ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126589 / ڈاؤنلوڈ: 4627
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب: ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

اصلاح ونظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیش کش : معاونت فرہنگی، ادارہ ترجمہ

کمپوزنگ: محمد جواد یعقوبی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہ السلام

طبع اول: ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ئ

تعداد: ٣٠٠٠

مطبع : لیلیٰ

۳

قال رسول اﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض'' ۔

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں :(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں ''۔

____________________

( صحیح مسلم: ١٢٢٧، سنن دارمی: ٤٣٢٢، مسند احمد: ج٣، ١٤، ١٧، ٢٦، ٥٩. ٣٦٦٤ و ٣٧١. ١٨٢٥، اور ١٨٩، مستدرک حاکم: ١٠٩٣، ١٤٨، ٥٣٣. وغیرہ)

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کی تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھی، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی ہے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۵

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گراں بہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کے بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں ، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواراں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۶

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققیں ومصنفیں کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفیں و مترجمیں کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علامہ سید مرتضی عسکری کی گرانقدر کتاب ''ایک سو پچاس جعلی اصحاب'' کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۷

کتاب ١٥٠ جعلی اصحاب کے سلسلہ میں دل کو ہلا دینے والی ایک تاریخی بحث

زیر نظر مقالہ ، دانشمند محترم جناب ''ہادی علوی'' کا اس کتاب کے سلسلہ میں تجزیہ ہے ، جو ٢٦ اگست ١٩٦٨ ء کو بغداد کے ایک روزنامہ ''تاخی'' اور مجلہ '' رسالة الاسلام '' کے شمار ٩ اور ١٠ میں جمادی الاول ١٣٨٨ ھ کو شائع ہوا ہے۔ جسے ہم نے اس کتاب کے مقدمہ کے طور پر درج کرنا بجا اور مناسب سمجھا ہے۔

تاریخ ، ایک وسیع کھیت کے مانند ہے ، جس پر ہر قسم کے بیج بوئے جاسکتے ہیں دیگر چیزوں کے مقابلہ میں اس پر زیادہ قسم کے بیج بوئے جاسکے ہیں ۔ دیگر چیزوں کے مقابلہ میں اس پر زیادہ قلم فرسائی کی جاسکتی ہے ۔

شاید تاریخ لکھنے والوں کی اس لئے کثرت ہے کہ اس پر قلم اٹھا نا آسان ہے ۔ یا اس علم کے تحت تاریخی رودادوں اور مو ضوعات کی اہمیت یا ہمارے زمانے میں یا مستقبل میں اس کے اثرات کی اہمیت اس کی کثرت و فراوانی کا باعث بنی ہے ۔

بہر حال تاریخ ، سادہ و آسان نہیں ہے ۔ لیکن اس وقت آسان بن جاتی ہے کہ جب لکھنے والا اس حالت میں ہو کہ اس سے داستان گڑھ لے اور اس داستان کے ذریعہ آرام طلب اور اپنے آپ سے بے خبر لوگوں کو سردیوں کی طوفانی راتوں میں اپنی میٹھی زبان سے گرم کر کے انہیں عیش و طرب میں مشغول کرے ۔

اگر ہم تاریخ پر علمی نقطۂ نظر سے نگاہ ڈالیں اور اس کے سنجیدہ مسائل کو سمجھنے کے لئے عاقلانہ کوشش کریں ، تو محسوس کریں گے کہ تاریخ اتنی آسان وسادہ نہیں ہے جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسی مقدار تک کہ ہم آسانی کے ساتھ اس میں تحقیق کریں اور اس کے منابع و مآخذکو پیدا کر کے ضروری تلاش و جستجوں کرکے نتیجہ تک پہنچیں ۔ یہ تین چیز یعنی تحقیق ، بحث اور نتیجہ حاصل کرنا ۔ ہر علم کی بنیاد ہے اور ان چیزوں کو حاصل کرنااغلب محنت و تکلیف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

واضح ہے کہ تاریخی تحقیق کی قدروقیمت ، اس سلسلے میں انجام دی جانے والی تلاش و جستجوپر منحصر ہے ۔ لیکن یہ تلاش و کوشش بے لوث اور اخلاص پر مبنی ہونی چاہئے اور مورد بحث موضوع بھی مشخص اور یکساں طرز پر ہونا چاہئے ۔

