ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130692 / ڈاؤنلوڈ: 4454
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سیف کی داستان کے نتائج

١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔

٤۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔

مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ

عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔

٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔

٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔

٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔

٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں ۔

۸۱

مصادر و مآخذ

عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں ' ق/١

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١

٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔

٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

۸۲

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی داستان

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١

۸۳

انتیسواں جعلی صحابی کبیس بن ہوذہ سدوسی

اس صحابی کا نام و نسب:

'' استیعاب'' ، '' اصابہ'' اور '' تجرید'' میں اس صحابی کا نام '' کبیس بن ھوذہ '' لکھا گیا ہے۔

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اسی نام کو درج کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شاہین'' کے ایک قدیمی نسخہ میں یہ نام '' کنیس'' ثبت ہوا ہے۔

ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ'' کے قلمی نسخہ میں یہ نام '' کبیش بن ہودہ '' درج ہوا ہے اور ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی نام کو قبول کرکے '' ابن مندہ کی پیروی کی ہے۔

اس صحابی کا نسب: '' اسماء الصحابہ'' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں لکھا گیا ہے کہ سیف بن عمر نے اس صحابی کا تعارف ' ' خاندان ِ بنی بکر و ائل عدنانی '' کے قبیلۂ بنی حارث بن سدوس '' سے کرایا ہے۔

ابن حزم نے اپنی کتاب '' جمہرہ'' میں بنی حارث کے ایک گروہ کے حالات کی تشریح کی ہے ، لیکن ان میں '' کبیس'' یا '' کنیس''یا '' کبیش'' نام کا کوئی صحابی اور '' ھوذہ '' یا '' ھودہ'' نام کا کوئی باپ ۔

'' سمعانی'' نے بنی حارث بن سدوس کے ایک گروہ کا نام لفظ السدوسی '' میں لیا ہے لیکن ان باپ بیٹوں کا کہیں نام بھی نہیں لیا ہے۔

۸۴

کبیس بن ہوذہ کی داستان :

ابن عبدا لبر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کے بارے میں صرف اتنا لکھتا ہے کہ:

'' ایاد بن لقیط نے اس سے روایت کی ہے ''

اس کے بعد کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اس کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے ۔

ابن مندہ اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں اپنے ہی اسناد سے لکھتا ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ بن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سدوسی سے اس نے بنی حارث بن سدوس کے ایک شخص کبیش بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیش پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے کچھ فرمان مرقوم فرمائے ہیں ۔

اس داستان کے آخرمیں ابن مندہ اظہار نظر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شبرمہ کی یہ حدیث حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے''

ابن اثیر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں مذکورہ داستان کو درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یوں اضافہ کرتا ہے :

اس مطلب کو تین مصادر ( ب ۔ ع ۔ د ) ١

____________________

١۔ ''ب''کتاب ''استیعاب'' کے مصنف ابن عبدالبر ''ع'' : ابو نعیم ، کتاب '' معرفة الصحابہ '' کے مصنف ، ابو نعیم ، حافظ احمد بن عبد اﷲ بن احمد اصفہانی ( ٣٦٠ ۔ ٤٣٠ھ)

''د'' : ابن مندہ ، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ ،محمد بن اسحاق اصفہانی ، جس نے احادیث کی جستجو میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے ۔ اس کی تالیفات میں سے '' اسماء الصحابہ '' ہے جو خاص طور سے ابن اثیر کی توجہ کا مرکز تھی۔

۸۵

نے ذکر کیا ہے۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید '' میں لکھا ہے :

سیف نے '' ایاد بن لقیط '' سے نقل کیا ہے کہ '' کبیس'' اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔( ب ۔ ع۔ د)ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھا ہے :

ابن شاہین ١ اور ابن مندہ نے سیف بن عمر سے اس نے عبدا اﷲبن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سے اس نے کبیس بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر وہی مذکورہ داستان نقل کی ہے )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

یہ داستان صرف اسی طریقہ سے پہنچی ہے اور ابن مندہ نے بھی کہا ہے کہ : ابن شبرمہ کی یہ داستان تعجب خیزہے !!!

خلاصہ :

سیف نے اس حدیث میں کبیس بن ہوذہ کو بنی حارث بن سدوس کے ان صحابیوں میں سے خلق کیا ہے جن کے ہمراہ اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے ایک فرمان مرقوم فرمایا تھا۔ یہیں سے اس قسم کا نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی

____________________

١۔ ابن شاہین ، حافظ ابو حفص بن شاہین ، عمر بن احمد بن عثمان بغدادی ( ٢٩٧ ۔ ٣٨٥) ہے ۔ اس کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد چھتیس بتائی گئی ہے ، من جملہ کتاب '' معجم الشیوخ '' ہے جس میں سرکردہ روات حدیث شامل ہیں ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ' ' اصابہ '' میں اس کتاب سے نقل کیا ہے۔

۸۶

فہرست اور ''معجم الشیوخ '' کے سرکردہ راویوں میں قرار پاتا ہے اور اس کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خیالی خط ایک حقیقی اورمسلم سند کے طور پر کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں درج کیا جاتا ہے !!

ہم نے اس نمائندہ صحابی کو پہچاننے کیلئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں جیسے ، ابن سعد کی ''طبقات '' ابن ہشام کی '' سیرة'' بلاذری کی '' انساب الاشراف'' اور مقریزی کی '' امتاع الاسماع '' کے علاوہ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف وفود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں کہیں بھی '' کبیس'' کا نام نہیں دیکھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں کبیس کے نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی فرمان یا خط کا مشاہدہ نہیں کیا ! بلکہ ہم نے سیف کے اس خلق کردہ صحابی کو صرف سیف کی احادیث میں اور اس کے راویوں کے ہاں پایا۔

افسانۂ کبیس کے اسناد کی پڑتال

ہم نے کہا کہ کتاب '' استیعاب '' کے مصنف ابن عبد البر نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ابن مندہ نے کبیس کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اور ابن اثیر نے اسے تین مآخذ '' ب ۔ ع، د'' کی علامت کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید ''میں کبیس کی نمائندگی کو سیف کی روایت کے مطابق ایاد بن لقیط سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن اثیر کے مآخذ کی اختصاری علامت '' ب ، ع، د'' کی قید لگادی ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں داستان کبیس کو ابن مندہ اور ابن شاہین کے قول کے مطابق نقل کیا ہے۔

۸۷

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ ابن مندہ، ابن شبرمہ کی اس حدیث پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور ابن حجر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ داستان صرف اس سند کے علاوہ کسی اور راوی سے نہیں ملی ہے ، یعنی ابن شبرمہ تنہا شخص ہے جس نے یہ داستان بیان کی ہے۔ اس روایت کی تنہا سند '' ایاد بن لقیط '' ہے اور اس کا مرکزی کردار ''کبیس بن ہوذہ '' ہے !! یہی مسئلہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ مذکورہ دو دانشور ابن شبرمہ کی حدیث پر تعجب کا اظہار کریں جبکہ وہ اس امر سے غافل تھے کہ بیچارہ ابن شبرمہ کا کوئی قصور ہی نہیں ہے بلکہ اصلی مجرم اور قصوروار سیف بن عمر ہے جس نے جھوٹ گڑھ کر ابن شبرمہ کے سر تھوپا ہے !

