ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130606 / ڈاؤنلوڈ: 4443
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قيادت و فرماندارى ميں روميوں سے جنگ كرنے كے لئے لشكر روانہ كيا تھا ، تو معاويہ پرچمدار كى حيثيت سے لشكر شام كے ہمراہ تھا جب اس كے بھائي كا انتقال ہوگيا تو خليفہ وقت نے اسے سپاہ كا فرماندار مقرر كرديا_ عثمان كے دور خلافت ميں بہت سے نئے علاقے اسلامى حكومت كى قلمرو ميں شامل ہوئے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ معاويہ انيس سال تك خاطر جمعى كے ساتھ شام پر حكومت كرتا رہا_

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو معاويہ نے آپعليه‌السلام كا فرمان قبول كرنے سے روگردانى كى اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كو بہانہ بناكر حضرت علىعليه‌السلام سے برسر پيكار ہوگيا اورجنگ صفين كيلئے راہ ہموار كى ، آخرى لمحات ميں جب كہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى فتح و پيروزى يقينى تھى ، اس نے عمرو عاص كى نيرنگى سے قرآن مجيد كو نيزوں كى نوك پر اٹھاليا اور حضرت علىعليه‌السلام كو حكميت قرآن كى جانب آنے كى دعوت دى اور اس طرح اس نے كوفہ كے سادہ لوح سپاہيوں كو تقدس نمائي سے اپنا گرويدہ كرليا _ يہاں تك كہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو مجبور كيا كہ وہ جنگ كرنے سے باز رہيں _

قرآن مجيد كى ''حكميت'' كا فائدہ بھى معاويہ كو ہى ہوا (اس كى تفصيل بعد ميں بيان كى جائے گى)چنانچہ پہلى مرتبہ اس كا نام لوگوں كى زبانوں پر خليفہ كى حيثيت سے آنے لگا اور سنہ ۴۰ ھ ميں جب حضرت علىعليه‌السلام كو شہيد كرديا گيا تو خليفہ بن كر ہى مسند خلافت پر آيا اور اس نے انيس سال سے زيادہ مسلمانوں پر حكومت كى اور بالآخر ماہ رجب ميں اس كا انتقال ہوا_

معاويہ كى تخريب كاري

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ نے جس قدر مخالفت و تخريب كارى كى اس كى طرح اندازى عمرو عاص كرتا تھا جيسے ہى يہ اطلاع ملى كہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كر رہے ہيں تو اس نے درج ذيل مضمون پر مشتمل خط زبير كو لكھا:

۱۶۱

''معاويہ كى جانب سے بندہ خدا زبير كى خدمت ميں عرض ہے كہ اے اميرالمومنين ميں نے شام كے لوگوں سے كہا كہ وہ آپ كے لئے ميرے ہاتھ پر بيعت كريں انہوں نے ميرے ہاتھ پر بيعت كرلى ہے وہ سب متفقہ طور پر آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں انہوں نے ہى مجھ پر دباؤ ڈالا كہ آپ كے حق ميں ، ميں ان سے بيعت لوں ، آپ كوفہ و بصرہ كى حفاظت كيجئے كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ دو شہر على بن ابى طالبعليه‌السلام كے ہاتھ لگ جائيں كيونكہ ان دو شہروں پر قبضہ ديگر سرزمينوں كو حاصل كرنے كے لئے خاص اہميت كا حامل ہے _ آپ كے بعد ميں نے طلحہ كے حق ميں بھى لوگوں سے بيعت لے لى ہے اب آپ يہ كہہ كر شورش و سركشى كريں كہ عثمان كے خون كا بدلہ لينا ہے اور لوگوں كو بھى اسى عنوان سے دعوت ديجئے اس مقصد كى برآورى كے لئے پورى متانت و سنجيدگى اور سرعت عمل سے كام ليجئے _(۱۸)

معاويہ نے اپنى جدو جہد كا آغاز اسى روش سے كيا اگر چہ كسى بھى تاريخ كى كتاب ميں يہ واقعہ نہيں ملتا كہ انہوں نے شام ميں زبير كى حق ميں بيعت لى ہو _

امام علىعليه‌السلام كا نمايندہ معاويہ كى جانب

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كيساتھ جنگ كرنے سے قبل اتمام حجت كى غرض سے ''جرير ابن عبداللہ'' كو خط ديكر روانہ كيا(۱۹) اور اس سے بيعت كا مطالبہ كرتے ہوئے طلحہ اور زبير كى عہد شكنى كا بھى ذكركيا ، خط كے آخر ميں آپعليه‌السلام نے مزيد تحرير فرمايا كہ اگر تمہارا خودكو بلاؤں ميں گرفتار كرنا مقصد ہے تم سے جنگ كروں گا تم ان آزاد شدہ لوگوں ميں سے ہو جن ميں نہ تو خلافت كى اہليت وشايستگى ہے او رنہ ہى امور خلافت ميں انكو مشير بنايا جاسكتا ہے _(۲۰) جب جرير نے خط معاويہ كو ديا وہ اس خط كو پڑھ كر حيرت زدہ رہ گيا اور جرير سے كہا كہ ميرے جواب كا انتظار كرو اس مسئلہ كا حل تلاش كرنے كى غرض سے عمرو عاص كو اپنے پاس بلايا اور كہا كہ اگر اس مشكل كا حل نكال لو تو مصر كى حكومت ميں تمہارے حوالے كردوں گا _ معاويہ نے ان كى تجويز پر

۱۶۲

شام كے سربرآوردہ لوگوں كو مسجد ميں جمع كيا اور ان كے سامنے مفصل تقرير كى اس نے اہل شام كى تحسين و قدر دانى كرتے ہوئے ان كے جذبات كو عثمان كے خون كا بدلہ لينے كيلئے مشتعل كيا اور حاضرين جلسہ كى اس بارے ميں رائے جاننا چاہي، اس بات پر حاضرين اٹھ كھڑے ہوئے اور انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے لئے اپنى آمادگى و رضامندى كا اظہار كيا چنانچہ اس غرض كے تحت انہوں نے معاويہ كے ہاتھ پر بيعت كى اور يہ وعدہ كيا كہ جب تك دم ميں دم ہے ، وہ اس عہد پر قائم رہيں گے اور اپنا مال تك اس راہ ميں قربان كرديں گے _

جرير نے جب يہ منظر اپنى آنكھوں سے ديكھا تو وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگئے اور تمام واقعات آپ كے سامنے بيان كئے اور كہا كہ شام كے لوگوں نے معاويہ كے ساتھ گريہ و زارى بھى كى اور آپ سے جنگ كرنے كيلئے سب متفق الرائے ہيں كيونكہ ان كا گمان ہے كہ حضرت على بن ابى طالبعليه‌السلام نے انہيں قتل كرايا ہے اور ان كے قاتلوں كو پناہ دى ہے_(۲۱)

سركشى كے اسباب

معاويہ نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف كيوں سركشى كى نيز اس كے پس پشت كيا اسباب و علل اور محركات كار فرماتھے ان كا مختصر طور پر ہى سہى مگر ذكر كردينابہت ضرورى ہے_

۱_ دشمنى اور كينہ

خاندان بنى اميہ كو جس كا سردار معاويہ تھا ، ہاشمى خاندان بالخصوص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام سے سخت عداوت ودشمنى تھى ، اس دشمنى و كينہ توزى كا آغاز نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد رسالت اور اس كے بعد پيش آنے والے غزوات كے باعث ہوا_ عداوت اور دشمنى اس حدتك پہنچ چكى تھى كہ جہاں كہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عظمت كا ذكر ہوتا معاويہ اپنے دل ميں ملول ہوتا ذيل كى حكايت اس كى شاہد و گواہ ہے ''مطرف ابن مغيرہ '' سے منقول ہے كہ ميرے والد كى معاويہ كے پاس آمد

۱۶۳

ورفت تھى وہ جب بھى اس كے پاس سے واپس گھر آتے تو اسكى ذہانت و ذكاوت كى بہت تعريف كرتے ايك رات معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے انہيں اتنا مضطرب وپراكندہ خاطر پايا كہ انہوں نے كھانا تك نہيں كھايا_ ميں نے اپنے والد سے دريافت كيا كہ وہ اس قدر كيوں مضطرب و پريشان خاطر ہيں ، انہوں نے جواب ديا كہ آج ميں انتہائي كافر اور خبيث ترين شخص كے پاس سے واپس آرہا ہوں _ ميں نے پوچھا آخر ہوا كيا؟ انہوں نے كہا كہ معاويہ كے پاس بيٹھا ہوا تھا جب خلوت ہوئي تو ميں نے كہا اے اميرالمومنين آپ كافى عمر رسيدہ ہوچكے ہيں اور عہد پيرى كى منزل تك پہنچ گئے يہاں اچھا ہوگا كہ آپ اب عدل وانصاف سے كام ليں اور اپنے بھائي بنى ہاشم سے صلہ رحمى كے ساتھ پيش آئيں كيونكہ انكے پاس ايسى كوئي چيز نہيں جس كے باعث آپ كو ان سے خطرہ ہو ، اس كے علاوہ اگر آپ حسن سلوك كريں گے تو لوگ آپ كو ياد ركھيں گے اور اس كا آپ كو اجر بھى ملے گا_

اس پر معاويہ نے كہا كہ ہرگز اپنے كام كى بقا كى خاطر كس اميد پر نيك كام كروں ''يتم'' كے بھائي ابوبكر كو خلافت ملى عدل وانصاف كو اپنا شيوہ بنايا اور جو كچھ كرنا تھا انہوں نے كيا ليكن جب ان كى وفات ہوگئي تو لوگ انہيں بھول گئے بس لوگوں كو اتنا ہى ياد رہ گيا ہے كہ ابوبكر كے بعد عدى كے بھائي عمر نے حكومت كى _ دس سال تك وہ خدمت خلق كرتے رہے مگر مرنے كے بعد انكا نام بھى صفحہ ہستى سے محو ہوگيا صرف چند ہى لوگوں كو يہ نام (عمر)ياد رہ گيا ہے ليكن اس كے برعكس ''ابى كبشہ'' كے فرزند محمد ابن عبداللہ'' كا نام ہر روز پانچ مرتبہ بآواز بلند ليا جاتا ہے اور''اشهد ان محمد رسول الله'' كہا جاتا ہے اس كے بعد ميرى كون سى كاركردگى اور ياد باقى رہ جائے گى خدا كى قسم جيسے ہى ميں خاك كے نيچے جاؤں گا ميرا نام بھى اس كے ساتھ دفن ہوجائے گا_(۲۲)

۲_ حكومت كى آرزو

معاويہ جانتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اسے اس كے منصب پر قائم رہنے نہيں دےں گے كيونكہ اسے اس بات كا علم تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے ظلم واستبداد كى ہميشہ مخالفت كى ہے اور حكومت اسى

