ اس سے پہلے کہ ان بد کرداروں کے فتنہ کی آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں اور وہ راستوں ، گزرگاہوں کو بند کرکے تفرقہ و اختلاف ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں ۔ ان پر حملہ کیجئے اور انھیں راہ حق کی طرف ہدایت فرمائیے اگر انہوں نے قبول کیاتو خوشبخت ہوجائیں گے اور اگر ہمارے ساتھ جنگ کرنے کے علاوہ کسی اور راستہ کو اختیار نہ کیاتو ایسی صورت میں ، خدا کی قسم ان کا خون بہانا اور ان سے جنگ کرنا خدائے تعالیٰ کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کا سبب ہوگا جو پروردگار کا ہم پر لطف و کرم ہوگا۔

جب عمار یاسر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو پھر ''قیس بن سعد بن عبادہ'' اپنی جگہ سے اٹھے اور خدا کی حمد و ثنا بجالانے کے بعد بولے :

اے امیر المؤمنین ! آمادہ ہوجائے اور ہمارے ساتھ مشترک دشمن پر حملہ کرنے کیلئے باہر آنے میں کوتاہی اور تاخیر نہ فرمائیے خد اکی قسم میں ان سے جنگ کرنے میں اس سے زیادہ مائل ہوں کہ راہ کی خدا میں ترکوں اور رومیوں سے جہاد کروں کیونکہ دین الہٰی کی نسبت ان کی گستاخی حد سے گزر چکی ہے اور انہوں نے خدا کے نیک بندوں اور مہاجر ، انصار اور صالح تابعین میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ناصر و یاور کو ذلیل و خوار کرکے رکھدیا ہے ۔

۱۹۱

یہ جب کسی کو غصہ کرکے اسے پکڑ لیتے ہیں تو اسے جیل میں ڈال دیتے ہیں یا اسے کوڑے مارتے ہیں اور اس کا بائیکاٹ کرتے ہیں یا شہر و وطن سے جلا وطن کر دیتے ہیں ہمارے مال ومنال کو اپنے لئے حلال جانتے ہیں اور ہمارے ساتھ اپنے غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں ۔

اس کے بعد '' نصر '' لکھتا ہے :

جب '' قیس'' اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو انصار کے بزرگوں میں سے خزیمہ بن ثابت و ابو ایوب انصاری '' اور دیگر لوگوں نے قیس کی ملامت کرتے ہوئے کہا:

تم نے کیوں انصار کے بڑے بوڑھوں کا احترام نہیں کیا اور ان سے پہلے بول اٹھے ؟

قیس نے جواب دیا ؛ مجھے آپ لوگوں کی برتری اور بزرگی کا اعتراف ہے لیکن میرے سینہ میں بھی وہی غصہ و نفرت موجزن ہے جو '' احزاب '' کی یاد کرکے آپ لوگوں کے سینہ میں موجزن ہوتی ہے اس لئے میں صبر نہ کرسکا ۔

یہاں پر انصار کے بزرگوں نے آپس میں طے کیا کہ ایک شخص اٹھے اور انصار کی جماعت کی طرف سے امیر المؤمنین کے جواب کے طور پر کچھ بولے۔ لہذا '' سہل بن حنیف '' کو انتخاب کیا گیا اور ان سے کہا گیا؛ اے سہل ! کھڑے ہوجاؤ اور ہماری طرف سے بات کرو ! سہل اٹھے اور خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں حمد و ثنا بجالانے کے بعد بولے:

اے امیر المؤمنین آپ جس کے ساتھ مہربانی کریں گے ، ہم بھی مہربانی کریں گے اور جس سے جنگ کریں گے ، ہم بھی اس سے لڑیں گے ۔ آپ جو فکر کریں گے ہماری فکر بھی وہی ہے کیوں کہ ہم آپ کے دائیں بازو کے مانند آپ کے اختیار میں ہیں ۔