کتاب '' تجرید'' میں ذہبی کی بات بھی ہمارے دعوے کو ثابت کرتی ہے جب وہ داستان کبیس بیان کرتے وقت کنایہ کے طور پر لکھتا ہے :

'' سیف کی روایت کی بناء پر ''

اس بنا پر سیف کی اس حدیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ عبد اللہ بن شبرمۂ ضبی کوفی ( ٧٢ ۔ ١٤٤ ھ )جو ان علماء کے نزدیک ثقہ اور ایک قابل اعتماد شخص تھا۔

٢۔ ایاد بن لقیط سدوسی : اسے تابعین کے چوتھے در جے میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی نظر میں ثقہ ہے۔

٣۔ بنی حرث بن سدوس سے خود کبیس بن ہوزہ ، چونکہ ہم نے اس کی داستان اور نام سیف اور اس کے راویوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا لہذا اس کو سیف کے جعلی اصحاب اور راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

داستان کبیس کا نتیجہ

١۔ ایک نمائندہ صحابی ، جس کے حالات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دئیے گئے ہیں ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث شریف کا ایسا راوی جس کے حالات '' معجم الشیوخ'' کی روایتوں میں ملتے ہیں ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط، جس کا ذکر بعض متاخرین کے ذریعہ کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیہ'' میں کیا گیا ہے

ان سب کو سیف نے تن تنہا خلق کیا ہے اور اپنے اس جعلی صحابی اور دو نامور راویوں ۔۔ کہ ہم جن کی گردن پر ابن مندہ و ابن حجر کے برخلاف سیف کے جھوٹ کا گناہ ڈالنا نہیں چاہتے ۔۔ کی زبانی روایت نقل کی ہے ۔

۸۸

افسانۂ کبیس کی اشاعت کے ذرائع:

١۔ ابن شاہیں ( وفات ٣٨٥ ھ ) نے کتاب '' معجم الشیوخ'' میں ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ میں ۔

٣۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٤۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ ھ )نے کتاب '' الاستیعاب فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٥۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ)نے کتاب '' اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٦۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ)نے کتاب '' الاصابة فی تمییز الصحابہ'' میں ابن شاہین سے نقل کرکے۔

٨۔ اور حال ہی میں محمد حمید اللہ نے کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں ابن کثیر سے نقل کرکے اس نے لکھا ہے کہ: اس خط کا متن نقل نہیں ہوا ہے۔

مصادر و مآخذ

کبیس کا نسب ، اس کے حالات اور داستان :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٢٢٧) نمبر : ٩٧٠

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ '' مدینۂ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں موجود قلمی نسخہ۔

٣۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٣١)

٤۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ٢ ٢٩ )

٥۔ '' اصابہ'' (٣ ٢٧٠) نمبر : ٧٣٧٦

٦۔ سمعانی کی '' انساب '' لفظ '' السدوسی '' نمبر : ٢٩٤

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ '' ( ص ٢٩٨۔ ٢٩٩)

۸۹

ابن شاہین کے حالات

١۔ ' ' تاریخ بغداد '' ( ١١ ٢٦٥ ) نمبر: ٦٠٢٨

٢۔ '' کشف الظنون '' ( ٢ ١٧٣٥)

٣۔ ''ھدیة العارفین '' (٢ ٧٨١)

٤۔ '' شذرات '' ( ٣ ١١٧)

٥۔ اعلام زرگلی ( ٥ ١٩٦)

٦۔ ''معجم المؤلفین '' ( ٧ ٢٧٣)

ابن مندہ کے حالات :

١۔ '' عبر ذہبی '' ( ٣ ٥٩)

٢۔ ''کشف الظنون'' (١ ٨٩)

٣۔ '' ھدیة العارفین'' ( ٢ ٥٧)

ابو نعیم کے حالات:

١۔ '' عبر ذہبی '' (٣ ١٧٠)

٢۔ ' ' کشف الظنون '' (٢ ١٧٣٩)

عبد اللہ شبرمہ کے حالات

١۔ تاریخ بخاری ٣ ق ( ١ ١١٧)

٢۔ '' جرح و تعدیل'' رازی ٢ ق ( ٢ ٨٢) اسی طرح تہذیب میں ۔

۹۰

ایاد بن لقیط کے حالات :

١۔ تاریخ بخاری ١ ق ( ٢ ٦٩)

٢۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ١ ٣٨٦)

٣۔ '' الجمع بین رجال الصحیحین'' ( ١ ٥٢)

٤۔ '' تقریب'' (١ ٨٦)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نظریہ :

١۔ مجموعہ وثائق سیاسی ص ٩٩ نمبر : ٢٣٤ طبع قاہرہ ، انجمن تالیف و ترجمہ و نشر کتاب ١٩٤١ ئ

اسناد

١۔ معجم قبائل العرب '' رضا کحالہ ج٢ طبع ہاشمیۂ دمشق ١٩٤٩ ئ

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق ''

٣۔ نویری کی '' نہایة الارب ''

٤۔ ابن اثیر کی '' لباب الانساب''

۹۱

چوتھا حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار

*٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی

*٣١۔ صخر بن لوذان

*٣٢۔ عکاشہ بن ثور

*٣٣۔ عبد اللہ بن ثور

*٣٤۔ عبید اللہ بن ثور

۹۲

تیسواں جعلی صحابی عبید بن صخر

اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔

کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:

عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ

کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:

بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔

____________________

١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں '' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)

۹۳

اس صحابی کا نسب

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:

'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''

البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں : جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں ، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١

اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:

١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔

٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔

____________________

١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔

۹۴

٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔

یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں ۔

عبید بن صخر کی داستان

عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:

١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی (یہاں تک کہ کہتا ہے) :

معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

____________________

١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۹۵

٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:

ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے

____________________

١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میں یوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے

٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)

٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں ۔

۹۶

گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں ۔

ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:

اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :

عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔

طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں ۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :

٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ

میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی

۹۷

مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوں میں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔

٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :

سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔

ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔

٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات

____________________

١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔

۹۸

میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :

میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں ، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!

ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔

٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!

۹۹

بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔

١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔

٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں ۔

'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

پہلی حدیث:

ابرھیم بن محمدبن مؤیدجومنی(۱) کتاب”فرائدالسبطین(۲) ‘ میں اپنے اسناد سے اورشیخ صدوق ابن بابویہ قمی کتاب”کمال الدین(۳) ‘ میں سلیم بن قیس سے روایت کرتے ہیں:

”میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں مسجد النبی (ص)میں دیکھا کہ حضرت علی(علیہ السلام)مسجد میں تشریف فر ماتھے اور کچھ لوگ آپس میں گفتگو کرنے میں مشغول تھے۔وہ قریش اوران کے فضائل نیز ان کے سوابق اور جوکچھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے بارے میں فرمایا ہے، کے بارے میں گفتگو کرر ہے تھے اوراسی طرح انصار کی فضیلت اوران کے شاندار ماضی اورقرآن مجید میں ان کے بارے میں خدا وند متعال کی تعریف و تمجیدکا ذکر رہے تھے اورہر گروہ اپنی اپنی فضیلت گنوا رہا تھا۔

اس گفتگو میں دوسو سے زیادہ لوگ شریک تھے ان میں حضرت علی(علیہ السلام)سعد بن ابی وقاص،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیر،مقداد،ابوذر،حسن وحسین )علیہما السلام)اورابن عباس-بھی شامل تھے۔

