ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123635 / ڈاؤنلوڈ: 4389
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کر رہا ہے اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں_

اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسی دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کی دنیا واقعی اور حقیقی دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھی حقیقی ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

۱)___ آیا ہماری محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنی کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟

۲)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟

۳)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعی ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسی زندگی گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟

۵)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟

۶)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟

۷)___ کفر ا ور برائی کسکی ظاہر ہوگی؟

۸)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

۹)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟

۱۰)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسی دنیاوی زبان اور کان سے ہوگا؟

۶۱

چوتھا سبق

مردے کیسے زندہ ہونگے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست قبول کرلی اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھی طرح کوٹ دو پھر انکو

۶۲

قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیری طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالی عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہماری طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کی طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کی گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسی طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھی زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھا_

آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_

۶۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی سے کونسی درخواست کی تھی

۲)___ اس درخواست کی غرض کیاتھی؟

۳)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کی درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟

۵)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟

۶)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کی قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دی تھی؟

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

۶۴

پانچواں سبق

کس طرح

آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادی بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کی جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کی روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھی طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کی روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گی جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح ہماری روح پر اثرانداز

۶۵

ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہماری زندگی کے کام

جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہماری روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانی کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانی اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھی انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کی روح کی پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کی یاد سے غافل ہوا کرتی ہے وہ برے کاموں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتی ہے اور انسان کو ترقی سے روک دیتی ہے ہماری خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقی رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کی عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی

۶۶

ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہماری زندگی کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھی کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالی کی طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیری روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسری جگہ ارشاد الہی ہوتا ہے''

جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_

اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہماری زندگی کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟

۶۷

کیا ہماری عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کی اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہماری روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۳)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟

۴)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟

۵)___ بہشت کی نعمتیں کن چیزوں سے ملتی ہیں؟

۶)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟

۷)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟

۸)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟

۹)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۰)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسی طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے

۶۸

حصّہ سوم

نبوّت

۶۹

پہلا سبق

صراط مستقیم

اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟

کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھی اسی پر چلیں گے؟

جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھی وہی انتخاب کریں گے؟

کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگی کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھی نہیں سوچتے؟

۷۰

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کی تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟

آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگی کا پروگرام مہيّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کی دنیا اور آخرت کی احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟

پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتی ہے؟

انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہی انسان کی دنیا اور آخرت میں زندگی کے شرائط سے باخبر ہے اسی لئے صرف وہی انسان کی زندگی کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ کہ زندگی کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیں

۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟

۲)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ خداوند عالم نے انسان کی سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟

۵)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

۷۲

دوسرا سبق

کمال انسان

جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانی دیں تو اس میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہی سے ایک معین ہدف کی طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنی ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہی خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کی طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

۷۳

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کی طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانی دیں اس کی ابتداء ہی سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنی چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کی طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسی ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنی حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھی انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھی ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کی طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنی کے محتاج ہیں اللہ تعالی نے پانی، مٹی، روشنی اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردی ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟

کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہی ذات ہے جو انسان کی خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہی ذات

۷۴

ہے جو آخرت میں انسان کی ضرورت سے باخبر ہے اسی لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کی چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کی معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخری اور اہم ترین پروگرام آخری پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ تھوڑا سا گیہوں کسی برتن میں ڈالیں اور اسے پانی دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کی طرف حرکت کرتا ہے؟

۲)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟

۳)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

۴)___ انسان کی معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں

۵)___ خدا نے انسان کی معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے

۶)___ آخری اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟

۷)___ اس آخری پروگرام کا کیا نام ہے؟

۷۵

تیسرا سبق

راہنما کیسا ہونا چاہیئے

جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمی جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکی رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالی نے اسے لوگوں کی راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کی رہبری اس کے سپرد کی ہے_

۷۶

چوتھا سبق

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے

جب آپ کسی دوست کی طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمی کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظی اور غلطی کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟

جی ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمی ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطی نہ کرے خدا بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمی کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _

۷۷

پانچواں سبق

اجتناب گناہ کا فلسفہ

میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانی کو پیئے گا؟ اگر وہی پانی کسی اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پی لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے جو شخص اس کی گندگی اور خرابی کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانی کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جی ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندی اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کرے گا اسی طرح پیغمبر بھی گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھی گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کی پلیدی اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہی ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_

۷۸

چھٹا سبق

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں

خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کی تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کی سعادت کے راستے اچھی طرح جانتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کی راہنمائی اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھی طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے

۷۹

اچھے اور برے اخلاق کو اچھی طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کی پلیدی اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کی روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہی اور علم سے گناہ کی گندگی اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_

پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسی کمی و بیشی کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطی اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہی انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطی اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_

پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اور دائمی سعادت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ راہنما کے لئے کون سی حفاظت صفات ہونی چاہئیں؟

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

معاویہ انس کی روایت اور داستان :

جو کچھ ابن حجر نے ''معاویہ انس'' کے حالات اس کے تعارف میں سیف کی کتاب فتوح سے نقل کیا ہے ، طبری نے اس کو اپنی تاریخ میں درج نہیں کیا ہے ، بلکہ اس نے ١١ھ کے حوارث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکیے ایک روایت میں یمن کے مرتدوں کا ذکر نے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے '' مکہ ، طائف ، عک ، اشعر یین اور صنعاء میں موجود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارگزاروں جن میں بعض جعلی اصحاب بھی نظر آتے ہیں ۔ کا نام لینے کے بعد لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے زمانہ میں اسود صنعا میں داخل ہوا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند سفیروں کو بھیج کر اور چند سفیروں کو خطوط لکھ کر اسودکامحاصرہ کرایااور سر انجام اسود قتل کیا گیا اور علاقہ میں امن وامان بر قرار ہوا ۔

