ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130614 / ڈاؤنلوڈ: 4443
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سیف کی داستان کے نتائج

١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔

٤۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔

مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ

عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔

٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔

٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔

٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔

٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں ۔

۸۱

مصادر و مآخذ

عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں ' ق/١

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١

٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔

٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

۸۲

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی داستان

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١

۸۳

انتیسواں جعلی صحابی کبیس بن ہوذہ سدوسی

اس صحابی کا نام و نسب:

'' استیعاب'' ، '' اصابہ'' اور '' تجرید'' میں اس صحابی کا نام '' کبیس بن ھوذہ '' لکھا گیا ہے۔

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اسی نام کو درج کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شاہین'' کے ایک قدیمی نسخہ میں یہ نام '' کنیس'' ثبت ہوا ہے۔

ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ'' کے قلمی نسخہ میں یہ نام '' کبیش بن ہودہ '' درج ہوا ہے اور ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی نام کو قبول کرکے '' ابن مندہ کی پیروی کی ہے۔

اس صحابی کا نسب: '' اسماء الصحابہ'' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں لکھا گیا ہے کہ سیف بن عمر نے اس صحابی کا تعارف ' ' خاندان ِ بنی بکر و ائل عدنانی '' کے قبیلۂ بنی حارث بن سدوس '' سے کرایا ہے۔

ابن حزم نے اپنی کتاب '' جمہرہ'' میں بنی حارث کے ایک گروہ کے حالات کی تشریح کی ہے ، لیکن ان میں '' کبیس'' یا '' کنیس''یا '' کبیش'' نام کا کوئی صحابی اور '' ھوذہ '' یا '' ھودہ'' نام کا کوئی باپ ۔

'' سمعانی'' نے بنی حارث بن سدوس کے ایک گروہ کا نام لفظ السدوسی '' میں لیا ہے لیکن ان باپ بیٹوں کا کہیں نام بھی نہیں لیا ہے۔

۸۴

کبیس بن ہوذہ کی داستان :

ابن عبدا لبر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کے بارے میں صرف اتنا لکھتا ہے کہ:

'' ایاد بن لقیط نے اس سے روایت کی ہے ''

اس کے بعد کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اس کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے ۔

ابن مندہ اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں اپنے ہی اسناد سے لکھتا ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ بن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سدوسی سے اس نے بنی حارث بن سدوس کے ایک شخص کبیش بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیش پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے کچھ فرمان مرقوم فرمائے ہیں ۔

اس داستان کے آخرمیں ابن مندہ اظہار نظر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شبرمہ کی یہ حدیث حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے''

ابن اثیر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں مذکورہ داستان کو درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یوں اضافہ کرتا ہے :

اس مطلب کو تین مصادر ( ب ۔ ع ۔ د ) ١

____________________

١۔ ''ب''کتاب ''استیعاب'' کے مصنف ابن عبدالبر ''ع'' : ابو نعیم ، کتاب '' معرفة الصحابہ '' کے مصنف ، ابو نعیم ، حافظ احمد بن عبد اﷲ بن احمد اصفہانی ( ٣٦٠ ۔ ٤٣٠ھ)

''د'' : ابن مندہ ، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ ،محمد بن اسحاق اصفہانی ، جس نے احادیث کی جستجو میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے ۔ اس کی تالیفات میں سے '' اسماء الصحابہ '' ہے جو خاص طور سے ابن اثیر کی توجہ کا مرکز تھی۔

۸۵

نے ذکر کیا ہے۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید '' میں لکھا ہے :

سیف نے '' ایاد بن لقیط '' سے نقل کیا ہے کہ '' کبیس'' اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔( ب ۔ ع۔ د)ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھا ہے :

ابن شاہین ١ اور ابن مندہ نے سیف بن عمر سے اس نے عبدا اﷲبن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سے اس نے کبیس بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر وہی مذکورہ داستان نقل کی ہے )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

یہ داستان صرف اسی طریقہ سے پہنچی ہے اور ابن مندہ نے بھی کہا ہے کہ : ابن شبرمہ کی یہ داستان تعجب خیزہے !!!

خلاصہ :

سیف نے اس حدیث میں کبیس بن ہوذہ کو بنی حارث بن سدوس کے ان صحابیوں میں سے خلق کیا ہے جن کے ہمراہ اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے ایک فرمان مرقوم فرمایا تھا۔ یہیں سے اس قسم کا نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی

____________________

١۔ ابن شاہین ، حافظ ابو حفص بن شاہین ، عمر بن احمد بن عثمان بغدادی ( ٢٩٧ ۔ ٣٨٥) ہے ۔ اس کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد چھتیس بتائی گئی ہے ، من جملہ کتاب '' معجم الشیوخ '' ہے جس میں سرکردہ روات حدیث شامل ہیں ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ' ' اصابہ '' میں اس کتاب سے نقل کیا ہے۔

۸۶

فہرست اور ''معجم الشیوخ '' کے سرکردہ راویوں میں قرار پاتا ہے اور اس کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خیالی خط ایک حقیقی اورمسلم سند کے طور پر کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں درج کیا جاتا ہے !!

ہم نے اس نمائندہ صحابی کو پہچاننے کیلئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں جیسے ، ابن سعد کی ''طبقات '' ابن ہشام کی '' سیرة'' بلاذری کی '' انساب الاشراف'' اور مقریزی کی '' امتاع الاسماع '' کے علاوہ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف وفود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں کہیں بھی '' کبیس'' کا نام نہیں دیکھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں کبیس کے نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی فرمان یا خط کا مشاہدہ نہیں کیا ! بلکہ ہم نے سیف کے اس خلق کردہ صحابی کو صرف سیف کی احادیث میں اور اس کے راویوں کے ہاں پایا۔

افسانۂ کبیس کے اسناد کی پڑتال

ہم نے کہا کہ کتاب '' استیعاب '' کے مصنف ابن عبد البر نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ابن مندہ نے کبیس کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اور ابن اثیر نے اسے تین مآخذ '' ب ۔ ع، د'' کی علامت کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید ''میں کبیس کی نمائندگی کو سیف کی روایت کے مطابق ایاد بن لقیط سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن اثیر کے مآخذ کی اختصاری علامت '' ب ، ع، د'' کی قید لگادی ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں داستان کبیس کو ابن مندہ اور ابن شاہین کے قول کے مطابق نقل کیا ہے۔

۸۷

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ ابن مندہ، ابن شبرمہ کی اس حدیث پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور ابن حجر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ داستان صرف اس سند کے علاوہ کسی اور راوی سے نہیں ملی ہے ، یعنی ابن شبرمہ تنہا شخص ہے جس نے یہ داستان بیان کی ہے۔ اس روایت کی تنہا سند '' ایاد بن لقیط '' ہے اور اس کا مرکزی کردار ''کبیس بن ہوذہ '' ہے !! یہی مسئلہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ مذکورہ دو دانشور ابن شبرمہ کی حدیث پر تعجب کا اظہار کریں جبکہ وہ اس امر سے غافل تھے کہ بیچارہ ابن شبرمہ کا کوئی قصور ہی نہیں ہے بلکہ اصلی مجرم اور قصوروار سیف بن عمر ہے جس نے جھوٹ گڑھ کر ابن شبرمہ کے سر تھوپا ہے !

