ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب28%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123666 / ڈاؤنلوڈ: 4389
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اپنے کاموں کا نتیجہ پاتے ہیں _ سعیدہ بیٹی ہم آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اچھے کام کرنے والے لوگ بہشت میں جائیں گے اور بہت راحت و آرام کی زندگی بسرکریں گے _ اور گنہکار جہنم میں جائیں گے _ اور عذاب اور سختی میں رہیں گے _

آخرت کی نعمتیں اور لذتیں دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں ان میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہوگا _ اہل بہشت ہمیشہ اللہ تعالی کی خاص توجہ اور محبت کا مرکز رہتے ہیں _ خدا انہیںہمیشہ تازہ نعمتوں سے نوازتا ہے اہل بہشت اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوتے ہیں اور ان نعمتوں اور محبت سے خوش و خرم رہتے ہیں _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ سعیدہ کس چیز کو بے فائدہ اور بے نتیجہ سمجھتی تھی او رکیوں؟

۲_ اس کی ماں نے اسے کیا جواب دیا؟

۳_ کیا ہم مرجانے سے فنا ہوجاتے ہیں اگر مرنے سے ہم فنا ہوجاتے ہوں تو پھر ہمارے کاموں اور کوششوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟

۴_ اپنے کاموں کا پورا نتیجہ کس دنیا میں دیکھیں گے ؟

۵_ نیک لوگ آخرت میں کیسے رہیں گے اور گناہ کار کیسے رہیں گے ؟

۶_ '' دنیا آخرت کی کھیتی ہے '' سے کیا مراد ہے ؟

۴۱

چھٹا سبق

آخرت میں بہتر مستقبل

اس جہان کے علاوہ ایک جہان اور ہے جسے جہان آخرت کہا جاتا ہے _ خدانے ہمیں جہان آخرت کے لئے پیدا کیا ہے _ جب ہم مرتے ہیں تو فنا نہیں بلکہ اس جہان سے جہان آخرت کی طرف چلے جاتی ہیں ہم صرف کھا نے پینے سونے کے لئے اس جہاں میں نہیں آئے بلکہ ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تا کہ خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کریں _ اچھے اور مناسب کام انجام دیں تا کہ کامل ہوجائیں اور جہان آخرت میں اللہ کی ان نعمتوں سے جو اللہ نے ہمارے لئے پیدا کی ہیں _ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں _

جو کام بھی ہم اس دنیا انجام دیتے ہیں اس کا نتیجہ آخرت میں دیکھیں گے _

اگر ہم نے خدا کی عبادت کی اور نیک کام کرنے والے قرار پائے تو ہمارا مستقبل روشن ہو گا اور بہترین زندگی شروع کرینگے اور اگر ہم نے خدا کے فرمان کی پیروی نہ کی اور برے کام انجام دیئے تو آخرت میں بدبخت قرار پائیں گے اور اپنے کئے کی سزاپائیں گے اور سختی اور عذاب میں زندگی بسر کریں گے

۴۲

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ اس جہاں میں ہمارا فرض کیا ہے _ کامل بنے کے لئے ہمیں کیا کام انجام دینے چاہیئے ؟

۲_ اللہ کی بڑی اور اعلی نعمتیں کس جہان میں ہیں ؟

۳_ روشن مستقبل کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۴_ آخرت میں سخت عذاب کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۵_ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کون سے کام اچھے اور مناسب ہیں اور کوں لوگ ہمیں اچھے اور مناسب کاموں کی تعلیم دیتے ہیں ؟

۴۳

تیسرا حصّہ

نبوت

۴۴

پہلا سبق

اللہ نے پیغمبڑ بھیجے ہیں

خدا چونکہ بندوں پر مہربان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بند ے اس دنیا میں اچھی اور آرام دہ زندگی بسر کریں اور آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں وہ دستور جوان کی دنیا اور آخرت کے لئے فائدہ مند ہیں _ پیغمبروں کے ذریعہ ان تک پہنچا ئے چونکہ پیغمبروں کی شخصیت عظیم ہوتی ہے اسی لئے خدا نے انہیں لوگوں کی رہنمائی کیلئےچنا_ پیغمبر لوگوں کو نیک کام اور خدائے مہربان کی پرستش کی طرف راہنمائی کرتے تھے _ پیغمبر ظالموں کے دشمن تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان مساوات و برابری قائم کریں _

سوالات

۱_ خدانے کیوں لوگوں کے لئے پیغمبر بھیجا ہے ؟

۲_ پیغمبر خدا سے کیا چیز لیکرآئے؟

۳_ پیغمبر کیا کرتے تھے؟

۴_ پیغمبر کس قسم کے لوگ ہوتے تھے؟

۵_ اگر ہم پیغمبروں کے دستور کے مطابق عمل کریں تو کیا ہوگا؟

۴۵

دوسرا سبق

انسانوں کے معلّم

پیغمبرانسانوں کے معلّم ہوتے ہیں _ ابتداء آفرینش سے لوگوں کے ساتھ _ اور ہمیشہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوشاں رہے _ وہ بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی اور زندگی کے اچھے اصولوں کی تعلیم دیتے رہے _ مہربان خدا اور اس کی نعمتوں کو لوگوں کو بتلاتے تھے اور آخرت اور اس جہاں کی عمدہ نعمتوں کا تذکرہ لوگوں سے کرتے رہے _ پیغمبر ایک ہمدرد اور مخلص استاد کے مانند ہوتے تھے جو انسانوں کی تربیت کرتے تھے_ اللہ کی پرستش کا راستہ انہیں بتلاتے تھے پیغمبر نیکی اور اچھائی کا منبع تھے وہ نیک اور برے اخلاق کی وضاحت کرتے تھے_ مدد اور مہربانی خیرخواہی اور انسان دوستی کی ان میں ترویج کرتے تھے تمام انسانوں میں پہلے دور کے انسان بے لوث اور سادہ لوح تھے پیغمبروں نے ان کی رہنمائی کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زحمت اور تکلیفیں برداشت کیں پیغمبروں کی محنت و کوشش اور رہنمائی کے نتیجے میں انسانوں نے بتدریج ترقی کی اور اچھے اخلاق سے واقف ہوئے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ زندگی کے اصول اور بہتر زندگی بسر کرنے کا درس انسانوں کو کس نے دیا ؟

۴۶

۲_ پیغمبر لوگوں کون سے تعلیم دیتے تھے؟

۳_ پیغمبروں نے کن لوگوں کے لئے سب سے زیادہ محنت اور کوشش کی ؟

۴_ پیغمبروں نے کس قسم کے لوگوں کے درمیان کن چیزوں کا رواج دیا ؟

۴۷

تیسرا سبق

خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کا کیا دین تھا اور وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے_ انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی تعلیم کو فراموش کردیا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس دنیا میں کس طرح زندگی گذار کر آخرت میں سعادت مند ہوسکتے ہیں وہ صحیح قانون اور نظم و ضبط سے ناواقف تھے اور خدا کی پرستش کے طریقے نہیں جانتے تھے _ چونکہ خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے اسلئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی پیغمبری کے لئے منتخب فرمایا تا کہ لوگوں کو نیکی اور اللہ تعالی کی عبادت کی طرف راہنمائی فرمائیں

خدا کو علم تھا کہ لوگ تشخیص نہیں کر سکتے کہ کون سے کام آخرت کے لئے فائدہ مند اور کون سے کام نقصان دہ ہیں _ خدا جانتا تھا کہ لوگوں کے لئے راہنما اور استاد ضروری ہے اسی لئے جناب ابراہیم علیہ السلام کو چنا اور انہیں عبادت اور خدا پرستی کے طریقہ بتائے _ خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلاتا تھا کہ کون سے کام لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتر ہیں اور کون سے کام مضر ہیں _

حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے پیغام اور احکام کو لوگوں تک پہنچاتے اور ان کی رہنمائی فرماتے تھے _

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے پیغمبر اور لوگوں کے استاد اور معلّم تھے _

۴۸

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ پیغمبروں کو کون منتخب کرتا ہے ؟

