ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123460 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

خلیفہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ''عتاب'' نے اپنے بھائی خالد کی سر پرستی میں مکہ کے پانچ سو جنگجو آمادہ کئے ۔ اور عثمان نے بھی طائف کے باشندوں کے ایک گروہ کا انتخاب کر کے اپنے بھائی عبدالرحمان کی سرپرستی میں آمادہ کیا ۔

طبری نے بھی اپنے منبع سے سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے کہ جب ''مہاجر بن ابی امیہ '' ''یمن ''کے باشندوں پر مشتمل اپنے سپاہیوں کے ہمراہ خلیفہ ابوبکر کی طرف سے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے گزررہا تھا تو ''خالد بن اسید ابن ابی العاص '' اپنے افراد سمیت اس سے ملحق ہوا اور طائف سے عبور کرتے وقت '' عبدالرحمان بن ابی العاص '' بھی اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس کے ساتھ ملحق ہوگیا ۔

ابن فتحون نے بھی اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب'' استعیاب ''سے دریافتکیاہے ۔

اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدماکی یہ رسم تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ ''قریش یا ثقیف '' کے ان لوگوں کے علاوہ جنھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ حجتہ الودعاع میں شرکت کی تھی اور اس کے بعد مکہ یا طائف میں ساکن ہوئے تھے ،کسی کو سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

۱۴۱

علامہ ابن حجر نے اس تشریح میں سیف کی دو روایتوں پر اعتماد کیا ہے ۔ ایک کو بلاواسط سیف سے نقل کیاہے اور دوسری کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے ۔جوکچھ بیان ہوا ہے اس کی بنا پر طبری نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کر کے ١١ھ کے حوارث کے ضمن میں ''طاہر ابو ہالہ ''(۱)کی روایت میں لکھا ہے اورابن خلدون نے بھی اس کو خلاصہ کے طور پر طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔

افسانہ عبدالرحمان اور سیف کے راوی:

عبدالرحمان ابی العاص کے بارے میں سیف کے راوی جو ''تاریخ طبری'' میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :

مستنیر بن یزید نے عروہ بن عزیہ ّ سے نقل کیا ہے ۔

یہ دونوں سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

افسانہ کی پڑ تال :

سیف نے اس روایت میں عثمان ابی العاص ثقفی کے لئے ایک بھائی خلق کر کے اس کا نام ''عبدالرحمان ابی العاص ''رکھا ہے ، جس طرح ' کعب بن مالک انصاری '' کے لئے سہل(۲) بن مالک نامی ایک بھائی ''حذیفہ فزاری ''کے لئے ''ام قرفہ ''(۳)نامی ایک بیٹی اور ام الموء منین خدیجہ کے لئے ''طاہر ابوہالہ '' نامی بیٹا خلق کیا ہے ۔ اوراپنے جعلی صحابیوں کے لئے اس طرح کی تخلیقات سیف بن عمر کی خصو صیات میں سے ہے ۔

اس کے علاوہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ '' میں ابوالعاص ثقفی کے چھ بیٹے بتائے اور ان سب کا نام لیاہے ۔لیکن نام کامیں عبدالرحمان نام کا کو ئی بیٹا نظر نہیں آتا ۔

____________________

١۔''طاہر ابوہالہ ''۔اسی کتاب (٢/٢٥٣۔٢٦٥) میں ملاحظ ہو

٢)۔سہل بن مالک انصاری کے حالات اس کتاب کی تیسری جلد( ٢٧٧۔٢٨٧)

٣۔١٥٠جعلی اصحاب (٢/٢٩٤۔٣٠٧)

۱۴۲

اس کے باوجود سیف بن عمر نے عبدالرحمان کو خلق کیا ہے اور اسے ایک ایسے خاندان میں قرار دیا ہے کہ اس کی اپنی روایت کے مطابق اس کے بھائی عثمان ابوالعاص نے اسے سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب کیا ہے۔ علامہ ابن حجر نے اسی عبدالرحمان کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ میں قرار دیا ہے اور اس کے صحابی ہونے کی دلیل کے طو رپر ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدماکی رسم یہ تھی ....'' کی تکرار کر کے ثابت کر تا ہے ۔ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ اس کا کہ دعویٰ بے بنیاد اور باطل ہے اور ہم اسے ثابت بھی کر چکے ہیں ۔

اور یہ جو ابن حجر کہتا ہے :

'' اور یا وہ جو قریش یا ثقیف مکہ اور طائف میں رہ گئے '' (تاآخر )انشاء اﷲہم آیندہ اس پر بحث کریں گے ۔

مصادر و مآخذ

عبدالرحمان ابوالعاص کے حالات:

١۔''اصابہ''ابن حجر (٢/٣٩٧) پہلاحصہ ۔ نمبر: ٥١٤٧

٢۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٩٨)

عثمان ابو العاص کا نسب:

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٤٥)

طاہر ابو ہالہ کے حالات:

١۔ ''ایک سوپچاس جعلی صحابی '' (٢/٢٥٣۔٢٦٦)

۱۴۳

سہل بن مالک کے حالات :

١۔ ایک سو پچاس جعلی صحابی (٣/٢٧٧۔٢٨٧)

ام قرفہ کے حالات:

ایک سو پچاس جعلیصحابی (٣/٢٩٤۔٣٠٧)

٧٦واں جعلی صحابی عبیدہ بن سعد

اس صحابی کے بارے میں ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیاہے :

عبیدہ بن سعد :

طبری نے کہا ہے کہ ابوبکر صدیق نے حکم دیا تھا کہ ''عبید بن سعد '' مرتدوں کی جنگ میں مہاجربن ابی امیہ کی مدد کرے ۔ اس کے بعد ابوبکر نے اسے ''کندہ '' اور ''سکاسک ''کاحاکم منصوب کیا ۔ (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

عبیدہ بن سعد کی خبر کو طبری نے سیف کی دو روایتوں سے نقل کر کے ١١ ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ میں درج کیا ۔ پہلی روایت میں لکھتا ہے :

ابو بکر نے ایک خط کے ذ ریعہ مہاجربن ابی امیہ ۔ جو صنعا میں تھا ۔ کو حکم دیا کہ ''حضرموت'' کی طرف روانہ ہوجائے اور یہ بھی حکم دیا کہ ''عبیدہ بن سعد '' بھی اس کی اس مہم میں مدد کرے ۔ طبری نے دوسری روایت میں لکھا ہے :

ان دنوں ''حضر موت '' پر دوشخص حاکم تھے ، ان میں سے ایک ''عبیدہ بن سعد '' تھا جو '' سکا سک '' اور ''سکون '' پر حکمرانی کرتا تھا ............(تاآخر روایت )

۱۴۴

سکاسک اورسکون کانسب اوران کی رہائش گاہ :

''سکاسک ''اور'' سکون '' دوقبیلہ ہیں ۔ان کا نسب ، نبی کہلان بن سبا ٔ سے اشرس بن کندہ کے بیٹوں ''سکاسک '' اور ''سکون ''تک پہنچتا ہے ۔ قبیلہ سکا سک ''یمن'' کے آخری کنارے پر سکونت اختیار کی۔ ان کی سکونت کا علاقہ بھی اسی نام سے مشہور تھا ۔

قبیلہ'' سکون'' دوحصوں میں تقسیم ہوا تھا ۔ ان میں سے ایک حصہ ''حضرموت '' میں اور دوسرا حصہ '' دومتہ الجندل '' شام کی راہ پر سکونت کرتا تھا ۔

افسانہ ٔ عبیدہ کے راوی کی پڑتال :

سیف نے اپنی روایتوں میں سے ایک کے راوی کے طور پر سہل بن یوسف '' کا نام لیاہے اوراسے ''سہل انصاری '' کا پوتہ بتایا ہے ، اور یہ اس کے جعلی راویوں میں سے ایک ہے ۔

تاریخی حقائق :

خلیفہ بن خیاط نے خلیفہ ٔ ابوبکر کے تمام گماشتوں اور کا رگزاروں کو اپنی کتاب ''تاریخ کے ایک خاص حصہ میں ''ابو بکر کے کارگزار ''کے عنوان سے حسب ذیل درج کیا ہے :

ابو بکر کی وفات تک بحرین پر ''علاء حضرمی '' حکومت کرتا تھا ۔ابوبکر نے ''عکرمۂ ابو جہل '' کو ماموریت دی کہ ''عمان'' کے مرتد لوگوں کو سر کوب کرے ۔ ان پر فتح پانے کے بعدوہ خلیفہ کی طرف سے '' یمن'' کا حکم مقرر ہوا

''عمان ''کی حکومت ''حذ یفہ قلعانی '' کو سونپی کہ وہ ابوبکر کی زندگی کے آخری دنوں تک اس عہدہ پر باقی تھا ۔

''مہاجر بن ابی امیہ مخزوی'' اور ''زیادبن لبید انصاری '' کو ''یمن '' کی مأموریت دی ۔ اس ترتیب سے کہ زیاد اور نجیل کے باشندوں کے درمیان مشکلات پیدا ہونے کے بعد '' صنعا''، کی حکومت مھاجرکو سونپی ،اور زیا د کو ساحل اور بناد رکا حاکم مقرر کیا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ''عتاب بن اسید '' کو مکہ پر اور عثمان بن ابی العاص کو طائف پر حاکم منصوب کیا ۔ عتاب اور ابوبکر نے ایک ہی دن رحلتکی ہے ۔

۱۴۵

اس کے بعد ابن خیا ط لکھتا ہے :

ہم نے اس سے پہلے شام کے بارے میں ، عراق میں خالد کی داستان ، حکام کے نام ،جنگوں میں ابوبکر کی طرف سے منصوب سپہ سالارو ں اور فوجی معاہدوں کے بارے میں ذکر کیا ہے ۔

