ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 273
مشاہدے: 101082
ڈاؤنلوڈ: 2608


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 101082 / ڈاؤنلوڈ: 2608
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 4

مؤلف:
اردو

خلیفہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ''عتاب'' نے اپنے بھائی خالد کی سر پرستی میں مکہ کے پانچ سو جنگجو آمادہ کئے ۔ اور عثمان نے بھی طائف کے باشندوں کے ایک گروہ کا انتخاب کر کے اپنے بھائی عبدالرحمان کی سرپرستی میں آمادہ کیا ۔

طبری نے بھی اپنے منبع سے سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے کہ جب ''مہاجر بن ابی امیہ '' ''یمن ''کے باشندوں پر مشتمل اپنے سپاہیوں کے ہمراہ خلیفہ ابوبکر کی طرف سے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے گزررہا تھا تو ''خالد بن اسید ابن ابی العاص '' اپنے افراد سمیت اس سے ملحق ہوا اور طائف سے عبور کرتے وقت '' عبدالرحمان بن ابی العاص '' بھی اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس کے ساتھ ملحق ہوگیا ۔

ابن فتحون نے بھی اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب'' استعیاب ''سے دریافتکیاہے ۔

اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدماکی یہ رسم تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ ''قریش یا ثقیف '' کے ان لوگوں کے علاوہ جنھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ حجتہ الودعاع میں شرکت کی تھی اور اس کے بعد مکہ یا طائف میں ساکن ہوئے تھے ،کسی کو سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

۱۴۱

علامہ ابن حجر نے اس تشریح میں سیف کی دو روایتوں پر اعتماد کیا ہے ۔ ایک کو بلاواسط سیف سے نقل کیاہے اور دوسری کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے ۔جوکچھ بیان ہوا ہے اس کی بنا پر طبری نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کر کے ١١ھ کے حوارث کے ضمن میں ''طاہر ابو ہالہ ''(۱)کی روایت میں لکھا ہے اورابن خلدون نے بھی اس کو خلاصہ کے طور پر طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔

افسانہ عبدالرحمان اور سیف کے راوی:

عبدالرحمان ابی العاص کے بارے میں سیف کے راوی جو ''تاریخ طبری'' میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :

مستنیر بن یزید نے عروہ بن عزیہ ّ سے نقل کیا ہے ۔

یہ دونوں سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

افسانہ کی پڑ تال :

سیف نے اس روایت میں عثمان ابی العاص ثقفی کے لئے ایک بھائی خلق کر کے اس کا نام ''عبدالرحمان ابی العاص ''رکھا ہے ، جس طرح ' کعب بن مالک انصاری '' کے لئے سہل(۲) بن مالک نامی ایک بھائی ''حذیفہ فزاری ''کے لئے ''ام قرفہ ''(۳)نامی ایک بیٹی اور ام الموء منین خدیجہ کے لئے ''طاہر ابوہالہ '' نامی بیٹا خلق کیا ہے ۔ اوراپنے جعلی صحابیوں کے لئے اس طرح کی تخلیقات سیف بن عمر کی خصو صیات میں سے ہے ۔

اس کے علاوہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ '' میں ابوالعاص ثقفی کے چھ بیٹے بتائے اور ان سب کا نام لیاہے ۔لیکن نام کامیں عبدالرحمان نام کا کو ئی بیٹا نظر نہیں آتا ۔

____________________

١۔''طاہر ابوہالہ ''۔اسی کتاب (٢/٢٥٣۔٢٦٥) میں ملاحظ ہو

٢)۔سہل بن مالک انصاری کے حالات اس کتاب کی تیسری جلد( ٢٧٧۔٢٨٧)

٣۔١٥٠جعلی اصحاب (٢/٢٩٤۔٣٠٧)

۱۴۲

اس کے باوجود سیف بن عمر نے عبدالرحمان کو خلق کیا ہے اور اسے ایک ایسے خاندان میں قرار دیا ہے کہ اس کی اپنی روایت کے مطابق اس کے بھائی عثمان ابوالعاص نے اسے سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب کیا ہے۔ علامہ ابن حجر نے اسی عبدالرحمان کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ میں قرار دیا ہے اور اس کے صحابی ہونے کی دلیل کے طو رپر ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدماکی رسم یہ تھی ....'' کی تکرار کر کے ثابت کر تا ہے ۔ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ اس کا کہ دعویٰ بے بنیاد اور باطل ہے اور ہم اسے ثابت بھی کر چکے ہیں ۔

اور یہ جو ابن حجر کہتا ہے :

'' اور یا وہ جو قریش یا ثقیف مکہ اور طائف میں رہ گئے '' (تاآخر )انشاء اﷲہم آیندہ اس پر بحث کریں گے ۔

مصادر و مآخذ

عبدالرحمان ابوالعاص کے حالات:

١۔''اصابہ''ابن حجر (٢/٣٩٧) پہلاحصہ ۔ نمبر: ٥١٤٧

٢۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٩٨)

عثمان ابو العاص کا نسب:

