ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب11%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130653 / ڈاؤنلوڈ: 4447
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سیف کی داستان کے نتائج

١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔

٤۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔

مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ

عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔

٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔

٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔

٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔

٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں ۔

۸۱

مصادر و مآخذ

عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں ' ق/١

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١

٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔

٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

۸۲

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی داستان

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١

۸۳

انتیسواں جعلی صحابی کبیس بن ہوذہ سدوسی

اس صحابی کا نام و نسب:

'' استیعاب'' ، '' اصابہ'' اور '' تجرید'' میں اس صحابی کا نام '' کبیس بن ھوذہ '' لکھا گیا ہے۔

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اسی نام کو درج کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شاہین'' کے ایک قدیمی نسخہ میں یہ نام '' کنیس'' ثبت ہوا ہے۔

ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ'' کے قلمی نسخہ میں یہ نام '' کبیش بن ہودہ '' درج ہوا ہے اور ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی نام کو قبول کرکے '' ابن مندہ کی پیروی کی ہے۔

اس صحابی کا نسب: '' اسماء الصحابہ'' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں لکھا گیا ہے کہ سیف بن عمر نے اس صحابی کا تعارف ' ' خاندان ِ بنی بکر و ائل عدنانی '' کے قبیلۂ بنی حارث بن سدوس '' سے کرایا ہے۔

ابن حزم نے اپنی کتاب '' جمہرہ'' میں بنی حارث کے ایک گروہ کے حالات کی تشریح کی ہے ، لیکن ان میں '' کبیس'' یا '' کنیس''یا '' کبیش'' نام کا کوئی صحابی اور '' ھوذہ '' یا '' ھودہ'' نام کا کوئی باپ ۔

'' سمعانی'' نے بنی حارث بن سدوس کے ایک گروہ کا نام لفظ السدوسی '' میں لیا ہے لیکن ان باپ بیٹوں کا کہیں نام بھی نہیں لیا ہے۔

۸۴

کبیس بن ہوذہ کی داستان :

ابن عبدا لبر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کے بارے میں صرف اتنا لکھتا ہے کہ:

'' ایاد بن لقیط نے اس سے روایت کی ہے ''

اس کے بعد کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اس کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے ۔

ابن مندہ اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں اپنے ہی اسناد سے لکھتا ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ بن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سدوسی سے اس نے بنی حارث بن سدوس کے ایک شخص کبیش بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیش پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے کچھ فرمان مرقوم فرمائے ہیں ۔

اس داستان کے آخرمیں ابن مندہ اظہار نظر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شبرمہ کی یہ حدیث حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے''

ابن اثیر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں مذکورہ داستان کو درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یوں اضافہ کرتا ہے :

اس مطلب کو تین مصادر ( ب ۔ ع ۔ د ) ١

____________________

١۔ ''ب''کتاب ''استیعاب'' کے مصنف ابن عبدالبر ''ع'' : ابو نعیم ، کتاب '' معرفة الصحابہ '' کے مصنف ، ابو نعیم ، حافظ احمد بن عبد اﷲ بن احمد اصفہانی ( ٣٦٠ ۔ ٤٣٠ھ)

''د'' : ابن مندہ ، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ ،محمد بن اسحاق اصفہانی ، جس نے احادیث کی جستجو میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے ۔ اس کی تالیفات میں سے '' اسماء الصحابہ '' ہے جو خاص طور سے ابن اثیر کی توجہ کا مرکز تھی۔

۸۵

نے ذکر کیا ہے۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید '' میں لکھا ہے :

سیف نے '' ایاد بن لقیط '' سے نقل کیا ہے کہ '' کبیس'' اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔( ب ۔ ع۔ د)ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھا ہے :

ابن شاہین ١ اور ابن مندہ نے سیف بن عمر سے اس نے عبدا اﷲبن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سے اس نے کبیس بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر وہی مذکورہ داستان نقل کی ہے )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

یہ داستان صرف اسی طریقہ سے پہنچی ہے اور ابن مندہ نے بھی کہا ہے کہ : ابن شبرمہ کی یہ داستان تعجب خیزہے !!!

خلاصہ :

سیف نے اس حدیث میں کبیس بن ہوذہ کو بنی حارث بن سدوس کے ان صحابیوں میں سے خلق کیا ہے جن کے ہمراہ اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے ایک فرمان مرقوم فرمایا تھا۔ یہیں سے اس قسم کا نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی

____________________

١۔ ابن شاہین ، حافظ ابو حفص بن شاہین ، عمر بن احمد بن عثمان بغدادی ( ٢٩٧ ۔ ٣٨٥) ہے ۔ اس کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد چھتیس بتائی گئی ہے ، من جملہ کتاب '' معجم الشیوخ '' ہے جس میں سرکردہ روات حدیث شامل ہیں ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ' ' اصابہ '' میں اس کتاب سے نقل کیا ہے۔

۸۶

فہرست اور ''معجم الشیوخ '' کے سرکردہ راویوں میں قرار پاتا ہے اور اس کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خیالی خط ایک حقیقی اورمسلم سند کے طور پر کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں درج کیا جاتا ہے !!

ہم نے اس نمائندہ صحابی کو پہچاننے کیلئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں جیسے ، ابن سعد کی ''طبقات '' ابن ہشام کی '' سیرة'' بلاذری کی '' انساب الاشراف'' اور مقریزی کی '' امتاع الاسماع '' کے علاوہ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف وفود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں کہیں بھی '' کبیس'' کا نام نہیں دیکھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں کبیس کے نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی فرمان یا خط کا مشاہدہ نہیں کیا ! بلکہ ہم نے سیف کے اس خلق کردہ صحابی کو صرف سیف کی احادیث میں اور اس کے راویوں کے ہاں پایا۔

افسانۂ کبیس کے اسناد کی پڑتال

ہم نے کہا کہ کتاب '' استیعاب '' کے مصنف ابن عبد البر نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ابن مندہ نے کبیس کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اور ابن اثیر نے اسے تین مآخذ '' ب ۔ ع، د'' کی علامت کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید ''میں کبیس کی نمائندگی کو سیف کی روایت کے مطابق ایاد بن لقیط سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن اثیر کے مآخذ کی اختصاری علامت '' ب ، ع، د'' کی قید لگادی ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں داستان کبیس کو ابن مندہ اور ابن شاہین کے قول کے مطابق نقل کیا ہے۔

۸۷

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ ابن مندہ، ابن شبرمہ کی اس حدیث پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور ابن حجر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ داستان صرف اس سند کے علاوہ کسی اور راوی سے نہیں ملی ہے ، یعنی ابن شبرمہ تنہا شخص ہے جس نے یہ داستان بیان کی ہے۔ اس روایت کی تنہا سند '' ایاد بن لقیط '' ہے اور اس کا مرکزی کردار ''کبیس بن ہوذہ '' ہے !! یہی مسئلہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ مذکورہ دو دانشور ابن شبرمہ کی حدیث پر تعجب کا اظہار کریں جبکہ وہ اس امر سے غافل تھے کہ بیچارہ ابن شبرمہ کا کوئی قصور ہی نہیں ہے بلکہ اصلی مجرم اور قصوروار سیف بن عمر ہے جس نے جھوٹ گڑھ کر ابن شبرمہ کے سر تھوپا ہے !

