ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب28%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123451 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦٥واں جعلی صحابی خلید بن منذربن سا وی عبدی

ابن حجر کی ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

خلیدبن منذربن ساوی عبدی:

طبری نے لکھا ہے کہ علاء حضرمی نے ١٧ھمیں ''خلیف بن منذر'' کو ایک فوجی دستہ کی کمانڈ سونپ کر سمندر ی راستے سے ایران کی طرف روانہ کیا ۔ خلید کا باپ ''منذر بن ساوی '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ہی اس دنیا سے چلاگیا تھا۔

ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ قدماجنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالارنہیں بناتے تھے ۔یہی ا مراس بات کی دلیل ہے کہ خلیدرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں شرف یاب ہوا ہے ،اورخدابہتر جانتا ہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

سیف کے اس صحابی کا نسب:

منذر بن ساوی ،اخنس تمیمی داری عبدی اسبذی کا نواسہ ہے ۔

لیکن ''عبدی '' '' عبداﷲبن دارم '' سے نسبت ہے ۔ یہ غلط ہے اگر یہ گمان کیا جائے کہ یہ نسبت''عبدالقیس'' تک پہنچتی ہے ۔

اور،''اسبذی ''جیسے کہ ابن حزم کی '' جمہرہ '' اور بلا ذری کی ''فتوح البلدان میں لکھاگیا ہے کہ ''اسبذی'' ،''ہجر '' میں ایک قصبہ تھا ۔

بلاذری لکھتاہے :

''اسبذی '' بحرین میں کچھ لوگ تھے جو گھوڑے کی پوجا کرتے تھے ۔''

اور خود بحر ین کے بارے میں لکھتاہے :

٨ھمیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''علاء بن عبداﷲ''حضرمی ''کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دے اور قبول نہ کرنے کی صورت میں ان پر جزیہ مقرر کرے ۔اس کے علاوہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''منذر بن ساوی '' اور ''ہجر''کے سرحد بان ''سیبخت ''کے نام خط مرقوم فرمایا اور انھیں اسلام قبول کرنے یا جزیہ دینے کی دعوت دی۔ منذر اور سپخت اسلام لائے اور ان کے ہمراہ اس علاقہ کے تمام عرب زبان اور بعض غیر عرب بھی مسلمان ہو گئے' لیکن آتش پرست زمیندار یہودی اور عیسائی اسلام نہیں لائے اور انہوں نے جزیہ کی بناء پر علاء حضرمی سے صلح کی اور علاء نے اس سلسلے میں اپنے اور ان کے درمیان ایک عہد نامہ لکھا۔

۸۱

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد منذر فوت ہوگیا۔ (بلاذری کی بات کا خاتمہ)

''منذربن ساوی '' کی داستان کی حقیقت یہی تھی جو ہم نے اوپر ذکر کی ۔لیکن سیف بن عمر اسی منذرکے لئے ایک بیٹا خلق کرتا ہے اور اس کا نام ''خلید بن کاس '' کے نام پر ، ''خلید''رکھتاہے ۔''خلید بن کاس کو امیرالمومنین علی نے خراسان کے حاکم کے طور پر منصوب فرمایا تھا۔سیف اپنے اس خلید کا اپنی روایتوں میں ''خلید بن منذربن ساوی ''کے عنوان سے تعارف کراتاہے۔!!

ابن حجرنے اس تعارف کے تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں خلید کے لئے ''عبدی''کا بھی اضافہ کیا ہے کیونکہ منذربن ساوی کو ''عبدی 'سے نسبت دی گئی ہے ۔

خلید کا افسانہ:

طبری نے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھاہے :

علاء بن حضرمی جو بحرین پر حکومت کرتاتھا ،سعد بن ابی وقاص سے رقابت رکھتا تھا اور اپنے آپ کو اس سے کم تر نہیں سمجھتا تھا ۔لہذا سے جب سعد بن وقاص کو قادسیہ کی جنگ میں فتح نصیب ہوئی اور جو جنگی غنائم اسے حاصل ہوئے تھے وہ ارتداد کی جنگوں میں علاء کے ذریعہ حاصل کئے گئے غنائم سے کافی زیادہ تھے اس لحاظ سیسعد کا نام زبان زد عام ہو چکا توعلاء کے ذہن میں حسادت کی وجہ سے یہ خیال آیاکہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایسا کارنامہ دکھائے جس سے شہرت حاصل کر سکے۔ علاء نے اپنی اس فکر کے تحت لوگوں کو سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کرنے کی دعوت دیدی ۔لوگوں نے بھی اس کی تجویز کو قبول کیا اور اس کے پرچم تلے جمع ہوگئے ۔

علاء نے جمع ہوئے سپاہیوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا فوج کے ایک حصہ پر ''جارود بن معلی '' دوسرے حصہ پر ''سوار بن ھماّم'' اور تیسرے حصہ پر ''خلید بن ساوی ''کو سپہ سالار مقرر کیا اور یہ حکم دیا کہ کمانڈ ر انچیف ''خلید '' ہوگا۔ اس کے بعد خلافت اور خود خلیفہ سے اجازت حاصل کئے بغیر اور خلیفہ عمر کی فرمانبرداری یا نافرمانی کے انجام کی فکر کئے بغیر خود سرانہ سمندر ی راستے سے ایرانیوں پر حملہ کیا۔

۸۲

عمر ، خودایرانیوں پر اس راستے سے حملہ کرنے سے آگاہ تھے ،لیکن رسول اﷲاور خلیفہ اول ابوبکر کی سنت کی پیروی کے پیش نظر اور بے جا خود خواہی اور غرور کے خوف سے ایسے حملہ کو جائز نہیں جانتے تھے اور سپاہ سالار وں کو پہلے سے ہی ایسے حملہ سے پرہیز کرنے کاحکم دے چکے تھے ۔

بالآخر علاء کے سپاہیوں نے سمندر سے گزر کر ''استخر فارس '' نام کے مقام سے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا ۔ ''ھیر بد '' نامی اس علاقہ کے سرحد بان نے ایک تدبیر سوچی کہ اسلامی سپاہیوں اور ان کی کشتیوں کے درمیان ایسی رکاوٹ پیدا کرے کہ ان کا اپنی کشتیوں تک پہنچنا ناممکن بن جائے ۔اس تدبیر کے پیش نظر اگر علاء کے سپاہی فاتح نہ ہوتے تو انھیں قطعی طور پر موت یا اسارت میں سے ایک کا سامنا کر نا پڑتا !

'' خلید حالات کو بھانپ چکا تھا ،اس لئے اٹھ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر بولا:

اما بعد ، خدائے تعالیٰ جب کسی امر کو مقرر فرماتاہے تو کام اس طرح ایک دوسرے کے پیچھے مرتب ہوتے ہیں تاکہ منشائے الٰہی پورا ہو جائے ۔

تمہارے دشمنوں نے جو کچھ تمہارے بارے میں انجام دیا ہے وہ اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتے ہیں ۔انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ تم سے جنگ و مبارزہ طلب کریں ،اورتم لوگوں نے بھی اسی مقصد کے پیش نظر اتنا لمبا سفر کیا ہے ۔

اب سر زمینوں اور کشتیوں پر قبضہ کرنا تمہاری فتحابی پرمنحصر ہے ،صبر و شکیبائی اور نماز ادا کرکے بارگاہ خداوند ی میں خضنوع و خشوع کرو کہ یہ کام خوف خدا رکھنے والوں کے علاوہ دوسروں کے لئے مشکل ہے ۔

لوگوں نے خلید کی باتوں کی تائید کی اور ہر کام کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا اس کے بعد انہوں نے ظہر کی نماز ادا کی ۔خلید نے انھیں ایرانیوں سے لڑنے کے لئے للکارااور ''طائووس''کے مقا م پر جنگ چھڑ گئی۔ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔

۸۳

''سوار بن ھمام '' نے اپنے گھوڑے کی لگام کھینچ لی اورحسب ذیل رجز خوانی کی :

اے آل عبدقیس ! جبکہ اس وقت سب ساتھی اس ناہموار زمین پر جمع ہوئے ہیں تم پہلوان !دلاوروں سے لڑنے کے لئے اٹھو!

یہ سب اہل رزم اورمردان ِ جنگ ہیں اور تیز تلوار وں کو چلانے کے فن سے اچھی طرح آگاہ ہیں اوران سے پورا پورا استفادہ کرتے ہیں اس کے بعد اس نے اس قدر جنگ کی کہ آخر کار قتل ہوگیا۔

اس کے بعد ''جارود'' نے میدان میں آکر یوں رجز خوانی کی:

اگر کوئی آسان چیز میرے دسترس میں ہوتی تو اسے راستے سے ہٹا دیتا یا اگر گندہ اور کھڑا پانی ہوتا تو اسے میں زلال اورجاری پانی میں تبدیل کردیتا ۔لیکن کیا کروں یہ فوج کا ایک سمندر ہے جو ہماری طرف موجیں مارتا ہوا آرہا ہے۔

اس کے بعد اس نے جنگ کی اور قتل ہوگیا۔

اس دن ''عبداﷲسوار '' اور منذر جارود نے انتہائی اضطراب و بے چینی کے باوجود بہت ہاتھ پائوں مارے لیکن آخر جنگ کرتے ہوئے قتل ہوئے ۔

اس وقت ''خلید نے میدان کا راز میں قدم رکھا اور خود ستائی کے رجز پڑھتے ہوئے بولا:

اے تمیمیو !سب گھوڑوں سے نیچے اُترائو ،اور دشمن سے پیدل جنگ کرو.

اس کے بعد سب اپنے گھوڑوں سے اتر کر جان ہتھیلی پر لے کر دشمن کے ساتھ پیدل جنگ میں مشغول ہوئے اور اس قدر ان کو قتل کیا جن کا کوئی حساب نہیں تھا.

اس کے بعد بصرہ کی طرف واپس لوٹے ۔لیکن دیکھا کہ ان کی کشتیوں کو غرق کر دیا گیا ہے اور ان کے لئے دریا کے راستے واپس لوٹنا ناممکن بنادیا گیا ہے !

اس حالت معلوم ہوا کہ ''شہرک ''کے مقام پر بھی دشمن نے راستہ بند کر دیا ہے اس طرح وہ سمندر کے علاوہ دیگر تین اطراف سے بھی مکمل طور پر محاصرہ میں پھنس گئے ہیں ۔ آخر کار وہ تمام سر گرمیوں سے ہاتھ کھینچ کر انتظار میں بیٹھے !

۸۴

دوسری جانب علاء حضرمی کی سمندری راستے سے ایرانیوں پر لشکر کشی کی خبر خلیفہ عمر کو پہنچی اورجو کچھ مسلمانوں پر گزری تھی وہ سب ان پرالہام ہوا ۔خلیفہ نے علاء کو غصہ کی حالات میں ایک خط لکھا جس میں اسے سخت سر زنش تھی اور اس کے بعد اسے برطرف کردیا!

عمر نے اس قدر تنبیہ پر اکتفانہ کی بلکہ اس کے غرور کو توڑ کے رکھدیا اور اس شانوں پر ایک طاقت فرسابار ڈالدیا ،یعنی حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت ''سعد وقاص '' کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے ماتحت فریضہ انجام دے !!