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٤٥)

طاہر ابو ہالہ کے حالات:

١۔ ''ایک سوپچاس جعلی صحابی '' (٢/٢٥٣۔٢٦٦)

۱۴۳

سہل بن مالک کے حالات :

١۔ ایک سو پچاس جعلی صحابی (٣/٢٧٧۔٢٨٧)

ام قرفہ کے حالات:

ایک سو پچاس جعلیصحابی (٣/٢٩٤۔٣٠٧)

٧٦واں جعلی صحابی عبیدہ بن سعد

اس صحابی کے بارے میں ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیاہے :

عبیدہ بن سعد :

طبری نے کہا ہے کہ ابوبکر صدیق نے حکم دیا تھا کہ ''عبید بن سعد '' مرتدوں کی جنگ میں مہاجربن ابی امیہ کی مدد کرے ۔ اس کے بعد ابوبکر نے اسے ''کندہ '' اور ''سکاسک ''کاحاکم منصوب کیا ۔ (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

عبیدہ بن سعد کی خبر کو طبری نے سیف کی دو روایتوں سے نقل کر کے ١١ ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ میں درج کیا ۔ پہلی روایت میں لکھتا ہے :

ابو بکر نے ایک خط کے ذ ریعہ مہاجربن ابی امیہ ۔ جو صنعا میں تھا ۔ کو حکم دیا کہ ''حضرموت'' کی طرف روانہ ہوجائے اور یہ بھی حکم دیا کہ ''عبیدہ بن سعد '' بھی اس کی اس مہم میں مدد کرے ۔ طبری نے دوسری روایت میں لکھا ہے :

ان دنوں ''حضر موت '' پر دوشخص حاکم تھے ، ان میں سے ایک ''عبیدہ بن سعد '' تھا جو '' سکا سک '' اور ''سکون '' پر حکمرانی کرتا تھا ............(تاآخر روایت )

۱۴۴

سکاسک اورسکون کانسب اوران کی رہائش گاہ :

''سکاسک ''اور'' سکون '' دوقبیلہ ہیں ۔ان کا نسب ، نبی کہلان بن سبا ٔ سے اشرس بن کندہ کے بیٹوں ''سکاسک '' اور ''سکون ''تک پہنچتا ہے ۔ قبیلہ سکا سک ''یمن'' کے آخری کنارے پر سکونت اختیار کی۔ ان کی سکونت کا علاقہ بھی اسی نام سے مشہور تھا ۔

قبیلہ'' سکون'' دوحصوں میں تقسیم ہوا تھا ۔ ان میں سے ایک حصہ ''حضرموت '' میں اور دوسرا حصہ '' دومتہ الجندل '' شام کی راہ پر سکونت کرتا تھا ۔

افسانہ ٔ عبیدہ کے راوی کی پڑتال :

سیف نے اپنی روایتوں میں سے ایک کے راوی کے طور پر سہل بن یوسف '' کا نام لیاہے اوراسے ''سہل انصاری '' کا پوتہ بتایا ہے ، اور یہ اس کے جعلی راویوں میں سے ایک ہے ۔

تاریخی حقائق :

خلیفہ بن خیاط نے خلیفہ ٔ ابوبکر کے تمام گماشتوں اور کا رگزاروں کو اپنی کتاب ''تاریخ کے ایک خاص حصہ میں ''ابو بکر کے کارگزار ''کے عنوان سے حسب ذیل درج کیا ہے :

ابو بکر کی وفات تک بحرین پر ''علاء حضرمی '' حکومت کرتا تھا ۔ابوبکر نے ''عکرمۂ ابو جہل '' کو ماموریت دی کہ ''عمان'' کے مرتد لوگوں کو سر کوب کرے ۔ ان پر فتح پانے کے بعدوہ خلیفہ کی طرف سے '' یمن'' کا حکم مقرر ہوا

''عمان ''کی حکومت ''حذ یفہ قلعانی '' کو سونپی کہ وہ ابوبکر کی زندگی کے آخری دنوں تک اس عہدہ پر باقی تھا ۔

''مہاجر بن ابی امیہ مخزوی'' اور ''زیادبن لبید انصاری '' کو ''یمن '' کی مأموریت دی ۔ اس ترتیب سے کہ زیاد اور نجیل کے باشندوں کے درمیان مشکلات پیدا ہونے کے بعد '' صنعا''، کی حکومت مھاجرکو سونپی ،اور زیا د کو ساحل اور بناد رکا حاکم مقرر کیا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ''عتاب بن اسید '' کو مکہ پر اور عثمان بن ابی العاص کو طائف پر حاکم منصوب کیا ۔ عتاب اور ابوبکر نے ایک ہی دن رحلتکی ہے ۔

۱۴۵

اس کے بعد ابن خیا ط لکھتا ہے :

ہم نے اس سے پہلے شام کے بارے میں ، عراق میں خالد کی داستان ، حکام کے نام ،جنگوں میں ابوبکر کی طرف سے منصوب سپہ سالارو ں اور فوجی معاہدوں کے بارے میں ذکر کیا ہے ۔