۸

ان واضع روشن اور سادہ حقائق کے پیش نظر ہم آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں ۔کہ کتاب ''١٥٠ جعلی اصحاب ''قابل احترام کتابوں میں سے ایک ہے ۔ کیونکہ اس کتاب میں زیر بحث موضوعات کے انتخاب میں جس دقت ا ور باریک بینی کا خیال رکھا گیا ہے وہ طولانی اور عمیق کوششوں کا مظہر ہے ۔ اس میں انتہائی صبر و شکیبائی سے کام لیا گیاہے اور یہی تمام علمی بحث و تحقیق کا مقصد ہے۔

اس کے با وجود کہ اس کتاب نے اپنے اصلی مقصد کو صیغہ راز میں رکھا ہے ۔ ،لیکن اس کا موضوعبحث، تحقیق کرنے والے تمام لوگوں خواہ عرب ہوں یامستشرقین کے لئے ایک گراں قیمت و مستند علمی مآخذ و منبع ہے۔

اس کتاب کے مصنف جناب ''سید مرتضیٰ عسکری ''بغداد کے معروف علماء میں سے ہیں ۔ موصوف نے جو بحث اس کتاب میں شروع کی ہے ، حقیقت میں ان کی اس بحث کا سلسلہ ہے جو انہوں نے اپنی دوسری کتاب "عبداﷲ بن سبا"میں ذکر کیا ہے۔

مولف نے ان دو کتابوں میں "سیف بن عمر"نامی ایک مورّخ کا نام لیا ہے جس نے بنی امیّہ اور بنی عباس کی حکومت کو درک کیا ہے ۔ اس زمانے میں جب عالم اسلام میں کتابیں لکھنے کا رواج تھا،اس مورّخ نے بھی اسلام کی فتوحات اور لشکر کشیوں پر روشنی ڈالی ہے۔

اگرچہ سیف کی کتاب "فتوح" مفقود ہوگئی ہے اور اس وقت موجود نہیں ہے ۔لیکن اس میں لکھی گئی روایتیں اور تاریخی وقائع و روداد پوری کی پوری ان مشہور ،معروف اور معتبر منابع میں درج ہیں ،جنہوں نے سیف کی بات پر اعتبار کیا ہے اوران میں سب سے پیش قدم ''تاریخ طبری'' ہے۔

جناب عسکری نے اس بحث و تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ سیف بن عمر، ایک جھو ٹ بولنے والا اور جھوٹ گڑھنے والا مورّخ تھا اور اس نے حوادث اور رودادوں کو اپنی خیالی دنیا میں خلق کیا ہے اور انھیں صحیح اور معقول دکھانے کے لئے ایک سلسلہ وار اغراض و مقاصد سے استفادہ کیا ہے جن کا اصل موضوع جس کی بناء پر اس قسم کی روداد تحریر کی گئی ہیں سے کوئی ربط نظر نہیں آتاہے ۔ ان علل و عوامل میں سے بعض حسب ذیل ہیں ۔

۹

١۔اموی حکام کی مصلحتوں کا تحفظ :

سیف نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی حکومت کے دامن میں گزار اہے۔ اس کی داستانوں اور اس کی روایتوں میں بنی امیہ کی طرفداری اور ان کی مصلحتوں کا تحفظ واضع طور پر دکھائی دیتا ہے۔

٢۔قبیلۂ تمیم کے منافع کی رعایت :

سیف نے اس سلسلہ میں تعصب کا کمال دکھایاہے۔

اس نے اس تعصب کو سیف نے قبیلۂ تمیم کے نامدار اور معروف سرداروں اور بہادروں کی اسلام کی فتوحات میں دلاور یوں اور شجاعتوں کے کارناموں کی تشریح کرتے ہوئے منعکس کیا ہے۔

جناب عسکری کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب داستانیں سیف کے افسانے اور اس کے خیال کی تخلیق ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

٣۔ اسلام کی تاریخ میں شبہہ ایجاد کرکے اس میں رخنہ ڈالنا :

مؤلف محترم نے اسے سیف کی زند یقیت کا نتیجہجانا ہے ۔

سیف نے اپنی داستانوں میں بہت سے چہروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے طور پر خلق کیا ہے ۔ جنا ب عسکری کے شمار کے مطابق اس کے جعلی صحابیوں کی تعداد ١٥٠ تک پہنچی ہے ۔

