ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 329
مشاہدے: 120992
ڈاؤنلوڈ: 3884


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120992 / ڈاؤنلوڈ: 3884
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 3

مؤلف:
اردو

حریف کہتا ہے:

آج کے بعد تمہارا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہے کیونکہ تم نے خدا اور انسان سے جنگ کی ہے اور انھیں مغلوب کیا ہے۔

یعقوب نے اس جگہ کا نام '' فینیسیئل'' رکھا اور کہتے تھے: میں نے یہاں خدا کو آمنے سامنے دیکھا ہے اور میری روح نے نجات پائی ہے!

ہم توریت کا مطالعہ جاری رکھتے ہوئے اس کے سفر خروج کے بتیسویں باب میں یوں پڑھتے ہیں :

جب قوم نے دیکھا کہ موسیٰ نے اس پہاڑ سے نیچے اترنے میں تخیر کی تو ہارون کے ہاں جمع ہوئے اور ان سے کہاکہ اٹھو اور ہمارے لئے ایک ایسا خدا بناؤ جو ہمارے سامنے راہ چلے ۔ کیونکہ وہ موسیٰ ، جو ہمیں سرزمین مصر سے باہر لائے نہیں معلوم ان پر کیا گزری ہے ۔ ہارون نے ان سے کہا: سونے کے گوشوارے جو تمہاری عورتوں ، بیٹوں او ر بیٹیوں کے کانوں میں ہیں ، انہیں نکال کر میرے پاس لاؤ۔ لہذا امت کار ہرفرد کانوں سے گوشوارے اتار کر ہارون کے پاس لے آیا ۔ ہارون نے ان گوشواروں سے لے کر ایک گوسالہ کا مجسمہ بنادیا۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا: اے بنی اسرائیل یہ تمہارے خدا ہیں جنہوں نے تمہیں سرزمین مصر سے باہرنکالا۔ ہارون نے جب یہ دیکھا تو ان کے سامنے ایک ذبح خانہ تعمیر کیا اور بلند آواز میں کہا : کل خدا کی عید ہے ۔

لیکن قرآن مجید گوسالہ بنانے' قوم کو گمراہ کرنے کی نسبت سامری کی طرف دے کر کہتا ہے کہ ہارون نے انھیں ایسے کام کے انجام دینے سے منع کیا تھا لیکن انہوں نے ان کی بات نہ مانی ۔ اس سلسلے میں ہم کلام اللہ میں یوں پڑھتے ہیں :

(فَکَذٰلِکَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجلاً جَسَداً لَهُ خُوَار فَقَالُوا هٰذَا اِلٰهُکُمْ وَ اِلٰهُ مُوسٰی وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَ اِنَّ رَ بَّکُمْ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُونِی وَ اَطِیعُوا اَمْرِیْ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیهِ عَاکِفِینَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوسیٰ ) ١

پھر سامری نے ان کیلئے ایک گائے کے بچے کا مجسمہ بنایا جس میں آواز بھی تھی تو لوگوں نے کہا : یہی تمہارا اور موسیٰ کا خدا ہے

ہارون نے توان لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اے قوم اس کے ذریعہ تمہارا امتحان لیا گیا

ہے اور بیشک تمہارا رب رحمان ہی ہے لہذ امیرا اتباع اور میرے امرکی اطاعت کرو ۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے گرد جمع رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے درمیان واپس آجائیں ۔

____________________

١۔ طہ ٨٧ ۔٩١

۴۱

توریت میں تحریف کے چند ثبوت:

گزشتہ مطالب میں ہم نے توریت میں دو قسم کی تحریفوں کے نمونے بیان کئے ۔ ایک میں خدائے تعالیٰ سے ایک ایسی چیز کی نسبت دی گئی ہے جس سے وہ منزّہ و پاک ہے ۔ اور دوسری تحریف میں خدا کے پیغمبروں ایسی نسبتیں دی گئی ہیں جن سے وہ منزہ و پاک ہیں ۔توریت اور انجیل میں تحریف کے سلسلے میں بہت زیادہ شواہد و ثبوت موجود ہیں ارباب نظر و تحقیق نے انہیں جمع کرکے ان پر بحث ، تحقیق اور تنقید کی ہے۔ من جملہ محترم دانشور حجة الاسلام بلاغی ہیں جنہوں نے اپنی بحث و تحقیق کے نتیجہ کو اپنی دو کتابوں '' الرحلة المدرسیة'' اور ''الھدیٰ الی دین المصطفی'' میں منعکس کیا ہے۔انہوں نے اور دیگر محققین نے توریت و انجیل میں تحریف کے موارد کو اپنی دقیق، مفصل اور تاریخی تحقیق اور جانچ پڑتال کے ذریعہ ثابت کیا ہے ۔ امریکہ کے ڈاکٹر '' ہانس'' نے اپنی کتاب مقدس کی قاموس میں لفظ '' انجیل ' میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس سلسلے میں قابل اعتراض موارد کو برطرف کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔اس بحث کے خاتمہ پر ہم ذیل میں سفر تثنیہ کے تینتیسویں باب کے تحریف کے تین نمونے پیش کرتے ہیں :

١۔ ذیل میں دیا گیا نمونہ اس نسخہ کی تصویر ہے جسے '' جناب پادری رابنسن'' نے عبرانی زبان سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اور یہ نسخہ لندن کے رچرڈ واٹسن پریس میں ١٨٣٩ ء میں چھپ چکا ہے ۔

