ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب28%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123611 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نے ایک رکعت نماز پڑھی ہو اس کو خلیفہنے حکومت و ولایت پر منصوب کیا۔

اصفہانی نے داستان کی تفصیل کو مذکورہ خبر کے بعد 'عوف بن خارجہ مّری'' سے نقل کر کے اپنی کتاب اغانی میں یوں لکھا ہے:

عمر ابن "ابن " خطاب کی خلافت کے دوران ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا تھا ۔کہ ایک شخص داخل ہوا ، اس کے سر کے دونوں طرف تھوڑے سے بال دکھائی دیتے تھے ۔اس کے پیر ٹیڑھے تھے، پاؤں کے انگلیا ں ایک دوسرے کے اوپر اور ایڑیاں اس کے شانوں کے موازی تھیں ۔

وہ لوگوں کو دھکا دیتے ہوئے اور ان کے سروں پر سے گزر کر آگے بڑھ رہا تھا اور اس طرح اس نے اپنے آپ کو عمر کے روبروپہنچا دیا اور خلافت کی رسم کے مطابق آداب بجالائے:

عمر نے اس سے پوچھا :

تم کون ہو؟

اس شخص نے جواب دیا:

میں ایک عیسائی ہوں اور میرا نام ''امرئو القیس بن عدی کلبی'' ہے۔

عمر نے اسے پہچان لیا ،اور اس سے پوچھا ۔

اچھا ! کیا چاہتے ہو؟

امرئو القیس نے جواب دیا:

مسلمان ہونا چاہتا ہوں ۔

عمر نے اسے اسلام کی تعلیم دی اور اس نے قبول کیا ۔ اسی اثنا ء میں خلیفہ نے حکم دیاکہ ایک نیزہ لایا جا ئے ، اس کے بعد اس پر ایک پر چم نصب کر کے ''امرؤالقیس ''کے ہاتھ میں دیدیا اور اسے شام کے علاقہ قضایئہ کے مسلمانوں پر حاکم مقر ر کر دیا۔

۲۱

''امرئوالقیس '' پرچم مضبوطی سے ہاتھ میں لئے ہوئے اس حالت میں خلیفہ سے رخصت ہوا کہ پرچم اس کے سر پر لہرا رہا تھا ....(داستان آخر تک '' اغانی ''میں )

''علقمہ بن علاثۂ کلبی '' کی ارتداد کے بعد حکومت کی داستان بھی سیف کی روایتوں سے تناقض رکھتی ہے ۔ یہ روایت اصفہانی کی ''اغانی'' اور ابن "ابن " حجر کی ''اصابہ '' میں اس کے حالات کی تشریح کے ضمن میں درج ہوئی ہے جو حسب ذیل ہے :

علقمہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اسلام لایا اور اسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ لیکن اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے دوران اسلام سے منہ موڑ لیا اور مرتد ہوگیا ۔ ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجبور ہو کر ، اس کے پیچھے خالدبن ولید کو بھیج دیا ۔ جب علقمہ اس موضوع سے باخبر ہوا تو چھپ گیا ۔ کہتے ہیں کہ بعد میں علقمہ معافی مانگ کر خلیفہ کی خدمت میں پہنچا اور دوبارسلام لایا۔

ابن "ابن " حجر نے علقمہ کے بارے میں اپنی کتاب ''اصابہ '' میں مندرجہ ذیل مطالب بھی درج کئے ہیں ؛

عمر نے اپنی حکومت کے دوران علقمہ پر شراب پینے کے جرم میں حد شرعی جاری کی۔ علقمہ اس کی وجہ سے خفا ہو کر مرتد ہوگیا اور روم کی طرف چلا گیا اس نے روم بادشاہ کے پاس جاکر اپنا تعارف کرایا۔ پادشاہ نے اس کا استقبال کیا اور اس کی پہچان کے سلسلے میں اس سے سوال کیا ۔

کیا تم ''عامر بن طفیل '' کے چچیرے بھائی ہو ؟

پادشاہ کے اس طرح سوال کرنے سے علقمہ کی شخصیت مجروح ہوئی ، اس لئے وہ خفا ہو کرغصہ کی حالت میں بولا:

ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھے عامر کی نسبت کے علاوہ کسی اور طریقہ سے نہیں پہچانتے؟ اس کے بعد اٹھ کے باہر نکلا اور مدینہ واپس لوٹ کر دوبارہ اسلام لایا۔ لیکن علقمہ کے عمر کی طرف سے حکومت حاصل کرنے کی داستان ابن "ابن " حجر کی '' اصابہ '' اور ابو الفرج اصفہانی کی ''اغانی'' میں درج ہوئی ہے ۔ ہم یہاں پر اسے ''اغانی '' سے نقل کرتے ہیں ؛ علقمہ اسلام سے منہ موڑنے کے بعد ایک مدت تک مدینہ ے دوری اور دربدری تحمل کرنے کے بعد سرانجام دوبارہ مدینہ واپس آیا اور لوگوں کی نظروں سے چھپ کیراہی مسجد ہوا اور ایک کونے میں مخفی ہوگیا ۔

۲۲

رات کے وقت عمر مسجد میں داخل ہوئے،لیکن علقمہ نے اندھیرے کی وجہ سے صحیح طور پر انھیں نہیں پہچاناکہ یہ داخل ہونے والا کون تھا ۔ عمر کی خالد بن ولید جو علقمہ کا دوست تھا سے شباہت کی وجہ سے علقمہ نے گمان کیا مسجد میں داخل ہونے والا خالد بن ولید ہے ۔ لہذا اس کے ساتھ گفتگو شروع کرتے ہوئے پوچھا:

بالاخر اس نےتمہیں کام سے برطرف کر دیا ؟

گویا عمر نے علقمہ کو پہچان لیا تھا اور اس کی غلط فہمی سے آگاہ ہو چکا تھا ، لہذا اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے چالاکی کے ساتھ خالد کے انداز میں جواب دیا۔

ہاں ! ایسا ہی ہے !

علقمہ نے متاثر انداز میں کہا!

معلوم ہے ، یہ نظر بد اور حسد کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، تمہارے ساتھ یہ ظلمحسد کے وجہ سے ہوا ہے !

عمر نے فرصت کوغنیمت سمجھ کر عیّارانہ انداز میں علقمہ سے پوچھا :

کیا تم مدد کر و گے تاکہ عمر سے اپناا نتقا م لے لوں ؟

علقمہ نے بلافاصلہ جواب دیا۔

خدا کی پناہ ، عمر ہم پر فرمانبرداری و اطاعت کا حق رکھتے ہیں ، ہمیں حق نہیں ہے ان کے خلاف کوئی کام کریں اور ان کے مخالفت کریں !

سرانجام عمر ، یا علقمہ کے خیال میں خالد ۔ اٹھ کر مسجد سے چلے گئے ۔

دوسرے دن عمر لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اسی اثنا ء میں خالد علقمہ کے ہمراہ داخل ہوا اور دونو ں ایک ساتھ ایک جگہ پر بیٹھ گئے ۔

۲۳

تھوڑی دیر کے بعد ایک مناسب فرصت پر عمر نے علقمہ کی طرف رخ کر کے سوال کیا:

اچھا علقمہ ! کیا تم نے وہ باتیں خالد سے کیں ؟

علقمہ ، عمر کا سوال سنکر الجھن میں پڑگیا ، چند لمحہ خاموشی کے بعد اسے کل رات کی وہ ساری باتیں یاد آئیں جو اس نے خالد سے کی تھیں ۔ لہذا فوری طور پر خالد سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں پوچھا :

ابو سلیمان ! کیا تو نے اس سے کوئی بات کہی ہے ؟

خالد نے جواب دیا :

وائے ہو ہم تم پر ، خدا کی قسم اس ملاقات سے پہلے میں نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے ۔ اس وقت خالد نے فراست سے مطلب کو سمجھ لیا اور بولا:

ایساتو نہیں ہے تو نے ان کو خلیفہ کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پہلے کہیں دیکھا ہواور غلط فہمی سے میری جگہ پر انھیں لے لیا ہوگا؟

علقمہ نے جواب دیا۔

ہاں خدا کی قسم ، صحیح ہے میں نے تیرے بجائے انھیں دیکھا تھا۔

اس کے بعد خلیفہ سے مخاطب ہو کر بولا :

اے امیرالمؤمنین !آپ نے توخیر و خوبی کے علاوہ کوئی چیز مجھ سے نہیں سنی ہے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟

عمر نے جواب دیا : صحیح ہے ۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ ''حوران '' ١کی گورنری تمہیں دیدوں ؟

علقمہ نے جواب دیا :

جی ہاں

اس کے بعد عمر نے ''حوران '' کی حکومت کا فران علقمہ کے ہاتھ میں دیدیا اور وہ زندگی کے آخری دن تک اس حکومت پر پرقرار رہا اور وہیں پر وفات پائی ۔''حطیئہ'' نے اس کے سوگ میں یوں کہا ہے:.....( آخر تک )

ابن حجر نے اس داستان کے ضمنمیں یوں اضافہ کیا ہے:

عمر ''حوران ''کی حکومت کا فرما ن علقمہ کے ہاتھ میں دینے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر بولے:

اگر میرے پاس اس قسم کے باوفا اشخاص ہوتے ، تو وہ میرے لئے تمام دنیا کی دولت سے قمیتی تھے

۲۴

بحث کا نتیجہ :

ہم نے مشاہدہ کیا کہ مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے '' ابن "ابن " ابی شیبہ ''سے نقل کیا ہے کہ اس نے ''ایک قابل اعتبار منبع و مصدر '' سے روایت کی ہے کہ ''اسلاف کی رسم یہ تھی کہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار نہیں بنایا جاتا تھا.''

ان علماء نے اس قسم کی روایت کے مصدر کے بارے میں ''صحیح ''یا '' حسن'' کی اصطلاحات سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ صرف اتنا کہا ہے کہ'' ایک ایسے منبع سے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہے''۔ اور اس طرح اس مآخذ کی قدر وقیمت اور اعتبار کو کافی حد تک گھٹا کے رکھدیا ہے۔

ہم نے سیف بن عمر کو بھی یہ کہتے ہوئے پایا:

فوج کے سپہ سالار سب صحابی تھے ۔

ابو بکر جنگوں میں مرتد وں سے مدد حاصل نہیں کرتے تھے اور حکم دیدیا تھا کہ ان سے مدد طلب نہ کریں ۔ اس لئے ان جنگوں میں کسی مرتدنے شرکت نہیں کی ہے !

عمر مرتدوں کو سپاہ کے طور پر قبول کرتے تھے ، لیکن ان میں سے انگشت شمار افراد کے علاوہ ، جن کی تعداد مشکل سے دس افراد تک پہنچی تھی ، کسی کو سپہ سالار نہیں بنایا خود آپ صحابی کو فوج کا سپہ سالار بنانے سے کبھی غفلت نہیں کرتے تھے۔

یہ وہ مطالب تھے جنہیں مکتب خلفاء کے دانشمندوں نے اصحاب کی شناخت اور پہچان کے طور پر ذکر کیا ہے۔

لیکن ہم نے ان سب ادعاو'ں کے باوجود دیکھا کہ خلیفۂ عمر نے اس کے برخلاف'' علقمہ'' کو جو مرتدہوگیاتھا ، ''حوران '' کے حاکم کے طور پر منصوب کیا جبکہ شامی امراء اور حکام اس زمانے میں فوج کی کمانڈ بھی سنبھالتے تھے ، اس مفہوم میں کہ شام کاحاکم اور گورنر وہاں کی فوج پر ، فلسطین کا حاکم وہاں کی فوج پر اور قنسرین کا فرمان روا علاقہ قنسرین کی فوج کا کمانڈر بھی تھا ۔

خلاصہ یہ کہ ہر علاقہ کا حاکم و فرماں روا صلح کے زمانے میں مطلق حاکم اور جنگ کے زمانے میں افسر اور سپہ سالار بھی ہوتا تھا۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ خلیفۂ دوم نے ایک نو مسلم عیسائی کے ہاتھوں میں حکمرانی کا پرچماس وقت دیدیا جب کہ اسلام لانے کے بعد اس نے ابھی تک ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی ، جبکہ اس زمانے کے رسم کے مطابق ایسا پرچم ایسے شخص کو دیا جاتا تھا جو ایک قبیلہ کو جنگ میں شرکت کرنے کے لئے آمادہ کرتا تھا۔کیونکہ ان دنوں فوج منظمکرنے کا کام قبیلوں کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا اور یہ رسم جنگ صفین اور ، حادثۂ کربلا بلکہ اس کے بعد بھی رائج تھی ۔

۲۵

اس بنا پر خلیفۂ عمر نے ''امرئو القیس کلبی '' کو جو قبیلہ کلب سے تھا اور قضاء نام کے ایک بڑے قبیلہ کا ایک جزتھا ، تمام قبائل قضاعہ پر حاکم مقرر کیا اور اس طرح سپاہ قضاعہ کی سپہ سالاری بھی اسے سونپ دی تا کہ وہ ان کی مدد سے رومیوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کر ے اور اسلام کی طرف سے کفر و الحاد سے جنگ کرے !

