ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130604 / ڈاؤنلوڈ: 4443
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

میں ابن حجرنے اس لئے ان کا نام اپنی کتاب کے اس حصہ میں لکھا ہے اور اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ فتوح ( وہ جنگیں جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد انصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیات میں واقع ہوئی ہیں ) میں صحابی کے علاوہ ہرگز کسی کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپتے تھے۔

ابن مسکویہ نے بھی کہا ہے کہ سماک بن خرشہ غیراز ابودجانہ کا نام شہر رے کی فتح میں لیا گیا ہے (ز) ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اسی طرح ابن حجر نے سیف کی انہی روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے سماک بن عبید عبسی کو اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر الگ سے شرح لکھی ہے وہ اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

اس کا نام گزشتہ شرح میں آیا ہے ...ہمدان کی فتح میں بھی اس کا تذکرہ کیا گیا ہے

سماک بن مخرمہ بھی اس فیض و برکت سے محروم نہیں رہا ہے ابن حجر اور دوسروں نے سیف کی روایتوں پر اسی گزشتہ اعتماد کی بناء پر سماک بن مخرمہ کو بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے قبول کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کیلئے الگ سے شرح لکھی ہے ۔

اس طرح ابن حجر نے ان تین افراد کو سیف کے کہنے کے مطابق کہ سپہ سالار تھے اسی وجہ سے ، اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے اور خصوصی طور پر اس دلیل کی صراحت کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے لکھتا ہے :

میں نے اس لئے ان کو اپنی کتاب کے اس حصہ میں درج کیا ہے کہ اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ '' جنگوں '' میں صحابی کے علاوہ کسی کو کسی صورت میں سپہ سالار کے عہدہ پر مقرر نہیں کرتے تھے ۔

اس لحاظ سے ، ابن حجر کی نظر میں سیف کے ان تین جعلی صحابیوں کے اصحاب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ، کیونکہ وہ سپہ سالاری کے عہدہ دار تھے !!١

ابن حجر ، سیف کی مخلوق سماک کے بارے میں اپنی بات کو حرف '' ز'' پر خاتمہ بخشتا ہے تا کہ یہ دکھائے کہ اس نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں دیگر تذکرہ نویسوں کی نسبت اضافہ کیاہے۔

۲۲۱

ابن عبد البر نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور '' سماک بن مخرمۂ اسدی'' کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ ' ' سماک بن مخرمۂ اسدی '' ، '' سماک بن عبید عبسی'' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ( غیر از ابو دجانہ ) وہ پہلے عرب سردار تھے جنہوں نے '' دستبی '' کی فوجی چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے ۔

ابن اثیر نے کتاب ' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے اپنی '' تجرید'' میں ان مطالب کو نقل کرنے میں ابن عبد البر کی تقلید کی ہے ۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کتاب '' اصابہ '' میں ابن حجر کے کہنے کے مطابق '' ابن مسکویہ '' نے بھی تینوں سماک کے بارے میں یہی مطالب لکھے ہیں ۔

ابن ماکولا اپنی کتاب '' اکمال'' میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے نقل کیاہے کہ سماک بن خرشہ انصاری غیر از ابودجانہ ، سماک بن مخرمۂ اسدی اور سماک بن عبید عبسی ، عمر کی خدمت میں پہنچے ہیں ۔ یہ وہ پہلے عرب سردار ہیں جنہوں نے دیلمیوں سے جنگ کی ہے ۔

طبری نے بھی مذکورہ روایت کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ، اور ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون اور دوسرے تاریخ نویسوں نے بھی طبری کی تقلید کرتے ہوئے سیف کے انہیں مطالب کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

انہی روایتوں کی وجہ سے ابن فتحون غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور ایسا خیال کیا ہے کہ جس سماک نے امیر المؤمنین علی کے ہمراہ جنگ صفین میں شرکت کی ہے وہ وہی سیف کا جعل کردہ سماک ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ صفین کی جنگ میں شرکت کرنے والا سماک '' جعفی'' جو اور انصار میں سے نہیں تھا۔

تاریخی حوادث کے سالوں میں تبدیلی ، وقائع و رودادوں میں تحریف ، کرداروں کی تخلیق ، قصے اور افسانے گڑھنا اور انہیں تاریخ کی اہم اور فیصلہ کن رودادوں کی جگہ پیش کرناسب کے سب سیف اور اس کی روایات کی خصوصیات ہیں تا کہ مسلمانوں کیلئے تشویش اور پریشانی فراہم کرکے انھیں تاریخی حقائق تک پہنچنیسے روکے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ سیف اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوا ہے۔ گزشتہ بارہ صدیوں سے زیادہ زمانہ گزر چکا ہے اور اس پورے زمانے میں اس کے تمام افسانے اور جعل کئے گئے مطالب معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں درج ہوچکے ہیں جس کے نتیجہ میں آج عالم اسلام کے علماء و محققین تشویش اور پریشانی سے دوچار ہیں ۔

۲۲۲

سیف کے ہم نام اصحاب کا ایک گروہ

اس بحث میں ہم سیف کے دو جعلی اصحاب کے حالات کی تشریح کریں گے جن کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی دو اصحاب کے مشابہ ہیں ۔ سیف نے ان دو ناموں کا انتخاب کرکے ان کیلئے داستان گڑھ کر اسلام کی تاریخ میں درج کرائی ہے ہم ان کے بارے میں حسبِ ذیل وضاحت کرتے ہیں :

١۔ خزیمہ بن ثابت انصاری ( غیر از ذو الشہادتین ) سیف نے '' خزیمہ بن ثابت انصاری ذو الشہادتین '' کے ہم نام جعل کیاہے اور اس کے لئے الگ سے ایک داستان گڑھ لی ہے ۔

٢۔ سماک بن خرشۂ انصاری ( غیراز ابودجانہ کہ سیف نے اسے '' سماک بن خرشۂ انصاری ابودجانہ کے ہم نام جعل کیا ہے ۔ گزشتہ شرح کے مطابق اس کیلئے بھی الگ سے ایک داستان گڑھی ہے۔

سیف نے صرف ان دو اصحاب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی اصحاب کے ہم نام خلق کرنے پر اکتفاء نہیں کی ہے بلکہ ہم نے دیکھا اور مزید دیکھیں گے کہ اس نے اصحاب اور معروف شخصیتوں کے ہم نام حسبِ ذیل کردار بھی خلق کئے ہیں :

٣۔ زر بن عبدا للہ بن کلیب فقیمی کو ''زر بن عبد اللہ کلیب فقیمی شاعر '' کے ہم نام خلق کیا ہے کہ جو جاہلیت کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا۔

٤۔ جریر بن عبد اللہ حمیری کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کیاہے اور جریر بن عبد اللہ بجلی کے بعض کارناموں کو بھی اس سے نسبت دی ہے ۔

٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی کو '' وبر بن یحنس کلبی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٦۔ حارث بن یزید عامری کو بنی لوئی کے '' حارث بن یزید عامری قرشی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٧۔ حارث بن مرۂ جہنی کو '' حارث بن مرۂ عبدی یا فقعسی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٨۔ بشیر بن کعب حمیری کو '' بشیر بن کعب عدوی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

۲۲۳

جب کہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے صرف کردار ادا کرنے والے ، انسان اور صحابیوں کے نام پر ہی افراد خلق کرنے پر اکتفا نہیں کیے ہیں بلکہ اس نے ایسے مقامات بھی خلق کی جو کرۂ ارض پر موجود دوسری جگہوں کے ہم نام ہیں ، جیسے '' جعرانہ '' و نعمان '' جو حجاز میں واقع تھے اور سیف نے ان کے ہم نام اپنی جعلی روایتوں اور اخبار کے ذریعہ انھیں عراق میں خلق کیا ہے ۔ یاقوت حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرکے ان مقامات کا نام اور ان کی تشریح اپنی کتاب ' ' معجم البلدان '' میں درج کی ہے۔

افسانۂ سماک کو نقل کرنے والے راوی اور علما

سیف نے اپنے سماک بن خرشہ کے افسانہ کو درج ذیل روایوں سے نقل کیا ہے ۔

١۔ ٢ - محمد اور مھلب جو اس کے جعلی راوی ہیں ۔

٣ تا ٦- طلحہ ، عمرو ، سعید و عطیہ کو ذکر کیا ہے جو مجہول ہیں اور ہمیں معلوم نہ ہوسکا یہ کون ہیں تا کہ ان کی پہچان کرتے۔

جن علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کے افسانوں کو نقل کرکے '' افسانہ سماک '' کی اشاعت میں مدد کی ہے ، حسب ذیل ہیں :

١۔ امام المؤرخین محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں سماک بن مخرمہ کے حالات کی تشریح میں ۔

٣۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ' ' اسدا الغابہ'' میں '' سماک بن مخرمہ '' کے حالات کی تشریح میں ۔

٤۔ ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں سماک بن خرشہ کے حالات کی تشریح میں ۔

٥۔ ابن فتحون نے استیعاب کے حاشیہ پر لکھا ہے ۔

٦۔ ابن مسکویہ نے ابن حجر کی '' اصابہ '' کے مطابق ۔

٧۔ اب ماکولا نے اپنی کتاب '' اکمال '' میں

٨۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ۔

٩۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں

۲۲۴

١٠۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں ۔

١١۔ امیر شکیب نے ابن خلدون کی تاریخ پر لکھی گئی تعلیق میں جسے گزشتہ علماء سے نقل کیا ہے ۔

١٢۔ سید شرف الدین نے اپنی کتاب فصول المہمہ میں شیعوں کے نام کے ذکر میں حرف سین کے ذیل میں لکھا ہے :

'' اور سماک بن خرشہ بظاہریہ ابودجانہ کے علاوہ ہے ۔

مصادر و مآخذ

ابودجانہ انصاری کا شجرۂ نسب :