علاء نے مجبور ہو کر خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوفہ عزمیت کر کے سعد کی خدمت میں پہنچ گیا

اس کے بعد عمر نے مسلمانوں کو ایرانیوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے چارہ جوئی کی اور ''عتبہ بن غزوان ''کو ایک خط میں یوں لکھا :

علاء حضرمی نے خود سرانہ طور پر مسلمانوں کے لشکر کو ایران لے جاکر انھیں ایرانیوں کے چنگل میں پھنسادیا ہے ۔چونکہ علاء نے اس کام میں ہماری نافرمانی کی ہے ،اس لئے خدا بھی اس سے ناراض ہے ۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ علاء کے گناہوں کا نتیجہ اسلام کے سپاہیوں کو بھگتنا نہ پڑے ۔لہذا اس سے قبل کہ وہ اس سے زیادہ بدحال ہوں ان کی مدد کے لئے اپنے لوگوں کو آمادہ کرؤ اور فوراً خود ان کے پاس پہنچو۔

عتبہ نے لوگوں کو خلیفہ کے خط سے آگاہ کیا اور انھیں محاصرہ میں پھنسے اسلام کے سپاہیوں کی مدد کے لئے آمادہ کیا ۔لوگوں نے بھی اپنی رضامندی اور آمادگی کا اعلان کیا اوراس کی لشکر گاہ میں جمع ہو گئے ۔

ا س کے بعد عتبہ نے ،''عاصم بن عمرو تمیمی ''،''احنف بن قیس تمیمی ''اور''ابوسبرہ '' کے علاوہ ان جیسے چند دیگر دلاوروں کا انتخاب کیا اور بارہ ہزار سپاہیوں کو ان کی کمانڈ میں دیا ۔ ان سب کے کمانڈر انچیف کا عہدہ ''ابوسبرہ ''کوسونپ کر محاصرہ میں پھنسے مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجدیا ۔

مسلمانوں کی فوج نے ساحل پر اترنے کے بعد بے درنگ خود کو ''خلید'' اور اس کے ساتھیوں تک پہنچایا اور ایرانیوں سے زبردست لڑائی چھیڑ دی اور اس کے باوجود کہ ابھی ایرانیوں کی کمک ان تک پہنچ رہی تھی انہوں نے مشرکوں کے کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔ سر انجام خدا وند عالم نے انھیں فتح و کامیابی عطا کی اور سارے ایرانی موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔

۸۵

مسلمانوں نے اس فتح و کامیابی کے نتیجہ میں اپنے کھوئے ہوئے مال کے علاوہ کا فی مقدار میں غنائم جنگی پر بھی قبضہ کیا اور فاتحانہ طور پر صحیح و سالم بصرہ لوٹے کیونکہ عتبہ نے انہیں تاکید کی تھی ایرانیوں کا کام تمام کرنے کے بعد وہاں پر مت ٹھہرنا بلکہ فوراً واپس آجانا۔ (طبری بات کا خاتمہ)

خلید کے افسانہ کے راویوں کی پڑتال :

سیف نے اپنی اس روایت کے راویوں کے طور پر مندرجہ ذیل نام لئے ہیں :

١۔محمد ،یامحمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔

٢۔مہلب ،یا مہلب بن عقبہ اسدی ۔

ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہاہے کہ محمد ومھلب دونوں سیف کے خیالی راوی تھے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں سیف سے نقل کر کے طبری نے جو کچھ بیان کیا ہے حموی نے سیف سے نقل کرنے کے علاوہ کچھ اضافات اور اشعار بھی درج کئے ہیں ، ملاحظ فرمایئے :

حموی نے اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لفظ طائووس '' کے سلسلے میں طبری سے نقل کر کے لکھاہے :

سیف بن عمر سے روایت ہے کہ علاء خضرمی نے خلافت اورخود حضرت عمر سے اجازت لئے بغیر ایک فوج کو سمندر ی راستے سے ایران کی طرف بھیجدیا ۔عمر علاء کے اس نامناسب کا م کی وجہ سے اس پر ناراض ہو اور اسے اپنے عہدے سے برطرف کر دیا۔ علاء ، برطرف ہونے کے بعد سعد وقاص کے پاس کوفہ گیا ،جس نے اس کی مدد کی تھی۔اور سرانجام ''ذی قار'' کے مقام پر فوت ہوگیا ۔خلید بن منذر نے جنگ ''طائووس'' کے بارے میں یوں کہا ہے :

ہم جس شب میں پادشاہوں کے تاج چھین کے لائے تھے ، ہمارے گھوڑوں نے شہر '' شہرک'' کی بلندیوں اور ناہموار زمین پر قبضہ کرلیا۔

ہمارے شہسوار ایرانیوں کو گروہ گروہ پہاڑوں کی بلندیوں سے ایسے نیچے گرا دیتے تھے کہ دیکھنے والا بادل کے ٹکڑوں کو گرتے دیکھتا تھا۔

خداوند عالم! ہمارے گروہ میں سے ان لوگوں کو اپنی رحمت سے محروم نہ کرے جنہوں نے دشمن کے خون سے اپنے نیزوں کو رنگین کیا تھا۔

۸۶

بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے جو اول سے آخر تک یہ جنگ اور اس میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑائی اور جنگ کی تفصیلات لکھی ہیں سب کی سب اس کی خود ساختہ داستان ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

سیف نے علاء حضرمی یمانی قحطانی صحابی کے سعد و قاص عدنان مضری صحابی کے ساتھ حسد کی داستان کو گڑھا ہے اور ان کیلئے جھوٹ کے پلندے بناکر تہمت لگائی ہے۔ سیف نے علاء کی لام بندی کو جعل کرکے ان کیلئے فرضی کمانڈر معین کئے ہیں ۔ سیف نے اسلام کے سپاہیوں کا عمر منع کرنے کے باوجود سمندر سے عبور کرکے ایرانیوں پر حملہ کرنے کی داستان اپنے ذہن سے گڑھ لی ہے ، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیف نے '' طاؤوس'' کے میدان جنگ اور وہاں پر اسلام کے دلاوروں کے قتل ہونے کا قصہ اپنے ذھن سے گڑھ لیا ہے اور یہ سراسر جھوٹ ہے۔

سیف نے سپہ سالاروں کے نام پر خود رزمیہ اشعار اور رجز خوانیاں جعل کرکے ان کے نام پر درج کئے ہیں !

سیف نے عمر کے الہام کا موضوع ، ایران کی سرزمین پر مسلمانوں کے حالات اور ان کی شکست کے بارے میں الہام کے ذریعہ حضرت عمر کا مطلع ہونا ، خود گڑھ لیا ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے!

سیف کی یہ داستان کہ عمر نے علاء کی تنبیہ کرکے اسے اپنے عہدے سے اس لئے برطرف کیا ہے کہ اس نے یہ کام نافرمانی کی بناء پر کیا تھا اور خلیفہ کے حکم سے اس کا سعد و قاص کے تحت جانا سب سیف کا گڑھا ہوا ہے اور حقیقت سے دور ہے۔

عتبہ بن غزوان '' کی ایرانیوں کے ہاتھوں محاصرہ شدہ مسلمانوں کو نجات دلانے کیلئے عمر کی طرف سے مموریت اور بارہ ہزار سپاہیوں کو ایران بھیجنا سیف کا گڑھا ہوا افسانہ اور سراسر جھوٹ ہے ۔

سیف نے ایک ایسی رزم گاہ خلق کی ہے جہاں پر عتبہ کے سپاہیوں نے ایرانیوں سے جنگ کی ہے ، حقیقت میں اس میدان کارزار کا کہیں وجود نہیں ہے۔

سیف نے '' طاؤوس'' نامی ایک جگہ کو خلق کیا ہے اور اسے اسلام کے دلیرمردوں کا میدان کارزار قرار دیا ہے اور بالاخر اس نے چند راویوں کو خلق کرکے خلید کے افسانے اور جنگی وقائع ان کی زبان سے بیان کئے ہیں ۔

جی ہاں ، ان سب چیزوں اور ان کے علاوہ اور بھی افسانوں کو سیف نے خلق کیا ہے اور ان کی تخلیق میں سیف کا کوئی شریک نہیں تھا۔

۸۷

افسانہ خلید سے سیف کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں خلید کے افسانہ میں سیف کا ان سب باتوں کو گڑھنے کا کیا مقصد تھا اور اس نے اس سے کیا حاصل کیاہے :

١۔سیف نے اس افسانہ میں علاء حضرمی ،یمانی قحطانی صحابی پر سعد وقاص عدنانی مضری کے ساتھ مکر ،ریا،حسدو رقبت کے علاوہ خلیفہ عمر کے حکم کی نافرمانی کی تہمت لگائی ہے اور اس طرح ارتداداور دوسری جنگوں میں اس کی تمام خدمات اور زحمتوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

٢۔ سیف بن عمر تمیمی نے ''خلید ''نامی ایک دوسرے افسانوی سورما کو خلق کر کے اپنے خاندان تمیم کو چار چاند لگانے کی ایک اور کوشش کی ہے ۔ کیونکہ اس کے قبیلہ کا نام اس افسانہ میں واضح ہے ۔

٣۔سیف نے تاریخ اسلام کو اپنی قدرو قیمت اور اعتبار سے گرادیا ہے ، اس کے نے بہت سی جنگوں کو مسلمانوں سے نسبت دی ہے اور ان کے ہاتھوں خون کی ہولیا ں کھیلنے کے ساتھ ،ایک اور جنگ کا اس میں اضافہ کیا ہے اور اس میں بھی بے حد وحساب کشتیوں کے پشتے لگا کر اسے مسلمانوں کے نام پر درج کیا ہے۔ اس طرح اپنے رندیقی ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے ۔

٤۔ان واقعات اور دیگر ایسے ہی وقائع کو تاریخ اسلام میں ایسے داخل کیا ہے کہ اکثر محققین تاریخی حقائق کے روبرو حیرت اور گمراہی سے دوچار ہوتے ہیں ۔

خلید کا افسانہ نقل کر نے والے علما:

١۔ امام المورخین ،محمد بن جریر طبری ،جس نے افسانہ خلید کو بلاواسطہ سیف سے نقل کیا ہے ۔

٢۔ابن اثیر ، جس نے خلید کے افسانہ کو طبری سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

٣۔ابن کثیر ،جس نے داستان خلید کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٤۔ابن خلدون ، جس نے خلید کی داستان کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے۔

٥۔حموی ،جس نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے خلید کے افسانہ کو سیف سے نقل کر کے لفظ ''طاوئو س '' کے سلسلے میں ''معجمم البلدان ''میں درج کیا ہے ۔

۸۸

٦۔حمیری نے بھی لفظ ''طاوئوس ''کے سلسلے میں اسی داستان کو اپنی کتاب ''روض المعطار'' میں نقل کیا ہے ۔

٧۔عبدالمؤمن نے بھی حموی سے نقل کر کے اس داستان کو اپنی کتاب '' مراصد الاطلاع ''میں درج کیا ہے

٨۔سرانجام ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے ،خلید کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی جان کر اپنی کتاب ''اصابہ کے حصۂ اول میں نمبر ٢٢٨٥کے تحت اس کے حالات درج کئے ہیں !

وہ مشکل جسے ابن حجر نے حل کیا ہے !!

چونکہ ''منذر بن ساوی عبدی '' اہل ِ بحرین تھا اور وہیں پر زندگی بسر کر تا تھا اور وہیں پر فوت ہواہے ، اس لئے جس ''خلید '' کو سیف بن عمر نے اس کے بیٹے کے طور پر خلق کیا ہے اور علاء کی سپاہ کے کمانڈر کی حیثیت سے بحرین میں اسے ماموریت دی ہے ،وہ بھی بحرینی ہونا چاہیئے ،لیکن یہ خلید کے صحابی ہونے کی نفی کرتا ہے ، کیونکہ صحابی کو کم از مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہونا چاہئے ۔ اب چونکہ خلید بن منذر بحرین میں پیدا ہوا ہے اور وہیں پر رہایش پذیر تھا کہ علاء حضری نے اسے ایرانیوں کے ساتھ جنگ پر بھیجدیا ہے ، اس لئے ابن حجر اس مشکل کوحل کرنے کی فکر میں پڑتا ہے اور خلید کا تعارف کرانے اوراس کے حالات بیان کرنے کے بعد علاء کی سپاہ میں اس کے سپہ سالار کے طور پر منتخب ہونے کے سلسلے میں لکھتاہے :

ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ قدماء کی رسم یہ تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔خلید کی سپہ سالاری اس امر کی دلیل ہے کہ وہ قطعاًمدینہ گیا ہوگا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہوگا۔اور خدا بہتر جانتا ہے ۔

موضوع اس طرح ہے کہ علامہ ابن حجر سیف کی اس روایت سے کہ خلید بن منذر ''طاوئوس''کی جنگ میں سپہ سالارتھا یہنتیجہ حاصل کرتا ہے کہ صحابی کی شناخت کے لئے جو قاعدہ وضع کیا گیا ہے یعنی ''قدماء صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار منتخب نہیں کرتے تھے '' ،اس کے تحت خلید بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا صحابی ہونا چاہئے ۔

۸۹

لیکن خلید بحرینی کی مدینہ منورہ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مصاحبت اس کی بحرین میں سکونت کے ساتھ سخت ٹکراؤ رکھتی ہے ، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک وقت میں زمین کے ایک دوسرے سے دور دو نقطوں پر وجود رکھتا ہو ۔لیکن سیف نے کہا ہے کہ خلید سپہ سالار تھا اور ِ صحابی کے علاوہ کوئی اور سپہ سالار نہیں بن سکتاتھا !