۲_ پہلے انسانوں کا کردار کیا تھا؟

۳_ کون سے حضرات زندگی کا بہتر راستہ بتاتے ہیں؟

۴_ کیا لوگ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے کام آخرت کے لئے بہتر اور کون سے مضر ہیں ؟

۵_ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کو کیا تعلیم دیتے تھے ؟

۶_ حضرت ابراہیم (ع) کا پیغام اور احکام کس کی طرف سے تھے؟

۴۹

چوتھا سبق

لوگوں کا رہبر اور استاد

پیغمبر لوگوں کا رہبر اور استاد ہوتا ہے _ رہبری کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے _ اسے جانتا ہے _ دین کے تمام احکام جانتا ہے _ اچھے اور برے سب کاموں سے واقف ہوتا ہے _ وہ جانتا ہے کہ کون سے احکام آخرت کی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور کون سے کام آخرت کی بدبختی کا سبب بنتے ہیں _ پیغمبر خدا کو بہتر جانتا ہے _ آخرت اور بہشت اور جہنم سے آگاہ ہوتا ہے _ اچھے اور برے اخلاق سے پوری طرح با خبر ہوتا ہے _ علم اور دانش میں تمام لوگوں کا سردار ہوتا ہے اس کے اس مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچانتا _ خداوند عالم تمام علوم پیغمبر کو عنایت فرما دیتا ہے تا کہ وہ لوگو۱ں کی اچھے طریقے سے رہبری کر سکے _چونکہ پیغمبررہبر کامل اور لوگوں کا معلم اور استاد ہوتا ہے _ اسلئے اسے دنیا اور آخرت کی سعادت کا علم ہونا چاہیے تا کہ سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ لوگوں کا رہبر اور استاد کون ہے اور ان کو کون سی چیزیں بتلاتا ہے ؟

۵۰

۲_ پیغمبر کا علم کیسا ہوتا ہے کیا کوئی علم میں اس کا ہم مرتبہ ہوسکتا ہے؟

۳_ پیغمبر کا علوم سے کون نواز تا ہے ؟

۴_ رہبر کامل کون ہوتا ہے؟

۵۱

پانچوان سبق

پیغمبر لوگوں کے رہبر ہوتے ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام پیغمبران خدا انسان تھے _ اور اانہیں میں زندگی گذار تے تھے خدا کے حکم اور راہنمائی مطابق لوگوں کی سعادت اور ترقی میں کوشاں رہتے تھے _ پیغمبر ابتدائے آفرینش سے لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے اور انہیں زندگی بہترین را ستے بتا تے تھے _ خدا شناسی آخرت اور اچھے کاموں کے بارے میں لوگوں سے گفتگو کرتے تھے _ بے دینی اور ظلم کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے تھے اور مظلوموں کی حمایت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان محبت اور مساوات کو بر قرار رکھیں پیغمبروں نے ہزاروں سال کوشش کی کہ عبادت کے طریقے خدا شناسی اور اچھی زندگی بسر کرنا لوگوں پر واضح کریں _آج پیغمبروں اور ان کے پیرو کاروں کی محنت اور مشقت سے استفادہ کررہے ہیں _ اس لئے ان کے شکر گزار ہیں اور ان پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں ;

... ...اللہ کے تمام پیغمبروں پر ہمارا سلام

... اللہ کے بڑ ے پیغمبر جناب ابراہیم پر ہمارا سلام

... جناب ابراہیم کے پیرو کاروں پر ہمارا سلام

۵۲

چھٹا سبق

اولوا لعزم پیغمبر

اللہ تعالی نے لوگوں کی راہنمائی کے لئے بہت زیادہ پیغمبر بھیجے ہیں کہ ان میں سب سے بڑ ے پیغمبر پانچ ہیں

____ حضرت نوح علیہ السلام

____ حضرت ابراہیم علیہ السلام

____ حضرت موسی علیہ السلام

____ حضرت عیسی علیہ السلام

____ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جناب موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتا ہے اور جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کہا جاتا ہے اور جناب محمڈ کے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے

تمام پیغمبر خدا کی طرف سے آئے ہیں اور ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں

لیکن تمام پیغمبروں سے بزرگ و برتر آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی (ص) ہیں آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا _

۵۳

سوالات

۱_ بڑے پیغمبرکتنے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں ؟

۲_ یہودی کسے کہا جاتا ہے ؟

۳_ مسیحی یا عیسائی کسے کہا جاتا ہے ؟

۴_ جناب محمد مصطفی (ص) کے ماننے والوں کو کیا کہا جاتا ہے ؟

۵_ سب سے بڑ ے اور بہتر اللہ کے پیغمبروں کون ہیں ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ تمام پیغمبر ... آئے ہیں اور ہم ان ... کرتے ہیں

۲_ لیکن جناب محمد مصطفی (ص) تمام پیغمبروں سے ... و ...ہیں

۳_ آپ کے بعد نہیں آئے گا

۵۴

ساتواں سبق

حضرت محمد مصطفے (ص) کا بچپن

جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد جناب عبد اللہ علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ جناب آمنہ تھیں _ بچین ہی سے آپ نیک اور صحیح انسان تھے دستر خوان پر با ادب بیھٹتے تھے_ اپنی غذا کھا تے اور دوسرے بچوں کے ہاتھ سے ان غذا نہیں چھینتے تھے _ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے _ بچوں کو آزار نہ دیتے تھے بلکہ ان سے اچھا سلوک اور محبت کرتے تھے _ ہر روز زنبیل خرما سے پر کر کے بچوں کے در میان تقسیم کرتے تھے _

سوالات

۱_ جناب محمد مصطفی کس شہر میں پیدا ہوئے ؟

۲_ غذا کھا تے وقت کیا کہتے تھے اور کس طرح بیٹھتے تھے ؟

۳_ دوسرے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے ؟

۴_ تمہارا دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟

۵۵

آٹھواں سبق

آخری نبی حضرت محمد مصطفے (ص)

آپ کے والد کا نام جناب عبداللہ اور والدہ کانام آمنہ تھا _ عام الفیل میں سترہ ربیع الاوّل کو مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کی پیدائشے سے قبل ہی آپ کے والد جناب عبداللہ کا انتقال ہو گیا _ جناب آمنہ نے آپکی چھ سال تک پرورش کی _ جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا _ والدہ کے فوت ہونے کے بعد آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی _ جناب عبد المطلب آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ پر بہت مہربان تھے پیغمبر اسلام کے مستقبل کا آپ کو علم تھا عیسائی اور یہودی علماء سے آپ نے سن رکھا تھا کہ مکہّ سے ایک پیغمبر مبعوث ہو گا _ جناب عبد المطلب عربوں کے سردار تھے _ کعبہ کے نزدیک آپ کے لئے مخصوص جگہ تھی کہ جس پراور کوئی نہیں بیٹھ سکتا تھا _ صرف پیغمبر اسلام اس مخصوص جگہ پراپنے دادا کے پہلو میں بیٹھا کرتے تھے _ اگر آپ کو وہاں بیٹھنے سے کبھی کوئی منع کرتا تو جناب عبد المطلب فرماتے کہ میرے بیٹے کو آنے دو _ بخدا اس کے چہرے پر بزرگی کے آثار موجود ہیں _ میں دیکھ رہاہوں کہ ایک دن محمڈ تم سب کا سردار ہو گا _ جناب عبدالمطلب پیغمبر اسلام کو اپنے نزدیک بٹھا تے اور اپنے دست شفقت کو آپ کے سر پر پھیر تے تھے چونکہ حضوڑ کے مستقبل سے آگاہ تھے اسلئے انہیں کے ساتھ غذا تناول کرتے تھے اور اپنے سے کبھی آپ کو جدا نہیں کرتے تھے _

۵۶

پیغمبر اسلام کا بچپن

پیغمبر اسلام بچپنے میں بھی با ادب تھے _ آپ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام فرما تے ہیں کہ محمڈ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے اور غذا کے بعد الحمدللہ فرماتے _ میں نے محمڈ کونہ تو جھوٹ بولتے دیکھا اور نہ ہی برا اور نارو ا کام کرتے دیکھا _ آپ(ص) او نچی آواز سے نہیں ہنستے تھے بلکہ مسکراتے تھے _