لیکن ہماری تجویز یہ ہے کہ کوفہ کے باشندوں کے سرداروں کو اس موضوع سے مطلع فرمائیے کیونکہ وہ اس دیار کے باشندے ہیں ۔ انھیں حکم دیجئے تا کہ وہ بھی دشمن کی طرف روانہ ہوں ۔ ان کو فضل ورحمت خدا سے جو اِنہیں عنایت ہوئی ہے ، آگاہ فرمائیے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں اگر آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے تو آپ اپنے مقصد مقصد میں کامیاب ہوں گے ورنہ ہم لوگ تو آپ کے بارے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتے ، جب بھی ہمیں بلائیں گے جان ہتھیلی پر لے کر حاضر ہیں اور جو بھی حکم دیں گے سر آنکھوں پر لیں گے یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ صفین کی جنگ میں امیر المؤمنین کے ہمراہ ستر افراد بدری ، شجرہ میں بیعت کرنے والوں میں سے سات سو افراد کے علاوہ چار سو دوسرے مہاجر و انصار بھی موجودتھے ۔

۱۹۲

مسعودی نے بھی لکھا ہے کہ :

صفین کی جنگ میں عراق کے باشندوں میں سے پچیس ہزار افراد قتل ہوئے جن میں پچیس بدری بھی دکھائی دیتے تھے۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ امیر المؤمنین کی جنگوں کے بارے میں اصحاب کے نظریات اور پالیسی کا ایک نمونہ تھا ۔ اب ہم '' خزیمہ بن ثابت انصاری ذو الشہادتین '' کے صفین کی جنگ میں قتل ہونے کی روداد بیان کرتے ہیں ۔

'' ابن سعد '' اپنی کتاب ''طبقات '' میں '' ذو الشہادتین '' کی زندگی کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

جس وقت عمار یاسر صفین کی جنگ میں قتل ہوئے ، خزیمہ بن ثابت اپنے خیمہ میں چلے گئے ، غسل کیا اور جنگی لباس زیب تن کیا، اس پر پانی چھڑکنے کے بعد باہر آئے او رمیدان جنگ میں جاکر اس قدر جنگ کی کہ آخر شہید ہوگئے ۔

'' خطیب بغدادی'' ١ نے بھی اپنی کتاب '' موضح '' میں '' عبد الرحمان بن ابی لیلی '' سے نقل کرکے یوں لکھا ہے :

میں جنگ صفین میں حاضر تھا ۔ میدان کارزار میں میری ایک ایسے شخص کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوئی جو اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھا ، اس کی داڑھی کے بال چہرے پر لگائے نقاب سے نیچے کی طرف باہر آئے تھے۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ لڑرہا تھا اور

____________________

١- حافظ حدیث ، ابو بکر احمد بن علی ملقب بہ خطیب بغدادی ( وفات ٤٦٣ھ ) اس کی تالیفات میں سے ایک '' موضح اوھام الجمع و التفریق' ہے کہ ہم نے اس کتاب کی جلد' ٤' صفحہ: ٢٧٧ طبع حیدر آباد دکن ١٣٨٧ھ کی طرف رجوع کیا ہے۔

۱۹۳

دائیں بائیں تلوار چلارہا تھا اور حملہ کررہا تھا ۔ میں نے اپنے آپ کو اس کے نزدیک پہنچا کر کہا :

اے بوڑھے آدمی ! تم جوانوں کے ساتھ اس طرح بلاخوف لڑرہے ہو اور دائیں بائیں تلوار چلا رہے ہو ؟

اس نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا کر کہا ؛ میں '' خزیمہ بن ثابت انصاری'' ہوں ، میں نے خود رسول خدا سے سنا ے کہ وہ فرماتے تھے : علی کے ہمراہ لڑنا اور اس کے دشمنون سے جنگ کرنا۔

' 'نصر بن مزاحم'' اپنی کتاب '' صفین '' میں اس جنگ کی رجز خوانیوں کے ضمن میں لکھتا ہے :

'' خزیمہ بن ثابت '' صفین کی جنگ میں معاویہ کی سپاہ پر حملہ کرتے ہوئے یہ رجز پڑھ رہے تھے :

جنگ شروع ہوئے دو دن گزر گئے ، یہ تیسرا دن ہے ، پیاس کی شدت سے جنگجووں کی زبانیں منہ سے باہر نکل آئی ہیں ۔

آج وہی دن ہے کہ جس دن تلاش وکوشش کرنے والے کو بخوبی معلوم ہوگا کہ امام کے ساتھ عہد و پیمان توڑنے والے کس قدر زندہ رہنے کی امید رکھتے ہیں ؟!