اس کے بعد طبری سیف سے نقل کرکے اس داستان کو یوں لکھتا ہے :

اسود کے قتل ہونے کے بعد اس کے سپاہی '' نجران '' اور '' صنعا '' کے درمیان آشفتہ حال اور دربدر ہوئے، نہ کسی کو پناہ گاہ پاتے تھے اور نہ کوئی انھیں پناہ دیتا تھا اور نہ کوئی ان کی حمایت کرنے پر حاضر تھا ۔ تا وقتیکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر اس علاقہ میں پہنچی تو یمن اور اس کے شہر بغاوتوں اور اضطراب سے دوچار ہوئے ۔ اس اثناء میں عمروبن معدی کرب سرزمین ''قروة بن مسیک '' میں اور معا ویہ بن انس اسود عنسی کے فرار یوں کے درمیان رفت و آمد میں مشغول تھے ،ابوبکر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے سفراء کو ا روانہ کرنے اور خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ یمن مرتدوں کے خلاف کاروائی کرے اور یہاں تک کہ اسامہ بن زید واپس لوٹا اور۔۔۔۔۔۔(تاآخر داستان)

افسانہ ٔ معاویہ میں سیف کے اسناد:

'' تاریخ طبری '' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں معاویہ کے حالات کی تشریح میں سیف کی کتاب ''فتوح '' سے ''سہل بن یوسف '' اس داستان کا راوی ہے ۔ سیف نے اس کو سلمی اور انصار کہا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ اس قسم کاراوی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ہے اور یہ سیف بن عمر کی خیالی تخلیق ہے ۔

۲۰۱

افسانہ ٔ معاویہ سے سیف کا مقصد :

سیف نے اسود کے قتل ہونے کے بعد اپنے افسانوں میں یمانیوں پر دو بار مرتد اور اسلام سے منحرف ہونے کی تہمت لگائی ہے ۔ سیف کی نظر میں ان کاپہلا ارتداد وہی تھا جس پر بحث ہوئی ان کے دوسرے ارتداد کا ذکر شہر ''ذویناف '' یا ''ذویناق '' کی روایت کے سلسلہ میں گزرا ہے ۔

سیف نے ان دو ارتدادوں کے سلسلہ میں یمانیوں پر جھوٹی تہمت لگائی ہے ، اس طرح اس نے ، ماہروں ، فوجیوں ، افسروں کو نصب کرنے ، ضروری احتیاط برتنے،بر وقت اقدامات اور نرم رویہ اپنانے، جنگی میدانوں میں حکمت عملی اور سرکوبی وغیرہ جیسے کارنامے بیان کرکے رجزخوانیاں کی ہیں ۔سیف تنہا شخص ہے جس نے یمانیوں کے دوبار مرتد ہونے کی روایت کی ہے ، اور اس سلسلہ میں تمام روایتوں اور افسانوں کو گڑھ لیا ہے ۔ وہ اسلام اور اس کی تاریخ کے خلاف انجام دئے گئے اپنے اس ظلم میں اچھی طرح جانتا تھا کہ کہاں پر کس طرح ضرب لگائے !

وہ اس طرح کے حوارث کی تشریح میں واقعی اورجعلی اصحاب دونوں کی ستائش کرتا ہے اور ان کے بارہ میں ایسی باتیں کہنا اور علما ء اورمورخوں کو ان کی شجاعت وجواں مردی ، دلیری ، کارناموں ، حکمت عملی اور ان کی دور اندیشی کے مقابلہ میں اس حد تک تعجب میں ڈالتا ہے کہ وہ ان اصحاب کے مناقب و اوصاف سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ۔لہذا وہ مجبور ہو کر اس کے ان افسانوں کو اپنی کتابوں میں بعض تفصیل سے اور بعض خلاصہ اور اشارہ کے طور پر درج کرتے ہیں ۔

اس قسم کے علماء میں امام المورخین طبری ہراول دستے کی حیثیت رکھتا ہے سیف کی تمام روایتوں کو نقل کرکے اس نے پورے حوصلہ اور فراغت سے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔

طبری کے بعد ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی جو کچھہ طبری نے سیف سے نقل کیا ہے ، انہوں نے اس سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے !

۲۰۲

اس ترتیب سے ارتداد کی جنگجوں سے مربوط روایتیں ، خاص کروہ جنگیں جو اصل'' میں وجود میں ہی نہیں آئی ہیں ، سیف بن عمر کی زبان سے نقل ہو کر !اسلام کی معتبر اور گرانقدر کتابوں کے متون میں درج ہو کر زبان زد خاص وعام ہوئی ہیں ۔ ان علماء کے سیف سے اس قسم کے مخلصانہ تعاون کے نتیجہ میں ، سیف اپنی مرضی کے مطابق اسلام کو پہنچوانے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام تلوار کی ضرب اور بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے سے مستحکم ہو کر پھیلا ہے نہ یہ کہ اس نے اپنے پیرؤ ں کے دلوں میں اثر کر کے استحکام حاصل کیا ہے !! اور یہ وہ بہترین حربہ ہے جو سیف نے اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ دیا ہے تاکہ وہ اسے دلیل کے طور پر پیش کریں اور اس سے دین اسلام پر کاری ضرب لگائیں ۔ کیا سیف اس کے علاوہ کوئی اور زچیز چاہتا تھا؟

ابن حجر نے بھی ان ہی مطالب سے متاثر ہو کر اور سیف کی اس قسم کی روایتوں کی طرف رجوع کر کے اس کے جعلی اصحاب کے حالات پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں روشنی ڈالی ہے ، اس ''طرح معاویہ بن انس '' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے اپنی کتاب کے پہلے حصہ کے صحابیوں میں درج کیا ہے ۔

