ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123455 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حدیث

168۔ رسول خدا(ص): عقل سے رہنمائی حاصل کروتا کہ ہدایت پا جاؤ اور عقل کی نافرمانی مت کرو کہ پشیمان ہوگے۔

169۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل کے استعمال سے عاجز ہے وہ اس کے حاصل کرنے سے زیادہ عاجز ہے۔

170۔ امام علی(ع) : عقلمند ادب سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور چوپائے مار کھائے بغیر قابو میں نہیں آتے ۔

171۔ امام علی(ع) : جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

172۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل میں جتنا پیچھے ہوتا ہے وہ جہالت میں اتنا ہی آگے ہوتا ہے ۔

173۔ امام علی(ع) : ہم خدا کی پناہ چاہتے ہیں عقل کے خواب غفلت سے اور لغزشوں کی برائیوں سے ۔

174۔ امام علی(ع) : جو شخص غور و فکر نہیں کرتا وہ بے وقعت ہو جاتا ہے اور جو بے وقعت ہو جاتا ہے اسکی کوئی عزت نہیں ہوتی۔

175۔ امام علی(ع) : اے لوگو! جن کے نفس مختلف اور دل متفرق ہیں، بدن حاضر اور عقلیں غائب ہیں، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس سے اس طرح فرار کر رہے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں۔

176۔ امام علی(ع) :نے اپنے اصحاب کومخاطب کرکے فرمایا: اے وہ قوم جسکے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب تمہارے خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں، تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے ۔

177۔ امام صادق(ع): جب خداا پنے کسی بندہ سے نعمت سلب کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسکی عقل کو بدل دیتا ہے ۔

178۔ امام کاظم (ع)نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجتیں تمام کی ہیں....پھر صاحبان عقل کو وعظ و نصیحت کی اور انہیں آخرت کی ترغیب دلائی اور فرمایا( اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے اور دار آخرت صاحبان تقویٰ کے لئے سب سے بہتر ہے ۔ کیا تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آرہی ہے )

۴۱

اے ہشام! پھر وہ لوگ جو فکر کرنے والے نہیں ہیں خدا نے انہیں اپنے عقاب سے ڈرایا اورفرمایا (پھر ہم نے سب کو تباہ و برباد بھی کر دیا، تم ان کی طرف سے برابر صبح کو گذرتے ہو ، اور رات کے وقت بھی تو کیا تمہیں عقل نہیں آرہی ہے ) اور فرمایا( ہم اس بستی پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کہ یہ لوگ بڑی بدکاری کر رہے ہیں، اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کےلئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

اے ہشام! عقل علم کے ساتھ ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے (اور یہ مثالیں ہم تمام عالمِ انسانیت کےلئے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے )

اے ہشام! پھر خدا نے غور وخوض نہ کرنے والوںکی مذمت کی اور فرمایا( جب ان سے کہا جاتا ہے جو کچھ خد انے نازل کیا ہے اسکی اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اسکی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا یہ ایسا ہی کرینگے چاہے انکے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں) اور فرمایا( جو لوگ کافر ہو گئے ہیں انکو پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور سمجھیں یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے ) اور فرمایا( اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو بظاہر کان لگا کر سنتے بھی ہیں لیکن کیا آپ بہروںکو بات سنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ سمجھتے بھی نہیںہیں) اور فرمایا( کیا آپکا خیال یہ ہے کہ انکی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب چوپایوںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہیں) اور فرمایا( یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہیںکرینگے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میںہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں انکی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیںہر گز نہیں انکے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے)۔اور فرمایا:( اور تم اپنے نفسوں کو بھلا بیٹھے جبکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)

۴۲

اے ہشام! خدا وند عالم نے اکثریت کی مذمت کی اور فرمایا( اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کرینگے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دینگے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کےلئے ہے اور انکی اکثریت بالکل جاہل ہے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہہ دیجئے کہ ساری حمد اسی کےلئے ہے اور انکی اکثریت عقل کا استعمال نہیں کر رہی ہے )

اے ہشام! پھر اللہ تعالیٰ نے اقلیت کی مدح کی اور فرمایا( اور ہمارے بندوں میں شکر گذار بندے کم ہیں) اور فرمایا( اور وہ بہت کم ہیں) اور فرمایا( اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ اس شخص کو صرف اس بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ) اور فرمایا( اور صاحبان ایمان کو بھی لے لو اور ان کے ساتھ ایمان والے بہت ہی کم ہیں) اور فرمایا( لیکن ان کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی) اور فرمایا( او رانکی اکثریت اس بات کو نہیںسمجھتی ۔)

179۔ا مام رضا(ع): بے عقل دینداروں کی طرف توجہ نہیں کی جائیگی۔

180۔ اسحاق بن عمار: میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں! میرا پڑوسی بہت زیادہ نمازیں پڑھتا ہے ، بے پناہ صدقہ دیتا ہے، کثرت سے حج کرتا ہے اور نہایت معقول انسان ہے ، امام نے فرمایا: اے اسحاق! اس کی عقل کیسی ہے ؟ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو جائے ، عقل سے کو را ہے ، پھر آپؑ نے فرمایا: اس کے اعمال اسی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں۔

۴۳

3/3

عقل کا حجت ہونا

181۔ رسول خدا(ص): حق جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رہو، جو چیزیں تم پر مشتبہ ہو جائیں انہیں اپنی عقل کے ذریعہ جدا کرو ، کیوں کہ عقل تم پر خدا کی حجت اور تمہارے پاس اسکی امانت اور برکت ہے ۔

182۔ امام علی(ع) : عقل حق کا رسول ہے ۔

183۔ امام علی(ع) : عقل ، باطنی شریعت اور شریعت، ظاہری عقل ہے ۔

184۔ اما م صادق(ع): نبی بندوں پر خدا کی حجت ہے اور عقل بندوں اور خدا کے درمیان حجت ہے ۔

185۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! خدا کی لوگوںپر دو حجتیں ہیں: حجت ظاہری اور حجت باطنی، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین،اور ائمہ ہیں لیکن حجت باطنی عقل ہے۔

186۔ امام کاظم (ع): نے نیز ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں پر عقل کے ذریعہ حجتیں تمام کی ہیں، (قوت) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد کی ہے اور براہین کے ذریعہ انہیں اپنی ربوبیت سے آشنا کیاہے ۔

187۔ ابویعقوب بغدادی : ابن سکیت نے امام رضاکی خدمت میں عرض کیا.....خدا کی قسم میں نے آپ کے مثل کسی کو نہیں دیکھا، آج خلق پر خدا کی حجت کون ہے ؟ فرمایاؑ: عقل ہے کہ جس کے ذریعہ خدا کے متعلق سچ بولنے والوں کی پہچان اور ان کی تصدیق ہوتی ہے ، خدا پرجھوٹ باندھنے والوں کی شناخت اور ان تکذیب کی ہوتی ہے، ابو یعقوب کہتے ہیںکہ ابن سکیت نے کہا: خدا کی قسم ، یہی( واقعی) جواب ہے ۔

۴۴

3/4

اعمال کے حساب میں عقل کا دخل

188۔ امام علی(ع) : خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لیگا۔

189۔ امام باقر(ع): خدا نے جو چیزیں موسیٰ بن عمران پر نازل کی ہیں ان میں سے بعض کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب موسیٰ پر وحی نازل ہوی....تو اس وقت خدا نے فرمایا: میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

190۔ امام باقر(ع): خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق روز قیامت دقیق حساب لیگا۔

191۔ امام باقر(ع): میں نے علی(ع) کی کتاب پر نظر ڈالی تو مجھے یہ بات ملی کہ: ہر انسان کی قیمت اور اسکی قدر و منزلت اسکی معرفت کے مطابق ہے اور خدا نے دنیا میں بندوںکو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق اسکا حساب لیگا۔

3/5

اعمال کی جزا میں عقل کااثر

192۔ رسول خدا(ص): اگر تمہارے پاس کسی شخص کے نیک چال چلن کے متعلق خبر پہنچے تو تم اس کے حسن عقل کو دیکھو، کیونکہ جزاعقل کے اعتبارسے دی جاتی ہے ۔

193۔رسول خدؐا: اگر کسی کوبہت زیادہ نماز گذار اور زیادہ روزہ دار پاؤ تواس پر فخر و ماہات نہ کرو جب تک کہ اسکی عقل کو پرکھ نہ لو۔

۴۵

194۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جونمازی، زکات دینے والاحج و عمرہ بجالانے والا اور مجاہدہے اسے روز قیامت اسکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

195۔ رسول خدا(ص): جنت کے سو درجے ہیں، نناوے درجے صاحبان عقل کے لئے ہیں اور ایک درجہ بقیہ تمام افراد کے لئے ہے ۔