لہذا علامہ ابن حجر اس کی چارہ جوئی کرتے ہیں تاکہ اس واضع اور آشکا ر تناقص کو دور کریں اور سرانجام اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خلید نے بحرین سے مدینہ سفر کیا ہوگا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یا ب ہوا ہو گا اوراس کے بعد واپس بحرین آیا ہوگا ۔ چونکہ وہا ں پر تھا اسلئے علاء حضرمی کے حکم سے سپہ سالاری کی ذمہ داری کو قبول کیا ہے ۔اس لئے لکھتاہے :

فدلّ علی انّ للخلید وفادة

یعنی سپہ سالار ی کے عہدہ پر فائز ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ خلید مدینہ گیا ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچا ہے ۔

علامہ ابن حجر کی اس تحقیق سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مکتبِ خلفاء کے علماء اپنی تا لیفات میں کس قدر استدلالی اور منطقی تھے !!

گزشتہ حصہ میں ہم نے سیف کے جعلی اصحاب کے ایک گروہ کا تعارف کرایا ،جن میں علماء نے سیف کی روایت پر بھروسہ کرتے ہوئے کہ وہ سپہ سالارتھے ، انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر شمار کیا ہے ۔اب ہم خدا کی مدد سے سیف کے جعلی اصحاب کے ایک اور گروہ کا تعارف کراتے ہیں جنھیں اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قراردیا ہے ۔

۹۰

مصاررو مآخذ

خلید ابن منذر ساوی کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (١/٤٥٠) حصہ اول نمبر: ٢٢٨٥اور منذر کے حالات (٣/ ٤٩٣)

منذر بن ساوی کا نسب:

١۔''جمھر ہ انساب '' ابن حزم (٢٣٢)

٢۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری (٩٥۔١٠١) کہ اس میں اسپذیوں کی گھوڑے کی پرشش بھی بیان ہوئی ہے ۔

خلید بن منذر کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٥٤٥۔٢٥٤٨)

٢۔''تاریخ ابن اثیر'' باب غزو فارس من البحر اومن البحرین (٢/٤١٩۔٤٢١)

٣۔ ''تاریخ ابن کثیر '' (٧/٨٣۔٨٥)

٤۔ ''تاریخ ابن خلدون '' (٢/٣٤٠۔٣٤١)

''طائووس'' کی تشریح :

١۔''معجم البلدان '' حموی۔ طبع یورپ (٣/٤٩٤)

٢۔''مراصدالاطلاع'' ، لفظ ''طائووس''

٣۔ ''روض المعطار''، لفظ (طاؤوس)

۹۱

والی خرسان ''خلید بن کاس '' کی روایت :

١ ۔ کتاب ''صفین'' نصر مزاحم (١٥)

٢۔''اخبار الطوال'' دینوری (١٥٣۔١٥٤)

٦٦واں جعلی صحابی حارث بن یزید

مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے والا:

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ''حارث بن یزید عامری قرشی '' (بنی لو ء ی بن عامرسے )وہ شخص تھا جو مکہ میں مسلمانوں کو جسمانوں کو جسمانی اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتاتھا ۔

بلا ذری اپنی کتاب ''النساب الا شر اف '' میں لکھتا ہے :

حارث بن یزید رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سخت دشمنوں میں سے تھا ، اس نے مکہ میں ''عیاش بن ابی ربیعہ ''، جو مسلمان ہوگیا تھا،کو زنجیرو ں میں جکڑ کر جسمانی اذیت پہنچانے میں اس قدر بے رحمی وبر بریت کا مظاہرہ کیا تھاکہ ''عیاش نے قسم کھائی تھی کہ اگر کسی دن اس پر قابو پا سکا تو اسے مارڈالے گا،

ایک زمانہ کے بعد مشرکین کی اذیت و آزار اور جسمانی اذیتوں سے تنگ آکر اصحاب نے ہجرت کرنے کافیصلہ کیا اور مشرکین سے چھپ کے چند اشخاص کے گرو ہوں کی صورت میں راہی مدینہ ہوئے۔

جب مکہ ،مسلمانوں سے خالی ہوا ، حارث اپنے کر توت پشیمان ہوکر مسلمان ہوا اور دوسرے مسلمانوں کی طرح مدینہ روانہ ہوا جبکہ کسی کو اس کے مسلمان ہونے کی خبر تک نہیں تھی ۔

۹۲

تازہ مسلمان حارث جنگِ''احد ''کے بعد مسلسل دن رات پیدل چلنے اور بیابانوں سے گزرنے کے بعد ''حرّہ'' یا ''بقیع''کے نزدیک پہنچا تھا کہ ''عیاش بن ربیعہ''سے اس کا آمنا سامناہو گیا!

جوں ہی عیاش کی نظر حارث پر پڑی ، اس نے اس گمان سے کہ وہ ابھی کفرو شرک پر باقی ہے ، فوراً تلوار کھینچ کراس سے پہلے حارث کچھ کہے اس کا کام تمام کر دیا!

عیاش کے ہاتھوں حارث کے قتل ہونے کے بعد مندرجہ ذیل آیہ شریفہ نازل ہوئی اور اس نے غلطی سے انجام دئے گئے کام کے بارے میں عیاش کے مریضہ کو واضح کر دیا :

( وَماَکاَنَ لِمُؤمِنٍ اَن یَّقتُلَ مُؤمِنًا اِلاَّ خَطَ ً ومَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطًَ فَتَحرِیرُ رَقَبَةٍ مُومِنَةٍ وَّدِیَة مُسَلَّمَة اِلیٰ َهلِهِ،ِلَّا اَن یَّصَّدَّقُوْا ) (۱)

اس آیہ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عیاش سے مخاطب ہو کر فرمایا: اٹھو! اور خدا کی راہ میں ایک غلام آزاد کرو۔

____________________

١۔سورہ نسائ/٩٢،اور کسی مؤمن کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مؤمن کو قتل کردے مگر غلطی سے اور جو غلطی سے قتل کر دے اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے ا ور مقتول کے وارثوں کو دیت دے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں

۹۳

حارث بن یزید عامری قرشی کی پوری داستان یہی تھی ۔

لیکن سیف نے اپنے افسانوں میں ایک اورشخص کو اس حارث کے ہم نام خلق کر کے ''ھیت '' کی جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار کے عنوان سے اس کا تعارف کرایا ہے اور کچھ کارنامے بھی اس سے منسوب کئے ہیں

ابن حجر نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے حارث کو صحابی جانا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لکھتاہے :

حارث بن یزید عامری دیگر:

سیف بن عمر نے اس کا نام لیا ہے اور لکھاہے کہ خلیفہ عمر نے ایک خط کے ذریعہ ''سعد وقاص'' کو حکم دیا کہ ''وہیب کے پوتے عمر و بن مالک بن عتبہ '' کو ایک ہر اول دستے کی سرپرستی سونپ کر ''ھیت '' کی طرف روانہ کرے تاکہ اس شہر کو اپنے محاصر ہ میں لے لے ۔

عمرونے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ''ھیت ''کا محاصرہ کیا ۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی ''حارث بن یزید عامری '' کو آدھی فوج کی کمانڈ سونپ کر باقی سپاہیوں کے ہمراہ خود قر قیسیا پر حملہ کیا ....(داستان کے آخر تک)

اس کے بعد ابن حجر اپنے کلام کوجاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ قدما کی رسم یہ تھی کہ وہ صحابی کے علاوہ کسی اور کوسپہ سالار کے عہدہ پر فائز نہیں کرتے تھے ۔اس صحابی کو ابن فتحون نے بھی ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب'' سے دریافت کیاہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

مذکورہ داستان کو طبری نے فتح ''جزیرہ ''کے موضوع کے تحت سیف بن عمر سے تفصیل کے ساتھ نقل کر کے یوں بیان کیا ہے :

رجب ١٦ھ میں سعد وقاص نے خلیفہ عمر کے حکم سے '' نوفل بن عمر مناف ''کے پوتے ''عمر بن مالک بن عتبہ '' کو سپہ سالارمنتخب کیا اور اسے پورے '' جزیرہ '' کا مأ مور مقرر کیا اور سپاہ کے اگلے دستہ کی کمانڈ ''حارث بن یزید عامری '' کو سونپی ۔

''عمر بن مالک نے ''ھیت ''کی طرف حرکت کی ۔لیکن ''ھیت ''کے باشندوں نے قبل ازوقت مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر لیا تھا اور مورچے سنبھال لئے تھے ۔

۹۴

جب عمر نے یہ حالت دیکھی تو اس نے ''حارث ''کو اپنی جگہ پر کمانڈ ر مقرر کر کے حکم دیا کہ ''ھیت''کو اپنے محاصرہ میں لے لے اورخود آدھی فوج لے کر ''قر قیسیا '' پر حملہ کر کے بجلی کی طرح وہاں کے ساکنوں ٹوٹ پڑا اور ان پر اتنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیے اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوگئے۔

عمر نے اس فتحیابی کے بعد حارث کو سارا ماجرا خط میں لکھا اور حکم دیا کہ اگر ''ھیتیوں '' نے جزیہ دینا قبول کیا تو جنگ سے ہاتھ کھینچ لینا اور اگر ایسا نہ کیا تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ۔ان کے قلعہ کے گرد ایسی خندق کھودنا کہ اس سے نکلنے کا راستہ تمہارے روبرو ہو ۔

عمر کے اس صریح اور فیصلہ کن حکم کے نتیجہ میں ''ھیت ''کے باشندے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے اور جزیہ دینا قبول کر لیا اور حارث نے بھی ان سے ہاتھ کھینچ لیا اور خود عمر کے پاس پہنچ گیا۔

افسانہ حارث کے راویوں کی پڑتال :

سیف نے ''حارث بن یزید عامری '' کے افسانہ میں درج ذیل افراد کو بعنوان راوی پیش کیا ہے:

١۔ محمد ، یامحمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ

٢۔مہلب ، یا ممہلب بن عقبہ اسدی ، یہ دونوں سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٣۔ بعض نامعلوم اور مجہول افراد ، کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ ان سب سے سیف کی مراد کون سے لوگ ہیں ۔ ہم نے اس قسم کے نامعلوم راوی سیف کی روایتوں اور گزشتہ بحثوں میں بہت زیادہ پائے ہیں ۔

۹۵

فتح جزیرہ کی داستان کی حقیقت :

بلاذری نے اپنی کتاب '' فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :

١٨ھمیں طاعون '' عمواس '' کے سبب ''ابوعبیدہ '' کی وفات کے بعد عمر بن خطاب نے ایک فرمان کے تحت ''قنسرین'' '، '' حمص'' اور جزیرہ '' کے حکمران کے طور پر ''عیاض بن غنم '' کو منصوب کیا۔

عیاض نے اسی سال ١٥ شعبان کو ''جزیرہ'' پر لشکر کشی کی اور وہاں کے شہروں کو یکے بعد دیگرے صلح و مفاہمت سے فتح کیا ، لیکن ان کی زمینوں کو زبردستی اپنے قبضہ میں لے لیا۔

اس کے بعد بلاذری لکھتا ہے :

عیاض نے حبیب بن مسلمہ فہری کو ''قرقیسیا'' کو فتح کرنے پر مأمور کیا ۔ حبیب نے اس جگہ کو صلح کے ذریعہ معاہدہ کر کے فتح کیا ۔

اس کے بعد بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

اور ''عمیر بن سعد بن عبید '' کو'' رأس العین ''فتح کرنے پر مأمور کیا کیونکہ اپنی فتوحات کے دوران وہ اس جگہ کو فتح نہ کر سکا تھا ۔ عمیر نے رأس العین کو فتح کیا اور دریائے '' خابور ''کے ساحل کی طرف بڑ ھا اور بدستور پیش قدمی کرتارہایہاں تک کہ قرقیسیا پہنچ گیا ۔چونکہ قرقیسیاکے باشندوں نے حبیب کے ساتھ پہلا عہد و پیمان توڑ دیا تھا ، اس لئے عمیر کے ساتھ پھرسے اسی عہدو پیمان پر پابند ہونے کا عہد کیا اور اس کے حکم کی اطاعت کی ۔

