ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب28%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123452 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

خلیفہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ''عتاب'' نے اپنے بھائی خالد کی سر پرستی میں مکہ کے پانچ سو جنگجو آمادہ کئے ۔ اور عثمان نے بھی طائف کے باشندوں کے ایک گروہ کا انتخاب کر کے اپنے بھائی عبدالرحمان کی سرپرستی میں آمادہ کیا ۔

طبری نے بھی اپنے منبع سے سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے کہ جب ''مہاجر بن ابی امیہ '' ''یمن ''کے باشندوں پر مشتمل اپنے سپاہیوں کے ہمراہ خلیفہ ابوبکر کی طرف سے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے گزررہا تھا تو ''خالد بن اسید ابن ابی العاص '' اپنے افراد سمیت اس سے ملحق ہوا اور طائف سے عبور کرتے وقت '' عبدالرحمان بن ابی العاص '' بھی اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس کے ساتھ ملحق ہوگیا ۔

ابن فتحون نے بھی اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب'' استعیاب ''سے دریافتکیاہے ۔

اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدماکی یہ رسم تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ ''قریش یا ثقیف '' کے ان لوگوں کے علاوہ جنھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ حجتہ الودعاع میں شرکت کی تھی اور اس کے بعد مکہ یا طائف میں ساکن ہوئے تھے ،کسی کو سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

۱۴۱

علامہ ابن حجر نے اس تشریح میں سیف کی دو روایتوں پر اعتماد کیا ہے ۔ ایک کو بلاواسط سیف سے نقل کیاہے اور دوسری کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے ۔جوکچھ بیان ہوا ہے اس کی بنا پر طبری نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کر کے ١١ھ کے حوارث کے ضمن میں ''طاہر ابو ہالہ ''(۱)کی روایت میں لکھا ہے اورابن خلدون نے بھی اس کو خلاصہ کے طور پر طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔

افسانہ عبدالرحمان اور سیف کے راوی:

عبدالرحمان ابی العاص کے بارے میں سیف کے راوی جو ''تاریخ طبری'' میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :

مستنیر بن یزید نے عروہ بن عزیہ ّ سے نقل کیا ہے ۔

یہ دونوں سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

افسانہ کی پڑ تال :

سیف نے اس روایت میں عثمان ابی العاص ثقفی کے لئے ایک بھائی خلق کر کے اس کا نام ''عبدالرحمان ابی العاص ''رکھا ہے ، جس طرح ' کعب بن مالک انصاری '' کے لئے سہل(۲) بن مالک نامی ایک بھائی ''حذیفہ فزاری ''کے لئے ''ام قرفہ ''(۳)نامی ایک بیٹی اور ام الموء منین خدیجہ کے لئے ''طاہر ابوہالہ '' نامی بیٹا خلق کیا ہے ۔ اوراپنے جعلی صحابیوں کے لئے اس طرح کی تخلیقات سیف بن عمر کی خصو صیات میں سے ہے ۔

اس کے علاوہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ '' میں ابوالعاص ثقفی کے چھ بیٹے بتائے اور ان سب کا نام لیاہے ۔لیکن نام کامیں عبدالرحمان نام کا کو ئی بیٹا نظر نہیں آتا ۔

____________________

١۔''طاہر ابوہالہ ''۔اسی کتاب (٢/٢٥٣۔٢٦٥) میں ملاحظ ہو

٢)۔سہل بن مالک انصاری کے حالات اس کتاب کی تیسری جلد( ٢٧٧۔٢٨٧)

٣۔١٥٠جعلی اصحاب (٢/٢٩٤۔٣٠٧)

۱۴۲

اس کے باوجود سیف بن عمر نے عبدالرحمان کو خلق کیا ہے اور اسے ایک ایسے خاندان میں قرار دیا ہے کہ اس کی اپنی روایت کے مطابق اس کے بھائی عثمان ابوالعاص نے اسے سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب کیا ہے۔ علامہ ابن حجر نے اسی عبدالرحمان کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ میں قرار دیا ہے اور اس کے صحابی ہونے کی دلیل کے طو رپر ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدماکی رسم یہ تھی ....'' کی تکرار کر کے ثابت کر تا ہے ۔ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ اس کا کہ دعویٰ بے بنیاد اور باطل ہے اور ہم اسے ثابت بھی کر چکے ہیں ۔

اور یہ جو ابن حجر کہتا ہے :

'' اور یا وہ جو قریش یا ثقیف مکہ اور طائف میں رہ گئے '' (تاآخر )انشاء اﷲہم آیندہ اس پر بحث کریں گے ۔

مصادر و مآخذ

عبدالرحمان ابوالعاص کے حالات:

١۔''اصابہ''ابن حجر (٢/٣٩٧) پہلاحصہ ۔ نمبر: ٥١٤٧

٢۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٩٨)

عثمان ابو العاص کا نسب:

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٤٥)

طاہر ابو ہالہ کے حالات:

١۔ ''ایک سوپچاس جعلی صحابی '' (٢/٢٥٣۔٢٦٦)

۱۴۳

سہل بن مالک کے حالات :

١۔ ایک سو پچاس جعلی صحابی (٣/٢٧٧۔٢٨٧)

ام قرفہ کے حالات:

ایک سو پچاس جعلیصحابی (٣/٢٩٤۔٣٠٧)

٧٦واں جعلی صحابی عبیدہ بن سعد

اس صحابی کے بارے میں ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیاہے :

عبیدہ بن سعد :

طبری نے کہا ہے کہ ابوبکر صدیق نے حکم دیا تھا کہ ''عبید بن سعد '' مرتدوں کی جنگ میں مہاجربن ابی امیہ کی مدد کرے ۔ اس کے بعد ابوبکر نے اسے ''کندہ '' اور ''سکاسک ''کاحاکم منصوب کیا ۔ (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

عبیدہ بن سعد کی خبر کو طبری نے سیف کی دو روایتوں سے نقل کر کے ١١ ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ میں درج کیا ۔ پہلی روایت میں لکھتا ہے :

ابو بکر نے ایک خط کے ذ ریعہ مہاجربن ابی امیہ ۔ جو صنعا میں تھا ۔ کو حکم دیا کہ ''حضرموت'' کی طرف روانہ ہوجائے اور یہ بھی حکم دیا کہ ''عبیدہ بن سعد '' بھی اس کی اس مہم میں مدد کرے ۔ طبری نے دوسری روایت میں لکھا ہے :

ان دنوں ''حضر موت '' پر دوشخص حاکم تھے ، ان میں سے ایک ''عبیدہ بن سعد '' تھا جو '' سکا سک '' اور ''سکون '' پر حکمرانی کرتا تھا ............(تاآخر روایت )

۱۴۴

سکاسک اورسکون کانسب اوران کی رہائش گاہ :

''سکاسک ''اور'' سکون '' دوقبیلہ ہیں ۔ان کا نسب ، نبی کہلان بن سبا ٔ سے اشرس بن کندہ کے بیٹوں ''سکاسک '' اور ''سکون ''تک پہنچتا ہے ۔ قبیلہ سکا سک ''یمن'' کے آخری کنارے پر سکونت اختیار کی۔ ان کی سکونت کا علاقہ بھی اسی نام سے مشہور تھا ۔

قبیلہ'' سکون'' دوحصوں میں تقسیم ہوا تھا ۔ ان میں سے ایک حصہ ''حضرموت '' میں اور دوسرا حصہ '' دومتہ الجندل '' شام کی راہ پر سکونت کرتا تھا ۔

افسانہ ٔ عبیدہ کے راوی کی پڑتال :

سیف نے اپنی روایتوں میں سے ایک کے راوی کے طور پر سہل بن یوسف '' کا نام لیاہے اوراسے ''سہل انصاری '' کا پوتہ بتایا ہے ، اور یہ اس کے جعلی راویوں میں سے ایک ہے ۔

تاریخی حقائق :

خلیفہ بن خیاط نے خلیفہ ٔ ابوبکر کے تمام گماشتوں اور کا رگزاروں کو اپنی کتاب ''تاریخ کے ایک خاص حصہ میں ''ابو بکر کے کارگزار ''کے عنوان سے حسب ذیل درج کیا ہے :

ابو بکر کی وفات تک بحرین پر ''علاء حضرمی '' حکومت کرتا تھا ۔ابوبکر نے ''عکرمۂ ابو جہل '' کو ماموریت دی کہ ''عمان'' کے مرتد لوگوں کو سر کوب کرے ۔ ان پر فتح پانے کے بعدوہ خلیفہ کی طرف سے '' یمن'' کا حکم مقرر ہوا

''عمان ''کی حکومت ''حذ یفہ قلعانی '' کو سونپی کہ وہ ابوبکر کی زندگی کے آخری دنوں تک اس عہدہ پر باقی تھا ۔

''مہاجر بن ابی امیہ مخزوی'' اور ''زیادبن لبید انصاری '' کو ''یمن '' کی مأموریت دی ۔ اس ترتیب سے کہ زیاد اور نجیل کے باشندوں کے درمیان مشکلات پیدا ہونے کے بعد '' صنعا''، کی حکومت مھاجرکو سونپی ،اور زیا د کو ساحل اور بناد رکا حاکم مقرر کیا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ''عتاب بن اسید '' کو مکہ پر اور عثمان بن ابی العاص کو طائف پر حاکم منصوب کیا ۔ عتاب اور ابوبکر نے ایک ہی دن رحلتکی ہے ۔

۱۴۵

اس کے بعد ابن خیا ط لکھتا ہے :

ہم نے اس سے پہلے شام کے بارے میں ، عراق میں خالد کی داستان ، حکام کے نام ،جنگوں میں ابوبکر کی طرف سے منصوب سپہ سالارو ں اور فوجی معاہدوں کے بارے میں ذکر کیا ہے ۔

ابوبکر نے ١٢ھ میں فریضہ حج ادا کیا ہوا اور اپنی جگہ پر ''قتادہ بن نعمان ظفری ''انصاری کو مدینہ میں اپناجا نشین مقرر کیا ۔اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ان کا جانشین ''ابن امّ مکتوم '' تھا ۔

خلیفہ بن خیا ط نے ایک فصل میں اس سے پہلے لکھا ہے :

جب ابوبکر نے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے ''ذی القصہ '' کی طرف عزیمت کی تو اپنی جگہ پر مدینہ میں ''سنان ضمری '' کوجانشین مقرر کیا ۔ اور یہ بھیکہا گیاہے ''اُسامہ بن زید '' کو مدینہ کی گزر گا ہوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی ۔

بحث کا نتیجہ :

ہم نے دیکھا کہ خلیفہ بن خیاط نے خلیفہ اول ابوبکر کی خلافت کے دوران خلیفہ کے تمام کارگزاروں اور گماشتوں کافرداً فرداً نام لیا ہے اور ان کی ماموریت کی جگہ اور ، تاریخ مأموریت کے بارے میں مفصل لکھا ہے لیکن ان میں ''عبیدہ بن سعد ''نام کا کوئی شخص دکھا ئی نہیں دیتا ہے !

