ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130578 / ڈاؤنلوڈ: 4441
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حریف کہتا ہے:

آج کے بعد تمہارا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہے کیونکہ تم نے خدا اور انسان سے جنگ کی ہے اور انھیں مغلوب کیا ہے۔

یعقوب نے اس جگہ کا نام '' فینیسیئل'' رکھا اور کہتے تھے: میں نے یہاں خدا کو آمنے سامنے دیکھا ہے اور میری روح نے نجات پائی ہے!

ہم توریت کا مطالعہ جاری رکھتے ہوئے اس کے سفر خروج کے بتیسویں باب میں یوں پڑھتے ہیں :

جب قوم نے دیکھا کہ موسیٰ نے اس پہاڑ سے نیچے اترنے میں تخیر کی تو ہارون کے ہاں جمع ہوئے اور ان سے کہاکہ اٹھو اور ہمارے لئے ایک ایسا خدا بناؤ جو ہمارے سامنے راہ چلے ۔ کیونکہ وہ موسیٰ ، جو ہمیں سرزمین مصر سے باہر لائے نہیں معلوم ان پر کیا گزری ہے ۔ ہارون نے ان سے کہا: سونے کے گوشوارے جو تمہاری عورتوں ، بیٹوں او ر بیٹیوں کے کانوں میں ہیں ، انہیں نکال کر میرے پاس لاؤ۔ لہذا امت کار ہرفرد کانوں سے گوشوارے اتار کر ہارون کے پاس لے آیا ۔ ہارون نے ان گوشواروں سے لے کر ایک گوسالہ کا مجسمہ بنادیا۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا: اے بنی اسرائیل یہ تمہارے خدا ہیں جنہوں نے تمہیں سرزمین مصر سے باہرنکالا۔ ہارون نے جب یہ دیکھا تو ان کے سامنے ایک ذبح خانہ تعمیر کیا اور بلند آواز میں کہا : کل خدا کی عید ہے ۔

لیکن قرآن مجید گوسالہ بنانے' قوم کو گمراہ کرنے کی نسبت سامری کی طرف دے کر کہتا ہے کہ ہارون نے انھیں ایسے کام کے انجام دینے سے منع کیا تھا لیکن انہوں نے ان کی بات نہ مانی ۔ اس سلسلے میں ہم کلام اللہ میں یوں پڑھتے ہیں :

(فَکَذٰلِکَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجلاً جَسَداً لَهُ خُوَار فَقَالُوا هٰذَا اِلٰهُکُمْ وَ اِلٰهُ مُوسٰی وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَ اِنَّ رَ بَّکُمْ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُونِی وَ اَطِیعُوا اَمْرِیْ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیهِ عَاکِفِینَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوسیٰ ) ١

پھر سامری نے ان کیلئے ایک گائے کے بچے کا مجسمہ بنایا جس میں آواز بھی تھی تو لوگوں نے کہا : یہی تمہارا اور موسیٰ کا خدا ہے

ہارون نے توان لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اے قوم اس کے ذریعہ تمہارا امتحان لیا گیا

ہے اور بیشک تمہارا رب رحمان ہی ہے لہذ امیرا اتباع اور میرے امرکی اطاعت کرو ۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے گرد جمع رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے درمیان واپس آجائیں ۔

____________________

١۔ طہ ٨٧ ۔٩١

۴۱

توریت میں تحریف کے چند ثبوت:

گزشتہ مطالب میں ہم نے توریت میں دو قسم کی تحریفوں کے نمونے بیان کئے ۔ ایک میں خدائے تعالیٰ سے ایک ایسی چیز کی نسبت دی گئی ہے جس سے وہ منزّہ و پاک ہے ۔ اور دوسری تحریف میں خدا کے پیغمبروں ایسی نسبتیں دی گئی ہیں جن سے وہ منزہ و پاک ہیں ۔توریت اور انجیل میں تحریف کے سلسلے میں بہت زیادہ شواہد و ثبوت موجود ہیں ارباب نظر و تحقیق نے انہیں جمع کرکے ان پر بحث ، تحقیق اور تنقید کی ہے۔ من جملہ محترم دانشور حجة الاسلام بلاغی ہیں جنہوں نے اپنی بحث و تحقیق کے نتیجہ کو اپنی دو کتابوں '' الرحلة المدرسیة'' اور ''الھدیٰ الی دین المصطفی'' میں منعکس کیا ہے۔انہوں نے اور دیگر محققین نے توریت و انجیل میں تحریف کے موارد کو اپنی دقیق، مفصل اور تاریخی تحقیق اور جانچ پڑتال کے ذریعہ ثابت کیا ہے ۔ امریکہ کے ڈاکٹر '' ہانس'' نے اپنی کتاب مقدس کی قاموس میں لفظ '' انجیل ' میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس سلسلے میں قابل اعتراض موارد کو برطرف کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔اس بحث کے خاتمہ پر ہم ذیل میں سفر تثنیہ کے تینتیسویں باب کے تحریف کے تین نمونے پیش کرتے ہیں :

١۔ ذیل میں دیا گیا نمونہ اس نسخہ کی تصویر ہے جسے '' جناب پادری رابنسن'' نے عبرانی زبان سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اور یہ نسخہ لندن کے رچرڈ واٹسن پریس میں ١٨٣٩ ء میں چھپ چکا ہے ۔

٢۔ذیل میں اسی باب کی ایک اور تصویر ہے جو ١٨٣١ ء میں لندن کے رچررڈ واٹسن پریس میں مشرقی روم کے یہودیوں کی عبادت گاہوں کیلئے ١٦٧١ ء میں طبع شدہ ایک نسخہ سے نقل کرکے اس کی اشاعت کی گئی ہے:

٣۔ ذیل میں اسی باب کے ایک اور نسخہ کی تصویر ہے جو ١٩٠٧ ء میں بیروت کے ایک امریکی پریس میں طبع ہواہے : ١

اب ہم دیکھیں گے کہ اس کتاب توریت کے صرف اس ایک باب میں تین بار چھپائی کے دوران کیا چیزیں تحریف ہوئی ہیں ۔

اس باب کے نمبر ١ سے ٤ تک یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی وفات سے پہلے تین جگہوں کا نام لیا ہے کہ جہاں خدائے تعالیٰ نے اپنا امر ظاہر کرکے اپنی شریعت نازل کی ہے ۔ یہ تیں جگہیں حسب ذیل ہیں :

____________________

١۔ توریت کے اس باب کے تیسرے حصہ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی بات کی گئی ہے ، بعید نہیں کہ یہ مطلب اس آیۂ شریفہ کا مصداق ہوں :(مُحَمَّد رَسُولُ اﷲِ وَ الَّذِینَ مَعَهُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَارِ رُحَمَائُ بَیْنَهُم تَرَاهُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضلاً مِنَ اﷲِ وَ رِضْوَاناً سِیمَاهُمْ فِی وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثِرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُهُمْ فِی التَّورَاتِ ) ( فتح ٢٩)

محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کیلئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں ۔ تم انھیں دیکھو گے کہ بارہ گاہ احدیت میں سر خم کے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں ۔ کثرت سجدہ کی بناء پر ان کے چہروں پر سجدے کے نشانات پائے جاتے ہیں یہی ان کی مثال توریت میں ہے ۔