۱۶۴

لئے قبول كى كہ اسے عدالت وانصاف سے چلائيں گے_

حضرت علىعليه‌السلام كے كردار سے وہ چونكہ بخوبى واقف تھا اس لئے اسے يہ بھى علم تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نہ صرف يہ كہ حكومت شام كى جانب سے چشم پوشى نہ كريں گے بلكہ وہاں جو مال انہوں نے عثمان كے دور خلافت ميں جمع كيا تھ اس سے لے كر بيت المال ميں داخل كرديں گے _ اس كے بعد وہ ايك معمولى فرد كى طرح اپنى باقى عمر كسى گوشہ تنہائي ميں گذارلے گا يہ بات اس كے لئے كسى بھى طرح قابل برداشت نہ تھى _

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ وہ جب تك شام پر حكم فرما رہا ، اس نے كبھى مركزى حكومت كے كارپردازو و نمايندے كى حيثيت سے عمل نہيں كيا بلكہ وہاں اپنے لئے ايك مستقل سلطنت كى بنياد قائم كردى تھى _ تاكہ اپنى مرضى كے مطابق وہ لوگوں پر حكمرانى كرسكے اور ايسى حكومت كى بنياد ركھ دى جو اس كے خاندان ميں آنے والى نسلوں كى ميراث بن گئي _

۳_ ناكثين كى شورش

ناكثين كى شورش نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كى تحريك كے لئے راستہ ہموار كرديا اگر ايسا نہ ہوتا تو معاويہ كے لئے مشكل تھا كہ اس اتحاد كو جو مسلمانوں كے درميان پيدا ہوگيا تھا اور جس كى سرزمين اسلام كے بيشتر علاقوں پر حكم و فرمانروائي تھى اس كو درہم برہم كرسكے اور مسلمانوں ميں ايك دوسرے كے خلاف مقابلے كى ہمت و جرا ت پيدا ہوسكے ليكن جنگ جمل كے جو ناخوشگوار نتائج رونما ہوئے انہوں نے اس سد عظيم كو گراديا اور معاويہ كے واسطے شورش و سركشى كا ميدان صاف كرديا_

۴_ گزشتہ خلفاء كى دليل ومثال

اس كے علاوہ معاويہ اپنے اس رويے كى يہ توجيہ پيش كرتا اور كہتا كہ گذشتہ خلفاء نے حضرت علىعليه‌السلام پر سبقت حاصل كرلى اور مسلمانوں نے بھى ان كى حكومت كو تسليم كرليا اس لئے ميں بھى انہى كے رويے كى پيروى كر رہا ہوں _

۱۶۵

چنانچہ جب اس نے محمد ابن ابى بكر كو خط لكھا تو اس ميں انہوں نے اسى امر كى جانب اشارہ كيا كہ تمہارے والد اورعمرآن اولين افراد ميں سے تھے جنہوں نے خلافت ميں علىعليه‌السلام كى مخالفت كى اور ان كا حق خود لے ليا وہ خود تو مسئلہ خلافت پر متمكن رہے مگر علىعليه‌السلام كو انہوں نے امر خلافت ميں شريك تك نہ كيا اگر وہ راہ راست پر چل رہے ہيں تو تمہارے والد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے يہ راہ اختيار كى اگر ہم ظلم و ستم كے رستے پر گامزن ہيں تو اس راستے كو بھى تمہارے والد نے سب سے پہلے ہموار كيا تھا اس مقصد ميں ہم ان كے شريك كار اور انہى كى پيروى كر رہے ہيں اگر تمہارے والد اس راہ ميں ہم پر سبقت نہ لے جاتے تو ہم على بن ابى طالبعليه‌السلام كى ہرگز مخالفت نہ كرتے ليكن ہم نے ديكھا كہ تمہارے والد نے يہ كام انجام ديا ہے چنانچہ ہم ان كى راہ و روش پر گامزن ہيں _(۲۳)

۵_ پروپيگنڈہ

عثمان كے قتل كے بعد طلحہ و زبير نے جو شورش و سركشى كى راہ اختيار كى اس كے باعث معاويہ كو يہ موقع مل گيا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف پروپيگنڈہ كرسكے اور اس ميں بھى جو چيز كار فرما تھى وہ عثمان كے خون كا بدلہ تھا_

معاويہ نے اہل شام كے جذبات بر افروختہ كرنے كے لئے عثمان كے خون آلود كرتے اور ان كى اہليہ نائلہ كى قطع شدہ انگلى كو جنہيں ''نعمان بن بشير'' اپنے ساتھ صوبہ شام سے لے آيا تھا ، مسجد كى ديوار پر نصب كرديا اور انہوں نے چند عمر رسيدہ لوگوں سے كہا كہ وہ ان چيزوں كے نزديك بيٹھ كر گريہ وزارى كريں ، اس پروپيگنڈہ نے لوگوں كے دلوں پر ايسا گہرا اثر كيا كہ جيسے ہى معاويہ كى ولولہ انگيز تقرير ختم ہوگئي تو لوگ اپنى جگہ سے اٹھ كھڑے ہوئے اور سب نے ايك آواز ہوكر كہا كہ ہم عثمان كے خون كا بدلہ ليں گے اورمعاويہ كے ہاتھ پر يہ كہہ كر بيعت كى كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے تمہارا ساتھ ديں گے_

۱۶۶

مشہور و معروف اشخاص كواپنانا

معاويہ كا مقصد چونكہ زمام حكومت كو اپنے اختيار ميں لينا تھا سى لئے اسكى مسلسل يہ سعى وكوشش تھى كہ جس طرح بھى ممكن ہوسكے ان لوگوں كى توجہ كو اپنى طرف مائل كريں جو اس كام كے لئے مناسب ہوسكتے ہيں اور ان كے ساتھ يہ عہد وپيمان كريں كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سرگرم عمل رہيں گے اس كام ميں جو لوگ اس كے ہم خيال رہے ان كے نام درج ذيل ہيں :

۱_ عمروعاص : معاويہ نے اس سے كہا كہ تم ميرے ہاتھ پر بيعت كرو اور ميرى مدد كرو اس پر عمرو عاص نے كہا كہ خدا كى قسم دين كى خاطر تو ميں يہ كام نہيں كرسكتا البتہ دنيوى مفاد كى خاطر ميں تيار ہوں معاويہ نے دريافت كيا كہ كيا مانگنا چاہتے ہو اس نے كہا كہ مصر كى حكومت معاويہ نے اس كے اس مطالبے كو منظور كرليا اور لكھ كر دستاويز بھى دى _(۲۴)

۲_ طلحہ و زبير جيسا كہ پہلے ذكر كيا جاچكاہے كہ معاويہ نے زبير كو خط لكھا تو اس ميں زبير كو اميرالمومنين كے لقب سے ياد كيا تھا اور ان كى نيز طلحہ كى توجہ كو اپنى جانب مائل كرنے كى غرض سے ايسا ظاہر كياكہ ميں نے تمہارے حق ميں شام كے لوگوں سے بيعت لى ہے اور طلحہ كو وليعہد مقرر كرديا ہے_

۳_ شرحبيل _ اس كا شمار شام كے بااثر و رسوخ افراد ميں ہوتا تھا معاويہ نے خاص حكمت عملى كے ذريعے اسے اپنى جانب مائل كيا اور وہ بھى اس كا ايسا گرويدہ ہوا كہ معاويہ كا دم بھرنے كے علاوہ عثمان كے خون كا مطالبہ شروع كرديا _ معاويہ نے ضمناً عمرو عاص كا ذكر كرتے ہوئے اسے خط ميں لكھا كہ علىعليه‌السلام كا جرير نامى نمايندہ ميرے پاس آيا ہے اور اس نے بہت اہم تجويز ميرے سامنے ركھى ہے يہ خط ملتے ہيں آپ فوراً ميرے پاس چلے آئيں _ معاويہ نے شرحبيل كے آنے سے قبل بعض ايسے لوگوں كو جو اس كے نزديك قابل اعتماد تھے اور اس كے ساتھ ہى وہ شرجيل كے قرابت دار بھى يہ ہدايت كہ جب شرحبيل مجھ سے ملاقات كرچكے تو وہ اس سے ملاقات كريں اور اسے اطلاع ديں كہ عثمان كا قتل حضرت علىعليه‌السلام كے ايماء پر ہى ہوا ہے _(۲۵)

۱۶۷

شرحبيل كو جيسے ہى معاويہ كا خط ملا تو عبدالرحمن ابن غنم اور عياض جيسے خير خواہ دوستوں كى مرضى و منشاء كے خلاف اس نے معاويہ كى دعوت كو قبول كرليا اگرچہ انہوں نے بہت منع كيا مگر اس كے باوجودوہ حمص سے دمشق كى جانب روانہ ہوگيا _(۲۶)

شرحبيل جيسے ہى شہر ميں داخل ہوا تو معاويہ كے ہواخواہ اس كے ساتھ بہت عزت واحترام سے پيش آئے اس كے بعد معاويہ نے جرير كے خط كا ذكر كيا اورمزيد يہ كہا كہ اگر علىعليه‌السلام نے عثمان كو قتل نہ كرايا ہو تا تو وہ بہترين انسان شمار كئے جاتے جب معاويہ كى گفتگو ختم ہوگئي تو شرحبيل نے كہا كہ مجھے اس مسئلے پر سوچنے كا موقع ديجئے تا كہ اس كے بارے ميں غور وفكر كرسكوں _

معاويہ سے رخصت ہوكر جب وہ واپس ہو اتو اس كى كچھ لوگوں سے ملاقات ہوگئي يہ لوگ تو پہلے سے ہى ان سے ملنے كے متمنى و مشتاق تھے _ شرحبيل نے عثمان كے قتل كے بارے ميں ان سے دريافت كيا تو سب نے يہى كہا كہ علىعليه‌السلام ہى عثمان كے قاتل ہيں _