کتاب '' تجرید'' میں ذہبی کی بات بھی ہمارے دعوے کو ثابت کرتی ہے جب وہ داستان کبیس بیان کرتے وقت کنایہ کے طور پر لکھتا ہے :

'' سیف کی روایت کی بناء پر ''

اس بنا پر سیف کی اس حدیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ عبد اللہ بن شبرمۂ ضبی کوفی ( ٧٢ ۔ ١٤٤ ھ )جو ان علماء کے نزدیک ثقہ اور ایک قابل اعتماد شخص تھا۔

٢۔ ایاد بن لقیط سدوسی : اسے تابعین کے چوتھے در جے میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی نظر میں ثقہ ہے۔

٣۔ بنی حرث بن سدوس سے خود کبیس بن ہوزہ ، چونکہ ہم نے اس کی داستان اور نام سیف اور اس کے راویوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا لہذا اس کو سیف کے جعلی اصحاب اور راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

داستان کبیس کا نتیجہ

١۔ ایک نمائندہ صحابی ، جس کے حالات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دئیے گئے ہیں ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث شریف کا ایسا راوی جس کے حالات '' معجم الشیوخ'' کی روایتوں میں ملتے ہیں ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط، جس کا ذکر بعض متاخرین کے ذریعہ کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیہ'' میں کیا گیا ہے

ان سب کو سیف نے تن تنہا خلق کیا ہے اور اپنے اس جعلی صحابی اور دو نامور راویوں ۔۔ کہ ہم جن کی گردن پر ابن مندہ و ابن حجر کے برخلاف سیف کے جھوٹ کا گناہ ڈالنا نہیں چاہتے ۔۔ کی زبانی روایت نقل کی ہے ۔

۸۸

افسانۂ کبیس کی اشاعت کے ذرائع:

١۔ ابن شاہیں ( وفات ٣٨٥ ھ ) نے کتاب '' معجم الشیوخ'' میں ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ میں ۔

٣۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٤۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ ھ )نے کتاب '' الاستیعاب فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٥۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ)نے کتاب '' اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٦۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ)نے کتاب '' الاصابة فی تمییز الصحابہ'' میں ابن شاہین سے نقل کرکے۔

٨۔ اور حال ہی میں محمد حمید اللہ نے کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں ابن کثیر سے نقل کرکے اس نے لکھا ہے کہ: اس خط کا متن نقل نہیں ہوا ہے۔

مصادر و مآخذ

کبیس کا نسب ، اس کے حالات اور داستان :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٢٢٧) نمبر : ٩٧٠

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ '' مدینۂ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں موجود قلمی نسخہ۔

٣۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٣١)

٤۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ٢ ٢٩ )

٥۔ '' اصابہ'' (٣ ٢٧٠) نمبر : ٧٣٧٦

٦۔ سمعانی کی '' انساب '' لفظ '' السدوسی '' نمبر : ٢٩٤

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ '' ( ص ٢٩٨۔ ٢٩٩)

۸۹

ابن شاہین کے حالات

١۔ ' ' تاریخ بغداد '' ( ١١ ٢٦٥ ) نمبر: ٦٠٢٨

٢۔ '' کشف الظنون '' ( ٢ ١٧٣٥)

٣۔ ''ھدیة العارفین '' (٢ ٧٨١)

٤۔ '' شذرات '' ( ٣ ١١٧)

٥۔ اعلام زرگلی ( ٥ ١٩٦)

٦۔ ''معجم المؤلفین '' ( ٧ ٢٧٣)

ابن مندہ کے حالات :

١۔ '' عبر ذہبی '' ( ٣ ٥٩)

٢۔ ''کشف الظنون'' (١ ٨٩)

٣۔ '' ھدیة العارفین'' ( ٢ ٥٧)

ابو نعیم کے حالات:

١۔ '' عبر ذہبی '' (٣ ١٧٠)

٢۔ ' ' کشف الظنون '' (٢ ١٧٣٩)

عبد اللہ شبرمہ کے حالات

١۔ تاریخ بخاری ٣ ق ( ١ ١١٧)

٢۔ '' جرح و تعدیل'' رازی ٢ ق ( ٢ ٨٢) اسی طرح تہذیب میں ۔

۹۰

ایاد بن لقیط کے حالات :

١۔ تاریخ بخاری ١ ق ( ٢ ٦٩)

٢۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ١ ٣٨٦)

٣۔ '' الجمع بین رجال الصحیحین'' ( ١ ٥٢)

٤۔ '' تقریب'' (١ ٨٦)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نظریہ :

١۔ مجموعہ وثائق سیاسی ص ٩٩ نمبر : ٢٣٤ طبع قاہرہ ، انجمن تالیف و ترجمہ و نشر کتاب ١٩٤١ ئ

اسناد

١۔ معجم قبائل العرب '' رضا کحالہ ج٢ طبع ہاشمیۂ دمشق ١٩٤٩ ئ

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق ''

٣۔ نویری کی '' نہایة الارب ''

٤۔ ابن اثیر کی '' لباب الانساب''

۹۱

چوتھا حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار

*٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی

*٣١۔ صخر بن لوذان

*٣٢۔ عکاشہ بن ثور

*٣٣۔ عبد اللہ بن ثور

*٣٤۔ عبید اللہ بن ثور

۹۲

تیسواں جعلی صحابی عبید بن صخر

اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔

کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:

عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ

کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:

بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔

____________________

١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں '' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)

۹۳

اس صحابی کا نسب

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:

'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''

البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں : جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں ، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١

اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:

١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔

٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔

____________________

١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔

۹۴

٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔

یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں ۔

عبید بن صخر کی داستان

عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:

١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی (یہاں تک کہ کہتا ہے) :

معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

____________________

١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۹۵

٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:

ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے

____________________

١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میں یوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے

٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)

٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں ۔

۹۶

گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں ۔

ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:

اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :

عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔

طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں ۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :

٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ

میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی

۹۷

مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوں میں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔

٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :

سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔

ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔

٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات

____________________

١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔

۹۸

میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :

میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں ، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!

ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔

٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!

