ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 329
مشاہدے: 120988
ڈاؤنلوڈ: 3884


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120988 / ڈاؤنلوڈ: 3884
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 3

مؤلف:
اردو

گھوڑے پر سوار ہوکر لوگوں کے درمیاں اعلان کرو کہ '' بہشت مؤمنوں کے علاوہ کسی کا حق نہیں ہے اور کہہ دو کہ لوگ نماز کیلئے جمع ہوجائیں ''

عرباض کہتا ہے :

لوگ تمام اطراف سے نماز ادا کرنے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیانات سننے کیلئے جمع ہوئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ۔ اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں سے بعض لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے گمان کررہے ہو ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں حرام قرار دی گئی چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کو حرام قرار نہیں دیا ہے؟!

ہوشیار رہو! میں نے تمہیں نصیحت کی ہے اور بعض امور کو انجام دینے اور بعض سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے یہ سب قرآن مجید کے حکم کے برابر ہیں یا اس سے بھی زیا دہ( یہ حائز اہمیت اور واجب العمل ہیں ) خدائے تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز نہیں قرار دیا ہے کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل ہوجاؤ یا ان کی عورتوں کو اذیت پہنچاؤ گے یا ان کے میوے کھا ؤگے جبکہ انہوں نے اپنے ذمہ لیا ہوا کام انجام دیا ہے۔

٤۔ '' مسند ا'' احمد حنبل میں ابو ہریرہ ١ سے نقل کرکے آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

١۔ ابوہریرہ قحطانی دوسی یہ لقب '' ابو ہریرہ ''(بلی باز ) ا س لئے پڑا تھا کہ اس کے پاس ایک پالتو بلی تھی یا یہ ایک بار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی پالتو بلی آستین میں چھپائے ہوئے تھا ، اس لئے آنحضرت نے اسے '' ابو ہریرہ ' ' خطاب فرمایا ۔ ابو ہریرہ خیبر کی جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لایا ہے ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٥٣٧٤ حدیثیں روایت کی ہیں ۔ ان احادیث کو عام اصحاب حدیث نے نقل کیا ہے '' اسد الغابہ '' ( ٣١٥٥ ) ، '' جوامع السیرہ '' ص ٢٧٥ ،'' عبدا للہ بن سبا '' (١٦٠١ طبع آفسٹ ١٣٩٣ ھ )

۲۱

میں تم میں سے ایک شخص کو نہ دیکھو ں کہ جس کے سامنے بیان کی جائے تو وہ آرام سے اپنی جگہ پر تکیہ لگائے ہوئے کہے : اس سلسلے میں مجھے قرآن مجید سے بتاؤ!!

'' سنن'' دارمی کے مقدمہ میں حسان بن ثابت انصاری ١سے روایت نقل ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جس طرح جبرئیل پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے قرآن لے کر نازل ہوئے تھے ، اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے سنت لے کر بھی نازل ہوتے تھے ۔

کَان جِبرئُیل یَنزِلُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ بالسُّنةِ ، کَمٰا یَنْزِلُ عَلَیهِ بِالقُرآن ۔

یہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبوی کے چند نمونے ہیں جن میں امت اسلامیہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی اطاعت کرنے کا حکم ہوا ہے اور ان کی نافرمانی سے منع کیا ہے ۔ جو لوگ صرف قرآن مجید سے تمسک کرکے سنت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پامال کرتے ہیں اور اس کی اعتنا نہیں کرتے پیغمبر نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی سرزنش و ملامت کی ہے۔

اس کے پیش نظر بنیادی طور پر اسلام کو سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن مجید کی آیات سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ چند مثالوں سے اس حقیقت کو واضح اور روشن کیا جاسکتا ہے:

____________________

١۔ ابو عبدا لرحمان یا ابو الولید ،حسان بن ثابت انصاری خزرجی ، یہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا شاعر اور مسجد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مناقب پڑھتا تھا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں فرمایا ہے :'' خدائے تعالیٰ حسان کی اس وقت تک روح القدس کے عنوان سے تائید کرے جب تک وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتا ہے '' حسان اپنے زمانے کا ایک ڈرپوک آدمی تھا اسی لئے اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات میں سے کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی ہے ۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماریہ کی بہن ، شیرین سے اس کا عقد کیا ، اس سے اس کا بیٹا عبدا لرحمان پیدا ہوا ۔ حسان نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صرف ایک حدیث روایت کی ہے کہ '' ترمذی'' کے علاوہ دیگر لوگو ں نے اسے نقل کیا ہے ۔ حسان ٤٠ یا ٥٠ یا ٥٤ ھ کو ١٢٠ سال کی عمر میں وفات پا ئی ، ''اسد الغابہ'' ( ٢۔ ٥۔٧) ، ''جوامع السیرہ ''(ص ٣٠٨) اور ''تقریب التہذیب ''(١ ١٦١)