کتاب '' تجرید'' میں ذہبی کی بات بھی ہمارے دعوے کو ثابت کرتی ہے جب وہ داستان کبیس بیان کرتے وقت کنایہ کے طور پر لکھتا ہے :

'' سیف کی روایت کی بناء پر ''

اس بنا پر سیف کی اس حدیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ عبد اللہ بن شبرمۂ ضبی کوفی ( ٧٢ ۔ ١٤٤ ھ )جو ان علماء کے نزدیک ثقہ اور ایک قابل اعتماد شخص تھا۔

٢۔ ایاد بن لقیط سدوسی : اسے تابعین کے چوتھے در جے میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی نظر میں ثقہ ہے۔

٣۔ بنی حرث بن سدوس سے خود کبیس بن ہوزہ ، چونکہ ہم نے اس کی داستان اور نام سیف اور اس کے راویوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا لہذا اس کو سیف کے جعلی اصحاب اور راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

داستان کبیس کا نتیجہ

١۔ ایک نمائندہ صحابی ، جس کے حالات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دئیے گئے ہیں ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث شریف کا ایسا راوی جس کے حالات '' معجم الشیوخ'' کی روایتوں میں ملتے ہیں ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط، جس کا ذکر بعض متاخرین کے ذریعہ کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیہ'' میں کیا گیا ہے

ان سب کو سیف نے تن تنہا خلق کیا ہے اور اپنے اس جعلی صحابی اور دو نامور راویوں ۔۔ کہ ہم جن کی گردن پر ابن مندہ و ابن حجر کے برخلاف سیف کے جھوٹ کا گناہ ڈالنا نہیں چاہتے ۔۔ کی زبانی روایت نقل کی ہے ۔

۸۸

افسانۂ کبیس کی اشاعت کے ذرائع:

١۔ ابن شاہیں ( وفات ٣٨٥ ھ ) نے کتاب '' معجم الشیوخ'' میں ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ میں ۔

٣۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٤۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ ھ )نے کتاب '' الاستیعاب فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٥۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ)نے کتاب '' اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٦۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ)نے کتاب '' الاصابة فی تمییز الصحابہ'' میں ابن شاہین سے نقل کرکے۔

٨۔ اور حال ہی میں محمد حمید اللہ نے کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں ابن کثیر سے نقل کرکے اس نے لکھا ہے کہ: اس خط کا متن نقل نہیں ہوا ہے۔

مصادر و مآخذ

کبیس کا نسب ، اس کے حالات اور داستان :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٢٢٧) نمبر : ٩٧٠

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ '' مدینۂ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں موجود قلمی نسخہ۔

٣۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٣١)

٤۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ٢ ٢٩ )

٥۔ '' اصابہ'' (٣ ٢٧٠) نمبر : ٧٣٧٦

٦۔ سمعانی کی '' انساب '' لفظ '' السدوسی '' نمبر : ٢٩٤

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ '' ( ص ٢٩٨۔ ٢٩٩)

۸۹

ابن شاہین کے حالات

١۔ ' ' تاریخ بغداد '' ( ١١ ٢٦٥ ) نمبر: ٦٠٢٨

٢۔ '' کشف الظنون '' ( ٢ ١٧٣٥)

٣۔ ''ھدیة العارفین '' (٢ ٧٨١)

٤۔ '' شذرات '' ( ٣ ١١٧)

٥۔ اعلام زرگلی ( ٥ ١٩٦)

٦۔ ''معجم المؤلفین '' ( ٧ ٢٧٣)

ابن مندہ کے حالات :

١۔ '' عبر ذہبی '' ( ٣ ٥٩)

٢۔ ''کشف الظنون'' (١ ٨٩)

٣۔ '' ھدیة العارفین'' ( ٢ ٥٧)

ابو نعیم کے حالات:

١۔ '' عبر ذہبی '' (٣ ١٧٠)

٢۔ ' ' کشف الظنون '' (٢ ١٧٣٩)

عبد اللہ شبرمہ کے حالات

١۔ تاریخ بخاری ٣ ق ( ١ ١١٧)

٢۔ '' جرح و تعدیل'' رازی ٢ ق ( ٢ ٨٢) اسی طرح تہذیب میں ۔

۹۰

ایاد بن لقیط کے حالات :

١۔ تاریخ بخاری ١ ق ( ٢ ٦٩)

٢۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ١ ٣٨٦)

٣۔ '' الجمع بین رجال الصحیحین'' ( ١ ٥٢)

٤۔ '' تقریب'' (١ ٨٦)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نظریہ :

١۔ مجموعہ وثائق سیاسی ص ٩٩ نمبر : ٢٣٤ طبع قاہرہ ، انجمن تالیف و ترجمہ و نشر کتاب ١٩٤١ ئ

اسناد

١۔ معجم قبائل العرب '' رضا کحالہ ج٢ طبع ہاشمیۂ دمشق ١٩٤٩ ئ

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق ''

٣۔ نویری کی '' نہایة الارب ''

٤۔ ابن اثیر کی '' لباب الانساب''

۹۱

چوتھا حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار

*٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی

*٣١۔ صخر بن لوذان

*٣٢۔ عکاشہ بن ثور

*٣٣۔ عبد اللہ بن ثور

*٣٤۔ عبید اللہ بن ثور

۹۲

تیسواں جعلی صحابی عبید بن صخر

اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔

کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:

عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ

کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:

بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔

____________________

١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں '' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)

۹۳

اس صحابی کا نسب

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:

'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''

البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں : جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں ، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١

اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:

١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔

٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔

____________________

١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔

۹۴

٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔

یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں ۔

عبید بن صخر کی داستان

عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:

١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی (یہاں تک کہ کہتا ہے) :

معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

____________________

١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۹۵

٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:

ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے

____________________

١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میں یوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے

٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)

٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں ۔

۹۶

گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں ۔

ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:

اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :

عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔

طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں ۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :

٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ

میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی

۹۷

مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوں میں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔

٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :

سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔

ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔

٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات

____________________

١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔

۹۸

میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :

میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں ، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!

ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔

٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!

