ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130693 / ڈاؤنلوڈ: 4454
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اس کے علاوہ کتاب بخاری ، شرح فتح الباری '' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی فرمائش :

لتتبعن سنن من کان قبلکم '' (١٧ ٦٣ ۔ ٦٤)

٥۔ کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١)

حدیث ابو ہریرہ :

١۔ '' فتح الباری '' در شرح صحیح بخاری ( ٦٣١٧)

٢۔ '' سنن '' ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ٣٩٩٤۔

٣۔ '' مسند '' احمد بن حنبل (٢ ٣٢٧ ، ٣٦٧، ٤٥٠، ٥١١، ٥٢٧)

٤۔ کنز العمال (١١ ١٢٣)

ابو واقد لیثی کی حدیث:

١۔'' سنن'' ترمذی ( ٩ ٢٧ ۔٢٨)

٢۔ '' مسند '' طیالسی ، حدیث نمبر ١٣٤٦۔

٣۔ '' مسند '' احمد ( ٥ ٢١٨)

٤۔ '' کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١) باب ( الاقوال من کتاب الفتن)

عبدا للہ بن عمرو کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٠ ١٠٩) ابواب الایمان۔

٢۔ '' در المنثور '' سیوطی ( ٤ ٦٢) تفسیر آیۂ ' ' وَلَا تَکُونوا کَالَّذِین تَفَرَّقُوا '' آل عمران مستدرک حاکم کے مطابق ۔

۶۱

ابن عباس کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١) بزاز اور حاکم سے روایت کی ہے۔

٢۔ '' کنزل العمال '' ( ١١ ١٢٣) مستدرک حاکم سے نقل کیا ہے۔

سہل بن سعد کی حدیث :

١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٥ ٢٤٠)

٢۔ '' مجمع الزوائد'' (٧ ٢٦١) طبرانی سے نقل کرکے۔

عبد اللہ مسعود کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٢٦١٧) طبرانی سے نقل کرکے۔

مستورد کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١)

٢۔ کنز ل العمال ( ١١ ١٢٣) طبرانی کی '' اوسط '' سے نقل کرکے ۔

شداد بن اوس کی حدیث:

١۔ '' مسند '' احمد ( ٤ ١٢٥)

٢۔ '' مجمع الزوائد '' ( ٧ ٢٦١)

٣۔ قاموس الکتاب المقدس '' تالیف: مسٹر ماکس ، امریکی ، طبع امریکی مطبع، بیروت١٩٢٨ ئ

٤۔ '' توریت'' ، طبع ، امریکی مطبع، بیروت ، ١٩٠٧ ء

۶۲

آیۂ رجم کے بارے میں عمر کی روایت :

١۔ '' صحیح '' بخاری ( ٤ ١٢٠) کتاب حدود۔

٢۔ '' صحیح'' مسلم ( ٥ ١١٦)

٣۔ '' سنن '' ابی داؤد ( ٢ ٢٢٩) باب رجم ، کتاب حدود۔

٤۔ '' صحیح '' ترمذی ( ٢٠٤٦)باب '' ما جاء فی تحقیق الرجم '' کتاب حدود

٥۔'' سنن '' ابن ماجہ ، باب رجم ، کتاب حدود، نمبر: ٢٥٥٣

٦۔ '' سنن'' دارمی( ٢ ١٧٩) باب حد زنائے محصنہ ، کتاب حدود۔

٧۔ ''موطاء مالک'' ( ٣ ٤٢) کتاب حدود۔

٨۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٠) : ٢٧٦،نمبر ( ١ ٤٧) ٣٣١ ، نمبر : (٥٥١)٣٩١' نمبر

بناوٹی آیت لا تَرغبُو عَنْ آبَائِکُمْ کی روایت:

١۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٧) نمبر: ٣٣١

٢۔ ''مسند '' احمد (٥٥١) نمبر ٣٩١

'' دس مرتبہ دودھ پلانے '' کے بارے میں عائشہ کی روایت :

١۔'' صحیح'' مسلم (٤ ١٦٧) باب '' التحریم بخمس رضعات '' کتاب رضاع

٢۔ '' سنن'' ابی داؤد ١ ٢٧٩ ) باب '' ھل یحرم ما دون خمس رضعات؟'' کتاب نکاح

٣۔ '' سنن '' نسائی ( ٢ ٨٢) باب '' القدر الذی یحرم من الرضاعة '' کتاب نکاح سے ۔

٤۔ سنن ابن ماجہ ( ١ ٦٢٦ ) باب '' رضاع الکبیر '' کتاب نکاح ، نمبر ١٩٤٤۔

٥۔ سنن دارمی ( ١ ١٥٧) باب '' کم رضعة ترحم '' کتاب نکاح

٦۔ '' موطأ '' مالک ( ٢ ١١٨) باب '' جامع ما جاء فی الرضاعة '' کتاب نکاح

دو خیالی سورتوں کے بارے میں ابو موسیٰ کی روایت

١۔'' صحیح '' مسلم ( ٣ ١٠٠) باب '' لو ان لابن آدم '' کتاب زکات۔

٣۔ '' حلیہ'' ابو نعیم ، '' ابو موسی'' کے حالات کی تشریح میں ۔

۶۳

دوسرا حصہ

سیف بن عمر تمیمی کا تحفہ

*سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ۔

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

*پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند ایلچی

*ہم نام اصحاب

*گروہ انصار سے چند اصحاب

۶۴

سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ

ہم نے اس کتاب کی پہلی اور دوسری جلد کو سیف کے قبیلۂ تمیم سے جعل کئے گئے اصحاب اور ان کے بارے میں خیالی عظمت و افتخارات کیلئے مخصوص کیا ، اور اس کے افسانوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی نظر میں پوری دنیا قبیلۂ تمیم میں خلاصہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف اسی خاندان کے افراد تھے جنہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد جمع ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور اطاعت کا شرف حاصل کیا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیف کے خیال میں رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ، گماشتے اور کارندے ، نمائندے اور ایلچی بھی قبیلۂ تمیم سے تعلق رکھتے تھے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی اسی قبیلہ کی معروف شخصیتیں تھیں جنہوں نے سقیفۂ بنی ساعدہ کی میٹینگ میں شریک ہوکر ، ابو بکر کی بیعت کی اور اس سلسلے میں اپنے نظریات پیش کئے !!