۲۲

قرآن مجید میں نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ لیکن سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کئے بغیر معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ عبادت کس طرح اور کن شرائط میں انجام دی جاسکتی ہے ۔ ہم احادیث و سیرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کرکے رکعتوں اور سجدوں کی تعداد ، اذکار ، قوانین اور مبطلات نماز کے احکام سیکھ سکتے ہیں نماز کو ادا کرنے کی کیفیت اور طریقۂ کار معلوم کرسکتے ہیں ۔

حج بھی اسی طرح ہے ، ہم سنت پیغمبر کی طرف رجوع کرکے ، احرام باندھنے کی نیت، میقات کی پہچان اور ان کی تشخیص ، طواف کی کیفیت ، مشعر و منیٰ میں توقف و حرکت ، اپنے مخصوص اور محدود زمان و مکان میں رمی جمرات ، قربانی اور حلق و تقصیر کے علاوہ حج کے واجبات ، مستحبات و مکروہات اور محرمات کے بارے میں مسائل و احکام سیکھتے ہیں ۔

ان ہی دو مثالوں سے واضح طور سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کرکے مذکورہ دو فریضہ اور واجب شرعی کو انجام دینا ممکن نہیں ہے جبکہ شرع مقدس اسلام کے تمام احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔

اس لئے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اسلام کو حاصل کرنے اور احکام الٰہی کی پیروی کرنے کیلئے قرآن مجید اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی جانب ایک ساتھ رجوع کریں اور اگر ایک شخص ان دو میں سے صرف ایک کی طرف رجوع کرے اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کرے تو بیشک اس نے اپنے آپ کو اسلام کی پابندیوں سے آزاد کرکے اس کے قوانین کی من پسند تفسیر و تعبیر کی ہے کیونکہ کلید فہم و مفسر قرآن یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حذف کرنے سے انسان آزادی کے ساتھ اپنی رای اور سلیقہ سے تعبیر و سکتاہے ۔

۲۳

گزشتہ ادیان میں تحریف کا مسئلہ

ہمیں معلوم ہوا کہ صحیح اسلام کو معلوم کرنے اور قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کیلئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ جب ہم سنت کی جانب رجوع کرتے ہیں تو انتہائی افسوس کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہیں کہ تحریفات ، لفظی تغیرات ، معنی میں تاویل کرکے دوسرو ں کی سنتوں کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں شامل کرنے ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تہمتیں لگانے ، حق کو چھپانے ، افتراء باندھنے اور اسی طرح انحرافات اور تحریفات کی دوسری قسموں سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت بھری پڑی ہے پیغمبر اسلام کی سنت میں داخل ہونے والے تحریفات بالکل ویسے ہیں ہے جیسے کہ گزشتہ امتوں میں واقع ہوئی ہے اور خداوند تعالی نے قرآن مجید میں ان کی خبر دے دی ہے اور ہم یہاں پر بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں :

( وَ اِذْاَخَذَاﷲُ مِیثَاقَ الّذِینَ اُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَهُ لِلنَّاسِ وَ لٰا تَکْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرٰاء ظُهُورِهِم وَ اْشْتَرَوا بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ) ١

اس موقع کو یاد کرو جب خدا نے جن کو کتاب دی ان سے عہد لیا کہ اسے لوگوں کیلئے بیان کریں گے اور چھپائیں گے نہیں ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈالدیا اور تھوڑی قیمت پر بیچ دیا ا یا تو یہ بہت برا سودا کیا ہے۔

٢۔(فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیْثَاقَهُمْ لَعَنَّا هُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوبُهُمْ قَاسِیةً یُحَرِّفُونَ

____________________

١۔ آل عمران ١٨٧

۲۴

الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ نَسُوا حَظّاًمِمَّا ذُکِّرُوا بِهِ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَائِنَةٍ مِنْهُم ِلَّا قَلِیلاً مِنْهُمْ) (۱)

پھر ان کی عہد شکنی کی بناء پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا ۔ وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یا ددہانی کا اکثر حصہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں سے ہمیشہ مطلع ہوتے رہو گے علاوہ چندافراد کے۔

٣۔(یَا اَهْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُونَ الحَقَّ وَ اَنْتمُ تَعْلَمُونَ ) ٢

اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل سے مشتبہ کرتے ہو او رجانتے ہوئے حق کی پردہ پوشی کرتے ہو۔

٤۔( یَا اَهْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رُسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیراً مِمَّا کُنْتُم تُخْفُونَ مِنَ الکِتَابِ وَ یَعْفُو عَن کَثِیرٍ) ٣

اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو ان میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کررہا ہے ، جن کو تم کتاب خدا میں سے چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر بھی کرتا ہے

____________________

١۔ مائدہ ١٣

٢۔آل عمران ٧١

٣۔مائدہ ١٥

۲۵

٥۔( وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُموا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ١

حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو۔

٦۔( اَلَّذِینَ آَتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَماَ یَعْرِفُونَ اَبْنَائَهُمْ وَ اِنَّ فَرِیقاً مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقّ وَ هُمْ یَعْلَمُونَ) ٢

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ رسول کو بھی اپنی اولاد ہی کی طرح پہچانتے ہیں بس ان کا ایک گروہ ہے جو حق کو دیدہ و دانستہ چھپا رہا ہے۔