۹۹

بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔

١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔

٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں ۔

'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

 33 ہزار علماء فضلا نے اتفاق سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا نام لیا۔”

آپ کی عبادت

آپ کی  عبادت کو سمجھنے کے لیے امام کا یہ فرمان سننا ہی کافی ہے کہ جس وقت آپ نے مشہور شاعر دعبل خزاعی کو عبا مرحمت فرمایا تو کہا “ اے دعبل اس عبا اس کی قدر جانو کہ اس عبا میں ہزار راتیں اور ہر رات ہزارر رکعت نمازیں پڑھی جاچکی ہیں۔” وہ لوگ جو جو آپ کو مدینہ سے طوس تک لائے تھے، تمام نے متفقہ طور پر آپ کی شب بیداری ، دعا و ندبہ تہجد کی پابندی اور اپنے رب کے حضور گریہ و زاری کا ذکر کیا ہے۔

آپ کی انکساری

ابراہیم بن عباس جو مدینہ سے طوس تک آپ کے ہمرکاب تھا، کہتا ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی کسی پر ظلم کیا ہو، کسی کی بات کاٹ لی ہو، کسی کی حاجت پوری نہ کی ہو، پاؤں پھیلا کر بیٹھے ہوں، کسی کی موجود گی میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں، آپ کسی کے ساتھ تندی کے ساتھ نہیں بولتے تھے۔”

آپ کی سخاوت

ایک واقعہ کا ذکر کلینی علیہ الرحمہ نے کیا ہے اس بارے میں ہم اسی واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ لوگوں کا ایک بڑا گروہ آپ کی خدمت میں موجود تھا، کہ ایک مسافر آیا اور کہا، مولا! میں آپ (ع) اور کے آباء کرام کا دوستدار ہوں میں نے اپنے راستے کا خرچ حج کے دوران کھودیا ہے اس سفر میں بغیر زاد راہ کے رہ گیا ہوں مہربانی کر کے سفر کے آخراجات کے لیے کچھ عنایت

۱۲۱

 فرما دیجئے جسے میں خراسان پہنچ کر آپ کی طرف سے صدقہ کروں گا۔ کیونکہ وہاں میری رہایش ہے۔ آپ اپنے کمرے میں تشریف لے گئے اور دو سو دینار لاکر دروازے کے اوپر سے ہاتھ میں تھما دیئے اور فرمایا صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اسے چلے جانے کو کہا وہ شخص چلا گیا۔ تو حاضرین نے پوچھا کہ رقم دروازے کے اوپر سے تھما دی اور اس کے چلے جانے کی خواہش کی اور اسے نہ دیکھنا چاہا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ اس کے چہرے پر سوال کی ذلت دیکھوں کیا تم نے نہیں سنا کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ چھپا کر دیا ہوا صدقہ ستر حج کے برابر ہے۔ آشکار گناہ رسوائی کا باعث ہے اور پوشیدہ گناہ بخش دیا جائے گا۔

یہ آںحضرت (ع) کے فضائل کے ایک جھلک ہے جسے ذکر کیا گیا۔ آپ کے فضائل حمیدہ ہارون رشید کی موت کے بعد اسلامی ممالک میں شورش برپا تھی اور ایک بحران کی حالت تھی۔ جس وقت ہارون نے اپنے بھائی کو نیست و نابود کیا اور اسلامی سلطنت کی زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تو یہ مناسب جانا کہ مختلف اسلامی علاقوں کے معزز افراد کو جمع کر کے ان کے ذریعے ہی ان شورشوں کا قلع قع کرے۔ لہذا اس نے 33 ہزار افراد کو مختلف ممالک سے بلاکر دار الخلافہ میں جمع کیا اور انہیں اپنا مشیر بنایا اسی دوران حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا اور اس طرح اسلامی ممالک میں شورشوں پر قابو پایا۔ لیکن جب ہنگامے ختم ہوگئے اور مملکت میں امن و سکون قائم ہوگیا تو ان مشیروں میں سے اکثر ہارون غیظ کا نشانہ بنے۔ کچھ تو زندان میں محبوس ہوئے اور باقی قابل اعتنا نہ رہے اور بعض قتل کردئے گئے۔ قتل کئے جانے والوں کی فہرست میں حضرات امام رضا علیہ السلام کا نام بھی ہے۔ اس کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے چند نکات بیان کرتے ہیں۔

۱۲۲

1 ـ خود حضرت امام رضا علیہ السلام نے متعدد مواقع پر یہ اظہار فرمایا ہے کہ آپ کا خراسان کا سفر اور ہارون کی حکومت میں موجود ہونا آپ پر ایک مسلط شدہ امر تھا مدینہ سے کوچھ کرتے وقت مجلس عزاء کا پربا کرنا، اپنے جد بزرگوار کی قبر سے رخصت ہوتے وقت گریہ و زاری کرنا، مامون کے آدمی پہنچنے سے قبل ہی بیت اﷲ سے رخصت ہونا اور بار بار ولی  عہدی کو قبول نہ کرنا، مگر مجبور کرنے پر قبول کرنا لیکن اس میں بھی یہ شرائط رکھنا کہ امور مملکت میں دخل نہیں دیں گے۔ وغیرہ تمام اقدامات اس بات کے گواہ ہیں کہ ولی عہدی آپ پر مسلط کی گئی تھی۔ اور آپ(ع) نے خوشی سے اسے قبول نہیں کیا تھا۔

2 ـ حضرت امام رضا علیہ السلام مامون سے ملاقات کے بعد ہر وقت غیر معمولی طور پر غمگین رہتے تھے۔ جب بھی آپ نماز جمعہ سے لوٹتے تو موت کی تمنا کرتے تھے۔

3 ـ شاید اکیلے میں آپ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہو، یا ان کے منافقانہ سلوک سے آپ دل برداشتہ ہوں؟ یا اور کوئی دوسری وجہ ہو۔ وجہ معلوم نہیں مگر یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچی ہوئی تھی کہ آپ غیر معمولی طور پر غمگین رہتے تھے۔

4 ـ حضرت امام رضا علیہ السلام کا مرو میں آنا اسلام کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا چونکہ اس زمانے میں طوس دوسرے لوگوں کے لیے علم کا مرکز تھا اگر حضرت امام رضا علیہ السلام طوس میں نہ ہوتے تو ان کے اعتراضات کوئی بھی حل نہیں کرسکتا تھا اور اگر یہ اعتراضات اور شبہات حل نہ ہوتے  تو اسلام کےلیے شدید خطرہ تھا۔

5ـ حضرت امام رضا علیہ السلام راستے میں نیشاپور میں پہنچے اور نیشاپور میں

۱۲۳

شیعوں کی تعداد غیر معمولی تھی۔ لوگوں کا ایک جم غفیر آپ کے استقبال کے لیے آیا اور اپنی عقیدت کی بناء پر امام علیہ السلام سے کوئی حدیث نہیں چاہی ۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حجت خدا ان کے لیے اس حساس موقع پر ایک بہترین تحفہ دے دیں آپ چند لمحے خاموش رہے اور جب لوگوں کا اشتیاق بڑھا تو آپ نے فرمایا۔

“  حدّثني‏ أبي‏ موسى‏ الكاظم‏، عن أبيه جعفر الصادق، عن أبيه محمّد الباقر، عن أبيه عليّ زين العابدين، عن أبيه الحسين الشّهيد بكربلا، عن أبيه عليّ بن أبي طالب كرّم اللّه وجهه و رضوان اللّه عليهم، أنّه قال: حدّثني حبيبي و قرّة عيني رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم قال: حدّثني جبرئيل عن ربّ العزّة سبحانه و تعالى يقول: كلمة لا إله إلّا اللّه حصني فمن قالها دخل حصني و من دخل حصني أمن من عذابي”

