ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب23%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130549 / ڈاؤنلوڈ: 4439
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حضرت نوح عليہ السلام

قرآن مجيد،بہت سى آيات ميں نوح كے بارے ميں گفتگو كرتا ہے اور مجمو عى طور پر قرآن كى انتيس سورتوں ميں اس عظيم پيغمبر كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے ،ان كانا م۴۳/ مرتبہ قرآن ميں آيا ہے _

قرآن مجيد نے ان كى زندگى كے مختلف حصوں كى باريك بينى كے ساتھ تفصيل بيان كى ہے ايسے جوزيادہ تر تعليم وتربيت اور پندو نصيحت كے پہلوئوں سے متعلق ہيں _

مورخين ومفسرين نے لكھا ہے كہ نوح كا نام '' عبد الغفار ''يا عبد الملك''يا''عبدالاعلى '' تھااور ''نوح'' كا لقب انھيں اس لئے ديا گيا ہے ، كيونكہ وہ سالہا سال اپنے اوپر يا اپنى قوم پر نوحہ گريہ كرتے رہے _آپ كے والد كا نام ''لمك ''يا'' لامك ''تھا اور آپ كى عمر كى مدت ميں اختلاف ہے ،بعض روايات ميں ۱۴۹۰ /اور بعض ميں ۲۵۰۰ /سال بيان كى گئي ہے ، اور ان كى قوم كے بارے ميں بھى طولانى عمريں تقريبََا۳۰۰/ سال تك لكھى گئي ہيں ،جوبات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ آپ نے بہت طولانى عمر پائي ہے، اورقرآن كى صراحت كے مطابق آپ۵۰ ۹/ سال اپنى قوم كے درميان رہے ( اور تبليغ ميں مشغول رہے)_

نوح كے تين بيٹے تھے ''حام''''سام'' يافث ''اور مو رخين كا نظريہ يہ ہے كہ كرئہ زمين كى اس وقت كى تمام نسل انسانى كى بازگشت انھيں تينوں فرزندوں كى طرف ہے ايك گروہ ''حامي'' نسل ہے جو افريقہ كے علاقہ ميں رہتے ہيں دوسرا گروہ ''سامى ''نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرق قريب كے علاقوں ميں رہتے ہيں اور ''يافث '' كى نسل كو چين كے ساكنين سمجھتے ہيں _

۴۱

۹۵۰/سال تبليغ ۷/مومن

اس بارے ميں بھى ،كہ نوح (ع) طوفان كے بعد كتنے سال زندہ رہے ،اختلاف ہے بعض نے ۵۰ /سال لكھے ہيں اور بعض نے ۶۰ /سال _(۱) نوح عليہ السلام كا ايك اور بيٹا بھى تھا جس كا نام ''كنعان ''تھا جس نے باپ سے اختلاف كيا، يہاں تك كہ كشتى نجات ميں ان كے ساتھ بيٹھنے كے لئے بھى تيار نہ ہوا اس نے برے لوگوں كے ساتھ صحبت ركھى اور خاندان نبوت كے ا قدار كو ضائع كرديا اور قرآن كى صراحت كے مطابق آخر كاروہ بھى باقى كفار كے مانند طوفان ميں غرق ہوگيا _اس بارے ميں كہ اس طويل مدت ميں كتنے افراد نوح(ع) پر ايمان لائے ،اور ان كے ساتھ كشتى ميں سوار ہوئے ،اس ميں بھى اختلاف ہے بعض نے ۸۰/اور بعض نے ۷/ افراد لكھے ہيں _

نوح عليہ السلام كى داستان عربى اور فارسى ادبيات ميں بہت زيادہ بيان ہوئي ہے ، اور زيادہ تر طوفان اور آپ كى كشتى نجات پر تكيہ ہوا ہے _ نوح عليہ السلام صبر وشكر اور استقامت كى ايك داستان تھے ، اور محققين كا كہنا ہے كہ وہ پہلے شخص ہيں جنھوں نے انسانوں كى ہدايت كےلئے وحى كى منطق كے علاوہ عقل واستدلال كى منطق سے بھى مددلى (جيسا كہ سورہ نوح كى آيات سے اچھى طرح ظاہر ہے ) اور اسى بناء پر آپ اس جہان كے تمام خدا پرستوں پر ايك عظيم حق ركھتے تھے _

قوم نوح عليہ السلام كى ہلا دينے والى سرگزشت

اس ميں شك نہيں كہ حضرت نوح عليہ السلام كا قيام اور ان كے اپنے زمانے كے متكبروں كے ساتھ شديد اور مسلسل جہاد اور ان كے برے انجام كى داستان تاريخ بشر كے فراز ميں ايك نہايت اہم اور بہت عبرت انگيز درس كى حامل ہے_

____________________

(۱)يہود كے منابع (موجودہ توريت ميں بھى نوح كى زندگى كے بارے ميں تفصيلى بحث آئي ہے ،جو كئي لحاظ سے قرآن سے مختلف ہے اور توريت كى تحريف كى نشانيوں ميں سے ہے ، يہ مباحث توريت كے سفر''تكوين ''ميں فصل ۶،۷،۸ ،۹ اور ۱۰ ميں بيان ہوئے ہيں _

۴۲

قرآن مجيد پہلے مرحلے ميں اس عظيم دعوت كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ''ہم نے نوح كو ان كى قوم كى طرف بھيجا اور اس نے انھيں بتايا كہ ميں واضح ڈرانے والا ہوں ''_(۱)

اس كے بعد اپنى رسالت كے مضمون كو صرف ايك جملہ ميں بطور خلاصہ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ميرا پيغام يہ ہے كہ '' اللہ ''كے علاوہ كسى دوسرے كى پرستش نہ كرو(۲) پھر بلا فاصلہ اس كے پيچھے اسى مسئلہ انذاراور اعلام خطر كوتكرار كرتے ہوئے كہا :''ميں تم پر درد ناك دن سے ڈرتا ہوں ''_(۳)

اصل ميں اللہ (خدا ئے يكتا ويگانہ ) كى توحيد اور عبادت ہى تمام انبياء كى دعوت كى بنياد ہے _

اب ہم ديكھيں گے كہ پہلا ردّ عمل اس زمانے كے طاغوتوں ،خود سروں اور صاحبان زرو زوركا اس عظيم دعوت اور واضح اعلام خطركے مقابلے ميں كيا تھامسلماََسوائے كچھ بيہودہ اور جھوٹے عذر بہانوں اور بے بنياد استدلالوں كے علاوہ كہ ان كے پاس كچھ بھى نہيں تھا جيساكہ ہر زمانے كے جابروں كے طريقہ ہے _

انہوں نے حضرت نوح كى دعوت كے تين جواب دئے : ''قوم نوح(ع) كے سردار اور سرمايہ داركا فرتھے انہوں نے كہا: ہم تو تجھے صرف اپنے جيسا انسان ديكھتے ہيں ''_(۴)

حالانكہ اللہ كى رسالت اور پيغام تو فرشتوں كو اپنے كندھوں پر لينا چاہيئے نہ كہ ہم جيسے انسانوں كو ،اس گمان كے ساتھ كہ انسان كا مقام فرشتوں سے نيچے ہے يا انسان كى ضرورت كو فرشتہ انسان سے بہتر جانتا ہے_

امام زادوں كو زائرين كى تعداد سے پہچاناجاتا ہے

ان كى دوسرى دليل يہ تھى كہ : انہوں نے كہا : اے نوح(ع) :'' ہم تيرے گردوپيش اور ان كے درميان كہ جنہوں نے تيرى پيروى كى ہے سوائے چند پست ، ناآگاہ اور بے خبرتھوڑے سن وسال كے نوجوانوں كے كہ جنہوں نے مسائل كى ديكھ بھال نہيں كى كسى كو نہيں ديكھتے ''_

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۲۵

(۲)(۳)سورہ ہود آيت ۲۶

(۴)سورہ ہود آيت۲۷

۴۳

كسى رہبر اور پيشوا كى حيثيت اور اس كى قدر ورقيمت اس كے پيروكاروں سے پہچانى جاتى ہے اور اصطلاح كے مطابق صاحب مزار كو اس كے زائرين سے پہچانا جاتا ہے جب ہم تمہارے پيروكاروں كو ديكھتے ہيں تو ہميں چند ايك بے بضاعت،گمنام،فقير اور غريب لوگ ہى نظر آتے ہيں جن كا سلسلہ روز گار بھى نہايت ہى معمولى ہے تو پھر ايسى صورت ميں تم كس طرح اميد كر سكتے ہو كہ مشہور و معروف دولت مند اور نامى گرامى لوگ تمہارے سامنے سر تسليم خم كرليں گے_؟