١۔ ابن حزم کی '' جمہرہ '' ص ٣٦٦۔

٢۔ استبصار ص ١٠١

ابو دجانہ کے حالات میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصلی شرط:

١۔ استیعاب ، طبع حیدر آباد (٢ ٥٦٦ ) نمبر : ٢٤٥١اور (٢ ٦٤٣) نمبر : ١١٠

٢۔ذہبی کی تاریخ اسلام (١ ٣٧١) پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زبیر کو تلوار دینے میں پرہیز کرنا ان دو مصادر میں آیا ہے ۔

٣۔ تاریخ طبری ( ١ ١٣٩٧) زبیر کی روایت ، ابن اسحاق کی روایت کو اس کے بعد ذکر کیا ہے۔

٤۔ اس کے علاوہ '' سیرۂ ابن ہشام '' ( ٣ ١٢۔١١)

سماک بن خرشہ جعفی

١۔ نصر مزاحم کی '' کتاب صفین '' طبع اول مصر ( ٤٢٦)

٢۔ ابن حزم کی جمہرہ ص ٢٣٢ ۔ ٣٦٦ ، انصار کے نسب کے بارے میں جعفی کا نسب اسی ماخذ ٤٠٩ ، ٤١٠ میں

٣۔ حموی کی '' معجم البلدان '' مادۂ '' جعفی '' میں

٤۔ ابن درید کی '' استقاق '' (ص ٢٠٦ )

٥۔ ابن اثیر کی لسان العرب ( ٩ ٢٧از و اللباب )

۲۲۵

سیف کا سماک بن خرشہ غیر از ابودجانہ

١۔ '' تاریخ طبری ''' جنگ قادسیہ کے بعد واقع ہونے والے حوادث ( ١ ٢٣٦٣ ، ٢٣٦٤)

٢۔ تاریخ طبری ، ہمدان اور آذربائیجان کی فتح ( ١ ٢٦٥٠۔ ٦٣ ٢٦)

٣۔ تاریخ طبری ، سماک کی عراق پر حکومت (١ ٣٠٥٨)

٤۔ تاریخ ابن اثیر (٣ ١٠ -١١ و ٧٢)

٥۔ تاریخ ابن کثیر ( ٧ ١٢١۔ ١٢٢)

٦۔ تاریخ ابن خلدون ( ٢ ٣٥٤ ، و ٤٠٢)

٧۔ تاریخ ابن خلدون پر امیر شکیب کی تعلیق ( ٢ ٣٥٤)

٨۔ ابن ماکولا کی کتاب '' اکمال '' ( ٤ ٣٥٠)

٩۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٧٥) نمبر : ٣٤٦٥ سماک بن خرشہ غیر ازابودجانہ کے حالات کی شرح میں ۔

١٠۔ سید شرف الدین کی فصول المہمہ ١٨٢۔

ہمدان اور آذربائیجان کی فتح کی خبر ، سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں ۔

١۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (٢ ١٢٤) ٢٢ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

٢۔ تاریخ طبری ٢٢ھ کے حوادث ( ١ ٢٦٤٧)

٣۔ بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ص ٤٠٠۔

داستان عروہ ، فتح رے اور اس کے حکام :

١۔ بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ص ٣٨٩ -٣٩٣ اور کثیر بن شہاب کی خبر اسی کے ص ٣٧٨ پر

۲۲۶

سماک بن عبید کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٧٦) نمبر : ٣٤٦٧

٢۔ تاریخ طبری اس کے بارے میں سیف کی روایت ( ١ ٢٦٣١) یاقوت حموی نے اس روایت کی طرف اشارہ کیاہے ۔

٣۔تاریخ طبری ( ١ ٢٦٥٠ ۔ ٢٦٥١ و ٢٦٦٠) سیف کے علاوہ دوسروں کی روایات (٢ ٣٩ ۔ ٤٢ ، ٤٥ و ٥٧)

سماک بن مخرمہ کے حالات

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدرآباد ( ٢ ٥٦٧) نمبر : ٢٤٥٣

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٢ ٣٥٣)

٣۔ ذہبی کی تجرید (١ ٢٤٦) نمبر: ٢٤٠٣۔

٤۔ ''اغانی'' طبع ساسی ١٠ ٨٠ سماک مخرمہ کے اخبار

٥۔ یاقوت حموی کی معجم البلدان لفظ '' مسجد سماک '' میں ۔

٦۔ تاریخ طبری( ١ ٢٦٥٠۔ ٢٦٥١ ، ٢٦٥٣ ، ٢٦٥٦ و ٢٦٥٩ -٢٦٦٠) سماک بن مخرمہ کے بارے میں سیف کی روایات ۔

۲۲۷

ساتواں حصہ

گروہ انصار میں سے چند اصحاب

*ابوبصیرہ

*حاجب بن زید

*سہل بن مالک

*اسعد بن یربوع

*ام زمل ، سلمی بنت حذیفہ

۲۲۸

انچاسواں جعلی صحابی ابو بصیرۂانصاری

ابن عبد البر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ابو بصیرہ کے تعارف میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے جنگِ یمامہ مسیلمہ کذاب سے جنگ میں شرکت کرنیو الے انصار کے ایک گروہ کے نام کے ضمن میں ابو بصیرہ کا نام لیا ہے اور کہا ہے خدا سے رحمت نازل کرے اس کے علاوہ اس کے بارے میں ایک داستان بھی نقل کی ہے ۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن اثیر نے کتاب اسد الغابہ میں ، ابن حجر نے '' اصابہ'' میں اور ذہبی نے کتاب '' تجرید'' میں ابو بصیرہ کے بارے میں ابن عبد البر کی عین عبارت '' استیعاب '' سے نقل کی ہے اور اس میں کس قسم کا اضافہ نہیں کیاہے ۔

مقدسی نے بھی ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کی ہے کہ سیف نے اس کا نام یمامہ کی جنگ میں شرکت کرنے والوں میں ذکر کیا ہے ۔

'' ابن ماکولا نے بھی ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیف بن عمر کہتا ہے کہ اس نے بنی حنیفہ کی جنگ ( وہی جنگ یمامہ ) میں شرکت کی ہے ۔

لیکن جس خبر کی طرف ابن عبد البر نے اشارہ کیا تھا ۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے اس نے'' ضحاک بن یربوع '' سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ ہم پیش کرتے ہیں :

سر انجام مسیلمہ کے حامی مقابلہ کی تاب نہ لاکر اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں شکست کھائی۔ اور مسیلمہ مارا گیا اور اس کے حامی تتر بتر ہوگئے اس طرح ان کے بلوہ اور فتنہ کا خاتمہ ہوا۔

ان میں بنی عامر سے ایک شخص موجود تھا ، جسے '' اغلب '' کہتے تھے ١ '' اغلب '' وقت کا غنڈہ ترین شخص شمار کیا جاتا تھا ۔ ہٹا کٹا دکھائی دیتا تھا۔

جب مسیلمہ کی فوج تہس نہس ہوگئی اور اس کے حامی بھاگ کھڑے ہوئے تو، '' اغلب'' جان بچانے کے مارے اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لاشوں میں گرادیا ۔ اس فتح کے بعد مسلمان دشمن کی لاشوں کا مشاہدہ کر رہے تھے ، اسی اثناء ان کی نظر ایک موٹے انسان اور غنڈہ '' اغلب '' پر پڑی ۔ لوگوں نے ابو بصیرہ سے مُخاطب ہوکر کہا :

تم مدعی ہو کہ تمہاری تلوار بہت تیز ہے اگر واقعاً ایسا ہے تو یہ '' اغلب '' کا مردہ جو زمین پر پڑا ہے،اس کی گردن کاٹ کر دکھاؤ!

ابو بصیر نے تلوار میان سے کھینچ لی اور آگے بڑھا تا کہ اپنے بازؤں کی قدرت اور تلوار کی

____________________

١۔سیف نے اس '' اغلب '' کو قبیلہ ٔ بکر بن وائل کے بنی عامر بن حنیفہ سے خلق کیا ہے اور اس کے بارے میں دکھایا گیا اس کا تعصب واضح ہے ، کتاب '' قبائل العرب ' ' کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۲۹

تیزی کا مظاہرہ کرے جب '' اغلب '' نے موت کے سائے اپنے سر پر منڈلاتے دیکھے تو اچانک اٹھ کر ابو بصیر پر جھپٹ پڑا اس کے بعد جان چھڑا کر تیزی سے بھاگ نکلا۔

ابو بصیرہ جو ایک لمحہ کیئے چونک گیا تھا ، اغلب کے پیچھے دوڑتے غیر ارادی طور پر فریاد بلند کررہا تھا: '' میں ابو بصیرہ انصاری ہوں '' لیکن اغلب جو کافی آگے بڑھ چکا تھا ، ابو بصیرہ کے جواب میں چیختے ہوئے بولا : اپنے کافر بھائی کے دوڑنے کو کیسا پایا ؟ اور اسی حالت میں نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔

افسانۂ ابو بصیرہ کے مآخذ

سیف بن عمر نے اس افسانہ کے راوی کے طور پر '' ضحاک بن یربوع '' کو اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے پیش کیا ہے ۔

طبری نے سیف کے ذریعہ اسی ضحاک سے چار روایتیں اور ابن حجر نے '' اقرع '' کے حالات کی تشریح میں سیف سے نقل کرکے اس سے صرف ایک روایت نقل کی ہے ۔