ارتداد کی جنگوں میں بھی ، تمیمیوں کی ایک جماعت دین سے منحرف ہوکر مرتد ہو گئی تھی۔ اورانہوں نے اپنے عقائدکے دفاع میں سخت جنگ کرکے اپنی پائیداری کا ثبوت دیا ہے ۔

اور اس خاندان کے ان لوگوں نے بھی اپنے ایمان و عقیدہ کے دفاع میں مجاہدانہ طور پر تلوار کھینچ کر شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں ، جو اسلام پر باقی اور پائندہ رہے تھے۔

اسی قبیلۂ تمیم کے افراد تھے ، جنہوں نے جنگوں اور لشکر کشیوں میں سپہ سالاری کے عہدے سنبھال کر میدان کارزار میں شجاعت ، بہادری اور دلاوریوں کے جوہر دکھائے ہیں اور کافی رجز خوانیاں کی ہیں ۔

خلاصہ کے طور پر یہ تمیمی ہی تھے جنہوں نے رزم و بزم کے تمام میدانوں میں دوسروں پر سبقت حاصل کرکے پہلا مقام حاصل کیا ہے :

٭پہلا شخص جس نے راہ خدا میں مکہ میں شہادت پائی تمیمی تھا۔

٭پہلا شہسوار جس نے جنگ اور کشور گشائی کیلئے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اسی قبیلہ سے تھا ۔

٭پہلا شخص اور دلاور جس نے دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر کمند ڈالکر اوپر چڑھنے کے بعد اسے فتح کیا ، ایک تمیمی سردار تھا۔

٭پہلا شخص جس نے سرزمیں '' رہا '' پر قدم رکھا انہی میں سے تھا۔

٭پہلا بہادر جس نے گھوڑے پر سوار ہوکر دریائے دجلہ کو عبور کرکے اسلامی فوج کے حوصلے بلند کئے تا کہ اس کی اطاعت کریں ، تمیمی تھا ۔

۶۵

٭پہلا سورما جو فاتح کی حیثیت سے مدائن میں داخل ہوا انہی میں سے تھا ۔

٭پہلا بہادر جو کسی خوف و وحشت کے بغیر جلولا کی جنگ میں دشمن کے مورچوں پر حملہ کرکے انھیں شکست دینے میں کامیاب ہوا، تمیمی تھا۔

''ارماث ، اغواث و عماس '' کے خونین دنوں کو خلق کرنے والے یہی ہیں ۔ یہی ہیں جنہوں نے اس وقت کے دنیا کے پادشاہوں ، جیسے کسریٰ ، ہرمز ، قباد ، فیروز، ہراکلیوس ، چین کے خاقان ، ہندوستان کے پادشاہ داہر ، بہرام ، سیاوش ،نعمان اور دیگر عرب پادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔

انہوں نے ہی علاقوں اور شہروں پر حکومت اور فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے

عمر کے قاتل کو موت کی سزا دینے والے بھی یہی ہیں ۔

خلافتِ عثمان کے دوران کوفیوں کی بغاوت کو کچلنے والے بھی یہی ہیں ۔

یہی تھے جو عثمان کی مدد کیلئے دوڑپڑے۔

انہوں نے ہی جنگِ جمل میں امیر المؤمنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زیبر کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کی ۔

جنگِ جمل میں عام معافی کا اعلان کرکے جنگ کے شعلوں کو خاموش کرنے والا بھی انہی میں سے تھا ۔

جنگلی جانوروں نے جس سے فصیح زبان میں گفتگو کی ہے وہ ان ہی میں سے تھا ۔

جس کی زبان پر فرشتوں نے فارسی کے کلمات جاری کئے اور وہ ایک بڑی فتح کا سبب بنا ، ان ہی میں سے تھا۔

جی ہاں ! یہی خیالی خصوصیات سبب بنی ہیں کہ فرشتے اور جنات یک زبان ہوکر قبیلۂ تمیم کے فضائل اور افتخارات کے نغموں کو سیف کے خیالی راویوں کے کانوں تک پہنچائیں تا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ان افسانوں کو سیف کے کان میں گنگنائیں ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیاہے اسے بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہم نے سیف کے تئیس (٢٣) جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران حاصل کی ہیں ۔

اب ہم اس جلد میں بھی خاندان تمیم سے متعلق سیف کے چھ جعلی اصحاب کے علاوہ دیگر عرب قبائل سے خلق کئے گئے سیف کے انیس جعلی اصحاب کے سلسلہ میں حسب ذیل مطالعہ اور بحث وتحقیق کریں گے :

۶۶

تیسرا حصہ: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے :

٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری ۔

٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

٢٨۔ حر ، یا حارث بن حکیم خضرامہ ضبی

٢٩۔ کبیس بن ہوذہ ، سدوسی ۔

چوتھا حصہ : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان ، انصاری۔

٣١۔ صخر بن لوذان انصاری۔

٣٢ عکاشہ بن ثور ، الغوثی۔

٣٣۔ عبدا ﷲ بن ثور، الغوثی۔

٣٤۔ عبید اللہ بن ثور الغوثی

پانچواں حصہ : رسول خدا کے ایلچی اور کارندے

٣٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی

٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری۔

٣٧۔ جریر بن عبدا للہ حمیری ۔

٣٨۔ صلصل بن شرحبیل

٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

٤٠۔ عمرو بن خفاجی عامری

۶۷

٤١۔ عمر بن خفاجی عامری

٤٢۔ عوف ورکانی

٤٣۔ عویف ، زرقانی۔

٤٤۔ قحیف بن سلیک ،ہالکی۔

٤٥۔ عمر وبن حکیم ، قضاعی ، قینی۔

٤٦۔ امرؤ القیس ، از بنی عبدا للہ۔

چھٹا حصہ : ہم نام اصحاب

٤٧۔ خزیمة بن ثابت انصاری ( غیو از ذی شہادتین )

٤٨۔ سماک بن خرشہ ، انصاری ( غیر از ابی دجانہ )

ساتواں حصہ : گروہ انصار سے چند اصحاب

٤٩۔ ابو بصیرہ

٥٠۔ حاجب بن زید۔

٥١۔ سہل بن مالک

٥٢۔ سہل بن یربوع

٥٣۔ ام زُمل ، سلمیٰ بنت حضیفہ

۶۸

تیسرا حصہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف قبائل کے منتخب نمائندے

*٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری

*٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

*٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

*٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

*٢٨۔حر، یا حارث بن خضرامہ ضبی

*٢٩۔کبیس بن ہوذہ ، سدوسی۔

۶۹

چوبیسواں جعلی صحابی عبدة بن قرط تمیمی

اس نام کا ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں یوں تعارف ہوا ہے :

عبدة بن قرط، خباب بن حرث تمیمی عنبری کا پوتا ہے ۔ ابن شاہین نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ، قیس بن سلیمان بن عبدہ عنبری سے اس نے اپنے باپ اور جد سے ، انہوں نے عبدة بن قرط سے ۔۔ جو بنی عنبر کے نمائندوں کے ساتھ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔۔ روایت کی ہے :

'' وردان '' اور '' حیدہ '' ، محزم بن مخرمہ بن قرط کے بیٹے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے ۔

میں ۔۔ ابن حجر ۔۔ نے '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابن حجر نے اس سے قبل '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

انشاء اللہ اس کے حالات کی تشریح حرف '' ع'' میں '' عبدہ '' کی تشریح کے دوران آئے گی ۔ یہ بھی کہدوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ہے ۔

عبدہ کا خاندان اور اس کی داستان کا آغاز

سیف نے عبدہ کو ' عمرو بن تمیم '' کے خاندان ِبنی عنبر سے خلق کیا ہے ۔ اس کی داستان کے آغاز کو یوں جعل کیاہے کہ بنی عنبر کے نمائندوں کا ایک گروہ ، جس میں ' ' حیدہ'' اور '' وردان '' کے علاوہ عبدة بن قرط بھی تھا ، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' حیدہ '' اور '' وردان '' کے لئے مخصوص دعائے خیر کی ۔

۷۰

داستان کے مآخذ کی تحقیق

سیف کہتا ہے کہ مذکورہ داستان عبدة بن قرط نے اپنے بیٹے عبدہ سے اور اس نے اپنے بیٹے سلیمان سے اور سلیمان نے بھی اپنے بیٹے قیس سے بیان کی ہے ۔ جبکہ جس عبدة بن قرط کو ۔۔ سیف نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں قبیلے کے سفیر کے عنوان سے پہنچوایا ہے اس کا حقیقت میں کوئی وجود تھا اور نہ اس کے ان بیٹوں کا جن کی فہرست سیف نے مرتب کی ہے۔

بلکہ عبدة بن قرط نامی سیف کا صحابی۔ جسے اس نے نمایندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچایاہے ۔ اور اس کے بیٹے '' عبدہ ، سلیمان ، اور قیس'' سب کے سب سیف کی تخلیق ہیں ۔

روایت کی تحقیق

ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،جہاں '' اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں گفتگو کی ہے ، تمیم کے نمائندوں کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے تاریخی حقائق بیان کئے ہیں اور واضح کیا ہے کہ سیف نے مذکورہ روایت میں کیوں اور کس طرح تحریف کی ہے !! یہاں پر اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ۔

یہ بھی ہم بتادیں کہ تمیم کے نمائندوں کے بارے میں سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں نہ تو عبدة بن قرط کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کی روایت کے راویوں کے سلسلہ کا سراغ ملتا ہے ، کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے یہ داستان خلق کی ہے اور ابن حجرنے بھی اس پر اعتماد کرکے عبدة بن قرط کے نام کو حرف '' ع'' میں اپنی کتاب '' الاصابة '' میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے اصحاب میں درج کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

'' عبدة بن قرط '' کے حالات :

١۔الاصابتہ' ابن حجر' (٤٢٧٢) نمبر ٥٢٨٦ کے نیچے

۷۱

حیدہ کے حالات

١۔ الاصابة '' ابن حجر ، ( ٢ ٣٦٤)

بنی عنبر کا شجرۂ نسب :

١۔ '' جمہرۂ انساب '' ابن حزم ( ٢٠٨ ۔ ٢٠٩)

اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبدکے حالات :

١۔ '' الاصابة'' ابن حجر اور اس کے علاوہ دیگر منابع میں بھی آئے ہیں ۔

۷۲

پچیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

سیف بن عمر نے صعب بن عطیہ بن بلال بن ہلال سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے '' عبد الحارث بن حکیم '' سے روایت کی ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

تمہارا نام کیا ہے ؟

اس نے جواب دیا: عبدا لحارث بن حکیم

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تمہارا نام عبد اللہ ہوگا۔

اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے قبیلہ '' بنی ضبہ''کے صدقات جمع کرنے کے لئے ممور فرمایا:

ابو موسیٰ نے اس صحابی کو ابن مندہ سمجھ لیا ہے

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' الاصابة'' میں یوں بیان کیا ہے :

دار قطنی نے سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے صعب ابن عطیہ سے روایت کی ہے ...اور اسی مذکورہ داستان کونقل کیا ہے

اس صحابی کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب '' التجرید'' میں اس طرح درج کئے گئے ہیں :

سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوا ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

چھبیسواں جعلی صحابی حارث بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

ابو موسیٰ کی کتاب میں آیا ہے ( اس کے بعد عبد الحارث کی وہی داستان اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کے طور پر پہنچنے کا موضوع بیان کیا ہے !)