۹۹

بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔

١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔

٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں ۔

'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

سیف نے اس سلسلہ میں اپنے افسانوں کو ایسی مہارت اور چابکدستی سے اسلام کی تاریخ میں داخل کیا ہے اور انھیں حقیقی روپ بخشا ہے کہ انسان ابتدا میں تصورکرتا ہے کہ حقیقت میں یہ تاریخ کے واقعی چہرے تھے اور ان میں سے ہر ایک اہم رول ادا کرتا تھا !! یہی امر سبب بنا ہے کہ جعلی سورماؤں کے نام قابل احترام کتابوں اور رجال اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے حالات پر مشتمل کتابوں میں حقیقی وجود کے طور پر پیغمبر خدا کے دوسرے اصحاب کی فہرست میں قرار پاگئے !! لیکن آج جب کہ علم و تحقیق کی روشنی چاروں طرف پھیلی ہے ، ان افسانوں کے تاریخ اسلام میں داخل ہونے کے بارہ صدیوں کے بعد جب ہم نے چاہا کہ ان تمام فریب کاریوں اور جھوٹ سے پردہ اٹھائیں اور تاریخ اسلام کے حقائق کو واقعی صورت میں اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں پیش کریں تو ہمارے بعض عزیزوں نے ہم سے منہ موڑ کر ہم پر ناک بھوں چڑھانا شروع کیا، بعض بزرگوں نے ہماری نسبت غصہ و نفرت کا اظہا رکیا، حتی یہی رد عمل سبب بنا کہ اس کتاب کا ایک حصہ شائع کرنے پر پابندی لگادی گئی خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم اس حصہ کو شائع کرنے میں کب کامیاب ہوجاں گے ١

____________________

١۔اس سلسلہ میں مجلۂ '' الازہر '' قاہرہ جلد ٣٢ ( شمارہ ،١٠،صفحہ نمبر ١١٥٠ ، اور جلد ٣٣ شمارہ ٦ (صفحات ٧٦٠ ۔ ٧٦١ ) ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مجلہ راہنمائے کتاب طبع تہران سال چہارم شمارہ ٧ ص ٦٩٦ و شمارہ ٨ ، ص ٨٠٠ و شمارہ ٩ ص ٨٩٤ ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔)

۲۰۱

مصادر و مآخذ

خزیمۂ ذو الشہادتین کا نسب:

١۔ ابن حزم کی '' جمہرہ '' ص ٣٢٤۔

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق'' ص ٤٤٧۔

٣۔ طبری کی '' ذیل المذیل '' ( ٣ ٢٤٠٠۔

٤۔ ''معرفة الصحابہ '' مستدرک حاکم تیسری جلد۔

گھوڑا خریدنے اور خزیمہ کو ذو الشہادتین کا لقب ملنے کی داستان

١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل (٥ ٢١٥)

٢۔ ابن سعد کی '' طبقات '' (٤ ٣٧٨ ۔ ٣٧٩)

٣۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ، خزیمہ کے حالات ( ٢ ١١٤) سواء یا سواد کے حالات ( ٢ ٣٧٣ ۔ ٣٧٤)

٤۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' خزیمہ کے حالات ( ٥ ١٣٣)

خلیفہ عمر کا قرآن مجید کو جمع کرنا اور قبیلۂ اوس کا خزیمہ پر افتخار کرنا۔

١۔ '' تاریخ ابن عساکر '' اور اس کی '' تہذیب '' ( ٥ ١٣٣)

٢۔ احمد بن حنبل کی ''مسند '' ( ٥ ١٨٩)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ١ ٤٢٥)

٤۔ صحیح بخاری باب جمع القرآن ( ٣ ١٥٠ و ١١٧٣) تفسیر سورۂ احزاب

٥۔ خطیب بغدادی کی '' موضح '' ( ١ ٢٧٦)

۲۰۲

امام کی جنگوں میں خزیمہ کی شرکت

١۔ ابن سعد کی '' طبقات '' عمار کے حالات ( ٣ ٣٥٩)

٢۔ بلاذری کی '' انساب الاشراف '' ( ١ ١٧٠)

٣۔ ابن عبدا لربر کی '' استیعاب '' ( ١ ١٥٧)

٤۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' میں خزیمہ کے حالات ( ٢ ١١٤)اسی طرح ابن عساکر کی تاریخ

٥۔ احمد بن حنبل کی '' مسند'' ( ٥ ٢١٤)

٦۔ طبری کی '' ذیل المذیل '' عمار یاسر کے حالات ( ٣ ٣١٦)

٧۔ خطیب بغدادی کی ''موضح '' ( ١ ٢٧٧)

عمار یاسر کے بارے میں سیف کے جھوٹ:

١۔ خلیفہ عمر کی طرف سے عمار یاسر کے کوفہ میں گورنر کی حیثیت سے منصوب کئے جانے کے سلسلے میں واقدی کی روایت اور تاریخ طبری ( ١ ٢٦٤٥) میں سیف کے ذریعہ عمار یاسر کے معزول کئے جانے سے متعلق روایت کا موازنہ کیجئے۔

٢۔ تاریخ طبری ( ١ ٢٦٧٢ ۔ ٢٦٧٨)

زیاد بن حنظلہ ،امام علی علیہ السلام اور سیف کی پانچ روایتیں

١۔ تاریخ طبری ( ١ ٣٠٩٥ ۔ ٣٠٩٦) میں پانچوں روایتیں یکے بعد دیگرے درج ہوئی ہیں ۔

٢۔ خطیب بغدادی کی ''موضح '' ( ١ ٢٧٥۔ ٢٧٦) اس نے پہلی دو روایتوں کو درج کیا ہیں ۔

٣۔ ابن عساکرنے اپنی '' تاریخ '' جس کا قلمی نسخہ دمشق کی '' ظاہریہ لائبریری میں موجود ہے ۔ نمبر : ٣٣٧٠ جلد ٥ ص ٣٠٢ و ٣٠٣ اس نے دوسری روایت کو سیف سے نقل کرکے ذکر کیا ہے ۔

۲۰۳

سیف کی روایتوں کی پڑتال

١۔ تاریخ طبری ( ١ ٢٢٠٨ و ٢١١١)

٢۔ '' الجرح و التعدیل '' ٢ ق ( ١ ٤٨٢)

٣۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ٩ ٣٢٢)

٤۔ ''میزان الاعتدال '' ( ١ ٥٧٧)

امام کے بارے میں خزیمہ اور دوسرے اصحاب کا نقطہ نظر

١۔ تاریخ یعقوبی ( ٢ ١٧٨ ۔ ١٧٩)

٢۔ اعثم کی '' فتوح '' ( ٢ ٢٨٩)

٣۔ مسعودی کی '' مروج الذہب '' ( ٢ ٣٦٦ ۔ ٣٦٧)

امام کی جنگوں میں مجاہدین بدر اور دوسرے اصحاب کی موجودگی

١۔ذہبی کی '' تاریخ اسلام '' ( ٢ ١٧١)

٢۔ خلیفہ بن خیاط کی '' تاریخ '' ( ١ ١٦٤)

٣۔ نصر بن مزاحم کی کتاب '' صفین ' ( ٩٢ ۔ ٩٤)

٤۔ تاریخ یعقوبی ( ٢ ١٨٨)

٥۔ مسعودی کی '' مروج الذہب '' ( ٢ ٣٩٤)

۲۰۴

خزیمہ ذو الشہادتین کا قتل ہونا :

١۔ ابن سعد کی ''طبقات '' عمار یاسر کے حالات

٢۔ خطیب بغدادی کی موضح ( ١ ٢٧٧)

٣۔ نصر بن مزاحم کی کتاب '' صفیں '' ص ٣٥٨ ، ٣٦٣- ٣٦٦

خزیمہ کے افسانہ پر ایک بحث

١۔ خطیب بغدادی کی '' موضح '' ( ١ ٢٧٥۔ ٢٧٨)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ١ ٤٢٥ ) ذو الشہادتین کے حالات نمبر : ٢٢٥١ اور'' خزیمہ غیر ذو الشہادتین '' نمبر ٢٢٥٢۔