يہ سننے كے بعد شرحبيل غضبناك حالت ميں معاويہ كے پاس واپس آيا اور كہا كہ لوگوں كا يہ خيال واضح ہے كہ عثمان كو علىعليه‌السلام نے قتل كيا ہے _ خدا كى قسم اگر تم نے ان كے ہاتھ پر بيعت كى تو ہم لوگ يا تو تمہيں شام سے باہر نكال ديں گے يا يہيں قتل كرڈاليں گے _ معاويہ نے محسوس كرليا كہ اس كا منصوبہ كارگر ثابت ہوا ہے كہا كہ ميں بھى شام كے افراد ميں سے ايك ہوں ميں نے آج تك تمہارى مخالفت نہيں كى ہے اور آيندہ بھى ايسا نہ كروں گا مگر تم كو يہ جاننا چاہئے كہ يہ كام شام كے عوام كى مرضى كے بغير صورت پذير نہيں ہوسكتا تم كو اس منطقے ميں شہرت و نام آورى حاصل ہے اب تم شام كے مختلف شہروں كا دورہ كرو اور لوگوں كو بتاؤ كہ عثمان كو علىعليه‌السلام نے قتل كياہے اور اب مسلمانوں پر واجب ہے كہ اس خون كا بدلہ لينے كى خاطر شورش وسركشى كريں _ شرحبيل نے ايسا ہى كيا چنانچہ چند زاہد و پارسا و گوشہ نشين افراد كے علاوہ شام كے عام لوگوں نے اس دعوت كو قبول كرليا _(۲۷)

۱۶۸

سوالات

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بصرہ پہنچنے كے بعد كيا اقدامات كئے ؟

۲_ جنگ جمل كے كيا نتائج واثرات رونما ہوئے ؟مختصر طور پر وضاحت كيجئے_

۳_ جنگ جمل كے بعد كوفہ كو مركز حكومت كيوں قرار ديا ؟

۴_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ كا كيا موقف تھا ؟ معاويہ كے عدم تعاون كى ايك مثال پيش كيجئے _

۵_ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ نے كيوں شورش و سركشى اختيار كى ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۶_ معاويہ نے صاحب اثر ورسوخ اور سياستمدار افراد كى توجہ كو اپنى طرف كيسے مبذول كيا اس كى ايك مثال پيش كيجئے ؟

۱۶۹

حوالہ جات

۱_ الجمل ۲۱۱

۲_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۵۵ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۳۸

۳_ مروج الذہب ج ۲ہ ۳۶۸

۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۴۱، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۵۶

۵_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۱ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۴۹

۶_ جنگ جمل ميں جو جانى نقصان ہوا اس كے بارے ميں مورخين كے درميان اختلاف رائے ہے _ ابن اثير ج ۳/ ۲۵۵_ اور طبرى ج ۴/ ۵۳۹ نے مقتولين كى تعداد دس ہزار افراد لكھى ہے يعنى ہرطرف سے تقريباً پانچ ہزار افرادقتل ہوئے _ مسعودى ج ۲/ ۵۳۹نے مروج الذہب ميں مقتولين كى تعداد بيان كرتے ہوئے لكھا ہے كہ اصحاب جمل كے تيرہ ہزار افراد مارے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ ميں سے پانچ ہزار افراد شہيد ہوئے _ بلاذرى نے انساب الاشراف ج ۲/ ۲۶۵ ميں درج كيا ہے كہ صرف اہل بصرہ ميں سے بيس ہزار افراد قتل ہوئے مگر يعقوبى نے اپنى تاريخ كے ج۲ /۱۸۳ پر جانبين كے مقتولين كى تعداد تيس ہزار افراد سے زيادہ بيان كى ہے _

۷_ ملاحظہ ہو الملل و النحل شہرستانى ج ۱/ ۱۲۱ ، والتبصير ۴۲_

۸_ علامہ مفيد نے حضرت علىعليه‌السلام كے خطوط اپنى تاليف و تاليف الجمل ميں صفحات ۲۱۵ ، ۲۱۱ پر درج كئے ہيں _

۹_ رحبہ كوفہ كے محلوں ميں سے ايك محلے كا نام تھا (معجم البلدان ج ۳/ ۳۳)

۱۰_ وقعہ صفين ۳_

۱۱_ ملاحظہ ہو كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۶۰ و تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۴۴ ، ۵۴۳_

۱۲_ ''جعدہ'' اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بھانجے تھے آپ كى والدہ ام بانى دخترابى طالب تھيں (شرح ابن ابى الحديد ج ۱۰ /۷۷)_

۱۳_ وقعہ صفين / ۳_۱۰_

۱۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۲۷۲ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۶_

۱۷۰

۱۵_ وقعہ صفين ۱۲_۱۱_

۱۶_اذهبو انتم الطلقاء (اسى وجہ سے معاويہ كا شمار طلقاء ميں ہوتا ہے _

۱۷_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۳۱ _ تاريخ التواريخ ج ۱/ ۳۸_

۱۸_ بعض مورخين نے لكھا ہے كہ جرير كو انہى كى درخواست پر روانہ كيا گيا تھا اگر چہ مالك اشتر نے انہيں روانہ كئے جانے كى مخالفت كى تھى اور يہ كہا تھا كہ جرير كا دل سے جھكاؤ معاويہ كى جانب ہے ليكن اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ ان كا امتحان كئے ليتے ہيں پھر ديكھيں گے كہ وہ ہمارى طرف كيسے آتے ہيں _ ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲ ، وقعہ صفين ۲۷_

۱۹_ وقعہ صفين /۱۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۳ ۷۵ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۶ اور مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲_

۲۰ _ مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲ ، وقعہ صفين ۳۴ ، ۳۱_

۲۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۵/ ۱۲۹_

۲۲_ وقعہ صفين ۱۲۰_۱۱۹ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۱۸۹_

۲۳_ تاريخ ابوالفداء ج ۱/ ۱۷۱ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۲_ ۲۷۷_

۲۴_ وقعہ صفين ۳۲ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۷۸_

۲۵_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۴ _ وقعہ صفين ۴۰/ ۳۸_

۲۶_ وقعہ صفين ۴۴ يہاں اس بات كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ شرحبيل اور جرير كے درميان سخت عداوت تھي_

۲۷_ ان كى قرابت دارى ميں يزيد بن اسد بُسر اور ارطاء اور عمر بن سفيان بھى شامل تھے_

۲۸_ وقعہ صفين ۴۵_

۲۹_ وقعہ صفين ۵۰_ ۴۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۷۱_

۱۷۱

نواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۱

حضرت علىعليه‌السلام كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حجاز كى جانب درازدستي

نمايندے كى روانگي

مہاجرين و انصار كے ساتھ مشورہ

عمومى فوج

كمانڈروں كاتقرر

صفين كى جانب روانگي

شام ميں بحرانى حالات كا اعلان

پہلا مقابلہ

پانى پر بندشي

سوالات

حوالہ جات

۱۷۲

حضرت علىعليه‌السلام كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حضرت علىعليه‌السلام جب تك كوفہ ميں قيام پذير رہے اور صفين كى جانب روانہ ہونے سے پہلے تك آپ نے معاويہ كى جانب خطوط بھيجنے اور اپنے نمايندگان كو روانہ كرنے ميں ہميشہ پيشقدمى كى تا كہ اسے اس راہ و روش سے روكا جا سكے جو اس نے اختيار كر ركھى تھى جس كى پہلى وجہ يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام دل سے يہ نہيں چاھتے تھے كہ شام كے لوگوں سے جنگ كى جائے كيونكہ وہ بھى مسلمان تھے_

دوسرى وجہ يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام چاھتے تھے كہ معاويہ ،شام كے عوام اور ان لوگوں كے لئے جو آئندہ آپ كے ہمركاب رہ كر معاويہ سے جنگ كريں گے اتمام حجت ہوجائے_

تيسرى وجہ يہ تھى كہ اگر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ كے خطوط كا جواب نہ ديتے اور اس كے عدم تعاون كے خلاف صريح و قطعى موقف اختيار نہ كرتے تو ممكن تھا كہ عوام اس رائے كے حامى ہوجاتے كہ معاويہ حق بجانب ہے_

ابن ابى الحديد نے ان بعض خطوط كونقل كرتے ہوئے جن كا مبادلہ حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كے درميان ہوا لكھا ہے كہ اگر چہ زمانے ميں نيرنگياں تو بہت ہيں مگر اس سے زيادہ كيا عجيب بات ہو سكتى ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے لئے نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ ان كا اور معاويہ كا شمار ايك ہى صف كيا جانے لگا اور وہ ايك دوسرے كے ساتھ مراسلت كريں _(۱)

اس كے بعد ابن ابى الحديدنے لكھا ہے كہ اس مراسلت و مكاتبت كے پس پشت كون سا محرك كار فرما تھا وہ لكھتا ہے كہ '' شايد حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں اس كى وہ مصلحت آشكار و روشن تھى جو ہم پر

۱۷۳

پوشيدہ و پنہاں ہے '' اوپر جو وجوہ بيان كے گئے ہيں ان كے علاوہ خطوط لكھنے كى وجہ يہ بھى ہو سكتى ہے كہ :

۱-_ زور آور و تنومند سياسى افراد نے مختلف احاديث جعل كركے معاويہ كو اس بلند مقام پر پہنچا ديا اور اس كے لئے ايسے فضائل اختراع كئے كہ معاويہ امامعليه‌السلام كے مقابلہ ميں آگيا يہى نہيں بلكہ معاويہ خود كو افضل تصور كرتا اور اس پر فخر كرتا تھا يہ تحريك عمر كے عہد خلافت ميں شروع ہوئي(۲) اور بالاخرہ امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كے زمان خلافت ميں شدت اختيار كر گئي_

۲_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كو جو خطوط لكھے ہيں ان ميں اس نے حضرت علىعليه‌السلام سے بہت سى ناروا باتيں منسوب كى ہيں اور اپنى طرف ايسے افتخارات كى نسبت دى ہے جن كى كوئي اساس نہيں ہے اگر حضرت علىعليه‌السلام نے ان حقائق كوآشكار نہ كيا ہوتا اور اس ضمن ميں ضرورى باتيں نہ بتائي ہوتيں تو بہت سے حقيقى واقعات نظروں سے او جھل ہو كر رہ جاتے اور وہ افترا پردازياں جو آپعليه‌السلام كے ساتھ روا ركھى گئيں ان كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو سادہ لوح انسان ان كو حقيقت سمجھ كر قبول كر ليتے_

حضرت علىعليه‌السلام سے جو اتہامات منسوب كئے گئے ان ميں سے ايك يہ بھى تھا كہ آپعليه‌السلام كو اپنے سے پہلے كے خلفاء سے حسد و بغض تھا اور ان كے خلاف شورش كرنا چاہتے تھے اگر اس كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو عين ممكن تھا كہ سپاہ عراق ميں تفرقہ پيدا ہوجاتا چنانچہ يہى جہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس سازش كو روكنے كى غرض سے اپنے منطقى و مستدل بيان سے معاويہ كو جواب ديا(۳) _

حجاز كى جانب دراز دستي

حضرت علىعليه‌السلام كى يہى كوشش تھى كہ معاويہ كے ساتھ جو اختلافات ہے وہ مسالمت آميز طريقے سے حل ہوجائيں اور وہ قتل و خون ريزى كے بغير حق و انصاف كے سامنے سر تسليم خم كردے ليكن اس كے بر عكس معاويہ پورى سنجيدگى سے حالات كى برہمى و آشفتگى اور مسلمانوں ميں باہمى اختلاف و گروہ بندى كى كوشش كرتا رہا چنانچہ اس نے اپنے سياسى اقتدار كو تقويت دينے كے لئے