196۔ رسول خدا(ص): ایک شخص پہاڑ کی بلندی پر ایک گرجا گھرمیں عبادت کیا کرتا تھا، آسمان سے بارش ہوئی زمین سر سبز ہو گئی جب اس نے گدھے کو چرتے دیکھا تو کہا: پروردگارا!! اگر تیرا بھی گدھا ہوتا تو میں اپنے گدھے کے ساتھ اسے بھی چراتا، چنانچہ جب یہ خبر بنی سرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کو ملی تو انہوںنے اس عابد کے لئے بد دعا کرنی چاہی تو خدا وند عالم نے اس نبی پر وحی نازل کی ، '' میں بندوںکو ان کی عقل کے مطابق جزا دونگا''۔

197۔ تحف العقول: ایک گروہ نے پیغمبر اسلامؐ کی خدمت میںایک شخص کی تعریف کی اور اسکی تمام خوبیوں کو بیان کیا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اس شخص کی عقل کیسی ہے؟ انہوںنے کہا: اے رسولخدؐا! ہم آپکو عبادت میں اسکی کوشش و جانفشانی اور اسکی دوسری خوبیوں کی خبر دے رہے ہیں اور آپ ہم سے اسکی عقل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟! آپؐ نے فرمایا: احمق اپنی حماقت کے سبب گنہگار سے زیادہ فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے ، یقینا بندے روز قیامت اپنی عقل کے مطابق بلند درجات پر فائز ہونگے اور اپنے پروردگار کا تقرب حاصل کرینگے ۔

198۔ رسول خدا(ص):( لوگوںنے جب آپکے سامنے کسی شخص کی بہترین عبادت کی تعریف کی) تو آپ نے فرمایا: اسکی عقل کو دیکھو؛ اس لئے کہ روز قیامت بندوں کو انکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

۴۶

199۔ امام باقر(ع): موسیٰ بن عمران ؑنے دیکھا کہ بنی اسرائیل کاا یک شخص طولانی سجدے کر تا ہے اور گھنٹوںخاموش رہتا ہے۔جہاں بھی موسیٰ ؑجاتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لیتا تھا ایک روز جناب موسیٰ کسی کام کے تحت ایک ہری بھری اور سبزوادی سے گذرے تو اس مرد عبادت گذار نے ایک سرد آہ بھری ، جناب موسیٰ نے اس سے کہا: کیوں آہ بھر رہے ہو؟! اس نے کہا: مجھے اس چیز کی تمنا ہے کہ کاش میرے پروردگار کاکوئی گدھا ہوتا تو میں اسے یہاںچراتا ، جناب موسیٰؑ اسکی اس بات سے اس قدر غمگین ہوئے کہ کافی دیر تک اپنی نظروں کو زمین کی طرف جھکائے رکھا، اتنے میں جناب موسیٰ پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰ میرے بندہ کی بات تم پر اتنی گراں کیوں گذری ؟!میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

200۔ سلیمان دیلمی( کابیان ہے کہ) میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت، دینداری اور فضیلتوں کا تذکرہ کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اسکی عقل کیسی ہے ؟! میںنے کہا: مجھے نہیں معلوم، فرمایا: ثواب عقل کے مطابق دیا جائیگا اس لئے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص سر سبز و شاداب، درختوں اور پانی سے لبریز جزیرہ میں خدا کی عبادت کیا کرتا تھا۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اس کے قریب سے گذرا تو اس نے کہا پروردگارا! اپنے اس بندہ کا ثواب مجھے دکھا دے ، پس خدا وند نے اسے اپنے اس بندہ کا ثواب دکھایا لیکن فرشتہ کی نظر میں وہ ثواب بہت معمولی تھا تو خدا نے فرشتہ پر وحی کی کہ اس کے ہمراہ ہو جاؤ، فرشتہ انسانی شکل میں اس کے پاس آیا اور عابد نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ کہا: میں ایک عبادت گذار شخص ہوں مجھے تمہاری اس جگہ عبادت کی اطلاع ملی تو میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ خد اکی عبادت کروں، لہذا پورے دن وہ فرشتہ اس عابد کے ساتھ رہا، دوسرے روز فرشتہ نے اس سے کہا تمہاری جگہ پاک و پاکیزہ ہے صرف عبادت کے لئے موزوں ہے ، مرد عابد نے کہا: ہماری اس جگہ میں ایک عیب ہے ، فرشتہ نے پوچھا : وہ عیب کیاہے ؟ کہا: ہمارے پروردگارکے پاس کوئی چوپایہ نہیںہے ، اگر خدا کے پاس ایک گدھا ہوتا تو ہم یہاں پر اسے چراتے اس لئے کہ یہ گھاس تلف ہو رہی ہے ، فرشتہ نے اس سے کہا: تمہارا پروردگار گدھا کیا کریگا؟ مرد عابد نے کہا: اگر خدا کے پاس گدھا ہوتا تو یہ گھاس برباد نہ ہوتی ، پس خدا نے فرشتہ پر وحی نازل کی ، کہ میں اس کو اسکی عقل کے مطابق ثواب دونگا۔

۴۷

چوتھی فصل عقل کے رشد کے اسباب

4/1

عقل کی تقویت کے عوامل

الف۔ وحی

( اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکاہے اور ہم نے تم پر روشن نور بھی نازل کر دیا ہے )

(اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ تاریکیوں سے نکا لکر روشنی میں لے آتا ہے اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھروں میں لے جاتے ہیں۔ یہی تو جہنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں)

(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں خود تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے ہو)

ملاحظہ کریں:بقرہ :242، نور: 61، یوسف:2، زخرف:3

۴۸

حدیث

201۔ امام علی (ع): پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے ، انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیںاور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں، تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔

202۔ امام علی (ع)نے رسولخدا ؐ کی بعثت کی توصیف میں فرمایا: خدا نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ خدا کی طرف راہنمائی اور ہدایت کریں، خدا نے انکے ذریعہ ہمیں گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکالا ہے۔

203۔ امام علی (ع): خدا وند متعال نے اسلام کو بنایا اور اسکے راستوں کو اس پر چلنے والوں کےلئے آسان کیا ، اسکے ارکان کو دشمنوںکے مقابل میں پائدار کیا، اسلام کو اسکے اطاعت گذاروں کےلئے باعث عزت اور اس میں داخل ہونے والوں کےلئے سبب صلح و آشتی ...ذہین و ہوشیار انسان کےلئے فہم اور عقلمند کے لئے یقین قرار دیاہے۔

204۔ امام علی (ع): یہاں تک کہ خدا وند سبحان نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جنکے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اورجنکی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود تھی، اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے، کوئی خدا کو مخلوقات کے شبیہ بنا رہا تھا، کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا، کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا، مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا۔

۴۹

ب۔ علم

قرآن

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور انہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا مگر صاحبان علم ہے ۔

حدیث

205۔ رسول خدا(ص): علم جہالت کی نسبت دلوںکی زندگی، تاریکی سے چھٹکارا پانے کے لئے آنکھوںکی روشنی، اور کمزوری سے نجات پانے کے لئے بدن کی طاقت ہے ۔

206۔ امام علی (ع): تم عقل کے ذریعہ تولے جاؤگے لہذا علم کے ذریعہ اسے بڑھاؤ۔

207۔ امام علی (ع): عقل کے رشد کے لئے بہترین چیز تعلیم ہے ۔

208۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربہ سے بڑھتی ہے ۔

209۔ امام علی (ع): علم، عقلمند کی عقل میں اضافہ کرتاہے ۔

210۔ امام صادق(ع): حکمت کے متعلق زیادہ غور وخوض عقل کو نتیجہ خیز بناتاہے ۔

211۔ امام صادق(ع): علم کی موشگافیاں کرنے سے عقل کے دریچے کھلتے ہیں۔

212۔ امام رضا(ع): جو شخص سوچتا ہے سمجھ لیتا ہے جوسمجھ لیتا ہے عقلمند ہو جاتا ہے ۔

۵۰

ج۔ ادب

213۔ رسول خدا(ص): حسن ادب عقل کی زینت ہے ۔

214۔ امام علی (ع): ہر چیز عقل کی محتاج ہے لیکن عقل ادب کی محتاج ہے۔

215۔ امام علی (ع): صاحبان عقل کو ادب کی اس طرح ضرورت ہے کہ جس طرح زراعت کوبارش کی ضرورت ہے ۔

216۔ امام علی (ع): عقل کا بہترین ہمنشیں ادب ہے ۔

217۔ امام علی (ع): ادب عقل کی صورت ہے ۔

218۔ امام علی (ع): عقل کی بھلائی ادب ہے ۔

219۔ امام علی (ع): ادب عقل کے لئے نتیجہ خیز اور دل کی ذکاوت ہے ۔

220۔ امام علی (ع): جس کے پاس ادب نہیںہے وہ عقلمند نہیں۔

221۔ امام علی (ع): جس طرح آگ کو لکڑی کے ذریعہ شعلہ ور کرتے ہو اسی طرح عقل کو ادب کے ذریعہ رشد عطا کرو۔