____________________

۱۔ذہبی ،کتاب”المعجم المختص بالمحدثین“ص۶۵،طبع مکتبةالصدیق سعودی،طائفمیں لکھاہے:”ابراھیم بن محمد۔۔۔الامام الکبیر المحدث شیخ المشایخ“ یعنی:بہت بڑے امام محدث اور استادالاسا تذہ ۶۴۴ئ ہجری میں پیدا ہوئے اور۷۲۲ئ ہجری میں خراسان میں و فات پائی ۔ابن حجرکتاب”الدررالکامنہ“ج۱،ص۶۷ میں کہتے ہیں:“وسمع بالحلة وتبریز-----وله رحلة واسعة وعنی بهذاالشان وکتب وحصل وکان دینا وقوراً ملیح الشکل جید القرا ۔۔۔“یعنی: حلہ اور تبریزمیں )حدیث کے اساتذہ کے دوسرے شہروں کے بارے میں )سنا ہے۔۔۔ علم حدیث کے بارے میں ایک خاص مہارت رکھتے تھے۔۔۔اور متدین ،باوقار،خوبصورت اوراچھی قرائت کے مالک تھے۔

۲۔فرائدالبطین ،ج۱،ص۲۱۲،مؤسسہ المحمودی للطباعة والنشر،بیروت اسماعیل با شا کتاب ایضاح المکنون میں کشف الظنون،ج۴،ص۱۸۲،دارالفکر کے ذیل میں کہتا ہے:فرائد السبطین،فی فضائل المرتضیٰ والبتول والسبطین لابی عبداللّٰہ ابراھیم بن سعد الدین محمد بن ابی بکر بن محمدبن حمویہ الجوینی۔۔۔فرغ منہ سنة۷۱۶

۳۔کمال الدین،ص۲۷۴

۱۲۱

یہ جلسہ صبح سے ظہرتک جاری رہا اورعلی) علیہ السلام) بدستور خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ(ع) کی طرف مخاطب ہوکر آپ سے کچھ فرمانے کی خواہش ظاہر کی۔

حضرت علی(علیہ السلام)نے فرمایا:تم دونوں گروہوں میں سے ہرایک نے اپنی فضیلت بیان کی اور اپنی گفتگو کا حق ادا کیا۔میں قریش وانصاردونوں سے یہ پوچھنا چاہتاہوں:خدا وند متعال نے یہ فضیلت تمھیں کس کے ذریعہ عطاکی ہے؟ کیا تم لوگ اپنی اوراپنے قبیلے کی خصوصیات کی وجہ سے ان فضیلتوں کے مالک بنے ہو؟ یاکسی دوسرے کی وجہ سے یہ فضیلتیں تمھیں عطا کی گئی ہیں؟

انہوں نے کہا:خدا وندمتعال نے محمد (ص)اورآپ کے اہل بیت)علیہم السلام)کے طفیل میں ہمیں یہ فضیلتیں عطا کی ہیں۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا:صحیح کہاتم لوگوں نے اے گروہ انصار وقریش!کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جوکچھ تم کوخیر دینا وآخرت سے ملا ہے وہ صرف ہم اہل بیت(ع)کی وجہ سے تھا؟ اس کے بعدحضرت علی (علیہ السلام)نے اپنے اور اپنے اہل بیت )علیہم السلام)کے بعض فضائل گنوائے اوران سے تصدیق اور گواہی چاہی انہوں نے گواہی دی،آپ(ع)نے من جملہ فرمایا:

فانشدکم اللّٰہ،اتعلمون حیث نزلت( یااٴیّهاالذین آمنوا اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسّول واٴُولی الاٴمر منکم ) (۱) وحیث نزلت ا( ٕنّماولیّکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوة ویؤ تون الزکوة وهمصراکعون ) (۲) وحیث نزلت( اٴم حسبتم اٴن تترکواولماّ یعلم اللّٰه الّذیم جاهدوامنکم ولم یتّخذ وا من دون اللّٰه ولا رسوله ولاالمؤمنین ولیجة ) (۳) قال الناس:یا رسول اللّٰه،خاصة فی بعض

____________________

۱۔نساء/۵۹ ۲۔مائدہ/۵۵

۳۔توبہ/۱۶

۱۲۲

المؤمنین اٴم عامة لجمیعهم؟فاٴمراللّٰه - عزّوجلّ - نبیّه( ص) اٴن یُعلّمهم ولاةاٴمرهم واٴن یفسّر لهم من الولایة مافسّرلهم من صلا تهم وزکاتهم وحجهم،فینصبنی للناس بغدیر خمثمّ خطب وقال:اٴیّهاالنّاس،إنّ اللّٰه اٴرسلنی برسالة ضاق بها صدری وظننت اٴن الناس مکذبیفاوعدنی لاُ بلّغها اٴولیعذّبنیثمّ اٴمرفنودی بالصلاة جامعةثمّ خطب فقال:اٴیّهاالناس،اٴتعلمون اٴنّاللّٰه - عزّوجل - مولای اٴنامولی المؤمنین،واٴنا اٴولی بهم من اٴنفسهم؟

قالوا:بلی یارسول اللّٰهقال:قُم یاعلیّفقمت فقال:”من کنت مولاه فهذاعلیّ مولاه،اللّهمّ وال من والاه،وعادمن عاداه“

فقام سلمان فقال:یارسول اللّٰه،ولاء کماذا؟فقال:ولاء کولایتی، منکنت اٴولی به من نفسه فاٴنزل اللّٰه تعالی ذکره:( الیوم اٴکملت لکم دینکم واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً ) (۱)

فکبّرالنبّی( ص) وقال:اللّٰه اٴکبر!تمام نبوّتی وتمام دین اللّٰه علیُّ بعدیفقام اٴبوبکر و عمر فقالا: یارسول اللّٰه،هؤلاء الآیات خاصّةفی علیّ؟قال:بلی،فیه وفی اٴوصیائی إلی یوم القیامةقالا:یارسول اللّٰه، بیّنهم لناقال:علیّ اٴخی ووزیری ووارثی ووصیّی وخلیفتی فی اُمّتی وولّی کل ّمؤمن بعدی ثمّ ابنی الحسن ثمّ الحسین ثمّ تسعة من ولدابنی الحسین واحد بعد واحد،القرآن معهم وهم مع القرآن لایفارقونه ولایفارقهم حتی

____________________

۱۔مائدہ/۳

۱۲۳

یردوا علیّ الحوض

فقالوا کلّهم:اللّهمّ نعم،قد سمعناذلک وشهدناکماقلت سواء وقال بعضهم:قدحفظناجلّ ماقلت ولم نحفظه کلّه،وهؤلاء الّذین حفظوااٴخیارناواٴفاضلنا

یعنی:میں تمھیں خدا کی قسم دلاتاہوں،کیا تم جانتے ہو کہ جبخداوندمتعال کا یہ فر مان:( یا اٴیّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعوا الرّسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل ہوا اورجب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( إنّما ولیّکم اللّٰه ورسول ) ۔۔۔ )یعنی بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نمازقائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں)اسی طرح جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( اٴم حسبتم اٴن تترکوا ) ۔۔۔ )یعنی :کیاتمہارا خیال ہے کہ تم کواسی طرح چھوڑدیا جائے گا جب کہ ابھی ان لو گوں نے کہ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور خدا و رسول نیز مومنین کے علا وہ کسی کو اپنا محرم راز نہیں بنا یا ہے مشخص نہیں ہو ئے ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:یارسول اللہ!کیا یہ آیتیں بعض مؤمنین سے مخصوص ہیں یا عام ہیں اوران میں تمام مؤ منین شامل ہیں؟

خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:تاکہ ان)مو منین) کے امور کے سلسلہ میں ان کے سرپرست کا اعلان کردیں اورجس طرح نماز،زکوٰةاورحج کی ان کے لئے تفسیربیان کی ہے،مسئلہ ولایت وسر پرستی کو بھی ان کے لئے واضح کردیں۔)اورخدا نے حکم دیا)تاکہ غدیر خم میں مجھے اپنا جا نشین منصوب کریں۔