۱۷۴

سر برآوردہ افراد اور سرداران قبائل كو خط لكھنے شروع كئے تا كہ اس طريقے سے حجاز اس كى دسترس ميں آجائے_

اس سلسلے ميں اس نے عمروعاص سے مشورہ كيا اور كہا كہ اس اقدام كے ذريعے ہميں دو نتائج ميں سے ايك حاصل ہوگا يا تو ہم اپنے مقصد ميں كامياب ہوجائيں گے اور انھيں اپنا ہم خيال بناليں گے يا تو كم از كم ان كے درميان شك و ترديد تو پيدا كرديں گے تا كہ وہ علىعليه‌السلام كو مدد دينے سے باز رہيں _

ليكن عمروعاص كى رائے ميں يہ اقدام موثر نہ تھا كيونكہ اس كا خيال تھا كہ جن افراد كو خط لكھا جا رہا ہے وہ يا تو حضرت علىعليه‌السلام كے طرفدار ہيں ظاہر صورت ميں انھيں خط لكھنے سے ان كى نظر و بصيرت ميں اضافہ ہوگا اور وہ بيشتر علىعليه‌السلام كى حامى و طرفدار ہوجائيں گے يا پھر وہ لوگ ہى جو عثمان كے جانبدار ہيں انھيں خط لكھنے سے كوئي فائدہ نہيں كيونكہ وہ جو كچھ بھى ہيں خط سے ان پر مزيد كوئي اثر ہونے والا نہيں ،رہے وہ لوگ جو ہر طرف سے لاتعلق ہيں انھيں بھى تم سے زيادہ علىعليه‌السلام پر اعتماد ہے_

ليكن معاويہ اپنے فيصلے پر پورى سنجيدگى سے قائم رہا بالاخر دونوں نے مشتركہ طور پر اہل مدينہ كو لكھا اور اس ميں انہوں نے يہ اتہام لگايا كہ عثمان كے قاتل علىعليه‌السلام ہيں چنانچہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے درخواست كى كہ عثمان كے قاتل ان كے حوالے كئے جائيں اور اس سلسلے ميں اہل مدينہ سے مدد چاہي_(۴)

مذكورہ بالا خط كے علاوہ انہوں نے سعد بن ابى وقاص ،عبداللہ بن عمر اور محمد بن مسلمہ جيسے سر برآوردہ لوگوں كو بھى خطوط لكھے كہ جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر لى تھي_

اس اقدام سے معاويہ كا مقصد و مدعا يہ تھا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو داخلى مشكلات و كشمكش سے دوچار كردے كيونكہ وہ جانتا تھا كہ اگر اپنے مقصد ميں كامياب ہوگيا تو اسے دو جانبہ فتح و كامرانى حاصل ہوگى اول تو يہ كہ وہ سربرآوردہ اشخاص كى حمايت حاصل كرلے گا اور دوسرى طرف اس كے اس اقدام سے مركزى حكومت كو كارى ضرب لگے گي_

۱۷۵

ليكن معاويہ كو جيسا كہ عمروعاص نے پيشين گوئي كى تھى كاميابى حاصل نہ ہوئي كيونكہ جن اشخاص كو خطوط لكھے گئے تھے انہوں نے منطقى و مدلل جواب كے ساتھ ان كى درخواست كو رد كرديا_(۵)

نمايندے كى روانگي

اس سے پہلے كہ جنگ و جدال كى نوبت آئے حضرت علىعليه‌السلام ہر اس طريقے كو بروئے كار لائے جس كے ذريعے اہل شام بيدار ہو سكيں اور معاويہ كو شورش و سركشى سے باز ركھا جاسكے اسى مقصد كے تحت انہوں نے ''خفاف بن عبداللہ '' كو معاويہ كے پاس بھيجا كيونكہ خفاف ميں شاعرانہ مزاح جاتا پايا تھا اور فطرتا بولنے والے واقع ہوئے تھے شام پہنچنے كے بعد انہوں نے اپنے چچا زاد بھائي '' حابس بن سعد'' كو جو قبيلہ طيى ّ كے سردار تھے اپنے ساتھ ليا اور دونوں مل كر معاويہ كى طرف روانہ ہوئے اور عثمان كے واقعہ قتل كى پورى تفصيل اس كے سامنے بيان كى اس كے بعد انہوں نے يہ بھى بتايا كہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كس طرح متمنى و خواہش مند تھے ساتھ ہى انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ و كوفہ كى جانب روانگى كى مفصل كيفيت بيان كى اور مزيد كہا كہ اس وقت بھى بصرہ ان كى ہاتھ ميں ہے اور كوفہ ميں تمام طبقات كے لوگ جن ميں بچے، سن رسيدہ خواتين ، نئي دلہينں و غيرہ شامل ہيں پورے جوش و خروش سے آپ كا استقبال كرنے كے لئے شاداں و خندان آئے اور ميں جس وقت ان كے پاس روانہ ہوا تھا ان كے سامنے شام كى جانب آنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا(۶) _معاويہ نے جب يہ كيفيت سنى تو اس پر خوف طارى ہوگيا اور ان لوگوں كى موجودگى ميں جو ان كے گرد جمع تھے اسے اپنى شكست كا احساس ہوا ناچار اس نے حابس سے كہا كہ لگتا ہے كہ يہ شخص علىعليه‌السلام كا جاسوس ہے اسے اپنے پاس سے آگے چلتا كر كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ شام كے لوگوں كو گمراہ كردے _(۷)

۱۷۶

مہاجرين و انصار سے مشورہ

جب حضرت علىعليه‌السلام كو يہ يقين ہوگيا كہ اب يہ طوفان دبنے والا نہيں اور معاويہ اپنے ارادے سے بازنہ آئے گا تو ناچار انہوں نے فيصلہ كيا كہ مقابلے كيلئے اقدام كريں چنانچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے طريق كا ر پر عمل كرتے ہوئے آپعليه‌السلام نے جنگ سے قبل اپنے مہاجرين اور انصار اصحاب سے مشورہ كيا حضرت علىعليه‌السلام كے پيروكاروں نے مختلف افكار و خيالات كا اظہار كيا جن ميں بيشتر افراد كى رائے يہى تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے اقدام كيا جائے كچھ لوگوں نے كہا كہ جتنا جلدى ہوسكے اس بارے ميں فيصلہ كر ليا جائے مگر ان ميں ايسے لوگ بھى تھے جو چاھتے تھے كہ پہلے مسالمت آميز طريقہ اختيار كيا جائے اور اگر حريف اپنى عناد پسندى اور سركشى پر قائم رہا تو جنگ شروع كى جانى چاھيئے_(۸)

سب سے آخر ميں سہل بن حنيف اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے حاضرين كى نمايندگى كرتے ہوئے كہا كہ '' اے امير المومنين آپ جس كے ساتھ صلح و آشتى چاہيں گے ہم اس كے ساتھ صلح و آشتى كريں گے ہمارى رائے اور مرضى وہى ہے جو آپ كى ہے ہم سب دست راست كى مانند آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں _(۹)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے عام لوگوں كو آمادہ كرنے كى خاطر خطبہ ديا اور لوگوں ميں جہاد كرنے اور صفين كى جانب روانہ ہونے كيلئے جوش دلايا آپ نے فرمايا : سيرو الى اعداء اللہ سيروا الى اعداء السنن و القران سيروا الى بقية الاحزاب قتلة المہاجرين و الانصار(۱۰) چلو دشمنان خدا كى طرف ،چلو سنت و قرآن كے دشمنوں كى جانب ان لوگوں كى طرف جو باطل كے گروہ ميں سے بچ گئے ہيں جو مہاجرين و انصار كے قاتل ہيں _

اس اثناء '' بنى فزارہ '' قبيلے كا '' اربد'' نامى شخص اٹھا جو بظاہر معاويہ كا ہمنوا اور اس كا جاسوس تھا اس نے كہا كہ كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ ہميں اپنے شامى بھائيوں كے خلاف جنگ كرنے كے ليئے لے جائيں ؟ بالكل اسى طرح جيسے آپ برادران بصرہ كے خلاف ہميں لے گئے تھے خدا كى

۱۷۷

قسم ہم ہرگز ايسا كوئي اقدام نہيں كريں گے_

حضرت مالك اشتر نے جب يہ ديكھا كہ يہ شخص مسلمانوں كى صفوں كو درہم برہم كرنا چاہتا ہے تو انہوں نے بلند آواز ميں كہا_ ہے كوئي جو ہميں اس كے شر سے نجات دلائے؟ اربدى فزارى نے جيسے ہى مالك اشتر كى آواز سنى تو خوف كے مارے بھاگ نكلا لوگوں نے اس كا تعاقب كيا اور بالاخر بيچ بازار ميں اسے پكڑليا اور گھونسوں لاتوں ،اور شمشير كى نيام سے اسے اتنا مارا كہ اس كى جان ہى تن سے نكل گئي _(۱۱)

عمومى فوج

جب حضرت علىعليه‌السلام نے سركشوں اور شورش پسندوں كے خلاف جہاد كرنے كے لئے رائے عامہ كو ہموار كر ليا تو آپعليه‌السلام نے مختلف مناطق ميں اپنے كارپردازوں كو فوجى فرمانداروں اور عاملين محصول كو خطوط لكھے جن ميں انھيں ہدايت كى گئي كہ اپنے اپنے علاقوں ميں وہ لوگوں كو اس جہاد مقدس ميں شركت كى دعوت ديں اور جو لوگ متمنى ہيں انھيں مركز كى جانب روانہ كيا جائے_(۱۲)

لوگوں كے دلوں ميں جذبہ خلوص و قربانى كو تقويت دينے كى خاطر منبر مسجد پر تشريف لے گئے اور وہاں خطبہ صادر فرمايا_ خطبہ كے دوران بعض مقامات پر آپ نے يہ بھى فرمايا كہ معاويہ اور اس كے سپاہى باغى و سركش ہوگئے ہيں كيونكہ شيطان نے ان كى زمام اپنے دست اختيار ميں لے لى ہے اور پر فريب و عدوں سے انھيں گمراہ كرديا ہے تم خداوند تعالى كى داناترين مخلوق ہو اور اسنے جن چيزوں كو حلال و حرام قرار ديا ہے ان كے درميان تم خوب تميز كرسكتے ہو چنانچہ جو تم جانتے ہو اس پر اكتفاء كرو اور خدا نے جن چيزوں سے گريز كرنے كے لئے كہا تم ان سے اجتناب كرو_(۱۳)