222۔ امام زین العاب دین (ع): علماء کا ادب عقل کی فراوانی کا سبب ہے ۔

۵۱

د۔ تجربہ

223۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربات سے بڑھتی ہے ۔

224۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ،عقل ایسی فطرت ہے جو تجربات سے پروان چڑھتی ہے ۔

225۔ امام علی (ع): فطرت کا بہترین مددگار ادب اور عقل کا بہترین معاون تجربہ ہے ۔

226۔ امام علی (ع): تجربات ختم نہیں ہوتے عاقل انہیں کے ذریعہ ترقی کرتا ہے۔

227۔ امام حسین (ع): طویل تجربہ عقل کی افزائش کا سبب ہے ۔

ھ۔ زمین میں سیر

قرآن

( کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ انکے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سن سکتے اس لئے کہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں)

( آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ہے اس کے بعد وہی آخرت میں ایجاد کریگا، بیشک وہی ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے )

( اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

(پس آج ہم تیرے بد ن کو بچا لیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوںکے لئے نشانی بن جائے ، اگر چہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں)

۵۲

حدیث

228۔ ابن دینار : خدا نے حضرت موسیؑ کو وحی کی کہ لوہے کی نعلین پہن کر اور عصا لیکر زمین میں گردش کرو اور (گذشتگان کی) عبرت و آثارڈھونڈھو ، یہاں تک کہ نعلین گھس جائے اور عصا ٹوٹ جائے۔

229۔ داؤد(ع): علماء سے کہہ دیجئے کہ آہنی عصا لیکر اور آہنی نعلین پہن کر علم کی تلاش میں نکلیں، یہاں تک کہ عصا ٹوٹ جائے اور نعلین پھٹ جائے ۔

و۔مشورہ

230۔ امام علی (ع): جو صاحبان عقل سے مشورہ لیتاہے وہ عقل کی روشنی سے مالا مال ہو جاتا ہے۔

ز۔ تقویٰ

231۔ سید ابن طاؤس : مجھے ایک کتاب دستیاب ہوئی...... جس پر( سنن ادریس)مرقوم تھا ، اس میں لکھا تھا یاد رکھو اور یقین کرو کہ تقوائے الٰہی بہترین حکمت اور عظیم ترین نعمت ہے اور ایسا وسیلہ ہے جو خیر کی طرف دعوت دیتا ہے اور نیکی ،فہم اور عقل کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔

۵۳

ح۔ جہاد بالنفس

232۔ امام علی (ع): اپنی شہوت کا مقابلہ کرو، اپنے غصہ پر قابو رکھو اور اپنی بری عادتوں کی مخالفت کرو تاکہ تمہاری روح پاک اور تمہاری عقل کامل ہو جائے اور اپنے پروردگار کا ثواب اچھی طرح حاصل کر سکو۔

223۔ امام صادق(ع): امیر المومنینؑ: نے اپنے کسی صحابی کے پاس خط لکھ کر اس طرح نصیحت کی ، تمہیں اور خود اپنے نفس کو اس خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ جس کی نافرمانی مناسب نہیں ، اس کے سوا کوئی امید نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بے نیازی نہیں، جو خوف خدا رکھتا ہے جلیل و عزیز، قوی اور سیر و سیراب ہوجاتا ہے خوف خدا اسکی عقل کو اہل دنیا سے باز رکھتا ہے ، اس کا بدن اہل دنیا کے ساتھ ہوتاہے لیکن اس کا دل اور عقل آخرت کا نظارہ کرتی ہے آنکھیں جن چیزوں کو حب دنیا سے لبریز دیکھتی ہیں نور دل کے ذریعہ انہیں بجھا دیتاہے ، حرام دنیا سے چشم پوشی اور شبہات سے پرہیز کرتا ہے خدا کی قسم حلال و مباح سے بھی اجتناب کرتا ہے صر ف ان ٹکڑوں پر گذاراکرتا ہے کہ جن سے اپنی حیات باقی رکھ سکے اور کھردرے و سخت لباس کے ذریعہ اپنی شرمگاہوں کو چھپاتا ہے۔ اپنی حاجتوں میں کسی پر اعتماد اور کسی سے امید نہیں رکھتا تاکہ اعتماد و امید صرف خالق کائنات سے ہو۔ کوشش و جانفشانی کرتا ہے کہ اپنے بدن کو اس قدر زحمت میں ڈالے کہ ان کی پسلیاں دکھائی پڑنے لگیں اور آنکھیں گہرائی میں چلی جائیں پھر خدا اس کے عوض بدن میں طاقت اور عقل کو قوت عطا کرتا ہے اور آخرت کے لئے جو ذخیرہ کرتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

۵۴

ط۔ ذکر خدا

234۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کا نور، روح کی زندگی اور سینوںکی جلاء ہے ۔

235۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ذکر خدا کرتا ہے اسکی عقل منور ہو جاتی ہے ۔

236۔ امام علی (ع): جو شخص خدائے سبحان کو یاد کرتا ہے خداا سکے دل کو زندہ رکھتا ہے اور اسکی عقل و خرد کو منور کر دیتا ہے۔

237۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کو انس اور دل کو روشنی عطا کرتا ہے اوررحمت خدا کو کھینچتا ہے۔

238۔ امام علی (ع): یاد خدا عقل کو ہدایت اور روح کو بصیرت عطا کرتا ہے۔

ی۔ دنیا سے بے رغبتی

239۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو دنیا کی بخشش و عطا سے بے نیاز رکھتا ہے اس نے عقل کو کامل کر لیاہے۔

ک: حق کا اتباع

240۔ رسول خدا(ص): ناصح کا اتباع عقل و خرد کی افزائش اور کمال کا سرچشمہ ہے ۔

241۔ اعلام الدین : جب معاویہ کے سامنے عقل کا تذکرہ آیا تو امام حسین (ع) نے فرمایا: عقل اتباع حق کے بغیر کامل نہیںہو سکتی، معاویہ نے کہا: آپ حضرات کے سینوںمیں صرف ایک چیز ہے ۔

242۔ امام کاظم (ع): جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: حق کے سامنے جھک جاؤ تاکہ لوگوں میں سب سے بڑے عقلمند قرار پاؤ۔

۵۵

ل۔ حکماء کی ہمنشینی

243۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی اختیار کرو تاکہ تماری عقل کامل ہو، نفس کو شرف ملے اور جہالت کا خاتمہ ہو جائے۔

244۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی دلوںکی حیات اور روح کی شفاء ہے ۔

م۔ جاہلوں پر رحم

245۔ امام علی (ع): محکم ترین عقل کی نشانیوںمیں سے جاہلوں پر رحم کرنا ہے ۔

ن۔ خدا سے مدد چاہنا

246۔ امام زین العاب دین (ع):خدایا! مجھے کامل عقل ، عزم مصمم، ممتاز تدبیر، تربیت یافتہ دل، بے شمار علم اور بہترین ادب عنایت فرما، ان تمام چیزوںکو میرے لئے مفید قرار دے اے ارحم الراحمین تیر رحمت کا واسطہ انہیں میرے لئے ضرر رساں قرار نہ دے۔

247۔ ان مناجات میں مرقوم ہے جو جبریل امین رسول خدا کے پاس لائے تھے، بار الٰہا! میرے گناہوںکو توبہ کے ذریعہ مٹا دے میری توبہ کی قبولیت کے ذریعہ میرے عیوب کو دھو دے اور انہیں میرے دل کے زنگ کے لئے صیقل اور عقل کی تیز بینی کا سبب قرار دے۔

248۔ امام مہدیؑ: نے اس دعا میں فرمایا جو محمد بن علی علوی مصری کو تعلیم دی ہے ، خدایا! میں تیری بارگاہ میںسوال کرتا ہوں.... کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج، میرے دل کی رہنمائی کر اور میری عقل کو میرے لئے سازگار بنا۔

۵۶

4/2

مقویات دماغ

الف: تیل

249۔۔ امام علی (ع): تیل جلد کو ملائم اور دماغ کو پڑھاتاہے ۔

250۔ امام صادق(ع): بنفشہ کا تیل دماغ کو تقویت عطا کرتا ہے ۔

ب: کدو

251۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے علی (ع)! تم کدو ضرور کھایا کرو کیوں کہ یہ دماغ اور عقل کوبڑھاتاہے۔

252۔ انس: رسول خدا(ص) کدو زیادہ کھاتے تھے، میںنے کہا: اے رسول خدا! آپ کدو پسند کرتے ہیں! فرمایا: کدو دماغ کو بڑھاتا اور عقل کو قوی کرتا ہے ۔