لیکن ،سیف نے اس خیالی چہرہ کو اپنی گڑھی ہوئی دوروایتوں سے ذکر کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''فتوح '' میں درج کیا ہے اورطبری نے اسے ایک قطعی مصدر جان کر اپنی معتبر تاریخ میں درج کیاہے ۔

ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے ''عبیدہ ''کو اپنی کتا ب ''اصابہ '' کے حصہ اول میں رسول اﷲ کے ان اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے جو سپہ سالار ہونے کی وجہ سے صحابی شمار کئے گئے ہیں ۔ اور اس کے حالات بھی لکھے ہیں ۔

۱۴۶

مصادر و مآخذ

عبیدہ بن سعد حالات :

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٢/٤٤٢)حصہ اول نمبر:٥٣٨١

عبیدہ کے بارے میں سیف کی روایتں :

١۔''تاریخ طبری ''(١/٢٠٠١)و(١/٢٠١٣)

ابوبکر کے گماشتوں اور کارگزاروں کے نام:

١۔''تاریخ خلیفہ بن خیا ط ''(١/١٩١)

سکاسک اور سکون کا نسب:

١۔''جمہرہ انساب '' ابن حزم (٣٢٩۔٣٣٢)

٢۔''اشتقاق''ابن درید لفظ ''سکاسک ''اور سکون''

٣۔''تاج العروس'' لفظ''سکاسک ''

٤۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''سکاسک '' و ''دومة الجندل ''

۱۴۷

٧٧واں جعلی صحابی خصفۂ تیمی

یہ صحابی ' ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں پہنچوایا گیا ہے :

خصفہ تیمی:

طبری نے روایت کی ہے کہ خصفہ تیمی کو علاء حضرمی نے ارتداد کی جنگوں میں اپنی فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر مقرر کیا ہے ۔

ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ قدما کی رسم یہ تھی کہ جنگو ں میں صحابیوں کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پرفائزنہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اسی استدلال کی بنا ء پر ''خصفہ '' کو بعنوان صحابی قبول کیا ہے ، بجائے اس کے کہ اصل خبر پر کوئی تحقیق کرے ۔

لیکن اس خبر کی اصلیت کے بارے میں ہم نے گزشتہ صفحات میں ''عامر بن عبدالاسد ''کے حالات کے ضمن میں سیف کی روایت میں پڑھا ہے کہ علاء حضرمی نے عامر اور دوسرے لوگوں کو ایک پیغام کے ذریعہ حکم دیا تھا کی مرتدوں کی نقل و حرکت میں رکا وٹ بنیں ۔

طبری سیف سے نقل کر کے اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :

علاء نے ''خصفۂ تیمی'' اور ''مثنی بن حارث شیبانی '' کے نام ایک جیسے پیغام بھیجے ۔ وہ بھی مرتدو ں کے راستے میں گھات لگاکر بیٹھے اور ان کی ہر قسم کی فعالیت کو معطل کر کے رکھدیا ۔

داستان کا سرچشمہ :

ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ سیف بن عمر نے اس داستان کو اول سے آخر تک خود جعل کیا ہے ۔ اور اسے ''سہل بن یوسف بن سہل ''جیسے راویوں کی زبانی جاری کیا ہے کہ دونوں باپ بیٹے سیف کے جعلی اصحاب میں سے ہیں ۔ ہم نے بارہا ان کے جعلی و خیالی ہونے کا تذکردیا ہے ۔

۱۴۸

لیکن درج ذیل علماء نے''خصفہ ''کے افسانہ کو نقل کرنے کا براہ راست اقدام کیاہے :

١۔طبری نے اسے بلاواسطہ سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کیاہے

٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے اسی ایک مختصر جملہ میں ، جس میں خصفہ کا نام آیا ہے ، سے استفادہ کرتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے صحابیوں میں قرار دیا ہے ۔ اور اس کے حالات پر حرف''خ'' کے تحت شرح لکھی ہے اور آخرمیں اپنے مشہور قاعدہ کی بھی قید لگادی ہے ۔

ایک اور جعلی صحابی :

ابن حجر نے ''خصفہ ٔ تیمی ''کے حالات پر روشنی ڈالنے سے پہلے ایک مجہول راوی سے ایک دوسری روایت پر استناد کر کے خصفہ یا ابن خصفہ یا خصیفہ نام کے ایک دوسرے شخص کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے درج کیا ہے ۔

ابن اثیر نے بھی ایسا ہی کر تے ہوئے اسی مجہول راوی پر اعتماد کر کے ان ناموں کو رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے !

ان دوعلماء نے ایک بار ایک مجہول راوی کے کہنے پر اعتماد کر کے '' خصفہ '' یا ''ابن خصفہ '' یا خصیفہ نام کے صحابیوں کو پہچنوایا ہے اور دوسری بار جھوٹے ورزندیقی سیف کی روایتسے استناد کر کے خصفہ تیمی کو صحابی جان کر اس کے حالات لکھے ہیں !

جی ہا ں !یہی وجہ ہے کہ مکتب خلفاء کے پیروؤں کے درمیا ن جعلی اصحاب کی تعداد فرواں پائی جاتی ہے ۔

۱۴۹

مصادر و مآخذ

خصفہ تمیی کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر ( ١/٤٢٨) حصہ اول نمبر: ٢٦٦٩

خصفہ تمیی کے بارے میں سیف کی روایت:

١؛تاریخ طبری (١/١٩٧)

خصفہ یا ابن خصفہ کے حالات:

١۔''اسدالغابہ'' ابن اثیر (٢/١٩٧)

٢۔''تجرید'' ذہبی (١/١٧١)

٣۔''اصابہ ابن حجر (١/٤٢٧۔٤٢٨) نمبر: ٢٢٦٨

٧٨واں جعلی صحابی یزید بن قینان

اس صحابی کے حالات ہم ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں یوں پڑھتے ہیں :

یزید بن قینان:بنی مالک بن سعد سے۔

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح ''اور طبری نے اپنی تاریخ میں اس کانام لیا ہے اور لکھا ہے کہ ''عکرمہ بن ابی جہل '' نے اسے چند ساتھیوں کے ہمراہ ارتداد کی جنگوں میں شریک کیا ہے اور قبائل ''کندہ '' کے مرتددں کی سرکو بی کے لئے مأموریت دی ہے

اس صحابی کو ابن فتحون نے ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیاب '' سے دریافت کیا ہے۔خدا بہتر جانتا ہے .(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

۱۵۰

نسب:

سیف کے اس جعلی صحابی کے باپ کا نام ''تاریخ طبری '' میں ایک جگہ پر ''قناّن '' اور ایک دوسرے نسخہ میں ''فتیان ''درج ہوا ہے ۔

لیکن سعد کا نام جواس کے سلسلہ ٔ نسب میں نظر آتا ہے اور بنی مالک اس سے پیدا ہوئے ہیں وہ''ابن زید مناةبن تمیم ''تھا ۔

یزید قینان کی داستان تاریخ طبری میں :

طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ''اخبار ارتداد حضرموت '' اور ''جنگ نجیر'' والے حصہ میں سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھتا ہے :

عکرمہ نے اپنے جنگجو سواروں کو ''قبائل کندہ '' میں منتشر کیا اور انھیں حکم دیا کہ انھیں کچل کے رکھدیں ۔ اس مہم میں ماموریت پانے والے سرداروں میں بنی مالک بن سعد سے'' یزید بن قنان ' ' بھی تھا

عکرمہ کے سواروں کے اس حملہ کے نتیجہ میں ''بقری '' اور بنی ھند'' سے ''برہوت'' تک کے تمام باشندے قتل عام ہوئے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

سیف کی روایت میں ''نجیر ''کی جنگ کی بات کہی گئی ہے اور یہ حضر مو ت کے نزدیک ایک قلعہ تھا ، جہا ں پر اشعت بن قیس کی سرپرستی میں کندی افراد ابوبکر کے سپاہیوں کے محاصرہ میں آگئے تھے۔

جب محاصرہ روز بروز سخت ہوتا گیا تو اشعت نے بڑی بے غیرتی سے اپنے رشتہ داروں میں سے سترافراد کے لئے امان حاصل کی، اس کے بعد اپنے دوسرے ساتھیوں کے بارے میں کسی قسم کی پروا کئے بغیرحکم دیا کہ قلعہ کے دروازے خلیفہ کے سپاہیوں کے لئے کھول دیں !

ابو بکر کے سپاہیوں نے قلعہ کے اندر یورش کی اور اشعث اور امان یافتہ اشخاص کے علاوہ اس کے باقی تمام باوفا ساتھیوں جن کی تعداد سات سو امراء اور کند کے عوامی سپاہیوں پر مشتمل تھی قتل عام کئے گئے ! ان کی لاشوں کو بے گور و کفن زمین پر پڑا رکھا گیا ،ان کی عورتوں کو اسیر بنا یا گیا اور ان کے مال و منال کو لوٹ لیا گیا !!

۱۵۱

سیف کی اس روایت میں جن مقامات کا نام آیا ہے ، وہ حسب ذیل ہیں :

١۔برہوت، یہ یمن میں ایک بیابان کانام ہے ۔

٢۔ بقران ، یمن کے اطراف میں ایک علاقہ کو کہاجاتا ہے .لیکن ہم نے ''بقری '' نام کی کوئی جگہ جغرافیہ کی کتابوں میں کہیں نہیں پائی ۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ''بقری '' کو خلق کرنے میں سیف کا مقصد کیا تھا ؟!

یزید قینان کی روایت کی پڑتال :

سیف تنہا شخص ہے جس نے یزید قینان کی داستان کو ''سہل ''اور اس کے باپ''یوسف '' کی زبانی نقل کیا ہے ۔ اس جھوٹے نے روایت کو اپنے جعلی راویوں کی زبان پرجاری کیا ہے۔

بحث کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جس نے عکرمہ بن ابی جہل کی طرف سے ''یزید بن قینان'' کو سیف کے بقول مرتد لوگوں کی سرکوبی اور انھیں قتل کرنے کے حکم کی روایت کی ہے

سیف تنہا شخص ہے جس نے اس لشکر کشی میں ''بقری بنی ھند تا برہوت '' کے باشندوں کے قتل عام کی بات کہی ہے ۔واضح ہے کہ اس قسم کے جھوٹ کو کہنے میں اس کا مقصد خاندان تمیم کی شجاعتوں اور دلاوریوں کو چار چاند لگاکر ان کی شہرت کرنا ہے ۔

دوسری جانب سیف ارتداد کی جنگوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان جنگوں کے بارے میں سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی خبروں کو گڑھ کے پیش کرنے میں یہ مقصد رکھتا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو سکے یہ ثابت کرے کہ اسلام نے عرب قبائل کے دلوں میں کوئی خاص نفوذ نہیں کیا تھا ۔ اس لئے جوں ہی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی ، وہ آسانی کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دین سے منہ موڈکر پھرسے جاہلیت اور بت پرستی کی طرف پلٹ گئے ۔اور یہ خلیفہ ابوبکر تھے جنہوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام کو دوبارہ استحکام بخشا ہے !

۱۵۲

تاریخ اسلام پر سیف کے روا رکھے گئے ان خوفنا ک جرائم کے بعد طبری جیسے بزرگ عالم کی باری میں آتی ہے اور وہ اس عیار' جس پر جھوٹ بولنے اور زندیقی ہونے کا الزام بھی ہے، کے افسانوں کو اپنی گراں قدر اورمعتبر کتاب میں درج کرتا ہے۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک اور عالم ابن فتحون آکر سیف کی روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ''یزید بن قینان '' کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیا ب '' سے دریافت کرتا ہے !