اس کے علاوہ سیف نے اپنی داستانوں کے لئے راویوں کے طور پر بعض چہرے ، اماکن اور بہت سی جغرافیائی جگہیں خلق کی ہیں ۔ ان کا ، نہ صرف جغرافیہ کے نقشہ میں کوئی سراغ نہیں ملتا ہے بلکہ سرے سے گیتی پر ان کا وجود نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے بے شمار حوادث ،روداد اور وقائع بھی خلق کئے ہیں ۔

دانشمند محترم کی اس کتاب میں سیف بن عمر کے ٣٩ جعلی اصحاب اور خیالی پہلو انوں کے بارے میں مفصل بحث ، تحقیق و تجزیہ کیا گیا ہے۔ جناب عسکری کا پکا اعتقاد ہے کہ اس قسم کی وقائع میں ایسے چہروں کا ہرگز وجود نہیں تھا۔

۱۰

جناب عسکری کی یہ تحقیق درج ذیل نکات پر مشتمل ہے :

١۔سیف بن عمر اس قسم کی روایتوں کا تنہا مصدر و ماخذ ہے طبری نے ان روایتوں کو اس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد ابن "ابن " اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلد وں نے ان ہی روایتوں کو طبری سے نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

طبری کے علاوہ چند گنے چنے مؤرخین کے پاس بھی سیف کی کتاب "فتوح "کے نسخے موجود تھے اور انہوں نے ان سے روایتیں کی ہیں ۔

لیکن جن مصادر میں سیف کی روایتوں پر اعتنا نہیں کیا گیا ہے اور ان سے مطلب نقل نہیں کیا گیا ہے ، ان میں اس کی یہ داستانیں ،دلاوریاں اور جعلی سورما وغیرہ دکھائی نہیں دیتے ۔ ان میں سیرت پر لکھی گئی کتابوں کے علاوہ بلا ذری کی تالیفات میں سیف کی داستانیں ،اس کے خلق کئے گئے پہلوان اور وقائع دکھائی نہیں دیتے ، بلکہ ان میں اس کی تحریف شدہ ، روایتیں ، وقائع اور تاریخی رودادیں دوسری صورت میں درج ہوئی ہیں ، جو سیف کی روایتوں کے بالکل مختلف ہیں ۔

طبری نے بھی تاریخی واقعات نقل کرنے میں صرف سیف کی روایتوں پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس نے دوسرے منابع سے ایسی روایتیں ، بھی نقل کی ہیں جو سیف کی روایتوں سے تناقض اور اختلاف رکھتی ہیں ۔

٢۔سیف نے اپنی روایتوں میں جن مآخذ کا سہارا لیا ہے ، وہ بذات خود اس کی روایتوں کے جعلی ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ جناب عسکری نے سیف کے راویوں کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں سے اکثر کا نام علم رجال کی کتابوں میں موجود نہیں ہے، یہی امران کے یقین کا سبب بنا ہے کہ اس قسم کے راوی سیف کے خیالات کی مخلوق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں ۔

۱۱

٣۔ سیف کی اکثر جنگیں اور فتوحات ، تو ہمات اور خلاف معمول روداد وں پر مشتمل ہیں ۔ جیسے بعض جنگوں میں حیوانوں کا خاندان تمیم کے بعض سپہ سالاروں کے ساتھ فصیح عربی میں گفتگو کرنا ! واضح ہے کہ اس قسم کے مطالب علم ومنطق کی کسوٹی پر نہیں اترتے ، خواہ انہیں سیف نے کہا ہو یا کسی اور نے(۱)

ہم دیکھتے ہیں کہ سیف تعجب انگریز مطالب کو پیش کرتا ہے اور انہیں بڑی مہارت کے ساتھ آپس میں جوڑ تا ہے اور خلاف توقع نتیجہ حاصل کرتا ہے ۔ مثلاً ایک مضبو ط اور مستحکم قلعہ جو مسلسل دو سال تک

مسلمانوں کے کئی حملے اس کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تھے ، کسی فوجی حکمت عملی کے ذریعہ تسخیر کئے بغیر سیف نے دکھایا ہے کہ وہ قلعہ ایک دم اور مختصر وقت میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایسے تسخیر ہوا کہ تمام لوگ ،حتی مسلمان سپاہی بھی حیرت اور تعجب میں پڑ گئے۔

