ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123654 / ڈاؤنلوڈ: 4389
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

حارث بن یزید عامری کا افسانہ :

١۔ ''تاریخ طبری '' (١/٢٤٧٩)

٢۔''تاریخ ابن اثیر'' (٤/٨١۔٨٢)

٣۔ ''اصابہ '' ابن حجر (١/٢٩٥)

''ھیت'' اور ''قرقیسیا'' کی فتح ،حقیقی فاتحوں کے ہاتھوں :

١۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری (٢٠٥،٢٠٧۔٢٠٩،٢١٢)

٢۔ ''معجم البلدان '' حموی لفظ '' ھیت ''

عمر بن مالک بن عقبہ کے حالات :

١۔''اسدالعابہ'' ابن اثیر (٤/٨١۔٨٢)

عمر بن مالک بن عتبہ کے حالات:

١۔''اسدالغابہ '' ابن اثیر (٤/٨١)

٢۔''اصابہ '' ابن حجر (٢/٥١٤)

عیاش بن ابی ربیعہ کے حالات:

١۔''استیعاب'' ابن عبدالبر ( ٢/٤٩٥) نمبر :٢٠٦٧

عمر بن عتبہ بن نوفل کے حالات:

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/٨٢)

بنی زہرہ کانسب:

١۔''جمہرہ انساب '' ابن حزم (١٢٨۔١٣٥)

٢۔''نسب قریش '' (٢٦١۔٢٦٥)

ہم نے ان دو مصادر میں عمر بن مالک بن عتبہ یا عقبہ نام کا کوئی شخص نہیں پایا۔

۱۰۱

تیسرا حصہّ:

مختلف قبائل سے چند اصحاب

٦٧۔ عبداﷲبن حفص قرشی۔

٦٨۔ ابو حبیش عامری کلابی ۔

٦٩۔حارث بن مرہ جہنی۔

۱۰۲

٦٧ واں جعلی صحابی عبداﷲبن حفص قرشی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

عبداﷲ بن حفص بن غانم قرشی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب اورطبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''یمامہ '' کی جنگ میں مہاجرین کا پرچم عبداﷲ بن حفص کے ہاتھ میں تھا اور وہ اسی جنگ میں قتل ہوا ہے(ز)

ابن حجر کی مورد استتناد روایت '' تاریخ طبری '' میں سیف بن عمر سے( مبشرین فضیل اور سالم بن عبداﷲ) سے یوں نقل ہوئی ہے :

''یمامہ '' کی جنگ میں مہاجرین کا پرچم پہلے ''عبداﷲ بن حفص بن غانم '' کے ہاتھ میں تھا جو قتل ہو گیا اس کے بعد یہ پرچم ابوحذیفہ کے آ زاد کئے گئے غلام ''سالم ''کے ہاتھ میں دیدیا گیا ۔

انہی مطالب کو ابن اثیر نے طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔ ان کے علاوہ کسی اور مصدر میں عبداﷲ حفص کا نام دکھا ئی نہیں دیتا ہے:

حقیقت کیا ہے؟

بلا ذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں ،ذہبی نے ''تاریخ اسلام '' میں اورابن کثیر نے اپنی ''تاریخ ''میں لکھا ہے کہ ''یمامہ ''کی جنگ میں مہاجرین کا پرچم ابو حذیفہ کے آزاد کئے ہوئے غلام ''سالم '' کے ہاتھ میں تھا ۔ مزید کسی اورکے نام کا ذکر تک نہیں کیاہے ۔ اس کے علاوہ کسی بھی ایسے مصدر میں جس نے سیف روایت نقل نہ کی ہو عبداﷲ حفص کانام اور یمامہ کی جنگ میں اس کی شرکت کا اشارہ تک نہیں ملتا ہے ۔

۱۰۳

لیکن ابن حجر نے ''تاریخ طبری ''اور سیف کی کتاب ''فتوح '' کی طرف رجوع کر کے ''عبداﷲ حفص '' کے وجود پر یقین کر کے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تصور کیا ہے اور اس کے حالات کی اپنی کتاب ''اصابہ ''کے پہلے حصہ میں تشریح کی ہے ۔

