ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130641 / ڈاؤنلوڈ: 4446
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مسلمان تاریخ نویسوں کی نظر میں عبدالله بن سبا کی داستان

۱ سید رشید رضا(۱)

متاخرین میں سے سید رشید رضا نے یوں کہاہے :

” چوتھے خلیفہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام پر شیعیت ، امت محمدی میں دینی اور سیاسی اختلاف کا آغاز تھا ، پہلا شخص جس نے تشیع کے اصول گڑھے ہیں ، وہ عبد الله بن سبا نامی ایک یہودی تھا جس نے مکر و فریب کی بنا پر اسلام کا اظہار کیا تھا ۔ وہ لوگوں کو علی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے کی دعوت دیتا تھا تا کہ اس طرح امت میں اختلاف اور تفرقہ پھیلا کر اسے تباہ و برباد کرے(۲)

سید رشید رضا اس داستان کو اپنی کتاب کے چھٹے صفحہ تک جاری رکھتے ہوئے اس پر اپنا خاطر خواہ حاشیہ لگایا ہے ، جب ہم اس سے اس خیالی داستان کے ثبوت اور مصادر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ داستان کو نقل کرنے کے بعد یوں لکھاہے :

” اگر کوئی تاریخ ابن اثیر کی تیسری جلد کے صفحہ ۹۵ ۔ ۱۰۳ پر جنگ جمل کے واقعہ کی

____________________

۱۔ متولد ۱۳۶۵ھ

۲۔ سید رشید رضا کی الشیعہ و السنة ،ص ۶۔۴۔

۴۱

خبر کا مطالعہ کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ ” سبائیوں “ نے کس حد تک اختلاف اندازی کی ہے اور نہایت ذہانت اور چالاکی سے اپنی مہارت کا اظہار کیا ہے اور صلح کی راہ میں کتنی روکاوٹیں ڈالی ہیں ، اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ سید رشید رضا نے اس داستان کو ” تاریخ ابن اثیر “ پر بھروسہ کرکے نقل کیا ہے ۔

۲ ابو الفدء

ابو الفداء جس نے ۷۳۲ ھ میں وفات پائی ہے ، ” المختصر “ نامی اپنی تاریخ میں چند دوسری غیر صحیح داستانوں کے ساتھ ضمیمہ کرکے اپنی کتاب کے دیباچہ میں اس داستان کے ایک حصہ کو یوں لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کو شیخ عز الدین علی معروف بہ ابن اثیر جزری کی تالیف ’ ’ تاریخ کامل “ سے لیا ہے اور ابن اثیر کے مطالب کو خلاصہ کے طورپرمیں نے اپنی اِس کتاب میں درج کیا ہے “

۳ ابن اثیر

ابن اثیر وفات ۶۳۰ ھ ئنے اس داستان کو ۳۰ ۔ ۳۶ ء کے حوادث کے ضمن میں مکمل طور پر نقل کیا ہے، لیکن اس بات کی طرف کسی قسم کا اشارہ نہیں کیا ہے کہ اس نے اس داستان کو کس مآخذ سے نقل کیا ہے ، صرف کتاب کے دیباجہ میں(۱)

____________________

۱۔ صفحہ ۵ ،طبع مصر ۱۳۴۸ھ ۔

۴۲

جس کا پورا نام ” الکامل فی التاریخ “ ذکر کیا ہے لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کے مطالب کو ابتداء میں امام ابو جعفر محمد طبری کی تالیف ” تاریخ الامم و الملوک “ سے نقل کیا ہے ، کیونکہ وہ تنہا کتاب ہے جو عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتماد ہے اور اگر کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اس اختلاف کو دور کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ، لہذا میں نے بھی اس کتاب کی روایتوں کو کسی دخل و تصرف کے بغیر من و عن نقل کیا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے اکثر واقعات کے بارے میں متعد روایتیں ذکر کی ہیں لیکن میں نے ان تمام روایتوں کے مطالب کو جمع کرکے ایک جگہ بیان کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر جو کچھ اس نے ایک واقعہ کے بارے میں نقل کیا ہے اور اسے مختلف مآخذ کے حوالہ سے بیان کیا ہے ، میں نے اُسے ایک روایت کی شکلمیں ذکر کیا ہے “

یہاں تک کہ کہتا ہے :

” لیکن اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختلافات کے بارے میں جو کچھ تھا اسے میں نے مذکورہ تاریخ سے من و عن نقل کرکے درج کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا ہے ، صرف مطالب کی وضاحت کی ہے یا اشخاص کے نام ذکر کئے ہیں اور یا خلاصہ کے طور پر ان کی تشریح اس طرح کی ہے کہ کسی صحابی کی بے احترامی نہ ہو“

اس لحاظ سے ابن اثیر، (جس سے ابو الفداء اور سید رشید رضا نے نقل کیا ہے)نے اس داستان کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ داستانیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے درمیان رونما ہوئے حوادث کی تفصیلات سے مربوط جعل کی گئی ہیں ، لہذ اابن اثیر کے کہنے کے مطابق اس نے طبری کے نقل کردہ مطالب پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

۴ ابن کثیر

ابن کثیر ---(وفات ۷۷۴ ھ)نے بھی اس داستان کو اپنی تاریخ ” البدایة و النہایة “ کی ساتویں جلد میں طبری سے نقل کیا ہے اور اس کتاب کے صفحہ ۱۶۷ میں لکھاہے :

سیف بن عمر نے کہا ہے کہ عثمان کے خلافمختلف پارٹیوں کی بغاوت کا سبب یہ تھا کہ ” عبدا للہ بن سبا “ نامی ایک شخص نے ظاہری طور پر اسلام لانے کے بعد مصر میں جاکر خود کچھ عقائد اور تعلیمات گڑھ کر وہاں کے لوگوں میں ان عقائد کو پھیلای“

۴۳

اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے مربوط داستانوں کو تمام خصوصیات کے ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۴۶ تک نقل کرتا ہے اور اس کے بعد لکھتا ہے :

” یہ اس کا ایک خلاصہ ہے جو کچھ ابو جعفر بن جریر طبری نے نقل کیا ہے “۔

اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی مذکورہ داستان کو ” تاریخ طبری “ سے نقل کیا ہے ۔

۵ ابن خلدون

عبد الرحمان بن محمد بن خلدون نے بھی ” المبتداء و الخبر “ نامی اپنی تاریخ میں ابن اثیر اور ابن کثیر کے ہی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے عبداللہ بن سبا کی داستان کو قتل عثمان اور جنگ جمل کے واقعہ میں ذکر کیا ہے پھر اسی کتاب کی جلد(۲) صفحہ ۴۲۵ میں جنگ جمل کا واقعہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے :

یہ ہے جنگ جمل کا واقعہ جسے میں نے خلاصہ کے طور پر ابو جعفر طبری کی کتاب سے نقل کیا ہے، طبری اس لحاظ سے قابل اعتماد ہے کہ وہ باوثوق ہے اور اس کی کتاب ، ابن قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کے یہاں موجود مطالب کی نسبت صحیح و سالم ہے “

اور صفحہ نمبر ۴۵۷ پر لکھاہے :

میں نے جو کچھ اس کتاب میں اسلامی خلافت کے موضوع، مرتدوں کے بارے میں فتوحات ، جنگوں اور اس کے بعد مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع (امام حسن اور معاویہ کے درمیان صلح) کے بارے میں درج کیا ہے ، وہ سب امام ابو جعفر طبری کی عظیم تاریخ سے خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ، چونکہ یہ تاریخ دیگر تواریخ کی نسبت قابل اعتمادہے اور ا سمیں ا یسے مطالب درج کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے جو اس امت کے بزرگوں ، اصحاب اور تابعین کی بے احترامی کا سبب بنیں “

۴۴

۶ فرید وجدی

فرید وجدی نے بھی اپنے” دائرة المعارف “ میں لغت ” عثم “ ، جنگ جمل اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حالات بیان کرنے کے ضمن میں ان داستانوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۰ ، ۱۶۸ ، اور ۱۶۹ میں اشارہ کیا ہے کہ اس کا مآخذ ” تاریخ طبری “ ہے ۔

۷ بستانی

بستانی(وفات ۱۳۰۰ ھ)نے عبدا لله ابن سبا کی داستان کو ”تاریخ ابن کثیر “ سے نقل کرکے اپنے دائرة المعارف میں مادہ ” عبد اللہ “ کے تحت ذکر کیا ہے اور ” خطط مقریزی “(۱) کے بیان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اپنی بات تمام کی ہے ۔

۸ احمد امین

عصر حاضر کے مصنفین ، جوتاریخی حوادث کو تجزیہ و تحلیل کے طریقے سے لکھنا چاہتے ہیں اور ہر حادثہ کے سرچشمہ پر نظر رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک احمد امین مصری ہیں ۔جنھوں نے ” فجر الاسلام “ نامی اپنی کتاب میں ایرانیوں اور اسلام پر ان کے اثر انداز ہونے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس کے صفحہ نمبر ۱۰۹ سے ۱۱۱ تک ” مسلمانون پر زرتشت عقائد و افکار کے اثرات “ کے باب میں ” مزدک “ کے

____________________

۱۔ یہ احمد بن علی مقریزی وفات ۸۴۸ ھ ہے

۴۵

بارے میں بیان کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی بات کا خلاصہ حسب ذیل ہے(۱) ” مزدک کی اہم دعوت اس کا اشتراکی نظام مقصد تھا ، مزدک کہتا تھا

” لوگ مساوی طور پر دنیا میں آئے ہیں اور انھیں مساوی زندگی بسر کرنی چاہئے ، اہم ترین چیز جس میں لوگوں کو مساوات کا لحاظ رکھنا چاہئے ، دولت اور عورت ہے ، کیونکہ یہی دو چیزیں لوگوں کے درمیان دشمنی اور جنگ کا سبب بنتی ہیں ، لہذا لوگوں کو ان دو چیزوں میں ایک دوسرے کا شریک ہونا چاہئے تا کہ دشمنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے “

وہ دولتمندوں کی دولت کو محتاجوں اور فقیروں میں تقسیم کرنا واجب جانتا تھا ، لہذا حاجتمندوں نے فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کے اس اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی حمایت کی اور اس طرح وہ اس قدر قوی ہوگیا کہ کوئی اس کی مخالفت کی جرات نہیں کرسکتا تھا ، لوگوں کے گھروں پر حملہ کرکے ان کے مال و ناموس کو لوٹ لیتا تھا ، اس طرح ایسے حالات رونما ہوئے کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچان سکتا تھا اور نہ بیٹا باپ کو جانتا تھا اور نہ کسی کی دولت باقی رہی تھی “

اس کے بعد احمد امین لکھتے ہیں کہ یہ دین اسلام کے پھیلنے کے زمانے اور بنی امیہ کی خلافت کے آخری ایام تک ایران کے بعض دیہاتی باشندوں میں موجود تھا ۔

اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

____________________

۱۔ احمد امین سے پہلے رشید رضا نے اپنی کتاب ” الشیعہ و السنة “ میں یہی بات کہی ہے ۔

۴۶

” ہم مالی امور کے سلسلے میں ا بوذر کے نظریہ اور مزدک کے نظریہ میں شباہت پاتے ہیں ، کیونکہ طبری کہتا ہے ابوذر نے شام میں انقلاب کرکے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ” اے دولتمندو حاجتمندوں کی مدد و یاری کرو“ اور یہ کہتا تھا : <اَلَّذِینَ یکنزون الذهب و الفضة و لا ینفقونها فی سبیل الله فبشّرهم بعذابٍ الیم >(۱)

اس نعرہ کو اس قدر دہرایا کہ تنگدستوں نے اسے اپنا منشور قرارد یا اور مساوات کو ثروتمندوں پر واجب سمجھنے لگے ، یہاں تک کہ دولتمندوں نے تنگ آکر شکایت کی اور معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ابوذر شام کے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت پر نہ اکسائےں ، اسے عثمان کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

عثمان نے ابو ذر سے پوچھا : کیوں لوگ تیری زبان درازی پر تجھ سے شکایت کرتے ہیں ؟ ابوذر نے جواب میں کہا : دولتمند سزاوار نہیں ہیں کہ وہ اپنے مال کو جمع کریں !

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال اور دولت کے بارے میں ابوذر کا طرز تفکر مزدک کے نظریہ سے بہت نزدیک تھا یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوذر نے نظریہ کہاں سے سیکھا تھا؟

ہم اس سوال کے جواب کو طبری کی تحریر میں پاتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے : ابن سوداء عبداللہ بن سبا نے ابوذر سے ملاقات کرکے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے ، البتہ عبداللہ بن سبا ابود رداء اور عبادہ بن صامت(۲) کے پاس بھی گیا تھا لیکن وہ اس کے فریب میں نہیں آئے تھے ، حتی عبادة بن

____________________

۱۔ مال و دولت کو جمع کرکے راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والو ں کو خبردار کرو کہ ان کی پیشانی اور پہلو کو داغ کرنے کیلئے اوزار آمادہ ہے ۔

۲۔یہ دونو ں پیغمبر خدا کے اصحاب ہیں ، اس کتاب کے آخر میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

۴۷

صامت نے ابن سوداء کے گریبان پکڑ کر اسے معاویہ کے پاس لے گیا اور معاویہ سے کہا: خدا کی قسم یہ وہ شخص ہے جس نے ابوذر کو تیرے خلاف اکسایا ہے(۱)

اس کے بعد احمد امین بیان کو اس طرح جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہم جانتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا صنعاء کا رہنے و الا ایک یہودی شخص تھا ، اس نے عثمان کے زمانے میں ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا تا کہ اسلام کو نابود کردے ، اس لئے اس نے مختلف شہروں میں اپنے گمراہ کن اور مضر افکار کو پھیلادیا جن کے بارے میں بعد میں ہم اشارہ کریں گے۔

چونکہ ابن سبا نے حجاز ، بصرہ ، کوفہ ، شام اور مصر جیسے بہت سے شہروں کا سفر کیا تھا ا س لئے اس کا قوی امکان ہے کہ اس نے اس طرز تفکر کو عراق یا یمن کے مزدکیوں سے حاصل کیا ہوگا اور ابوذر نے اس سے حسن نیت رکھنے کی بنا پر اس نظریہ کو قبول کیا ہوگا“

اور حاشیہ میں لکھا ہے :

____________________

۱” تاریخ طبری کا حصہ پنجم ملاحظہ ہو “

وہ اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۲ میں اس طرح نتیجہ اخذ کرتے ہیں :

” مزدک و مانی وہ سرچشمہ تھے جن سے رافضیوں -(شیعوں) نے اپنے عقائد اخذ کئے ہیں ، انہوں نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ اپنے ایرانی اسلام کے اس عقیدہ سے لیا ہے جو وہ ساسانی بادشاہوں کے بارے میں رکھتے تھے ، کیونکہ وہ پادشاہوں کی پادشاہی کو ایک قسم کا خدائی حق جانتے تھے ۔

۴۸

احمد امین نے وعدہ کیا تھا کہ ” مختلف شہروں میں ان گمراہ کن اور مضر عقیدوں و و افکار کو پھیلنے کے بارے میں بعد میں اشارہ کریں گے “ وہ اس وعدہ کو پورار کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۵۴ پر اسلامی فرقوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں :

عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں بعض گروہ مخفی طور پر جگہ جگہ پھیل گئے اور لوگوں کو عثمان کا تختہ الٹنے، اس کی جگہ پر دوسروں کو بٹھانے کی ترغیب دلانے لگے ۔

ان فرقوں میں سے بعض فرقے علی علیہ السلام کے حق میں پروپگنڈہ کرتے تھے ، ان کے سرغنوں میں سب سے مشہور شخص عبداللہ بن سبا تھا ، جو یمن کا ایک یہودی تھا اور اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا اور بصرہ ، شام و مصر کے شہروں کا دورہ کرتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک وصی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی، علی علیہ السلام ہیں اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ کرے اور ا س کے وصی کے خلاف بغاوت کرے ؟ ابن سبا ان معروف افراد میں سے تھا جس نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بغاوت پر اکسایا “

اس کے بعد صفحہ ۲۵۵ پر لکھتے ہیں :

” یہ اس تاریخ کا خلاصہ ہے جس کو نقل کرنے پر میں مجبور تھا ، کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے تین فرقے اسی کی بناء پر وجود میں آئے ہیں جو عبارت ہیں ، شیعہ اور “

اپنی کتاب کے ۲۶۶ ۔ ۲۷۸ پر شیعوں سے مربوط فصل میں ایسے مطالب کو واضح تر صورت میں بیان کیا ہے ۔ وہ صفحہ ۲۷۰ پر رقم طراز ہیں :

رجعت کے عقیدہ کو ابن سبا نے مذہب یہود سے لیا ہے کیونکہ وہ لوگ اس امر کے معقتد ہیں کہ الیاس پیغمبر نے آسمان کی طرف عروج کیا ہے اور وہ واپس آئیں گے اس عقیدہ نے شیعوں کو ائمہ کے غائب ہونے او رمھدی منتظر کے اعتقاد رکھنے پر مجبور کیا ہے(۱) اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۷۶ پر مذکورہ مقدمات کا حسب ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں :’ ’ حقیقت میں تشیع ایسے لوگوں کی پناہ گاہ تھی جو اسلام کے ساتھ دشمنی اور کینہ رکھنے کی بناء پر اسے نابود کرنا چاہتے تھے ۔ جو بھی گروہ اپنے اسلام یعنی یہودی ، عیسائی اور زردشتی دین کو اسلام میں داخل کرنا چاہتا تھا ، اس نے اہل بیت پیغمبر کی دوستی

____________________

۱۔ مؤلف نے مصری عالم شیخ محمود ابوریہ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں مھدی موعود (عج) کے بارے میں شیعو ں کے عقیدہ کے سلسلہ میں کچھ دلائل لکھے ہیں ، اس خط کا ایک حصہ مذکورہ عالم کی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں درج ہوا ہے ، طبع صور لبنا ں ۱۳۸۳ ھ ء ملاحظہ ہو۔

۴۹

کو وسیلہ قرار دیا اور اس آڑ میں جو بھی چاہا انجام دیا ، شیعوں نے رجعت کے عقیدہ کو یہودیوں سے سیکھا ہے(۱)

اور صفحہ ۲۷۷ پریوں تحریک کرتے ہیں :

ولھاوزن کا عقیدہ یہ ہے کہ تشیع ایرانیوں کے دین کی بہ نسبت ،دین یہود سے زیادہ متاثر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تشیع کا بانی عبداللہ بن سبا نامی ایک یہودی شخص تھا ۔“

احمد امین کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعوں نے رجعت اور امامت کے عقیدہ کو عبدا للہ بن سبا سے لیاہے اور ائمہ کی عصمت اور غیبت مھدی (عج) کے عقیدہ کا سرچشمہ بھی یہی ہے اور ابوذر نے جو اشتراک کی تبلیغ کی ہے یہ تبلیغات اور تعلیمات بھی عبداللہ بن سبا سے سیکھی ہے اور ابن سبا نے بھی رجعت کے عقیدہ کو دین یہود سے لیا ہے اور اشتراکی نظریہ کو مزدک کے دین سے اخذ کیا ہے اور عبدا لله بن سبا نے یہ کام علی علیہ السلام کے حق کے مطالبہ کی آڑ میں انجام دیا ہے اور اس طرح اسلام میں شیعہ عقیدہ کو ایجاد کیا ہے ، اس طرح یہاں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حب اہل بیت دشمنان اسلام کے لئے وسیلہ قرار پایا ہے اور شیعیت کے روپ میں یہود وغیرہ کی تعلیمات اسلام میں داخل ہوئی ہیں !!!