اس حساب سے مکتب خلفاء کے علماء نے صحابی کی پہچان کے لئے جو قاعدہ وضع کیاہے وہ باطل اور بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ اس کا مآ خذ بھی ضعیف ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے تاریخی واقعات اور روداد سے بھی فرق بھی رکھتا ہے۔

اس کے باوجود انہی علماء نے اس خیالی اور جھو ٹے قاعدہ کی خوش فہمی پر دسیوں بلکہ سینکڑوں جعلی چہروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دے کر ان کے حالات لکھے ہیں ۔

ہم آنے والی بحث میں سیف کے چند ایسے جعلی اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالیں گے جن کو اس نے خاص طور پر سپہ سالار کے عہدوں پر فائز کیا ہے اور مختلف و متعدد روایتوں کے ذریعہ ان کے نام پر اخبار جعل کئے ہیں تاکہ اس طرح اپنے جھوٹ کو علما ء کی نظروں سے چھپا سکے اور اس کے علاوہ اسلام کی احادیث کر شہبہ میں ڈال کر ہمارے مصادر و مآخذ کو ہے اعتبار اور مجروح کر دے۔

سیف کے اس خطرناک مقصد کے بارے میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ بعض علماء نے سیف کی اس سلسلے میں قرار واقعی مدد کی ہے اور اس طرح اس کو اپنے مقاصد تک پہنچے کی خوش فہمی کو اس پر اور اس کی احادیث پر اعتماد کر کے شرمندہ تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے اسلام کے خلاف ظلم و خیانت پر مبنی کئے گئے افسانوی اصحاب و سورمائوں کو اسلام کے مصادر و مآ خذ میں قرار دے کر انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں ثبت کیا ہے۔ کیا پتا ہے شاید سیف نے اپنی اتنی کامیابیوں کو خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گ

۲۶

مصادر و مآ خذ

صحابی کی پہچان کے سلسلہ میں '' ابن ابی شیبہ '' کی روایت کے بارے میں ابن حجر کا بیان :

١۔'' ابن "ابن " حجر ''کی کتاب '' اصابہ '' (١/١٣) اور (١/١٦)

ابن ابی "ابن " شیبہ کی روایت کے بارے میں خبری منابع و مآخذ :

١ ۔ تاریخ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں (١/٢١٥١)

٢۔ تاریخ ابن "ابن " عساکر (١/٥١٤)

مرتدوں کے ساتھ عمر و ابو بکر کی روش پر سیف کی روایت :

١۔ تاریخ طبری (١/٢٠٢٠تا٢٠٢١)اور (١/٢٤٥٧ تا٢٤٥٨)اور (١/٢٢٢٥)

''امرئو القیس'' کی حکوت کی داستان:

١۔ابوافرج اصفہائی کی ''اغانی '' طبع ساسی (٤ا/١٥٧۔١٥٨)

٢۔ابن حزم کی ''جمھرہ '' (ص٤٥٧) بطور خلاصہ

''علقمہ بن علاثہ ، کلبی ''کی داستان :

١۔ابن حجر کی ''اصابہ'' (٢/٤٩٦۔۔٤٩٨)

٢۔اصفہانی کی ''اغانی'' (١٥/٥٦)

علقمہ و عامر کے اختلاف کی داستان:

١۔ ''اغانی '' (١٥/٥٠تا٥٥)

٢۔ ابن حزم کی ''جمھرہ'' (ص٢٨٤)

قضاعہ کا نسب:

ابن حزم کی '' جمہرہ انساب '' (٤٤٠۔٤٦٢)

۲۷

ا س کتاب میں درج سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد سے تیسری جلد تک سیف کے ٥٣ جعلی اصحاب کا تعارف کرایا

اب اس جلد میں اس کے مزید چالیس جعلی اصحاب کا حسب ذیل تعارف کراتے ہیں ۔

پہلا حصہ :

عراق کی جنگوں میں سیف خلق کردہ افسراور سپہ سالار: (١)

٥٤۔بشر بن عبداﷲ

٥٥۔ مالک بن ربیعہ تیمی

٥٦۔مزھاز بن عمر و عجلی

٥٧۔حمیضہ بن نعمان بارقی

٥٨۔جابر اسدی

٥٩۔عثمان بن ربیعہ ثقفی

٦٠۔سواد بن مالک تمیمی

دوسرا حصہ:

عراق کی جنگوں میں افسر اور سپہ سالار (٢)

٦١۔ عمرو بن وبرہ

٦٢۔حمّال بن مالک بن حماّل

٦٣۔ ربّیل بن عمروبن عبدری

٦٤۔ طلیحہ بن بلال قرشی

٦٥۔ خلید بن منذربن ساوی عبدی

٦٦۔حارث بن یزید عامری (دوسرا!)

۲۸

تیسرا حصہ :

مختلف قبائل سے چند اصحاب

٦٧۔ عبداﷲ بن حفص قرشی

٦٨ ۔ ابوحبیش عامر کلابی

٦٩۔ حارث بن مرّہ جہنی

چو تھا حصہ:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عصر ہونے کے سبب بنے اصحاب

٧٠ ۔ قرقرہ یا قرفہبن زاہر تیمی

٧١۔ نائل بن جعشم

٧٢۔ سعد بن عمیلہ فزاری

٧٣ ۔ قریب بن ظفر

٧٤ ۔ عامر بن عبدالا سد

پانچواں حصہ:

ارتداد کی جنگوں کے افسر اور سپہ سالار

٧٥ ۔ عبدالرحمان ابوالعاص

٧٦۔ عبیدة بن سعد

٧٧ ۔ خصفہ تیمی

٧٨۔ یزید بن قینان

٧٩۔صیحان بن صو حان

٨٠ ۔عباد ناجی

٨١۔شخریت

۲۹

چھٹا حصہ :

ابو بکر کی خدمت میں پہنچنے کے سبب بننے والے اصحاب

٨٢۔ شریک فزاری

٨٣۔ مسور بن عمرو

٨٤۔معاویہ عذری

٨٥۔ذو یناق و شہر ذو یناف

٨٦۔معاویۂ ثقفی

ساتواں حصہ:

ابوبکر کی جنگوں میں شرکت کرنے کے سبب بننے والے اصحاب

٨٧۔ سیف بن نعمان لخمی

٨٨۔ ثمامہ بن اوس بن ثابت

٨٩۔مہلہل بن یزید ۔

٩٠۔ غزال ھمدانی

٩١۔معاویہ بن انس

٩٢۔جراد بن مالک نویرہ

٩٣۔عبد بن غوث حمیری ، جو ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سپاہ کی مدد کرنے کے سبب بعنوان صحابی پہچانا گیا ہے :

۳۰

پہلا حصہ

عراق جنگوں میں سعد وقاص کے ہمراہ جنگی افسر اور سپہ سالار (١)

٥٤۔ بشر بن عبداﷲ

٥٥۔ مالک بن ربعیہ تیمی ( تیم رباب)

٥٦۔ہزھاز بن عمرو عجلی

٥٧۔ حمیضہ بن نعمان بارقی

٥٨۔ جابر اسدی

٥٩۔عثمان بن ربیعۂ تقفی

٦٠۔ سواد بن مالک تمیمی

۳۱

٥٤ واں جعلی صحابی بُشر بن عبداﷲ

ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایاگیا ہے :

بشربن عبداﷲ :سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر بن خطاب نے ١٤ھ کو اسے '' سعد وقاص'' کے ہمراہ بھیجا۔

سعد نے اس ماموریت کے دوران ''بشر '' کو'' قیس'' کے ایک ہزار جنگجوؤں کی سرپرستی پر منتخب کیا ہے ۔

طبری نے بھی انہی مطالب کو اپنی ''تاریخ '' میں درج کیا ہے ۔ اور ابن ابی "ابن " شبیہ نے اپنے مصادر سے روایت کی ہے کہ قدما میں رسم تھی کہ جنگجوؤں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کیا جا تا تھا (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر نے حرف ''ز'' کو اپنی بات کے اختتام پر اس لئے کیا کر تا ہے تاکہ یہ بتائے کہ اس نے اس صحابی کے نام کو دوسرے تذکرہ نویسوں پر استدر اک کر کے اسے اضافہ کیا ہے ۔

بُشر کے بارے میں ابن "ابن " حجر کے مطالب تاریخ طبری میں یوں ذکر ہوئے ہیں :

... اور'' قیس عیلان '' کے ایک ہزار جنگجو اس سعد وقاص کے ہمراہ عراق کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی کمانڈ بُشر بن عبداﷲھلالی، کر رہا تھا۔

یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ طبری نے ''بشر'' کو ''ہلالی '' کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور یہ تعارف اس کی طرف سے نہیں ہے بلکہ سیف کی طرف سے ہے ۔ اس بنا پر سیف نے اپنی اس خیالی تخلیق کو قبیلۂ ''ہلال بن عامر صعصعة بن..... عیلان بن مضر''سے خلق کیا ہے ۔

اس داستان کے راوی:

سیف نے ''بشر بن عبداﷲ ''کے افسانہ میں درج ذیل ناموں کو راویوں کے طور پر ذکر کیاہے۔

١۔''محمد و مستینر'' کہ دونوں اس کے خیالی راوی ہیں ۔

٢۔''طلحہ و حنش'' دونوں افراد مجہول اور نامعلوم ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ سیف نے ان سے کن کو مراد لیا ہے !

۳۲

اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما:

درج ذیل علماء نے افسانہ ''بشر ''کی اشاعت میں سیف کی نمایا ں مدد کی ہے:

١۔امام المورخین ،محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کے نام کے ساتھ ۔

٢۔ ابن "ابن " اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے ۔

٣۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں تاریخ طبری سے نقل کر کے ۔

٤۔ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ، سیف کی کتاب ''فتوح ''اور تاریخ طبری سے نقل کرکے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابن "ابن " حجر نے ''بشر '' کو اس لئے اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں ذکر کیا ہے کہ سیف کے کہنے کے مطابق قدمانے ''بشر '' کو مدینہ کو ترک کر کے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کرنے کیلئے عراق کی طرف روانہ ہوتے وقت ''قیس عیلان ''کے ایک ہزار جنگجوؤں کی کمانڈ سونپی تھی۔

اس کے علاوہ ابن "ابن " حجر نے ''ابن ابی شیبہ'' کی بات پر اعتماد اور توجہ بھی کی ہے ۔ جہا ں اس نے ایک مجہول ماخذسے یہ کہتے ہوئے کہ ''اس (ماخذ)پر کوئی اعتراض نہیں ہے '' بیان کیا ہے کہ قدیم جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے عنوان سے منتحب نہیں کر تے تھے !!

اورہم نے یہ بھی دیکھا کہ یہ روایت تاریخی حقائق اورموجودہ ما خذ و مصادر سے کتنا تناقص رکھتی ہے !!

اس کے علاوہ ''بشر''کی ''عبدالقیس''کے ایک ہزار جنگجوؤں کی سپہ سالاری کی روایت صرف سیف کی زبانی نقل ہوئی ہے اور کسی دوسرے مصدر و منبع میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے۔

سرانجام ہم نے بنیادی طور پر اس صحابی بشر بن عبدا للہ ہلالی اور اس داستان کے راویوں کو سیف بن عمر تمیمی افسانہ ساز کے علاوہ کسی اور منبع خبریمیں نہیں پایا !