۴۲

١۔ سیناء : یہ وہ جگہ ہے جہاں پر خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر توریت کی شریعت نازل فرمائی جسے چوتھے حصے میں اچھی طرح بیان کیا ہے اور تاکید فرمائی ہے وہ شریعت یعقوب کی میراث ہے جو بنی اسرائیل کے نام سے معروف ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ شریعت قوم بنی اسرائیل سے مخصوص ہے۔

٢۔ سعیر یا ساعیر : لفظ '' سعیر'' کے بارے میں کتاب قاموس مقدس میں اور لفظ ''ساعیر'' کے بارے میں حموی کے معجم البلدان میں کی گئی تشریح کے پیش نظر یہ ان سرزمینون کا نام ہے جس کے پہاڑوں کے بیچ میں '' قدس'' واقع ہے۔

اس توصیف کے پیش نظر یہ وہی جگہ ہے جہاں '' حضرت عیسی بن مریم '' پر انجیل کی شریعت نازل ہوئی ہے اور حضرت موسیٰ کے بیانات میں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

٣۔ کوہ فاران : جیسا کہ توریت کے سفر تکوینی کے اکیسویں باب میں آیا ہے کہ فاران ایک ایسی جگہ کا نام ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش پر اپنی دوسری بیوی ہاجر اور اکلوتے بیٹے اسماعیل کو چھوڑا تھا۔ اس موضوع کی نمبر ٢١ میں یوں وضاحت ہوئی ہے:

اسماعیل نے صحرائے '' فاران'' میں رہائش اختیار کی اور ان کی ماں نے ان کیلئے سرزمین مصر سے ایک شریک حیات کا انتخاب کیا۔

تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ جناب اسماعیل اپنی ماں کے ساتھ مرتے دم تک وہیں رہے اور وہیں دفن ہوئے آپ کی قبر حجر اسماعیل کے نام سے معروف ہے۔

اس لحاظ سے کوہ فاران مکہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہونا چائیے ۔ جیسا کہ یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ، ابن منظور نے ''لسان العرب '' میں ، فیروز آبادی نے '' قاموس'' میں اور زبیدی نے '' تاج العروس'' میں لفظ '' فاران '' میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

کوہ فاران پر نازل ہونے والے قوانین و شریعت کی تشریح اور اس جگہ پر حکم خدا کے ظہور کی کیفیت کے بارے میں ''پادری رابنسن ''کے ترجمہ کے نمبر ١ میں یوں بیان ہواہے ۔

... اور کوہ فاران سے نور افشاں ہوا اور دس ہزار مقربین کے ساتھ وارد ہوا، اس کے دائیں ہاتھ سے ایک آتشین شریعت ان لوگوں کے لئے پہنچی، بلکہ وہ تمام قبیلوں سے محبت کرتا تھا' تمام مقدسات تمہارے اختیار میں ہیں ، مقربان بھی تمہاری خدمت میں ہوں گے ، تمہارے حکم کی تعمیل کریں گے ۔

۴۳

یہی مطلب روم میں چھپے ہوئے نسخہ میں اس طرح ہے: ...فاران کی پہاڑی سے ہزاروں پاکیزہ لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوا' اپنے دائیں ہاتھ میں شریعت لئے ہوئے تمام قوموں سے محبت کرتا ہے اور بھی پاکیزہ لوگ اس کے اختیار میں ہیں جو بھی اس سے نزدیک ہوتے ہیں اس کے حکم کو قبول کرتے ہیں ۔

کوہِ فاران سے ظہور ، مکہ میں موجود کوہِ فاران کے غار حرا میں خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزولِ قرآن مجید پر دلالت کرتا ہے اور یہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو دس ہزار افراد لے کر مکہ -- سرزمین فاران-- میں داخل ہوتے ہیں اور اسے فتح کرتے ہیں ۔ یہ وہی ہیں جو پرچمِ شریعت یا ایک آتشین سنت --جہاد و پیکار کی شریعت-- کے حامل ہیں ۔ اور بالآخر یہ وہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو قبائل اور لوگوں کو دوست رکھنے و الے ہیں ، قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(وَ مَا اَرْسَلْنَا کَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ ) ١

اور ہم نے آپ کو عالمین کیلئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

یا یوں فرماتا ہے :

( وَ مَا اَرْسَلْنَاکَ الَّا کَافَةً لِلنَّاسِ بَشِیراً و َ نَذِیراً ) ٢

اور اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔

یہ اشراق اور ظہور صرف حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دلالت کرتا ہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کسی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صدق نہیں آتا ہے ۔ کیونکہ:

موسیٰ صرف اپنے بھائی ہارون اور عیسیٰ چند حواریوں کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس لئے یہ جملہ '' اور دس ہزار مقربان کے ساتھ واردہوا'' ان میں سے کسی ایک پر صدق نہیں کرتا ہے۔

اسی طرح یہ جملہ : '' اور دائیں ہاتھ سے انہیں آتشین شریعت پہنچی '' ہر گز حضرت عیسیٰ پر صادق نہیں آتاہے۔

اسی طرح یہ جملہ کہ '' قبائل اور لوگوں کو دوست رکھنے والے تھے '' حضرت موسیٰ کیلئے مناسب نہیں لگتا کیونکہ ان کی شریعت قوم بنی اسرائیل کیلئے مخصوص تھی ۔

لہذا ان ہی اسباب کی بناء پر تورات کے مختلف نسخے تحریف کی زد میں آگئے ہیں ۔ ہم نے

____________________

١۔انبیاء ١٠٧

٢۔سبا ٢٨

۴۴

درج ذیل خاکہ میں تحریف کے ہر ایک مورد کو الگ الگ دکھایا ہے ١

طبع

پہلا جملہ

دوسرا جملہ

تیسرا جملہ

رابینسن

اور دس ہزار مقربان کے ہمراہ تشریف لائے۔

اور اس کے دائیں ہاتھ پر اسے آتشین شریعت پہنچی۔

بلکہ قبائل کو دوست رکھتا تھا۔

رومی

او ر ان کے ساتھ ہزاروں پاک لوگ ہیں ۔

اور اس کے د ائیں ہاتھ پر آگ کی شریعت

لوگوں کو دوست رکھنے وال

امریکی

قدس کی بلندی سے آئے۔

اور دائیں ہاتھ سے ان کیلئے ایک شریعت کی آگ

لہذا لوگوں کو دوست رکھتاہے۔

____________________

١۔قابل توجہ بات ہے کہ پہلا جملہ '' اور دس ہزار مقربان کے ہمراہ تشریف لائے '' دوسرے جملہ '' اور ان کے ساتھ ہزاروں پاک لوگ ہیں '' میں تحریف ہوئی ہے ۔ آخر میں یہ جملہ حذف ہو کر اس جملہ میں تحریف ہوا ہے کہ '' قدس کی بلندی سے آئے '' تا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کے ظہور پر دلالت کرے!!دوسرے جملہ ''آتشین شریعت''' میں تحریف کرکے '' آگ کی شریعت'' اور پھر اسے '' شریعت کی آگ'' میں تحریف کیا گیا ہے تا کہ اسلام کے جہاد و پیکار والی شریعت پر دلالت نہ کرے اور اس طرح حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کا مصداق نہ بن جائے۔تیسرے جملہ میں '' بلکہ قبائل کو دوست رکھتا ہے '' بصورت جمع ہے اسے جملۂ '' لوگوں میں '' اور پھر '' لوگوں کو دوست رکھتا ہے '' میں تحریف کی گئی ہے تا کہ پیغمبر اسلام پر دلالت نہ کرے بلکہ دوسروں پر صادق آئے۔

