ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

ایک سو پچاس جعلی اصحاب17%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 329

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 329 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127421 / ڈاؤنلوڈ: 4235
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سیف کی داستان کے نتائج

١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔

٤۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔

مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ

عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔

٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔

٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔

٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔

٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں ۔

۸۱

مصادر و مآخذ

عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں ' ق/١

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١

٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔

٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

۸۲

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی داستان

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١

۸۳

انتیسواں جعلی صحابی کبیس بن ہوذہ سدوسی

اس صحابی کا نام و نسب:

'' استیعاب'' ، '' اصابہ'' اور '' تجرید'' میں اس صحابی کا نام '' کبیس بن ھوذہ '' لکھا گیا ہے۔

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اسی نام کو درج کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شاہین'' کے ایک قدیمی نسخہ میں یہ نام '' کنیس'' ثبت ہوا ہے۔

ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ'' کے قلمی نسخہ میں یہ نام '' کبیش بن ہودہ '' درج ہوا ہے اور ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی نام کو قبول کرکے '' ابن مندہ کی پیروی کی ہے۔

اس صحابی کا نسب: '' اسماء الصحابہ'' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں لکھا گیا ہے کہ سیف بن عمر نے اس صحابی کا تعارف ' ' خاندان ِ بنی بکر و ائل عدنانی '' کے قبیلۂ بنی حارث بن سدوس '' سے کرایا ہے۔

ابن حزم نے اپنی کتاب '' جمہرہ'' میں بنی حارث کے ایک گروہ کے حالات کی تشریح کی ہے ، لیکن ان میں '' کبیس'' یا '' کنیس''یا '' کبیش'' نام کا کوئی صحابی اور '' ھوذہ '' یا '' ھودہ'' نام کا کوئی باپ ۔

'' سمعانی'' نے بنی حارث بن سدوس کے ایک گروہ کا نام لفظ السدوسی '' میں لیا ہے لیکن ان باپ بیٹوں کا کہیں نام بھی نہیں لیا ہے۔

۸۴

کبیس بن ہوذہ کی داستان :

ابن عبدا لبر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کے بارے میں صرف اتنا لکھتا ہے کہ:

'' ایاد بن لقیط نے اس سے روایت کی ہے ''

اس کے بعد کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اس کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے ۔

ابن مندہ اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں اپنے ہی اسناد سے لکھتا ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ بن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سدوسی سے اس نے بنی حارث بن سدوس کے ایک شخص کبیش بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیش پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے کچھ فرمان مرقوم فرمائے ہیں ۔

اس داستان کے آخرمیں ابن مندہ اظہار نظر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شبرمہ کی یہ حدیث حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے''

ابن اثیر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں مذکورہ داستان کو درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یوں اضافہ کرتا ہے :

اس مطلب کو تین مصادر ( ب ۔ ع ۔ د ) ١

____________________

١۔ ''ب''کتاب ''استیعاب'' کے مصنف ابن عبدالبر ''ع'' : ابو نعیم ، کتاب '' معرفة الصحابہ '' کے مصنف ، ابو نعیم ، حافظ احمد بن عبد اﷲ بن احمد اصفہانی ( ٣٦٠ ۔ ٤٣٠ھ)

''د'' : ابن مندہ ، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ ،محمد بن اسحاق اصفہانی ، جس نے احادیث کی جستجو میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے ۔ اس کی تالیفات میں سے '' اسماء الصحابہ '' ہے جو خاص طور سے ابن اثیر کی توجہ کا مرکز تھی۔

۸۵

نے ذکر کیا ہے۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید '' میں لکھا ہے :

سیف نے '' ایاد بن لقیط '' سے نقل کیا ہے کہ '' کبیس'' اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔( ب ۔ ع۔ د)ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھا ہے :

ابن شاہین ١ اور ابن مندہ نے سیف بن عمر سے اس نے عبدا اﷲبن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سے اس نے کبیس بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر وہی مذکورہ داستان نقل کی ہے )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

یہ داستان صرف اسی طریقہ سے پہنچی ہے اور ابن مندہ نے بھی کہا ہے کہ : ابن شبرمہ کی یہ داستان تعجب خیزہے !!!

خلاصہ :

سیف نے اس حدیث میں کبیس بن ہوذہ کو بنی حارث بن سدوس کے ان صحابیوں میں سے خلق کیا ہے جن کے ہمراہ اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے ایک فرمان مرقوم فرمایا تھا۔ یہیں سے اس قسم کا نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی

____________________

١۔ ابن شاہین ، حافظ ابو حفص بن شاہین ، عمر بن احمد بن عثمان بغدادی ( ٢٩٧ ۔ ٣٨٥) ہے ۔ اس کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد چھتیس بتائی گئی ہے ، من جملہ کتاب '' معجم الشیوخ '' ہے جس میں سرکردہ روات حدیث شامل ہیں ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ' ' اصابہ '' میں اس کتاب سے نقل کیا ہے۔

۸۶

فہرست اور ''معجم الشیوخ '' کے سرکردہ راویوں میں قرار پاتا ہے اور اس کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خیالی خط ایک حقیقی اورمسلم سند کے طور پر کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں درج کیا جاتا ہے !!