مصادر و ما خذ

٭معاویہ بن انس کے حالات:

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٠)حصہ اول نمبر: ٨٠٦٠

٭یمانیو ں کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔'' تاریخ طبری'' (١/١٩٨٢۔١٩٨٤)

٢۔ ''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٨٦۔٢٨٧)

٣۔''تاریخ ابن کثیر'' (٦/٣٣١)

٤۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٧٤)

۲۰۳

٭سلمیوں کا نسب:

١۔ ''اللباب'' (٥٥٣۔٥٥٤)

٩٢واں جعلی صحابی جراد بن مالک

ابن حجر اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے :

جراد بن مالک نویرہ :

سیف بن عمر نے اپنی کتا ب ''فتوح '' میں اس کانام لے کر لکھا ہے کہ وہ اپنے باپ مالک نویرہ کے ساتھ قتل ہوا ہے ۔ اس کے چچا '' متمم '' نے چند غمناک اشعار میں اس کا سو گ منایا ہے ۔

ہم انشاء اﷲ جلدی ہی حرف ''م'' کی وضاحت میں اس کے حالات اور مالک نویرہ کے قتل ہونے کی داستان پر روشنی ڈالیں گے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

سیف کے اس صحابی کا نسب :

سیف نے ''جراد'' کو خلق کر کے اسے ''مالک نویرہ تمیمی ''یر بوعی سے جوڑ دیا ہے جیسے اس نے ''ام قرفہ صغری'' کو خلق کرکے اسے ''مالک بن حذیفہ فزاری اسے نسبت دے دی ہے ۔ یا جس طرح ''سہل بن مالک انصاری '' کو خلق کر کے اسے '' کعب بن مالک انصاری '' خزر جی سے نسبت دے دی ہے ، یا یہ کہ خلید کو خلق کرکے ''منذر بن ساوی عیدی'' تمیمی سے جوڑ دیا ہے یا اسی طرح اس کے دوسرے صحابہ وغیرہ صحابہ وغیرہ۔!!

۲۰۴

روایت کے استاد:

ابن حجر نے جراد بن مالک نویرہ '' کے بارے میں سیف کی روایت کے ماخذ کا ذکر نہیں کیا ہے تاکہ ہم اس پر بحث کرتے ۔ لیکن مالک نویرہ کے قتل ہونے کی روایت کو ہم نے کتاب '' عبداﷲابن سبا ' کی پہلی جلد میں درج کیا ہے اور اسی کتاب کی دوسری جلد میں بھی اس واقعہ کے بارے میں بیشتر مطالب کی طرف اشارہ کر چکے ہیں (١)

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جن منابع میں مالک نویرہ کے قتل کئے جانے کی روایت موجود ہے ، ان میں اس کے ''جراد '' نامی بیٹے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ، جس کے بارے میں سیف کہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ ماراگیا ہے ۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ طبری اور دوسرے علماء کے درمیان، جنہوں نے اپنی کتابوں میں سیف کی روایتوں کو نقل کرنے میں پہل کی ہے ، ان میں سے ابن حجر کے علاوہ کسی عالمنے اس قسم کی روایت کو سیف بن عمر سے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا ہے ۔

افسانہ کا نتیجہ:

ابن حجر نے سیف کی اس روایت پر اعتماد کرکے' کہ جراد کو ارتداد کی جنگوں میں اپنے باپ مالک نویرہ کے ساتھ قتل کیاگیا ہے ، اس کے لئے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں مخصوص جگہ معین کی ہے اور اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے ذکر کیا ہے ۔

____________________

١۔عبداﷲابن سباء تالیف مؤ لف محترم (١/١٥٠۔١٥٣)و (٢/٣٠٦۔٣٠٧)

۲۰۵

جلیل القدر عالم ''سید شرف الدین عاملی '' نے بھی ابن حجر کی روایت پر اعتماد کرکے مغالطہ کا شکار ہو کر '' جراد بن مالک نویرہ '' کو من جملہ اصحاب جانتے ہوئے اسے شیعہ اور پیرو امیرالمؤ ممنین علی بن ابیطالب جانا ہے ۔

اس دانشمند نے اس نتیجہ کو اس لئے اخذ کیا ہے کہ ابن حجر نے کہا ہے کہ جراد کو اپنے باپ مالک نویرہ کے ہمراہ قتل کیا گیا ہے ۔چونکہ مالک نویرہ کا قتل خلافت ابوبکر سے مخالفت اور امیرالمؤمنین حضرت علی کی خلافت کی حمایت کی وجہ سے انجام پایا تھا ، اس لئے ناگزیر طور پر اس کا بیٹا جراد من جملہ اصحاب وشعۂ امام تھا ۔ علامہ سید شرف الوبن کی بات ان کی گراں قدر کتاب ''فصول المھمہ '' کے حصہّ دوّم میں حرف ''ج کے تحت بعینہ یوں لکھی ہے :

''جراد بن مالک بن نویرہ تمیمی ، جو ''بطاح '' کی جنگ میں اپنے باپ کے ساتھ قتل کیا گیا ہے ،اوراس کے چچا '' متمم''نے اس کا سوگ منایا ہے '' سید شرف الدین نے نہ صرف یہاں پر اپنی روایت کے مصدر کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے کہیں پر بھی اصحاب شیعہ و پیروان امیرالمؤمنین کے تعارف میں اپنی روایت کے مصدر و مآخذ کو مشخص نہیں کیاہے ۔ اور اپنی بات کے آغاز میں اس سلسلے میں کہتے ہیں :

