ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123632 / ڈاؤنلوڈ: 4389
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

معاویہ انس کی روایت اور داستان :

جو کچھ ابن حجر نے ''معاویہ انس'' کے حالات اس کے تعارف میں سیف کی کتاب فتوح سے نقل کیا ہے ، طبری نے اس کو اپنی تاریخ میں درج نہیں کیا ہے ، بلکہ اس نے ١١ھ کے حوارث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکیے ایک روایت میں یمن کے مرتدوں کا ذکر نے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے '' مکہ ، طائف ، عک ، اشعر یین اور صنعاء میں موجود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارگزاروں جن میں بعض جعلی اصحاب بھی نظر آتے ہیں ۔ کا نام لینے کے بعد لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے زمانہ میں اسود صنعا میں داخل ہوا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند سفیروں کو بھیج کر اور چند سفیروں کو خطوط لکھ کر اسودکامحاصرہ کرایااور سر انجام اسود قتل کیا گیا اور علاقہ میں امن وامان بر قرار ہوا ۔

اس کے بعد طبری سیف سے نقل کرکے اس داستان کو یوں لکھتا ہے :

اسود کے قتل ہونے کے بعد اس کے سپاہی '' نجران '' اور '' صنعا '' کے درمیان آشفتہ حال اور دربدر ہوئے، نہ کسی کو پناہ گاہ پاتے تھے اور نہ کوئی انھیں پناہ دیتا تھا اور نہ کوئی ان کی حمایت کرنے پر حاضر تھا ۔ تا وقتیکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر اس علاقہ میں پہنچی تو یمن اور اس کے شہر بغاوتوں اور اضطراب سے دوچار ہوئے ۔ اس اثناء میں عمروبن معدی کرب سرزمین ''قروة بن مسیک '' میں اور معا ویہ بن انس اسود عنسی کے فرار یوں کے درمیان رفت و آمد میں مشغول تھے ،ابوبکر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے سفراء کو ا روانہ کرنے اور خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ یمن مرتدوں کے خلاف کاروائی کرے اور یہاں تک کہ اسامہ بن زید واپس لوٹا اور۔۔۔۔۔۔(تاآخر داستان)

افسانہ ٔ معاویہ میں سیف کے اسناد:

'' تاریخ طبری '' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں معاویہ کے حالات کی تشریح میں سیف کی کتاب ''فتوح '' سے ''سہل بن یوسف '' اس داستان کا راوی ہے ۔ سیف نے اس کو سلمی اور انصار کہا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ اس قسم کاراوی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ہے اور یہ سیف بن عمر کی خیالی تخلیق ہے ۔

۲۰۱

افسانہ ٔ معاویہ سے سیف کا مقصد :

سیف نے اسود کے قتل ہونے کے بعد اپنے افسانوں میں یمانیوں پر دو بار مرتد اور اسلام سے منحرف ہونے کی تہمت لگائی ہے ۔ سیف کی نظر میں ان کاپہلا ارتداد وہی تھا جس پر بحث ہوئی ان کے دوسرے ارتداد کا ذکر شہر ''ذویناف '' یا ''ذویناق '' کی روایت کے سلسلہ میں گزرا ہے ۔

سیف نے ان دو ارتدادوں کے سلسلہ میں یمانیوں پر جھوٹی تہمت لگائی ہے ، اس طرح اس نے ، ماہروں ، فوجیوں ، افسروں کو نصب کرنے ، ضروری احتیاط برتنے،بر وقت اقدامات اور نرم رویہ اپنانے، جنگی میدانوں میں حکمت عملی اور سرکوبی وغیرہ جیسے کارنامے بیان کرکے رجزخوانیاں کی ہیں ۔سیف تنہا شخص ہے جس نے یمانیوں کے دوبار مرتد ہونے کی روایت کی ہے ، اور اس سلسلہ میں تمام روایتوں اور افسانوں کو گڑھ لیا ہے ۔ وہ اسلام اور اس کی تاریخ کے خلاف انجام دئے گئے اپنے اس ظلم میں اچھی طرح جانتا تھا کہ کہاں پر کس طرح ضرب لگائے !

وہ اس طرح کے حوارث کی تشریح میں واقعی اورجعلی اصحاب دونوں کی ستائش کرتا ہے اور ان کے بارہ میں ایسی باتیں کہنا اور علما ء اورمورخوں کو ان کی شجاعت وجواں مردی ، دلیری ، کارناموں ، حکمت عملی اور ان کی دور اندیشی کے مقابلہ میں اس حد تک تعجب میں ڈالتا ہے کہ وہ ان اصحاب کے مناقب و اوصاف سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ۔لہذا وہ مجبور ہو کر اس کے ان افسانوں کو اپنی کتابوں میں بعض تفصیل سے اور بعض خلاصہ اور اشارہ کے طور پر درج کرتے ہیں ۔

اس قسم کے علماء میں امام المورخین طبری ہراول دستے کی حیثیت رکھتا ہے سیف کی تمام روایتوں کو نقل کرکے اس نے پورے حوصلہ اور فراغت سے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔

طبری کے بعد ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی جو کچھہ طبری نے سیف سے نقل کیا ہے ، انہوں نے اس سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے !

۲۰۲

اس ترتیب سے ارتداد کی جنگجوں سے مربوط روایتیں ، خاص کروہ جنگیں جو اصل'' میں وجود میں ہی نہیں آئی ہیں ، سیف بن عمر کی زبان سے نقل ہو کر !اسلام کی معتبر اور گرانقدر کتابوں کے متون میں درج ہو کر زبان زد خاص وعام ہوئی ہیں ۔ ان علماء کے سیف سے اس قسم کے مخلصانہ تعاون کے نتیجہ میں ، سیف اپنی مرضی کے مطابق اسلام کو پہنچوانے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام تلوار کی ضرب اور بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے سے مستحکم ہو کر پھیلا ہے نہ یہ کہ اس نے اپنے پیرؤ ں کے دلوں میں اثر کر کے استحکام حاصل کیا ہے !! اور یہ وہ بہترین حربہ ہے جو سیف نے اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ دیا ہے تاکہ وہ اسے دلیل کے طور پر پیش کریں اور اس سے دین اسلام پر کاری ضرب لگائیں ۔ کیا سیف اس کے علاوہ کوئی اور زچیز چاہتا تھا؟

ابن حجر نے بھی ان ہی مطالب سے متاثر ہو کر اور سیف کی اس قسم کی روایتوں کی طرف رجوع کر کے اس کے جعلی اصحاب کے حالات پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں روشنی ڈالی ہے ، اس ''طرح معاویہ بن انس '' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے اپنی کتاب کے پہلے حصہ کے صحابیوں میں درج کیا ہے ۔

مصادر و ما خذ

٭معاویہ بن انس کے حالات:

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٠)حصہ اول نمبر: ٨٠٦٠

٭یمانیو ں کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔'' تاریخ طبری'' (١/١٩٨٢۔١٩٨٤)

٢۔ ''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٨٦۔٢٨٧)

٣۔''تاریخ ابن کثیر'' (٦/٣٣١)

٤۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٧٤)

۲۰۳

٭سلمیوں کا نسب:

١۔ ''اللباب'' (٥٥٣۔٥٥٤)

٩٢واں جعلی صحابی جراد بن مالک

ابن حجر اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے :

جراد بن مالک نویرہ :

سیف بن عمر نے اپنی کتا ب ''فتوح '' میں اس کانام لے کر لکھا ہے کہ وہ اپنے باپ مالک نویرہ کے ساتھ قتل ہوا ہے ۔ اس کے چچا '' متمم '' نے چند غمناک اشعار میں اس کا سو گ منایا ہے ۔

ہم انشاء اﷲ جلدی ہی حرف ''م'' کی وضاحت میں اس کے حالات اور مالک نویرہ کے قتل ہونے کی داستان پر روشنی ڈالیں گے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

سیف کے اس صحابی کا نسب :

سیف نے ''جراد'' کو خلق کر کے اسے ''مالک نویرہ تمیمی ''یر بوعی سے جوڑ دیا ہے جیسے اس نے ''ام قرفہ صغری'' کو خلق کرکے اسے ''مالک بن حذیفہ فزاری اسے نسبت دے دی ہے ۔ یا جس طرح ''سہل بن مالک انصاری '' کو خلق کر کے اسے '' کعب بن مالک انصاری '' خزر جی سے نسبت دے دی ہے ، یا یہ کہ خلید کو خلق کرکے ''منذر بن ساوی عیدی'' تمیمی سے جوڑ دیا ہے یا اسی طرح اس کے دوسرے صحابہ وغیرہ صحابہ وغیرہ۔!!

۲۰۴

روایت کے استاد:

ابن حجر نے جراد بن مالک نویرہ '' کے بارے میں سیف کی روایت کے ماخذ کا ذکر نہیں کیا ہے تاکہ ہم اس پر بحث کرتے ۔ لیکن مالک نویرہ کے قتل ہونے کی روایت کو ہم نے کتاب '' عبداﷲابن سبا ' کی پہلی جلد میں درج کیا ہے اور اسی کتاب کی دوسری جلد میں بھی اس واقعہ کے بارے میں بیشتر مطالب کی طرف اشارہ کر چکے ہیں (١)

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جن منابع میں مالک نویرہ کے قتل کئے جانے کی روایت موجود ہے ، ان میں اس کے ''جراد '' نامی بیٹے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ، جس کے بارے میں سیف کہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ ماراگیا ہے ۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ طبری اور دوسرے علماء کے درمیان، جنہوں نے اپنی کتابوں میں سیف کی روایتوں کو نقل کرنے میں پہل کی ہے ، ان میں سے ابن حجر کے علاوہ کسی عالمنے اس قسم کی روایت کو سیف بن عمر سے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا ہے ۔

افسانہ کا نتیجہ:

ابن حجر نے سیف کی اس روایت پر اعتماد کرکے' کہ جراد کو ارتداد کی جنگوں میں اپنے باپ مالک نویرہ کے ساتھ قتل کیاگیا ہے ، اس کے لئے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں مخصوص جگہ معین کی ہے اور اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے ذکر کیا ہے ۔

____________________

١۔عبداﷲابن سباء تالیف مؤ لف محترم (١/١٥٠۔١٥٣)و (٢/٣٠٦۔٣٠٧)