اس کے بعدپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ پڑھااورفرمایا:

”اے لوگو!خدا وند متعال نے مجھے ایک ایسی رسالت سونپی ہے کہ جس کی وجہ سے میرا سینہ تنگی محسوس کر رہا ہے اورمیں نے گمان کیا کہ لوگ میری اس رسالت کو جھٹلادیں گے۔پھر مجھے خدا نے تہدید دی کہ یا میں اس)رسالت) کوپہنچاؤں یا اگر نہیں پہونچاتا تووہ مجھے عذاب کرے گا۔“

۱۲۴

اس کے بعد پیغمبراکرم (ص)نے حکم دیا اورلوگ جمع ہو گئے اورآپنے خطبہ پڑھا اور فرمایا: اے لوگو! کیاتم جانتے ہوکہ خداوند متعال میرامولا)میراصاحب اختیار)ہے اورمیں مؤمنین کامولاہوں اورمجھے ان کی جانوں پرتصرف کا زیادہ حق ہے ؟انہوں نے کہا:ہاں،یارسول اللہ۔فرمایا:اے علی(علیہ السلام)کھڑے ہوجاؤ!میں کھڑا ہوا۔فرمایا:جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع)بھی مولا ہیں۔خداوندا!اس کو دوست رکھ جو علی(ع)کودوست رکھے اوراس کو اپنا دشمن قرار دے جوعلی(ع)سے دشمنی کرے۔

سلمان اٹھے اورکہا:یارسول اللہ!یہ کونسی ولایت ہے؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ ولایت وہی ہے جو میں رکھتاہوں ۔جس کی جان کے بارے میں ،میں اولیٰ ہوں علی(ع)بھی اسی طرح اس کی جان کے بارے میں اولیٰ ہے۔اس کے بعدخدا وند متعال نے یہ آیہء شریفہ نازل فرمائی:( الیوم اٴکملت لکم دینکم ) ۔۔۔ یعنی:”آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیااوراپنی نعمتوں کوتمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندکر لیا۔“

اس کے بعد ابوبکراورعمراٹھے اورکہا:یارسول اللہ ! کیا یہ آیتیں علی(ع)سے مخصوص ہیں؟فرمایا:جی ہاں،یہ علی(ع)اور میرے قیامت تک کے دوسرے اوصیاء سے مخصوص ہیں۔انہوں نے کہا:یارسول اللہ!ان کو ہمارے لئے بیان کر دیجئے آنحضرت نے فرمایا: میرابھائی علی،امت کے لئے میراوزیر،وارث،وصی اورجانشین ہے اورمیرے بعد ہرمؤمن کا سرپرست ہے۔اس کے بعد میرے فرزندحسن وحسین(ع)اس کے بعد یکے بعد دیگرے میرے حسین(ع)کے نوفرزند ہیں۔قرآن مجید ان کے ساتھ ہے اور وہ قرآن مجید کے ساتھ ہیں۔وہ قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اورقرآن مجیدان سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثرپرمجھ سے ملیں گے۔اس کے بعد علی علیہ السلام نے اس مجمع میں موجود ان لوگوں سے،کہ جومیدان غدیر میں موجوتھے اورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان با توں کواپنے کا نوں سے سن چکے تھے،کہا کہ اٹھ کراس کی گواہی دیں۔

۱۲۵

زیدبن ارقم،براء بن عازب،سلمان،ابوذراورمقداداپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور کہا :ہم شہادت دیتے ہیں اورپیغمبر (ص)کے بیانات یاد ہیں کہ آنحضرت منبرپرکھڑے تھے اوران کے ساتھ آپ(ع)بھی ان کی بغل میں کھڑے تھے اورآنحضرتفرمارہے تھے:

”اے لوگو! خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لئے امام کہ جو میرے بعد تم لوگوں کی رہنمائی اور سر پرستی کرے اورمیراوصی اورجانشین ہو،کو نصب کروں،اس کونصب کروں جس کی اطاعت کوخداوند متعال نے اپنی کتاب میں واجب قراردیا ہے نیزاس کی اطاعت کواپنی اورمیری اطاعت کے برابرقراردیا ہے کہ جس سے)آیہ اولوالامرکی طرف اشارہ ہے) اے لوگو!خداوند متعال نے تمھیں نماز،زکوٰة،روزہ اورحج کا حکم دیا ۔میں نے تمہارے لئے اس کی تشریح ووضاحت کی ۔اوراس نے تمھیں ولایت)کا ایمان رکھنے) کابھی حکم دیااورمیں ، تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ ولایت اس)شخص)سے مربوط ہے )یہ جملہ بیان فرماتے وقت آنحضرت اپنادست مبارک علی(ع)کے شانہ پر رکھے ہوئے تھے)اوران کے بعداس کے دونوں بیٹوں)حسن وحسین(ع))اوران کے بعد ان کے فرزندوں میں سے ان کے جانشیوں سے مربوط ہے--“

حدیث مفصل و طولانی ہے۔ہم نے اس میں سے فقط اتنے ہی حصہ پراکتفا کیا کہ جوآیہء شریفہ”اولوالامر“سے مربوط ہے ۔محققین مذکورہ منابع میں مفصل حدیث کا مطلعہ کرسکتے ہیں۔

دوسری حدیث

یہ وہ حدیث ہے جسے مرحوم شیخ صدوق نے ”کمال الدین(۱) ‘ میں جابر بن یزید جعفی سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے:

”میں نے سنا کہ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے تھے:جب خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر (ص)پر یہ آیہء شریفہ:( یاایّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل فرمائی،تو میں نے کہا:یارسول اللہ!ہم نے خدا اوراس کے رسولتو کو پہچان لیا۔اب وہ اولوالامرکہ جن کی اطاعت کو خداوندمتعال نے آپ کی اطاعت سے مربوط قراردیا ہے،وہ کون ہیں؟

آنحضرت (ص)نے فرمایا:”اے جابر!وہ میرے جانشین ہیں اورمیرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں۔ان میں سب سے پہلے علی بن ابیطالب، پھرحسن وحسین،پھر علی بن حسین،پھر محمد بن علی،جوتوریت میں باقر کے نام سے معروف

____________________

۱۔کمال الدین،ص۲۵۳

۱۲۶

ہیں اوراے جابر!تم جلدی ہی اس سے ملاقات کروگے لہذاجب انھیں دیکھنا توانھیں میرا سلام پہنچانا۔پھرصادق جعفر بن محمد،پھر موسیٰ بن جعفر،پھر علی بن موسیٰ،پھر محمدبن علی،پھر علی بن محمد،پھرحسن بن علی،پھر میراہم نام اورہم کنیت)جو)زمین پر خدا کی حجت اورخدا کی طرف سے اس کے بندوں کے در میان باقی رہنے والا حسن بن علی)عسکری)کا فر زندہے،جس کے ذریعہ خدا وند متعال مشرق ومغرب کی زمین کو فتح کرے گا۔وہ شیعوں او ر ان کے چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہوگا۔وہ ایسی غیبت ہوگی کہ ان کی امامت پر خدا کی طرف سے ایمان کے سلسلہ میں آزمائے گئے دلوں کے علاوہ کوئی ثابت قدم نہیں رہے گا“

تیسری حدیث:

یہ حدیث اصول کافی ۱ میں برید عجلی سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں:

”امام باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:خدا وند متعال نے)آیہء شریفہ)( یا اٴیّها الذین آمنوا اٴطیعو اللّٰه و اٴطیعوا الرسول و اولی الاٴمر منکم ) کے بارے میں صرف ہماراقصد کیاہے۔تمام مؤمنین کو قیامت تک ہماری)ائمہ معصومین) اطاعت کرنے کا کاحکم دیا ہے۔“