جبکہ یہ لوگ اپنے اسلاف کی میراث لینے والے اور آئندہ کیلئے وراثت چھوڑنے والے ہیں ، یہ علی ہیں جو بھی ان کی اطاعت نہ کرے ، '' ناکثین '' میں سے ہے اور پروردگار کے ہاں گناہگار ہے ۔

اس کے علاوہ جمعرات کے دن کی دلاوریوں اور رجز خوانیوں کے عنوان سے لکھتا ہے : اسی دن ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین'' قتل ہوئے ، اور خزیمہ کی بیٹی '' ضبیعہ '' اپنے باپ کی لاش پر یوں نوحہ خوانی کررہی تھی:

اے میری آنکھوں ! '' احزاب ''کے ہاتھوں مقتول اور فرات کے کنارے خاک پر پڑی ہوئی خزیمہ کی لاش ' پر آنسوؤں کے دریا بہاؤ:

انہوں نے ذو الشہادتین کو بے گناہ اور مظلوم قتل کیا ہے' خدا ان سے اس کا انتقام لے ۔

اسے جوانمردوں کے ایک گروہ کے ساتھ مارا گیا ، جو حق کی آواز پر لبیک کہہ کر آگے بڑھے تھے اور ہرگز آرام سے نہیں بیٹھے تھے۔

یہ لوگ اپنے کامیاب و فریاد رس مولا امام علی کی مدد میں اٹھے تھے اور موت کے لمحہ تک اپنے مولا کی مدد سے دست بردار نہیں ہوئے ۔

۱۹۴

خدائے تعالیٰ '' خزیمہ'' کے قاتلوں پر لعنت فرمائے اور دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کرے ۔

نصر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

امام علی نے صفین کی جنگ سے واپسی پر اپنے ایک خطبہ میں کوفیوں کی معاویہ سے جنگ میں شرکت پر تجلیل کرتے ہوئے بے انتہا حزن و ملال کے ساتھ خزیمہ ذو الشہادتین کو یاد کرتے ہوئے فرمایا:

میرے بھائی ، جن کا خون صفین کے میدان میں زمین پر جاری ہوا ، چونکہ آج وہ زندہ نہیں ہیں جو غم و اندوہ کے عالم کا مشاہدہ کرتے ! ان کو کیا نقصان پہنچا ؟ خدا کی قسم انہوں نے اس خدا کا دیدار کیا جس نے انہیں جزا دی ہے اور انھیں تمام خوف و ہراس سے آزاد کرکے امن کی جگہ پر قرار دیا ہے ۔

کہاں ہیں میرے وہ بھائی جنہوں نے حق کی راہ میں قدم رکھا اور حق کے راستے کا انتخاب کیا؟

کہاں ہے عمار ، کہاں ہے ابن تیہان ١ اور کہاں ہے ذو الشہادتین ؟!

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ امام علی کی جنگوں کے بارے میں مہاجریں و انصار خاص کر خزیمتہ بن ثابت ذو الشہادتین نقطہ نظر کا اظہار تھا ٢

ان حقائق کے باوجود سیف آخر میں تحریف کرتا ہے او وقائع میں دخل و تصرف کے ذریعہ افسانوی کردار خلق کرتا ہے اور اس طرح تاریخ اسلام کو مشکوک کرکے اس کے اعتبار' استحکام اور قدر و منزلت کو گرادیتا ہے ۔

خزیمہ کے افسانہ پر ایک بحث

گزشتہ پانچوں روایتوں میں سیف نے تاریخی حقائق میں تحریف کرکے علماء اور محققین کو

____________________

١۔ ابن تیہان ، ابو الہیثم ، مالک بن تیہان انصاری قبیلۂ اوس میں سے ہیں ۔ ابن تیہان نے بیعت عقبہ کو درک کیا ہے اور جنگِ بدر کے علاوہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دوسری جنگوں میں بھی شرکت کی ہے ۔ ابن تیہان صفین کی جنگ میں امام علی کی حمایت میں لڑے اور اس میں شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ ج ٥ ٣١٨) ، خطبہ نمبر ١٨٣ ، نوف بکالی کی روایت کے مطابق اور ' ' شرح نہج البلاغہ '' ابن ابی الحدید معتزلی (١٠.٩٩) ۔