ہم اور يہ لوگ كبھى بھى ايك ساتھ نہيں چل سكتے ہم نہ تو كبھى ايك دستر خوان پر بيٹھے ہيں اور نہ ہى ايك چھت كے نيچے اكھٹے ہوئے ہيں تمہيں ہم سے كيسى غير معقول توقع ہے_

يہ ٹھيك ہے كہ وہ اپنى اس بات ميں سچے تھے كہ كسى پيشوا كو اس كے پيروكاروں سے پہچانا جاتا ہے ليكن ان كى سب سے بڑى غلطى يہ تھى كہ انھوں نے شخصيت كے مفہوم اور معيار كو اچھى طرح نہيں پہچانا تھا_ان كے نزديك شخصيت كا معيارمال و دولت لباس اور گھر اور خوبصورت اور قيمتى سوارى تھا ليكن طہارت،تقوى ،حق جوئي جيسے اعلى انسانى صفات سے غافل تھے جو غريبوں ميں زيادہ اور اميروں ميں كم پائي جاتى ہيں _

طبقاتى اونچ نيچ بدترين صورت ميں ان كى افكار پر حكم فرما تھي_ اسى لئے وہ غريب لوگوں كو''اراذل''، ذليلسمجھتے تھے_

اور اگر وہ طبقاتى معاشرے كے قيد خانے سے باہر نكل كر سوچتے اور باہر كى دنيا كو اپنى آنكھوں سے ديكھتے تو انھيں معلوم ہوجاتا كہ ايسے لوگوں كا ايمان اس پيغمبر كى حقانيت اور اس كى دعوت كى سچائي پر بذات خود ايك دليل ہے_

اور يہ جو انہيں ''بادى الرا ى ''(ظاہر بين بے مطالعہ اور وہ شخص جو پہلى نظر ميں كسى چيز كا عاشق اور خواہاں ہوتا ہے ) ;كا نام ديا ہے حقيقت ميں اس بناء پر ہے كہ وہ ہٹ دھرمى اور غير مناسب تعصبات جو دوسروں ميں تھے وہ نہيں ركھتے تھے بلكہ زيادہ تر پاك دل نوجوان تھے جوحقيقت كى پہلى كرن كو جوان كے دل پر پڑتى تھى جلدى محسوس كرليتے تھے وہ اس بيدارى كے ساتھ جو كہ حق كى تلاش سے حاصل ہوتى ہے ،صداقت كى

۴۴

نشانياں ،انبياء كے اقوال وافعال كا ادراك كرليتے تھے _(۱)

ان كاتيسرا اعتراض يہ تھا كہ قطع نظر اس سے كہ تو انسان ہے نہ كہ فرشتہ ، علاوہ ازيں تجھ پر ايمان لانے والے نشاندہى كرتے ہيں كہ تيرى دعوت كے مشتملات صحيح نہيں ہيں ''اصولى طور پر تم ہم پر كسى قسم كى برترى نہيں ركھتے كہ جس كى بناء پر ہم تمہارى پيروى كريں ''_(۲) ''لہذا ہم گمان كرتے ہيں كہ تم جھوٹے ہو''_(۳)

حضرت نوح عليہ السلام كے جوابات

قرآن ميں ان بہانہ جو اورا فسانہ ساز افراد كو حضرت نوح(ع) كى طرف سے ديئے گئے جوابات ذكركيے گئے ہيں پہلے ارشاد ہوتا ہے:

اے قوم :'' ميں اپنے پرورد گار كى طرف سے واضح دليل اور معجزہ كا حامل ہوں اور اس نے اس رسالت وپيغام كى انجام دہى كى وجہ سے اپنى رحمت ميرے شامل حال كى ہے اور يہ امر اگر عدم توجہ كى وجہ سے تم سے مخفى ہوتو كيا پھر بھى تم ميرى رسالت كا انكار كرسكتے ہو اور ميرى پيروى سے دست بردار ہوسكتے ہو''_(۴)

يہ جواب قوم نوح(ع) كے مستكبرين كے تين سوالوں ميں سے كس كے ساتھ مربوط ہے؟ مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے ليكن غور وخوض سے واضح ہو جاتا ہے كہ يہ جامع جواب تينوں اعتراضات كا جواب بن سكتا ہے كيونكہ ان كا پہلا اعتراض يہ تھا كہ تم انسان ہو آپ نے فرمايا يہ بجاہے كہ ميں تمہارى طرح كا ہى انسان ہوں ليكن اللہ تعالى كى رحمت ميرے شامل حال ہوئي ہے اور اس نے مجھے كھلى اورواضح نشانياں دى ہيں اس بناء پر ميرى انسانيت اس عظيم رسالت سے مانع نہيں ہوسكتى اور يہ ضرورى نہيں كہ ميں فرشتہ ہوتا _

ان كا دوسرا اعتراض يہ تھا كہ تہارے پيروكار بے فكر اور ظاہر بين افراد ہيں _آپ نے فرمايا تم بے فكر

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۲۷

(۲) سورہ ہود آيت ۲۷

(۳) سورہ ہود۲۷

(۴) سورہ ہو دآيت۲۸

۴۵

اور بے سمجھ ہو جو اس واضح حقيقت كا انكار كرتے ہوحالانكہ ميرے پاس ايسے دلائل موجود ہيں جو ہر حقيقت كے متلاشى انسان كے لئے كافى ہيں اور اسے قائل كرسكتے ہيں مگر تم جيسے افراد جو غرور ،خود خواہى ،تكبر اور جاہ طلبى كا پردہ اوڑھے ہوئے ہيں ان كى حقيقت بين آنكھ بيكار ہوچكى ہے _

ان كا تيسرا اعتراض يہ تھا كہ وہ كہتے تھے : ہم كوئي برترى اور فضيلت تمہارے لئے اپنى نسبت نہيں پاتے، آپ نے فرمايا: اس سے بالاتركون سى برترى ہوگى كہ خدانے اپنى رحمت ميرے شامل حال كى ہے اور واضح مدارك ودلائل ميرے اختيار ميں ديئے ہيں اس بناء پر ايسى كوئي وجہ نہيں كہ تم مجھے جھوٹا خيال كرو كيونكہ ميرى گفتگو كى نشانياں ظاہر ہيں _

''كيا ميں تمہيں اس ظاہر بظاہر بينہ كے قبول كرنے پر مجبور كرسكتا ہوں جبكہ تم خود اس پر آمادہ نہيں ہو اور اسے قبول كرنا بلكہ اس كے بارے ميں غوروفكر كرنا بھى پسند نہيں كرتے ہو'' _(۱)

ميں كسى صاحب ايمان كو نہيں دھتكارتا

''اے قوم :ميں اس دعوت كے بدلے تم سے مال وثروت اور اجرو جزا كا مطالبہ نہيں كرتا''_(۲)

يہ امراچھى طرح سے نشاندہى كرتاہے كہ اس پروگرام سے ميرا كوئي مادى ہدف نہيں ،ميں سوائے خدا كے معنوى وروحانى اجر كے سواكچھ بھى نہيں سوچتا اور كوئي جھوٹا مدعى ايسا نہيں ہوسكتا جو اس قسم كے سردرد ،ناراحتى اور بے آرامى كو يوں ہى اپنے لئے خريد لے اور يہ سچے رہبروں كى پہچان كے لئے ايك ميزان ہے،ان جھوٹے موقع پرستوں كے مقابلے ميں ، كہ وہ جب بھى كوئي قدم اٹھاتے ہيں بالواسطہ يابلا واسطہ طور پر اس سے ان كا كوئي نہ كوئي مادى ہدف اور مقصد ہوتا ہے _

اس كے بعد ان كے جواب ميں جنہيں اصرار تھا كہ حضرت نوح عليہ السلام، اپنے اوپر ايمان لانے والے غريب حقير اور كم عمر افراد كو خود سے دور كرديں حضرت نوح(ع) ( حتمى طور پر فيصلہ سناتے ہوئے )كہتے ہيں :

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۲۸

(۲)سورہ ہودميں ۲۹

۴۶

''كيونكہ وہ اپنے پروردگار سے ملاقات كريں گے اوردوسرے جہان ميں اس كے سامنے ميرے ساتھ ہوں گے''_(۱)

آخر ميں انہيں بتايا گيا ہے :'' ميں سمجھتا ہو ں كہ تم جاہل لوگ ہو''_(۲)

''اے قوم اگر ميں ان باايمان لوگوں كو دھتكاردوں تو خدا كے سامنے (اس عظيم عدالت ميں بلكہ اس جہان ميں ) كون ميرى مدد كرے گا ''_( ۳) ''كيا تم كچھ سوچتے سمجھتے نہيں ہو'' _(۴) جان لو كہ جو كچھ ميں كہتا ہوں عين حقيقت ہے_