جو کچھ نادان اور بیوقوف لوگ شیعوں کے بارے میں لکہتے ہیں یاتصور کرتے ہیں اس کاربط شیعوں سے کہا ں ہے؟انہوں نے ۔جیسا کہ ''استیصاب ''''اسد الغابہ'' اور ''اصابہ'' جیسی کتابوں میں آیا ہے' مکتب امیر المومنین کی پیروی کرتے ہوئے ایسے بزرگ اصحاب کی اقتداء کی ہے کہ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اور اپنے مدارک کی تکمیل کے لئے ہم بعض ایسے ا صحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام نقل کرتے ہیں جو امیر المومنین کے شبہ بھی شمار ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد شبہ شرف الدین حروف تہجی کی بنیاد پر ایسے اصحاب کے نام ذکر کرتے ہیں کہ ہم نے جراد کے حالات حرف (ج) میں ذکر کئے ہیں ۔

یہ عالم صرف (ط) کے ذیل میں ''طاھر ابو ھالہ تمیمی'' کو بھی جو سیف ابن عمر کا جعلی کردہ ہے شیعان علی میں تصور کیا ہے' سیف کے خیالی (جعلی جو شیعان امیر المومنین شمار ہوتے ہیں ان کی تعداد صرف ان دو (جرادو ظاہر) پر تمام نہیں ہوتی جنہیں عالم بذرگوارسعید شرف الفین نے کتاب ''فصول المھمہ'' میں آکر کیا ہے۔

۲۰۶

شیخ طوسیٰ علی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب ''رجال'' میں قعقاع بن عمرو تمیمی'' کو بھی امام کے شعبوں میں جانا ہے۔

ان کی پیروی میں علماے رجال نے ہمارے زمانہ تک سیف کی ان خیالی مخلوقات اسی طرح پہچانا ہے۔ ''مامقانی'' نے بھی سیف کے ''زیاد بن حنظلہ تمیمی''کو اپنی کتاب ''تنقیح المقالی'' ،میں شیعہ علی کے طور پر درج کیا ہے پس نافع بن اسود تمیی '' بھی سزا وار تر ہے کہ شیعہ علی شمار کیا جائے ،کیونکہ سیف بن عمر نے اسے صفین کی جنگ میں اہم کردار سونپا ہے اور اس کی زبانی ایک زیباشعر بھی کہا ہے۔

اس قسم کے اصحاب کو جیسا کہ ہم نے اپنی جگہ پر ان کے بارے میں وضاحت کی ہے ، خدا نے ابھی تک خلق نہیں کیا ہے کہ پیرو امیرالمومنین ہوں یانہ ہوں بلکہ یہ سب زندیقی سیف بن عمر کے خیالات کی مخلوق ہیں کہ اس نے انھیں اپنے خاندان تمیم سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر خلق کیا ہے ۔ اور ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزررہا ہے کہ اس نے عالم اسلام کے علماء و دانشمندوں کواپنے جعل کئے گئے افسانوں میں مشغول و حیران کررکھاہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ حیرت اور پریشانی کب تک جاری رہے گی! کیا علما اور دانشور حضرات اس بات کی اجازت دیں گے کہ ہم سیف کے اس قسم کے جعلی اصحاب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست سے نکال باہر کریں ؟ یا پھر وہ اسی بات پر قائم رہنا چاہتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں ایسے صحابیوں میں ایسے اصحاب کا اضافہ ہوتارہے جن کو ابھی خدا نے پیداہی نہیں کیا ہے اور یہ تاریخ و رجالی کتابوں میں بدستور درج ہوتے رہیں ؟!

مصادر و مآخذ

جراد بن مالک نویرہ کے حالات:

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (١/٢٦٠٠) تیسرا حصہ حرف ''ج''

٢۔ ''فضول الحھمہ '' سید شرف الدین ۔ طبح نجف ١٣٧٥ ھ مقصد دوم حصہ دوم (١٧٧ ۔١٧٨)

۲۰۷

قعقاع بن عمرو کے حالات:

١۔'' اصابہ ابن حجر '' (٣/٢٣٠) نمبر: ٧١٢٩

٢۔تاریخ طبری (١/٣١٥٦) و ( ١/٣٠٠٩۔٣٠١٣)و (٣٠٨٨)و(٣١٤٩)و(٣١٥٠)

٣۔''تاریخ ابن اثیر '' (٣/١٧٠۔٢٧١)

٤۔''تاریخ ابن کثیر'' (٧/١٦٧)

ٍٍٍ ٥۔''تاریخ ابن خلدون' (٢/٤٢٥)

٦۔١٥٠صحابی ساختگی (١/١٢٩۔٢٧٠)

ٍٍ طاہر ابو ہالہ کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٢/٢١٤)

٢۔١٥٠ صحابی ساختگی (٢/٢٥٣۔٢٦٦)

زیاد بن حنظلہ کے حالات:

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٦٣٥و٢٩٠٣و٢٣٩٥و٢٤١٠)

٢۔''١٥٠صحابی ساختگی '' (٢/١١٣۔١٣٤)

نافع بن اسود کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٥٥٠) تیسرا حصہ نمبر:٨٨٥٠

٢۔١٥٠صحابی ساختگی (٢/٧٧۔٩٦)

۲۰۸

٩٣واں جعلی صحابی عبدبن غوث حمیری

عراق میں سپاہ ِحضرت ابوبکر کو مدد کر نے کے سبب بننے والا صحابی :

ابن حجر نے اپنی کتاب''اصابہ '' میں اس صحابی کایوں تعارف کرایا ہے :

عبد بن غوث حمیری :

سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ جب ''عیاض بن غنم '' عراق میں ایرانیوں سے نبردآزما تھا ، اس نے سپاہ کی کمی کے بارے میں خلیفہ سے شکایت کی اور اس سے مدد طلب کی ۔ حضرت ابو بکر نے ''عبد بن غوث ''حمیری کو اس کی مدد کیلئے بھیجا (ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کا نسب :

سیف کے اس جعلی صحابی کے باپ کے بارے میں تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ''غوث '' اور بعض دوسرے نسخوں میں '' یغوث '' اور اکثر نسخوں میں ''عوف '' لکھا ہے لیکن تاریخ ابن خلدون میں ''عوف '' لکھا گیا ہے !!