حضرت علىعليه‌السلام كے خطبے كے بعد آپ كے دونوں فرزند دلبند حضرت امام حسن اور حضرت امام حسين (عليہما السلام) نے بھى اس مسئلے كى اہميت كو واضح و روشن كرنے كے غرض سے بصيرت افروز تقارير كيں _

۱۷۸

حضرت امام حسنعليه‌السلام كے بعض ارشادات عاليہ ميں آيا ہے كہ معاويہ اور ان كے سپاہى تيار ہوچكے ہيں خيال رہے تم ہرگز كنارہ كشى نہ كرنا كيونكہ كنارہ كشى اور احساس كمترى دلوں كو ايك دوسرے سے جدا كرديتے ہيں نوك نيزہ كے سامنے سينہ سپر ہونا عزت شجاعت اور پاكدامنى كى علامات ہيں _(۱۴)

امام مجتبىعليه‌السلام نے عام خطبہ صادر كرنے كے علاوہ ان لوگوں سے بھى شخصاً ملاقات كى جن كا ارادہ جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرنے كا تھا چنانچہ انھيں سمجھا كر صف مجاہدين ميں لے آئے_(۱۵)

حضرت امام حسينعليه‌السلام نے تقرير كرنے كے علاوہ لوگوں كوراہ خدا ميں جہاد كرنے كى ترغيب دلائي اور انھيں بعض آداب فن حرب و جنگ بھى سكھائے اور سب كو اتحاد و يگانگى كى دعوت دي_(۱۶)

جب حضرت علىعليه‌السلام اور ان كے دونوں فرزند ارجمند كى تقارير اختتام پذير ہوئيں تو اكثر و بيشتر لوگ نبرد آزمائي كيلئے آمادہ ہوچكے تھے ليكن عبداللہ بن مسعود كے ساتھى عليحدہ رہے چنانچہ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہنے لگے كہ ہم جنگ ميں آپ سے لا تعلق رہيں گے ليكن جب ہميں جداگانہ طور پر جگہ مل جائے گى تو قريب آكر آپ اور شام كے لشكر كو ديكھيں گے اور دونوں ميں سے جو بھى غير مشروع مقصد كى جانب جائے گا يا جس كا ظلم و ستم ہميں نظر آئے گا ہم اس كے خلاف جنگ كريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے افكار و خيالات كى ستائشے كى اور فرمايا كہ دين ميں اسى كا نام فہم و فراست ہے اور يہى سنت سے آگاہى و واقفيت ہے_

عبداللہ كے دوسرے ساتھيوں نے جو چار سو افراد پر مشتمل تھے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ ہم آپ كى فضيلت و برترى سے بخوبى واقف ہيں اور يہ بھى جانتے ہيں كہ ہم سب كو دشمن سے نبرد آزما ہونے كى آرزو ہے مگر اس كے ساتھ ہى ہميں اس جنگ كے بارے ميں شك و تردد ہے ہمارى

۱۷۹

مرضى تو يہ ہے كہ آپ عليه‌السلام ہميں اسلامى مملكت كى سرحدوں پر بھيجديں تا كہ وہاں پہنچ كر ہم اسلام كا دفاع كرسكيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں ربيع بن خيثم كى فرماندارى ميں علاقہ رى كى سرحد پر بھيجديا_(۱۷)

قبيلہ '' باہلہ'' ميں بھى ايسا گروہ موجود تھا جس كا حضرت علىعليه‌السلام كے مكتب فكر كى جانب كوئي خاص ميلان نہ تھا چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے بموجب وہ جنگ سے كنارہ كش ہوگيا كيونكہ ايسے لوگوں كى جہاد ميں شركت جن كا كوئي مقصد و ارادہ نہ ہو اور عقيدہ بھى ان كا سُست ہو تو وہ نہ صرف محاذ حق كو تقويت نہيں پہنچاتے بلكہ بسا اوقات دوسرے سپاہيوں كا حوصلہ پست كرنے كا سبب ہوتے ہيں اور ايسى صورت ميں كہ وہ قيد كرلئے جائيں تو بہت سے فوجى راز دشمن تك پہنچاديتے ہيں يا خود دشمن ہى انھيں يہ موقع فراہم كرديتا ہے كہ وہ اس كے ليئے اپنے وطن ميں خدمات انجام ديں _

شايد ان دلائل كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اپنے پاس بلايا اور ان كى جو مزدورى يا تنخواہ ہوسكتى تھى وہ ادا كرنے كے بعد انھيں حكم ديا كہ '' ديلم'' كى جانب مہاجرت كرجائيں _(۱۸)

كمانڈروں كا تقرر

حضرت علىعليه‌السلام نے تمام بنيادى كام انجام دينے كے بعد لشكر كى روانگى كا فيصلہ كيا چنانچہ آپ كى فرمايش كے مطابق '' حارث بن اعور'' نے كوفہ ميں اعلان كيا كہ تمام لشكر'' نُخَيلة''كى جانب روانہ ہوجائے اور شہر سے باہر خيمے بپا كرلے كوفہ كے حاكم شہر '' مالك بن حبيب'' كو اس كام پر مقرر كيا گيا كہ وہ سپاہ عسكر كے درميان ہم آہنگى پيدا كريں اور انھيں لشكرگاہ كى جانب روانہ كرنے ميں مدد كريں عقبہ بن عمرو انصارى حضرت علىعليه‌السلام كے جانشين كى حيثيت سے كوفہ ميں ہى مقيم رہے_

ان اقدامات كى تكميل كے بعد امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام اپنے لشكر كے ہمراہ لشكرگاہ كى جانب

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

میں ابن حجرنے اس لئے ان کا نام اپنی کتاب کے اس حصہ میں لکھا ہے اور اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ فتوح ( وہ جنگیں جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد انصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیات میں واقع ہوئی ہیں ) میں صحابی کے علاوہ ہرگز کسی کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپتے تھے۔

ابن مسکویہ نے بھی کہا ہے کہ سماک بن خرشہ غیراز ابودجانہ کا نام شہر رے کی فتح میں لیا گیا ہے (ز) ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اسی طرح ابن حجر نے سیف کی انہی روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے سماک بن عبید عبسی کو اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر الگ سے شرح لکھی ہے وہ اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

اس کا نام گزشتہ شرح میں آیا ہے ...ہمدان کی فتح میں بھی اس کا تذکرہ کیا گیا ہے

سماک بن مخرمہ بھی اس فیض و برکت سے محروم نہیں رہا ہے ابن حجر اور دوسروں نے سیف کی روایتوں پر اسی گزشتہ اعتماد کی بناء پر سماک بن مخرمہ کو بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے قبول کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کیلئے الگ سے شرح لکھی ہے ۔

اس طرح ابن حجر نے ان تین افراد کو سیف کے کہنے کے مطابق کہ سپہ سالار تھے اسی وجہ سے ، اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے اور خصوصی طور پر اس دلیل کی صراحت کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے لکھتا ہے :

میں نے اس لئے ان کو اپنی کتاب کے اس حصہ میں درج کیا ہے کہ اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ '' جنگوں '' میں صحابی کے علاوہ کسی کو کسی صورت میں سپہ سالار کے عہدہ پر مقرر نہیں کرتے تھے ۔

اس لحاظ سے ، ابن حجر کی نظر میں سیف کے ان تین جعلی صحابیوں کے اصحاب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ، کیونکہ وہ سپہ سالاری کے عہدہ دار تھے !!١

ابن حجر ، سیف کی مخلوق سماک کے بارے میں اپنی بات کو حرف '' ز'' پر خاتمہ بخشتا ہے تا کہ یہ دکھائے کہ اس نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں دیگر تذکرہ نویسوں کی نسبت اضافہ کیاہے۔

۲۲۱

ابن عبد البر نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور '' سماک بن مخرمۂ اسدی'' کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ ' ' سماک بن مخرمۂ اسدی '' ، '' سماک بن عبید عبسی'' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ( غیر از ابو دجانہ ) وہ پہلے عرب سردار تھے جنہوں نے '' دستبی '' کی فوجی چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے ۔

ابن اثیر نے کتاب ' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے اپنی '' تجرید'' میں ان مطالب کو نقل کرنے میں ابن عبد البر کی تقلید کی ہے ۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کتاب '' اصابہ '' میں ابن حجر کے کہنے کے مطابق '' ابن مسکویہ '' نے بھی تینوں سماک کے بارے میں یہی مطالب لکھے ہیں ۔

ابن ماکولا اپنی کتاب '' اکمال'' میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے نقل کیاہے کہ سماک بن خرشہ انصاری غیر از ابودجانہ ، سماک بن مخرمۂ اسدی اور سماک بن عبید عبسی ، عمر کی خدمت میں پہنچے ہیں ۔ یہ وہ پہلے عرب سردار ہیں جنہوں نے دیلمیوں سے جنگ کی ہے ۔

طبری نے بھی مذکورہ روایت کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ، اور ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون اور دوسرے تاریخ نویسوں نے بھی طبری کی تقلید کرتے ہوئے سیف کے انہیں مطالب کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

انہی روایتوں کی وجہ سے ابن فتحون غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور ایسا خیال کیا ہے کہ جس سماک نے امیر المؤمنین علی کے ہمراہ جنگ صفین میں شرکت کی ہے وہ وہی سیف کا جعل کردہ سماک ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ صفین کی جنگ میں شرکت کرنے والا سماک '' جعفی'' جو اور انصار میں سے نہیں تھا۔

تاریخی حوادث کے سالوں میں تبدیلی ، وقائع و رودادوں میں تحریف ، کرداروں کی تخلیق ، قصے اور افسانے گڑھنا اور انہیں تاریخ کی اہم اور فیصلہ کن رودادوں کی جگہ پیش کرناسب کے سب سیف اور اس کی روایات کی خصوصیات ہیں تا کہ مسلمانوں کیلئے تشویش اور پریشانی فراہم کرکے انھیں تاریخی حقائق تک پہنچنیسے روکے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ سیف اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوا ہے۔ گزشتہ بارہ صدیوں سے زیادہ زمانہ گزر چکا ہے اور اس پورے زمانے میں اس کے تمام افسانے اور جعل کئے گئے مطالب معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں درج ہوچکے ہیں جس کے نتیجہ میں آج عالم اسلام کے علماء و محققین تشویش اور پریشانی سے دوچار ہیں ۔

۲۲۲

سیف کے ہم نام اصحاب کا ایک گروہ

اس بحث میں ہم سیف کے دو جعلی اصحاب کے حالات کی تشریح کریں گے جن کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی دو اصحاب کے مشابہ ہیں ۔ سیف نے ان دو ناموں کا انتخاب کرکے ان کیلئے داستان گڑھ کر اسلام کی تاریخ میں درج کرائی ہے ہم ان کے بارے میں حسبِ ذیل وضاحت کرتے ہیں :