۴۵

قرآن مجید ایک لافانی معجزہ :

ہم نے توریت کے ایک حصہ میں ١٨٣١ ء میں واقع ہوئی تحریف کے طرز و طریقہ کو نمونہ کے طور پر بیان کیا۔

لیکن قرآن مجید کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر قسم کے دخل و تصرف اور تحریف سے خدا کی پناہ میں ہوگا ۔ اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(وَ اِنَّه لَکِتَاب عَزِیز لَا یَاتِیهِ البَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ ) ١

اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے ، جس کے قریب ، سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتا ب ہے ۔

اور خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ خود اس کا محافظ اور بچانے والا ہوگا ، جیسے کہ فرماتا ہے :

(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ٢

ہم نے ہی اس قرآن کونازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

حتی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اپنی بات کو خدا کے کلام کے برابر قرار نہیں دے سکتے ، جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:

____________________

١۔ فصلت ٤١ ۔ ٤٢۔

٢۔حجر ٩۔

۴۶

( تَنْزِیل مِنْ ربِّ العَالَمِینَ وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِینَ ) ١

یہ ( قرآن ) رب العالمین کا نازل کردہ ہے' اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑلیتے اور پھر اس کی گردن اڑا دیتے پھر تم میں سے کوئی مجھے روکنے والا نہ ہوتا ۔

یا یہ کہ اگر خدائے تعالیٰ قرآن مجید کو اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھین لیتا ، تو رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ نہیں کرسکتے :

(وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِی اَوَْحَیْنَا اِلَیکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لک بِهِ عَلَیْنَا وَکِیلاً ) ٢

اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کو وحی کے ذر یعہ دیا گیا ہے اسے اٹھالیں اور اس کے بعد ہمارے مقابلہ میں کوئی سازگار اور ذمہ دار نہ ملے۔

اس کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اگر جن و انسان باہم متفق ہو کر قرآن کے مانند کسی کتاب کو فراہم کرنے کی کوشش کریں گے تو بھی وہہر گز اس میں کامیاب نہیں ہوں گے :

(قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَْتُوا بِمِثْلِ هٰذَا القُرآنِ لَا یَْتُونَ بِمِثْلِه وَ لَو کانَ بَعْضُهُم لِبَعْضِ ظَهِیراً )

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اورجنّات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے ، چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔

____________________

١۔ الحاقہ ٤٣ ۔ ٤٧

٢۔ اسراء ٨٦

٣۔ الاسراء ٨٨

۴۷

قرآن مجید کے مثل کسی کتاب کو لانے کے بارے میں انسان و جنات کی مجموعی قدرت اور توانائی سے نفی کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثلِهِ وَ ادْعُوْا شُهَدائَکُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کُنْتُم صَادِقِینَ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُو النَّارَ الَّتِی وَ قُودُهَا النَّاسُ وَ الحِجَارَةُ اُعِدَّت لِلْکَافِرِینَ ) ١

اگر تمہیں اس میں کوئی شک ہے، جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور اﷲ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں سب کو بلا لو۔ اگر تم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ہو۔ اور اگر تم ایسا نہ کرسکے اور یقینا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافروں کیلئے مہیا کیا گیا ہے۔

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے

(اَمْ یَقُولُون افْتَرَاهُ قُلْ فَْتُوا بِعَشْرِ سُورٍ مِثْلِه مُفتَرَیَاتٍ وَ ادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کنتُمْ صَادِقِینَ فَاِلَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ فَاعْلَمُوا اَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اﷲ ...) ٢

____________________

١۔بقرہ ٢٣۔ ٢٤

٢۔ہود ١٣۔١٤

۴۸

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور اﷲ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کیلئے بلا لو اگر تم لوگ اپنی بات میں سچے ہو۔ پھر اگر یہ آپ کی بات قبول نہ کریں توسمجھ لو کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب خدا کے علم سے ہے...

اور مزید فرماتا ہے:

(وَمَا کَانَ هٰذَا الْقُرآنْ اَنْ یُفْتَریٰ مِنْ دُوْنِِ اﷲِ وَ لٰکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفصِیلَ الْکِتَابِ لاَ رَیْبَ فِیهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، اَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُو مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ )

اور یہ قرآن کسی غیر خدا کی طرف سے افتراء نہیں بے بلکہ اپنے ما سبق کی کتابوں کی تصدیق اور تفصیل ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تم اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور خدا کے علاوہ جسے چاہو اپنی مدد کیلئے بلا لو، اگر تم لوگ سچے ہو۔

____________________

١۔یونس ٣٧- ٣٨

۴۹

قرآن مجید میں تحریف کی ایک ناکام کوشش

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ قرآن مجید کی شان میں خدا کا کلام تھا جو دقیق علمی بحث و تمحیص کے ذریعہ مذکورہ تمام مطلب کی تائید و تصدیق کرتا ہے ، اس کے تکرار کی گنجائش نہیں ہے ١

لیکن حیرت کی بات ہے کہ بعض روایات اس کے بر خلاف کہتی ہیں ذیل میں ان کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں :

١۔ بخاری اور مسلم کی '' صحیح'' ، ابو داؤدکی ترمذی اور ابن ماجہ کی '' سنن'' اور مالک کی '' مؤطائ'' میں یہ روایت نقل ہوئی ہے جسے ہم ذیل میں '' صحیح بخاری'' سے بعینہ نقل کرتے ہیں :

خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے روایت ہے :کہ

خدائے تعالیٰ نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمایا۔ جس کی آیات میں آیۂ '' رجم'' بھی موجود تھی کہ ہم نے اس آیت کو پڑھا اور سمجھا و درک کیا ہے۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ہم نے اسی آیت سے استدلال کرکے ''رجم'' یعنی '' سنگسار'' انجام دیا ہے ۔ اب مجھے اس بارے میں ڈر ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی یہ کہے کہ : خد کی قسم میں نے آیۂ '' رجم'' کو کتابِ خدا میں نہیں دیکھا ہے ! اور لوگ اس واجب الٰہی کو ترک کرکے گمراہ ہوجائیں جبکہ قرآن مجید کی رو سے زنائے محصنہ میں رجم کی سزا واجب ہے ٢

____________________

١۔ مقدمۂ تفسیر الاء الرحمن اور مقدمۂ تفسیر البیان''۔

٢۔عن الخلیفة عمر بن الخطاب قال : اِنَّ الله بعث محمداً ( ص) و اَنزل علیه الکتاب فکان مما انزل اﷲ آیة الرجم فقرناها و وعینا ها ، و رجم رسول اﷲ ( ص) و رجمنا بعده فاخشیٰ ن طال بالناس زمان ان یقول قائل : و اﷲ ما نجد آیة الرجم فی کتاب اﷲ فیضلوا بترک فریضة انزلها اﷲ و الرجم فی کتاب اﷲ حق علی من زنی اذا حصن ...