ابوبکر نے ١٢ھ میں فریضہ حج ادا کیا ہوا اور اپنی جگہ پر ''قتادہ بن نعمان ظفری ''انصاری کو مدینہ میں اپناجا نشین مقرر کیا ۔اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ان کا جانشین ''ابن امّ مکتوم '' تھا ۔

خلیفہ بن خیا ط نے ایک فصل میں اس سے پہلے لکھا ہے :

جب ابوبکر نے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے ''ذی القصہ '' کی طرف عزیمت کی تو اپنی جگہ پر مدینہ میں ''سنان ضمری '' کوجانشین مقرر کیا ۔ اور یہ بھیکہا گیاہے ''اُسامہ بن زید '' کو مدینہ کی گزر گا ہوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی ۔

بحث کا نتیجہ :

ہم نے دیکھا کہ خلیفہ بن خیاط نے خلیفہ اول ابوبکر کی خلافت کے دوران خلیفہ کے تمام کارگزاروں اور گماشتوں کافرداً فرداً نام لیا ہے اور ان کی ماموریت کی جگہ اور ، تاریخ مأموریت کے بارے میں مفصل لکھا ہے لیکن ان میں ''عبیدہ بن سعد ''نام کا کوئی شخص دکھا ئی نہیں دیتا ہے !

لیکن ،سیف نے اس خیالی چہرہ کو اپنی گڑھی ہوئی دوروایتوں سے ذکر کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''فتوح '' میں درج کیا ہے اورطبری نے اسے ایک قطعی مصدر جان کر اپنی معتبر تاریخ میں درج کیاہے ۔

ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے ''عبیدہ ''کو اپنی کتا ب ''اصابہ '' کے حصہ اول میں رسول اﷲ کے ان اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے جو سپہ سالار ہونے کی وجہ سے صحابی شمار کئے گئے ہیں ۔ اور اس کے حالات بھی لکھے ہیں ۔

۱۴۶

مصادر و مآخذ

عبیدہ بن سعد حالات :

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٢/٤٤٢)حصہ اول نمبر:٥٣٨١

عبیدہ کے بارے میں سیف کی روایتں :

١۔''تاریخ طبری ''(١/٢٠٠١)و(١/٢٠١٣)

ابوبکر کے گماشتوں اور کارگزاروں کے نام:

١۔''تاریخ خلیفہ بن خیا ط ''(١/١٩١)

سکاسک اور سکون کا نسب:

١۔''جمہرہ انساب '' ابن حزم (٣٢٩۔٣٣٢)

٢۔''اشتقاق''ابن درید لفظ ''سکاسک ''اور سکون''

٣۔''تاج العروس'' لفظ''سکاسک ''

٤۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''سکاسک '' و ''دومة الجندل ''

۱۴۷

٧٧واں جعلی صحابی خصفۂ تیمی

یہ صحابی ' ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں پہنچوایا گیا ہے :

خصفہ تیمی:

طبری نے روایت کی ہے کہ خصفہ تیمی کو علاء حضرمی نے ارتداد کی جنگوں میں اپنی فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر مقرر کیا ہے ۔

ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ قدما کی رسم یہ تھی کہ جنگو ں میں صحابیوں کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پرفائزنہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اسی استدلال کی بنا ء پر ''خصفہ '' کو بعنوان صحابی قبول کیا ہے ، بجائے اس کے کہ اصل خبر پر کوئی تحقیق کرے ۔

لیکن اس خبر کی اصلیت کے بارے میں ہم نے گزشتہ صفحات میں ''عامر بن عبدالاسد ''کے حالات کے ضمن میں سیف کی روایت میں پڑھا ہے کہ علاء حضرمی نے عامر اور دوسرے لوگوں کو ایک پیغام کے ذریعہ حکم دیا تھا کی مرتدوں کی نقل و حرکت میں رکا وٹ بنیں ۔

طبری سیف سے نقل کر کے اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :

علاء نے ''خصفۂ تیمی'' اور ''مثنی بن حارث شیبانی '' کے نام ایک جیسے پیغام بھیجے ۔ وہ بھی مرتدو ں کے راستے میں گھات لگاکر بیٹھے اور ان کی ہر قسم کی فعالیت کو معطل کر کے رکھدیا ۔

داستان کا سرچشمہ :

ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ سیف بن عمر نے اس داستان کو اول سے آخر تک خود جعل کیا ہے ۔ اور اسے ''سہل بن یوسف بن سہل ''جیسے راویوں کی زبانی جاری کیا ہے کہ دونوں باپ بیٹے سیف کے جعلی اصحاب میں سے ہیں ۔ ہم نے بارہا ان کے جعلی و خیالی ہونے کا تذکردیا ہے ۔

۱۴۸

لیکن درج ذیل علماء نے''خصفہ ''کے افسانہ کو نقل کرنے کا براہ راست اقدام کیاہے :

١۔طبری نے اسے بلاواسطہ سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کیاہے

٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے اسی ایک مختصر جملہ میں ، جس میں خصفہ کا نام آیا ہے ، سے استفادہ کرتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے صحابیوں میں قرار دیا ہے ۔ اور اس کے حالات پر حرف''خ'' کے تحت شرح لکھی ہے اور آخرمیں اپنے مشہور قاعدہ کی بھی قید لگادی ہے ۔

ایک اور جعلی صحابی :

ابن حجر نے ''خصفہ ٔ تیمی ''کے حالات پر روشنی ڈالنے سے پہلے ایک مجہول راوی سے ایک دوسری روایت پر استناد کر کے خصفہ یا ابن خصفہ یا خصیفہ نام کے ایک دوسرے شخص کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے درج کیا ہے ۔

ابن اثیر نے بھی ایسا ہی کر تے ہوئے اسی مجہول راوی پر اعتماد کر کے ان ناموں کو رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے !

ان دوعلماء نے ایک بار ایک مجہول راوی کے کہنے پر اعتماد کر کے '' خصفہ '' یا ''ابن خصفہ '' یا خصیفہ نام کے صحابیوں کو پہچنوایا ہے اور دوسری بار جھوٹے ورزندیقی سیف کی روایتسے استناد کر کے خصفہ تیمی کو صحابی جان کر اس کے حالات لکھے ہیں !

جی ہا ں !یہی وجہ ہے کہ مکتب خلفاء کے پیروؤں کے درمیا ن جعلی اصحاب کی تعداد فرواں پائی جاتی ہے ۔

۱۴۹

مصادر و مآخذ

خصفہ تمیی کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر ( ١/٤٢٨) حصہ اول نمبر: ٢٦٦٩

خصفہ تمیی کے بارے میں سیف کی روایت:

١؛تاریخ طبری (١/١٩٧)

خصفہ یا ابن خصفہ کے حالات:

١۔''اسدالغابہ'' ابن اثیر (٢/١٩٧)

٢۔''تجرید'' ذہبی (١/١٧١)

٣۔''اصابہ ابن حجر (١/٤٢٧۔٤٢٨) نمبر: ٢٢٦٨

٧٨واں جعلی صحابی یزید بن قینان

اس صحابی کے حالات ہم ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں یوں پڑھتے ہیں :

یزید بن قینان:بنی مالک بن سعد سے۔

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح ''اور طبری نے اپنی تاریخ میں اس کانام لیا ہے اور لکھا ہے کہ ''عکرمہ بن ابی جہل '' نے اسے چند ساتھیوں کے ہمراہ ارتداد کی جنگوں میں شریک کیا ہے اور قبائل ''کندہ '' کے مرتددں کی سرکو بی کے لئے مأموریت دی ہے

اس صحابی کو ابن فتحون نے ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیاب '' سے دریافت کیا ہے۔خدا بہتر جانتا ہے .(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

۱۵۰

نسب:

سیف کے اس جعلی صحابی کے باپ کا نام ''تاریخ طبری '' میں ایک جگہ پر ''قناّن '' اور ایک دوسرے نسخہ میں ''فتیان ''درج ہوا ہے ۔

لیکن سعد کا نام جواس کے سلسلہ ٔ نسب میں نظر آتا ہے اور بنی مالک اس سے پیدا ہوئے ہیں وہ''ابن زید مناةبن تمیم ''تھا ۔

یزید قینان کی داستان تاریخ طبری میں :

طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ''اخبار ارتداد حضرموت '' اور ''جنگ نجیر'' والے حصہ میں سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھتا ہے :

عکرمہ نے اپنے جنگجو سواروں کو ''قبائل کندہ '' میں منتشر کیا اور انھیں حکم دیا کہ انھیں کچل کے رکھدیں ۔ اس مہم میں ماموریت پانے والے سرداروں میں بنی مالک بن سعد سے'' یزید بن قنان ' ' بھی تھا

عکرمہ کے سواروں کے اس حملہ کے نتیجہ میں ''بقری '' اور بنی ھند'' سے ''برہوت'' تک کے تمام باشندے قتل عام ہوئے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

سیف کی روایت میں ''نجیر ''کی جنگ کی بات کہی گئی ہے اور یہ حضر مو ت کے نزدیک ایک قلعہ تھا ، جہا ں پر اشعت بن قیس کی سرپرستی میں کندی افراد ابوبکر کے سپاہیوں کے محاصرہ میں آگئے تھے۔

جب محاصرہ روز بروز سخت ہوتا گیا تو اشعت نے بڑی بے غیرتی سے اپنے رشتہ داروں میں سے سترافراد کے لئے امان حاصل کی، اس کے بعد اپنے دوسرے ساتھیوں کے بارے میں کسی قسم کی پروا کئے بغیرحکم دیا کہ قلعہ کے دروازے خلیفہ کے سپاہیوں کے لئے کھول دیں !