٢۔ذیل میں اسی باب کی ایک اور تصویر ہے جو ١٨٣١ ء میں لندن کے رچررڈ واٹسن پریس میں مشرقی روم کے یہودیوں کی عبادت گاہوں کیلئے ١٦٧١ ء میں طبع شدہ ایک نسخہ سے نقل کرکے اس کی اشاعت کی گئی ہے:

٣۔ ذیل میں اسی باب کے ایک اور نسخہ کی تصویر ہے جو ١٩٠٧ ء میں بیروت کے ایک امریکی پریس میں طبع ہواہے : ١

اب ہم دیکھیں گے کہ اس کتاب توریت کے صرف اس ایک باب میں تین بار چھپائی کے دوران کیا چیزیں تحریف ہوئی ہیں ۔

اس باب کے نمبر ١ سے ٤ تک یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی وفات سے پہلے تین جگہوں کا نام لیا ہے کہ جہاں خدائے تعالیٰ نے اپنا امر ظاہر کرکے اپنی شریعت نازل کی ہے ۔ یہ تیں جگہیں حسب ذیل ہیں :

____________________

١۔ توریت کے اس باب کے تیسرے حصہ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی بات کی گئی ہے ، بعید نہیں کہ یہ مطلب اس آیۂ شریفہ کا مصداق ہوں :(مُحَمَّد رَسُولُ اﷲِ وَ الَّذِینَ مَعَهُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَارِ رُحَمَائُ بَیْنَهُم تَرَاهُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضلاً مِنَ اﷲِ وَ رِضْوَاناً سِیمَاهُمْ فِی وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثِرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُهُمْ فِی التَّورَاتِ ) ( فتح ٢٩)

محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کیلئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں ۔ تم انھیں دیکھو گے کہ بارہ گاہ احدیت میں سر خم کے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں ۔ کثرت سجدہ کی بناء پر ان کے چہروں پر سجدے کے نشانات پائے جاتے ہیں یہی ان کی مثال توریت میں ہے ۔

۴۲

١۔ سیناء : یہ وہ جگہ ہے جہاں پر خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر توریت کی شریعت نازل فرمائی جسے چوتھے حصے میں اچھی طرح بیان کیا ہے اور تاکید فرمائی ہے وہ شریعت یعقوب کی میراث ہے جو بنی اسرائیل کے نام سے معروف ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ شریعت قوم بنی اسرائیل سے مخصوص ہے۔

٢۔ سعیر یا ساعیر : لفظ '' سعیر'' کے بارے میں کتاب قاموس مقدس میں اور لفظ ''ساعیر'' کے بارے میں حموی کے معجم البلدان میں کی گئی تشریح کے پیش نظر یہ ان سرزمینون کا نام ہے جس کے پہاڑوں کے بیچ میں '' قدس'' واقع ہے۔

اس توصیف کے پیش نظر یہ وہی جگہ ہے جہاں '' حضرت عیسی بن مریم '' پر انجیل کی شریعت نازل ہوئی ہے اور حضرت موسیٰ کے بیانات میں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

٣۔ کوہ فاران : جیسا کہ توریت کے سفر تکوینی کے اکیسویں باب میں آیا ہے کہ فاران ایک ایسی جگہ کا نام ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش پر اپنی دوسری بیوی ہاجر اور اکلوتے بیٹے اسماعیل کو چھوڑا تھا۔ اس موضوع کی نمبر ٢١ میں یوں وضاحت ہوئی ہے:

اسماعیل نے صحرائے '' فاران'' میں رہائش اختیار کی اور ان کی ماں نے ان کیلئے سرزمین مصر سے ایک شریک حیات کا انتخاب کیا۔

تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ جناب اسماعیل اپنی ماں کے ساتھ مرتے دم تک وہیں رہے اور وہیں دفن ہوئے آپ کی قبر حجر اسماعیل کے نام سے معروف ہے۔

اس لحاظ سے کوہ فاران مکہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہونا چائیے ۔ جیسا کہ یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ، ابن منظور نے ''لسان العرب '' میں ، فیروز آبادی نے '' قاموس'' میں اور زبیدی نے '' تاج العروس'' میں لفظ '' فاران '' میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

کوہ فاران پر نازل ہونے والے قوانین و شریعت کی تشریح اور اس جگہ پر حکم خدا کے ظہور کی کیفیت کے بارے میں ''پادری رابنسن ''کے ترجمہ کے نمبر ١ میں یوں بیان ہواہے ۔

... اور کوہ فاران سے نور افشاں ہوا اور دس ہزار مقربین کے ساتھ وارد ہوا، اس کے دائیں ہاتھ سے ایک آتشین شریعت ان لوگوں کے لئے پہنچی، بلکہ وہ تمام قبیلوں سے محبت کرتا تھا' تمام مقدسات تمہارے اختیار میں ہیں ، مقربان بھی تمہاری خدمت میں ہوں گے ، تمہارے حکم کی تعمیل کریں گے ۔

۴۳

یہی مطلب روم میں چھپے ہوئے نسخہ میں اس طرح ہے: ...فاران کی پہاڑی سے ہزاروں پاکیزہ لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوا' اپنے دائیں ہاتھ میں شریعت لئے ہوئے تمام قوموں سے محبت کرتا ہے اور بھی پاکیزہ لوگ اس کے اختیار میں ہیں جو بھی اس سے نزدیک ہوتے ہیں اس کے حکم کو قبول کرتے ہیں ۔