جواب دیجئے

۱_ پیغمبر اسلام (ص) کس سال اور کس مہینہ اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کی والدہ آور آپ کے والدکا کیا نام تھا ؟

۳_ جناب عبدالمطلب کا پیغمبر اسلام (ص) سے کیارشتہ تھا اور آپ کے متعلق وہ کیا فرما تے تھے ؟

۴_ یہودی اور عیسائی علماء کیا کہا کرتے تھے؟

۵_ بچپن میں آپ (ص) کا کردار کیسا تھا اور آپ کے متعلق آپ کے چچا کیا فرمایا کرتے تھے ؟

۵۷

نواں سبق

پیغمبر (ص) کا بچوّں کے ساتھ سلوک

پیغمبر(ص) اسلام بچّوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ان کو سلام کرتے تھے _ آپ(ص) مسلمانوں سے کہتے تھے کہ بچوں کا احترام کیا کرو اور ان سے محبت کیا کرو اور جو بچوں سے محبت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے _

ایک مسلمان کہتا ہے کہ میں نے رسول (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ گھر تک گیا تو میں نے دیکھا کہ بچے گروہ در گروہ آپ کا استقبال کرنے کے لئے دوڑ کر آرہے تھے _ آپ نے انہیں پیار کیا اور اپنا دست مبارک ان کے سر اور چہرے پرپھیرا

سوالات:

۱_ پیغمبر اسلام(ص) کے والد کا نام کیا تھا؟

۲_ آپ کی والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ بچوں کو کیوں سلام کیا کرتے تھے؟

۴_ اپنے اصحاب سے بچوں کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۵_ بچّے کیوں آپ(ص) کے استقبال کیلئے دوڑ پڑتے تھے؟

۶_ کیا تم اپنے دوستوں کو سلام کرتے ہو؟

۵۸

دسواں سبق

امین

ایک زمانے میں مکہ کے لوگ خانہ کعبہ کو از سر نو بنارہے تھے _ تمام لوگ خانہ کعبہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے _ جب کعبہ کی دیوار ایک خاص اونچائی تک پہنچی کہ جہان حجر اسود رکھا جانا تھا'' حجر اسود ایک محترم پتھر ہے'' مكّہ کے سرداروں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اس پتھر کو صرف وہی اس کی بناپر رکھے اوراس کام سے اپنے آپ اور اپنے قبیلے کی سربلندی کا موجب بنے _ اسی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوا _ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ صرف میں حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کروں گا ان کا اختلاف بہت بڑھ گیا تھا اور ایک خطرناک موڑ تک پہنچ گیا تھا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے _ جنگ کے لئے تیار بھی ہوچکے تھے اسے اثناء میں ایک دانا اور خیرخواہ آدمی نے کہا _ لوگو جنگ اوراختلاف سے بچو کیونکہ جنگ شہر اور گھروں کو ویران کردیتی ہے _ اور اختلاف لوگوں کو متفرق اور بدبخت کردیتا ہے _ جہالت سے کام نہ لو اور کوئی معقول حل تلاش کرو_ مكّہ کے سردار کہنے لگے کیا کریں _ اس دانا آدمی نے کہا تم اپنے درمیان میں سے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرلو جو تمہارے اختلاف کو دور کردے _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے یہ مفید مشورہ ہے _ لیکن ہر قبیلہ کہتا تھا کہ وہ قاضی ہم میں سے ہو _ پھر بھی اختلاف اور نزاع برطرف نہ ہوا _ اسی خیرخواہ اور دانا آدمی نے کہا _ جب تم قاضی کے انتخاب میں بھی اتفاق نہیں کرپائے تو سب سے پہلا شخص جو

۵۹

اس مسجد کے دروازے سے اندر آئے اسے قاضی مان لو _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے تمام کی آنکھیں مسجد کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں اور دل دھڑک رہے تھے کہ کون پہلے اس مسجد سے اندر آتا ہے اور فیصلہ کس قبیلے کے حق میں ہوتا ہے ؟ ایک جوان اندر داخل ہوا _ سب میں خوشی کی امید دوڑگئی اور سب نے بیک زبان کہا بہت اچھا ہو کہ محمد (ص) ہی آیا ہے _ محمد (ص) امین محمد(ص) امین _ منصف اور صحیح فیصلہ دینے والا ہے اس کا فیصلہ ہم سب کو قبول ہے حضرت محمد (ص) وارد ہوئے انہوں نے اپنے اختلاف کی کہانی انہیں سنائی: آپ نے تھوڑا ساتامل کیا پھر فرمایا کہ اس کام میں تمام مكّہ کے سرداروں کو شریک ہونا چاہیے لوگوں نے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اور کس طرح _ حضرت نے فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار یہاں حاضر ہو تمام سردار آپ کے پاس آئے _ آنحضرت (ص) نے اپنی عبا بچھائی پھر آپ نے فرمایا تمام سردار عبا کے کناروں کو پکڑیں اور حجر اسود کو لے چلیں _ تمام سردار نے حجر اسود اٹھایا اور اسے اسکی مخصوص جگہ تک لے آئے اس وقت آپ نے حجر اسود کو اٹھایا اور اسے اس کی جگہ نصب کردیا_ مكّہ کے تمام لوگ آپ کی اس حکمت عملی سے راضی اور خوش ہوگئے _ آپ کے اس فیصلے پر شاباش اور آفرین کہنے لگے _

ہمارے پیغمبر(ص) اس وقت جوان تھے اور ابھی اعلان رسالت نہیں فرمایا تھا لیکن اس قدر امین اور صحیح کام انجام دیتے تھے کہ آپ کا نام محمد(ص) امین پڑچکا تھا _

لوگ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور قیمتی چیزیں آپ کے پاس امانت رکھتے تھے اور آپ ان کے امانتوں کی حفاظت کرتے تھے آپ صحیح و سالم انہیں واپس لوٹا دیتے تھے _ سبھی لوگ اپنے اختلاف دور کرنے میں آپ کی طرف

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ابو نباتہ کی شہر یار سے زورآزمائی کی داستان :

طبری نے ١١ھ کی روداد کے ضمن میں ''بابل ،کوثی '' کی جنگ کی حسب ذیل داستان کو سیف بن عمر سے نقل کرکے یوں بیان کیا ہے :

''زہرة بن حویہّ'' جو سپاہ اسلام کے ہر اورل دستہ کاسپہ سالار تھا ، وہ کوثی ، کے اطراف میں شہریار نامی ''باب''کے ایک زمیندار جس کی حکومت کامرکزکوثی تھا اور اس کی کثیر فوج سے روبرو ہوا۔

دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے نبردآزما ئی کے لئے آمادہ ہوئیں ۔شہر یارنے میدان کار زار میں قدم رکھ کر رجزخوانی کر مبارزہ طلبی کی اور پکار کر کہا :

کیاتم میں ایساکوئی مرد ، سوار اور جنگجوں نہیں ہے جو میرے مقابلہ میں آئے تاکہ میں اسے دوسروں کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دو ں !!