ہم نے اس نمائندہ صحابی کو پہچاننے کیلئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں جیسے ، ابن سعد کی ''طبقات '' ابن ہشام کی '' سیرة'' بلاذری کی '' انساب الاشراف'' اور مقریزی کی '' امتاع الاسماع '' کے علاوہ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف وفود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں کہیں بھی '' کبیس'' کا نام نہیں دیکھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں کبیس کے نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی فرمان یا خط کا مشاہدہ نہیں کیا ! بلکہ ہم نے سیف کے اس خلق کردہ صحابی کو صرف سیف کی احادیث میں اور اس کے راویوں کے ہاں پایا۔

افسانۂ کبیس کے اسناد کی پڑتال

ہم نے کہا کہ کتاب '' استیعاب '' کے مصنف ابن عبد البر نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ابن مندہ نے کبیس کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اور ابن اثیر نے اسے تین مآخذ '' ب ۔ ع، د'' کی علامت کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید ''میں کبیس کی نمائندگی کو سیف کی روایت کے مطابق ایاد بن لقیط سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن اثیر کے مآخذ کی اختصاری علامت '' ب ، ع، د'' کی قید لگادی ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں داستان کبیس کو ابن مندہ اور ابن شاہین کے قول کے مطابق نقل کیا ہے۔

۸۷

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ ابن مندہ، ابن شبرمہ کی اس حدیث پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور ابن حجر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ داستان صرف اس سند کے علاوہ کسی اور راوی سے نہیں ملی ہے ، یعنی ابن شبرمہ تنہا شخص ہے جس نے یہ داستان بیان کی ہے۔ اس روایت کی تنہا سند '' ایاد بن لقیط '' ہے اور اس کا مرکزی کردار ''کبیس بن ہوذہ '' ہے !! یہی مسئلہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ مذکورہ دو دانشور ابن شبرمہ کی حدیث پر تعجب کا اظہار کریں جبکہ وہ اس امر سے غافل تھے کہ بیچارہ ابن شبرمہ کا کوئی قصور ہی نہیں ہے بلکہ اصلی مجرم اور قصوروار سیف بن عمر ہے جس نے جھوٹ گڑھ کر ابن شبرمہ کے سر تھوپا ہے !

کتاب '' تجرید'' میں ذہبی کی بات بھی ہمارے دعوے کو ثابت کرتی ہے جب وہ داستان کبیس بیان کرتے وقت کنایہ کے طور پر لکھتا ہے :

'' سیف کی روایت کی بناء پر ''

اس بنا پر سیف کی اس حدیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ عبد اللہ بن شبرمۂ ضبی کوفی ( ٧٢ ۔ ١٤٤ ھ )جو ان علماء کے نزدیک ثقہ اور ایک قابل اعتماد شخص تھا۔

٢۔ ایاد بن لقیط سدوسی : اسے تابعین کے چوتھے در جے میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی نظر میں ثقہ ہے۔

٣۔ بنی حرث بن سدوس سے خود کبیس بن ہوزہ ، چونکہ ہم نے اس کی داستان اور نام سیف اور اس کے راویوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا لہذا اس کو سیف کے جعلی اصحاب اور راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

داستان کبیس کا نتیجہ

١۔ ایک نمائندہ صحابی ، جس کے حالات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دئیے گئے ہیں ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث شریف کا ایسا راوی جس کے حالات '' معجم الشیوخ'' کی روایتوں میں ملتے ہیں ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط، جس کا ذکر بعض متاخرین کے ذریعہ کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیہ'' میں کیا گیا ہے

ان سب کو سیف نے تن تنہا خلق کیا ہے اور اپنے اس جعلی صحابی اور دو نامور راویوں ۔۔ کہ ہم جن کی گردن پر ابن مندہ و ابن حجر کے برخلاف سیف کے جھوٹ کا گناہ ڈالنا نہیں چاہتے ۔۔ کی زبانی روایت نقل کی ہے ۔

۸۸

افسانۂ کبیس کی اشاعت کے ذرائع:

١۔ ابن شاہیں ( وفات ٣٨٥ ھ ) نے کتاب '' معجم الشیوخ'' میں ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ میں ۔

٣۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٤۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ ھ )نے کتاب '' الاستیعاب فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٥۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ)نے کتاب '' اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٦۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ)نے کتاب '' الاصابة فی تمییز الصحابہ'' میں ابن شاہین سے نقل کرکے۔

٨۔ اور حال ہی میں محمد حمید اللہ نے کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں ابن کثیر سے نقل کرکے اس نے لکھا ہے کہ: اس خط کا متن نقل نہیں ہوا ہے۔

مصادر و مآخذ

کبیس کا نسب ، اس کے حالات اور داستان :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٢٢٧) نمبر : ٩٧٠

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ '' مدینۂ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں موجود قلمی نسخہ۔

٣۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٣١)

٤۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ٢ ٢٩ )

٥۔ '' اصابہ'' (٣ ٢٧٠) نمبر : ٧٣٧٦

٦۔ سمعانی کی '' انساب '' لفظ '' السدوسی '' نمبر : ٢٩٤

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ '' ( ص ٢٩٨۔ ٢٩٩)

۸۹

ابن شاہین کے حالات

١۔ ' ' تاریخ بغداد '' ( ١١ ٢٦٥ ) نمبر: ٦٠٢٨

٢۔ '' کشف الظنون '' ( ٢ ١٧٣٥)

٣۔ ''ھدیة العارفین '' (٢ ٧٨١)

٤۔ '' شذرات '' ( ٣ ١١٧)

٥۔ اعلام زرگلی ( ٥ ١٩٦)