253۔ رسول خدا(ص): کدو(کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے اس لئے کہ عقل کو زیادہ اور دماغ کو بڑھاتا ہے ۔

254۔ رسول خدا(ص): میٹھا کدوکھایا کرو،خدا کے علم میں اس سے زیادہ سبک کوئی درخت ہوتا تو اسے برادرم یونس کے لئے اگاتا، تم میں سے جو بھی شوربا بنائے اسے چاہئے کہ اس میںکدو زیادہ ڈالے اس لئے کہ وہ دماغ اور عقل کو بڑھاتا ہے ۔

۵۷

ج:بہی

255۔ امام رضا(ع): بہی (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے۔

د:کرفس(خراسانی اجوائن)

256۔ رسول خدا(ص): کرفس (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کیوں کہ اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔

ھ: گوشت

257۔ امام صادق ؑ: گوشت، گوشت بڑھاتا ہے اور عقل میں اضافہ کرتا ہے جو شخص چند دنوں گوشت نہیں کھاتا اس عقل خراب ہو جاتی ہے ۔

258۔ امام صادق(ع): جو شخص چالیس دن گوشت نہیںکھاتا بد اخلاق ہو جاتا ہے اور اسکی عقل خراب ہو جاتی ہے اور جو بد اخلا ق ہو جائے اس کے کان میں آوازسے اذان دی جائے۔

۵۸

و: دودھ

259۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے دودھ پینا ضروری ہے کیوں کہ دودھ حرارت قلب کو اس طرح دور کرتا ہے کہ جس طرح انگلی پیشانی سے پسینہ کو صاف کرتی ہے ، اور کمر کو مضبوط، عقل کو زیادہ اور ذہن کو تیز کرتا ہے ، آنکھوںکو جلاء بخشتا ہے اور نسیان کو دور کرتا ہے ۔

260۔ رسول خدا(ص):اپنی حاملہ عورتوں کو دودھ پلاؤ کیوں کہ شکم مادر میں جب بچہ کی غذا ددھ ہوگی تو اس کا دل قوی اور دماغ اضافہ ہوگا۔

ز: سرکہ

261۔ امام صادق(ع): سرکہ عقل کو قوی بناتا ہے ۔

262۔ محمد بن علی ہمدانی : خراسان میں ایک شخص امام رضا(ع) کی خدمت میں تھا آپ ؑ کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا کہ جس پر سرکہ اور نمک تھا، امام ؑ نے کھانے کا آغا ز سرکہ سے کیا، اس شخص نے کہا : میں آپ پر فدا ہو جاؤں! ہمیں آپ نے نمک سے آغاز کرنے کا حکم دیا ہے ؟ فرمایاؑ: یہ بھی ایسا ہی ہے ، سرکہ ذہن کو قوی بناتاہے اور عقل کو بڑھاتاہے ۔

ح: سداب( کالا دانہ)

263۔ امام رضا(ع): سداب عقل کو بڑھاتاہے ۔

۵۹

ط: شہد

264۔ امام کاظمؑ: شہد ہرمرض کےلئے شفاء ہے جو ناشتہ میں ایک انگلی شہد کندر کےساتھ کھائے اسکا بلغم زائل ہو جائیگا، صفراء کو زائل کرتا ہے اور سودا میں تلخی نہیں پیدا ہونے دیتا،ذہن کو صاف و شفاف اور حافظہ کو قوی بناتا ہے ۔

ی: انار کو اس کے باریک چھلکوں کے ساتھ کھانا

265۔ امام صادق(ع): انار کو اس کے باریک جھلکوںکے ساتھ کھاؤ کہ معدہ کو صاف اور ذہن کو بڑھاتا ہے ۔

ک: پانی

266۔ ابو طیفور متطبِّب: کا بیان ہیکہ میں امام کاظم (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اورانہیں پانی پینے سے منع کیا، امام ؑ نے فرمایا: پانی سے کیا نقصان ہے بلکہ کھانے کو معدہ میں گھماتا ہے ، غصہ کو ختم کرتا ہے ، دماغ کو بڑھاتا ہے اورتلخی کو دور کرتاہے ۔

ل: حجامت(فصد کھلوانا)

267۔ رسول خدا(ص): حجامت (فصد کھلوانا)عقل کو بڑھاتی اور حافظہ کو قوی کرتی ہے ۔

268۔ رسول خدا(ص): ناشتہ کے وقت حجامت زیادہ مفید ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے،حافظہ قوی اور حافظ کے حافظہ میں اضافہ ہوتاہے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

خلیفہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ''عتاب'' نے اپنے بھائی خالد کی سر پرستی میں مکہ کے پانچ سو جنگجو آمادہ کئے ۔ اور عثمان نے بھی طائف کے باشندوں کے ایک گروہ کا انتخاب کر کے اپنے بھائی عبدالرحمان کی سرپرستی میں آمادہ کیا ۔

طبری نے بھی اپنے منبع سے سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے کہ جب ''مہاجر بن ابی امیہ '' ''یمن ''کے باشندوں پر مشتمل اپنے سپاہیوں کے ہمراہ خلیفہ ابوبکر کی طرف سے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے گزررہا تھا تو ''خالد بن اسید ابن ابی العاص '' اپنے افراد سمیت اس سے ملحق ہوا اور طائف سے عبور کرتے وقت '' عبدالرحمان بن ابی العاص '' بھی اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس کے ساتھ ملحق ہوگیا ۔

ابن فتحون نے بھی اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب'' استعیاب ''سے دریافتکیاہے ۔

اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدماکی یہ رسم تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ ''قریش یا ثقیف '' کے ان لوگوں کے علاوہ جنھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ حجتہ الودعاع میں شرکت کی تھی اور اس کے بعد مکہ یا طائف میں ساکن ہوئے تھے ،کسی کو سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

۱۴۱

علامہ ابن حجر نے اس تشریح میں سیف کی دو روایتوں پر اعتماد کیا ہے ۔ ایک کو بلاواسط سیف سے نقل کیاہے اور دوسری کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے ۔جوکچھ بیان ہوا ہے اس کی بنا پر طبری نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کر کے ١١ھ کے حوارث کے ضمن میں ''طاہر ابو ہالہ ''(۱)کی روایت میں لکھا ہے اورابن خلدون نے بھی اس کو خلاصہ کے طور پر طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔

افسانہ عبدالرحمان اور سیف کے راوی:

عبدالرحمان ابی العاص کے بارے میں سیف کے راوی جو ''تاریخ طبری'' میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :

مستنیر بن یزید نے عروہ بن عزیہ ّ سے نقل کیا ہے ۔

یہ دونوں سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

افسانہ کی پڑ تال :

سیف نے اس روایت میں عثمان ابی العاص ثقفی کے لئے ایک بھائی خلق کر کے اس کا نام ''عبدالرحمان ابی العاص ''رکھا ہے ، جس طرح ' کعب بن مالک انصاری '' کے لئے سہل(۲) بن مالک نامی ایک بھائی ''حذیفہ فزاری ''کے لئے ''ام قرفہ ''(۳)نامی ایک بیٹی اور ام الموء منین خدیجہ کے لئے ''طاہر ابوہالہ '' نامی بیٹا خلق کیا ہے ۔ اوراپنے جعلی صحابیوں کے لئے اس طرح کی تخلیقات سیف بن عمر کی خصو صیات میں سے ہے ۔

اس کے علاوہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ '' میں ابوالعاص ثقفی کے چھ بیٹے بتائے اور ان سب کا نام لیاہے ۔لیکن نام کامیں عبدالرحمان نام کا کو ئی بیٹا نظر نہیں آتا ۔

____________________

١۔''طاہر ابوہالہ ''۔اسی کتاب (٢/٢٥٣۔٢٦٥) میں ملاحظ ہو

٢)۔سہل بن مالک انصاری کے حالات اس کتاب کی تیسری جلد( ٢٧٧۔٢٨٧)

٣۔١٥٠جعلی اصحاب (٢/٢٩٤۔٣٠٧)

۱۴۲

اس کے باوجود سیف بن عمر نے عبدالرحمان کو خلق کیا ہے اور اسے ایک ایسے خاندان میں قرار دیا ہے کہ اس کی اپنی روایت کے مطابق اس کے بھائی عثمان ابوالعاص نے اسے سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب کیا ہے۔ علامہ ابن حجر نے اسی عبدالرحمان کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ میں قرار دیا ہے اور اس کے صحابی ہونے کی دلیل کے طو رپر ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدماکی رسم یہ تھی ....'' کی تکرار کر کے ثابت کر تا ہے ۔ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ اس کا کہ دعویٰ بے بنیاد اور باطل ہے اور ہم اسے ثابت بھی کر چکے ہیں ۔