خدائي خزانے ميرے قبضہ ميں نہيں ہيں

اپنى قوم كے مہمل اعتراضات كے جواب ميں حضرت نوح(ع) آخرى بات كہتے ہيں كہ اگر تم خيال كرتے ہو اور توقع ركھتے ہوكہ وحى اور اعجاز كے سواء ميں تم پر كوئي امتياز يا برترى ركھوں ،تو يہ غلط ہے ميں صراحت سے كہنا چاہتا ہوں ''ميں نہ تم سے كہتا ہوں كہ خدا ئي خزانے ميرے قبضے ميں ہيں اور نہ ہر كام جب چاہوں انجام دے سكتاہوں '' نہ ميں غيب سے آگاہى كا دعوى كرتا ہوں ''اور نہ ميں كہتا ہوں كہ ميں فرشتہ ہوں ''_(۵)

ايسے بڑے اور جھوٹے دعوے جھوٹے مدعيوں كے ساتھ مخصوص ہيں اور ايك سچا پيغمبر كبھى ايسے دعوے نہيں كرے گا كيونكہ خدائي خزانے اورعلم غيب صرف خدا كى پاك ذات كے اختيار ميں ہيں اور فرشتہ ہونا بھى ان بشرى احساسات سے مناسبت نہيں ركھتا لہذا جو شخص ان تين ميں سے كوئي ايك دعوى كرے يا يہ سب دعوے كرے تو يہ اس كے جھوٹے ہونے كى دليل ہے _

آخر ميں دوبارہ مستضعفين كا ذكر كرتے ہوئے تاكيد اََكہا گيا ہے ''ميں ہرگز ان افراد كے بارے

____________________

(۱)سورہ ہو دآيت۲۹

(۲) سورہ ہود ۲۹

(۳) سورہ ہو دآيت۳۰

(۴)سورہ ہود۳۰

(۵)سورہ ہو دآيت۳۱

۴۷

ميں جو تمہارى نگاہ ميں حقير ہيں ،نہيں كہہ سكتا كہ خدا انہيں كو ئي جزائے خير نہيں دے گا''(۱) بلكہ اس كے برعكس اس جہان اور اس جہان كى خير، انھيں كے لئے ہے اگر چہ ان كاہاتھ مال ودولت سے خالى ہے يہ تو تم ہو جنہوں نے خام خيالى كى وجہ سے خير كو مال ومقام يا سن وسال ميں منحصر سمجھ ليا ہے اور تم حقيقت سے بالكل بے خبر ہو _

اور بالفرض اگر تمہارى بات سچى ہو اور وہ پست اور اوباش ہوں تو خدا ان كے باطن سے آگا ہ ہے _

ميں تو ان ميں ايمان اور صداقت كے سوا كچھ نہيں پاتا ،لہذاميرى ذمہ دارى ہے كہ ميں انہيں قبول كرلوں ، ميں توظاہر پر مامور ہوں اور بندہ شناس خدا ہے _''اور اگر ميں اس كے علاوہ كچھ كروں تو يقينا ظالموں ميں سے ہو جائوں گا ''_(۲)

كہاں ہے عذاب ؟

قرآن ميں حضرت نوح عليہ السلام اور ان كى قوم كے درميا ن ہونے والى باقى گفتگو كى طرف اشارہ ہوا ہے قرآن ميں پہلے قوم نوح(ع) كى زبانى نقل ہے كہ انہوں نے كہا :

''اے نوح :تم نے يہ سب بحث وتكراراور مجادلہ كيا ہے اب بس كرو ،تم نے ہم سے بہت باتيں كى ہيں اب بحث مباحثے كى گنجائش نہيں رہي،''اگرسچے ہو تو خدائي عذابوں كے بارے ميں جو سخت وعدے تم نے ہم سے كئے ہيں انہيں پورا كردكھائو اور وہ عذاب لے آئو'_(۳)

يہ بعينہ اس طرح سے ہے كہ ايك شخص ياكچھ اشخاص كسى مسئلے كہ بارے ميں ہم سے بات كريں اور ضمناََہميں دھمكياں بھى ديں اور كہيں كہ اب زيادہ باتيں بند كرو اور جو كچھ تم كرسكتے ہو كرلو اور دير نہ كرو ،اس طرف اشارہ كرتے ہوئے كہ ہم نہ تو تمہارے دلائل كو كچھ سمجھتے ہيں نہ تمہارى دھميكوں سے ڈرتے ہيں اور نہ اس سے زيادہ ہم تمہارى بات سن سكتے ہيں _ انبيا ء الہى كے لطف ومحبت اور ان كى وہ گفتگو جو صاف وشفاف اور خوشگوار پانى كى طرح ہو تى ہے اس طرزعمل كا انتخاب انتہائي ہٹ دھرمى تعصب اور جہالت كى ترجمانى كرتا ہے_

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۳۱

(۲)سورہ ہو دآيت۳۱

(۳)سورہ ہو دآيت۳۲

۴۸

قوم نوح عليہ السلام كى اس گفتگو سے ضمناً يہ بھى اچھى طرح سے واضح ہوتاہے كہ آپ نے ان كى ہدايت كے لئے بہت طويل مدت تك كوشش كى اور انہيں ارشاد وہدايت كے لئے آپ نے ہرموقع سے استفادہ كيا، آپ نے اس قدر كوشش كى كہ اس گمراہ قوم نے آپ كى گفتار اور ارشادات پر اكتاہٹ كا اظہار كيا_

حضرت نوح عليہ السلام كے بارے ميں قرآن حكيم ميں جوديگر تفصيل آئي ہے اس سے بھى يہ حقيقت اچھى طرح سے واضح ہوتى ہے ، يہ مفہوم تفصيلى طور پر بيان ہوا ہے:'' پروردگارا : ميں نے اپنى قوم كو دن رات تيرى طرف بلايا ليكن ميرى اس دعوت پر ان ميں فرار كے علاوہ كسى چيزكا اضافہ نہيں ہوا ميں نے جب انہيں پكارا تاكہ تو انہيں بخش دے، توانہوں نے اپنى انگلياں اپنے كانوں ميں ٹھونس ليں اور اپنے لباس اپنے اوپر لپيٹ لئے انہوں نے مخالفت پر اصراركيا اورغرور تكبركا مظاہرہ كيا ميں نے پھر بھى انہيں دعوت دى ،ميں نے پيہم اصرار كيا مگر انہوں نے كسى طرح بھى ميرى باتوں كى طرف كان نہ دھرے ''_(۱)

حضرت نوح عليہ السلام نے اس بے اعتنائي، ہٹ دھرمى اوربے ہودگى كا يہ مختصر جواب ديا : خدا ہى چاہے تو ان دھمكيوں اور عذاب كے وعدوں كو پورا كرسكتا ہے ''_(۲)

ليكن بہرحال يہ چيز ميرے اختيار سے باہر ہے اور ميرے قبضہ قدرت ميں نہيں ہے ميں تو اس كا رسول ہوں اور اس كے حكم كے سامنے تسليم ہوں ، لہذا سزا اور عذاب كى خواہش مجھ سے نہ كر و، ليكن يہ جان لو كہ جب عذاب كا حكم آپہنچے گاتو پھر تم اس كے احاطہ قدرت سے نكل نہيں سكتے اور كسى پناہ گا ہ كى طرف فرار نہيں كر سكتے '' _(۳)

معاشرے كو پاك كرنے كا مرحلہ

قرآن مجيد ميں حضرت نوح(ع) كى سرگذشت بيان ہوئي ہے اس كے در حقيقت مختلف مراحل ہيں ان

____________________

(۱) نوح آيات ۵ تا۱۳

(۲)سورہ ہو دآيت۳۳

(۳) سورہ ہو دآيت۳۳

۴۹

ميں سے ہرمرحلہ متكبرين كے خلاف حضرت نوح كے قيام كے ايك دور سے مربوط ہے پہلے حضرت نوح(ع) كى مسلسل اور پر عزم دعوت كے مرحلے كا تذكرہ تھا جس كے لئے انہوں نے تمام تروسائل سے استفادہ كيا يہ مرحلہ ايك طويل مدت پر مشتمل تھا اس ميں ايك چھوٹا ساگروہ آپ پر ايمان لايا، يہ گروہ ويسے تو مختصر ساتھا ليكن كيفيت اور استقامت كے لحاظ سے بہت عظيم تھا _