۲۰۵

جلیل القدر عالم ''سید شرف الدین عاملی '' نے بھی ابن حجر کی روایت پر اعتماد کرکے مغالطہ کا شکار ہو کر '' جراد بن مالک نویرہ '' کو من جملہ اصحاب جانتے ہوئے اسے شیعہ اور پیرو امیرالمؤ ممنین علی بن ابیطالب جانا ہے ۔

اس دانشمند نے اس نتیجہ کو اس لئے اخذ کیا ہے کہ ابن حجر نے کہا ہے کہ جراد کو اپنے باپ مالک نویرہ کے ہمراہ قتل کیا گیا ہے ۔چونکہ مالک نویرہ کا قتل خلافت ابوبکر سے مخالفت اور امیرالمؤمنین حضرت علی کی خلافت کی حمایت کی وجہ سے انجام پایا تھا ، اس لئے ناگزیر طور پر اس کا بیٹا جراد من جملہ اصحاب وشعۂ امام تھا ۔ علامہ سید شرف الوبن کی بات ان کی گراں قدر کتاب ''فصول المھمہ '' کے حصہّ دوّم میں حرف ''ج کے تحت بعینہ یوں لکھی ہے :

''جراد بن مالک بن نویرہ تمیمی ، جو ''بطاح '' کی جنگ میں اپنے باپ کے ساتھ قتل کیا گیا ہے ،اوراس کے چچا '' متمم''نے اس کا سوگ منایا ہے '' سید شرف الدین نے نہ صرف یہاں پر اپنی روایت کے مصدر کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے کہیں پر بھی اصحاب شیعہ و پیروان امیرالمؤمنین کے تعارف میں اپنی روایت کے مصدر و مآخذ کو مشخص نہیں کیاہے ۔ اور اپنی بات کے آغاز میں اس سلسلے میں کہتے ہیں :

جو کچھ نادان اور بیوقوف لوگ شیعوں کے بارے میں لکہتے ہیں یاتصور کرتے ہیں اس کاربط شیعوں سے کہا ں ہے؟انہوں نے ۔جیسا کہ ''استیصاب ''''اسد الغابہ'' اور ''اصابہ'' جیسی کتابوں میں آیا ہے' مکتب امیر المومنین کی پیروی کرتے ہوئے ایسے بزرگ اصحاب کی اقتداء کی ہے کہ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اور اپنے مدارک کی تکمیل کے لئے ہم بعض ایسے ا صحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام نقل کرتے ہیں جو امیر المومنین کے شبہ بھی شمار ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد شبہ شرف الدین حروف تہجی کی بنیاد پر ایسے اصحاب کے نام ذکر کرتے ہیں کہ ہم نے جراد کے حالات حرف (ج) میں ذکر کئے ہیں ۔

یہ عالم صرف (ط) کے ذیل میں ''طاھر ابو ھالہ تمیمی'' کو بھی جو سیف ابن عمر کا جعلی کردہ ہے شیعان علی میں تصور کیا ہے' سیف کے خیالی (جعلی جو شیعان امیر المومنین شمار ہوتے ہیں ان کی تعداد صرف ان دو (جرادو ظاہر) پر تمام نہیں ہوتی جنہیں عالم بذرگوارسعید شرف الفین نے کتاب ''فصول المھمہ'' میں آکر کیا ہے۔

۲۰۶

شیخ طوسیٰ علی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب ''رجال'' میں قعقاع بن عمرو تمیمی'' کو بھی امام کے شعبوں میں جانا ہے۔

ان کی پیروی میں علماے رجال نے ہمارے زمانہ تک سیف کی ان خیالی مخلوقات اسی طرح پہچانا ہے۔ ''مامقانی'' نے بھی سیف کے ''زیاد بن حنظلہ تمیمی''کو اپنی کتاب ''تنقیح المقالی'' ،میں شیعہ علی کے طور پر درج کیا ہے پس نافع بن اسود تمیی '' بھی سزا وار تر ہے کہ شیعہ علی شمار کیا جائے ،کیونکہ سیف بن عمر نے اسے صفین کی جنگ میں اہم کردار سونپا ہے اور اس کی زبانی ایک زیباشعر بھی کہا ہے۔

اس قسم کے اصحاب کو جیسا کہ ہم نے اپنی جگہ پر ان کے بارے میں وضاحت کی ہے ، خدا نے ابھی تک خلق نہیں کیا ہے کہ پیرو امیرالمومنین ہوں یانہ ہوں بلکہ یہ سب زندیقی سیف بن عمر کے خیالات کی مخلوق ہیں کہ اس نے انھیں اپنے خاندان تمیم سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر خلق کیا ہے ۔ اور ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزررہا ہے کہ اس نے عالم اسلام کے علماء و دانشمندوں کواپنے جعل کئے گئے افسانوں میں مشغول و حیران کررکھاہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ حیرت اور پریشانی کب تک جاری رہے گی! کیا علما اور دانشور حضرات اس بات کی اجازت دیں گے کہ ہم سیف کے اس قسم کے جعلی اصحاب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست سے نکال باہر کریں ؟ یا پھر وہ اسی بات پر قائم رہنا چاہتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں ایسے صحابیوں میں ایسے اصحاب کا اضافہ ہوتارہے جن کو ابھی خدا نے پیداہی نہیں کیا ہے اور یہ تاریخ و رجالی کتابوں میں بدستور درج ہوتے رہیں ؟!