۳۳

ان مقدماتی باتوں کے مدنظر معلوم ہوا کہ داستان ''بشر بن عبداﷲ''کا ''موضوع ،وجود ،اخبار اور راوی '' سب سرا پا جھوٹ اور جعلی تھے ، یہ ایک افسانہ ہے جسے سیف نے گڈھ لیا ہے ۔تاکہ علماء کو اسلام کے اصلی راستہ سے منحرف کرے ۔ ستم ظریفی ہے کہ'' محمدبن جریرطبری اور ابن حجر'' جیسے نامور علماء نے اس افسانہ اور سیف کے دیگر افسانوں کو اپنی معتبر و گراں قدر کتابوں میں درج کر کے سیف کے منحوس مقاصد کی خدمت اور اسلام کے ساتھ....

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر چہ ابن "ابن " حجر نے اس خبر کے مصدر (قدما کی رسم یہ تھی کہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ ....)کو ابن ابی شیبہ پہنچایا ہے ۔ لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ انہوں نے روایت کو ''ابن ابی شیبہ ''کی کس کتاب سے نقل کیا ہے !

ہم بعد میں یہ بھی دیکھیں گے کہ ابن "ابن " حجر اپنے دیگر اصحاب کا تعارف کراتے وقت صرف '' ابن ابی شیبہ '' کی مذکورہ روایت کو نقل کرنے پرہی اکتفا کی ہے اور اس کے مصدر کا بھی نام نہیں لیتا ہے ۔

مصادر و مآ خذ

بشر بن عبداﷲ ،کے حالات:

١۔ ابن "ابن " حجر کی '' اصابہ '' (١/١٥٧) حصہ اول حرف ''ب '' حالات کی تشریح٦٦٥- سعد وقاص کی عراق کی طرف عزمیت اور بشر کی سپہ سالاری:

١۔ تاریخ طبری ١٧ ھ کی روداد (١/ ٢٢١٩)

٢۔ تاریخ ابن "ابن " اثیر (٢/٣٤٧)

٣۔ تاریخ ابن "ابن " خلدون (١/٣١٦)

سیف کے جعلی صحابی کا شجرہ نسب:

١۔ ''اللباب'' (٣/٢٩٦)

٢۔ ابن "ابن " حزم کی ''جمھرہ'' (٢٦٩۔٢٧٣)

۳۴

٥٥ واں جعلی صحابی مالک بن ربیعہ

ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

مالک بن ربیعہ بنی تیم ربا ب ١سے تعلق رکھتاتھا ۔ وہ سعد بن ابی وقاص کا ایک کرنیل تھا ، جس نے خلافت عمر کے اوائل میں اس کے ساتھ عراق کی طرف عزیمت کی تھی ۔

قادسیہ کی جنگ کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے مالک بن ربیعہ کو اپنی سپاہ کے ایک دستہ کی کمانڈ سونپی تھی ۔

ابو جعفر محمدبن جریر طبری نے بھی مالک بن ربیعہ کے بارے میں ان ہی مطلب کو درج کیا ہے اورہم اسے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ قدما کی یہ رسمتھی کہ وہ جنگ میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار معین نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مالک بن ربیعہ کے بارے میں ابن "ابن " حجر کی تشریح کے تین حصے ہیں ، پہلا حصہ شجرہ ٔنسب پر مشتمل ہے ۔ہم

____________________

١۔ ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں '' بنی تیم مرة رباب '' آیا ہے ،ہم نے انساب عرب میں اس قسم کے نسب کو نہیں پایا ہے یہ وہی ''بنی تیم رباب ''ہونا چاہئے ، جس کا ہم نے متن میں ذکر کیاہے ۔

۳۵

حسب ذیل اس پر بحث کرتے ہیں ۔

١ ۔ عراق کی ''جنگ ِ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص کی طرف سے قبیلۂ تیم رباب کے ''مالک بن ربیعہ''کو ایک فوجی دستہ کے سپہ سالار کے عنوان سے انتصاب کی روایت صرف تاریخ طبری میں وہ بھی سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے درج کی گئی ہے کہیں اورنہیں ہے!!

٢۔ اس انتصاب اور اس سے مربوط دیگر و قائع کے بارے میں طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کانام لے کر اپنی کتاب کے چھ صفحات پر مفصل روشنی ڈالی ہے ۔ شاید خبر کا طولانی ہونا سبب بن گیا ہوکہ علامہ ابن "ابن " حجر کی نظر اس روایت کے اصلی منبع یعنی سیف بن عمر پر نہ پڑی ہو اور اس طرح اس نے مالک بن ربیعہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کے ساتھ ''تاریخ طبری ''کو اس کا منبع بیان کیاہے۔

قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک دستہ کے لئے''مالک بن ربیعہ کے سپہ سالار بننے کے سلسلہ میں جس نکتہ سے استفادہ کیا گیا ہے ، اور جسے تاریخ طبری نے درج کیاہے ، حسب ِ ذیل ہے؛

سیف نے ''طلحہ '' سے اس نے '' کیسان صنبیہ کی بیٹی '' سے اور اس نے قا دسیہ کی جنگ کے ایک اسیر سے روایت کی ہے ....(یہاں تک کہ وہ کہتاہے:)

اسی طرح اسلامی فوجی کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے '' مالک بن ربیعہ تیمی تیم رباب وائلی'' کو''مساور بن نعمان تیمی ربیعی '' کے ہمراہ ایک اور فوجی دستہ کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔

ان دو کمانڈرو ں نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ علاقہ''قیوم '' پر حملہ کیا۔ قبائل '' تغلب ونمر'' کے اونٹ ہنکالے گئے، اور اس علاقہ کے لوگوں کا قتل عام کیا اور فاتحانہ طور پر صبح سویرے سعد کی خدمت میں حاضر ہوگئے (طبری کی بات کا خاتمہ )

٣۔ ہم نے ابن "ابن " حجر کی بیان کردہ روایت کہ '' قدما صحابی کے علاوہ کسی دوسرے کو سپہ سالار ی کے عہدہ پرمنتخب نہیں کرتے تھے ''پر پہلے ہی مفصل بحث کی ہے ۔

۳۶

اور ہمیں یاد ہے کہ ابن حجر نے مذکورہ خبر کو ''بشر بن عبداﷲ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''ابن ابی شیبہ '' سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اور ہم یہ بھی نہیں بھولے ہیں کہ ابن "ابن " حجر نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں تاکید کی ہے کہ کتاب ''اصابہ '' کو تین حصوں میں تقسیم کرنے اور اس کے پہلے حصہ کو سپہ سالار ی کے عہدہ فائز اصحاب کے لئے مخصوص کرنے کا سبب وہی '' ابن ابی شیبہ '' کی روایت تھی ۔

٤۔اب رہا ، سیف کے اس جعلی صحابی کا نسب ،ابن حجر نے اپنی کتاب اصابہ میں اسے ''تیمی اور بنی تیم مرّہ رباب ''کے نام سے پہچنوایا ہے اور ہم نے کہا ہے کہ یہ نسب ظاہراً غلط ہے ، اور صحیح ''تیم رباب '' ہے ''مرة '' نہیں ہے ۔

قبائل '' بنی منات '' کے ایک مجموعہ کو ''رباب'' کہاجاتاہے۔ انہوں نے اپنے چچیرے بھائیوں ''یعنی بنی سعد منات ''کے خلاف قبیلۂ ''ضبّہ ''کے ساتھ پیمان باندھا تھا ۔ انہوں نے اس پیمان کے عقد کے وقت یکجہتی کے طور پر اپنے ہاتھوں کو ''رُب ''سے پرایک برتن میں ڈبویاتھا۔

اوراسی مناسبت سے ''تیم بن عبد منات ''کے فرزندوں نے ''تیم رباب ''کی شہرت پائی ہے۔

لیکن یہ کہ تاریخ طبری میں مالک بن ربیعہ کی نسبت ''بنی تیم رباب وائلی ''سے دی گئی ہے ہم نہ سمجھ سکے کہ ''وائلی ''سے سیف کی مراد کیا تھی۔ اگر وائلی سے مراد ''عوف بن عبد منات ادّ ''کے نواسہ ''وائل بن قیس '' کی طرف نسبت ہے جو'' تیم رباب'' کے رشتہ دار تھے تو وہ ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہیں ۔

اگر ''وائلی ''سے سیف کا مقصد قبائل سیاء سے جذام کے نواسہ ''وائل بن مالک '' سے قرابت داری ہو تو یہ قبیلہ ''تیم رباب '' قبائل عدنان میں سے ہے اور یہ آپس میں جمع نہیں ہوسکتے اور نسب کے لحاظ سے آپس میں کافی اختلاف و فاصلہ رکھتے ہیں ۔

ہم نہیں جانتے کہ سیف اس مسئلہ اور ان دو نسب کی دوری سے آگاہ تھا یا اپنے شیوہ کے مطابق اس نے عمداً ''بنی تیم رباب وائلی ''لکھا ہے اور اس کا مقصد دانشمندوں کو حقا ئق سے گمراہ اور شبہ سے دو چار کرنا اور تحقیق سے سلسلے میں اختلاف ایجاد کرنا تھا؟

۳۷

یایہ کہ خوش فہمی کے عالم میں یہ قبول کریں کہ سیف میں کسی قسم کا چھل کپٹ نہیں تھا بلکہ وہ ایک غلط فہمی سے دوچار ہوا ہے ، تو یہ بعید نظر آتا ہے کیونکہ سیف کی تحریروں سے صاف ظاہر ہے کہ وہ انساب عرب کے بارے وسیع علم رکھتا تھا۔

تیسری صورت یہ ہے کہ انساب عرب کے بارے میں سیف دوسرے صاحب تالیف نسب شناسوں کی نسبت کافی اطلاعات رکھتاتھا اور وہ ایسے قبیلوں کو بھی جانتاتھا کہ دوسرے ان سے لا علم تھے اسلئے اس نے اپنے مالک بن ربیعہ کو ایسے ہی قبیلوں سے نسبت دی ہے !!

بہرحال بعید نہیں ہے کہ ابن "ابن " حجر نے سیف کے مالک بن ربیعہ کے نسب میں اس نقص کو پاکر مالک بن ربیعہ کے حالات پر شرح لکھتے وقت اس کا شجرہ نسب لکھنے سے پرہیز کیا ہے۔

افسانہ مالک کے مآخذ کی پڑتال

سیف نے اپنے مالک بن ربیعہ کی قادسیہ کی جنگ میں فوجیوں کے ایک دستہ کی سپہ سالار ی کی خبر کو بقول :

طلحہ نے کیسان ضبیہ کی بیٹی سے '' اس نے جنگ قادسیہ کے ایک اسیر سے نقل کیا ہے!! اور نہ ہم جانتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا ستارہ شناس کہ سیف کا یہ طلحہ کون ہے !

کیسان ضبیّہ کی بیٹی کا کیا نام تھا اور خود کیسان ضبیہ کون ہے ؟!

بالآخر قادسیہ کی جنگ کے اس بدقسمت اسیر کا نام کیاتھا؟!

ہم نے بیکار اپنا قمیتی وقت صرف کر کے مختلف کتابوں ، روائی مناطع اور اسلامی مصادر ومآ خذ میں جستجوں کی تاکہ شائد کیسان ضبیہ کی بیٹی کا کہیں سراغ ملے۔ لیکن ہماری یہ ساری تلاش بے نتیجہ ثابت ہوئی ۔

۳۸

گذشتہ بحث کا خلاصہ اور نتیجہ :

ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے سعد وقاص کے حکم سے ''مالک بن ربیعہ ''اور ''مساور '' کی ایک فوجی دستے کی سپہ سالاری ، اور ان کے علاقہ ''قیوم '' پر حملہ کرنے کی روایت بیانں کی ہے ۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف نے ''مالک بن ربیعہ ''کے لئے ایک حیرت انگیز شجرہ نسب گھڑلیا ہے اور اسے کسی پروا کے بغیر اپنی کتا ب میں میں درج کیاہے ، نامعلوم اور مجہول راویوں کو کسی لحاظ کے بغیر سند اور مأخذکے طور پر پہچنوایا ہے!

