ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب28%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123610 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مالک بن ربیعہ انصاری کے حالات :

١۔ابن حجر ''اصابہ '' (٣/٣٢٤)

٢۔ابن سعد کی'' طبقات'' (٥/٢٠٠)

٣۔''صفین '' نصر مزاحم (٥٠٦)

٤۔ تقریب التہذیب

٥۔عقدالفرائد

٦۔مسند احمد حنبل

۴۱

٥٦واں جعلی صحابی ہزہاز بن عمرو

ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں ہزہاز کی زندگی کے حالات پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے:

ہزہاز بن عمروعجلی:

طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب '' ابو عبیدہ ثقفی '' پیدل اور سوار فوجوں کے دستوں کو سعد وقاص کی نصرت کے لئے عراق بھیجنے کے لئے منظم کر رہا تھا ، تو اس نے عمر کے حکم سے دو دستوں میں سے ایک کی کمانڈ''ہزہاز'' کے ذمہ سونپی ۔ ''ہزہاز ''نے قادسیہ کی جنگ کے ''اغواث ''نامی دوسرے دن میدان کارزار میں قدم رکھا اور سعد کی سپاہ کی مدد کی ۔

ابن "ابن " فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب استعیاب سے استدراک کیاہے ۔

اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ قدماجنگجوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار منتخب نہیں نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

جو کچھ بیان ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن "ابن " حجرنے ہزہاز کے بارے میں تاریخ طبری کو اپنی روایت کا ماخذ قرار دیا ہے ۔ ہم بھی اس کی تلاش کریں گے کہ طبری نے اس روایت کو کہاں سے نقل کیا ہے اور اپنی اس روایت کے مصدر کے طور پر کسی کا یا کن اشخاص کا نام لیا ہے ۔

طبری نے پوری کی پوری روایت اور وہ روایت کی تفصیل جس کے سلسلے میں ابن "ابن " حجر قادسیہ کی جنگ کے ضمن میں اشارہ سیف سے نقل کر کے اپنی کتاب کے تین صفحوں میں درج کیاہے اورہم دیکھتے ہیں کہ اس نے اس روایت کے منبع کے طور پر صراحت کے ساتھ سیف کا نام لیاہے۔

اس لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ طبری کی روایت کا طولانی ہونا اس امرکا سبب بنا ہے کہ روایت کا مصدر جو سیف پر تمام ہوتاہے علاّمہ ابن "ابن " حجر کی نظروں سے پوشیدہ رہا۔ اس لئے انہوں نے داستان کو طبری سے نقل کیا ہے اور اس کے اصلی راوی یعنی سیف کا کہیں نام نہیں لیا ہے ۔

۴۲

داستان ہزہاز کے راوی :

سیف نے اپنے مآ خذ کے طور پر ''محمد ''کانام لیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ ''محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ '' ہے اور اس کے بارے میں ہم نے کہا ہے کہ پہلے وہ سیف کے خیالات کا پروردہ ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ہے ۔

سیف کی نظر میں ہزہاز کا نسب :

سیف نے اپنے جعلی صحابی کا نسب وعجلی منتخب کیا ہے اور یہ عدنان کے ایک قبیلہ سے صعب بن علی بن بکروائل کے نواسہ عجل بن لجیم'' سے ایک نسبت ہے۔

لیکن جس داستان کی طرف ابن حجری نے اشارہ کیاہے ، ہم نے اسے '' قعقاع بن عمرو تمیمی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''تاریخ طبری ''سے نقل کر کے اسی کتاب کی پہلی جلد میں مفصل طور پر درج کیا ہے اور اس کی تکرار کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں ۔

یہ قابل ذکر ہے کہ اسی طبری نے خلیفہ عمر کے حاکم کے مطابق سپہ سالاراعظم سعد وقاص کے قادسیہ کی جنگ میں ''ابو عبیدہ'' کی طرف سے کمک رسانی کے موضوع کو ابن "ابن " اسحاق سے نقل کر کے تفصیل سے لکھاہے ۔ لیکن اس میں کسی صورت میں قعقاع اور اس کے کارناموں کا ذکر نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ''ہزہاز '' اور اس کے ماتحت فوج اور اس کے قادسیہ کی جنگ کے دوسرے دن دس دس افرا د کے گروہوں میں شرکت کا کہیں سراغ نہیں ملتا!

بحث و تحقیق کا نتیجہ:

اس جانچ پڑتال سے یہ نتیجہ حاصل ہوتاہے کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''ہزہاز عجلی ''کی خبر اور قادسیہ کی جنگ میں دو فوجی دستوں میں سے ایک پر اس کی کمانڈکی روایت کی ہے اور طبری نے اسے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کر کے درج کیاہے ۔

ابن "ابن " حجر نے بھی تاریخ طبری میں ذکر ہوئی اس خبر پر اعتماد کرتے ہوئے اور اس بات پر کہ ''جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار منتخب نہیں کرتے تھے '' ''ہزاز '' کو صحابی تصور کر کے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں مخصوص جگہ معین کرتے ہوئے اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۴۳

ہم نے ''فوج کے سپہ سالار ''کے عنوان کے تحت اسی کتاب کے مقدمہ میں اس روایت کے مصدر پر اور یہ کہ مذکورہ خبر تاریخی حقائق اور رود ادوں سے کس حدتک مطابقت رکھتی ہے ، تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

ابن حجر نے کہا ہے کہ ''ابن فتحون '' نے '' ہزہاز '' کو ابن "ابن " عبدالبر کی '' استیعاب '' پر اضافہ کر کے اس سے استددراک کیا ہے ۔

کیا معلوم شاید ''ابن ابی شیبہ '' کی روایت اور صحابی کی شناخت کے لئے جعل کئے گئے قاعدہ نے ابن "ابن " فتحون کو فریب دیکر اسے اسی قاعدہ کے تحت سیف کے ہزہاز کو صحابی پہچاننے پر مجبور کیاہو!!

مصادر و مآ خذ

ہزہاز بن عمرو کے حالات :

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/٥٧٠)حصہ اول ،شرح حال نمبر : ٨٩٥٩

ہزہاز کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔تاریخ طبری (١/٢٣٠٥)قادسیہ کی جنگ کے وقائع نیز ابن "ابن " اسحاق سے اس کی روایت۔ (١/٢٣٤٩۔٢٣٥٠)

عجلی کا شجرہ نسب :

١۔''لباب الانساب '' (٢/١٢٤)

٢۔ابن حزم کی ''جمھرۂ انساب '' (٣٠٩)اور(٣١٢۔٣١٣)

٥٧واں جعلی صحابی حمیضتہ بن نعمان بارقی

ابن "ابن " حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایاہے:

۴۴

حمیضتہ بن نعمان بن حمیضئہ بارقی:

سیف نے روایت کی ہے کہ خلیفہ عمر نے اسے ''سراة'' کے باشندوں پر ممور کیا، اور ان کی کمانڈ بھی اسے سونپی ہے ۔ اس کے بعد ١٤ ھ کے اوائل میں اسے سعد وقاص کے ہمراہ عراق کی مموریت پر بھیجا ۔ طبری نے بھی حمیضہ کے بارے میں ان ہی مطالب کو اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ قدما جنگجوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالاری کے عہدے پر فائز نہیں کرتے تھے ۔ (ز)(ابن "ابن " حجر کی بات کاخاتمہ ) "(ابن حجر کی بات کاخاتمہ )"

لیکن طبری ،قادسیہ کی جنگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے لکھتاہے :

جس وقت سپہ سالار اعظم سعد وقاص مدینہ سے عراق کی طر ف لشکر کشی کرنے کی تیاریاں کر رہاتھا تو اس کے ماتحت قبائل ''بارق، المع اور غامد'' کے سات سو جنگجوؤں اور'' سراة'' کے باشندوں سے دیگر افراد نے کوچ کیا ، ان کی کمانڈر حمیضتہ بن نعمان بارقی کر رہا تھا!

حمیضہ کا نسب :

سیف نے حمیضتہ کو قبیلۂ''بارق ''سے خلق کیا ہے ،اور اس کے ماتحت سپاہیوں کو قبائل ''بارق ، المع اور غامد''سے خلق کیاہے کہ وہ سب خاندان ''خزاعۂ ازد قحطانی '' سے تعلق رکھتے تھے ۔''سراة'' میں زندگی بسر کرنے والے ''ازدی '' اپنی سکونت کے علاقوں کے اعتبار سے چا ر حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں :

١۔''ازدشنوء ' ' یہ یمن میں ایک علاقہ تھاَ۔

٢۔''ازدسراة'' ، تنہامہ '' اور ''یمن '' کے درمیان کے پہاڑی علاقوں کو کہاجاتا تھا جو سرزمین عرفات سے صنعاتک پھیلے تھے اور سراة ثقیف ، سراة فہم ، سراة عدوان اور سراة ازد'' پر مشتمل تھے۔

٣۔ ازدغسّان

٤۔ ازد عمان

۴۵

لہذا سیف بن عمر نے حمیضہ اور اس کے ساتھیوں کو ''خزاعہ'' سے خلق کیا کہ ان کی رہائش گاہ مکہ کے اطراف میں واقع تھی۔

بعثت سے پہلے ''خزاعہ'' کے قبائل اور '' بنی کنانہ عدنانی'' کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا عہد و پیمان باندھا گیا تھا ، لیکن جب قریش رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخالفت پر اتر آئے تو ''خزاعہ'' نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کا اعلان کرکے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ پیمان باندھا۔

ہم دوبارہ اپنے موصنوع پر آکر حمیضہ کی روایت پر اپنی بحث کو جاری رکھتے ہیں ۔ طبری نے سیف سے نقل کر کے قادسیہ کی جنگ سے پہلے اسلا م کے سپاہیوں کے مقدماتی حملوں کے بارے میں اس طرح لکھا ہے ۔

سواد تمیمی اور حمیضہ بارقی میں سے ہر ایک نے ایک سو سپا ہیوں کی کمانڈ میں ایرانی فوجوں پر حملہ کیااور دشمن کے قلب میں نفوذکر کے کثیر مقدار میں مال غنیمت حاصل کیا ۔

اس واقعہ کی خبر ایرانی فوج کے کمانڈر انچیف ''رستم فرخ زاد''کو پہنچی تو اس نے چند چابک سوارو ں کو حملہ آور وں کی گوشمالی اور غارت کئے گئے مال و منال کو واپس لینے کے لے ان کے پیچھے روانہ کیا ۔

دوسری طرف مسلمانوں کے ایرانیوں پر اچانک حملے کی خبر سعد وقاص کو پہنچی ، جس نے پہلے ہی یہ کاروائی کرنے سے منع کیا تھا ، اس نے مجبور ہوکر ''عاصم بن عمر تیممی ''اور ''جابر اسدی '' کو ان کی مدد کے لئے روانہ کیا اور ان کی روانگی کے وقت عاصم سے مخاطب ہو کر کہا:

اگر دشمن سے لڑنے کا فیصلہ کیا تو کمانڈر تم ہو ۔

اس دوران ایرانی فوجیوں نے بین ا لنہرین میں مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کا محاصرہ کر لیا تاکہ غارت کیا ہوا مال واپس لے لیں ۔سواد نے جب ناگفتہ بہ حالات کا مشاہدہ کیا تو حمیضہ سے مخاطب ہو کر بو لا:

۴۶

اختیا ر تیرے ہاتھ میں ہے ۔ یاتم ایرانیوں سے لڑتے ہوئے انہیں مشغول رکھو تاکہ میں جنگی غنائم کو میدان کا رزار سے باہرلے جاؤں یا یہ کہ میں ان سے جنگ کروں اور تم اس مال و منال کو صحیح و سالم منزل مقصود تک پہنچاو ۔ حمیضہ نے جواب دیا :

تم رہو اور ان کومشغول تاکہ میں مال کو محفوظ جگہ تک پہنچادوں ۔ سواد نے موافقت کر کے ایرانیوں سے جنگ شروع کی اور انہیں مشغول رکھااور حمیضہ نے غنائم کو میدان سے باہر نکال لے گیا ۔ راستے میں اس نے عاصم کے سواروں کو دیکھایہ گمان کرتے ہوئے کہ ایرانی سوار ہیں ، ہٹ کر راستہ بدل دیا تا کہ ان سے جھڑپ نہ ہوجائے ۔ لیکن جلدی ہی انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ، لہذا حمیضہ نے اطمینان کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور عاصم بھی سواد کی مدد کیلئے آگیبڑھ گیا۔

اس دوران ایرانیوں نے '' سواد'' سے جنگ کرتے ہوئے اپنا کچھ مال اور ان کامال اپنے قبضہ میں لے لیا لیکن عاصم کے میدان کارزار میں داخل ہونے پر رفو پر رفوچکر ہوگئے اور اپنا سب مال وہیں پر چھوڈ دیا جو ''سواد'' کے ہاتھ آگیا ! عاصم ،جابر اور سواد ، صحیح وسالم اور فاتحانہ طور پربہت سے جنگی غنائم لے کر سعد کی خدمت میں پہنچے۔

طبری نے ایک دوسری روایت میں سیف سے نقل کر کے قادسیہ کی جنگ کے وقائع کے بارے میں یوں خبردی ہے :

اس جنگ میں قبیلہ ، جعفی ، قحطانی اور یمانی ایرانی فوجیوں کے ایک زرہ پوش دستے پر حملہ آور ہوئے۔ جعفی تیز تلواروں کو لئے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑے ،لیکن انتہائی تعجب سے مشاہدہ کیا کہ ان کی تلوار یں ان پر کارگر ثابت نہیں ہوئیں ۔ لہذا شکست کھاکر واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے ۔ حمیضہ نے جب اس بے محل عقب نشینی کامشاہدہ کیا تو بلند آواز میں ان سے مخاطب ہو کر بولا :

تمہیں کیا ہو گیا ؟! جعفیوں نے جواب دیا :

ہمارا اسلحہ ان پر کا ر گر ثابت نہیں ہورہا ہے !حمیضہ نے کہا ؛

یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ اسی جگہ پر ٹھہرو تاکہ تمہیں دکھادوں اس کے بعد پاس سے گزرتے ہوئے ایک ایرانی سپاہی پر حملہ آور ہوا اور نیزہ سے اس کی کمر توڑ کر اعلان کیا:

دیکھا یہ تم لوگوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے علاوہ کسی اور چیز کے لئے یہاں نہیں آئے ہیں ۔؟!