٦۔ ''معجم المؤلفین '' ( ٧ ٢٧٣)

ابن مندہ کے حالات :

١۔ '' عبر ذہبی '' ( ٣ ٥٩)

٢۔ ''کشف الظنون'' (١ ٨٩)

٣۔ '' ھدیة العارفین'' ( ٢ ٥٧)

ابو نعیم کے حالات:

١۔ '' عبر ذہبی '' (٣ ١٧٠)

٢۔ ' ' کشف الظنون '' (٢ ١٧٣٩)

عبد اللہ شبرمہ کے حالات

١۔ تاریخ بخاری ٣ ق ( ١ ١١٧)

٢۔ '' جرح و تعدیل'' رازی ٢ ق ( ٢ ٨٢) اسی طرح تہذیب میں ۔

۹۰

ایاد بن لقیط کے حالات :

١۔ تاریخ بخاری ١ ق ( ٢ ٦٩)

٢۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ١ ٣٨٦)

٣۔ '' الجمع بین رجال الصحیحین'' ( ١ ٥٢)

٤۔ '' تقریب'' (١ ٨٦)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نظریہ :

١۔ مجموعہ وثائق سیاسی ص ٩٩ نمبر : ٢٣٤ طبع قاہرہ ، انجمن تالیف و ترجمہ و نشر کتاب ١٩٤١ ئ

اسناد

١۔ معجم قبائل العرب '' رضا کحالہ ج٢ طبع ہاشمیۂ دمشق ١٩٤٩ ئ

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق ''

٣۔ نویری کی '' نہایة الارب ''

٤۔ ابن اثیر کی '' لباب الانساب''

۹۱

چوتھا حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار

*٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی

*٣١۔ صخر بن لوذان

*٣٢۔ عکاشہ بن ثور

*٣٣۔ عبد اللہ بن ثور

*٣٤۔ عبید اللہ بن ثور

۹۲

تیسواں جعلی صحابی عبید بن صخر

اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔

کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:

عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ

کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:

بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔

____________________

١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں '' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)

۹۳

اس صحابی کا نسب

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:

'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''

البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں : جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں ، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١

اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:

١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔

٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔

____________________

١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔

۹۴

٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔

یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں ۔

عبید بن صخر کی داستان

عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:

١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی (یہاں تک کہ کہتا ہے) :

معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

____________________

١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۹۵

٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:

ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے

____________________

١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میں یوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے

٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)

٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں ۔

۹۶

گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں ۔

ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:

اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :

عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔

طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں ۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :

٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ

میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی

۹۷

مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوں میں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔

٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :

سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔

ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔

٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات

____________________

١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔

۹۸

میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :

میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں ، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!

ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔

٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!

۹۹

بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔

١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔

٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں ۔

'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اسلام کی طرف مائل ہوگئے اور بعضوں نے اسلام قبول بھی کرلیا_

تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ یثرب کے مشہور افراد میں سے بارہ آدمی مكّہ آئے تا کہ اپنے اسلام کو پیغمبر(ص) کے سامنے پیش کریں اور اسلام کیلئے اپنی خدمات وقف کردیں_

ان افراد کی پیغمبر(ص) سے ملاقات اتنی آسان نہ تھی کیونکہ مكّہ کی حکنومت بت پرستوں اور طاقتوروں کے زور پر چل رہی تھی اور شہر مكّہ کے رعب و دبدہ اور ظلمت و تاریکی کا شہر تھا آخر ان لوگوں سے ملاقات کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو شہر سے باہر، پہاڑ کے دامن میں اور مشرکوں کی نظروں سے دور تھی یہ ملاقات آدھی رات کو عقبہ نامی جگہ پر رکھی گئی_

عقبہ کا معاہدہ

آدھی رات کے وقت چاند کی معمولی روشنی میں نہایت خفیہ طور پر سعد ابن زرہ، عبادہ ابن صامت اور دوسرے دس آدمی پہاڑ کے پیچھے پر پیچ راستے سے گزرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھوڑے سے مسلمان بھی مكّہ سے پیغمبر(ص) کے ساتھ آئے _

تمام گفتگو بہت رازداری کے ساتھ اور خفیہ طور پر ہوئی اور سپیدی صبح سے پہلے جلسہ برخاست ہوگیا اور ان تمام کے تمام حضرات نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی اپنی راہ لی_ اور خوش بختی سے مكّہ کے مشرکوں میں سے کسی کو بھی اس جلسہ کی خبر نہ ہوئی_

۱۸۱

مدینہ میں مسلمانوں نے ان بارہ افراد سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) سے ملاقات کیسی رہی___؟ ان سے کیا کہا اور کیا معاہدہ ہوا___؟

انہوں نے جواب میں کہا کہ:

ہم نے خدا کے رسول (ص) سے معاہدہ کیا ہے کہ خدا کا کوئی شریک قرار نہ دیں گے، چوری نہ کریں گے نہ زنا اورفحشاء کا ارتکاب کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے ایک دوسرے پر تہمت نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں رسول خدا(ص) کی مدد کریں گے اور آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے''

مدینہ میں تبلیغ اسلام

ایک مدّت کے بعد انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو خط لکھا کہ ایک ایسا آدمی ہماری طرف روانہ کیجئے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور قرآن مجید کے معارف سے آگاہ و آشنا کرے_