٣۔ شرح نہج البلاغہ ، تحقیق ابو الفضل ( ١٠ ١٠٩ ۔ ١١٠)

٤۔ ابن اثر کی '' تاریخ کامل'' ( ٣ ٨٤)

٥۔ تاریخ ابن کثیر ( ٧ ٢٣٣)

٦۔ ' ' تاریخ ابن خلدون '' ٢ ٤٠٧ ۔ ٤١٣) اور اسی صفحہ پر تعلیق امیر شکیب ارسلان

٧۔ '' عبد اللہ ابن سبا '' طبع آفسٹ تہران ۔ ١٣٩٣ھ سیف بن عمر کے حالات

۲۰۵

سماک بن خرشہ انصاری ابودجانہ

کتاب کے اس حصہ میں ہم ان تین چہروں کے بارے میں بحث کریں گے جن میں سے ہر ایک کا نام ''سماک بن خرشہ '' تھا۔

ابودجانہ اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلوار

ابودجانہ ، سماک بن خرشۂ انصاری یا ''سماک بن اوس بن خرشہ ، ابودجانۂ انصاری ساعدی '' ایک شجاع ، دلیر اور ایک مشہور جنگجو شخص تھا ۔

ابو دجانہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ بدر کی جنگ میں سرگرم طور پر شرکت کی ہے اور شرک و نفاق کے خلاف اسلام کی دوسری جنگوں میں بھی اس نے تلوار چلائی ہے۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احد کی جنگ میں ایک تلوار ہاتھ میں لے کر مجاہدین اسلام سے مخاطب ہوکر فرمایا:

کون ہے جو اس تلوار کا حق ادا کرے ؟

زبیرنے کہا کہ ؛ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر بولا، اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : میں ہوں ۔ لیکن پیغمبر خدا نے میری بات پر توجہ نہ فرمائی ١ اور بدستور اپنی پہلی بات کو دہراتے رہے ۔

'' کون ہے جو اس تلوار کا حق ادا کرے ؟ ''

اب کی بار '' ابودجانہ سماک بن خرشہ '' اپنی جگہ سے اٹھ کر بولے :

میں اس کا حق ادا کروں گا ، اس کا حق کیا ہے ؟

۲۰۶

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

اس کا حق یہ ہے کہ اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرو گے اور کفار سے جنگ میں پیچھے نہ ہٹو گے ۔

زبیر کہتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلوار کو ابو دجانہ کے ہاتھ میں دیا۔

طبری نے اسی داستان کو '' ابن اسحاق '' سے نقل کرکے یوں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم احد کی جنگ میں ایک تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے اپنے اصحاب کے درمیان پھراتے ہوئے فرما رہے تھے:

کون ہے جو اس تلوار کا حق ادا کرے ؟

کچھ لوگ اپنی جگہ سے اٹھے اور اس کا حق اداکرنے کی آمادگی کا اعلان کیا ، لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی طرف اعتنا نہ کیا جب ابودجانہ نے اپنی جگہ سے اٹھ کر پوچھا :

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تلوار کا حق کیا ہے ؟

____________________

١۔ گویا زبیر کی تجویز کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے اعتنائی کا سرچشمہ یہ تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے کہ وہ اپنی شرط پر وفا نہیں کرے گا اور جمل کی جنگ میں بصرہ میں '' سبابجہ'' کے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کرے گا۔'' نقش عائشہ در تاریخ اسلام '' جلد ٢ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۰۷

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

اسا حق یہ ہے کہ اس سے دشمنون پر اتنا وار کیا جائے کہ یہ ٹیڑھی ہوجائے ١

ابو دجانہ نے کہا :

میں اس تلوار کا حق ادا کرتا ہوں

اس وقت پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلوار کو ابودجانہ کے ہاتھ میں دیا۔

ابودجانہ ایک دلیر ، شجاع اور تجربہ کار جنگجور شخص تھے ۔ میدان کارزار میں خودنمائی اور خود ستائی کرتے تھے ۔ سرخ رنگ کا عمامہ سر پر باندھتے تھے ، یہ عمامہ ان کی پہچان تھا ۔ جب بھی ابودجانہ یہ عمامہ سر پر رکھے ہوتے تو لوگ سمجھتے تھے کہ ابودجانہ جنگ کررہے ہیں اور جنگ کا حق ادا رکررہے ہیں ۔

ابو دجانہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تلوار حاصل کرنے کے بعد، دو فوجوں کے درمیان خود ستائی اور خود نمائی کرنے لگے اور اپنے اوپر ناز کرنے لگے ، متکبرانہ قدم اٹھا رہے تھے ۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودجانہ کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا:

خدائے تعالیٰ اس طرح راہ چلنے پر نفرت کرتا ہے ، سوائے اس مقام کے۔

زبیر کہتا ہے :

اس جنگ میں کوئی پہلوان ابودجانہ کے مقابلے میں آنے کی جرت نہیں کرتا تھا ، جو بھی آگے بڑھتا تھا ابودجانہ کے وار سے ڈھیر ہوجاتا تھا وہ دشمن کی صفوں کو تہس نہس

____________________

١۔ ایسا لگتا ہے کہ جس صحابی کے ہاتھ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلوار نہیں دی ہے ، اس کا نام احترام میں نہیں لیاگیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کسی مسلمان کو اس سے قتل نہ کرنے کی شرط میں تحریف کرکے اس کی جگہ یہ کہا ہے کہ دشمنوں پر اتنا وار کیا جائے کہ یہ ٹیڑھی ہوجائے سیرۂ ابن ھشام ، خصوصاً اس کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے تا کہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہوجائے ۔

۲۰۸

کرتے تھے اور آگے بڑھتے ہوئے راستے کی ہر رکاوٹ کو تلوار کی ضرب سے دور کرتے تھے حتی ایک پہاڑ کے دامن قریش کی چند خواتین سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی جو دف بجاتے ہوئے قریش کے جنگجوؤں کیلئے یوں گارہی تھیں ۔

ہم زہرہ ، یعنی صبح کے تارے کی بیٹیاں ہیں ، اگر میدان کارزار میں پیشروی کرو گے تو ہم تمہارے ساتھ ہم آغوش ہوجائیں گے۔

ہم تمہارے لئے نرم بستر بچھائیں گے و...