١۔ خزیمہ بن ثابت انصاری ( غیر از ذو الشہادتین ) سیف نے '' خزیمہ بن ثابت انصاری ذو الشہادتین '' کے ہم نام جعل کیاہے اور اس کے لئے الگ سے ایک داستان گڑھ لی ہے ۔

٢۔ سماک بن خرشۂ انصاری ( غیراز ابودجانہ کہ سیف نے اسے '' سماک بن خرشۂ انصاری ابودجانہ کے ہم نام جعل کیا ہے ۔ گزشتہ شرح کے مطابق اس کیلئے بھی الگ سے ایک داستان گڑھی ہے۔

سیف نے صرف ان دو اصحاب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی اصحاب کے ہم نام خلق کرنے پر اکتفاء نہیں کی ہے بلکہ ہم نے دیکھا اور مزید دیکھیں گے کہ اس نے اصحاب اور معروف شخصیتوں کے ہم نام حسبِ ذیل کردار بھی خلق کئے ہیں :

٣۔ زر بن عبدا للہ بن کلیب فقیمی کو ''زر بن عبد اللہ کلیب فقیمی شاعر '' کے ہم نام خلق کیا ہے کہ جو جاہلیت کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا۔

٤۔ جریر بن عبد اللہ حمیری کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کیاہے اور جریر بن عبد اللہ بجلی کے بعض کارناموں کو بھی اس سے نسبت دی ہے ۔

٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی کو '' وبر بن یحنس کلبی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٦۔ حارث بن یزید عامری کو بنی لوئی کے '' حارث بن یزید عامری قرشی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٧۔ حارث بن مرۂ جہنی کو '' حارث بن مرۂ عبدی یا فقعسی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٨۔ بشیر بن کعب حمیری کو '' بشیر بن کعب عدوی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

۲۲۳

جب کہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے صرف کردار ادا کرنے والے ، انسان اور صحابیوں کے نام پر ہی افراد خلق کرنے پر اکتفا نہیں کیے ہیں بلکہ اس نے ایسے مقامات بھی خلق کی جو کرۂ ارض پر موجود دوسری جگہوں کے ہم نام ہیں ، جیسے '' جعرانہ '' و نعمان '' جو حجاز میں واقع تھے اور سیف نے ان کے ہم نام اپنی جعلی روایتوں اور اخبار کے ذریعہ انھیں عراق میں خلق کیا ہے ۔ یاقوت حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرکے ان مقامات کا نام اور ان کی تشریح اپنی کتاب ' ' معجم البلدان '' میں درج کی ہے۔

افسانۂ سماک کو نقل کرنے والے راوی اور علما

سیف نے اپنے سماک بن خرشہ کے افسانہ کو درج ذیل روایوں سے نقل کیا ہے ۔

١۔ ٢ - محمد اور مھلب جو اس کے جعلی راوی ہیں ۔

٣ تا ٦- طلحہ ، عمرو ، سعید و عطیہ کو ذکر کیا ہے جو مجہول ہیں اور ہمیں معلوم نہ ہوسکا یہ کون ہیں تا کہ ان کی پہچان کرتے۔

جن علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کے افسانوں کو نقل کرکے '' افسانہ سماک '' کی اشاعت میں مدد کی ہے ، حسب ذیل ہیں :

١۔ امام المؤرخین محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں سماک بن مخرمہ کے حالات کی تشریح میں ۔

٣۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ' ' اسدا الغابہ'' میں '' سماک بن مخرمہ '' کے حالات کی تشریح میں ۔

٤۔ ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں سماک بن خرشہ کے حالات کی تشریح میں ۔

٥۔ ابن فتحون نے استیعاب کے حاشیہ پر لکھا ہے ۔

٦۔ ابن مسکویہ نے ابن حجر کی '' اصابہ '' کے مطابق ۔

٧۔ اب ماکولا نے اپنی کتاب '' اکمال '' میں

٨۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ۔

٩۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں

۲۲۴

١٠۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں ۔

١١۔ امیر شکیب نے ابن خلدون کی تاریخ پر لکھی گئی تعلیق میں جسے گزشتہ علماء سے نقل کیا ہے ۔

١٢۔ سید شرف الدین نے اپنی کتاب فصول المہمہ میں شیعوں کے نام کے ذکر میں حرف سین کے ذیل میں لکھا ہے :

'' اور سماک بن خرشہ بظاہریہ ابودجانہ کے علاوہ ہے ۔

مصادر و مآخذ

ابودجانہ انصاری کا شجرۂ نسب :

١۔ ابن حزم کی '' جمہرہ '' ص ٣٦٦۔

٢۔ استبصار ص ١٠١

ابو دجانہ کے حالات میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصلی شرط:

١۔ استیعاب ، طبع حیدر آباد (٢ ٥٦٦ ) نمبر : ٢٤٥١اور (٢ ٦٤٣) نمبر : ١١٠

٢۔ذہبی کی تاریخ اسلام (١ ٣٧١) پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زبیر کو تلوار دینے میں پرہیز کرنا ان دو مصادر میں آیا ہے ۔

٣۔ تاریخ طبری ( ١ ١٣٩٧) زبیر کی روایت ، ابن اسحاق کی روایت کو اس کے بعد ذکر کیا ہے۔

٤۔ اس کے علاوہ '' سیرۂ ابن ہشام '' ( ٣ ١٢۔١١)

سماک بن خرشہ جعفی

١۔ نصر مزاحم کی '' کتاب صفین '' طبع اول مصر ( ٤٢٦)

٢۔ ابن حزم کی جمہرہ ص ٢٣٢ ۔ ٣٦٦ ، انصار کے نسب کے بارے میں جعفی کا نسب اسی ماخذ ٤٠٩ ، ٤١٠ میں

٣۔ حموی کی '' معجم البلدان '' مادۂ '' جعفی '' میں

٤۔ ابن درید کی '' استقاق '' (ص ٢٠٦ )

٥۔ ابن اثیر کی لسان العرب ( ٩ ٢٧از و اللباب )

۲۲۵

سیف کا سماک بن خرشہ غیر از ابودجانہ

١۔ '' تاریخ طبری ''' جنگ قادسیہ کے بعد واقع ہونے والے حوادث ( ١ ٢٣٦٣ ، ٢٣٦٤)

٢۔ تاریخ طبری ، ہمدان اور آذربائیجان کی فتح ( ١ ٢٦٥٠۔ ٦٣ ٢٦)

٣۔ تاریخ طبری ، سماک کی عراق پر حکومت (١ ٣٠٥٨)

٤۔ تاریخ ابن اثیر (٣ ١٠ -١١ و ٧٢)

٥۔ تاریخ ابن کثیر ( ٧ ١٢١۔ ١٢٢)

٦۔ تاریخ ابن خلدون ( ٢ ٣٥٤ ، و ٤٠٢)

٧۔ تاریخ ابن خلدون پر امیر شکیب کی تعلیق ( ٢ ٣٥٤)

٨۔ ابن ماکولا کی کتاب '' اکمال '' ( ٤ ٣٥٠)

٩۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٧٥) نمبر : ٣٤٦٥ سماک بن خرشہ غیر ازابودجانہ کے حالات کی شرح میں ۔

١٠۔ سید شرف الدین کی فصول المہمہ ١٨٢۔

ہمدان اور آذربائیجان کی فتح کی خبر ، سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں ۔

١۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (٢ ١٢٤) ٢٢ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

٢۔ تاریخ طبری ٢٢ھ کے حوادث ( ١ ٢٦٤٧)

٣۔ بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ص ٤٠٠۔

داستان عروہ ، فتح رے اور اس کے حکام :

١۔ بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ص ٣٨٩ -٣٩٣ اور کثیر بن شہاب کی خبر اسی کے ص ٣٧٨ پر

۲۲۶

سماک بن عبید کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٧٦) نمبر : ٣٤٦٧

٢۔ تاریخ طبری اس کے بارے میں سیف کی روایت ( ١ ٢٦٣١) یاقوت حموی نے اس روایت کی طرف اشارہ کیاہے ۔

٣۔تاریخ طبری ( ١ ٢٦٥٠ ۔ ٢٦٥١ و ٢٦٦٠) سیف کے علاوہ دوسروں کی روایات (٢ ٣٩ ۔ ٤٢ ، ٤٥ و ٥٧)

سماک بن مخرمہ کے حالات

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدرآباد ( ٢ ٥٦٧) نمبر : ٢٤٥٣

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٢ ٣٥٣)

٣۔ ذہبی کی تجرید (١ ٢٤٦) نمبر: ٢٤٠٣۔

٤۔ ''اغانی'' طبع ساسی ١٠ ٨٠ سماک مخرمہ کے اخبار

٥۔ یاقوت حموی کی معجم البلدان لفظ '' مسجد سماک '' میں ۔

٦۔ تاریخ طبری( ١ ٢٦٥٠۔ ٢٦٥١ ، ٢٦٥٣ ، ٢٦٥٦ و ٢٦٥٩ -٢٦٦٠) سماک بن مخرمہ کے بارے میں سیف کی روایات ۔

۲۲۷

ساتواں حصہ

گروہ انصار میں سے چند اصحاب

*ابوبصیرہ

*حاجب بن زید

*سہل بن مالک

*اسعد بن یربوع

*ام زمل ، سلمی بنت حذیفہ

۲۲۸

انچاسواں جعلی صحابی ابو بصیرۂانصاری

ابن عبد البر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ابو بصیرہ کے تعارف میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے جنگِ یمامہ مسیلمہ کذاب سے جنگ میں شرکت کرنیو الے انصار کے ایک گروہ کے نام کے ضمن میں ابو بصیرہ کا نام لیا ہے اور کہا ہے خدا سے رحمت نازل کرے اس کے علاوہ اس کے بارے میں ایک داستان بھی نقل کی ہے ۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن اثیر نے کتاب اسد الغابہ میں ، ابن حجر نے '' اصابہ'' میں اور ذہبی نے کتاب '' تجرید'' میں ابو بصیرہ کے بارے میں ابن عبد البر کی عین عبارت '' استیعاب '' سے نقل کی ہے اور اس میں کس قسم کا اضافہ نہیں کیاہے ۔

مقدسی نے بھی ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کی ہے کہ سیف نے اس کا نام یمامہ کی جنگ میں شرکت کرنے والوں میں ذکر کیا ہے ۔

'' ابن ماکولا نے بھی ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیف بن عمر کہتا ہے کہ اس نے بنی حنیفہ کی جنگ ( وہی جنگ یمامہ ) میں شرکت کی ہے ۔

لیکن جس خبر کی طرف ابن عبد البر نے اشارہ کیا تھا ۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے اس نے'' ضحاک بن یربوع '' سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ ہم پیش کرتے ہیں :

سر انجام مسیلمہ کے حامی مقابلہ کی تاب نہ لاکر اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں شکست کھائی۔ اور مسیلمہ مارا گیا اور اس کے حامی تتر بتر ہوگئے اس طرح ان کے بلوہ اور فتنہ کا خاتمہ ہوا۔

ان میں بنی عامر سے ایک شخص موجود تھا ، جسے '' اغلب '' کہتے تھے ١ '' اغلب '' وقت کا غنڈہ ترین شخص شمار کیا جاتا تھا ۔ ہٹا کٹا دکھائی دیتا تھا۔

جب مسیلمہ کی فوج تہس نہس ہوگئی اور اس کے حامی بھاگ کھڑے ہوئے تو، '' اغلب'' جان بچانے کے مارے اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لاشوں میں گرادیا ۔ اس فتح کے بعد مسلمان دشمن کی لاشوں کا مشاہدہ کر رہے تھے ، اسی اثناء ان کی نظر ایک موٹے انسان اور غنڈہ '' اغلب '' پر پڑی ۔ لوگوں نے ابو بصیرہ سے مُخاطب ہوکر کہا :

تم مدعی ہو کہ تمہاری تلوار بہت تیز ہے اگر واقعاً ایسا ہے تو یہ '' اغلب '' کا مردہ جو زمین پر پڑا ہے،اس کی گردن کاٹ کر دکھاؤ!