اورسرانجام ابن حجر سیف کے خیالات کی مخلوق''یزید بن قینا ن '' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں قرار دیتا ہے اور اس کے حالات لکھ کر اپنی کتا ب ''اصابہ ' میں درج کرتا ہے ۔

مصادر و مآخذ

یزید بن قینان کے حالات :

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٦٣٥) تیسرا حصہ نمبر:٩٤١٢

یزید بن قینان کی داستان کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٠٠١۔٢٠٠٧)

اشعث بن قیس کی داستان اور '' کندہ '' کا ارتداد:

١۔''فتوح'' ابن اعثم (١/٥٦۔٨٧)

٢۔''فتوح البلدان '' بلاذری (١٢٠۔١٢٤)

٣۔''عبداﷲبن سبائ''(٢/٢٨٧۔٣٠٤)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''نجیر '' (٤/٧٦٢۔٧٦٤) اور لفظ ''حضر موت'' (٢/٢٨٤۔٢٨٧)

سیف کے اجعل کردہ مقامات کی تشریح:

١۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''بقرہ '' (١/٦٩٩)

لفظ ''برہوت '' (١/٥٩٨)

۱۵۳

٧٩واں جعلی صحابی صیحان بن صوحان

اس صحابی کے تعارف میں ابن حجر یوں لکھتا ہے :

صیحان بن صوحان عبدی :

سیف بن عمر نے اس کا نام لیا ہے اوراس کے ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی خبر دی ہے ۔ ماجرا کی تفصیل حسب ذیل ہے:

اسی وقت جبکہ عمان میں '' لقیط بن مالک ازدی '' پیغمبر ی کا دعویٰ کر رہا تھا،ابوبکر کے حکم سے ''عکرمہ بن ابوجہل '' عرفجہ ، جبیر اور عبید ''اس سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوئے ،لیکن مشرکین کی فوج کی کثرت کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ قریب تھا ''لقیط '' خلیفہ کے سپاہیوں پر غلبہ پاجا ئے اورانہیں نابود کر کے رکھدے ۔ اسی اثنا ء میں ''حارث بن راشد '' اور ''صیحان بن صوحان عبدی '' کی سرکردگی میں قبائل بنی ناجیہ ابوعبدالقیس کے سپاہی ان کی مدد کے لئے آپہنچے ۔ ان کے آنے سے مسلمان فوج بڑھ گئی اور لقیط کے ساتھی شکست کھاگئے ۔ بالآخر لقیط اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ اس جنگ میں ماراگیا (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :

سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو ''عبدی '' کہا ہے ۔ اور یہ قبائل عدنان سے ''عبدالقیس بن افصیٰ'' کی طرف نسبت ہے لیکن طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اس نسب کو ''سیحان بن صو حان '' (حرف سین) کے لئے درج کیا ہے !

ابن ماکو لا کی کتاب ''اکمال '' میں بھی سیف بن عمر سے نقل کر کے لقیط سے جنگ میں بجائے ''حارث بن راشد'' اور ''صیحان بن صوحان''بالترتیب '' خریت بن راشد'' اور '' سیحان بن صوحان '' درج کیا گیا ہے ابن ماکو لا لکھتاہے :

اور ''خریت بن راشد''اور ''سیحان بن صوحان '' لقیط بن مالک ازدی کے خلاف جنگ میں بنی ناجیہ اورعبدالقیس کے سپاہیوں کے سپہ سالار تھے ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب''اصابہ '' میں حرف ''سین '' کے تحت ''سیحان بن صوحان '' کے حالات پر الگ سے روشنی ڈالی ہے ۔ گمان کیا جاتا ہے کہ ابن حجر کے پاس کتاب سیف یا تاریخ طبری کے موجود نسخوں نے اسے غلطی سے دوچار کیا ہے تاکہ اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ایک دوسرے صحابی کو ''سیحان بن صوحان '' کے نام سے درج کرئے۔

۱۵۴

جبکہ نسب شناسوں ، جیسے ابن درید نے اپنی کتاب ''اشتقاق '' میں ، ابن خیاط نے طبقات''میں اثیر نے کتاب ''اللباب'' میں صوحان کے تین بیٹے بنام ''زید '' صعصعہ اور سیحان صراحت سے درج کئیہیں ۔ چوتھا بیٹا بنام صیحا ن بن صوحان خلق کیا گیا ہے اور ابن حجر نے اسے بھی صوحان سے منسوب کر دیا ہے ۔ احتمال یہ ہے کہ مغالطہ ''تاریخ طبری کے اس نسخہ کی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پایا ہے جو ابن حجر کے پاس موجود تھا نتیجہ میں اس عالمنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جعلی صحابیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیاہے ۔

٨٠واں جعلی صحابی عبادناجی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

عبادناجی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اس کا نام ذکر کیا ہے.

عباد ان افراد میں سے ہے جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کازمانہ درک کیا ہے .اور ابوبکرکے زمانہ کی بعض فتوحات میں شرکت کی ہے ۔ز

نسب :

ایسا لگتا ہے کہ سیف نے لفظ ''ناجی'' سے قبائل عدنان کے '' بنی سامة بن لوی '' کے منسوبین مراد لئے ہیں یہ وہ خاندان ہے جسے سیف نے اپنے افسانہ میں ''خر ّیت بن راشد'' کے ہمراہ ''دبا'' کی جنگ میں شریک کیا ہے !

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہالینڈکا مشہور دانشمند و مستشرق''ایم ۔جے ۔ڈی گویجی ''(۱)

____________________

١) M.J.Degoeje مشہور ہالینڈی مستشرق ۔ اس کے جملہ آثار میں سے ''تاریخ طبری ''اور اس کی فہرست ہے کہ ''مکتبة الجغرافیین فی العرب''کی طرف سے ١٨٠١ ء لیڈن میں طبع ہوئی ہے اور ہم نے اپنے مباحث کے دوران اس کی طرف رجوع کیا ہے۔

۱۵۵

سیف کے'' عباد ناجی'' کاتعارف کرانے میں مغالطہ سے دوچار ہوا ہے ، جہاں وہ ''تاریخ طبری ''کی اپنی فہرست میں لکھتاہے :

گویایہ شخص''عباد بن منصور'' ہے ، کیونکہ عباد بن منصورناجی ایک محدث تھا ،جو ١٢٩ھ سے ١٤٥ھ تک بصرہ کے قاضی کے عہدہ پر فائز تھا اور ١٥٢ھ میں فوت ہوا ہے ۔

''ڈی گویجی'' کی یہ بات سیف کی روایت سے مغایرت رکھتی ہے ، کیونکہ اس ''عباد ناجی '' کو سیف نے ١١ھ میں ''خریت بن راشد '' کے ہمراہ''دبا''کی جنگ اور قتل عام میں شرکت کرتے دکھایا ہے ، اور اسی سبب سے ابن حجر نے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ١١ھ سے ١٥٢ھ تک ایک لمبا زمانی فاصلہ ہے

ابن حجر نے ''عباد ناجی '' کو اس اعتقاد پر کہ اس نے بقول سیف جنگ ''دبا'' میں شرکت کی ہے ، ''لہ ادراکُ''کی عبارت سے استفادہ کرکے اس کا بعنوان صحابی تعارف کرایا ہے ، اگر چہ سیف نے اس جنگ میں اس کو کوئی عہدہ نہیں سونپا ہے بلکہ صرف اُن اشعار پر اکتفا کی ہے ، جو اس نے اس کی زبان پر جاری کئے ہیں (۱)

____________________

ا۔ یہ اشعار ان تین صحابیوں کے بارے میں ایک جامع بحث میں بیان کئے جائیں گے۔

۱۵۶

٨١واں جعلی صحابی شحریب

اس صحابی کے بارہ میں ابن حجر نے یوں لکھا ہے :

شحریب ، بنی نجرات سے ایک شخص:

وہ من جملہ ان افراد میں سے ہے جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ درک کیا ہے ۔

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف سے اس نے ابوبکر صدیق کے پوتے قاسم بن محمد سے روایت کی ہے '' شحریب '' نے ''عکرمہ بن ابی جہل ''کے ہمراہ یمن کے مرتدوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی ہے ۔ عکرمہ نے اس فتح کی نوید اورغنائم کا پانچواں حصہ شجریب کے ہمراہ ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا ہے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب:

ابن حجر کی ''اصابہ '' میں شحریب کو ''بنی بخرات'' کے ایک شخص کے طور پر درج کیا گیا ہے،جبکہ طبری نے سیف کی روایت کے مطابق اپنی تاریخ میں ''شخریت'' ''بنی شخرات'' سے ایک شخص کے طور پر ذکر کیا ہے ! ہمارے خیال میں یہ مغالطہ ''تاریخ طبری ''کی نسخہ برداری کرتے وقت کتابت کی غلطی سے وجود میں آیا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر بقول ِسیف ''تاریخ طبری '' ، شحریب '' سپہ سالاری کے عہدہ پر فائز تھا (۱)،لیکن چونکہ لشکر اسلام سے ملحق ہونے سے پہلے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو گیاتھا ، لہذا سے ابن حجر نے خصو صی حکم ''لہ ادراک''جاری کر کے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے زمرہ میں قرار دیا ہے ۔

____________________

١۔اس کی داستان '' ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث'' میں آئے گی۔

۱۵۷

ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث

صیحان ،عبادناجی اورشحریب

طبری نے ''عمان ، مہرہ اور یمن '' کے باشندوں کے ارتداد کے بارے میں سیف سے نقل کرکے ایک مفصل شرح لکھی ہے ۔ ہم اس کا خلاصہ ذیل میں قاریئن کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

لقیط بن مالک عمان میں مرتد ہوا ۔ دوسرے جھوٹے پیغمبر ی کا دعوی کر نے والوں کی طرح اس نے بھی پیغمبر ی کا دعویٰ کیا اور ''دبا'' کی طرف چلاگیا۔ وہا ں پر تبلیغ کرنے لگا اورچند پیرو بھی بنالئے ۔

ابو بکر نے اس کے فتنہ کو کچلنے کے لئے عکرمہ ابوجہل '' کو عرفجہ اور حذیفہ کے ہمراہ ایک سپاہ کی معیت میں ''دبا '' کی طرف روانہ کیا ۔ اسلام کے سپاہیوں اورلقیط کے حامیوں کے درمیان ایک شدید جنگ چھڑگئی ، اور نزدیک تھا کہ لقیط اور اس کے سپاہی کا میاب ہوجائیں کہ ''خریت بن راشد'' کی کمانڈ میں ''بنی ناجیہ ''اور سیحان بن صوحان ، کی کمانڈ میں ''عبدالقیس''کے قبیلہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مدد پہنچی اور عکرمہ اور اس کے ساتھیوں کی ہمت افزائی ہوئی ،نتیجہ کے طور پر لقیط اور اسکی سپاہ شکست کھاکرنا بود ہوگئی ۔

اس جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل ہوگئے۔اسلام کے سپاہیوں نے فراریوں کا پیچھا کیا اور سب موت کے گھاٹ اتاردیا ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیربنالیا اور ان کے مال ومنال کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا !

اس فتح و کامیابی میں غلاموں کاپانچواں حصہ جو ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا گیا ان کی تعداد آٹھ سو افرادتھی ! عباد ناجی نے اس فتح پر درج ذیل اشعار کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم '' لقیط بن مالک '' کا چہرہ ایسا برااور بدصورت ہو چکا تھا کہ اس نے لومڑی کے چہرہ کو بھی سیاہ کر رکھا تھا۔

وہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو ابوبکر کے برابر جانتا تھا لہذا خلیج میں مہلک اور خطرناک امواج سے ٹکرایا۔

۱۵۸

جس راہ کو لقیط نے انتحاب کیا تھا نہ اس کی عقل نے اسے اس سے پیچھے ہٹا یا اور نہ اپنے حریف کو شکست دے سکا۔

سرانجام ہمارے سواروں نے ان کے اونٹ بار سمیت کھینچ لائے۔ نئی سطر سے اس کے بعد طبری کہتا ہے:

عکرمہ وہا ں سے ''مہرہ'' کی طرف روانہ ہوا۔ وہا ں کے مشرکین دوگرو ہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ہر گروہ کا سردار اپنے کو مطلق سردارجانتا تھا ۔ بنی شخرات کے شخریت نامی ایک شخص کے گرد لوگوں کی ایک جماعت جمع ہوئی تھی ۔ دوسرا کہ ''مہرہ ''کے تمام باشنددے جس کے زیر فرمان تھے بنی محارب سے ''مصبح '' نامی ایک شخص تھا ۔

عکرمہ نے جب دوسرداروں کے حاکمیت کے مسلئہ پر آپسی اختلاف کا مشاہدہ کیا اور شخریت کے ساتھیوں کی تعداد کمدیکھی تو ۔ اسے پھر سے اسلام کی طرف پلٹنے کی دعوت دی اوراس دلجوئی کی ۔ شخریت نے یہ دعوت قبول کی اور اسلام لے آیا ۔سیف کہتا ہے کہ مشرکین کے سپاہیوں نے ''جبروت ''و نضدون '[ کے درمیان صحرا ۔ جو مہرہ کے بیامان ہیں کو پر کر رکھا تھا ۔

عکرمہ جب شخریت کی طرف سے بے فکر ہواتو اس نے ''مصبح'' کو بھی پیغام بیھجا اور اسے بھی پھر سے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ لیکن مصبح اپنے حامیوں کی کثرت کی وجہ سے مغرور ہو کر تسلیم نہیں ہوا بلکہ شخریت کے جدا ہونے پر بھی سخت برہم ہوا۔

جب عکرمہ مصبح کی طرف سے مایوس ہوا ، تو اس نے شخریت کیہمراہ اس کی طرف قدم بڑھایا ۔ کچھ تعاقب و فرار کے بعد نجد کے مقام پر دونوں سپاہ ایک دوسرے سے روبرو ہوئے اور ''دبا'' سے بھی سخت جنگ چھڑ گئی.

سر انجام خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح وکامیابی عطا کی اور مشرکین کو بری شکست کاسامنا کرنا پڑا۔مصبح مارا گیا اس کے ساتھی بھاگ گئے ۔مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں تہ تیغ کر کے انہیں قتل و مجروح کیا اور ان کے مال و منال کو غنیمت میں لے لیا ۔

غنائم جنگی میں اور چیزوں کے علاوہ ان کی دو ہزار بخیب اور آزاد عورتوں کو بھی اسیر کیا !!

۱۵۹

عکرمہ نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو مشخص کر کے ''شخریت ''کے ہاتھ ابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ اس کے بعد اس علاقہ کے مسلئہ کو خاتمہ دینے کے لئے حکم دیاکہ '' نجد، ریاضہ الروضہ 'ساحل ، جزائر ،مرّ ،لبّان ، جیروت ، ظہور، صبرات ، ینعب اورذات الخیم '' کے باشندوے ایک جگہ جمع ہوجائیں ۔ جب وہ لوگ جمع ہوئے تو انہوں نے ایک بار پھر اسلام قبول کر کے عکرمہ کے ساتھ عہدو پیمان باندھا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا ۔

علجوم محاربی نے مندرجہ ذیل اشعار میں اس شکست کے بارے میں یوں کہا ہے :

خدا ئے تعا لےٰ نے شخریت اور ''ھیثم و قرضم ''کے قبائل ۔جو ہمارے خلاف اٹھے تھے ۔ کو سزادیدی۔

ظالموں اور بدکاروں کی پاداش ،کیونکہ انہوں نے پیمان کو توڑا ہمارے ساتھ تعلقات کو اپنے لئے خوار سمجھا ۔

اے عکرمہ ! اگر میرے خاندان کے کارنامے اور ان کی مدد تیرے ہمراہ نہ ہوتی تو تجھ پرفرار کا راستہ زمین و آسمان میں بند ہوجاتا ۔

ہم اس جنگ میں ایسے تھے جیسے ایک ہاتھ نے دوسرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑرکھا ہو ! اس لئے ہمیں رنج و محنت کا سامنا کر نا پڑا۔

اس داستان میں سیف کے راویوں کی پڑتال :

اس داستان میں سیف کے راوی حسب ذیل ہیں :

١۔سہل بن یوسف انصاری سلمی :

٢:غصن بن قاسم

ہم نے مذکورہ دوراویوں کے بارے میں بارہا کہا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے بلکہ جعلی راوی ہیں

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسئلہ ١ ۴ ٨٧ اگر امام غلطی سے ایسی رکعت ميں قنوت پڑھ لے جس ميں قنوت نہيں ہے یا جس رکعت ميں تشهد نہيں ہے اس ميں تشهد پڑھنے ميں مشغول ہو جائے تو ضروری ہے کہ ماموم قنوت اور تشهد نہ پڑھے ليکن وہ امام سے پهلے رکوع ميں نہيں جا سکتا اور امام سے پهلے قيام نہيں کرسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام کا قنوت اور تشهد تمام ہوجائے اور اپنی بقيہ نماز کو امام کے ساته پڑھے۔

نمازجماعت ميں امام اور ماموم کا وظيفہ

مسئلہ ١ ۴ ٨٨ اگر ماموم ایک مرد ہو تو احتياط واجب کی بنا پر وہ امام کی دائيں طرف کهڑا ہو اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا چند عورتيں ہوں تو مرد دائيں طرف اور بقيہ عورتيں امام کے پيچهے کهڑی ہو ں اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتيں ہوں تومرد امام کے پيچهے اور عورتيں مردوں کے پيچهے کهڑی ہوں اور اگر ایک یا چند عورتيں ہوں تو امام کے پيچهے کهڑی ہوں اور ایک عورت ہونے کی صورت ميں مستحب ہے کہ امام کے پيچهے دائيں سمت ميں اس طرح کهڑی ہو کہ اس کی سجدے کی جگہ امام کے گھٹنوں یا قدم کے مقابل ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٩ اگر ماموم اور امام دونوں عورتيں ہوں تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے برابر ميں کهڑی ہوں اور امام ان سے آگے نہ ہو۔

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مستحب ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩٠ مستحب ہے کہ امام صف کے درميان ميں کهڑا ہو اور صاحبان علم، کمال اور تقویٰ پهلی صف ميں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩١ مستحب ہے کہ جماعت کی صفيں منظّم ہو ں اور ایک صف ميں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درميان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کاندهے ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٢ مستحب ہے کہ ”قد قامت الصلاة“ کهنے کے بعد مامومين کھڑے ہوجائيں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٣ مستحب ہے کہ امام اس ماموم کی حالت دیکھ کرنماز پڑھائے جو مامومين ميں سب سے زیادہ ضعيف ہو اور قنوت، رکو ع،اور سجدے کو طول نہ دے، ليکن اگر جانتا ہو کہ تمام مامومين طول دینے کی طرف مائل ہيں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۴ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد،سورہ،اور بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار نماز ميں اپنی آواز اتنی اونچی کرے کہ دوسرے مامومين سن ليں، ليکن ضروری ہے کہ اپنی آواز حد سے زیادہ اونچی نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۵ اگر امام کو رکوع کے دوران یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی ماموم ابهی ابهی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کواپنے معمول سے دگنا طول دے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے، اگرچہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی اور بھی اقتدا کے لئے آیا ہے ۔

۲۴۱

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۶ اگر جماعت کی صفوں کے درميان جگہ خالی ہو تو مکروہ ہے کہ انسان اکيلا کهڑا ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٧ ماموم کا اذکارِ نماز کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ جس مسافر کونماز ظهر،عصراور عشا دو رکعت پڑھنا ہيں ، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہيں ہے مکروہ ہے او رجو شخص مسافر نہيں اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے ۔

نماز آيات

مسئلہ ١ ۴ ٩٩ نماز آیات کہ جس کے پڑھنا کا طریقہ بعد ميں بيان ہوگا چار چيزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :

١) سورج گرہن ۔

٢) چاند گرہن۔ اگر چہ ان کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور اس کی وجہ سے کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

٣) زلزلہ، اگرچہ کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

۴) گرج چمک اور سرخ وسياہ آندهی اور ان جيسی دوسری آسمانی نشانياں، اس صورت ميں کہ اکثر لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائيں۔ جها ں تک زمينی حادثات کا تعلق ہے جيسے کہ دریا کا پانی خشک ہوجانا اور پهاڑ کا گرنا جو کہ اکثر لوگوں کہ خوف زدہ ہونے کاباعث ہوتاہے ، تو ان ميں نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٠ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگروہ ایک سے زیادہ ہو جائيں تو ضروری ہے کہ انسان ان ميں سے ہر ایک کے لئے نمازآیات پڑھے۔ مثلاً سورج گرہن بھی ہو اور زلزلہ بھی آجائے تو ضروری ہے کہ ایک نمازآیات سورج گرہن کے لئے اور ایک نماز آیات زلزلے کے لئے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠١ جس شخص پر ایک سے زیادہ نماز آیا ت کی قضا واجب ہو خواہ وہ ایک چيز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ تين مرتبہ سورج گرہن ہوا ہو اور اس شخص نے تينوں مرتبہ نماز آیات نہ پڑھی ہو، یا چند چيزوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ سورج گرہن بھی ہوا ہو اور چاند گرہن بهی، ا ن کی قضا بجا لاتے وقت ضروری نہيں ہے کہ وہ شخص یہ معين کرے کہ کون سی نماز کی قضا کر رہا ہوں، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگرچہ اجمالا ہی سهی، انہيں معين کرے مثلاًیہ نيت کرے کہ جو پهلی نماز آیات یا دوسری نماز آیات جو مجھ پر واجب ہوئی تھی اس کی قضا بجا لا رہا ہوں۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٢ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ کسی جگہ واقع ہوجائيں تو صرف اسی جگہ کے لوگوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہيں ہے ۔