جعفیوں نے حمیضہ کے اعلان کو سننے کے بعد بلند ہتمی کا احساس کرتے ہوئے ایک تیز حملہ کیا اور دشمن کو تہس نہس کرکے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا!!

۴۷

حمیضہ کے افسانہ میں سیف کے راوی :

سیف نے درج ذیل افراد کا اپنی روایتوں کے راویوں کے طور پر تعارف کرایا ہے :

١۔''محمد '' کہ یہ وہی ''محمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ '' ہے ،جسے خود اس نے خلق کیا ہے۔

٢۔''محمد بن جریری عبدی'' یہ بھی سیف کا جعلی راوی ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتاہے ۔

٣۔''عابس جعفی ''اور اس کے باپ

٤۔''ابو عابس جعفی '' کانام لیاہے کہ دونوں باپ بیٹے اس کے جعل کردہ ہیں :اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس نے '' ابو عابس ''کا کیانام رکھاہے :

حمیضہ کے افسانہ کا خلاصہ اوراس کی پڑتال:

سیف نے اپنے افسانوی سورماحمیضہ کو عدنانیوں کے ہم پیمان کے طورپر خلق کیا ہے اور اس کی شجاعت و دلاوریوں کا ذکر کیا ہے اور بزدل یمانیوں کی رسوائی اورجنگی ناتوانی کہ انہوں نے نام نہادپیمان میں بھی شرکت نہیں کی تھی کا مذاق اُ ڑاتاہے ۔

لیکن اس کے باوجود جب اسی پہلوان حمیضہ کو سواد تمیمی کے مقابلے میں قراردیتا ہے ، تواس وقت تمیمی سردار کی شخصیت ،بزرگی اور دلاوری کو اس سے بلند تردکھاتا ہے ۔ کیونکہ یہ ''سوادتمیمی ''ہے جو بزگواری کے ساتھ جنگ میں شرکت کرنے یا غنائم جنگی کو لے جانے کا اختیارحمیضہ کو دیتا ہے ،یہ بذات خود سیف کے ہم قبیلہ سواد تمیمی کی شرافت ،بزرگواری اور شجاعت کی علامت ہے نہ کہ کوئی اور چیز!

سیف اس داستان کی منصوبہ بندی کے بعد ایک بار پھر حمیضہ کے تانباک چہرے ،سر بلند ی اور جنگی غنائم کو ایرانیوں کی دسترس سے دور کرنے اور اس کی ہم رزموں کی شجاعت کو نمایاں کر کے اس کی شخصیت واعتبار کو بڑھا وادیتاہے۔

۴۸

سر انجام تمام سر بلند یاں اور افتخارات قبیلہ تمیم یعنی سیف بن عمر کے قبیلہ کی طرف پلٹ کر آتیہیں ۔ کیونکہ تمام مشکلات کو حل کرنے والے اور مصیبت میں پھنسے لوگوں کو آزاد کرنے والے سردار اور پہلوان تمیم کابے مثال دلاور''عاصم بن عمرو'' اور اس کا ساتھی ''جابر اسدی ''ہیں جو حمیضہ اور اس کے ساتھیوں کو آزاد کرنے کے لئے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور میدان کو دشمن کے وجود سے پاک کرتے ہیں ۔ جی ہاں یہ عاصم بن عمرو ہے کہ صرف اس کا نام سن کے ہی دشمن فر ا ر کو قر ا ر پر تر جیح د یتا ہے۔آ خر کا ریہی مطا لب تھے جنھو ں نے ا بن حجر کو ا س با ت پر مجبو ر کیا ہے کہ سیف کی با تو ں پر اعتماد کر کے اپنی کتا ب ''اصا بہ'' میں ''حمیضہ''اور سیف کے دیگر خیا لی مخلو قا ت کو مخصو ص جگہ د ے اور انھیں ر سو ل خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو سرے حقیقی ا صحا ب کی فہر ست میں قرار دیکر ان کے حا لا ت پر ر و شنی ڈا لے۔

جو کچھہ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ '' حمیضہ ''کی بیرونی جنگوں میں سر گرمیوں سے مربوط تھا۔جبکہ طبری نے سیف سے نقل کر کے کچھ داخلی سرگرمیوں جیسے مرتد ہونے اور ارتداد کی بغاوت شروع کرنے کوبھی حمیضہ سے نسبت دی ہے۔طبری اس سلسلہ میں اور یمانیوں کے ارتداد کی خبر کے ضمن میں لکھتا ہے :

خلیفہ ابوبکر نے اپنے کارندوں اورگماشتوں کو پیغام اور ایلچی بھیج کر مرتدوں سے جنگ کرنے کامصمم ارادہ کیا۔ من جملہ ''طائف کے گورنر ''عثمان بن ابی العاص'' کو لکھا کہ اپنی مأموریت کے علاقہ میں اسلام پر ثابت قدم و پائدار رہنے والوں کی مدد کر کے علاقہ کے مرتدوں کو کچل دے۔طائف کے گورنر نے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے طائف کے لوگوں میں سے ایک گروہ کو ''عثمان بن ابی ربیعہ ''کی کمانڈمیں مأموریت دی کہ''حمیضہ بن نعمان '' کی سرکر دی گی میں قبائل ''ازد ،بجلیہ اور خثعم ''کے مرتدوں کے اجتماع کی وجہ سے برپاشدہ بغاوت کوکچل دیں ۔

عثمان بن ابی ربیعہ نے ''شنوء ''پر حملہ کیا اور مرتدوں سے نبردآزما ہوا ،مرتدوں نے مقابلہ کی ہمت نہ کرتے ہوئے شکست کھاکر پسپائی اختیار کرتے ہوئے فرار کیااور حمیضہ کو تن تنہا اپنی قسمت پر چھوڈ دیا ۔

حمیضہ نے اپنے آپ کو مشکل سے میدان کارزاسے دورکیا اور بے یار و مدد گار پہاڑوں اور صحراوں کی طرف بھاگ گیا۔

عثمان بن ربیعہ ''نے اس فتحیابی کواپنے اشعار میں یوں بیان کیاہے :

۴۹

ہم نے مرتدوں کے گروہ کو تتر بتر کر کے ان کی سرزمین کو تباہ وبرباد کردیا۔یہ ان کے مکرو فریب کا انجام ہے۔

قبیلہ بارق برقی بہت اچھل رہا تھا لیکن ''جب ہمارے مقابلے میں آیا تو بے پانی کے بادل کے ماننداور اپنی عظمت و شان و شوکت کھو بیٹھا۔

سیف نے اس شعر کے دوسرے مصرع میں '' بارق ''اور ''حمیضہ بارقی''کی طرف واضع اشارہ کیا ہے ۔

حمیضہ بارقی اور اس کے برے انجام کے بارے میں سیف کی اس داستان ،اور ابو بکر کے ذریعہ نقل کی گئی اس روایت میں کہ اس نے کبھی مرتدسے مدد طلب نہیں کی ہے ، یایہ کہ عمر نے ان میں سے دس افراد سے زیادہ کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپا ہے نیز اس کی دوسری روایت کہ خلیفہ عمر نے حمیضہ کو سات سو جنگجوؤں کی سپہ سالاری سونپ کر قادسیہ کی جنگ میں مأ موریت دی تھی، سے سخت اختلاف رکھتی ہے !

کیا سیف نے یہ نہیں کہاہے کہ ابوبکر نے اپنی زندگی میں کسی بھی مرتد سے مدد طلب نہیں کی ہے ؟!،

کیا اس نے خود یہ بات نہیں کہی ہے کہ عمر اگرچہ ان سے مدد لیتے تھے لیکن ہر گز ان کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپتے تھے مگر چند گنے چنے افراد کو جن کی تعداد دس تک نہیں پہنچی ہے ؟

اگر یہ مطالب سچ اور حقیقت ہیں تو خلیفہ ٔ مسلمین عمر نے کیسے مرتد اور خدااور اس کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین سے منحرف ''حمیضہ ''کو سات سو سپاہیوں کا سپہ سالار منصوب کیا اور وہ بھی ایک معروف جنگ یعنی قادسیہ کی جنگ میں ؟!!

ابن ماکولانے کوشش کی ہے کہ ان دونوں متناقض روایتوں کو سیف کی زبانی اپنی کتاب ''اکمال '' میں ایک جگہ پر درج کرے ۔وہ لکھتا ہے:

حمیضہ بارقی مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام کی آغوش میں آیا وہ قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار تھا۔

اس حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر نے حمیضہ کے ارتداد کی خبر کو ایک خاص مقصد کے پیش نظر اپنی کتاب''اصابہ ''میں درج نہیں کیاہے بلکہ عمداً اس سے چشم پوشی کی ہے ۔کیونکہ اسے یقین تھاکہ اصحاب کو پہنچاننے کے اس کے قاعدے اس بات کا سخت ٹکراؤ ہے اوراس صورت میں اس کے لے ایسے چہرے کو رسو ل خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب کے ز مر ہ میں قرا ر دینے کی کو ئی گنجا لش با قی نہیں ر ہتی۔

۵۰

٥٨ واں جعلی صحابی جابراسدی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایاہے :

جابر اسدی :سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح ''میں اس کا نام لے کر لکھا ہے کہ قادسیہ کی جنگ کے سپہ سالار اعظم ''سعد وقاص '' نے فوج کے ایک دستہ کی سپہ سالاری کا عہدہ ''جابراسدی ''کو سونپا تھا۔

ہم نے اس سے پہلے کہاہے کہ قدماکی رسم یہ تھی کہ وہ صحابی کے علاوہ اور کسی کو سپہ سالاری کے عہدے پر منصوب نہیں کرتے تھے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ابن حجر نے ''حمیضہ '' و''جابر'' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ان سے مربوط اس روایت کو اس نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور اس پر تأکید کی ہے ۔طبری نے بھی ان دو صحابیوں کے بارے میں انہیں مطالب کو درج کیا ہے ۔جب ہم نے ''تاریخ طبری '' کامطالعہ کیا تو متوجہ ہوئے کہ طبری نے بھی ان افسانوں کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور ''قادسیہ ''کی جنگ میں ''عاصم بن عمرو''کے ساتھ جابر کا نام بھی لیا ہے !اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابن ججر نے ''حمیضہ و جابر ''کے حا لات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''ابن ابی شیبہ '' کی اس روایت کہ ''قدما کی رسمتھی کہ....'' پر استناد کر کے یہ نتیجہ لیا ہے کہ ''حمیضہ و جابر ''چونکہ جنگ میں سپہ سالاررہ چکے ہیں لہذا صحابی تھے !!

وہ اس امر سے غافل تھا کہ یہ روایت بھی سیف کی جھوٹی اور بے بنیاد روایتوں سے لی گئی ہے، جبکہ سیف کا حال معلوم ہے !