احمد امین کے ان تمام مفروضوں کا منبع اور دلیل ابن سبا کے افسانے ہیں اور مآخذ تاریخ طبری ہے اس نے صرف ایک جگہ پر ولھاوزن سے نقل کیا ہے ، ہم ثابت کریں گے کہ ولھاوزن نے بھی طبری

____________________

۱۔ کتاب ” فجر اسلام “ اور ” تاریخ الاسلام السیاسی “ دنیا کی یونیورسٹیوں میں تاریخی مآخذمیں جانی جاتی ہیں یہ شیعہ تاریخ یونیورسٹیوں میں یوں پڑھا ئی جاتی ہے تو کیاصحیح تاریخ سمجھانے کا کوئی وسیلہ موجود ہے ؟

۵۰

سے نقل کیا ہے ۔

اگر چہ احمد امین نے اس افسانہ کو علمی تجزیہ و تحلیل کے طریقے پر پیش کیا ہے ، لیکن اس میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں کہ شیعوں کے بارے میں ان کے بغض و کینہ نے انھیں ان مفروضوں کے سلسلہ میں کوسوں دور پھینک دیا ہے نہ کہ علمی ا ور تحقیقی روش نے

۹ حسن ابراہیم

معاصر کے مصنفین میں سے ایک اور شخص جس نے ان داستانوں کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ مصر کی یونیورسٹی کے شعبہ تار یخ اسلام کے استادپروفیسر ڈاکٹر حسن ابراہیم ہیں ، انھوں نے ” تاریخ الاسلام السیاسی “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۷ پر خلافت عثمان کے آخری ایام میں مسلمانوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

” یہ ماحول مکمل طور پر عبد اللہ بن سبا اور اس کے پیرکاروں ،اور اس کے اثر ات قبول کر نے والوں کا تھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک دیرینہ صحابی ، ابوذر غفاری (جو تقوی اورپرہیزگاری میں مشہور تھے اور خود ائمہ حدیث کی عظیم شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے)نے فتنہ کی آگ کو بھڑکادیا ، اس نے صنعا کے رہنے والے ایک شخص عبد اللہ بن سبا کے کئے گئے زبردست پروپگنڈے کے اثر میں آکر عثمان اور اس کے شام میں مقرر کردہ گورنر معاویہ کی سیاست کی مخالفت کی ، عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کرکے مختلف شہروں کا دورہ کیا اس نے اپنے دورے کو حجاز سے شروعکیا اور کوفہ ، شام اور مصر تک چھان ڈالا “

۵۱

اس نے اس صفحہ کے حاشیہ پر تاریخ طبری(۱) کو اپنا مآخذ قرار دیا ہے اور کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۹ پر یوں لکھا ہے :

” عبداللہ بن سبا سب سے پہلا شخص ہے جس نے عثمان کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی اور عثمان کا تختہ الٹنے کی راہ ہموار کی “

کتاب کے حاشیہ پر تاریخ طبری کے صفحات کی طرف چار بار اشارہ کرتا ہے کہ اس خبر کو میں نے اس سے نقل کیا ہے اور اسی طرح داستان کو ص ۳۵۲ تک جاری رکھتا ہے اور بارہ دفعہ اس داستان کے تنہا مآخذ تاریخ طبری کے صفحات کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے باوجود کہ جنگِ جمل کے بارے میں طبری کی نقل کردہ بات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے ، جبکہ ابن سبا دونوں داستانوں میں موجود ہے، اور دونوں قصے ایک ہی داستان پر مشتمل ہیں اور داستان گڑھنے والا بھی ایک ہی شخص ہے!!!

۱۰ ابن بدران

ابن بدران (وفات ۳۴۶ ھ ء) نے تاریخ ابن عساکر کا خلاصہ لکھا ہے اور اس کا نام ” تہذیب ابن عساکر “ رکھاہے اس نے اپنی اس کتاب میں اکثر روایتوں کو راوی کا نام لئے بغیر نقل کیا ہے ۔ اس

____________________

۱۔ طبری طبع یورپ حصہ اول صف ۲۸۵۹

۵۲

نے ابن سبا کے افسانے کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے اس نے بعض جگہوں پر اس کے راوی سیف بن عرم کا نام لیا ہے اور بعض جگہوں پر راوی کا ذکر کئے بغیر افسانہ نقل کیا ہے اور بعض مواقع پر سیف کی روایتوں کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چنانچہ اس سے زیادہ ا بن ابیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے سیف کی روایتوں کو اس کی کتاب سے نقل کیا ہے(۱)

لہذا معلوم ہوتا ہے کہ سبائیوں کی داستان نقل کرنے میں اسلام کے مؤرخین کا مآخذ و مدرک ” تاریخ طبری “ تھا۔

۱۱ سعید افغانی

سعید افغانی نے ” عائشہ و السیاسة “ نامی اپنی کتاب میں ابن سبا کے افسانہ سے کچھ حصے، ” عثمان کااحتجاج “ ابن سبا مرموز اور خطرناک ہیرو ، سازش و دسیسہ کاری پر نظر “‘ کے عنوا ن کے تحت بیان کیا ہے ، اس نے اپنی کتاب کے دوسرے حصوں میں ان افسانوں کے چند اقتباسات درج کئے ہیں ۔

اس کا مآخذ ، پہلے درجہ پر تاریخ طبری ، دوسرے درجہ پر تاریخ ابن عساکر اور اس کی تہذیب اور تیسرے درجہ پر تمہید ابن ابی بکر(۱) ہے ، وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۵ پر طبری کے او پر اکثر اعتماد کرنے کا سبب یوں بیان کرتا ہے :۔

میں نے بیشتر اعتماد تاریخ طبری پر کیا ہے ، کیونکہ یہ کتاب دوسرے تمام مصادر سے حقیقت کے نزدیک تر اور اس کا مصنف دوسروں سے امین تر اور اس کے بعد آنے والے ہر با اعتبارر مؤرخ نے اس پر اعتماد کیا ہے ۔

میں نے اس کے الفاط میں کسی قسم کے رد و بدل کے بغیر اپنی کتاب میں درج کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔

____________________

۱۔ ص ۴۳ اور ۴۵ پر تاریخ ابن عساکر ، صفحہ ۴۲ ، ۴۹، ۵۲ اور ۱۸۷ پر تہذیب ابن عساکر سے اور صفحہ ۳۴ اور ۳۵ میں تمہید سے استفادہ کیا ہے ۔

۵۳

غیر مسلم مؤرخین کی نظر میں عبدللہ بن سبا کی داستانیں

۱ فان فلوٹن

وہ ایک مستشرق ہے وہ اپنی کتاب ”السیاسة العربیة و الشیعة و الاسرائیلیات فی عهد بنی امیة “ ترجمہ ڈاکٹر حسن ابراہیم و محمد زکی ابراہیم طبع اول ، مصر ۱۹۳۴ ءء کے صفحہ ۷۹ پر شیعہ فرقہ کے بارے میں نقل کرتے ہوئے، یوں لکھتا ہے :

” امام ،سبائی ، عبداللہ بن سبا کے پیرو ، ہیں نیز ان افراد میں ہیں جو عثمان کے پورے دو ر خلافت میں علی علیہ السلام کو خلافت کےلئے سزاوار جانتے تھے “

اس نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۸۰ کے حاشیہ پر تاریخ طبری کو اپنے مآخذ و مدرک کے طور پر پیش کیا ہے ۔

۲ نکلسن

نکلسن اپنی کتا ب” تاریخ الادب العربیّ“ طبع کمبریج کے صفحہ نمبر ۲۱۵ پر لکھتا ہے :

” عبدا للہ بن سبا ،سبائیوں کے گروہ کا بانی ہے ، وہ یمن کے شہر صنعا کا باشندہ تھا ،کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اور عثمان کے زمانے میں اسلام لایا تھا اور ایک سیاح مبلغ تھا ، مؤرخین اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں : وہ ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر میں رہا کرتا تھا تا کہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے ان میں اختلاف پیدا کرے ، سب سے پہلے وہ حجاز میں نمودار ہوا اس کے بعد بصرہ اور کوفہ اس کے بعد شام اور آخر کار مصر پہنچا ، وہ لوگوں کو رجعت کے اعتقاد کی دعوت دیتا تھا ، ابن سبا کہتا تھا : بے شک تعجب کا مقام ہے کہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ کے پھر سے اس دنیا میں آنے کا معتقد ہو لیکن حضرت محمد کی رجعت کے بارے میں اعتقاد نہ رکھتا ہو جبکہ قرآن مجید نے اس کا واضح طور پر ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہزاروں پیغمبر آئے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی و جانشین تھا ، محمد کا بھی ایک وصی ہے جو علی علیہ السلام ہے ، چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اس لئے علی علیہ السلام بھی آخری وصی اور ان کے جانشین ہیں “

اس نے بھی اپنا مآخذ کو تاریخ طبری کو قرار دیکر مذکورہ بیانات کے حاشیہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

۵۴

۳ اسلامی دائرة المعارف لکھنے والے مستشرقین

ہو تسمن ، ولاینسنگ ، اورنلڈ ، برونسال ، ھیونک ، شادہ ، پاسیہ ، ہارٹمان اور کیب جیسے مشرق شناس استادوں کے ایک گروہ کے تصنیف کردہ اسلامی دائرة المعارف میں یہ داستان حسب ذیل درج ہوئی ہے :(۱)