کوہِ فاران سے ظہور ، مکہ میں موجود کوہِ فاران کے غار حرا میں خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزولِ قرآن مجید پر دلالت کرتا ہے اور یہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو دس ہزار افراد لے کر مکہ -- سرزمین فاران-- میں داخل ہوتے ہیں اور اسے فتح کرتے ہیں ۔ یہ وہی ہیں جو پرچمِ شریعت یا ایک آتشین سنت --جہاد و پیکار کی شریعت-- کے حامل ہیں ۔ اور بالآخر یہ وہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو قبائل اور لوگوں کو دوست رکھنے و الے ہیں ، قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(وَ مَا اَرْسَلْنَا کَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ ) ١

اور ہم نے آپ کو عالمین کیلئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

یا یوں فرماتا ہے :

( وَ مَا اَرْسَلْنَاکَ الَّا کَافَةً لِلنَّاسِ بَشِیراً و َ نَذِیراً ) ٢

اور اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔

یہ اشراق اور ظہور صرف حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دلالت کرتا ہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کسی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صدق نہیں آتا ہے ۔ کیونکہ:

موسیٰ صرف اپنے بھائی ہارون اور عیسیٰ چند حواریوں کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس لئے یہ جملہ '' اور دس ہزار مقربان کے ساتھ واردہوا'' ان میں سے کسی ایک پر صدق نہیں کرتا ہے۔

اسی طرح یہ جملہ : '' اور دائیں ہاتھ سے انہیں آتشین شریعت پہنچی '' ہر گز حضرت عیسیٰ پر صادق نہیں آتاہے۔

اسی طرح یہ جملہ کہ '' قبائل اور لوگوں کو دوست رکھنے والے تھے '' حضرت موسیٰ کیلئے مناسب نہیں لگتا کیونکہ ان کی شریعت قوم بنی اسرائیل کیلئے مخصوص تھی ۔

لہذا ان ہی اسباب کی بناء پر تورات کے مختلف نسخے تحریف کی زد میں آگئے ہیں ۔ ہم نے

____________________

١۔انبیاء ١٠٧

٢۔سبا ٢٨

۴۴

درج ذیل خاکہ میں تحریف کے ہر ایک مورد کو الگ الگ دکھایا ہے ١

طبع

پہلا جملہ

دوسرا جملہ

تیسرا جملہ

رابینسن

اور دس ہزار مقربان کے ہمراہ تشریف لائے۔

اور اس کے دائیں ہاتھ پر اسے آتشین شریعت پہنچی۔

بلکہ قبائل کو دوست رکھتا تھا۔

رومی

او ر ان کے ساتھ ہزاروں پاک لوگ ہیں ۔

اور اس کے د ائیں ہاتھ پر آگ کی شریعت

لوگوں کو دوست رکھنے وال

امریکی

قدس کی بلندی سے آئے۔

اور دائیں ہاتھ سے ان کیلئے ایک شریعت کی آگ

لہذا لوگوں کو دوست رکھتاہے۔

____________________

١۔قابل توجہ بات ہے کہ پہلا جملہ '' اور دس ہزار مقربان کے ہمراہ تشریف لائے '' دوسرے جملہ '' اور ان کے ساتھ ہزاروں پاک لوگ ہیں '' میں تحریف ہوئی ہے ۔ آخر میں یہ جملہ حذف ہو کر اس جملہ میں تحریف ہوا ہے کہ '' قدس کی بلندی سے آئے '' تا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کے ظہور پر دلالت کرے!!دوسرے جملہ ''آتشین شریعت''' میں تحریف کرکے '' آگ کی شریعت'' اور پھر اسے '' شریعت کی آگ'' میں تحریف کیا گیا ہے تا کہ اسلام کے جہاد و پیکار والی شریعت پر دلالت نہ کرے اور اس طرح حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کا مصداق نہ بن جائے۔تیسرے جملہ میں '' بلکہ قبائل کو دوست رکھتا ہے '' بصورت جمع ہے اسے جملۂ '' لوگوں میں '' اور پھر '' لوگوں کو دوست رکھتا ہے '' میں تحریف کی گئی ہے تا کہ پیغمبر اسلام پر دلالت نہ کرے بلکہ دوسروں پر صادق آئے۔

۴۵

قرآن مجید ایک لافانی معجزہ :

ہم نے توریت کے ایک حصہ میں ١٨٣١ ء میں واقع ہوئی تحریف کے طرز و طریقہ کو نمونہ کے طور پر بیان کیا۔

لیکن قرآن مجید کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر قسم کے دخل و تصرف اور تحریف سے خدا کی پناہ میں ہوگا ۔ اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(وَ اِنَّه لَکِتَاب عَزِیز لَا یَاتِیهِ البَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ ) ١

اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے ، جس کے قریب ، سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتا ب ہے ۔

اور خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ خود اس کا محافظ اور بچانے والا ہوگا ، جیسے کہ فرماتا ہے :

(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ٢

ہم نے ہی اس قرآن کونازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

حتی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اپنی بات کو خدا کے کلام کے برابر قرار نہیں دے سکتے ، جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:

____________________

١۔ فصلت ٤١ ۔ ٤٢۔

٢۔حجر ٩۔

۴۶

( تَنْزِیل مِنْ ربِّ العَالَمِینَ وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِینَ ) ١

یہ ( قرآن ) رب العالمین کا نازل کردہ ہے' اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑلیتے اور پھر اس کی گردن اڑا دیتے پھر تم میں سے کوئی مجھے روکنے والا نہ ہوتا ۔