بہر حال ابن حجر نے سیف کے ہر ایک جعلی صحابی و چہرے کو اپنی کتاب ''اصابہ ''میں ایک خاص نمبر کے تحت ثبت کیا ہے ، توجہ فرمایئے:

١۔ صحابی نمبر :١٨٤٨''حمیضہ بارقی ''علامت رمز(ز)

٢۔ صحابی نمبر :١٠٤٠''جابر اسدی ''علامت رمز(ز)

۵۱

جی ہاں ،ابن حجر نے تنہاابن ابی شیبہ کی روایت پر استنادکر کے سیف کے دو جعلی چہروں کو صحابی قبول کیاہے اور مذکورہ نمبروں کے ساتھ اپنی معتبر کتاب '' اصابہ ''میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم نے بھی اس حیرت انگیز روایت کے حقا ئق نیز مسلّم تاریخی رودادوں کے ساتھ مخالفت کی کیفیت کو اپنی جگہ پر بیان کیاہے ۔

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے اسی روایت کو مستند قراردے کر سیف کے خیالی اور افسانوں دلاوروں کو اصحاب کے طورپر قبول کر کے انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے اور ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ کیونکہ سیف نے کہا ہے کہ قدما نے انھیں سپہ سالار کے عہدے پر منتخب کیا ہے !!

ان علماء نے بعض اصحاب کے حالات کی تشریح میں مذکورہ قاعدہ کی طرف اشارہ کر کے اس سے استناد کیاہے اور بعض دوسروں کے حالاتمیں اس روایت سے چشم پوش کر کے سادگی کے ساتھ گزر گئے ہیں اور ان کی طرف اشارہ کرنے پرہیز کیا ہے۔

٥٩واں جعلی صحابی عثمان بن ربیعۂ ثقفی

ابن حجر نے اس صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :

عثمان بن ربیعہ ثقفی:

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ ''عثمان بن ابی العاص '' طائف کے گورنر نے عثمان بن ربیعہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں مأموریت دی کہ ''شنوء '' میں جمع ہوئے ''ازد''کے مرتدوں کو کچل دے ۔

عثمان نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ان پر حملہ کیااور انھیں بری طرح شکست دیدی ۔اس فتح پر اس نے یہ اشعارکہے ہیں :

ان کے اجتماع کو ہم نے تتر بتر کیا اور ان کی سرزمین کو نابود کردیا اور یہ ان کے مکروفریب کا برُا انجام تھا۔

وہ برق جو قبیلۂ بارق سے چمکی تھی جب ہمارے مقابلہ میں آئی تو بے پانی کے بادلوں کی طرح اس نے اپنا چہرہ افق میں چھپا لیا اور اپنی چمک کھو بیٹھی۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

۵۲

توجہ فرمایا کہ ابن حجر نے عثمان بن ربیعہ کو صحابی ثابت کرنے کے لئے بیان کی گئی اس روایت میں حمیضہ کا کوئی ذکر نہیں کیاہے ، جبکہ سیف کی روایتوں کے مطابق وہ اس جنگ میں مرتد وں کا سرکردہ تھا!ہم نے اس موصنوع کی علت کو حمیضہ کے حالات کے آخر بیان کیا ہے ،وہاں ملاحظہ فرمائیے ۔

اس صحابی کا نسب

اس سے پہلے ہم نے کہا کہ طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ طائف کے گورنر عثمان بن ابی العاص نے عثمان بن ربیعہ کو شنوء کی بغاوت کچلے پر مأ مور کیا۔۔۔(تاآخر)

چونکہ ''طائف''ثقفیوں '' کی رہائش گاہ تھی ، اس لئے ابن حجر نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ عثمان ربیعہ ''ثقفی '' ہونا چاہئے ۔

اس کے پیش نظر کہ سیف نے اس سلسلہ میں صراحت سے کچھ نہیں کہا ہے اور جس روایت سے اس عالم نے عثمان کے حالات کے بارے میں استفادہ و استناد کیا ہے ، اس میں اس قسم کی نسبت کا کہیں ذکر نہیں ہے !لیکن اس کے باوجود ابن حجر نے سیف کے جعلی صحابی کو ''ثقفی '' کہا ہے اور ''عثمان بن ربیعہ ثقفی '' کے عنوان سے اس کا تعارف کرایا ہے !!

عثمان بن ربیعہ کے افسانہ میں سیف کے راوی:

سیف نے عثمان بن ربیعہ کی داستان میں صرف ''سہل '' کو راوی کے عنوان سے پہچنوایا ہے کہ اسے ''سہل بن یوسف انصاری سلمی'' کہتے ہیں ، اورپہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ یہ سہل بھی اس کے جعلی راویوں میں سے ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ۔!

بحث کا نتیجہ :

ان تین چہروں :''حمیضہ بارقی'' ، ''جابر اسدی '' اور ''عثمان بن ربیعہ '' کے بارے میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے نتیجہ حاصل ہوتاہے کہ :

٤۔اور وہ تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ قبائل پر اس قسم کے جھوٹ اور ارتداد کی تہمت لگائی ہے اور ان کی شکست اور ان کے سرغنہ حمیضہ کے فرار کی خبردی ہے !

۵۳

حمیضۂ بارقی کے بارے میں :

١۔ سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں حمیضہ نام کے کسی شخص کے سات سو ''ازدی''سپاہیوں کے سپہ سالار ہونے کا ذکر کیا ہے ۔

٢۔ وہ تنہا شخص ہے جس نے حمیضہ بارقی اور قادسیہ کی جنگ میں اس کے کارناموں کی داستان گڑھی ہے ۔

٣۔وہ تنہا شخص ہے جس نے '' حمیضہ ''کی سر کرد گی میں '' شنوء '' نام کی جگہ پر قبائل ''ازد، بجیلہ اور خثعم '' کے مرتدوں کے اجتماع کی خبردی ہے ۔

٤۔اور وہ تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ قبائل پر اس قسم کے جھوٹ اور ارتداد کی تہمت لگائی ہے اور ان کی شکست اور ان کے سرغنہ حمیضہ کے فرار کی خبردی ہے !

جابر اسدی کے بارے میں :

١۔سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک دستہ پر جابر اسدی کی سپہ سالاری کی بات کہی ہے ۔

٢۔ وہ تنہا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ سعد وقاص نے '' عاصم بن عمرو اور جابر اسدی کی سرکر دگی میں ایک فوج کو قادسیہ کی جنگ سے پہلے ایرانیوں سے لڑنے والے اپنے ایک گشتی دستے کی نجات کے لئے روانہ کیا ہے ۔

عثمان بن ربیعہ کے بارے میں :

١۔ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے عثمان بن ربیعہ کی داستان بیان کی ہے ۔ ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ کیا اس نے سرے سے اس نام و داستان کو یوں ہی کسی مقدمہ کے بغیر گڑھ لیا ہے یا یہ کہ اس کے نام کو '' ربیعہ بن عثمان ،صحابی قرشی جمحی''جو حبشہ کے مھاجروں میں سے تھا ،کے نام کے مستعار لیاہے ، یا کسی اور نام سے۔

٢۔اور وہ تنہا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ طائف کے گورنر ''عثمان بن ابی العاص '' نے عثمان بن ربیعہ کو ''شنوء '' کے مرتدوں کی بغاوت کی سر کو بی کے لئے طائف سے روانہ کیا ہے ۔

۵۴

جس کے نتیجہ میں اس نے ان کے اجتماع کو تتر بتر کرکے ان کے سر غنہ کو بھگا دیا تھا ۔

اور ہم نے دیکھا کہ ان سب باتوں کو سیف بن عمر نے اپنی پانچ جعلی راویوں کی زبانی کہلوایا ہے جو ہر گز وجود نہیں رکھتے۔

بالآخر امام المؤرخین محمد بن جریر طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے ان تمام افسانوں کو اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے اور اس کے بعد دوسرے تاریخ نویسوں جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی انھیں تاریخ طبری سے نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

اس کے علاوہ ابن حجر کے کہنے پر ابن فتحون نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے جابر اسدی کو صحابی تصور کیا ہے اور اس کے نام کو ابن عبدابر کی کتاب ''استیصاب ''میں دریافت کیا ہے۔

سر انجام ابن حجر نے سیف کی تمام روایتوں پر اعتماد کر کے '' حمیضہ بارقی ''،''جابر اسدی '' اور ''عثمان ربیعہ ''کو صحابی جانا ہے اور انہی روایتوں سے استناد کر کے انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے۔

اس طرح سیف بن عمر تمیمی جیسے ایک معروف شخص جس پر زندیقی ہونے کا الزام تھا

کی روایتوں کی معتبر اسلامی منابع اور مصادر میں وسیع اشاعت ہوئی ہے اور گزشتہ بارہ صدیوں سے اس عیارِ زمانہ کے افسانوں ، تحریفات اور دخل و تصرف نے علماء و محققین کو اپنی طرف مشغول کر کے انھیں تاریخی حقائق کے بارے میں حیران و گمراہ رکھا ہے ۔ ہمیں معلوم نہیں کیا علماو محققین ایسی حالات میں ان آ لود گیوں سے اسلامی مصادر و مآخذ کو پاک کرنے کیلئے موافقت کریں گے یا حسب سابق ان کے عادی ہو کر کے خو ش فہمی کی بنا پر کسی قیمت پر انھیں چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں ہوں گے؟!

مصادر و مآ خذ

حمیضہ کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔ ''تاریخ طبری '' (١/٢٢١٨،٢٢٥٨۔٢٢٥٩،٢٣٣٤)

٢۔''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٨٦،٣٤٧،٣٥٥)

٣۔تاریخ ابن خلدون (٢/٣١٦)

٤۔ ابن حجرکی ''اصابہ '' (١/٣٥٧)حصہ اول ترجمہ نمبر:١٨٤٨

٥۔ابن ماکولا کی 'اکمال' (٢/٥٣٦)

۵۵

قبائل خزاعہ کا نسب اور ان کے عہدوپیمان:

١۔ابن حزم کی ''جمھرہ انساب '' (٣٧٧)و(٤٧٣)

٢۔حموی کی ''معجم البلدان'' (١/٣٩،٥٧)

''سراة'' کی تشریح:

١۔یاقوت حموی کی '' معجم البدان '' (٣/٦٥)

جابراسدی کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (١/٢١٧)حصہ اول تر جمہ نمبر :١٠٤٠

٢۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٥٨)

٣۔''تاریخ ابن اثیر'' (٢/٢٥٦)طبع یورپ

عثمان بن ربیعہ کے حالات:

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٢/٤٥٢)حصہ اول ترجمہ نبر:٥٤٣٩

٢۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٨٥)

ربیعہ بن عثمان قرشی کے حالات:

١۔'' طبقات ابن سعد'' (٤/١٤٩)حصہ اول

٢۔''سیرةابن ہشام'' (٣/٤١٦)

جمحی کا نسب:

١۔''اللباب ''(١/٢٣٦)

٢۔ابن سعد نے ''طبقات'' (٥/٣٦٦)میں ''محمد بن عثمان مخزوی'' نام کے ایک محدث کا ذکر کیا ہے اور اسے طبقۂ پنجم میں شمار کیا ہے ۔

۵۶

ساٹھواں جعلی صحابی سواد بن مالک تمیمی

صحابی کو پہچاننے کے لئے سپہ سالاری کے قاعدہ پر علماء کی طرف سے اعتماد کئے جانے کا ایک اور نمونہ لیکن اس پر صراحت نہیں کی گئی ہے ،سواد بن مالک تمیمی نامی صحابی ہے ۔ جسے سیف بن عمرتمیمی نے خلق کیا ہے ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے:

سواد بن مالک تمیمی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ سعد بن وقاص نے جنگ کے لئے اس کے ساتھ باہر آئے ہوئے فوج کے پہلے دستہ کی کمانڈ ''سُواد بن مالک''تمیمی کوسونپی ۔

قادسیہ کی جنگ میں سعد نے اسے ایک بار پھر اپنے ہر اول دستے کا سپہ سالار بنایا ۔ اور اس نے قادسیہ کے محاصرہ کے دوران دشمن کی رسد کے ٹھکانہ پر اچانک اور تیزحملہ کر کے تین سومویشیوں کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا اور انھیں اسلامی فوج کے کیمپ میں پہنچاکر سپا ہیوں میں تقسیم کر دیا (ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس داستان کی تفصیل ''تاریخ طبری '' میں سیف کی زبانی یوں آئی ہے :

جب سعد وقاص نے ''شراف'' میں پڑائو ڈالا تو خلیفہ عمر کی طرف سے اسے ایک خط ملا ۔ اس خط میں اسے یہ حکم ملا تھا کہ اپنی فوج کے مختلف دستوں کے سپہ سالار معین کرے اور ذمہ دار یوں کو ان میں تقسیم کردے ۔

سعد نے خلیفہ کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے اسلام کے تجربہ کار اور باسابقہ افراد میں سے ہر ایک کے ہاتھوں میں سپہ سالاری کا پر چم دیا اور سپا ہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کیا اور ہر ٹولی کی کمانڈ اور ذمہ داری اس فرد کے ہاتھ میں دیدی جس نے اسلام کی راہ میں نمایا ں خدمات انجام دئے تھے ۔(یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :)

اور سواد بن مالک تمیمی کو ایک ہر اول دستے کی کمانڈ دی ۔

طبری نے ایک اور روایت میں سیف سے نقل کر کے لکھا ہے :

سواد بن مالک تمیمی نے بندر فراض کی بلند یوں سے حملہ کر کے خچر، گدھے اور گائے پر مشتمل تین سو موشیوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا اور اُن پر مچھلی لاد کے اپنی لشکرگاہ کی طرف لے آیا۔

۵۷

اس اچانک اور ماہرانہ تصرف کے نتیجہ میں ایرانی فوج کے ایک سردار ''آ زاد مردابن آزاد بہ'' نے اس کا پیچھا کیا اور بڑی تیزی سے اپنے آپ کو سواد کے نزدیک پہنچا دیا ۔ سواد نے اپنے سوار افراد کی مدد سے آزاد مرد کا مقابلہ کیا اور '' سیلحین '' کے پل پر اس سے نبردآزما ہوا،اور تب تک جنگ کو جاری رکھاکہ اسے یقین ہوگیا کہ مذکورہ مال غنیمت صحیح و سالم مقصد تک پہنچ گیا ہے تواس کے بعد وہ فوراً پر پیچھے ہٹا اور پو پھٹتے ہی سعد کے پاس کیمپ میں پہنچ کر وقائع کے بارے میں سپہ سالار اعظم اور دیگر مسلمانوں کو رپورٹ پیش کی ۔

سعد کے حکم پر تمام غنائم کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم اور اس کا پانچواں حصہ انعام کے طور پر سواد اور اس کے ساتھیوں کو بخش دیا گیا ۔ اس دن کو ''مچھلیوں کا دن''کے نام سے یاد کیا گیا!