اور آخر ہم میں نے محترم عالم ابن "ابن " حجر کو دیکھا کہ اس نے سیف کے افسانہ کے دو خیالی اشخاص مالک و مساور کورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مسلح اور حقیقی اصحاب کے طور پر پہچنوا کر ان کے حالات کی شرح لکھی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیف کے افسانہ میں ''مالک اور مساور '' کے ''فیوم '' نامی ایک جگہ پر چڑھائی کا ذکر آیا ہے ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ ''فیوم'' کہاں پر واقع ہے ۔

جہاں تک معلوم ہے ''فیوم '' مصر میں ایک معروف جگہ ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سیف اس سے پورے طور پر مطلع تھا اور لہذا اس نے اسی کی ہم نام جگہ کو عراق میں خلق کیا ہے!

یہ اسلامی جغرافیہ شناس اور محترم عالم یاقوت حموی ہے جس نے سیف کی باتوں پر اعتماد کر کے اس کے ''فیوم '' کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں خصوصی طور پر جگہ معین کر کے لکھاہے :

''فیوم '' دوجگہوں کانام ہے ۔ ایک مصر میں ہے اور دوسری عراق میں شہر ''ھیت ''کے نزدیک۔

اس کے بعد یاقوت حموی نے اپنی کتاب میں مصر کے ''فیوم '' کے بارے میں تین صفحوں پر مفصل تشریح کی ہے ۔آخر میں چونکہ عراق کی ''فیوم '' نامی جگہ کے بارے میں کچھ تھا ہی نہیں جسے وہ لکھتا ،اس لئے صرف اتنا لکھنے پر اکتفاکرتاہے:

یہ فیوم عراق میں شہر ''ھیت '' کے نزدیک ہے ۔

۳۹

ایسا لگتا ہے حموی کے شہر ''ھیت '' کو انتخاب کرنے کا سبب یہ تھا کہ سیف کے افسانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ''فیوم '' نامی جگہ قادسیہ کے اطراف میں واقع تھی ۔چونکہ ھیت قادسیہ کے نزدیک ہے ۔لہذا یاقوت حموی نے بھی اندھا دھند ایک اندازہ سے کہہ دیا کہ ''فیوم ''عراق کے شہر ھیت کے نزدیک واقع ہے ۔ جبکہ یہ خبر بنیادی طور پر جھوٹ اور من گڑھت ہے اور ''فیوم '' نامی یہ جگہ بھی سیف کے دوسرے مطالب کی طرح اس کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتی ہے ۔

یاقوت نے اس غلط فہمی کو اپنی دوسری کتاب '' المشترک ''جو ہم نام مقامات کے لئیمخصوص ہے میں تکرار کرتے ہوئے لکھاہے :

''فیوم '' دو جگہوں کا نام ہے ''

اس کے بعد جو کچھ اس سلسلے میں اپنی ''معجم'' میں درج کیا ہے اسے یہاں پر''المشترک''میں بھی ذکر کرتا ہے۔

یہاں پر یہ گمان تقویت پاتا ہے شاید سیف بن عمر نے اپنے افسانہ کے خیالی اداکار مالک بن ربیعہ تیمی کے نام کو بھی ''مالک بن ربیعہ ،ابو اسید ساعدی انصاری ''یا '' ابن "ابن " وھب قرشی '' یا ان کے علاوہ کسی اور کے نام سے لیا ہوگا تاکہ علماء و محققین کو گمراہ کرکے حیران و پریشان کر ے کیونکہ اصحاب میں اسی ہم نامی کے مسئلہ نے کتنے محققین اور علماء کو پریشان اور تشویش سے دو چار کر کے گمراہی اور غلطی کا مرتکب بنایا ہے۔

مصادر و مآخذ

مالک بن ربیعہ کے حالات:

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/٣٢٤) پہلا حصہ

٢۔ تاریخ طبری (ا/٢٢٤٤۔٢٢٤٥) قادسیہ کے وقائع کے ضمن میں ۔

''رباب ''کے نسب کے بارے میں :

١۔''جمہرہ انساب العرب '' ابن "ابن " حزم (١٩٨)

٢۔ لباب الانساب'' لفظ ''رباب '' (١٢٠)

٣۔ ''عجالہ ھمدانی'' لفظ ''وائلی '' (١٢٠) اور جذامی (٣٨)

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

چھٹی شرط

مسئلہ ٨ ۴ ٠ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے مرد کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو۔ احتياط واجب کی بنا پر ٹوپی اور ازار بند کا بھی یهی حکم ہے اور نماز کے علاوہ بھی خالص ریشم کا لباس پهننا مردوں کے لئے حرام ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ١ اگر لباس کا تمام استریا اس کا کچھ حصّہ خالص ریشم کا ہو تو مرد کے لئے اس کا پهننا حرام اور اس کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٢ جس لباس کے بارے ميں یہ علم نہ ہو کہ خالص ریشم کا ہے یا کسی اور چيز کا بنا ہوا ہے تو اس کا پهننا جائز ہے اور اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٣ ریشمی رومال یا اس جيسی کوئی چيز مرد کی جيب ميں ہو تو کوئی حرج نہيں ہے اور وہ نماز کو باطل نہيں کرتی۔

مسئلہ ٨ ۴۴ عورت کے لئے نماز ميں یا اس کے علاوہ ریشمی لباس پهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۵ مجبوری کی حالت ميں غصبی، خالص ریشمی یا زردوزی کا لباس پهننے ميں کوئی حرج نہيں ۔ نيز جو شخص یہ لباس پهننے پر مجبور ہو اور آخر وقت تک پهننے کے لئے اس کے پاس کوئی دوسرا لباس نہ ہو تو وہ ان کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۶ اگر کسی شخص کے پاس غصبی لباس اور مردار کے اجزاء سے بنے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس، آخر وقت تک نہ ہو اور یہ لباس پهننے پر مجبور بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوںکی طرح مسئلہ ” ٨٠٣ “ ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٧ اگر کسی شخص کے پاس حرام گوشت جانور کے اجزاء سے تيار کئے گئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو، چنانچہ اگر وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور ہو تو اس لباس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٨ اگر کسی مرد کے پاس خالص ریشم یا زردوزی کئے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو اور وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٩ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی چيز نہ ہو جس سے وہ اپنی شرمگاہ کو نماز ميں ڈهانپ سکے تو واجب ہے کہ اس کا انتظام کرے، چاہے کرائے پر لے یا خریدے، ليکن اگر اس پر اس کی حيثيت سے زیادہ پيسے خرچ ہوتے ہوں یا اتنا خرچہ اس کے حال کے اعتبار سے نقصان دہ ہو تو اسے لينا ضروری نہيں ہے اور وہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ نقصان برداشت کرے اور شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھے۔

۱۴۱

مسئلہ ٨ ۵ ٠ جس شخص کے پاس لباس نہ ہو، اگر کوئی دوسرا شخص اسے لباس بخش دے یا ادهار دے دے تو اگر اس لباس کا قبول کرنا اس کے لئے حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے قبول کرے، بلکہ اگر اُدهار لينے یا بخشش کے طور پر طلب کرنے ميں اس کے لئے کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اُدهار مانگے یا بخشش کے طور پر طلب کرے۔

مسئلہ ٨ ۵ ١ ایسے لباس کا پهننا جس کا کپڑا، رنگ یا سلائی اسے پهننے والے کے لئے رائج نہ ہو، تو اگر اسے پهننا اس کی توهين، بدنامی یا لوگوں کی جانب سے انگلياں اٹھ انے کا باعث ہو تو اسے پهننا حرام ہے اور اگر ایسے لباس سے نماز ميں شرمگاہ کو چھپا ئے تو بعيد نہيں کہ اس کا حکم، غصبی لباس کا حکم ہوجس کا تذکرہ مسئلہ” ٨٢١ “ ميں کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٢ اگر مرد، زنانہ لباس پهنے یا عورت، مردانہ لباس پهنے اور اسے اپنا لباس قرار دے تو احتياط کی بنا پر اس کا پهننا حرام ہے اور نماز ميں اس لباس کے ساته شرمگاہ ڈهانپنا احتياط کی بنا پر بطلان کا باعث ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٣ جس شخص کے لئے ليٹ کر نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اس کا لحاف حرام گوشت جانور کے اجزا سے بنا ہو تو اس ميں نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر اس کا گدّا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنا ہو جسے خود سے لپيٹ لے یا نجس ہو یا نمازی کے مرد ہونے کی صورت ميں ریشم یا زردوزی کيا ہوا ہو تو احتياط واجب کی بناپر اس ميں نماز نہ پڑھے۔

جن صورتوںميں نمازی کا بدن اور لباس پاک ہونا ضروری نہيں مسئلہ ٨ ۵۴ تين صورتوں ميں ، جن کی تفصيل بعد ميں بيان کی جائے گی، اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے :

١) اس کے بدن کے زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کی وجہ سے اس کے لباس یا بدن پر خون لگ جائے۔

٢) اس کے بدن یا لباس پر درہم کی مقدار سے کم خون لگا ہو۔ درہم کی وہ مقدار جس سے کم مقدار نماز ميں معاف ہے ، تقریباً شهادت والی انگلی کی اُوپر والی پور کے برابر ہے ۔

٣) نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔

اس کے علاوہ ایک اور صورت ميں اگر نمازی کا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ اس کا چھوٹا لباس مثلاً موزہ اور ٹوپی نجس ہو۔

ان چاروں صورتوں کے تفصيلی احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٨ ۵۵ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کا خون ہو، چنانچہ اگر بدن اور لباس کا پاک کرنا یا لباس تبدیل کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے تکليف کا باعث ہو تو جب تک زخم یا جراحت یا پھوڑا ٹھيک نہ ہو جائے اس خون کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر اس کے بدن یا لباس پر ایسی پيپ ہو جو خون کے ساته نکلی ہو یا ایسی دوائی ہوجو زخم پر لگائی گئی ہو اور نجس ہوگئی ہو، اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

۱۴۲

مسئلہ ٨ ۵۶ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر ایسی جراحت یا زخم کا خون ہو جو جلدی ٹھيک ہو جاتا ہو اور اسے پاک کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے آسان ہو اور ایک درہم کی مقدار سے کم بھی نہ ہو اور اس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٧ اگر بدن یا لباس کی ایسی جگہ جو زخم سے کچھ فاصلے پر ہو زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر بدن یا لباس کی وہ جگہ جو عموما زخم کی رطوبت سے آلودہ ہو جاتی ہو اس زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٨ اگر کسی شخص کے بدن یا لباس کو اس بواسير سے جس کے مسّے باہر نہ ہوں یا اس زخم سے جو منہ اور ناک وغيرہ کے اندر ہو خون لگ جائے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ، البتہ اس بواسير کے خون کے ساته نماز پڑھنا بلااشکال جائز ہے جس کے مسّے مقعد کے باہر ہوں۔

مسئلہ ٨ ۵ ٩ جس شخص کے بدن پر زخم ہو اگر وہ اپنے بدن یا لباس پر ایسا خون دیکھے جو ایک درہم یا اس سے زیادہ ہو اور نہ جانتا ہو کہ یہ خون زخم کا ہے یا کوئی اور خون ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٠ اگر کسی شخص کے بدن پر چند زخم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہوں کہ ایک زخم شمار ہوں تو جب تک وہ زخم ٹھيک نہ ہو جائيں ان کے خون کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر وہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہوں کہ ان ميں سے ہر زخم عليحدہ زخم شمار ہو تو جو زخم ٹھيک ہو جائے، اگر اس کا خون ایک درہم سے کم نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے لئے بدن اور لباس کوپاک کرے۔