قرآن ميں اس قيام كے دوسرے مرحلے كى طرف اشارہ كيا گيا ہے يہ مرحلہ دور تبليغ كے اختتام كا تھا جس ميں خدا كى طرف سے معاشرے كوبرے لوگوں سے پاك كرنے كى تيارى كى جانا تھى پہلے قرآن ميں ارشاد ہوتاہے_ ''نوح(ع) كو وحى ہوئي كہ جو افراد ايمان لاچكے ہيں ان كے علاوہ تيرى قوم ميں سے كوئي ايمان نہيں لائے گا ''_(۱)

يہ اس طرف اشارہ ہے كہ صفيں بالكل جدا ہو چكى ہيں ، اب ايمان اوراصلاح كى دعوت كا كوئي فائدئہ نہيں اور اب معاشرے كى پاكيز گى اور آخرى انقلاب كے لئے تيار ہو جانا چاہئے اس گفتگو كے آخر ميں حضرت نوح كى تسلى اور دلجوئي كے لئے فرمايا گياہے :''اب جب معاملہ يوں ہے تو جو كام تم انجام دے رہے ہو اس پر كوئي حزن وملال نہ كرو''_(۲)

مربوطآيت سے ضمنى طور پر معلوم ہوتا ہے كہ اللہ اسرار غيب كا كچھ حصہ جہاں ضرورى ہوتا ہے اپنے پيغمبر كے اختيار ميں دے ديتا ہے جيسا كہ حضرت نوح عليہ السلام كو خبر دى گئي ہے كہ آئندہ ان ميں سے كوئي اور شخص ايمان نہيں لائے گا ،بہر حال ان گناہگار اور ہٹ دھرم لوگوں كو سزا ملنى چاہئے ، ايسى سزا جو عالم ہستى كو ان كے وجود كى گندگى سے پاك كردے اور مومنين كو ہميشہ كے لئے ان كے چنگل سے نجات دےدے، ان كے غرق ہونے كا حكم ہوچكا ہے ليكن ہر چيز كے لئے كچھ وسائل واسباب ہوتے ہيں لہذا نوح كو چاہئے كہ وہ سچے مومنين كے بچنے كے لئے ايك مناسب كشتى بنائيں تاكہ ايك تو مومنين كشتى بننے كى اس مدت ميں اپنے طريق كار ميں پختہ تر ہوجائيں اور دوسروں كے لئے بھى كا فى اتمام حجت ہوجائے _

____________________

(۱)سورہ ہو دآيت۲۱

(۲)سورہ ہو دآيت۳

۵۰

كشتى نوح عليہ السلام

''ہم نے نوح عليہ السلام كو حكم ديا كہ وہ ہمارے حضور ميں اور ہمارے فرمان كے مطابق كشتى بنائيں ''_(۱)

لفظ (وحينا) سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ حضرت نوح كشتى بنانے كى كيفيت اور اس كى شكل وصورت كى تشكيل بھى حكم خدا سے سيكھ رہے تھے اور ايساہى ہونا چاہئے تھا كيونكہ حضرت نوح آنے والے طوفان اور اس كى كيفيت ووسعت سے آگا ہ نہ تھے كہ وہ كشتى اس مناسبت سے بنا تے اور يہ وحى الہى ہى تھى جو بہترين كيفيتوں كے انتخاب ميں ان كى مدد گار تھى _

آخر ميں حضرت نوح عليہ السلام كو خبردار كيا گيا ہے :'' آج كے بعد ظالم افراد كے لئے شفاعت اور معافى كا تقاضانہ كرنا كيونكہ انہيں عذاب دينے كا فيصلہ ہوچكا ہے اور وہ حتماَ غرق ہوجائيں گے''_(۲)

كشتى بنارہے ہو دريابھى بنائو

اب چندجملے قوم نوح عليہ السلام كے بارے ميں بھى سن ليں :وہ بجائے اس كے كہ ايك لمحہ كے لئے حضرت نوح(ع) كى دعوت كو غور سے سنتے ، اسے سنجيدگى سے ليتے اور كم ازكم انہيں يہ احتمال ہى ہوتا كہ ہو سكتا ہے كہ حضرت نوح كے بار باركے اصرار اور تكرار دعوت كا سر چشمہ وحى الہى ہى ہو اور ہو سكتا ہے طوفان اور عذاب كا معاملہ حتمى اور يقينى ہى ہو، الٹا انہوں نے تمام مستكبر اور مغرور افراد كى عادت كا مظاہرہ كيا اور تمسخرواستہزاء كا سلسلہ جارى ركھا _ ان كى قوم كا كوئي گروہ جب كبھى ان كے نزديك سے گزرتا اور حضر ت نوح اور ان كے اصحاب كو لكڑياں اور ميخيں وغيرہ مہيا كرتے ديكھتا اور كشتى بنانے ميں سرگرم عمل پاتا تو مذاق اڑاتا اور پھبتياں كستے ہوئے گزر جاتا ''_(۳)

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۳۷

(۲) سورہ ہو دآيت۳۷

(۳)سورہ ہو دآيت۳۸

۵۱

كہتے ہيں كہ قوم نوح عليہ السلام كے اشراف كے مختلف گروہوں كے ہردستے نے تمسخر اور تفريح وطبع كے لئے اپناہى ايك انداز اختيار كرركھا تھا _

ايك كہتاتھا:''اے نوح(ع) دعوائے پيغمبرى كا كاروبار نہيں چل سكا تو بڑھئي بن گئے، دوسرا كہتا تھا :كشتى بنا رہے ہو؟ بڑا اچھا ہے البتہ كشتى كے لئے دريا بھى بنائو، كبھى كوئي عقلمندديكھا ہے جو خشكى كے بيچ ميں كشتى بنائے؟

ان ميں سے كچھ كہتے تھے : اتنى بڑى كشتى كس لئے بنارہے ہو اگر كشتى بنانا ہى ہے تو ذرا چھوٹى بنالو جسے ضرورت پڑے تو دريا كى طرف لے جانا تو ممكن ہو _

ايسى باتيں كرتے تھے اور قہقہے لگا كرہنستے ہوئے گزر جاتے تھے يہ باتيں گھروں ميں ہوتيں _كام كاج كے مراكز ميں يہ گفتگو ہوتيں گويا اب بحثوں كا عنوان بن گئي وہ ايك دوسرے سے حضرت نوح اور ان كے پيروكاروں كى كوتاہ فكرى كے بارے ميں باتيں كرتے اور كہتے : اس بوڑھے كو ديكھو آخر عمر ميں كس حالت كو جاپہنچا ہے اب ہم سمجھے كہ اگر ہم اس كى باتوں پر ايمان نہيں لائے تو ہم نے ٹھيك ہى كيا اس كى عقل تو بالكل ٹھكانے نہيں ہے _

دوسرى طرف حضرت نوح عليہ السلام بڑى ا ستقامت اور پامردى سے اپناكام بے پناہ عزم كے ساتھ جارى ركھے ہوئے تھے اور يہ ان كے ايمان كانتيجہ تھا وہ ان كو رباطن دل كے اندھوں كى بے بنياد باتوں سے بے نيازاپنى پسند كے مطابق تيزى سے پيشرفت كررہے تھے اور دن بدن كشتى كا ڈھانچہ مكمل ہو رہا تھا كبھى كبھى سراٹھا كران سے يہ پرمعنى بات كہتے: ''اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو توہم بھى جلدى ہى اسى طرح تمہارا مذاق اڑائيں گے''_(۱)

وہ دن كہ جب تم طوفان كے درميان سرگرداں ہوكر ،سراسيمہ ہوكر ادھر ادھر بھاگو گے اور تمہيں كوئي پناہ گاہ نہيں ملے گى موجوں ميں گھرے فرياد كرو گے كہ ہميں بچالو جى ہاں اس روز مومنين تمہارى غفلت اور

____________________

(۱)سورہ ہود ايت۳۸

۵۲

جہالت پر مذاق اڑائيں گے''اس روز ديكھنا كہ كس كے لئے ذليل اور رسوا كرنے والا عذاب آتا ہے اور كسے دائمى سزا دامن گير ہوتى ہے ''_(۱)

اس ميں شك نہيں كہ كشتى نوح كوئي عام كشتى نہ تھى كيونكہ اس ميں سچے مو منين كے علاوہ ہر نسل كے جانور كو بھى جگہ ملى تھى اور ايك مدت كے لئے ان انسانوں اور جانوروں كو جو خوراك دركار تھى وہ بھى اس ميں موجود تھى ايسى لمبى چوڑى كشتى يقينا اس زمانے ميں بے نظير تھى يہ ايسى كشتى تھى جو ايسے دريا كى كوہ پيكر موجود ميں صحيح وسالم رہ سكے اور نابود نہ ہو جس كى وسعت اس دنيا جتنى ہو، اسى لئے مفسرين كى بعض روايات ميں ہے كہ اس كشتى كا طول ايك ہزار دو سو ذراع تھااور عرض چھ سو ذراع تھا (ايك ذراع كى لمبائي تقريباََآدھے ميڑكے برابر ہے ) _