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپاہی گوشت کے لئے تڑپ رہے تھے ۔ کیونکہوہ گوشت کے علاوہ باقی اشیا ء جیسے گندم ، جو،خرما اود یگر دالیں وغیرہ کا فی مقدار میں بلکہ طولانی مدت کے لئے اپنے ساتھ لائے تھے ۔ یہ ناگہانی اور گشتی حملے صرف گوشت کو حاصل کر نے کیلئے انجام پاتے تھے ۔اسی لئے جس دن کافی مقدار میں گوشت حاصل کرتے تھے اس دن کو اس قسم کے گوشت کا نام دیتے تھے ، جیسے ''روزگائو '' ''روزماہی''!!

طبری نے ایک دوسری روایت میں سیف سے نقل کر کے ابن مالک اور حمیضہ کی کمانڈ میں ان کے ایک سو ساتھیوں کے اچانک حملہ اور غارت گری کی تشریح کی ہے کہ ہم نے اس کی تفصیل حمیضہ بارقی کی داستان میں بیان کی ہے ۔

طبری ان تمام وقائع کو بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :

سرانجام سعد وقاص نے سواد بن مالک تمیمی کو قادسیہ کی جنگ میں اپنے ہر اول دستے کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا ہے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ)

سیف تاریخ اسلام میں ''روز ماہیا ن '' (مچھلیوں کا دن )ثبت کرتاہے ، تاکہ تمیمی سورما سواد بن مالک کے لئے فخر و مباہات کا دن ہو کہ جس کی سخاوت کے دسترخوان پر گائے مچھلی اور دیگر حیوانوں کے گوشت سے بھوکے سپاہیوں کے پیٹ بھر جاتے ہیں اور ان کے اشتہا کی آ گ بجھ جاتی ہے ۔

اسی طرح ''روزگائے '' کو تمیم کے پہلوان عاصم بن عمرو کے لئے مجدوا فتخار کے دن کے طور پر

۵۸

ثبت کرتے ہوئے کہتا ہے :

ایک دن عاصم نے اپنے ماتحت سپاہیوں کے ہمراہ گائے اور گوسفند کی تلاش میں دشمن کے علاقہ پر حملہ کیا۔ لیکن ان کے اس حملہ سے پہلے علاقہ کے کسانوں اور گلہ بانوں نے مویشوں کو بچانے کیلئے انھیں کچھار میں چھپا رکھا تھا عاصم نے کچھار کے پاس محافظ کے طور پربیٹھے ایک چوپان سے گائے و گو سفند کے بارے میں سوال کیا ،لیکن اس شخص نے قسم کھا کر کہا کہ ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتا ہے ، اچانک کچھار سے ایک گائے فریاد بلند کر کے فصیح عربی میں بول اٹھی:

خدا کی قسم یہ شخص جھوٹ بولتا ہے ، ہم یہاں پر موجود ہیں !!

عاصم ، گائے کی گفتگوں سننے کے بعد کچھا ر میں داخل ہوا اور گائے کے گلہ کوہانکتے ہوئے اپنے کیمپ کی طرف لے گیا اور سپا ہیوں کو فصیح عربی میں گفتگوں کرنے والی گائے کے گوشت کی نعمت سے مالامال کردیا!

ہم اپنی کتاب ''عبداﷲبن سبا '' کی پہلی جلد میں درج کئے گئے سیف کے دوسرے خیالی ایام میں '' روزماہیان '' (مچھلیوں کے دن )کا اضافہ کرتے ہیں ۔اور سواد بن مالک کو بھی خاندان تمیم سے خلق کئے گئے دوسرے اصحاب میں شمار کرتے ہیں ۔

افسانہ سواد میں سیف کے راوی

سیف بن عمرنے سواد بن مالک کے افسانہ کو مندرجہ ذیل راویوں کی زبانی نقل کیا ہے :

١۔ محمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ

٢۔ زیاد بن سرجس احمری

دونوں اس کے جعلی راوی ہیں اور سیف نے ان کا نام مختصر کر کے ''محمد وزیاد'' کہا ہے۔

۵۹

اس بحث و تحقیق کا نتیجہ

سواد بن مالک تمیمی اور اس کے افسانہ کے بارے میں بحث و تحقیق سے یہ مطالب حاصل ہوتے ہیں :

سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں سعد وقاص کے حکم سے سواد بن مالک تمیمی کے فوج کے ہرادل دستہ کی سپہ سالاری پر منصوب ہونے کی خبردی ہے ۔

وہ تنہا شخص ہے جس نے ''روز ماہیان '' (مچھلیوں کے دن) کو تمیم کے سواد بن مالک کے نام پر ثبت کیا ہے ۔

اور آ خر کار ایسا لگتا ہے کہ سیف نے سواد بن مالک اوراس کے افسانہ کو جعل کیا ہے اور اس کا نام ''سوادبن مالک داری '' ١صحابی کے نام پر قرار دیا ہے !

١۔ابن حجر نے ''سواد بن مالک داری ''کی شرح حال میں لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر ''عبدالرحمان '' کر دیا تھا ۔

افسانہ سواد کو نقل کر نے والی علما:

١۔طبری نے سواد بن مالک کے افسانہ کو بلاواسط سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔

٢۔ ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں لکھا ہے ۔

٣۔ابن خلدو ن نے افسانۂ سواد کو تاریخ طبری سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیاہے۔

٤۔ ابن حجر سیف کی روایت پر اعتماد کر کے صحابی کی شناخت کے لئے ابن ابی شیبہ کی روایت سپہ سالاری صحابیت کی پہچان پر استناد کرتے ہوئے اس کی صراحت کئے بغیر ،سواد بن مالک کو صحابی مانا ہے اس کے حالات پر اپنی کتاب ''اصابہ ''میں روشنی ڈالی ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

چھٹی شرط

مسئلہ ٨ ۴ ٠ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے مرد کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو۔ احتياط واجب کی بنا پر ٹوپی اور ازار بند کا بھی یهی حکم ہے اور نماز کے علاوہ بھی خالص ریشم کا لباس پهننا مردوں کے لئے حرام ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ١ اگر لباس کا تمام استریا اس کا کچھ حصّہ خالص ریشم کا ہو تو مرد کے لئے اس کا پهننا حرام اور اس کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٢ جس لباس کے بارے ميں یہ علم نہ ہو کہ خالص ریشم کا ہے یا کسی اور چيز کا بنا ہوا ہے تو اس کا پهننا جائز ہے اور اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٣ ریشمی رومال یا اس جيسی کوئی چيز مرد کی جيب ميں ہو تو کوئی حرج نہيں ہے اور وہ نماز کو باطل نہيں کرتی۔

مسئلہ ٨ ۴۴ عورت کے لئے نماز ميں یا اس کے علاوہ ریشمی لباس پهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۵ مجبوری کی حالت ميں غصبی، خالص ریشمی یا زردوزی کا لباس پهننے ميں کوئی حرج نہيں ۔ نيز جو شخص یہ لباس پهننے پر مجبور ہو اور آخر وقت تک پهننے کے لئے اس کے پاس کوئی دوسرا لباس نہ ہو تو وہ ان کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۶ اگر کسی شخص کے پاس غصبی لباس اور مردار کے اجزاء سے بنے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس، آخر وقت تک نہ ہو اور یہ لباس پهننے پر مجبور بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوںکی طرح مسئلہ ” ٨٠٣ “ ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٧ اگر کسی شخص کے پاس حرام گوشت جانور کے اجزاء سے تيار کئے گئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو، چنانچہ اگر وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور ہو تو اس لباس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٨ اگر کسی مرد کے پاس خالص ریشم یا زردوزی کئے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو اور وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٩ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی چيز نہ ہو جس سے وہ اپنی شرمگاہ کو نماز ميں ڈهانپ سکے تو واجب ہے کہ اس کا انتظام کرے، چاہے کرائے پر لے یا خریدے، ليکن اگر اس پر اس کی حيثيت سے زیادہ پيسے خرچ ہوتے ہوں یا اتنا خرچہ اس کے حال کے اعتبار سے نقصان دہ ہو تو اسے لينا ضروری نہيں ہے اور وہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ نقصان برداشت کرے اور شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھے۔

۱۴۱

مسئلہ ٨ ۵ ٠ جس شخص کے پاس لباس نہ ہو، اگر کوئی دوسرا شخص اسے لباس بخش دے یا ادهار دے دے تو اگر اس لباس کا قبول کرنا اس کے لئے حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے قبول کرے، بلکہ اگر اُدهار لينے یا بخشش کے طور پر طلب کرنے ميں اس کے لئے کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اُدهار مانگے یا بخشش کے طور پر طلب کرے۔

مسئلہ ٨ ۵ ١ ایسے لباس کا پهننا جس کا کپڑا، رنگ یا سلائی اسے پهننے والے کے لئے رائج نہ ہو، تو اگر اسے پهننا اس کی توهين، بدنامی یا لوگوں کی جانب سے انگلياں اٹھ انے کا باعث ہو تو اسے پهننا حرام ہے اور اگر ایسے لباس سے نماز ميں شرمگاہ کو چھپا ئے تو بعيد نہيں کہ اس کا حکم، غصبی لباس کا حکم ہوجس کا تذکرہ مسئلہ” ٨٢١ “ ميں کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٢ اگر مرد، زنانہ لباس پهنے یا عورت، مردانہ لباس پهنے اور اسے اپنا لباس قرار دے تو احتياط کی بنا پر اس کا پهننا حرام ہے اور نماز ميں اس لباس کے ساته شرمگاہ ڈهانپنا احتياط کی بنا پر بطلان کا باعث ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٣ جس شخص کے لئے ليٹ کر نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اس کا لحاف حرام گوشت جانور کے اجزا سے بنا ہو تو اس ميں نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر اس کا گدّا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنا ہو جسے خود سے لپيٹ لے یا نجس ہو یا نمازی کے مرد ہونے کی صورت ميں ریشم یا زردوزی کيا ہوا ہو تو احتياط واجب کی بناپر اس ميں نماز نہ پڑھے۔

جن صورتوںميں نمازی کا بدن اور لباس پاک ہونا ضروری نہيں مسئلہ ٨ ۵۴ تين صورتوں ميں ، جن کی تفصيل بعد ميں بيان کی جائے گی، اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے :

١) اس کے بدن کے زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کی وجہ سے اس کے لباس یا بدن پر خون لگ جائے۔

٢) اس کے بدن یا لباس پر درہم کی مقدار سے کم خون لگا ہو۔ درہم کی وہ مقدار جس سے کم مقدار نماز ميں معاف ہے ، تقریباً شهادت والی انگلی کی اُوپر والی پور کے برابر ہے ۔

٣) نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔

اس کے علاوہ ایک اور صورت ميں اگر نمازی کا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ اس کا چھوٹا لباس مثلاً موزہ اور ٹوپی نجس ہو۔