٧۔( اَفَتَطْمَعُونَ اَنْ یُوْمِنُوا لَکمُ وَ قَدْ کَانَ فَرِیق مِنْهُمْ یَسْمَعُونَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ یُحَرِفُونه مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوه وَ هُمْ یَعْلَمُونَ ) ٣

مسلمانو! کیا تمہیں امید ہے کہ یہ یہودی ایمان لائیں گے جبکہ ان کے اسلاف کا ایک گروہ کلام خدا کو سنکرتحریف کریتا تھا حالانکہ وہ سب سمجھتے بھی تھے اور جانتے بھی تھے۔

٨۔(مِنَ الَّذِینَ هَادُوا یُحَرِِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ یَقُوْلُونَ سَمِعْنَا و عَصَیْنَا ) ٤

یہودیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو کلمات الہیہ کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بات سنی اور نافرمانی کی۔

____________________

١۔بقرہ ٤٢

٢۔بقرہ ١٤٦

٣۔ بقرہ ٤٥

٤۔ نساء ٤٦

۲۶

٩۔( وَ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَْتُوکَ یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِه یَقُولُونَ اِنْ اُوْتِیتُم هٰذَا فَخُذُوه وَ اِنْ لَمْ تُوْتَوْهُ فَاحذرُوا ) ١

اور یہودیوں میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو جھوٹی باتیں سنتے ہیں اور دوسری قوم والے جو آپ کے پاس حاضر نہیں ہوئے انھیں سناتے ہیں ۔ یہ لوگ کلمات کو ان اکی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر کی طرف سے یہی دیا جائے تو لے لینا اور اگر یہ نہ دیا جائے تو پرہیز کرنا ۔

١٠۔(اِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اَنْزَ لَ اﷲُ مِنَ الْکِتَابِ وَ یَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً اُولٰئِکَ مَا یَْ کُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ اِلاَّا لنَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُهُمُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ لَا یُزَکِّیْهِمْ وَ لَهُمْ عَذَاب اَلِیم ) ٢

لو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ ہی انھیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔

١١۔( اِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا َنْزَلْنَا مِنَ البَیِّنَاتِ وَ الْهُدیٰ مِنْ بَعْدِ مَا

____________________

١۔ بقرہ ١٧٤

٢۔بقرہ ١٥٩

۲۷

بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُهُُمُ اﷲُ و َیلْعَنُهمُ اللاَعِنُونَ )

جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں ۔

یہ نمونے کے طور پر چند آیتیں تھیں کہ جن میں خدائے تعالیٰ گزشتہ امتوں کے ذریعہ سے حقائق کی تحریف اور حقیقتوں کے چھپانے کی خبر دیتا ہے۔

سنت میں تحریف کی خبر اور اسلاف کی تقلید

ہم ذیل میں چند ایسی احادیث درج کرتے ہیں ، جن میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کی خبر دی ہے کہ کس طرح یہ امت اپنی تمام رفتار و کردار میں گزشتہ امتوں کی تقلید کرے گی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واضح فرماتے ہیں کہ امت اسلامیہ گزشتہ امتوں کے کاموں پر قدم بہ قدم عمل کرے گی:

١۔ شیخ صدو ق اعلی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب '' اکمال'' میں حضرت امام جعفر صادق اور آپ کے آباو اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کل ما کان فی الامم السالفة فانه یکون فی هٰذه الا مة مثله ، خذو النعل بالنعل و القذة بالذة''

جو کچھ گزشتہ امتوں میں واقع ہوا ہے اسی کے مانند اس امت میں بھی واقع ہوگا، جوتوں کے جوڑوں اور تیر کے پروں کے مانند۔ ١

____________________

١۔ اس حدیث کے اہل بیت میں سے راویوں کا سلسلہ یوں ہے : امام صادق (ت ١٤٨ ھ ) نے اپنے والد گرامی محمد باقر (ت ١١٤ھ) سے، انہوں نے اپنے والد امام زین العابدین ( ت ٩٥ھ ) سے انہوں نے اپنے والد امام حسین شہید ، نواسہ رسول خدا ( ت ٦١ ھ) سے انہوں نے اپنے والد امام علی بن ابیطالت ( ت ٤٠ ھ) سے اور انہوں نے اپنے چچازاد بھائی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین ) سے روایت کی ہے۔

۲۸

ابن رستہ کتاب '' الاعلاق النفسیہ'' ص ٢٣ پر لکھتے ہیں : کرۂ زمین پر جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابیطالب ( رضہم) کے علاوہ کوئی بھی ایسے پانچ افراد نہیں ملتے جنہوں نے سلسلسہ وار حدیث نقل کی ہو۔

شیخ صدوق نے مزید اپنی کتاب '' اکمال'' میں حضرت امام صادق اور آپ کے آباء و اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''والذی بعثنی بالحق نبیا و بشیرا لترکبنّ امتی سنن من کا ن قبلها حذو النعل بالنعل ، حتی لو ان حیة من بنی اسرائیل دخلت فی جحرٍ لدخلت فی هٰذه الامة حیّة مثلها ''

قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبی اور بشارت دینے والے کی حیثیت سے بر حق مبعوث فرمایا ہے ، میری امت کسی تفاوت کے بغیر اپنے اسلاف کی راہ کو انتخاب کرے گی ، اس طرح کہ اگر بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک سانپ کسی بِل میں داخل ہوا ہوگا تو اس امت میں بھی ایک سانپ اسی بل میں داخل ہوگا ۔

٢۔ابن حجر نے اپنی کتاب '' فتح الباری '' میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فرمائشات کو یوں بیان فرمایا ہے:

شافعی ١ نے اسی صحیح سند کے ساتھ عبد اللہ عمرو ٢سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

____________________

١۔ابو عبدا للہ ، محمد بن ادریس بن عباس شافعی مطلبّی : ان کی ماں کے ہاشمی ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے اس لئے بعض نے ان کے بارے میں کہا ہے: ہم نے ہاشم کی اولاد میں سے ہر گز کسی کو نہیں دیکھا کہ ابوبکر ، و عمر کو علی پرترجیح دی ہو ، جیسا کہ '' طبقات شافعیہ '' میں آیا ہے کہ ان کو اس لئے ہاشم سے نسبت دی گئی ہے کہ وہ ہاشم کے بھائی کی اولاد میں سے تھے ۔ شافعی ٢٠٤ ھ میں ٥٤ سال کی عمر میں مصرمیں فوت ہوا '' تقریب التہذیب'' (٢ ١٤٣)

٢۔ عبد اللہ بن عمرو عاص اپنے باپ سے ١٢ سال چھوٹا تھا ۔ باپ سے پہلے اسلام لایا تھا ۔ اسلاف کی کتابیں پڑھ چکا تھا ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٧٠٠ احادیث روایت کی ہیں ۔ عبدا للہ نے اپنے باپ کے ہمراہ صفین کی جنگ میں معاویہ کی حمایت میں شرکت کی لیکن بعد میں نادم ہوکر کہتا تھا : کاش اس سے بیس سال پہلے مرچکا ہوتا۔ اس کی موت کے بارے سال اور مکان میں اختلاف ہے ۔ کیا ٦٣ھ یا ٦٥ ھ میں مصر میں یا ٦٧ ھ میں مکہ میں اور یا ٥٥ ھ میں طائف میں یا ٦٨ ھ میں فوت ہوا ہے ۔ عبدا ﷲ کی زندگی کے حالات '' اسد الغابہ'' ٣ ٢٣٣۔ ٢٣٥) اور '' جوامع السیرہ '' ابن حزم ص ٢٨٦ میں ملاحظہ ہو۔

۲۹

'' لترکبن سنن من کان قبلکم حلوها و مرّها''

تم لوگ اپنے اسلاف کی تلخ و شیرین ( بری اور بھلی) روش کو اپناؤ گے ۔

٣۔ احمد بن حنبل نے اپنی کتاب '' ُسند '' میں اور مسلم و بخاری نے اپنی '' صحیح '' میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ابو سعید خدری ١سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''لتتبعن سنن من کان قبلکم شِبراً بشبرٍ و ذراعاً ذراعاً حتی لو دخلوا حجر ضبِّ تبعتموهم '' ۔ ٢

اپنے اسلاف کی رفتار کو تم لوگ قدم بہ قدم اور موبمو اپناؤ گے ، حتی اگر وہ کسی چھپکلی کے بِل میں بھی گئے ہوگے تو تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے۔

ہم نے سوال کیا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا : پھر کون ؟!

یہ حدیث ایک اور روایت کے مطابق '' مسند'' احمد میں یوں درج ہوئی ہے :

____________________

١۔ ابو سعید ، سعید بن مالک بن سنان انصاری خندق کی جنگ میں تیرہ سالہ تھا ۔ اس کے باپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور لاکر کہا : یہ نوجوان قوی ہیکل ہے ۔ لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے قبول نہیں کیا اور اجازت نہ دی تا کہ وہ جنگ میں شرکت کرے ۔ ابو سعید خدری نے جنگ بنی المصطلق میں شرکت کی ہے وہ مکثرین حدیث میں شمار ہوتا ہے اس نے تقریباً ١١٧٠ حدیثیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہیں صحاح کے مؤلفین نے اس کی تمام احادیث کو نقل کیا ہے ۔ ابو سعید نے ٧٤ ھ میں وفات پائی ہے۔ '' اسد الغابہ'' و ' جوامع السیرہ'' میں اس کی زندگی کے حالات بیان کئے گئے ہیں ۔

ابوسعید خدری کی حدیث میں جسے بخاری نے اس سے ایک اور روایت میں نقل کیا ہے کہ '' لو دخلوا'' کے بجائے'' لو سلکوا جحر ضبِّ لسلکتموہ'' آیا ہے جس کا تقریباً وہی مفہوم ہے۔

٢۔ شِبر =بالشت ، ذراع = کہنی سے درمیانی انگلی کی انتہا تک کا فاصلہ ، باع = دو ہاتھوں کے درمیان کا وہ فاصلہ دونوں ہاتھ اٹھا کر شانوں کے برابر کھینچ لئے جائیں ۔