ابو دجانہ نے ان پر حملہ کیا اور تلوار کھینچی تا کہ ان پر ضرب لگائیں اچانک ہاتھ کو روک کروہاں سے واپس لوٹے ۔ زبیر نے اس کی اس حرکت کے بارے میں ان سے سوال کیا ۔ ابودجانہ نے جواب میں کہا:۔

میں رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلوار کو اس سے بلند تر سمجھتا ہوں کہ اس سے ایک عورت کو قتل کروں ۔

ایک زمانہ گزرنے کے بعد یمامہ کی جنگ پیش آئی ۔ اسلامی فوج کے دباؤ کی وجہ سے مسیلمہ اور اس کے حامی مجبور ہوکر ایک باغ میں داخل ہوئے اور وہاں پناہ لے کر اور وہیں سے مسلمانوں کی فوج سے لڑتے تھے ۔

مسلمان، مسیلمہ کے سپاہیوں کے دفاعی حملوں کے سبب باغ میں داخل نہیں ہوسکتے تھے ۔ یہاں تک کہ ابودجانہ تن تنہا آگے بڑھے اور دروازے سے باغ کے اندر داخل ہونے لگے جس کے نتیجہ میں ان کا پاؤں ٹوٹ گیا ۔ لیکن اسی حالت میں باغ کے دروازہ پر استقامت کے ساتھ لڑتے رہے اور کفار کو قتل کرتے رہے جب اسلامی فوج پہنچ گئی تو انہوں نے باغ کے اندر حملہ کر کے مسیلمہ اور اس کے جھوٹے دعوؤں کا خاتمہ کیا لیکن ابودجانہ اس گیرودار میں شہید ہوگئے ۔

ابو عمرو ، ابن عبدالبر اور اس کی پیروی کرنے والے دیگر علماء یہاں پر غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں لکھتے ہیں :

کہا جاتا ہے کہ ابودجانہ اس جنگ میں قتل نہیں ہوئے بلکہ زندہ بچ نکلے اور صفین کی جنگ میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ہمراہ معاویہ سے جنگ میں شرکت کی ہے !

جب کہ صفین کی جنگ میں علی علیہ السلام کے ہمراہ شرکت کرنے والے ابودجانہ سماک بن خرشہ انصاری نہیں تھے بلکہ اس کا ہم نام ایک دوسرا صحابی تھا ۔

اب ہم اس کی تفصیلات بیان کرتے ہیں ۔

۲۰۹

سماک بن خرشۂ جعفی تابعی

نصر بن مزاحم اپنی کتاب '' صفین '' میں لکھتا ہے :

سماک بن خرشہ جو صفین کی جنگ میں علی علیہ السلام کے ایک سوار فوجی کے عنوان سے لڑرہا تھا، حسب ذیل رجز خوانی کرتا ہے: ۔

غسانی فیصلہ کرتے وقت اچھی طرح جانتے تھے کہ ہم میدان کارزار میں اور دشمنوں سے لڑتے وقت آگ کے بھڑکتے شعلوں کے مانند ہیں ۔

اور جواں مردی و عفو و بخشش کے وقت سب میں نمایاں 'بہادروں اور جنگجوؤں کے سردار ہیں ۔

اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ '' سماک بن خرشۂ جعفی '' انصار میں سے نہیں تھا ۔ کیونکہ انصار دو قبیلہ ''اوس '' و '' خزرج'' زید بن کہلان بن سبا کی نسل سے ہیں ۔ ان لوگوں نے رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مکہ سے مدینہ ہجرت سے برسوں پہلے مدینہ منورہ میں آکر وہاں پر سکونت اختیار کی تھی ۔

اس لحاظ سے ، جس سماک بن خرشہ نے صفین کی جنگ میں امام علی علیہ السلام کے ہمراہ شرکت کی ہے جعفی جو '' عریب بن زید کہلان '' کی نسل سے '' سعد العشیرہ '' کا بیٹا ہے اس کے اجداد یمن کی ایک آبادی کے رہنے والے تھے اور وہاں پر معروف تھے اس آبادی سے صنعا تقریباً بیالیس فرسخ دور ہے ۔

اس قبیلہ کایمن میں اسی قدر رہنا اس امر کا سبب بنا ہے کہ '' ابن قدامہ '' ( وفات ٦٢٠ھ) نے ان کا شجرۂ نسب کتاب '' استبصار'' میں درج نہیں کہا ہے ۔ استبصار انصار کے شجرۂ نسب سے مربوط مخصوص کتاب ہے ۔

۲۱۰

اڑتالیسواں جعلی صحابی سماک بن خرشۂ انصاری ( غیر از ابودجانہ )

بیوہقحطانی عورتوں کا مقدر

طبری نے قادسیہ ١ کی جنگ کے بعد رونما ہونے والے حوادث اور واقعات کے ضمن میں سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرکے کچھ مطالب لکھے ہیں ۔ جن کا ایک حصہ خلاصہ کے طور پر حسب ذیل ہے :

قادسیہ کی جنگ کے نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ اس میں قبیلۂ '' نخع'' کے سات سو جنگجو اور قبیلۂ ''' بجلیہ '' قحطانی یمانی کے ایک ہزار سپاہی کام آئے اور ان کی بیویاں بیوہ ہوگئیں ۔

عرب کے مردوں کی غیرت اس بات کی اجازت نہیں د یتی تھی کہ یہ ایک ہزرار سات سو یمانی عورتیں بیوہ اور بے سرپرست رہیں اور ان کا مستقبل تاریک و مبہم رہے ۔ لہذا جواں مردی کا مظاہرہ کرتیہوئے اٹھے اور انہیں اپنی شرعی اور قانونی بیویاں بنا کر اپنے گھر لے گئے ۔ ان میں سے صرف

____________________

١۔ قادسیہ کوفہ سے پانچ فرسخ کی دوری پر واقع ہے ۔خلافتِ عمر کے زمانے میں ایرانی فوج رستم فرخزاد کی کمانڈ میں اور اعراب ، سعد وقاص کی کمانڈ میں ، اس جگہ پر نبرد آزما ہوئے ۔ یہ خونین جنگ مسلمانوں کی فتح پر ختم ہوئی ۔

۲۱۱

ایک عورت '' اروی'' بنت عامر نخعی رہ گئی !!

'' اروی '' کا مسئلہ اس لئے پیش آیا کہ عرب کے تین معروف سردار ، '' سماک بن خرشہ انصاری '' ( مشہور ابودجانہ کے علاوہ ) ، '' عتبہ بن فرقد لیثی '' اور ' بکیر بن عبدا ﷲ '' نے ایک ساتھ خواستگاری کی تھی ۔ اور '' اروی '' ان نامور عربوں جن میں ہر ایک خاص کمالات و فضائل کا مالک تھا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے میں حیران رہ گئی تھی ۔ بالآخر مجبور ہوکر اپنی بہن ' ' ہنیدہ'' کے ذریعہ اس کے شوہر عرب کے معروف پہلوان اور صحابی بزرگوار '' قعقاع بن عمرتمیمی'' سے اس سلسلے میں مشورہ چاہتی ہے کہ وہ اپنا نظریہ پیش کرے ۔ قعقاع نے بھی فراخدلی سے ایک رباعی کے ذریعہ اپنا نقطۂ نظر اپنی بیوی کی بہن سے مندرجہ ذیل مضمون میں بیان کیا :

اگر مال و منال اور دینار و درہم چاہتی ہو تو سماک انصاری یا فرقد لیثی کا انتخاب کرنا

اگر ایک شجاع مرد ، نیزہ باز ، شہسوار اور ایک بے باک دلاور چاہتی ہو تو بکیر کا انتخاب کرنا ۔