٢۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ فضائل و مناقب امام علی بیان کرنے میں ہماری دلچسپی کا مقصد یہ ہے کہ ہم انصار کے نظریات اور امام کے بارے میں ان کی پالیسی کو بیان کرکے بحث کو طولانی بنارہے ہیں ۔حقیقت میں ہم مجبور تھے تا کہ سیف کی شیطنتوں ، فضائل امام کو پوشیدہ رکھنے ، امام کے ساتھ اس کی دشمنی کی بنا پر وقائع میں تحریف کرنے اور بنی امیہ کے ساتھ اس کی ہمدردیوں سے پردہ اٹھائیں ۔ اسی طرح ہم نے بعد میں ذکر ہونے والے صحابی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مشہور صحابی جیسے '' ابو دجانہ '' کے امام کی جنگوں میں شرکت کرنے کے مسئلہ کو جس کا سیف مدعی ہے قبول نہیں کیا ہے اور اسے رد کیا ہے۔

۱۹۵

گمراہی اور پریشانی سے دوچار کیا ہے ۔ اس نے تاریخ میں تصرف کرکے ' خزیمہ بن ثابت '' ذو الشہادتین '' کے علاوہ افسانہ کا اس میں اضافہ کیا ہے اور اس طرح آئندہ نسلوں کے تاریخی حقائق سے منحرف ہونے کے اسباب مہیا کئے ہیں ۔

سیف بن عمر تمیمی کے بعد اسلام کے علماء و محققین کی باری آتی ہے ۔ اس سلسلہ میں مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے کمر ہمت باندھ کر سیف کی افسانوی داستانوں جھوٹ کے پلندوں اور تخلیقات کو مسلم اور ناقابل انکار حقائق کے عنوان سے حدیث، تاریخ ، ادب اور صحابہ کی تشریح میں لکھی گئی اپنی معتبر اور گراں قدر کتابوں میں نقل کیا ہے اور اپنے اس عمل سے سیف کے افسانوں کو حقیقت کا لبادہ اوڑھا کر معتبر مصادر و مآخذمیں داخل کیا ہے اس سلسلے میں خطیب بغدادی جیسے دانشور کی بات قابل غور ہے ۔

خطیب بغدادی اپنی کتاب '' موضح '' میں '' خزیمہ بن ثابت انصاری '' ''غیر ذو الشہادتین '' کے بارے میں لکھتا ہے :

علماء نے اس خزیمہ کا نام سیف کی احادیث سے استفادہ کرکے لکھا ہے منجملہ یہ کہ

یہاں پر سیف کی پہلی اور دوسری روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :

بے شک اس سلسلے میں سیف کی روایت غلط اور بے موقع ہے کیونکہ '' خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' نے امام علی کے ساتھ صفین کی جنگ میں شرکت کی ہے اس مطلب کو سیرت لکھنے والے تمام محققین نے ذکر کیا ہے اور اس پر اتفاقِ نظر رکھتے ہیں جب سیف کی بات سبھی علماء کے نقطۂ نظر اور ان کے بیان کے خلاف ہے تو یہ حجت اور اعتبار سے بھی خالی ہے !

مذکورہ مطالب کو لکھنے کے بعد خطیب نے چند ایسی روایات نقل کی ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ''خزیمہ ٔ ذو الشہادتین '' نے صفین کی جنگ میں امام علیہ السلام کی ہمراہی میں شرکت کی ہے اور اسی جنگ میں شہید ہوئے ہیں ' اس کے بعد لکھتا ہے :

اصحاب میں اس '' ذو الشہادتین '' کے علاوہ کوئی اور نہ تھا جس کا نام ''خزیمہ '' ہو اور اس کے باپ کا نام ''ثابت '' ہو اور خدا بہتر جانتا ہے ۔

۱۹۶

ابن حجر جیسے عالم نے '' خزیمہ بن ثابت '' کے سلسلے میں د و شرحیں لکھی ہیں ان میں سے ایک ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' کے عنوان سے جو ایک مشہور و معروف صحابی تھے ۔ اور دوسری سیف کے جعلی خزیمہ کے عنوان سے ۔ابن حجر سیف کے اس جعلی خزیمہ کے بارے میں لکھتا ہے :

اور دوسرا خزیمہ بن ثابت انصاری ہے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں '' حکم بن عتیبہ '' سے نقل کرکے لکھاہے .....( دوسری روایت کے آخر تک )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

اس روایت کو سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے لیکن خطیب بغدادی نے اسے مردود جانا ہے اور کہتا ہے

اور خطیب بغدادی کے بیانات خلاصہ بیان کرنے کے بعد اپنے نقطۂ نظر کو یوں بیان کرتا ہے :