یا یہ کہ اگر خدائے تعالیٰ قرآن مجید کو اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھین لیتا ، تو رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ نہیں کرسکتے :

(وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِی اَوَْحَیْنَا اِلَیکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لک بِهِ عَلَیْنَا وَکِیلاً ) ٢

اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کو وحی کے ذر یعہ دیا گیا ہے اسے اٹھالیں اور اس کے بعد ہمارے مقابلہ میں کوئی سازگار اور ذمہ دار نہ ملے۔

اس کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اگر جن و انسان باہم متفق ہو کر قرآن کے مانند کسی کتاب کو فراہم کرنے کی کوشش کریں گے تو بھی وہہر گز اس میں کامیاب نہیں ہوں گے :

(قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَْتُوا بِمِثْلِ هٰذَا القُرآنِ لَا یَْتُونَ بِمِثْلِه وَ لَو کانَ بَعْضُهُم لِبَعْضِ ظَهِیراً )

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اورجنّات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے ، چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔

____________________

١۔ الحاقہ ٤٣ ۔ ٤٧

٢۔ اسراء ٨٦

٣۔ الاسراء ٨٨

۴۷

قرآن مجید کے مثل کسی کتاب کو لانے کے بارے میں انسان و جنات کی مجموعی قدرت اور توانائی سے نفی کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثلِهِ وَ ادْعُوْا شُهَدائَکُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کُنْتُم صَادِقِینَ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُو النَّارَ الَّتِی وَ قُودُهَا النَّاسُ وَ الحِجَارَةُ اُعِدَّت لِلْکَافِرِینَ ) ١

اگر تمہیں اس میں کوئی شک ہے، جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور اﷲ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں سب کو بلا لو۔ اگر تم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ہو۔ اور اگر تم ایسا نہ کرسکے اور یقینا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافروں کیلئے مہیا کیا گیا ہے۔

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے

(اَمْ یَقُولُون افْتَرَاهُ قُلْ فَْتُوا بِعَشْرِ سُورٍ مِثْلِه مُفتَرَیَاتٍ وَ ادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کنتُمْ صَادِقِینَ فَاِلَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ فَاعْلَمُوا اَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اﷲ ...) ٢

____________________

١۔بقرہ ٢٣۔ ٢٤

٢۔ہود ١٣۔١٤

۴۸

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور اﷲ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کیلئے بلا لو اگر تم لوگ اپنی بات میں سچے ہو۔ پھر اگر یہ آپ کی بات قبول نہ کریں توسمجھ لو کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب خدا کے علم سے ہے...

اور مزید فرماتا ہے:

(وَمَا کَانَ هٰذَا الْقُرآنْ اَنْ یُفْتَریٰ مِنْ دُوْنِِ اﷲِ وَ لٰکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفصِیلَ الْکِتَابِ لاَ رَیْبَ فِیهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، اَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُو مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ )

اور یہ قرآن کسی غیر خدا کی طرف سے افتراء نہیں بے بلکہ اپنے ما سبق کی کتابوں کی تصدیق اور تفصیل ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تم اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور خدا کے علاوہ جسے چاہو اپنی مدد کیلئے بلا لو، اگر تم لوگ سچے ہو۔

____________________

١۔یونس ٣٧- ٣٨

۴۹

قرآن مجید میں تحریف کی ایک ناکام کوشش

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ قرآن مجید کی شان میں خدا کا کلام تھا جو دقیق علمی بحث و تمحیص کے ذریعہ مذکورہ تمام مطلب کی تائید و تصدیق کرتا ہے ، اس کے تکرار کی گنجائش نہیں ہے ١

لیکن حیرت کی بات ہے کہ بعض روایات اس کے بر خلاف کہتی ہیں ذیل میں ان کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں :

١۔ بخاری اور مسلم کی '' صحیح'' ، ابو داؤدکی ترمذی اور ابن ماجہ کی '' سنن'' اور مالک کی '' مؤطائ'' میں یہ روایت نقل ہوئی ہے جسے ہم ذیل میں '' صحیح بخاری'' سے بعینہ نقل کرتے ہیں :

خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے روایت ہے :کہ

خدائے تعالیٰ نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمایا۔ جس کی آیات میں آیۂ '' رجم'' بھی موجود تھی کہ ہم نے اس آیت کو پڑھا اور سمجھا و درک کیا ہے۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ہم نے اسی آیت سے استدلال کرکے ''رجم'' یعنی '' سنگسار'' انجام دیا ہے ۔ اب مجھے اس بارے میں ڈر ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی یہ کہے کہ : خد کی قسم میں نے آیۂ '' رجم'' کو کتابِ خدا میں نہیں دیکھا ہے ! اور لوگ اس واجب الٰہی کو ترک کرکے گمراہ ہوجائیں جبکہ قرآن مجید کی رو سے زنائے محصنہ میں رجم کی سزا واجب ہے ٢

____________________

١۔ مقدمۂ تفسیر الاء الرحمن اور مقدمۂ تفسیر البیان''۔

٢۔عن الخلیفة عمر بن الخطاب قال : اِنَّ الله بعث محمداً ( ص) و اَنزل علیه الکتاب فکان مما انزل اﷲ آیة الرجم فقرناها و وعینا ها ، و رجم رسول اﷲ ( ص) و رجمنا بعده فاخشیٰ ن طال بالناس زمان ان یقول قائل : و اﷲ ما نجد آیة الرجم فی کتاب اﷲ فیضلوا بترک فریضة انزلها اﷲ و الرجم فی کتاب اﷲ حق علی من زنی اذا حصن ...