اور یہ جو ابن حجر کہتا ہے :

'' اور یا وہ جو قریش یا ثقیف مکہ اور طائف میں رہ گئے '' (تاآخر )انشاء اﷲہم آیندہ اس پر بحث کریں گے ۔

مصادر و مآخذ

عبدالرحمان ابوالعاص کے حالات:

١۔''اصابہ''ابن حجر (٢/٣٩٧) پہلاحصہ ۔ نمبر: ٥١٤٧

٢۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٩٨)

عثمان ابو العاص کا نسب:

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٤٥)

طاہر ابو ہالہ کے حالات:

١۔ ''ایک سوپچاس جعلی صحابی '' (٢/٢٥٣۔٢٦٦)

۱۴۳

سہل بن مالک کے حالات :

١۔ ایک سو پچاس جعلی صحابی (٣/٢٧٧۔٢٨٧)

ام قرفہ کے حالات:

ایک سو پچاس جعلیصحابی (٣/٢٩٤۔٣٠٧)

٧٦واں جعلی صحابی عبیدہ بن سعد

اس صحابی کے بارے میں ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیاہے :

عبیدہ بن سعد :

طبری نے کہا ہے کہ ابوبکر صدیق نے حکم دیا تھا کہ ''عبید بن سعد '' مرتدوں کی جنگ میں مہاجربن ابی امیہ کی مدد کرے ۔ اس کے بعد ابوبکر نے اسے ''کندہ '' اور ''سکاسک ''کاحاکم منصوب کیا ۔ (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

عبیدہ بن سعد کی خبر کو طبری نے سیف کی دو روایتوں سے نقل کر کے ١١ ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ میں درج کیا ۔ پہلی روایت میں لکھتا ہے :

ابو بکر نے ایک خط کے ذ ریعہ مہاجربن ابی امیہ ۔ جو صنعا میں تھا ۔ کو حکم دیا کہ ''حضرموت'' کی طرف روانہ ہوجائے اور یہ بھی حکم دیا کہ ''عبیدہ بن سعد '' بھی اس کی اس مہم میں مدد کرے ۔ طبری نے دوسری روایت میں لکھا ہے :

ان دنوں ''حضر موت '' پر دوشخص حاکم تھے ، ان میں سے ایک ''عبیدہ بن سعد '' تھا جو '' سکا سک '' اور ''سکون '' پر حکمرانی کرتا تھا ............(تاآخر روایت )

۱۴۴

سکاسک اورسکون کانسب اوران کی رہائش گاہ :

''سکاسک ''اور'' سکون '' دوقبیلہ ہیں ۔ان کا نسب ، نبی کہلان بن سبا ٔ سے اشرس بن کندہ کے بیٹوں ''سکاسک '' اور ''سکون ''تک پہنچتا ہے ۔ قبیلہ سکا سک ''یمن'' کے آخری کنارے پر سکونت اختیار کی۔ ان کی سکونت کا علاقہ بھی اسی نام سے مشہور تھا ۔

قبیلہ'' سکون'' دوحصوں میں تقسیم ہوا تھا ۔ ان میں سے ایک حصہ ''حضرموت '' میں اور دوسرا حصہ '' دومتہ الجندل '' شام کی راہ پر سکونت کرتا تھا ۔

افسانہ ٔ عبیدہ کے راوی کی پڑتال :

سیف نے اپنی روایتوں میں سے ایک کے راوی کے طور پر سہل بن یوسف '' کا نام لیاہے اوراسے ''سہل انصاری '' کا پوتہ بتایا ہے ، اور یہ اس کے جعلی راویوں میں سے ایک ہے ۔

تاریخی حقائق :

خلیفہ بن خیاط نے خلیفہ ٔ ابوبکر کے تمام گماشتوں اور کا رگزاروں کو اپنی کتاب ''تاریخ کے ایک خاص حصہ میں ''ابو بکر کے کارگزار ''کے عنوان سے حسب ذیل درج کیا ہے :

ابو بکر کی وفات تک بحرین پر ''علاء حضرمی '' حکومت کرتا تھا ۔ابوبکر نے ''عکرمۂ ابو جہل '' کو ماموریت دی کہ ''عمان'' کے مرتد لوگوں کو سر کوب کرے ۔ ان پر فتح پانے کے بعدوہ خلیفہ کی طرف سے '' یمن'' کا حکم مقرر ہوا

''عمان ''کی حکومت ''حذ یفہ قلعانی '' کو سونپی کہ وہ ابوبکر کی زندگی کے آخری دنوں تک اس عہدہ پر باقی تھا ۔

''مہاجر بن ابی امیہ مخزوی'' اور ''زیادبن لبید انصاری '' کو ''یمن '' کی مأموریت دی ۔ اس ترتیب سے کہ زیاد اور نجیل کے باشندوں کے درمیان مشکلات پیدا ہونے کے بعد '' صنعا''، کی حکومت مھاجرکو سونپی ،اور زیا د کو ساحل اور بناد رکا حاکم مقرر کیا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ''عتاب بن اسید '' کو مکہ پر اور عثمان بن ابی العاص کو طائف پر حاکم منصوب کیا ۔ عتاب اور ابوبکر نے ایک ہی دن رحلتکی ہے ۔

۱۴۵

اس کے بعد ابن خیا ط لکھتا ہے :

ہم نے اس سے پہلے شام کے بارے میں ، عراق میں خالد کی داستان ، حکام کے نام ،جنگوں میں ابوبکر کی طرف سے منصوب سپہ سالارو ں اور فوجی معاہدوں کے بارے میں ذکر کیا ہے ۔

ابوبکر نے ١٢ھ میں فریضہ حج ادا کیا ہوا اور اپنی جگہ پر ''قتادہ بن نعمان ظفری ''انصاری کو مدینہ میں اپناجا نشین مقرر کیا ۔اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ان کا جانشین ''ابن امّ مکتوم '' تھا ۔

خلیفہ بن خیا ط نے ایک فصل میں اس سے پہلے لکھا ہے :

جب ابوبکر نے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے ''ذی القصہ '' کی طرف عزیمت کی تو اپنی جگہ پر مدینہ میں ''سنان ضمری '' کوجانشین مقرر کیا ۔ اور یہ بھیکہا گیاہے ''اُسامہ بن زید '' کو مدینہ کی گزر گا ہوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی ۔

بحث کا نتیجہ :

ہم نے دیکھا کہ خلیفہ بن خیاط نے خلیفہ اول ابوبکر کی خلافت کے دوران خلیفہ کے تمام کارگزاروں اور گماشتوں کافرداً فرداً نام لیا ہے اور ان کی ماموریت کی جگہ اور ، تاریخ مأموریت کے بارے میں مفصل لکھا ہے لیکن ان میں ''عبیدہ بن سعد ''نام کا کوئی شخص دکھا ئی نہیں دیتا ہے !

لیکن ،سیف نے اس خیالی چہرہ کو اپنی گڑھی ہوئی دوروایتوں سے ذکر کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''فتوح '' میں درج کیا ہے اورطبری نے اسے ایک قطعی مصدر جان کر اپنی معتبر تاریخ میں درج کیاہے ۔

ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے ''عبیدہ ''کو اپنی کتا ب ''اصابہ '' کے حصہ اول میں رسول اﷲ کے ان اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے جو سپہ سالار ہونے کی وجہ سے صحابی شمار کئے گئے ہیں ۔ اور اس کے حالات بھی لکھے ہیں ۔

۱۴۶

مصادر و مآخذ

عبیدہ بن سعد حالات :

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٢/٤٤٢)حصہ اول نمبر:٥٣٨١

عبیدہ کے بارے میں سیف کی روایتں :

١۔''تاریخ طبری ''(١/٢٠٠١)و(١/٢٠١٣)

ابوبکر کے گماشتوں اور کارگزاروں کے نام:

١۔''تاریخ خلیفہ بن خیا ط ''(١/١٩١)

سکاسک اور سکون کا نسب:

١۔''جمہرہ انساب '' ابن حزم (٣٢٩۔٣٣٢)

٢۔''اشتقاق''ابن درید لفظ ''سکاسک ''اور سکون''

٣۔''تاج العروس'' لفظ''سکاسک ''

٤۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''سکاسک '' و ''دومة الجندل ''

۱۴۷

٧٧واں جعلی صحابی خصفۂ تیمی

یہ صحابی ' ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں پہنچوایا گیا ہے :

خصفہ تیمی:

طبری نے روایت کی ہے کہ خصفہ تیمی کو علاء حضرمی نے ارتداد کی جنگوں میں اپنی فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر مقرر کیا ہے ۔

ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ قدما کی رسم یہ تھی کہ جنگو ں میں صحابیوں کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پرفائزنہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اسی استدلال کی بنا ء پر ''خصفہ '' کو بعنوان صحابی قبول کیا ہے ، بجائے اس کے کہ اصل خبر پر کوئی تحقیق کرے ۔