پیغمبر(ص) نے ایک جوان مصعب نامی ان کی طرف روانہ کیا مصعب قرآن مجید کو عمدہ طریقہ سے اور خوش الحانی کے ساتھ قرات کیا کرتا تھا اور بہت عمدہ اور دل نشین گفتگو کرتا تھا دن میں مدینہ کے ایک کنویں کے نزدیک درخت کے سائے میں کھڑا ہوجاتا اور بہت اچھی آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا،

لوگ اس کے اردگرد حلقہ بنالیتے اور وہ ٹھہرٹھہر کر قرآن

۱۸۲

کی تلاوت کرتا جب کوئی دل قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تو اس سے گفتگو کرتا اور دین اسلام کی اعلی تعلمیات کو اس کے لئے بیان کرتا:

جن حق پرست اور حق کو قبول کرنے والے لوگوں کے دل نرم ہوجاتے تو وہ اس کی باتوں کو توجّہ سے سنتے اور اسلام کے گرویدہ ہو کر ایمان لے آتے تھے''

اسلام کی طرف اس طرح مائل ہونے کی خبر سن کر مدینہ کے بعض قبائل کے سردار سخت ناراض ہوئے اور ان میں سے ایک مصعب کو مدینہ سے باہر نکالنے کے لئے بڑی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھا اور اس کے نزدیک پہنچ کر غصہ کے عالم میں اپنی تلوار کو نیام سے باہر کھینچ کر چلایا کہ: اسلام کی تبلیغ کرنے سے رک جا اور ہمارے شہر سے باہر چلا جا ورنہ ...؟

مصعب نے اس کے اس سخت لہجہ کے باوجود نہایت نرمی اور محبت سے کہا:

کیا ممکن ہے کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے یہیں بیٹھ جائیں اور آپس میں گفتگو کریں؟ میری باتوں کو سنو اگر وہ غیر معقول اور غلط نظر آئیں تو میں ان کی تبلیغ سے دستبردار ہوجاؤں گا اور اس راستے سے کہ جس سے آیا ہوں واپس چلاجاؤں گا ...''

تم سچ کہہ رہے ہو، مجھے پہلے تمہاری بات کو سننا چاہئے،تمہاری دعوت کو سننا چاہیئے اس کے بعد کوئی

۱۸۳

فیصلہ کرنا چاہئے''

اس سردار نے اپنی شمشیر کو نیام میں رکھا اور مصعب کے قریب بیٹھ گیا_ مصعب نے قرآن مجید کی چند منتخب آیا ت اس کے سامنے تلاوت کیں''

اے کاش کہ تاریخ نے ہمارے لئے ان آیات کو تحریر کیا ہوتا جو اس حساس لمحہ میں مصعب نے تلاوت کیں_ لیکن خدا کا شکر ہے کہ قرآن ہمارے سامنے ہے ہم ان آیات کے مانند دوسری آیات کو سمجھنے کی کوشش کریں جو تقریباً وہی معنی رکھتی ہیں جن میں خدا نے مشرکین کو خبردار کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی ہے''___ دیکھیں اور سوچیں''

آیا جو خلق کرنے والا ہے خلق نہ کرنے والے کے برابر ہے بس تم کیوں نہیں سوچتے؟

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہا ہو تو نہ کرسگو گے البتہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور خدا ان چیزوں کو جنہیں تم چھپاتے ہو اور انہیں جنہیں ظاہر کرتے ہو تمام کا علم رکھتا ہے،

یہ بت کہ جنہیں خدا کے مقابل پرستش کرتے ہو اور ان سے مانگتے ہو یہ کوئی چیز بھی خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود کسی کے بنائے ہوئے ہیں''

تمہارا خدا ایک ہے وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل برے اور سرکش و متکبّر ہیں''

خدا اس سے جو تم چھپ کر انجام دیتے ہو آگاہ ہے اور اس سے کہ جسے علانیہ بجالاتے ہو آگاہ ہے اور خدا متکبّرین کو کبھی بھی دوست نہیں رکھتا

۱۸۴

قرآن کے نورانی حقائق اور آیات کی جاذبیت و زیبائی اور مصعب کے حوصلے اور اخلاق و استقامت نے اس شخص میں تغیر اور تبدیلی پیدا کردی، اس کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیا اور اس کی سرکش اور متکبّر عداوت سرنگوں ہوگئیں اور اسے ایسا سکون و اطمینان حاصل ہوا کہ وہ جاننے اور ماننے کے لئے آمادہ ہوگیا تب اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے کچھ سوالات ادب سے کئے پھر پوچھا:

اسلام کس طرح قبول کیا جاتا ہے؟ اس دین کے قبول کرنے کے آداب و رسوم کیا ہیں؟

مصعب نے جواب دیا:

کوئی مشکل کام نہیں، صرف اللہ کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی جائے، کپڑوں اور جسم کو پانی سے دھوکر پاک کیا جائے اور خدا کے بندوں سے انس و محبت کی راہ کھول دی جائے اور نماز پڑھی جائے_

عقبہ میں دوسرا معاہدہ

مدینہ کے لوگ دین اسلام کی حقانیت دریافت کر رہے تھے اور ایک کے بعد دوسرا امر الہی کو تسلیم کر رہا تھا وہ لوگ بہت ذوق و شوق سے دین اسلام کو قبول کر رہے تھے_ انتظار کر رہے تھے کہ حج کے دن آپہنچیں اور وہ سفر کریں اور پیغمبر(ص) کے دیدار کے لئے جائیں اور اپنی مدد اور خدمت