عمیر کو جب قرقیسیا کے معاملات سے اطمینان حاصل ہوا تو اس نے فرات کے اطراف میں واقع قلعو ں کی طرف رخ کیا اور یکے بعد دیگر ے قلعوں کو فتح کر کے قرقیسیا کے پیمان کے مطابق ان سیمعاہدہ کیا ۔

۹۶

اس کے بعد عمیر نے ''ھیت '' پر چڑھائی کا قصد کیا لیکن راستے میں متوجہ ہوا کہ ''عمار یا سر ،جو خلیفہ عمر کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، نے ''سعد بن حرام انصاری '' کی سرکردگی میں ایک فوج کو ''انبار''کے بالائی علاقوں کے باشندوں سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔ اس علاقہ اور وہاں کے قلعوں کے باشندے امان چاہتے ہوئے سعد بن حرام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سعد نے انھیں ان کی خواہش کے مطابق امان دیدی ۔لیکن ''ھیت''کے باشندوں کو کنیسوں کا نصف مال وصول کرنے کی بنیا د پر مستثنیٰ قرار دیا ۔

بعض نے کہا ہے کہ سعد بن حرام نے ''مد لاج بن عمرو سلمی '' کو ''ھیت '' کے لئے مامور کیا ہے اور اسی نے اس جگہ کو فتح کیا ہے ۔(بلاذری کی بات کا خاتمہ )

یا قوت حموی نے لفظ ''ھیت '' اور ''قر قیسیا'' کے بارے میں لکھا ہے :

''ھیت''بغداد کے نزدیک دریا ئے فرات کے کنارہ پر ایک شہر ہے ۔ ''قرقیسیا'' دریائے ''خابور '' اور ''فرات'' کے ڈیلٹا پر واقع ایک شہر ہے ۔

یہ شہر ایک مثلث کے درمیان واقع ہے اور تین جانب سے پانی میں گھرا ہوا ہے :

اس کے بعد حمووی مزید کہتا ہے :

جب ''عیا ض بن غنم '' نے ١٩ھ میں ''جزیرہ '' کو فتح کیا تو ''حبیب بن مسلمئہ فہری '' کو قرقیسیا کی فتح پر مأ مور کیا حبیب نے مذکورہ شہر کو ''رقہ '' کے باشندوں سے کئے گئے پیمان کی بنیاد پر فتح کیا (.....آخر تک )

البتہ یاقوت حموئی نے ان مطالب سے پہلے سیف کی جعلی روایتوں کے کچھ حصّے بھی اس سلسلے میں نقل کئے ہیں ۔

۹۷

بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے ''ھیت '' اور ''قرقیسیا'' کے شہروں کی فتح کو ١٦ھ بتایا ہے جبکہ دوسروں نے اسے ١٩ھ ذکر کیا ہے ۔

سیف لکھتا ہے کہ ''جزیرہ '' کی جنگ میں سپہ سالار اعظم سعد وقاص تھا اور اس نے ''عمر بن مالک '' یا ''عمرو بن مالک '' کو سپہ سالار اور '' حارث بن یزید عامری ' کو فوج کے ہر اول دستہ کاکمانڈر منتخب کیا ہے ۔ عمر بن مالک نے قرقیسیا اورحارث بن یزید نے شہر ھیت کو فتح کیا ہے ۔

جبکہ دوسرے لکھتے ہے کہ '' جزیرہ '' کی فتوحات میں سپہ سالار اعظم عیاض بن غنم تھا اور اسی نے ''حبیب بن مسلمہ فہری '' کو قرقیسیا کی فتح کے لئے مأمور کیا تھا ۔اس نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن بعد میں انہوں نے پیان شکنی کی تھی ۔اور ''عمیربن سعد'' پھر سے ان کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور اسی گزشتہ معاہدہ کو پھر سے لاگو کیا ہے ۔

اور یہ کہ خلیفہ عمر کے زمانے میں کوفہ کے گورنر ''عمار یاسر '' نے ''سعدبن حزام کو '' انبار '' و ''ھیت'' اور ان کے اطراف میں موجود قلعوں کو فتح کرنے پر مأمور کیا ہے اور اسی نے وہاں کے قلعوں کے باشندوں سے معاہدہ کیا ہے ،لیکن ''ھیت '' کے باشندوں کو کنیسوں کے اموال کا نصف حصہ اداکرنے کی بنیاد پر مستثنیٰ قراردیا ہے ۔ یایہ کہ چند علاقے عمیر بن سعد کے حکم سے ''مدلاج بن عمرو'' کے ہاتھوں فتح ہوئے ہیں ۔

نتیجہ کیا ہوگا؟

یہ کہ ''ھیت '' کی فتح سیف کے جعل کردہ ''حارث بن یزید''کے نام پر اور قرقیسیا کی فتح ''عمر و بن مالک ''کے نام پر سیف کی کتاب '' فتوح ''میں ثبت ہوئی ہے اور ان سب کو طبری نے اپنی معتبر اور گراں قدر کتاب تاریخ کببرمیں نقل کیا ہے اور ابن اثیر نے بھی طبری کے مطالب کو اپنی کتاب میں ثبت کیا ہے ۔

یا قوت حموی نے بھی سیف کے جھوٹ کے بعض حصوں اور اس کے خیالی پہلوانوں کی دلاوریوں کو اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کر کے سیف کی خدمت کی ہے ۔

۹۸

آخر میں ، علامہ ابن حجر سیف کی باتوں سے متثر ہوکہ''حارث عامری '' کو ''حارث بن یزید عامری دیگر'' کے عنوان سے،اور سیف کی طرف سے اسے عطا کئے گئے سپہ سالاری کے عہدہ کو سند بناتے ہوئے''ابن ابی شیبہ'' کی روایت کہ ''قدما صرف صحابی کو سپہ سالار منتخب کرتے تھے ۔'' کی بناء پر اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی قرار دیاہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن اثیر نے بھی سیف کی جعلی روایت کو ایک بار ''تاریخ ابن عسا کر '' سے نقل کرکے ''عمر بن مالک بن عتبہ '' کے حالات میں اور دوسری بار ''عمر بن مالک بن عقبہ ،کے حالات میں لکھا ہے ۔ اس کے بعد آخر میں احتیاط سے لکھتا ہے:

''عمربن مالک بن عتبہ '' نے دمشق کی جنگ میں شرکت کی ہے اور ''جزیرہ '' پر قبضہ کرنے کے دوران فوج کی کمانڈ اس کے ہاتھ میں تھی اس کے باوجود اس قسم کا کوئی شخص پہچانا نہیں گیا ہے

ابن اثیرنے یہی مطالب دونوں کے حالات کی تشریح کے آخر میں ذکر کئے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیف کے خلق کئے گئے دوچہرے حقیقت میں ایک ہی شخص ہے اور عمر کے جد کے نام میں تحریف کی گئی ہے اور دونوں خبروں کا سر چشمہ بھی سیف عمر اور اس کی کتاب ''فتوح ''ہے ۔

بہر حال ، ہم پورے اطمینان اور قاطعیت کہتے ہیں کہ ''حارث بن یزید عامری دیگر'' سیف کی تخلیق ہے اور اس نے اس کے نام کو ''حارث قرشی '' سے لے لیا ہے جو غلطی سے عیاش کے ہاتھوں قتل ہوا ہے ۔ ہم قطعی طور سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ '' عمر بن مالک '' اس کی تخلیق ہے ، اگر چہ سیف صحابی اورتاریخ کے حقیقی چہروں کے ہم نام جعلی افراد خلق کر نے میں یدطوئی رکھتا ہے ، جیسا کہ :

''حزیمہ بن ثابت '' '' غیرذ و شہادتین '' کو ''حزیمہ بن ثابت ذو شہادتین '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

اور ''سماک بن خرشہ ''، انصاری غیر ابودجانہ کو '' مسماک بن خرشہ انصاری ابودجانہ''کے ہم نام جعل کیا ہے ۔

۹۹

حارث کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں بلاواسطہ سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ۔

٢۔ ابن عساکرنے اپنی تاریخ میں ، سیف بن عمر سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٣۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں کتاب '' فتوح ''سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٤۔ ابن فتحون نے '' استیعا ب کے ضمیمہ میں کتاب ''فتوح '' سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٥۔ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں تاریخ طبری سے نقل کر کے درج کیاہے ۔

٦۔ ابن اثیر نے کتاب ''اسدالغابہ ''میں ابن عساکر سے نقل کر کے

' 'عمر بن مالک ''کے حالات کی تشریح میں بیان کیا ہے ۔

یہاں پر سیف کے ان جعلی اصحاب کا حصہ اختتام کو پہنچا ہے ،جنھیں اس نے عراق کی جنگ میں سعد وقاص کے ہمراہ افسراور سپہ سالار کے عنوان سے خلق کیا ہے ۔ اگلی بحث میں ہم سیف کے ان جعلی اصحاب پر روشنی ڈالیں گے جنہوں نے افسر اور سپہ سالار کی حیثیت سے ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔ یہ مقدمہ و مؤخر ( یعنی اصولاً تاریخی وقائع کی ترتیب کے مطابق ارتداد کی جنگوں کو باہر کی جنگوں اور فتوحات سے پہلے لانا چاہئے تھا،اس لئے پیش آیا ہے کہ مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے ،جیساکہ ہم نے کتاب کی ابتداء میں ذکر کیا ہے ، دوسرے حصوں کی نسبت اس حصہ سے زیادہ استفادہ کیا ہے ۔

بہرحال ہم خدائے تعالےٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اس مشکل علمی بحث کو آگے بڑھانے اور تکمیل میں مدد فرمائے۔

مصادر و مآخذ

حارث بن یزید عامری قرشی کی داستان:

١۔''استیعاب '' ابن عبدالبر (١/١١٦) نمبر : ٤٧٢

٢۔''اسدالغابہ '' ابن اثیر (١/٣٥٣)

٣۔''اصابہ '' ابن حجر (١/٢٩٥)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسئلہ ١ ۴ ٨٧ اگر امام غلطی سے ایسی رکعت ميں قنوت پڑھ لے جس ميں قنوت نہيں ہے یا جس رکعت ميں تشهد نہيں ہے اس ميں تشهد پڑھنے ميں مشغول ہو جائے تو ضروری ہے کہ ماموم قنوت اور تشهد نہ پڑھے ليکن وہ امام سے پهلے رکوع ميں نہيں جا سکتا اور امام سے پهلے قيام نہيں کرسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام کا قنوت اور تشهد تمام ہوجائے اور اپنی بقيہ نماز کو امام کے ساته پڑھے۔

نمازجماعت ميں امام اور ماموم کا وظيفہ

مسئلہ ١ ۴ ٨٨ اگر ماموم ایک مرد ہو تو احتياط واجب کی بنا پر وہ امام کی دائيں طرف کهڑا ہو اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا چند عورتيں ہوں تو مرد دائيں طرف اور بقيہ عورتيں امام کے پيچهے کهڑی ہو ں اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتيں ہوں تومرد امام کے پيچهے اور عورتيں مردوں کے پيچهے کهڑی ہوں اور اگر ایک یا چند عورتيں ہوں تو امام کے پيچهے کهڑی ہوں اور ایک عورت ہونے کی صورت ميں مستحب ہے کہ امام کے پيچهے دائيں سمت ميں اس طرح کهڑی ہو کہ اس کی سجدے کی جگہ امام کے گھٹنوں یا قدم کے مقابل ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٩ اگر ماموم اور امام دونوں عورتيں ہوں تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے برابر ميں کهڑی ہوں اور امام ان سے آگے نہ ہو۔

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مستحب ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩٠ مستحب ہے کہ امام صف کے درميان ميں کهڑا ہو اور صاحبان علم، کمال اور تقویٰ پهلی صف ميں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩١ مستحب ہے کہ جماعت کی صفيں منظّم ہو ں اور ایک صف ميں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درميان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کاندهے ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٢ مستحب ہے کہ ”قد قامت الصلاة“ کهنے کے بعد مامومين کھڑے ہوجائيں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٣ مستحب ہے کہ امام اس ماموم کی حالت دیکھ کرنماز پڑھائے جو مامومين ميں سب سے زیادہ ضعيف ہو اور قنوت، رکو ع،اور سجدے کو طول نہ دے، ليکن اگر جانتا ہو کہ تمام مامومين طول دینے کی طرف مائل ہيں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۴ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد،سورہ،اور بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار نماز ميں اپنی آواز اتنی اونچی کرے کہ دوسرے مامومين سن ليں، ليکن ضروری ہے کہ اپنی آواز حد سے زیادہ اونچی نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۵ اگر امام کو رکوع کے دوران یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی ماموم ابهی ابهی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کواپنے معمول سے دگنا طول دے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے، اگرچہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی اور بھی اقتدا کے لئے آیا ہے ۔