میں ابن حجر کہتا ہوں کہ سیف کا کوئی گناہ نہیں ہے ، بلکہ یہ غلط بیانی اور آفت اس کے راوی '' عزرمی '' کی ہے جس نے اس قسم کی جھوٹی اور ناحق روایت بیان کی ہے ! جی ہاں سیف نے ''جمل '' کی داستان میں لکھا ہے کہ علی نے مدینہ میں تقریر کی اور کہا..... ( گزشتہ پہلی روایت کے آخر تک)

ابن ابی الحدید معتزلی نے اسی سلسلہ میں جو کچھ بیان کیا ہے ہم یہاں پر اسے نقل کرتے ہیں ، وہ لکھتا ہے :

''ابو حیان توحیدی '' ١ نے اپنی کتاب '' بصائر '' میں لکھا ہے کہ خزیمہ بن ثابت جس نے امام علی علیہ السلام کے ہمراہ صفین کی جنگ میں شرکت تھی اور اسی جنگ میں شہید ہو ا تھا ، حقیقت میں خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین نہیں تھا بلکہ انصار میں سے کوئی اور تھا ، جس کا نام بھی خزیمہ بن ثابت تھا ' جبکہ یہ دعویٰ مکمل طورپر غلط اور خطا ہے ، کیونکہ حدیث و انساب کی تمام کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ اصحاب ، انصار، اور غیر انصار میں '' ذو الشہادتین '' کے علاوہ کسی اور کا نام '' خزیمہ بن ثابت '' نہیں تھا ۔ در حقیقت ہوا و ہوس کی بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے ! یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ تاریخ کبیر کے مصنف طبری نے ابو حیان سے پہلے یہی مطالب لکھے ہیں اور ابو حیان نے اپنی غلط بات کو طبری کی کتاب سے نقل کیا ہے ! جبکہ وہ تمام کتابیں جو اصحاب کے ناموں کے بارے میں لکھی گئی طبری اور ابو حیان کی باتوں کے خلاف ثابت کرتی ہیں

____________________

v ١۔ ابو حیان توحیدی ، اس کا نام علی بن محمد توحیدی ہے جس نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں وفات پائی ہے۔ اس کی تالیفات میں سے ایک کتاب '' بصائر القدماء و بشائر الحکما'' ہے ۔

۱۹۷

اس کے علاوہ کیاضرورت ہے کہ '' خزیمہ ، ابن تیہان عمار ...' جیسوں کے ہوتے ہوئے ۔ امیرالمؤمنین کے حامیوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کریں ، کیونکہ اگر لوگ امام کے سلسلہ میں انصاف سے کام لیں اور تعصب کی عینک کو اپنی آنکھوں سے اتار کر صحیح معنوں میں امام کے بارے میں تو انہیں معلوم ہوگا کہ اگر پوری دنیا بھی آپ کی مخالفت کرکے دشمنی پر اتر آئے اور آپ کے خلاف تلوار کھینچ لے اور امام تن تنہا ہوں ، تو بھی حق علی کے ساتھ ہوگا اور یہ سب لوگ باطل اور ظالم ہوں گے ( ابن ابی الحدید کی بات کا خاتمہ)

ابن ابی الحدید اس امر میں حق پر ہے ۔ وہ ''' خزیمہ ٔ غیر ذو الشہادتین '' کو خلق کرنے کے سبب کے بارے میں کہتا ہے :

'' ہواوہوس کی بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے ''

لیکن جو وہ ایک بار ابو حیان کو اور دوسری بار '' طبری '' کو ملزم ٹھہراتا ہے تو ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

اسی طرح ہم ابن حجر کی اس بات سے بھی اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں جو وہ کہتا ہے کہ یہ تمام مشکلات اور آفتیں '' عرزمی '' سے پیدا ہوئی ہیں ۔ جبکہ '' عرزمی'' کا کوئی قصور و گناہ نہیں ہے اور ان تمام آفتوں کا سرچشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے یہ وہی ہے جس نے '' خزیمہ غیر ذو الشہادتین '' کے بارے میں دو روایتیں گڑھی ہیں اور انھیں '' حکم '' '' عرزمی '' ، ''محمد '' اور '' طلحہ'' سے نسبت دی ہے !