ہم نے اس ضحاک کا کسی اسلامی ماخذ یا مصدر میں کوئی نام و نشان نہیں دیکھا صرف '' میزان الاعتدال '' اور '' لسان المیزان '' میں ضحاک کے حالات کی تشریح میں لکھا گیا ہے : کہ '' اس کی حدیث صحیح نہیں ہے ''۔ ازدی کی بات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات سے غافل تھا کہ ان تمام فتنوں کا سرچشمہ سیف بن عمر ہے جس نے اس قسم کی جھوٹی روایت کو بیچارہ '' ضحاک'' کی زبان پر جاری کیا ہے ورنہ '' ضحاک بن یربوع''' نام کے کسی شخص کے بالفرض وجود کی صورت میں بھی وہ قصوروار نہیں ہے۔

چونکہ ہمیں معتبر منابع میں '' ضحاک '' نام کے کسی راوی کا نام نہیں ملا، اسلئے ہم اسے راویوں کی فہرست سے حذف کرتے ہوئے سیف کا خلق کردہ صحابی جانتے ہیں ۔

۲۳۰

افسانۂ ابو بصیرہ کا نتیجہ

١۔ انصار میں سے ایک صحابی کی تخلیق جس نے یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔

٢۔ یمانی قحطانیوں کی رسوائی ، سیف ان کو اتنا بے لیاقت دکھاتا ہے کہ ایک عدنانی شخص جس نے ڈر کے مارے اپنے آپ کو مردہ جیسا بنا دیا تھا اور ان کے چنگل میں ہونے کے باوجود ، ان کی بے لیاقتی کی وجہ سے بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔

٣۔ ابو بصیرہ قحطانی کی ناتوانی دکھلانا جو مکررکہہ رہا تھا ، '' میں ابو بصیرہ انصاری ہوں '' اور وہ عدنانی جواب دیتا تھا '' اپنے کافر بھائی کے دوڑنے کو کیسا پارہے ہو؟!!

٤۔ ضحاک بن یربوع اور یربوع جیسے راوی خلق کرنا۔

مصادر و مآخذ

ابو بصیرہ کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' (٢ ٦٣٠) نمبر : ٥٠

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٥ ١٥٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '( ٢ ١٦٣)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٤ ٢٢) نمبر : ١٤٣

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٩٥٠)

٦۔ مقدسی کی کتاب '' استبصار'' ( ص ٣٣٨)

٧۔ ابن ماکولا کی کتاب '' اکمال '' ( ١ ٣٢٨)

ضحاک بن یربوع کے حالات

١۔ میزان الاعتدال ( ٢ ٣٢٧)

٢۔ ابن حجر کی '' لسان المیزان '' (٣ ٢٠١)

مراجع :

١۔ رضا کحالہ کی قبائل العرب ( ٢ ٧٠٦)

۲۳۱

پچاسواں جعلی صحابی حاجب بن زید یا یزید انصاری اشہلی

ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں حاجب کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

حاجب '' بنی عبد الاشہل '' میں سے تھا ۔ اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ وہ '' بنی زعواراء بن جشم '' کی نسل سے عبدا لاشہل جشم کا بھائی اور '' اوسی'' تھا جو یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

حاجب قبیلۂ '' اَزْد'' کے ''شَنَوْئَ'' کا ہم پیمان تھا ۔ '' خدا اس سے راضی ہو '' ( عبد البر کی بات کا خاتمہ)

بالکل انہی باتوں کو ابن اثیر جیسے عالم نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے ''تجرید '' میں کسی کمی و بیشی کے بغیر درج کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی ایسا ہی ظاہر کیا ہے ، لیکن آخر میں حسب ذیل اضافہ کیا ہے:

سیف نے طائفہ '' بنی الاشہل '' کے جنگ یمامہ میں قتل ہوئے افراد کی فہرست میں ''حاجب '' کا نام بھی لیا ہے ۔ یہ افراد ہیں اور حاجب بن زید ۔ اس کے علاوہ اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

ہم نے اس نام کو تلاش کرنے کیلئے موجود تمام تاریخ اور انساب کے معتبر مصادر میں زبردست جستجو و تلاش کی لیکن تاریخ طبری کے علاوہ کہیں اور اس کا سراغ نہ مل سکا۔

لیکن طبری قادسیہ کی جنگ کے اخبار کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے : قادسیہ کی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے ایک اور شخص حاجب بن زید تھا

ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ قادسیہ کی جنگ میں خاک و خون میں غلطاں ہونے والے اس حاجب بن زید سے سیف کی مراد وہی حاجب ہے جو یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ، یا یہ کہ اسے دوشخص شمار کیا ہے۔

دوسرے الفاظ میں ، وہ بھول گیا ہے کہ اس حاجب کو اس نے دس سال پہلے یمامہ کی جنگ میں موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ، یا یہ کہ اس نے دو اشخاص کو ہم نام خلق کیا ہے ان میں سے ایک ''حاجب بن زید '' ہے جسے یمامہ کی جنگ میں مروا دیا ہے اور دوسرا ''حاجب بن زید '' وہ ہے سجے قادسیہ کی جنگ میں قتل کروایاہے ؟!!

۲۳۲

بہر حال خواہ سیف نے فراموش کیا ہو یا نہ کیا ہو، ہمارے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم نے اس حاجب بن زید کو سیف بن عمر اور اس کی روایات کی اشاعت کرنے والے علماء کے علاوہ تاریخ ، ادب ، انساب اور حدیث کے کسی منبع اور مصدر میں نہیں پایا ۔ اس لحاظ سے اس کو سیف کے خیالات کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔

ضمناً سیف نے جو داستان اس حاجب کے لئے گڑھی ہے اس میں اس کا وہی مقصد ہے یمانی قحطانی ان چیزوں سے موصوف ہوں ، کیونکہ سیف کے نقطہ نظر میں جنگی کمالات' کامیابیاں ، میدان کارزار سے صحیح و سالم نکلنا اور دیگر افتخارات غرض جو بھی برتری و سربلندی کا باعث ہو وہ تمیم ،مضر اور قبیلۂ عدنان کے افراد سے مخصوص ہے کسی دوسرے کو اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ کسی یمانی قحطانی کوکوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس قسم کے افتخارات اور کامیابیوں کے مالک ہوں ، مگر یہ کہ خاندان مضر کے سرداروں کے زیر فرمان خاک و خون میں غلطان ہوں اور یہ لیاقت پائیں کہ ان کے رکاب میں شہید ہونے والے شمار ہوجائیں !!!

لیکن،سیف نے اس حاجب کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ ''بنی اشہل'' ہے اور'' بنی اشہل '' و '' جشم'' اوس سے حارث بن خزرج کے بیٹے ہیں ، اور '' ازدشنوئ'' یعنی قبائل ''ازد'' کے وہ افراد جو ''شنوئ'' میں ساکن تھے۔ یہ ازد میں سے ایک قبیلہ ہے سکونت کے لحاظ سے وہ ''شنوء '' کے باشندے تھے (جو یمن کے اطراف میں واقع ہے ۔) یہ لوگ اس جگہ سے منسوب ہوئے ہیں اور تینوں قبیلے یمانی قحطانی ہیں ۔

مصادر و مآخذ

حاجب بن زید کے بارے میں درج ذیل مصادر و مآخذ کی طرف رجوع کیا جائے :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ١٣٨) نمبر : ٥٧٣

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ١ ٣١٥)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٠١)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ١ ٢٧٢) نمبر :١٣٦٠

٥۔ تاریخ طبری ( ١ ٢٣١٧ ) اور ( ١ ٢٣١٩)

٦۔ تاریخ ابن اثیر ( ٢ ٣٧٠)

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ انساب العرب '' ( ٣١٩ ۔ ٣٢٠)

٨۔ قبائل العرب ( ١ ١٥٥) اور ٢ ٣٧٤ ) اور (٢ ٧٢٢)

۲۳۳

اکاونواں جعلی صحابی سہل بن مالک انصاری

سہل ، کعب بن مالک کا ایک بھائی

اس جعلی صحابی کے حالات کی تشریح میں ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں یوں آیا ہے :

'' سہل بن مالک بن ابی کعب ١ بن قین '' انصاری رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معروف شاعر '' کعب بن مالک ' کا بھائی ہے ۔

ابن حبان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سہل کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے ۔

سیف بن عمر نے ابو ہمام' سہل بن یوسف بن سہل ٢ بن مالک سے نقل کیا ہے اور اس نے اپنے باپ سے اور اپنے جد سے روایت کی ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے مدینہ واپس آنے کے بعد منبر پر تشریف لے جا کر فرمایا:

اے لوگو! ابو بکر نے کبھی بھی میرا دل نہیں دکھایا ہے اور

____________________

١۔ ابو کعب کا نام عمرو تھا ۔

٢۔سہل بن مالک کا نام ہمارے پاس موجود اصابہ کے نسخہ میں نہیں آیا ہے لیکن ابن حجر کی '' لسان المیزان '' میں درج کی گئی روایت کی سند میں ذکر ہوا ہے ۔

۲۳۴

ابن حجر نے علمِ رجال میں لکھی گئی اپنی کتاب ' ' لسان المیزان '' میں لکھا ہے کعب بن مالک کے بھائی ، سہل بن یوسف بن سہل بن مالک نے اپنے باپ سے اااس نے اپنے جد سے یوں روایت کی ہے۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس مدینہ لوٹے تو منبر پر تشریف لے جا کر بارگاہ الٰہی میں حمد و ثناء فرمایا:

اے لوگو! میں ابو بکر عمر اور عثمان سے راضی ہوں اے لوگو ! اپنی زبانیں مسلمان کو برا بھلا کہنے سے روک لو ، جب ان میں سے کوئی اس دنیا سے چلا جائے تو اس کے بارے میں خوبی کے سوا کچھ نہ کہنا ! ابن حجر نے مذکورہ بالا مطالب بیان کرنے کے بعد لکھا ہے :

سیف بن عمر نے اس حدیث کو اسی صورت میں سہل بن یوسف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے ۔

سہل اور اس کے نسب پر ایک بحث

سیف نے اس روایت کو ایک ایسے راوی کی زبانی نقل کیا ہے جس کا نام اس نے '' ابوہمام سہل'' رکھا ہے اس نے اپنے باپ یوسف سے اور اس نے اپنے جد سہل بن مالک سے روایت کی ہے اور سہل کا تعارف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کعب بن مالک کے بھائی کے عنوان سے کہا ہے ۔ یعنی سیف نے کعب بن مالک انصاری کے نام پر ایک معروف صحابی اور حقیقت میں وجود رکھنے والے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کیلئے ایک بھائی خلق کیا ہے اور اس نام '' سہل بن مالک '' رکھا ہے اس طرح اس نے بالکل وہی کام انجام دیا ہے جو اس سے پہلے '' طاہر ، حارث اور زبیر '' ابو ہالہ ١ کو خلق کرنے میں انجام دیا تھا اور تینوں کو ابو ہالہ اور ام المؤمنین خدیجہ کے بیٹے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے اور پروردہ کی حیثیت سے خلق کیا تھا یا مشہور ایرانی سردار ہرمزان کیلئے '' قماذبان '' ٢ نام کا ایک بیٹا خلق کیا تھا' وغیرہ وغیرہ

لیکن بات یہ ہے کہ '' کعب بن مالک '' کا حقیقت میں سہل بن مالک انصاری نام کا نہ کوئی بھائی تھا ، نہ '' یوسف'' نام کا اس کا کوئی بھتیجا تھا اور نہ اس کے بھائی کا سہل نام کا کوئی پوتا تھا !