علامہ ابن حجر نے مجبوری کے عالم میں اپنے اس تصور کے بارے میں اس دلیل پر تکیہ کیا ہے کہ ان دو بزرگواروں یعنی ''طبری ''اور سیف نے کہا ہے کہ '' یمامہ '' کی جنگ میں مہاجرین کا پر چم ''عبداﷲ حفص ''کے ہاتھوں میں تھا۔

چونکہ ''عبداﷲ اور دوسرے مہاجرین ''قرشی ''تھے ، اس لئے اس نے ایسا سمجھا ہے کہ قرشیوں کہ رسم یہ تھی کہ جنگوں میں اپنے پرچم کو قرشی کے علاوہ کسی اورکے ہاتھ میں نہیں دیتے تھے !

ابن حجر نے عبداﷲ کے حالات بیان کرتے ہوئے آخر میں علامت (ز) لکھی ہے تاکہ اس کا اشارہ کرے کہ اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالنے میں اس نے دوسرے مصنفین کے مقابلے میں اصحاب کے حالات بیان کرنے میں اضافہ کیاہے !

عبداﷲحفص کے افسانہ کے راوی :

سیف نے اس افسانہ کے راوی کے طور پر ''مبشربن فضیل '' کا نام لیاہے ،اور طبری نے سیف کی پندرہ روایات اس راوی سے نقل کی ہیں ۔

ابن حجر اپنی دوسری کتاب ''لسان المیزان ''، جو راویوں کی پہنچان سے مخصوص ہے ،میں لکھتا ہے :

مبشربن فضیل سیف بن عمر کے فستائخ میں اوراس کی روایت کا ماخذ ہے ۔

لیکن علامہ ابن حجرکے نقطہ نظر کے بر خلاف ہم یہ کہتے ہیں کہ ''مبشربن فضیل ''اس قدر گمنام و مجہول نہیں ہے بلکہ وہ سیف کے خیالی اور فرضی راویوں کی ایک طولانی صف میں کھڑا اس انتظار میں ہے کہ سیف کس افسانے کو اس کی زبان سے جاری کر تا ہے !!

۱۰۴

عبداﷲ کے افسانہ کانتیجہ:

١۔سیف نے اس افسانہ میں ایک قرشی و مہاجر صحابی کو خلق کیا ہے تاکہ مہاجرین کے پرچم کو یمامہ کی جنگ میں اس کے ہاتھ میں تھمائے اور وہ اسی جنگ میں قتل ہوکر تمیمیوں کے افتخارات کی تعداد کو بھی بڑھادے ۔

٢۔ سیف نے عبداﷲ حفص کو اکیلے ہی خلق کیا ہے تاکہ طبری اس سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کرے ۔ سرانجام ابن حجر نے ''عبداﷲحفص '' نامی ایک قرشی صحابی کو پانے میں سیف کی کتاب ''فتوح '' اور ''تاریخ طبری '' کو اپنے لئے ایک معتبر اور قابل اعتماد راہنما قرار دیا ہے، اور اپنے اس مطلب کے آخر پر علامت (ز) لکھ کر مشخص کرتا ہے کہ اس نے اس صحابی کے حالات دوسرے تذکرہ نویسوں پراضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

عبداﷲ حفص کے حالات:

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/٢٨٢) حصہ اول نمبر : ٤٦٣٠

٢۔ ''تاریخ طبری '' (١/١٩٤٥)

٣۔ تاریخ ابن اثیر( ٢/٢٧٦)

جنگ '' یمامہ '' میں مہاجرین کاحقیقی پر چمدار:

١۔''فتوح البلدان'' بلاذری

٢۔''تاریخ اسلام'' ذہبی

٣۔تاریخ ابن کثیر (٦/٣٢٦)

۱۰۵

مبشر بن فضیل کے حالات:

١۔ ''لسان المیزان'' ابن حجر(٥/١٣)

٦٨واں جعلی صحابی ابو حبیش

اس صحابی کے بارے میں ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے :

ابوحبیش بن ذی ا للّحیہ عامری کلابی :

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ خالدبن ولید جب عراق میں داخل ہونے کے بعد معروف صحابیوں کو مختلف علاقوں کے حکمران کے طورپر منتخب کر رہا تھا ، تو اس نے ابو حبیش کو ''ہوازن'' کے لئے مأمور کیااوروہاں کی حکومت اسے سونپی ۔

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی ''استئعئیاب '' سے دریافت کیاہے ۔

ابو حبیش کا نسب

سیف نے اس صحابی کو قبائل مضر کے بنی عامر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر'' سے خلق کیا ہے

ابن حزم نے اس طائفہ کے نسب کو اپنی کتاب ''جمھرہ انساب '' میں درج کیا ہے ۔لیکن اس میں سیف کے اس دلاور صحابی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا!

لیکن ''ذولحیہ کلابی '' کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کانا م ''شُریح بن عامر '' تھا۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کانام ''ضحاک بن قیس '' تھا ۔ اس سے روایت نقل کی گئی ہے کہ اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا:

۱۰۶

کیا انجام دئے گئے کام کو دوبارہ شروع کریں ؟رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

ہر شخص ایک کام کے لئے خلق ہوا ہے!

بغوی نے کہا ہے :

میں اس حدیث کے علاوہ اس سے کسی اورچیز کے بارے میں مطلع نہیں ہوں !

علماء نے صرف اسی ایک روایت پر اعتماد کر کے ''ذولحیہ ''کو بھی صحابی جان کر اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے

ہم نہیں جانتے ہیں کہ '' ذو لحیہ '' کی انکشاف کی گئی یہ حدیث ۔جس پر استناد کر کے اس کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔کس قدر صحیح اورقابل اعتبار ہے !! لیکن بالفرض اس حدیث کے صحیح ہونے اور ''ذولحیہ ''نام کے کسی شخص کے حقیقی طور پر موجود ہونے کی صورت میں بھی کیا سیف اس حدیث اوراس نام کے کسی شخص سے روبرو ہوا ہے اور ابوحبیش کو اس سے جوڑا ہے؟ یہ ایسا مسئلہ ہے اور ابھی تک معلوم نہ ہو سکا ۔(۱)

____________________

١۔ ''ذولحیہ '' نام کے شخص کے صحیح اور موجود ہونے کے بارے میں بحث و تحقیق کرنے کے لئے دسیوں مصادر پر اسلام میں چھان بین کرنیکی ضرورت ہے جو اسوقت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے ۔

۱۰۷

ابو حبیش کی حدیث پر ایک بحث:

ہم نے ''تاریخ طبری '' میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ خالد بن ولید نے ابوحبیش نامی کسی شخص کو ''ہوازان '' کی مأموریت سونپی ہو ۔لیکن جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کر کے ذکر کیا ہے کہ:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دوسرے ایلچیوں کے ضمن میں '' نعیم بن مسعود اشجعی''کو ''ابن ذولحیہ ''اور ''ابن مشیمصۂ جُبیری '' کے پاس بھیجا اورانھیں پیغمبری کے مدعی''اسودعنسی'' سے جنگ کر کے اسے کچل دینے کی ترغیب دی ہے ۔

ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ ''ابن ذولحیہ '' وہی زیربحث '' ابو حبیش ہے یا یہ کہ سیف نے اس نام کے دوشخص خلق کئے ہیں ۔

اور یہ بھی معلوم نہیں کہ سیف نے ابوحبیش کے نام کو '' ابو حبیش بن مطلّب قرشی ''سے لیا ہے یا نہیں ۔بلاذری نے جو ''انساب الاشراف'' میں کہا ہے اس کے مطابق اسی ابو حبیش بن مطّلب کے بیٹے ''سائب '' نے ابو سفیان کی بیٹی ''جویریہّ '' سے شادی کی ہے ۔ یایہ کہ یوں ہی سیف کے ذہن میں ایسا نام آیا ہے اور اس نے اسے اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے ۔