۷۳

کتاب ' ' الاصابة'' میں یوں آیا ہے :

ابن شاہین اور ابو موسیٰ دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے ( یہاں پر عبدا لحارث کی وہی مذکورہ داستان بیان ہوئی ہے )

ذہبی بھی اپنی '' التجرید'' میں لکھتا ہے :

ناقابل اطمینان طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام عبد الحارث تھا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا ۔

ہم نے سیف کی گزشتہ روایت میں دیکھا کہ اس نے ایک نمائندہ کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی خبر دی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام عبد الحارث بن حکیم سے بدل کر '' عبداللہ بن حکیم '' رکھا ہے۔

لیکن دانشوروں نے سیف کے تخلیق کردہ اسی ایک آدمی کو دو آدمیوں میں تبدیل کرکے صحابی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے زندگی کے حالات پر الگ الگ روشنی ڈالی ہے۔

لیکن '' اسد الغابہ '' کے مطابق سیف نے دوسری روایت میں ان کی اس داستان کو '' عبدا للہ بن زید بن صفوان '' سے ٍمنسوب کیا ہے ۔ ابن اثیر لکھتا ہے :

دارقطنی نے سیف بن عمر سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے بلال بن ابی بلال ضبی سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ عبد الحارث بن زید ضبی نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس نے اپنا تعارف کرایا، اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ۔

یہ صحابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے کے بعد اسلام لایا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:کہ

اس کے بعد تمہارا نام '' عبدا للہ '' ہوگا نہ عبد الحارث۔ اس نے جواب میں کہا :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق پر ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا اچھا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پرہیز گاری اور تقویٰ تائید الٰہی کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، شائستہ ترین کام وہ ہے جس کی انجام دہی میں ثواب ہو اور جس چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس کے پیچھے عذاب الٰہی ہوتا ہے۔

اللہ جیسے خدا کو رکھتے ہوئے ہم خوش ہیں ، ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں تاکہ اس کے اچھے اور خیر خواہانہ وعدوں سے استفادہ کرسکیں اور اس کے غضب اور عذاب سے امان میں رہیں !

عبد الحارث جو '' عبدا للہ '' بن چکا تھا اپنے قبیلے کی طرف لوٹا اور اس نے ہجرت نہیں کی۔

۷۴

اس مطلب کو ابو موسیٰ نے بھی ذکر کیا ہے

ابن حجر کی '' الاصابة'' میں بھی آیا ہے :

دار قطنی نے سیف بن عمر سے اس نے بلال بن ابی بلال سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

مذکورہ روایت ابن کلبی کی '' جمہرہ '' میں یوں آئی ہے :

عبد الحارث بن زید... ( اس کا نسب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :)

وہ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے نام کو بدل کر '' عبداللہ '' رکھا۔

ابن حزم نے بھی اپنی کتاب '' جمہرہ''' میں ان ہی مطالب کو بیان کیا ہے ۔

مذکورہ داستان کو ابن عبدا لبر نے '' استیعاب '' میں ، ابن اثیر نے '' اسدا لغابہ'' میں اور ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں ابن کلبی ، محمد بن حبیب اور ابن ماکولا جیسے دانشوروں سے نقل کیا ہے۔

اس بناء پر اس روایت کی سند ابن کلبی پر ختم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ابن حبیب ابن حزم اور ابن ماکولا سب کے سب ابن کلبی سے روایت کرنے والے تھے۔ اور چونکہ اس دانشور نے ٢٠٤ ھ میں وفات پائی ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح'' بھی اس تاریخ سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ لہذا یہ اطلاعات ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ : ابن کلبی نے مذکورہ خبر کو سیف سے نقل کرکے اسے خلاصہ کیا ہے ۔

بہر حال ہم زید بن صفوان کو سیف کی تخلیق شمار نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں ابن کلبی کی کتاب '' جمہرہ'' نہیں ملی جس کے ذریعہ ہم اس کی خبر کی یقینی طور پر تائید کرتے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی ایک شخص ۔۔۔ زید بن صفوان ۔۔ رجال کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں میں حسب ذیل تین روپوں میں درج ہوا ہے :

۷۵

١۔ عبدا للہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' ، '' الاصابہ'' اور ابو موسی کے ذیل میں اسی نام سے آیا ہے۔

٢۔ '' عبد اللہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' اور ابو موسیٰ ذیل میں اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔

٣۔ ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں عبدا للہ بن حارث کا دو شخصیتوں کے عنوان سے دوجگہ پر تعارف کیا گیا ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ہوئے نمائندہ '' عبدا للہ بن حارث'' کے نام میں تعدّد کا سر چشمہ شاید پہلی بار '' استیعاب '' میں واقع ہونے والی تحریف جس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ ہے نے بھی غلطی کی ہے اور اپنی کتاب ذیل میں ایک بار '' عبد اللہ بن حارث بن زید '' دوسری بار '' عبد اللہ بن زید '' کی زندگی کے حالات لکھے ہیں اور اس کے بعد دانشوروں نے اس کی پیروی کی ہے۔