۲۳۵

سہل بن یوسف ، سیف کا ایک راوی

جو کچھ ہم نے بیان کیا ، اس کے علاوہ طبری نے سیف سے نقل کرکے سہل بن یوسف کی انتالیس یا چالیس روایتیں اپنی تاریخ کبیر میں درج کی ہیں جن میں سے چار روایتیں سہل کے باپ یعنی '' یوسف '' سے نقل ہوئی ہیں کہ ان میں سے ایک میں سہل کا نسب یوں ذکر ہوا ہے : '' سہل بن یوسف سلمی'' ۔

دوسرے مصنفین اور علماء جنہوں نے اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، ''عبید بن صخر ، اور معاذ بن جبل '' کیلئے لکھے گئے حالات کی تشریح میں سیف بن عمر سے نقل کرکے سہل بن یوسف بن سہل کی چھ روایتیں عبید بن صخر سے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں ۔

____________________

١۔ اسی کتاب کی دوسری جلد ملاحظہ ہو۔

٢۔ کتاب عبدا للہ بن سبا جلد ١ ملاحظہ ہو۔

۲۳۶

آخر کی روایتوں میں سے ایک روایت میں سہل بن یوسف کا تعارف یوں کیا گیا ہے : '' سہل بن یوسف بن سہل انصاری''

اس تحقیق کا نتیجہ

مجموعی طور پر جو کچھ گزرا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے سہل کے خاندان کو اپنے خیال میں یوں خلق کیا ہے : '' ابوہمام ، سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری سلمی '' اور '' دادا '' سہل کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر صحابی کعب بن مالک انصاری کے بھائی کی حیثیت سے خلق کیا ہے یہی سبب بناہے کہ کتاب '' اصابہ '' کے مصنف ابن حجر نے سہل کو خاندان کعب کے نسب سے منسلک کرکے لکھا ہے : '' سہل بن مالک بن ابی کعب بن قین '' ، ابن حجر نے اس نسبت کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے جب کہ سہل کے خالق سیف بن عمر نے ایسا دعویٰ نہیں کیا اور اپنی مخلوق کو '' قین '' سے منسلک نہیں کیا ہے!! ١

قلمی سرقت

سیف نے مذکورہ روایت کو اپنی کتاب '' فتوح '' جو دوسری صدی کی پہلی چوتھائی میں تالیف ہوئی ہے میں بڑی آب و تاب کے ساتھ درج کیا ہے اور اپنے خاندانی تعصب و قبیلہ ٔ مضر خاص طور سے وقت کے حکام و دلتمندوں کے بارے میں منقبت و مداحی کی ایسی روایت درج کرکے ثابت کیا ہے ۔

____________________

١۔ جہاں تک سیف کی رواتیوں سے استفادہ ہوتا ہے ۔

۲۳۷

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ تیسری صدی ھجری کا '' خالد بن عمرو اموی کوفی ''آپہنچا اور ایک ادبی اور قلمی چوری کا مرتکب ہوتا ہے وہ سیف کی عین روایت کو اس کی کتاب سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے اور اس میں سیف اور اس کی کتاب کا کہیں نام نہیں لیتا گویا اس نے کسی واسطہ کے بغیرخود اس روایت کو سنا ہے ۔

خالد کا یہ کام اس بات کا سبب بناکہ اس کے بعد آنے والے علماء نے اسی روایت کو خالد کی کتاب سے لے کرکے گمان کیاہے کہ خالد تنہا شخص ہے جس نے ایسی روایت اپنی کتاب میں نقل کی ہے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ خالد سے تقریباً ایک صدی پہلے یہی روایت سیف بن عمر نام کے شخص کے ذہن میں پیدا ہوچکی ہے اور اس نے اسے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے ١

سہل کے افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

خالد کا یہ کام اس امر کا سبب بنا کہ مندرجہ ذیل علماء نے یہ گمان کیاہے کہ خالد بن عمرو اس روایت کو نقل کرنے والا وہ تنہا شخص ہے :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ) جو یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے میں خالد اکیلا ہے ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٩ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں لکھا ہے کہ :

یہ ایک تعجب خیز روایت ہے جسے میں نے اس راوی کے علاوہ کہیں نہیں پایا ہے ۔

____________________

١۔ کتاب '' روات مختلقون '' سلسلۂ روات کی بحث میں '' سہل بن یوسف بن سہل'' کے نام میں ملاحظہ ہو۔

۲۳۸

یعنی خالد بن عمرو کے علاوہ کسی دوسرے نے یہ روایت بیان نہیں کی ہے

٣۔ ابن عبدا لبر ( وفات ٤٦٣ھ) نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں لکھا ہے :

اس سہل بن مالک کی روایت کو صرف خالد بن عمرو نے نقل کیا ہے ١

بعضعلماء نے بھی مذکورہ روایت کو خالد کی کتاب سے نقل کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ خالد اس روایت کو نقل کرنے والا تنہا شخص ہے ، جیسے :

١۔ ابنوسی '' ( وفات ٥٠٥ھ ) نے اپنی کتاب فوائد میں ٢

ان میں سے بعض کی کتابوں میں کچھ راویوں کے نام لکھنے سے رہ گئے ہیں ، جیسے :

١۔ طبرانی ( وفات ٣٦٠ھ) نے کتاب '' المعجم الکبیر عن الصحابہ الکرام '' میں ۔

بعض نے مذکورہ روایت کو ارسال مرسل کی صورت میں یعنی راویوں اور واسطوں کا نام ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ، جیسے:

____________________

١۔ '' ابن شاہین '' ( وفات ٣٨٥ھ )

۲۳۹

٢۔ ابو نعیم '' ( وفات ٤٣٠ ھ ) کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

بعض نے اپنے سے پہلے علماء جن کا ذکر اوپر آیا سے نقل کیا ہے ۔ جیسے:

١۔ ضیاء مقدسی ( وفات ٦٤٣ ھ ) نے کتاب المختارہ میں طبرانی کی بات کوقبول کیا ہے اور اس سے متاثر ہوا ہے۔

____________________

١۔سہل بن مالک کے حالات کی تشریح کتاب '' اصابہ'' اور '' کنز العمال '' باب سوم ، کتاب فضائل فصل دوم کے آخر میں ( ١٢ ١٥٥) اور تیسری فصل سوم کے آخر میں ( ١٢ ٢٣٩ ) ملاحظہ ہو۔

٢۔سہل بن مالک ( دادا ) کے حالات کی تشریح میں کتاب '' استیعاب ''ملاحظہ ہو ۔

۲۴۰

٢۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ ) نے '' ابن مندہ '' ''ابو نعیم '' اور '' ابن عبد البر '' کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں بیان کیا۔

٣۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے اسد الغابہ سے نقل کرکے اس کا خلاصہ اپنی کتاب '' تجرید''میں درج کیا ہے ۔

٤۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧٤ھ) نے اس مطلب کو معجم طبرانی سے نقل کیا ہے لیکن بعض علماء نے اس روایت کے صحیح ہونے میں اور اس کے مآخذ پر شک کیا ہے ، جیسے :

١۔ عقیلی ( وفات ٣٢٢ ھ) نے کتاب '' الضعفاء '' میں ۔

٢۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ھ ) نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس روایت کے جھوٹ ہونے اس کے راوی سہل بن یوسف بن سہل بن مالک کے صحیح نہ ہونے اور ایسے راویوں کے موجود نہ ہونے کی تاکید کی ہے ۔

لیکن اس نے گمان کیاہے کہ یہ سب آفتیں '' خالد بن عمرو '' کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں اور مکتب خلفاء کے علماء کے اندر خالد کی شہرت کو دلیل کے طورپر پیش کرتے کرتے نتیجہ نکالا ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور جعلی ہے ۔

برسوں گزرنے کے بعد نویں صدی ہجری میں ''ابن حجر '' (وفات ٨٥٢ھ) آتا ہے اور سہل بن مالک ( جد ) کے حالات کی تشریح کتاب '' اصابہ '' میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے اورسہل بن یوسف ( پوتا ) کے بارے میں اپنی دوسری کتاب '' لسان المیزان '' میں یوں لکھتا ہے :

۲۴۱

اس روایت کی صرف خالد بن عمرو نے روایت نہیں کی ہے بلکہ خالد سے برسوں پہلے ، اسی متن و سند کے ساتھ سیف بن عمر تمیمی نے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے ١