مصادر و مآخذ

جراد بن مالک نویرہ کے حالات:

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (١/٢٦٠٠) تیسرا حصہ حرف ''ج''

٢۔ ''فضول الحھمہ '' سید شرف الدین ۔ طبح نجف ١٣٧٥ ھ مقصد دوم حصہ دوم (١٧٧ ۔١٧٨)

۲۰۷

قعقاع بن عمرو کے حالات:

١۔'' اصابہ ابن حجر '' (٣/٢٣٠) نمبر: ٧١٢٩

٢۔تاریخ طبری (١/٣١٥٦) و ( ١/٣٠٠٩۔٣٠١٣)و (٣٠٨٨)و(٣١٤٩)و(٣١٥٠)

٣۔''تاریخ ابن اثیر '' (٣/١٧٠۔٢٧١)

٤۔''تاریخ ابن کثیر'' (٧/١٦٧)

ٍٍٍ ٥۔''تاریخ ابن خلدون' (٢/٤٢٥)

٦۔١٥٠صحابی ساختگی (١/١٢٩۔٢٧٠)

ٍٍ طاہر ابو ہالہ کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٢/٢١٤)

٢۔١٥٠ صحابی ساختگی (٢/٢٥٣۔٢٦٦)

زیاد بن حنظلہ کے حالات:

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٦٣٥و٢٩٠٣و٢٣٩٥و٢٤١٠)

٢۔''١٥٠صحابی ساختگی '' (٢/١١٣۔١٣٤)

نافع بن اسود کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٥٥٠) تیسرا حصہ نمبر:٨٨٥٠

٢۔١٥٠صحابی ساختگی (٢/٧٧۔٩٦)

۲۰۸

٩٣واں جعلی صحابی عبدبن غوث حمیری

عراق میں سپاہ ِحضرت ابوبکر کو مدد کر نے کے سبب بننے والا صحابی :

ابن حجر نے اپنی کتاب''اصابہ '' میں اس صحابی کایوں تعارف کرایا ہے :

عبد بن غوث حمیری :

سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ جب ''عیاض بن غنم '' عراق میں ایرانیوں سے نبردآزما تھا ، اس نے سپاہ کی کمی کے بارے میں خلیفہ سے شکایت کی اور اس سے مدد طلب کی ۔ حضرت ابو بکر نے ''عبد بن غوث ''حمیری کو اس کی مدد کیلئے بھیجا (ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :

سیف کے اس جعلی صحابی کے باپ کے بارے میں تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ''غوث '' اور بعض دوسرے نسخوں میں '' یغوث '' اور اکثر نسخوں میں ''عوف '' لکھا ہے لیکن تاریخ ابن خلدون میں ''عوف '' لکھا گیا ہے !!

اور ''حمیری ' یشجب قحطان کے پوتے ''حمیربن سبا ء '' سے نسبت ہے یہ یمن کے اصلی قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا ۔

۲۰۹

انوکھا جھوٹ:

طبری نے ١٢ھ کے حوارث اور روداد کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :

جب خالدبن ولید '' یمامہ '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو حضرت ابوبکر نے اسے یوں لکھا :

خدائے تعا لےٰ نے فتح تجھے نصیب کی ، اب عراق کی طرف روانہ ہو ، تاکہ وہاں پر ''عیاض سے ملاقات کرو۔

اس کے بعد ایک الگ خط میں ''عیاض بن غنم '' کو ۔جو ''نباج'' اور ''حجاز '' کے درمیان مقیم تھا یوں حکم دیا :

اسی طرح آگے بڑھتے رہو یہاں تک کہ ''مصیخ '' پہنچ جاؤ۔ اور وہاں اس علاقہ کی بلندیوں سے ''عراق''پر حملہ کرو اور اس علاقہ میں اپنی پیشروی کو اس قدر جاری رکھوکہ خالدبن ولید کے پاس پہنچ جاؤ ۔ وہا ں پر مستقر ہونے کے بعد اپنے سپاہیوں میں سے جو بھی مائل ہوا سے اپنے وطن جانے کی اجازت دینا ۔ ان کو ہر گز زبردستی فوجی چھاؤنی میں روکے نہ رکھنا ۔

جب ابوبکر کا خط خالد اور عیاض کو پہنچا ، انہوں نے خلیفہ کا حکم اپنے سپاہیوں تک پہنچا دیا ۔ مدینہ باشند ے اور اس کے اطراف کے لوگ ان دوپہلوانوں سے دوری اختیا ر کرکے فوجی چھاونی سے چلے گئے۔ اس لئے انہوں نے مجبور ہو کر ابوبکرسے مدد چاہی۔ ان کی مدد کی درخواست کے جواب میں خلیفہ نے ''قعقاع بن عمرو تمیمی '' کو خالد کی مدد کے لئے اورعبد بن غوث حمیری '' کو ''عیاض بن غنم ' کی مدد کے لئے بھیجا و۔۔۔۔۔۔۔(تاآخر داستان)

سیف تنہا شخص ہے جس نے خلیفہ ابوبکر کے حکم سے ''عیاض بن غنم '' کی عراق کی طرف عزیمت کی روایت کی ہے اور اس کے اور دوسرے عرب سردار خالد بن ولید کے بارے میں داستانیں گڑھیہیں ۔