ابو بصیر نے تلوار میان سے کھینچ لی اور آگے بڑھا تا کہ اپنے بازؤں کی قدرت اور تلوار کی

____________________

١۔سیف نے اس '' اغلب '' کو قبیلہ ٔ بکر بن وائل کے بنی عامر بن حنیفہ سے خلق کیا ہے اور اس کے بارے میں دکھایا گیا اس کا تعصب واضح ہے ، کتاب '' قبائل العرب ' ' کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۲۹

تیزی کا مظاہرہ کرے جب '' اغلب '' نے موت کے سائے اپنے سر پر منڈلاتے دیکھے تو اچانک اٹھ کر ابو بصیر پر جھپٹ پڑا اس کے بعد جان چھڑا کر تیزی سے بھاگ نکلا۔

ابو بصیرہ جو ایک لمحہ کیئے چونک گیا تھا ، اغلب کے پیچھے دوڑتے غیر ارادی طور پر فریاد بلند کررہا تھا: '' میں ابو بصیرہ انصاری ہوں '' لیکن اغلب جو کافی آگے بڑھ چکا تھا ، ابو بصیرہ کے جواب میں چیختے ہوئے بولا : اپنے کافر بھائی کے دوڑنے کو کیسا پایا ؟ اور اسی حالت میں نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔

افسانۂ ابو بصیرہ کے مآخذ

سیف بن عمر نے اس افسانہ کے راوی کے طور پر '' ضحاک بن یربوع '' کو اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے پیش کیا ہے ۔

طبری نے سیف کے ذریعہ اسی ضحاک سے چار روایتیں اور ابن حجر نے '' اقرع '' کے حالات کی تشریح میں سیف سے نقل کرکے اس سے صرف ایک روایت نقل کی ہے ۔

ہم نے اس ضحاک کا کسی اسلامی ماخذ یا مصدر میں کوئی نام و نشان نہیں دیکھا صرف '' میزان الاعتدال '' اور '' لسان المیزان '' میں ضحاک کے حالات کی تشریح میں لکھا گیا ہے : کہ '' اس کی حدیث صحیح نہیں ہے ''۔ ازدی کی بات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات سے غافل تھا کہ ان تمام فتنوں کا سرچشمہ سیف بن عمر ہے جس نے اس قسم کی جھوٹی روایت کو بیچارہ '' ضحاک'' کی زبان پر جاری کیا ہے ورنہ '' ضحاک بن یربوع''' نام کے کسی شخص کے بالفرض وجود کی صورت میں بھی وہ قصوروار نہیں ہے۔

چونکہ ہمیں معتبر منابع میں '' ضحاک '' نام کے کسی راوی کا نام نہیں ملا، اسلئے ہم اسے راویوں کی فہرست سے حذف کرتے ہوئے سیف کا خلق کردہ صحابی جانتے ہیں ۔

۲۳۰

افسانۂ ابو بصیرہ کا نتیجہ

١۔ انصار میں سے ایک صحابی کی تخلیق جس نے یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔

٢۔ یمانی قحطانیوں کی رسوائی ، سیف ان کو اتنا بے لیاقت دکھاتا ہے کہ ایک عدنانی شخص جس نے ڈر کے مارے اپنے آپ کو مردہ جیسا بنا دیا تھا اور ان کے چنگل میں ہونے کے باوجود ، ان کی بے لیاقتی کی وجہ سے بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔

٣۔ ابو بصیرہ قحطانی کی ناتوانی دکھلانا جو مکررکہہ رہا تھا ، '' میں ابو بصیرہ انصاری ہوں '' اور وہ عدنانی جواب دیتا تھا '' اپنے کافر بھائی کے دوڑنے کو کیسا پارہے ہو؟!!

٤۔ ضحاک بن یربوع اور یربوع جیسے راوی خلق کرنا۔

مصادر و مآخذ

ابو بصیرہ کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' (٢ ٦٣٠) نمبر : ٥٠

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٥ ١٥٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '( ٢ ١٦٣)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٤ ٢٢) نمبر : ١٤٣

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٩٥٠)

٦۔ مقدسی کی کتاب '' استبصار'' ( ص ٣٣٨)

٧۔ ابن ماکولا کی کتاب '' اکمال '' ( ١ ٣٢٨)

ضحاک بن یربوع کے حالات

١۔ میزان الاعتدال ( ٢ ٣٢٧)

٢۔ ابن حجر کی '' لسان المیزان '' (٣ ٢٠١)

مراجع :

١۔ رضا کحالہ کی قبائل العرب ( ٢ ٧٠٦)

۲۳۱

پچاسواں جعلی صحابی حاجب بن زید یا یزید انصاری اشہلی

ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں حاجب کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

حاجب '' بنی عبد الاشہل '' میں سے تھا ۔ اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ وہ '' بنی زعواراء بن جشم '' کی نسل سے عبدا لاشہل جشم کا بھائی اور '' اوسی'' تھا جو یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

حاجب قبیلۂ '' اَزْد'' کے ''شَنَوْئَ'' کا ہم پیمان تھا ۔ '' خدا اس سے راضی ہو '' ( عبد البر کی بات کا خاتمہ)

بالکل انہی باتوں کو ابن اثیر جیسے عالم نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے ''تجرید '' میں کسی کمی و بیشی کے بغیر درج کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی ایسا ہی ظاہر کیا ہے ، لیکن آخر میں حسب ذیل اضافہ کیا ہے:

سیف نے طائفہ '' بنی الاشہل '' کے جنگ یمامہ میں قتل ہوئے افراد کی فہرست میں ''حاجب '' کا نام بھی لیا ہے ۔ یہ افراد ہیں اور حاجب بن زید ۔ اس کے علاوہ اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

ہم نے اس نام کو تلاش کرنے کیلئے موجود تمام تاریخ اور انساب کے معتبر مصادر میں زبردست جستجو و تلاش کی لیکن تاریخ طبری کے علاوہ کہیں اور اس کا سراغ نہ مل سکا۔

لیکن طبری قادسیہ کی جنگ کے اخبار کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے : قادسیہ کی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے ایک اور شخص حاجب بن زید تھا

ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ قادسیہ کی جنگ میں خاک و خون میں غلطاں ہونے والے اس حاجب بن زید سے سیف کی مراد وہی حاجب ہے جو یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ، یا یہ کہ اسے دوشخص شمار کیا ہے۔

دوسرے الفاظ میں ، وہ بھول گیا ہے کہ اس حاجب کو اس نے دس سال پہلے یمامہ کی جنگ میں موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ، یا یہ کہ اس نے دو اشخاص کو ہم نام خلق کیا ہے ان میں سے ایک ''حاجب بن زید '' ہے جسے یمامہ کی جنگ میں مروا دیا ہے اور دوسرا ''حاجب بن زید '' وہ ہے سجے قادسیہ کی جنگ میں قتل کروایاہے ؟!!

۲۳۲

بہر حال خواہ سیف نے فراموش کیا ہو یا نہ کیا ہو، ہمارے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم نے اس حاجب بن زید کو سیف بن عمر اور اس کی روایات کی اشاعت کرنے والے علماء کے علاوہ تاریخ ، ادب ، انساب اور حدیث کے کسی منبع اور مصدر میں نہیں پایا ۔ اس لحاظ سے اس کو سیف کے خیالات کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔

ضمناً سیف نے جو داستان اس حاجب کے لئے گڑھی ہے اس میں اس کا وہی مقصد ہے یمانی قحطانی ان چیزوں سے موصوف ہوں ، کیونکہ سیف کے نقطہ نظر میں جنگی کمالات' کامیابیاں ، میدان کارزار سے صحیح و سالم نکلنا اور دیگر افتخارات غرض جو بھی برتری و سربلندی کا باعث ہو وہ تمیم ،مضر اور قبیلۂ عدنان کے افراد سے مخصوص ہے کسی دوسرے کو اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ کسی یمانی قحطانی کوکوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس قسم کے افتخارات اور کامیابیوں کے مالک ہوں ، مگر یہ کہ خاندان مضر کے سرداروں کے زیر فرمان خاک و خون میں غلطان ہوں اور یہ لیاقت پائیں کہ ان کے رکاب میں شہید ہونے والے شمار ہوجائیں !!!