لیکن ابن حجر نے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ درست اور صحیح نہیں جو خالد ایک صدی سیف کے بعد آیاہے اس نے بلاواسطہ کسی سے روایت نقل کی اس سے سیف نے ایک صدی پہلے روایت نقل کی ہے بلکہ ا سے کہناچاہئے تھا کہ: اس مطلب کو متخر شخص نے متقدم سے لیا ہے ۔مگر خالد جو کہ متأخر ہے اس نے متقدم کا نہ نام لیا اور نہ ہی منبع بیان کیا ہے۔

یہ مسئلہ اور اس جیسے سیکڑوں مسائل کے علاوہ سیف کے تعجب خیز تخلیقات آج تک علماء کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں اور تاریخ اسلام کے سلسلے میں سیف کی اس قدر جنایتوں سے پردہ نہیں اٹھایا گیا تا کہ ابن حجر کو معلوم ہوجاتا کہ اس روایت اور ایسی سیکڑوں روایتوں اور راویوں کو گڑھنے اور خلق کرنے والا اصلی مجرم سیف بن عمر تمیمی ہے نہ کہ اور کوئی۔

اسی طرح تقریباً یقین کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ ابن حجر ان دو راویوں ( بیٹا اور جد ) '' سہل بن یوسف '' اور ''یوسف بن سہل '' کے دوسری روایتوں میں داخل ہونے کے سلسلے میں متوجہ نہیں ہوا ہے تا کہ کتاب '' اصابہ '' میں سہل بن مالک ( جد ) اور کتاب '' لسان المیزان '' میں '' سہل بن یوسف'' ( پوتہ ) کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت ان کے راویوں کے سلسلہ کے بارے میں سنجیدہ

____________________

١۔ اس کے برسوں گزرنے کے بعد '' سیوطی '' مذکورہ روایت کو اپنی کتاب جمع الجوامع میں سیف کی فتوح ، ابن مندہ ، طبرانی ، ابو نعیم ، خطیب بغدادی اور ابن عساکر سے نقل کرتا ہے متقی ہندی نے بھی انہیں مطالب کو سیوطی سے نقل کرکے اپنی کتاب '' کنزل العمال '' میں ثبت کیا ہے ( کنز العمال ١٢/١٠٠ ، اور ج١٢ ٢٣٩)

۲۴۲

طور پر بحث و تحقیق کرتا ! یعنی وہ کام انجام دیتا جو ہم نے جعلی راویوں کے سلسلہ میں انجام دیا ہے ۔

مآخذ کی تحقیق

سیف کے جعلی صحابی '' سہل بن مالک انصاری'' کا نام ایک ایسی روایت میں آیا ہے جسے سیف کے جعلی ( بیٹے ) '' سہل بن یوسف '' نے اپنے جعلی اور جھوٹے باپ '' یوسف بن سہل '' سے نقل کیاہے ۔ یعنی خیالی پوتے نے جعلی باپ سے اور اس نے اپنے افسانوی جد سے روایت کی ہے !!

بہر صورت ' ' سہل بن مالک انصاری '' کا نام اس کے خیالی بیٹے اور پوتے کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے ذکر نہیں ہوا ہے اس حدیث ساز خاندان کا نام ان معتبر منابع اور مصادر میں نہیں ملتا جنہوں نے سیف سے روایت نقل نہیں کی ہے۔

ہم نے ان راویوں پر مشتمل خاندان اور ان کی روایتوں کے بارے میں اپنی کتاب '' روات مختلقون '' (جعلی راوی) میں مفصل بحث کی ہے ۔ یہاں پر تکرار کی گنجائش نہیں ہے ۔

۲۴۳

خلاصہ

سیف بن عمر نے اپنے جعلی صحابی '' سہل بن مالک '' ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشہور شاعر کعب بن مالک انصاری کے بھائی کو بنی سلمہ خزرجی سے خلق کیا ہے اور اس کا نام ایک حدیث کے ذریعہ '' سہل بن یوسف '' نامی اس کے پوتے کی زبان پر جاری کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اس قسم کے اشخاص کا نام دوسرے ایسے مصادر میں کہیں نہیں پایا جاتا جنہوں نے سیف بن عمر سے روایت نقل نہیں کی ہے ۔

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے اس '' سہل بن مالک '' کو جعلی پوتے کی حدیث پر اعتماد کرکے اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے شمار کیا ہے اور سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ اس نے مہاجرین کے سرداروں کے فضائل خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنے ہیں ، جبکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمانی انصار کا ذکر تک نہیں فرمایا ہے !

ہم خود جانتے ہیں کہ یہ روش اور طریقہ سیف کا ہے جو ایک حدیث جعل کرتا ہے اور ایک افسانہ گڑھ کر اپنے ضمیر کی ندا کا مثبت جواب دیتا ہے اور اپنے خاندان مضر کی طرفداری میں انکی تعریف و تمجید میں داد سخن دیتا ہے اور یمانی انصار کے بارے میں طعنہ زنی اور دشنام سے کام لیتا ہے اور ان پر کیچڑ اچھالتا ہے خواہ وہ صحابی ہوں یا تابعی!!

مزید ہم نے کہا ہے کہ چونکہ سیف نے حدیث کے مآخذ میں '' سہل بن مالک'' کو کعب بن مالک کے بھائی کے طور پر پیش کیا ہے اس لئے علماء نے بھی اسی سے استناد کرکے سہل بن مالک کے نسب کو کعب بن مالک کے نسب سے جوڑ دیا ہے جبکہ خود اس کے خالق سیف نے اس قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے !

سیف نے سہل بن مالک سے مربوط روایت کو دوسری صدی کے آغاز میں اپنی کتاب فتوح میں لکھا ہے اس کے ایک سو سال گزرنے کے بعد خالد بن عمرو اموی ( وفات تیسری صدی ہجری) آتا ہے اور سیف کے مطالب کو اسی سہل کے بارے میں نقل کرتا ہے ۔

۲۴۴

خالد بن عمرو اس قلمی سرقت میں سیف اور اس کی کتاب کا نام لئے بغیر روایت کو براہ راست سہل بن یوسف سے نقل کرتا ہے یہی امر سبب بنا کہ بعض علماء نے تصور کیا ہے کہ خالد بن عمرو نے شخصاً اس حدیث کے راوی سہل بن یوسف کو دیکھا ہے اور مذکورہ روایت کو براہ راست اس سے سنا ہے ۔ا سی بناء پر کہا جاتا ہے کہ خالد بن عمرو اس حدیث کا تنہا راوی ہے ۔

اس طرح بعض علماء نے اس حدیث کے صحیح ہونے اور اس نسب کے راویوں ( سہل بن یوسف بن سہل بن مالک) کے وجود پر شک کیا ہے ، کیونکہ قبیلۂ خزرج سے بنی سلمہ اور انصار سے غیر بنی سلمہ حتی غیر انصار میں ان ناموں کا سراغ نہیں ملتا ہے ۔

۲۴۵

سر انجام ابن حجر آتا ہے اور اس روایت کے ، خالد سے برسوں پہلے ، سیف کی کتاب میں موجود ہونے کا انکشاف کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ابن ''حبان'' نے بھی اس مطلب کو سیف سے نقل کیا ہے لیکن خود ابن حجر نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ اس روایت کو گڑھنے والا۔ '' سہل بن مالک '' اور اس کے راویوں کو جعل کرنے والا خود سیف بن عمر ہے ، جس نے سیکڑوں اصحاب اور تابعین کو خلق کیا ہے ، قصے اور افسانے گڑھ کر ان سے نسبت دی ہے ان کی زبان سے روایتیں اور احادیث جاری کی ہیں اور ان سب چیزوں کو بڑی مہارت کے ساتھ اسلام کی تاریخ میں داخل کیا ہے اور اس طرح علماء محققین کیلئے حقیقت تک پہچنے میں مشکل کرکے انھیں پریشان کررکھا ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے اس موضوع پر بھی غور نہیں کیا ہے کہ راویوں کے اس سلسلہ کے نام سیف کی دوسری روایتوں میں بھی ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض کو طبری نے اپنی تاریخ میں اور بعض کو دوسرے علماء نے اصحاب کی زندگی پر روشنی ڈالتے وقت ذکر کیا ہے ان میں ''عبیدبن صخر '' کے حالات پر روشنی ڈالنے والے مصنفوں کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ اگر ابن حجر ان راویوں کے سیف کی دوسری روایتوں میں خودارادی کے طور پر وجود سے آگاہ ہوجاتا تو ''سہل بن مالک'' کتاب ''اصابہ'' میں سہل بن مالک (جو)کے حالات پر نیز لسان المیزان میں سہل بن یوسف کی زندگی پر روشنی ڈالتے وقت ان کی طرف اشارہ ضرور کرتا ۔

۲۴۶

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے '' سہل بن مالک انصاری '' جیسے صحابی اور اس کے خاندان کو خلق کرکے درج ذیل مقاصد حاصل کئے ہیں :

١۔ گروہ مہاجرین میں خاندان مضر کے سرداروں کیلئے ایک افتخار کسب کیا ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی تعریف و تمجید کرائی ہے ۔

٢۔ حدیث و اخبار کے تین راویوں کو خلق کرکے انھیں دوسرے حقیقی راویوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کعب بن مالک انصاری کیلئے ایک بھائی خلق کر کے اس کانام ''سہل بن مالک ''رکھا ہے اور اس کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر تعارف کرایا ہے ۔

٤۔ مہاجر اصحاب کی منقبت میں ایک تعجب خیز روایت جعل کی ہے تا کہ حدیث حسبِ ذیل کتابوں میں منعکس ہوجائے اور مآخذ کے طور پر سالہا سال ان سے استفادہ کیا جا تار ہے :

١۔ '' ابن حبان '' ( وفات ٣٥٤ھ ) نے اپنی کتاب '' الصحابہ '' میں سیف کی کتابِ '' فتوح '' سے نقل کرکے ۔