لیکن یہ واضح ہے کہ ''جبیش بن دلجہ قینی '' جس کا نام تاریخ طبری اور تاریخ یعقوبی میں آیا ہے سیف کے جعلی ''ابو حبیش عامری کلابی ''سے جدا ہے ۔کیونکہ دیگر بہت سے اختلافات اختلاف پہلا ''بنی قضاعہ ''سے ہے اور دوسرا (جعلی )''عامری کلابی '' ہے ۔

مصادرو مآخذ

ذولحیہُ کلابی کے حالات:

١۔''اصابٔہ'' ابن حجر (١/٤٧٥)

٢۔''استیعاب ابن '' عبدالبر ''اصابہ '' کے حاشیہ پر ( ١/٤٧٦) کہ اسے بصرہ کا باشندہ جاناہے ۔

٣۔''تاریخ بخاری'' (١/٢٦٥) ۔حصہ اول نمبر : ٩٠٩

٤۔''تقریب التہذیب '' ( ١/٢٣٨) ۔ اس میں آیا ہے کہ ''ابو داؤد ''نے اس کی حدیث کو ''قدر ''میں درج کیا ہے ۔

٥۔''اسدالغابہ '' ابن اثیر (٢/١٤٤)

۱۰۸

ذولحیہ کا نسب:

١۔''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٨٢)

٢۔''تاریخ طبری'' (ا/١٧٩٩)

٣۔''اصابہ '' ابن حجر (٤/٣٦) نمبر:٢١٢

٤۔''انساب الاشراف'' بلاذری (١/٤٤٠)

حبیش بن دلجہ ٔ قینی کے حالات:

١۔تاریخ طبری (٢/٥٧٨ و ٥٧٩ و ٦٤٢)

٢۔ تاریخ یعقوبی طبع ''دارصادر'' (٢٥١۔ ٢٥٢)

ذولحیہ کلابی'شریح بن عامر یا ضحاک بن قیس کے حالات:

١۔''تہذیب التہذیب'' (٣/٢٢٣) شرح حال : ٤٢٦

٢۔حدیث ذولحیہ تاریخ بخاری میں ذکر ہوئی ہے ۔

۱۰۹

٦٩واں جعلی صحابی حارث بن مرّہ

ابن حجر نے اس صحابی کا یوں تعارف کرایاہے :

حارث بن مرّہ جہنی:

سیف بن عمرنے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور کہاہے کہ خالد بن ولید ابوبکرکی خلافت کے زمانے میں جب خلیفہ کے حکم سے عراق پر لشکر کسی کی تیاری کر رہا تھا ، ''تو اس نے حارث بن مرّ، جو ایک دلاور صحابی شمار ہوتا تھا ، کو اپنی فوج کے قضاعیان کے دستے کی سپہ سالاری سونپی ۔

سیف نے '' ارطاة بن ابی ارطاة نخعی '' سے اس نے ''حارث بن مرہ'' سے اور اس نے ''ابو مسعود ''سے بھی ایک روایت نقل ہے ۔(ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :

سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو ''جہنی '' مشہور کیا ہے اور یہ قبائل قضا عہ کے '' جہنیہ ''

سے ایک نسبت ہے ۔

ابن حزم نے اپنی کتاب ''انساب ''میں ''جہنیہ ''نام کے بعض اہم شخصیات کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ لیکن سیف کے اس دلاور اور بلند مرتبہ صحابی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ۔

سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو قضا عہ میں ایک بلند مقام دلانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک حدیث کی بھی اس سے نسبت دی ہے کہ ہم نے ایسے مطالب صرف ابن حجر کی ''اصابہ ''میں دیکھے ۔

۱۱۰

''حارث بن مرہ ''کی روایت ان روایتوں میں سے ہے کہ طبری نے اسے سیف کی کتاب سے اپنی کتاب میں درج کرنے سے پرہیز کیا ہے، اور سیف کی روایت کا مصدر و مأ خذ معلوم نہیں ہے کہ ہم اس کی تحقیق کرتے ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی صحابی کانام یا ''حارث بن مرة عبدی''سے لیا ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے صفین کی جنگ میں اپنی پیدل فوج کے میسرہکے دستے کاکمانڈر مقرر فرمایا تھا اور وہ ٤٦ھ میں سرزمین ''قیقان ''میں قتل ہوا ہے، اور یا یہ کہ ''حارث بن مرہ فقعسی '' سے لیاہے کہ امام علیہ السلام نے اسے خبر لانے کے لئے خوارجکے درمیان بھیجا تھا اور خوارج نے اسے قتل کر ڈ الا(۱)