مسئلہ ٨ ۶ ١ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر سوئی کی نوک کے برابر بھی حيض، کتے، سوّر، کافر غير کتابی، مردار یا حرام گوشت جانور کا خون لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر نفاس اور استحاضہ کے خون کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن کوئی دوسرا خون مثلاً ایسے انسان کا خون جو نجس العين نہيں ہے یا حلال گوشت جانور کا خون، اگرچہ بدن یا لباس کے کئی حصّوں پر لگا ہو اور اس کی مجموعی مقدار ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٢ جو خون بغير استر کے کپڑے پر گرے اور دوسری طرف جاپهنچے وہ ایک خون شمار ہوتا ہے ، ليکن اگر کپڑے کی دوسری طرف الگ خون سے آلودہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کو عليحدہ خون شمار کيا جائے، پس اگر وہ خون جو کپڑے کے سامنے کے رخ اور پچهلی طرف ہے ، مجموعی طور پر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

۱۴۳

مسئلہ ٨ ۶ ٣ اگر استر والے کپڑے پر خون گرے اور اس کے استر تک پهنچ جائے یا استر پر گرے اور کپڑے تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ ہر خون کو الگ شمار کيا جائے، لہٰذا اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۴ اگر بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم خون ہواور کوئی ایسی رطوبت اس سے آلگے جس سے اس کے اطراف آلودہ ہو جائيں تو اس کے ساته نماز باطل ہے ، خواہ خون اور وہ رطوبت ایک درہم کے برابر نہ ہوں، ليکن اگر رطوبت فقط خون سے ملے اور اس کے اطراف کو آلودہ نہ کرے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۵ اگر بدن یا لباس پر خون نہ ہو ليکن رطوبت کے ساته خون سے لگنے کی وجہ سے نجس ہو جائيں تو خواہ نجس ہونے والی مقدار ایک درہم سے کم ہو، اس کے ساته نماز نہيں پڑھی جاسکتی۔

مسئلہ ٨ ۶۶ اگر بدن یا لباس پر جو خون ہو اس کی مقدار ایک درہم سے کم ہو اور کوئی دوسری نجاست اس سے آلگے مثلاً پيشاب کا ایک قطرہ اس پر جاگرے اور وہ بدن یا لباس سے لگ جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٧ اگر نمازی کا چھوٹا لباس مثلاً ٹوپی اور موزہ جس سے شرمگاہ کو نہ ڈهانپا جاسکتا ہو نجس ہو جائے اور نمازی کے لباس ميں دوسرے موانع نہ ہوں مثلاً مردار یا نجس العين یا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے نہ ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے ۔ نيز نجس انگوٹھی کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٨ نجس چيز مثلاً رومال، چابی اور نجس چاقو کا نمازی کے پاس ہونا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٩ اگر بدن یا لباس پر لگے ہوئے خون کے بارے ميں یہ تو معلوم ہوکہ درہم سے کم ہے ليکن یہ احتمال بھی ہو کہ یہ ایسا خون ہے جونماز ميں معاف نہيں ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے اور اسے نماز کے لئے پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧٠ اگربدن یا لباس پر لگا ہوا خون درہم سے کم ہو ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ یہ خون معاف نہيں ہے اور نماز پڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ یہ خون معاف نہيں تھا تو نماز دهرانا ضروری نہيں هے۔ اسی طرح اگر ایک درہم سے کم سمجھتے ہوئے نمازپڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ درہم کے برابر یا اس سے زیادہ تھا تو اس صورت ميں بھی نماز دهرانا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧١ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مستحب ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

تحت الحنک کے ساته عمامہ، عبا، سفيد اور پاکيزہ ترین لباس پهننا، خوشبو کا استعمال کرنا اور عقيق کی انگوٹھی پهننا۔

۱۴۴

نمازی کے لباس ميں مکروہ چيزیں

مسئلہ ٨٧٢ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مکروہ ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

سياہ لباس، ميلا یاتنگ لباس پهننا، شرابی اور نجاست سے پرہيز نہ کرنے والے کا لباس پهننا اور لباس کے بٹن کا کهلا ہونا۔

اور احتياط واجب یہ ہے کہ ایسے لباس یا انگوٹھی کے ساته نماز نہ پڑھے جس پر جاندار کی صورت کا عکس ہو۔

نماز پڑھنے کی جگہ

جس جگہ نماز پڑھی جائے اس کی سات شرائط ہيں :

پهلی شرط

وہ جگہ مباح ہو ۔

مسئلہ ٨٧٣ جو شخص غصبی جگہ ميں نماز پڑھ رہا ہو تو اعضائے سجدہ کی جگہ غصبی ہو نے کی صورت ميں اس کی نمازباطل ہے ، اگر چہ قالين، کمبل یا ان جيسی کسی چيز پر کهڑا ہو۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر تخت یا اس جيسی کسی چيز پر نماز پڑھنے کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن غصبی خيمے اور غصبی چھت کے نيچے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۴ جس ملکيت سے فائدہ اٹھ انا کسی اور کا حق ہے اس ميں صاحبِ حق کی اجازت کے بغير نماز پڑھنا باطل ہے ، مثلاًکرائے کے گھر ميں کرائے دار کی رضایت کے بغير مالک مکان یا کوئی اور شخص نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

اسی طرح اگر ميت نے اپنے مال کا تيسرا حصہ کسی جگہ خرچ کرنے کی وصيت کی ہو تو جب تک ترکہ سے تيسرا حصہ جدا نہ کر ليا جائے مرحوم کی ملک پر نماز نہيں پڑھی جا سکتی ہے ۔

هاں، جس جگہ پر کسی کا کوئی حق ہو اور اس جگہ نماز پڑھنا صاحب حق کے اختيار ميں رکاوٹ کا باعث ہو مثلًا ایسی زمين پر نماز پڑھنا جس پر کسی نے پتّھر چن دئے ہوں، صاحب حق کی اجازت کے بغير باطل ہے جب کہ اس صورت کے علاوہ ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ مثلاًرہن رکھوانے والے کی اجازت سے اس زمين پر نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے جو کسی کے پاس رہن رکھوائی گئی ہو اگرچہ جس کے پاس وہ زمين رہن رکھی گئی ہو اس ميں نماز پڑھنے پرراضی نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧ ۵ اگر کوئی مسجدميں بيٹھے ہوئے کسی شخص کی جگہ غصب کر کے وہاں نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۶ جس جگہ کے غصبی ہونے کا علم نہ ہو اور وہاں نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ سجدہ کرنے کی جگہ غصبی تھی تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۴۵

البتہ اگر کسی جگہ کے غصبی ہونے کو بھول کر نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ ہاں، اگر خود نے کسی جگہ کو غصب کيا ہو اور بھول کر وہاں نمازپڑھے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی تھی تواس کی نماز باطل ہے جب کہ اگر توبہ کر چکا تھا تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٧ ایسی جگہ نماز پڑھنا جهاں اعضائے سجدہ رکھنے کی جگہ غصبی ہو اور جانتا بھی ہو کہ یہ جگہ غصبی ہے ، باطل ہے ۔ اگرچہ اسے نماز کے باطل ہونے کا حکم معلوم نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧٨ جو شخص سواری کی حالت ميں واجب نماز پڑھنے پر مجبور ہو تو اگر سواری کا جانور یا اس کی زین غصبی ہو اور اسی جانور یا زین پر سجدہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ یهی حکم اس جانور پر مستحب نمازپڑھنے کا ہے ۔ ہاں، اگر جانور کی نعل غصبی ہو تو نماز کا باطل ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٩ جو شخص کسی ملکيت ميں دوسرے کے ساته شریک ہو تو جب تک اس کا حصہ جدا نہ ہو جائے اس وقت تک اس ملکيت ميں اپنے شریک کی رضایت کے بغير نہ تصرف کر سکتا ہے نہ نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨٨٠ جس مال کا خمس نہ نکالا ہو اگر عين اسی مال سے ملکيت خریدے تو اس ملکيت ميں تصرف حرام ہے اور نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨١ اگر کوئی شخص اپنی ملکيت ميں نماز پڑھنے کی اجازت دے اور انسان جانتا ہو کہ دل سے راضی نہيں ہے تو اس کی ملکيت ميں نماز باطل ہے اوراگر اجازت نہ دے ليکن انسان کو یقين ہو کہ راضی ہے تو نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٨٢ جس مرنے والے کے ذمہ خمس یا زکات واجب الادا ہو جبکہ اس کا ترکہ خمس یا زکات کی واجب الادا مقدار سے زیادہ نہ ہو تو اس ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کے واجبات ادا کر دئے جائيں یا حاکم شرع کی اجازت سے ضمانت لے لی جائے تو ورثاء

کی اجازت سے ميت کے ترکے ميں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٣ جو مرنے والا لوگوں کا مقروض ہو اور اس کا ترکہ قرض کی مقدار سے زیادہ نہ ہو تو قرض خواہ کی اجازت کے بغير ميت کے ترکے ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کا قرض ادا کرنے کی ضمانت لے لی جائے اور قرض خواہ بھی راضی ہوجائے تو ورثا کی اجازت سے اس ميں تصرف کرنا جائز ہے اور نماز بھی صحيح ہے ۔

۱۴۶

مسئلہ ٨٨ ۴ اگر ميت مقروض نہ ہو ليکن اس کے ورثا ميں سے کوئی نابالغ، دیوانہ یا لاپتہ ہو تو اس کے ترکے ميں اس کے ولی کی اجازت کے بغير تصرف کرنا حرام اورنماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۵ کسی کی ملکيت ميں نماز پڑھنا اس صورت ميں جائز ہے کہ جب انسان کے پاس شرعی دليل ہو یا اسے یقين ہو کہ مالک اس جگہ نماز پڑھنے پر راضی ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب مالک اِس طرح کے تصرف کی اجازت دے کہ جسے عرفی اعتبار سے نمازپڑھنے کی اجازت بھی سمجھا جائے، مثلاًکسی کو اپنی ملکيت ميں بيٹھنے اور ليٹنے کی اجازت دے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے نمازپڑھنے کی اجازت بھی دے دی ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۶ مسئلہ نمبر ” ٢٧٧ “ميں گزری ہوئی تفصيل کے مطابق وسيع اراضی ميں نماز پڑھنے کے لئے مالک کی اجازت ضروری نہيں ہے ۔

دوسری شرط

مسئلہ ٨٨٧ واجب نماز ميں ضروری ہے کہ نمازی کی جگہ اتنی متحرک نہ ہو کہ نمازی کے بدن کے ساکن رہنے اور اختياری حالت ميں پڑھی جانے والی نماز کے افعال کی ادائيگی ميں رکاوٹ بن جائے۔

هاں، اگر وقت تنگ ہونے یا کسی اور وجہ سے کسی ایسی جگہ مثلاًبس، کشتی یا ٹرین وغيرہ ميں نماز پڑھنے پر مجبور ہو جائے تو ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک بدن کے سکون اور قبلے کا خيال رکھے اور اگر یہ سواریاں قبلے کی سمت سے ہٹ جائيں تو خود قبلے کی طرف گهوم جائے۔

مسئلہ ٨٨٨ کهڑی ہوئی بس، کشتی، ٹرین یا ان جيسی چيزوں ميں نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٩ گندم وجوَ کے ڈهير یا ان جيسی کسی اور چيز پر جو بدن کو ساکن نہ رہنے دے، نماز باطل ہے ۔

۱۴۷

تيسری شرط

مسئلہ ٨٩٠ ضروری ہے کہ ایسی جگہ پر نماز پڑھے جهاںنماز مکمل کرنے کا احتمال ہو اور اگر ہوا، بارش، لوگوں کے هجوم یا ان جيسے اسباب کی وجہ سے اطمينان ہو کہ اس جگہ نماز مکمل نہيں کر سکے گا تو اگرچہ اتفاقاً وہاں نماز مکمل کر لے پھر بھی اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٩١ اگر ایسی جگہ نماز پڑھے جهاں ٹہرنا حرام ہے مثلاًایسی چھت کے نيچے جو گرنے ہی والی ہے تو اگرچہ وہ گنهگار ہے ليکن اس کی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٩٢ جس چيز کی توهين حرام ہے اگر اس پر اٹھنا بيٹھنا اس کی توهين کا باعث ہو مثلاًقالين کا وہ حصہ جس پر الله کا نام لکھا ہو، اس پر نمازپڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط کی بنا پر باطل بھی ہے ۔