ابوبکر نے ١٢ھ میں فریضہ حج ادا کیا ہوا اور اپنی جگہ پر ''قتادہ بن نعمان ظفری ''انصاری کو مدینہ میں اپناجا نشین مقرر کیا ۔اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ان کا جانشین ''ابن امّ مکتوم '' تھا ۔

خلیفہ بن خیا ط نے ایک فصل میں اس سے پہلے لکھا ہے :

جب ابوبکر نے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے ''ذی القصہ '' کی طرف عزیمت کی تو اپنی جگہ پر مدینہ میں ''سنان ضمری '' کوجانشین مقرر کیا ۔ اور یہ بھیکہا گیاہے ''اُسامہ بن زید '' کو مدینہ کی گزر گا ہوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی ۔

بحث کا نتیجہ :

ہم نے دیکھا کہ خلیفہ بن خیاط نے خلیفہ اول ابوبکر کی خلافت کے دوران خلیفہ کے تمام کارگزاروں اور گماشتوں کافرداً فرداً نام لیا ہے اور ان کی ماموریت کی جگہ اور ، تاریخ مأموریت کے بارے میں مفصل لکھا ہے لیکن ان میں ''عبیدہ بن سعد ''نام کا کوئی شخص دکھا ئی نہیں دیتا ہے !

لیکن ،سیف نے اس خیالی چہرہ کو اپنی گڑھی ہوئی دوروایتوں سے ذکر کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''فتوح '' میں درج کیا ہے اورطبری نے اسے ایک قطعی مصدر جان کر اپنی معتبر تاریخ میں درج کیاہے ۔

ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے ''عبیدہ ''کو اپنی کتا ب ''اصابہ '' کے حصہ اول میں رسول اﷲ کے ان اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے جو سپہ سالار ہونے کی وجہ سے صحابی شمار کئے گئے ہیں ۔ اور اس کے حالات بھی لکھے ہیں ۔

۱۴۶

مصادر و مآخذ

عبیدہ بن سعد حالات :

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٢/٤٤٢)حصہ اول نمبر:٥٣٨١

عبیدہ کے بارے میں سیف کی روایتں :

١۔''تاریخ طبری ''(١/٢٠٠١)و(١/٢٠١٣)

ابوبکر کے گماشتوں اور کارگزاروں کے نام:

١۔''تاریخ خلیفہ بن خیا ط ''(١/١٩١)

سکاسک اور سکون کا نسب:

١۔''جمہرہ انساب '' ابن حزم (٣٢٩۔٣٣٢)

٢۔''اشتقاق''ابن درید لفظ ''سکاسک ''اور سکون''

٣۔''تاج العروس'' لفظ''سکاسک ''

٤۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''سکاسک '' و ''دومة الجندل ''

۱۴۷

٧٧واں جعلی صحابی خصفۂ تیمی

یہ صحابی ' ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں پہنچوایا گیا ہے :

خصفہ تیمی:

طبری نے روایت کی ہے کہ خصفہ تیمی کو علاء حضرمی نے ارتداد کی جنگوں میں اپنی فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر مقرر کیا ہے ۔

ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ قدما کی رسم یہ تھی کہ جنگو ں میں صحابیوں کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پرفائزنہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اسی استدلال کی بنا ء پر ''خصفہ '' کو بعنوان صحابی قبول کیا ہے ، بجائے اس کے کہ اصل خبر پر کوئی تحقیق کرے ۔

لیکن اس خبر کی اصلیت کے بارے میں ہم نے گزشتہ صفحات میں ''عامر بن عبدالاسد ''کے حالات کے ضمن میں سیف کی روایت میں پڑھا ہے کہ علاء حضرمی نے عامر اور دوسرے لوگوں کو ایک پیغام کے ذریعہ حکم دیا تھا کی مرتدوں کی نقل و حرکت میں رکا وٹ بنیں ۔

طبری سیف سے نقل کر کے اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :

علاء نے ''خصفۂ تیمی'' اور ''مثنی بن حارث شیبانی '' کے نام ایک جیسے پیغام بھیجے ۔ وہ بھی مرتدو ں کے راستے میں گھات لگاکر بیٹھے اور ان کی ہر قسم کی فعالیت کو معطل کر کے رکھدیا ۔

داستان کا سرچشمہ :

ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ سیف بن عمر نے اس داستان کو اول سے آخر تک خود جعل کیا ہے ۔ اور اسے ''سہل بن یوسف بن سہل ''جیسے راویوں کی زبانی جاری کیا ہے کہ دونوں باپ بیٹے سیف کے جعلی اصحاب میں سے ہیں ۔ ہم نے بارہا ان کے جعلی و خیالی ہونے کا تذکردیا ہے ۔

۱۴۸

لیکن درج ذیل علماء نے''خصفہ ''کے افسانہ کو نقل کرنے کا براہ راست اقدام کیاہے :

١۔طبری نے اسے بلاواسطہ سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کیاہے

٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے اسی ایک مختصر جملہ میں ، جس میں خصفہ کا نام آیا ہے ، سے استفادہ کرتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے صحابیوں میں قرار دیا ہے ۔ اور اس کے حالات پر حرف''خ'' کے تحت شرح لکھی ہے اور آخرمیں اپنے مشہور قاعدہ کی بھی قید لگادی ہے ۔

ایک اور جعلی صحابی :

ابن حجر نے ''خصفہ ٔ تیمی ''کے حالات پر روشنی ڈالنے سے پہلے ایک مجہول راوی سے ایک دوسری روایت پر استناد کر کے خصفہ یا ابن خصفہ یا خصیفہ نام کے ایک دوسرے شخص کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے درج کیا ہے ۔

ابن اثیر نے بھی ایسا ہی کر تے ہوئے اسی مجہول راوی پر اعتماد کر کے ان ناموں کو رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے !

ان دوعلماء نے ایک بار ایک مجہول راوی کے کہنے پر اعتماد کر کے '' خصفہ '' یا ''ابن خصفہ '' یا خصیفہ نام کے صحابیوں کو پہچنوایا ہے اور دوسری بار جھوٹے ورزندیقی سیف کی روایتسے استناد کر کے خصفہ تیمی کو صحابی جان کر اس کے حالات لکھے ہیں !

جی ہا ں !یہی وجہ ہے کہ مکتب خلفاء کے پیروؤں کے درمیا ن جعلی اصحاب کی تعداد فرواں پائی جاتی ہے ۔

۱۴۹

مصادر و مآخذ

خصفہ تمیی کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر ( ١/٤٢٨) حصہ اول نمبر: ٢٦٦٩

خصفہ تمیی کے بارے میں سیف کی روایت:

١؛تاریخ طبری (١/١٩٧)

خصفہ یا ابن خصفہ کے حالات:

١۔''اسدالغابہ'' ابن اثیر (٢/١٩٧)

٢۔''تجرید'' ذہبی (١/١٧١)

٣۔''اصابہ ابن حجر (١/٤٢٧۔٤٢٨) نمبر: ٢٢٦٨

٧٨واں جعلی صحابی یزید بن قینان

اس صحابی کے حالات ہم ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں یوں پڑھتے ہیں :

یزید بن قینان:بنی مالک بن سعد سے۔

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح ''اور طبری نے اپنی تاریخ میں اس کانام لیا ہے اور لکھا ہے کہ ''عکرمہ بن ابی جہل '' نے اسے چند ساتھیوں کے ہمراہ ارتداد کی جنگوں میں شریک کیا ہے اور قبائل ''کندہ '' کے مرتددں کی سرکو بی کے لئے مأموریت دی ہے

اس صحابی کو ابن فتحون نے ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیاب '' سے دریافت کیا ہے۔خدا بہتر جانتا ہے .(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

۱۵۰

نسب:

سیف کے اس جعلی صحابی کے باپ کا نام ''تاریخ طبری '' میں ایک جگہ پر ''قناّن '' اور ایک دوسرے نسخہ میں ''فتیان ''درج ہوا ہے ۔

لیکن سعد کا نام جواس کے سلسلہ ٔ نسب میں نظر آتا ہے اور بنی مالک اس سے پیدا ہوئے ہیں وہ''ابن زید مناةبن تمیم ''تھا ۔

یزید قینان کی داستان تاریخ طبری میں :

طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ''اخبار ارتداد حضرموت '' اور ''جنگ نجیر'' والے حصہ میں سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھتا ہے :

عکرمہ نے اپنے جنگجو سواروں کو ''قبائل کندہ '' میں منتشر کیا اور انھیں حکم دیا کہ انھیں کچل کے رکھدیں ۔ اس مہم میں ماموریت پانے والے سرداروں میں بنی مالک بن سعد سے'' یزید بن قنان ' ' بھی تھا

عکرمہ کے سواروں کے اس حملہ کے نتیجہ میں ''بقری '' اور بنی ھند'' سے ''برہوت'' تک کے تمام باشندے قتل عام ہوئے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

سیف کی روایت میں ''نجیر ''کی جنگ کی بات کہی گئی ہے اور یہ حضر مو ت کے نزدیک ایک قلعہ تھا ، جہا ں پر اشعت بن قیس کی سرپرستی میں کندی افراد ابوبکر کے سپاہیوں کے محاصرہ میں آگئے تھے۔

جب محاصرہ روز بروز سخت ہوتا گیا تو اشعت نے بڑی بے غیرتی سے اپنے رشتہ داروں میں سے سترافراد کے لئے امان حاصل کی، اس کے بعد اپنے دوسرے ساتھیوں کے بارے میں کسی قسم کی پروا کئے بغیرحکم دیا کہ قلعہ کے دروازے خلیفہ کے سپاہیوں کے لئے کھول دیں !