اس روایت کے آخر میں عمر کی خیالی آیۂ '' رجم'' کے سلسلے میں ابن ماجہ نے اس طرح لکھا ہے: ہم آیۂ رجم کو یوں پڑھتے تھے۔

الشیخ و الشیخة اذا زنیا فارجموهما البتة

جب ایک مرد اور عورت زنا کے مرتکب ہوجائیں تو انہیں سنگسار کرو۔

۵۰

یہی مطلب مالک کی ''موطا'' میں یوں آیا ہے: ہم اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے:

الشیخُ وَ الشیخَةُ فَارْجِمُو هُمَا اَلْبَتّة ١

پھر اسی حدیث میں '' صحیح'' بخاری اور '' مسند '' احمد میں خلیفہ دوم سے منقول ہے کہ : ہم اس آیت کو کتاب خدا میں پڑھتے تھے:

الَّا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ فَاِنَّه کفر بِکُمْ اَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ

اپنے باپ سے منہ نہ موڑنا اگر ایسا کرو گے تو کفر کے مرتکب ہوگے۔

٢۔ مسلم کی'' صحیح''، ابو داؤد ، نسائی اور دارمی کی '' سنن'' اور مالک کی ''موطا'' میں ام المؤمنین عائشہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے ' ہم یہاں پر '' صحیح مسلم'' میں نقل ہوئی اس حدیث کی عین عبارت نقل کرتے ہیں :

ام المؤمنین عائشہ سے منقول ہے کہ:

قرآن میں نازل ہونے والی آیتوں کے ضمن میں '' با علم دس مرتبہ دودھ پلانے کی آیت ' بھی

____________________

١۔ ابی بن کعب سے نقل کرکے تقریباً اسی مضمون کی حدیث '' مسند '' احمد ( ٥ ١٣٢) اور زید بن ثابت انصاری سے '' مسند'' احمد ( ٥ ١٨٣) میں آئی ہے۔

۵۱

نازل ہوئی تھی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اس آیت کو قرآن مجید میں پڑھا جاتا تھا ۔

'' سنن'' ابی ماجہ میں حدیث عائشہ یوں نقل ہوئی ہے:

عائشہ نے کہا کہ آیۂ '' رجم '' اور '' بالغون کو دس مرتبہ دودھ پلانے '' کی آیت __ محرم بنانے کیلئے __ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی اور میں نے اسے اپنے سونے کے تخت کے نیچے چھپا رکھا تھا ۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی ، ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجہیز و تکفین میں لگ گئے اور دیگر امور سے غفلت کی ، ایک مرغی کمرے میں داخل ہوئی اور اس کاغذ کو کھا گئی !! ١

٣۔ '' صحیح'' مسلم میں آیا ہے کہ ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ کے قاریوں کیلئے جن کی تعداد تین سو تھی ایک پیغام بھیجا کہ ہم قرآن مجید میں ایک سورہ پڑھتے تھے جسے بلندی اور پائیداری کے لحاظ سے سورۂ برائت کے شبیہ جانتے تھے اور میں نے اسے فراموش کر دیا۔ اس میں سے صرف یہ حصہ یاد ہے کہ ارشاد ہوتاہے :

اگر فرزند آدم کے پاس دو بیابانوں کے برابر مال و دولت ہوجائے تو وہ تیسرے بیاباں کی بھی آرزو کرے گا ۔ فرزند آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں بھر سکتا ٢

ابو موسی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

____________________

١ نزلت آیة الرجم و رضاعة الکبیر عشراًلقد کان فی صحیفة تحت سریری ، فلما مات رسول اﷲ تشاغلنا بموته فدخل داجن فاکلها !!

٢لو کان لابن آدم وادیان من مالِ لا بتغیٰ وادیا ثالثا و لا یملاء جو ف ابن ادٔم الا التراب !

۵۲

قرآن مجید میں ایک ایسا سورہ بھی تھا جو تسبیحات کی شبیہ تھا میں نے اسے بھی فراموش کر ڈالا۔ صرف اس کا یہ حصہ یاد ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:

اے ایمان لانے والو ! تم جس چیز کو انجام نہیں دیتے اسے زبان پر کیوں لاتے ہو؟ تاکہ تمہاری گردن پر گواہی لکھ جائے اور قیامت کے دن تم سے پوچھ تاچھ کی جائے ؟!

ایسی بناوٹی اور جھوٹی احادیث ١ اگر کسی مطلب پر دلالت کر سکتی ہیں تو وہ مطلب یہ ہوگا کہ حدیث نبوی کے مطابق اس امت میں بھی ایسے افراد ہیں جو گزشتہ امتوں کے مانند آسمانی کتاب میں تحریف کرنے پر اتر آئیں گے ۔ اس سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

تم لوگ اپنے اسلاف کی روش پر تیر کے پروں اور جوتوں کے جوڑے کے مانند چلو گے۔ اس حد تک کہ اگر وہ کسی چھپکلی کے بِل میں گھس گئے ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں گھس جاؤ گے۔

لیکن قرآن مجید میں تحریف کے بارے میں ان خود غرضوں کی تمام کوششیں ناکامی اور رسوائی سے دوچار ہوئیں ۔ جیساکہ خداوند فرماتا ہے :'' قرآن کے قریب ، سامنے یا پیچھے کی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے '' اور خدائے تعالیٰ اپنی کتاب کو ایسے بیہودہ مطالب کی آلودگیوں سے بچالے گا جن سے عربوں کا ذوق سلیم بھی نفرت کا اظہار کرتاہے ۔ جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے : '' ہم

____________________

١۔ معتبر اور گراں قدر کتابوں کے ایک حصہ میں ان ہی روایات کا وجود ہمیں اپنے معین کردہ ارادہ میں مصمم تر کرتا ہے کہ حقائق تک پہچنے اور بیہودہ مطالب اور جھوٹ کو محکم و متین مضامین سے جدا کرنے کیلئے اپنی بحث و تحقیق کو جاری رکھیں ۔)

۵۳

نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ''۔

ارادۂ الٰہی کے تحت ، قرآن مجید لاکھوں مسلمانوں کے ذریعہ دست بدست پھرانے اور عصر رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آج تک نسل بہ نسل منتقل ہونے کے باوجود ہر قسم کی تحریف اور آلودگیوں سے پاک اور محفوظ رہ کر اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے تبلیغ فرمایا تھا اور انشاء اللہ اسی صورت میں آئندہ بھی محفوظ رہے گا۔

اسلامی مصادر کی تحقیق ضروری ہے :

اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے بیہودہ اور توہمات پر مشتمل مطالب اگر چہ قرآن مجید میں نفوذ نہیں کرسکے ہیں لیکن بہر صورت روایات و احادیث اور گراں قدر کتابوں میں سرایت کرچکے ہیں جنہوں نے ذہنوں کو مشغول کر رکھا ہے۔