چوتھی شرط

نماز پڑھنے کی جگہ چھت نيچی ہونے کی وجہ سے اتنی چھوٹی نہ ہو کہ سيدها کهڑا نہ ہو سکے اور اسی طرح مکان کے تنگ ہونے کی وجہ سے جگہ اتنی تنگ نہ ہو کہ رکوع اور سجود انجام نہ دے سکے۔

مسئلہ ٨٩٣ اگر ایسی جگہ نمازپڑھنے پر مجبور ہو جائے جهاں کسی طرح کهڑا نہ ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ کر نماز پڑھے اوراگر رکوع اور سجود کی ادائيگی ممکن نہ ہو تو ان کے لئے سر سے اشارہ کرے۔

مسئلہ ٨٩ ۴ پيغمبراکرم(ص) اور ائمہ اطهار عليهم السلام کی قبورمطہر سے آگے بڑھ کر نماز پڑھنااگر بے حرمتی کا سبب ہو تو حرام اور باطل ہے بلکہ بے حرمتی نہ ہونے کی صورت ميں بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔ ہاں، اگر نماز کے وقت کوئی چيزمثلاًدیوار، اس کے اور قبر کے درميان ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن قبر مطہر پر بنے ہوئے صندوق، ضریح اور اس پر پڑے ہوئے کپڑے کا فاصلہ کافی نہيں ہے ۔

پانچويں شرط

مسئلہ ٨٩ ۵ یہ کہ نمازپڑھنے کی جگہ اگر نجس ہو تو اتنی تر نہ ہو کہ نماز کو باطل کرنے والی نجاست نمازی کے بدن یا لباس تک سرایت کر جائے۔ ہاں، سجدے کے لئے پيشانی رکھنے کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور اگر وہ نجس ہو تو اس کے خشک ہونے کی صورت ميں بھی نماز باطل ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ بالکل نجس نہ ہو۔

۱۴۸

چھٹی شرط

ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت مرداور عورت کے درميان کم ازکم ایک بالشت کا فاصلہ ہو، جب کہ شہر مکہ کے علاوہ کسی بھی مقام پر دس ذراع سے کم کے فاصلے ميں نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٨٩ ۶ اگر عورت مذکورہ فاصلے سے کم فاصلے پر مردکے برابر یا اس سے آگے نماز پڑھے اور دونوں ایک ساته نماز شروع کریں تو ضروری ہے کہ دونوں دوبارہ نماز پڑہيں ۔ اسی طرح اگر ایک نے دوسرے سے پهلے نماز شروع کی ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٨٩٧ اگر ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوئے مرد اور عورت یا مرد سے آگے کهڑی ہوئی عورت اور مرد کے درميان دیوار، پردہ یا کوئی ایسی چيز ہو کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکيں تو دونوں کی نمازميں کوئی حرج نہيں اگر چہ ان کے درميان مذکورہ مقدار سے بھی کم فاصلہ ہو۔

ساتويں شرط

ضروری ہے کہ نمازی کی پيشانی رکھنے کی جگہ، اس کے پاؤں کی انگليوں کے سرے اور بنا بر احتياط واجب گھٹنے رکھنے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں کی مقدار سے زیادہ نيچی یا اونچی نہ ہو اور اس کی تفصيل سجدے کے احکام ميں آئے گی۔

مسئلہ ٨٩٨ نامحرم مرد اور عورت کا ایسی جگہ اکهٹا ؟؟؟هونا جهاں کوئی دوسرا نہ ہو اور نہ ہی آ سکتا ہو جبکہ اس صورت ميں انہيں گناہ ميں مبتلا ہونے کا احتمال ہو، جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ نماز نہ پڑہيں ۔

مسئلہ ٨٩٩ جهاں سِتار یااس جيسی چيزیں بجائی جاتی ہوں وہاں نماز پڑھنے سے نماز باطل نہيں ہوتی ہے ، ليکن ان چيزوں کو سننا حرام ہے ۔ یهی حکم وہاں ٹھ هرنے کا ہے سوائے اس شخص کے لئے جو اس عمل کو روکنے کے لئے وہاں ٹہرا ہو۔

مسئلہ ٩٠٠ اختياری حالت ميں خانہ کعبہ کی چھت پر واجب نماز پڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی واجب نماز نہ پڑھے ليکن مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٠١ خانہ کعبہ کے اندر مستحب نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے بلکہ خانہ کعبہ کے اندر ہر گوشے کے سامنے دو رکعت نمازپڑھنا مستحب ہے ۔

۱۴۹

وہ مقامات جهاں نمازپڑھنا مستحب ہے

مسئلہ ٩٠٢ اسلام کی مقدس شریعت ميں مسجد ميں نماز پڑھنے کی بہت تاکيد کی گئی ہے ۔ تمام مساجد ميں سب سے بہتر مسجدالحرام ہے ۔ اس کے بعد مسجد نبوی صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور پھر مسجدکوفہ کا درجہ ہے ۔ ان کے بعد مسجدبيت المقدس، شہر کی جامع مسجد، محلہ کی مسجداو ر بازار کی مسجد کا درجہ بالترتيب ہے ۔

مسئلہ ٩٠٣ خواتين کے لئے اپنے گھر ميں بلکہ کوٹہر ی اور پيچهے والے کمرے ميں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۴ ائمہ عليهم السلام کے حرم مطہر ميں نماز پڑھنا مستحب ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق حضرت امير المومنين عليہ السلام اورسيد الشهداعليهم السلام کے حرم ميں نماز مسجدسے افضل ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۵ مسجد ميں زیادہ جانا اور جس مسجد ميں نماز ی نہ ہوتے ہوں وہاں جانا مستحب ہے اور مسجد کے پڑوسی کے لئے بغير کسی عذر کے مسجد کے علاوہ کسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۶ انسان کے لئے مستحب ہے کہ مسجد ميں نہ جانے والے کے ساته کھانا نہ کھائے، کاموں ميں اس سے مشورہ نہ لے، اس کا ہمسایہ نہ بنے، اس سے لڑکی نہ لے اور نہ ہی اسے لڑکی دے۔

وہ مقامات جهاں نماز پڑھنا مکروہ ہے

مسئلہ ٩٠٧ چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

١) حمام ميں

٢) نمک زار ميں

٣) انسان کے سامنے

۴) کهلے ہوئے دروازے کے سامنے

۵) سڑک اور گلی کوچوں ميں جب کہ وہاں سے گزرنے والوں کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو اور اگر تکليف کا باعث ہو توحرام ہے ۔

۶) آگ اور چراغ کے سامنے

٧) باورچی خانے ميں اور ہر اس جگہ جهاں آتش دان ہو

٨) کنویں اور پيشاب کے جمع ہونے کی جگہ کے سامنے

٩) جاندار کی تصویر اور مجسمے کے سامنے مگر یہ کہ ان پر پردہ ڈال دیا جائے

۱۵۰

١٠ ) جس کمرے ميں کوئی جنب ہو

١١ ) جهاں جاندار کی تصویر ہو اگرچہ نماز ی کے سامنے نہ ہو

١٢ ) قبر کے سامنے

١٣ ) قبر کے اوپر

١ ۴ ) دو قبروں کے درميان

١ ۵ ) قبرستان ميں

مسئلہ ٩٠٨ لوگوں کی گذر گاہ پر یا کسی کے سامنے نمازپڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اپنے سامنے کوئی چيز رکھے جو اگر لکڑی یا رسی بھی ہو تو کافی ہے ۔

مسجد کے احکام

مسئلہ ٩٠٩ مسجد کی زمين، چھت کا اندرونی اور اوپری حصہ اور مسجد کی دیوار کا اندر والا حصہ نجس کرنا حرام ہے اور جس شخص کو بھی اس کے نجس ہونے کا علم ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کو فوراً پاک کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسجد کی دیوار کا باہر والا حصہ بھی نجس نہ کرے اور اگر نجس ہو جائے تو نجاست کودور کرے۔

مسئلہ ٩١٠ اگر مسجد پاک نہ کرسکتا ہو یا پاک کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہو اور کوئی مددگار نہ ملے تو اس پر مسجد پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن جو شخص مسجد کو پاک کر سکتا ہو اور احتمال ہو کہ وہ مسجد کوپاک کر دے گاتو اس کو اطلاع دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩١١ اگر مسجد کی کوئی ایسی جگہ نجس ہو جائے جسے کهودے یا توڑے بغير پاک کرنا ممکن نہ ہو تو اگر اس کی توڑ پهوڑ مکمل اور وقف کو نقصان پهنچانے والی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس جگہ کو کهودا یا توڑا جائے۔ اور کهودی ہوئی جگہ کو پرُ کرنا او ر توڑی ہوئی جگہ کو دوبارہ بنانا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر مسجد کی اینٹ جيسی کوئی چيز نجس ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اسے پاک کر کے پرانی جگہ پر لگا دیا جائے۔

مسئلہ ٩١٢ اگر مسجد غصب کر کے اس پر گھر یا گھر جيسی عمارت بنالی جائے تو بنا بر احتياط اسے نجس کرنا حرام ہے اور پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن ٹوٹی ہوئی مسجد کو نجس کرنا اگرچہ اس ميں کوئی نمازنہ پڑھتا ہو، جائز نہيں ہے اور پاک کرنا ضروری ہے

مسئلہ ٩١٣ ائمہ عليهم السلام کے روضوں کو نجس کرنا حرام ہے اور نجس ہونے کے بعد اگر نجس چھوڑنے سے بے احترامی ہوتی ہو تو انہيں پاک کر نا واجب ہے ۔ بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تو بھی احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کرے۔

۱۵۱

مسئلہ ٩١ ۴ مسجد کی چٹائی نجس کرنا حرام ہے اور نجس کرنے والے کے لئے احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور باقی افراد کے لےے احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کریں، ليکن اگر چٹائی کا نجس رہنا مسجد کی بے احترامی ہوتو ضروری ہے کہ اسے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ٩١ ۵ اگر بے احترامی ہوتی ہوتو مسجدميں کسی عين نجس یا نجس شدہ چيز کو لے جاناحرام ہے ، بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تب بھی احتياط مستحب ہے کہ عين نجس کو مسجد ميں نہ لے جائے۔

مسئلہ ٩١ ۶ مسجد ميں مجالس کے ليے شاميانہ لگانے، فرش بچهانے، سياہ چيزیں آویزاں کرنے اور چائے کا سامان لے جانے ميں جبکہ مسجد کو نقصان نہ پهنچے اور نماز پڑھنے ميں کسی رکاوٹ کا باعث نہ بنے، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩١٧ احتياط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے اور انسان اور جاندار کے نقش سے مزین کر نا جائز نہيں ہے اور بيل بوٹوں جيسی بے جان چيزوں سے مزین کر نا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩١٨ اگر مسجد ٹوٹ جائے تو بھی نہ اسے فروخت کيا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکيت یا سڑک ميں شامل کيا جا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٩١٩ مسجد کے دروازے، کهڑکيا ں اور دوسری چيزوں کو فروخت کرنا حرام ہے اور اگر مسجد ٹوٹ جائے تو ضروری ہے کہ ان چيزوں کواس مسجد کی تعمير ميں استعمال کيا جائے اور جو چيزیں اس مسجد کے کام کی نہ ہوںانہيں دوسری مسجد ميں استعمال کيا جائے، ليکن اگر کسی بھی مسجد کے کام نہ آئيں تو جو چيزیں مسجد کا جزء شمار نہ ہوتی ہوں اور مسجد کے لئے وقف کی گئی ہو ں انہيں حاکم شرع کی اجازت سے فروخت کيا جاسکتا ہے اور اگر ممکن ہو تو ان کی قيمت بھی اسی مسجد، ورنہ کسی اور مسجد کی تعمير ميں خرچ کی جائے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تواسے دوسرے نيک کاموں ميں خرچ کيا جائے۔