۲۴۲

مسئلہ ١ ۵ ٠٣ سورج یا چاند کو گرہن لگنے کی صورت ميں نمازآیا ت پڑھنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج یا چاند کو گهن لگنا شروع ہوجائے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب سورج یا چاند مکمل طور پر گرہن سے نکل آئيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی تاخير نہ کرے کہ سور ج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع ہوجائيں، بلکہ گرہن کی ابتدا ميں ہی نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۴ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ چاند یا سورج گرہن سے نکلنا شروع ہو جائيں تو اس کی نمازادا ہے ، ليکن پورا سورج یاچاند،گرہن سے نکل جانے کی صورت ميں اس کی نمازقضا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۵ اگر چاند گرہن یا سورج گرہن کی مدت ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔اسی طرح اگر گرہن کی مدت ایک رکعت سے زیادہ ہو اور انسان نمازنہ پڑھے یهاں تک کہ ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم وقت باقی رہ گيا ہو تب بھی نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۶ انسان کے لئے واجب ہے کہ زلزلہ،گرج چمک اور انهی جيسی دوسری چيزوں کے وقوع کے وقت نماز آیات پڑھے اور ضروری ہے کہ نماز کو اتنی دیر سے نہ پڑھے کہ عرفا لوگ اسے تاخير کہيں اور تاخير کرنے کی صورت ميں اپنی نماز پڑھے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ادا یا قضا کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٧ اگر کسی شخص کو سورج یا چاند گرہن لگنا معلوم نہ ہو اور ان کے گرہن سے نکلنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے چاند یا سورج کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا بجا لائے، ليکن اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی کچھ مقدار کو گرہن لگا تھا تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٨ اگر کچھ لوگ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان پيدا نہ ہو اور اس گروہ ميں سے کوئی ایسا شخص موجودنہ ہو جس کا شرعی طورپر کوئی اعتبار ہو او رانسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد ميں یہ معلوم ہوکہ ان لوگوںنے صحيح کها تھا تو پورے چاند یاسورج کو گرہن لگنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز آیات بجا لائے، ليکن اگر ان کے کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات پڑھنا ضروری نہيں ہے ۔اسی طرح اگر دو اشخاص کہ جن کے عادل ہونے کا علم نہ ہو یا ایک شخص کہ جس کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو، اگر یہ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور بعد ميں معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں عادل تهے یا وہ ایک شخص ایسا قابل اعتماد تھا کہ جس کے قول کے بر خلاف بات کاگمان نہ تھا تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٩ اگر انسان کو ان لوگوں کے کهنے سے جو علمی قاعدے کی رو سے چاند گرہن یا سورج گرہن کے بارے ميں بتاتے ہيں ، اطمينان پيدا ہوجائے کہ سورج یا چاند گهن ہوا ہے تو ضروری هے _کہ نماز آیات پڑھے۔ نيز اگر وہ لوگ یہ کہيں کہ فلاں وقت

۲۴۳

سورج یا چاند کو گهن لگے گا اور فلاں وقت تک رہے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمينان پيدا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اطمينان پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ جو نماز آیات پڑھی تھی وہ باطل تھی تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور وقت گذرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١١ اگر پنجگانہ نمازوں کے اوقات ميں کسی شخص پر نماز آیات بھی واجب ہو جائے اور دونوں نمازوں کے لئے وقت وسيع ہو تو وہ پهلے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر ان دونوں ميں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو جس نماز کا وقت تنگ ہو ضروری ہے کہ اسے پهلے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے یوميہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٢ اگر کسی شخص کو پنجگانہ نمازوں کے د رميان یہ معلوم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور نماز پنجگانہ کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرنے کے بعد نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یوميہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ دے اور پهلے نماز آیات پڑھے اور اس کے بعد نماز یوميہ بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٣ اگر نماز آیات کے دوران کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یوميہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ وہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور نماز یوميہ شروع کر دے اور نماز مکمل کرنے کے بعد، کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہوضروری ہے کہ نماز آیات جهاں سے چھوڑی تھی وہيں سے مکمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۴ اگر کسی عورت کے حيض یا نفاس کی حالت ميں سورج یا چاند کو گهن لگ جائے تو اس پر نماز آیات اورا س کی قضا واجب نہيں ہے ليکن غير موقت جيسے کہ زلزلہ اور گرج چمک ميں عورت کے پاک ہونے کے بعد ادا یا قضا کی نيت کے بغير نماز آیات بجالانا ضروری ہے ۔

نماز آيات کا طريقہ

مسئلہ ١ ۵ ١ ۵ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت ميں پانچ رکوع ہيں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نيت کرنے کے بعد تکبيرة الاحرام کهے اور ایک مرتبہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے سر اٹھ الے اور دوبارہ ایک مرتبہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح پانچ رکوع کرے اور پانچویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دو سجدے کرے اور کهڑا ہوجائے اور دوسری رکعت کو بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشهد پڑھ کر سلام پهيرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۶ نماز آیات ميں الحمد پڑھنے کے بعد انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک سورے کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے اٹھ کر الحمد پڑھے بغير اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح یہ عمل دهراتا رہے۔ یهاں تک کہ پانچویں رکوع سے پهلے سورہ مکمل کر لے۔

۲۴۴

مثلا سورہ قل ہو اللّٰہ احد کی نيت سے ”بسم الله الرحمن الرحيم “پڑھے اور رکوع ميں جائے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور ”قل ہو اللّٰہ احد “ کهے اور دوبارہ رکوع ميں جائے اور رکوع کے بعد کهڑا ہوا ور ”الله الصمد “ کهے پھر رکوع ميں جائے اور کهڑا ہوا اور ”لم یلد ولم یولد“ کهے اور رکوع ميں چلا جائے اور رکوع سے سر اٹھ ا لے اور ”ولم یکن لہ کفوا احد“ کهے اور اس کے بعد پانچویں رکوع ميں چلا جائے، رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دوسجدے کرے۔ دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ نيز یہ بھی جائز ہے کہ ایک سورے کو پانچ سے کم حصوں ميں تقسيم کرے ليکن جب بھی سورہ مکمل کرے ضروری ہے کہ بعد والی رکوع سے پهلے الحمد پڑھے اور اس کے بعد ایک سورہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٧ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت ميں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت ميں ایک دفعہ الحمد اور سورے کو پانچ حصوں ميں تقسيم کردے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ١٨ جو چيزیں پنجگانہ نماز ميں واجب اور مستحب ہيں وہ نماز آیات ميں بھی واجب اور مستحب ہيں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساته ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کے بجائے تين دفعہ بطور رجاء ”الصلاة“کها جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٩ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ پانچویں اور دسویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ پڑھے۔ نيز ہر رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبير کهنا مستحب ہے ، ليکن پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبير کهنا مستحب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٠ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھ ویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھا جائے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ ليا جائے تب بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢١ اگر کوئی شخص نمازآیات ميں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور کسی نتيجے پر نہ پهنچے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٢ اگر شک کرے کہ پهلی رکعت کے آخری رکوع ميں ہے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع ميں اور کسی نتيجے پر نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں، اگر رکوع کی تعداد ميں شک کرے تو کم پر بنا رکھے مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ کہ اس صورت ميں اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھکا نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس رکوع کے لئے جھک گيا تھا اسے بجا لائے اور اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھک جانے کے بعد اور سجدے ميں پهنچنے سے پهلے شک ہوا ہو تواحتياط واجب کی بنا پر واپس پلٹ آئے اور رکوع بجا لائے اور نماز مکمل کر کے دوبارہ بجا لائے، ليکن اگر سجدے ميں پهنچ گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مْسئلہ ١ ۵ ٢٣ نماز آیات کا ہر رکوع ایک رکن ہے اور اگر ان ميں عمدا یا سهواً کمی یابيشی ہو جائے تو نماز باطل ہے ۔

۲۴۵

عيد فطر و عيدقربان کی نمازيں

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۴ امام عليہ السلام کے زمانے ميں عيد فطر وعيد قربان کی نمازیں واجب ہيں اور ضروری ہے کہ یہ نمازیں جماعت کے ساته پڑھی جائيں ليکن ہمارے زمانے ميں جب کہ امام عصر عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ، یہ نمازیں مستحب ہيں اور باجماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہيں ۔هاں، با جماعت پڑھنے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نمازیوں کی تعدادپانچ افراد سے کم نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۵ عيد فطر وعيد قربان کی نماز کا وقت عيد کے روز طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۶ عيد قربان کی نماز سور ج چڑھ آنے کے بعد مستحب ہے اور عيد فطر ميں مستحب ہے کہ سور ج چڑھ آنے کے بعد افطار کيا جائے اور احتياط واجب کی بنا پر فطرہ دینے کے بعد نماز عيد ادا کی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٧ عيد فطر وقربان کی نمازدو رکعت ہے جس کی پهلی رکعت ميں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبيریں کهے اور ہر تکبير کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک قنوت پڑھے ۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے اور دوسجدوں کے بعد اٹھ کهڑا ہو۔ دوسری رکعت ميں چار تکبيریںکهے اور ہر تکبير کے بعد ایک قنوت پڑھے، پانچویں تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے، رکوع کے بعد دوسجدے بجا لائے اور تشهد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٨ عيد فطر وقربا ن کی نماز کے قنوت ميں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے ، ليکن بہتر ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب مصباح المتهجد ميں نقل کی ہے ، پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ا هَْٔلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ ا هَْٔلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ وَ ا هَْٔلَ التَّقْویٰ وَ الْمَغْفِرَةِا سَْٔئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْداً وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَيْرٍ ا دَْٔخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُل سُوْءٍ ا خَْٔرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ ا سَْٔئَلُکَ خَيْرَ مَا سَئَلَکَ بِه عِبَادُک الصَّالِحُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ (الْمُخْلِصُوْنَ، الْمُخْلَصُوْنَ)

اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب ميں معتبر سند کے ساته ذکر کی ہے ، اسے پڑھا جائے۔ وہ دعا یہ ہے :

۲۴۶

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللَّهُمَّ اَنْتَ ا هَْٔلُ الْکِبْرِیَاءِوَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلُ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْقُدْرَةِ وَ السُّلْطَانِ وَ الْعِزَّةِ، ا سَْٔئَلُکَ فِیْ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْدًا وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ مَزِیْداً، ا سَْٔئَلُکَ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مَلاَئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ ا نَْٔبِيَائِکَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ ا نَْٔ تَغْفِرَ لَنَا وَ لِجَمِيْعِ الْمُوْ مِٔنِيْنَ وَ الْمُوْ مِٔنَاتِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَات اْلا حَْٔيَاءِ مِنْهُمْ وَ اْلا مَْٔوَاتِ، ا لٔلّٰهُمَّ إِنیِّ ا سَْٔئَلُکَ مِنْ خَيْرِ مَا سَئَلَکَ عِبَادُکَ الْمُرْسَلُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِه عِبَادُکَ الْمُخْلَصُوْنَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَوَّلُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ آخِرُه وَ بَدِیْعُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مُنْتَهَاهُ وَ عَالِمُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مَعَادُه وَ مَصِيْر کُلِّ شَيْیٍ إِلَيْهِ وَ مَرَدُّه وَ مُدَبِّرُ اْلاُمُوْرِ وَ بَاعِثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ، قَابِلُ الْاَعْمَالِ مُبْدِی الْخَفِيَّاتِ مُعْلِنُ السَّرَائِرِ، اَللّٰهُ اَکْبَر عَظِيْمُ الْمَلَکُوْتِ شَدِیْدُ الْجَبَرُوْتِ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ دَائِمٌ لاَّ یَزُوْلُ إِذَا قَضیٰ اَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ، اَللّٰهُ اَکْبَر خَشَعَتْ لَکَ الْاَصْوَاتُ وَ عَنَتْ لَکَ الْوُجُوْهُ وَ حَارَتْ دُوْنَکَ الْاَبْصَارُ وَ کَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ عَظَمَتِکَ وَ النَّوَاصِیَ کُلُّهَا بِيَدِکَ وَ مَقَادِیْرُ الْاُمُوْرِ کُلُّهَا اِلَيْکَ، لاَ یَقْضِیْ فِيْهَا غَيْرُکَ وَ لاَ یَتِمُّ مِنْهَا شَيْیءٌ دُوْنَکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَحَاطَ بِکُلِّ شَيْیٍ حِفْظُکَ وَ قَهَرَ کُلَّ شَيْیٍ عِزُّکَ وَ نَفَذَ کّلَّ شَيْیٍ اَمْرُکَ وَ قَامَ کُلُّ شَيْیٍ بِکَ وَ تَوَاضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِعَظَمَتِکَ وَ ذَلَّ کُل شَيْیٍ لِعِزَّتِکَ وَ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَيْیٍ لِقُدْرَتِکَ وَ خَضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِمُلْکِکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ

مسئلہ ١ ۵ ٢٩ امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ)کے زمانہ غيبت ميں اگر نماز عيد جماعت سے پڑھی جائے تو احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جائيں اور بہتر یہ ہے کہ عيد فطر کے خطبے ميں فطرے کے احکام بيان ہوں اور عيد قربان ميں قربانی کے احکام بيان ہوں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٠ عيد کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہيں ہے ليکن بہتر ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد کے بعدسورہ سبح اسم ربک الاعلیٰ (سورہ: ٨٧ )پڑھا جائے اور دوسری رکعت ميں سورہ والشمس (سورہ : ٩١ )پڑھا جائے اور سب سے افضل یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ والشمس اور دوسری رکعت ميں سورہ غاشيہ (سورہ: ٨٨ )پڑھا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣١ نماز عيد صحر ا ميں پڑھنا مستحب ہے ، ليکن مکہ مکرمہ ميں مستحب ہے کہ مسجد الحرام ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٢ مستحب ہے کہ امام جماعت اور مامو م نماز سے پهلے غسل کریں اور روئی سے بُنا ہوا سفيد عمامہ سر پر باندہيں کہ جس کا ایک سرا سينے پر اور دوسرا سرا دونوں شانوں کے درميان ہو اور مستحب ہے کہ نمازکے لئے پيدل، ننگے پير اور باوقار طریقے سے جایا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٣ مستحب ہے کہ عيد کی نمازميں زمين پر سجدہ کيا جائے، تکبيریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کيا جائے اورامام جماعت بلند آواز سے قرائت کرے۔

۲۴۷

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۴ مستحب ہے کہ عيد فطر کی رات کو مغرب وعشا کی نماز کے بعد اور عيد فطر کے دن نماز صبح کے بعد یہ تکبيریں کهی جائيں :

اَللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَاهدَانَا ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۵ عيد قربان ميں دس نمازوں کے بعد جن ميں سے پهلی نماز، عيد کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری نماز بارہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ، ان تکبيرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ ميں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَا اَبْلَانَا “ کهے، ليکن اگر عيد قربان کے موقع پر انسان منیٰ ميں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبيریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن ميں سے پهلی نماز عيد کے دن کی نمازظہر ہے اور آخری تيرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۶ احتياط مستحب ہے کہ عورتيں نماز عيد پڑھنے کے لئے نہ جائيں، ليکن یہ احتياط عمر رسيدہ عورتوں کے لئے نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٧ نماز عيد ميں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لئے ضروری ہے کہ الحمد اورسورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٨ اگر ماموم اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبيریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع ميں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبيریں اور قنوت اس نے امام کے ساته نہيں پڑہيں انہيں پڑھے اور امام کے ساته رکوع ميں مل جائے اور اگر ہر قنوت ميں ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “ یا ایک مرتبہ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کہہ دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٩ اگر کوئی شخص نماز عيد ميں اس وقت پهنچے جب امام رکوع ميں ہو تووہ نيت کر کے اور پهلی تکبير کہہ کر رکوع ميں جاسکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ نماز کو رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٠ اگر نماز عيد ميں آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر اس کو بجا لائے اور اگروہ کسی اور رکعت کا سجدہ بھول گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجا لائے۔

اسی طرح کسی بھی صورت ميں اگر اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے لئے نماز پنجگانہ ميں ، چاہے احتياط کی بنا پر، سجدہ سهو لازم ہے تواحتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۴۸

نماز کے لئے اجير بنانا

مسئلہ ١ ۵۴ ١ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جنہيں اس نے اپنی زندگی ميں انجام نہ دیا ہو کسی دوسرے شخص کو اجير بنا یا جاسکتا ہے ، یعنی اسے اجرت دی جائے تاکہ وہ انہيں بجا لائے اور اگر کوئی شخص بغير اجرت لئے ان عبادات کو بجا لائے تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٢ انسان بعض مستحب کاموں مثلا روضہ رسول(ص) کی زیارت یا قبور ائمہ عليهم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجير بن سکتا ہے اس معنیٰ ميں کہ اجارہ ميں ان اشخاص کی طرف سے ان مخصوص کاموں ميں نيابت کا قصد رکھتا ہو، چنانچہ یہ شخص انہيں کاموں کو بغير اجرت لئے بھی انجام دے سکتا ہے ۔ نيز یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو هدیہ کر دے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٣ جو شخص ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کے مسائل ميں یا تو وہ خود مجتهد ہو یا نماز، تقليد کے مطابق صحيح طریقے سے ادا کرسکے یا احتياط پر عمل کرسکے۔

مسئلہ ١ ۵۴۴ ضروری ہے کہ اجير نيت کرتے وقت ”ميت “ کو معين کرے۔هاں، یہ ضروری نہيں ہے ميت کا نام جانتا ہو، پس اگر وہ نيت کرے کہ یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے ميں اجير ہوا ہوں تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۵ ضروری ہے کہ اجير جو عمل بجا لائے اس کے لئے نيت کرے کہ جو کچھ ميت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجير کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب ميت کو هدیہ کرے تو یہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۶ ضروری ہے کہ اجير کسی ایسے شخص کو مقرر کيا جائے جس کے بارے ميں جانتے ہوں یا ان کے پاس شرعی حجت ہو کہ وہ عمل کو بجالائے گا مثلاً وہ اطمينان رکھتے ہوں یا دو عادل شخص یا ایک قابل اطمينان شخص جس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو،خبر دیں کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٧ جس شخص کو ميت کی نمازوں کے لئے اجير بنایا جائے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ عمل کو بجا نہيں لایا ہے یا باطل طریقے سے بجا لایا ہے تو ضروری ہے دوبارہ کسی شخص کو اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٨ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اجير نے عمل انجام دیا ہے یا نہيں تو اگر وہ قابل اطمينان ہو اور یہ کهے کہ ميں نے انجام دے دیا ہے یا کوئی شرعی گواہی یا کسی ایسے قابل اعتماد شخص کا قول موجود ہو کہ جس کے قول کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو کافی ہے اور اگر وہ شک کرے کہ اس اجير کا عمل صحيح تھا یا نہيں تو وہ اس کے عمل کو صحيح سمجھ لے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٩ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلا تيمم کر کے یا بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اسے ميت کی نمازوں کے لئے اجير مقرر نہيں کيا جاسکتا خواہ ميت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔

۲۴۹

مسئلہ ١ ۵۵ ٠ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے اجير بن سکتے ہيں ۔نيز نماز کو بلند یا آهستہ آواز سے پڑھنے ميں ضروری ہے کہ اجير اپنے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميت کی قضا نمازوں ميں ترتيب واجب نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ترتيب کا خيال رکھا جائے، ليکن اُن نمازوں ميں ترتيب ضروری ہے کہ جن کی ادا ميں ترتيب ضروری ہے مثلا ایک دن کی نماز ظہر وعصر یا مغرب وعشا۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٢ اگر اجير کے ساته طے کيا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے مگر یہ کہ اس عمل کے صحيح نہ ہونے کا علم رکھتا ہو کہ اس صورت ميں اس عمل کے لئے اجير نہيں بن سکتا اور اگر کچھ طے نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظيفے کے مطابق بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظيفے اور ميت کے وظيفے ميں سے جو بھی احتياط کے زیادہ قریب ہو اسی پر عمل کرے، مثلاً اگر ميت کا وظيفہ تين مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکليف ایک بار پڑھنا ہو تو تين بار پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٣ اگر اجير کے ساته یہ طے نہ کيا جائے کہ نماز کے مستحبات کتنی مقدار ميں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات نماز ميں پڑھے جاتے ہيں انہيں بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۴ اگر انسان ميت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجير مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميں بتایا گيا ہے اس کی بنا پر ضروری نہيں کہ وہ ہر اجير کے لئے وقت معين کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵۵ اگر کوئی شخص اجير بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال ميں ميت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پهلے مر جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کے لئے جن کے بارے ميں علم ہوکہ وہ انہيں بجا نہيں لایا، کسی اور شخص کو اجير مقرر کيا جائے اور جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ وہ انہيں بجانہيں لایا تھا احتياط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۶ جس شخص کو ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہوتو اگر اس کے ساته یہ طے کيا گيا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا اور وہ ان کے بجالانے پر قادر بھی تھا تو اجارہ کا معاملہ صحيح ہے اور اجرت دینے والا باقی نمازوں کی اجرت المثل واپس لے سکتا ہے یا اجارہ کو فسخ کرتے ہوئے اس مقدار کی اجرت المثل جو ادا ہو چکی ہے ، دے کر باقی مقدار کی اجرت واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ ان نمازوں کی ادائيگی پر قادر نہيں تھا تو مرنے کے بعد والی نمازوں ميں اجارہ باطل ہے اور اجرت دینے والا باقی ماندہ نمازوں کی اجرت مُسمّی لے سکتا ہے یا پهلے والی مقدار کے اجارہ کو فسخ کرتے ہو ئے اس مقدار کی اجرت المثل ادا کرسکتا ہے اور اگر یہ طے نہ کيا گيا

۲۵۰

ہو کہ وہ خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجير کے ورثاء اس کے مال سے کسی اور کو اجير بنائيں، ليکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٧ اگر اجير ميت کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس کی اپنی بھی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سابقہ مسئلے ميں جو طریقہ بتایا گيا ہے اس پر عمل کرنے کے بعداگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اس صورت ميں کہ جب اس نے وصيت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت اس کے تمام مال کے تيسرے حصے سے زیاہ ہوتو ورثاء کے اجازت دینے کی صورت ميں اس کی تمام نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جا سکتا ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت ميں اس کے مال کا تيسرا حصہ اس کی نمازوں پر خرچ کریں۔

روزے کے احکام

روزہ یہ ہے کہ انسان اذانِ صبح سے مغرب تک، ان چيزوں سے کہ جن کا بيان بعدميں آئے گا، قصد قربت،جس کا بيان وضو کے مسائل ميں گزرچکا اور اخلاص کے ساته، پرہيز کرے۔

اس مسئلے اور بعد ميں آنے والے مسائل ميں احتياط واجب کی بنا پر مغرب سے مراد وہ وقت ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مشرق کی جانب سے نمودار ہونے والی سرخی انسان کے سر کے اوپر سے گزر جائے۔