۱۸۵

کرنے کا اعلان کریں''

آخر کار پانچ سو آدمیوں کا قافلہ مدینہ سے مكّہ کی طرف روانہ ہوا اس قافلہ میں ستّر کے قریب مسلمان بھی موجود تھے_ ان سب کا پروگرام پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات کرنے کا بھی تھا وہ چاہتے تھے کہ اس ملاقات میں پیغمبر(ص) سے رسمی طور سے بیعت کریں اور آپ(ص) کی مدد کا اعلان کریں''

۱۳/ ذی الحجہ کی آدھی رات کو منی میں ایک پہاڑی کے دامن میں ملاقات کرنے کا وقت معین کیا گیا،

وہ وقت آپہنچا اور مسلمان چھپ چھپ کر ایک، ایک، دو، دو، کر کے اس عقبہ کی طرف چل دئے اور وہاں مشرکوں کی سوئی ہوئی آنکھوں سے دور جمع ہوکر پیغمبر(ص) کے گرد حلقہ ڈال دیا،

انہوں نے پیغمبر(ص) سے خواہش کی کہ آپ(ص) کچھ خطاب فرمائیں، پیغمبر(ص) نے قرآن مجید کی کچھ آیات کا انتخاب کر کے ان کے سامنے تلاوت کی اور اسکی تشریح بیان کی اور فرمایا، اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر و استقامت کو اپنا شیوہ بناؤ اور یہ جان لو کہ نیک انجام متقیوں کے لئے ہوا کرتا ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے اپنی خواہش کاا ظہار کیا اور فرمایا:

کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں مدینہ کی طرف ہجرت کروں اور تمہارے ساتھ زندگی بسر کروں؟''

سبھی نے پیغمبر(ص) کی اس خواہش پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور نہایت اشتیاق سے ایک بولا

خدا کی قسم میں پوری صداقت کے ساتھ آپ(ص) سے عہد

۱۸۶

کرتا ہوں کہ آپ(ص) کے دفاع میں اپنی جان کی بازی لگادوں گا اور جو کچھ زبان سے کہہ رہا ہوں وہی میرے دل میں بھی ہے''

دوسرے نے کہا:

میں آپ(ص) کی بیعت کرتا ہوں کہ جس طرح اپنے اہل و عیال اور اولاد کی حفاظت کرتا ہوں، آپ(ص) کی بھی کروں گا:

تیسرے نے کہا:

ہم جنگ اور لڑائی کے فرزند ہیں اور جنگ کے سخت میدان کے لئے تربیت حاصل کی ہے اور جان کی حد تک پیغمبر خدا(ص) کی خدمت اور دفاع کے لئے حاضر ہیں''

یہ پورا اجتماع، شوق اور محبت سے لبریز تھا اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے دل کی بات کہی لیکن وہ یہ بھول چکے تھے وہ مكّہ میں اور مشرکوں کی ایک خطرناک حکومت کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں،

پیغمبر اکرم(ص) کے چچا نے جو آپ(ص) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے بہت دہیمی آواز میں جو کہ مشکل سے سنی جا رہی تھیں کہا:

مطمئن رہو، آہستہ بولو، کہیں مشرکوں نے ہمارے اوپر کوئی آدمی تعینات نہ کیا ہو ...''

اس کے بعد یہ جلسہ ختم ہوا اور لوگوں نے فرداً فرداً پیغمبر(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی، عہد کیا اور خداحافظ کہا:

ابھی دن کی سفیدی بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ تمام لوگ وہاں سے علیحدہ علیحدہ روانہ ہوگئے''

۱۸۷

لیکن افسوس، دوسرے دن معلوم ہوا کر مكّہ کے مشرکوں کو اس جلسے کی خبر مل چکی ہے اور اہل مدینہ کی پیغمبری(ص) سے بیعت اور بہت کی گفتگو کا کافی حد تک انہیں علم ہوچکا ہے مشرکین میں اضطراب اور خوف پھیل گیا اور انہوں نے سوچا کہ اگر محمد(ص) اور دوسرے مسلمان مكّہ سے مدینہ چلے گئے اور وہاں مضبوط مرکز بنالیا تو کیا ہوگا؟

لہذا وہ سب دالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور بہت زیادہ سختی کرنے کا فیصلہ کیا اور اسلام کی جڑیں کاٹنے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے کسی عمدہ طریقہ کو سوچنے لگے_

آیت قرآن

( انّ الّذین قالوا ربّنا الله ثمّ استقاموا فلا خوف علیهم و لا هم یحزنون ) ''

سورہ احقاف آیت ۱۳/''

البتہ جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب خدا ہے اور پھر اس پر محکم رہے تو نہ ان پر خوف ہوگا ورنہ ہی وہ محزون ہوں گے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱۸۸

۱)___ سورہ نحل کی جن آیات کا ترجمہ اس سبق میں بیان ہوا ہے، ان میں خداوند عالم نے کن چیزوں کو اپنی قدرت کی_

واضح نشانیاں بتایا ہے؟ اور ان نشانیوں کے ذکر کرنے سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ یہ نشانیاں دین اسلام کے اصولوں میں سے کس اصل کو بیان کرتی ہیں _

۲)___ قبیلہ خرزج کے ان چھ آدمیوں نے کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے سامنے اسلام قبول کیا تھا یہودیوں سے کیا سن رکھا تھا؟ اور یہودیوں کی وہ خبر کس اصول کو بیان کرتی ہے؟