یہ ان کی حالت ہے ۔ اب تم خودسمجھو ! ١

سماک بن خرشہ سپہ سالار کے عہدے پر :

طبری ، سیف سے نقل کرکے ہمدان اور آذر بائیجان کے بارے میں لکھتا ہے :

ہمدان کو ١٨ھ میں نعیم بن مقرن نے فتح کیا ۔ '' دستبی '' کی فوجی چھاؤنیوں کی

____________________

١۔ اسی کتاب کی ج ١ ص ١٩٥ ۔ ١٩٦ ) فارسی ملاحظہ ہو۔

۲۱۲

کمانڈ کوفہ کے بعض معروف سرداروں منجملہ '' سماک بن عبید عبسی '' ، '' سماک بن مخرمہ اسدی '' اور ''سماک بن خرشہ انصاری ''کو سونپی ، دستبی فوجی چھاؤنیاں ایک وسیع علاقے میں پھیلی تھیں اس میں بہت سے گاؤں اور قصبات شامل تھے اور یہ علاقہ ہمدان تاری کے درمیان واقع تھا ۔

یہ پہلے سردار تھے جنہوں نے دستبی کی فتح کے بعد وہاں کی فوجی چھاونیوں کی کمانڈ سنبھالی اور اس کے بعد دیلمیان سے نبرد آزما ہوئے ۔

طبری اس مطلب کے ضمن لکھتا ہے :

دیلمیان ، رے اور آذربائیجان کے باشندے ایک دوسرے سے رابطہ برقرار کرکے مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے متحد ہوئے اور اعراب سے لڑنے کیلئے ایک بڑی فوج تشکیل دی۔

نعیم نے ایرانی سپاہیوں پر ایک بے رحمانہ حملہ کیا اور ان پر تلوار کھینچی اور ان کے کشتوں کے ایسے پشتے لگادئے کہ اس جنگ میں مرنے والوں کی تعداد گنتی کی حد سے گزر گئی ۔ نعیم نے اس کامیابی کے بعد فتح کی نوید ایک خط کے ذریعہ خلیفہ عمر کو دی۔ اس خط کو '' عروہ '' کے ہاتھ خلیفہ کے پاس بھیجا ۔ عروہ ، فوراً مدینہ پہنچ کر خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا ۔

خلیفہ کی نظر جب عروہ پرپڑی تو اس سے پوچھا :

کیا تم بشیر ١ ہو

____________________

١۔ بشیر یعنی خوشخبری دینے والا۔

۲۱۳

عروہ نے تصور کیا کہ شاید خلیفہ عمر نے غلطی سے اس کے نام کو عروہ کے بجائے بشیر خیال کیا ہے ، اس لئے فوراً بولا۔

نہیں ، میرا نام ''عروہ'' ہے !

عمر نے دوبارہ تکرار کی :

کیا تم بشیر ہو؟

چونکہ اس دفعہ عروہ عمر کے مقصد کو سمجھ گیا تھا ، لہذااطمینان کا سانس لے کر بولا :

جی ہاں ، جی ہاں ، بشیر ہوں ۔

عمر نے پوچھا :

کیا نعیم کی طرف سے آئے ہو؟

عروہ نے جواب دیا :

جی ہاں ، میں نعیم کا ایلچی ہوں ، اس کے بعد فتح کی نوید پر مشتمل خط عمر کے ہاتھ میں دیدیا اور اسے روداد سے آگاہ کیا ۔

سیف کہتا ہے :

اسی وقت کوفہ کے لوگوں کے نمائندے جو غنائم جنگی کا پانچواں حصہ اپنے ساتھ لائے تھے' انہوں نے وہ سب عمر کے حضور پیش کیا ۔ عمر نے ان میں سے ہر ایک کا نام پوچھا ، انہوں نے خلیفہ کی خدمت میں عرض کیا : '' سماک اور سماک اور سماک '' ، عمر نے ایک تبسم کے بعد فرمایا ؛ خدا تمہاری تعداد بڑھادے ! کتنے سماک ہیں ! خداوندا ! ان کے ذریعہ اسلام کا سر بلند فرما!

اور انھیں بھی اسلام کی تائید فرما!

اس کے بعد خلیفہ نے نعیم کے نام ایک خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ '' سماک بن خرشہ ٔ انصاری '' (غیراز ابودجانہ ) کو بکیر بن عبدا للہ کی مدد کیلئے ممور کرے ۔ نعیم نے اطاعت کی اور سماک بکیر کی مدد کیلے آذر بائیجان روانہ ہوگیا۔

سیف کہتا ہے :

سماک بن خرشہ ( غیراز ابودجانہ ) اور عتبہ بن فرقد لیثی عربوں میں دولتمند شمار ہوتے تھے ۔

۲۱۴

سماک، عراق کا گورنر

طبری نے سیف کے افسانہ کا یہ حصہ اپنی تاریخ میں یوں بیان کیا ہے : بکیر نے اپنے عہدے سے استعفا دیا۔ جس کے نتیجہ میں اس کی حکومت کے علاقہ '' سماک بن خرشہ انصاری '' اور ''عتبہ بن فرقد لیثی '' میں تقسیم ہوا ۔ عتبہ نے آذربائیجان کے باشندوں سے صلح کی اور عہد نامہ لکھا اور ''سماک بن خرشۂ انصاری '' نے اس کی تائید کی ہے اور اس پر دستخط کئے ہیں ۔

آخر میں جہاں سیف خلیفہ عثمان کے گماشتوں اور کارندوں کی تعداد اور نام بیان کرتا ہے وہاں سماک بن خرشہ انصاری اور ایک دوسرے شخص کا عثمان کی وفات کے سال عراق کے شہروں کے حکام کے طور پر نام لیا ہے ۔

سماک انصاری ( غیراز ابودجانہ ) کی داستان جو طبری کی روایتوں میں بیان ہوئی ہے یہی تھی جسے ہم نے نقل کیا۔ ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی اسی کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیاہے ۔

افسانۂ سماک کے راوی

گزشتہ روایتوں میں سیف ، سماک بن خرشہ انصاری ( غیر ازابودجانہ ) کے بارے میں اپنے راویوں کا یوں تعارف کرتا ہے :

١۔ محمد ، کہ اس کے خیال میں یہ محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ ہے اور یہ سیف کی اپنی تخلیق ہے ۔

٢۔ مھلب ، اسے مھلب بن عقبۂ اسدی کہتے ہیں یہ بھی سیف کے خیالات کی تخلیق ہے ۔

٣۔ لیکن، ' طلحہ ' ، '' عمرو'' ، ''سعید ''اور ''عطیہ ''چونکہ یہ بے نام و نشان تھے ، ان کے باپ کا نام یا لقب ذکر نہیں کیا گیا ہے جس سے ان کی پہچان کی جاسکے ، مثلاً یہ '' طلحہ '' کون ہے ؟ کیا اس سے مراد ''طلحہ بن عبد الرحمان '' ہے یا طلحہ بن اعلم ؟

پہلا تو اس کے جعلی راویوں میں سے ہے اور دوسرا ایک معروف راوی ہے ، اگر چہ بعض اوقات سیف اس کی زبان جھوٹ نقل کرتا ہے اور ہم بھی سیف کے جھوٹ کے گناہوں کو ایسے راویوں کی گردن پر نہیں ڈالتے ۔