۲۴۱

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۶ اگر جماعت کی صفوں کے درميان جگہ خالی ہو تو مکروہ ہے کہ انسان اکيلا کهڑا ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٧ ماموم کا اذکارِ نماز کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ جس مسافر کونماز ظهر،عصراور عشا دو رکعت پڑھنا ہيں ، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہيں ہے مکروہ ہے او رجو شخص مسافر نہيں اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے ۔

نماز آيات

مسئلہ ١ ۴ ٩٩ نماز آیات کہ جس کے پڑھنا کا طریقہ بعد ميں بيان ہوگا چار چيزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :

١) سورج گرہن ۔

٢) چاند گرہن۔ اگر چہ ان کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور اس کی وجہ سے کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

٣) زلزلہ، اگرچہ کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

۴) گرج چمک اور سرخ وسياہ آندهی اور ان جيسی دوسری آسمانی نشانياں، اس صورت ميں کہ اکثر لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائيں۔ جها ں تک زمينی حادثات کا تعلق ہے جيسے کہ دریا کا پانی خشک ہوجانا اور پهاڑ کا گرنا جو کہ اکثر لوگوں کہ خوف زدہ ہونے کاباعث ہوتاہے ، تو ان ميں نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٠ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگروہ ایک سے زیادہ ہو جائيں تو ضروری ہے کہ انسان ان ميں سے ہر ایک کے لئے نمازآیات پڑھے۔ مثلاً سورج گرہن بھی ہو اور زلزلہ بھی آجائے تو ضروری ہے کہ ایک نمازآیات سورج گرہن کے لئے اور ایک نماز آیات زلزلے کے لئے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠١ جس شخص پر ایک سے زیادہ نماز آیا ت کی قضا واجب ہو خواہ وہ ایک چيز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ تين مرتبہ سورج گرہن ہوا ہو اور اس شخص نے تينوں مرتبہ نماز آیات نہ پڑھی ہو، یا چند چيزوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ سورج گرہن بھی ہوا ہو اور چاند گرہن بهی، ا ن کی قضا بجا لاتے وقت ضروری نہيں ہے کہ وہ شخص یہ معين کرے کہ کون سی نماز کی قضا کر رہا ہوں، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگرچہ اجمالا ہی سهی، انہيں معين کرے مثلاًیہ نيت کرے کہ جو پهلی نماز آیات یا دوسری نماز آیات جو مجھ پر واجب ہوئی تھی اس کی قضا بجا لا رہا ہوں۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٢ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ کسی جگہ واقع ہوجائيں تو صرف اسی جگہ کے لوگوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہيں ہے ۔

۲۴۲

مسئلہ ١ ۵ ٠٣ سورج یا چاند کو گرہن لگنے کی صورت ميں نمازآیا ت پڑھنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج یا چاند کو گهن لگنا شروع ہوجائے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب سورج یا چاند مکمل طور پر گرہن سے نکل آئيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی تاخير نہ کرے کہ سور ج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع ہوجائيں، بلکہ گرہن کی ابتدا ميں ہی نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۴ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ چاند یا سورج گرہن سے نکلنا شروع ہو جائيں تو اس کی نمازادا ہے ، ليکن پورا سورج یاچاند،گرہن سے نکل جانے کی صورت ميں اس کی نمازقضا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۵ اگر چاند گرہن یا سورج گرہن کی مدت ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔اسی طرح اگر گرہن کی مدت ایک رکعت سے زیادہ ہو اور انسان نمازنہ پڑھے یهاں تک کہ ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم وقت باقی رہ گيا ہو تب بھی نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۶ انسان کے لئے واجب ہے کہ زلزلہ،گرج چمک اور انهی جيسی دوسری چيزوں کے وقوع کے وقت نماز آیات پڑھے اور ضروری ہے کہ نماز کو اتنی دیر سے نہ پڑھے کہ عرفا لوگ اسے تاخير کہيں اور تاخير کرنے کی صورت ميں اپنی نماز پڑھے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ادا یا قضا کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٧ اگر کسی شخص کو سورج یا چاند گرہن لگنا معلوم نہ ہو اور ان کے گرہن سے نکلنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے چاند یا سورج کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا بجا لائے، ليکن اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی کچھ مقدار کو گرہن لگا تھا تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٨ اگر کچھ لوگ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان پيدا نہ ہو اور اس گروہ ميں سے کوئی ایسا شخص موجودنہ ہو جس کا شرعی طورپر کوئی اعتبار ہو او رانسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد ميں یہ معلوم ہوکہ ان لوگوںنے صحيح کها تھا تو پورے چاند یاسورج کو گرہن لگنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز آیات بجا لائے، ليکن اگر ان کے کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات پڑھنا ضروری نہيں ہے ۔اسی طرح اگر دو اشخاص کہ جن کے عادل ہونے کا علم نہ ہو یا ایک شخص کہ جس کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو، اگر یہ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور بعد ميں معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں عادل تهے یا وہ ایک شخص ایسا قابل اعتماد تھا کہ جس کے قول کے بر خلاف بات کاگمان نہ تھا تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٩ اگر انسان کو ان لوگوں کے کهنے سے جو علمی قاعدے کی رو سے چاند گرہن یا سورج گرہن کے بارے ميں بتاتے ہيں ، اطمينان پيدا ہوجائے کہ سورج یا چاند گهن ہوا ہے تو ضروری هے _کہ نماز آیات پڑھے۔ نيز اگر وہ لوگ یہ کہيں کہ فلاں وقت

۲۴۳

سورج یا چاند کو گهن لگے گا اور فلاں وقت تک رہے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمينان پيدا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اطمينان پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ جو نماز آیات پڑھی تھی وہ باطل تھی تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور وقت گذرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١١ اگر پنجگانہ نمازوں کے اوقات ميں کسی شخص پر نماز آیات بھی واجب ہو جائے اور دونوں نمازوں کے لئے وقت وسيع ہو تو وہ پهلے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر ان دونوں ميں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو جس نماز کا وقت تنگ ہو ضروری ہے کہ اسے پهلے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے یوميہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٢ اگر کسی شخص کو پنجگانہ نمازوں کے د رميان یہ معلوم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور نماز پنجگانہ کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرنے کے بعد نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یوميہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ دے اور پهلے نماز آیات پڑھے اور اس کے بعد نماز یوميہ بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٣ اگر نماز آیات کے دوران کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یوميہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ وہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور نماز یوميہ شروع کر دے اور نماز مکمل کرنے کے بعد، کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہوضروری ہے کہ نماز آیات جهاں سے چھوڑی تھی وہيں سے مکمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۴ اگر کسی عورت کے حيض یا نفاس کی حالت ميں سورج یا چاند کو گهن لگ جائے تو اس پر نماز آیات اورا س کی قضا واجب نہيں ہے ليکن غير موقت جيسے کہ زلزلہ اور گرج چمک ميں عورت کے پاک ہونے کے بعد ادا یا قضا کی نيت کے بغير نماز آیات بجالانا ضروری ہے ۔

نماز آيات کا طريقہ

مسئلہ ١ ۵ ١ ۵ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت ميں پانچ رکوع ہيں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نيت کرنے کے بعد تکبيرة الاحرام کهے اور ایک مرتبہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے سر اٹھ الے اور دوبارہ ایک مرتبہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح پانچ رکوع کرے اور پانچویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دو سجدے کرے اور کهڑا ہوجائے اور دوسری رکعت کو بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشهد پڑھ کر سلام پهيرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۶ نماز آیات ميں الحمد پڑھنے کے بعد انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک سورے کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے اٹھ کر الحمد پڑھے بغير اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح یہ عمل دهراتا رہے۔ یهاں تک کہ پانچویں رکوع سے پهلے سورہ مکمل کر لے۔

۲۴۴

مثلا سورہ قل ہو اللّٰہ احد کی نيت سے ”بسم الله الرحمن الرحيم “پڑھے اور رکوع ميں جائے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور ”قل ہو اللّٰہ احد “ کهے اور دوبارہ رکوع ميں جائے اور رکوع کے بعد کهڑا ہوا ور ”الله الصمد “ کهے پھر رکوع ميں جائے اور کهڑا ہوا اور ”لم یلد ولم یولد“ کهے اور رکوع ميں چلا جائے اور رکوع سے سر اٹھ ا لے اور ”ولم یکن لہ کفوا احد“ کهے اور اس کے بعد پانچویں رکوع ميں چلا جائے، رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دوسجدے کرے۔ دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ نيز یہ بھی جائز ہے کہ ایک سورے کو پانچ سے کم حصوں ميں تقسيم کرے ليکن جب بھی سورہ مکمل کرے ضروری ہے کہ بعد والی رکوع سے پهلے الحمد پڑھے اور اس کے بعد ایک سورہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٧ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت ميں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت ميں ایک دفعہ الحمد اور سورے کو پانچ حصوں ميں تقسيم کردے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ١٨ جو چيزیں پنجگانہ نماز ميں واجب اور مستحب ہيں وہ نماز آیات ميں بھی واجب اور مستحب ہيں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساته ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کے بجائے تين دفعہ بطور رجاء ”الصلاة“کها جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٩ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ پانچویں اور دسویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ پڑھے۔ نيز ہر رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبير کهنا مستحب ہے ، ليکن پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبير کهنا مستحب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٠ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھ ویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھا جائے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ ليا جائے تب بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢١ اگر کوئی شخص نمازآیات ميں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور کسی نتيجے پر نہ پهنچے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٢ اگر شک کرے کہ پهلی رکعت کے آخری رکوع ميں ہے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع ميں اور کسی نتيجے پر نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں، اگر رکوع کی تعداد ميں شک کرے تو کم پر بنا رکھے مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ کہ اس صورت ميں اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھکا نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس رکوع کے لئے جھک گيا تھا اسے بجا لائے اور اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھک جانے کے بعد اور سجدے ميں پهنچنے سے پهلے شک ہوا ہو تواحتياط واجب کی بنا پر واپس پلٹ آئے اور رکوع بجا لائے اور نماز مکمل کر کے دوبارہ بجا لائے، ليکن اگر سجدے ميں پهنچ گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مْسئلہ ١ ۵ ٢٣ نماز آیات کا ہر رکوع ایک رکن ہے اور اگر ان ميں عمدا یا سهواً کمی یابيشی ہو جائے تو نماز باطل ہے ۔

۲۴۵

عيد فطر و عيدقربان کی نمازيں

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۴ امام عليہ السلام کے زمانے ميں عيد فطر وعيد قربان کی نمازیں واجب ہيں اور ضروری ہے کہ یہ نمازیں جماعت کے ساته پڑھی جائيں ليکن ہمارے زمانے ميں جب کہ امام عصر عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ، یہ نمازیں مستحب ہيں اور باجماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہيں ۔هاں، با جماعت پڑھنے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نمازیوں کی تعدادپانچ افراد سے کم نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۵ عيد فطر وعيد قربان کی نماز کا وقت عيد کے روز طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۶ عيد قربان کی نماز سور ج چڑھ آنے کے بعد مستحب ہے اور عيد فطر ميں مستحب ہے کہ سور ج چڑھ آنے کے بعد افطار کيا جائے اور احتياط واجب کی بنا پر فطرہ دینے کے بعد نماز عيد ادا کی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٧ عيد فطر وقربان کی نمازدو رکعت ہے جس کی پهلی رکعت ميں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبيریں کهے اور ہر تکبير کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک قنوت پڑھے ۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے اور دوسجدوں کے بعد اٹھ کهڑا ہو۔ دوسری رکعت ميں چار تکبيریںکهے اور ہر تکبير کے بعد ایک قنوت پڑھے، پانچویں تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے، رکوع کے بعد دوسجدے بجا لائے اور تشهد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٨ عيد فطر وقربا ن کی نماز کے قنوت ميں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے ، ليکن بہتر ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب مصباح المتهجد ميں نقل کی ہے ، پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ا هَْٔلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ ا هَْٔلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ وَ ا هَْٔلَ التَّقْویٰ وَ الْمَغْفِرَةِا سَْٔئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْداً وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَيْرٍ ا دَْٔخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُل سُوْءٍ ا خَْٔرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ ا سَْٔئَلُکَ خَيْرَ مَا سَئَلَکَ بِه عِبَادُک الصَّالِحُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ (الْمُخْلِصُوْنَ، الْمُخْلَصُوْنَ)

اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب ميں معتبر سند کے ساته ذکر کی ہے ، اسے پڑھا جائے۔ وہ دعا یہ ہے :

۲۴۶

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللَّهُمَّ اَنْتَ ا هَْٔلُ الْکِبْرِیَاءِوَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلُ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْقُدْرَةِ وَ السُّلْطَانِ وَ الْعِزَّةِ، ا سَْٔئَلُکَ فِیْ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْدًا وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ مَزِیْداً، ا سَْٔئَلُکَ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مَلاَئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ ا نَْٔبِيَائِکَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ ا نَْٔ تَغْفِرَ لَنَا وَ لِجَمِيْعِ الْمُوْ مِٔنِيْنَ وَ الْمُوْ مِٔنَاتِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَات اْلا حَْٔيَاءِ مِنْهُمْ وَ اْلا مَْٔوَاتِ، ا لٔلّٰهُمَّ إِنیِّ ا سَْٔئَلُکَ مِنْ خَيْرِ مَا سَئَلَکَ عِبَادُکَ الْمُرْسَلُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِه عِبَادُکَ الْمُخْلَصُوْنَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَوَّلُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ آخِرُه وَ بَدِیْعُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مُنْتَهَاهُ وَ عَالِمُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مَعَادُه وَ مَصِيْر کُلِّ شَيْیٍ إِلَيْهِ وَ مَرَدُّه وَ مُدَبِّرُ اْلاُمُوْرِ وَ بَاعِثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ، قَابِلُ الْاَعْمَالِ مُبْدِی الْخَفِيَّاتِ مُعْلِنُ السَّرَائِرِ، اَللّٰهُ اَکْبَر عَظِيْمُ الْمَلَکُوْتِ شَدِیْدُ الْجَبَرُوْتِ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ دَائِمٌ لاَّ یَزُوْلُ إِذَا قَضیٰ اَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ، اَللّٰهُ اَکْبَر خَشَعَتْ لَکَ الْاَصْوَاتُ وَ عَنَتْ لَکَ الْوُجُوْهُ وَ حَارَتْ دُوْنَکَ الْاَبْصَارُ وَ کَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ عَظَمَتِکَ وَ النَّوَاصِیَ کُلُّهَا بِيَدِکَ وَ مَقَادِیْرُ الْاُمُوْرِ کُلُّهَا اِلَيْکَ، لاَ یَقْضِیْ فِيْهَا غَيْرُکَ وَ لاَ یَتِمُّ مِنْهَا شَيْیءٌ دُوْنَکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَحَاطَ بِکُلِّ شَيْیٍ حِفْظُکَ وَ قَهَرَ کُلَّ شَيْیٍ عِزُّکَ وَ نَفَذَ کّلَّ شَيْیٍ اَمْرُکَ وَ قَامَ کُلُّ شَيْیٍ بِکَ وَ تَوَاضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِعَظَمَتِکَ وَ ذَلَّ کُل شَيْیٍ لِعِزَّتِکَ وَ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَيْیٍ لِقُدْرَتِکَ وَ خَضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِمُلْکِکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ

مسئلہ ١ ۵ ٢٩ امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ)کے زمانہ غيبت ميں اگر نماز عيد جماعت سے پڑھی جائے تو احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جائيں اور بہتر یہ ہے کہ عيد فطر کے خطبے ميں فطرے کے احکام بيان ہوں اور عيد قربان ميں قربانی کے احکام بيان ہوں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٠ عيد کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہيں ہے ليکن بہتر ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد کے بعدسورہ سبح اسم ربک الاعلیٰ (سورہ: ٨٧ )پڑھا جائے اور دوسری رکعت ميں سورہ والشمس (سورہ : ٩١ )پڑھا جائے اور سب سے افضل یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ والشمس اور دوسری رکعت ميں سورہ غاشيہ (سورہ: ٨٨ )پڑھا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣١ نماز عيد صحر ا ميں پڑھنا مستحب ہے ، ليکن مکہ مکرمہ ميں مستحب ہے کہ مسجد الحرام ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٢ مستحب ہے کہ امام جماعت اور مامو م نماز سے پهلے غسل کریں اور روئی سے بُنا ہوا سفيد عمامہ سر پر باندہيں کہ جس کا ایک سرا سينے پر اور دوسرا سرا دونوں شانوں کے درميان ہو اور مستحب ہے کہ نمازکے لئے پيدل، ننگے پير اور باوقار طریقے سے جایا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٣ مستحب ہے کہ عيد کی نمازميں زمين پر سجدہ کيا جائے، تکبيریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کيا جائے اورامام جماعت بلند آواز سے قرائت کرے۔

۲۴۷

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۴ مستحب ہے کہ عيد فطر کی رات کو مغرب وعشا کی نماز کے بعد اور عيد فطر کے دن نماز صبح کے بعد یہ تکبيریں کهی جائيں :

اَللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَاهدَانَا ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۵ عيد قربان ميں دس نمازوں کے بعد جن ميں سے پهلی نماز، عيد کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری نماز بارہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ، ان تکبيرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ ميں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَا اَبْلَانَا “ کهے، ليکن اگر عيد قربان کے موقع پر انسان منیٰ ميں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبيریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن ميں سے پهلی نماز عيد کے دن کی نمازظہر ہے اور آخری تيرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۶ احتياط مستحب ہے کہ عورتيں نماز عيد پڑھنے کے لئے نہ جائيں، ليکن یہ احتياط عمر رسيدہ عورتوں کے لئے نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٧ نماز عيد ميں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لئے ضروری ہے کہ الحمد اورسورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٨ اگر ماموم اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبيریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع ميں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبيریں اور قنوت اس نے امام کے ساته نہيں پڑہيں انہيں پڑھے اور امام کے ساته رکوع ميں مل جائے اور اگر ہر قنوت ميں ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “ یا ایک مرتبہ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کہہ دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٩ اگر کوئی شخص نماز عيد ميں اس وقت پهنچے جب امام رکوع ميں ہو تووہ نيت کر کے اور پهلی تکبير کہہ کر رکوع ميں جاسکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ نماز کو رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٠ اگر نماز عيد ميں آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر اس کو بجا لائے اور اگروہ کسی اور رکعت کا سجدہ بھول گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجا لائے۔

اسی طرح کسی بھی صورت ميں اگر اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے لئے نماز پنجگانہ ميں ، چاہے احتياط کی بنا پر، سجدہ سهو لازم ہے تواحتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۴۸

نماز کے لئے اجير بنانا

مسئلہ ١ ۵۴ ١ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جنہيں اس نے اپنی زندگی ميں انجام نہ دیا ہو کسی دوسرے شخص کو اجير بنا یا جاسکتا ہے ، یعنی اسے اجرت دی جائے تاکہ وہ انہيں بجا لائے اور اگر کوئی شخص بغير اجرت لئے ان عبادات کو بجا لائے تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٢ انسان بعض مستحب کاموں مثلا روضہ رسول(ص) کی زیارت یا قبور ائمہ عليهم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجير بن سکتا ہے اس معنیٰ ميں کہ اجارہ ميں ان اشخاص کی طرف سے ان مخصوص کاموں ميں نيابت کا قصد رکھتا ہو، چنانچہ یہ شخص انہيں کاموں کو بغير اجرت لئے بھی انجام دے سکتا ہے ۔ نيز یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو هدیہ کر دے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٣ جو شخص ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کے مسائل ميں یا تو وہ خود مجتهد ہو یا نماز، تقليد کے مطابق صحيح طریقے سے ادا کرسکے یا احتياط پر عمل کرسکے۔

مسئلہ ١ ۵۴۴ ضروری ہے کہ اجير نيت کرتے وقت ”ميت “ کو معين کرے۔هاں، یہ ضروری نہيں ہے ميت کا نام جانتا ہو، پس اگر وہ نيت کرے کہ یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے ميں اجير ہوا ہوں تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۵ ضروری ہے کہ اجير جو عمل بجا لائے اس کے لئے نيت کرے کہ جو کچھ ميت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجير کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب ميت کو هدیہ کرے تو یہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۶ ضروری ہے کہ اجير کسی ایسے شخص کو مقرر کيا جائے جس کے بارے ميں جانتے ہوں یا ان کے پاس شرعی حجت ہو کہ وہ عمل کو بجالائے گا مثلاً وہ اطمينان رکھتے ہوں یا دو عادل شخص یا ایک قابل اطمينان شخص جس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو،خبر دیں کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٧ جس شخص کو ميت کی نمازوں کے لئے اجير بنایا جائے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ عمل کو بجا نہيں لایا ہے یا باطل طریقے سے بجا لایا ہے تو ضروری ہے دوبارہ کسی شخص کو اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٨ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اجير نے عمل انجام دیا ہے یا نہيں تو اگر وہ قابل اطمينان ہو اور یہ کهے کہ ميں نے انجام دے دیا ہے یا کوئی شرعی گواہی یا کسی ایسے قابل اعتماد شخص کا قول موجود ہو کہ جس کے قول کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو کافی ہے اور اگر وہ شک کرے کہ اس اجير کا عمل صحيح تھا یا نہيں تو وہ اس کے عمل کو صحيح سمجھ لے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٩ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلا تيمم کر کے یا بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اسے ميت کی نمازوں کے لئے اجير مقرر نہيں کيا جاسکتا خواہ ميت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔

۲۴۹

مسئلہ ١ ۵۵ ٠ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے اجير بن سکتے ہيں ۔نيز نماز کو بلند یا آهستہ آواز سے پڑھنے ميں ضروری ہے کہ اجير اپنے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميت کی قضا نمازوں ميں ترتيب واجب نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ترتيب کا خيال رکھا جائے، ليکن اُن نمازوں ميں ترتيب ضروری ہے کہ جن کی ادا ميں ترتيب ضروری ہے مثلا ایک دن کی نماز ظہر وعصر یا مغرب وعشا۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٢ اگر اجير کے ساته طے کيا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے مگر یہ کہ اس عمل کے صحيح نہ ہونے کا علم رکھتا ہو کہ اس صورت ميں اس عمل کے لئے اجير نہيں بن سکتا اور اگر کچھ طے نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظيفے کے مطابق بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظيفے اور ميت کے وظيفے ميں سے جو بھی احتياط کے زیادہ قریب ہو اسی پر عمل کرے، مثلاً اگر ميت کا وظيفہ تين مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکليف ایک بار پڑھنا ہو تو تين بار پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٣ اگر اجير کے ساته یہ طے نہ کيا جائے کہ نماز کے مستحبات کتنی مقدار ميں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات نماز ميں پڑھے جاتے ہيں انہيں بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۴ اگر انسان ميت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجير مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميں بتایا گيا ہے اس کی بنا پر ضروری نہيں کہ وہ ہر اجير کے لئے وقت معين کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵۵ اگر کوئی شخص اجير بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال ميں ميت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پهلے مر جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کے لئے جن کے بارے ميں علم ہوکہ وہ انہيں بجا نہيں لایا، کسی اور شخص کو اجير مقرر کيا جائے اور جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ وہ انہيں بجانہيں لایا تھا احتياط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۶ جس شخص کو ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہوتو اگر اس کے ساته یہ طے کيا گيا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا اور وہ ان کے بجالانے پر قادر بھی تھا تو اجارہ کا معاملہ صحيح ہے اور اجرت دینے والا باقی نمازوں کی اجرت المثل واپس لے سکتا ہے یا اجارہ کو فسخ کرتے ہوئے اس مقدار کی اجرت المثل جو ادا ہو چکی ہے ، دے کر باقی مقدار کی اجرت واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ ان نمازوں کی ادائيگی پر قادر نہيں تھا تو مرنے کے بعد والی نمازوں ميں اجارہ باطل ہے اور اجرت دینے والا باقی ماندہ نمازوں کی اجرت مُسمّی لے سکتا ہے یا پهلے والی مقدار کے اجارہ کو فسخ کرتے ہو ئے اس مقدار کی اجرت المثل ادا کرسکتا ہے اور اگر یہ طے نہ کيا گيا