پہلی صورت میں عبدی ربیعة بن نزارکے عبدالقیس'' سے ایک نسبت ہے ۔

اور دوسری صورت میں فقعسی' اسد بن خزیمہ کے پوتے (فقعس بن دودان) کی طرف نسبت ہے۔

لیکن سیف نے اپنے صحابی کو قبائل قفعاعہ کے (جہینہ) سے جعل کیا ہے اور اسے ان لوگوں پر حاکم بنایا ہے۔ پس یہ حارث نہ عبدی ہے نہ فقعسی بلکہ صرف سیف کی خیالی مخلوق ہے اور اس کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے۔

____________________

١) طبری نے اپنی تاریخ (١/٣٣٧٥) اور مسعودی نے ''مروج الذھب '' (٢/٤٠٤) میں لکھا ہے : خوارج کے ہاتھوں ماراجانے والا حارث ،عبدی ہے ،فقعسی نہیں ہے ۔ دونوں سے زبردست غلطی ہوئی ہے ۔کیونکہ خوارج کے ہاتھوں ماراجانے والافقعسی تھا ۔

۱۱۱

مصادر و مأخذ

حارث بن مرۂ جہنی کے حالات :

١۔ ''اصابۂ بن حجر (١/٢٩٠)

خاندان جہینہ کانسب :

١۔ ''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٤٤٤۔٤٤٥)

حارث بن مرہ عبدی کی داستان اور صفین کی جنگ میں اس کی شرکت :

١۔ کتاب ''صفین '' نصرمزاحم (٢٠٥)

٢۔''اخبار الطوال'' دینوری (١٧١)

٣۔ ''تاریخ '' خلیفہ بن خیاّط (ا/ا١٣) کہ اس کے ہندوستان کی جنگ میں شرکت کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔

٤۔ ''معجم البلدان '' حموی لفظ ''قیقان '' (٥٣١ )

٥۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری (٢٠٧)

حارث بن مرۂ فقعسی کی داستان :

١۔ ''اخبار الطوال '' دینوری (٢٠٧)

۱۱۲

چوتھا حصہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عصر ہونے کے سبب اصحاب

اس گروہ میں سیف کے خیالی کردار حسب ذیل ہیں :

٧٠۔قر قرہ یا قرفتہ بن زاہر تیممی وائلی

٧١۔ نائل بن جعشم ،ابو نباتہ تیمی اعرجی

٧٢۔ سعد بن عمیلہ فزاری

٧٣۔ قریب بن ظفر عبدی

٧٤۔ عامر بن عبدالاسد ، یا عبدالاسود

۱۱۳

سترواں جعلی صحابی قرقرہ یا قرفتہ بن زاہر

اصحاب کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالنے والی کتابوں میں ہمیں ایسے چہرے بھی ملتے ہیں ، جنھیں مصنف نے صرف اس سبب سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے صحابیوں میں شامل کیا ہے کہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمعصر تھے ۔ ان کے بارے میں ''لہ اِدراکُ'' کی قید لگا کر ان کے حالات لکھے گئے ہیں !