بعض اسلامى روايات ميں ہے كہ ظہور طوفان سے چاليس سال پہلے قوم نوح(ع) كى عورتوں ميں ايك ايسى بيمارى پيدا ہو گئي تھى كہ ان كے يہاں كوئي بچہ پيدا نہيں ہوتا تھا يہ دراصل ان كے لئے سزا كى تمہيد تھى _

آغاز طوفان

گزشتہ صفحات ميں ہم نے ديكھا ہے كہ كس طرح حضرت نوح عليہ السلام اور سچے مومنين نے كشتى نجات بنانا شروع كى اور انہيں كيسى كيسى مشكلات آئيں اور بے ايمان مغرور اكثريت نے كس طرح ان كا تمسخراڑايا اس طرح تمسخر اڑانے والوں نے كس طرح اپنے آپ كو اس طوفان كے لئے تياركيا جو سطح زمين كو بے ايمان مستكبرين كے منحوس وجود سے پاك كرنے والا تھا _

يہاں پر اس سرگزشت كے تيسرے مرحلے كے بارے ميں قرآن گويا اس ظالم قوم پر نزول عذاب كى بولتى ہوئي تصوير كو لوگوں كے سامنے پيش كررہا ہے _

پہلے ارشاد ہوتا ہے :''يہ صورت حال يونہى تھى يہاں تك كہ ہماراحكم صا در ہوا اور عذاب كے آثار

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۳۹

۵۳

ظاہر ہونا شروع ہوگئے پانى تنور كے اندر سے جو ش ما رنے لگا''_(۱)

اس بار ے ميں كہ طوفان كے نزديك ہونے سے تنور سے پانى كا جوش مارنا كيامناسبت ركھتا ہے مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے_(۲)

موجودہ احتمالات ميں سے يہ احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے كہ يہاں '' تنور'' اپنے حقيقى اور مشہور معنى ميں آيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد كوئي خاص تنور بھى نہ ہو بلكہ ممكن ہے كہ اس سے يہ نكتہ بيان كرنا مقصود ہوكہ تنور جو عام طوپر آگ كا مركزہے جب اس ميں سے پانى جوش مارنے لگا تو حضرت نوح اور ان كے اصحاب متوجہ ہوئے كہ حالات تيزى سے بدل رہے ہيں اور انقلاب قريب تر ہے يعنى كہاں آگ اور كہاں پانى بالفاظ ديگر جب انہوں نے يہ ديكھا كہ زيرزمين پانى كى سطح اس قدراوپر آگئي ہے كہ وہ تنور كے اندر سے جو عام طور پر خشك ،محفوظ اور اونچى جگہ بنايا جاتا ہے ، جوش ماررہا ہے تو وہ سمجھ گئے كہ كوئي اہم امر درپيش ہے اور قدرت كى طرف سے كسى نئے حادثے كاظہور ہے _ اور يہى امر حضرت نوح اور ان كے اصحاب كے لئے خطرے كا الارم تھا كہ وہ اٹھ كر كھڑے ہوں اور تيار رہيں _

شايد غافل اور جاہل قوم نے بھى اپنے گھر وں كے تنور ميں پانى كو جوش مارتے ديكھا ہو بہرحال وہ ہميشہ كى طرح خطرے كے ان پر معنى خدائي نشانات سے آنكھ كان بند كيے گزرگئے يہاں تك كہ انہوں نے اپنے آپ كو ايك لمحہ كے لئے بھى غور وفكر كى زحمت نہ دى كہ شايد شرف تكوين ميں كوئي حادثہ پوشيدہ ہواور شايد حضرت نوح(ع) جن واقعات كى خبر ديتے تھے ان ميں سچائي ہو _

____________________

(۱)سورہ ہو دآيت۳۰

(۲) بعض نے كہا ہے كہ تنور سے پانى كا جوش مارنا خدا كى طرف سے حضرت نوح كے لئے ايك نشانى تھى تاكہ وہ اصل واقعہ كى طرف متوجہ ہوں اور اس موقع پروہ اور ان كے اصحاب ضرورى اسباب ووسائل لے كر كشتى ميں سوار ہوجائيں بعض نے كہا ہے كہ يہاں ''تنور'' مجازى اور كنائي معنى ميں ہے جو اس طرف اشارہ ہے كہ غضب الہى كے تنورميں جوش پيدا ہوا اوروہ شعلہ ورہوا اوريہ تباہ كن خدائي عذاب كے نزيك ہونے كے معنى ميں ہے ايسى تعبير فارسى اور عربى زبان ميں استعمال ہوتى ہيں كہ شدت غضب كو آگ كے جوش مارنے اور شعلہ ور ہونے سے تشبيہ دى جاتى ہے _

۵۴

اس وقت نوح(ع) كو ''ہم نے حكم ديا كہ جانوروں كى ہرنوع ميں سے ايك جفت (نراور مادہ كا جوڑا) كشتى ميں سوار كرلو '' _تاكہ غرقاب ہو كر ان كى نسل منقطع نہ ہوجائے _

اور اسى طرح اپنے خاندان ميں سے جن كى ہلاكت كا پہلے سے وعدہ كيا جاچكا ہے ان كے سواباقى افرادكو سوار كرلو نيز مومنين كو كشتى ميں سوار كرلو ''_(۱)

نوح عليہ السلام كا بيٹابدكاروں كے ساتھ

رہا يہ قرآن ايك طرف حضرت نوح(ع) كى بے ايمان بيوى اور ان كے بيٹے كنعان كى طرف اشارہ كرتا ہے جن كى داستان آئندہ صفحات ميں آئے گى جنہوں نے راہ ايمان سے انحراف كيا اور گنہگاروں كا ساتھ دينے كى وجہ سے حضرت نوح سے اپنا رشتہ توڑليا وہ اس كشتى نجات ميں سوار ہونے كا حق نہيں ركھتے تھے كيونكہ اس ميں سوار ہونے كى پہلى شرط ايمان تھى _

دوسرى طرف يہ قرآن اس جانب اشارہ كرتاہے كہ حضرت نوح نے جو اپنے دين وآئين كى تبليغ كے لئے سالہاسال بہت طويل اور مسلسل كوشش كى اس كا نتيجہ بہت تھوڑے سے افراد مومنين كے سوا كچھ نہ تھا بعض روايات كے مطابق ان كى تعداد صرف اسي(۸۰) افرادتھى يہاں تك كہ بعض نے تو اس سے بھى كم تعداد لكھى ہے اس سے پتہ چلتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر نے كس حد تك استقامت اور پامردى كا مظاہرہ كيا ہے كہ ان ميں سے ايك ايك فرد كے لئے اوسطاََ كم از كم د س سال زحمت اٹھائي اتنى زحمت تو عام لوگ اپنى اولاد تك كى ہدايت اورنجات كے لئے نہيں اٹھاتے _

اللہ كا نام لے كركشتى پرسوارہوجائو

بہرحال حضرت نوح(ع) نے جلدى سے اپنے وابستہ صاحب ا يمان افراد اور اصحاب كوجمع كيا اورچونكہ طوفان اور تباہ كن خدائي عذابوں كا مرحلہ نزديك آرہا تھا ،''انہيں حكم دياكہ خدا كے نام سے كشتى پرسوار ہوجائو

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۴۰

۵۵

اور كشتى كے چلتے اور ٹھہرتے وقت خدا كا نام زبان پر جارى كرو اور اس كى ياد ميں رہو''_(۱)

بالآخرآخرى مرحلہ آپہنچا اور اس سر كش قوم كے لئے عذاب اورسزا كافرمان صادرہوا تيرہ وتار بادل جو سياہ رات كے ٹكڑوں كى طرح تھے سارے آسمان پرچھا گئے اور اس طرح ايك دوسرے پرتہ بہ تہ ہوئے كہ جس كى نظيراس سے پہلے نہيں ديكھى گئي تھى پے درپے سخت بادل گرجتے خيرہ كن بجلياں پورے آسمان پر كوندتيں آسمانى فضاگويا ايك بہت بڑے وحشتناك حادثے كى خبردے رہى تھى _

بارش شروع ہوگئي اور پھر تيزسے تيزترہوتى چلى گئي بارش كے قطرے موٹے سے موٹے ہوتے چلے گئے جيسا كہ قرآ ن كہتاہے :

''گويا آسمان كے تمام دروازے كھل گئے اورپانى كا ايك سمندر ان كے اندرسے نيچے گرنے لگا''_(۲)