ترجمہ : “ میرے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم (ع) نے اپنے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق(ع) سے انہوں نے اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر(ع) سے ، انہوں نے اپنے پدر گرامی حضرت امام زین العابدین(ع) سے ، انہوں نے اپنے پدر گرامی حضرت امام حسین سید الشہدا سے ، انہوں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا کہ جبرائیل (ع) نے مجھ سے کہا کہ میں نے خداوند عالم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کلمہ “لا إله إلّا اللّه ” میرا قلعہ ہے جس کسی نےلا إله إلّا اللّه کہا وہ میرے قلعے میں داخل ہوا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہا۔”

اس کے بعد آپ کی سواری روانہ ہوئی پھر آپ نے ہودج سے سر مبارک باہر نکالا اور فرمایابشرط ه ا و شروط ه ا و انا من شروط ه ا ۔ کلمہ لا الہ الا اﷲ کہنا سعادت کا موجب ہے مگر اس کے لیے کچھ بنیادی شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط میں ہوں ( یعنی اقرار ولایت)

۱۲۴

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کےبارے میں چند کلمات لکھے جائیں کلمہ لا الہ الا اﷲ کا اقرار کرنا اور اس پر عمل کرنا موجب سعادت ہے۔ لا الہ الا اﷲ در حقیقت وہی قرآن ہے، وہی کتاب ہے، جو انسانی معاشرے کے لیے سعادت کا باعث ہے لیکن قرآن کے مطابق قرآن ولایت کے بغیر کچھ بھی نہیں۔

خداوند عالم نے جس وقت حضرت علی (ع) کو ولایت کے عہدے پر منسوب فرمایا تو آیت اکمال کو نازل فرمایا۔

“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ‏ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً”

“ آج کے دن ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کیں۔ اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ قرار دیا۔”

اور آیت اکمال سے پہلے یعنی علی علیہ السلام کو منسوب بہ ولایت کرنے سے پہلے “ آیت بلغ” نازل فرمائی۔

“ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ‏ بَلِّغْ‏ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ”

“ اے رسول(ص) جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اسے تبلیغ کے ذریعے پہنچاؤ اگر تم نے اس کا پر چار نہیں کیا تو گویا رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔”

حضرت امام رضا علیہ السلام نے شرطہا و شروطہا کہہ کر انہی آیات ، یعنی آیت اکمال اور آیت بلغ کی یاد دہانی فرمائی ہے اور فرماتے ہیں کہ کلمہ لا الہ الا اﷲ کی بنیاد ولایت ہے۔

جس چیز کی طرف ہمیں زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا چاہیے وہ ولایت کی حقیقت اور معنی ہیں۔ لغت کے اعتبار سے ولایت کے متعدد معنی ہیں۔ منجملہ ان معنوں میں سے ایک معنی دوستی کے بھی ہیں۔ یعنی تمام لوگوں کو چاہئے کہ اہل بیت علیہم السلام کو دوست رکھیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی دوستی اور محبت ایک عظیم نعمت ہے اور ان کے ساتھ بغض و دشمنی رکھنا ایک عظیم نقصان اور رسوائی کا باعث ہے تمام شیعہ و سنی محدثین نے

۱۲۵

 روایت نقل کی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ۔

“ أَلَا مَنْ‏ مَاتَ‏ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِيداً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوراً لَهُ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُؤْمِناً مُسْتَكْمِلَ الْإِيمَانِ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ كَافِراً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ يَشَمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ”

“ ترجمہ : “ خبردار رہو جو محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) کی محبت کے ساتھ مرے گا، وہ شہید مرے گا خبردار رہو جو کوئی محمد (ص) و آل (ع) محمد(ص) کی محبت کی محبت مرے گا وہ بخشا جائے گا، جو محمد و آل محمد(ص) کی محبت میں مرے گا وہ تائب ہو کر مرے گا۔ جو محمد و آل محمد(ص) کی محبت کے ساتھ مرے مومن مرے گا اور ایمان کی تکمیل چاہنے کی راہ میں مرے گا۔ جو اہل بیت علیہم السلام کی دشمنی کے ساتھ مرے گا وہ کافر مرے گا۔ یاد رکھو! جو محمد و آل محمد (ص) کی دشمنی میں مرے گا اس کے دماغ تک بہشت کی خوشبو نہیں پہنچے گی۔”

ولایت کے ان معانوں میں سے ایک معنی سرپرستی کے بھی ہیں یعنی جس کسی دل میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سرپرستی ہو وہ ولایت رکھتا ہے جس نے اپنے نفس کو صفات زذیلہ سے پاک کیا وہ ولایت رکھتا ہے۔ جس کسی کے دل کا سر پرست اندرونی و بیرونی طاغوت، اندرونی اور بیرونی شیطان ، آرزوئیں ، خواہشات اور بیجا تمنائیں ہوں اور جسے کسی کی خواہشات، تمنائیں اور اس کا ذاتی نظریہ، اہل بیت علیہم السلام کے نظریے سے اولیت رکھتا ہے، اس کا دل بے ولایت ہے بلکہ اس کا دل اہل بیت علیہم السلام کی محبت سے خالی ہے اس لیے تو حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔ “ اتباع کے بغیر ولایت و محبت بے معنی ہے۔”

یعنی اگر ایک شخص خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے محبت و ولایت کا دعویدار رہے تو اس کا ایسا کرنا بیجا ہے اور ایسا شخص تو زمانے کا ایک نمونہ قرار پائے گا۔ ولایت

۱۲۶

 اہل بیت علیہم السلام یعنی ولایت الہی کو جاری و ساری دینے کا نام ہے۔

“اللَّهُ‏ وَلِيُ‏ الَّذِينَ‏ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ وَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُماتِ أُولئِكَ أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ‏”

“ خدا مومنوں کا سرپرست ہے جو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔کفر و ضلالت کی گمراہی ، خواہشات نفسانی کی گمراہی ، شیطانوں کی گمراہی اور پست و رذیل صفات کی گمراہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اور کافروں کا سرپرست طاغوت ہے جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکی کی طرف لے جاتا ہے اندرونی اور بیرونی طاغوت پست صفات کا طاغوت اور ان کا انجام ہمیشہ کے لیے آگ ہے۔”

حضرت امام رضا علیہ السلام نے جس روایت کو بیان فرمایا ہے اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ جس دل میں لا الہ الا اﷲ داخل ہوا اس دل کا سرپرست اﷲ ہے۔ اب اس کا عقیدہ ، اس کا نظریہ اور اس کا عمل ، اس کا اظہار کرتا ہے کہ دنیا میں سوائے اﷲ کے اور کوئی تاثیر نہیں اور اس کا دوام ولایت کی سرپرستی ہے جو اﷲ کا ایک مضبوط قلعہ ہے۔

اس لیے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس ایک جملے میں تمام ایمان ، تمام قرآن ، تمام سعادتوں اور تمام سنتوں کو بیان فرمایا ہے۔

اس روایت کا ایک ملتا جلتا بیان جو کہ رسول اکرم(ص) سے روایت کیا گیا ہے جس وقت حضور اکرم (ص) کا اعلانیہ تبلیغ کا حکم ملا“وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ‏ الْأَقْرَبِينَ‏” کا حکم ملا تو حضور اکرم(ص) نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا اور دعوت دی۔ ان کو جمع کر کے فرمایا۔