زہرہ نے اس کے جواب میں فریاد بلند کرتے ہوئے کہا:

میں خود چاہتا تھا کہ تیرے مقا بلے میں آئوں ،لیکن جب تیری باتوں کو سنا ،تو تیرے ساتھ جنگ کو حقیر سمجھ کر کسی دوسرے کو تیرے مقابلے میں بھیجتا ہوں ۔

اگر تو نے اس کیساتھ مقابلہ کی جرأت پیداکی تو خداکی مرضی سے تیرے کفر و گمراہی کی وجہ سے وہ تجھے نابود کرکے رکھدے گا اور اگر اس کے چنگل سے فرار کرنے میں کامیاب ہوا تو اپنے ایک معمولی اور سادہ شخص کے مقابل سیبھاگا ہے، یہ کہنے کے بعد حکم دیا تاکہ ''ابو نباتہ ، نائل بن جعشم اعرجی''جو بنی تمیم کا ایک دلاور تھا شہر یارسے لڑنے کے لئے آگے بڑھے۔

دونوں پہلوان اپنے ہاتھوں میں نیزے لے کر ایک دوسرے ثابت قدمی کے ساتھ نبردآزمائی کرنے لگے ۔

۱۲۱

جوں ہی شہر یارنے اپنے حریف کی طاقت کا اندازہ کیا ،نیزہ پھینک کراپنے آپ کو اس کے ساتھ زور آزمائی کے لئے آمادہ کیا ۔ نائل نے بھی اپنے نیزہ کو دور پھینک دیا اور شہر یار سے دست و گریبان ہونے کیلئے تیار ہو گیا۔ اس کے بعد دونوں نے نیام سے تلواریں کھینچ لیں اور باری باری ایک دوسرے پر وار کرنے لگے ۔لیکن سے کوئی نتیجہ نہ نکلا تو مجبور ہو کر تلواریں پھینک کر تیزی سے ایک دوسرے کے گریبان کو پکڑ لیا اور زور ے ایک دوسرے کو کھینچ لیا دونوں گھوڑوں سے گر پڑے ۔ ایک کشمکش کے بعد شہر یارنے اپنے حریف کو زمین سے بلند کیا اور ایسے زمین پر دے مارا جیسے اس کے سر پر ایک عمارت گر گئی ہو۔اس کے بعد اسے مضبوطی سے اپنے دوپیروں کے درمیان کس کرکمرسے خنجر کونکال کر اس کے سینے پر مارنیوالا ہی تھا کہ اتفاقاّ اس کا انگوٹھا نائل کے منہ میں چلا گیا۔ اس نے بلافاصلہ اسے اپنے دانتوں کے درمیا ن زور سے پکڑ کر کاٹ لیا ۔اس طرح شہر یارکے انگوٹھے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ درد کے مارے بے ہوش جو گیا ۔نائل نے فرصت غنیمت سمجھ کر فوراً سے اپنے سینے سے گرا کر اس کے سینے پر سوارہوگیااور اسی خنجر کو اس کے ہاتھ سے چھینلیا اور اس کے بدن سے زرہ کو ہٹا کر اس کے سینہ اور پہلو پر پے درپے ضرب لگا ئی اوراسے موت کے گھاٹ اتاردیا!

نائل فاتحانہ طورپر اپنے مقتول کے سینہ سے بلند ہوا ۔ اس کے خون میں لت پت لباس اور اس کا دست بند بھی کھینچ کر نکال لیا۔اس کے بعد اپنے گھوڑے کی لگام کو پکڈ کر اپنے کیمپ کی طرف چلا۔!

شہریار کے سپاہیوں نے جب اپنے سپہسالار اور سردار کو قتل ہوئے دیکھا تو مقابلہ کی طاقت نہ لاکر مختلف شہروں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے ۔

''زہرہ '' کسی مزاحمت کے بغیر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ'' کوثی '' (۱) میں داخل ہوا اور وہاں پر تب تک ٹھہرارہا جب تک سعد وقاص پہنچ گیا۔

''کوثی ''میں داخل ہونے کے بعد سعد نے نائل سے ملاقات کی اورجب ،ماجراسے مطلع ہوا تو اس کہا :

نائل !میں تم سے چاہتا ہوں کہ شہریارکا دست بنداور لباس زیب تن کرکے اس کے گھوڑے پر سوار ہو،یہ سب چیز یں تم کو مبارک ہو !

نائل اٹھا ۔ سپہ سالار اعظم کا حکم بجالانے کے لئے باہر چلاگیا ۔اس کے بعد جو سعد نے حکم دیاتھااس پر عمل کیا ۔ پھر دوبارہ سعد کی خدمت میں حاضر ہوا۔

سعد نے دیکھنے کے بعد حکم دیاکہ دست بند اتار لے اور اس سے صرف جنگ کے دوران استفادہ کر ے ۔

____________________

١۔''کوثی ''عراق میں ''بابل ''کی سرزمینوں کا ایک حصہ ہے ۔

۱۲۲

نائل پہلا عراقی مسلمان مرد ہے جس نے دست بند پہنا ہے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ)

افسانۂ نائل کے راوی:

سیف نے نائل کے افسانہ اور شہر یار سے اس کی نبردآزمائی کے بارے میں دواشخاص کو راوی کے عنوان سے پیش کیاہے کہ دونوں اس کے ذہن کی مخلوق اورجعلی ہیں ۔ یہ حسب ذیل ہیں :

١۔نضر بن سری

٢۔ابن رفیل(۱)

حقیقی داستان:

دینوری نے اپنی کتاب ''اخبار الطوال ''میں قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں کی شکست کے بعد لکھا ہے :

شکست کے نتیجہ میں ایرانیوں نے ''دیر کعب ''تک عقب نشینی کی اور وہاں پر پڑاؤ ڈالا۔ ساسانیوں کے آخر ی پادشاہ یزدگرد کے حکم سے ''نخارجان '' ان کی مدد کے لئے آیا تھا ، دیر کعب میں ان سے ملا۔اس نے فراریوں کو روک کر پھر سے انھیں منظم کیا۔''نخارجان ''نے فوج کی تشکیل نو کر کے ان کو مختلف گروہوں اور

____________________

١۔ ہم نے '' رفیل'' نام کو بلاذری کی کتاب '' فتوح البلدان'' میں دیکھا ہے ۔ لیکن اس کا سراغ پیدا نہ کرسکے کہ کسی نے ابن رفیل نامی اس کے بیٹے کا بھی ذکر کیا ہو۔ جیسا کہ سیف نے کہا ہے۔

۱۲۳

دستوں میں تقسیم کردیا ، اور موقع و محل کو مشخص کر کے دو بارہ مسلمانوں سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ کیا ۔ اسی اثنا ء میں مسلمان سپاہی بھی آپہنچے اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوئیں ۔

''نخارجان '' ایرانی فوج میں سے پہلا پہلوان تھا جس نے میدان کا زار میں قدم رکھ کر فریاد بلند کی :

مرد! مرد!

اس طرح مسلمان فوج سے اپنے لئے ہم پلہ جواں طلب کیا ۔

''نخار جان '' کے جواب میں ''مخنف بن سلیم ازدی ،کے بھائی '' زہیربن سلیم''نے میدان کار زار کی طرف رخ کیا اور اس کے مقابلہ میں آ کھڑا ہوا ۔

نخار جان ایک ہٹا کٹا تنومند پہلوان تھا اور ''زہیر '' اس کے بر خلاف دبلا پتلا لیکن قومی اندام تھا۔

جوں ہی ''نخار جان'' کی نظر اپنے حریف پر پڑی اور اس کا اپنے سے مواز نہ کیا تو اچانک اپنے گھوڑے سے اچھل کر اپنے آپ کوزہیر پر گرادیا ۔دونوں زمین پر گرگئے اور ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے زور آزمائی کرنے لگے ۔لیکن سر انجام نخار جان زہیر پر غلبہ کر کے اس کے سینے پر سوار ہوگیا ۔

وہ خنجر کو ہاتھ میں لئے اس کے سر کو تن سے جدا کرنا چاہتاتھا کہ

اسی کشمکش میں ''نخارجان '' کا انگوٹھا زہیر کے منہ میں چلا گیا ۔زہیر نے بھی اسے زور سے کاٹ لیا ۔نخارجان درد سے ناتواں ہوکر طاقت کھو بیٹھا ۔زہیر نے اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کو پٹک دیا اور اس کے سینے پر سوار ہوا اور زرہ کو ہٹا کر اس کا پیٹ چاک کر کے اسے موت کے گھاٹ اتاردیا۔