دوسرى طرف زير زمين پانى كى سطح اس قدر بلند ہوگئي كہ ہر طرف سے پرجوش چشمے ابل پڑے، يوں زمين وآسمان كا پانى آپس ميں مل گيا اور زمين ،پہاڑ،دشت ،بيابان اور درہ غرض ہر جگہ پانى جارى ہوگيا بہت جلد زمين كى سطح ايك سمندر كى صورت اختيار كرگئي تيز ہوا ئيں چلنے لگيں جن كى وجہ سے پانى كى كوہ پيكر موجيں امنڈنے لگيں اس عالم ميں ''كشتى نوح كوہ پيكر موجوں كا سينہ چيرتے ہوئے آگے بڑھ رہى تھى ''_(۳)

پسر نوح كا درد ناك انجام

پسر نوح(ع) ايك طرف اپنے باپ سے الگ كھڑا تھا نوح(ع) نے پكارا: ''ميرے بيٹے،ہمارے ساتھ سوارہوجائو اور كافروں كے ساتھ نہ ہوورنہ فناہوجائوگے ''_(۴)

پيغمبر بزر گوارحضرت نوح(ع) نے نہ صرف باپ كى حيثيت سے بلكہ ايك انتھك پر اميد مربى كے طور پر

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت ۴۱

(۲) سورہ قمر آيت۱۱

(۳) سورہ ہودآيت ۴۲

(۴) سورہ ہو دآيت۴۳

۵۶

آخرى لمحے تك اپنى ذمہ دارى سے دست بردارى نہ كى ،اس اميدپر كہ شايد ان كى بات سنگدل بيٹے پر اثر كرجائے ليكن افسوس كہ برے ساتھى كى بات اس كے لئے زيادہ پرتاثير تھى لہذا دلسوز باپ كى گفتگو اپنا مطلوبہ اثر نہ كرسكي، وہ ہٹ دھرم اور كوتاہ فكر تھا اسے گمان تھا كہ غضب خداكا مقابلہ بھى كيا جاسكتا تھا اس لئے اس نے پكار كركہا :'' اباميرے لئے جوش ميں نہ آئو ميں عنقريب پہاڑپر پناہ لے لوں گا جس تك يہ سيلاب نہيں پہنچ سكتا''_(۱)

نوح(ع) پھربھى مايوس نہ ہوئے دوبارہ نصيحت كرنے لگے كہ شايد كوتاہ فكر بيٹا غرور اور خود سرى كے مركب سے اترآئے اور راہ حق پرچلنے لگے_انہوں نے كہا :''ميرے بيٹے آج حكم خدا كے مقابلے ميں كوئي طاقت پناہ نہيں دے سكتى ،نجات صرف اس شخص كے لئے ہے رحمت خدا جس كے شامل حال ہو ''_(۲) پہاڑتو معمولى سى چيزہے خود كرہ ارض بھى معمولى سى چيز ہے سورج اور تمام نظام شمسى اپنے خيرہ كن عظمت كے باوجود خدا كى قدرت لايزال كے سامنے ذرئہ بے مقدار سے زيادہ حيثيت نہيں ركھتا _

اسى دوران ايك موج اٹھى اور آگے آئي،مزيد آگے بڑھى اور پسر نوح كو ايك تنكے كى طرح اس كى جگہ سے اٹھايا اوراپنے اندر درہم برہم كرديا،''اور باپ بيٹے كے درميان جدائي ڈال دى اور اسے غرق ہونے والوں ميں شامل كرديا ''_(۳)

اے نوح عليہ السلام تمہارا بيٹا تمہارے اہل سے نہيں ہے

جب حضرت نوح(ع) نے اپنے بيٹے كو موجوں كے درميان ديكھا تو شفقت پدرى نے جوش مارا انہيں اپنے بيٹے كى نجات كے بارے ميں وعدہ الہى ياد آيا انہوں نے درگاہ الہى كا رخ كيا اور كہا :''پروردگار ا ميرا بيٹا ميرے اہل اور ميرے خاندان ميں سے ہے اور تو نے وعدہ فرماياتھا كہ ميرے خاندان كو طوفان اور ہلاكت سے نجات دے گا اور تو تمام حكم كرنے والوں سے برترہے اور تو ايفائے عہد كرنے ميں محكم ترہے ''_(۴)

____________________

(۱)سورہ ہو دآيت۴۳

(۲) سورہ ہو دآيت۴۳

(۳) سورہ ہو دآيت۴۳

(۴) سورہ ہو دآيت۴۵

۵۷

يہ وعدہ اسى چيز كى طرف اشارہ ہے جو سورہ ہود ميں موجود ہے جہاں فرمايا گيا ہے :

''ہم نے نوح(ع) كو حكم ديا كہ جانوروں كى ہر نوع ميں سے ايك جوڑا كشتى ميں سوار كرلو اور اسى طرح اپنے خاندان كو سوائے اس شخص كے جس كى نابودى كے لئے فرمان خدا جارى ہوچكا ہے ''_(۱)

حضرت نوح(ع) نے خيال كيا كہ ''سوائے اس كے كہ جس كى نابود ى كے لئے فرمان خدا جارى ہوچكا ہے ،اس سے مرادصرف ان كى بے ايمان اور مشرك بيوى ہے اور ان كا بيٹا كنعان اس ميں شامل نہيں ہے لہذاانہوں نے بارگاہ خداوندى ميں ايسا تقاضاكيا ليكن فورا ًجواب ملا (ہلادينے والا جواب اور ايك عظيم حقيقت واضح كرنے والا جواب )''اے نوح وہ تيرے اہل اور خاندان ميں سے نہيں ہے ،بلكہ وہ غيرصالح عمل ہے''_(۲)

وہ نالائق شخص ہے اور تجھ سے مكتبى اور مذہبى رشتہ ٹوٹنے كى وجہ سے خاندانى رشتے كى كوئي حيثيت نہيں رہي_

''اب جبكہ ايسا ہے تو مجھ سے ايسى چيزكا تقاضانہ كر جس كے بارے ميں تجھے علم نہيں ،ميں تجھے نصيحت كرتا ہوں كہ جاہلوں ميں سے نہ ہوجا ''_(۳)

حضرت نوح(ع) سمجھ گئے كہ يہ تقاضا بارگاہ الہى ميں صحيح نہ تھا اور ايسے بيٹے كى نجات كو خاندان كى نجات كے بارے ميں خدا كے وعدے ميں شامل نہيں سمجھنا چاہئے تھا لہذا آپ نے پروردگار كا رخ كيا اور كہا :

''پروردگار ا : ميں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس امر سے تجھ سے كسى ايسى چيز كى خواہش كروں جس كا علم مجھے نہيں ،اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور اپنى رحمت ميرے شامل حال نہ كى تو ميں زياں كاروں ميں سے ہوجائوں گا ''_(۴)

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۴۰

(۲) سورہ ہو دآيت۴۶

(۳)سورہ ہو دآيت۴۶

(۴)سورہ ہو دآيت۴۷

۵۸

اس داستان كا اختتام

آخركار پانى كى ٹھاٹھيں مارتى ہوئي لہروں نے تمام جگہوں كو گھيرليا پانى كى سطح بلند سے بلند تر ہوتى چلى گئي جاہل گنہگاروں نے يہ گمان كيا كہ يہ ايك معمولى سا طوفان ہے وہ اونچى جگہوں اور پہاڑوں پر پناہ گزين ہو جائيں گے، ليكن پانى ان كے اوپر سے بھى گزر گيا اور تمام جگہيں پانى كے نيچے چھپ گئيں ان طغيان گروں كے جسم ،ان كے بچے كچے، گھراور زندگى كا سازوسامان پانى كى جھاگ ميں نظر آرہا تھا _

حضرت نوح(ع) نے زمام كشتى خدا كے ہاتھ ميں دى موجيں كشتى كوادھر سے ادھرلےجاتى تھيں روايات ميں آيا ہے كہ كشتى پورے چھ ماہ سرگرداں رہى يہ مدت ابتدائے ماہ رجب سے لے كر ذى الحجہ كے اختتام تك تھى ايك اورروايت كے مطابق دس رجب سے لے كر روزعاشورہ تك كشتى پانى كى موجوں ميں سرگرداں رہي_

اس دوران كشتى نے مختلف علاقوں كى سيركى يہاں تك كہ بعض روايات كے مطابق سرزمين مكہ اور خانہ كعبہ كے اطراف كى بھى سيركي، آخر كارعذاب كے خاتمے كا اور زمين كے معمول كى حالت ميں لوٹ آنے كا حكم صادر ہوا ،قران ميں اس فرمان كى كيفيت ،جزئيات اور نتيجہ بہت مختصر مگرانتہائي عمدہ اور جاذب وخوبصورت عبارت ميں چھ جملوں ميں بيان كيا گيا ہے : پہلے ارشاد ہوتا ہے :''حكم دياگيا كہ اے زمين:اپنا: پانى نگل جا،اورآسمان كو حكم ہوا'اے آسمان ہاتھ روك لے،،_