“قولوا لا إله‏ الّا اللَّه تفلحوا

اگر تم لوگ کلمہ لا الہ الا اﷲ کہو گے تو فلاح پاؤ گے۔ اور یاد رکھو تم میں سے سب سے پہلے جو کلمہ لا الہ الا اﷲ کہے گا وہی میرا وصی اور جانشین ہوگا۔”

۱۲۷

 اور تم سب سے پہلے جواب دینے والے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تھے۔

حضور اکرم(ص) نے کئی مرتبہ بات کا تکرار کیا ۔ مگر سوائے حضرت علی علیہ السلام کے اور کسی نے جواب نہیں دیا تو حضور اکرم(ص) نے فرمایا میرے بعد علی (ع) میرا وصی اور میرا جانشین ہوگا۔ حضور اکرم (ص) کا یہ ارشاد امام رضا علیہ السلام کے ارشاد کی تائید کرتا ہے۔

مضمون کے آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے مرو آتے وقت دعبل خزاعی نے جو اشعار کہے تھے اسے لکھا جائے۔ قصیدہ تو بہت بڑا ہے اور اس قصیدے کوصاحب کشف الغمہ نے اپنی مذکورہ کتاب میں مکمل درج کیا ہے ۔ اس کے چند اشعار ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں دعبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اشعار سناتے ہوئے یہاں تک پہنچا ۔

أفاطم‏ لو خلت الحسين مجدّلا                       و قد مات عطشانا بشطّ فرات‏

“ اے کاش فاطمہ(س) تم کربلا میں ہوتیں تو دیکھتیں کہ حسین (ع) نے دریائے فرات کے کنارے کس طرح پیاس کی حالت میں شہادت پائی۔”

اس کے بعد بغداد میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی قبر کے ذکر تک پہنچا تو کہا۔

و قبر ببغداد لنفس زكية                              تضمنها الرحمن في الغرفات‏

“ اے فاطمہ(س) قبر سے باہر اور اس قبر پر گریہ کر جو بغداد میں ہے جسے نورانی رحمت نے گھیر رکھا ہے۔” یہ سن کر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا۔ دعبل میں نے بھی ایک شعر کہا ہے اسے اس شعر کے بعد لکھ لینا اور وہ شعر یہ ہے۔

و قبر بطوس‏ يا لها من مصيبة                        ألحت على الأحشاء بالزفرات

إلى الحشر حتّى يبعث اللّه قائما                      يفرّج عنّا الهمّ و الكربات

۱۲۸

“ گریہ کرو اس قبر جو طوس میں ہے اس کے دل کو غموں نے چور چور کیا ہوا ہے اس کا یہ غم والم قیامت تک باقی رہنا ہے بلکہ قیام آل محمد(ص) تک باقی رہنا ہے جنہوں نے آکر اہل بیت (ع) کے تمام غموں کو دور کرنا ہے۔ دعبل کہنے لگا یا بن رسول اﷲ میں تو طوس میں آپ اہل بیت (ع) میں سے کسی کی قبر نہیں دیکھی ہے۔ حضرت نے فرمایا وہ قبر میری ہے کچھ مدت کے بعد میں طوس میں دفن کیا جاؤں گا جو کوئی بھی میری زیارت کرے گا وہ بہشت میں میرے ساتھ ہوگا  اور وہ بخشا جا چکا ہوگا۔ دعبل نے آگے کلام جاری رکھا اور کہا۔

خروج‏ امام‏ لا محالة خارج‏                           يقوم على اسم اللّه و البركات‏

يميز فينا كل حقّ و باطل‏                            و يجزي على النعماء و النقمات‏

“ امام(ع) کا خروج یقینا واقع ہونے والا ہے جو اﷲ کا نام کے کر اس کی برکتوں کے ساتھ قیام کرے گا ہمارے بارے میں حق و باطل کا فرق معلوم ہوجائے گا نیکوں کو جزاء اور بروں کو سزا ملے گی۔” جب دعبل یہاں تک پہنچا تو امام کھڑے ہوئے اور سرجھکا کر احتراما ہاتھ سر پر رکھا اور فرمایا دعبل اس امام کو جانتے ہو دعبل نے کہا کہ ہاں یہ امام(ع) اہل بیت (ع) میں سے ہوگا۔ اس کے ہاتھوں ہی اسلام کا پرچم روئے زمین پر گاڑھ دیا جائے گا اور سارے عالم میں اسلامی عدالت کا دور دورہ ہوگا نیز فرمایا دعبل میرے بعد میرا بیٹا محمد(ع) اس کے بعد اس کا فرزند علی(ع) ان کے بعد ان کا فرزند حسن(ع) اور حسن(ع) کے بعد اس کا بیٹا حجت خدا ہوگا۔ جو غیبت میں چلا جائے گا

۱۲۹

اور اس کا ظہور کا انتظار کیا جائے گا۔ جس کے ظہور کا وقت کسی کو معلوم نہیں۔ اس کے بعد آپ نے دعبل کو اپنی عبا اور سو دینار عطا فرمائے۔ جب دعبل قم میں آئے تو اس کا ہر دینار سو دینار میں خریدا گیا اور یہ پیش کش کی گئی  کہ اس عبا کو ہزار دینار میں خریدیں۔ مگر اس نے نہیں دیا۔ لیکن جب وہ قم سے باہر نکلے تو قم کے بعض لوگوں نے وہ عبا ان سے چھین لی۔

ختتام پر حضرت معصومہ قم علیہا السلام کا مختصر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ خداوند عالم کے ہاں جن کا بہت بلند مقام ہے۔ آپ ایک ایسی خاتون ہیں جو امام (ع) کی بیٹی ہیں، امام(ع) کی بہن ہیں اور امام(ع) کی پھوپھی ہیں۔ وہی خاتون جس کے فیض قدم سے ہر زمانے میں حوزہ علمیہ کی برکتیں جاری ہیں آپ وہی خاتون ہیں جن کے بارے میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا “ جو کوئی حضرت معصومہ(ع) کی زیارت کرے گا اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔”آپ کی ولادت 183ہجری میں ہوئی چونکہ آپ کے برادر بزرگوار ( حضرت امام رضا علیہ السلام) مرو لے جائے گئے تو آپ نے اپنے بھائی سے ملاقات کی خاطر مدینہ سے مرو کی طرف سفر کیا۔ قم پہنچ کر آپ بیمار ہوگئیں اور 201 ہجری میں وفات پاگئیں۔ اس طرح اس معظمہ کی عمر مبارک اٹھارہ سال ہوتی ہے۔ آپ کے روضے میں حضرت جواد علیہ السلام کے پوتے اور چند بیٹیاں بھی مدفون ہیں اس طرح ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اصحاب اور عرفا کی ایک بہت بڑی تعداد مدفون ہیں۔

۱۳۰

حضرت امام جواد علیہ السلام

آپ کا نام نامی محمد(ع) ہے۔ مشہور کنیت ابو جعفر ثانی اور ابن الرضا (ع) ہے آپ کے مشہور القاب جواد اور تقی ہیں۔