'نخارجان'' کاگھوڑا جو تربیت یافتہ تھا دور سے اس ماجراکا مشاہدہ کر رہا تھا۔زہیرنے اپنے مقتول کا لباس تمیمی زرہ اور دست بند کو لے کر اس کے گھوڑے پر سوار ہو کر سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا۔سعد نے ان تمام غنائم کو اسے بخش دیا اور حکم دیا کہ اسے زیب تن کرے ۔زہیرحکم کی تعمیل کرتے ہوئے نخارجان کی زرہ کو زیب تن کرکے ، اس کی رزمی ٹوپی کو سر پر رکھ کر ، اس کی قبا کو دوش پر رکھ کر اور اس کے دست بند کو ہاتھ میں پہن سعد وقاص کی خدمت میں حاضر ہوا۔

زہیر پہلا عرب مرد ہے جس نے ہاتھ میں دست بند پہنا ہے ۔

۱۲۴

بحث و تحقیق کا نتیجہ:

سیف نے اصل روایت کو تحریف کر کے جنگجو ؤ ں کے نام بھی حسب ذیل بدل دئے ہیں :

١۔''باب'' کے بڑے زمیندار شہریار کو ''کوثی '' میں ایرانی سردار نخارجان کی جگہ پر بٹھا دیا ہے۔

٢۔ حریف کے قا تل اور مقتول کے اموال لینے والے کو اپنے جعلی صحابی بنی تمیم کے ایک دلاور ''ابونباتہ'' کے طور پر پہنچوایا ہے اور اسے حقیقی جنگجو زہیر ین سلیم ازدی جو سبائی اور شیعیان علی سے تھا کی جگہ پر بھٹا دیاہے ۔

سیف نے ابو نباتہ کو عد نانی .خاص کر اپنے قبیلہ تمیم سے خلق کیا ہے ۔ تاکہ حریف ایرانی جنگجو کے جنگی غنائم کو اپنے خاندان کے لئے مخصوص کرے جس طرح قعقا ع تمیمی کو خلق کیا تھا کہ بادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو اپنے لئے مخصوص کرے ١۔

سیف نے ابو نباتہ کو پہلا عرب سوار ظاہر کیا ہے جس نے عراق میں دستہ دست بند پہنا ہے ۔ جس طرح اپنے حرملہ اور سلما ے تمیمی کو پہلے جنگ جوؤں کے طور پر تعارف کرایا ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے ایران کی سرز مین پر قدم رکھا ہے ۔٢ اور ہم نے اس سے پہلے دیکھا ہے کہ سیف نے کتنے اس قسم کے پہلے مقام خلق کر کے انھیں اپنے خاندان تمیم کے جعلی افراد سے مخصوص کیا ہے ۔

سیف نے اپنے باطنی اور قبیلگی تعصبات کی بناپر جنگوں میں فتحیا بیوں اور غنائم جنگی حاصل کرنے کے افتخارات کو یمانی قحطانی افراد سے سلب کر کے انھیں عدنانی مضری افراد کے نام درج کیا ہے۔جیسے اس نے اس قسم کی رفتار ''عمار یا سر٣،اور ابو موسیٰ اشعری'' یمانی قحطانی سے روا رکھی تھی ٤

سیف ابو نباتہ کے افسانہ کو اپنے خیالی و مخلوق راویوں سے روایت کرتا ہے ۔ اس کے بعد طبری بھی اس سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔

____________________

١۔اس کتاب کی پہلی جلد (١/٢٠٠۔٢٠٢)ملاحظ ہو۔

٢۔.............دوسری جلد(٢/٢٣٨۔۔٢٤٠) ملاحظ ہو

٣۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری میں جو فتوح عمار یا سر کے بارے میں آیا ہے اور اس قسم کے فتوحات جو سیف کی روایتوں کے مطابق تاریخ طبری میں آئے ہیں ، ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

٤۔ ''حرملہ بن مربط اور زربن عبداﷲ '' کے حالات اس کتاب کی ج ٢ میں ملاحظہ ہو۔

۱۲۵

سرانجام اسی افسانہ کو ابن اثیر،ابن کثیر اور ابن خلدون طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخوں میں خلاصہ کے طورپر درج کرتے ہیں ۔

جب سیف ''زہیر ''کے مبارزہ کی داستان میں سیائیوں و قحطانیوں کے بارے میں منقبت دیکھتا ہے تو آرام سے نہیں بیٹھتا اور بہرصورت اسے اس سے چھین کر بڑی مہارت کے ساتھ قبیلہ تمیم سے جعل کئے گئے اپنے پہلوان کے نام درج کر تا ہے ۔

اس دوران ''ابن حجر '' جیسا علامٔہ اس قسم کے فخر و مبات کے سزاوار تنہا اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوجانتا ہے اور اس کے پیش نظر سیف کی مخلوق ابو نباتہ تمیمی سیف کی روایت کے مطابق جو سپہ سالار نہ تھا تاکہ صحابی کے خاص قاعدہ کے تحت اسے بھی صحابی بناتا ،لہذا اسے اس عبارت ''لہ ادارک ''کی قید سے یعنی اس نے عصر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو درک کیاہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے اور اس کیلئے الگ سے شرح حال لکھتا ہے ۔ وہ اپنی کتاب کے ایک حصہ میں ''تیسراحصہ ، مخضرمین ''کے عنوان سے یعنی وہ اصحاب جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں کو درک کیا ہے کو صحابی شمار کرتا ہے اس قاعدہ کے تحت وہ سیف کے جعل کردہ ''ابو نباتہ نائل '' کو صحابی شمار کرتا ہے اور اس پر شرح حال لکھتا ہے ، تاکہ اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصحاب کے تعداد کو بڑھا سکے ۔

مصادر و مآخذ

ابو نباتہ نائل تمیمی کے حالات :

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٥٥٠) نمبر : ٨٨٤٦

حارث کانسب ،لفظ ''اعرج '' کے تحت :

١۔ ''جمہرہ ٔ انساب '' ابن حزم (٢١٦)

٢۔ ''معجم قبائل عرب '' (١/٣٤)

۱۲۶

شہر یار کے ساتھ نائل کے لڑنے کی داستان :

١۔ ''تاریخ طبری '' (١/٢٤٢٢۔ ٢٤٢٤)

٢۔''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٣٩٤)

٣۔ ''تاریخ ابن کثیر '' (٧/٦٠)

٤۔''تاریخ ابن خلدون '' (٢/٣٢٩)

زہیر بن سلیم اور نخارجان کی لڑائی سے متعلق روایات

١۔''اخبار الطوال '' دینوری (١٢٣)

٢۔''فتوح البدان '' بلاذری ( ٣٦٦)

۱۲۷

٧٢واں جعلی صحابی سعد بن عمیلہ

ابن حجر کی ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف ہوا ہے :

سعد بن عملیہ فزاری :

اس نے عصر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ۔سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ سعد وقاص نے سعد بن عمیلہ کو اپنے نمائند ہ کے طور پر خلیفہ ٔ عمر کے پاس بھیجا تھا تاکہ قادسیہ کی فتح کی نوید کو ان خدمت میں پہنچا دے (ز) (ابن حجر کی بات کاخاتمہ )

سیف نے جو نسب اپنے اس جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے وہ ''فزاری '' ہے جو حقیقت میں ''فزارةبن ذبیان بن بغیص بن قیس عیلان عدنانی '' کی طرف نسبت ہے ۔

ابن حجر نے اس کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے سیف کی کتاب ''فتوح '' کی قید لگاتے ہوئے سعد بن عملیہ کے سعد وقا ص کی طرف سے نمائندہ کے طور پر عمر کی خدمت میں پہنچنے کے بارے میں خبردی ہے ۔ اس مطلب کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کر کے ، لیکن مزید تفصیل کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔ وہ کہتاہے :

جب قادسیہ کی جنگ ختم ہوئی تو سعد وقاص نے اس عظیم فتح کی نوید خلیفہ عمر کو لکھی ساتھ ہی مقتولین اور مجر و حین کے نام بھی اپنے علم کی حدتک اس میں لکھ دئے ۔خط کو سعد بن عملیہ فرازی کے ہاتھ دیکر خلیفہ کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔

۱۲۸

سعد کی روایت کے راویوں پر تحقیق :

سیف نے'' سعد عمیلہ ''کی داستان کو مندرجہ ذیل تین راویوں سے مستحکم کیا ہے تاکہ قارئین یہ تصور کریں سعد کی خبرتین روایتوں میں آئی ہے :

١۔نضر بن سری نے رفیل بن میسورسے

٢۔ محمد ،یا محمد بن عبداﷲ بن سواد

٣۔ مہلب یا مہلب بن عقبۂ اسدی ۔

٤۔ چند دیگربے نام افراد۔

ہم اپنی گزشتہ بحثوں میں بارہا ان ناموں سے روبرو ہوئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ سیف کے حبل کردہ تھے اور حقیقت میں وجودنہیں رکھتے ہیں ، اس صورت میں بے نام افراد کا حال معلوم ہی ہے کیا ہوگا !!