ابن حجر اس غلطی کے علاوہ ایک دوسری غلطی کا بھی مرتکب ہوا ہے اور '' عبد اللہ بن حارث بن زید''کی زندگی کے حالات پر دوبار' دو جگہوں پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح ایک جعلی شخص تین روپوں میں نمودار ہوا ہے۔

ستائیسواں جعلی صحابی حلیس بن زید بن صفوان

اس صحابی کا ' ' اسد الغابہ '' میں یوں تعارف کیا گیا ہے :

ابو موسیٰ نے ابن شاہین سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ وہ حلیس بن زید بن صفوان اپنے بھائی ' ' حارث'' کی وفات کے بعد نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کے بعدا س کے حق میں د عا فرمائی ہے ۔

حلیس نے اس ملاقات میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

اگر مجھ پر کسی قسم کا ظلم ہوتو اس کی تلافی کیلئے اٹھتا ہوں تا کہ اپنا حق حاصل کرسکوں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

۷۶

شائستہ ترین کا م جسے انجام دیا جا سکتا ہے ، عفو و بخشش ہے ۔

حلیس نے کہا:

اگر کوئی حسد کرے گا تو اس سے زبردست مقابلہ کرکے تلافی کروں گا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

کون ہے جو کرم کرنے والوں کے لطف و کرم کا برا جواب دے ؟! جو بھی لوگوں سے حسدکرتا ہے اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کا دل آرام نہیں پاتا۔یہ مطالب ابو موسی نے بیان کئے ہیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

کتاب '' اصابہ'' میں ہم یوں پڑھتے ہیں :

ابن شاہین نے اس کا نام لیا ہے اور سیف بن عمر سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مندرجہ بالا داستان نقل کی گئی ہے )

لیکن کتاب '' تجرید'' میں اس صحابی '' حلیس بن زید '' ۔۔ کے تعارف اور زندگی کے حالات کے بارے میں حسب ذیل مطالب پر اکتفا کی گئی ہے :

غیر مطمئن طریقہ سے روایت ہوئی ہے کہ وہ ۔۔ حلیس ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

اٹھائیسواں جعلی صحابی حر، یا حارث بن خضرامہ ، ضبی

'' اسدا لغابہ'' میں یوں ذکر ہوا ہے:

حارث بن خصرامہ ضبی ہلالی کے بارے میں '' حارث بن حکیم '' کے سلسلے میں بیان کئے گئے مآخذ کے مطابق آیا ہے کہ سیف بن عمر نے صعب بن ہلال ضبی اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

حر، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچا ( تا آخر )

۷۷

حر بن خضرامہ ضبی یا ہلالی :

ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں حر کی داستان یوں درج ہوئی ہے :

ابن شاہین نے سیف سے نقل کرکے صعب بن ہلال ضبی سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روات کی ہے :

حر بن خضرامہ بنی عباس کا ہم پیمان تھا ۔ گوسفندوں کے ایک ریوڈ اور چند غلاموں کے ہمراہ مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ایک کفن اور قدرے حنوط عنایت فرمایا ! اس کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا کہ حر مدینہ میں فوت ہوگیا ۔ اس کے پسماندگان مدینہ آگئے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گوسفندوں کو انھیں لوٹا دیا اور حکم دیا کہ غلاموں کو مدینہ میں بیچ کر انکی قیمت انہیں دی جائے۔ابو موسی مدائنی نے دار قطنی سے ابن شاہین کے راوی سے روایت کی ہے کہ اس نے اس صحابی کے بارے میں کہا ہے : حارث بن خضرامہ ، ! اور خدا زیادہ جاننے والا ہے !

ضبّہ کا شجرۂ نسب

ضبی ، یہ ایک نسبتی لفظ ہے اور یہ نسبت تمیم کے چچا ''صنبتہ بن ادبن طابختہ بن الیاس بن مضر '' تک پہنچتیہے ۔

داستان کے مآخذ کی تحقیق:

علماء نے سیف کے اسنادحلیس کی داستان میں ذکر نہیں کئے ہیں ۔ لیکن باقی حدیث کو سیف کے ذریعہ ، صعب سے، بلال بن ابی بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے۔

یعنی حقیقت میں ایک بناوٹی راوی نے دوسرے جعلی اور خیالی راوی سے اور اس نے بھی ایک جعلی شخص سے نقلِ قول اور روایت کی ہے۔

ساتھ ہی سیف نے اپنے افسانوں میں سے ایک افسانہ کو اسی ماخذ کے ذریعہ اپنے جعلی صحابی تک ربط دیکر نقل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع کے بارے میں ا پنی کتاب '' رواة مخلتقون'' میں اشارہ کیا ہے ۔

۷۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ داستانوں کی روایت کی ہے ۔ جبکہ جن افراد نے انتہائی دقت اور احتیاط کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچے وفود اورنمائندوں کے بارے میں تفصیلات لکھے ہیں ،ان میں سیف کے مذکورہ مطالب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن سعد جیسے عالم نے اپنی کتاب ''طبقات'' میں سیف کی روایتوں پر کوئی توجہ نہیں کی ہے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا ہے۔

بلاذری نے بھی ۔۔ اپنی کتاب ' ' انساب '' کے پہلے حصہ میں ، جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مخصوص ہے ۔۔ سیف کی روایتوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا ہے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ '' عبدا للہ بن زید صفوان '' کے بارے میں نمائندگی کی روایت کو ہم نے ابن کلبی کے ہاں پایا ۔ مگر خود ابن کلبی نے اس روایت کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، ہمیں اب تک اس کے مآخذ کا پتہ نہ مل سکا۔