٢۔ طبرانی ( وفات ٣٦٠ھ) نے اپنی کتاب '' المعجم الکبیر ، عن الصحابة الکرام '' میں ۔

٣۔ ''دار قطنی ''( وفات ٣٨٥ھ) نے کتاب ''' الافراد ' میں یہ تصور کیا ہے کہ خالد اس روایت کو نقل کرنے والا تنہا شخص ہے ۔

٤۔ ''ابن شاہین''(وفات ٣٨٥ھ) نے مذکورہ حدیث کو بصورت مرسل نقل کیا ہے ۔

٥۔ ''ابن مندہ ''( وفات ٣٩٩ھ) اس بھی گمان کیاہے کہ خالد تنہا شخص ہے جس نے اس روایت کو نقل کیا ہے ۔

٦۔ ''ابو نعیم ''( وفات ٤٣٠ھ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ''ابن عبد البر ''( وفات ٤٦٣ھ) نے کتاب '' استیعاب '' میں اس نے بھی تصور کیا ہے کہ خالد اس حدیث کا تنہا راوی ہے ۔

۲۴۷

٨۔ ''ابنوسی ''( وفات٥٠٥ھ) نے کتاب '' فوائد'' میں ۔ اس نے اسے خالد سے نقل کیا ہے۔

٩۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں ۔ ابن مندہ ، ابو نعیم اور ابن عبد البر سے نقل کیاہے ۔

١٠۔ ''ذہبی ''( وفات ٧٤٨ھ ) نے کتاب '' التجرید'' میں جو اسد الغابہ کا خلاصہ ہے ۔

١١١۔ ''مقدسی'' ( وفات ٦٤٣ھ نے '' کتاب المختارہ '' میں ۔ اس نے طبرانی پیروی کی ہے ۔

١٢۔ ''ابن حجر ''( وفات ٨٥٢ھ کتاب '' اصابہ '' میں حدیث کے متن سے پہلے اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔

١٣۔ سیوطی ( وفات ٩١١ھ) نے کتاب ''جمع الجوامع'' میں ۔

١٤۔ متقی ( وفات ٩٧٥ھ) نے کتاب '' کنز ل العمال '' اور منتخب کنز العمال میں کتاب '''جمع الجوامع '' سے استفادہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

سہل بن مالک کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب ''

٢۔ ذہبی کی ''تجرید''

٣۔ ابن اثیر کی اسد الغابہ

٤۔ ابن حجمہ کی '' اصابہ''

سہل بن یوسف کے حالات

١۔ ابن حجر کی لسان المیزان

۲۴۸

خالد بن عمرو کے حالات

١۔ '' رواة مختلقون '' اسی کتاب کے مؤلف کی تالیف

٢۔ ابن عساکر کی معجم الشیوخ

سہل بن مالک کے حالات پر تشریح کے ضمن میں حدیث پر ایک بحث

١۔ ابن حجر کی اصابہ

٢۔ متقی کی ' ' کنزل العمال'' باب سوم ، کتاب فضائل ، فصل دوم کے آخر میں (١٢ ١٥٥) ، اور فصل سوم کے آخر میں ( ١٢ ٢٣٩)

٣۔ متقی کی ''کنز ل العمال'' میں سیوطی سے نقل کرکے مذکورہ دونوں باب میں درج کیا ہے ۔

سیف بن عمر نے اپنی کتاب فتوح میں ، اس کے علاوہ ابن قانع، ابن شاہین ، ابن مندہ ، ابو نعیم ، ابن النجار اور ابن عساکر نے ذکر کیا ہے (گزشتہ حدیث کے آخرتک )

۲۴۹

باونواں جعلی صحابی اسعد بن یربوع انصاری خزرجی

ابن عبد البر نے کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کی تشریح شرح حال لکھتے ہوئے مآخذ کا ذکر کئے بغیر لکھا ہے :

وہ یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

ابن اثیر نے ابن عبدالبر کی روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں رمز (ب) کا اضافہ کرکے لکھا ہے :

البتہ یہ ابن عبد البر کا کہنا ہے ۔ اس نے بھی '' اسید بن یربوع ساعدی ''نام کے صحابی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ۔ یہ دو آدمی یا ایک دوسرے کے بھائی ہیں یا یہ کہ ان دو ناموں میں سے ایک دوسرے کی تصحیف ہے ۔ کیونکہ سیف بن عمر نے اسی صحابی کو اپنی کتاب فتوح میں '' اسعد '' کے عنوان سے پہنچوایا ہے ٢٩١۔

اور خدا بہتر جانتاہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ حرف ''ب'' ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' کی مختصر علامت ہے جسے ابن اثیر اور دیگر علماء نے اپنے درمیان رمز کے طور پر قرار دیا ہے ۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید'' میں لکھا ہے کہ '' اسعد بن یربوع '' اسید '' نام کے ایک مجہول شخص کا بھائی ہے جو یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

ابن حجر '' استیعاب '' کے مطالب نقل کرکے لکھتا ہے ۔

سیف نے کتاب ' ' فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور ابو عمر، ابن عبد البر نے بھی روایت کو سیف سے نقل کیا ہے۔

کتاب '' نسب الصحابة '' کے مصنف نے بھی لکھا ہے کہ ' اسعد بن یربوع '' یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ۔

کتاب '' درّ السحابہ'' میں بھی آیا ہے کہ '' اسعد بن یربوع '' یمامہ کی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے تھا ۔

۲۵۰

خلاصہ یہ کہ علماء میں سے چھ افراد نے اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ان میں سے چار اشخاص نے کسی قسم کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں :

١۔ '' ابن عبدالبر ''

٢۔ ذہبی

٣۔ کتاب ''نسب الصحابہ ''کے مصنف اور

٤۔ کتاب ''دار السحابہ ''کے مصنف

ذہبی نے بھی تاکید کی ہے کہ '' اسید '' مجہو ل شخص ہے ۔

دو افراد نے صرف سیف کا نام لیا ہے اور اسے اپنے مطالب کے مآخذ کے طور پر پہنچوایا ہے ۔ جو یہ دوافراد ہیں : '' ابن حجر '' اور '' ابن اثیر ''

ہم نے حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں ، '' اسعد '' یا '' اسید بن یربوع ساعدی '' نامی انصاری صحابی کے بارے میں جستجو اور تلاش کی لیکن مذکوہ منابع میں سے کسی ایک میں ان کا سراغ نہ ملا اس لئے اسے سیف کی مخلوق میں شمار کیا ہے ۔

جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ صرف دو دانشوروں نے اپنی روایت کے مآخذ کے طور پر سیف کا تعارف کرایا ہے اور دوسرے راویوں کا نام نہیں لیا ہے تا کہ ان کے بارے میں ہم بحث و تحقیق کرتے ۔

اسعد کے افسانہ کے نتائج

١۔ ایک انصاری ساعدی قحطانی صحابی کو خلق کرنا اور اسے یمامہ کی جنگ میں قتل ہوتے دکھانا۔

٢۔ میدان کارزار میں یمانی مقتولین کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرناتا کہ یہ دکھائے کہ وہ لیاقت اور تجربہ سے عار ی تھے اور اس طرح ان کی تذلیل کی جائے ۔ کیونکہ سیف کے نقطہ نظر کے مطابق لیاقت ، افتخار ، شجاعت اور بہادری کے مالک صرف مضری عدنانی ، خاص کر تمیم بنی سے اسیدہے جو خود سیف بن عمر کے قبیلہ سے ہے ۔

۲۵۱

مصادر و مآخذ

اسعد بن یربوع کے بارے میں درج ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ؛

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٤١) نمبر: ٧١

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ ' '( ١ ٧٣)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٥) نمبر : ١١٢

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ١ ٥١) نمبر؛ ١١٦

٥۔ '' نسب الصحابہ من الانصار '' ص ١٠٧

٦۔ در السحابہ فی بیان وفیات الصحابہ

کتاب '' در السحابہ '' کے مصنف ابو العباس رضی الدین ، حسن بن محمد بن حسن صنعانی ( ٥٥٥۔ ٦٥٠ھ ) ہیں ، اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں ہے او رمؤلف نے وہیں پر اس سے استفادہ کیا ہے ۔

ترپنواں جعلی صحابی مالک کی بیٹی سلمی

سلمی اور حوب کے کتے

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں مالک کی بیٹی سلمی کا تعارف یوں کرتا ہے :

مالک بن حذیفہ بن بدر فزارّیہ کی بیٹی سلمی معروف بہ '' ام قرفۂ صغریٰ'' عیینہ بن حصن '' کی چچیری بہن ہے ۔ اسے مقام اور اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کی ماں ، '' ام قرفۂ کبریٰ'' سے تشبیہ دیتے تھے۔

'' زید بن حارثہ '' نے ایک لشکر کشی کے دوران '' ام قرفہ ، کو قتل کر کے اور بنی فزارہ کے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیاتھا ، ان قیدیوں میں ' ام قرفہ '' کی بیٹی سلمی بھی موجود تھی جو مدینہ میں ام المؤمنین عائشہ کی خدمت میں پہنچی اور انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔

ایک دن سلمیٰ عائشہ کی خدمت میں تھی اتنے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دروازے سے داخل ہوئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:

تم میں سے ایک حوب کے کتوں کو بھونکنے پر مجبور کرے گی۔

۲۵۲

کہتے ہیں '' ام قرفہ ''کے گھر کی دیوار پر پچاس ایسی تلواریں لٹکائی گئی تھیں یہ جو پچاس ایسے شمشیر باز مردوں سے مربوط تھیں جو اس خاتون کے محرم تھے نہیں معلوم یہاں پر یہی ' ' ام قرفۂ '' ہے یا'' ام قرفۂ کبری '' (ز) ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر کا یہ بیان خبر کے لحاظ سے دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ میں سلمی کا نسب ہے اور دوسرا حصہ درج ذیل خبروں پر مشتمل ہے ۔