نيت

مسئلہ ١ ۵۵ ٨ روزے کی نيت ميں ضروری نہيں ہے کہ انسان نيت کے الفاظ کو دل سے گزارے یا مثلاً یہ کهے کہ ميں کل روزہ رکہوں گا، بلکہ اگر صرف یهی ارادہ رکھتا ہو کہ قربت کی نيت اور اخلاص کے ساته اذان صبح سے مغرب تک، ان کاموں کو انجام نہ دے گا جو روزے کو باطل کر دیتے ہيں تو کافی ہے ۔ اور یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت ميں روزے سے تھا ضروری ہے کہ اذانِ صبح سے کچھ دیر پهلے اور مغرب کے کچھ دیر بعد بھی روزے کو باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٩ انسان ماہ رمضان کی ہر رات ميں اس کے اگلے دن کے روزے کی نيت کر سکتا ہے اور اسی طرح مهينے کی پهلی رات کو ہی سارے روزوں کی نيت بھی کر سکتا ہے اورپہر دوبارہ ہر رات نيت دهرانا ضروری نہيں ہے اور اسی نيت پر باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٠ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کا وقت پهلی رات ميں ، رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہے اور پهلی رات کے علاوہ دوسری راتوںميں رات کی ابتدا سے پهلے بھی نيت کی جاسکتی ہے ، مثلاً پهلے دن عصر کے وقت نيت کرے کہ اگلے دن قربة الی الله روزہ رکھے گا اور اسی نيت پر باقی رہے اگر چہ اذان صبح کے بعد تک سوتا رہے۔

۲۵۱

مسئلہ ١ ۵۶ ١ مستحب روزے کی نيت کا وقت رات کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے کہ سورج غروب ہونے ميں نيت کرنے کی مقدار کا وقت باقی رہ جائے، پس اگر اس وقت تک روزے کو باطل کر دینے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور مستحب روزے کی نيت کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن اگر سورج غروب ہوجائے تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٢ جو شخص روزے کی نيت کئے بغير اذان صبح سے پهلے سوجائے، اگر ظہر سے پهلے بيدار ہو اور روزے کی نيت کرے تو اگر اس کا روزہ ایسا واجب روزہ ہوکہ جس کا وقت معين ہے ، چاہے ماہ رمضان کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ، جيسے اس نے نذر کی ہو کہ کسی معين دن روزہ رکھے گا، تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکال ہے اور اگر اس کا روزہ ایسا واجب ہو کہ جس کا وقت معين نہ ہو تو روزہ صحيح ہے ۔

اور اگر ظہر کے بعد بيدار ہو تو واجب روزے کی نيت نہيں کر سکتا ہے چاہے واجب غير معين ہو، ليکن ماہ رمضان کی قضا ميں ظہر سے عصر تک نيت کا جائز نہ ہونا احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٣ جو شخص ماہ رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معين کرے، مثلاً نيت کرے کہ قضا، نذر یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں، ليکن ماہ رمضان ميں یہ ضروری نہيں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے کی نيت کرے، بلکہ اگر اسے علم نہ ہو کہ رمضان ہے یا بھول جائے اورکسی دوسرے روزے کی نيت کرلے تب بھی وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۴ اگر کوئی جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجه کر رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی نيت کرلے تو وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہيں ہوگا اور اسی طرح بنابر احتياط واجب جس روزے کی نيت کی ہے وہ بھی روزہ شمار نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۵ اگر پهلے روزے کی نيت سے روزہ رکھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسری یاتيسری تاریخ تھی تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶۶ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے اور بے ہوش ہوجائے اور دن ميں کسی وقت ہوش آئے تو بنابر احتياط واجب ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کو پورا کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٧ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے پھر اس پر نشہ طاری ہو جائے اور دن ميں ہوش آئے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٨ اگر اذانِ صبح سے پهلے نيت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بيدار ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٩ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دیا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اور اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۲۵۲

مسئلہ ١ ۵ ٧٠ اگر بچہ ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے بالغ ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنا اس پر ضروری ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس پر روزہ واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ظہر سے پهلے بالغ ہو اور اس نے روزے کی نيت کر رکھی ہو تو روزہ پورا کرے اور اگر نيت نہ بھی کی ہو اورروزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو نيت کرے اور روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧١ جو شخص کسی ميت کے روزے اجرت لے کر رکھ رہا ہواس کے لئے مستحب روزہ رکھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن جس شخص کے ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں وہ مستحب روزے نہيں رکھ سکتا اوراگر رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ اس کے ذمّے ہو پھر بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظہر سے پهلے متوجہ ہوجائے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ليکن وہ اپنی نيت کو غير معين واجب روزے کی طرف پلٹا سکتا ہے ، جب کہ معين واجب روزے کی طرف نيت کو پلٹانا محل اشکال ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو وہ اپنی نيت کو واجب روزے کی طرف نہيں پلٹاسکتا اگر چہ واجب غير معين ہی کيوں نہ ہو اور یہ حکم ماہِ رمضان کے قضا روزوں ميں زوال کے بعد سے عصر تک احتياط واجب کی بناپر ہے ۔هاں، اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٢ اگر کسی شخص پر رمضان کے علاوہ کوئی معين روزہ واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ مقررہ دن روزہ رکہوں گا اور جان بوجه کر اذانِ صبح تک نيت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے تو اگرچہ ظہر سے پهلے یاد آجائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، بنا بر احتياط اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٣ اگر غير معين واجب روزے مثلاً کفارے کے روزے کے لئے، ظہر کے نزدیک تک عمداً نيت نہ کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ اگر نيت سے پهلے پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہيں رکھے گا یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پهلے نيت کر لے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۴ اگر کوئی کافر ماہ رمضان ميں ظہر سے پهلے مسلمان ہوجائے تو چاہے اس نے اذان صبح سے اس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، پھر بھی اس کا روزہ صحيح نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۵ اگر کوئی مریض ماہ رمضان کے دن کے وسط ميں ظہر سے پهلے یا اس کے بعد تندرست ہو جائے تو اِس دن کا روزہ اس پر واجب نہيں ہے خواہ اُس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔

۲۵۳

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۶ جس دن کے بارے ميں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا تو اُس پر واجب نہيں کہ وہ اس دن روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نيت نہيں کر سکتا، نہ ہی یہ نيت کر سکتا ہے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ اور اگر رمضان نہيں تو قضا یا اس جيسا کوئی اور روزہ رکھ رہا ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ کسی واجب روزے مثلاً قضا کی نيت کرلے یا مستحب روزے کی نيت کرے۔ چنانچہ بعد ميں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔ ہاں، اگر وہ یہ نيت کرے کہ جس چيز کا اسے حکم دیا گيا ہے اس کو انجام دے رہا ہوں اور بعد ميں معلوم ہو کہ رمضان تھا تو یہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٧ جس دن کے بارے ميں شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا دن، اگر اُس دن قضا یا اس کی مانند کوئی واجب یا مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٨ اگر کسی واجب معين روزے ميں جيسے ماہ رمضان کے روزے ميں انسان اپنی نيت سے کہ مبطلات روزہ سے خدا کی خاطر بچے، پلٹ جائے یا پلٹنے کے بارے ميں متردد ہو یا یہ نيت کرے کہ روزہ توڑنے والی چيزوں ميں سے کسی کو انجام دے یا متردد ہو کہ ایسی کوئی چيز انجام دے یا نہ دے تو اُس کا روزہ باطل ہے ، اگرچہ جو ارادہ کيا ہو اُس سے توبہ بھی کرے اور نيت کو روزے کی طرف بھی پهير دے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٩ وہ بات جس کے بارے ميں پچهلے مسئلے ميں بتایا گيا کہ واجب معين روزے کو باطل کردیتی ہے ،غير معين واجب روزے مثلاً کفارے یا غير معين نذر کے روزے کو باطل نہيں کرتی، لہٰذا اگر ظہر سے پهلے دوبارہ اپنی نيت کو روزے کی طرف پهير دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مبطلاتِ روزہ

مسئلہ ١ ۵ ٨٠ نو چيزیں روزے کو باطل کر دیتی ہيں ، اگر چہ ان ميں سے بعض چيزوںسے روزہ احتياط کی بنا پر باطل ہوتا ہے :

ا ) کھانا اور پينا

٢ ) جماع

٣ ) استمنا۔ استمنا یہ ہے کہ انسان اپنے یا کسی دوسرے کے ساته جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے۔

۴ ) خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

۵ ) احتياط واجب کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا۔

۲۵۴

۶ ) پورے سر کو پانی ميں ڈبونا۔

٧ ) اذانِ صبح تک جنابت حيض یا نفا س پر باقی رہنا۔

٨ٌ) کسی بهنے والی چيز سے انيما کرنا۔

٩ ) قے کرنا۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کھانا اور پينا

مسئلہ ١ ۵ ٨١ اگر روزہ دار اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر کوئی چيز کھائے یا پئے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا، خواہ وہ ایسی چيز ہو جسے عموماً کهایا یا پيا جاتا ہو جيسے روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کهایا یا پيا نہ جاتا ہو جيسے مٹی اور درخت کا شيرہ، خواہ کم ہو یا زیادہ، حتی اگر تری کو منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ ميں لے جائے اور نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا، سوائے ا س کے کہ یہ تری تهوک سے مل کر اِس طرح ختم ہو جائے کہ پھر اسے باہر کی تری نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٢ اگرکھانا کھانے کے دوران معلوم ہو جائے کہ صبح ہو گئی ہے توضروری ہے کہ لقمہ اگل دے اور اگر عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب ہو جائے گاجس کی تفصيلات آگے آئيںگی۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٣ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چيز کها یا پی لے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۴ دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حس کردینے والے انجکشن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اُس انجکشن سے پرہيز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۵ اگر روزہ دار دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی چيز کو اپنے روزے کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۶ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ اذان سے پهلے اپنے دانتوں ميں خلال کرے، ليکن اگر جانتا ہو یا اطمينان ہو کہ جو غذا دانتوں کے درميان ميں رہ گئی ہے وہ دن ميں اندر چلی جائے گی، چنانچہ وہ خلال نہ کرے اور وہ چيز پيٹ کے اندر چلی جائے تو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٧ لعاب دهن کو نگلنا، اگرچہ کهٹائی یا اس کی مانند چيزوں کے تصور سے منہ ميں جمع ہوجائے، روزے کو باطل نہيں کرتا۔

۲۵۵

مسئلہ ١ ۵ ٨٨ سر اور سينے کے بلغم کو نگلنے ميں ، جب تک کہ وہ منہ کے اندر والے حصے تک نہ پهنچے، کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر منہ ميں آجائيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ انہيں نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٩ اگر روزہ دار اِس قدر پياسا ہوجائے کہ اسے خوف ہو کہ وہ پياس کی وجہ سے مر جائے گا تو اس پر اتنا پانی پينا واجب ہے کہ مرنے سے نجات مل جائے، ليکن اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر رمضان ہو تو باقی دن روزہ باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز ضروری ہے ۔ اِسی طرح اگر اُسے خوف ہو کہ پانی نہ پينے کی وجہ سے اُسے قابلِ ذکر ضرر پهنچے گا یا پانی نہ پينا اُس کے لئے ایسی مشقّت کا باعث بنے گا جوعرفاً قابل برداشت نہ ہو تو اِن دو صورتوں ميں اِس قدر پانی پی سکتا ہے کہ اُس کا ضرر اور مشقّت دور ہو جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٠ بچے یا پرندے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا اور ان جيسی چيزوں کو چکهنا جو عام طور پر حلق تک نہيں پهنچتيں، اگر چہ اتفاق سے حلق تک پهنچ جائيں روزہ کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو یا مطمئن ہو کہ حلق تک پهنچ جائيں گی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور حلق تک پهنچنے کی صورت ميں اس پر کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ ١ ۵ ٩١ انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہيں چھوڑ سکتا، ليکن اگر کمزوری اِس حد تک ہو کہ روزہ دار کے لئے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھرروزہ چھوڑ دینے ميں کوئی حرج نہيں ۔