لیکن،سیف نے اس حاجب کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ ''بنی اشہل'' ہے اور'' بنی اشہل '' و '' جشم'' اوس سے حارث بن خزرج کے بیٹے ہیں ، اور '' ازدشنوئ'' یعنی قبائل ''ازد'' کے وہ افراد جو ''شنوئ'' میں ساکن تھے۔ یہ ازد میں سے ایک قبیلہ ہے سکونت کے لحاظ سے وہ ''شنوء '' کے باشندے تھے (جو یمن کے اطراف میں واقع ہے ۔) یہ لوگ اس جگہ سے منسوب ہوئے ہیں اور تینوں قبیلے یمانی قحطانی ہیں ۔

مصادر و مآخذ

حاجب بن زید کے بارے میں درج ذیل مصادر و مآخذ کی طرف رجوع کیا جائے :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ١٣٨) نمبر : ٥٧٣

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ١ ٣١٥)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٠١)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ١ ٢٧٢) نمبر :١٣٦٠

٥۔ تاریخ طبری ( ١ ٢٣١٧ ) اور ( ١ ٢٣١٩)

٦۔ تاریخ ابن اثیر ( ٢ ٣٧٠)

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ انساب العرب '' ( ٣١٩ ۔ ٣٢٠)

٨۔ قبائل العرب ( ١ ١٥٥) اور ٢ ٣٧٤ ) اور (٢ ٧٢٢)

۲۳۳

اکاونواں جعلی صحابی سہل بن مالک انصاری

سہل ، کعب بن مالک کا ایک بھائی

اس جعلی صحابی کے حالات کی تشریح میں ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں یوں آیا ہے :

'' سہل بن مالک بن ابی کعب ١ بن قین '' انصاری رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معروف شاعر '' کعب بن مالک ' کا بھائی ہے ۔

ابن حبان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سہل کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے ۔

سیف بن عمر نے ابو ہمام' سہل بن یوسف بن سہل ٢ بن مالک سے نقل کیا ہے اور اس نے اپنے باپ سے اور اپنے جد سے روایت کی ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے مدینہ واپس آنے کے بعد منبر پر تشریف لے جا کر فرمایا:

اے لوگو! ابو بکر نے کبھی بھی میرا دل نہیں دکھایا ہے اور

____________________

١۔ ابو کعب کا نام عمرو تھا ۔

٢۔سہل بن مالک کا نام ہمارے پاس موجود اصابہ کے نسخہ میں نہیں آیا ہے لیکن ابن حجر کی '' لسان المیزان '' میں درج کی گئی روایت کی سند میں ذکر ہوا ہے ۔

۲۳۴

ابن حجر نے علمِ رجال میں لکھی گئی اپنی کتاب ' ' لسان المیزان '' میں لکھا ہے کعب بن مالک کے بھائی ، سہل بن یوسف بن سہل بن مالک نے اپنے باپ سے اااس نے اپنے جد سے یوں روایت کی ہے۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس مدینہ لوٹے تو منبر پر تشریف لے جا کر بارگاہ الٰہی میں حمد و ثناء فرمایا:

اے لوگو! میں ابو بکر عمر اور عثمان سے راضی ہوں اے لوگو ! اپنی زبانیں مسلمان کو برا بھلا کہنے سے روک لو ، جب ان میں سے کوئی اس دنیا سے چلا جائے تو اس کے بارے میں خوبی کے سوا کچھ نہ کہنا ! ابن حجر نے مذکورہ بالا مطالب بیان کرنے کے بعد لکھا ہے :

سیف بن عمر نے اس حدیث کو اسی صورت میں سہل بن یوسف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے ۔

سہل اور اس کے نسب پر ایک بحث

سیف نے اس روایت کو ایک ایسے راوی کی زبانی نقل کیا ہے جس کا نام اس نے '' ابوہمام سہل'' رکھا ہے اس نے اپنے باپ یوسف سے اور اس نے اپنے جد سہل بن مالک سے روایت کی ہے اور سہل کا تعارف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کعب بن مالک کے بھائی کے عنوان سے کہا ہے ۔ یعنی سیف نے کعب بن مالک انصاری کے نام پر ایک معروف صحابی اور حقیقت میں وجود رکھنے والے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کیلئے ایک بھائی خلق کیا ہے اور اس نام '' سہل بن مالک '' رکھا ہے اس طرح اس نے بالکل وہی کام انجام دیا ہے جو اس سے پہلے '' طاہر ، حارث اور زبیر '' ابو ہالہ ١ کو خلق کرنے میں انجام دیا تھا اور تینوں کو ابو ہالہ اور ام المؤمنین خدیجہ کے بیٹے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے اور پروردہ کی حیثیت سے خلق کیا تھا یا مشہور ایرانی سردار ہرمزان کیلئے '' قماذبان '' ٢ نام کا ایک بیٹا خلق کیا تھا' وغیرہ وغیرہ

لیکن بات یہ ہے کہ '' کعب بن مالک '' کا حقیقت میں سہل بن مالک انصاری نام کا نہ کوئی بھائی تھا ، نہ '' یوسف'' نام کا اس کا کوئی بھتیجا تھا اور نہ اس کے بھائی کا سہل نام کا کوئی پوتا تھا !

۲۳۵

سہل بن یوسف ، سیف کا ایک راوی

جو کچھ ہم نے بیان کیا ، اس کے علاوہ طبری نے سیف سے نقل کرکے سہل بن یوسف کی انتالیس یا چالیس روایتیں اپنی تاریخ کبیر میں درج کی ہیں جن میں سے چار روایتیں سہل کے باپ یعنی '' یوسف '' سے نقل ہوئی ہیں کہ ان میں سے ایک میں سہل کا نسب یوں ذکر ہوا ہے : '' سہل بن یوسف سلمی'' ۔

دوسرے مصنفین اور علماء جنہوں نے اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، ''عبید بن صخر ، اور معاذ بن جبل '' کیلئے لکھے گئے حالات کی تشریح میں سیف بن عمر سے نقل کرکے سہل بن یوسف بن سہل کی چھ روایتیں عبید بن صخر سے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں ۔

____________________

١۔ اسی کتاب کی دوسری جلد ملاحظہ ہو۔

٢۔ کتاب عبدا للہ بن سبا جلد ١ ملاحظہ ہو۔

۲۳۶

آخر کی روایتوں میں سے ایک روایت میں سہل بن یوسف کا تعارف یوں کیا گیا ہے : '' سہل بن یوسف بن سہل انصاری''

اس تحقیق کا نتیجہ

مجموعی طور پر جو کچھ گزرا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے سہل کے خاندان کو اپنے خیال میں یوں خلق کیا ہے : '' ابوہمام ، سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری سلمی '' اور '' دادا '' سہل کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر صحابی کعب بن مالک انصاری کے بھائی کی حیثیت سے خلق کیا ہے یہی سبب بناہے کہ کتاب '' اصابہ '' کے مصنف ابن حجر نے سہل کو خاندان کعب کے نسب سے منسلک کرکے لکھا ہے : '' سہل بن مالک بن ابی کعب بن قین '' ، ابن حجر نے اس نسبت کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے جب کہ سہل کے خالق سیف بن عمر نے ایسا دعویٰ نہیں کیا اور اپنی مخلوق کو '' قین '' سے منسلک نہیں کیا ہے!! ١

قلمی سرقت

سیف نے مذکورہ روایت کو اپنی کتاب '' فتوح '' جو دوسری صدی کی پہلی چوتھائی میں تالیف ہوئی ہے میں بڑی آب و تاب کے ساتھ درج کیا ہے اور اپنے خاندانی تعصب و قبیلہ ٔ مضر خاص طور سے وقت کے حکام و دلتمندوں کے بارے میں منقبت و مداحی کی ایسی روایت درج کرکے ثابت کیا ہے ۔

____________________

١۔ جہاں تک سیف کی رواتیوں سے استفادہ ہوتا ہے ۔

۲۳۷

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ تیسری صدی ھجری کا '' خالد بن عمرو اموی کوفی ''آپہنچا اور ایک ادبی اور قلمی چوری کا مرتکب ہوتا ہے وہ سیف کی عین روایت کو اس کی کتاب سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے اور اس میں سیف اور اس کی کتاب کا کہیں نام نہیں لیتا گویا اس نے کسی واسطہ کے بغیرخود اس روایت کو سنا ہے ۔

خالد کا یہ کام اس بات کا سبب بناکہ اس کے بعد آنے والے علماء نے اسی روایت کو خالد کی کتاب سے لے کرکے گمان کیاہے کہ خالد تنہا شخص ہے جس نے ایسی روایت اپنی کتاب میں نقل کی ہے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ خالد سے تقریباً ایک صدی پہلے یہی روایت سیف بن عمر نام کے شخص کے ذہن میں پیدا ہوچکی ہے اور اس نے اسے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے ١

سہل کے افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

خالد کا یہ کام اس امر کا سبب بنا کہ مندرجہ ذیل علماء نے یہ گمان کیاہے کہ خالد بن عمرو اس روایت کو نقل کرنے والا وہ تنہا شخص ہے :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ) جو یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے میں خالد اکیلا ہے ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٩ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں لکھا ہے کہ :

یہ ایک تعجب خیز روایت ہے جسے میں نے اس راوی کے علاوہ کہیں نہیں پایا ہے ۔

____________________

١۔ کتاب '' روات مختلقون '' سلسلۂ روات کی بحث میں '' سہل بن یوسف بن سہل'' کے نام میں ملاحظہ ہو۔

۲۳۸

یعنی خالد بن عمرو کے علاوہ کسی دوسرے نے یہ روایت بیان نہیں کی ہے

٣۔ ابن عبدا لبر ( وفات ٤٦٣ھ) نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں لکھا ہے :

اس سہل بن مالک کی روایت کو صرف خالد بن عمرو نے نقل کیا ہے ١

بعضعلماء نے بھی مذکورہ روایت کو خالد کی کتاب سے نقل کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ خالد اس روایت کو نقل کرنے والا تنہا شخص ہے ، جیسے :

١۔ ابنوسی '' ( وفات ٥٠٥ھ ) نے اپنی کتاب فوائد میں ٢

ان میں سے بعض کی کتابوں میں کچھ راویوں کے نام لکھنے سے رہ گئے ہیں ، جیسے :

١۔ طبرانی ( وفات ٣٦٠ھ) نے کتاب '' المعجم الکبیر عن الصحابہ الکرام '' میں ۔

بعض نے مذکورہ روایت کو ارسال مرسل کی صورت میں یعنی راویوں اور واسطوں کا نام ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ، جیسے:

____________________

١۔ '' ابن شاہین '' ( وفات ٣٨٥ھ )

۲۳۹

٢۔ ابو نعیم '' ( وفات ٤٣٠ ھ ) کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

بعض نے اپنے سے پہلے علماء جن کا ذکر اوپر آیا سے نقل کیا ہے ۔ جیسے:

١۔ ضیاء مقدسی ( وفات ٦٤٣ ھ ) نے کتاب المختارہ میں طبرانی کی بات کوقبول کیا ہے اور اس سے متاثر ہوا ہے۔

____________________

١۔سہل بن مالک کے حالات کی تشریح کتاب '' اصابہ'' اور '' کنز العمال '' باب سوم ، کتاب فضائل فصل دوم کے آخر میں ( ١٢ ١٥٥) اور تیسری فصل سوم کے آخر میں ( ١٢ ٢٣٩ ) ملاحظہ ہو۔

٢۔سہل بن مالک ( دادا ) کے حالات کی تشریح میں کتاب '' استیعاب ''ملاحظہ ہو ۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329