١۔ زید بن حارثہ کی لشکر کشی سے مربوط ہے کہ اس نے '' ام قرفہ '' کی سرکوبی کیلئے ماہ رمضان ٦ھ میں شہر مدینہ سے سات میل کی دوری پر ' 'وادی القریٰ'' کے علاقے پر فوج کشی کی تھی ۔

٢۔ حوب کے کتوں کی داستان

ام قرفہ کی داستان کے چند حقائق

ابن سعد نے اس لشکر کشی کے بارے میں اپنی کتاب '' طبقات'' میں یوں لکھا ہے :

زید بن حارثہ اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کچھ اجناس لے کر تجارت کی غرض سے مدینہ سے شام کی طرف روانہ ہوا ' ' وادی القریٰ'' کے نزدیک قبیلہ '' بنی بدر '' سے تعلق رکھنے والے فزارہ کے ایک گروہ سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی انہوں نے جب ان کے ساتھ اس قدر مال و منال دیکھا تو زید پر حملہ کرکے تمام مال و منال لوٹ لے گئے ۔

کچھ مدت کے بعد جب زید کے زخم اچھے ہوئے تو وہ مدینہ واپس لوٹ کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اور تمام ماجرا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیان کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے مجاہدوں کے گروہ کی سرکردگی میں ان کی سرکوبی کیلئے ممور فرمایا۔

زید نے قبیلہ فزارہ کے کنٹرول والے علاقے میں پیش قدمی میں انتہائی احتیاط سے کام لیادن کو مخفی ہوجاتے تھے ااور رات کو پیش قدمی کرتے تھے اس دوران ''' بنو بدر'' کے بعض افراد زید اور اس کی لشکر کی کاروائی سے آگاہ ہوکر '' فزارہ '' کے لوگوں کو اس خبر سے آگاہ کرتے ہیں کہ زید کی سرکردگی میں اسلامی فوج ان کی سرکوبی کیلئے آرہی ہے ۔ ابھی فزارہ کے لوگ پوری طرح مطلع نہیں ہوئے تھے کہ ایک روز صبح سویرے زید اور اس کی فوج نے تکبیر کہتے ہوئے اچانک ان پر حملہ کر دیا ۔ پوری بستی کو محاصرہ میں لے کر ان کے بھاگنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی۔

۲۵۳

فزارہ کے باشندوں نے مجبور ہوکر ہتھیار ڈالدئے، لہذا زید نے ان سب کو قیدی بنا لیا ان قیدیوں میں ربعہ بن بدر کی بیٹی '' ام قرفہ فاطمہ '' اور اس کی بیٹی '' جاریہ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر '' بھی تھی۔

'' جاریہ '' کو '' سلمة بن اکوع '' نے لے کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے '' حزن ابن ابی وہب '' کو بخش دیا ۔

ابن سعد اس داستان کے آخر لکھتا ہے کہ زید اور اس کے ساتھیوں نے '' ام قرفہ '' اور فزارہ کے چھ مردوں کو قتل کر ڈالا ۔

یعقوبی نے بھی '' ام قرفہ '' کی داستان کو یوں نقل کیاہے :

'' امر قرفہ نے اپنے محارم میں سے چالیس جنگجو اور شمشیر باز مردوں کو حکم دیا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لڑنے کیلئے مدینہ پر حملہ کریں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس موضوع سے مطلع ہوئے اور زید بن حارثہ کو چند سواروں کے ہمراہ ان کے حملہ کو روکنے کیلئے بھیجا ۔ دونوں گروہ '' وادی القریٰ''میں ایک دوسرے روبرو ہوئے اور جنگ چھڑگئی۔

لیکن زید کے ساتھ مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے ۔ زید زخمی حالت میں اپنے آپ کو مشکل سے میدان کا رزار سے باہر لاسکا ۔ اس حالت میں اس نے قسم کھائی کہ اس وقت تک نہ نہائے گا اور نہ بدن پر تیل کی مالش کرے گا جب تک کہ ان سے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا انتقام نہ لے لے !

زید نے اس قسم کو پورا کرنے کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوبارہ جنگ کی اجازت طلب کی ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے فزارہ سے جنگ کرنے کیلئے دوبارہ ممور فرمایا اور ایک گروہ کی سرپرستی اور کمانڈ اسے سونپی (گزشتہ داستان کے آخر تک ١ )

ابن ہشام ، یعقوبی ، طبری اور مقریزی نے لکھا ہے کہ اسی جنگ میں '' سلمة بن عمر واکوع'' نے قرفہ کی بیٹی '' سلمیٰ'' کو قیدی بناکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے اپنے ماموں '' حزن بن ابی وہب '' کو بخش دیا اور اس سے عبد الرحمان بن حزن پیدا ہوا ۔ پہلی خبر کی حقیقت یہی تھی جو ہم نے نقل کی ۔

١۔ محمد بن حبیب کتا ب '' محبّر'' کے ص ٤٩٠ میں لکھتا ہے ' 'ام قرفہ '' نے اپنے شوہر '' ابن حذیفہ '' سے تیرہ بیٹوں کو جنم دیا ہے جو شمشیر باز ، بلند ہمت اور بلند مقام والے تھے '' ام قرفہ '' بھی ایک بلند ہمت اور بانفوذ خاتون تھی ۔ وہ لوگوں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی رکھتی تھی کہتے ہیں ایک دن غطفان کے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا '' ام قرفہ '' نے اپنا دوپٹہ ان کے پاس بھیجدیا انہوں نے اسے نیزے پر بلند کیا ۔نتیجہ میں ان کے درمیان صلح و آشتی برقرار ہوگئی ۔

۲۵۴

'' ام قرفہ '' کا افسانہ اور حوب کے کتوں کی داستان

لیکن مذکورہ دوسری خبر کا سرچشمہ صرف سیف کے افکار اور ذہنی خیالات ہیں اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، ملاحظہ فرمائیے :

طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں قبائل '' ہوازن '' ، '' سلیم '' اور '' عامر'' کے ارتداد کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں لکھتا ہے :

''بزاخہ '' کی جنگ سے فرار کرنے والے قبیلۂ '' غطفان '' کے لوگ جو پیغمبری کے مدعی '' طلیحہ'' کی حمایت میں لڑرہے تھے ، شکست کھاکر عقب نشینی کرنے کے بعد ''ظفر '' نامی ایک جگہ پر جمع ہوگئے ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں '' مالک بن حذیفہ بن بدر فزاریہ ''' کی بیٹی '' ام زمل سلمیٰ '' کا کافی اثرو رسوخ تھا ۔ وہ شوکت ، وجلال اور کلام کے نفوذ میں ا پنی ماں '' ام قرفہ '' کی ہم پلہ تھی ۔

'' ام زمل'' نے مذکورہ فراریوں کی ملامت کی اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے فرار کرنے پر ان کی سخت سرزنش کی ۔ اس کے بعد ان کی ہمت افزائی کرکے پھر سے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دینے لگی ۔ خود ان کے بیچ میں جاکر ان کے ساتھ بیٹھ کر انھیں خالد کے ساتھ لڑنے کیلئے آمادہ کرتی تھی یہاں تک کہ قبائل '' غطفان '' ، ''ہوازن '' ، ' ' سلیم '' ، ''اسد'' اور '' طی ''' کے بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے ۔

ام زمل ، سلمی اس منظم گروہ کی مدد سے فزارہ کی گزشتہ شکست ، اس کی ماں کے قتل ہونے اور اپنی اسارت کی تلافی کیلئے خالد سے جنگ پر آمادہ ہوئی ۔

سلمی کا یہ تیز اقدام اس لئے تھا کہ برسوں پہلے ، اس کی ماں '' ام قرفہ'' کے قتل ہونے کے بعد وہ خود اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قیدی بن کر عائشہ کے گھر میں پہنچ گئی تھی ۔لیکن عائشہ کی طرف سے ام زمل کو آزاد کئے جانے کے با وجود وہ عائشہ کے گھر میں زندگی کرتی تھی ۔کچھ مدت کے بعد وہ اپنے وطن واپس چلی گئی اور اپنے رشتہ داروں سے جاملی ۔

ایک دن جب ام زمل عائشہ کے گھر میں تھی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر میں تشریف لائے جب ان دونوں کو دیکھا تو فرمایا:

تم میں سے ایک پر حوب کے کتے حملہ کرکے بھونکیں گے !

۲۵۵

اور یہ ام زمل کہ اس کے اسلام سے منہ موڑنے اور مرتد ہونے کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی ! کیونکہ جب ام زمل نے مخالفت پرچم بلند کیا اور فراری فوجیوں کو جمع کرنے کیلئے '' ظفر وحوب '' سے گزری تو حوب کے کتوں نے اس پر حملہ کیا اور بھونکنے لگے !!