اور ''حمیری ' یشجب قحطان کے پوتے ''حمیربن سبا ء '' سے نسبت ہے یہ یمن کے اصلی قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا ۔

۲۰۹

انوکھا جھوٹ:

طبری نے ١٢ھ کے حوارث اور روداد کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :

جب خالدبن ولید '' یمامہ '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو حضرت ابوبکر نے اسے یوں لکھا :

خدائے تعا لےٰ نے فتح تجھے نصیب کی ، اب عراق کی طرف روانہ ہو ، تاکہ وہاں پر ''عیاض سے ملاقات کرو۔

اس کے بعد ایک الگ خط میں ''عیاض بن غنم '' کو ۔جو ''نباج'' اور ''حجاز '' کے درمیان مقیم تھا یوں حکم دیا :

اسی طرح آگے بڑھتے رہو یہاں تک کہ ''مصیخ '' پہنچ جاؤ۔ اور وہاں اس علاقہ کی بلندیوں سے ''عراق''پر حملہ کرو اور اس علاقہ میں اپنی پیشروی کو اس قدر جاری رکھوکہ خالدبن ولید کے پاس پہنچ جاؤ ۔ وہا ں پر مستقر ہونے کے بعد اپنے سپاہیوں میں سے جو بھی مائل ہوا سے اپنے وطن جانے کی اجازت دینا ۔ ان کو ہر گز زبردستی فوجی چھاؤنی میں روکے نہ رکھنا ۔

جب ابوبکر کا خط خالد اور عیاض کو پہنچا ، انہوں نے خلیفہ کا حکم اپنے سپاہیوں تک پہنچا دیا ۔ مدینہ باشند ے اور اس کے اطراف کے لوگ ان دوپہلوانوں سے دوری اختیا ر کرکے فوجی چھاونی سے چلے گئے۔ اس لئے انہوں نے مجبور ہو کر ابوبکرسے مدد چاہی۔ ان کی مدد کی درخواست کے جواب میں خلیفہ نے ''قعقاع بن عمرو تمیمی '' کو خالد کی مدد کے لئے اورعبد بن غوث حمیری '' کو ''عیاض بن غنم ' کی مدد کے لئے بھیجا و۔۔۔۔۔۔۔(تاآخر داستان)

سیف تنہا شخص ہے جس نے خلیفہ ابوبکر کے حکم سے ''عیاض بن غنم '' کی عراق کی طرف عزیمت کی روایت کی ہے اور اس کے اور دوسرے عرب سردار خالد بن ولید کے بارے میں داستانیں گڑھیہیں ۔

طبری پہلا عالم ہے جس نے ان افسانوں کو سیف بن عمر نے نقل کرکے اپنی تاریخ کی معتبر کتاب میں درج کیا ہے

ابن اثیر اور ابن خلدوں نے بھی انہیں افسانوں کو'' تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں عراق کے اخبار کے عنوان سے درج کیا ہے ۔

۲۱۰

تاریخی حقائق :

سیف نے اپنے افسانہ میں لکھا ہے کہ خلیفہ ابو بکرکے حکم سے ''عیاض بن غنم '' عراق کی طرف روانہ ہوا ۔ اس فوری حکم کے نتیجہ میں اس کے سپاہیوں کی تعداد گھٹ گئی اور وہ مدد طلب کرنے پر مجبور ہوا ۔ خلیفہ نے عبدبن غوث حمیری کواس کی مدد کے لئے بھیجا اور قعقاع بن عمرو تمیمی کو خالدبن ولید کی مدد کے لئے بھیجا۔

ان تمام مطالب کو طبری نے سیف سے نقل کیاہے ۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی ان ہی مطالب کو ''تاریخ طبری '' سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ جنھوں نے سیف کی روایتیں نقل نہیں کی ہیں اور اس کی بات پر اعتماد نہیں کیاہے جیسے ''خلیفہ بن خیاط'' نے اپنی تاریخ میں اور بلا ذری نے ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :

عیاض بن غنم ''ابوعبیدہ جراح'' کے ساتھ شام کے محاذ پر سرگرم عمل تھا اورکفر کے سپاہیوں سے لڑرہا تھا ۔

شام کے سپہ سالارابو عبیدہ نے مرتے وقت عیاض کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خلیفہ عمر نے بھی اس انتخاب کی تائد و تصویب کی اور کچھ مدت کے بعد ''جزیرہ '' کی حکومت بھی اسے سونپ دی ۔

عیا ض آخر عمر تک وہاں پر موجود تھا ، اورجزیرہ سے باہر نہیں نکلا۔ اس علاقہ میں چند دیگر جنگوں کے دوران فتحیا بیاں حاصل کرنے کے بعد ٢٠ ھ میں وفات کر گیا ۔

اس حساب سے ، عیاض بن غنم کسی صورت میں ان دنوں عراق کی جنگو ں میں حاضر نہیں ہوسکا ہے۔ بلکہ سیف نے اکیلے اس افسانہ کو خلق کیا ہے اور اس کے لئے ''عبد بن عوف '' یا ''غوث حمیری '' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی عنوان سے خلق کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے ''عبید بن عوف''کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تیسرے طبقہ کے صحا بیوں میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات لکھے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے ''مصیخ'' نامی ایک جگہ کو بھی خلق کیا ہے تاکہ جغرافیہ کے علماء یا قوت حموی اس قسم کے مکان کے وجود کا اپنی کتاب''معجم البلدان '' میں ذکر کریں ۔ عبدالمومن نے بھی اپنی کتاب ''مرصدالاطلاع'' میں یاقوت حموی کی بات کو نقل کیا ہے ۔

۲۱۱

اس طرح سیف بن عمر جیسے جھوٹے اور زندیقی شخص کا یہ حیرت انگیز جھوٹ اور افسانہ عالم اسلام کے علمی اور تاریخی مصادر ومنابع میں پھیل گیا ہے اور اایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے کہ علماء و دانشوروں کو اپنی طرف مشغول کرکے حیرت و تعجب سے دوچار کئے ہوئیہے ۔