ان چاروں صورتوں کے تفصيلی احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٨ ۵۵ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کا خون ہو، چنانچہ اگر بدن اور لباس کا پاک کرنا یا لباس تبدیل کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے تکليف کا باعث ہو تو جب تک زخم یا جراحت یا پھوڑا ٹھيک نہ ہو جائے اس خون کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر اس کے بدن یا لباس پر ایسی پيپ ہو جو خون کے ساته نکلی ہو یا ایسی دوائی ہوجو زخم پر لگائی گئی ہو اور نجس ہوگئی ہو، اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

۱۴۲

مسئلہ ٨ ۵۶ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر ایسی جراحت یا زخم کا خون ہو جو جلدی ٹھيک ہو جاتا ہو اور اسے پاک کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے آسان ہو اور ایک درہم کی مقدار سے کم بھی نہ ہو اور اس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٧ اگر بدن یا لباس کی ایسی جگہ جو زخم سے کچھ فاصلے پر ہو زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر بدن یا لباس کی وہ جگہ جو عموما زخم کی رطوبت سے آلودہ ہو جاتی ہو اس زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٨ اگر کسی شخص کے بدن یا لباس کو اس بواسير سے جس کے مسّے باہر نہ ہوں یا اس زخم سے جو منہ اور ناک وغيرہ کے اندر ہو خون لگ جائے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ، البتہ اس بواسير کے خون کے ساته نماز پڑھنا بلااشکال جائز ہے جس کے مسّے مقعد کے باہر ہوں۔

مسئلہ ٨ ۵ ٩ جس شخص کے بدن پر زخم ہو اگر وہ اپنے بدن یا لباس پر ایسا خون دیکھے جو ایک درہم یا اس سے زیادہ ہو اور نہ جانتا ہو کہ یہ خون زخم کا ہے یا کوئی اور خون ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٠ اگر کسی شخص کے بدن پر چند زخم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہوں کہ ایک زخم شمار ہوں تو جب تک وہ زخم ٹھيک نہ ہو جائيں ان کے خون کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر وہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہوں کہ ان ميں سے ہر زخم عليحدہ زخم شمار ہو تو جو زخم ٹھيک ہو جائے، اگر اس کا خون ایک درہم سے کم نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے لئے بدن اور لباس کوپاک کرے۔

مسئلہ ٨ ۶ ١ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر سوئی کی نوک کے برابر بھی حيض، کتے، سوّر، کافر غير کتابی، مردار یا حرام گوشت جانور کا خون لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر نفاس اور استحاضہ کے خون کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن کوئی دوسرا خون مثلاً ایسے انسان کا خون جو نجس العين نہيں ہے یا حلال گوشت جانور کا خون، اگرچہ بدن یا لباس کے کئی حصّوں پر لگا ہو اور اس کی مجموعی مقدار ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٢ جو خون بغير استر کے کپڑے پر گرے اور دوسری طرف جاپهنچے وہ ایک خون شمار ہوتا ہے ، ليکن اگر کپڑے کی دوسری طرف الگ خون سے آلودہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کو عليحدہ خون شمار کيا جائے، پس اگر وہ خون جو کپڑے کے سامنے کے رخ اور پچهلی طرف ہے ، مجموعی طور پر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

۱۴۳

مسئلہ ٨ ۶ ٣ اگر استر والے کپڑے پر خون گرے اور اس کے استر تک پهنچ جائے یا استر پر گرے اور کپڑے تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ ہر خون کو الگ شمار کيا جائے، لہٰذا اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۴ اگر بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم خون ہواور کوئی ایسی رطوبت اس سے آلگے جس سے اس کے اطراف آلودہ ہو جائيں تو اس کے ساته نماز باطل ہے ، خواہ خون اور وہ رطوبت ایک درہم کے برابر نہ ہوں، ليکن اگر رطوبت فقط خون سے ملے اور اس کے اطراف کو آلودہ نہ کرے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۵ اگر بدن یا لباس پر خون نہ ہو ليکن رطوبت کے ساته خون سے لگنے کی وجہ سے نجس ہو جائيں تو خواہ نجس ہونے والی مقدار ایک درہم سے کم ہو، اس کے ساته نماز نہيں پڑھی جاسکتی۔

مسئلہ ٨ ۶۶ اگر بدن یا لباس پر جو خون ہو اس کی مقدار ایک درہم سے کم ہو اور کوئی دوسری نجاست اس سے آلگے مثلاً پيشاب کا ایک قطرہ اس پر جاگرے اور وہ بدن یا لباس سے لگ جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٧ اگر نمازی کا چھوٹا لباس مثلاً ٹوپی اور موزہ جس سے شرمگاہ کو نہ ڈهانپا جاسکتا ہو نجس ہو جائے اور نمازی کے لباس ميں دوسرے موانع نہ ہوں مثلاً مردار یا نجس العين یا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے نہ ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے ۔ نيز نجس انگوٹھی کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٨ نجس چيز مثلاً رومال، چابی اور نجس چاقو کا نمازی کے پاس ہونا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٩ اگر بدن یا لباس پر لگے ہوئے خون کے بارے ميں یہ تو معلوم ہوکہ درہم سے کم ہے ليکن یہ احتمال بھی ہو کہ یہ ایسا خون ہے جونماز ميں معاف نہيں ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے اور اسے نماز کے لئے پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧٠ اگربدن یا لباس پر لگا ہوا خون درہم سے کم ہو ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ یہ خون معاف نہيں ہے اور نماز پڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ یہ خون معاف نہيں تھا تو نماز دهرانا ضروری نہيں هے۔ اسی طرح اگر ایک درہم سے کم سمجھتے ہوئے نمازپڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ درہم کے برابر یا اس سے زیادہ تھا تو اس صورت ميں بھی نماز دهرانا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧١ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مستحب ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

تحت الحنک کے ساته عمامہ، عبا، سفيد اور پاکيزہ ترین لباس پهننا، خوشبو کا استعمال کرنا اور عقيق کی انگوٹھی پهننا۔

۱۴۴

نمازی کے لباس ميں مکروہ چيزیں

مسئلہ ٨٧٢ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مکروہ ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

سياہ لباس، ميلا یاتنگ لباس پهننا، شرابی اور نجاست سے پرہيز نہ کرنے والے کا لباس پهننا اور لباس کے بٹن کا کهلا ہونا۔

اور احتياط واجب یہ ہے کہ ایسے لباس یا انگوٹھی کے ساته نماز نہ پڑھے جس پر جاندار کی صورت کا عکس ہو۔

نماز پڑھنے کی جگہ

جس جگہ نماز پڑھی جائے اس کی سات شرائط ہيں :

پهلی شرط

وہ جگہ مباح ہو ۔

مسئلہ ٨٧٣ جو شخص غصبی جگہ ميں نماز پڑھ رہا ہو تو اعضائے سجدہ کی جگہ غصبی ہو نے کی صورت ميں اس کی نمازباطل ہے ، اگر چہ قالين، کمبل یا ان جيسی کسی چيز پر کهڑا ہو۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر تخت یا اس جيسی کسی چيز پر نماز پڑھنے کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن غصبی خيمے اور غصبی چھت کے نيچے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۴ جس ملکيت سے فائدہ اٹھ انا کسی اور کا حق ہے اس ميں صاحبِ حق کی اجازت کے بغير نماز پڑھنا باطل ہے ، مثلاًکرائے کے گھر ميں کرائے دار کی رضایت کے بغير مالک مکان یا کوئی اور شخص نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

اسی طرح اگر ميت نے اپنے مال کا تيسرا حصہ کسی جگہ خرچ کرنے کی وصيت کی ہو تو جب تک ترکہ سے تيسرا حصہ جدا نہ کر ليا جائے مرحوم کی ملک پر نماز نہيں پڑھی جا سکتی ہے ۔

هاں، جس جگہ پر کسی کا کوئی حق ہو اور اس جگہ نماز پڑھنا صاحب حق کے اختيار ميں رکاوٹ کا باعث ہو مثلًا ایسی زمين پر نماز پڑھنا جس پر کسی نے پتّھر چن دئے ہوں، صاحب حق کی اجازت کے بغير باطل ہے جب کہ اس صورت کے علاوہ ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ مثلاًرہن رکھوانے والے کی اجازت سے اس زمين پر نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے جو کسی کے پاس رہن رکھوائی گئی ہو اگرچہ جس کے پاس وہ زمين رہن رکھی گئی ہو اس ميں نماز پڑھنے پرراضی نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧ ۵ اگر کوئی مسجدميں بيٹھے ہوئے کسی شخص کی جگہ غصب کر کے وہاں نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۶ جس جگہ کے غصبی ہونے کا علم نہ ہو اور وہاں نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ سجدہ کرنے کی جگہ غصبی تھی تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۴۵

البتہ اگر کسی جگہ کے غصبی ہونے کو بھول کر نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ ہاں، اگر خود نے کسی جگہ کو غصب کيا ہو اور بھول کر وہاں نمازپڑھے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی تھی تواس کی نماز باطل ہے جب کہ اگر توبہ کر چکا تھا تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٧ ایسی جگہ نماز پڑھنا جهاں اعضائے سجدہ رکھنے کی جگہ غصبی ہو اور جانتا بھی ہو کہ یہ جگہ غصبی ہے ، باطل ہے ۔ اگرچہ اسے نماز کے باطل ہونے کا حکم معلوم نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧٨ جو شخص سواری کی حالت ميں واجب نماز پڑھنے پر مجبور ہو تو اگر سواری کا جانور یا اس کی زین غصبی ہو اور اسی جانور یا زین پر سجدہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ یهی حکم اس جانور پر مستحب نمازپڑھنے کا ہے ۔ ہاں، اگر جانور کی نعل غصبی ہو تو نماز کا باطل ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٩ جو شخص کسی ملکيت ميں دوسرے کے ساته شریک ہو تو جب تک اس کا حصہ جدا نہ ہو جائے اس وقت تک اس ملکيت ميں اپنے شریک کی رضایت کے بغير نہ تصرف کر سکتا ہے نہ نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨٨٠ جس مال کا خمس نہ نکالا ہو اگر عين اسی مال سے ملکيت خریدے تو اس ملکيت ميں تصرف حرام ہے اور نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨١ اگر کوئی شخص اپنی ملکيت ميں نماز پڑھنے کی اجازت دے اور انسان جانتا ہو کہ دل سے راضی نہيں ہے تو اس کی ملکيت ميں نماز باطل ہے اوراگر اجازت نہ دے ليکن انسان کو یقين ہو کہ راضی ہے تو نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٨٢ جس مرنے والے کے ذمہ خمس یا زکات واجب الادا ہو جبکہ اس کا ترکہ خمس یا زکات کی واجب الادا مقدار سے زیادہ نہ ہو تو اس ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کے واجبات ادا کر دئے جائيں یا حاکم شرع کی اجازت سے ضمانت لے لی جائے تو ورثاء

کی اجازت سے ميت کے ترکے ميں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٣ جو مرنے والا لوگوں کا مقروض ہو اور اس کا ترکہ قرض کی مقدار سے زیادہ نہ ہو تو قرض خواہ کی اجازت کے بغير ميت کے ترکے ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کا قرض ادا کرنے کی ضمانت لے لی جائے اور قرض خواہ بھی راضی ہوجائے تو ورثا کی اجازت سے اس ميں تصرف کرنا جائز ہے اور نماز بھی صحيح ہے ۔

۱۴۶

مسئلہ ٨٨ ۴ اگر ميت مقروض نہ ہو ليکن اس کے ورثا ميں سے کوئی نابالغ، دیوانہ یا لاپتہ ہو تو اس کے ترکے ميں اس کے ولی کی اجازت کے بغير تصرف کرنا حرام اورنماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۵ کسی کی ملکيت ميں نماز پڑھنا اس صورت ميں جائز ہے کہ جب انسان کے پاس شرعی دليل ہو یا اسے یقين ہو کہ مالک اس جگہ نماز پڑھنے پر راضی ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب مالک اِس طرح کے تصرف کی اجازت دے کہ جسے عرفی اعتبار سے نمازپڑھنے کی اجازت بھی سمجھا جائے، مثلاًکسی کو اپنی ملکيت ميں بيٹھنے اور ليٹنے کی اجازت دے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے نمازپڑھنے کی اجازت بھی دے دی ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۶ مسئلہ نمبر ” ٢٧٧ “ميں گزری ہوئی تفصيل کے مطابق وسيع اراضی ميں نماز پڑھنے کے لئے مالک کی اجازت ضروری نہيں ہے ۔

دوسری شرط

مسئلہ ٨٨٧ واجب نماز ميں ضروری ہے کہ نمازی کی جگہ اتنی متحرک نہ ہو کہ نمازی کے بدن کے ساکن رہنے اور اختياری حالت ميں پڑھی جانے والی نماز کے افعال کی ادائيگی ميں رکاوٹ بن جائے۔