۲۵۰

ہو کہ وہ خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجير کے ورثاء اس کے مال سے کسی اور کو اجير بنائيں، ليکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٧ اگر اجير ميت کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس کی اپنی بھی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سابقہ مسئلے ميں جو طریقہ بتایا گيا ہے اس پر عمل کرنے کے بعداگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اس صورت ميں کہ جب اس نے وصيت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت اس کے تمام مال کے تيسرے حصے سے زیاہ ہوتو ورثاء کے اجازت دینے کی صورت ميں اس کی تمام نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جا سکتا ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت ميں اس کے مال کا تيسرا حصہ اس کی نمازوں پر خرچ کریں۔

روزے کے احکام

روزہ یہ ہے کہ انسان اذانِ صبح سے مغرب تک، ان چيزوں سے کہ جن کا بيان بعدميں آئے گا، قصد قربت،جس کا بيان وضو کے مسائل ميں گزرچکا اور اخلاص کے ساته، پرہيز کرے۔

اس مسئلے اور بعد ميں آنے والے مسائل ميں احتياط واجب کی بنا پر مغرب سے مراد وہ وقت ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مشرق کی جانب سے نمودار ہونے والی سرخی انسان کے سر کے اوپر سے گزر جائے۔

نيت

مسئلہ ١ ۵۵ ٨ روزے کی نيت ميں ضروری نہيں ہے کہ انسان نيت کے الفاظ کو دل سے گزارے یا مثلاً یہ کهے کہ ميں کل روزہ رکہوں گا، بلکہ اگر صرف یهی ارادہ رکھتا ہو کہ قربت کی نيت اور اخلاص کے ساته اذان صبح سے مغرب تک، ان کاموں کو انجام نہ دے گا جو روزے کو باطل کر دیتے ہيں تو کافی ہے ۔ اور یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت ميں روزے سے تھا ضروری ہے کہ اذانِ صبح سے کچھ دیر پهلے اور مغرب کے کچھ دیر بعد بھی روزے کو باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٩ انسان ماہ رمضان کی ہر رات ميں اس کے اگلے دن کے روزے کی نيت کر سکتا ہے اور اسی طرح مهينے کی پهلی رات کو ہی سارے روزوں کی نيت بھی کر سکتا ہے اورپہر دوبارہ ہر رات نيت دهرانا ضروری نہيں ہے اور اسی نيت پر باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٠ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کا وقت پهلی رات ميں ، رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہے اور پهلی رات کے علاوہ دوسری راتوںميں رات کی ابتدا سے پهلے بھی نيت کی جاسکتی ہے ، مثلاً پهلے دن عصر کے وقت نيت کرے کہ اگلے دن قربة الی الله روزہ رکھے گا اور اسی نيت پر باقی رہے اگر چہ اذان صبح کے بعد تک سوتا رہے۔

۲۵۱

مسئلہ ١ ۵۶ ١ مستحب روزے کی نيت کا وقت رات کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے کہ سورج غروب ہونے ميں نيت کرنے کی مقدار کا وقت باقی رہ جائے، پس اگر اس وقت تک روزے کو باطل کر دینے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور مستحب روزے کی نيت کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن اگر سورج غروب ہوجائے تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٢ جو شخص روزے کی نيت کئے بغير اذان صبح سے پهلے سوجائے، اگر ظہر سے پهلے بيدار ہو اور روزے کی نيت کرے تو اگر اس کا روزہ ایسا واجب روزہ ہوکہ جس کا وقت معين ہے ، چاہے ماہ رمضان کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ، جيسے اس نے نذر کی ہو کہ کسی معين دن روزہ رکھے گا، تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکال ہے اور اگر اس کا روزہ ایسا واجب ہو کہ جس کا وقت معين نہ ہو تو روزہ صحيح ہے ۔

اور اگر ظہر کے بعد بيدار ہو تو واجب روزے کی نيت نہيں کر سکتا ہے چاہے واجب غير معين ہو، ليکن ماہ رمضان کی قضا ميں ظہر سے عصر تک نيت کا جائز نہ ہونا احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٣ جو شخص ماہ رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معين کرے، مثلاً نيت کرے کہ قضا، نذر یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں، ليکن ماہ رمضان ميں یہ ضروری نہيں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے کی نيت کرے، بلکہ اگر اسے علم نہ ہو کہ رمضان ہے یا بھول جائے اورکسی دوسرے روزے کی نيت کرلے تب بھی وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۴ اگر کوئی جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجه کر رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی نيت کرلے تو وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہيں ہوگا اور اسی طرح بنابر احتياط واجب جس روزے کی نيت کی ہے وہ بھی روزہ شمار نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۵ اگر پهلے روزے کی نيت سے روزہ رکھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسری یاتيسری تاریخ تھی تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶۶ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے اور بے ہوش ہوجائے اور دن ميں کسی وقت ہوش آئے تو بنابر احتياط واجب ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کو پورا کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٧ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے پھر اس پر نشہ طاری ہو جائے اور دن ميں ہوش آئے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٨ اگر اذانِ صبح سے پهلے نيت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بيدار ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٩ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دیا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اور اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۲۵۲

مسئلہ ١ ۵ ٧٠ اگر بچہ ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے بالغ ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنا اس پر ضروری ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس پر روزہ واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ظہر سے پهلے بالغ ہو اور اس نے روزے کی نيت کر رکھی ہو تو روزہ پورا کرے اور اگر نيت نہ بھی کی ہو اورروزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو نيت کرے اور روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧١ جو شخص کسی ميت کے روزے اجرت لے کر رکھ رہا ہواس کے لئے مستحب روزہ رکھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن جس شخص کے ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں وہ مستحب روزے نہيں رکھ سکتا اوراگر رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ اس کے ذمّے ہو پھر بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظہر سے پهلے متوجہ ہوجائے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ليکن وہ اپنی نيت کو غير معين واجب روزے کی طرف پلٹا سکتا ہے ، جب کہ معين واجب روزے کی طرف نيت کو پلٹانا محل اشکال ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو وہ اپنی نيت کو واجب روزے کی طرف نہيں پلٹاسکتا اگر چہ واجب غير معين ہی کيوں نہ ہو اور یہ حکم ماہِ رمضان کے قضا روزوں ميں زوال کے بعد سے عصر تک احتياط واجب کی بناپر ہے ۔هاں، اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٢ اگر کسی شخص پر رمضان کے علاوہ کوئی معين روزہ واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ مقررہ دن روزہ رکہوں گا اور جان بوجه کر اذانِ صبح تک نيت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے تو اگرچہ ظہر سے پهلے یاد آجائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، بنا بر احتياط اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٣ اگر غير معين واجب روزے مثلاً کفارے کے روزے کے لئے، ظہر کے نزدیک تک عمداً نيت نہ کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ اگر نيت سے پهلے پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہيں رکھے گا یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پهلے نيت کر لے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۴ اگر کوئی کافر ماہ رمضان ميں ظہر سے پهلے مسلمان ہوجائے تو چاہے اس نے اذان صبح سے اس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، پھر بھی اس کا روزہ صحيح نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۵ اگر کوئی مریض ماہ رمضان کے دن کے وسط ميں ظہر سے پهلے یا اس کے بعد تندرست ہو جائے تو اِس دن کا روزہ اس پر واجب نہيں ہے خواہ اُس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔

۲۵۳

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۶ جس دن کے بارے ميں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا تو اُس پر واجب نہيں کہ وہ اس دن روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نيت نہيں کر سکتا، نہ ہی یہ نيت کر سکتا ہے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ اور اگر رمضان نہيں تو قضا یا اس جيسا کوئی اور روزہ رکھ رہا ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ کسی واجب روزے مثلاً قضا کی نيت کرلے یا مستحب روزے کی نيت کرے۔ چنانچہ بعد ميں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔ ہاں، اگر وہ یہ نيت کرے کہ جس چيز کا اسے حکم دیا گيا ہے اس کو انجام دے رہا ہوں اور بعد ميں معلوم ہو کہ رمضان تھا تو یہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٧ جس دن کے بارے ميں شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا دن، اگر اُس دن قضا یا اس کی مانند کوئی واجب یا مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٨ اگر کسی واجب معين روزے ميں جيسے ماہ رمضان کے روزے ميں انسان اپنی نيت سے کہ مبطلات روزہ سے خدا کی خاطر بچے، پلٹ جائے یا پلٹنے کے بارے ميں متردد ہو یا یہ نيت کرے کہ روزہ توڑنے والی چيزوں ميں سے کسی کو انجام دے یا متردد ہو کہ ایسی کوئی چيز انجام دے یا نہ دے تو اُس کا روزہ باطل ہے ، اگرچہ جو ارادہ کيا ہو اُس سے توبہ بھی کرے اور نيت کو روزے کی طرف بھی پهير دے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٩ وہ بات جس کے بارے ميں پچهلے مسئلے ميں بتایا گيا کہ واجب معين روزے کو باطل کردیتی ہے ،غير معين واجب روزے مثلاً کفارے یا غير معين نذر کے روزے کو باطل نہيں کرتی، لہٰذا اگر ظہر سے پهلے دوبارہ اپنی نيت کو روزے کی طرف پهير دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مبطلاتِ روزہ

مسئلہ ١ ۵ ٨٠ نو چيزیں روزے کو باطل کر دیتی ہيں ، اگر چہ ان ميں سے بعض چيزوںسے روزہ احتياط کی بنا پر باطل ہوتا ہے :

ا ) کھانا اور پينا

٢ ) جماع

٣ ) استمنا۔ استمنا یہ ہے کہ انسان اپنے یا کسی دوسرے کے ساته جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے۔

۴ ) خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

۵ ) احتياط واجب کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا۔

۲۵۴

۶ ) پورے سر کو پانی ميں ڈبونا۔

٧ ) اذانِ صبح تک جنابت حيض یا نفا س پر باقی رہنا۔

٨ٌ) کسی بهنے والی چيز سے انيما کرنا۔

٩ ) قے کرنا۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کھانا اور پينا

مسئلہ ١ ۵ ٨١ اگر روزہ دار اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر کوئی چيز کھائے یا پئے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا، خواہ وہ ایسی چيز ہو جسے عموماً کهایا یا پيا جاتا ہو جيسے روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کهایا یا پيا نہ جاتا ہو جيسے مٹی اور درخت کا شيرہ، خواہ کم ہو یا زیادہ، حتی اگر تری کو منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ ميں لے جائے اور نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا، سوائے ا س کے کہ یہ تری تهوک سے مل کر اِس طرح ختم ہو جائے کہ پھر اسے باہر کی تری نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٢ اگرکھانا کھانے کے دوران معلوم ہو جائے کہ صبح ہو گئی ہے توضروری ہے کہ لقمہ اگل دے اور اگر عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب ہو جائے گاجس کی تفصيلات آگے آئيںگی۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٣ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چيز کها یا پی لے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۴ دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حس کردینے والے انجکشن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اُس انجکشن سے پرہيز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۵ اگر روزہ دار دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی چيز کو اپنے روزے کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۶ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ اذان سے پهلے اپنے دانتوں ميں خلال کرے، ليکن اگر جانتا ہو یا اطمينان ہو کہ جو غذا دانتوں کے درميان ميں رہ گئی ہے وہ دن ميں اندر چلی جائے گی، چنانچہ وہ خلال نہ کرے اور وہ چيز پيٹ کے اندر چلی جائے تو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٧ لعاب دهن کو نگلنا، اگرچہ کهٹائی یا اس کی مانند چيزوں کے تصور سے منہ ميں جمع ہوجائے، روزے کو باطل نہيں کرتا۔