____________________

۱۔ اسلامی دائرة المعارف ج۱/ ۲۹ طبع لندن

۵۵

” اگر ہم صرف طبری اورمقریزی کی بات پر اکتفا کریں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ جن چیزوں کی طرف عبد اللہ بن سبا دعوت دیتا تھا ، ان میں رجعت محمد بھی تھی وہ کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک جانشین ہے اور علی علیہ السلام محمد کے جانشین ہیں ۔ لہذا ہر مؤمن کا فرض ہے کہ اپنے کردار و گفتار سے علی علیہ السلام کے حق کی حمایت کرے “ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ نے اس طرز تفکر کی تبلیغ کےلئے بعض افراد کو معین کیا تھا اور خود بھی ان میں شامل تھا، وہ شوال ۱۵ ھ مطابق اپریل ۶۵۶ ءء میں مصر سے مدینہ کی طرف روانہ ہو “

ہم نے یہاں پر وہ مطلب درج کیا جسے مذکورہ دائرة المعارف نے طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ حوادث مقریزی سے ۸۰۰ سال قبل رونما ہوئے ہیں ، اس لئے اس طولانی فاصلہ زمان کے پیش نظر اور اس کے علاوہ مقریزی نے مآخذکا ذکر بھی نہیں کیا ہے یا جس کتاب سے نقل کیاہے اس کا نام بھی نہیں لیا ہے اسلئے مقریزی کے نقل پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ طبری اس داستان کی سند کو اس کے راوی تک پہنچاتا ہے اور وہ خود بھی مقریزی سے تقریباً پانچ سو سال پہلے گذراہے، اس حالت میں یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم مقریزی کی تحریر کو تاریخ طبری کے برابر قرار دیں اس کے باوجود ہم کتاب کے آخر میں مقریزی کی روایت پر بحث کریں گے ۔

۴ڈوایت ، ایم، ڈونالڈسن

ڈوایت ، ایم ، ڈونالڈسن ، ‘” عقیدہ الشیعہ “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ ۵۸ پر یوں رقمطراز ہے:

” قدیم روایتین ہمیں اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام جس خلافت کا دعویٰ کرتے تھے اس کی ان کے حامیوں اور شیعوں کی نظر میں صرف سیاسی اہمیت نہیں تھی بلکہ وہ اسے ایک الہی حق سمجھتے تھے اور ان عقائد و افکار کے پھیلانے میں تاریخ اسلام کے ایک مرموز شخص کی ریشہ دوانیوں کا اہم رول تھا ۔ کیونکہ عثمان کی خلافت کے دوران عبداللہ بن سبا نامی ایک شخص پیدا ہوا جس نے وسیع تعلیمات کو پھیلانے کا اقدام کیا ، اس نے ان عقائد کو پھیلانے کیلئے اسلامی ممالک کے شہروں کا ایک طولا نی دورہ کیا ، طبری کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اسلام کو نابود کرنا تھ“

۵۶

جیسا کہ کتاب کے صفحہ نمبر ۵۹ کے حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ” عقیدہ الشیعہ “ نامی کتاب کے مصنف نے اس داستان کو براہ راست طبری سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس نقل میں اس نے دو کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے :

۱ ۔ گذشتہ اشارہ کئے گئے مستشرقین کے دائرة المعارف کا مادہ ” عبداللہ “

۲ ۔ نیکلسن کی تالیف کردہ کتاب ” تاریخ الادب العربی “ ص ۳۱۵ ۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ مذکورہ دونوں کتابوں میں جو کچھ عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵ ولھاوزن

ولھاوزں اپنی کتاب ”الدولة العربیة و سقوطها “ کے صفحہ نمبر ۵۶ اور ۵۷ پر لکھتا ہے :

” سبائیوں نے اسلام میں تبدیلی ایجاد کی ، قرآن مجید کے بر عکس اعتقاد رکھتے تھے کہ روح خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم میں حلول کیا ہے اور ان کی وفات کے بعد اس روح نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام میں حلول کیا ہے ان کی نظر میں علی علیہ السلام ، ابو بکر اور عمر کے ہم پلہ خلیفہ نہیں تھے بلکہ وہ ان دونوں کو علی علیہ السلام کا حق غصب کرنے والے جانتے تھے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس مقدس روح نے علی علیہ السلام کے اندر حلول کیاہے “

۵۷

اس کے بعد لکھتا ہے :

” کہا جاتا ہے کہ سبائی عبداللہ بن سبا سے منسوب تھے وہ یمن کا رہنے والا ایک یہودی تھا “

ولھاوزن نے یہاں پر اپنے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، لیکن اپنی کتاب کے ۳۹۶ سے ۳۹۹ تک مطلب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اپنے مآخذ کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھتا ہے :

” سیف کہتا ہے : سبائی پہلے ہی دن سے شر پسند اور بد نّیت تھے ، انہوں نے عثمان کوقتل کرکے مسلمانوں کے اندر افراتفری اور جنگ کے شعلے بھڑکادیئے ان میں اکثر لوگ موالی اور غیر عرب تھے ۔

سبائی عبد اللہ بن سبا کی پیروی کرتے ہوئے اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رجعت کریں گے اور آپ اپنے اہل بیت کے بدن میں حلول کرتے ہیں چونکہ علی علیہ السلام کی اولاد جو پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سے تھی ، نے اسلام اورعربی نسل سے منہ نہیں موڑا اور سبائیوں کو مسترد کردیا اسلئے وہ علی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے محمد بن حنفیہ سے منسلک ہوگئے ۔

محمد کی وفات کے بعد ان کا بیٹا ابو ہاشم ---جو اپنے باپ کی طرح بے قدر تھا ---ان کا امام بنا ، ابو ہاشم نے اپنے بعد محمد بن علی عباسی کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا اور یہاں سے خلافت بنی عباس میں منتقل ہوگئی ۔ سیف کی روایت کے مطابق بنی عباس کا خروج سبائیوں کے خروج کے مانند تھا ، دونوں گروہوں کی دعوت کا مرکز شہر کوفہ تھا ور ان کے پیرو ایرانی تھے اور دونوں گروہوں نے عرب مسلمانوں کے خلاف خروج کیا تھا “

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنہیں ولھاوزن نے سیف سے نقل کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ دوبار اس کے نام کی تکرار کی ہے ، کتاب کے مقدمہ میں جہاں پر وہ سیف کی ستائش کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

اس بناء پر ولھاوزن کا مآخذ بھی تاریخ طبری ہے اور طبری کے ہی واسطہ سے اس نے اس افسانہ کو نقل کیا ہے ۔

جیسا کہ معلوم ہوا ، ا بن سبا کا افسانہ عجیب شہرت کاحامل ہوا جیسا کہ مشاہدہ ہورہا ہے، کہ جنہوں نے بھی اس افسانہ کو نقل کیا ہے ان سب کی روایتیں بلاواسطہ یا ایک یا اس سے زیادہ واسطوں سے طبری پر ختم ہوتی ہیں ۔

۵۸

وہ لوگ جنہوں نے عبد اللہ بن سباکی داستان کو ،مآخذ کا اشارہ کئے بغیر نقل کیا ہے ۔

مؤرخین اور مصنفین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جنہوں نے نہ اپنی روایت کے مآخذ کو لکھا ہے اور نہ اس کتاب کا ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ، لیکن اس کے باوجود جہاں بھی اجمالی طور پر ان کی کتابوں کے مصادر کا ذکر آتا ہے ، طبری ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں طبری سے روایت نقل کی گئی ہے ، جیسے :

۱ میر خواند:

اس نے عبداللہ بن سبا کی داستان کو اپنی کتاب ” روضة الصفا“ میں درج کیا ہے ، لیکن اس کی سند اور مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ لیکن تحقیق و مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲ غیاث الدین

غیاث الدین فرزند میرخواند (وفات ۹۴۰ ھ) نے اپنی کتاب ” حبیب السیر “ میں عبداللہ بن سبا کی داستان اپنے باپ کی کتاب ” روضة الصفا“ سے نقل کیا ہے لیکن اس کی سند و مآخذ کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے ۔

عبداللہ بن سبا کی داستان کے اسناد

جیسا کہ ذکر ہوا ، تاریخ طبری قدیمی ترین کتاب ہے جس میں عبداللہ بن سبا کی داستانیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس داستان کے راوی کو بھی معین و مشخص کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد لکھی جانے والی تمام کتابوں میں ، ابن سبا کی داستان اور سبائیوں کے افسانہ کو طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵۹

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

٢۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ ) نے '' ابن مندہ '' ''ابو نعیم '' اور '' ابن عبد البر '' کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں بیان کیا۔

٣۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے اسد الغابہ سے نقل کرکے اس کا خلاصہ اپنی کتاب '' تجرید''میں درج کیا ہے ۔

٤۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧٤ھ) نے اس مطلب کو معجم طبرانی سے نقل کیا ہے لیکن بعض علماء نے اس روایت کے صحیح ہونے میں اور اس کے مآخذ پر شک کیا ہے ، جیسے :

١۔ عقیلی ( وفات ٣٢٢ ھ) نے کتاب '' الضعفاء '' میں ۔

٢۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ھ ) نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس روایت کے جھوٹ ہونے اس کے راوی سہل بن یوسف بن سہل بن مالک کے صحیح نہ ہونے اور ایسے راویوں کے موجود نہ ہونے کی تاکید کی ہے ۔

لیکن اس نے گمان کیاہے کہ یہ سب آفتیں '' خالد بن عمرو '' کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں اور مکتب خلفاء کے علماء کے اندر خالد کی شہرت کو دلیل کے طورپر پیش کرتے کرتے نتیجہ نکالا ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور جعلی ہے ۔

برسوں گزرنے کے بعد نویں صدی ہجری میں ''ابن حجر '' (وفات ٨٥٢ھ) آتا ہے اور سہل بن مالک ( جد ) کے حالات کی تشریح کتاب '' اصابہ '' میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے اورسہل بن یوسف ( پوتا ) کے بارے میں اپنی دوسری کتاب '' لسان المیزان '' میں یوں لکھتا ہے :