آپ کی عمر مبارک پچیس سال ہے اور حضرت زہرا سلام اﷲعلیہا کے بعد اہل بیت علیہم السلام میں اس قدر کم عمرکسی اور معصوم کی نہیں۔ آپ کی ولادت 10 رجب 195 ہجری کو جمعہ کی رات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اور آپ کی شہادت مامون الرشید کے بھائی معتصم عباسی کے حکم سے مامون کی بیٹی ام الفضل کے ذریعہ جو آپ کی بیوی تھیں۔ 30 ذی القعدہ کو واقع ہوئی۔ آپ کی امامت کی مدت 17 سال ہے جس وقت آپ کی عمر آٹھ سال کی تھی کہ آپ کے پدر بزرگوار کی شہادت واقع ہوئی اور آپ نےمنصب امامت سنبھالا۔

مامون حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بغداد آیا اور وہی اپنی حکومت کا دار الخلافہ بنایا جب اس نے سنا کہ اسلامی ملکوں کے علماء نے مدینہ جاکر آپ کی امامت کو قبول کیا ہے تو اسے خوف لاحق ہوا اور حضرت جواد علیہ  السلام کو بغداد بلا کر بڑی تعظیم و تکریم کی اور اپنی بیٹی ام الفضل کا نکاح آپ سے کر دیا۔

ایک مدت کے بعد ام الفضل کےساتھ آپ  زیارت بیت اﷲ کی غرض سے حجاز چلے گئے۔ اعمال حج کی بجا آوری کے بعد مدینہ لوٹ آئے اور جب تک مامون زندہ تھے ۔

۱۳۱

 مدینے میں رہے۔ مامون کے مرنے کے بعد ان کے بھائی معتصم نے منصب خلافت سنبھالا چونکہ لوگ والہانہ طور پر حضرت جواد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور دن بدن آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا جس سے معتصم گھبرانے لگا اور آپ کو بغداد بلا بھیجا اور تھوڑی مدت کے اندر آپ کو شہید کردیا گیا۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک اگرچہ بہت ہی مختصر تھی، اور اکثر عمر جلا وطنی میں گزر گئی لیکن اس کے باوجود آپ کی عمر مبارک ایک با برکت عمر تھی۔ یعقوب کلینی نے کافی میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ۔

“ هَذَا الْمَوْلُودُ الَّذِي‏ لَمْ يُولَدْ مَوْلُودٌ أَعْظَمُ بَرَكَته مِنْهُ”

“ اس بچے سے بڑھ کر اور کوئی با برکت بچہ پیدا نہیں ہوا ہے۔”

تمام اہل بیت عظام علیہم السلام کی طرح بھی نمایاں امتیازات کے حامل ہیں۔ آپ میدان علم کے ایک ایسے شہسوار تھے جن کا ثانی کوئی نہیں تھا۔ تاریخ میں مرقوم ہے کہ جیسے ہی حضرت امام رضا علیہ السلام نے شہادت پائی علماء و فضلاء کا ایک گروہ مدینہ منورہ میں آپ کی خدمت میں پہنچا اور چند ہی دنوں میں تیس ہزار مسئلے پوچھے آپ (ع) نے بلا تامل ان کا جواب دیا۔

جب آپ (ع) کو مامون عباسی نے بغداد بلا بھیجا اور اپنی  بیٹی ام الفضل کا نکاح آپ سے کرنا چاہا تو اس کے  خاندان میں ہلچل مچی اور بڑے اعتراضات ہونے لگے۔ مامون نے ان اعتراضات کو خاموش کرنے کے لیے ایک پر شکوہ مجلس ترتیب دی اور اس جلسے میں بڑے بڑے علماء اور فضلاء کو دعوت دی۔ اس زمانے کے ایک بہت بڑے عالم اور قاضی یحی بن اکثم اس بھرے دربار میں آپ سے پوچھتا ہے اگر کوئی  ایسا شکص جو احرام کی حالت میں ہے کسی شکار کو قتل کرے تو کیا حکم ہے؟ آپ نے فورا ہی اس مسئلے کی ایسی شقیں بیان فرمائیں کہ یحی بن اکثم کے ساتھ تمام حاضرین

۱۳۲

 مبہوت ہو کر رہ گئے آپ نے فرمایا ۔ “ وہ شکار اس نے حرم میں یا حرم کے باہر مارا؟ ۔ حکم کو جانتا تھا یا بے خبر تھا؟ غلطی سے مارا یا جان بوجھ کر مارا؟ وہ احرام والا آزاد تھا یا غلام ؟ بالغ تھا یانابالغ تھا؟ پہلی دفعہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کیا تھا؟ یہ شکار پرندوں میں سے تھا یا نہیں؟ چھوٹا تھا یا بڑا؟ رات کے وقت قتل کیا تھا یا دن کو؟ حج کے لیے احرام پہنا تھا یا عمرے کے لیے؟ مامون نے دیکھا کہ مجمع پر سکوت طاری ہوگیا ہے تمام حاضرین خصوصا یحی بن اکثم شرمندہ اور مبہوت ہوچکے ہیں تو حضرت جواد علیہ السلام سے کہا نکاح پڑھیں آپ نے خطبہ نکاح پڑھا نکاح کے بعد مامون نے آپ سے یحی بن اکثم کے پوچھے ہوئے سوال کے تمام شقوں کے بارے میں پوچھا تو آپ نے تمام شقون کے تفصیلی جوابات دیے اور آخر میں یحی بن اکثم کوفی سے آپ نے ایک سوال پوچھا ہوسکتا ہے کہ مجلس عقد عروسی تھی شاید تفریح طبع کے لیے پوچھا ہو آپ نے اس سے پوچھا۔

“ وہ کون سی عورت ہے جو صبح کے وقت ایک مرد پر حرام تھی۔ دن چڑھا تو اس پر حلال ہوئی، ظہر کے وقت حرام ہوئی اور عصر کے وقت حلال ہوئی، مغرب کے وقت حرام ہوئی اور رات کے آخری حصے میں حلال ہوئی اور طلوع فجر سے پہلے حرام ہوئی۔ اور طلوع فجر کے بعد حلال ہوئی ہے۔ یحی بن اکثم نے کہا مجھے معلوم نہیں آپ ہی بتادیں تاکہ لوگوں کو بھی معلوم ہوجائے۔ آپ نے فرمایا ۔

وہ ایک کنیز ہے جو اول صبح میں نامحرم تھی جب دن چڑھا تو اس شخص نے خرید لیا اس پر حلال ہوئی۔ ظہر کے وقت اسے آزاد کیا اس پر حرام ہوئی عصر کے وقت نکاح کر لیا حلال ہوئی۔ مغرب کے وقت ظہار کیا اس پر حرام ہوئی اور نصف رات میں ظہار کا کفارہ دیا حلال ہوئی، رات کے آخر میں اسے طلاق دیا حرام ہوئی اور