۲۵۵

مسئلہ ١ ۵ ٨٨ سر اور سينے کے بلغم کو نگلنے ميں ، جب تک کہ وہ منہ کے اندر والے حصے تک نہ پهنچے، کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر منہ ميں آجائيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ انہيں نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٩ اگر روزہ دار اِس قدر پياسا ہوجائے کہ اسے خوف ہو کہ وہ پياس کی وجہ سے مر جائے گا تو اس پر اتنا پانی پينا واجب ہے کہ مرنے سے نجات مل جائے، ليکن اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر رمضان ہو تو باقی دن روزہ باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز ضروری ہے ۔ اِسی طرح اگر اُسے خوف ہو کہ پانی نہ پينے کی وجہ سے اُسے قابلِ ذکر ضرر پهنچے گا یا پانی نہ پينا اُس کے لئے ایسی مشقّت کا باعث بنے گا جوعرفاً قابل برداشت نہ ہو تو اِن دو صورتوں ميں اِس قدر پانی پی سکتا ہے کہ اُس کا ضرر اور مشقّت دور ہو جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٠ بچے یا پرندے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا اور ان جيسی چيزوں کو چکهنا جو عام طور پر حلق تک نہيں پهنچتيں، اگر چہ اتفاق سے حلق تک پهنچ جائيں روزہ کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو یا مطمئن ہو کہ حلق تک پهنچ جائيں گی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور حلق تک پهنچنے کی صورت ميں اس پر کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ ١ ۵ ٩١ انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہيں چھوڑ سکتا، ليکن اگر کمزوری اِس حد تک ہو کہ روزہ دار کے لئے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھرروزہ چھوڑ دینے ميں کوئی حرج نہيں ۔

٢۔ جماع

مسئلہ ١ ۵ ٩٢ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے اگر چہ صرف ختنہ گاہ کے برابر داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔ اوربيوی کے علاوہ کسی اور سے جماع کی صورت ميں اگر منی خارج نہ ہو تو یہ حکم احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٣ اگر ختنہ گاہ سے کم مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۴ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اورختنہ گاہ کے برابر داخل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہواور پھر شک کرے کہ اُس مقدار کے برابر دخول ہوا ہے یا نہيں تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا ضروری ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ باقی دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيزکرے، ليکن کفارہ واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۵ اگر بھول جائے کہ روز ے سے ہے اور جماع کرلے یا بے اختيار جماع کرے تواس کا روزہ باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر دوران جماع اُسے یاد آجائے یا اُسے اختيار حاصل ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع کو ترک کردے اور اگر ترک نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۶

٣۔ استمنا

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۶ اگر روزہ دار استمنا کرے، یعنی جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اُس کی منی خارج ہو، تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٧ اگر بے اختيار، انسان کی منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٨ جو روزہ دار جانتا ہو کہ اگر دن ميں سو گيا تومحتلم ہو جائے گا یعنی نيند ميں اس کے جسم سے منی خارج ہو جائے گی، تو اُس کے لئے سونا جائز ہے اور اگر محتلم ہو جائے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔هاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نہ سوئے خصوصاً جب نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکليف بھی نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٩ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کی حالت ميں نيند سے بيدار ہوجائے تو اس کو خارج ہونے سے روکناواجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٠ جب روزہ دار محتلم ہوجائے تو وہ پيشاب اور استبرا کر سکتا ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ پيشاب اور استبرا کی وجہ سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔

مسئلہ ١ ۶ ٠١ جو روزہ دار محتلم ہو گيا ہو اگر وہ جانتا ہو کہ نالی ميں منی باقی رہ گئی ہے اورغسل سے پهلے پيشاب نہ کرنے کی صورت ميں غسل کے بعد منی خارج ہوگی تو بناء بر احتياط واجب ضروری ہے کہ غسل سے پهلے پيشاب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٢ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ عمداً منی خارج کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے ، اگر منی کے باہر آنے کی نيت سے مثلاً بيوی سے هنسی مذاق اور چھيڑ چھاڑ کرے تو چاہے منی خارج نہ بھی ہو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور ضروری ہے کہ قضا کرے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرنا بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٣ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کا ارادہ کئے بغير مثال کے طور پر اپنی بيوی سے چھيڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے، چنانچہ اگر اطمينان رکھتا ہو کہ اُس سے منی خارج نہ ہوگی اگر چہ اتفاق سے منی خارج ہو بھی جائے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اطمينان نہ ہو تو منی خارج ہونے کی صورت ميں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۴ ۔ خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ سے جهوٹ منسوب کرنا

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۴ اگر روزہ دار زبان سے، لکھ کر، اشارے سے یا کسی اور طریقے سے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے عمداً کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ فوراً یہ کہہ دے کہ ميں نے جھوٹ کها ہے یا توبہ کرلے، اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ جب کهباقی انبياء (علی نبينا و آلہ و عليهم السلام )اور ان کے اوصياء کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتياطِ واجب کی بنا پر روزے کو باطل کر دیتا ہے ، مگر یہ کہ ان سے دی ہوئی یہ جھوٹی نسبت الله تعالیٰ سے منسوب ہو جائے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۷

یهی حکم حضرت زهرا عليها السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے کا ہے سوائے اس کہ کے یہ جھوٹی نسبت خدا، رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی سے منسوب ہو جائے، کہ اس صورت ميں روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۵ اگر کوئی ایسی حدیث نقل کرنا چاہے جس کے متعلق نہ جانتا ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ اور اُس حدیث کے معتبر ہونے پر دليل بھی نہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جو اِس حدیث کا راوی ہے یا مثال کے طور پرجس کتاب ميں یہ حدیث تحریر ہے ، اس کا حوالہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۶ اگر کسی روایت کو سچ سمجھتے ہوئے، خدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ جھوٹ تھی تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٧ جو شخص جانتا ہو کہ خدا، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا روزے کو باطل کردیتا ہے اگر کسی چيز کو جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ جھوٹ ہے ، ان حضرات سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ جو کچھ کها تھا سچ تھا تو بھی اس کا روزہ باطل ہے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٨ کسی دوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کو اگر جان بوجه کر خدا، پيغمبر صلی الله

عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر جس نے جھوٹ گڑھا ہے اس کا قول نقل کرے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٩ اگر روزہ دار سے پوچها جائے کہ آیا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی ایک امام عليہ السلام نے اس طرح فرمایا ہے ، اور وہ جواب ميں جان بوجه کر ہاں کی جگہ نہيں اور نہيں کی جگہ ہاں کهے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٠ اگرخدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی امام عليہ السلام سے کوئی سچ بات نقل کرے، بعد ميں کهے کہ ميں نے جھوٹ کها تھا یا رات کو ان حضرات سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اور اگلے دن روزے کے عالم ميں کهے کہ جو ميں نے کل رات کها تھا وہ سچ ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۵ ۔ غبار حلق تک پهنچانا

مسئلہ ١ ۶ ١١ احتياط کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خوا ہ غبار اس چيز کاہو جس کا کھانا حلال ہے جيسے آٹا یا ایسی چيز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جيسے مٹی۔

مسئلہ ١ ۶ ١٢ اگر ہوا کی وجہ سے کوئی غبار پيدا ہو اور انسان متوجہ ہونے کے باوجود دهيان نہ رکھے اور غبار حلق تک پهنچ جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۸

مسئلہ ١ ۶ ١٣ احتياطِ واجب یہ ہے کہ روزہ دارگاڑھی بهاپ اور سگریٹ و تمباکو جيسی چيزوں کا دهواں بھی حلق تک نہ پهنچائے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۴ اگر دهيان نہ رکھے اور غبار، دهواں، گاڑھی بهاپ یا اس جيسی چيزیں حلق ميں داخل ہوجائيںتو اگر اسے یقين یا اطمينان تھا کہ یہ چيزیں حلق ميں نہ پهنچيں گی تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اسے گمان تھا کہ یہ حلق تک نہيں پهنچيں گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۵ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور دهيان نہ رکھے یا بے اختيار غبار یا اس جيسی چيز اُس کے حلق تک پهنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

۶ ۔ سر کو پانی ميں ڈبونا

مسئلہ ١ ۶ ١ ۶ اگر روزہ دار جان بوجه کر سارا سر پانی ميں ڈبودے تو اگرچہ باقی بدن پانی سے باہر رہے، اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، ليکن اگر سارا بدن پانی ميں ڈوب جائے اور سر کا کچھ حصہ باہر رہے تو روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٧ اگر آدهے سر کو ایک بار اور اس کے دوسرے آدهے حصے کو دوسری بار پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٨ اگر شک کرے کہ پورا سر پانی کے نيچے چلا گيا ہے یا نہيں تو اس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر سارا سر ڈبونے کی نيت سے پانی کے نيچے چلا جائے اور شک کرے کہ پورا سر پانی ميں ڈوبا یا نہيں تو اس کا روزہ باطل ہوگا اگر چہ کفارہ نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ١٩ اگر پورا سر پانی کے نيچے چلا جائے ليکن بالوں کی کچھ مقدار باہر رہ جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٠ پانی کے علاوہ دیگربهنے والی چيزوں مثلاً دودھ اور آب مضاف ميں سر کو ڈبونا روزے کو باطل نہيں کرتا اور احتياطِ واجبيہ ہے کہ سر کو عرق گلاب ميں ڈبونے سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢١ اگر روزہ دار بے اختيار پانی ميں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی ميں ڈوب جائے یا وہ بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٢ اگر روزہ دار یہ سمجھ کر اپنے آپ کو پانی ميں گرادے کہ اس کا سر پانی ميں نہيں ڈوبے گا ليکن اس کا سارا سر پانی ميں ڈوب جائے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٣ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے یا کوئی دوسرا شخص زبردستی اس کا سر پانی ميں ڈبودے، چنانچہ اگر پانی کے اندر اُسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا وہ شخص اپنا ہاتھ ہٹالے تو ضروری ہے کہ اِسی وقت فوراً سر کو باہر نکالے اور اگر باہر نہ نکالے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

۲۵۹

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۴ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور غسل کی نيت سے سر کو پانی ميں ڈبودے تو اُس کا روزہ اور غسل دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر غسل کے لئے اپنا سر پانی ميں ڈبودے تو اگر اُس کا روزہ رمضان کا ہو تو اس کاروزہ اور غسل دونوں باطل ہيں اور رمضان کے قضا روزے کے لئے بھی جسے اپنے لئے انجام دے رہا ہو، احتياط کی بنا پر زوال کے بعد یهی حکم ہے ، ليکن اگر مستحب روزہ ہو یا کوئی اور واجب روزہ ہو خواہ واجب معين ہو جيسے کہ کسی معين دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہو، خواہ واجب غير معين ہو جيسے کفارے کا روزہ، تو اس صورت ميں اُس کا غسل صحيح ہے اور روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۶ اگر روزہ دار کسی شخص کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا خواہ اس شخص کوڈوبنے سے بچانا واجب ہی کيوں نہ ہو۔

٧۔ جنابت، حيض اور نفاس پر اذان صبح تک باقی رہنا

مسئلہ ١ ۶ ٢٧ اگر جنب جان بوجه کر ماہ رمضان ميں اذان صبح تک غسل نہ کرے یا اگر اس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بعد ميں آئے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٨ اگر جنب ماہ رمضان اور اس کی قضا کے علاوہ مستحبی یا واجب روزوں ميں کہ جن کا وقت معين ہو جان بوجه کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ واجب روزے ميں جان بوجه کر حالتِ جنابت پر باقی نہ رہے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٩ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے یهاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے تواحتياطِ واجب کی بنا پرضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٠ اگرجنب ماہ رمضان ميں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد یاد آئے توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر کئی دنوں بعد یاد آئے تو جتنے دن جنب ہونے کا یقين تھا ان کی قضا کرے، مثال کے طور پر اگر وہ نہ جانتا ہو کہ تين دن جنب تھا یا چار دن ؟ تو ضروری ہے کہ تين دن کے روزوں کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣١ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں غسل اور تيمم ميں سے کسی کا وقت نہ رکھتا ہو اگر وہ اپنے آپ کو جنبکرے تو اس کا روزہ باطل ہو گا اور اس پر قضا اور کفارہ واجب ہيں ، ليکن جس کی ذمہ داری غسل ہو، اگر تيمم کرنے کے لئے وقت رکھتا ہو چنانچہ اپنے آپ کو جنب کرے تو بنا بر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اوراس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273