مصادر و مآخذ

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/١٠٠)تیسرا حصہ نمبر :٦٣٩٠

حمیریوں کا نسب

''جمہرہ انساب'' ابن حزم (٤٣٢۔٤٣٩)

٢۔''اللباب'' (٣٢٢)

عیاض کے بارے میں سیف کی روایت

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٠٢٠۔٢٠٢١)

٢۔''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٩٤)

٣۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٩٥)

عیاض بن غنم کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/٥٠)

۲۱۲

عیاض کی جنگوں کی داستان :

١۔ ''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١١٠،١٢٠،١٣٠)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری ۔فلسطین،قنسرین،جزیرہ ، ملطیہ اور موصل کے بارے میں ۔

اُنہی د نوں ، جب اس کتاب کی پہلی جلد پہلی بار طبع ہو کر علم و دانش کی دنیا میں منظر عام پر آئی ، لکھنے والوں کے قلم ، اور دانشوروں کے نظریات، اخبارو مجلات اورحتی بعض اسلامی ممالک کے ذرایع ابلاغ حرکت میں آگئے اور اس سلسلہ میں بحث اور اظہا ر نظر کرنے لگے ۔ لیکن علمی بحث و تحقیق میں مصروف ہونے اور دیگر مسائل روز کی وجہ سے یہ فرصت پیدا نہ ہو سکی کہ ان کی تنقید و تحقیق کر کے ان کا جواب دینے بیٹھوں ۔ چونکہ ان سب میں جناب ہادی علوی '' کا مقالہ ۔جو اسی کتاب کے ابتداء میں درج ہو ا ہے ' اہمیت کا حامل ہے ، لہذا مناسب سمجھا کہ اس کے بعض مطالب اور نظریات پر قدرے بحث و تحقیق کی جائے۔

۲۱۳

اسلام کا کوئی روحانی باپ نہیں ہے!

١۔جناب علوی صاحب نے اپنے مقالہ میں لکھا ہے :

'' اس کتاب کے مؤ لف جناب عسکری بغدادکے علماء میں سے ہیں '' ۔

ہم ان کے جواب میں کہتے ہیں :

اسلام میں کوئی روحانی ، ان معنی و مفہوم میں جن میں کل عالم عیسائیت میں رائج ہے وجود نہیں رکھتا ہے بلکہ اس قسم کے اشخاص کو '' علماے اسلام '' کہتے ہیں ، تاکہ یہ لفظ ان کے معارف و علوم اسلام کے تخصص کو ظاہر کرے ، اور اس تعریف کامصداق ہو.

٢۔ وہ فرماتے ہیں کہ:

باوجود اس کے کہ یہ کتاب ، پشت پردہ ایک خاص نامحسوس مقصداپنے دامن میں اور پنہان رکھتی ہے لیکن اس کا موصنوع خود اس کے مقصد کا گو یا ترین ثبوت ہے ۔۔۔

میں یہ نہ سمجھ سکا کہ مصنف محترم کا مقصد کیا ہے ؟کیا اس کتاب کا موضوع میرے مقصد ، جو دین اسلام کی خدمت ہے ، سے منا فات رکھتا ہے ؟ جبکہ خود انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں شخص (یعنی میں ) عالم دین ہوں !یا کچھ اور چیزجو ہے میرے لئے پوشیدہ ہے ؟

جو چیز میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ حقیر نے اپنی زندگی کے چالیس برس معارف اسلامی کی تحقیق میں گزارے ہیں ، اپنے مطالعات کے نتیجہ و خلاصہ کو نوٹ کر کے ان میں سے بعض کو ،سیری در تاریخ و حدیث ''(تاریخ و حدیث پر ایک نظر) کے عنوان س طبع کیاہے ۔ اور اس کی اشاعت کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ میں دکھا دوں کہ تاریخ اسلامی اور سنتّ و حدیث کے مصادر و منابع میں عمد اً یا سہواً کچھ تحریفات اور تغیرات انجام پائے ہیں جو اس امر کا سبب بنے ہیں کہ صیحح اور سچے ّ اسلام ۔جسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام لے آئے ہیں ۔ کو پہچاننے میں ، ان تحریفات کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں

اس کے علاوہ کتابوں کے اس سلسلہ کو شائع کرنے میں حقیر کا مقصد یہ بھی تھا کہ ''اصول دین کالج '' کو دنیاوالوں کے سامنے پہنچواؤں اور یہی مقصد کتاب کی ابتداء میں صراحت سے بیان ہوا ہے

۲۱۴

الفاظ اور مفاہیم :

٣۔ انہوں نے سیف کی غلط ، مردود اور جھوٹی روایتوں اور اس کی گڑھی ہوئی داستانوں کے لئے ہمارے لفظ ''افسانہ'' = اسطو رہ ) کو استعمال کرنے کے سلسلہ میں اظہار نظر کرتے ہوئے خصوصاً تاکید فرمائی ہے کہ ایسے مواقع پر ایسے الفاظ سے استفادہ کرتے وقت احتیاط و کافی دقت کرنی چاہئے

ہم جواب میں کہتے ہیں :

جعلی اخبار اور داستانوں کے نام رکھنے کے سلسلہ میں یا کسی نکرہ وصف کے الفاظ جیسے : '' مخولہ ، موضوعہ ، مکذوبہ ،ضعیف ، جعلی ، جھوٹ ''یا ان جیسے دوسرے الفاظ سے استفادہ کریں کہ ان میں سے کوئی بھی ان جیسی داستانوں کی حقیقت بیان نہیں کرتا ہے اور ان کے معنی و مفہوم کو نہیں پہنچاتا ہے ۔ یا یہ کہ ان کے لئے ایسے خاص نام اور اصطلاحات کا انتخاب کریں جو ان داستانوں کے معنی و حقیقت کو پہنچا سکیں ، جیسے : '' مَثَل،خُرافہ،اُسطورہ ، خرافی بات ، افسانہ''