۱۹۸

سیف تنہا شخص ہے جس نے خزیمہ '' غیر ذوالشہادتین '' کے چہرے کا خا کہ کھینچا ہے اور اسے ایک رول سونپا ہے ۔

سیف تنہا شخص ہے جس نے خزیمہ کا افسانہ اور دیگر افسانے خلق کئے ہیں اور بڑی مہارت سے انھیں تاریخ اسلام کے صفحات میں درج کرایا ہے اور اس طرح علماء اور محققوں کو حیرت اور پریشانی سے دوچار کیا ہے ورنہ سیف کے جھوٹ سے بے خبر بے چارے مشہور راویوں کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟!

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے سیف کی اس جعلی مخلوق کو آسانی سے دریافت نہیں کیا بلکہ اس سلسلے میں بحث و تحقیق میں کافی وقت لگا ہے اور اس پر ہماری ایک عمر صرف ہوئی ہے اور انتھک اور بے وقفہ تلاش اور کوشش کا نتیجہ ہے کیونکہ اس کی اس قسم کی تخلیق ایسی نہیں ہے کہ مثال کے طور پر سیف نے ایک نام کا انتخاب کیا اور اس نام کیلئے ایک افسانہ گڑھ کر اسے اپنے دوسرے افسانوں کی طرح تاریخ اسلام میں درج کرایا ہواور اس طرح اس کے افسانوں سے حقائق کو آسانی کے ساتھ سمجھنا ممکن ہو ۔ بلکہ اس کے بر عکس سیف نے اس قسم کی اپنی تخلیقات اور اپنے افسانوں میں کردار اور رول ادا کرنے والوں کو ایسے چہروں کے ہم نام خلق کیا ہے جو تاریخ میں حقیقتاً موجود تھے اور اتفاق سے مقام و منزلت اور عمومی احترام کے بھی مالک تھے اور یہی امر سبب بنا کہ بعض اوقات ہم دوراہے پر کھڑے ہو کر حیرت اور پریشانی سے دوچار ہوتے رہے ہیں ایسی صورت میں ہم موضوع کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے مجبور ہوتے تھے کہ اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لائیں ا ور مقصد حاصل ہونے تک آرام سے نہیں بیٹھتے تھے ۔

۱۹۹

بحث کا نتیجہ

سیف نے خزیمہ بن ثابت انصاری غیر ذو الشہادتین کو خلق کرکے اس کا نام دو روایتوں میں لیا ہے اور ان دونوں روایتوں میں سے ہر ایک کیلئے بعض راوی بھی پیش کئے ہیں جس کسی نے بھی ، جیسے طبری ، ابن عساکر اور ابن حجر خزیمۂ غیر ذو الشہادتین کی داستان نقل کی ہے یا اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے روایت کوسیف بن عمر سے نقل کیاہے نہ کہ کسی اور سے اور اس کے بعد دوسرے علماء جیسے '' توحیدی ، ابن اثیر ، ان کثیر اورابن خلدون وغیرہ '' نے خزیمہ غیر ذو الشہادتین کا نام لیتے وقت بلا واسطہ یا با واسطہ روایت کو طبری سے نقل کیا ہے لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب آفتیں صرف و صرف سیف کی وجہ سے ہیں !! ' '

سیف نے اپنی تمام افسانوی شخصیتوں کو دوسری صدی ہجری میں اپنے خاندانی تعصبات ، قدرت اور دولتمندوں کی حمایت ، خاندان بنی امیہ و مضر ( اس کے اپنے خاندان ) کی نوکری اور مداحی و ستائش کی بنیاد پر خلق کیا ہے تا کہ اس طرح اپنے رقیب اور دیرینہ دشمن قبائل جیسے یمانی اور قحطانیوں پر کیچڑ اچھال کر اپنے دل کی بھڑاس نکال سکے ۔ ابھی یہ سکہ کا ایک ہی رخ ہے !

سیف کا پیغمبر خدا کے اصحاب کے نام پر اپنے ہیرؤں کی تخلیق اور ایسے افسانے گڑھنے میں اس کا مذہبی تعصب یعنی زندیقی ہونا بھی کارفرما تھا تاکہ اسلام سے عناد و دشمنی جیساکہ بعض نے اسے اس کا ملزم ٹھہرایا ہے کی بناء پر اسلامی عقائد میں شک و شبہ ایجاد کرے اور علماء کو حقائق سے منحرف کرے ، ان کی تحقیق کی راہ میں رکاوٹیں ڈالے اور اس طرح اسلام کا چہرہ مکمل طور پر مسخ کرکے دنیا والوں کے سامنے پیش کرے۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329