خلاصہ :

سیف نے قبیلہ بنی ضبّہ کے چند افراد کے نمائندہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی داستان کو چار روایتوں میں بیان کیا ہے ۔علماء نے بھی دیگر صحابیوں کے ضمن میں ان کی زندگی کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالی ہے :

١۔ سیف کی روایت کے پیش نظر '' عبد الحارث بن حکیم ضبی'' کی نمایندگی ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس کا نام بدل کر '' عبدا للہ '' رکھنے اور اسے اپنے قبیلہ کے صدقات جمع کرنے کی ماموریت دینے کے مسئلہ کو علماء نے دو صحابیوں کے حق میں الگ الگ بیان کیا ہے :

الف : حارث بن حکیم ضبی

ب: عبد اللہ بن حکیم ضبی

اور اسی ترتیب سے مذکورہ دو صحابی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں ثبت ہوئے ہیں ۔

۷۹

٢۔ سیف' عبد الحارث بن زید بن صفوان کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بعنوان نمایندہ پہنچنے کی روایت نقل کرکے مدعی ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر '' عبد اللہ بن زید '' رکھا ہے ، اور نام بدلنے کے بعد یہ نیا عبد اللہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم و نصیحت کرنے پر اتر کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتا ہے:

کوئی پرہیز گاری و تقویٰ خدا کی توفیق حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ بہترین اور شائشتہ ترین کام جسے انجام دیا جاسکتا ہے وہ ہے جس میں ثواب ہو اور جس کام سے پرہیز کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس پر پروردگار غصہ اور غضب کرے

اس طرح یہ عبدا للہ بن زید صفوان ہے جو خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم اور درس دیتا ہیچہ جائے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے درس دیں !!!

اس کے علاوہ اس صحابی کی نمائندگی کی خبر ' اس کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نصیحت اور تعلیم کے ذکر کے بغیر ہمیں ابن کلبی اور اس کی حدیث کے راویوں کے ہاں ملی ہے۔ چونکہ سیف زمانہ ابن کلبی سے پہلے ہے لہذا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ابن کلبی نے بھی اس خبر کو سیف سے نقل کیا ہوگا!

ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہی ایک شخص، اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والوں کے ہاں تین روپوں میں ظاہر ہوا ہے !!!

٣۔ سیف بن عمر نے حلیس بن زید کی نمائندگی کا ذکر اس کے بھائی '' حارث بن زید '' کی وفات کے بعد کیا ہے اور اس امر کی تاکید کی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیر کہ اس کیلئے دعا کی پھر نصیحت کی ہے۔

علماء نے اسی روایت کے پیش نظر اور اسی پر اعتماد کرکے حلیس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اور حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٤۔ سیف نے حر یا حارث بن خضرامہ کی گوسفندوں کے ریوڑ اور چند غلاموں کے ہمراہ پیغمبر خدا کی خدمت میں نمائندگی کو بیان کیا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ اپنے اس نئے خلق کئے ہوئے صحابی کو صحیح و سالم اپنے وطن اور اہل و عیال کے پاس لوٹا دے ، بلکہ اس کے بر عکس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کیلئے کفن اور قدرے حنوط لے لیتا ہے اور اس مفلس کو وہیں پر مسافرت میں مار ڈالتا ہے اور وہیں پر اسے دفن کرتا ہے ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایسی شخصیت کے مرنے کے بعد حکم دیتے ہیں کہ اس کے غلاموں کے بیچنے کے بعد ان کی قیمت اور گوسفندوں کے ریوڑ کو مرحوم کے پسماندگان کے حوالے کردیں ۔ اس طرح اسے اصحاب کی فہرست میں قرار دیکر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۸۰

سیف کی داستان کے نتائج

١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔

٤۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔

مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ

عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔

٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔

٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔

٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔

٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں ۔

۸۱

مصادر و مآخذ

عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں ' ق/١

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١

٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔

٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

۸۲

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی داستان

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١

۸۳

انتیسواں جعلی صحابی کبیس بن ہوذہ سدوسی

اس صحابی کا نام و نسب:

'' استیعاب'' ، '' اصابہ'' اور '' تجرید'' میں اس صحابی کا نام '' کبیس بن ھوذہ '' لکھا گیا ہے۔

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اسی نام کو درج کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شاہین'' کے ایک قدیمی نسخہ میں یہ نام '' کنیس'' ثبت ہوا ہے۔

ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ'' کے قلمی نسخہ میں یہ نام '' کبیش بن ہودہ '' درج ہوا ہے اور ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی نام کو قبول کرکے '' ابن مندہ کی پیروی کی ہے۔

اس صحابی کا نسب: '' اسماء الصحابہ'' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں لکھا گیا ہے کہ سیف بن عمر نے اس صحابی کا تعارف ' ' خاندان ِ بنی بکر و ائل عدنانی '' کے قبیلۂ بنی حارث بن سدوس '' سے کرایا ہے۔

ابن حزم نے اپنی کتاب '' جمہرہ'' میں بنی حارث کے ایک گروہ کے حالات کی تشریح کی ہے ، لیکن ان میں '' کبیس'' یا '' کنیس''یا '' کبیش'' نام کا کوئی صحابی اور '' ھوذہ '' یا '' ھودہ'' نام کا کوئی باپ ۔

'' سمعانی'' نے بنی حارث بن سدوس کے ایک گروہ کا نام لفظ السدوسی '' میں لیا ہے لیکن ان باپ بیٹوں کا کہیں نام بھی نہیں لیا ہے۔

۸۴

کبیس بن ہوذہ کی داستان :

ابن عبدا لبر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کے بارے میں صرف اتنا لکھتا ہے کہ:

'' ایاد بن لقیط نے اس سے روایت کی ہے ''