۳۰

لتتّبعن سنن بنی اسرائیل ، حتی لو دخل رجل من بنی اسرائیل جحر ضبٍّ لتبعتموه ۔

تم لوگ بنی اسرائیل کی روش اپناؤ گے اس طرح کہ اگر بنی ا سرائیل میں کوئی شخص سوسمار کے بل میں داخل ہوا ہوگا تو تم بھی اس کی پیروی میں جاؤ گے۔

٤۔ ابن ماجہ نے اپنی '' سنن'' میں ، احمد نے اپنی '' مسند '' میں ، متقی نے '' کنزل العمال'' میں اور بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لا تقوم الساعة حتّٰی تخذ امتی بخذِ القرون قبلها شبراً بشبرٍ و ذراعاً بذراعٍ ۔

تب تک قیامت برپا نہیں ہوگی ، جب تک کہ میری امت گزشتہ امتوں کی روش پر مو بمو پیروی نح کر لے گی ۔ سوال کیا گیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کیا مجوسیوں اور رومیوں کی طرح؟ فرمایا: ان کے علاوہ ، اور کون لوگ ہیں ؟!

اسی مطلب کو '' مسند'' احمد میں یوں بیان کیا گیا ہے :

وَ الّذی نفسی بیده لتتبعنَّ سنن الذین من قبلکم شبراً بشبر و ذراعاً بزراعٍ و باعاً فباعاً حتی لو دخلوا جحر ضبّ لدخلتموه

قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ اپنے اسلاف کی روش پر مو بمو اور قدم بہ قدم پیروی کرو گے، حتی اگر وہ چھپکلی کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں داخل گے۔ پوچھاگیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کن کے بارے میں ، کیا اہل کتاب کے بارے میں فرما رہے ہیں ؟

۳۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

پھر کون لوگ؟!

٥۔ طیالسی اور احمد نے اپنی '' مسندوں '' میں ، متقی ہندی نے '' کنزل العمال ''' میں اور ترمذی نے اپنی '' صحیح'' میں ابو واقدلیثی (۱)سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

والذی نفسی بیده لترکبن سنة من کان قبلکم

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم لوگ اپنے اسلاف کی روش کی پیروی کروگے۔

یہی حدیث '' مسند'' احمد میں یوں آئی ہے۔

لترکبن سنن من کان قبلکم سنّة سنّة

تم لوگ روش روش پر اپنے اسلاف کی تقلید کرو گے۔

٦۔ حاکم نے پر اپنی '' مستدرک بر صحیحین'' میں اور ''مجمع الزوائد'' میں '' بزاز'' سے نقل کرکے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لترکبن سنن من کان قبلکم شبراً بشبرٍ و زراعاً بزراع و باعاً بباع حتی لو ان احدهم دخل حجر ضبّ لدخلتم ۔

تم لوگ موبمو اور قدم بہ قدم اپنی اسلاف کی روش پر چلو گے حتی اگر ان میں سے کوئی

____________________

١۔ابو واقد لیثی بنی لیث بن بکر سے ہے ۔ اس کے نام اور اسلام لانے کی تاریخ میں اختلاف ہے کہ کیآیا س نے جنگ بدر میں شرکت کی ہے یا فتح مکہ میں یا ان میں سے کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی ہے اور بعد میں اسلام لایا ہے ابو واقد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٢٤ حدیثیں روایت کی ہیں جسے بخاری نے ادب المفرد میں درج کیا ہے۔ ابو واقد نے مکہ میں رہائش اختیار کی اور ٦٨ھ میں ٧٥ یا ٨٥ سال کی عمر میں وہیں پر فوت ہوا اس کی زندگی کے حالات '' اسد الغابہ'' ( ٥ ٣١٩) و '' جوامع السیرہ'' ص ٢٨٢ میں مطالعہ فرمائیں ۔

۳۲

چھپکلی کے بلِ میں گھس گیا ہوگا تو تم لوگ بھی اس میں گھس جاؤ گے۔

٧۔ ترمذی نے اپنی '' صحیح'' میں اور حاکم نے اپنی '' مستدرک '' میں سیوطی کی تفسیر کے پیش نظر بیان کیا ہے کہ عبدا للہ عمرو نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لیاتین علیٰ امتی ما اَتیٰ علیٰ بنی اسرائیل ، حذو النعل بالنعل ، حتی ان کان فی بنی اسرائیل من اتٰی امه علانیة لکان فی امتی من فعل ذالک

جو کچھ بنی اسرائیل پر گزری ہے بالکل ویسے ہی میری امت پر بھی گزرے گی ، حتی اگر بنی اسرائیل میں کسی نے اپنی ماں سے علانیہ طور پر ہمبستری کی ہوگی تو میری امت میں ایسا شخص پیدا ہوگا جو اس کام کو انجام دے گا!

٨۔ '' مجمع الزوائد'' میں بزاز کی '' مسند'' سے اور متقی نے حاکم کی ''مستدرک '' سے نقل کرکے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لترکبن سنن من کان قبلکم شبراً بشبر و ذراعاً بذراع و باعاً بباعٍ ، حتی لو ان احدهم دخل حجر ضب لدخلتم حتی لو ان احدهم جامع امه لفعلتم!