بہر حال اس فزاری عورت کے تند اقداما ت اور لشکر کشی کی خبر جب خالدبن ولید کو پہنچی تو وہ فوراً اس کی طرف روانہ ہوا اور دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑگئی ۔ ام زمل نے اپنی ماں کے اونٹ پر سوار ہوکر جنگ کی کمانڈ خود سنبھالی اور بالکل ماں کی طرح اسی قدرت اور طاقت کے ساتھ حکم دیتی رہی اور لوگوں کو استقامت اور ڈت کے مقابلہ کرنے کی ' ' ترغیب '' اور ہمت افزائی کرتی رہی۔

خالد نے جب یہ حالت دیکھی تو اعلان کیاکہ جو بھی اس عورت کے اونٹ کو موت کے گھاٹ اتار ے گا اسے ایک سو اونٹ انعام کے طور پر ملیں گے !!! خالد کے سپاہیوں نے ام زمل کے اونٹ کا محاصرہ کیا اس کے سو سپاہیوں کو قتل کرکے اونٹ کو پے کہا اور بعد ام زمل کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔

اس جنگ میں قبائل '' خاسی ، وہاربہ اور غنم '' کے خاندان نابود ہوگئے اور قبیلہ کاہل کو ناقابل جبران نقصان پہنچا آخر میں خالد بن ولید نے اس فتحیابی کی نوید مدینہ منورہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچادی ۔

افسانۂ ام زمل کے مآخذکی پڑتال

سیف نے مالک حذیفہ کی بیٹی ام زمل سلمی کے افسانہ کو '' سہل '' کی زبانی جسے وہ سہل بن یوسف بن سہل کہتا ہے بیان کیا ہے اس سے پہلے ہم نے اس کو سیف کے جعل کردہ راویوں کے طورپر پہچنوایا ہے خاص کر اسی فصل میں '' ٥١ویں جعلی صحابی '' کے عنواں کے تحت اس سلسلے میں تفصیل سے بحث کی ہے ۔

۲۵۶

ام زمل کے افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

جن علماء نے '' ام زمل '' کے افسانے کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں :

١۔ ''طبری'' نے براہ راست سیف سے نقل کرکے اس کے مآخذ بھی ذکر کئے ہیں ۔

٢۔ ''حموی '' نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں دو جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے ۔ اس ترتیب سے کہ ایک جگہ لفظ '' حوب '' کے سلسلے میں حسب ذیل عبارت لکھی ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ جنگ بزاخہ سے فرار کرنے والے (داستان کے آخری تک )

اور دوسری جگہ لفظ '' ظفر'' کی تشریح میں یوں لکھتا ہے :

''ظفر'' بصرہ و مدینہ کے درمیان ، '' حوب'' کے نزدیک ایک جگہ ہے وہاں پر بزاخہ کے فراری جمع ہوئے تھے۔

پھر بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

لیکن ، '' نصر '' نے لکھا ہے کہ ''ظفر'' مدینہ و شام کے درمیان '' شمیط'' کے کنا رے پر واقع ہے اور یہ جگہ فزارہ کی زمینوں میں شمار ہوتی ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں پر '' ربیعہ بن بدر کی بیٹی ، '' ام قرفہ فاطمہ ، لوگوں کو پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی اور انھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتی تھی اور وہ وہیں پر قتل ہوئی ہے ۔

ام قرفہ کے بارہ بیٹے تھے جوجنگجو اور دلاور تھے اور بزاخہ کی جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دشمنی میں کافی سرگرم رہے ہیں ۔

خالد نے '' قرفہ '' اور طلیحہ کے فراری حامی جو مسلمانوں سے لڑنے کیلئے اس کے گرد جمع ہوئے تھے کو سخت شکست دی ۔ ام قرفہ کو قتل کرکے اس کے سر کو تن سے جد اکرکے خلیفہ ابو بکر کے پاس مدینہ بھیجدیا ۔ اور ابو بکر نے بھی حکم دیا کہ اس کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکادیا جائے ۔ کہتے ہیں اس کا سر اسلام میں پہلا سر تھا جسے لٹکایا گیا ہے ١ (حموی کی بات کا خاتمہ )

''حموی کے بیان کے مطابق '' ''نصر'' نے سیف کی دو خبروں کو آپس میں ملادیا ہے : پہلی خبر ام قرفہ کی سرکوبی کیلئے زید بن حارثہ کی لشکر کشی ہے ، سیرت لکھنے والوں نے یک زبان ہوکر کہا ہے کہ وہ لوگوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ زید نے اسے قتل کرنے کے بعد اس کا سر مدینہ بھیجا ہے ۔

۲۵۷

دوسری خبر کو سیف نے اس کی بیٹی '' ام زمل سلمی '' کے بارے میں جعل کیا ہے اور اس کا نام '' ام قرفہ صغری '' رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس نے بزاخہ کی جنگ میں طلیحہ کے حامی فراری سپاہیوں کو اپنے گرد جمع کیااور انھیں خالد بن ولید کے خلاف جنگ کرنے کی ترغیب دی اور سر انجام خالد کے ہاتھوں ماری گئی ۔

'' نصر '' نے ان دونوں خبروں کو '' خبر ام قرفہ ''' کے عنوان سے آپس میں مخلوط کر دیا ہے اور اس کے بعد ایک تیسری خبر بنائی ہے اور اس کے تحت ' ظفر '' کے موضوع کی تشریح کی ہے جو در اصل سیف کی تخلیق ہے ۔

شاید '' نصر '' نے ان دو خبروں کو ا سلئے آپس میں ملایا ہے کہ سیف نے اپنی خیالی مخلوق پر سلمی کا

____________________

١۔ محمد بن حبیب نے کتاب '' محبر'' میں ابن کلبی اور طبری سے بقول اسحاق لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش سے فرماتے تھے کہ اگر ام قرفہ قتل ہوجائے تو کیا ایمان لاؤ گے ؟ اور وہ جواب میں وہی بات کہتے تھے جو وہ ناممکن کام کے بارے میں کہتے تھے ،یعنی ، مگر یہ ممکن ہے ؟ برسوں گزرنے کے بعد اور زید بن حارثہ کے ہاتھوں ام فرقہ کے قتل ہونے کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر مدینہ کی گلیوں میں پھیرایا جائے تا کہ لوگ اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحیح پیشین گوئی پر ایمان لائیں ۔

۲۵۸

نام جوڑ کر اس کا '' ام قرفہ صغری'' نام رکھا ہے ۔ لیکن نصر اس مسئلہ سے غافل تھا کہ زید بن حارثہ کے ہاتھوں قتل کی جانے والی ' ام قرفہ '' اور سیف بن عمر کی مخلوق ' ام قرفہ '' کے درمیان زمین و آسمان کا فرق

ہے اس کے باوجود نصر نے ان دونوں کو ایک ہی جان کر ایک ساتھ ذکر کیا ہے ۔

'' ظفر''' کا محل وقوع بھی نصر اور حموی کو مکمل طور پر معلوم نہ ہوسکا ہے کیونکہ ایک کہتا ہے کہ ''ظفر''' شام کی راہ پر واقع ہے اور دوسر مدعی ہے کہ بصرہ کے راستہ پر واقع ہے بالکل دو مخالف جہتوں میں ، ایک شمال کی طرف اور دوسرا جنوب کی طرف۔

اسی طرح حموی اور نصر نے اپنی خبر کا مآخذ مشخص نہیں کیا ہے صرف حموی نے '' حوب '' کے سلسلے میں تشریح کرتے وقت اپنی روایت کے آغاز میں سیف بن عمر کا ذکر کیا ہے ۔

٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں سلمی کے حالات کی تشریح کیلئے خصوصی جگہ معین کرکے '' زنان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' کے عنوان سے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے لیکن روایت کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس کے بارے میں صرف اتنا کہا ہے کہ :

سلمی ، عیینہ بن حصن بن حذیفہ کی چچیری بہن تھی ۔

ابن حجر کے اس تعارف کا سرچشمہ یہ ہے کہ سیف نے اپنی مخلوق سلمی کو عیینہ کے چچا مالک بن حذیفہ کی بیٹی کی حیثیت سے خلق کیا ہے ۔

٤۔ ابن اثیر نے ام زمل کی روایت کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٥۔ ابن کثیر نے بھی روایت کو براہ راست طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیاہے

٦۔ ابن خلدون نے بھی طبری کی روایت نقل کرے '' ام زمل'' کی داستان کو اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔

٧۔ میر خواند نے بھی سلمی کی داستاں کو طبری سے لیا ہے ۔

٨۔ حمیری نے بھی لفظ '' ظفر ''میں حموی کی '' معجم البلدان ' سے نقل کرکے ام زمل کی داستاں کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

۲۵۹

حدیث و داستان حوب کی حدیث اور داستان کے چند حقائق

سیف نے مالک کی بیتی '' ام زمل سلمیٰ '' معروف بہ '' ام قرفہ صغری'' کی روایت اس لئے گڑ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث میں تحریف کرے جو آنحضرت نے حوب کے علاقہ کے کتوں کے ام المؤمنین عائشہ کے اونٹ پر بھونکنے کے بارے میں فرمائی ہے سیف نے اس طرح تاریخی حقائق اور اس خاتون کے زمانہ میں اسلامی سرداروں اور شخصیتوں کی روش پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

ہم یہاں پر حقائق کو واضح اور وشن کرنے کیلئے حوب کے کتوں کے بھونکنے کی روایت کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جیسا کہ واقعہ پیش آیا ہے اور سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں درج ہوا ہے ۔ توجہ فرمائیے :

ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام بیویاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:

تم میں سے کون ہے جو پر پشم اونٹ پر سوار ہوگی اور حوب کے کتے اس پر بھوکیں گے، اسکی راہ میں بہت سے انسان دائیں بائیں خاک و خون میں لت پت ہوجائیں گے اس کے اس دلخواہ حادثہ کے رونماہونے کے بعد اس قتل گاہ سے خود زندہ بچ نکلے گی ؟

عائشہ ہنس پڑیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے مخاطب ہوکرفرمایا:

اے حمیرا ہوشیار رہنا کہیں وہ عورت تم نہ ہو ! اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

تم علی سے جنگ کروگی جب کہ تم ہی پرظالم ہوگی ۔

سیرت اور تاریخ لکھنے والوں نے اس کے بعد لکھا ہے :

جب عائشہ بصرہ کی طرف جاتے ہوئے حوب کے پانی کے نزدیک پہنچی تو اس علاقہ کے کتوں نے اس پر چھلانگ لگاتے ہوئے بھونکنا شروع کیا ۔ عائشہ نے پوچھا :

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329