۳) ___ جب یہ لوگ پیغمبر اسلام(ص) سے جدا ہو رہے تھے تو کس مسئلہ کے بارے میں امید کا اظہار کر رہے تھے؟

۴)___ پیغمبر(ص) نے کس آدمی کو مدینہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجا؟ اور اس میں کیا خصوصیات موجود تھیں؟ اس کی تبلیغ کا کیا طریقہ تھا؟ اور دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے وہ کون سی چیزیں بیان کرتا تھا؟

۵)___ دوسرے معاہدہ کا وقت کیا تھا؟ اس میں کتنے افراد نے پیغمبر(ص) کا دیدار کیا؟ اور کیا کہا اور کیا سنا ؟

۱۸۹

مشرکوں کا مکر و فریب

جب مشرکوں کو اس خفیہ اجلاس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں پر آزار و تکلیف پہنچانے میں اضافہ کردیا مسلمان جو مصائب و مشکلات کی بناپر بہت زیادہ دباؤ میں تھے انہوں نے پیغمبر(ص) سے سوال کیا کہ کیا ان مصائب پر صبر کریں؟ یا کوئی اور راستہ اس کے لئے سوچیں؟

رسول خدا(ص) نے انہیں حکم دیا کہ بالکل خفیہ طور پر مشرکوں کی آنکھوں سے چھپ کر مدینہ کی طرف کہ جسے اس زمانے میں یثرب کہا جاتا تھا اور بعد میں اس کا نام پیغمبر(ص) اسلام کے احترام میں ''مدینة الرسول'' رکھا گیا ہجرت کر جائیں اور آپ(ص) نے انہیں خوشخبری دی کہ:

جو لوگ اس رنج و غم اور ظلم پر جوان پر روا رکھا گیا ہے صبر کر کے ہجرت کرجائیں گے تو خداوند

۱۹۰

بزرگ ان کے لئے دنیا میں ایک عمدہ اور قیمتی جگہ عطا کرے گا البتہ ان کا آخرت میں اجر بہت بہتر اور بالاتر ہوگا یہ عظیم اجر اس شخص کو نصیب ہوگا کہ جو مشکلات میں صابر اور پائیدار اور استقامت رکھتا ہو اور خداوند عالم پر توکل کرے البتہ خدا تم پر جو مشکلات میں صبر وہ حوصلہ رکھتے ہو او راللہ تعالی کی راہ میں ہجرت اور جہات کرتے ہو بہت ہی مہربان اور بخشنے والا ہے''

لیکن ہجرت کس طرح ممکن ہے؟

اس شہر سے کہ جس میں بہت طویل مدت گزاری ہو اور اس سے مانوس ہوں کس طرح چلے جائیں؟

کیسے ہوسکتا ہے کہ گھر بار کو چھوڑ کر یک و تنہا ایک ایسے شہر کی طرف چلے جائیں جو ہمارے لئے بالکل اجنبی ہے؟

کس طرح چھوٹے بچّوں کو اتنے طویل اور سخت سفر میں ہمراہ لے جایا جائے_

اور کس طرح اس شہر میں کہ جس سے واقف نہیں زندگی گزاری جائے؟ نہ کسب اور نہ کوئی کام نہ کوئی آمدنی اور نہ ہی گھر یہ

یہ تمام مشکلات ان کی آنکھوں میں پھر گئیں_ لیکن اللہ کا وعدہ اور خدا پر توکل اور خدا کے راستے میں صبر ان تمام مشکلات اور سختیوں کو آسان کردیتا تھا_

لہذا خدا کے وعدے پر اعتماد اور خدا کی مدد سے ان فداکار مسلمانوں

۱۹۱

نے مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز کیا''

مشرکوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس وقت تک کافی زیادہ مسلمانوں مدینہ ہجرت کرچکے تھے_ لہذا دوسرے مسلمانوں کی ہجرت کرتے تھے بالخصوص رات کے وقت اور وہ بھی آدھی رات کے وقت جب نگرانی کرنے والے غفلت اور نیند میں ہوتے تھے تو وہ عام راستوں سے ہٹ کر سخت اور دشوار گزار راستہ کے ذریعہ پہاڑوں کے نشیب و فراز عبور کر کے زخمی پیروں اور جھلسے ہوئے چہروں کے ساتھ مدینہ پہنچتے تھے''

اس قسم کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفّار کی وحشت میں اور اضافہ کردیا وہ ڈرتے تھے کہ مسلمان مدینہ میں ایک مضبوط مرکز بنا کر ان پر حملہ نہ کردیں_ لہذا فوراً انہوں نے مٹینگ طلب کی تا کہ صلاح و مشورے اور سوچ بچار سے اس خطرے کے تدارک کے لئے کہ جس کا ان کو خیال تک نہ تھا خوب غور و خوض کریں_

اس اجلاس میں ایک مشرک نے گفتگو کی ابتداء ان الفاظ سے کی:

'' ہم سوچتے تھے کہ محمد(ص) کی آواز کو اپنے شہر میں خاموش کردیں گے لیکن اب خطرہ بہت سخت ہوگیا ہے مدینہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور محمد(ص) سے عہد و پیمان باندھ لیا ہے جانتے ہوکیا