ابو بکر کے سپاہیوں نے قلعہ کے اندر یورش کی اور اشعث اور امان یافتہ اشخاص کے علاوہ اس کے باقی تمام باوفا ساتھیوں جن کی تعداد سات سو امراء اور کند کے عوامی سپاہیوں پر مشتمل تھی قتل عام کئے گئے ! ان کی لاشوں کو بے گور و کفن زمین پر پڑا رکھا گیا ،ان کی عورتوں کو اسیر بنا یا گیا اور ان کے مال و منال کو لوٹ لیا گیا !!

۱۵۱

سیف کی اس روایت میں جن مقامات کا نام آیا ہے ، وہ حسب ذیل ہیں :

١۔برہوت، یہ یمن میں ایک بیابان کانام ہے ۔

٢۔ بقران ، یمن کے اطراف میں ایک علاقہ کو کہاجاتا ہے .لیکن ہم نے ''بقری '' نام کی کوئی جگہ جغرافیہ کی کتابوں میں کہیں نہیں پائی ۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ''بقری '' کو خلق کرنے میں سیف کا مقصد کیا تھا ؟!

یزید قینان کی روایت کی پڑتال :

سیف تنہا شخص ہے جس نے یزید قینان کی داستان کو ''سہل ''اور اس کے باپ''یوسف '' کی زبانی نقل کیا ہے ۔ اس جھوٹے نے روایت کو اپنے جعلی راویوں کی زبان پرجاری کیا ہے۔

بحث کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جس نے عکرمہ بن ابی جہل کی طرف سے ''یزید بن قینان'' کو سیف کے بقول مرتد لوگوں کی سرکوبی اور انھیں قتل کرنے کے حکم کی روایت کی ہے

سیف تنہا شخص ہے جس نے اس لشکر کشی میں ''بقری بنی ھند تا برہوت '' کے باشندوں کے قتل عام کی بات کہی ہے ۔واضح ہے کہ اس قسم کے جھوٹ کو کہنے میں اس کا مقصد خاندان تمیم کی شجاعتوں اور دلاوریوں کو چار چاند لگاکر ان کی شہرت کرنا ہے ۔

دوسری جانب سیف ارتداد کی جنگوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان جنگوں کے بارے میں سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی خبروں کو گڑھ کے پیش کرنے میں یہ مقصد رکھتا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو سکے یہ ثابت کرے کہ اسلام نے عرب قبائل کے دلوں میں کوئی خاص نفوذ نہیں کیا تھا ۔ اس لئے جوں ہی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی ، وہ آسانی کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دین سے منہ موڈکر پھرسے جاہلیت اور بت پرستی کی طرف پلٹ گئے ۔اور یہ خلیفہ ابوبکر تھے جنہوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام کو دوبارہ استحکام بخشا ہے !

۱۵۲

تاریخ اسلام پر سیف کے روا رکھے گئے ان خوفنا ک جرائم کے بعد طبری جیسے بزرگ عالم کی باری میں آتی ہے اور وہ اس عیار' جس پر جھوٹ بولنے اور زندیقی ہونے کا الزام بھی ہے، کے افسانوں کو اپنی گراں قدر اورمعتبر کتاب میں درج کرتا ہے۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک اور عالم ابن فتحون آکر سیف کی روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ''یزید بن قینان '' کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیا ب '' سے دریافت کرتا ہے !

اورسرانجام ابن حجر سیف کے خیالات کی مخلوق''یزید بن قینا ن '' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں قرار دیتا ہے اور اس کے حالات لکھ کر اپنی کتا ب ''اصابہ ' میں درج کرتا ہے ۔

مصادر و مآخذ

یزید بن قینان کے حالات :

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٦٣٥) تیسرا حصہ نمبر:٩٤١٢

یزید بن قینان کی داستان کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٠٠١۔٢٠٠٧)

اشعث بن قیس کی داستان اور '' کندہ '' کا ارتداد:

١۔''فتوح'' ابن اعثم (١/٥٦۔٨٧)

٢۔''فتوح البلدان '' بلاذری (١٢٠۔١٢٤)

٣۔''عبداﷲبن سبائ''(٢/٢٨٧۔٣٠٤)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''نجیر '' (٤/٧٦٢۔٧٦٤) اور لفظ ''حضر موت'' (٢/٢٨٤۔٢٨٧)

سیف کے اجعل کردہ مقامات کی تشریح:

١۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''بقرہ '' (١/٦٩٩)

لفظ ''برہوت '' (١/٥٩٨)

۱۵۳

٧٩واں جعلی صحابی صیحان بن صوحان

اس صحابی کے تعارف میں ابن حجر یوں لکھتا ہے :

صیحان بن صوحان عبدی :

سیف بن عمر نے اس کا نام لیا ہے اوراس کے ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی خبر دی ہے ۔ ماجرا کی تفصیل حسب ذیل ہے:

اسی وقت جبکہ عمان میں '' لقیط بن مالک ازدی '' پیغمبر ی کا دعویٰ کر رہا تھا،ابوبکر کے حکم سے ''عکرمہ بن ابوجہل '' عرفجہ ، جبیر اور عبید ''اس سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوئے ،لیکن مشرکین کی فوج کی کثرت کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ قریب تھا ''لقیط '' خلیفہ کے سپاہیوں پر غلبہ پاجا ئے اورانہیں نابود کر کے رکھدے ۔ اسی اثنا ء میں ''حارث بن راشد '' اور ''صیحان بن صوحان عبدی '' کی سرکردگی میں قبائل بنی ناجیہ ابوعبدالقیس کے سپاہی ان کی مدد کے لئے آپہنچے ۔ ان کے آنے سے مسلمان فوج بڑھ گئی اور لقیط کے ساتھی شکست کھاگئے ۔ بالآخر لقیط اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ اس جنگ میں ماراگیا (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :

سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو ''عبدی '' کہا ہے ۔ اور یہ قبائل عدنان سے ''عبدالقیس بن افصیٰ'' کی طرف نسبت ہے لیکن طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اس نسب کو ''سیحان بن صو حان '' (حرف سین) کے لئے درج کیا ہے !

ابن ماکو لا کی کتاب ''اکمال '' میں بھی سیف بن عمر سے نقل کر کے لقیط سے جنگ میں بجائے ''حارث بن راشد'' اور ''صیحان بن صوحان''بالترتیب '' خریت بن راشد'' اور '' سیحان بن صوحان '' درج کیا گیا ہے ابن ماکو لا لکھتاہے :

اور ''خریت بن راشد''اور ''سیحان بن صوحان '' لقیط بن مالک ازدی کے خلاف جنگ میں بنی ناجیہ اورعبدالقیس کے سپاہیوں کے سپہ سالار تھے ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب''اصابہ '' میں حرف ''سین '' کے تحت ''سیحان بن صوحان '' کے حالات پر الگ سے روشنی ڈالی ہے ۔ گمان کیا جاتا ہے کہ ابن حجر کے پاس کتاب سیف یا تاریخ طبری کے موجود نسخوں نے اسے غلطی سے دوچار کیا ہے تاکہ اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ایک دوسرے صحابی کو ''سیحان بن صوحان '' کے نام سے درج کرئے۔

۱۵۴

جبکہ نسب شناسوں ، جیسے ابن درید نے اپنی کتاب ''اشتقاق '' میں ، ابن خیاط نے طبقات''میں اثیر نے کتاب ''اللباب'' میں صوحان کے تین بیٹے بنام ''زید '' صعصعہ اور سیحان صراحت سے درج کئیہیں ۔ چوتھا بیٹا بنام صیحا ن بن صوحان خلق کیا گیا ہے اور ابن حجر نے اسے بھی صوحان سے منسوب کر دیا ہے ۔ احتمال یہ ہے کہ مغالطہ ''تاریخ طبری کے اس نسخہ کی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پایا ہے جو ابن حجر کے پاس موجود تھا نتیجہ میں اس عالمنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جعلی صحابیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیاہے ۔

٨٠واں جعلی صحابی عبادناجی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

عبادناجی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اس کا نام ذکر کیا ہے.

عباد ان افراد میں سے ہے جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کازمانہ درک کیا ہے .اور ابوبکرکے زمانہ کی بعض فتوحات میں شرکت کی ہے ۔ز

نسب :

ایسا لگتا ہے کہ سیف نے لفظ ''ناجی'' سے قبائل عدنان کے '' بنی سامة بن لوی '' کے منسوبین مراد لئے ہیں یہ وہ خاندان ہے جسے سیف نے اپنے افسانہ میں ''خر ّیت بن راشد'' کے ہمراہ ''دبا'' کی جنگ میں شریک کیا ہے !

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہالینڈکا مشہور دانشمند و مستشرق''ایم ۔جے ۔ڈی گویجی ''(۱)

____________________

١) M.J.Degoeje مشہور ہالینڈی مستشرق ۔ اس کے جملہ آثار میں سے ''تاریخ طبری ''اور اس کی فہرست ہے کہ ''مکتبة الجغرافیین فی العرب''کی طرف سے ١٨٠١ ء لیڈن میں طبع ہوئی ہے اور ہم نے اپنے مباحث کے دوران اس کی طرف رجوع کیا ہے۔

۱۵۵

سیف کے'' عباد ناجی'' کاتعارف کرانے میں مغالطہ سے دوچار ہوا ہے ، جہاں وہ ''تاریخ طبری ''کی اپنی فہرست میں لکھتاہے :

گویایہ شخص''عباد بن منصور'' ہے ، کیونکہ عباد بن منصورناجی ایک محدث تھا ،جو ١٢٩ھ سے ١٤٥ھ تک بصرہ کے قاضی کے عہدہ پر فائز تھا اور ١٥٢ھ میں فوت ہوا ہے ۔

''ڈی گویجی'' کی یہ بات سیف کی روایت سے مغایرت رکھتی ہے ، کیونکہ اس ''عباد ناجی '' کو سیف نے ١١ھ میں ''خریت بن راشد '' کے ہمراہ''دبا''کی جنگ اور قتل عام میں شرکت کرتے دکھایا ہے ، اور اسی سبب سے ابن حجر نے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ١١ھ سے ١٥٢ھ تک ایک لمبا زمانی فاصلہ ہے