تم لوگ موبمو اور قدم بقدم اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلو گے حتی اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بلِ میں گھس گیا ہو گاتو تم لوگ بھی ویسا ہی کرو گے بلکہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے مباشرت کی ہوگی تو تم لوگ بھی ایسا ہی کرو گے۔

۳۳

٩۔ احمد بن حنبل نے اپنی '' مسند'' میں '' مجمع الزوائد'' کے مصنف نے '' سہل بن سعد انصاری'' ١ سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

والذی نفسی بیده لترکبن سنن من کان قبلکم مثلاً به مثل

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر موبمو چلو گے!

جیسا کہ '' مجمع الزوائد'' کے مطابق طبرانی نے مذکورہ حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے ضمن میں فرمایا:

حتی لو دخلوا جحر ضبٍّ لاتبعتموه ۔

ہم نے سوال کیا :

اے رسول خدا ! کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا:

ان یہود و نصاریٰ کے علاوہ اور کون ہو سکتے ہیں ؟!

____________________

١۔سہل بن سعد بن مالک انصاری : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے دن سہل کی عمر پندرہ سال تھی ۔ سہل نے حجاج بن یوسف کے زمانہ کو بھی درک کیا ہے ، حجاج نے سہل کے عثمان کی مدد کرنے کے جرم میں حکم دیا تھا کہ اس کی گردن پر غلامی کی مہر لگادی جائے۔

سہل نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ١٨٨ حدیثیں روایت کی ہیں کہ اصحاب صحاح نے ان سب کو درج کیا ہے سہل نے ٨٨ ھ یا ٩١ ھ میں وفات پائی ہے ۔ کہتے ہیں کہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آخری صحابی تھا جس نے وفات پائی۔ '' اسد الغابہ'' ( ٢ ٣٦٦) ، '' جوامع السیر'' ٢٧٧ ، '' تقریب التہذیب '' (١ ٣٣٦)

۳۴

١٠۔ '' مجمع الزوائد'' میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا گیا ہے کہ '' عبداللہ مسعود'' ١ نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

انتم اشبه الامم بننی اسرائیل ، لترکبن طریقهم حذو القذة با لقذة حتی لا یکون فیهم شیء الا فیکم مثله

تم بنی اسرائیل سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والی امت ہو ۔ تم لوگ ان کے راستہ پر اس طرح چلو گے جیسے تیر کے پیچھے اس کے پر حتی ان میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جائے گی جو تم لوگوں میں موجود نہ ہو!

١١۔ '' مجمع الزوائد '' میں طبرانی کی '' اوسط '' اور '' کنز ل العمال 'سے نقل کرکے '' مستورد بن شداد '' ۲ سے

____________________

١۔ابو عبدا لرحمن ، عبدا للہ بن مسعود بن غا فل ہذلی قبیلۂ قریش میں سے ہیں جو پہلے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جن دنوں مکہ میں اظہار اسلام کرنے پر سختیوں وا ذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، ابن مسعود پہلے مسلمان تھے جو مکہ میں بلند آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ ابن مسعود نے پہلے حبشہ پھر مدینہ ہجرت کی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ، ابن مسعود سے ٨٤٨ حدیثیں روایت ہوئی ہیں تمام حدیث لکھنے والوں نے انھیں نقل کیا ہے ، عمر نے ابن مسعود کو کوفہ میں دینی امورکے معلم اور بیت المال میں حکومت کا امین و کلید دار معین کیا تھا ۔ ابن مسعود حکومت عثمان تک اس عہدہ پر برقرار تھے،کوفہ کا گورنر ولید بن عقبہ ، ابن مسعود کے اسلامی احکام کے نفاذ میں دقت خاص کر بیت المال اور حکومتی خزانہ کے امور میں ان کی دقت سے تنگ آچکا تھا .۔ لہذا اس نے خلیفہ عثمان کے پاس ان کی شکایت کی اور عثمان نے بھی اپنے بھانجے کی خواہش کے مطابق ابن مسعود کو مدینہ بلایا اور حکم دیا کہ ان کی پٹائی کی جائے اور سخت پٹائی کی گئی جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اس کے بعد حکم دیا کہ ان کی تنخواہ بند کردی جائے ، ابن مسعود اسی جسمانی اذیت کی وجہ سے بیمار ہوئے اور قریب مرگ پہنچے ۔ اس حالت میں عثمان ان کے سراہنے پر آئے اور حکم دیا کہ دو سال کے بعد دوبارہ انہیں تنخواہ دی جائے لیکن ابن مسعود نے قبول نہیں کیا۔ ابن مسعود نے ٣٢ھ میں وفات پا ئی اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ عثمان ان کے جنازہ پر حاضر نہ ہوجائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھے اور اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔ '' اسد الغابہ'' ( ٣ ٢٥٦۔ ٢٥٨)، '' جوامع السیرہ'' ص ٢٧٦ '' تقریب التہذیب '' ( ١ ٤٥٠)، تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار ( ١ ١٦٠ ۔١٦٧)