اگر چہ قرآن مجید تحریف سے محفوظ رہا ہے لیکن سنّت کسی صورت میں تحریف اور دخل و تصرف سے محفوظ نہیں رہی ہے ۔ اس سلسلے میں دشمنان اسلام ، من جملہ یہود، نصاریٰ ، زندیقی اور دیگر منافقین' اسلام کالبادہ اوڑھ کے مسلمانوں کے اندرگھس کر مختلف صورتوں میں اور وسیع پیمانے پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی احادیث، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت ، اصحاب کی سیرت ، تاریخ اسلام ، احادیث اور تفسیر قرآن میں ہر قسم کی تحریف اور دخل و تصرف کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں !! یہاں تک کہ شاید ہمیں گزشتہ امتوں میں کوئی ایسی امت نہیں مل سکے گی جس نے اپنے پیغمبر کیلئے ایک سو پچاس اصحاب جعل کئے ہوں اور انھیں حقیقی و مسلم صحابیوں کے عنوان سے اپنے ہم عقیدوں کے سامنے پیش کیا ہو ! جس چیز کو اس کتاب میں مد نظر رکھا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اسلامی مصادر کی حتی الامکان تحقیق و جستجو کرکے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے جعل کئے گئے اس قسم کے اصحاب کو پہچنوایا جائے ۔ انشاء اللہ اس کا م کو انجام دیا جائے گا۔

۵۴

لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ جو کچھ انھیں اپنے اسلاف سے ملا ہے وہ سب کا سب صحیح ہے اور اسے ہر قسم کی آلودگی اور دخل و تصرف سے پاک و منزہ جانتے ہیں ۔ چنانچہ بحث و تحقیق کے ضمن میں اگرتاریخ طبری میں کسی صحابی کی خبر یا سیرۂ ابن ہشام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کسی خبر یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کسی بھی حدیث کو اپنی مورد اعتما د و احترام کتابوں میں یا اس قسم کے دوسرے مصادر میں پاتے ہیں تو چوں و چرا کے بغیر اطمینان کامل کے ساتھ اس مطلب کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتے ہیں ۔ اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بحث و تحقیق کرنے کی ہر گز اپنے آپ کو تکلیف نہیں دیتے ۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے علماء اور دانشور بھی ، مذکورہ مصادر کے مؤلفین نے جو کچھ اپنے فہم ، ذوق اور سلیقہ کے مطابق لکھا ہے ، اسے آنکھیں بند کرکے قبول کرتے ہیں ۔

ہم کتاب '' عبد اللہ بن سبا'' کے مختلف حصوں کی تحقیق و جستجو کے دوران پیروان مکتبِ خلفاء کے مطمئن ترین منبع یعنی '' تاریخ طبری'' میں چند بڑی تحریفات سے دوچار ہوئے جو اصحاب سے مخصوص ہیں ۔ یہ تحریفات ، تاریخی حقائق کو الٹ پلٹ کردینے کا سبب بنی ہیں اور انھیں اپنے اصلی راستے سے منحرف کرکے رکھدیا ہے ۔

اگر ایک محقق، انکے نزدیک سیرت میں مطمئن ترین کتاب '' سیرہ ابن ہشام '' یا انکی انتہائی مورد اعتماد حدیث کی کسی بھی کتاب کی تحقیق کرے تو ا ن میں حیرت انگیز حد تک جھوٹ اور تحریف کا سامنا کرے گا۔

گزشتہ بحث کے پیش نظرہم اس قسم کی سیرت ، حدیث و تاریخ کی کتابوں کے بارے میں درج ذیل تین راہوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے پر ناگزیر ہیں :

١۔ صرف قرآن مجید پر اکتفا کریں اور اپنے اسلام کو اسی میں تلاش کریں لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ اس قسم کے اقدام کا نتیجہ ترکِ اسلام ہے جو قرآن کو ترک کرنے کے برابر ہے۔

۵۵

٢۔ انہیں کتابوں کو ، کہ جن پر اکثر مسلمانوں کو اطمینان ہے اور ان میں درج مطالب کے صحیح ہونے پر ایمان رکھتے ہیں 'تسلیم کرلیں اور جو کچھ ان میں درج ہے اسے بلا چوں و چرا قبول کرلیں اور کسی بحث و تحقیقکے بغیر ان کی روایتوں کے مضامین ، راویوں کے سلسلہ ، ان کا تاریخ و سیرت کی دوسری کتابوں میں موجود مطالب سے موازنہ وغیرہ سے چشم پوشی کرکے سب کچھ قبول کرلیں ۔

ہماری اس بحث و تحقیق کے پیش نظر نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم صحیح کے بجائے تحریف اور حق کے بجائے باطل کو قبول کر لیں اور اس طرح وہی پہلا نتیجہ حاصل ہوگا۔

٣۔ یہ کہ حدیث ، سیرت اور تاریخ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرکے ان پر بحث ، تحقیق، تنقید اور جانچ پڑتال کرکے ان سند ، متن اور مضمون کے لحاظ سے موازنہ کریں اور علمی بنیادوں پر حاصل شدہ تحقیق کے نتیجہ کو قبول کریں ۔

قرآن مجید کے علاوہ تمام اسلامی مصادر کے بارے میں ہم مجبور ہیں کہ مذکورہ تین راہوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں ۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ پہلے دو راستے اسلام اور قرآن سے منہہ موڑنے کے مترادف ہیں ، پس جب صحیح اسلام اور اس کے سچے قوانین کی پیروی کے خواہاں ہیں تو ہم ناگزیر ہیں کہ اسی تیسرے طریقے یعنی بحث و تحقیق اور تنقید جو صحیح اور علمی ہے اس کا انتخاب کرنے کو ہی قبول کریں ۔

اس انتخاب میں ضروری ہے کہ اصحاب کی سیرت پر بحث و تحقیق کو دوسرے امور پر مقدم قرار دیں ،ہم نے بھی اسی بحث کو دوسری بحثوں پر مقدم قرار دیا ہے ۔

کیونکہ صحابہ ہمارے اور حدیث کے درمیان رابطے کی کڑی ہیں ۔ ہم نے اس سلسلے میں دیکھا کہ سیرت سے مربوط بعض روایات بعض ایسے اصحاب سے روایت کی گئی ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے ابھی انھیں پیدا ہی نہیں کیا ہے !