اس سے پہلے کہ ہم سیف کی داستانوں کے لئے اس قسم کے نام یا اصطلاحات سے استفادہ کریں ، ہمیں چاہئے کہ ان کے معنی و مفہوم کے سلسلہ میں لغت کی کتابوں کا مطالعہ کرکے ان پر بحث و تحقیق کریں ۔

۲۱۵

١۔مَثَل:

مَثَل، کسی چیز کے بارے میں وہ بات ہے جو مفہوم کے لحاظ سے کسی دوسری چیز کے قریب یا شبیہ ہو اور یہی نذدیکی و شباہت سبب بن جائے کہ ایک دوسرے کی تعریف کرے مثال کے طور پر جب کہا جاتا ہے :

کنواں کھودنے والاہمیشہ کنویں کی تہ میں ہوتا ہے ۔ حقیقت میں یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ '' جو دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی فکر میں ہوتے ہیں وہ خود اپنے جال میں پھنس جاتے ہیں '' ، انسان ہوش میں رہیتاکہ دوسرں کی اذیت کا سبب نہ بنے۔ اسی بنیاد پر خدائے تعالیٰ نے قران مجید میں مثالیں پیش کی ہیں اوراور ان کے بارے میں فرمایا ہے :

( و َ تلِک الامثالُ نَضربُهاَلِلناس لَعَلّهُم یَتَفَکَروُن ) (۱)(حشر/٢١)

یا یہ کہ ایک دوسری آیت کے آخر میں اسی سلسلہ میں فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔( وَماَ یعقلُهاَ اِلاالعا لمون ) .(۲)(عنکبوت/٤٣)

قرآن مجید میں بیان ہوئی مثالوں کی تعداد اکتا لیس ہے ، من جملہ فرماتا ہے ۔

____________________

١) اور ہم ان مثالوں کو انسانوں کے لئے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ شائدوہ کچھ غور و فکر کر سکیں ۔

٢) ۔۔۔۔۔۔۔لیکن انھیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

۲۱۶

( مَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَهُم فیِ سَبِیل اللّٰهِ کَمَثَلِ حَبَّة اَنبَتَت سَبعَ سَنابِلَ،فی کُلِّ سنبلَة مة حَبَّة وَاللّه یُضَاعِفُ لِمَن یَشَائُ وَ اللّٰهُ وَاسعُْْْ عَلِیمُ ) (بقرہ / ٢٦١) (۱)

یا جہا ں پر فرماتا ہے :

( مَثَّلُ الَّذِینَ ا تَّخَذُ وامِن دُونِِِِ اللّٰهِ اَولِیاء کَمَثََلِ العَنکبوت اتخذَ بَیتاً وَ اِنَّ اَوهَنَ البیوتِ لبیت العنکبوت ) (۲) (عنکبوت/٤١)

یا یہ کہ فرماتا ہے :

( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً للذین اَمَنُوا اِِمِرَةَ فِرعَونَ اِذ قاَلَت رَبِّ ابنِ لیِ عِندَکَ بَیتاً فی الجَنة وَ نَجّنی مِن فر عو ن وَ عمله وَ نجنی مِنَ ا لقَومِ الظالِمین ) (۳)(تحریم/١١)

خدا ئے تعالےٰ نے ان تین مواقع پر مطلب کی وضاحت کے لئے ''جمادات ، حیوانات اور انسان '' کی مثال پیش کی ہے

____________________

١) جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے کہ وہ صاحب و سعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی ۔

٢) اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑکر دوسرے سرپرست بنالئے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنالیا لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہو تا ہے ۔

٣) اورخدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے اس نے دعا کی کہ پرورگار میرے لئے جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطاکردے ۔

۲۱۷

٢۔ خرافہ:

خرافہ، باطل اور بہیودہ کلام کے معنی میں آیا ہے کہ سننے والے کو مجذوب کرنے کے ساتھ ساتھ تعجب میں ڈالتا ہے ۔ اس کے وجود میں آنے کی داستان یوں بیان کی گئی ہے ۔

قبیلہ ء بنی '' عذرہ یا جہینہ '' کے ایک شخص کانام ''خرافہ '' تھا ۔ جنات اسے اغوا کرکے لے گئے اور ایک مدت تک اپنے پاس رکھا !! خرافہ جنوں کے قبضہ سے آزاد ہونے اور اپنے گھر انے میں واپس آنے کے بعد ، جنات کے پاس گذاری مدت کے بارے میں تعجب خیز اور حیرت ناک چیزیں کہتا تھا اور لوگ بھی اس کی داستانو ں کی تکرار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ '' یہ داستانیں خرافہ ہیں !!'' اور یہی مطلب رفتہ رفتہ معروف ہوا کہ ہر بے بنیاد اور تعجب خیز داستان جو رات کی سرگرمیوں کے لئے بیان کی جاتی تھی ، خرافہ کہلانے لگی ۔

٣۔اسطورہ :

اسطورہ یا افسانہ ان باتوں کو کہتے ہیں جو باطل ، بہیودہ ، جھوٹ ، درہم برہم اور نامرتب ہوں لیکن ظاہر میں صیحح اور سچ دکھائی دیں اور دل کش لگیں ۔

لفظ ''استورہ'' قران مجید میں سات موقع پر لفظ ''اولین '' کا نصاف بن کر آیا ہے ، من جملہ فرماتا ہے :

( یقول الذینَ کَفَرُوا اِن هٰذا اِلاّ اَساَطیرُ الا وَّلیِنَ ) (١) (انعام/٢٥)

اس بنا پر مذکورہ الفاظ کے معنیٰ و مفہوم خلاصہ کے طور پر حسب ذیل ہوں گے :