٢۔مستور دبن شداد بن عمرو قرشی فہری : اس کی ماں دعد بنتِ زین بن جابر بن حسل ہے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت نوجوان تھا ۔ مستورد نے سات حدیثیں روایت کی ہیں ۔ اس کی تمام احادیث کو حدیث لکھنے والوں نے نقل کیا ہے ، مستورد نے کوفہ اور مصر میں سکونت کی ہے اور ٤٥ ھ میں وفات پائی ہے '' اسد الغابہ'' ( ٤ ٣٥٤) ، '' مجمع الزوائد'' ص ٢٨٧ اور ' ' تقریب التہذیب '' ( ٢ ٢٤٢)

۳۵

روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ۔

لا تترک هٰذه الامة شیئاً من سنن الاولین حتیٰ تاتیه

گزشتہ قوموں کی کوئی روش باقی نہیں رہے گی مگر یہ کہ یہ امت اسے انجام دے ۔

١٢۔ احمدبن حنبل نے اپنی '' مسند'' میں اور '' مجمع الزوائد'' نے طبرانی سے نقل کرکے شداد بن اوس ١ سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لیحملن شرار هذه الامة علی سنن الذین خلوا من قبلهم اهل الکتاب حذو القذة بالقذة ''

اس امت کے بر ے لوگ اپنے سے پہلے اہل کتاب کی روش کی موبمو پیروی کریں گے۔

یہی حدیث شداد بن اوس کے حالات کی تشریح میں ابن اثیر کی کتاب '' اسد الغابہ'' میں '' اپنے سے پہلے '' کی جگہ '' آپ لوگوں سے پہلے'' کی تبدیلی کے ساتھ درج ہوئی ہے۔

____________________

١۔ شداد بن اوس ، حسان بن ثابت انصاری خزرجی کا بھتیجا ہے ۔ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ١٥٠ حدیثیں روایت کی ہیں کہ تمام حدیث لکھنے والوں نے انھیں نقل کیا ہے ۔ شدا د نے بیت المقدس میں رہائش اختیار کی اور ٤١ یا ٥٨ یا ٦٤ ھ میں شام میں وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ'' ( ٢ ٢٨٧۔ ٢٨٥ ) ، جوامع السیرہ ص ٢٧٩ ، '' تقریب التہذیب '' ( ١ ٣٤٧)

۳۶

آسمانی کتابوں میں گزشتہ امتوں کی تحریفیں :

گزشتہ بحث میں ہمیں معلوم ہوا کہ گذشتہ امتوں میں واقع ہونے والی تحریفوں کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے خبر دیدی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی خبر دی ہے کہ یہ امت گزشتہ امتوں کی تمام روشوں پر موبمو عمل کرکے ان کی پیروی کرے گی۔

اب اگرہم اس امت میں واقع ہوئی تحریفات کا گزشتہ امتوں میں واقع ہوئی تحریفات سے موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ امتوں نے ان تحریفات کو آسمانی کتابوں میں انجام دیا ہے اور خدائے تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو یوں یاد فرمایا ہے:

(قُل مَنْ اَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَائَ بِهِ مُوسیٰ نُوراً وَ هُدیً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِیسَ تُبْدُونَهَا وَ تُخْفُونَ کَثیراً ) ١

ان سے پوچھئے کہ جو کتاب موسٰی لے کر آئے تھے وہ نور اور لوگوں کیلئے ہدایت تھی اسے تم لوگ کچھ ظاہر کرکے اور اکثر چھپا کر ایک کتاب قرار دے رہے ہو ، بتاؤ اسے کس نے نازل کیا ہے

یا فرمایا ہے:

وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیقاً یَلُونَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالکِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْکِتَابِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْکِتَابِ وَ یَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اﷲِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ

____________________

١۔انعام ٩١

۳۷

یُقُولُون عَلَی اﷲِ الکَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُونَ ا

انہیں یہودیوں میں سے بعض وہ ہیں جو کتاب پڑھنے میں زبان کو توڑ موڑ دیتے ہیں تا کہ تم لوگ اس تحریف کو بھی اصل کتاب سمجھنے لگو ،حالانکہ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ اللہ کی طرف سے ہر گز نہیں ہے یہ خدا کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں ۔

یا یوں فرماتا ہے :

(فَوَیل لِلَّذِینَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ هٰذا مِنْ عِنْدِ اللهِ لِیَشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَوَیل لَهمُ مِمَّاکَتَبَتْ اَیْدیْهِمْ وَ وَیْل لَهُم مِمَّا یَکْسِبُونَ ) ٢

واے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تا کہ اسے تھوڑے دام میں بیچ لیں ان کیلئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے اور اس کی کمائی پر بھی ۔

ہم خدا ئے تعالیٰ کی آیات کے مصداق کو ان کی موجودہ رائج کتابوں میں واضح اور روشن طور پر دیکھتے ہیں ، جیسا کہ تورات کے تکوینی سفر کے تیسرے باب میں آدم کی تخلیق کے بارے میں یوں پڑھتے ہیں ۔

خدائے تعالیٰ نے آدم سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: خیر و شر کی معرفت والے درخت