۲۴۱

اس روایت کی صرف خالد بن عمرو نے روایت نہیں کی ہے بلکہ خالد سے برسوں پہلے ، اسی متن و سند کے ساتھ سیف بن عمر تمیمی نے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے ١

لیکن ابن حجر نے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ درست اور صحیح نہیں جو خالد ایک صدی سیف کے بعد آیاہے اس نے بلاواسطہ کسی سے روایت نقل کی اس سے سیف نے ایک صدی پہلے روایت نقل کی ہے بلکہ ا سے کہناچاہئے تھا کہ: اس مطلب کو متخر شخص نے متقدم سے لیا ہے ۔مگر خالد جو کہ متأخر ہے اس نے متقدم کا نہ نام لیا اور نہ ہی منبع بیان کیا ہے۔

یہ مسئلہ اور اس جیسے سیکڑوں مسائل کے علاوہ سیف کے تعجب خیز تخلیقات آج تک علماء کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں اور تاریخ اسلام کے سلسلے میں سیف کی اس قدر جنایتوں سے پردہ نہیں اٹھایا گیا تا کہ ابن حجر کو معلوم ہوجاتا کہ اس روایت اور ایسی سیکڑوں روایتوں اور راویوں کو گڑھنے اور خلق کرنے والا اصلی مجرم سیف بن عمر تمیمی ہے نہ کہ اور کوئی۔

اسی طرح تقریباً یقین کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ ابن حجر ان دو راویوں ( بیٹا اور جد ) '' سہل بن یوسف '' اور ''یوسف بن سہل '' کے دوسری روایتوں میں داخل ہونے کے سلسلے میں متوجہ نہیں ہوا ہے تا کہ کتاب '' اصابہ '' میں سہل بن مالک ( جد ) اور کتاب '' لسان المیزان '' میں '' سہل بن یوسف'' ( پوتہ ) کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت ان کے راویوں کے سلسلہ کے بارے میں سنجیدہ

____________________

١۔ اس کے برسوں گزرنے کے بعد '' سیوطی '' مذکورہ روایت کو اپنی کتاب جمع الجوامع میں سیف کی فتوح ، ابن مندہ ، طبرانی ، ابو نعیم ، خطیب بغدادی اور ابن عساکر سے نقل کرتا ہے متقی ہندی نے بھی انہیں مطالب کو سیوطی سے نقل کرکے اپنی کتاب '' کنزل العمال '' میں ثبت کیا ہے ( کنز العمال ١٢/١٠٠ ، اور ج١٢ ٢٣٩)

۲۴۲

طور پر بحث و تحقیق کرتا ! یعنی وہ کام انجام دیتا جو ہم نے جعلی راویوں کے سلسلہ میں انجام دیا ہے ۔

مآخذ کی تحقیق

سیف کے جعلی صحابی '' سہل بن مالک انصاری'' کا نام ایک ایسی روایت میں آیا ہے جسے سیف کے جعلی ( بیٹے ) '' سہل بن یوسف '' نے اپنے جعلی اور جھوٹے باپ '' یوسف بن سہل '' سے نقل کیاہے ۔ یعنی خیالی پوتے نے جعلی باپ سے اور اس نے اپنے افسانوی جد سے روایت کی ہے !!

بہر صورت ' ' سہل بن مالک انصاری '' کا نام اس کے خیالی بیٹے اور پوتے کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے ذکر نہیں ہوا ہے اس حدیث ساز خاندان کا نام ان معتبر منابع اور مصادر میں نہیں ملتا جنہوں نے سیف سے روایت نقل نہیں کی ہے۔

ہم نے ان راویوں پر مشتمل خاندان اور ان کی روایتوں کے بارے میں اپنی کتاب '' روات مختلقون '' (جعلی راوی) میں مفصل بحث کی ہے ۔ یہاں پر تکرار کی گنجائش نہیں ہے ۔

۲۴۳

خلاصہ

سیف بن عمر نے اپنے جعلی صحابی '' سہل بن مالک '' ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشہور شاعر کعب بن مالک انصاری کے بھائی کو بنی سلمہ خزرجی سے خلق کیا ہے اور اس کا نام ایک حدیث کے ذریعہ '' سہل بن یوسف '' نامی اس کے پوتے کی زبان پر جاری کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اس قسم کے اشخاص کا نام دوسرے ایسے مصادر میں کہیں نہیں پایا جاتا جنہوں نے سیف بن عمر سے روایت نقل نہیں کی ہے ۔

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے اس '' سہل بن مالک '' کو جعلی پوتے کی حدیث پر اعتماد کرکے اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے شمار کیا ہے اور سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ اس نے مہاجرین کے سرداروں کے فضائل خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنے ہیں ، جبکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمانی انصار کا ذکر تک نہیں فرمایا ہے !

ہم خود جانتے ہیں کہ یہ روش اور طریقہ سیف کا ہے جو ایک حدیث جعل کرتا ہے اور ایک افسانہ گڑھ کر اپنے ضمیر کی ندا کا مثبت جواب دیتا ہے اور اپنے خاندان مضر کی طرفداری میں انکی تعریف و تمجید میں داد سخن دیتا ہے اور یمانی انصار کے بارے میں طعنہ زنی اور دشنام سے کام لیتا ہے اور ان پر کیچڑ اچھالتا ہے خواہ وہ صحابی ہوں یا تابعی!!

مزید ہم نے کہا ہے کہ چونکہ سیف نے حدیث کے مآخذ میں '' سہل بن مالک'' کو کعب بن مالک کے بھائی کے طور پر پیش کیا ہے اس لئے علماء نے بھی اسی سے استناد کرکے سہل بن مالک کے نسب کو کعب بن مالک کے نسب سے جوڑ دیا ہے جبکہ خود اس کے خالق سیف نے اس قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے !

سیف نے سہل بن مالک سے مربوط روایت کو دوسری صدی کے آغاز میں اپنی کتاب فتوح میں لکھا ہے اس کے ایک سو سال گزرنے کے بعد خالد بن عمرو اموی ( وفات تیسری صدی ہجری) آتا ہے اور سیف کے مطالب کو اسی سہل کے بارے میں نقل کرتا ہے ۔

۲۴۴

خالد بن عمرو اس قلمی سرقت میں سیف اور اس کی کتاب کا نام لئے بغیر روایت کو براہ راست سہل بن یوسف سے نقل کرتا ہے یہی امر سبب بنا کہ بعض علماء نے تصور کیا ہے کہ خالد بن عمرو نے شخصاً اس حدیث کے راوی سہل بن یوسف کو دیکھا ہے اور مذکورہ روایت کو براہ راست اس سے سنا ہے ۔ا سی بناء پر کہا جاتا ہے کہ خالد بن عمرو اس حدیث کا تنہا راوی ہے ۔

اس طرح بعض علماء نے اس حدیث کے صحیح ہونے اور اس نسب کے راویوں ( سہل بن یوسف بن سہل بن مالک) کے وجود پر شک کیا ہے ، کیونکہ قبیلۂ خزرج سے بنی سلمہ اور انصار سے غیر بنی سلمہ حتی غیر انصار میں ان ناموں کا سراغ نہیں ملتا ہے ۔

۲۴۵

سر انجام ابن حجر آتا ہے اور اس روایت کے ، خالد سے برسوں پہلے ، سیف کی کتاب میں موجود ہونے کا انکشاف کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ابن ''حبان'' نے بھی اس مطلب کو سیف سے نقل کیا ہے لیکن خود ابن حجر نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ اس روایت کو گڑھنے والا۔ '' سہل بن مالک '' اور اس کے راویوں کو جعل کرنے والا خود سیف بن عمر ہے ، جس نے سیکڑوں اصحاب اور تابعین کو خلق کیا ہے ، قصے اور افسانے گڑھ کر ان سے نسبت دی ہے ان کی زبان سے روایتیں اور احادیث جاری کی ہیں اور ان سب چیزوں کو بڑی مہارت کے ساتھ اسلام کی تاریخ میں داخل کیا ہے اور اس طرح علماء محققین کیلئے حقیقت تک پہچنے میں مشکل کرکے انھیں پریشان کررکھا ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے اس موضوع پر بھی غور نہیں کیا ہے کہ راویوں کے اس سلسلہ کے نام سیف کی دوسری روایتوں میں بھی ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض کو طبری نے اپنی تاریخ میں اور بعض کو دوسرے علماء نے اصحاب کی زندگی پر روشنی ڈالتے وقت ذکر کیا ہے ان میں ''عبیدبن صخر '' کے حالات پر روشنی ڈالنے والے مصنفوں کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ اگر ابن حجر ان راویوں کے سیف کی دوسری روایتوں میں خودارادی کے طور پر وجود سے آگاہ ہوجاتا تو ''سہل بن مالک'' کتاب ''اصابہ'' میں سہل بن مالک (جو)کے حالات پر نیز لسان المیزان میں سہل بن یوسف کی زندگی پر روشنی ڈالتے وقت ان کی طرف اشارہ ضرور کرتا ۔

۲۴۶

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے '' سہل بن مالک انصاری '' جیسے صحابی اور اس کے خاندان کو خلق کرکے درج ذیل مقاصد حاصل کئے ہیں :

١۔ گروہ مہاجرین میں خاندان مضر کے سرداروں کیلئے ایک افتخار کسب کیا ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی تعریف و تمجید کرائی ہے ۔

٢۔ حدیث و اخبار کے تین راویوں کو خلق کرکے انھیں دوسرے حقیقی راویوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کعب بن مالک انصاری کیلئے ایک بھائی خلق کر کے اس کانام ''سہل بن مالک ''رکھا ہے اور اس کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر تعارف کرایا ہے ۔

٤۔ مہاجر اصحاب کی منقبت میں ایک تعجب خیز روایت جعل کی ہے تا کہ حدیث حسبِ ذیل کتابوں میں منعکس ہوجائے اور مآخذ کے طور پر سالہا سال ان سے استفادہ کیا جا تار ہے :