اس کے بعد کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اس کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے ۔

ابن مندہ اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں اپنے ہی اسناد سے لکھتا ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ بن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سدوسی سے اس نے بنی حارث بن سدوس کے ایک شخص کبیش بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیش پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے کچھ فرمان مرقوم فرمائے ہیں ۔

اس داستان کے آخرمیں ابن مندہ اظہار نظر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شبرمہ کی یہ حدیث حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے''

ابن اثیر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں مذکورہ داستان کو درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یوں اضافہ کرتا ہے :

اس مطلب کو تین مصادر ( ب ۔ ع ۔ د ) ١

____________________

١۔ ''ب''کتاب ''استیعاب'' کے مصنف ابن عبدالبر ''ع'' : ابو نعیم ، کتاب '' معرفة الصحابہ '' کے مصنف ، ابو نعیم ، حافظ احمد بن عبد اﷲ بن احمد اصفہانی ( ٣٦٠ ۔ ٤٣٠ھ)

''د'' : ابن مندہ ، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ ،محمد بن اسحاق اصفہانی ، جس نے احادیث کی جستجو میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے ۔ اس کی تالیفات میں سے '' اسماء الصحابہ '' ہے جو خاص طور سے ابن اثیر کی توجہ کا مرکز تھی۔

۸۵

نے ذکر کیا ہے۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید '' میں لکھا ہے :

سیف نے '' ایاد بن لقیط '' سے نقل کیا ہے کہ '' کبیس'' اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔( ب ۔ ع۔ د)ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھا ہے :

ابن شاہین ١ اور ابن مندہ نے سیف بن عمر سے اس نے عبدا اﷲبن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سے اس نے کبیس بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر وہی مذکورہ داستان نقل کی ہے )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

یہ داستان صرف اسی طریقہ سے پہنچی ہے اور ابن مندہ نے بھی کہا ہے کہ : ابن شبرمہ کی یہ داستان تعجب خیزہے !!!

خلاصہ :

سیف نے اس حدیث میں کبیس بن ہوذہ کو بنی حارث بن سدوس کے ان صحابیوں میں سے خلق کیا ہے جن کے ہمراہ اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے ایک فرمان مرقوم فرمایا تھا۔ یہیں سے اس قسم کا نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی

____________________

١۔ ابن شاہین ، حافظ ابو حفص بن شاہین ، عمر بن احمد بن عثمان بغدادی ( ٢٩٧ ۔ ٣٨٥) ہے ۔ اس کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد چھتیس بتائی گئی ہے ، من جملہ کتاب '' معجم الشیوخ '' ہے جس میں سرکردہ روات حدیث شامل ہیں ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ' ' اصابہ '' میں اس کتاب سے نقل کیا ہے۔

۸۶

فہرست اور ''معجم الشیوخ '' کے سرکردہ راویوں میں قرار پاتا ہے اور اس کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خیالی خط ایک حقیقی اورمسلم سند کے طور پر کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں درج کیا جاتا ہے !!

ہم نے اس نمائندہ صحابی کو پہچاننے کیلئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں جیسے ، ابن سعد کی ''طبقات '' ابن ہشام کی '' سیرة'' بلاذری کی '' انساب الاشراف'' اور مقریزی کی '' امتاع الاسماع '' کے علاوہ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف وفود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں کہیں بھی '' کبیس'' کا نام نہیں دیکھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں کبیس کے نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی فرمان یا خط کا مشاہدہ نہیں کیا ! بلکہ ہم نے سیف کے اس خلق کردہ صحابی کو صرف سیف کی احادیث میں اور اس کے راویوں کے ہاں پایا۔

افسانۂ کبیس کے اسناد کی پڑتال

ہم نے کہا کہ کتاب '' استیعاب '' کے مصنف ابن عبد البر نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ابن مندہ نے کبیس کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اور ابن اثیر نے اسے تین مآخذ '' ب ۔ ع، د'' کی علامت کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید ''میں کبیس کی نمائندگی کو سیف کی روایت کے مطابق ایاد بن لقیط سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن اثیر کے مآخذ کی اختصاری علامت '' ب ، ع، د'' کی قید لگادی ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں داستان کبیس کو ابن مندہ اور ابن شاہین کے قول کے مطابق نقل کیا ہے۔

۸۷

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ ابن مندہ، ابن شبرمہ کی اس حدیث پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور ابن حجر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ داستان صرف اس سند کے علاوہ کسی اور راوی سے نہیں ملی ہے ، یعنی ابن شبرمہ تنہا شخص ہے جس نے یہ داستان بیان کی ہے۔ اس روایت کی تنہا سند '' ایاد بن لقیط '' ہے اور اس کا مرکزی کردار ''کبیس بن ہوذہ '' ہے !! یہی مسئلہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ مذکورہ دو دانشور ابن شبرمہ کی حدیث پر تعجب کا اظہار کریں جبکہ وہ اس امر سے غافل تھے کہ بیچارہ ابن شبرمہ کا کوئی قصور ہی نہیں ہے بلکہ اصلی مجرم اور قصوروار سیف بن عمر ہے جس نے جھوٹ گڑھ کر ابن شبرمہ کے سر تھوپا ہے !