طبری پہلا عالم ہے جس نے ان افسانوں کو سیف بن عمر نے نقل کرکے اپنی تاریخ کی معتبر کتاب میں درج کیا ہے

ابن اثیر اور ابن خلدوں نے بھی انہیں افسانوں کو'' تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں عراق کے اخبار کے عنوان سے درج کیا ہے ۔

۲۱۰

تاریخی حقائق :

سیف نے اپنے افسانہ میں لکھا ہے کہ خلیفہ ابو بکرکے حکم سے ''عیاض بن غنم '' عراق کی طرف روانہ ہوا ۔ اس فوری حکم کے نتیجہ میں اس کے سپاہیوں کی تعداد گھٹ گئی اور وہ مدد طلب کرنے پر مجبور ہوا ۔ خلیفہ نے عبدبن غوث حمیری کواس کی مدد کے لئے بھیجا اور قعقاع بن عمرو تمیمی کو خالدبن ولید کی مدد کے لئے بھیجا۔

ان تمام مطالب کو طبری نے سیف سے نقل کیاہے ۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی ان ہی مطالب کو ''تاریخ طبری '' سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ جنھوں نے سیف کی روایتیں نقل نہیں کی ہیں اور اس کی بات پر اعتماد نہیں کیاہے جیسے ''خلیفہ بن خیاط'' نے اپنی تاریخ میں اور بلا ذری نے ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :

عیاض بن غنم ''ابوعبیدہ جراح'' کے ساتھ شام کے محاذ پر سرگرم عمل تھا اورکفر کے سپاہیوں سے لڑرہا تھا ۔

شام کے سپہ سالارابو عبیدہ نے مرتے وقت عیاض کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خلیفہ عمر نے بھی اس انتخاب کی تائد و تصویب کی اور کچھ مدت کے بعد ''جزیرہ '' کی حکومت بھی اسے سونپ دی ۔

عیا ض آخر عمر تک وہاں پر موجود تھا ، اورجزیرہ سے باہر نہیں نکلا۔ اس علاقہ میں چند دیگر جنگوں کے دوران فتحیا بیاں حاصل کرنے کے بعد ٢٠ ھ میں وفات کر گیا ۔

اس حساب سے ، عیاض بن غنم کسی صورت میں ان دنوں عراق کی جنگو ں میں حاضر نہیں ہوسکا ہے۔ بلکہ سیف نے اکیلے اس افسانہ کو خلق کیا ہے اور اس کے لئے ''عبد بن عوف '' یا ''غوث حمیری '' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی عنوان سے خلق کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے ''عبید بن عوف''کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تیسرے طبقہ کے صحا بیوں میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات لکھے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے ''مصیخ'' نامی ایک جگہ کو بھی خلق کیا ہے تاکہ جغرافیہ کے علماء یا قوت حموی اس قسم کے مکان کے وجود کا اپنی کتاب''معجم البلدان '' میں ذکر کریں ۔ عبدالمومن نے بھی اپنی کتاب ''مرصدالاطلاع'' میں یاقوت حموی کی بات کو نقل کیا ہے ۔

۲۱۱

اس طرح سیف بن عمر جیسے جھوٹے اور زندیقی شخص کا یہ حیرت انگیز جھوٹ اور افسانہ عالم اسلام کے علمی اور تاریخی مصادر ومنابع میں پھیل گیا ہے اور اایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے کہ علماء و دانشوروں کو اپنی طرف مشغول کرکے حیرت و تعجب سے دوچار کئے ہوئیہے ۔

مصادر و مآخذ

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/١٠٠)تیسرا حصہ نمبر :٦٣٩٠

حمیریوں کا نسب

''جمہرہ انساب'' ابن حزم (٤٣٢۔٤٣٩)

٢۔''اللباب'' (٣٢٢)

عیاض کے بارے میں سیف کی روایت

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٠٢٠۔٢٠٢١)

٢۔''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٩٤)

٣۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٩٥)

عیاض بن غنم کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٥٠)

۲۱۲

عیاض کی جنگوں کی داستان :

١۔ ''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١١٠،١٢٠،١٣٠)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری ۔فلسطین،قنسرین،جزیرہ ، ملطیہ اور موصل کے بارے میں ۔

اُنہی د نوں ، جب اس کتاب کی پہلی جلد پہلی بار طبع ہو کر علم و دانش کی دنیا میں منظر عام پر آئی ، لکھنے والوں کے قلم ، اور دانشوروں کے نظریات، اخبارو مجلات اورحتی بعض اسلامی ممالک کے ذرایع ابلاغ حرکت میں آگئے اور اس سلسلہ میں بحث اور اظہا ر نظر کرنے لگے ۔ لیکن علمی بحث و تحقیق میں مصروف ہونے اور دیگر مسائل روز کی وجہ سے یہ فرصت پیدا نہ ہو سکی کہ ان کی تنقید و تحقیق کر کے ان کا جواب دینے بیٹھوں ۔ چونکہ ان سب میں جناب ہادی علوی '' کا مقالہ ۔جو اسی کتاب کے ابتداء میں درج ہو ا ہے ' اہمیت کا حامل ہے ، لہذا مناسب سمجھا کہ اس کے بعض مطالب اور نظریات پر قدرے بحث و تحقیق کی جائے۔

۲۱۳

اسلام کا کوئی روحانی باپ نہیں ہے!