۱۳۳

 طلوع فجر کے بعد رجوع کیا حلال ہوئی اگرچہ ایسے سوالات اور ان کے جوابات حضرت جواد علیہ السلام کے شایان شان نہیں معلوم ہوتے لیکن جب آپ کے لڑکپن پر اعتراض کیا تو جواب دیا اور شادی کے موقع کی مناسبت سے ایسا ہی سوال کر کے لا جواب ہونے پر مجبور کیا اور بھری محفل میں احسنت احسنت کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مامون کہنے لگا حضرت جواد علیہ السلام اگر چہ کم سن ہیں لیکن آل محمد(ص) کے چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں ہے اپنی بات خود منوا سکتے ہیں ۔ تیسرا مسئلہ چور کا تھا جو معتصم کے زمانے میں پیش آیا۔

جس وقت حضرت جواد علیہ السلام کو دوسری بار بغداد لایا گیا یا یوں کہا جائے کہ جب آپ کو شہید کرنے کے لیے بغداد لایا گیا اور وقت کے انتظار میں تھے مگر معتصم آپ کا احترام بجالایا تھا۔ ایک دن بڑے لوگوں کی محفل تھی امراء وزاراء اور علماء کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ایک چور لایا گیا جس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ابن ابی داؤد جو اس زمانے کے عظیم علماء میں سے تھا اور قاضی وقت تھا انہوں نے آیت تیمم پر تکیہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ کلائی سے اس چور کا ہاتھ کاٹا جائے جب کہ دوسرے علماء نے آیت وضو پر تکیہ کرتے ہوئے کہنی سے کاٹنے کا حکم دیا۔ یہ سن کر معتصم نے حضرت جواد علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے انگلیوں کی جڑوں سے کاٹنے کا حکم دیا اور دلیل کے طور پر آیت “ المساجد للہ” پیش کی یعنی “ سجدہ کی جگہیں اﷲ کے لیے ہیں” اور جو جگہیں اﷲ کے لیے ہیں انہیں نہیں کاٹا جاسکتا ۔ تمام مجلس سے صدائے تحسین بلند ہوئی اور آپ(ع) کےفتوی پر عمل ہوا۔

یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حضرت جواد علیہ السلام نے حکم خدا کو بیان فرمایا ہے اور مجلس کے عمومی اذہان میں بات بٹھانے کے لیے آیت شریفہ سے استدلال کیا ہے وگرنہ فقہی اعتبار سے آیت شریفہ کو دلیل میں لانا نامکمل ہے اور

۱۳۴

 ائمہ علیہم السلام کی فقہ میں متعدد مواقع میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ سجدوں کے جگہوں کو بھی قطع کیا جائے جیسے محارب کہ قرآن کی رو سے جس کے ایک ہاتھ اور پاؤں کو کاٹا جائے گا یا قتل کیا جائے گا یا جلا وطن ہوگا۔

خلاصہ یہ کہ حضرت جواد علیہ السلام نے خدا کا حکم بیان فرمایا ہے چونکہ یہ لوگ دلیل طلب کردیتے ہیں تو آپ (ع) ان کے درمیان یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ میں قرآن کا بیان کرنے والا ہوں اور اﷲ کی ذات کے علاوہ ہر چیز کا علم رکھتا ہوں ۔ اور احکام الہی کو جانتا ہوں ۔ لہذا ان کو یقین دلانے کےلیے امام علیہ السلام نے آیت کریمہ کو دلیل کےطور پر پیش کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ جو حکم آپ نے اس مجلس میں بیان فرمایا ہے۔ تقیہ سے خالی نہیں  تھا۔

ابن ابی داؤد کہتا ہے یہ جلسہ مجھ پر اس قدر گراں گزرا کہ میں نے خداوند عالم سے موت کی تمنا کی۔ پھر بھی مجھ سے صبر نہیں ہوسکا کہ اپنے حسد کو ظاہر نہ کروں چند دنوں کے بعد میں معتصم کے پاس گیا اور کہا مجھے معلوم ہے کہ میں جہنمی تو ہو رہا ہوں مگر سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ خلیفہ کو نصیحت کروں۔ یہ شخص جس کے فتوی پر آپ نے حکم جاری کیا اور ہمارے فتوے کو پائمال کیا ہے لوگ اس کو خلیفہ سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت کرنا خلافت کو ان کے حوالہ کرنا ہے ۔ ابن ابی داؤد کہتا ہے کہ یہ سن کر خلیفہ متبنہ ہوا اور اس کی حالت متغیر ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ امام جواد علیہ السلام کے قتل کئے جانے کی ایک وجہ یہی چغلی تھی۔

اگر حسد ایک انسان میں داخل ہو اور ایک عالم اپنی نفس کی صلاح نہ کرسکے اور اگر ایک پست خصلت کسی انسان کو قابو کر لے اور اسے اپنے دام میں لائے تو جانتے ہوئے جہنم میں جا رہا ہے جسے کہ قرآن کریم کا فرمان ہے۔ “ کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے۔”

۱۳۵

انسان اگر تہذیب نفس حاصل نہ کرے تو ابن ابی داؤد بنتا ہے جس کی مثالیں تاریخ میں بے شمار ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ علمی شجاعت امام جواد علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ اس کی مثال تمام ائمہ (ع) میں نہیں ملتی لیکن جیسا کہ گزر چکے بعض مسائل حضرت امام جواد علیہ السلام کی شان کے لائق نہیں۔ آپ(ع) کے مقام علمی کو خود آپ (ع) سے سنتے ہیں۔

مشارق الانوار میں مذکور ہے جس وقت حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے شہادت پائی تو حضرت جواد علیہ السلام نے مسجد نبوی میں آکر یوں خطبہ دیا۔

“أنا محمد بن علي الرضا أنا الجواد، أنا العالم بأنساب الناس في الأصلاب، أنا أعلم بسرائركم و ظواهركم، و ما أنتم صائرون إليه، علم منحنا به من قبل خلق الخلق أجمعين، و بعد فناء السّماوات و الأرضين، و لو لا تظاهر أهل الباطل و دولة أهل الضلال، و وثوب أهل الشك، لقلت قولا يعجب منه الأوّلون و الآخرون، ثم وضع يده الشريفة على فيه و قال: يا محمد اصمت كما صمت آباؤك من قبل”

“ میں محمد بن علی الجواد(ع) ہوں میں لوگوں کے انساب کا جاننے والا ہوں جو دنیا میں آئے ہوں یا نہ آئے ہوں۔ میں تم سے زیادہ تمہارے ظاہر اور باطن  کو بہتر جاننے والا ہوں۔ ہم یہ علم خلقت عالم سے بہت پہلے سے رکھتے ہیں اور عالم ہستی کے فنا ہونے کے بعد بھی اس کے حامل رہیں گے۔ اگر اہل باطل کی  حکومت اور گمراہوں کی ان کے ساتھ ہمنوائی اور جاہل عوام کے شکوک کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ایسی چیزیں بیان کرتا کہ لوگ تعجب کرتے۔ اس کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنا پاتھ زبان پر رکھ کر فرمایا خاموش ہوجاؤ جیسے کہ تیرے آباء نے خاموشی اختیار کی ہے۔”

آخر میں ہم حضرت جواد علیہ السلام کی روایات میں سے چند روایات بیان کرتے ہیں جو ہمارے لیے نصیحت کا باعث ہیں۔

“و قال جواد الائمه عليه السلام: الثقة باللّه ثمن‏ لكلّ‏ غال‏، و سلّم إلى كلّ عال”

۱۳۶

“ حضرت جواد علیہ السلام نے فرمایا اﷲ پر اعتماد ہر قیمتی چیز کی قیمت اور ہر بلندی کے لیے سیڑھی ہے۔”

“قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: كَيْفَ يَضِيعُ مَنِ اللَّهُ كَافِلُهُ؟ وَ كَيْفَ يَنْجُو مَنِ اللَّهُ طَالِبُهُ؟ وَ مَنِ‏ انْقَطَعَ‏ إِلَى‏ [غَيْرِ] اللَّهِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ، وَ مَنْ عَمِلَ عَلَى غَيْرِ عِلْمٍ [مَا] أَفْسَدَ أَكْثَرُ مِمَّا يُصْلِحُ.”