١۔ '' ابن حبان '' ( وفات ٣٥٤ھ ) نے اپنی کتاب '' الصحابہ '' میں سیف کی کتابِ '' فتوح '' سے نقل کرکے ۔

٢۔ طبرانی ( وفات ٣٦٠ھ) نے اپنی کتاب '' المعجم الکبیر ، عن الصحابة الکرام '' میں ۔

٣۔ ''دار قطنی ''( وفات ٣٨٥ھ) نے کتاب ''' الافراد ' میں یہ تصور کیا ہے کہ خالد اس روایت کو نقل کرنے والا تنہا شخص ہے ۔

٤۔ ''ابن شاہین''(وفات ٣٨٥ھ) نے مذکورہ حدیث کو بصورت مرسل نقل کیا ہے ۔

٥۔ ''ابن مندہ ''( وفات ٣٩٩ھ) اس بھی گمان کیاہے کہ خالد تنہا شخص ہے جس نے اس روایت کو نقل کیا ہے ۔

٦۔ ''ابو نعیم ''( وفات ٤٣٠ھ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ''ابن عبد البر ''( وفات ٤٦٣ھ) نے کتاب '' استیعاب '' میں اس نے بھی تصور کیا ہے کہ خالد اس حدیث کا تنہا راوی ہے ۔

۲۴۷

٨۔ ''ابنوسی ''( وفات٥٠٥ھ) نے کتاب '' فوائد'' میں ۔ اس نے اسے خالد سے نقل کیا ہے۔

٩۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں ۔ ابن مندہ ، ابو نعیم اور ابن عبد البر سے نقل کیاہے ۔

١٠۔ ''ذہبی ''( وفات ٧٤٨ھ ) نے کتاب '' التجرید'' میں جو اسد الغابہ کا خلاصہ ہے ۔

١١١۔ ''مقدسی'' ( وفات ٦٤٣ھ نے '' کتاب المختارہ '' میں ۔ اس نے طبرانی پیروی کی ہے ۔

١٢۔ ''ابن حجر ''( وفات ٨٥٢ھ کتاب '' اصابہ '' میں حدیث کے متن سے پہلے اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔

١٣۔ سیوطی ( وفات ٩١١ھ) نے کتاب ''جمع الجوامع'' میں ۔

١٤۔ متقی ( وفات ٩٧٥ھ) نے کتاب '' کنز ل العمال '' اور منتخب کنز العمال میں کتاب '''جمع الجوامع '' سے استفادہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

سہل بن مالک کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب ''

٢۔ ذہبی کی ''تجرید''

٣۔ ابن اثیر کی اسد الغابہ

٤۔ ابن حجمہ کی '' اصابہ''

سہل بن یوسف کے حالات

١۔ ابن حجر کی لسان المیزان

۲۴۸

خالد بن عمرو کے حالات

١۔ '' رواة مختلقون '' اسی کتاب کے مؤلف کی تالیف

٢۔ ابن عساکر کی معجم الشیوخ

سہل بن مالک کے حالات پر تشریح کے ضمن میں حدیث پر ایک بحث

١۔ ابن حجر کی اصابہ

٢۔ متقی کی ' ' کنزل العمال'' باب سوم ، کتاب فضائل ، فصل دوم کے آخر میں (١٢ ١٥٥) ، اور فصل سوم کے آخر میں ( ١٢ ٢٣٩)

٣۔ متقی کی ''کنز ل العمال'' میں سیوطی سے نقل کرکے مذکورہ دونوں باب میں درج کیا ہے ۔

سیف بن عمر نے اپنی کتاب فتوح میں ، اس کے علاوہ ابن قانع، ابن شاہین ، ابن مندہ ، ابو نعیم ، ابن النجار اور ابن عساکر نے ذکر کیا ہے (گزشتہ حدیث کے آخرتک )

۲۴۹

باونواں جعلی صحابی اسعد بن یربوع انصاری خزرجی

ابن عبد البر نے کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کی تشریح شرح حال لکھتے ہوئے مآخذ کا ذکر کئے بغیر لکھا ہے :

وہ یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

ابن اثیر نے ابن عبدالبر کی روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں رمز (ب) کا اضافہ کرکے لکھا ہے :

البتہ یہ ابن عبد البر کا کہنا ہے ۔ اس نے بھی '' اسید بن یربوع ساعدی ''نام کے صحابی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ۔ یہ دو آدمی یا ایک دوسرے کے بھائی ہیں یا یہ کہ ان دو ناموں میں سے ایک دوسرے کی تصحیف ہے ۔ کیونکہ سیف بن عمر نے اسی صحابی کو اپنی کتاب فتوح میں '' اسعد '' کے عنوان سے پہنچوایا ہے ٢٩١۔

اور خدا بہتر جانتاہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ حرف ''ب'' ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' کی مختصر علامت ہے جسے ابن اثیر اور دیگر علماء نے اپنے درمیان رمز کے طور پر قرار دیا ہے ۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید'' میں لکھا ہے کہ '' اسعد بن یربوع '' اسید '' نام کے ایک مجہول شخص کا بھائی ہے جو یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

ابن حجر '' استیعاب '' کے مطالب نقل کرکے لکھتا ہے ۔

سیف نے کتاب ' ' فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور ابو عمر، ابن عبد البر نے بھی روایت کو سیف سے نقل کیا ہے۔

کتاب '' نسب الصحابة '' کے مصنف نے بھی لکھا ہے کہ ' اسعد بن یربوع '' یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ۔

کتاب '' درّ السحابہ'' میں بھی آیا ہے کہ '' اسعد بن یربوع '' یمامہ کی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے تھا ۔

۲۵۰

خلاصہ یہ کہ علماء میں سے چھ افراد نے اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ان میں سے چار اشخاص نے کسی قسم کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں :

١۔ '' ابن عبدالبر ''

٢۔ ذہبی

٣۔ کتاب ''نسب الصحابہ ''کے مصنف اور

٤۔ کتاب ''دار السحابہ ''کے مصنف

ذہبی نے بھی تاکید کی ہے کہ '' اسید '' مجہو ل شخص ہے ۔

دو افراد نے صرف سیف کا نام لیا ہے اور اسے اپنے مطالب کے مآخذ کے طور پر پہنچوایا ہے ۔ جو یہ دوافراد ہیں : '' ابن حجر '' اور '' ابن اثیر ''

ہم نے حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں ، '' اسعد '' یا '' اسید بن یربوع ساعدی '' نامی انصاری صحابی کے بارے میں جستجو اور تلاش کی لیکن مذکوہ منابع میں سے کسی ایک میں ان کا سراغ نہ ملا اس لئے اسے سیف کی مخلوق میں شمار کیا ہے ۔

جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ صرف دو دانشوروں نے اپنی روایت کے مآخذ کے طور پر سیف کا تعارف کرایا ہے اور دوسرے راویوں کا نام نہیں لیا ہے تا کہ ان کے بارے میں ہم بحث و تحقیق کرتے ۔

اسعد کے افسانہ کے نتائج

١۔ ایک انصاری ساعدی قحطانی صحابی کو خلق کرنا اور اسے یمامہ کی جنگ میں قتل ہوتے دکھانا۔

٢۔ میدان کارزار میں یمانی مقتولین کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرناتا کہ یہ دکھائے کہ وہ لیاقت اور تجربہ سے عار ی تھے اور اس طرح ان کی تذلیل کی جائے ۔ کیونکہ سیف کے نقطہ نظر کے مطابق لیاقت ، افتخار ، شجاعت اور بہادری کے مالک صرف مضری عدنانی ، خاص کر تمیم بنی سے اسیدہے جو خود سیف بن عمر کے قبیلہ سے ہے ۔

۲۵۱

مصادر و مآخذ

اسعد بن یربوع کے بارے میں درج ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ؛

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٤١) نمبر: ٧١

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ ' '( ١ ٧٣)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٥) نمبر : ١١٢

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ١ ٥١) نمبر؛ ١١٦

٥۔ '' نسب الصحابہ من الانصار '' ص ١٠٧

٦۔ در السحابہ فی بیان وفیات الصحابہ

کتاب '' در السحابہ '' کے مصنف ابو العباس رضی الدین ، حسن بن محمد بن حسن صنعانی ( ٥٥٥۔ ٦٥٠ھ ) ہیں ، اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں ہے او رمؤلف نے وہیں پر اس سے استفادہ کیا ہے ۔

ترپنواں جعلی صحابی مالک کی بیٹی سلمی

سلمی اور حوب کے کتے

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں مالک کی بیٹی سلمی کا تعارف یوں کرتا ہے :

مالک بن حذیفہ بن بدر فزارّیہ کی بیٹی سلمی معروف بہ '' ام قرفۂ صغریٰ'' عیینہ بن حصن '' کی چچیری بہن ہے ۔ اسے مقام اور اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کی ماں ، '' ام قرفۂ کبریٰ'' سے تشبیہ دیتے تھے۔

'' زید بن حارثہ '' نے ایک لشکر کشی کے دوران '' ام قرفہ ، کو قتل کر کے اور بنی فزارہ کے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیاتھا ، ان قیدیوں میں ' ام قرفہ '' کی بیٹی سلمی بھی موجود تھی جو مدینہ میں ام المؤمنین عائشہ کی خدمت میں پہنچی اور انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔

ایک دن سلمیٰ عائشہ کی خدمت میں تھی اتنے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دروازے سے داخل ہوئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:

تم میں سے ایک حوب کے کتوں کو بھونکنے پر مجبور کرے گی۔

۲۵۲

کہتے ہیں '' ام قرفہ ''کے گھر کی دیوار پر پچاس ایسی تلواریں لٹکائی گئی تھیں یہ جو پچاس ایسے شمشیر باز مردوں سے مربوط تھیں جو اس خاتون کے محرم تھے نہیں معلوم یہاں پر یہی ' ' ام قرفۂ '' ہے یا'' ام قرفۂ کبری '' (ز) ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر کا یہ بیان خبر کے لحاظ سے دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ میں سلمی کا نسب ہے اور دوسرا حصہ درج ذیل خبروں پر مشتمل ہے ۔