هاں، اگر وقت تنگ ہونے یا کسی اور وجہ سے کسی ایسی جگہ مثلاًبس، کشتی یا ٹرین وغيرہ ميں نماز پڑھنے پر مجبور ہو جائے تو ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک بدن کے سکون اور قبلے کا خيال رکھے اور اگر یہ سواریاں قبلے کی سمت سے ہٹ جائيں تو خود قبلے کی طرف گهوم جائے۔

مسئلہ ٨٨٨ کهڑی ہوئی بس، کشتی، ٹرین یا ان جيسی چيزوں ميں نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٩ گندم وجوَ کے ڈهير یا ان جيسی کسی اور چيز پر جو بدن کو ساکن نہ رہنے دے، نماز باطل ہے ۔

۱۴۷

تيسری شرط

مسئلہ ٨٩٠ ضروری ہے کہ ایسی جگہ پر نماز پڑھے جهاںنماز مکمل کرنے کا احتمال ہو اور اگر ہوا، بارش، لوگوں کے هجوم یا ان جيسے اسباب کی وجہ سے اطمينان ہو کہ اس جگہ نماز مکمل نہيں کر سکے گا تو اگرچہ اتفاقاً وہاں نماز مکمل کر لے پھر بھی اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٩١ اگر ایسی جگہ نماز پڑھے جهاں ٹہرنا حرام ہے مثلاًایسی چھت کے نيچے جو گرنے ہی والی ہے تو اگرچہ وہ گنهگار ہے ليکن اس کی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٩٢ جس چيز کی توهين حرام ہے اگر اس پر اٹھنا بيٹھنا اس کی توهين کا باعث ہو مثلاًقالين کا وہ حصہ جس پر الله کا نام لکھا ہو، اس پر نمازپڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط کی بنا پر باطل بھی ہے ۔

چوتھی شرط

نماز پڑھنے کی جگہ چھت نيچی ہونے کی وجہ سے اتنی چھوٹی نہ ہو کہ سيدها کهڑا نہ ہو سکے اور اسی طرح مکان کے تنگ ہونے کی وجہ سے جگہ اتنی تنگ نہ ہو کہ رکوع اور سجود انجام نہ دے سکے۔

مسئلہ ٨٩٣ اگر ایسی جگہ نمازپڑھنے پر مجبور ہو جائے جهاں کسی طرح کهڑا نہ ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ کر نماز پڑھے اوراگر رکوع اور سجود کی ادائيگی ممکن نہ ہو تو ان کے لئے سر سے اشارہ کرے۔

مسئلہ ٨٩ ۴ پيغمبراکرم(ص) اور ائمہ اطهار عليهم السلام کی قبورمطہر سے آگے بڑھ کر نماز پڑھنااگر بے حرمتی کا سبب ہو تو حرام اور باطل ہے بلکہ بے حرمتی نہ ہونے کی صورت ميں بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔ ہاں، اگر نماز کے وقت کوئی چيزمثلاًدیوار، اس کے اور قبر کے درميان ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن قبر مطہر پر بنے ہوئے صندوق، ضریح اور اس پر پڑے ہوئے کپڑے کا فاصلہ کافی نہيں ہے ۔

پانچويں شرط

مسئلہ ٨٩ ۵ یہ کہ نمازپڑھنے کی جگہ اگر نجس ہو تو اتنی تر نہ ہو کہ نماز کو باطل کرنے والی نجاست نمازی کے بدن یا لباس تک سرایت کر جائے۔ ہاں، سجدے کے لئے پيشانی رکھنے کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور اگر وہ نجس ہو تو اس کے خشک ہونے کی صورت ميں بھی نماز باطل ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ بالکل نجس نہ ہو۔

۱۴۸

چھٹی شرط

ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت مرداور عورت کے درميان کم ازکم ایک بالشت کا فاصلہ ہو، جب کہ شہر مکہ کے علاوہ کسی بھی مقام پر دس ذراع سے کم کے فاصلے ميں نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٨٩ ۶ اگر عورت مذکورہ فاصلے سے کم فاصلے پر مردکے برابر یا اس سے آگے نماز پڑھے اور دونوں ایک ساته نماز شروع کریں تو ضروری ہے کہ دونوں دوبارہ نماز پڑہيں ۔ اسی طرح اگر ایک نے دوسرے سے پهلے نماز شروع کی ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٨٩٧ اگر ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوئے مرد اور عورت یا مرد سے آگے کهڑی ہوئی عورت اور مرد کے درميان دیوار، پردہ یا کوئی ایسی چيز ہو کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکيں تو دونوں کی نمازميں کوئی حرج نہيں اگر چہ ان کے درميان مذکورہ مقدار سے بھی کم فاصلہ ہو۔

ساتويں شرط

ضروری ہے کہ نمازی کی پيشانی رکھنے کی جگہ، اس کے پاؤں کی انگليوں کے سرے اور بنا بر احتياط واجب گھٹنے رکھنے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں کی مقدار سے زیادہ نيچی یا اونچی نہ ہو اور اس کی تفصيل سجدے کے احکام ميں آئے گی۔

مسئلہ ٨٩٨ نامحرم مرد اور عورت کا ایسی جگہ اکهٹا ؟؟؟هونا جهاں کوئی دوسرا نہ ہو اور نہ ہی آ سکتا ہو جبکہ اس صورت ميں انہيں گناہ ميں مبتلا ہونے کا احتمال ہو، جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ نماز نہ پڑہيں ۔

مسئلہ ٨٩٩ جهاں سِتار یااس جيسی چيزیں بجائی جاتی ہوں وہاں نماز پڑھنے سے نماز باطل نہيں ہوتی ہے ، ليکن ان چيزوں کو سننا حرام ہے ۔ یهی حکم وہاں ٹھ هرنے کا ہے سوائے اس شخص کے لئے جو اس عمل کو روکنے کے لئے وہاں ٹہرا ہو۔

مسئلہ ٩٠٠ اختياری حالت ميں خانہ کعبہ کی چھت پر واجب نماز پڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی واجب نماز نہ پڑھے ليکن مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٠١ خانہ کعبہ کے اندر مستحب نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے بلکہ خانہ کعبہ کے اندر ہر گوشے کے سامنے دو رکعت نمازپڑھنا مستحب ہے ۔

۱۴۹

وہ مقامات جهاں نمازپڑھنا مستحب ہے

مسئلہ ٩٠٢ اسلام کی مقدس شریعت ميں مسجد ميں نماز پڑھنے کی بہت تاکيد کی گئی ہے ۔ تمام مساجد ميں سب سے بہتر مسجدالحرام ہے ۔ اس کے بعد مسجد نبوی صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور پھر مسجدکوفہ کا درجہ ہے ۔ ان کے بعد مسجدبيت المقدس، شہر کی جامع مسجد، محلہ کی مسجداو ر بازار کی مسجد کا درجہ بالترتيب ہے ۔

مسئلہ ٩٠٣ خواتين کے لئے اپنے گھر ميں بلکہ کوٹہر ی اور پيچهے والے کمرے ميں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۴ ائمہ عليهم السلام کے حرم مطہر ميں نماز پڑھنا مستحب ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق حضرت امير المومنين عليہ السلام اورسيد الشهداعليهم السلام کے حرم ميں نماز مسجدسے افضل ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۵ مسجد ميں زیادہ جانا اور جس مسجد ميں نماز ی نہ ہوتے ہوں وہاں جانا مستحب ہے اور مسجد کے پڑوسی کے لئے بغير کسی عذر کے مسجد کے علاوہ کسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۶ انسان کے لئے مستحب ہے کہ مسجد ميں نہ جانے والے کے ساته کھانا نہ کھائے، کاموں ميں اس سے مشورہ نہ لے، اس کا ہمسایہ نہ بنے، اس سے لڑکی نہ لے اور نہ ہی اسے لڑکی دے۔

وہ مقامات جهاں نماز پڑھنا مکروہ ہے

مسئلہ ٩٠٧ چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

١) حمام ميں

٢) نمک زار ميں

٣) انسان کے سامنے

۴) کهلے ہوئے دروازے کے سامنے

۵) سڑک اور گلی کوچوں ميں جب کہ وہاں سے گزرنے والوں کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو اور اگر تکليف کا باعث ہو توحرام ہے ۔

۶) آگ اور چراغ کے سامنے

٧) باورچی خانے ميں اور ہر اس جگہ جهاں آتش دان ہو

٨) کنویں اور پيشاب کے جمع ہونے کی جگہ کے سامنے

٩) جاندار کی تصویر اور مجسمے کے سامنے مگر یہ کہ ان پر پردہ ڈال دیا جائے

۱۵۰

١٠ ) جس کمرے ميں کوئی جنب ہو

١١ ) جهاں جاندار کی تصویر ہو اگرچہ نماز ی کے سامنے نہ ہو

١٢ ) قبر کے سامنے

١٣ ) قبر کے اوپر

١ ۴ ) دو قبروں کے درميان

١ ۵ ) قبرستان ميں

مسئلہ ٩٠٨ لوگوں کی گذر گاہ پر یا کسی کے سامنے نمازپڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اپنے سامنے کوئی چيز رکھے جو اگر لکڑی یا رسی بھی ہو تو کافی ہے ۔

مسجد کے احکام

مسئلہ ٩٠٩ مسجد کی زمين، چھت کا اندرونی اور اوپری حصہ اور مسجد کی دیوار کا اندر والا حصہ نجس کرنا حرام ہے اور جس شخص کو بھی اس کے نجس ہونے کا علم ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کو فوراً پاک کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسجد کی دیوار کا باہر والا حصہ بھی نجس نہ کرے اور اگر نجس ہو جائے تو نجاست کودور کرے۔

مسئلہ ٩١٠ اگر مسجد پاک نہ کرسکتا ہو یا پاک کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہو اور کوئی مددگار نہ ملے تو اس پر مسجد پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن جو شخص مسجد کو پاک کر سکتا ہو اور احتمال ہو کہ وہ مسجد کوپاک کر دے گاتو اس کو اطلاع دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩١١ اگر مسجد کی کوئی ایسی جگہ نجس ہو جائے جسے کهودے یا توڑے بغير پاک کرنا ممکن نہ ہو تو اگر اس کی توڑ پهوڑ مکمل اور وقف کو نقصان پهنچانے والی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس جگہ کو کهودا یا توڑا جائے۔ اور کهودی ہوئی جگہ کو پرُ کرنا او ر توڑی ہوئی جگہ کو دوبارہ بنانا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر مسجد کی اینٹ جيسی کوئی چيز نجس ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اسے پاک کر کے پرانی جگہ پر لگا دیا جائے۔

مسئلہ ٩١٢ اگر مسجد غصب کر کے اس پر گھر یا گھر جيسی عمارت بنالی جائے تو بنا بر احتياط اسے نجس کرنا حرام ہے اور پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن ٹوٹی ہوئی مسجد کو نجس کرنا اگرچہ اس ميں کوئی نمازنہ پڑھتا ہو، جائز نہيں ہے اور پاک کرنا ضروری ہے

مسئلہ ٩١٣ ائمہ عليهم السلام کے روضوں کو نجس کرنا حرام ہے اور نجس ہونے کے بعد اگر نجس چھوڑنے سے بے احترامی ہوتی ہو تو انہيں پاک کر نا واجب ہے ۔ بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تو بھی احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کرے۔

۱۵۱

مسئلہ ٩١ ۴ مسجد کی چٹائی نجس کرنا حرام ہے اور نجس کرنے والے کے لئے احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور باقی افراد کے لےے احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کریں، ليکن اگر چٹائی کا نجس رہنا مسجد کی بے احترامی ہوتو ضروری ہے کہ اسے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ٩١ ۵ اگر بے احترامی ہوتی ہوتو مسجدميں کسی عين نجس یا نجس شدہ چيز کو لے جاناحرام ہے ، بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تب بھی احتياط مستحب ہے کہ عين نجس کو مسجد ميں نہ لے جائے۔