____________________

١۔آل عمران ٧٨

٢۔بقرہ ٧٩

۳۸

سے کچھ نہ کھانا ، اگر کسی دن اس سے کھایا تو مرجاؤ گے ، سانپ، جو خشکی کے حیوانوں میں مکار ترین حیوان ہے ، نے ''حوا '' سے کہا: اگر آپ لوگ اس درخت سے کھائیں گے تو مرے گیں نہیں ، بلکہ خدا جانتا ہے جس دن اس سے کھائیں گے آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی اور خداکے مانند خیر و شر سے واقف ہو جائیں گے ۔ آدم اور حوا نے اس درخت سے کھایا ' آنکھیں کھل گئیں تو انہوں نے اپنے آپ کو برہنہ پایا اور خدا کی آواز اس وقت سنی جب نسیم صبح کے وقت بہشت میں رہا تھا لہذا انہوں نے اپنے آپ کو اس سے چھپا یا ۔ خدائے تعالیٰ نے بلند آواز میں آدم سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم کہاں ہو؟ آدم نے کہا : تیری آواز کو میں نے بہشت میں سنا لیکن چونکہ میں عریاں تھا ، ڈر گیا ، اس لئے خود کو چھپا لیا ۔ خدا نے کہا : کس نے تمہیں اس امر سے آگاہ کیا کہ تم برہنہ ہو؟ کیا تم نے اس درخت سے کھایا جسے میں نے منع کیا تھا ؟! آدم نے اپنی داستان خدا کوسنائی، تو خدا نے کہا اب جبکہ آدم بھی ہماری طرح خیر و شر سے آگاہ ہو گئے ہیں لہذا بعید نہیں کہ اپنے ہاتھ کو بڑھا کر درختِ حیات سے بھی کھالیں اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں ۔ لہذا انسان کو نکال باہر کیا اوربہشت کے مشرقی حصہ میں کروبیوں کو بسایا.. اور درخت حیات کی نگہبانی کے لئے ایک چمکتی ہوئی تیز دھار تلوار معین فرمائی!!

توریت نے بہشت میں آدم کی داستان کو اس طرح بیان کیا ہے جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ شیطان تھا جس نے ان دونوں کو اس ممنوعہ درخت سے کھانے پر اکسایا ۔ قرآن مجید کا بیان یوں ہے۔

(وَ قَاسَمَهُمَا اِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِینَ فَدَلِّا هُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجََرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوَآتُهُما وَ طَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیهِمَا مِنْ وَرَقِ الجَنَّةِ وَ نَادَاهُمَا رَ بُّهُمَا اَلَمْ اَنْهَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَکُمَا اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوّ مُبِین) (اعراف ٢١' ٢٢)

اور (شیطان نے) دونوں سے قسم کھائی کہ میں تمہیں نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں ، پھر انھیں دھوکہ کے ذریعہ درخت کی طرف جھکا دیا اور جیسے ہی ان دونوں نے چکھا ، شرم گاہیں کھل گئیں اور انہوں نے درختوں کے پتے جوڑ کر شرم گاہوں کو چھپانا شروع کردیا تو ان کے رب نے آواز دی کہ کیا ہم نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور کیا میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟

۳۹

ہم نے توریت میں ذکر ہوئی آدم کی داستان کا قرآن مجید میں ذکر ہوئی اسی داستان سے موازنہ کیا اور دیکھا کہ توریت میں کس طرح حقیقت تحریف ہوکر خرافات میں تبدیل ہوئی ہے ۔

توریت کا مطالعہ جاری رکھتے ہوئے ہم اس کے سفرِ تکوینی کے انیسویں باب میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوط بنی کی بیٹیاں رات میں اپنے باپ کو مست کرکے ان کے ساتھ ہمبستری کرتی ہیں اور حاملہ ہوتی ہیں ۔ اس داستان کو توریت میں یوں پڑھتے ہیں :لوط کی بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوگئیں ان کی بڑی بیٹی نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام '' مو آب'' رکھا کہ جس سے قبیلۂ ماآبی کی نسل چلی ہے' چھوٹی بیٹی نے بھی ایک بیٹے کوجنم دیا جس کا نام '' بنی عمی'' رکھا جس سے بنی عمون کی نسل آج تک باقی ہے!!

جب ہم اس مطالعہ کے دوران اس کے تکوینی سفر کے تینتیسویں باب پر پہنچتے ہیں تو پڑھتے ہیں یعقوب پیغمبر ابتدائے شب سے صبح تک ایک قوی پہلوان سے کشتی لڑتے رہے سر انجام ان کا حریف انہیں اسرائیل کا لقب دیتا ہے یہ داستان توریت میں یوں آئی ہے:

یعقوب کا حریف جب دیکھتا ہے کہ وہ یعقوب کو مغلوب نہیں کرسکتا تو یعقوب کی ران پر ہاتھ مار کر زور سے دباتا ہے اور کہتا ہے : مجھے چھوڑدو ، پوپھٹنے کو ہے؟! یعقوب جواب میں کہتے ہیں :

جب تک مجھے مبارکباد نہ دو گے تمہیں نہیں چھوڑوں گا وہ پوچھتا ہے : تمہارانام کیا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں : یعقوب

۴۰