٢۔ جماع

مسئلہ ١ ۵ ٩٢ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے اگر چہ صرف ختنہ گاہ کے برابر داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔ اوربيوی کے علاوہ کسی اور سے جماع کی صورت ميں اگر منی خارج نہ ہو تو یہ حکم احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٣ اگر ختنہ گاہ سے کم مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۴ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اورختنہ گاہ کے برابر داخل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہواور پھر شک کرے کہ اُس مقدار کے برابر دخول ہوا ہے یا نہيں تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا ضروری ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ باقی دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيزکرے، ليکن کفارہ واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۵ اگر بھول جائے کہ روز ے سے ہے اور جماع کرلے یا بے اختيار جماع کرے تواس کا روزہ باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر دوران جماع اُسے یاد آجائے یا اُسے اختيار حاصل ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع کو ترک کردے اور اگر ترک نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۶

٣۔ استمنا

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۶ اگر روزہ دار استمنا کرے، یعنی جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اُس کی منی خارج ہو، تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٧ اگر بے اختيار، انسان کی منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٨ جو روزہ دار جانتا ہو کہ اگر دن ميں سو گيا تومحتلم ہو جائے گا یعنی نيند ميں اس کے جسم سے منی خارج ہو جائے گی، تو اُس کے لئے سونا جائز ہے اور اگر محتلم ہو جائے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔هاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نہ سوئے خصوصاً جب نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکليف بھی نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٩ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کی حالت ميں نيند سے بيدار ہوجائے تو اس کو خارج ہونے سے روکناواجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٠ جب روزہ دار محتلم ہوجائے تو وہ پيشاب اور استبرا کر سکتا ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ پيشاب اور استبرا کی وجہ سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔

مسئلہ ١ ۶ ٠١ جو روزہ دار محتلم ہو گيا ہو اگر وہ جانتا ہو کہ نالی ميں منی باقی رہ گئی ہے اورغسل سے پهلے پيشاب نہ کرنے کی صورت ميں غسل کے بعد منی خارج ہوگی تو بناء بر احتياط واجب ضروری ہے کہ غسل سے پهلے پيشاب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٢ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ عمداً منی خارج کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے ، اگر منی کے باہر آنے کی نيت سے مثلاً بيوی سے هنسی مذاق اور چھيڑ چھاڑ کرے تو چاہے منی خارج نہ بھی ہو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور ضروری ہے کہ قضا کرے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرنا بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٣ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کا ارادہ کئے بغير مثال کے طور پر اپنی بيوی سے چھيڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے، چنانچہ اگر اطمينان رکھتا ہو کہ اُس سے منی خارج نہ ہوگی اگر چہ اتفاق سے منی خارج ہو بھی جائے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اطمينان نہ ہو تو منی خارج ہونے کی صورت ميں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۴ ۔ خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ سے جهوٹ منسوب کرنا

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۴ اگر روزہ دار زبان سے، لکھ کر، اشارے سے یا کسی اور طریقے سے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے عمداً کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ فوراً یہ کہہ دے کہ ميں نے جھوٹ کها ہے یا توبہ کرلے، اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ جب کهباقی انبياء (علی نبينا و آلہ و عليهم السلام )اور ان کے اوصياء کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتياطِ واجب کی بنا پر روزے کو باطل کر دیتا ہے ، مگر یہ کہ ان سے دی ہوئی یہ جھوٹی نسبت الله تعالیٰ سے منسوب ہو جائے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۷

یهی حکم حضرت زهرا عليها السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے کا ہے سوائے اس کہ کے یہ جھوٹی نسبت خدا، رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی سے منسوب ہو جائے، کہ اس صورت ميں روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۵ اگر کوئی ایسی حدیث نقل کرنا چاہے جس کے متعلق نہ جانتا ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ اور اُس حدیث کے معتبر ہونے پر دليل بھی نہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جو اِس حدیث کا راوی ہے یا مثال کے طور پرجس کتاب ميں یہ حدیث تحریر ہے ، اس کا حوالہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۶ اگر کسی روایت کو سچ سمجھتے ہوئے، خدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ جھوٹ تھی تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٧ جو شخص جانتا ہو کہ خدا، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا روزے کو باطل کردیتا ہے اگر کسی چيز کو جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ جھوٹ ہے ، ان حضرات سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ جو کچھ کها تھا سچ تھا تو بھی اس کا روزہ باطل ہے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٨ کسی دوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کو اگر جان بوجه کر خدا، پيغمبر صلی الله

عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر جس نے جھوٹ گڑھا ہے اس کا قول نقل کرے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٩ اگر روزہ دار سے پوچها جائے کہ آیا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی ایک امام عليہ السلام نے اس طرح فرمایا ہے ، اور وہ جواب ميں جان بوجه کر ہاں کی جگہ نہيں اور نہيں کی جگہ ہاں کهے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٠ اگرخدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی امام عليہ السلام سے کوئی سچ بات نقل کرے، بعد ميں کهے کہ ميں نے جھوٹ کها تھا یا رات کو ان حضرات سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اور اگلے دن روزے کے عالم ميں کهے کہ جو ميں نے کل رات کها تھا وہ سچ ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۵ ۔ غبار حلق تک پهنچانا

مسئلہ ١ ۶ ١١ احتياط کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خوا ہ غبار اس چيز کاہو جس کا کھانا حلال ہے جيسے آٹا یا ایسی چيز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جيسے مٹی۔

مسئلہ ١ ۶ ١٢ اگر ہوا کی وجہ سے کوئی غبار پيدا ہو اور انسان متوجہ ہونے کے باوجود دهيان نہ رکھے اور غبار حلق تک پهنچ جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۸

مسئلہ ١ ۶ ١٣ احتياطِ واجب یہ ہے کہ روزہ دارگاڑھی بهاپ اور سگریٹ و تمباکو جيسی چيزوں کا دهواں بھی حلق تک نہ پهنچائے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۴ اگر دهيان نہ رکھے اور غبار، دهواں، گاڑھی بهاپ یا اس جيسی چيزیں حلق ميں داخل ہوجائيںتو اگر اسے یقين یا اطمينان تھا کہ یہ چيزیں حلق ميں نہ پهنچيں گی تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اسے گمان تھا کہ یہ حلق تک نہيں پهنچيں گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۵ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور دهيان نہ رکھے یا بے اختيار غبار یا اس جيسی چيز اُس کے حلق تک پهنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

۶ ۔ سر کو پانی ميں ڈبونا

مسئلہ ١ ۶ ١ ۶ اگر روزہ دار جان بوجه کر سارا سر پانی ميں ڈبودے تو اگرچہ باقی بدن پانی سے باہر رہے، اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، ليکن اگر سارا بدن پانی ميں ڈوب جائے اور سر کا کچھ حصہ باہر رہے تو روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٧ اگر آدهے سر کو ایک بار اور اس کے دوسرے آدهے حصے کو دوسری بار پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٨ اگر شک کرے کہ پورا سر پانی کے نيچے چلا گيا ہے یا نہيں تو اس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر سارا سر ڈبونے کی نيت سے پانی کے نيچے چلا جائے اور شک کرے کہ پورا سر پانی ميں ڈوبا یا نہيں تو اس کا روزہ باطل ہوگا اگر چہ کفارہ نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ١٩ اگر پورا سر پانی کے نيچے چلا جائے ليکن بالوں کی کچھ مقدار باہر رہ جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٠ پانی کے علاوہ دیگربهنے والی چيزوں مثلاً دودھ اور آب مضاف ميں سر کو ڈبونا روزے کو باطل نہيں کرتا اور احتياطِ واجبيہ ہے کہ سر کو عرق گلاب ميں ڈبونے سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢١ اگر روزہ دار بے اختيار پانی ميں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی ميں ڈوب جائے یا وہ بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٢ اگر روزہ دار یہ سمجھ کر اپنے آپ کو پانی ميں گرادے کہ اس کا سر پانی ميں نہيں ڈوبے گا ليکن اس کا سارا سر پانی ميں ڈوب جائے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٣ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے یا کوئی دوسرا شخص زبردستی اس کا سر پانی ميں ڈبودے، چنانچہ اگر پانی کے اندر اُسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا وہ شخص اپنا ہاتھ ہٹالے تو ضروری ہے کہ اِسی وقت فوراً سر کو باہر نکالے اور اگر باہر نہ نکالے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

۲۵۹

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۴ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور غسل کی نيت سے سر کو پانی ميں ڈبودے تو اُس کا روزہ اور غسل دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر غسل کے لئے اپنا سر پانی ميں ڈبودے تو اگر اُس کا روزہ رمضان کا ہو تو اس کاروزہ اور غسل دونوں باطل ہيں اور رمضان کے قضا روزے کے لئے بھی جسے اپنے لئے انجام دے رہا ہو، احتياط کی بنا پر زوال کے بعد یهی حکم ہے ، ليکن اگر مستحب روزہ ہو یا کوئی اور واجب روزہ ہو خواہ واجب معين ہو جيسے کہ کسی معين دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہو، خواہ واجب غير معين ہو جيسے کفارے کا روزہ، تو اس صورت ميں اُس کا غسل صحيح ہے اور روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۶ اگر روزہ دار کسی شخص کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا خواہ اس شخص کوڈوبنے سے بچانا واجب ہی کيوں نہ ہو۔

٧۔ جنابت، حيض اور نفاس پر اذان صبح تک باقی رہنا

مسئلہ ١ ۶ ٢٧ اگر جنب جان بوجه کر ماہ رمضان ميں اذان صبح تک غسل نہ کرے یا اگر اس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بعد ميں آئے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٨ اگر جنب ماہ رمضان اور اس کی قضا کے علاوہ مستحبی یا واجب روزوں ميں کہ جن کا وقت معين ہو جان بوجه کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ واجب روزے ميں جان بوجه کر حالتِ جنابت پر باقی نہ رہے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٩ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے یهاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے تواحتياطِ واجب کی بنا پرضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٠ اگرجنب ماہ رمضان ميں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد یاد آئے توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر کئی دنوں بعد یاد آئے تو جتنے دن جنب ہونے کا یقين تھا ان کی قضا کرے، مثال کے طور پر اگر وہ نہ جانتا ہو کہ تين دن جنب تھا یا چار دن ؟ تو ضروری ہے کہ تين دن کے روزوں کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣١ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں غسل اور تيمم ميں سے کسی کا وقت نہ رکھتا ہو اگر وہ اپنے آپ کو جنبکرے تو اس کا روزہ باطل ہو گا اور اس پر قضا اور کفارہ واجب ہيں ، ليکن جس کی ذمہ داری غسل ہو، اگر تيمم کرنے کے لئے وقت رکھتا ہو چنانچہ اپنے آپ کو جنب کرے تو بنا بر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اوراس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273