لیکن اس خبر کی اصلیت کے بارے میں ہم نے گزشتہ صفحات میں ''عامر بن عبدالاسد ''کے حالات کے ضمن میں سیف کی روایت میں پڑھا ہے کہ علاء حضرمی نے عامر اور دوسرے لوگوں کو ایک پیغام کے ذریعہ حکم دیا تھا کی مرتدوں کی نقل و حرکت میں رکا وٹ بنیں ۔

طبری سیف سے نقل کر کے اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :

علاء نے ''خصفۂ تیمی'' اور ''مثنی بن حارث شیبانی '' کے نام ایک جیسے پیغام بھیجے ۔ وہ بھی مرتدو ں کے راستے میں گھات لگاکر بیٹھے اور ان کی ہر قسم کی فعالیت کو معطل کر کے رکھدیا ۔

داستان کا سرچشمہ :

ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ سیف بن عمر نے اس داستان کو اول سے آخر تک خود جعل کیا ہے ۔ اور اسے ''سہل بن یوسف بن سہل ''جیسے راویوں کی زبانی جاری کیا ہے کہ دونوں باپ بیٹے سیف کے جعلی اصحاب میں سے ہیں ۔ ہم نے بارہا ان کے جعلی و خیالی ہونے کا تذکردیا ہے ۔

۱۴۸

لیکن درج ذیل علماء نے''خصفہ ''کے افسانہ کو نقل کرنے کا براہ راست اقدام کیاہے :

١۔طبری نے اسے بلاواسطہ سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کیاہے

٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے اسی ایک مختصر جملہ میں ، جس میں خصفہ کا نام آیا ہے ، سے استفادہ کرتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے صحابیوں میں قرار دیا ہے ۔ اور اس کے حالات پر حرف''خ'' کے تحت شرح لکھی ہے اور آخرمیں اپنے مشہور قاعدہ کی بھی قید لگادی ہے ۔

ایک اور جعلی صحابی :

ابن حجر نے ''خصفہ ٔ تیمی ''کے حالات پر روشنی ڈالنے سے پہلے ایک مجہول راوی سے ایک دوسری روایت پر استناد کر کے خصفہ یا ابن خصفہ یا خصیفہ نام کے ایک دوسرے شخص کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے درج کیا ہے ۔

ابن اثیر نے بھی ایسا ہی کر تے ہوئے اسی مجہول راوی پر اعتماد کر کے ان ناموں کو رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے !

ان دوعلماء نے ایک بار ایک مجہول راوی کے کہنے پر اعتماد کر کے '' خصفہ '' یا ''ابن خصفہ '' یا خصیفہ نام کے صحابیوں کو پہچنوایا ہے اور دوسری بار جھوٹے ورزندیقی سیف کی روایتسے استناد کر کے خصفہ تیمی کو صحابی جان کر اس کے حالات لکھے ہیں !

جی ہا ں !یہی وجہ ہے کہ مکتب خلفاء کے پیروؤں کے درمیا ن جعلی اصحاب کی تعداد فرواں پائی جاتی ہے ۔

۱۴۹

مصادر و مآخذ

خصفہ تمیی کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر ( ١/٤٢٨) حصہ اول نمبر: ٢٦٦٩

خصفہ تمیی کے بارے میں سیف کی روایت:

١؛تاریخ طبری (١/١٩٧)

خصفہ یا ابن خصفہ کے حالات:

١۔''اسدالغابہ'' ابن اثیر (٢/١٩٧)

٢۔''تجرید'' ذہبی (١/١٧١)

٣۔''اصابہ ابن حجر (١/٤٢٧۔٤٢٨) نمبر: ٢٢٦٨

٧٨واں جعلی صحابی یزید بن قینان

اس صحابی کے حالات ہم ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں یوں پڑھتے ہیں :

یزید بن قینان:بنی مالک بن سعد سے۔

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح ''اور طبری نے اپنی تاریخ میں اس کانام لیا ہے اور لکھا ہے کہ ''عکرمہ بن ابی جہل '' نے اسے چند ساتھیوں کے ہمراہ ارتداد کی جنگوں میں شریک کیا ہے اور قبائل ''کندہ '' کے مرتددں کی سرکو بی کے لئے مأموریت دی ہے

اس صحابی کو ابن فتحون نے ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیاب '' سے دریافت کیا ہے۔خدا بہتر جانتا ہے .(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

۱۵۰

نسب:

سیف کے اس جعلی صحابی کے باپ کا نام ''تاریخ طبری '' میں ایک جگہ پر ''قناّن '' اور ایک دوسرے نسخہ میں ''فتیان ''درج ہوا ہے ۔

لیکن سعد کا نام جواس کے سلسلہ ٔ نسب میں نظر آتا ہے اور بنی مالک اس سے پیدا ہوئے ہیں وہ''ابن زید مناةبن تمیم ''تھا ۔

یزید قینان کی داستان تاریخ طبری میں :

طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ''اخبار ارتداد حضرموت '' اور ''جنگ نجیر'' والے حصہ میں سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھتا ہے :

عکرمہ نے اپنے جنگجو سواروں کو ''قبائل کندہ '' میں منتشر کیا اور انھیں حکم دیا کہ انھیں کچل کے رکھدیں ۔ اس مہم میں ماموریت پانے والے سرداروں میں بنی مالک بن سعد سے'' یزید بن قنان ' ' بھی تھا

عکرمہ کے سواروں کے اس حملہ کے نتیجہ میں ''بقری '' اور بنی ھند'' سے ''برہوت'' تک کے تمام باشندے قتل عام ہوئے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

سیف کی روایت میں ''نجیر ''کی جنگ کی بات کہی گئی ہے اور یہ حضر مو ت کے نزدیک ایک قلعہ تھا ، جہا ں پر اشعت بن قیس کی سرپرستی میں کندی افراد ابوبکر کے سپاہیوں کے محاصرہ میں آگئے تھے۔

جب محاصرہ روز بروز سخت ہوتا گیا تو اشعت نے بڑی بے غیرتی سے اپنے رشتہ داروں میں سے سترافراد کے لئے امان حاصل کی، اس کے بعد اپنے دوسرے ساتھیوں کے بارے میں کسی قسم کی پروا کئے بغیرحکم دیا کہ قلعہ کے دروازے خلیفہ کے سپاہیوں کے لئے کھول دیں !

ابو بکر کے سپاہیوں نے قلعہ کے اندر یورش کی اور اشعث اور امان یافتہ اشخاص کے علاوہ اس کے باقی تمام باوفا ساتھیوں جن کی تعداد سات سو امراء اور کند کے عوامی سپاہیوں پر مشتمل تھی قتل عام کئے گئے ! ان کی لاشوں کو بے گور و کفن زمین پر پڑا رکھا گیا ،ان کی عورتوں کو اسیر بنا یا گیا اور ان کے مال و منال کو لوٹ لیا گیا !!

۱۵۱

سیف کی اس روایت میں جن مقامات کا نام آیا ہے ، وہ حسب ذیل ہیں :

١۔برہوت، یہ یمن میں ایک بیابان کانام ہے ۔

٢۔ بقران ، یمن کے اطراف میں ایک علاقہ کو کہاجاتا ہے .لیکن ہم نے ''بقری '' نام کی کوئی جگہ جغرافیہ کی کتابوں میں کہیں نہیں پائی ۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ''بقری '' کو خلق کرنے میں سیف کا مقصد کیا تھا ؟!

یزید قینان کی روایت کی پڑتال :

سیف تنہا شخص ہے جس نے یزید قینان کی داستان کو ''سہل ''اور اس کے باپ''یوسف '' کی زبانی نقل کیا ہے ۔ اس جھوٹے نے روایت کو اپنے جعلی راویوں کی زبان پرجاری کیا ہے۔

بحث کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جس نے عکرمہ بن ابی جہل کی طرف سے ''یزید بن قینان'' کو سیف کے بقول مرتد لوگوں کی سرکوبی اور انھیں قتل کرنے کے حکم کی روایت کی ہے

سیف تنہا شخص ہے جس نے اس لشکر کشی میں ''بقری بنی ھند تا برہوت '' کے باشندوں کے قتل عام کی بات کہی ہے ۔واضح ہے کہ اس قسم کے جھوٹ کو کہنے میں اس کا مقصد خاندان تمیم کی شجاعتوں اور دلاوریوں کو چار چاند لگاکر ان کی شہرت کرنا ہے ۔

دوسری جانب سیف ارتداد کی جنگوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان جنگوں کے بارے میں سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی خبروں کو گڑھ کے پیش کرنے میں یہ مقصد رکھتا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو سکے یہ ثابت کرے کہ اسلام نے عرب قبائل کے دلوں میں کوئی خاص نفوذ نہیں کیا تھا ۔ اس لئے جوں ہی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی ، وہ آسانی کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دین سے منہ موڈکر پھرسے جاہلیت اور بت پرستی کی طرف پلٹ گئے ۔اور یہ خلیفہ ابوبکر تھے جنہوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام کو دوبارہ استحکام بخشا ہے !