مسئلہ ٩١ ۶ مسجد ميں مجالس کے ليے شاميانہ لگانے، فرش بچهانے، سياہ چيزیں آویزاں کرنے اور چائے کا سامان لے جانے ميں جبکہ مسجد کو نقصان نہ پهنچے اور نماز پڑھنے ميں کسی رکاوٹ کا باعث نہ بنے، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩١٧ احتياط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے اور انسان اور جاندار کے نقش سے مزین کر نا جائز نہيں ہے اور بيل بوٹوں جيسی بے جان چيزوں سے مزین کر نا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩١٨ اگر مسجد ٹوٹ جائے تو بھی نہ اسے فروخت کيا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکيت یا سڑک ميں شامل کيا جا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٩١٩ مسجد کے دروازے، کهڑکيا ں اور دوسری چيزوں کو فروخت کرنا حرام ہے اور اگر مسجد ٹوٹ جائے تو ضروری ہے کہ ان چيزوں کواس مسجد کی تعمير ميں استعمال کيا جائے اور جو چيزیں اس مسجد کے کام کی نہ ہوںانہيں دوسری مسجد ميں استعمال کيا جائے، ليکن اگر کسی بھی مسجد کے کام نہ آئيں تو جو چيزیں مسجد کا جزء شمار نہ ہوتی ہوں اور مسجد کے لئے وقف کی گئی ہو ں انہيں حاکم شرع کی اجازت سے فروخت کيا جاسکتا ہے اور اگر ممکن ہو تو ان کی قيمت بھی اسی مسجد، ورنہ کسی اور مسجد کی تعمير ميں خرچ کی جائے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تواسے دوسرے نيک کاموں ميں خرچ کيا جائے۔

مسئلہ ٩٢٠ مسجد کی تعمير اورمرمت مستحب ہے اور اگر ٹوٹی ہوئی مسجد کی مرمت ممکن نہ ہو تو اسے توڑکر دوبارہ بنایا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ضرورت ہو تونماز کی گنجائش بڑھانے کے لئے اس مسجد کوبهی جو نہ ٹوٹی ہو، توڑ کر دوبارہ بنایا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ٩٢١ مسجدکو صاف کرنا اور اس ميں چراغ روشن کرنا مستحب ہے اور مسجد جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ خوشبو لگائے، پاکيزہ اور قيمتی لباس پهنے، اپنے جوتو ںکو دیکھ لے کہ اس کہ نيچے والے حصے ميں نجاست تو نہيں ہے ، مسجد ميں داخل ہوتے وقت پهلے سيدها پاؤں اور باہر نکلتے وقت پهلے الٹا پاؤں اٹھ ائے اور مستحب ہے کہ سب سے پهلے مسجد ميں آئے اور سب سے آخر ميں باہر جائے۔

مسئلہ ٩٢٢ جب انسان مسجد ميں جائے تو مستحب ہے کہ دو رکعت نمازتحيت، مسجد کے احترام ميں پڑھے اور اگر واجب یا کوئی مستحب نماز بھی پڑھ لے تو کافی ہے ۔

۱۵۲

مسئلہ ٩٢٣ مسجد ميں بغير کسی مجبوری کے سونا، دنياوی امور کے بارے ميں گفتگو کرنا، کسی دستکاری ميں مشغول رہنا اور ایسے شعر پڑھنا جس ميں نصيحت اور اس جيسی چيز نہ ہو مکروہ ہے ۔

اسی طرح مسجد ميں تهوکنا، ناک کی غلاظت وبلغم پھينکنا، کسی کهوئے ہوئے کو ڈهونڈنا اور اپنی آواز بلند کرنا بھی مکروہ ہے ليکن اذان کے لئے آواز بلند کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٢ ۴ بچوں اور دیوانوں کو مسجد ميں آنے دینا مکروہ ہے اور پياز یا لهسن جيسی چيز کھائے ہوئے شخص کے لئے کہ جس کے منہ کی بو سے لوگوں کو اذیت ہوتی ہو، مسجدميں جانا مکروہ ہے ۔

اذان اور اقامت

مسئلہ ٩٢ ۵ مرد اور عورت کے لئے مستحب ہے کہ واجب یوميہ نمازوں سے پهلے اذان اور اقامت کہيں جب کہ یوميہ نمازوں کے علاوہ دوسری واجب نمازوں اور مستحب نمازوں کے لئے جائز نہيں ہے ، ليکن جب عيد فطر یا عيد قربان کی نماز جماعت سے پڑھی جا رہی ہو تو مستحب ہے کہ تين مرتبہ الصلاة کہہ کر پکارا جائے اور ان دو نمازوں کے علاوہ کسی نماز مثلًانماز آیات ميں اگر جماعت سے پڑھی جائے تو رجاء کها جائے۔

مسئلہ ٩٢ ۶ مستحب ہے کہ نومولود کے دائيں کان ميں اذان اور بائيں کان ميں اقامت کهے اوریہ ولادت کے پهلے روز بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٢٧ اذان کے اٹھ ارہ جملے ہيں :

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ چار مرتبہا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ دومرتبہلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه دو مرتبہ اور اقامت کے سترہ جملے ہيں :

یعنی اول سے دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ اور آخر سے ایک مرتبہلاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه کم ہو جائيں گے اورحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ کے بعد ضروری ہے کہ دو مرتبہقَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ کا اضافہ کرے۔

مسئلہ ٩٢٨ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ عَلِيًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ اذان واقامت کا جز نہيں ہے ليکن چونکہ حضرت علی عليہ السلا م کی ولایت دین کی تکميل کرتی ہے لہٰذا اس کی گواہی ہر مقام پر او را شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰه کے جملے کے بعد خدا سے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے ۔

۱۵۳

اذان اور اقامت کا ترجمہ

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ الله توصيف کئے جانے سے بالا تر ہےا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہےا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ محمدبن عبد الله(ص) الله کے رسول ہيںحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ نماز کے لئے جلدی کرو حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ کاميابی کی طرف جلدی کروحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ بہترین کام کی طرف جلدی کرو قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ یقينانماز قائم ہو گئیلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہے مسئلہ ٩٢٩ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے جملوں کے درميان زیادہ فاصلہ نہ دے اور اگر ان کے درميان معمول سے زیادہ فاصلہ کر دے تو ضروری ہے کہ شروع سے کهے۔

مسئلہ ٩٣٠ اگر اذان اور اقامت کہتے وقت آواز کو گلے ميں گهمائے تو اگر یہ غنا اور گلوکاری ہو جائے یعنی لهو ولعب کی محفلوں سے مخصوص گانے کے انداز ميں اذان اور اقامت کهے تو حرام ہے اور اگر غنا اور گلوکاری نہ ہو تو مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٣١ دو نماز وں ميں اذان جائزنہيں ہے :

١) ميدان عرفات ميں روز عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کے دن، نماز عصر ميں ۔

٢) شب بقر عيد کی نماز عشا ميں اس شخص کے لئے جو مشعر الحرام ميں ہو۔

یہ دو اذانيں اس صورت ميں جائز نہيں ہيں جب ان ميں سے پهلے پڑھی ہوئی نمازميں فاصلہ بالکل نہ ہو یا اتنا کم فاصلہ ہو کہ عرفاً یہ کها جائے کہ دو نمازیں ساته ميں پڑھی ہيں ۔

مسئلہ ٩٣٢ اگر نمازجماعت کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہو تو اس جماعت کے ساته نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت نہ کهے۔

مسئلہ ٩٣٣ اگر نماز جماعت پڑھنے مسجد ميں جائے اور دیکھے کہ نماز ختم ہو چکی ہے ليکن صفيں ابهی تک نہ بگڑی ہوں اور لوگ بھی متفرق نہ ہوئے ہوں توآنے والے مسئلے ميں بيان شدہ شرائط کے ساته اپنے لئے اذان اور اقامت نہيں کہہ سکتا۔

مسئلہ ٩٣ ۴ جهاں جماعت ہو رہی ہو یا جماعت مکمل ہوئے زیادہ وقت نہ گزرا ہو اور صفيں نہ بگڑی ہوں اگر کوئی وہاں فرادیٰ یا باجماعت نماز پڑھنا چاہے تو چھ شرائط کے ساته اس سے اذان اور اقامت ساقط ہو جائے گی (اور یہ سقوط، عزیمت کے عنوان سے ہے یعنی اذان اور اقامت جائز نہيں ہے :

١) جماعت مسجد ميں ہو پس اگر مسجد ميں نہ ہو تو اذان اور اقامت ساقط نہيں ہوگی۔

٢) اس نماز کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہوں۔

۱۵۴

٣) جماعت باطل نہ ہو۔

۴) جماعت اور اس شخص کی نماز ایک ہی جگہ پر ہو، لہٰذا اگر مثال کے طور پر جماعت مسجد کے اندر ہو اور وہ چھت پر نماز پڑھنا چاہے تو اس سے اذان اور اقامت ساقط نہ ہونگی۔

۵) نماز جماعت اور ا س کی نمازدونوں ادا ہوں۔

۶) نمازجماعت اور اس شخص کی نمازکا وقت مشترک ہو۔ مثلا دونوں نماز یں ظہر ہو ں یا عصر ہوں یا نماز جماعت ظہر ہو اور وہ نماز عصر پڑھے یا اسے نمازظہر پڑھنی ہو اور جماعت عصر ہو۔

مسئلہ ٩٣ ۵ اگر گذشتہ مسئلے کی تيسری شرط ميں شک کرے یعنی شک کرے کہ نمازجماعت صحيح تھی یا نہيں تو اس سے اذان واقامت ساقط ہے ليکن اگر صفوں کے بگڑنے یا دوسری شرائط کے حاصل ہونے ميں شک کرے تو اگر سابقہ حالت معلوم ہو تو اسی حالت کے مطابق عمل کرے مثلاًاگر رات کی تاریکی ميں شک کرے کہ صفيں بگڑی ہيں یا نہيں تو سمجھے کہ صفيں اپنی حالت پر باقی ہيں اور اذان اور اقامت نہ کهے اور اگر شک کرے کہ اس جماعت کے لئے اذان واقامت کهی گئی ہے یا نہيں تو سمجھے کہ نہيں کهی گئی ہے اور اذان واقامت مستحب کی نيت سے کهے اور اگر حالت سابقہ معلوم نہ ہوتو رجاء اذان واقامت کهے۔

مسئلہ ٩٣ ۶ دوسرے کی اذان کی آوازسننے والے کے لئے ہر سنے ہوئے جملے کو دهرانا مستحب ہے او راقامت سننے والا حی علی الصلاةسے قد قامت الصلاة تک کے جملے کو رجاء دهرائے اور باقی جملات کو ذکر کی نيت سے کهنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٣٧ جس نے دوسرے کی اذان و اقامت سنی ہو اور نمازپڑھنا چاہے تو اگر دوسرے کی اذان واقامت اور اس کی نماز کے درميان زیادہ فاصلہ نہ ہو تو یہ شخص اذان واقامت کو ترک کر سکتا ہے چاہے اس نے دوسرے کی اذان واقامت کے ساته تکرار کی ہو یا نہ کی ہو۔

مسئلہ ٩٣٨ اگر مردکسی عورت کی اذان سنے تو اس سے اذان ساقط نہيں ہوتی چاہے اس نے لذت کے قصد سے سنی ہو یا قصدِلذت کے بغير سنی ہو۔

مسئلہ ٩٣٩ نماز جماعت کی اذان واقامت کهنے والے کے لئے ضروری ہے مرد ہو، ليکن خواتين کی نماز جماعت ميں کسی عورت کا اذان واقامت کهنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٠ ضروری ہے کہ اقامت، اذان کے بعد ہو اور اگر اذان سے پهلے کهے تو صحيح نہيں ہے اور اقامت ميں کھڑے ہو کر کهنا اور( وضو، غسل یا تيمم کے ذریعے) باطهارت ہونا بھی شرط ہے ۔

۱۵۵

مسئلہ ٩ ۴ ١ اگر اذان واقامت کے جملات ترتيب بدل کر کهے مثلاًحی علی الفلاح کو حی علی الصلاة سے پهلے کهے تو ضروری ہے کہ جهاں سے ترتيب بگڑی ہے وہيں سے دوبارہ کهے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٢ ضروری ہے کہ اذان واقامت کے درميان فاصلہ نہ دے اور اگر اتنا فاصلہ دے کہ کهی ہوئی اذان کو اس اقامت کی اذان نہ کها جا سکے تو دوبارہ اذان واقامت کهنا مستحب ہے اور اگر اذان واقامت کے بعد نمازميں اتنا فاصلہ دے دے کہ یہ دونوں اس نماز کی اذان واقامت نہ کهی جا سکيں تو بھی اس نمازکے لےے اذان واقامت کو دهرانا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٣ ضروری ہے کہ اذان واقامت صحيح عربی ميں کهی جائيں، لہٰذا اگر غلط عربی ميں کهے یا ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف ادا کرے یا مثلاًاردو زبان ميں ترجمہ کهے تو صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۴ ضروری ہے کہ اذان واقامت وقت داخل ہونے کے بعد کهے، لہٰذا اگر عمداًیا بھول کر وقت سے پهلے کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۵ اگر اقامت کهنے سے پهلے شک کرے کہ اذان کهی یا نہيں تو اذان کهے ليکن اگر اقامت شروع کرنے کے بعد اذان کے بارے ميں شک کرے تو اذان کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۶ اگر اذان اور اقامت کے دوران کوئی جملہ کهنے سے پهلے شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها یا نہيں تو جس جملے کے بارے ميں شک ہو اسے کهے ليکن اگر کوئی جملہ کہتے وقت شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها ہے یا نہيں تو اسے کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٧ اذان کہتے وقت مستحب ہے :