ابو بکر کے سپاہیوں نے قلعہ کے اندر یورش کی اور اشعث اور امان یافتہ اشخاص کے علاوہ اس کے باقی تمام باوفا ساتھیوں جن کی تعداد سات سو امراء اور کند کے عوامی سپاہیوں پر مشتمل تھی قتل عام کئے گئے ! ان کی لاشوں کو بے گور و کفن زمین پر پڑا رکھا گیا ،ان کی عورتوں کو اسیر بنا یا گیا اور ان کے مال و منال کو لوٹ لیا گیا !!

۱۵۱

سیف کی اس روایت میں جن مقامات کا نام آیا ہے ، وہ حسب ذیل ہیں :

١۔برہوت، یہ یمن میں ایک بیابان کانام ہے ۔

٢۔ بقران ، یمن کے اطراف میں ایک علاقہ کو کہاجاتا ہے .لیکن ہم نے ''بقری '' نام کی کوئی جگہ جغرافیہ کی کتابوں میں کہیں نہیں پائی ۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ''بقری '' کو خلق کرنے میں سیف کا مقصد کیا تھا ؟!

یزید قینان کی روایت کی پڑتال :

سیف تنہا شخص ہے جس نے یزید قینان کی داستان کو ''سہل ''اور اس کے باپ''یوسف '' کی زبانی نقل کیا ہے ۔ اس جھوٹے نے روایت کو اپنے جعلی راویوں کی زبان پرجاری کیا ہے۔

بحث کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جس نے عکرمہ بن ابی جہل کی طرف سے ''یزید بن قینان'' کو سیف کے بقول مرتد لوگوں کی سرکوبی اور انھیں قتل کرنے کے حکم کی روایت کی ہے

سیف تنہا شخص ہے جس نے اس لشکر کشی میں ''بقری بنی ھند تا برہوت '' کے باشندوں کے قتل عام کی بات کہی ہے ۔واضح ہے کہ اس قسم کے جھوٹ کو کہنے میں اس کا مقصد خاندان تمیم کی شجاعتوں اور دلاوریوں کو چار چاند لگاکر ان کی شہرت کرنا ہے ۔

دوسری جانب سیف ارتداد کی جنگوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان جنگوں کے بارے میں سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی خبروں کو گڑھ کے پیش کرنے میں یہ مقصد رکھتا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو سکے یہ ثابت کرے کہ اسلام نے عرب قبائل کے دلوں میں کوئی خاص نفوذ نہیں کیا تھا ۔ اس لئے جوں ہی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی ، وہ آسانی کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دین سے منہ موڈکر پھرسے جاہلیت اور بت پرستی کی طرف پلٹ گئے ۔اور یہ خلیفہ ابوبکر تھے جنہوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام کو دوبارہ استحکام بخشا ہے !

۱۵۲

تاریخ اسلام پر سیف کے روا رکھے گئے ان خوفنا ک جرائم کے بعد طبری جیسے بزرگ عالم کی باری میں آتی ہے اور وہ اس عیار' جس پر جھوٹ بولنے اور زندیقی ہونے کا الزام بھی ہے، کے افسانوں کو اپنی گراں قدر اورمعتبر کتاب میں درج کرتا ہے۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک اور عالم ابن فتحون آکر سیف کی روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ''یزید بن قینان '' کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیا ب '' سے دریافت کرتا ہے !

اورسرانجام ابن حجر سیف کے خیالات کی مخلوق''یزید بن قینا ن '' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں قرار دیتا ہے اور اس کے حالات لکھ کر اپنی کتا ب ''اصابہ ' میں درج کرتا ہے ۔

مصادر و مآخذ

یزید بن قینان کے حالات :

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٦٣٥) تیسرا حصہ نمبر:٩٤١٢

یزید بن قینان کی داستان کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٠٠١۔٢٠٠٧)

اشعث بن قیس کی داستان اور '' کندہ '' کا ارتداد:

١۔''فتوح'' ابن اعثم (١/٥٦۔٨٧)

٢۔''فتوح البلدان '' بلاذری (١٢٠۔١٢٤)

٣۔''عبداﷲبن سبائ''(٢/٢٨٧۔٣٠٤)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''نجیر '' (٤/٧٦٢۔٧٦٤) اور لفظ ''حضر موت'' (٢/٢٨٤۔٢٨٧)

سیف کے اجعل کردہ مقامات کی تشریح:

١۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''بقرہ '' (١/٦٩٩)

لفظ ''برہوت '' (١/٥٩٨)

۱۵۳

٧٩واں جعلی صحابی صیحان بن صوحان

اس صحابی کے تعارف میں ابن حجر یوں لکھتا ہے :

صیحان بن صوحان عبدی :

سیف بن عمر نے اس کا نام لیا ہے اوراس کے ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی خبر دی ہے ۔ ماجرا کی تفصیل حسب ذیل ہے:

اسی وقت جبکہ عمان میں '' لقیط بن مالک ازدی '' پیغمبر ی کا دعویٰ کر رہا تھا،ابوبکر کے حکم سے ''عکرمہ بن ابوجہل '' عرفجہ ، جبیر اور عبید ''اس سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوئے ،لیکن مشرکین کی فوج کی کثرت کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ قریب تھا ''لقیط '' خلیفہ کے سپاہیوں پر غلبہ پاجا ئے اورانہیں نابود کر کے رکھدے ۔ اسی اثنا ء میں ''حارث بن راشد '' اور ''صیحان بن صوحان عبدی '' کی سرکردگی میں قبائل بنی ناجیہ ابوعبدالقیس کے سپاہی ان کی مدد کے لئے آپہنچے ۔ ان کے آنے سے مسلمان فوج بڑھ گئی اور لقیط کے ساتھی شکست کھاگئے ۔ بالآخر لقیط اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ اس جنگ میں ماراگیا (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :

سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو ''عبدی '' کہا ہے ۔ اور یہ قبائل عدنان سے ''عبدالقیس بن افصیٰ'' کی طرف نسبت ہے لیکن طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اس نسب کو ''سیحان بن صو حان '' (حرف سین) کے لئے درج کیا ہے !

ابن ماکو لا کی کتاب ''اکمال '' میں بھی سیف بن عمر سے نقل کر کے لقیط سے جنگ میں بجائے ''حارث بن راشد'' اور ''صیحان بن صوحان''بالترتیب '' خریت بن راشد'' اور '' سیحان بن صوحان '' درج کیا گیا ہے ابن ماکو لا لکھتاہے :

اور ''خریت بن راشد''اور ''سیحان بن صوحان '' لقیط بن مالک ازدی کے خلاف جنگ میں بنی ناجیہ اورعبدالقیس کے سپاہیوں کے سپہ سالار تھے ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب''اصابہ '' میں حرف ''سین '' کے تحت ''سیحان بن صوحان '' کے حالات پر الگ سے روشنی ڈالی ہے ۔ گمان کیا جاتا ہے کہ ابن حجر کے پاس کتاب سیف یا تاریخ طبری کے موجود نسخوں نے اسے غلطی سے دوچار کیا ہے تاکہ اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ایک دوسرے صحابی کو ''سیحان بن صوحان '' کے نام سے درج کرئے۔

۱۵۴

جبکہ نسب شناسوں ، جیسے ابن درید نے اپنی کتاب ''اشتقاق '' میں ، ابن خیاط نے طبقات''میں اثیر نے کتاب ''اللباب'' میں صوحان کے تین بیٹے بنام ''زید '' صعصعہ اور سیحان صراحت سے درج کئیہیں ۔ چوتھا بیٹا بنام صیحا ن بن صوحان خلق کیا گیا ہے اور ابن حجر نے اسے بھی صوحان سے منسوب کر دیا ہے ۔ احتمال یہ ہے کہ مغالطہ ''تاریخ طبری کے اس نسخہ کی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پایا ہے جو ابن حجر کے پاس موجود تھا نتیجہ میں اس عالمنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جعلی صحابیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیاہے ۔

٨٠واں جعلی صحابی عبادناجی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

عبادناجی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اس کا نام ذکر کیا ہے.

عباد ان افراد میں سے ہے جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کازمانہ درک کیا ہے .اور ابوبکرکے زمانہ کی بعض فتوحات میں شرکت کی ہے ۔ز

نسب :

ایسا لگتا ہے کہ سیف نے لفظ ''ناجی'' سے قبائل عدنان کے '' بنی سامة بن لوی '' کے منسوبین مراد لئے ہیں یہ وہ خاندان ہے جسے سیف نے اپنے افسانہ میں ''خر ّیت بن راشد'' کے ہمراہ ''دبا'' کی جنگ میں شریک کیا ہے !

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہالینڈکا مشہور دانشمند و مستشرق''ایم ۔جے ۔ڈی گویجی ''(۱)

____________________

١) M.J.Degoeje مشہور ہالینڈی مستشرق ۔ اس کے جملہ آثار میں سے ''تاریخ طبری ''اور اس کی فہرست ہے کہ ''مکتبة الجغرافیین فی العرب''کی طرف سے ١٨٠١ ء لیڈن میں طبع ہوئی ہے اور ہم نے اپنے مباحث کے دوران اس کی طرف رجوع کیا ہے۔

۱۵۵

سیف کے'' عباد ناجی'' کاتعارف کرانے میں مغالطہ سے دوچار ہوا ہے ، جہاں وہ ''تاریخ طبری ''کی اپنی فہرست میں لکھتاہے :

گویایہ شخص''عباد بن منصور'' ہے ، کیونکہ عباد بن منصورناجی ایک محدث تھا ،جو ١٢٩ھ سے ١٤٥ھ تک بصرہ کے قاضی کے عہدہ پر فائز تھا اور ١٥٢ھ میں فوت ہوا ہے ۔

''ڈی گویجی'' کی یہ بات سیف کی روایت سے مغایرت رکھتی ہے ، کیونکہ اس ''عباد ناجی '' کو سیف نے ١١ھ میں ''خریت بن راشد '' کے ہمراہ''دبا''کی جنگ اور قتل عام میں شرکت کرتے دکھایا ہے ، اور اسی سبب سے ابن حجر نے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ١١ھ سے ١٥٢ھ تک ایک لمبا زمانی فاصلہ ہے