داستان کا نتیجہ :

سیف ، اس عدنانی مضری صحابی کو خلق کرکے خوشخبری کا پیغام لے کر مضری خلیفہ ٔ وقت عمر کی خدمت میں بھیجتا ہے تاکہ مسلمانوں کی عظیم اورفیصلہ کن جنگ میں سعد وقاص مضری کی سپہ سالاری میں حاصل کی گئی فتح و کامیابی کی نوید ان کو پہنچادے اور یہ افتخارات صرف مضری قبیلہ کے افراد کے درمیا ن ردبدل ہوجائیں ۔

اس دروان ابن حجر جیسا علامہ ٔ آگے بڑھتا ہے تاکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس صحابی کو اس عظیم نعمت کے کسب کرنے سے محروم نہ رکھے بلکہ قادسیہ کی جنگ کی فتح و کامیابی کی بشارت دینے والے کی حیثیت بھی اس میں بڑھادے۔لیکن جو شرائط اور قواعد انہوں نے ابن ابیشیبہ کی روایت کی بنیاد پر ( کہ جس کے راوی بھی نامعلوم و مجہول ہیں اور ان کی اس کو کوئی پر وا نہیں ہے ) وضع کئے ہیں ، اس صحابی پر صادق نہیں آتے ،اور سیف نے بھی نہیں کہا ہے یہ سعد عمیلہ کسی سپہ سالاری کے عہدہ پر فائز تھا ، تاکہ اس کی بنیا د پر اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں شامل کیا جاتا !

۱۲۹

اس بناپر ابن حجر اس مسئلہ کا علاج تلاش کرنے کی فکر میں لگتا ہے تاکہ اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی بنائے۔لہذا سیف کی اس روایت اور''لہ ادراک'' کی قید کا سہارا لے کر مسئلہ کو حل کرتا ہے اور سعد عمیلہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اﷲ کے ان صحابیوں میں قرار پاتا ہے جس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ درک کیا ہے ۔

ابن حجر اس صحابی کی تشریح کے آخر میں حرف (ز) لکھ کر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس صحابی کو اس نے پہچانوایا ہے اور اس کے حالات دیگر تذکرہ نویسوں کو معلوم نہیں ہیں ۔

مصادر ومآخذ

سعد بن عمیلہ فزاری کے حالات :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١١٠) حصہ سوم نمبر ٣٦٧٣

سعد بن عمیلہ کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ ''طبری '' (١/٢٣٣٩۔٢٣٤٠) ،(٢٣٦٦)

''فزارہ'' کا نسب :

''جمہرہ انساب '' ابن حزم ( ٢٥٥۔٢٥٩)

٧٣واں جعلی صحابی قریب بن ظفر عبدی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

قریب بن ظفر :

وہ من جملہ ان افراد میں سے ہے جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا زمانہ درک کیا ہے اس نے ''نہاوند'' کی جنگ میں سعد وقاص کا پیغام خلیفہ ٔ عمر کو پہنچایا تھا۔

۱۳۰

جب '' قریب ''خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا تعارف کیا تو خلیفہ نے اس کے اور اس کے باپ کے نام کو فالِ نیک شمار کیا اور کہا:

ظفر قریب = فتح نزدیک ہے ۔

اس کے بعد ''نعمان بن مقرن '' کی سپہ سالاری کا حکم جاری کیا ۔

یہ داستان ٢١ھمیں واقع ہوئی ہے (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ابن حجر نے اس تشریح میں نہ ''قریب '' کے نسب کا ذکر کیا ہے اور نہ اس روایت کے راویوں کانام لیاہے ۔لیکن طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی دو روایتوں کے مطابق نہاوند کے واقعہ اور ٢١ھ کے حوارت کیضمن میں ان دونوں موضوعات کو واضح کیا ہے(۱) ۔ وہ پہلی روایت میں لکھتاہے :

جس وقت سعد وقاص کوفہ میں گورنر کے عہدہ پر فائزہ تھا ، ایران کی تازہ دم فوج ''نہاوند '' میں عربوں سے نبردآزمائی کے لئے جمع ہو رہی تھی ۔سعد نے اس موضوع کو ایک خط کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں پہنچادیا اور اس کے ضمن میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کوفیوں کی شرکت کی درخواست بھی خلیفہ تک پہنچادی ۔

اس خط کے روانہ کرنے کے بعد ، چونکہ کوفیوں نے خلیفہ کی خدمت میں سعد وقاص کی شکایت کی تھی ،اس لئے سعد مجبور ہو کر عبداللہ بن عتبان کوکوفہ میں اپناجانشین مقرر کر کے خلیفہ کے دیدار کے لئے راہی مدینہ ہوا ۔

سعد نے ایرانیوں کے ''نہاوند ''میں اجتماع کی رپورٹ پہلے ہی ''قریب بن ظفرعبدی ''کے ہاتھ خلیفہ کی خدمت میں بھیج دی تھی ۔

جب ''قریب '' خلیفہ عمر کی خدمت میں حاضر ہوا تو عمر نے اس پوچھا :

تمہارا نام کیا ہے ؟

اس نے جواب دیا:

قریب۔

____________________

١۔طبر ی نے ٢١ھ کے وقا ئع اور روداد کو اپنی کتاب میں ثبت کرتے وقت سیف کی مذکورہ دوروایتوں کو ،جو وقائع نہاوند کی حکایت کرتی ہیں ، درج کیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ سیف نے تاریخ وقوع کو ٢١ھ جانا ہے بلکہ سیف نے اپنی روایتوں میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ نہاوند کی جنگ ١٨ھ میں واقع ہوئی ہے

۱۳۱

تمہارے باپ کا کیانام ہے ؟ ''قریب نے جواب دیا :

ظفر ،عمر نے اس کے اور اس کے باپ کے نام کو فال نیک قرار دیکر کہا:

انشاء اﷲ (ظفر قریب) فتح و کامیابی نزدیک ہے

طبری دوسری روایت میں خلیفہ کی طرف سے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ''نُعمان مقرن'' کے سپہ سالار مقرر کئے جانے کے حکم کی بات کرنے کے بعد سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے :

''قریب '' نعمان مقرن کی خدمت میں پہنچا اور خلیفہ کا اس مضمون کا ایک خط اس کے ہاتھ میں دیا :

عرب فوج اورعصر جاہلیت کے نامور شخدلیر تیرے اختیار میں ہیں ۔ ان سے ان لوگوں سے کمتر استفادہ کرو جو جنگ اور اس کے فنون کے بارہ زیادہ معلومات نہیں رکھتے' اور نہ یتیموں کے جنگ میں ان کی رائے اور عقل سے فائدہ اٹھاؤ۔

''طلیحہ بن خویلد '' اور عمر وبن معدی کرب '' سے جو چاہوپوچھ لو لیکن ہر گز انہیں کوئی کام نہ سونپنا !