یہ عمرو بھی کیا وہی ہے جو کوفہ و بصرہ کے نحویوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے اور وہ اس کی زید سے پٹائی کراتے ہیں یا کوئی اور ہے ؟

سعید اور عطیہ کون ہیں ؟ ان میں سے کسی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہے جو ہم ان کے بارے میں تحقیق کرسکیں ۔

۲۱۵

تاریخی حقائق اور سیف کے افسانے

سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ایک ہزار سات سو '' نخعی اور بجلیہ '' یمانی قحطانی عورتوں کے اچانک بیوہ ہونے کی خبر دی ہے اور اسے ایک اہم مسئلہ کے طو پر پیش کیا ہے اور اس مشکل کے حل کیلئے جزیرہ نمائے عرب کے شمالی علاقوں کے غیر متمدن عرب جوان مردانہ آگے بڑھتے ہیں اور ان بے سرپرست اور بیوہ عورتوں کو جن کے قحطانی مرد ( جنگ میں کام آئے تھے) اپنی حمایت میں لے کر ان سے شادیاں کر لیتے ہیں اور عنایت و بزرگواری دکھاتے ہی !!

وہ تنہا شخص ہے جس نے عامر ہلالیہ کی بیٹیوں '' اروی'' اور '' ہنیدہ'' کا مسئلہ اور اروی کیلئے شوہر کے انتخاب میں ' ' قعقاع'' کے اشعار خلق کئے ہیں ۔

ہمدان اور دستبی کی فتح کیلئے عروہ کی مموریت

اور ، ہمدان ، دستبی ، رے اور آذربائیجان کی فتح کے موضوع کے بارے میں جو کچھ دوسروں نے بیان کیا ہے وہ سب سیف کے قصوں اور افسانوں کے بر عکس ہے ، مثلاً بلاذری اپنی کتاب '' فتوح البلدان ''میں لکھتا ہے :

نہاوند کی جنگ کے دو مہینہ بعد، وقت کے خلیفہ عمربن خطاب نے عمار یاسر کے نام کوفہ ایک خط بھیجا اور ا سمیں حکم دیا کہ ''عروہ بن زید خیل طائی '' کو آٹھ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ ''' رے'' اور '' دستبی '' کے شہروں کو تسخیر کرنے کیلئے ممور کرے۔

عروہ نے اطاعت کی اور سپاہیوں کے ہمراہ اپنی مموریت کی طرف روانہ ہوا '' رے '' اور دیلمان '' کے باشندے بھی آپس میں متحد ہو کر عرب سپاہیوں کا مقابلہ کرنے لئے مسلح ہوکر پوری طرح آمادہ ہوئے ، لیکن دونوں فوجوں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ کے بعد سر انجام عروہ نے فتح حاصل کی اور ان میں سے ایک گروہ کو تہہ تیغ کرکے رکھدیا ان کے مال و منال پر قبضہ کر لیا اور پوری طاقت کے ساتھ علاقہ پر مسلط ہو گیا۔

۲۱۶

عروہ خلیفہ کی خدمت میں

علاقہ پر مکمل تسلط جمانے کے بعد عروہ اپنے بھائی ''حنظلہ بن زید '' کو اپنا جانشین مقرر کرکے عمار یاسر کی خدمت میں پہنچ گیا ور ان سے اجازت چاہی کہ اس فتح کی نوید لیکر وہ خود خلیفۂ عمر کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے ۔

عروہ نے ماضی قریب میں جنگ '' جسر '' میں مسلمانوں کی درد ناک اور خفت بارشکست کی خبر خلیفہ کہ خدمت میں پہنچائی تھی لہذا چاہتا تھا کہ ''دیلم ''اور''رے ''کی مستحکم اور قدرتمند فوج پر اپنی فتح و کامیابی کی نوید خلیفۂ عمر کی خدمت میں پہنچاکر اس کی تلافی کرے۔

عمار نے عروہ کی درخواست منظور کی عروہ بڑی تیزی سے مدینہ پہنچا اور خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

جوں ہی خلیفہ کی نظر عروہ پر پڑی تو ایک دم گزشتہ تلخ یادیں ، جسر کی جنگ میں شکست ، اس میں نامور عرب پہلوانوں کا قتل ہونا اس کے ذہن میں تازہ ہوگیا اور عروہ کی پہنچنے کو فال بد تصور کرکے بے اختیار بولے :

انا ﷲ و انا الیہ راجعون

عروہ نے مسئلہ کو سجمھ کر فوراً کہا:

نہیں نہیں اب کی بار خدا کا شکر بجالائیے کہ اس نے ہمیں دشمنوں پر فتح و کامیابی عنایت فرمائی اس کے بعد ایک ایک کرکے کامیابیوں کو گننے لگا ۔ جب عمر کو اس طرف سے اطمینان حاصل ہوا تو عروہ سے پوچھا ۔

کیوں خود وہاں نہ رہے ؟ کیوں کسی دوسری کو میرے پاس نہیں بھیجا ؟

عروہ نے جواب دیا :

میں نے اپنے بھائی کو اپنی جگہ پر رکھا ہے اور اس نوید کو خود آپ کی خدمت میں پہنچانا چاہتا تھا۔ عمر خوشحال ہوئے اور اسے '' بشیر '' خطاب کیا ۔

۲۱۷

بلاذری اس میں اضافہ کرکے لکھتا ہے :

عروہ کی فتح ، دیلمیان کی قطعی شکست کا سبب بنی ، کیونکہ جب عروہ خلیفہ کی خدمت سے پلٹا تو اس نے ''سلمہ بن عمرو'' اور '' ضرار بن ضبی '' کو سپہ سالار کا عہدہ دیا ۔ ضرار نے '' دستبی '' اور ' رے '' کے باشندوں کے ساتھ صلح کی۔

فتح ہمدان کو خلیفہ بن خیاط نے خلاصہ کے طورپر لیکن بلاذری نے اسے مفصل ذکر کیا ہے ہم اس کے ایک حصہ کو یہاں پر ذکر کرتے ہیں :

بلاذری لکھتا ہے :

٢٣ھ کے اواخر میں '' مغیرہ بن شعبہ'' نے جریر بن عبدا للہ بجلی کو ہمدان کی فتح پر ممور کیا ۔ جریر نے '' صلح نہاوند '' کے مانند ہمدان پر صلح کے ذریعہ قبضہ جمایا اور اس علاقہ کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرلیا۔

طبری نے ابو معشر اور واقدی سے نقل کر کے آذربائیجان کی فتح کے بارے میں یوں لکھا ہے :

آذربائیجان ٢٢ھ میں فتح ہوا ا ور ' مغیرہ بن شعبہ '' وہاں کا حاکم بنا ۔

بلاذری نے بھی اسی مطلب کو اپنی کتاب '' فتوح البلدان '' میں ایک دوسری روایت کے مطابق لکھا ہے :

آذربائیجان کو '' حذیفة بن یمان '' نے اس زمانے میں فتح کیاہے جب کوفہ پر مغیرہ حکومت کرتا تھا۔