۱۵۲

تاریخ اسلام پر سیف کے روا رکھے گئے ان خوفنا ک جرائم کے بعد طبری جیسے بزرگ عالم کی باری میں آتی ہے اور وہ اس عیار' جس پر جھوٹ بولنے اور زندیقی ہونے کا الزام بھی ہے، کے افسانوں کو اپنی گراں قدر اورمعتبر کتاب میں درج کرتا ہے۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک اور عالم ابن فتحون آکر سیف کی روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ''یزید بن قینان '' کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیا ب '' سے دریافت کرتا ہے !

اورسرانجام ابن حجر سیف کے خیالات کی مخلوق''یزید بن قینا ن '' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں قرار دیتا ہے اور اس کے حالات لکھ کر اپنی کتا ب ''اصابہ ' میں درج کرتا ہے ۔

مصادر و مآخذ

یزید بن قینان کے حالات :

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٦٣٥) تیسرا حصہ نمبر:٩٤١٢

یزید بن قینان کی داستان کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٠٠١۔٢٠٠٧)

اشعث بن قیس کی داستان اور '' کندہ '' کا ارتداد:

١۔''فتوح'' ابن اعثم (١/٥٦۔٨٧)

٢۔''فتوح البلدان '' بلاذری (١٢٠۔١٢٤)

٣۔''عبداﷲبن سبائ''(٢/٢٨٧۔٣٠٤)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''نجیر '' (٤/٧٦٢۔٧٦٤) اور لفظ ''حضر موت'' (٢/٢٨٤۔٢٨٧)

سیف کے اجعل کردہ مقامات کی تشریح:

١۔''معجم البلدان '' حموی لفظ ''بقرہ '' (١/٦٩٩)

لفظ ''برہوت '' (١/٥٩٨)

۱۵۳

٧٩واں جعلی صحابی صیحان بن صوحان

اس صحابی کے تعارف میں ابن حجر یوں لکھتا ہے :

صیحان بن صوحان عبدی :

سیف بن عمر نے اس کا نام لیا ہے اوراس کے ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی خبر دی ہے ۔ ماجرا کی تفصیل حسب ذیل ہے:

اسی وقت جبکہ عمان میں '' لقیط بن مالک ازدی '' پیغمبر ی کا دعویٰ کر رہا تھا،ابوبکر کے حکم سے ''عکرمہ بن ابوجہل '' عرفجہ ، جبیر اور عبید ''اس سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوئے ،لیکن مشرکین کی فوج کی کثرت کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ قریب تھا ''لقیط '' خلیفہ کے سپاہیوں پر غلبہ پاجا ئے اورانہیں نابود کر کے رکھدے ۔ اسی اثنا ء میں ''حارث بن راشد '' اور ''صیحان بن صوحان عبدی '' کی سرکردگی میں قبائل بنی ناجیہ ابوعبدالقیس کے سپاہی ان کی مدد کے لئے آپہنچے ۔ ان کے آنے سے مسلمان فوج بڑھ گئی اور لقیط کے ساتھی شکست کھاگئے ۔ بالآخر لقیط اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ اس جنگ میں ماراگیا (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :

سیف نے اپنے اس جعلی صحابی کو ''عبدی '' کہا ہے ۔ اور یہ قبائل عدنان سے ''عبدالقیس بن افصیٰ'' کی طرف نسبت ہے لیکن طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اس نسب کو ''سیحان بن صو حان '' (حرف سین) کے لئے درج کیا ہے !

ابن ماکو لا کی کتاب ''اکمال '' میں بھی سیف بن عمر سے نقل کر کے لقیط سے جنگ میں بجائے ''حارث بن راشد'' اور ''صیحان بن صوحان''بالترتیب '' خریت بن راشد'' اور '' سیحان بن صوحان '' درج کیا گیا ہے ابن ماکو لا لکھتاہے :

اور ''خریت بن راشد''اور ''سیحان بن صوحان '' لقیط بن مالک ازدی کے خلاف جنگ میں بنی ناجیہ اورعبدالقیس کے سپاہیوں کے سپہ سالار تھے ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب''اصابہ '' میں حرف ''سین '' کے تحت ''سیحان بن صوحان '' کے حالات پر الگ سے روشنی ڈالی ہے ۔ گمان کیا جاتا ہے کہ ابن حجر کے پاس کتاب سیف یا تاریخ طبری کے موجود نسخوں نے اسے غلطی سے دوچار کیا ہے تاکہ اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ایک دوسرے صحابی کو ''سیحان بن صوحان '' کے نام سے درج کرئے۔

۱۵۴

جبکہ نسب شناسوں ، جیسے ابن درید نے اپنی کتاب ''اشتقاق '' میں ، ابن خیاط نے طبقات''میں اثیر نے کتاب ''اللباب'' میں صوحان کے تین بیٹے بنام ''زید '' صعصعہ اور سیحان صراحت سے درج کئیہیں ۔ چوتھا بیٹا بنام صیحا ن بن صوحان خلق کیا گیا ہے اور ابن حجر نے اسے بھی صوحان سے منسوب کر دیا ہے ۔ احتمال یہ ہے کہ مغالطہ ''تاریخ طبری کے اس نسخہ کی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پایا ہے جو ابن حجر کے پاس موجود تھا نتیجہ میں اس عالمنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جعلی صحابیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیاہے ۔

٨٠واں جعلی صحابی عبادناجی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

عبادناجی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اس کا نام ذکر کیا ہے.

عباد ان افراد میں سے ہے جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کازمانہ درک کیا ہے .اور ابوبکرکے زمانہ کی بعض فتوحات میں شرکت کی ہے ۔ز

نسب :

ایسا لگتا ہے کہ سیف نے لفظ ''ناجی'' سے قبائل عدنان کے '' بنی سامة بن لوی '' کے منسوبین مراد لئے ہیں یہ وہ خاندان ہے جسے سیف نے اپنے افسانہ میں ''خر ّیت بن راشد'' کے ہمراہ ''دبا'' کی جنگ میں شریک کیا ہے !

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہالینڈکا مشہور دانشمند و مستشرق''ایم ۔جے ۔ڈی گویجی ''(۱)

____________________

١) M.J.Degoeje مشہور ہالینڈی مستشرق ۔ اس کے جملہ آثار میں سے ''تاریخ طبری ''اور اس کی فہرست ہے کہ ''مکتبة الجغرافیین فی العرب''کی طرف سے ١٨٠١ ء لیڈن میں طبع ہوئی ہے اور ہم نے اپنے مباحث کے دوران اس کی طرف رجوع کیا ہے۔

۱۵۵

سیف کے'' عباد ناجی'' کاتعارف کرانے میں مغالطہ سے دوچار ہوا ہے ، جہاں وہ ''تاریخ طبری ''کی اپنی فہرست میں لکھتاہے :

گویایہ شخص''عباد بن منصور'' ہے ، کیونکہ عباد بن منصورناجی ایک محدث تھا ،جو ١٢٩ھ سے ١٤٥ھ تک بصرہ کے قاضی کے عہدہ پر فائز تھا اور ١٥٢ھ میں فوت ہوا ہے ۔

''ڈی گویجی'' کی یہ بات سیف کی روایت سے مغایرت رکھتی ہے ، کیونکہ اس ''عباد ناجی '' کو سیف نے ١١ھ میں ''خریت بن راشد '' کے ہمراہ''دبا''کی جنگ اور قتل عام میں شرکت کرتے دکھایا ہے ، اور اسی سبب سے ابن حجر نے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ١١ھ سے ١٥٢ھ تک ایک لمبا زمانی فاصلہ ہے

ابن حجر نے ''عباد ناجی '' کو اس اعتقاد پر کہ اس نے بقول سیف جنگ ''دبا'' میں شرکت کی ہے ، ''لہ ادراکُ''کی عبارت سے استفادہ کرکے اس کا بعنوان صحابی تعارف کرایا ہے ، اگر چہ سیف نے اس جنگ میں اس کو کوئی عہدہ نہیں سونپا ہے بلکہ صرف اُن اشعار پر اکتفا کی ہے ، جو اس نے اس کی زبان پر جاری کئے ہیں (۱)

____________________

ا۔ یہ اشعار ان تین صحابیوں کے بارے میں ایک جامع بحث میں بیان کئے جائیں گے۔

۱۵۶

٨١واں جعلی صحابی شحریب

اس صحابی کے بارہ میں ابن حجر نے یوں لکھا ہے :

شحریب ، بنی نجرات سے ایک شخص:

وہ من جملہ ان افراد میں سے ہے جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ درک کیا ہے ۔

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف سے اس نے ابوبکر صدیق کے پوتے قاسم بن محمد سے روایت کی ہے '' شحریب '' نے ''عکرمہ بن ابی جہل ''کے ہمراہ یمن کے مرتدوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی ہے ۔ عکرمہ نے اس فتح کی نوید اورغنائم کا پانچواں حصہ شجریب کے ہمراہ ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا ہے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب:

ابن حجر کی ''اصابہ '' میں شحریب کو ''بنی بخرات'' کے ایک شخص کے طور پر درج کیا گیا ہے،جبکہ طبری نے سیف کی روایت کے مطابق اپنی تاریخ میں ''شخریت'' ''بنی شخرات'' سے ایک شخص کے طور پر ذکر کیا ہے ! ہمارے خیال میں یہ مغالطہ ''تاریخ طبری ''کی نسخہ برداری کرتے وقت کتابت کی غلطی سے وجود میں آیا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر بقول ِسیف ''تاریخ طبری '' ، شحریب '' سپہ سالاری کے عہدہ پر فائز تھا (۱)،لیکن چونکہ لشکر اسلام سے ملحق ہونے سے پہلے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو گیاتھا ، لہذا سے ابن حجر نے خصو صی حکم ''لہ ادراک''جاری کر کے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے زمرہ میں قرار دیا ہے ۔

____________________

١۔اس کی داستان '' ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث'' میں آئے گی۔

۱۵۷

ان تین اصحاب کے بارے میں ایک جامع بحث

صیحان ،عبادناجی اورشحریب

طبری نے ''عمان ، مہرہ اور یمن '' کے باشندوں کے ارتداد کے بارے میں سیف سے نقل کرکے ایک مفصل شرح لکھی ہے ۔ ہم اس کا خلاصہ ذیل میں قاریئن کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

لقیط بن مالک عمان میں مرتد ہوا ۔ دوسرے جھوٹے پیغمبر ی کا دعوی کر نے والوں کی طرح اس نے بھی پیغمبر ی کا دعویٰ کیا اور ''دبا'' کی طرف چلاگیا۔ وہا ں پر تبلیغ کرنے لگا اورچند پیرو بھی بنالئے ۔

ابو بکر نے اس کے فتنہ کو کچلنے کے لئے عکرمہ ابوجہل '' کو عرفجہ اور حذیفہ کے ہمراہ ایک سپاہ کی معیت میں ''دبا '' کی طرف روانہ کیا ۔ اسلام کے سپاہیوں اورلقیط کے حامیوں کے درمیان ایک شدید جنگ چھڑگئی ، اور نزدیک تھا کہ لقیط اور اس کے سپاہی کا میاب ہوجائیں کہ ''خریت بن راشد'' کی کمانڈ میں ''بنی ناجیہ ''اور سیحان بن صوحان ، کی کمانڈ میں ''عبدالقیس''کے قبیلہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مدد پہنچی اور عکرمہ اور اس کے ساتھیوں کی ہمت افزائی ہوئی ،نتیجہ کے طور پر لقیط اور اسکی سپاہ شکست کھاکرنا بود ہوگئی ۔

اس جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل ہوگئے۔اسلام کے سپاہیوں نے فراریوں کا پیچھا کیا اور سب موت کے گھاٹ اتاردیا ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیربنالیا اور ان کے مال ومنال کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا !

اس فتح و کامیابی میں غلاموں کاپانچواں حصہ جو ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا گیا ان کی تعداد آٹھ سو افرادتھی ! عباد ناجی نے اس فتح پر درج ذیل اشعار کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم '' لقیط بن مالک '' کا چہرہ ایسا برااور بدصورت ہو چکا تھا کہ اس نے لومڑی کے چہرہ کو بھی سیاہ کر رکھا تھا۔

وہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو ابوبکر کے برابر جانتا تھا لہذا خلیج میں مہلک اور خطرناک امواج سے ٹکرایا۔

۱۵۸

جس راہ کو لقیط نے انتحاب کیا تھا نہ اس کی عقل نے اسے اس سے پیچھے ہٹا یا اور نہ اپنے حریف کو شکست دے سکا۔

سرانجام ہمارے سواروں نے ان کے اونٹ بار سمیت کھینچ لائے۔ نئی سطر سے اس کے بعد طبری کہتا ہے:

عکرمہ وہا ں سے ''مہرہ'' کی طرف روانہ ہوا۔ وہا ں کے مشرکین دوگرو ہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ہر گروہ کا سردار اپنے کو مطلق سردارجانتا تھا ۔ بنی شخرات کے شخریت نامی ایک شخص کے گرد لوگوں کی ایک جماعت جمع ہوئی تھی ۔ دوسرا کہ ''مہرہ ''کے تمام باشنددے جس کے زیر فرمان تھے بنی محارب سے ''مصبح '' نامی ایک شخص تھا ۔

عکرمہ نے جب دوسرداروں کے حاکمیت کے مسلئہ پر آپسی اختلاف کا مشاہدہ کیا اور شخریت کے ساتھیوں کی تعداد کمدیکھی تو ۔ اسے پھر سے اسلام کی طرف پلٹنے کی دعوت دی اوراس دلجوئی کی ۔ شخریت نے یہ دعوت قبول کی اور اسلام لے آیا ۔سیف کہتا ہے کہ مشرکین کے سپاہیوں نے ''جبروت ''و نضدون '[ کے درمیان صحرا ۔ جو مہرہ کے بیامان ہیں کو پر کر رکھا تھا ۔

عکرمہ جب شخریت کی طرف سے بے فکر ہواتو اس نے ''مصبح'' کو بھی پیغام بیھجا اور اسے بھی پھر سے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ لیکن مصبح اپنے حامیوں کی کثرت کی وجہ سے مغرور ہو کر تسلیم نہیں ہوا بلکہ شخریت کے جدا ہونے پر بھی سخت برہم ہوا۔

جب عکرمہ مصبح کی طرف سے مایوس ہوا ، تو اس نے شخریت کیہمراہ اس کی طرف قدم بڑھایا ۔ کچھ تعاقب و فرار کے بعد نجد کے مقام پر دونوں سپاہ ایک دوسرے سے روبرو ہوئے اور ''دبا'' سے بھی سخت جنگ چھڑ گئی.

سر انجام خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح وکامیابی عطا کی اور مشرکین کو بری شکست کاسامنا کرنا پڑا۔مصبح مارا گیا اس کے ساتھی بھاگ گئے ۔مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں تہ تیغ کر کے انہیں قتل و مجروح کیا اور ان کے مال و منال کو غنیمت میں لے لیا ۔

غنائم جنگی میں اور چیزوں کے علاوہ ان کی دو ہزار بخیب اور آزاد عورتوں کو بھی اسیر کیا !!

۱۵۹

عکرمہ نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو مشخص کر کے ''شخریت ''کے ہاتھ ابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ اس کے بعد اس علاقہ کے مسلئہ کو خاتمہ دینے کے لئے حکم دیاکہ '' نجد، ریاضہ الروضہ 'ساحل ، جزائر ،مرّ ،لبّان ، جیروت ، ظہور، صبرات ، ینعب اورذات الخیم '' کے باشندوے ایک جگہ جمع ہوجائیں ۔ جب وہ لوگ جمع ہوئے تو انہوں نے ایک بار پھر اسلام قبول کر کے عکرمہ کے ساتھ عہدو پیمان باندھا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا ۔

علجوم محاربی نے مندرجہ ذیل اشعار میں اس شکست کے بارے میں یوں کہا ہے :

خدا ئے تعا لےٰ نے شخریت اور ''ھیثم و قرضم ''کے قبائل ۔جو ہمارے خلاف اٹھے تھے ۔ کو سزادیدی۔

ظالموں اور بدکاروں کی پاداش ،کیونکہ انہوں نے پیمان کو توڑا ہمارے ساتھ تعلقات کو اپنے لئے خوار سمجھا ۔

اے عکرمہ ! اگر میرے خاندان کے کارنامے اور ان کی مدد تیرے ہمراہ نہ ہوتی تو تجھ پرفرار کا راستہ زمین و آسمان میں بند ہوجاتا ۔

ہم اس جنگ میں ایسے تھے جیسے ایک ہاتھ نے دوسرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑرکھا ہو ! اس لئے ہمیں رنج و محنت کا سامنا کر نا پڑا۔

اس داستان میں سیف کے راویوں کی پڑتال :

اس داستان میں سیف کے راوی حسب ذیل ہیں :

١۔سہل بن یوسف انصاری سلمی :

٢:غصن بن قاسم

ہم نے مذکورہ دوراویوں کے بارے میں بارہا کہا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے بلکہ جعلی راوی ہیں

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273