''پانى نيچے بيٹھ گيا ''

''اوركام ختم ہوگيا''

''اوركشتى كو ہ جو دى كے دامن سے آلگي'' _

''اس وقت كہا گيا : دور ہوظالم قوم ''_(۱)

____________________

(۱)سورہ ہودايت ۴۴

۵۹

مندر جہ بالا قرآنى تعبيرات مختصر ہوتے ہوئے بھى نہايت مو ثراوردلنشين ہيں ،يہ بولتى ہوئي زندہ تعبيرات ہيں اورتمام ترزيبائي كے باوجود ہلا دينے والى ہيں بعض علماء عرب كے بقول مذكورہ آيت قرآن ميں سے فصيح ترين اوربليغ ترين آيت ہے _(۱)

كوہ جودى كہاں ہے ؟

بہت سے مفسرين نے كہا ہے كہ كو ہ جو دى جس كے كنارے كشتى نوح(ع) آكر لگى تھى اور جس كا ذكر قرآن ميں آيا ہے وہى مشہور پہاڑہے جو موصل كے قريب ہے ،بعض دوسرے مفسرين نے اسے حدود شام ميں يا '' آمد '' كے نزيك يا عراق كے شمالى پہاڑسمجھا ہے_

كتاب مفردات راغب نے كہا ہے كہ يہ وہ پہاڑ ہے جو موصل اور الجزيرہ كے درميان ہے ''الجزيرہ'' شمالى عراق ميں ايك جگہ ہے اور يہ ''الجزائر''يا ''الجزيرہ ''نہيں جو آج كل مشہور ہے ،بعيد نہيں كہ ان سب كى بازگشت ايك ہى طرف ہو كيونكہ موصل ،آمد اور الجزيرہ سب عراق كے شمالى علاقوں ميں ہيں اور شام كے نزديك ہيں _بعض مفسرين نے يہ احتمال ظاہر كيا ہے كہ جودى سے مراد ہر مضبوط پہاڑ اور محكم زمين ہے، يعنى كشتى نوح ايك محكم زمين پر لنگر انداز ہوئي جو اس كى سواريوں كے اترنے كے لئے مناسب تھى ليكن مشہور معروف وہى پہلا معنى ہے(۲)

____________________

(۱)روايات اور تو اريخ ميں اس كى شہادت موجود ہے، لكھا ہے : كچھ كفارقريش قرآن سے مقابلے كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے انہوں نے مصمم ارادہ كرليا كہ قرآنى آيات جيسى كچھ آيات گھڑيں ان سے تعلق ركھنے والوں نے انہيں چاليس دن تك بہترين غذائيں مہيا كيں ،مشروبات فراہم كيے اور ان كى ہر فرمائش پورى كى خالص گندم كا ميدہ ،بكرے كا گوشت ،پرانى شراب غرض سب كچھ انہيں لاكر ديا تا كہ وہ آرام وراحت كے ساتھ قرآنى آيات جيسے جملوں كى تركيب بندى كريں ليكن جب وہ مذكورہ آيت تك پہنچے تو اس نے انہيں اس طرح سے ہلاكر ركھ ديا كہ انہوں نے ايك دوسرے كى طرف ديكھ كركہا كہ يہ ايسى گفتگو ہے كوئي كلام اس سے مشا بہت نہيں ركھتا ،يہ كہہ كر انہوں نے اپناہ ارادہ ترك كرديا اور مايوس ہوكر ادھر ادھرچلے گئے _

(۲)مزيد نفصيلات كے لئے رجوع كريں تفسير نمونہ جلد۵ ۲۶۹

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سیف کی داستان کے نتائج

١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔

٤۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔

مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ

عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔

٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔

٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔

٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔

٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں ۔

۸۱

مصادر و مآخذ

عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں ' ق/١

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١

٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔

٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

۸۲

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی داستان

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١

۸۳

انتیسواں جعلی صحابی کبیس بن ہوذہ سدوسی

اس صحابی کا نام و نسب:

'' استیعاب'' ، '' اصابہ'' اور '' تجرید'' میں اس صحابی کا نام '' کبیس بن ھوذہ '' لکھا گیا ہے۔

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اسی نام کو درج کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شاہین'' کے ایک قدیمی نسخہ میں یہ نام '' کنیس'' ثبت ہوا ہے۔

ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ'' کے قلمی نسخہ میں یہ نام '' کبیش بن ہودہ '' درج ہوا ہے اور ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی نام کو قبول کرکے '' ابن مندہ کی پیروی کی ہے۔

اس صحابی کا نسب: '' اسماء الصحابہ'' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں لکھا گیا ہے کہ سیف بن عمر نے اس صحابی کا تعارف ' ' خاندان ِ بنی بکر و ائل عدنانی '' کے قبیلۂ بنی حارث بن سدوس '' سے کرایا ہے۔

ابن حزم نے اپنی کتاب '' جمہرہ'' میں بنی حارث کے ایک گروہ کے حالات کی تشریح کی ہے ، لیکن ان میں '' کبیس'' یا '' کنیس''یا '' کبیش'' نام کا کوئی صحابی اور '' ھوذہ '' یا '' ھودہ'' نام کا کوئی باپ ۔

'' سمعانی'' نے بنی حارث بن سدوس کے ایک گروہ کا نام لفظ السدوسی '' میں لیا ہے لیکن ان باپ بیٹوں کا کہیں نام بھی نہیں لیا ہے۔

۸۴

کبیس بن ہوذہ کی داستان :

ابن عبدا لبر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کے بارے میں صرف اتنا لکھتا ہے کہ:

'' ایاد بن لقیط نے اس سے روایت کی ہے ''

اس کے بعد کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اس کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے ۔

ابن مندہ اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں اپنے ہی اسناد سے لکھتا ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ بن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سدوسی سے اس نے بنی حارث بن سدوس کے ایک شخص کبیش بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیش پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے کچھ فرمان مرقوم فرمائے ہیں ۔

اس داستان کے آخرمیں ابن مندہ اظہار نظر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شبرمہ کی یہ حدیث حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے''

ابن اثیر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں مذکورہ داستان کو درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یوں اضافہ کرتا ہے :

اس مطلب کو تین مصادر ( ب ۔ ع ۔ د ) ١

____________________

١۔ ''ب''کتاب ''استیعاب'' کے مصنف ابن عبدالبر ''ع'' : ابو نعیم ، کتاب '' معرفة الصحابہ '' کے مصنف ، ابو نعیم ، حافظ احمد بن عبد اﷲ بن احمد اصفہانی ( ٣٦٠ ۔ ٤٣٠ھ)

''د'' : ابن مندہ ، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ ،محمد بن اسحاق اصفہانی ، جس نے احادیث کی جستجو میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے ۔ اس کی تالیفات میں سے '' اسماء الصحابہ '' ہے جو خاص طور سے ابن اثیر کی توجہ کا مرکز تھی۔

۸۵

نے ذکر کیا ہے۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید '' میں لکھا ہے :

سیف نے '' ایاد بن لقیط '' سے نقل کیا ہے کہ '' کبیس'' اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔( ب ۔ ع۔ د)ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھا ہے :

ابن شاہین ١ اور ابن مندہ نے سیف بن عمر سے اس نے عبدا اﷲبن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سے اس نے کبیس بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر وہی مذکورہ داستان نقل کی ہے )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

یہ داستان صرف اسی طریقہ سے پہنچی ہے اور ابن مندہ نے بھی کہا ہے کہ : ابن شبرمہ کی یہ داستان تعجب خیزہے !!!

خلاصہ :

سیف نے اس حدیث میں کبیس بن ہوذہ کو بنی حارث بن سدوس کے ان صحابیوں میں سے خلق کیا ہے جن کے ہمراہ اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے ایک فرمان مرقوم فرمایا تھا۔ یہیں سے اس قسم کا نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی

____________________

١۔ ابن شاہین ، حافظ ابو حفص بن شاہین ، عمر بن احمد بن عثمان بغدادی ( ٢٩٧ ۔ ٣٨٥) ہے ۔ اس کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد چھتیس بتائی گئی ہے ، من جملہ کتاب '' معجم الشیوخ '' ہے جس میں سرکردہ روات حدیث شامل ہیں ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ' ' اصابہ '' میں اس کتاب سے نقل کیا ہے۔

۸۶

فہرست اور ''معجم الشیوخ '' کے سرکردہ راویوں میں قرار پاتا ہے اور اس کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خیالی خط ایک حقیقی اورمسلم سند کے طور پر کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں درج کیا جاتا ہے !!