مسئلہ ٩٢٠ مسجد کی تعمير اورمرمت مستحب ہے اور اگر ٹوٹی ہوئی مسجد کی مرمت ممکن نہ ہو تو اسے توڑکر دوبارہ بنایا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ضرورت ہو تونماز کی گنجائش بڑھانے کے لئے اس مسجد کوبهی جو نہ ٹوٹی ہو، توڑ کر دوبارہ بنایا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ٩٢١ مسجدکو صاف کرنا اور اس ميں چراغ روشن کرنا مستحب ہے اور مسجد جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ خوشبو لگائے، پاکيزہ اور قيمتی لباس پهنے، اپنے جوتو ںکو دیکھ لے کہ اس کہ نيچے والے حصے ميں نجاست تو نہيں ہے ، مسجد ميں داخل ہوتے وقت پهلے سيدها پاؤں اور باہر نکلتے وقت پهلے الٹا پاؤں اٹھ ائے اور مستحب ہے کہ سب سے پهلے مسجد ميں آئے اور سب سے آخر ميں باہر جائے۔

مسئلہ ٩٢٢ جب انسان مسجد ميں جائے تو مستحب ہے کہ دو رکعت نمازتحيت، مسجد کے احترام ميں پڑھے اور اگر واجب یا کوئی مستحب نماز بھی پڑھ لے تو کافی ہے ۔

۱۵۲

مسئلہ ٩٢٣ مسجد ميں بغير کسی مجبوری کے سونا، دنياوی امور کے بارے ميں گفتگو کرنا، کسی دستکاری ميں مشغول رہنا اور ایسے شعر پڑھنا جس ميں نصيحت اور اس جيسی چيز نہ ہو مکروہ ہے ۔

اسی طرح مسجد ميں تهوکنا، ناک کی غلاظت وبلغم پھينکنا، کسی کهوئے ہوئے کو ڈهونڈنا اور اپنی آواز بلند کرنا بھی مکروہ ہے ليکن اذان کے لئے آواز بلند کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٢ ۴ بچوں اور دیوانوں کو مسجد ميں آنے دینا مکروہ ہے اور پياز یا لهسن جيسی چيز کھائے ہوئے شخص کے لئے کہ جس کے منہ کی بو سے لوگوں کو اذیت ہوتی ہو، مسجدميں جانا مکروہ ہے ۔

اذان اور اقامت

مسئلہ ٩٢ ۵ مرد اور عورت کے لئے مستحب ہے کہ واجب یوميہ نمازوں سے پهلے اذان اور اقامت کہيں جب کہ یوميہ نمازوں کے علاوہ دوسری واجب نمازوں اور مستحب نمازوں کے لئے جائز نہيں ہے ، ليکن جب عيد فطر یا عيد قربان کی نماز جماعت سے پڑھی جا رہی ہو تو مستحب ہے کہ تين مرتبہ الصلاة کہہ کر پکارا جائے اور ان دو نمازوں کے علاوہ کسی نماز مثلًانماز آیات ميں اگر جماعت سے پڑھی جائے تو رجاء کها جائے۔

مسئلہ ٩٢ ۶ مستحب ہے کہ نومولود کے دائيں کان ميں اذان اور بائيں کان ميں اقامت کهے اوریہ ولادت کے پهلے روز بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٢٧ اذان کے اٹھ ارہ جملے ہيں :

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ چار مرتبہا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ دومرتبہلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه دو مرتبہ اور اقامت کے سترہ جملے ہيں :

یعنی اول سے دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ اور آخر سے ایک مرتبہلاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه کم ہو جائيں گے اورحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ کے بعد ضروری ہے کہ دو مرتبہقَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ کا اضافہ کرے۔

مسئلہ ٩٢٨ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ عَلِيًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ اذان واقامت کا جز نہيں ہے ليکن چونکہ حضرت علی عليہ السلا م کی ولایت دین کی تکميل کرتی ہے لہٰذا اس کی گواہی ہر مقام پر او را شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰه کے جملے کے بعد خدا سے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے ۔

۱۵۳

اذان اور اقامت کا ترجمہ

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ الله توصيف کئے جانے سے بالا تر ہےا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہےا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ محمدبن عبد الله(ص) الله کے رسول ہيںحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ نماز کے لئے جلدی کرو حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ کاميابی کی طرف جلدی کروحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ بہترین کام کی طرف جلدی کرو قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ یقينانماز قائم ہو گئیلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہے مسئلہ ٩٢٩ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے جملوں کے درميان زیادہ فاصلہ نہ دے اور اگر ان کے درميان معمول سے زیادہ فاصلہ کر دے تو ضروری ہے کہ شروع سے کهے۔

مسئلہ ٩٣٠ اگر اذان اور اقامت کہتے وقت آواز کو گلے ميں گهمائے تو اگر یہ غنا اور گلوکاری ہو جائے یعنی لهو ولعب کی محفلوں سے مخصوص گانے کے انداز ميں اذان اور اقامت کهے تو حرام ہے اور اگر غنا اور گلوکاری نہ ہو تو مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٣١ دو نماز وں ميں اذان جائزنہيں ہے :

١) ميدان عرفات ميں روز عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کے دن، نماز عصر ميں ۔

٢) شب بقر عيد کی نماز عشا ميں اس شخص کے لئے جو مشعر الحرام ميں ہو۔

یہ دو اذانيں اس صورت ميں جائز نہيں ہيں جب ان ميں سے پهلے پڑھی ہوئی نمازميں فاصلہ بالکل نہ ہو یا اتنا کم فاصلہ ہو کہ عرفاً یہ کها جائے کہ دو نمازیں ساته ميں پڑھی ہيں ۔

مسئلہ ٩٣٢ اگر نمازجماعت کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہو تو اس جماعت کے ساته نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت نہ کهے۔

مسئلہ ٩٣٣ اگر نماز جماعت پڑھنے مسجد ميں جائے اور دیکھے کہ نماز ختم ہو چکی ہے ليکن صفيں ابهی تک نہ بگڑی ہوں اور لوگ بھی متفرق نہ ہوئے ہوں توآنے والے مسئلے ميں بيان شدہ شرائط کے ساته اپنے لئے اذان اور اقامت نہيں کہہ سکتا۔

مسئلہ ٩٣ ۴ جهاں جماعت ہو رہی ہو یا جماعت مکمل ہوئے زیادہ وقت نہ گزرا ہو اور صفيں نہ بگڑی ہوں اگر کوئی وہاں فرادیٰ یا باجماعت نماز پڑھنا چاہے تو چھ شرائط کے ساته اس سے اذان اور اقامت ساقط ہو جائے گی (اور یہ سقوط، عزیمت کے عنوان سے ہے یعنی اذان اور اقامت جائز نہيں ہے :

١) جماعت مسجد ميں ہو پس اگر مسجد ميں نہ ہو تو اذان اور اقامت ساقط نہيں ہوگی۔

٢) اس نماز کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہوں۔

۱۵۴

٣) جماعت باطل نہ ہو۔

۴) جماعت اور اس شخص کی نماز ایک ہی جگہ پر ہو، لہٰذا اگر مثال کے طور پر جماعت مسجد کے اندر ہو اور وہ چھت پر نماز پڑھنا چاہے تو اس سے اذان اور اقامت ساقط نہ ہونگی۔

۵) نماز جماعت اور ا س کی نمازدونوں ادا ہوں۔

۶) نمازجماعت اور اس شخص کی نمازکا وقت مشترک ہو۔ مثلا دونوں نماز یں ظہر ہو ں یا عصر ہوں یا نماز جماعت ظہر ہو اور وہ نماز عصر پڑھے یا اسے نمازظہر پڑھنی ہو اور جماعت عصر ہو۔

مسئلہ ٩٣ ۵ اگر گذشتہ مسئلے کی تيسری شرط ميں شک کرے یعنی شک کرے کہ نمازجماعت صحيح تھی یا نہيں تو اس سے اذان واقامت ساقط ہے ليکن اگر صفوں کے بگڑنے یا دوسری شرائط کے حاصل ہونے ميں شک کرے تو اگر سابقہ حالت معلوم ہو تو اسی حالت کے مطابق عمل کرے مثلاًاگر رات کی تاریکی ميں شک کرے کہ صفيں بگڑی ہيں یا نہيں تو سمجھے کہ صفيں اپنی حالت پر باقی ہيں اور اذان اور اقامت نہ کهے اور اگر شک کرے کہ اس جماعت کے لئے اذان واقامت کهی گئی ہے یا نہيں تو سمجھے کہ نہيں کهی گئی ہے اور اذان واقامت مستحب کی نيت سے کهے اور اگر حالت سابقہ معلوم نہ ہوتو رجاء اذان واقامت کهے۔

مسئلہ ٩٣ ۶ دوسرے کی اذان کی آوازسننے والے کے لئے ہر سنے ہوئے جملے کو دهرانا مستحب ہے او راقامت سننے والا حی علی الصلاةسے قد قامت الصلاة تک کے جملے کو رجاء دهرائے اور باقی جملات کو ذکر کی نيت سے کهنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٣٧ جس نے دوسرے کی اذان و اقامت سنی ہو اور نمازپڑھنا چاہے تو اگر دوسرے کی اذان واقامت اور اس کی نماز کے درميان زیادہ فاصلہ نہ ہو تو یہ شخص اذان واقامت کو ترک کر سکتا ہے چاہے اس نے دوسرے کی اذان واقامت کے ساته تکرار کی ہو یا نہ کی ہو۔

مسئلہ ٩٣٨ اگر مردکسی عورت کی اذان سنے تو اس سے اذان ساقط نہيں ہوتی چاہے اس نے لذت کے قصد سے سنی ہو یا قصدِلذت کے بغير سنی ہو۔

مسئلہ ٩٣٩ نماز جماعت کی اذان واقامت کهنے والے کے لئے ضروری ہے مرد ہو، ليکن خواتين کی نماز جماعت ميں کسی عورت کا اذان واقامت کهنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٠ ضروری ہے کہ اقامت، اذان کے بعد ہو اور اگر اذان سے پهلے کهے تو صحيح نہيں ہے اور اقامت ميں کھڑے ہو کر کهنا اور( وضو، غسل یا تيمم کے ذریعے) باطهارت ہونا بھی شرط ہے ۔

۱۵۵

مسئلہ ٩ ۴ ١ اگر اذان واقامت کے جملات ترتيب بدل کر کهے مثلاًحی علی الفلاح کو حی علی الصلاة سے پهلے کهے تو ضروری ہے کہ جهاں سے ترتيب بگڑی ہے وہيں سے دوبارہ کهے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٢ ضروری ہے کہ اذان واقامت کے درميان فاصلہ نہ دے اور اگر اتنا فاصلہ دے کہ کهی ہوئی اذان کو اس اقامت کی اذان نہ کها جا سکے تو دوبارہ اذان واقامت کهنا مستحب ہے اور اگر اذان واقامت کے بعد نمازميں اتنا فاصلہ دے دے کہ یہ دونوں اس نماز کی اذان واقامت نہ کهی جا سکيں تو بھی اس نمازکے لےے اذان واقامت کو دهرانا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٣ ضروری ہے کہ اذان واقامت صحيح عربی ميں کهی جائيں، لہٰذا اگر غلط عربی ميں کهے یا ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف ادا کرے یا مثلاًاردو زبان ميں ترجمہ کهے تو صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۴ ضروری ہے کہ اذان واقامت وقت داخل ہونے کے بعد کهے، لہٰذا اگر عمداًیا بھول کر وقت سے پهلے کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۵ اگر اقامت کهنے سے پهلے شک کرے کہ اذان کهی یا نہيں تو اذان کهے ليکن اگر اقامت شروع کرنے کے بعد اذان کے بارے ميں شک کرے تو اذان کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۶ اگر اذان اور اقامت کے دوران کوئی جملہ کهنے سے پهلے شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها یا نہيں تو جس جملے کے بارے ميں شک ہو اسے کهے ليکن اگر کوئی جملہ کہتے وقت شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها ہے یا نہيں تو اسے کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٧ اذان کہتے وقت مستحب ہے :