١۔ زید بن حارثہ کی لشکر کشی سے مربوط ہے کہ اس نے '' ام قرفہ '' کی سرکوبی کیلئے ماہ رمضان ٦ھ میں شہر مدینہ سے سات میل کی دوری پر ' 'وادی القریٰ'' کے علاقے پر فوج کشی کی تھی ۔

٢۔ حوب کے کتوں کی داستان

ام قرفہ کی داستان کے چند حقائق

ابن سعد نے اس لشکر کشی کے بارے میں اپنی کتاب '' طبقات'' میں یوں لکھا ہے :

زید بن حارثہ اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کچھ اجناس لے کر تجارت کی غرض سے مدینہ سے شام کی طرف روانہ ہوا ' ' وادی القریٰ'' کے نزدیک قبیلہ '' بنی بدر '' سے تعلق رکھنے والے فزارہ کے ایک گروہ سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی انہوں نے جب ان کے ساتھ اس قدر مال و منال دیکھا تو زید پر حملہ کرکے تمام مال و منال لوٹ لے گئے ۔

کچھ مدت کے بعد جب زید کے زخم اچھے ہوئے تو وہ مدینہ واپس لوٹ کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اور تمام ماجرا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیان کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے مجاہدوں کے گروہ کی سرکردگی میں ان کی سرکوبی کیلئے ممور فرمایا۔

زید نے قبیلہ فزارہ کے کنٹرول والے علاقے میں پیش قدمی میں انتہائی احتیاط سے کام لیادن کو مخفی ہوجاتے تھے ااور رات کو پیش قدمی کرتے تھے اس دوران ''' بنو بدر'' کے بعض افراد زید اور اس کی لشکر کی کاروائی سے آگاہ ہوکر '' فزارہ '' کے لوگوں کو اس خبر سے آگاہ کرتے ہیں کہ زید کی سرکردگی میں اسلامی فوج ان کی سرکوبی کیلئے آرہی ہے ۔ ابھی فزارہ کے لوگ پوری طرح مطلع نہیں ہوئے تھے کہ ایک روز صبح سویرے زید اور اس کی فوج نے تکبیر کہتے ہوئے اچانک ان پر حملہ کر دیا ۔ پوری بستی کو محاصرہ میں لے کر ان کے بھاگنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی۔

۲۵۳

فزارہ کے باشندوں نے مجبور ہوکر ہتھیار ڈالدئے، لہذا زید نے ان سب کو قیدی بنا لیا ان قیدیوں میں ربعہ بن بدر کی بیٹی '' ام قرفہ فاطمہ '' اور اس کی بیٹی '' جاریہ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر '' بھی تھی۔

'' جاریہ '' کو '' سلمة بن اکوع '' نے لے کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے '' حزن ابن ابی وہب '' کو بخش دیا ۔

ابن سعد اس داستان کے آخر لکھتا ہے کہ زید اور اس کے ساتھیوں نے '' ام قرفہ '' اور فزارہ کے چھ مردوں کو قتل کر ڈالا ۔

یعقوبی نے بھی '' ام قرفہ '' کی داستان کو یوں نقل کیاہے :

'' امر قرفہ نے اپنے محارم میں سے چالیس جنگجو اور شمشیر باز مردوں کو حکم دیا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لڑنے کیلئے مدینہ پر حملہ کریں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس موضوع سے مطلع ہوئے اور زید بن حارثہ کو چند سواروں کے ہمراہ ان کے حملہ کو روکنے کیلئے بھیجا ۔ دونوں گروہ '' وادی القریٰ''میں ایک دوسرے روبرو ہوئے اور جنگ چھڑگئی۔

لیکن زید کے ساتھ مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے ۔ زید زخمی حالت میں اپنے آپ کو مشکل سے میدان کا رزار سے باہر لاسکا ۔ اس حالت میں اس نے قسم کھائی کہ اس وقت تک نہ نہائے گا اور نہ بدن پر تیل کی مالش کرے گا جب تک کہ ان سے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا انتقام نہ لے لے !

زید نے اس قسم کو پورا کرنے کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوبارہ جنگ کی اجازت طلب کی ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے فزارہ سے جنگ کرنے کیلئے دوبارہ ممور فرمایا اور ایک گروہ کی سرپرستی اور کمانڈ اسے سونپی (گزشتہ داستان کے آخر تک ١ )

ابن ہشام ، یعقوبی ، طبری اور مقریزی نے لکھا ہے کہ اسی جنگ میں '' سلمة بن عمر واکوع'' نے قرفہ کی بیٹی '' سلمیٰ'' کو قیدی بناکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے اپنے ماموں '' حزن بن ابی وہب '' کو بخش دیا اور اس سے عبد الرحمان بن حزن پیدا ہوا ۔ پہلی خبر کی حقیقت یہی تھی جو ہم نے نقل کی ۔

١۔ محمد بن حبیب کتا ب '' محبّر'' کے ص ٤٩٠ میں لکھتا ہے ' 'ام قرفہ '' نے اپنے شوہر '' ابن حذیفہ '' سے تیرہ بیٹوں کو جنم دیا ہے جو شمشیر باز ، بلند ہمت اور بلند مقام والے تھے '' ام قرفہ '' بھی ایک بلند ہمت اور بانفوذ خاتون تھی ۔ وہ لوگوں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی رکھتی تھی کہتے ہیں ایک دن غطفان کے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا '' ام قرفہ '' نے اپنا دوپٹہ ان کے پاس بھیجدیا انہوں نے اسے نیزے پر بلند کیا ۔نتیجہ میں ان کے درمیان صلح و آشتی برقرار ہوگئی ۔

۲۵۴

'' ام قرفہ '' کا افسانہ اور حوب کے کتوں کی داستان

لیکن مذکورہ دوسری خبر کا سرچشمہ صرف سیف کے افکار اور ذہنی خیالات ہیں اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، ملاحظہ فرمائیے :

طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں قبائل '' ہوازن '' ، '' سلیم '' اور '' عامر'' کے ارتداد کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں لکھتا ہے :

''بزاخہ '' کی جنگ سے فرار کرنے والے قبیلۂ '' غطفان '' کے لوگ جو پیغمبری کے مدعی '' طلیحہ'' کی حمایت میں لڑرہے تھے ، شکست کھاکر عقب نشینی کرنے کے بعد ''ظفر '' نامی ایک جگہ پر جمع ہوگئے ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں '' مالک بن حذیفہ بن بدر فزاریہ ''' کی بیٹی '' ام زمل سلمیٰ '' کا کافی اثرو رسوخ تھا ۔ وہ شوکت ، وجلال اور کلام کے نفوذ میں ا پنی ماں '' ام قرفہ '' کی ہم پلہ تھی ۔

'' ام زمل'' نے مذکورہ فراریوں کی ملامت کی اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے فرار کرنے پر ان کی سخت سرزنش کی ۔ اس کے بعد ان کی ہمت افزائی کرکے پھر سے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دینے لگی ۔ خود ان کے بیچ میں جاکر ان کے ساتھ بیٹھ کر انھیں خالد کے ساتھ لڑنے کیلئے آمادہ کرتی تھی یہاں تک کہ قبائل '' غطفان '' ، ''ہوازن '' ، ' ' سلیم '' ، ''اسد'' اور '' طی ''' کے بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے ۔

ام زمل ، سلمی اس منظم گروہ کی مدد سے فزارہ کی گزشتہ شکست ، اس کی ماں کے قتل ہونے اور اپنی اسارت کی تلافی کیلئے خالد سے جنگ پر آمادہ ہوئی ۔

سلمی کا یہ تیز اقدام اس لئے تھا کہ برسوں پہلے ، اس کی ماں '' ام قرفہ'' کے قتل ہونے کے بعد وہ خود اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قیدی بن کر عائشہ کے گھر میں پہنچ گئی تھی ۔لیکن عائشہ کی طرف سے ام زمل کو آزاد کئے جانے کے با وجود وہ عائشہ کے گھر میں زندگی کرتی تھی ۔کچھ مدت کے بعد وہ اپنے وطن واپس چلی گئی اور اپنے رشتہ داروں سے جاملی ۔

ایک دن جب ام زمل عائشہ کے گھر میں تھی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر میں تشریف لائے جب ان دونوں کو دیکھا تو فرمایا:

تم میں سے ایک پر حوب کے کتے حملہ کرکے بھونکیں گے !

۲۵۵

اور یہ ام زمل کہ اس کے اسلام سے منہ موڑنے اور مرتد ہونے کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی ! کیونکہ جب ام زمل نے مخالفت پرچم بلند کیا اور فراری فوجیوں کو جمع کرنے کیلئے '' ظفر وحوب '' سے گزری تو حوب کے کتوں نے اس پر حملہ کیا اور بھونکنے لگے !!