اس روایت کے آخر میں عمر کی خیالی آیۂ '' رجم'' کے سلسلے میں ابن ماجہ نے اس طرح لکھا ہے: ہم آیۂ رجم کو یوں پڑھتے تھے۔

الشیخ و الشیخة اذا زنیا فارجموهما البتة

جب ایک مرد اور عورت زنا کے مرتکب ہوجائیں تو انہیں سنگسار کرو۔

۵۰

یہی مطلب مالک کی ''موطا'' میں یوں آیا ہے: ہم اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے:

الشیخُ وَ الشیخَةُ فَارْجِمُو هُمَا اَلْبَتّة ١

پھر اسی حدیث میں '' صحیح'' بخاری اور '' مسند '' احمد میں خلیفہ دوم سے منقول ہے کہ : ہم اس آیت کو کتاب خدا میں پڑھتے تھے:

الَّا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ فَاِنَّه کفر بِکُمْ اَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ

اپنے باپ سے منہ نہ موڑنا اگر ایسا کرو گے تو کفر کے مرتکب ہوگے۔

٢۔ مسلم کی'' صحیح''، ابو داؤد ، نسائی اور دارمی کی '' سنن'' اور مالک کی ''موطا'' میں ام المؤمنین عائشہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے ' ہم یہاں پر '' صحیح مسلم'' میں نقل ہوئی اس حدیث کی عین عبارت نقل کرتے ہیں :

ام المؤمنین عائشہ سے منقول ہے کہ:

قرآن میں نازل ہونے والی آیتوں کے ضمن میں '' با علم دس مرتبہ دودھ پلانے کی آیت ' بھی

____________________

١۔ ابی بن کعب سے نقل کرکے تقریباً اسی مضمون کی حدیث '' مسند '' احمد ( ٥ ١٣٢) اور زید بن ثابت انصاری سے '' مسند'' احمد ( ٥ ١٨٣) میں آئی ہے۔

۵۱

نازل ہوئی تھی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اس آیت کو قرآن مجید میں پڑھا جاتا تھا ۔

'' سنن'' ابی ماجہ میں حدیث عائشہ یوں نقل ہوئی ہے:

عائشہ نے کہا کہ آیۂ '' رجم '' اور '' بالغون کو دس مرتبہ دودھ پلانے '' کی آیت __ محرم بنانے کیلئے __ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی اور میں نے اسے اپنے سونے کے تخت کے نیچے چھپا رکھا تھا ۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی ، ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجہیز و تکفین میں لگ گئے اور دیگر امور سے غفلت کی ، ایک مرغی کمرے میں داخل ہوئی اور اس کاغذ کو کھا گئی !! ١

٣۔ '' صحیح'' مسلم میں آیا ہے کہ ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ کے قاریوں کیلئے جن کی تعداد تین سو تھی ایک پیغام بھیجا کہ ہم قرآن مجید میں ایک سورہ پڑھتے تھے جسے بلندی اور پائیداری کے لحاظ سے سورۂ برائت کے شبیہ جانتے تھے اور میں نے اسے فراموش کر دیا۔ اس میں سے صرف یہ حصہ یاد ہے کہ ارشاد ہوتاہے :

اگر فرزند آدم کے پاس دو بیابانوں کے برابر مال و دولت ہوجائے تو وہ تیسرے بیاباں کی بھی آرزو کرے گا ۔ فرزند آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں بھر سکتا ٢

ابو موسی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

____________________

١ نزلت آیة الرجم و رضاعة الکبیر عشراًلقد کان فی صحیفة تحت سریری ، فلما مات رسول اﷲ تشاغلنا بموته فدخل داجن فاکلها !!

٢لو کان لابن آدم وادیان من مالِ لا بتغیٰ وادیا ثالثا و لا یملاء جو ف ابن ادٔم الا التراب !

۵۲

قرآن مجید میں ایک ایسا سورہ بھی تھا جو تسبیحات کی شبیہ تھا میں نے اسے بھی فراموش کر ڈالا۔ صرف اس کا یہ حصہ یاد ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:

اے ایمان لانے والو ! تم جس چیز کو انجام نہیں دیتے اسے زبان پر کیوں لاتے ہو؟ تاکہ تمہاری گردن پر گواہی لکھ جائے اور قیامت کے دن تم سے پوچھ تاچھ کی جائے ؟!

ایسی بناوٹی اور جھوٹی احادیث ١ اگر کسی مطلب پر دلالت کر سکتی ہیں تو وہ مطلب یہ ہوگا کہ حدیث نبوی کے مطابق اس امت میں بھی ایسے افراد ہیں جو گزشتہ امتوں کے مانند آسمانی کتاب میں تحریف کرنے پر اتر آئیں گے ۔ اس سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

تم لوگ اپنے اسلاف کی روش پر تیر کے پروں اور جوتوں کے جوڑے کے مانند چلو گے۔ اس حد تک کہ اگر وہ کسی چھپکلی کے بِل میں گھس گئے ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں گھس جاؤ گے۔

لیکن قرآن مجید میں تحریف کے بارے میں ان خود غرضوں کی تمام کوششیں ناکامی اور رسوائی سے دوچار ہوئیں ۔ جیساکہ خداوند فرماتا ہے :'' قرآن کے قریب ، سامنے یا پیچھے کی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے '' اور خدائے تعالیٰ اپنی کتاب کو ایسے بیہودہ مطالب کی آلودگیوں سے بچالے گا جن سے عربوں کا ذوق سلیم بھی نفرت کا اظہار کرتاہے ۔ جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے : '' ہم