ابن حجر نے ''عباد ناجی '' کو اس اعتقاد پر کہ اس نے بقول سیف جنگ ''دبا'' میں شرکت کی ہے ، ''لہ ادراکُ''کی عبارت سے استفادہ کرکے اس کا بعنوان صحابی تعارف کرایا ہے ، اگر چہ سیف نے اس جنگ میں اس کو کوئی عہدہ نہیں سونپا ہے بلکہ صرف اُن اشعار پر اکتفا کی ہے ، جو اس نے اس کی زبان پر جاری کئے ہیں (۱)

____________________

ا۔ یہ اشعار ان تین صحابیوں کے بارے میں ایک جامع بحث میں بیان کئے جائیں گے۔

۱۵۶

٨١واں جعلی صحابی شحریب

اس صحابی کے بارہ میں ابن حجر نے یوں لکھا ہے :

شحریب ، بنی نجرات سے ایک شخص:

وہ من جملہ ان افراد میں سے ہے جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ درک کیا ہے ۔

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف سے اس نے ابوبکر صدیق کے پوتے قاسم بن محمد سے روایت کی ہے '' شحریب '' نے ''عکرمہ بن ابی جہل ''کے ہمراہ یمن کے مرتدوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی ہے ۔ عکرمہ نے اس فتح کی نوید اورغنائم کا پانچواں حصہ شجریب کے ہمراہ ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا ہے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب:

ابن حجر کی ''اصابہ '' میں شحریب کو ''بنی بخرات'' کے ایک شخص کے طور پر درج کیا گیا ہے،جبکہ طبری نے سیف کی روایت کے مطابق اپنی تاریخ میں ''شخریت'' ''بنی شخرات'' سے ایک شخص کے طور پر ذکر کیا ہے ! ہمارے خیال میں یہ مغالطہ ''تاریخ طبری ''کی نسخہ برداری کرتے وقت کتابت کی غلطی سے وجود میں آیا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر بقول ِسیف ''تاریخ طبری '' ، شحریب '' سپہ سالاری کے عہدہ پر فائز تھا (۱)،لیکن چونکہ لشکر اسلام سے ملحق ہونے سے پہلے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو گیاتھا ، لہذا سے ابن حجر نے خصو صی حکم ''لہ ادراک''جاری کر کے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے زمرہ میں قرار دیا ہے ۔

____________________

١۔اس کی داستان '' ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث'' میں آئے گی۔

۱۵۷

ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث

صیحان ،عبادناجی اورشحریب

طبری نے ''عمان ، مہرہ اور یمن '' کے باشندوں کے ارتداد کے بارے میں سیف سے نقل کرکے ایک مفصل شرح لکھی ہے ۔ ہم اس کا خلاصہ ذیل میں قاریئن کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

لقیط بن مالک عمان میں مرتد ہوا ۔ دوسرے جھوٹے پیغمبر ی کا دعوی کر نے والوں کی طرح اس نے بھی پیغمبر ی کا دعویٰ کیا اور ''دبا'' کی طرف چلاگیا۔ وہا ں پر تبلیغ کرنے لگا اورچند پیرو بھی بنالئے ۔

ابو بکر نے اس کے فتنہ کو کچلنے کے لئے عکرمہ ابوجہل '' کو عرفجہ اور حذیفہ کے ہمراہ ایک سپاہ کی معیت میں ''دبا '' کی طرف روانہ کیا ۔ اسلام کے سپاہیوں اورلقیط کے حامیوں کے درمیان ایک شدید جنگ چھڑگئی ، اور نزدیک تھا کہ لقیط اور اس کے سپاہی کا میاب ہوجائیں کہ ''خریت بن راشد'' کی کمانڈ میں ''بنی ناجیہ ''اور سیحان بن صوحان ، کی کمانڈ میں ''عبدالقیس''کے قبیلہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مدد پہنچی اور عکرمہ اور اس کے ساتھیوں کی ہمت افزائی ہوئی ،نتیجہ کے طور پر لقیط اور اسکی سپاہ شکست کھاکرنا بود ہوگئی ۔

اس جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل ہوگئے۔اسلام کے سپاہیوں نے فراریوں کا پیچھا کیا اور سب موت کے گھاٹ اتاردیا ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیربنالیا اور ان کے مال ومنال کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا !

اس فتح و کامیابی میں غلاموں کاپانچواں حصہ جو ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا گیا ان کی تعداد آٹھ سو افرادتھی ! عباد ناجی نے اس فتح پر درج ذیل اشعار کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم '' لقیط بن مالک '' کا چہرہ ایسا برااور بدصورت ہو چکا تھا کہ اس نے لومڑی کے چہرہ کو بھی سیاہ کر رکھا تھا۔

وہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو ابوبکر کے برابر جانتا تھا لہذا خلیج میں مہلک اور خطرناک امواج سے ٹکرایا۔

۱۵۸

جس راہ کو لقیط نے انتحاب کیا تھا نہ اس کی عقل نے اسے اس سے پیچھے ہٹا یا اور نہ اپنے حریف کو شکست دے سکا۔

سرانجام ہمارے سواروں نے ان کے اونٹ بار سمیت کھینچ لائے۔ نئی سطر سے اس کے بعد طبری کہتا ہے:

عکرمہ وہا ں سے ''مہرہ'' کی طرف روانہ ہوا۔ وہا ں کے مشرکین دوگرو ہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ہر گروہ کا سردار اپنے کو مطلق سردارجانتا تھا ۔ بنی شخرات کے شخریت نامی ایک شخص کے گرد لوگوں کی ایک جماعت جمع ہوئی تھی ۔ دوسرا کہ ''مہرہ ''کے تمام باشنددے جس کے زیر فرمان تھے بنی محارب سے ''مصبح '' نامی ایک شخص تھا ۔

عکرمہ نے جب دوسرداروں کے حاکمیت کے مسلئہ پر آپسی اختلاف کا مشاہدہ کیا اور شخریت کے ساتھیوں کی تعداد کمدیکھی تو ۔ اسے پھر سے اسلام کی طرف پلٹنے کی دعوت دی اوراس دلجوئی کی ۔ شخریت نے یہ دعوت قبول کی اور اسلام لے آیا ۔سیف کہتا ہے کہ مشرکین کے سپاہیوں نے ''جبروت ''و نضدون '[ کے درمیان صحرا ۔ جو مہرہ کے بیامان ہیں کو پر کر رکھا تھا ۔

عکرمہ جب شخریت کی طرف سے بے فکر ہواتو اس نے ''مصبح'' کو بھی پیغام بیھجا اور اسے بھی پھر سے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ لیکن مصبح اپنے حامیوں کی کثرت کی وجہ سے مغرور ہو کر تسلیم نہیں ہوا بلکہ شخریت کے جدا ہونے پر بھی سخت برہم ہوا۔

جب عکرمہ مصبح کی طرف سے مایوس ہوا ، تو اس نے شخریت کیہمراہ اس کی طرف قدم بڑھایا ۔ کچھ تعاقب و فرار کے بعد نجد کے مقام پر دونوں سپاہ ایک دوسرے سے روبرو ہوئے اور ''دبا'' سے بھی سخت جنگ چھڑ گئی.

سر انجام خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح وکامیابی عطا کی اور مشرکین کو بری شکست کاسامنا کرنا پڑا۔مصبح مارا گیا اس کے ساتھی بھاگ گئے ۔مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں تہ تیغ کر کے انہیں قتل و مجروح کیا اور ان کے مال و منال کو غنیمت میں لے لیا ۔

غنائم جنگی میں اور چیزوں کے علاوہ ان کی دو ہزار بخیب اور آزاد عورتوں کو بھی اسیر کیا !!

۱۵۹

عکرمہ نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو مشخص کر کے ''شخریت ''کے ہاتھ ابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ اس کے بعد اس علاقہ کے مسلئہ کو خاتمہ دینے کے لئے حکم دیاکہ '' نجد، ریاضہ الروضہ 'ساحل ، جزائر ،مرّ ،لبّان ، جیروت ، ظہور، صبرات ، ینعب اورذات الخیم '' کے باشندوے ایک جگہ جمع ہوجائیں ۔ جب وہ لوگ جمع ہوئے تو انہوں نے ایک بار پھر اسلام قبول کر کے عکرمہ کے ساتھ عہدو پیمان باندھا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا ۔

علجوم محاربی نے مندرجہ ذیل اشعار میں اس شکست کے بارے میں یوں کہا ہے :

خدا ئے تعا لےٰ نے شخریت اور ''ھیثم و قرضم ''کے قبائل ۔جو ہمارے خلاف اٹھے تھے ۔ کو سزادیدی۔

ظالموں اور بدکاروں کی پاداش ،کیونکہ انہوں نے پیمان کو توڑا ہمارے ساتھ تعلقات کو اپنے لئے خوار سمجھا ۔

اے عکرمہ ! اگر میرے خاندان کے کارنامے اور ان کی مدد تیرے ہمراہ نہ ہوتی تو تجھ پرفرار کا راستہ زمین و آسمان میں بند ہوجاتا ۔

ہم اس جنگ میں ایسے تھے جیسے ایک ہاتھ نے دوسرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑرکھا ہو ! اس لئے ہمیں رنج و محنت کا سامنا کر نا پڑا۔

اس داستان میں سیف کے راویوں کی پڑتال :

اس داستان میں سیف کے راوی حسب ذیل ہیں :

١۔سہل بن یوسف انصاری سلمی :

٢:غصن بن قاسم

ہم نے مذکورہ دوراویوں کے بارے میں بارہا کہا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے بلکہ جعلی راوی ہیں

۱۶۰

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273