اس طرح ہمیں چاہئے کہ اس بحث و تحقیق میں تنقید، تحقیق اور چانچ پڑتال کرتے وقت انتہائی اہم کتابوں کو اہم پر اہم کو غیر اہم کتابوں پر مقدم قرار دیں ۔ یا سادہ الفاظ میں امکان کی حد تک اپنی بحث و تحقیق میں انتہائی مشہور کتابوں کو دوسرے درجہ کی مشہور کتابوں اور دوسرے درجے کی کتابوں کو غیر مشہور کتابوں پر مقدم قراردیں ۔

۵۶

اب میں نے انتہائی انکساری کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ اس بحث و تحقیق کے سلسلہ کو اسی پروگرام کے تحت جاری رکھوں اور اگر خدائے تعالیٰ نے اس پروگرام میں میری مدد فرمائی تو اس کا شکر گزار رہوں کا ورنہ اسلام کے علماء اور محققین کی ذمہ داری ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کو آلودگیوں اور تحریفات سے پاک کرنے کیلئے قدم اٹھائیں ۔

خلاصہ

چونکہ تمام اسلام قرآن و سنت میں ہے ، لہذ اصحیح اسلام کو درک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان دونوں کی طرف رجوع کیا جائے کوئی شخص قرآن کو سنت سے جدا نہیں کرتا مگر وہ شخص کہ جو اپنی خواہش و مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے اور قرآن مجید کی اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق تویل و تفسیر کرنا چاہتا ہے۔ خدائے تعالی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف ایک ساتھ رجوع کیا جائے۔ لیکن جب ہم اسلام کو حاصل کرنے کیلئے سنّت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ سنت مختلف صورتوں میں تحریف کا شکار ہوئی ہے ۔ اس تحریف اور دخل و تصرف میں امت اسلامیہ مو بمو گزشتہ امتوں کے نقش قدم پر چلی ہے۔

خدائے تعالی نے گزشتہ امتوں کی تحریف کے بارے میں اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس امت کے گزشتہ امتوں کے تمام امور میں پیروی کرنے کی خبر دی ہے ۔یہی امر دسیوں ہزار بناوٹی اور تحریف شدہ روایتوں ، سیرت ، تاریخ اسلام ، عقائد اسلامی ، تفسیر قرآن میں اور ایسے ہی دوسرے امور میں شامل ہوکر صحیح اسلام کے نظروں سے اوجھل ہوجانے اور حقیقت تک رسائی کے بہت مشکل ہوجانے کا سبب بنا ہے ۔ اس کے علاوہ یہی تحریفات اور دخل و تصرف مسلمانوں کی یکجہتی ، اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرکے انھیں مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم کرنے کا سبب بنے ہیں ۔

اس لحاظ سے اگر ہم صحیح اسلام کو سمجھنا چاہیں تو ہمیں اس قسم کی بحث و تحقیق کی سخت ضرورت ہے اور اس ضرورت کا اسلام کے احکام پر عمل کرتے وقت شدت سے احساس کرتے ہیں ۔

۵۷

اس کے علاوہ اگر مسلمانوں کے امور اور ان کا اتحاد ہمارے پیش نظر ہے تو ہم اس قسم کی بحث و تحقیق کے سخت محتاج ہوں گے، کیونکہ آج کل مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق کا سرچشمہ اسلام کے تمام امور میں ہزاروں کی تعداد میں ضد و نقیض احادیث کے وجود کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اسی طرح اس قسم کی تحقیقات و بحث و مباحثہ کے بغیر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لائے ہوئے اصلیاسلام کو سمجھنا' اس کے احکام پر عمل کرنا اور مسلمانوں کا اتحاد و اتفاقبھی ممکن نہیں ہے۔

لہذا گزشتہ بحث کے تناظر میں لازم بن جاتا ہے کہ ہم اس بحث و تحقیق کے کام کو جاری رکھیں تا کہ صحیح کو غلط سے جدا کرکے پہچان سکیں ، اس مشکل ، سنجیدہ اور زبردست کام کیلئے دانشوروں کی ایک جماعت کو قدم اٹھانا چاہئے ۔ پھر یہ امت اسلامیہ کا فرض بنتا ہے کہ ان کی بحث و تحقیق کے نتیجہ پر راضی ہو کر اسے خد اکی راہ میں اور اس کی خوشنودی کیلئے قبول کریں ۔

لیکن یہ کہنا کہ '' چپ رہو'' __اس خدا کی قسم جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق پر مبعوث فرمایا ہے __ علم و دانش کے خلاف ناپاک ترین جملہ ہے اور دین کیلئے سب سے بڑا نقصان ہے ۔ یہ بات جس کے منہ سے بھی نکلے شیطان کا کلام اور اس کا وسوسہ ہے ۔ میں اس قسم کے بیہودہ گو افراد کے بارے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا :

(رَبّ اَهْدِ قَوْمِی اِنَّهُمْ لَا یَعلَمُونَ)

وہ جو چاہیں کہیں ، لیکن میں خدا کو شاہد و گواہ قرار دیکر کہتا ہوں کہ میں نے صرف اسلام اور اس کی پہچان کیلئے ان مباحث و تحقیقات کے سلسلہ کی اشاعت کا قدم اٹھایا ہے اور خاص کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اصحاب کو پہچنوانے کیلئے جنھیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور ادراک کا شرف حاصلہوا ہے اور انہی حقیقی اصحاب کو جعلی اصحاب سے جدا کرنے کیلئے میں نے '' ١٥٠ جعلی اصحاب'' نامی اپنی کتاب شائع کی ہے۔

اب ہم کتاب کے اس حصہ میں سیف کے پچیس دیگر جعلی '' اصحاب ، حدیث کے راوی، جنگی سپہ سالار،شعراء ، اور رجز خوانوں '' کے بارے میں بحث و تحقیق شروع کرتے ہیں اور خدائے تعالیٰ سے اس کام میں کامیابی کی دعا کرتے ہیں ۔

۵۸

پہلے حصہ کے مصادر و مآخذ

حسان بن ثابت انصاری کی حدیث :

١۔ کتاب '' سنن'' دارمی ( ١٤٥١) باب '' السنة قاضیہ علی کتاب اﷲ'' کا مقدمہ۔

مقدام کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ( ٢ ٢٥٥)

٢۔ '' سنن'' ترمذی باب '' ما نھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی '' (١٣٢١٠)

٣۔ '' سنن'' ابن ماجہ باب '' تعظیم حدیث رسول اﷲ'' (٦١)

٤۔ '' سنن'' دارمی ، باب '' السنة قاضیہ علی کتاب اﷲ'' کا مقدمہ (٤٠١)

٥۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٤ ١٣٠۔١٣١و ١٣٢)

عبید اللہ بن ابی رافع کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ، کتاب '' السنة '' ، '' لزوم السنة'' ( ٢ ٢٥٦)

٢۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٣٣١٠)

٣۔ '' سنن'' ابن ماجہ ( ٦١)

٤۔ ''مسند'' احمد بن حنبل ( ٨٦)

۵۹

عرباض بن ساریہ کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ( ٦٤٢) باب '' تعشیر اھل الذمہ'' کتاب '' خراج '' سے ۔

ابو ہریرہ کی حدیث :

١۔ ''مسند'' احمد بن حنبل ۔ ( ٢ ٣٦٧)

اس امت کے اپنے اسلاف کی تقلید کرنے کا موضوع

حضرت امام صادق کی اپنے جد بزگورار سے حدیث :

١۔ '' اکمال الدین '' شیخ صدوق ، ص ٥٧٦' طبع حیدری تہران ١٣٩٠ ھ

٢۔ '' بحار الانوار 'مجلسی ، شیخ صدوق سے نقل کرکے ، طبع کمپانی (٢٨)