____________________

١۔ معتبر اور گراں قدر کتابوں کے ایک حصہ میں ان ہی روایات کا وجود ہمیں اپنے معین کردہ ارادہ میں مصمم تر کرتا ہے کہ حقائق تک پہچنے اور بیہودہ مطالب اور جھوٹ کو محکم و متین مضامین سے جدا کرنے کیلئے اپنی بحث و تحقیق کو جاری رکھیں ۔)

۵۳

نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ''۔

ارادۂ الٰہی کے تحت ، قرآن مجید لاکھوں مسلمانوں کے ذریعہ دست بدست پھرانے اور عصر رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آج تک نسل بہ نسل منتقل ہونے کے باوجود ہر قسم کی تحریف اور آلودگیوں سے پاک اور محفوظ رہ کر اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے تبلیغ فرمایا تھا اور انشاء اللہ اسی صورت میں آئندہ بھی محفوظ رہے گا۔

اسلامی مصادر کی تحقیق ضروری ہے :

اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے بیہودہ اور توہمات پر مشتمل مطالب اگر چہ قرآن مجید میں نفوذ نہیں کرسکے ہیں لیکن بہر صورت روایات و احادیث اور گراں قدر کتابوں میں سرایت کرچکے ہیں جنہوں نے ذہنوں کو مشغول کر رکھا ہے۔

اگر چہ قرآن مجید تحریف سے محفوظ رہا ہے لیکن سنّت کسی صورت میں تحریف اور دخل و تصرف سے محفوظ نہیں رہی ہے ۔ اس سلسلے میں دشمنان اسلام ، من جملہ یہود، نصاریٰ ، زندیقی اور دیگر منافقین' اسلام کالبادہ اوڑھ کے مسلمانوں کے اندرگھس کر مختلف صورتوں میں اور وسیع پیمانے پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی احادیث، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت ، اصحاب کی سیرت ، تاریخ اسلام ، احادیث اور تفسیر قرآن میں ہر قسم کی تحریف اور دخل و تصرف کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں !! یہاں تک کہ شاید ہمیں گزشتہ امتوں میں کوئی ایسی امت نہیں مل سکے گی جس نے اپنے پیغمبر کیلئے ایک سو پچاس اصحاب جعل کئے ہوں اور انھیں حقیقی و مسلم صحابیوں کے عنوان سے اپنے ہم عقیدوں کے سامنے پیش کیا ہو ! جس چیز کو اس کتاب میں مد نظر رکھا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اسلامی مصادر کی حتی الامکان تحقیق و جستجو کرکے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے جعل کئے گئے اس قسم کے اصحاب کو پہچنوایا جائے ۔ انشاء اللہ اس کا م کو انجام دیا جائے گا۔

۵۴

لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ جو کچھ انھیں اپنے اسلاف سے ملا ہے وہ سب کا سب صحیح ہے اور اسے ہر قسم کی آلودگی اور دخل و تصرف سے پاک و منزہ جانتے ہیں ۔ چنانچہ بحث و تحقیق کے ضمن میں اگرتاریخ طبری میں کسی صحابی کی خبر یا سیرۂ ابن ہشام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کسی خبر یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کسی بھی حدیث کو اپنی مورد اعتما د و احترام کتابوں میں یا اس قسم کے دوسرے مصادر میں پاتے ہیں تو چوں و چرا کے بغیر اطمینان کامل کے ساتھ اس مطلب کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتے ہیں ۔ اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بحث و تحقیق کرنے کی ہر گز اپنے آپ کو تکلیف نہیں دیتے ۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے علماء اور دانشور بھی ، مذکورہ مصادر کے مؤلفین نے جو کچھ اپنے فہم ، ذوق اور سلیقہ کے مطابق لکھا ہے ، اسے آنکھیں بند کرکے قبول کرتے ہیں ۔

ہم کتاب '' عبد اللہ بن سبا'' کے مختلف حصوں کی تحقیق و جستجو کے دوران پیروان مکتبِ خلفاء کے مطمئن ترین منبع یعنی '' تاریخ طبری'' میں چند بڑی تحریفات سے دوچار ہوئے جو اصحاب سے مخصوص ہیں ۔ یہ تحریفات ، تاریخی حقائق کو الٹ پلٹ کردینے کا سبب بنی ہیں اور انھیں اپنے اصلی راستے سے منحرف کرکے رکھدیا ہے ۔

اگر ایک محقق، انکے نزدیک سیرت میں مطمئن ترین کتاب '' سیرہ ابن ہشام '' یا انکی انتہائی مورد اعتماد حدیث کی کسی بھی کتاب کی تحقیق کرے تو ا ن میں حیرت انگیز حد تک جھوٹ اور تحریف کا سامنا کرے گا۔

گزشتہ بحث کے پیش نظرہم اس قسم کی سیرت ، حدیث و تاریخ کی کتابوں کے بارے میں درج ذیل تین راہوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے پر ناگزیر ہیں :

١۔ صرف قرآن مجید پر اکتفا کریں اور اپنے اسلام کو اسی میں تلاش کریں لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ اس قسم کے اقدام کا نتیجہ ترکِ اسلام ہے جو قرآن کو ترک کرنے کے برابر ہے۔