سیف کہتا ہے کہ نہاوند کی فتح ، کوفہ پر ''عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان'' کی حکومت کے زمانہ میں واقع ہوئی ہے۔

افسانۂ قریب کے اسناد کی پڑتال :

سیف نے اپنے ''قریب بن ظفر '' کے افسانہ کو ایسے راویوں کی زبانی نقل کیا ہے جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتے تھے ،ہم نے ان کے جعلی ہونے کی بارہا تاکید کی ہے ۔یہ راوی حسب ذیل ہیں :

١۔ محمد ، یا محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔

٢۔ مہلب ،یا مہلب بن عقبہ اسلامی ۔

٣۔ حمزہ ،یا حمزہ بن علی بن محتفنر ۔

٤۔ چند دوسرے مجہول افراد ، جیسے ''عمرو '' معلوم نہیں ہے سیف نے اس سے کو ن سا شخص خیا ل کیا ہے ۔ کیا اسے '' ریاّ ن '' کا بیٹا جعل کیا ہے یا فرزند ''تمام '' یہ دونوں بھی اس کے جعلی راوی ہیں اوراس کے دیگر راویوں کی طرح وجود نہیں رکھتے ہیں ؟!

۱۳۲

واقعہ نہاوند کی حقیقی داستان

واقعہ''نہاوند ''کو دیگر مورخین نے دوسری صورت میں درج کیاہے ، کہ اس میں ''قریب بن ظفر '' ''عبداﷲ بن عبداﷲ بن عتبان''کی جانشینی اورسیف کے دوسرے جھوٹ کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔ یہ لوگ ، من جملہ بلاذری اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''اور دینوری اپنی کتاب '' اخبار الطوال''میں لکھتے ہیں :

''عماریاسر'' نے جو اس زمانہ میں کوفہ کے حاکم تھے ، نہاوند میں ایرانیوں کے اجتماع کی خبر خلیفہ عمر کی خدمت میں پہنچائی...(آخر داستان تک )

اسی طرح ''خلیفہ بن خیاط '' ، بلاذری '' اور دینوری '' نے لکھا ہے کہ ''نعمان بن مقرن '' کی سپہ سالاری کا حکم خلیفہ نے ''سائب بن اقرع '' کے ذریعہ اس تک پہنچایا ہے ۔

اس بناء پر ان علماء کی باتوں سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نہاوند کی فتح کوفہ پر ''عمار یاسر '' کی حکومت کے زمانہ میں ،کوفیو ں کی شکایت پر سعدوقاص کی معزولی کے بعد واقع ہوئی ہے ، نہ کہ عتبان کے نواسہ عبداﷲ کے زمانہ میں ۔

خلیفہ عمر کے فرمان کا حامل بھی '' سائب بن اقرع ''تھانہ کہ ''قریب بن ظفر''

بحث و تحقیق کا نتیجہ

''تاریخ طبری ''میں درج ہوئی سیف بن عمر کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو '' عبدی ''نام سے یاد کیاہے ، کہ یہ ''قبائل عدنان بنی ربیعہ بن نزار سے عبدالقیس بن افصی'' سے نسبت ہے ۔

سیف نے نہاوند کی جنگ واقع ہونے کی تاریخ میں تحریف کر کے اسے ١٨ھ میں واقع ہونا لکھا ہے جبکہ ابن اسحاق اور دوسروں کی راویت کے مطابق یہ جنگ ٢١ ھ میں واقع ہوئی ہے !

سیف نے نہاوند کی جنگ کے دوران کوفہ کے حاکم بالتریب سعد وقاص اور عتبان کے پوتہ عبداﷲ بتلایا ہے اور اور انھیں عمار یا سر سبائی قحطان کی جگہ پر بٹھا دیا ہے ۔

۱۳۳

'' سائب بن اقرع ''خلیفہ کی طرف سے ''نعمان بن مقرن '' کی سپہ سالاری کافرمان لانے والا قاصد اورمامور تھا ،لیکن سیف نے اپنی پسند کے مطابق اس کی جگہ پر اپنے ایک خیالی شخص ''قریب بن ظفر '' کو رکھاہے ۔تاریخ میں اس وسیع دخل و تصرف کے بعد سیف ان سب واقعات کی ایسے راویوں سے روایت کرتا ہے جوحقیقت میں وجودنہیں رکھتے تھے !!

اور ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزراتھا کہ'' طبری '' جیسا عالم اور نامورمورخ سیف کے ان تمام جھوٹ اور افسانوں کو اس سے نقل کر کے اس کے نام کے ذکر سے اپنی تاریخ کبیر میں درج کر تا ہے !

سرانجام طبری کے بعد دوسرے علماء جیسے ، ابن اثیر،ابن کثیر اور میرخواند طبری کے نقش قدم پر چل کر طبری کے مطالب کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے ہیں البتہ اس فرق کے ساتھ کہ ابن اثیر نے خلیفہ کے ایلچی کا نام ذکر نہیں کیا ہے ،اور میر خواند وابن اثیر نے اس افسا نہ کو نقل کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے اور جب ابن حجر کی باری آتی ہے تو گویا یہ عالم یہ چاہتا ہے کہ خلیفۂ مسلمین کے قاصد ہونے کا امتیازبھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے لئے محفوظ رکھے ۔ اس لحاظ سے ''قریب بن ظفر '' کو اصحاب کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔ اور احتیاط کے طور پر کہ اس سلسلے میں جھوٹ نہ کہا ہو ، اس کے حالات کی تشریح میں اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں ''لہ ادراکُ'' کا عنوان ثبت کرتا ہے اور اس طرح اس کے صحابی ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے ۔

مصادر و مآخذ

قریب بن ظفر کے حالات :

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٢٥٧) نمبر : ٧٢٨٦

٢۔''تاریخ ابن کثیر'' (٧/١٠٧)

٣۔''تاریخ ابن اثیر '' ٣/٥۔١٠) طبع یورپ

٤۔ ''رو ضتہ الصفا'' میر خواند (٢/٦٩٣)

۱۳۴

کوفہ پر عماریا سرکی حکومت اور نہاوند کی جنگ:

١۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری (٣٧١)

٢۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (١/١٢٠)

٣۔''اخبار الطوال'' دینوری (١٣٤۔١٣٥)

عبدی کا نسب :

١۔''جمہرہ انساب'' ابن حزم (٢٩٥)

٢۔''لباب الانساب'' (٢/١١٣)

جنگ نہاوند کی حقیقی تاریخ :

١۔ ''تاریخ طبری '' (١/٢٥٩٦)

٢۔تاریخ ابن کثیر ( ٧/١٠٥) کہ اس میں تاکید کی گئی ہے کہ سیف نے نہاوند کی جنگ کی تاریخ وقوع ١٧ھ بتائی ہے ،جبکہ ایسالگتا ہے کہ ابن کثیر یہاں پر غلطی کا شکار ہوا ہے ۔

۱۳۵

٧٤واں جعلی صحابی عامر بن عبدالا سد

ابن حجر نے اپنی کتاب'' اصابہ '' میں اس صحابی کے حالات کی یوں تشریح کی ہے :

عامر بن عبدالاسد:

اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ درک کیاہے

طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''علاء حضرمی '' نے ایک خط کے ذریعہ اسے حکم دیا کہ مرتدوں کو کچلنے ، ان سے جنگ کرنے اور ان کے بارے میں اطلاعات کسب کرنے میں کوئی دقییقہ اٹھا نہ رکھے ۔ انہی مطالب کو ابن فتحون نے ذکر کیا ہے ۔ لیکن اس صحابی کے نسب کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا ہے

لیکن میری نظر میں اگر یہ عامر ''ام مسلمہ'' کے پہلے شوہر ''ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی ''کا بھائی ہوگا، تو وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے ہے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

عامر بن عبدالاسد کانام سیف کی دو روایتوں کے تحت ''تاریخ طبری '' میں آیا ہے۔پہلی روایت میں طبری کہتا ہے :

١١ھ میں ''بحرین '' میں ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ''حطم'' اور اس ساتھیوں کے ارتداد کے بارے میں کچھ سیف کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ

اور علاء حضرمی کی ان کے ساتھ نبردآزمائی اور ان پر غلبہ پانے کے بعد کے حالات کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے :

اکثر فراری '' دارین '' کی طرف بھاگ گئے اور کشتیوں میں سوار ہوا کر اپنی جان بچائی اور باقی لوگ بھی اپنے شہروں کی طرف چلے گئے ۔ علاء نے بھی ایک خط کے ذریعہ'' بکر بن وائل '' جیسے ثابت قسم مسلمانوں کو اور ایک پیغام کے ذریعہ ''عتیبہ بن نہاس اور عامر بن عبدالاسود ''کو حکم دیا کہ مرتدوں پر ہر طرف سے راستہ بند کردیں اور اپنے فرایض پر عمل کریں

۱۳۶

اس کے بعد طبری سیف کی روایت کو یوں جاری رکھتا ہے :

انہوں نے بھی راہیں بند کیں اوران کی ہر قسم کی سر گرمیوں کے لئے رکاوٹ بنے ۔نتیجہ کے طور پر ان میں سے بعض لوگوں نے معافی مانگی اور اپنی گزشتہ کارکردگیوں پر پیشمانی کا اظہار کیا ، ان کی معافی قبول کی گئی اور وہ امن سے رہنے لگے ۔بعض لوگوں نے ان کی تجویز کو رد کر کے توبہ کرنے سے اجتناب کیا اور''دارین ''کی طرف بھاگ گئے ۔(داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے ''عامر بن عبدالاسد '' کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت سیف کی اس روایت کو مدنظر رکھا ہے ۔کہ لکھتا ہے ۔

علاء حضرمی نے ایک خط کے ذریعہ اسے حکم دیا ۔۔۔ (سیف کی روایت کے آخر تک)

سیف کی دوسری روایت جس میں ''عامر ''کا نام لیا گیا ہے ، تاریخ طبری میں ١٧ھ کے وقائع کے ضمن میں ''تستر ''میں ''ھرمزان '' کی جنگ کے موضوع کے تحت وہ ہے کہ کہتا ہے :

سیف نے لکھا ہے کہ ''بصرہ '' کے دلاوروں اور پہلوانوں کے ایک گروہ نے ایرانیوں کے ساتھ دست بدست لڑائی میں ہر ایک نے ایرانی سپاہیوں کے سو افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔

اس کے بعد سیف کہتا ہے:

کو فیوں میں بھی بعض دلاور و پہلوان موجود تھے جنہوں نے نما یا ں کارنامے انجام دئے ہیں ،جیسے ''حبیب بن قرّة '' ، '' ربعی بن عامر '' اور عامر بن عبدالاسد (۱)'' کہ یہ رئیسوں اور سرداروں اور فرماں روا کے ہم پلہ تھا ۔۔۔۔ (تاآخر روایت )

سیف نے ''عامر '' کے بارے میں اپنی روایت میں درج ذیل ناموں کو راوی اورمآخذکے طور پر پہنچوایا ہے :

١۔ ''صعب بن عطیہ بن بلال ' یہ تینوں یعنی باپ بیٹا اورپوتہ سیف کی مخلوق اور جعلی ہیں ۔

٢۔ محمد و ملہب یا محمد بن عبداﷲ بن سواد اور مہلب بن عقبہ اسلامی ، کہ یہ دونوں بھی اس کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

____________________

١۔تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ''عبد الاسود'' آیا ہے۔

۱۳۷

سیف نے عامر کے باپ کا کیا نام رکھا ہے ؟

ہم نے دیکھا ہے کہ ایک جگہ پر عامر کے باپ کا نام ''عبدالاسد '' آیا ہے اور دوسری جگہ پر عبدالاسود ۔ قابل ذکر ہے کہ عامر کے باپ کا نام سیف کی دوسری روایت میں ''تاریخ طبری '' کے بعض نسخوں میں '' عبدالاسود آیا ہے اور دیگر جگہوں پر عبدالاسد ثبت ہو ا ہے اور بعید نہیں ہے کہ یہ نام پہلی روایت میں بھی۔ ابن حجر واین فتحون کے پاس موجود تاریخ طبری کے نسخوں میں ''عبدالاسد'' ہوگا کہ ابن حجر نے اسے ''عامر بن عبدالاسد '' پہچنوایا ہے ۔

ام سلمہ کا دیور :

اور ، یہ کہ ابن حجر عامر کے حالات کے آخر پر لکھتا ہے :

اگر یہ شخص ام سلمہ کے پہلے شوہر ابو سلمتہ بن عبدالاسد مخزورمی '' کا بھائی ہوگا تو وہ صحابی تھا ۔

نسب شناسو ں نے ''ابو سلمہ'' کے لئے '' عامر '' نام کا کوئی بھائی پیش نہیں کیا ہے ۔انہوں نے عبدالاسد کے لئے درج ذیل تین بیٹوں کا نام لیاہے :

عبدالاسد کے بیٹووں میں سے ایک '' ابوسلمہ'' ہے کہ اس کا نام عبداﷲ تھا اور وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے '' ام المؤمینین ام سلمہ'' کا شوہر تھا ۔

دوسرا ''اسود بن عبدالاسد '' ہے ، یہ مسخرہ کرنے والوں میں سے تھا اوررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے دین کا مذاق اڑاتا تھا اور جنگ بدر میں کفر کی حالت میں قتل ہوا ہے ۔

اور تیسرے کا نام ''سفیان بن عبداالاسد تھا ''

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ''عبدالاسد '' کے بیٹوں میں ''عامر '' نام کا کوئی بیٹا نہیں تھا کہ ابن حجر اسے صحابی بنائے ۔

دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ابن حجر ''عامر '' کا تعارف کراتے ہوئے ''لہ ادارک'' کی عبارت سے استفادہ کرتے ہیں ، اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس شخص نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ درک کیا ہے ۔ اور اس طرح اسے تیسرے درجہ کے صحابیوں میں قرار دیکر اس کے حالات پر اپنی کتاب کے اس حصہ میں روشنی ڈالی ہے ۔

۱۳۸

یہا ں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ دوسری روایت کے مطابق سیف نے اپنی مخلوق ''عامر '' کو ''عراق' کی جنگوں اور تستر میں '' ھر مزان '' کی جنگ میں سعد وقاص کے ہمراہ شرکت کرتے دکھا یا ہے ۔ حق یہ تھا کہ ہم بھی اسے (عراق کی جنگجوں میں سپہ سالار کے عنوان سے ) سیف کے جعلی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتے ۔

لیکن ایسا نہ کرنے میں ہمارا مقصد یہ تھا کہ مکتب خلفاء کے علماکے ''لہ ادراکُ'' کی عبارت سے ان کے مقصد کو مکمل طور پر مشخص کردیں ۔

مصادر و مآخذ

عامر بن عبدالاسد کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٨٦) حصہ سوم نمبر: ٦٢٨٧

عامر کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔ ''تاریخ طبری '' ( ١/١٩٧١) ، (١/٢٥٥٤)

عبدالاسد مخزوری کا نسب:

انساب '' ابن حزم (١٤٤)

۱۳۹

پانچواں حصہ :

ارتداد کی جنگوں کے افسراور سپہ سالار

٧٥۔عبدالرحمان بن ابی العاص ثقفی

٧٦۔ عبیدة بن سعد

٧٧۔ خصفہ تیمی

٧٨۔یزید بن قینا ن ، نبی مالک بن سعد تمیمی سے

٧٩۔ صیحان بن صو حان

٨٠۔ عباد ناجی

٨١۔ شخریت

٧٥واں جعلی صحابی عبدالرحمان ابی العاص

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے:

عبدالرحمان بن ابی العاص ثقفی :

عبدالرحمان بن ابی العاص ثقفی ، عثمان بن ابی العاص ثقفی کا بھائی ہے عثمان بن ابی العاص پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے '' طائف '' کا حاکم رہا ہے ۔

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح'' اور ارتداد کی جنگوں میں اس کا نام لیا ہے ، اورسیف نے ''طلحہ بن اعلم '' سے، اس نے ''عکرمہ '' سے روایت کر کے لکھا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ مکہ کے حاکم ''عتّاب بن اسید '' کو حکم دیا کہ وہاں کے باشندوں کے ایک گروہ کو مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کرے۔

ابو بکر نے اس سے پہلے ''طائف ''کے حاکم عثمان بن ابی العاص کو ایسا ہی ایک فرمان جاری کیا تھا ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273