۱۹۲

ہوا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ چند روز قبل عقبہ میں ایک اجلاس ہوا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ اکثر مسلمان مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں اور وہاں کے مسلمانوں سے مل گئے ہیں؟ جانتے ہو کہ اگر محمد(ص) مدینہ کو اپنا مرکز بنانے میں کامیاب ہوگئے تو کتنا بڑا خطرہ ہمارے لئے پیدا ہوجائے گا؟ اس سے پہلے کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں اس کا علاج سوچا جائے_ اگر اس خطرے کے تدارک کے لئے جلدہی کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا اور کوئی قطعی فیصلہ نہ کیا گیا تو باقی ماندہ فرصت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی اور بہت جلد محمد(ص) بھی مدینہ میں اپنے ساتھیوں سے جاملیں گے_

جانتے ہو اس کا علاج کیا ہے؟ صرف اور صرف محمد(ص) کا قتل_ اب ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ باقی ہے_ ایک بہادر آدمی کو اس کام پر مامور کیا جائے کہ وہ چھپ کر محمد(ص) کو قتل کردے اور اگر بنی ہاشم محمد(ص) کے خون کا مطالبہ کریں تو خون بہا ادا کردیا جائے یہی ایک راہ ہے اطمینان و سکون سے زندگی بسر کرنے کی''

ایک بوڑھا آدمی جو ابھی ابھی اجلاس میں شامل ہوا تھا اس نے کہا:

۱۹۳

نہیں یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بنی ہاشم یقینا خونبہا لینے پر راضی نہیں ہوں کے جس طرح بھی ہوگا وہ قاتل کو پتہ لگا کر اسے قتل کردیں گے کس طرح ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اس کام کو رضاکارانہ طور پر انجام دے کیا کوئی تیار ہے؟

کسی نے جواب نہ دیا،

دوسرے نے کہا:

کیسا رہے گا کہ اگر محمد (ص) کو پکڑ کر قید کردیں؟ کسی کو ان سے ملنے نہ دیں اس طرح لوگوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور لوگ ان کو اور ان کی دعوت کو بھول جائیں گے''

اس بوڑھے نے کہا:

نہیں: یہ اسکیم بھی قابل عمل نہیں ہے، کیا بنی ہاشم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور تم آسانی کے ساتھ محمد(ص) کو گرفتار کرلوگے؟ اور اگر بالفرض ان کو پکڑ بھی لو تو بنی ہاشم تم سے جنگ کریں گے اور انہیں آزاد کرالیں گے''

ایک اور آدمی بولا:

محمد(ص) کو اغوا کر کے ایک دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں انہیں خفیہ طریقے سے گرفتار کر کے ایک سرکش اونٹ پر بٹھا کر ان کے پاؤں اونٹ کی پیٹھ کے نیچے مضبوطی سے باندھ دیں اور اس اونٹ کو کسی دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں تا کہ بیابان کی بھوک و پیاس سے محمد(ص) ہلاک ہوجائیں_ اور اس صورت میں قبائل میں سے انہیں کوئی بچا بھی لے تو وہ مجبوراً اپنی دعوت

۱۹۴

سے دستبردار ہوجائیں گے کیونکہ اس حالت میں انہیں کون پہنچانے گا اور کون ان کی باتوں اور ان کی دعوت پر کان دھرے گا یہ ایک بہترین طریقہ ہے اے ضعیف مرد''

وہ بوڑھا تھوڑی دیر خاموش رہا جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اسے دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں اب وہ کیا کہتا ہے_ کچھ توقف کے بعد اس نے سکوت کو توڑا اور گفتگو شروع کی:

نہیں ... یہ کام بھی قابل عمل نہیں ہے_ اول تو یہ کہ تم اتنی آسانی سے محمد کو گرفتار نہ کرسکوں گے، دوسرے یہ کہ تم نہیں جانتے کہ اگر انہیں بیابان میں چھوڑ آؤ اور وہ کسی قبیلے میں چلے جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ اپنی عمدہ اور دلنشین گفتگو سے کہ جسے وہ قرآن کہتے ہیں اس قبیلے کے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے اور یوں تمہارے ساتھ جنگ کرنے اور تم سے اور تمہارے بتوں اور رسم و رواج سے لڑنے اور تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط مرکز پالیں گے''

عجیب بوڑھا ہے؟ جو کچھ کہتے ہیں ان کی مخالفت کرتا ہے؟

اے ضعیف مرد تم بتاؤ تمہاری تجویز کیا ہے؟

وہ بوڑھا کچھ دیر تک اور خاموش رہا، سب اس کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کہتا ہے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد دھیمی آواز میں بولا، جانتے ہو کہ اس کا قابل عمل علاج کیا ہے؟

علاج یہ ہے کہ ہر ایک قبیلے سے ایک آدمی منتخب کرو اور انہیں اس بات پر مامور کرو ہ وہ سب

۱۹۵

مل کر رات کی تاریکی میں محمد(ص) پر حملہ کردیں اور محمد(ص) کو ان کے بستر پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں اس طرح سے بنی ہاشم بھی قاتل کو نہ پہچان سکیں گے اور نہ ہی ایک ساتھ سب سے جنگ کرسکیں کے لہذا وہ خونبہا لے کر خاموش اور راضی ہوجائیں گے اجلاس میں شامل لوگوں نے بحث و گفتگو کے بعد اسی طریقہ کار کی تائید کی اور اس کو انجام دینے کا ارادہ کرلیا لیکن خداوند عالم کی ذات ان کی باتوں اور ان کے برے ارادوں سے غافل نہ تھی_