۵۵

٢۔ انہیں کتابوں کو ، کہ جن پر اکثر مسلمانوں کو اطمینان ہے اور ان میں درج مطالب کے صحیح ہونے پر ایمان رکھتے ہیں 'تسلیم کرلیں اور جو کچھ ان میں درج ہے اسے بلا چوں و چرا قبول کرلیں اور کسی بحث و تحقیقکے بغیر ان کی روایتوں کے مضامین ، راویوں کے سلسلہ ، ان کا تاریخ و سیرت کی دوسری کتابوں میں موجود مطالب سے موازنہ وغیرہ سے چشم پوشی کرکے سب کچھ قبول کرلیں ۔

ہماری اس بحث و تحقیق کے پیش نظر نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم صحیح کے بجائے تحریف اور حق کے بجائے باطل کو قبول کر لیں اور اس طرح وہی پہلا نتیجہ حاصل ہوگا۔

٣۔ یہ کہ حدیث ، سیرت اور تاریخ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرکے ان پر بحث ، تحقیق، تنقید اور جانچ پڑتال کرکے ان سند ، متن اور مضمون کے لحاظ سے موازنہ کریں اور علمی بنیادوں پر حاصل شدہ تحقیق کے نتیجہ کو قبول کریں ۔

قرآن مجید کے علاوہ تمام اسلامی مصادر کے بارے میں ہم مجبور ہیں کہ مذکورہ تین راہوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں ۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ پہلے دو راستے اسلام اور قرآن سے منہہ موڑنے کے مترادف ہیں ، پس جب صحیح اسلام اور اس کے سچے قوانین کی پیروی کے خواہاں ہیں تو ہم ناگزیر ہیں کہ اسی تیسرے طریقے یعنی بحث و تحقیق اور تنقید جو صحیح اور علمی ہے اس کا انتخاب کرنے کو ہی قبول کریں ۔

اس انتخاب میں ضروری ہے کہ اصحاب کی سیرت پر بحث و تحقیق کو دوسرے امور پر مقدم قرار دیں ،ہم نے بھی اسی بحث کو دوسری بحثوں پر مقدم قرار دیا ہے ۔

کیونکہ صحابہ ہمارے اور حدیث کے درمیان رابطے کی کڑی ہیں ۔ ہم نے اس سلسلے میں دیکھا کہ سیرت سے مربوط بعض روایات بعض ایسے اصحاب سے روایت کی گئی ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے ابھی انھیں پیدا ہی نہیں کیا ہے !

اس طرح ہمیں چاہئے کہ اس بحث و تحقیق میں تنقید، تحقیق اور چانچ پڑتال کرتے وقت انتہائی اہم کتابوں کو اہم پر اہم کو غیر اہم کتابوں پر مقدم قرار دیں ۔ یا سادہ الفاظ میں امکان کی حد تک اپنی بحث و تحقیق میں انتہائی مشہور کتابوں کو دوسرے درجہ کی مشہور کتابوں اور دوسرے درجے کی کتابوں کو غیر مشہور کتابوں پر مقدم قراردیں ۔

۵۶

اب میں نے انتہائی انکساری کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ اس بحث و تحقیق کے سلسلہ کو اسی پروگرام کے تحت جاری رکھوں اور اگر خدائے تعالیٰ نے اس پروگرام میں میری مدد فرمائی تو اس کا شکر گزار رہوں کا ورنہ اسلام کے علماء اور محققین کی ذمہ داری ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کو آلودگیوں اور تحریفات سے پاک کرنے کیلئے قدم اٹھائیں ۔

خلاصہ

چونکہ تمام اسلام قرآن و سنت میں ہے ، لہذ اصحیح اسلام کو درک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان دونوں کی طرف رجوع کیا جائے کوئی شخص قرآن کو سنت سے جدا نہیں کرتا مگر وہ شخص کہ جو اپنی خواہش و مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے اور قرآن مجید کی اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق تویل و تفسیر کرنا چاہتا ہے۔ خدائے تعالی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف ایک ساتھ رجوع کیا جائے۔ لیکن جب ہم اسلام کو حاصل کرنے کیلئے سنّت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ سنت مختلف صورتوں میں تحریف کا شکار ہوئی ہے ۔ اس تحریف اور دخل و تصرف میں امت اسلامیہ مو بمو گزشتہ امتوں کے نقش قدم پر چلی ہے۔

خدائے تعالی نے گزشتہ امتوں کی تحریف کے بارے میں اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس امت کے گزشتہ امتوں کے تمام امور میں پیروی کرنے کی خبر دی ہے ۔یہی امر دسیوں ہزار بناوٹی اور تحریف شدہ روایتوں ، سیرت ، تاریخ اسلام ، عقائد اسلامی ، تفسیر قرآن میں اور ایسے ہی دوسرے امور میں شامل ہوکر صحیح اسلام کے نظروں سے اوجھل ہوجانے اور حقیقت تک رسائی کے بہت مشکل ہوجانے کا سبب بنا ہے ۔ اس کے علاوہ یہی تحریفات اور دخل و تصرف مسلمانوں کی یکجہتی ، اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرکے انھیں مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم کرنے کا سبب بنے ہیں ۔

اس لحاظ سے اگر ہم صحیح اسلام کو سمجھنا چاہیں تو ہمیں اس قسم کی بحث و تحقیق کی سخت ضرورت ہے اور اس ضرورت کا اسلام کے احکام پر عمل کرتے وقت شدت سے احساس کرتے ہیں ۔