اس کے علاوہ شیعہ وسنی منابع میں اوربھی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ”اولوالامر“سے مراد ائمہء معصو مین کو لیا گیا ہے۔اہل تحقیق،”فرائد السمطین“اور”ینا بیع المودة“جیسی سنی کتابوں اور”اصول کافی“،”غا یةالمرام“اور”منتخب الاثر“ جیسی شیعوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۲۱۷

۱۲۷

چوتھا باب:

امامت آیہء ولایت کی روشنی میں

( ( إنّماولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالّذین یقیمون الصلوٰةویؤ تون الزکوٰة وهم راکعون ) ) ( مائدہ/۵۵)

”بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان ہیں،جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اوربلافصل ولایت کے سلسلہ میں شیعہ امامیہ کی ایک اوردلیل آیہء شریفہ ولایت ہے۔آیہء شریفہ کے استدلال کی تکمیل کے سلسلہ میں پہلے چندمو ضوعات کا ثابت کرنا ضروری ہے:

۱ ۔آیہ شریفہ میں ”إنما“ حصر کے لئے ہے۔

۲ ۔آیہ ئ شریفہ میں لفظ ”ولی“ حص کے معنی اولی بالتصرف اورصاحب اختیار نیزسرپرست ہو نے کے ہے۔

۳ ۔آیت میں ”راکعون“سے مراد نماز میں رکوع ہے، نہ کہ خضوع وخشوع۔

۴ ۔اس آیہء شریفہ کے شان نزول میں ، کہ جوامیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے، ذکر ہواہے کہ حضرت(ع)نے رکوع کی حالت میں زکوٰةدی ،)یعنی اپنے مال کوخداکی راہ میں انفاق کیاہو)ثابت ہو۔

اس باب میں ہم ان موضوعات کوثابت کرنے کی کوشش کریں گے اورآخر پر اس آیہء شریفہ سے مربوط چند سوالا ت کا جواب دیں گے۔

لفظ”إنما“کی حصر پر دلالت

علما ئے لغت اورادبیات نے اس بات کی تاکید کیہے کہ لفظ”إنما“حصرپر دلالت کرتا ہے۔یعنی عربی لغت میں یہ لفظ حصر کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

۱۲۸

ابن منظورنے کہاہے:اگر ”إنّ“پر”ما“کا اضافہ ہو جائے تو تعیین وتشخیص پر دلالت کرتاہے۔جیسے خداوند متعال کا قول ہے:( إنّماالصدقات للفقراء والمساکین ) ۔۔۔(۱) چونکہ اس کی دلا لت اس پر ہے کہ حکم مذکور کو ثابت کرتا ہے اوراس کے غیر کی نفی کرتا ہے۔(۲)

جوہری نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔(۳)

فیروزآبادی نے کہاہے:”انّما“،”إنّما“کے مانند مفید حصرہے۔

اور یہ دونوں لفظ آیہء شریفہء:( قل إنّمایوحی إلیّ اٴنّماإلٰهکم إلٰه واحد ) (۴) میں جمع ہوئے ہیں۔(۵)

ابن ہشام نے بھی ایساہی کہا ہے۔(۶)

اس لئے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ”إنّما“کوحصرکے لئے وضع کیا گیاہے۔اگرکوئی قرینہ موجو ہوتواس قرینہ کی وجہ سے غیرحصرکے لئے استفادہ کیا

جاسکتا ہے،لیکن اس صورت میں ”إنّما“کااستعمال مجازی ہوگا۔

”ولیّ“کے معنی کے بارے میں تحقیق

”ولّی“ولایت سے مشتق ہے۔اگرچہ یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس کے موارد استعمال کی جستجو و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصلی معنی سر پرستی ،اولویت

____________________

۱۔توبہ/۶۰

۲۔لسان العرب،ج۱،ص۲۴۵

۳۔صحاح اللغة،ج۵،ص۲۰۷۳

۴۔انبیاء/۱۰۸ ۵۔القاموس المحیط،ج۴،ص۱۹۸،دارالمعرفة،بیروت۔

۶۔مغنی اللبیب ،ج۱،ص۸۸،دارالکتب العلمیة بیروت

۱۲۹

اورصاحب اختیار ہو نے کے ہے۔

ابن منظورکا”لسان العرب“میں کہنا ہے”الولیّ ولیّ الیتیم الّذی یلی اٴمره ویقوم بکفایته،وولیّ المرئةالّذی یلی عقدالنکاح علیهاوفی الحدیث:اٴیّماامرئة نکحت بغیرإذن مولیها فنکاحهاباطلوفی روایة:”ولیّها“اٴی متولّی اٴمرها(۱)

یتیم کا ولی وہ ہے جو یتیم کے امور اور اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے اوراس کے امورکی نگران کرتا ہے۔عورت کا ولی وہ ہے کہ جس کے اوپر اس کے عقد ونکاح کی ذمہ داری ہو۔

حدیث میں آیا ہے:جوبھی عورت اپنے مولا)سرپرست)کی اجازت کے بغیرشادی کرے تواس کا نکاح باطل ہے۔ایک روایت میں لفظ”ولیھا‘ ‘کے بجائے لفظ”مولیھا“آیا ہے کہ جس کے معنی سرپرست اورصاحب اختیار کے ہیں۔

فیومی”المصباح المنیر“میں کہتا ہے:

الولیّ فعیل به معنی فاعل من ولیه إذقام بهومنه اللّٰه ولیّ الّذین آمنوا ،والجمع اٴولیاء،قال ابن فارس:وکلّ من ولی اٴمراٴحد فهوولیّهوقد یطلق الولیّ اٴیضاًعلی المعتق والعتیق،وابن العم والناصروالصدّیقویکون الولیّ بمعنی مفعول فی حق المطیع،فیقال:المؤمن ولیّ اللّٰه“ ۔(۲)

”فعیل)کے وزن پر(ولی فاعل کے معنی میں ہے ) ۔(۳) کہا جاتا ہے):ولیہ یہ اس

_____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۴،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۲۔المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰،طبع مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر

۳۔”فعیل“صفت مشبہ ہے۔کبھی فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے، جیسے ”شریف“ اورکبھی مفعول کے معنی میں آتا ہے۔فیومی نے اپنے بیان میں اس کی طرف اشار ہ کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”فعیل“فاعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ مؤمن کو کہا جاتا ہے”ولی خدا“ یعنی جس کے امورکی تدبیر خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ ا سے اپنے الطاف سے نواز تا ہے۔

۱۳۰

صورت میں ہے جب کسی کے امو ر کے لئے عملاً قیام کرے اس کے کام کواپنے ذمہ لے لے۔ آیہء شریفہ:( اللّٰه ولیّ الذین آمنوا ) میں ولایت اسی کی ہے۔یعنی خداوند متعال مؤمنین کے امور کے حوالے سے صاحب اختیارا ور اولی بالتصرف ہے۔ابن فارس نے کہا ہے:جو بھی کسی کے امورکاذمہ دار ہوگا وہ اس کا ”ولی“ہوگا۔اور بعض اوقات”ولی“)دوسرے معانی میں جیسے) غلام کوآزاد کرنے والا،آزاد شدہ غلام ،چچازاد بھائی،یاوراوردوست کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

ان بزرگ ماہرین لغت کے بیان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یاور اوردوست جیسے مفاہیم ولی کے حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ کبھی کبھی ان معنوں میں استعمال ہو تا ہے اوراس قسم کا استعمال مجازی ہے۔