کتاب '' تجرید'' میں ذہبی کی بات بھی ہمارے دعوے کو ثابت کرتی ہے جب وہ داستان کبیس بیان کرتے وقت کنایہ کے طور پر لکھتا ہے :

'' سیف کی روایت کی بناء پر ''

اس بنا پر سیف کی اس حدیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ عبد اللہ بن شبرمۂ ضبی کوفی ( ٧٢ ۔ ١٤٤ ھ )جو ان علماء کے نزدیک ثقہ اور ایک قابل اعتماد شخص تھا۔

٢۔ ایاد بن لقیط سدوسی : اسے تابعین کے چوتھے در جے میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی نظر میں ثقہ ہے۔

٣۔ بنی حرث بن سدوس سے خود کبیس بن ہوزہ ، چونکہ ہم نے اس کی داستان اور نام سیف اور اس کے راویوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا لہذا اس کو سیف کے جعلی اصحاب اور راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

داستان کبیس کا نتیجہ

١۔ ایک نمائندہ صحابی ، جس کے حالات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دئیے گئے ہیں ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث شریف کا ایسا راوی جس کے حالات '' معجم الشیوخ'' کی روایتوں میں ملتے ہیں ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط، جس کا ذکر بعض متاخرین کے ذریعہ کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیہ'' میں کیا گیا ہے

ان سب کو سیف نے تن تنہا خلق کیا ہے اور اپنے اس جعلی صحابی اور دو نامور راویوں ۔۔ کہ ہم جن کی گردن پر ابن مندہ و ابن حجر کے برخلاف سیف کے جھوٹ کا گناہ ڈالنا نہیں چاہتے ۔۔ کی زبانی روایت نقل کی ہے ۔

۸۸

افسانۂ کبیس کی اشاعت کے ذرائع:

١۔ ابن شاہیں ( وفات ٣٨٥ ھ ) نے کتاب '' معجم الشیوخ'' میں ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ میں ۔

٣۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٤۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ ھ )نے کتاب '' الاستیعاب فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٥۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ)نے کتاب '' اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٦۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ)نے کتاب '' الاصابة فی تمییز الصحابہ'' میں ابن شاہین سے نقل کرکے۔

٨۔ اور حال ہی میں محمد حمید اللہ نے کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں ابن کثیر سے نقل کرکے اس نے لکھا ہے کہ: اس خط کا متن نقل نہیں ہوا ہے۔

مصادر و مآخذ

کبیس کا نسب ، اس کے حالات اور داستان :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٢٢٧) نمبر : ٩٧٠

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ '' مدینۂ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں موجود قلمی نسخہ۔

٣۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٣١)

٤۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ٢ ٢٩ )

٥۔ '' اصابہ'' (٣ ٢٧٠) نمبر : ٧٣٧٦

٦۔ سمعانی کی '' انساب '' لفظ '' السدوسی '' نمبر : ٢٩٤

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ '' ( ص ٢٩٨۔ ٢٩٩)

۸۹

ابن شاہین کے حالات

١۔ ' ' تاریخ بغداد '' ( ١١ ٢٦٥ ) نمبر: ٦٠٢٨

٢۔ '' کشف الظنون '' ( ٢ ١٧٣٥)

٣۔ ''ھدیة العارفین '' (٢ ٧٨١)

٤۔ '' شذرات '' ( ٣ ١١٧)

٥۔ اعلام زرگلی ( ٥ ١٩٦)

٦۔ ''معجم المؤلفین '' ( ٧ ٢٧٣)

ابن مندہ کے حالات :

١۔ '' عبر ذہبی '' ( ٣ ٥٩)

٢۔ ''کشف الظنون'' (١ ٨٩)

٣۔ '' ھدیة العارفین'' ( ٢ ٥٧)

ابو نعیم کے حالات:

١۔ '' عبر ذہبی '' (٣ ١٧٠)

٢۔ ' ' کشف الظنون '' (٢ ١٧٣٩)

عبد اللہ شبرمہ کے حالات

١۔ تاریخ بخاری ٣ ق ( ١ ١١٧)

٢۔ '' جرح و تعدیل'' رازی ٢ ق ( ٢ ٨٢) اسی طرح تہذیب میں ۔

۹۰

ایاد بن لقیط کے حالات :

١۔ تاریخ بخاری ١ ق ( ٢ ٦٩)

٢۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ١ ٣٨٦)

٣۔ '' الجمع بین رجال الصحیحین'' ( ١ ٥٢)

٤۔ '' تقریب'' (١ ٨٦)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نظریہ :

١۔ مجموعہ وثائق سیاسی ص ٩٩ نمبر : ٢٣٤ طبع قاہرہ ، انجمن تالیف و ترجمہ و نشر کتاب ١٩٤١ ئ

اسناد

١۔ معجم قبائل العرب '' رضا کحالہ ج٢ طبع ہاشمیۂ دمشق ١٩٤٩ ئ

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق ''

٣۔ نویری کی '' نہایة الارب ''

٤۔ ابن اثیر کی '' لباب الانساب''

۹۱

چوتھا حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار

*٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی

*٣١۔ صخر بن لوذان

*٣٢۔ عکاشہ بن ثور

*٣٣۔ عبد اللہ بن ثور

*٣٤۔ عبید اللہ بن ثور

۹۲

تیسواں جعلی صحابی عبید بن صخر

اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔

کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:

عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ

کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:

بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔

____________________

١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں '' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)

۹۳

اس صحابی کا نسب

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:

'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''

البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں : جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں ، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١

اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:

١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔

٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔

____________________

١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔

۹۴

٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔

یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں ۔

عبید بن صخر کی داستان

عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:

١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی (یہاں تک کہ کہتا ہے) :

معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

____________________

١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۹۵

٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:

ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے

____________________

١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میں یوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے

٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)

٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں ۔

۹۶

گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں ۔

ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:

اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :

عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔

طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں ۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :

٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ

میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی

۹۷

مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوں میں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔

٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :

سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔

ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔

٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات

____________________

١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔

۹۸

میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :

میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں ، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!

ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔

٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!

۹۹

بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔

١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔

٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں ۔

'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329