اذان دینے والا قبلہ رخ ہو بالخصوص اذان ميں شهادت کے جملے ادا کرتے وقت اس کی زیادہ تاکيد ہے ، وضو یا غسل کيا ہوا ہو،دو انگلياں دونوں کانوں ميں رکھے، اونچی آواز سے اذان دے اور اسے کھينچے، اذان کے جملات کے درميان تهوڑا سا فاصلہ دے اور اذا ن کے جملات کے دوران بات نہ کرے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ اقامت کہتے وقت اس کا بدن ساکن ہو اور اسے اذان کے مقابلے ميں آهستہ آواز ميں کهے اور اس کے جملوں کو ایک دوسرے سے نہ ملائے، ليکن اقامت کے جملوں کے درميان اتنا فاصلہ نہ دے جتنا اذان کے جملوں کے درميا ن دیتا ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٩ مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کے درميان تهوڑی دیر کے لئے بيٹھ کر یا دو رکعت نماز پڑ ه کر یا بات کرے یا تسبيح پڑھ کر فاصلہ دے۔ليکن نمازصبح کی اذان اور اقامت کے درميا ن بات چيت کرنا مکروہ ہے ۔

۱۵۶

مسئلہ ٩ ۵ ٠ مستحب ہے کہ جس شخص کو اطلاعی اذان دینے پر معين کياجائے وہ عادل وو قت شناس ہو،اس کی آواز بلند ہو اوراونچی جگہ پر اذان دے۔

واجباتِ نماز

واجباتِ نماز گيارہ ہيں :

١)نيت

٢)قيا م یعنی کهڑا ہونا

٣)تکبيرةالاحرام یعنی نماز کی ابتدا ميں الله اکبر کهنا

۴) رکوع

۵) سجود

۶) قرائت

٧)ذکر

٨)تشهد

٩)سلام

١٠ )ترتيب

١١ )موالات یعنی اجزائے نماز کا پے در پے بجا لانا

مسئلہ ٩ ۵ ١ واجباتِ نماز ميں سے بعض رکن ہيں یعنی اگر انسان انہيں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا جان بوجه کر ہو یا غلطی سے،نماز باطل ہو جاتی ہے ۔جب کہ باقی واجبا ت رکن نہيں ہيں یعنی اگر وہ غلطی کی بنا پر چھوٹ جایئں تو نماز باطل نہيں ہوتی۔

نماز کے واجباتِ رکنی پانچ ہيں :

١) نيت

٢) تکبيرة الاحرام

٣)قيام متصل بہ رکوع،یعنی رکوع ميں جانے سے پهلے کا قيام

۴) رکوع

۱۵۷

۵) ہر رکعت کے دو سجدے اور جهاں تک واجبات نماز کو زیادہ کرنے کا تعلق ہے تو اگر زیادتی عمداہو تو بغيرکسی شرط کے نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر جاہل قاصر جان بوجه کر تکبيرة الاحرام کو زیادہ کرے تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے اور اگر زیادتی غلطی سے ہوئی ہو تو چنانچہ زیادتی رکوع کی ہو یا ایک ہی رکعت کے دو سجدوں کی ہو تو نماز باطل ہے ورنہ باطل نہيں ۔

نيت

مسئلہ ٩ ۵ ٢ ضروری ہے کہ انسان نماز کو قربت کی نيت سے جيسا کہ وضو کے مسائل ميں بيان ہو چکا ہے اور اخلاص کے ساته بجا لائے۔ اور نيت کو اپنے دل سے گزارنا یا اپنی زبان پر جاری کرنا،مثلاً یہ کهنا:”چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں خداوندمتعال کے حکم کی بجا آوری کے لئے “،ضروری نہيں بلکہ نماز احتياط ميں نيت کو زبان سے ادا کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٣ اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نماز ميں نيت کرے کہ چار رکعت نماز پڑھتا ہوں اور معين نہ کرے کہ ظہر ہے یا عصر،نہ اجمالی طور پر اور نہ ہی تفصيلی طور پر تو ا س کی نماز باطل ہے ۔

اجمالی نيت سے مراد یہ ہے کہ مثلاًنمازِ ظہر کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے مجھ پر واجب ہوئی ہے اس کو انجام دے رہا ہوں یا مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر نماز ظہر کی قضا واجب ہے اور وہ ظہر کے وقت ميں اس قضا نماز یا ظہر کی ادا نمازکوپڑھناچاہے توضروری ہے کہ جو نماز پڑھے اسے اجمالاہی سهی نيت ميں معين کرے مثلاًنمازِ ظہر کی قضا کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے ميری ذمہ داری ہے اسے انجام دے رہا ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۴ ضروری ہے کہ انسان شروع سے آخر تک نماز کی نيت پر قائم رہے،پس اگر وہ نماز ميں اس طرح غافل ہو جائے کہ اگر کوئی پوچهے کہ وہ کيا کر رہا ہے اور ا س کی سمجھ ميں نہ آئے کہ وہ کيا جواب دے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵۵ ضروری ہے کہ انسان صرف خدا کے لئے نماز پڑھے،لہٰذا جو شخص ریا کرے یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے اس کی نماز باطل ہے خواہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے ہو یا خدا اور لوگ دونو ں اس کی نظر ميں ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۶ اگر کوئی شخص نماز کا کچھ حصہ بھی خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ،بلکہ اگر نماز تو خدا کے لئے پڑھے ليکن لوگوں کو دکھانے کے لئے کسی خاص جگہ مثلاًمسجد ميں پڑھے یا کسی خاص وقت مثلاًاول وقت ميں پڑھے یا کسی خاص طریقے سے مثلاًباجماعت پ-ڑھے تب بھی اس کی نماز باطل ہے اور احتياط واجب کی بنا پروہ مستحبات، مثلاًقنوت بھی کہ جن کے لئے نماز ظرف کی حيثيت رکھتی ہے ،اگر خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۵۸

تکبيرةالاحرام

مسئلہ ٩ ۵ ٧ ہر نماز کی ابتدا ميں ”اللّٰہ اکبر“ کهنا واجب اور رکن ہے اور ضروری ہے کہ انسان لفظ” اللّٰہ“ اور لفظ”اکبر“ کے حروف اور” اللّٰہ اکبر“ کے دو لفظ پے درپے کهے۔یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دو لفظ صحيح عربی ميں کهے جائيںاور اگر کوئی شخص غلط عربی ميں کهے یا اس کا ترجمہ زبان پر جاری کرے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٨ احتياط واجب یہ ہے کہ انسان نماز کی تکبيرة الاحرام کو اس سے پهلے پڑھی جانے والی چيز مثلاًاقامت یا تکبير سے پهلے پ-ڑھی جانے والی دعا سے نہ ملائے۔

مسئلہ ٩ ۵ ٩ احتياط مستحب یہ ہے کہ انسان اللّٰہ اکبر کو اس کے بعد پڑھی جانے والی چيز مثلاًبِسم اللّٰہ الرَّحمنِ الَّرحيم سے نہ ملائے ليکن اگر ملا کر پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اکبر کے ’را‘ پر پيش دے(یعنی اکبرُپڑھے)۔

مسئلہ ٩ ۶ ٠ تکبيرةالاحرام کہتے وقت ضروری ہے کہ انسان کا بدن ساکن ہو اور اگر جان بوجه کر اس حالت ميں کہ جب بدن حرکت ميں ہو تکبيرة الاحرام کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ١ ضروری ہے کہ تکبير،الحمد،سورہ،ذکر اور دعا اتنی آواز سے پڑھے کہ خود سن سکے اور اگر ا ونچا سننے، بهرہ ہونے یا شوروغل کی وجہ سے نہ سن سکے تو ضروری ہے کہ اس طرح کهے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تو سن ليتا۔

مسئلہ ٩ ۶ ٢ اگر کوئی شخص گونگا ہو، یا زبان ميں کوئی ایسی بيماری ہو کہ جس کی وجہ سے صحيح طریقے سے”اللّٰہ اکبر“ نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح بھی کہہ سکتا ہو کهے اور اگر بالکل نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل ميں پڑھے، تکبير کے لئے اپنی زبان کو حرکت دے اور انگلی سے اشارہ بھی کرے۔

مسئلہ ٩ ۶ ٣ انسان کے لئے مستحب ہے کہ تکبيرة الاحرام کهنے سے پهلے یہ کهے :

یَا مُحْسِنُ قَدْ اَتَاکَ الْمُسِیْءُ وَ قَدْ اَمَرْتَ الْمُحْسِنَ اَنْ یَتَجَاوَزَ عَنِ الْمُسِیْءِ اَنْتَ الْمُحْسِنُ وَ اَنَا الْمُسِیْءُ فَبِحَق مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ تَجَاوَزْ عَنْ قَبِيْحِ مَا تَعْلَمُ مِنِّی ۔

ترجمہ :اے اپنے بندوں پر احسان کرنے والے خد ا! بندہ گنهگار تير ی بارگاہ ميں آیا ہے اور تو نے نيک لوگوں کو گنهگاروں سے در گزرکرنے کا حکم دیا ہے ۔تو احسان کرنے والا اور ميں نافرمان ہوں، لہٰذا محمد و آلِ محمد کے حق کا واسطہ، اپنی رحمت محمدوآلِ محمدپرنازل کر اور مجھ سے سر زد ہونے والی برائيوں سے جنہيں تو جانتا ہے در گزر فرما۔

مسئلہ ٩ ۶۴ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز کی پهلی تکبيراور دوران نماز دوسری تکبيریں کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرے۔

۱۵۹

مسئلہ ٩ ۶۵ اگر کوئی شک کرے کہ تکبيرة الاحرام کهی ہے یا نہيں تو اگر وہ قرائت کی کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکاہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ابهی کوئی چيز شروع نہيں کی تو تکبيرة الاحرام کهنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶۶ اگر تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد شک کرے کہ اسے صحيح ادا کيا یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے خواہ وہ کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز مکمل کرنے کے بعد اسے دهرائے۔

قيام(کھڑا ہونا )

مسئلہ ٩ ۶ ٧ تکبيرةالاحرام کہتے وقت قيا م اور رکوع سے پهلے والا قيام جسے”قيام متصل بہ رکوع “کها جاتا ہے رکن ہيں ، ليکن ان دو کے علاوہ مثلاًحمد وسورہ پڑھتے وقت قيام اور رکوع کے بعد کا قيام رکن نہيں ہے ،لہذ ا اگر کوئی شخص بھولے سے اسے تر ک کر دے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٨ تکبيرةالاحرام کهنے سے پهلے اور اس کے بعد تهوڑی دیر کے لئے کهڑا ہونا واجب ہے تاکہ یقين ہو جائے کہ تکبيرة الاحرام قيام کی حالت ميں کهی گئی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٩ اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے اور الحمد وسورہ کے بعد بيٹھ جائے اور پھر اسے یاد آئے کہ رکوع نہيں کيا تو ضروری ہے کہ کهڑ اہو جائے اور رکوع ميں جائے اور اگر سيدها کهڑا ہوئے بغير جھکے ہونے کی حالت ميں ہی رکوع کی طرف پلٹ آئے تو چونکہ قيام متصل بہ رکوع بجا نہيں لایا، اس لئے اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩٧٠ جب ایک شخص تکبيرةالاحرام یا قرائت کے لئے کهڑ ا ہو تو ضروری ہے کہ بدن کو حرکت نہ دے، کسی طرف نہ جھکے اور احتياط واجب کی بنا پر اختيار کی حالت ميں کسی جگہ ٹيک نہ لگائے، ليکن اگر مجبوری ہو یا رکوع کے لئے جھکتے ہو ئے پاؤں کو حرکت دے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧١ اگر اس قيام کی حالت ميں کہ جو تکبيرة الاحرام یا قرائت کے وقت واجب ہے کوئی شخص بھولے سے بدن کو حرکت دے یا کسی طرف جھک جائے یا کسی جگہ ٹيک لگائے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٢ احتياط واجب یہ ہے کہ قيام کی حالت ميں انسان کے دونوں پاؤںزمين پر ہوں ليکن یہ ضروری نہيں کہ بدن کا بوجه بھی دونوں پاؤں پر ہو لہذ ا اگر ایک پاؤں پر بھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٣ جو شخص ٹھيک طور پر کهڑا ہو سکتا ہو اگر وہ اپنے پاؤں اتنے کهلے رکھے کہ اسے کهڑا ہونا نہ کها جا سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر معمول کے خلاف کهڑا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273