”ولی“کے معنی میں یہ جملہ معمولاًلغت ۱ کی کتابوں میں بہ کثرت نظر آتا ہے وہ ناقابل اعتناء ہے ”من ولی امر احدفہوولیہ“یعنی:”جو کسی کے کام کی سر پرستی اپنے ذمہ لے لے وہ اس کا ولی ہے“

ان معانی کے پیش نظر،ایسا لگتا ہے کہ لفظ”ولی“کا حقیقی اور معروف ومشہور معنی وہی صاحب اختیاروسر پرست ہو ناہے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے استعمال پر جستجو و تحقیق بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہے۔

ہم لفظ”ولی“کے قرآن مجید میں استعما ل ہونے کے بعض موارد کا ذکر کرکے بعض دوسرے موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:(۱)

____________________

۱۔لسان العرب،ج۱۵،ص۴۱۰،المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰طبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر،النہا یةج۵،ص۲۲۸المکتبة العلمیة،بیروت،منتہی الارب ،ج۴،ص۱۳۳۹،انتشارات کتابخانہ سنائی،مجمع البحرین،ج۲ص۵۵۴،دفتر نشر فرھنگ اسلامی،الصحاح،ص۲۵۲۹،دارالعلم للملابین، المفردات، ص۵۳۵، دفتر نشر کتابمعجم مقا ییس اللغة،ج۶،ص۱۴۱۔

۱۳۱

چند بنیادی نکات کی یاد دہانی

یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے:

پہلانکتہ:عام طور پر لغت کی کتابوں میں ایک لفظ کے لئے بہت سے موارداستعمال اور مختلف معانی ذکر کئے جاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لفظ ہر معانی کے لئے الگ الگ وضع کیا گیا ہے اوروہ لفظ مشترک ہے اوران معانی میں سے ہرایک،اس کا حقیقی معنی ہے لفظی اشتراک)یعنی ایک لفظ کے کئی معانی ہوں اور ہر معنی حقیقی ہو )اصول کے خلاف ہے۔اور علم لغت اورادبیات کے ماہرین نے جس کی وضاحت کی ہے وہ یہ ہے کہ اصل عدم اشتراک ہے۔

۱ ۔قرآن مجید میں لفظ”ولی“کے استعمال کے مواقع:

الف۔( اٴللّٰه ولی الذّین آمنوا یخرجهم من الظلمات إلی النور ) (بقرہ/ ۲۵۷)” اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکوں سے نکال کرروشنی میں لے آ تاہے۔“

ب۔( انّ ولی اللّٰه الذّی نزل الکتاب و هو یتولّی الصالحین ) (اعراف/ ۱۹۶)” بیشک میرا مالک ومختار وہ خدا ہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کاولی ووارث ہے۔“

ج۔( ام إتّخذ وا من دونه اٴولیائ فاللّٰه هوالولی وهو یحیی الموتی ) (شوریٰ/ ۹)” کیاان لوگو ں نے اس کے علاوہ کو اپنا سر پرست بنایا ہے جب کہ وہی سب کاسرپرست ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔“

د۔( قل اٴغیراللّٰه اٴتخذوا ولیاًفاطرالسموات والارض وهو یطعم ولا یطعم ) ۔۔۔ (انعام/ ۱۴)” آپ کہئے کہ کیا میں خد ا کے علاوہ کسی اورکواپنا ولی بنالوں جب کہ زمین وآسمان کاپیداکرنے والا وہی ہے، وہی سب کوکھلاتاہے اس کوکوئی نہیں کھلاتاہے۔“

۱۳۲

ہ ۔( و انت ولینا فاغفر لنا وارحمنا وانت خیرالغافرین ) )اعراف/ ۱۵۵)” توہمارا ولی ہے،ہمیں معاف کردے اورہم پررحم کر کہ توبڑابخشنے والاہے۔“

و۔( فإن کان الذی علیه الحق سفیهاًاو ضعیفاًاولا یستطیع ان یمل هو فلیملل ولیه بالعدل ) )بقرہ/ ۲۸۲)” اب اگر حق اس کے خلاف ہو اوروہ نادان یاکمزورہو اور اس کو لکھنے کی صلا حیت نہ ہو تو اس کے ولی کو چاہئیے کہ عدل و انصاف کے ساتھ اسے لکھے۔

ز۔( ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لولیه سلطاناً ) )اسراء/ ۳۳)” جومظلوم قتل ہوتاہے ہم اس کے ولی کوبدلہ کااختیاردیتے ہیں۔

دوسر ی آیات: یوسف/ ۱۰۱ ، ہود/ ۱۱۳ ، شوریٰ/ ۴۶ ،فصلت/ ۳۱ ، نحل/ ۶۳ ، بقرہ/ ۱۰۷ و ۱۲۰ توبہ/ ۷۴ و ۱۱۶ ، عنکبوت/ ۲۲ ،شوریٰ/ ۸ و ۳۱ ،نساء/ ۴۵ ،

۷۵،۸۹،۱۲۳ و ۱۷۳ ،احزاب/ ۱۷ و ۶۵ ،فتح/ ۲۲) مذکورہ ۱۵ آیات میں ولی اورنصیرایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں نساء/ ۱۱۹ ، مریم/ ۵ ،سباء/ ۴۱ ، نمل ۴۹ ،نساء/ ۱۳۹ ،یونس/ ۶۲ ، اسراء/ ۹۷ ،الزمر/ ۳ ، شوریٰ/ ۶ ، ممتحنہ/ ۱ ،آل عمران/ ۱۷۵ ،انفال/ ۴۰ ،محمد/ ۱۱ بقرہ/ ۲۸۶ ،توبہ/ ۵۱ ،حج/ ۷۸ ۔

کتاب”مغنی اللبیب“کے مصنف،جمال الدین ابن ہشام مصری،جواہل سنت میں علم نحو کے بڑے عالم مانے جاتے ہیں جب آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملائکته یصلّون علی

۱۳۳

النّبی ) (۱) میں قرائت رفع(ملائکتُہ)کی بنیاد پر بعض علمائے نحو جو”إنّ“کی خبر)یصلّی ہے)کو محذوف اورمقدر جانتے ہیں،نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

واماّقول الجماعةفبعیدمن جهات:إحداهااقتضاؤه للإشترا والاٴصل عدمه لما فیه من الإلباس حتیّ إنّ قوماًنفوهثمّ المثبتون له یقولون:متی عارضه غیره ممّایخالف الاٴصل کالمجاز قدّم علیه (۲)

”ان کی بات کئی جہتوں سے حقیقت سے بعید ہے۔اول اس لحاظ سے کہ ان کے بیان کا لازمہ یہ ہے کہ صلاة کو مشترک لفظی تسلیم کریں جبکہ اشتراک خلاف اصل ہے یہاں تک کہ بعض نے اسے بنیادی طو ر پر مسترد کیا ہے اور جنہوں نے اسے ثابت جا نا ہے انھوں نے اسے مجاز اور اشتراک کی صورت میں مجاز کو اشتراک پر مقدم جانا ہے۔“

فیروزآبادی،صاحب قاموس نے بھی صلوٰت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے کہ جس میں آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملا ئکته یصلّون علی النبیّ ) ۔۔۔ کے بارے میں تحقیق کی ہے اورمذکورہ بیان کو ابن ہشام سے نقل کیا ہے۔(۳)

اس بناء پر،ولایت کے مفہوم میں )جو کئی معانی ذکر ہوئے ہیں)سے جو معنی قدر متیقّن اوریقینی ہیں وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے ہیں،اور دوسرے معانی جیسے،دوستی اوریاری اس کے حقیقی معنی کے حدود سے خارج ہیں اور ان کے بارے میں اشتراک لفظی کا سوال ہی پیدا