٣۔ '' مجمع البیان '' مرحوم طبرسی ، ' جلاء الاذہان '' گازر ، تفسیر آیۂ شریفہ :

(لَتَرْکَبُنَّ طَبْقاً عَنْ طَبْقٍ )

شافعیوں کے پیشوا اما م شافعی کی حدیث:

١۔'' فتح الباری '' ابن حجر ( ٦٤١٧)

ابو سعید خدری کی حدیث :

١۔ ''مسند'' طیالسی ، حدیث نمبر ٢١٧٨۔

٢۔ '' مسند '' احمد ، ( ٩٤٣) و ٨٤٣)

٣۔ '' صحیح مسلم '' نووی کی شرح ،کتاب العلم ( ١٦ ٢١٩)

٤۔ '' صحیح '' بخاری، کتاب '' الانبیاء '' باب '' ما ذکر عن بنی اسرائیل '' (٢ ١٧١)

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سیف کی داستان کے نتائج

١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔

٤۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔

مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ

عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔

٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔

٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔

٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔

٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں ۔

۸۱

مصادر و مآخذ

عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں ' ق/١

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١

٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔

٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

۸۲

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی داستان

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١

۸۳

انتیسواں جعلی صحابی کبیس بن ہوذہ سدوسی

اس صحابی کا نام و نسب:

'' استیعاب'' ، '' اصابہ'' اور '' تجرید'' میں اس صحابی کا نام '' کبیس بن ھوذہ '' لکھا گیا ہے۔

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اسی نام کو درج کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شاہین'' کے ایک قدیمی نسخہ میں یہ نام '' کنیس'' ثبت ہوا ہے۔

ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ'' کے قلمی نسخہ میں یہ نام '' کبیش بن ہودہ '' درج ہوا ہے اور ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی نام کو قبول کرکے '' ابن مندہ کی پیروی کی ہے۔

اس صحابی کا نسب: '' اسماء الصحابہ'' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں لکھا گیا ہے کہ سیف بن عمر نے اس صحابی کا تعارف ' ' خاندان ِ بنی بکر و ائل عدنانی '' کے قبیلۂ بنی حارث بن سدوس '' سے کرایا ہے۔

ابن حزم نے اپنی کتاب '' جمہرہ'' میں بنی حارث کے ایک گروہ کے حالات کی تشریح کی ہے ، لیکن ان میں '' کبیس'' یا '' کنیس''یا '' کبیش'' نام کا کوئی صحابی اور '' ھوذہ '' یا '' ھودہ'' نام کا کوئی باپ ۔

'' سمعانی'' نے بنی حارث بن سدوس کے ایک گروہ کا نام لفظ السدوسی '' میں لیا ہے لیکن ان باپ بیٹوں کا کہیں نام بھی نہیں لیا ہے۔

۸۴

کبیس بن ہوذہ کی داستان :

ابن عبدا لبر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کے بارے میں صرف اتنا لکھتا ہے کہ:

'' ایاد بن لقیط نے اس سے روایت کی ہے ''

اس کے بعد کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اس کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے ۔

ابن مندہ اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں اپنے ہی اسناد سے لکھتا ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ بن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سدوسی سے اس نے بنی حارث بن سدوس کے ایک شخص کبیش بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیش پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے کچھ فرمان مرقوم فرمائے ہیں ۔

اس داستان کے آخرمیں ابن مندہ اظہار نظر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شبرمہ کی یہ حدیث حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے''

ابن اثیر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں مذکورہ داستان کو درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یوں اضافہ کرتا ہے :

اس مطلب کو تین مصادر ( ب ۔ ع ۔ د ) ١

____________________

١۔ ''ب''کتاب ''استیعاب'' کے مصنف ابن عبدالبر ''ع'' : ابو نعیم ، کتاب '' معرفة الصحابہ '' کے مصنف ، ابو نعیم ، حافظ احمد بن عبد اﷲ بن احمد اصفہانی ( ٣٦٠ ۔ ٤٣٠ھ)

''د'' : ابن مندہ ، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ ،محمد بن اسحاق اصفہانی ، جس نے احادیث کی جستجو میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے ۔ اس کی تالیفات میں سے '' اسماء الصحابہ '' ہے جو خاص طور سے ابن اثیر کی توجہ کا مرکز تھی۔

۸۵

نے ذکر کیا ہے۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید '' میں لکھا ہے :

سیف نے '' ایاد بن لقیط '' سے نقل کیا ہے کہ '' کبیس'' اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔( ب ۔ ع۔ د)ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھا ہے :

ابن شاہین ١ اور ابن مندہ نے سیف بن عمر سے اس نے عبدا اﷲبن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سے اس نے کبیس بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر وہی مذکورہ داستان نقل کی ہے )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

یہ داستان صرف اسی طریقہ سے پہنچی ہے اور ابن مندہ نے بھی کہا ہے کہ : ابن شبرمہ کی یہ داستان تعجب خیزہے !!!

خلاصہ :

سیف نے اس حدیث میں کبیس بن ہوذہ کو بنی حارث بن سدوس کے ان صحابیوں میں سے خلق کیا ہے جن کے ہمراہ اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے ایک فرمان مرقوم فرمایا تھا۔ یہیں سے اس قسم کا نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی

____________________

١۔ ابن شاہین ، حافظ ابو حفص بن شاہین ، عمر بن احمد بن عثمان بغدادی ( ٢٩٧ ۔ ٣٨٥) ہے ۔ اس کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد چھتیس بتائی گئی ہے ، من جملہ کتاب '' معجم الشیوخ '' ہے جس میں سرکردہ روات حدیث شامل ہیں ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ' ' اصابہ '' میں اس کتاب سے نقل کیا ہے۔

۸۶

فہرست اور ''معجم الشیوخ '' کے سرکردہ راویوں میں قرار پاتا ہے اور اس کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خیالی خط ایک حقیقی اورمسلم سند کے طور پر کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں درج کیا جاتا ہے !!

ہم نے اس نمائندہ صحابی کو پہچاننے کیلئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں جیسے ، ابن سعد کی ''طبقات '' ابن ہشام کی '' سیرة'' بلاذری کی '' انساب الاشراف'' اور مقریزی کی '' امتاع الاسماع '' کے علاوہ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف وفود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں کہیں بھی '' کبیس'' کا نام نہیں دیکھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں کبیس کے نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی فرمان یا خط کا مشاہدہ نہیں کیا ! بلکہ ہم نے سیف کے اس خلق کردہ صحابی کو صرف سیف کی احادیث میں اور اس کے راویوں کے ہاں پایا۔

افسانۂ کبیس کے اسناد کی پڑتال

ہم نے کہا کہ کتاب '' استیعاب '' کے مصنف ابن عبد البر نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ابن مندہ نے کبیس کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اور ابن اثیر نے اسے تین مآخذ '' ب ۔ ع، د'' کی علامت کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید ''میں کبیس کی نمائندگی کو سیف کی روایت کے مطابق ایاد بن لقیط سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن اثیر کے مآخذ کی اختصاری علامت '' ب ، ع، د'' کی قید لگادی ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں داستان کبیس کو ابن مندہ اور ابن شاہین کے قول کے مطابق نقل کیا ہے۔

۸۷

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ ابن مندہ، ابن شبرمہ کی اس حدیث پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور ابن حجر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ داستان صرف اس سند کے علاوہ کسی اور راوی سے نہیں ملی ہے ، یعنی ابن شبرمہ تنہا شخص ہے جس نے یہ داستان بیان کی ہے۔ اس روایت کی تنہا سند '' ایاد بن لقیط '' ہے اور اس کا مرکزی کردار ''کبیس بن ہوذہ '' ہے !! یہی مسئلہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ مذکورہ دو دانشور ابن شبرمہ کی حدیث پر تعجب کا اظہار کریں جبکہ وہ اس امر سے غافل تھے کہ بیچارہ ابن شبرمہ کا کوئی قصور ہی نہیں ہے بلکہ اصلی مجرم اور قصوروار سیف بن عمر ہے جس نے جھوٹ گڑھ کر ابن شبرمہ کے سر تھوپا ہے !