کتاب کے اس حصہ میں ہم سیف کے اس قسم کے جعلی اصحاب کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور نمونہ کے طور پر ایسے چند اصحاب کا تعارف کرتے ہیں

مذکورہ صحابی کے حالات کی تشریح میں ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں یوں لکھا ہے :

وہ ان اشخاص میں سے ہے جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ درک کیا ہے ۔

سیف بن عمر اور طبری نے اسے من جملہ ان افراد میں شمار کیا ہے کہ سعد بن ابی وقاص نے اسے ''رستم فرخ زاد ''کی خواہش کے مطابق ا س سے مذاکرہ کرنے کے لئے بھیجا تھا ۔

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''سے درک کیا ہے۔(ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں اس صحابی کو ''تیمی پہنچوایاہے ،جبکہ سیف کی روایت کے مطابق ''تاریخ طبری ''میں ''تیمی وائلی '' اور طبری کے بعض نسخوں میں ''وابلی '' لکھا گیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب قبائل میں بہت سے ایسے خاندان اور گروہ پائے جاتے ہیں جنھیں ''تیمی ''اور ''وائلی ''شہرت حاصل ہے ،البتہ ہم نہ سمجھ سکے کہ سیف نے اپنے اس صحابی کو ان میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔

اگر سیف نے ''قر قرہ '' کو قبیلہ ''والبی'' سے بھی خلق کیا ہوگا تووہ بھی ''بنی اسد کے والبہ بن حارث ''کی اولاد ہیں ۔ اس صورت میں یہ احتمال ممکن ہے کہ لفظ تیمی اس کی کتاب کے نسخہ برداروں کے ذریعہ غلطی سے لکھ دیا گیا ہے۔

۱۱۴

سعد وقاص کی مجلس ِ مشاورت:

طبری نے قادسیہ کی جنگ کے وقائع اور اتفاقات کے ضمن میں لکھا ہے :

سعد وقاص نے مندرجہ ذیل افراد کو جو سب زیرک اور دانا عرب تھے کو سپہ سالار اعظم کے خیمہ میں جمع ہونے کا حکم دیا :

١۔ مغیرة بن شعبہ

٢۔بسر ابن ابی رُھم

٣۔ عرفجتہ بن ہر ثمہ

٤۔حذیفتہ بن محصن

٥۔ربعی بن عامر

٦۔قرفتہ بن زاہر تیمی وائلی

٧۔مذعور بن عدی عَجَلی

٨۔مضارب بن یزید عجلی

٩۔معبد بن مرّہ عجلی ۔

جب سب لوگ کمانڈر انچیف کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سعد نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:

میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگوں کو ان ایرانیوں کے پاس بھیجوں ۔تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟

سب نے جواب دیا :

ہم صرف آپ کے حکم کی اطاعت کریں گے اور اس سے آگے نہیں بڑھیں گے ۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس میں آپ کا واضح حکم موجود نہ ہوتواس صورت میں جس چیز کو شائستہ ترین تشخیص دیں گے ،اسی پر عمل کریں گے ۔سیف کہتا ہے اس دوران ربعی نے اپنا نقطئہ نظر یوں بیان کیا :

اگر ہم اجتماعی طور پر ان کے پاس جائیں گے تو وہ خیال کریں گے کہ ہم نے انھیں قابل قدر اور معززجانا ہے ۔لہذا یہ ہے کہ ہر بار ہم میں صرف ایک شخص ان کے پاس جائے اورکوئی دوسرا اس کے ساتھ نہ ہو۔

۱۱۵

سعد نے اس نظر یہ کو قبول کیا اور ربعی کو پہلے قاصد کے عنوان سے منتخب کیا۔

سپہ سالار اعظم کے حکم کی تعمیل ،میں سعد کے پہلے سفیر کے عنوان سے ر بعی نے ''رستم فر خ زاد'' کے خیمہ کا رخ کیا اور ....(یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :)

جب رستم کمانڈر انچیف کے خیمہ میں داخل ہوا اور اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا ، تو ربعی نے سوار حالت میں اپنے گھوڑے کو کمانڈر انچیف کے خیمہ میں بچھے ہوئے قالینوں پر دوڑایا اور کچھ چلنے کے بعد دو پشتی کو اٹھا کرگھوڑے کی لگام کو مضبوطی کے ساتھ ان سے باندھا۔

اس کے بعد نیزے کو ہاتھ سے دباتے ہوئے اور اس کی نوک کو فرش اور تکیوں چبھوتے ہوئے اور ان میں سوراخ کرتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔

اس طرح چلتے ہوئے کوئی قالین یا تکیہ ربعی کے نیز کی نوک کی ضرب سے نہ بچ سکا جو کچھ راستے میں آتا اسے پھاڑتے اور سوراخ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوا ایرانیوں کے کمانڈر انچیف رستم کے تخت کے نزدیک پہنچا ۔ وہاں پر محافظوں نے مزاحمت کی تو وہ بھی وہیں پر زمین پر بیٹھ گیا اور نیزہ کو زور سے فرش پر مار کے نصب کیا اور...... (یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :)

دو سر ے دن ایرانیوں نے سعد کو پیغا م بھیجا کہ اسی کل والے شخض کو ان کے پا س بھیجے۔لیکن سعد نے اس بار حز یفہ بن محصن کو بھیجا۔حذ یفہ کے خیمہ میں جا تے وقت موبمو ربعی کی ر فتار کی تکرار کی۔ تیسرے دن ایرانیوں نے سعد سے کہا کہ کسی اور کو بھیجے۔ اس بار سعد نے ''مغیرة بن شعبہ '' کو بھیجا ۔۔۔(داستان کے آخرتک)!

بے شک طبری نے بڑی تکلیف اٹھا کر سیف کے حق میں انتہا ئی عقیدت دکھائی ہے اورسیف کی دوروایتوں میں ذکر ہوئی اس سراپا مضحکہ اور مذاق پر مبنی داستان کو اپنی کتاب ۔تاریخ کبیر کے آٹھ صفحوں پر درج کیا ہے ! جبکہ اس افسانہ سے پہلے اسی موضوع کی ایک دوسری نقل کر کے اپنی کتاب کے دو صفحوں کو زینت بخشی ہے !!

۱۱۶

سفیروں کی داستان کے راویوں کی پڑتال :

سیف نے اپنی داستان کے راویوں کے طور پر مندرذیل ناموں کا ذکر کیاہے :

١۔نضر نے رفیل سے یعنی سیف کے ایک جعلی راوی نے سیف کے ہی دوسرے جعلی راوی سے !

٢۔ محمد ،یا محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔

٣۔زیاد یازیاد بن سرجس احمری ۔اس سے پہلے ہم نے بارہا کہاہے کہ یہ سیف کی خیالی راوی ہیں

٤۔ چند دوسرے نامعلوم اور بے نام افراد

سفیروں کی حقیقی داستان:

ابن اسحاق اور طبری نے بھی اپنی تاریخ میں سعد وقاص کے رستم فرخ زاد کے پاس سفیر بھیجنے کی روایت کو یوں بیان کیا ہے :

جب رستم نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مسلمانوں کے مقابلے میں پہنچ کر خیمے لگادئے ' توسعدوقاص کو ایک پیغام بھیجا اور اس سے تقاضا کیا کہ کسی تجربہ کار اوردانا شخص کو اس کے پاس بھیجے تاکہ وہ اس سے گفتگو کرے ۔رستم کے درخواست کے جواب میں ''مغیرة بن شعبہ ''کا انتخاب کیا گیا اور اسے رستم سے ملاقات کرنے پر مأ مور کیا گیا....

داستان کے آخر تک جو مفصل ہے ، اس میں کہیں اس بیہودہ رفتار کا ذکر نہیں ہے ۔

یہ داستان تقریباً اسی مضمون میں بلاذری کی ''فتوح البلدان''اور دینوری کی ''اخبار الطوال''

میں بھی درج ہوئی ہے ۔

۱۱۷

بحث کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جس نے نو ہوشیار اور عقلمندعربوں کے ساتھ سعدوقاص کے مشاورتی جلسہ جن میں اس نے اپنے قرقرة یا قرفئہ کو بھی شامل کیا تھا ،کی روایت نقل کی ہے ۔