____________________

۱۔احزاب/۵۶

۲۔مغنی اللبیب،ج۲،باب پنجم،ص۳۶۵

۳۔الصلوةوالبشرفی الصلوة علی خیرالبشر،ص۳۳،دار الکتب العلمیة،بیروت

۱۳۴

نہیں ہوتا۔

لہذا اگر مادئہ ”ولی“قرینہ کے بغیر استعمال ہو تو وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے معنی میں ہوگا۔

دوسر ا نکتہ بعض اہل لغت نے مادہ ”و لی“کو ایک اصل پر مبنی جانا ہے اورمفہوم کا اصلی ریشہ)جڑ) کو ”قرب“ قراردیا ہے۔اور بعض مفسرین نے کلمہ”ولی“کو اسی بنیاد پرذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں چندمطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:

سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھناچاہئے کہ لغوی معنی کے اس طرح کی تحلیل اوراس کاتجزیہ ایک حدس وگمان اور خوامخواہ کے اجتہاد کے سواء کچھ نہیں ہے اوراس پرکوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ چیز جومعنی کے سمجھنے اوراس لفظ سے تبادر کے لئے معیار ہے وہ اس کے استعمال کازمانہ ہے۔بیشک بہت سے مواقع پر”ولی“کے معنی سے قرب کامفہوم ذہن میں پیدا نہیں ہوتاہے۔بعض مواقع پرکہ جہاں قرینہ موجودہوجیسے”المطرالولی“)وہ بارش جوپہلی بارش کے بعدیااس کے بہت قریب واقع ہو ئی ہو )میں اس قسم کے استعمال کوقبول کیا جاسکتا ہے۔

اس بناپراگرفرض بھی کر لیاجائے کہ”قرب“اس معنی کی اصلی بنیادتھی اورآغاز میں لفظ”ولی“کامفہوم”قرب“کے معنی میں استعمال ہوتا تھا،لیکن موجودہ استعمال میں وہ معنی متروک ہو چکاہے اوراب اس کااستعمال نہیں ہے۔

تیسرا بعض اہل لغت جیسے ابن اثیرنے”النہایة ۱“ میں اورابن منظورنے”لسان العرب ۲“ میں ”ولی“ کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ولی“ خداکے

____________________

۱۔النہا یة،ج۵،ص۲۲۸

۲۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۶

۱۳۵

ناموں میں سے ایک نام ہے اوریہ ناصرکے معنی میں ہے اورکہاگیاہے کہ اس کے معنی امورجہان کے متولی و منتظم کے ہیں۔

اس بیان سے استفادہ ہوتاہے کہ”ولی“جوخداکے ناموں میں سے ایک نام ہے،ان کے نزدیک ناصرکے معنی میں ہے،جبکہ مطلب صحیح نہیں ہے کیو نکہ اگر ”ولی“کے معنی ناصر کے

ہوں گے)چونکہ”ولی“کاایک مادہ اورایک ہیئت ہے،اوراس کامادہ”ولی“”ول ی“وہیئت فعیل ہے)تواس کاتقاضایہ ہے کہ مادہ”ولی“نصرکے معنی میں اوراس کی ہیئت)ہیئت فعیل) فاعل کے معنی میں ہے۔

ایک بات یہ کہ یہ دونوں نظریہ، بغیردلیل کے ہیں اوردوسرے یہ کہ:فعیل صفت مشبہ ہے جس کی دلا لت ثبوت پرہے جبکہ فاعل حدوث پردلالت کرتاہے اوریہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متغائیرہ ہیں۔

اس لئے”ولی“اسم الہی، اسی صاحب اختیاراورکائنات کے امورمیں متولی کے معنی میں ہے کہ جس کو دونوں اھل لغت نے اپنے مختارنظریہ کے بعد“قیل“کے عنوان سے بیان کیاہے۔

چوتھانکتہ:قرآن مجیدکی بہت سی آیتوں میں ”ولی“،”نصیر“ کے مقابلہ میں آیاہے، جیسے( ومالکم من دون اللّٰه من ولیّ ولانصیرا ً ) (۱) تمہارے لئے اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست ہے اورنہ مددگار“

اگر”نصیر“،”ولی“کے معنی میں ہوتاتواس کے مقابلہ میں قرارنہیں دیا جا تااوران دونوں لفظوں کاایک دوسرے سے مقابلہ میں واقع ہو نااس بات کی دلیل ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

_____________________

۱۔بقرہ/۱۰۷

۱۳۶

پانچواں نکتہ:بعض افرادنے قرآن مجید کی بہت سی آیات کے بارے میں یہ تصورکیا ہے کہ ولی اورولایت نصرت اورمددکے معنی میں استعما ل ہوا ہے،جیسے:( مالکم من ولایتهم من شیء ) (۱) جب کہ ولایت سے مراد”نصرت کی ولایت“ہوسکتاہے نہ یہ کہ ولایت”نصرت“کے معنی میں ہے،کیونکہ نصرت ومددولایت و سر پرستی کی علا متوں میں سے ایک

علا مت ہے اس لحاظ سے ولایت کامعنی سرپرستی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اوراس سے نصرت ویاری میں سرپرستی مرادہے۔

”ولی“کے معنی کے سلسلہ میں جوکچھ بیان کیاگیا،اس کے پیش نظر،آیہء کریمہ میں صرف سرپرست اورصاحب اختیارہی والا معنی مراد ہے۔

اس کے علاوہ آیہء شریفہ میں قطعی ایسے قرینہ موجودہیں کہ جس سے مراد ”دوست“اور”یاور“نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کی مزیدوضاحت سوالات کے جواب میں ائے گی۔

رکوع کے معنی

لغت میں ”رکوع“کے معنی جھکنااورخم ہوناہے۔اسی لئے نمازمیں جھکنے کو”رکوع“کہتے ہیں۔(۲)

زبیدی”تاج العروس(۳) “ میں کہتاہے:

”اگررکوع کوتنگدستی اورمفلسی کے لئے استعمال کیاجائے اور ایسے شخص کوجوامیری کے بعدفقیری اورتنگدستی میں مبتلا ہو جا ئے اورزوال سے دوچارہو تواسے”رکع

____________________

۱۔انفال/۷۲

۲۔الصاح جوہری،ج۳،ص۱۲۲۲،دارالعلم للملابین،القاموس المحیط،فیروزآبادی،ج۳، ص۳۱، دارالمعرفہ، بیروت،المنیر،فیومی،ص۲۵۴،ط مصر،جمھرة اللغة،ابن درید،ج۲، ص۱۷۷۰کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی،ج۱،ص۲۰۰

۳۔تاج العروس،ج۲۱،ص۱۲۲،دارالہدایة للطباعة والنشر والتوزیع۔

۱۳۷

الرجل“کہتے ہیں اوریہ استعمال مجازی ہے۔“

اس لئے رکوع کاحقیقی معنی وہی جھکنااورخم ہوناہے اوراگراسے دوسرے کسی معنی،جیسے زوال اورخضوع میں استعمال کیاجائے تویہ اس کے مجازی معنی ہیں اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے۔

آیہء ولایت کی شان نزول

شیعہ اوراہل سنّت تفسیروں کے منابع میں موجودبہت سی احادیث کے مطابق یہ آیہ شریفہ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں ناز ل ہو ئی ہے اور الذین آمنوا۔۔۔ سے مرادوہی حضرت(ع)ہیں۔