یاقوت حموی نے بھی انہی مطالب کو اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں لفظ ''ہمدان'' ، '' رے'' اور ''دستبی'' کے تحت لکھا ہے اور خلیفہ بن خیاط نے بھی انہی مطالب کا انتخاب کیا ہے ۔

بلاذری نے '' رے'' ، '' قزوین '' اور '' دستبی'' کے بارے میں لکھا ہے :

مغیرہ بن شعبہ نے '' کثیربن شہاب '' نامی ایک صحابی کو '' رے'' ، '' قزوین '' اور '' دستبی'' کے علاقوں پر حاکم مقرر کیا اور ہمدان کی مسؤلیت بھی سونپی لیکن اسی دوران ''رے'' کے باشندوں نے اس کی اطاعت کرنے سے انکار کیا ۔ نتیجہ کے طور میں کثیر ان سے نبرد آزما ہوا اور اس قدر جنگ کی کہ وہ مجبور ہوکر دوبارہ اطاعت کرنے پر آمادہ ہوئے۔

جب سعد بن ابی وقاص دوسری بار کوفہ کا حاکم مقرر ہوا تو اس نے بنی عامر بن لوی سے '' علاء بن وہب '' کو ہمدان کا گورنر مقرر کیا اور اس کی حکمرانی کا فرمان جاری کیا ۔ لیکن ہمدان کے لوگوں نے ایک مناسب فرصت میں علاء کے خلاف بغاوت کرکے اسے حکومت سے ہٹادیا علاء نے بھی ان سے جنگ کی اور ان پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ پھر سر تسلیم خم کرکے اس کی اطاعت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔

۲۱۸

تحقیق کا نتیجہ

١۔ جیساکہ ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر کے علاوہ دوسرے تاریخ نویسوں نے ان فتوحات کا زمانہ ٢٢ھ سے ٢٤ ھ تک ذکر کیا ہے ۔

٢۔ پہلا عرب سردار جس نے دیلمیوں سے جنگ کی اور انھیں شکست دی ، عروہ بن زید خیل طائی تھا ۔اس نے خود خلیفہ عمر کی خدمت میں پہنچ کر اس جنگ میں اپنی فتحیابی کی نوید انھیں پہنچادی ہے۔

٣۔ جس سردار نے '' رے'' اور '' دستبی '' کے باشندوں سے صلح کی ، وہ ضرار بن ضبی تھا۔

٤۔ کوفہ پر ''مغیرہ بن شعبہ '' کی حکومت کے دوران '' رے'' اور ''ہمدان '' کے شہر دوبارہ فتح کئے گئے اور جریر بن عبدا للہ' ہمدان کو دوبارہ فتح کرنے کیلئے مغیرہ کی طرف سے مقرر ہوا اس نے ہمدان کو فتح کرنے کے بعد اس علاقے کی زمینوں پر زبردستی قبضہ جمالیا۔

٥۔ پھر مغیرہ کی کوفہ پر حکومت کے دوران '' کثیر بن شہاب'' اس کی طرف سے ''رے'' ، ''ہمدان'' اور ''دستبی ''کا گورنر مقرر ہوا اور اس نے ''رے ''کے باشندوں کی بغاوت اپنے بے رحمانہ قتل عام کے ذریعہ کچل کر رکھ دی۔

٦۔ آذربائیجان بھی کوفہ پر مغیرہ کی حکومت کے دوران ''حذیفہ بن یمان '' کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔

لیکن ان تمام مسلم تاریخی حقائق کے مقابلے میں سیف بن عمر تمیمی ان سارے فتوحات کا واقع ہونا ١٨ھ میں بیان کرتا ہے اور ''رے ، ہمدان اور دستبی '' کی فتح کو '' نعیم بن مقرن '' کے ذریعہ بتاتا ہے ۔

سیف کہتا ہے جو نمائندے نعیم بن مقرن کی طرف سے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو لے کر خلیفہ عمر کے پاس گئے تھے وہ '' سماک اور سماک اور سماک '' تھے اور اسکے بعد عمر کی ان کے ساتھ گفتگو کو بھی درج کیا ہے ۔

سیف نے '' عروہ بن زید خیل طائی''' کی خبر کو تحریف کیاہے عروہ خود سپہ سالار کی حیثیت سے دیلمیوں کے ساتھ جنگ میں ا پنی فتح کی نوید کو عمر کے پاس لے گیا تھا۔ لیکن سیف اس میں تحریف کرکے اس خبر کو ایک معمولی قاصد کے ذریعہ بھیجتا ہے اور عمر کے ساتھ اس کی گفتگو کو اپنی پسند کے مطابق تغیر دیتا ہے ۔

۲۱۹

سیف نے آذربائیجان کی فتح کو بھی ١٨ ھ میں لکھا ہے اور اس مموریت کے سپہ سالار ''بکیر بن عبدا للہ '' کے بعد '' عتبہ بن فرقد لیثی '' کو یہ ذمہ داری سونپی ہے اور اس کے صلح نامہ پر سماک بن خرشہسے گواہ کے طور پر دستخط کرائے ہیں ۔

سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے اس قسم کی خبروں کی روایت کی ہے یہ وہی ہے جس نے تاریخی واقعات میں تحریف کی ہے اور یہ وہی ہے جس نے اصحاب اور غیر اصحاب میں سے اپنے افسانوی اداکار خلق کرکے علماء کیلئے پریشانی اور تاریخی حقائق سے انحراف کا سبب فراہم کیا ہے ۔

اسلامی مصادر میں سیف کے افسانے

ابن حجر نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کیاہے اور ان سے استفادہ کرکے سیف کے خلق کردہ سماک بن خرشہ کیلئے اپنی معتبر کتاب میں خصوصی جگہ معین کرکے اس کی تشریح میں لکھتا ہے :

اور ایک دوسرا سماک بن خرشۂ انصاری ہے جو ابو دجانہ کے علاوہ ہے سیف نے اپنی کتاب فتوح میں لکھا ہے کہ سماک بن مخرمۂ اسدی ، سماک بن عبید عبسی اور سماک بن خرشہ انصاری غیراز ابودجانہ ''پہلے افراد تھے جنہوں نے دستبی کی فوجی چھاونیوں کی کمانڈ سنبھالی تھی جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو لے کر خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ آنے والے نمائندوں کے ہمراہ یہ تین اشخاص بھی تھے اور انہوں نے خلیفہ کے ہاں پہنچ کر اپنا تعارف کرایا ۔ عمر نے ان کے حق میں دعا کی اور کہا خداوندا! انھیں برکت عطا کر اور اسلام کو ان کے ذریعہ سربلند فرما!

اسی طرح سیف نے لکھا ہے کہ سماک بن خرشہ نے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے

ابن فتحون بھی لکھا ہے : کہ

ابن عبد البر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابو دجانہ نے صفین کی جنگ میں شرکت کی ہے جبکہ ابودجانہ صفین کی جنگ میں موجود ہی نہیں تھا ممکن ہے ابن عبد البر نے اس کا نام اس سماک کے بجائے غلطی سے لے لیا ہو !!

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329