١۔جناب علوی صاحب نے اپنے مقالہ میں لکھا ہے :

'' اس کتاب کے مؤ لف جناب عسکری بغدادکے علماء میں سے ہیں '' ۔

ہم ان کے جواب میں کہتے ہیں :

اسلام میں کوئی روحانی ، ان معنی و مفہوم میں جن میں کل عالم عیسائیت میں رائج ہے وجود نہیں رکھتا ہے بلکہ اس قسم کے اشخاص کو '' علماے اسلام '' کہتے ہیں ، تاکہ یہ لفظ ان کے معارف و علوم اسلام کے تخصص کو ظاہر کرے ، اور اس تعریف کامصداق ہو.

٢۔ وہ فرماتے ہیں کہ:

باوجود اس کے کہ یہ کتاب ، پشت پردہ ایک خاص نامحسوس مقصداپنے دامن میں اور پنہان رکھتی ہے لیکن اس کا موصنوع خود اس کے مقصد کا گو یا ترین ثبوت ہے ۔۔۔

میں یہ نہ سمجھ سکا کہ مصنف محترم کا مقصد کیا ہے ؟کیا اس کتاب کا موضوع میرے مقصد ، جو دین اسلام کی خدمت ہے ، سے منا فات رکھتا ہے ؟ جبکہ خود انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں شخص (یعنی میں ) عالم دین ہوں !یا کچھ اور چیزجو ہے میرے لئے پوشیدہ ہے ؟

جو چیز میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ حقیر نے اپنی زندگی کے چالیس برس معارف اسلامی کی تحقیق میں گزارے ہیں ، اپنے مطالعات کے نتیجہ و خلاصہ کو نوٹ کر کے ان میں سے بعض کو ،سیری در تاریخ و حدیث ''(تاریخ و حدیث پر ایک نظر) کے عنوان س طبع کیاہے ۔ اور اس کی اشاعت کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ میں دکھا دوں کہ تاریخ اسلامی اور سنتّ و حدیث کے مصادر و منابع میں عمد اً یا سہواً کچھ تحریفات اور تغیرات انجام پائے ہیں جو اس امر کا سبب بنے ہیں کہ صیحح اور سچے ّ اسلام ۔جسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام لے آئے ہیں ۔ کو پہچاننے میں ، ان تحریفات کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں

اس کے علاوہ کتابوں کے اس سلسلہ کو شائع کرنے میں حقیر کا مقصد یہ بھی تھا کہ ''اصول دین کالج '' کو دنیاوالوں کے سامنے پہنچواؤں اور یہی مقصد کتاب کی ابتداء میں صراحت سے بیان ہوا ہے

۲۱۴

الفاظ اور مفاہیم :

٣۔ انہوں نے سیف کی غلط ، مردود اور جھوٹی روایتوں اور اس کی گڑھی ہوئی داستانوں کے لئے ہمارے لفظ ''افسانہ'' = اسطو رہ ) کو استعمال کرنے کے سلسلہ میں اظہار نظر کرتے ہوئے خصوصاً تاکید فرمائی ہے کہ ایسے مواقع پر ایسے الفاظ سے استفادہ کرتے وقت احتیاط و کافی دقت کرنی چاہئے

ہم جواب میں کہتے ہیں :

جعلی اخبار اور داستانوں کے نام رکھنے کے سلسلہ میں یا کسی نکرہ وصف کے الفاظ جیسے : '' مخولہ ، موضوعہ ، مکذوبہ ،ضعیف ، جعلی ، جھوٹ ''یا ان جیسے دوسرے الفاظ سے استفادہ کریں کہ ان میں سے کوئی بھی ان جیسی داستانوں کی حقیقت بیان نہیں کرتا ہے اور ان کے معنی و مفہوم کو نہیں پہنچاتا ہے ۔ یا یہ کہ ان کے لئے ایسے خاص نام اور اصطلاحات کا انتخاب کریں جو ان داستانوں کے معنی و حقیقت کو پہنچا سکیں ، جیسے : '' مَثَل،خُرافہ،اُسطورہ ، خرافی بات ، افسانہ''

اس سے پہلے کہ ہم سیف کی داستانوں کے لئے اس قسم کے نام یا اصطلاحات سے استفادہ کریں ، ہمیں چاہئے کہ ان کے معنی و مفہوم کے سلسلہ میں لغت کی کتابوں کا مطالعہ کرکے ان پر بحث و تحقیق کریں ۔

۲۱۵

١۔مَثَل:

مَثَل، کسی چیز کے بارے میں وہ بات ہے جو مفہوم کے لحاظ سے کسی دوسری چیز کے قریب یا شبیہ ہو اور یہی نذدیکی و شباہت سبب بن جائے کہ ایک دوسرے کی تعریف کرے مثال کے طور پر جب کہا جاتا ہے :

کنواں کھودنے والاہمیشہ کنویں کی تہ میں ہوتا ہے ۔ حقیقت میں یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ '' جو دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی فکر میں ہوتے ہیں وہ خود اپنے جال میں پھنس جاتے ہیں '' ، انسان ہوش میں رہیتاکہ دوسرں کی اذیت کا سبب نہ بنے۔ اسی بنیاد پر خدائے تعالیٰ نے قران مجید میں مثالیں پیش کی ہیں اوراور ان کے بارے میں فرمایا ہے :