ہم اس سلسلہ میں ایک حدیث کو درج کرتے ہیں،جس کوثعلبی ۱ نے اپنی تفسیر ۲ میں سنی محدثین اور مفسرین سے نقل کیا ہے اورشیعوں کے بڑے مفسرشیخ طبرسی نے بھی اس کو”مجمع البیان ۳“ میں درج کیاہے:

”عن عبایة بن الربعی قال:بیناعبداللّٰه بن عباس جالس علی شفیرزمزم إذااٴقبل رجل متعمّم بالعمامة؛فجعل ابن عباس لایقول:”قال رسول اللّٰه( ص) إلاّقال الرجل:قال رسول اللّٰه( ص) “!!فقال ابن عباس:ساٴلتک باللّٰه،من اٴنت؟قال:فکشف العمامةعن وجهه وقال:یا اٴیّهاالناس،من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فاٴنا “

جندب من جنادةالبدری،اٴبوذرالغفاری،سمعت رسول اللّٰه

___________________

۱ ۔ثعلبی کے بارے میں ذہبی کا قول دوسرے اعتراض کے جواب میں بیان کیاجائے گا۔

۲” الکشف والبیان“ج ۴ ،ص ۸۱ ۔ ۸۰ ،داراحیائ التراث العربی

۳ ۔مجمع البیان،ج ۳ ،ص ۳۲۴

۱۳۸

( ص) بها تین وإلاّصمّتا،وراٴیته بها تین وإلاّفعمیتا،یقول:علیّ قائد البررة،وقاتل الکفرة،منصورمن نصره،مخذول منخذ لهاٴماّ إنّی صلّیت مع رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوماًمن الاٴیاّم صلاةالظّهر،فدخل سائل فی المسجدفلم یعطه اٴحد،فرفع السائل یده إلی السّماء وقال:اللّهمّ اٴشهد إنّی ساٴلت فی مسجدرسول اللّٰه فلم یعطنی احد شیئاً - وکان علیّ راکعاً - فاٴومی إلیه بخنصره الیمنی - وکان یتختّم فیها - فاٴقبل السائل حتیّاٴخذالخاتم من خنصره!وذلک بعین النبیّی

فلماّ فرغ النّبیّی( ص) من الصلاةرفع یده إلیالسّماء وقال:اللّهمّ إنّ اٴخی موسی ساٴلک فقال:( ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری،واٴجعل لی وزیراً من اٴهلی هارون اٴخی اشدد به اٴزری ) فاٴنزلتَ علیه قرآناًناطقاً( سنشدّعضدک باٴخیک ونجعل لکما سلطا ناً )

اللّهمّ واٴنامحمّدنبیّک وصفیکاللّهمّ فاشرح لی صدری ویسّرلی اٴمری،واٴجعل لی وزیراًمن اٴهلی علیّاً اشددبه ظهری

قال اٴبوذر:فواللّٰه مااستتمّ رسول اللّٰه الکلمة حتّی اُنزل علیه جبرئیل من عنداللّٰه،فقال یامحمّد!إقراٴ،فقال:ومااٴقراٴ؟قال:إقراٴ:، ”إنّما ولیّکم اللّٰه ورسوله إلی راکعون“الآیة

”عبایہ بن ربیع سے روایت ہے کہ اس نے کہا:اس وقت جب عبداللہ بن عباس)مسجد الحرام میں )زمزم کے کنارے بیٹھے تھے ) اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث روایت کررہے تھے)اچانک ایک عمامہ پوش شخص آپہونچا)اوررسول خدا (ص)سے اس طرح حدیثیں نقل کرنا شروع کیں)کہ جب عبداللہ ابن عباس کہتے تھے:”قال رسول اللہ، (ص)“وہ شخص بھی کہتاتھا:”قال رسول اللہ (ص)۔“ابن عباس نے کہ:تمھیں خدا کی قسم ہے یہ بتاؤکہ تم کون ہو؟اس شخص نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹائی اورکہا:اے لوگو!جومجھے پہچانتاہے،وہ پہچانتاہے،اورجومجھے نہیں پہچانتامیں اسے اپنے بارے میں بتادیناچاہتاہوں کہ میں جندب،جنادئہ بدری کابیٹا،ابوذرغفاری ہوں۔میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنے ان دونوں)کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کا نوں سے سنا اگریہ با ت صحیح نہ ہو تو)میرے کان)بہرے ہو جائیں اوران دونوں انکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آنکھوں سے دیکھا اگر یہ با ت درست نہ ہو تو میری آنکھیں اندھی ہوجائیں)میں نے سنا اور دیکھا) فرما رہے تھے: علی (علیہ السلام) نیکوں کے پیشوااور کافروں کے قاتل ہیں۔جوان کی مددکرے گااس کی خدا نصرت کرے گا،اورجوانھیں چھوڑدے گاخدااسے بھی چھوڑدے گا۔

۱۳۹

ایک دن میں رسول خدا (ص)کے ساتھ ظہرکی نمازپڑھ رہاتھاکہ ایک سائل نے اہل مسجد سے سوال کیا،کسی نے اس کی حاجت پوری نہیں کی۔سائل نے اپنے ہاتھآسمان کی طرف بلند کئے اورکہا:

خداوندا! تو گواہ رہناکہ میں نے مسجدالنبی میں سوال کیااورکسی نے میری حاجت پوری نہیں کی۔علی(علیہ السلام)رکوع کی حالت میں تھے،اپنی چھوٹی)انگلی جس میں انگوٹھی تھی)سے اس کی طرف اشارہ کیا۔سائل نے سامنے سے آکرانگوٹھی آپ(ع)کے ہاتھ سے نکال لی۔رسول خدا (ص)اس واقع کے شاہد اور گواہ ہیں جب پیغمبراسلام (ص)نمازسے فارغ ہوئے آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کی:خداوندا!میرے بھائی موسیٰ(علیہ السلام) نے تجھ سے سوال کیا اور کہا”پروردگارا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کو آسان کر دے اور میری زبان کی گرہوں کوکھول دے،تا کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کومیراوزیرقراردیدے،اس سے میری پشت کومضبوط کردے،اسے میرے کام میں شریک بنادے۔“)اس کی درخواست کو بر لا)اور تو نے اس داستان کے بارے میں قرآن مجیدمیں یوں فرمایا:”ہم تمھارے بازؤں کوتمھارے بھائی)ہارون)سے مضبوط کردیں گے اورتمھیں ان پرمسلط کردیں گے۔“

خداوندا!میں تیرا بر گزیدہ پیغمبرہوں،خداوندا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کوآسان کر،میرے اہل میں سے میرے بھائی علی(ع)کومیر اوزیرقراردے اوراس سے میری پشت کومضبوط کر۔)ابوذرکہتے ہیں:)خدا کی قسم رسول خدا (ص)نے ابھی اپنی بات تمام بھی نہیں کی تھی کہ جبرئیل امین خداکی طرف سے نازل ہوئے اورکہا:اے محمد!پڑھئے!) آنحضرت نے) کہا:کیا پڑھوں؟ )جبرئیل نے کہا)پڑھئیے: إ( نّماولیکم اللّٰه ورسوله ) ۔۔۔ “

شیخ طبرسی نے اس حدیث کے خاتمہ پرکہاہے:اس روایت کوابواسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اسی سند سے)کہ جیسے میں نے ذکرکی ہے)نقل کیاہے۔اس شان نزول کو بیان کر نے والی بہت ساری حدیثیں ہیں ان میں سے بعض کوہم دوسری مناسبتوں کے سلسلہ میں بیان کریں گے اوران میں سے بعض دوسری احادیث کے حوالہ ابن تیمہ کے جواب کے ذیل میں عرض کریں گے۔ان احادیث کے پیش نظرواضح ہو گیا کہ یہ شان نزول قطعی ہے اوراس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329