“ وہ شخص کیسے ضائع ہوگا جس کی کفالت خدا کر رہا ہو۔ وہ شخص کیسے بچ سکتا ہے جسے خدا ڈھونڈ رہا ہو اور جو خدا کے غیر پر اعتماد کرے گا خدا اسے اسی کے حوالے کرے گا۔ جو شخص جانے بغیر کسی کام میں ہاتھ ڈالے گا وہ درست کرنے سے زیادہ تباہ کرے گا۔ یہ روایات جن کی مثال اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں زیادہ ملتی ہیں۔ ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہر حالت میں ہم پر اعتماد رکھیں سب سے کٹ کر خدا سے تعلق جوڑیں یہی دونوں جہانوں کی سعادت کا باعث ہے خدا سے کٹ کر دوسروں کی طرف نظریں جمانے سے حیرانی پریشانی اور پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

جو چیز ایک انسان کو خوف پریشانی اور اضطراب سے نجات دلاسکتی ہے صرف اور صرف خدا کی ذات پر اعتماد کرنا ہے اور جو چیز دکھ اور پریشانی کا سبب بنتی  ہے خوف و اضطراب کو بڑھاتی ہے وہ دوسروں سے امید رکھتا ہے خداوند عالم نے قرآن کریم میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

“وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ‏ لَهُ‏ مَخْرَجاً وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدْراً”

ترجمہ :۔ “ جو شخص تقوی کو پیشہ بنائے گا اﷲ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی

۱۳۷

راستہ پیدا کرے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اﷲ پر توکل کرےگا پس وہ اس کے لیے کافی ہے اﷲ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے ہر چیز کےلیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔( سورہ طلاق آیت 2، 3)

یہ آیت کریمہ ہمیں بتاتی ہے کہ جو شخص خدا پر توکل کرے، خدا پر اعتماد کرے تو یہ اس کے لیے سعادت کا باعث ہوا ور خداوند عالم اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ فقط خدا پر اعتماد ہی  ہمارا چارہ ساز ہے، ہر قیمتی چیز کی قیمت ہے اور ہر بلندی کے لیے سیڑھی ہے۔ الثقة باللّه ثمن‏ لكلّ‏ غال‏، و سلّم إلى كلّ عال” خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

“مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِياءَ كَمَثَلِ‏ الْعَنْكَبُوتِ‏ اتَّخَذَتْ بَيْتاً وَ إِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ‏.”

“ جو لوگ غیر خدا پر بھروسہ کرتے ہیں ان کی مثال اس مکڑی جیسی ہے جو اپنے لیے جالان بن کر گھر بناتی ہے۔ تم جان لو تمام گھروں میں سے مکڑی کا گھر کمزور اور بے بنیاد ہے۔” ( عنکبوت آیت 41)

انسان اسی وقت عزت کا مالک ہے، قائم ہے اور خدا کی عنایتوں کا مستحق ہے جب وہ غیر خدا سے کوئی امید نہ رکھے صرف اسی پر بھروسہ کرے و گرنہ زمانے کے حادثات اس کے مقاصد اور امیدوں تک کو نابود کردیں گے۔ اسی لیے تو امام (ع) نے فرمایا ۔

“ عزّ المؤمن‏ غناه‏ عن الناس من انقطع غير الله وکله الله اليه ”

اباصلت ہروی کا کہنا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد میں مامون عباسی کے غضب کا نشانہ بن گیا اور قید میں ڈال دیا گیا۔ کیونکہ میں نے مامون ، اس کے گورنروں اور حکومت کے سرکردہ لوگوں پر امید لگائی تھی۔ لہذا ایک سال

۱۳۸

 تک زنجیروں میں جکڑا رہا ایک رات تمام سے اپنی امیدیں قطع کر کے خداوند عالم کے حضور اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیتے ہوئے دعا کی اور خلوص دل سے اس کے ساتھ پیوستہ ہوگیا۔ اچانک میں نے قید خانے میں جواد الائمہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو دیکھا۔ جب آپ پر نظر پڑی تو میں رویا اور شکوہ کرنے لگا کہ میری فریاد کو کیوں نہیں پہنچے فرمایا اباصلت تم نے ہمیں کب بلایا جو نہیں آئے؟

اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر نگہبانوں کے درمیان سے لے کر باہر نکالا اور فرمایا “ جاؤ اﷲ کا نام لے کر آئندہ تم کسی کے ہاتھ نہیں لگو گے۔”

یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ دنیاوی امور میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا توسل بیمایوں ، مشکلات ، تنگیوں ، وغیرہ میں بہت زیادہ موثر ہے یہاں تک کہ اہل سنت بھی آپ کے روضہ مطہرہ میں آکر آپ کے وسیلے سے دعائیں مانگتے ہیں۔

۱۳۹

حضرت امام ہادی علیہ السلام

آپ کا نام نامی علی (ع) مشہور کنیت ابو الحسن ثالث اور ابن لرضا(ع) ہے اور آپ کے مشہور القاب نقی(ع) اور ہادی ہیں۔ آپ کی عمر مبارک چالیس سال تھی ۔ آپ نے دو رجب 214 ہجری میں ولادت پائی اور 3 رجب المرجب 254 ہجری کو معتز عباسی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوئے۔ آپ کی مدت امامت 33 سال ہے ۔ جب آپ سات سال کے تھے حضرت جواد علیہ السلام نے شہادت پائی اور آپ نے منصب امامت سنبھالا۔

13 سال تک مدینے میں رہے اس کے بعد متوکل عباسی کے حکم سے مجبورا آپ کو بغداد لے جایا گیا جہاں 20 برس تک رہے اور یہاں ہی آپ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔

یہ مدت آپ نے قید خانے میں بیڑیوں کے ساتھ عام قید خانے اور بعض دفعہ آزاد رہ کر گزارے۔ اس وقت بھی آپ کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ اس طرح آپ نے میں بیس سال کا عرصہ بنی عباس کے ظلم و ستم کےتحت گزارا ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جس حاکم کے زمانے میں زندگی گزاری اے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں بنی عباس کا ظالم ترین خلیفہ کہا ہے۔ متوکل صرف یہ نہیں کہ آپ کو قید میں رکھتا ہے بلکہ زندان کے ساتھ ہی قبر بھی تیار رکھتا ہے اور تاریک زندان

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329