( و َ تلِک الامثالُ نَضربُهاَلِلناس لَعَلّهُم یَتَفَکَروُن ) (۱)(حشر/٢١)

یا یہ کہ ایک دوسری آیت کے آخر میں اسی سلسلہ میں فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔( وَماَ یعقلُهاَ اِلاالعا لمون ) .(۲)(عنکبوت/٤٣)

قرآن مجید میں بیان ہوئی مثالوں کی تعداد اکتا لیس ہے ، من جملہ فرماتا ہے ۔

____________________

١) اور ہم ان مثالوں کو انسانوں کے لئے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ شائدوہ کچھ غور و فکر کر سکیں ۔

٢) ۔۔۔۔۔۔۔لیکن انھیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

۲۱۶

( مَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَهُم فیِ سَبِیل اللّٰهِ کَمَثَلِ حَبَّة اَنبَتَت سَبعَ سَنابِلَ،فی کُلِّ سنبلَة مة حَبَّة وَاللّه یُضَاعِفُ لِمَن یَشَائُ وَ اللّٰهُ وَاسعُْْْ عَلِیمُ ) (بقرہ / ٢٦١) (۱)

یا جہا ں پر فرماتا ہے :

( مَثَّلُ الَّذِینَ ا تَّخَذُ وامِن دُونِِِِ اللّٰهِ اَولِیاء کَمَثََلِ العَنکبوت اتخذَ بَیتاً وَ اِنَّ اَوهَنَ البیوتِ لبیت العنکبوت ) (۲) (عنکبوت/٤١)

یا یہ کہ فرماتا ہے :

( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً للذین اَمَنُوا اِِمِرَةَ فِرعَونَ اِذ قاَلَت رَبِّ ابنِ لیِ عِندَکَ بَیتاً فی الجَنة وَ نَجّنی مِن فر عو ن وَ عمله وَ نجنی مِنَ ا لقَومِ الظالِمین ) (۳)(تحریم/١١)

خدا ئے تعالےٰ نے ان تین مواقع پر مطلب کی وضاحت کے لئے ''جمادات ، حیوانات اور انسان '' کی مثال پیش کی ہے

____________________

١) جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے کہ وہ صاحب و سعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی ۔

٢) اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑکر دوسرے سرپرست بنالئے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنالیا لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہو تا ہے ۔

٣) اورخدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے اس نے دعا کی کہ پرورگار میرے لئے جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطاکردے ۔

۲۱۷

٢۔ خرافہ:

خرافہ، باطل اور بہیودہ کلام کے معنی میں آیا ہے کہ سننے والے کو مجذوب کرنے کے ساتھ ساتھ تعجب میں ڈالتا ہے ۔ اس کے وجود میں آنے کی داستان یوں بیان کی گئی ہے ۔

قبیلہ ء بنی '' عذرہ یا جہینہ '' کے ایک شخص کانام ''خرافہ '' تھا ۔ جنات اسے اغوا کرکے لے گئے اور ایک مدت تک اپنے پاس رکھا !! خرافہ جنوں کے قبضہ سے آزاد ہونے اور اپنے گھر انے میں واپس آنے کے بعد ، جنات کے پاس گذاری مدت کے بارے میں تعجب خیز اور حیرت ناک چیزیں کہتا تھا اور لوگ بھی اس کی داستانو ں کی تکرار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ '' یہ داستانیں خرافہ ہیں !!'' اور یہی مطلب رفتہ رفتہ معروف ہوا کہ ہر بے بنیاد اور تعجب خیز داستان جو رات کی سرگرمیوں کے لئے بیان کی جاتی تھی ، خرافہ کہلانے لگی ۔

٣۔اسطورہ :

اسطورہ یا افسانہ ان باتوں کو کہتے ہیں جو باطل ، بہیودہ ، جھوٹ ، درہم برہم اور نامرتب ہوں لیکن ظاہر میں صیحح اور سچ دکھائی دیں اور دل کش لگیں ۔

لفظ ''استورہ'' قران مجید میں سات موقع پر لفظ ''اولین '' کا نصاف بن کر آیا ہے ، من جملہ فرماتا ہے :

( یقول الذینَ کَفَرُوا اِن هٰذا اِلاّ اَساَطیرُ الا وَّلیِنَ ) (١) (انعام/٢٥)

اس بنا پر مذکورہ الفاظ کے معنیٰ و مفہوم خلاصہ کے طور پر حسب ذیل ہوں گے :

مَثَل : یہ لفظ ایسی جگہ پر استعمال ہو تا ہے جہاں پر کسی مطلب کی وضاحت یا انتباہ مقصود ہو۔

''خرافہ '': ایسی بے بنیاد باتوں کو کہا جاتا ہے ، جو دلچسپ ہوں ۔ اور '' حدیث خزافہ 'وہ عجیب اور حیرت انگیز اور دلچسپ داستانیں ہیں جو شب باشی کی محفلوں کے لئے گڑھ لی جاتی ہیں ۔