خداوند عالم فرماتا ہے:

ہرگز گمان مت کرو کہ خدا ظالموں کے کردار سے غافل ہے نہیں: ان کے اعمال کی تمات تر سزا کو اس دن تک کہ جس دن سخت عذاب سے آنکھیں بند اور خیرہ ہوں گی اور گردش کرنے سے رک جائیں گی ٹال دیا ہے اس دن یہ جلدی (دوڑتے ہوئے) اور سرجھکائے حاضر ہوں گے لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ کہ جسکا عذاب ان کو گھیرے گا اور ظالم کہیں گے کہ پروردگار ہماری موت کو کچھ دن کے لئے ٹال دے تا کہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے پیغمبروں کی پیروی کریں کیا تم ہی نہیں تھے کہ قسم کھاتے تھے کہ ہم پر موت اور زوال نہیں آئے گا؟''

۱۹۶

آیت قرآن

''( و مکروا و مکر الله و الله خیر الماکرین ) ''

سورہ آل عمران آیت ۵۴

انہوں نے مکر و فریب کیا اور اللہ نے ان کا جواب دیا اور اللہ بہترین نقشہ کشی کرنے والا ہے_

سوچئے او رجواب دیجئے

۱) ___ جب مسلمانوں نے پیغمبر(ص) سے مصائب اور سختیوں کی روک تھام کا تقاضہ کیا تو انہوں نے کیا جواب دیا؟ اور خداوند عالم کی جانب سے کون سی خوشخبری دی؟

۲)___ ہجرت کی مشکلات کیا تھیں؟ اور مسلمان کس طرح ان مشکلات پر غالب آتے تھے؟

۳)___ مسلمان کس طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچا کرتے تھے؟

۴)___ مسلمانوں کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفار پر کی اثر ڈالا؟

۵)___ کفّار نے کس مسئلہ کے بارے میں اجلاس منعقد کی اور کس بات پر ان کا اتفاق ہوا تھا؟

۱۹۷

۶)___ خداوند عالم ظالموں کی سزا کے متعلق قرآن مجید میں کیا فرماتا ہے؟ اور ظالم اپنے پروردگار سے کیا کہیں گے اور کیا خواہش کریں گے اور خدا انہیں کی جواب دے گا؟

۱۹۸

پیغمبر(ص) خدا کی ہجرت (۱)

اللہ تعالی کفّار کے منحوس ارادوں سے آگاہ تھا اس نے کفّار کے حیلے سے پیغمبر(ص) کو آگہ کردیا اور ان کے برے ارادے کو پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر کردیا_

خداوند عالم نے پیغمبر(ص) کو خبر دی کہ مشرکوں نے تمہارے قتل پر کمر باندھ رکھی ہے لہذا نہایت خاموشی کے ساتھ چھپ کر اس شہر سے مدینہ کی جانب ہجرت کر جاؤ کہ یہ ہجرت، دین اسلام کی بنیاد کو مضبوط بنانے اور محروم لوگوں کو ان ظالموں سے نجات دلانے کا موجب ہوگی_

تم اللہ کی رضا اور مخلوق خدا کی ہدایت کے لئے اپنے اپنے گھر بار کی محبت کو پس پشت ڈال کر ہجرت کرجاؤ کیونکہ اللہ تعالی اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں او رمہاجرین کی مدد کرتا ہے، ان کی حمایت کرتا ہے اور انھیں سعادت و کامیابی کا راستہ بتاتا ہے_ اللہ کا دین ہمیشہ ہجرت و جہاد اور ایثار وقربانی سے وابستہ رہا

۱۹۹

ہے اور ہمیشہ رہے گا_

پیغمبر خدا(ص) نے اللہ کے حکم سے ہجرت کا پكّا ارادہ کرلیا_

لیکن ہجرت اور یہ ارادہ نہایت پر خطر تھا_ پیغمبر(ص) اور ان کا گھر مکمّل طور پر دشمنوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا_ آمد و رفت کی معمولی سی علامت اور گھر میں ہونے والی غیر معمولی حرکات و سکنات پیغمبر(ص) کے ارادے کو ظاہر کردیتیں اور آپ(ص) کی ہجرت کے پروگرام کو خطرے میں ڈال سکتی تھیں_

کفّار نے آپ(ص) کے گھر اور سونے اور بیٹھنے کی جگہ تک کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرلی تھیں تا کہ اس حملہ کی کامیابی کی تکمیل میں کہ جس کو انجام دیتے کے طریقے اور وقت کا تعین ہوچکا تھا کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہوسکے_

رات کے وقت پیغمبر(ص) کی آمد و رفت کے معمولات سے یہ لوگ آگاہ تھے، یہاں تک کہ دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے پیغمبر کے سونے کی جگہ تک ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھی_

یہاں تک کہ شب ہجرت آپہنچی_

پیغمبر نے ہجرت کے موضوع پر حضرت علی (ع) سے کہ جنہوں نے ابتداء بعثت سے ہی آپ(ص) کی مدد و نصرت کا پیمان باندھ رکھا تھا مشورہ کیا اور پوچھا:

اے علی (ع) کیا تم خدا کے اس حکم کی تعمیل میں میری مدد کرو گے؟

یا رسول اللہ(ص) میں کس طرح سے آپ(ص) کی مدد کروں؟''

حضرت علی (ع) نے کہا:

کام بہت مشکل ہے_ چالیس کے قریب مشرک چاہتے ہیں کہ

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329