بہر حال اس فزاری عورت کے تند اقداما ت اور لشکر کشی کی خبر جب خالدبن ولید کو پہنچی تو وہ فوراً اس کی طرف روانہ ہوا اور دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑگئی ۔ ام زمل نے اپنی ماں کے اونٹ پر سوار ہوکر جنگ کی کمانڈ خود سنبھالی اور بالکل ماں کی طرح اسی قدرت اور طاقت کے ساتھ حکم دیتی رہی اور لوگوں کو استقامت اور ڈت کے مقابلہ کرنے کی ' ' ترغیب '' اور ہمت افزائی کرتی رہی۔

خالد نے جب یہ حالت دیکھی تو اعلان کیاکہ جو بھی اس عورت کے اونٹ کو موت کے گھاٹ اتار ے گا اسے ایک سو اونٹ انعام کے طور پر ملیں گے !!! خالد کے سپاہیوں نے ام زمل کے اونٹ کا محاصرہ کیا اس کے سو سپاہیوں کو قتل کرکے اونٹ کو پے کہا اور بعد ام زمل کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔

اس جنگ میں قبائل '' خاسی ، وہاربہ اور غنم '' کے خاندان نابود ہوگئے اور قبیلہ کاہل کو ناقابل جبران نقصان پہنچا آخر میں خالد بن ولید نے اس فتحیابی کی نوید مدینہ منورہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچادی ۔

افسانۂ ام زمل کے مآخذکی پڑتال

سیف نے مالک حذیفہ کی بیٹی ام زمل سلمی کے افسانہ کو '' سہل '' کی زبانی جسے وہ سہل بن یوسف بن سہل کہتا ہے بیان کیا ہے اس سے پہلے ہم نے اس کو سیف کے جعل کردہ راویوں کے طورپر پہچنوایا ہے خاص کر اسی فصل میں '' ٥١ویں جعلی صحابی '' کے عنواں کے تحت اس سلسلے میں تفصیل سے بحث کی ہے ۔

۲۵۶

ام زمل کے افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

جن علماء نے '' ام زمل '' کے افسانے کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں :

١۔ ''طبری'' نے براہ راست سیف سے نقل کرکے اس کے مآخذ بھی ذکر کئے ہیں ۔

٢۔ ''حموی '' نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں دو جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے ۔ اس ترتیب سے کہ ایک جگہ لفظ '' حوب '' کے سلسلے میں حسب ذیل عبارت لکھی ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ جنگ بزاخہ سے فرار کرنے والے (داستان کے آخری تک )

اور دوسری جگہ لفظ '' ظفر'' کی تشریح میں یوں لکھتا ہے :

''ظفر'' بصرہ و مدینہ کے درمیان ، '' حوب'' کے نزدیک ایک جگہ ہے وہاں پر بزاخہ کے فراری جمع ہوئے تھے۔

پھر بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

لیکن ، '' نصر '' نے لکھا ہے کہ ''ظفر'' مدینہ و شام کے درمیان '' شمیط'' کے کنا رے پر واقع ہے اور یہ جگہ فزارہ کی زمینوں میں شمار ہوتی ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں پر '' ربیعہ بن بدر کی بیٹی ، '' ام قرفہ فاطمہ ، لوگوں کو پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی اور انھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتی تھی اور وہ وہیں پر قتل ہوئی ہے ۔

ام قرفہ کے بارہ بیٹے تھے جوجنگجو اور دلاور تھے اور بزاخہ کی جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دشمنی میں کافی سرگرم رہے ہیں ۔

خالد نے '' قرفہ '' اور طلیحہ کے فراری حامی جو مسلمانوں سے لڑنے کیلئے اس کے گرد جمع ہوئے تھے کو سخت شکست دی ۔ ام قرفہ کو قتل کرکے اس کے سر کو تن سے جد اکرکے خلیفہ ابو بکر کے پاس مدینہ بھیجدیا ۔ اور ابو بکر نے بھی حکم دیا کہ اس کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکادیا جائے ۔ کہتے ہیں اس کا سر اسلام میں پہلا سر تھا جسے لٹکایا گیا ہے ١ (حموی کی بات کا خاتمہ )

''حموی کے بیان کے مطابق '' ''نصر'' نے سیف کی دو خبروں کو آپس میں ملادیا ہے : پہلی خبر ام قرفہ کی سرکوبی کیلئے زید بن حارثہ کی لشکر کشی ہے ، سیرت لکھنے والوں نے یک زبان ہوکر کہا ہے کہ وہ لوگوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ زید نے اسے قتل کرنے کے بعد اس کا سر مدینہ بھیجا ہے ۔

۲۵۷

دوسری خبر کو سیف نے اس کی بیٹی '' ام زمل سلمی '' کے بارے میں جعل کیا ہے اور اس کا نام '' ام قرفہ صغری '' رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس نے بزاخہ کی جنگ میں طلیحہ کے حامی فراری سپاہیوں کو اپنے گرد جمع کیااور انھیں خالد بن ولید کے خلاف جنگ کرنے کی ترغیب دی اور سر انجام خالد کے ہاتھوں ماری گئی ۔

'' نصر '' نے ان دونوں خبروں کو '' خبر ام قرفہ ''' کے عنوان سے آپس میں مخلوط کر دیا ہے اور اس کے بعد ایک تیسری خبر بنائی ہے اور اس کے تحت ' ظفر '' کے موضوع کی تشریح کی ہے جو در اصل سیف کی تخلیق ہے ۔

شاید '' نصر '' نے ان دو خبروں کو ا سلئے آپس میں ملایا ہے کہ سیف نے اپنی خیالی مخلوق پر سلمی کا

____________________

١۔ محمد بن حبیب نے کتاب '' محبر'' میں ابن کلبی اور طبری سے بقول اسحاق لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش سے فرماتے تھے کہ اگر ام قرفہ قتل ہوجائے تو کیا ایمان لاؤ گے ؟ اور وہ جواب میں وہی بات کہتے تھے جو وہ ناممکن کام کے بارے میں کہتے تھے ،یعنی ، مگر یہ ممکن ہے ؟ برسوں گزرنے کے بعد اور زید بن حارثہ کے ہاتھوں ام فرقہ کے قتل ہونے کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر مدینہ کی گلیوں میں پھیرایا جائے تا کہ لوگ اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحیح پیشین گوئی پر ایمان لائیں ۔

۲۵۸

نام جوڑ کر اس کا '' ام قرفہ صغری'' نام رکھا ہے ۔ لیکن نصر اس مسئلہ سے غافل تھا کہ زید بن حارثہ کے ہاتھوں قتل کی جانے والی ' ام قرفہ '' اور سیف بن عمر کی مخلوق ' ام قرفہ '' کے درمیان زمین و آسمان کا فرق

ہے اس کے باوجود نصر نے ان دونوں کو ایک ہی جان کر ایک ساتھ ذکر کیا ہے ۔

'' ظفر''' کا محل وقوع بھی نصر اور حموی کو مکمل طور پر معلوم نہ ہوسکا ہے کیونکہ ایک کہتا ہے کہ ''ظفر''' شام کی راہ پر واقع ہے اور دوسر مدعی ہے کہ بصرہ کے راستہ پر واقع ہے بالکل دو مخالف جہتوں میں ، ایک شمال کی طرف اور دوسرا جنوب کی طرف۔

اسی طرح حموی اور نصر نے اپنی خبر کا مآخذ مشخص نہیں کیا ہے صرف حموی نے '' حوب '' کے سلسلے میں تشریح کرتے وقت اپنی روایت کے آغاز میں سیف بن عمر کا ذکر کیا ہے ۔

٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں سلمی کے حالات کی تشریح کیلئے خصوصی جگہ معین کرکے '' زنان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' کے عنوان سے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے لیکن روایت کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس کے بارے میں صرف اتنا کہا ہے کہ :

سلمی ، عیینہ بن حصن بن حذیفہ کی چچیری بہن تھی ۔

ابن حجر کے اس تعارف کا سرچشمہ یہ ہے کہ سیف نے اپنی مخلوق سلمی کو عیینہ کے چچا مالک بن حذیفہ کی بیٹی کی حیثیت سے خلق کیا ہے ۔

٤۔ ابن اثیر نے ام زمل کی روایت کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٥۔ ابن کثیر نے بھی روایت کو براہ راست طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیاہے

٦۔ ابن خلدون نے بھی طبری کی روایت نقل کرے '' ام زمل'' کی داستان کو اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔

٧۔ میر خواند نے بھی سلمی کی داستاں کو طبری سے لیا ہے ۔

٨۔ حمیری نے بھی لفظ '' ظفر ''میں حموی کی '' معجم البلدان ' سے نقل کرکے ام زمل کی داستاں کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

۲۵۹

حدیث و داستان حوب کی حدیث اور داستان کے چند حقائق

سیف نے مالک کی بیتی '' ام زمل سلمیٰ '' معروف بہ '' ام قرفہ صغری'' کی روایت اس لئے گڑ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث میں تحریف کرے جو آنحضرت نے حوب کے علاقہ کے کتوں کے ام المؤمنین عائشہ کے اونٹ پر بھونکنے کے بارے میں فرمائی ہے سیف نے اس طرح تاریخی حقائق اور اس خاتون کے زمانہ میں اسلامی سرداروں اور شخصیتوں کی روش پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

ہم یہاں پر حقائق کو واضح اور وشن کرنے کیلئے حوب کے کتوں کے بھونکنے کی روایت کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جیسا کہ واقعہ پیش آیا ہے اور سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں درج ہوا ہے ۔ توجہ فرمائیے :

ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام بیویاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:

تم میں سے کون ہے جو پر پشم اونٹ پر سوار ہوگی اور حوب کے کتے اس پر بھوکیں گے، اسکی راہ میں بہت سے انسان دائیں بائیں خاک و خون میں لت پت ہوجائیں گے اس کے اس دلخواہ حادثہ کے رونماہونے کے بعد اس قتل گاہ سے خود زندہ بچ نکلے گی ؟

عائشہ ہنس پڑیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے مخاطب ہوکرفرمایا:

اے حمیرا ہوشیار رہنا کہیں وہ عورت تم نہ ہو ! اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

تم علی سے جنگ کروگی جب کہ تم ہی پرظالم ہوگی ۔

سیرت اور تاریخ لکھنے والوں نے اس کے بعد لکھا ہے :

جب عائشہ بصرہ کی طرف جاتے ہوئے حوب کے پانی کے نزدیک پہنچی تو اس علاقہ کے کتوں نے اس پر چھلانگ لگاتے ہوئے بھونکنا شروع کیا ۔ عائشہ نے پوچھا :

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329