مَثَل : یہ لفظ ایسی جگہ پر استعمال ہو تا ہے جہاں پر کسی مطلب کی وضاحت یا انتباہ مقصود ہو۔

''خرافہ '': ایسی بے بنیاد باتوں کو کہا جاتا ہے ، جو دلچسپ ہوں ۔ اور '' حدیث خزافہ 'وہ عجیب اور حیرت انگیز اور دلچسپ داستانیں ہیں جو شب باشی کی محفلوں کے لئے گڑھ لی جاتی ہیں ۔

''اسطورہ و ''افسانہ'' وہ مطلب اور جھوٹی اور بے بنیاد داستانیں ہیں ، جنھیں کہنے والا چالاکی ، مہارت اور چرب زبانی سے آراستہ کرکے سچ اور صحیح بنا دیتاہے ۔ ہم نے کہا کہ یہ لفظ قرآن مجید میں سات مواقع پر لفظ ''اولین'' پر اضافہ ہواہے ۔

۲۱۸

اس بنا ء پر مناسب ہے کہ ہم ''کلیلہ دمنہ'' کی داستانوں کو جو بیشتر لوگوں کی ہدائت رہنمائی ، انتباہ اور عبرت کے لئے مرتب کی گئی ہیں ۔ اَمثال کہیں ۔

''الف لیلوی'' داستانوں کو' کہ کہنے اور سننے والا یا گانے والا اس کے مو صنوعات کے صیحح نہ ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں اور جو شب باشی کے لئے تنظیم کی گئی ہیں ۔ خرافہ کہیں ۔

''اسود متنبی'' اور فرشتہ ء شیطان کی داستانوں کو جن کا کہنے والا سیف ان کے صیحح ہونے کا تظاہر کرتا ہے ، لیکن سننے اور پڑھنے والے ان کے غلط ہونے پر یقین رکھتے ہیں 'خرافہ داستانیں جانییں ۔اسطورہ یا افسانہ کو حیرت انگیز داستانوں میں شمار کریں جو مطلب کی وضاحت میں ہیں اور نہ انھیں شب باشیوں کے لئے مرتب کی گئی ہیں اور نہ ان میں سیف جن وپری کی بات کرتا ہے ۔ بلکہ یہ ایسے مطالب ہیں جو حقیقت اور سچ سے کوسو ں دور ہیں ، افسانہ ساز اس کے مناظر کو فصاحت اور زیبابیا نی سے دلچسپ اور جذاب بنا کر ایسی آب و تاب اور سنجید گی کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ گویا بالکل مسلم اور ناقابل انکار حقائق لگتے ہیں !

سیف کی داستا نوں کا کیا نام رکھیں ؟

یہاں پر جب ہم سیف کی داستانوں پر ۔گذشتہ بحث کے پیش نظر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں افسانہ کے علاوہ ان کے لئے کسی اور نام کو منتخب نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور نام ان کے لئے مناسب نظر نہیں آتا ہے۔ چونکہ سیف نے ایسی بات نہیں کہی ہے جو مثال کے موضوع کو واضح کرے یا دلیل و رہنما ہو اور نہ انھیں شب باشی کی سرگرمی کے لئے خلق کیا ہے اور نہ جن و پری کی بات کرتا ہے، اگر چہ وہ کبھی کبھار اپنی بات کی تائید کے لئے جنات و پریوں کو بھی کھینچ لایا ہے اور ان کی زبان سے دلچسپ باتیں کہلوائی ہیں !

۲۱۹

بلکہ اس کی داستانیں اس سے بدتر ہیں ، کیونکہ یہ ایسے مطالب پر مشتمل ہیں جو سچ اور حقا ئق سے کوسوں دور ہیں اور سیف نے اپنی شیرین بیانی سے ان سنسنی خیز مناظر کو مجسم کر کے تعجب خیز حدتک گڑھ کرتا ریخ اسلام کے مسلم اور یقینی حقائق کے روپ میں پیش کر دیا ہے !!

اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے لغت نویسوں نے بھی ایسی داستانوں کو ان خصوصیات کے پیش نظر ''اساطیر '' و افسانہ کہا ہے ، خاص کر جب ہم لغتِ عرب پر اعتماد کرتے ہیں جو ہمارے زیر بحث علوم و معارف اسلامی کے مربوط الفاظ اور اصطلاحات سے مالاما ل ہے ، نہ اس کے علاوہ کسی اور چیز پر ۔۔

حقیقت میں اگر ہم دوسروں کے تخصص کے سلسلے میں مطالعہ کررہے ہوں ، تو ہم ناچار ہوں گے کہ ان کی اصطلاحات کو حتی الامکان عربی میں اپنے ان الفاظ میں تبدیل کریں جو مکمل طور پر وہی معنی رکھتے ہوں ، اور یہ تب ہے جب ہم مثال کے طور پر بابل اور یونان کے خداؤں کی داستانوں کے مطالعہ کا ارادہ رکھتے ہوں !

بہر حال اگر ہم ناقد محترم کی پیروی کرتے ہوئے ، امت اسلامیہ سے مربوط علوم و معارف کے بارے میں دوسروں کے الفاظ اور اصطلاحات پر بھی اعتماد رکریں تو بھی معلوم ہو جائے گا کہ لفظ ''افسانہ '' سیف کی داستانوں کے لئے مناسب ترین نام ہے کیا ایسا نہیں کہا جاتا ہے کہ : دوسروں نے افسانہ کانام ان بڑی اور حیرت انگیز رودادوں کے لئے رکھاہے جن کے وجود میں آنے میں خداؤں ۔ پریوں اورعالم بالا کے موجودات کا ہاتھ تھا ؟

سیف کی داستانوں کی بھی بالکل یہی حالت ہے کہ ہم اپنے مطالب کے حسن ختام کے طور پر چند،نمونے نقل کرتے ہیں :

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273