ابن حجر نے ''عباد ناجی '' کو اس اعتقاد پر کہ اس نے بقول سیف جنگ ''دبا'' میں شرکت کی ہے ، ''لہ ادراکُ''کی عبارت سے استفادہ کرکے اس کا بعنوان صحابی تعارف کرایا ہے ، اگر چہ سیف نے اس جنگ میں اس کو کوئی عہدہ نہیں سونپا ہے بلکہ صرف اُن اشعار پر اکتفا کی ہے ، جو اس نے اس کی زبان پر جاری کئے ہیں (۱)

____________________

ا۔ یہ اشعار ان تین صحابیوں کے بارے میں ایک جامع بحث میں بیان کئے جائیں گے۔

۱۵۶

٨١واں جعلی صحابی شحریب

اس صحابی کے بارہ میں ابن حجر نے یوں لکھا ہے :

شحریب ، بنی نجرات سے ایک شخص:

وہ من جملہ ان افراد میں سے ہے جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ درک کیا ہے ۔

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف سے اس نے ابوبکر صدیق کے پوتے قاسم بن محمد سے روایت کی ہے '' شحریب '' نے ''عکرمہ بن ابی جہل ''کے ہمراہ یمن کے مرتدوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی ہے ۔ عکرمہ نے اس فتح کی نوید اورغنائم کا پانچواں حصہ شجریب کے ہمراہ ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا ہے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب:

ابن حجر کی ''اصابہ '' میں شحریب کو ''بنی بخرات'' کے ایک شخص کے طور پر درج کیا گیا ہے،جبکہ طبری نے سیف کی روایت کے مطابق اپنی تاریخ میں ''شخریت'' ''بنی شخرات'' سے ایک شخص کے طور پر ذکر کیا ہے ! ہمارے خیال میں یہ مغالطہ ''تاریخ طبری ''کی نسخہ برداری کرتے وقت کتابت کی غلطی سے وجود میں آیا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر بقول ِسیف ''تاریخ طبری '' ، شحریب '' سپہ سالاری کے عہدہ پر فائز تھا (۱)،لیکن چونکہ لشکر اسلام سے ملحق ہونے سے پہلے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو گیاتھا ، لہذا سے ابن حجر نے خصو صی حکم ''لہ ادراک''جاری کر کے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے زمرہ میں قرار دیا ہے ۔

____________________

١۔اس کی داستان '' ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث'' میں آئے گی۔

۱۵۷

ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث

صیحان ،عبادناجی اورشحریب

طبری نے ''عمان ، مہرہ اور یمن '' کے باشندوں کے ارتداد کے بارے میں سیف سے نقل کرکے ایک مفصل شرح لکھی ہے ۔ ہم اس کا خلاصہ ذیل میں قاریئن کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

لقیط بن مالک عمان میں مرتد ہوا ۔ دوسرے جھوٹے پیغمبر ی کا دعوی کر نے والوں کی طرح اس نے بھی پیغمبر ی کا دعویٰ کیا اور ''دبا'' کی طرف چلاگیا۔ وہا ں پر تبلیغ کرنے لگا اورچند پیرو بھی بنالئے ۔

ابو بکر نے اس کے فتنہ کو کچلنے کے لئے عکرمہ ابوجہل '' کو عرفجہ اور حذیفہ کے ہمراہ ایک سپاہ کی معیت میں ''دبا '' کی طرف روانہ کیا ۔ اسلام کے سپاہیوں اورلقیط کے حامیوں کے درمیان ایک شدید جنگ چھڑگئی ، اور نزدیک تھا کہ لقیط اور اس کے سپاہی کا میاب ہوجائیں کہ ''خریت بن راشد'' کی کمانڈ میں ''بنی ناجیہ ''اور سیحان بن صوحان ، کی کمانڈ میں ''عبدالقیس''کے قبیلہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مدد پہنچی اور عکرمہ اور اس کے ساتھیوں کی ہمت افزائی ہوئی ،نتیجہ کے طور پر لقیط اور اسکی سپاہ شکست کھاکرنا بود ہوگئی ۔

اس جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل ہوگئے۔اسلام کے سپاہیوں نے فراریوں کا پیچھا کیا اور سب موت کے گھاٹ اتاردیا ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیربنالیا اور ان کے مال ومنال کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا !

اس فتح و کامیابی میں غلاموں کاپانچواں حصہ جو ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا گیا ان کی تعداد آٹھ سو افرادتھی ! عباد ناجی نے اس فتح پر درج ذیل اشعار کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم '' لقیط بن مالک '' کا چہرہ ایسا برااور بدصورت ہو چکا تھا کہ اس نے لومڑی کے چہرہ کو بھی سیاہ کر رکھا تھا۔

وہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو ابوبکر کے برابر جانتا تھا لہذا خلیج میں مہلک اور خطرناک امواج سے ٹکرایا۔

۱۵۸

جس راہ کو لقیط نے انتحاب کیا تھا نہ اس کی عقل نے اسے اس سے پیچھے ہٹا یا اور نہ اپنے حریف کو شکست دے سکا۔

سرانجام ہمارے سواروں نے ان کے اونٹ بار سمیت کھینچ لائے۔ نئی سطر سے اس کے بعد طبری کہتا ہے:

عکرمہ وہا ں سے ''مہرہ'' کی طرف روانہ ہوا۔ وہا ں کے مشرکین دوگرو ہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ہر گروہ کا سردار اپنے کو مطلق سردارجانتا تھا ۔ بنی شخرات کے شخریت نامی ایک شخص کے گرد لوگوں کی ایک جماعت جمع ہوئی تھی ۔ دوسرا کہ ''مہرہ ''کے تمام باشنددے جس کے زیر فرمان تھے بنی محارب سے ''مصبح '' نامی ایک شخص تھا ۔

عکرمہ نے جب دوسرداروں کے حاکمیت کے مسلئہ پر آپسی اختلاف کا مشاہدہ کیا اور شخریت کے ساتھیوں کی تعداد کمدیکھی تو ۔ اسے پھر سے اسلام کی طرف پلٹنے کی دعوت دی اوراس دلجوئی کی ۔ شخریت نے یہ دعوت قبول کی اور اسلام لے آیا ۔سیف کہتا ہے کہ مشرکین کے سپاہیوں نے ''جبروت ''و نضدون '[ کے درمیان صحرا ۔ جو مہرہ کے بیامان ہیں کو پر کر رکھا تھا ۔

عکرمہ جب شخریت کی طرف سے بے فکر ہواتو اس نے ''مصبح'' کو بھی پیغام بیھجا اور اسے بھی پھر سے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ لیکن مصبح اپنے حامیوں کی کثرت کی وجہ سے مغرور ہو کر تسلیم نہیں ہوا بلکہ شخریت کے جدا ہونے پر بھی سخت برہم ہوا۔

جب عکرمہ مصبح کی طرف سے مایوس ہوا ، تو اس نے شخریت کیہمراہ اس کی طرف قدم بڑھایا ۔ کچھ تعاقب و فرار کے بعد نجد کے مقام پر دونوں سپاہ ایک دوسرے سے روبرو ہوئے اور ''دبا'' سے بھی سخت جنگ چھڑ گئی.

سر انجام خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح وکامیابی عطا کی اور مشرکین کو بری شکست کاسامنا کرنا پڑا۔مصبح مارا گیا اس کے ساتھی بھاگ گئے ۔مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں تہ تیغ کر کے انہیں قتل و مجروح کیا اور ان کے مال و منال کو غنیمت میں لے لیا ۔

غنائم جنگی میں اور چیزوں کے علاوہ ان کی دو ہزار بخیب اور آزاد عورتوں کو بھی اسیر کیا !!

۱۵۹

عکرمہ نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو مشخص کر کے ''شخریت ''کے ہاتھ ابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ اس کے بعد اس علاقہ کے مسلئہ کو خاتمہ دینے کے لئے حکم دیاکہ '' نجد، ریاضہ الروضہ 'ساحل ، جزائر ،مرّ ،لبّان ، جیروت ، ظہور، صبرات ، ینعب اورذات الخیم '' کے باشندوے ایک جگہ جمع ہوجائیں ۔ جب وہ لوگ جمع ہوئے تو انہوں نے ایک بار پھر اسلام قبول کر کے عکرمہ کے ساتھ عہدو پیمان باندھا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا ۔

علجوم محاربی نے مندرجہ ذیل اشعار میں اس شکست کے بارے میں یوں کہا ہے :

خدا ئے تعا لےٰ نے شخریت اور ''ھیثم و قرضم ''کے قبائل ۔جو ہمارے خلاف اٹھے تھے ۔ کو سزادیدی۔

ظالموں اور بدکاروں کی پاداش ،کیونکہ انہوں نے پیمان کو توڑا ہمارے ساتھ تعلقات کو اپنے لئے خوار سمجھا ۔

اے عکرمہ ! اگر میرے خاندان کے کارنامے اور ان کی مدد تیرے ہمراہ نہ ہوتی تو تجھ پرفرار کا راستہ زمین و آسمان میں بند ہوجاتا ۔

ہم اس جنگ میں ایسے تھے جیسے ایک ہاتھ نے دوسرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑرکھا ہو ! اس لئے ہمیں رنج و محنت کا سامنا کر نا پڑا۔

اس داستان میں سیف کے راویوں کی پڑتال :

اس داستان میں سیف کے راوی حسب ذیل ہیں :

١۔سہل بن یوسف انصاری سلمی :

٢:غصن بن قاسم

ہم نے مذکورہ دوراویوں کے بارے میں بارہا کہا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے بلکہ جعلی راوی ہیں

۱۶۰