ہم نے اس نمائندہ صحابی کو پہچاننے کیلئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں جیسے ، ابن سعد کی ''طبقات '' ابن ہشام کی '' سیرة'' بلاذری کی '' انساب الاشراف'' اور مقریزی کی '' امتاع الاسماع '' کے علاوہ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف وفود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں کہیں بھی '' کبیس'' کا نام نہیں دیکھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں کبیس کے نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی فرمان یا خط کا مشاہدہ نہیں کیا ! بلکہ ہم نے سیف کے اس خلق کردہ صحابی کو صرف سیف کی احادیث میں اور اس کے راویوں کے ہاں پایا۔

افسانۂ کبیس کے اسناد کی پڑتال

ہم نے کہا کہ کتاب '' استیعاب '' کے مصنف ابن عبد البر نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ابن مندہ نے کبیس کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اور ابن اثیر نے اسے تین مآخذ '' ب ۔ ع، د'' کی علامت کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید ''میں کبیس کی نمائندگی کو سیف کی روایت کے مطابق ایاد بن لقیط سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن اثیر کے مآخذ کی اختصاری علامت '' ب ، ع، د'' کی قید لگادی ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں داستان کبیس کو ابن مندہ اور ابن شاہین کے قول کے مطابق نقل کیا ہے۔

۸۷

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ ابن مندہ، ابن شبرمہ کی اس حدیث پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور ابن حجر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ داستان صرف اس سند کے علاوہ کسی اور راوی سے نہیں ملی ہے ، یعنی ابن شبرمہ تنہا شخص ہے جس نے یہ داستان بیان کی ہے۔ اس روایت کی تنہا سند '' ایاد بن لقیط '' ہے اور اس کا مرکزی کردار ''کبیس بن ہوذہ '' ہے !! یہی مسئلہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ مذکورہ دو دانشور ابن شبرمہ کی حدیث پر تعجب کا اظہار کریں جبکہ وہ اس امر سے غافل تھے کہ بیچارہ ابن شبرمہ کا کوئی قصور ہی نہیں ہے بلکہ اصلی مجرم اور قصوروار سیف بن عمر ہے جس نے جھوٹ گڑھ کر ابن شبرمہ کے سر تھوپا ہے !

کتاب '' تجرید'' میں ذہبی کی بات بھی ہمارے دعوے کو ثابت کرتی ہے جب وہ داستان کبیس بیان کرتے وقت کنایہ کے طور پر لکھتا ہے :

'' سیف کی روایت کی بناء پر ''

اس بنا پر سیف کی اس حدیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ عبد اللہ بن شبرمۂ ضبی کوفی ( ٧٢ ۔ ١٤٤ ھ )جو ان علماء کے نزدیک ثقہ اور ایک قابل اعتماد شخص تھا۔

٢۔ ایاد بن لقیط سدوسی : اسے تابعین کے چوتھے در جے میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی نظر میں ثقہ ہے۔

٣۔ بنی حرث بن سدوس سے خود کبیس بن ہوزہ ، چونکہ ہم نے اس کی داستان اور نام سیف اور اس کے راویوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا لہذا اس کو سیف کے جعلی اصحاب اور راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

داستان کبیس کا نتیجہ

١۔ ایک نمائندہ صحابی ، جس کے حالات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دئیے گئے ہیں ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث شریف کا ایسا راوی جس کے حالات '' معجم الشیوخ'' کی روایتوں میں ملتے ہیں ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط، جس کا ذکر بعض متاخرین کے ذریعہ کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیہ'' میں کیا گیا ہے

ان سب کو سیف نے تن تنہا خلق کیا ہے اور اپنے اس جعلی صحابی اور دو نامور راویوں ۔۔ کہ ہم جن کی گردن پر ابن مندہ و ابن حجر کے برخلاف سیف کے جھوٹ کا گناہ ڈالنا نہیں چاہتے ۔۔ کی زبانی روایت نقل کی ہے ۔

۸۸

افسانۂ کبیس کی اشاعت کے ذرائع:

١۔ ابن شاہیں ( وفات ٣٨٥ ھ ) نے کتاب '' معجم الشیوخ'' میں ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ میں ۔

٣۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٤۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ ھ )نے کتاب '' الاستیعاب فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٥۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ)نے کتاب '' اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٦۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ)نے کتاب '' الاصابة فی تمییز الصحابہ'' میں ابن شاہین سے نقل کرکے۔

٨۔ اور حال ہی میں محمد حمید اللہ نے کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں ابن کثیر سے نقل کرکے اس نے لکھا ہے کہ: اس خط کا متن نقل نہیں ہوا ہے۔

مصادر و مآخذ

کبیس کا نسب ، اس کے حالات اور داستان :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٢٢٧) نمبر : ٩٧٠

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ '' مدینۂ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں موجود قلمی نسخہ۔

٣۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٣١)

٤۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ٢ ٢٩ )

٥۔ '' اصابہ'' (٣ ٢٧٠) نمبر : ٧٣٧٦

٦۔ سمعانی کی '' انساب '' لفظ '' السدوسی '' نمبر : ٢٩٤

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ '' ( ص ٢٩٨۔ ٢٩٩)

۸۹

ابن شاہین کے حالات

١۔ ' ' تاریخ بغداد '' ( ١١ ٢٦٥ ) نمبر: ٦٠٢٨

٢۔ '' کشف الظنون '' ( ٢ ١٧٣٥)

٣۔ ''ھدیة العارفین '' (٢ ٧٨١)

٤۔ '' شذرات '' ( ٣ ١١٧)

٥۔ اعلام زرگلی ( ٥ ١٩٦)

٦۔ ''معجم المؤلفین '' ( ٧ ٢٧٣)

ابن مندہ کے حالات :

١۔ '' عبر ذہبی '' ( ٣ ٥٩)

٢۔ ''کشف الظنون'' (١ ٨٩)

٣۔ '' ھدیة العارفین'' ( ٢ ٥٧)

ابو نعیم کے حالات:

١۔ '' عبر ذہبی '' (٣ ١٧٠)

٢۔ ' ' کشف الظنون '' (٢ ١٧٣٩)

عبد اللہ شبرمہ کے حالات

١۔ تاریخ بخاری ٣ ق ( ١ ١١٧)

٢۔ '' جرح و تعدیل'' رازی ٢ ق ( ٢ ٨٢) اسی طرح تہذیب میں ۔

۹۰

ایاد بن لقیط کے حالات :

١۔ تاریخ بخاری ١ ق ( ٢ ٦٩)

٢۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ١ ٣٨٦)

٣۔ '' الجمع بین رجال الصحیحین'' ( ١ ٥٢)

٤۔ '' تقریب'' (١ ٨٦)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نظریہ :

١۔ مجموعہ وثائق سیاسی ص ٩٩ نمبر : ٢٣٤ طبع قاہرہ ، انجمن تالیف و ترجمہ و نشر کتاب ١٩٤١ ئ

اسناد

١۔ معجم قبائل العرب '' رضا کحالہ ج٢ طبع ہاشمیۂ دمشق ١٩٤٩ ئ

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق ''

٣۔ نویری کی '' نہایة الارب ''

٤۔ ابن اثیر کی '' لباب الانساب''

۹۱

چوتھا حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار

*٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی

*٣١۔ صخر بن لوذان

*٣٢۔ عکاشہ بن ثور

*٣٣۔ عبد اللہ بن ثور

*٣٤۔ عبید اللہ بن ثور

۹۲

تیسواں جعلی صحابی عبید بن صخر

اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔

کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:

عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ

کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:

بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔

____________________

١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں '' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)

۹۳

اس صحابی کا نسب

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:

'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''

البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں : جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں ، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١

اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:

١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔

٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔

____________________

١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔

۹۴

٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔

یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں ۔

عبید بن صخر کی داستان

عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:

١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی (یہاں تک کہ کہتا ہے) :

معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

____________________

١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۹۵

٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:

ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے

____________________

١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میں یوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے

٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)

٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں ۔

۹۶

گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں ۔

ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:

اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :

عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔

طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں ۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :

٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ

میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی

۹۷

مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوں میں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔

٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :

سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔

ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔

٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات

____________________

١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔

۹۸

میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :

میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں ، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!

ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔

٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!

۹۹

بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔

١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔

٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں ۔

'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329