وہ تنہا شخص ہے جس نے ان مشیروں میں سے تین اشخاص کی رستم سے گفتگو کا ذکر کیا ہے ، جن میں سے ایک کو ''مغیرة بن شعبہ '' شمار کیا ہے ۔ اس کے علاوہ سعد کے سفیروں پر بیہودہ اور غیر عاقلانہ رفتار کی تہمت لگاتا ہے ! سیف تنہا شخص ہے جس نے اس داستان کو آب و تاب کے ساتھ بیان کر کے ایسے راویوں کے ذریعہاسکی تشریح کی ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ اورسرانجام طبری جیسے تاریخ لکھنے والے علماء نے اسے من وعن اپنی معتبر و گراں قدر تاریخ کی کتاب میں سیف سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

جب ابن حجر کی باری آتی ہے تو وہ بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے'' قر قرہ'' کورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔

اور عبارت ''لہ ادراکُ'' کی قید لگا کر اس کا صحابی ہونا ثابت کرتا ہے اور اپنے کلام کے آخر میں حرف ''ز''درج کر کے اعلان کر تا ہے کہ اس صحابی کے حالات کی تشریح کر کے اس نے دوسرے تذکرہ نگاروں پر اضافہ کیاہے ۔

دوسری طرف سے یعقوبی (۱) ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کرکے خلا صہ کے طور پر اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

____________________

١۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یعقوبی نے اس داستان کا خلاصہ بلاواسطہ سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح سے نقل کیا ہو۔

۱۱۸

مصادر و مآ خذ

قر قرہ بن زاہر کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٢٥٧) نمبر: ٧٢٨٤

''والبی ''کا نسب:

١۔جمہرہ''انساب'' ابن حزم (١٩٤)

٢۔''نہایتہ الارب'' قلقشندی (٤٠٣)

سعد وقاص کے سفیروں کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٦٩۔٢٢٧٧)

٢۔''تاریخ ابن اثیر''(٢/٣٥٧۔٣٦٠)

٣۔''تاریخ ابن کثیر '' (٧/٣٩۔٤٠)

٤۔''تاریخ ابن خلدون'' (٣٢١٢۔٣٢٢)

٥۔''تاریخ یعقوبی '' (٢/١٤٤)

حقیقی داستان اور ''مغیرة بن شعبہ '' کاسعد کے سفیر کی حیثیت سے جانا :

١۔''تاریخ طبری '' ( ١/٢٣٥١)

٢۔''فتوح البلدان '' بلاذری (٣٥١)

٣۔''اخبار الطوال'' دینوری (١٢٠)

۱۱۹

٧١واں جعلی صحابی ابوُنُبا تہ نائل

یہ صحابی ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' کے اس حصہ میں درج میں کیا گیا ہے جو ''مخضرمین '' سے مخصوص ہے ۔

مخضرمین '' ان اصحاب کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا آدھا حصہ عصر جاہلیت میں دوسرا آدھا حصہ عصرِ رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوراسلام کے دامن میں گزاراہو۔

ابن حجر نے اس صحابی کو یوں پہچنوایا ہے :

ابو نباتہ نائل اعرجی :

کتاب ''فتوح'' میں سیف کے کہنے کے مطابق اس صحابی نے عصرِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور عراق کی جنگ میں براہ راست شرکت کی ہے ۔

نائل نے ایرانی پہلوان شہر یار کے ساتھ دست بدست لڑائی میں اس پر غلبہ پایا اوراسے موت کے گھاٹ اتاردیا اور اس کا قیمتی لباس اور دست بند غنیمت کے طور پر لے لئے۔

نائل پہلا عربی شہسوار ہے جس نے ہاتھ میں دست بند پہنا ہے !

(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس تشریح سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر نے اپنے اس صحابی کو ''اعرجی ''خلق کیا ہے ۔

کہ یہ ،''اعرج ،حارث بن کعب بن سعد بن زید مناةبن تمیم '' سے نسبت ہے ۔

لہذا معلوم ہوا کہ یہ دلیرسوار ، شہر یا ر کو مارنے والا عرب ،ایرانی دلاوروں کے لباس اور قیمتی دست بند کوغنیمت میں لینے والا سردار اور شجاع تمیمی اورسیف کا ہم قبیلہ ہے !

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸

1135۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

1136۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

1137۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

1138۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

۱۹۹

1139۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273