۵۷

اس کے علاوہ اگر مسلمانوں کے امور اور ان کا اتحاد ہمارے پیش نظر ہے تو ہم اس قسم کی بحث و تحقیق کے سخت محتاج ہوں گے، کیونکہ آج کل مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق کا سرچشمہ اسلام کے تمام امور میں ہزاروں کی تعداد میں ضد و نقیض احادیث کے وجود کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اسی طرح اس قسم کی تحقیقات و بحث و مباحثہ کے بغیر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لائے ہوئے اصلیاسلام کو سمجھنا' اس کے احکام پر عمل کرنا اور مسلمانوں کا اتحاد و اتفاقبھی ممکن نہیں ہے۔

لہذا گزشتہ بحث کے تناظر میں لازم بن جاتا ہے کہ ہم اس بحث و تحقیق کے کام کو جاری رکھیں تا کہ صحیح کو غلط سے جدا کرکے پہچان سکیں ، اس مشکل ، سنجیدہ اور زبردست کام کیلئے دانشوروں کی ایک جماعت کو قدم اٹھانا چاہئے ۔ پھر یہ امت اسلامیہ کا فرض بنتا ہے کہ ان کی بحث و تحقیق کے نتیجہ پر راضی ہو کر اسے خد اکی راہ میں اور اس کی خوشنودی کیلئے قبول کریں ۔

لیکن یہ کہنا کہ '' چپ رہو'' __اس خدا کی قسم جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق پر مبعوث فرمایا ہے __ علم و دانش کے خلاف ناپاک ترین جملہ ہے اور دین کیلئے سب سے بڑا نقصان ہے ۔ یہ بات جس کے منہ سے بھی نکلے شیطان کا کلام اور اس کا وسوسہ ہے ۔ میں اس قسم کے بیہودہ گو افراد کے بارے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا :

(رَبّ اَهْدِ قَوْمِی اِنَّهُمْ لَا یَعلَمُونَ)

وہ جو چاہیں کہیں ، لیکن میں خدا کو شاہد و گواہ قرار دیکر کہتا ہوں کہ میں نے صرف اسلام اور اس کی پہچان کیلئے ان مباحث و تحقیقات کے سلسلہ کی اشاعت کا قدم اٹھایا ہے اور خاص کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اصحاب کو پہچنوانے کیلئے جنھیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور ادراک کا شرف حاصلہوا ہے اور انہی حقیقی اصحاب کو جعلی اصحاب سے جدا کرنے کیلئے میں نے '' ١٥٠ جعلی اصحاب'' نامی اپنی کتاب شائع کی ہے۔

اب ہم کتاب کے اس حصہ میں سیف کے پچیس دیگر جعلی '' اصحاب ، حدیث کے راوی، جنگی سپہ سالار،شعراء ، اور رجز خوانوں '' کے بارے میں بحث و تحقیق شروع کرتے ہیں اور خدائے تعالیٰ سے اس کام میں کامیابی کی دعا کرتے ہیں ۔

۵۸

پہلے حصہ کے مصادر و مآخذ

حسان بن ثابت انصاری کی حدیث :

١۔ کتاب '' سنن'' دارمی ( ١٤٥١) باب '' السنة قاضیہ علی کتاب اﷲ'' کا مقدمہ۔

مقدام کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ( ٢ ٢٥٥)

٢۔ '' سنن'' ترمذی باب '' ما نھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی '' (١٣٢١٠)

٣۔ '' سنن'' ابن ماجہ باب '' تعظیم حدیث رسول اﷲ'' (٦١)

٤۔ '' سنن'' دارمی ، باب '' السنة قاضیہ علی کتاب اﷲ'' کا مقدمہ (٤٠١)

٥۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٤ ١٣٠۔١٣١و ١٣٢)

عبید اللہ بن ابی رافع کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ، کتاب '' السنة '' ، '' لزوم السنة'' ( ٢ ٢٥٦)

٢۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٣٣١٠)

٣۔ '' سنن'' ابن ماجہ ( ٦١)

٤۔ ''مسند'' احمد بن حنبل ( ٨٦)

۵۹

عرباض بن ساریہ کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ( ٦٤٢) باب '' تعشیر اھل الذمہ'' کتاب '' خراج '' سے ۔

ابو ہریرہ کی حدیث :

١۔ ''مسند'' احمد بن حنبل ۔ ( ٢ ٣٦٧)

اس امت کے اپنے اسلاف کی تقلید کرنے کا موضوع

حضرت امام صادق کی اپنے جد بزگورار سے حدیث :

١۔ '' اکمال الدین '' شیخ صدوق ، ص ٥٧٦' طبع حیدری تہران ١٣٩٠ ھ

٢۔ '' بحار الانوار 'مجلسی ، شیخ صدوق سے نقل کرکے ، طبع کمپانی (٢٨)

٣۔ '' مجمع البیان '' مرحوم طبرسی ، ' جلاء الاذہان '' گازر ، تفسیر آیۂ شریفہ :

(لَتَرْکَبُنَّ طَبْقاً عَنْ طَبْقٍ )

شافعیوں کے پیشوا اما م شافعی کی حدیث:

١۔'' فتح الباری '' ابن حجر ( ٦٤١٧)

ابو سعید خدری کی حدیث :

١۔ ''مسند'' طیالسی ، حدیث نمبر ٢١٧٨۔

٢۔ '' مسند '' احمد ، ( ٩٤٣) و ٨٤٣)

٣۔ '' صحیح مسلم '' نووی کی شرح ،کتاب العلم ( ١٦ ٢١٩)

٤۔ '' صحیح '' بخاری، کتاب '' الانبیاء '' باب '' ما ذکر عن بنی اسرائیل '' (٢ ١٧١)

۶۰