کتاب '' تجرید'' میں ذہبی کی بات بھی ہمارے دعوے کو ثابت کرتی ہے جب وہ داستان کبیس بیان کرتے وقت کنایہ کے طور پر لکھتا ہے :

'' سیف کی روایت کی بناء پر ''

اس بنا پر سیف کی اس حدیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ عبد اللہ بن شبرمۂ ضبی کوفی ( ٧٢ ۔ ١٤٤ ھ )جو ان علماء کے نزدیک ثقہ اور ایک قابل اعتماد شخص تھا۔

٢۔ ایاد بن لقیط سدوسی : اسے تابعین کے چوتھے در جے میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی نظر میں ثقہ ہے۔

٣۔ بنی حرث بن سدوس سے خود کبیس بن ہوزہ ، چونکہ ہم نے اس کی داستان اور نام سیف اور اس کے راویوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا لہذا اس کو سیف کے جعلی اصحاب اور راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

داستان کبیس کا نتیجہ

١۔ ایک نمائندہ صحابی ، جس کے حالات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دئیے گئے ہیں ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث شریف کا ایسا راوی جس کے حالات '' معجم الشیوخ'' کی روایتوں میں ملتے ہیں ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط، جس کا ذکر بعض متاخرین کے ذریعہ کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیہ'' میں کیا گیا ہے

ان سب کو سیف نے تن تنہا خلق کیا ہے اور اپنے اس جعلی صحابی اور دو نامور راویوں ۔۔ کہ ہم جن کی گردن پر ابن مندہ و ابن حجر کے برخلاف سیف کے جھوٹ کا گناہ ڈالنا نہیں چاہتے ۔۔ کی زبانی روایت نقل کی ہے ۔

۸۸

افسانۂ کبیس کی اشاعت کے ذرائع:

١۔ ابن شاہیں ( وفات ٣٨٥ ھ ) نے کتاب '' معجم الشیوخ'' میں ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ میں ۔

٣۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٤۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ ھ )نے کتاب '' الاستیعاب فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٥۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ)نے کتاب '' اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٦۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ)نے کتاب '' الاصابة فی تمییز الصحابہ'' میں ابن شاہین سے نقل کرکے۔

٨۔ اور حال ہی میں محمد حمید اللہ نے کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں ابن کثیر سے نقل کرکے اس نے لکھا ہے کہ: اس خط کا متن نقل نہیں ہوا ہے۔

مصادر و مآخذ

کبیس کا نسب ، اس کے حالات اور داستان :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٢٢٧) نمبر : ٩٧٠

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ '' مدینۂ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں موجود قلمی نسخہ۔

٣۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٣١)

٤۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ٢ ٢٩ )

٥۔ '' اصابہ'' (٣ ٢٧٠) نمبر : ٧٣٧٦

٦۔ سمعانی کی '' انساب '' لفظ '' السدوسی '' نمبر : ٢٩٤

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ '' ( ص ٢٩٨۔ ٢٩٩)

۸۹

ابن شاہین کے حالات

١۔ ' ' تاریخ بغداد '' ( ١١ ٢٦٥ ) نمبر: ٦٠٢٨

٢۔ '' کشف الظنون '' ( ٢ ١٧٣٥)

٣۔ ''ھدیة العارفین '' (٢ ٧٨١)

٤۔ '' شذرات '' ( ٣ ١١٧)

٥۔ اعلام زرگلی ( ٥ ١٩٦)

٦۔ ''معجم المؤلفین '' ( ٧ ٢٧٣)

ابن مندہ کے حالات :

١۔ '' عبر ذہبی '' ( ٣ ٥٩)

٢۔ ''کشف الظنون'' (١ ٨٩)

٣۔ '' ھدیة العارفین'' ( ٢ ٥٧)

ابو نعیم کے حالات:

١۔ '' عبر ذہبی '' (٣ ١٧٠)

٢۔ ' ' کشف الظنون '' (٢ ١٧٣٩)

عبد اللہ شبرمہ کے حالات

١۔ تاریخ بخاری ٣ ق ( ١ ١١٧)

٢۔ '' جرح و تعدیل'' رازی ٢ ق ( ٢ ٨٢) اسی طرح تہذیب میں ۔

۹۰

ایاد بن لقیط کے حالات :

١۔ تاریخ بخاری ١ ق ( ٢ ٦٩)

٢۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ١ ٣٨٦)

٣۔ '' الجمع بین رجال الصحیحین'' ( ١ ٥٢)

٤۔ '' تقریب'' (١ ٨٦)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نظریہ :

١۔ مجموعہ وثائق سیاسی ص ٩٩ نمبر : ٢٣٤ طبع قاہرہ ، انجمن تالیف و ترجمہ و نشر کتاب ١٩٤١ ئ

اسناد

١۔ معجم قبائل العرب '' رضا کحالہ ج٢ طبع ہاشمیۂ دمشق ١٩٤٩ ئ

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق ''

٣۔ نویری کی '' نہایة الارب ''

٤۔ ابن اثیر کی '' لباب الانساب''

۹۱

چوتھا حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار

*٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی

*٣١۔ صخر بن لوذان

*٣٢۔ عکاشہ بن ثور

*٣٣۔ عبد اللہ بن ثور

*٣٤۔ عبید اللہ بن ثور

۹۲

تیسواں جعلی صحابی عبید بن صخر

اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔

کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:

عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ

کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:

بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔

____________________

١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں '' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)

۹۳

اس صحابی کا نسب

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:

'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''

البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں : جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں ، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١

اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:

١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔

٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔

____________________

١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔

۹۴

٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔

یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں ۔

عبید بن صخر کی داستان

عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:

١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی (یہاں تک کہ کہتا ہے) :

معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

____________________

١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۹۵

٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:

ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے

____________________

١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میں یوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے

٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)

٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں ۔

۹۶

گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں ۔

ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:

اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :

عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔

طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں ۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :

٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ

میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی

۹۷

مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوں میں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔

٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :

سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔

ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔

٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات

____________________

١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔

۹۸

میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :

میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں ، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!

ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔

٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!

۹۹

بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔

١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔

٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں ۔

'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329