اذان دینے والا قبلہ رخ ہو بالخصوص اذان ميں شهادت کے جملے ادا کرتے وقت اس کی زیادہ تاکيد ہے ، وضو یا غسل کيا ہوا ہو،دو انگلياں دونوں کانوں ميں رکھے، اونچی آواز سے اذان دے اور اسے کھينچے، اذان کے جملات کے درميان تهوڑا سا فاصلہ دے اور اذا ن کے جملات کے دوران بات نہ کرے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ اقامت کہتے وقت اس کا بدن ساکن ہو اور اسے اذان کے مقابلے ميں آهستہ آواز ميں کهے اور اس کے جملوں کو ایک دوسرے سے نہ ملائے، ليکن اقامت کے جملوں کے درميان اتنا فاصلہ نہ دے جتنا اذان کے جملوں کے درميا ن دیتا ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٩ مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کے درميان تهوڑی دیر کے لئے بيٹھ کر یا دو رکعت نماز پڑ ه کر یا بات کرے یا تسبيح پڑھ کر فاصلہ دے۔ليکن نمازصبح کی اذان اور اقامت کے درميا ن بات چيت کرنا مکروہ ہے ۔

۱۵۶

مسئلہ ٩ ۵ ٠ مستحب ہے کہ جس شخص کو اطلاعی اذان دینے پر معين کياجائے وہ عادل وو قت شناس ہو،اس کی آواز بلند ہو اوراونچی جگہ پر اذان دے۔

واجباتِ نماز

واجباتِ نماز گيارہ ہيں :

١)نيت

٢)قيا م یعنی کهڑا ہونا

٣)تکبيرةالاحرام یعنی نماز کی ابتدا ميں الله اکبر کهنا

۴) رکوع

۵) سجود

۶) قرائت

٧)ذکر

٨)تشهد

٩)سلام

١٠ )ترتيب

١١ )موالات یعنی اجزائے نماز کا پے در پے بجا لانا

مسئلہ ٩ ۵ ١ واجباتِ نماز ميں سے بعض رکن ہيں یعنی اگر انسان انہيں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا جان بوجه کر ہو یا غلطی سے،نماز باطل ہو جاتی ہے ۔جب کہ باقی واجبا ت رکن نہيں ہيں یعنی اگر وہ غلطی کی بنا پر چھوٹ جایئں تو نماز باطل نہيں ہوتی۔

نماز کے واجباتِ رکنی پانچ ہيں :

١) نيت

٢) تکبيرة الاحرام

٣)قيام متصل بہ رکوع،یعنی رکوع ميں جانے سے پهلے کا قيام

۴) رکوع

۱۵۷

۵) ہر رکعت کے دو سجدے اور جهاں تک واجبات نماز کو زیادہ کرنے کا تعلق ہے تو اگر زیادتی عمداہو تو بغيرکسی شرط کے نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر جاہل قاصر جان بوجه کر تکبيرة الاحرام کو زیادہ کرے تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے اور اگر زیادتی غلطی سے ہوئی ہو تو چنانچہ زیادتی رکوع کی ہو یا ایک ہی رکعت کے دو سجدوں کی ہو تو نماز باطل ہے ورنہ باطل نہيں ۔

نيت

مسئلہ ٩ ۵ ٢ ضروری ہے کہ انسان نماز کو قربت کی نيت سے جيسا کہ وضو کے مسائل ميں بيان ہو چکا ہے اور اخلاص کے ساته بجا لائے۔ اور نيت کو اپنے دل سے گزارنا یا اپنی زبان پر جاری کرنا،مثلاً یہ کهنا:”چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں خداوندمتعال کے حکم کی بجا آوری کے لئے “،ضروری نہيں بلکہ نماز احتياط ميں نيت کو زبان سے ادا کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٣ اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نماز ميں نيت کرے کہ چار رکعت نماز پڑھتا ہوں اور معين نہ کرے کہ ظہر ہے یا عصر،نہ اجمالی طور پر اور نہ ہی تفصيلی طور پر تو ا س کی نماز باطل ہے ۔

اجمالی نيت سے مراد یہ ہے کہ مثلاًنمازِ ظہر کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے مجھ پر واجب ہوئی ہے اس کو انجام دے رہا ہوں یا مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر نماز ظہر کی قضا واجب ہے اور وہ ظہر کے وقت ميں اس قضا نماز یا ظہر کی ادا نمازکوپڑھناچاہے توضروری ہے کہ جو نماز پڑھے اسے اجمالاہی سهی نيت ميں معين کرے مثلاًنمازِ ظہر کی قضا کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے ميری ذمہ داری ہے اسے انجام دے رہا ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۴ ضروری ہے کہ انسان شروع سے آخر تک نماز کی نيت پر قائم رہے،پس اگر وہ نماز ميں اس طرح غافل ہو جائے کہ اگر کوئی پوچهے کہ وہ کيا کر رہا ہے اور ا س کی سمجھ ميں نہ آئے کہ وہ کيا جواب دے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵۵ ضروری ہے کہ انسان صرف خدا کے لئے نماز پڑھے،لہٰذا جو شخص ریا کرے یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے اس کی نماز باطل ہے خواہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے ہو یا خدا اور لوگ دونو ں اس کی نظر ميں ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۶ اگر کوئی شخص نماز کا کچھ حصہ بھی خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ،بلکہ اگر نماز تو خدا کے لئے پڑھے ليکن لوگوں کو دکھانے کے لئے کسی خاص جگہ مثلاًمسجد ميں پڑھے یا کسی خاص وقت مثلاًاول وقت ميں پڑھے یا کسی خاص طریقے سے مثلاًباجماعت پ-ڑھے تب بھی اس کی نماز باطل ہے اور احتياط واجب کی بنا پروہ مستحبات، مثلاًقنوت بھی کہ جن کے لئے نماز ظرف کی حيثيت رکھتی ہے ،اگر خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۵۸

تکبيرةالاحرام

مسئلہ ٩ ۵ ٧ ہر نماز کی ابتدا ميں ”اللّٰہ اکبر“ کهنا واجب اور رکن ہے اور ضروری ہے کہ انسان لفظ” اللّٰہ“ اور لفظ”اکبر“ کے حروف اور” اللّٰہ اکبر“ کے دو لفظ پے درپے کهے۔یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دو لفظ صحيح عربی ميں کهے جائيںاور اگر کوئی شخص غلط عربی ميں کهے یا اس کا ترجمہ زبان پر جاری کرے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٨ احتياط واجب یہ ہے کہ انسان نماز کی تکبيرة الاحرام کو اس سے پهلے پڑھی جانے والی چيز مثلاًاقامت یا تکبير سے پهلے پ-ڑھی جانے والی دعا سے نہ ملائے۔

مسئلہ ٩ ۵ ٩ احتياط مستحب یہ ہے کہ انسان اللّٰہ اکبر کو اس کے بعد پڑھی جانے والی چيز مثلاًبِسم اللّٰہ الرَّحمنِ الَّرحيم سے نہ ملائے ليکن اگر ملا کر پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اکبر کے ’را‘ پر پيش دے(یعنی اکبرُپڑھے)۔

مسئلہ ٩ ۶ ٠ تکبيرةالاحرام کہتے وقت ضروری ہے کہ انسان کا بدن ساکن ہو اور اگر جان بوجه کر اس حالت ميں کہ جب بدن حرکت ميں ہو تکبيرة الاحرام کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ١ ضروری ہے کہ تکبير،الحمد،سورہ،ذکر اور دعا اتنی آواز سے پڑھے کہ خود سن سکے اور اگر ا ونچا سننے، بهرہ ہونے یا شوروغل کی وجہ سے نہ سن سکے تو ضروری ہے کہ اس طرح کهے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تو سن ليتا۔

مسئلہ ٩ ۶ ٢ اگر کوئی شخص گونگا ہو، یا زبان ميں کوئی ایسی بيماری ہو کہ جس کی وجہ سے صحيح طریقے سے”اللّٰہ اکبر“ نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح بھی کہہ سکتا ہو کهے اور اگر بالکل نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل ميں پڑھے، تکبير کے لئے اپنی زبان کو حرکت دے اور انگلی سے اشارہ بھی کرے۔

مسئلہ ٩ ۶ ٣ انسان کے لئے مستحب ہے کہ تکبيرة الاحرام کهنے سے پهلے یہ کهے :

یَا مُحْسِنُ قَدْ اَتَاکَ الْمُسِیْءُ وَ قَدْ اَمَرْتَ الْمُحْسِنَ اَنْ یَتَجَاوَزَ عَنِ الْمُسِیْءِ اَنْتَ الْمُحْسِنُ وَ اَنَا الْمُسِیْءُ فَبِحَق مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ تَجَاوَزْ عَنْ قَبِيْحِ مَا تَعْلَمُ مِنِّی ۔

ترجمہ :اے اپنے بندوں پر احسان کرنے والے خد ا! بندہ گنهگار تير ی بارگاہ ميں آیا ہے اور تو نے نيک لوگوں کو گنهگاروں سے در گزرکرنے کا حکم دیا ہے ۔تو احسان کرنے والا اور ميں نافرمان ہوں، لہٰذا محمد و آلِ محمد کے حق کا واسطہ، اپنی رحمت محمدوآلِ محمدپرنازل کر اور مجھ سے سر زد ہونے والی برائيوں سے جنہيں تو جانتا ہے در گزر فرما۔

مسئلہ ٩ ۶۴ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز کی پهلی تکبيراور دوران نماز دوسری تکبيریں کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرے۔

۱۵۹

مسئلہ ٩ ۶۵ اگر کوئی شک کرے کہ تکبيرة الاحرام کهی ہے یا نہيں تو اگر وہ قرائت کی کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکاہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ابهی کوئی چيز شروع نہيں کی تو تکبيرة الاحرام کهنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶۶ اگر تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد شک کرے کہ اسے صحيح ادا کيا یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے خواہ وہ کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز مکمل کرنے کے بعد اسے دهرائے۔

قيام(کھڑا ہونا )

مسئلہ ٩ ۶ ٧ تکبيرةالاحرام کہتے وقت قيا م اور رکوع سے پهلے والا قيام جسے”قيام متصل بہ رکوع “کها جاتا ہے رکن ہيں ، ليکن ان دو کے علاوہ مثلاًحمد وسورہ پڑھتے وقت قيام اور رکوع کے بعد کا قيام رکن نہيں ہے ،لہذ ا اگر کوئی شخص بھولے سے اسے تر ک کر دے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٨ تکبيرةالاحرام کهنے سے پهلے اور اس کے بعد تهوڑی دیر کے لئے کهڑا ہونا واجب ہے تاکہ یقين ہو جائے کہ تکبيرة الاحرام قيام کی حالت ميں کهی گئی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٩ اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے اور الحمد وسورہ کے بعد بيٹھ جائے اور پھر اسے یاد آئے کہ رکوع نہيں کيا تو ضروری ہے کہ کهڑ اہو جائے اور رکوع ميں جائے اور اگر سيدها کهڑا ہوئے بغير جھکے ہونے کی حالت ميں ہی رکوع کی طرف پلٹ آئے تو چونکہ قيام متصل بہ رکوع بجا نہيں لایا، اس لئے اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩٧٠ جب ایک شخص تکبيرةالاحرام یا قرائت کے لئے کهڑ ا ہو تو ضروری ہے کہ بدن کو حرکت نہ دے، کسی طرف نہ جھکے اور احتياط واجب کی بنا پر اختيار کی حالت ميں کسی جگہ ٹيک نہ لگائے، ليکن اگر مجبوری ہو یا رکوع کے لئے جھکتے ہو ئے پاؤں کو حرکت دے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧١ اگر اس قيام کی حالت ميں کہ جو تکبيرة الاحرام یا قرائت کے وقت واجب ہے کوئی شخص بھولے سے بدن کو حرکت دے یا کسی طرف جھک جائے یا کسی جگہ ٹيک لگائے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٢ احتياط واجب یہ ہے کہ قيام کی حالت ميں انسان کے دونوں پاؤںزمين پر ہوں ليکن یہ ضروری نہيں کہ بدن کا بوجه بھی دونوں پاؤں پر ہو لہذ ا اگر ایک پاؤں پر بھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٣ جو شخص ٹھيک طور پر کهڑا ہو سکتا ہو اگر وہ اپنے پاؤں اتنے کهلے رکھے کہ اسے کهڑا ہونا نہ کها جا سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر معمول کے خلاف کهڑا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273