''اسطورہ و ''افسانہ'' وہ مطلب اور جھوٹی اور بے بنیاد داستانیں ہیں ، جنھیں کہنے والا چالاکی ، مہارت اور چرب زبانی سے آراستہ کرکے سچ اور صحیح بنا دیتاہے ۔ ہم نے کہا کہ یہ لفظ قرآن مجید میں سات مواقع پر لفظ ''اولین'' پر اضافہ ہواہے ۔

۲۱۸

اس بنا ء پر مناسب ہے کہ ہم ''کلیلہ دمنہ'' کی داستانوں کو جو بیشتر لوگوں کی ہدائت رہنمائی ، انتباہ اور عبرت کے لئے مرتب کی گئی ہیں ۔ اَمثال کہیں ۔

''الف لیلوی'' داستانوں کو' کہ کہنے اور سننے والا یا گانے والا اس کے مو صنوعات کے صیحح نہ ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں اور جو شب باشی کے لئے تنظیم کی گئی ہیں ۔ خرافہ کہیں ۔

''اسود متنبی'' اور فرشتہ ء شیطان کی داستانوں کو جن کا کہنے والا سیف ان کے صیحح ہونے کا تظاہر کرتا ہے ، لیکن سننے اور پڑھنے والے ان کے غلط ہونے پر یقین رکھتے ہیں 'خرافہ داستانیں جانییں ۔اسطورہ یا افسانہ کو حیرت انگیز داستانوں میں شمار کریں جو مطلب کی وضاحت میں ہیں اور نہ انھیں شب باشیوں کے لئے مرتب کی گئی ہیں اور نہ ان میں سیف جن وپری کی بات کرتا ہے ۔ بلکہ یہ ایسے مطالب ہیں جو حقیقت اور سچ سے کوسو ں دور ہیں ، افسانہ ساز اس کے مناظر کو فصاحت اور زیبابیا نی سے دلچسپ اور جذاب بنا کر ایسی آب و تاب اور سنجید گی کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ گویا بالکل مسلم اور ناقابل انکار حقائق لگتے ہیں !

سیف کی داستا نوں کا کیا نام رکھیں ؟

یہاں پر جب ہم سیف کی داستانوں پر ۔گذشتہ بحث کے پیش نظر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں افسانہ کے علاوہ ان کے لئے کسی اور نام کو منتخب نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور نام ان کے لئے مناسب نظر نہیں آتا ہے۔ چونکہ سیف نے ایسی بات نہیں کہی ہے جو مثال کے موضوع کو واضح کرے یا دلیل و رہنما ہو اور نہ انھیں شب باشی کی سرگرمی کے لئے خلق کیا ہے اور نہ جن و پری کی بات کرتا ہے، اگر چہ وہ کبھی کبھار اپنی بات کی تائید کے لئے جنات و پریوں کو بھی کھینچ لایا ہے اور ان کی زبان سے دلچسپ باتیں کہلوائی ہیں !

۲۱۹

بلکہ اس کی داستانیں اس سے بدتر ہیں ، کیونکہ یہ ایسے مطالب پر مشتمل ہیں جو سچ اور حقا ئق سے کوسوں دور ہیں اور سیف نے اپنی شیرین بیانی سے ان سنسنی خیز مناظر کو مجسم کر کے تعجب خیز حدتک گڑھ کرتا ریخ اسلام کے مسلم اور یقینی حقائق کے روپ میں پیش کر دیا ہے !!

اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے لغت نویسوں نے بھی ایسی داستانوں کو ان خصوصیات کے پیش نظر ''اساطیر '' و افسانہ کہا ہے ، خاص کر جب ہم لغتِ عرب پر اعتماد کرتے ہیں جو ہمارے زیر بحث علوم و معارف اسلامی کے مربوط الفاظ اور اصطلاحات سے مالاما ل ہے ، نہ اس کے علاوہ کسی اور چیز پر ۔۔

حقیقت میں اگر ہم دوسروں کے تخصص کے سلسلے میں مطالعہ کررہے ہوں ، تو ہم ناچار ہوں گے کہ ان کی اصطلاحات کو حتی الامکان عربی میں اپنے ان الفاظ میں تبدیل کریں جو مکمل طور پر وہی معنی رکھتے ہوں ، اور یہ تب ہے جب ہم مثال کے طور پر بابل اور یونان کے خداؤں کی داستانوں کے مطالعہ کا ارادہ رکھتے ہوں !

بہر حال اگر ہم ناقد محترم کی پیروی کرتے ہوئے ، امت اسلامیہ سے مربوط علوم و معارف کے بارے میں دوسروں کے الفاظ اور اصطلاحات پر بھی اعتماد رکریں تو بھی معلوم ہو جائے گا کہ لفظ ''افسانہ '' سیف کی داستانوں کے لئے مناسب ترین نام ہے کیا ایسا نہیں کہا جاتا ہے کہ : دوسروں نے افسانہ کانام ان بڑی اور حیرت انگیز رودادوں کے لئے رکھاہے جن کے وجود میں آنے میں خداؤں ۔ پریوں اورعالم بالا کے موجودات کا ہاتھ تھا ؟

سیف کی داستانوں کی بھی بالکل یہی حالت ہے کہ ہم اپنے مطالب کے حسن ختام کے طور پر چند،نمونے نقل کرتے ہیں :

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273