یا یہ کہ سیف کہتا ہے ، ایک فوج میدان کا رزار کے فاتحوں کے مقابلے میں آخری لمحہ تک پائداری اور استقامت سے لڑی ۔ اپنے دشمن کے حملوں کو شجاعت کے ساتھ پسپا کیا ۔ اپنے مورچوں کا

____________________

١۔انبیائے کرام کے معجزات اس سے مستثنی ہیں ۔

۱۲

پوری طاقت کے ساتھ دفاع کیا۔ اور ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے، لیکن ، اچانک اسلام کے سپاہیوں کے ایک فوری حملے کے مقابلہ میں تاب نہ لاکر اپنی پائداری کو ہاتھ سے کھو بیٹھتی ہے اور اس کا شیرازہ بکھر جاتاہے !!

سیف کے نقطہ نظر کے مطابق جنگوں اور فتوحات میں مسلمانوں نے جو اکثر کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اسی قسم کے اتفاقات اور معجزات کی مرہوں منت ہیں ، جو جنگ کے دوران یا اس سے قبل واقع ہوئے تھے !

حوادث اور وقائع کے بارے میں اس قسم کے بیانات تاریخ لکھنے والوں کے لئے سیف کے جھوٹ اور جعلی روایتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور ہر قسم کے تعصب سے بالا تر علم ومنطق کے ذریعہ سیف کو اپنیسرزنش کا نشانہ بناتے ہیں ۔

یہاں پر استاد عسکری کے لئے یہ امر ممکن بن جاتا ہے وہ زیر بحث موضوع کے بارے میں منابع و مصادر میں ضروری جانچ پڑتال اور تلاش و کوششوں کے بعد اس خطرناک تاریخ نویس پر آخری اور کاری ضرب لگائیں اور پوری مہارت اور حکمت عملی کے ساتھحیرت انگزیزطور سے سیف کی جعلی روایتوں کو دوسرے منابع سے جدا کر کے اسلامی تاریخ کے منابع کو اس دروغ گو سے آزاد کرانے میں کامیا ب ہو جائیں ۔

یہاں پر ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ، یہ کیسے ممکن ہو سکا ہے کہ سیف کے یہ کارنامے گزشتہ مورخین کے لئے پوشیدہ رہے ہوں ؟

۱۳

ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ: ایسا نہیں تھا کہ اس کام کے بارے میں گزشتہ مؤرخین بے خبر ہوں !خود طبری نے، جس نے دوسرے تاریخ نویسوں کی نسبت سیف کی کتاب پر زیادہ اعتماد کیاہے ،پوری طرح اس کی روایتوں ،جیسے " واقدی یا اپنے اسناد کے ذریعہ سیف کی روایتوں کی تردید کی ہے ۔ دوسرے مؤرخین اور سیرت لکھنے والوں نے بھی سیف کی کسی روایت کو نقل نہیں کیا ہے ، جیسے :

بلاذری ،جو اسلامی فتوحات کے بارے میں مطلق طور پر سب سے بڑا مؤرخ سمجھا جاتا ہے اور اسی طرح یعقوبی، مسعودی اور دیگر لوگوں نے بھی سیف کی روایتوں کو کہیں سے بھی نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے ۔

راوی شناس اور علم درایت کے ماہر بھی سیف کی ان کارستانیوں سے بے خبر نہیں رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض نے واضح طور سے اس پر حملے کر کے اسے جھوٹ بولنے اور احادیث گڑھنے کا ملزم ٹھہرایا ہے۔

لیکن ان لوگوں کے لئے بھی اس حد تک تاریخی اہمیت اور احترام کے ، مالک ہونے کے باوجود اس کام کو اس طرح انجام تک پہنچانا ممکن نہیں تھا ، جس طرح جناب عسکری نے اسے انجام تک پہنچایا ہے ۔

مقالہ کے آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مؤلف محترم نے اصطلاح " افسانہ " (اسطورہ)کو پوری کتاب میں کافی جگہوں پر استعمال کیا ہے اور سیف کی بے بنیاد روایتوں کے لئے اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے جبکہ میری نظر میں اس قسم کے مطلب کے لئے ایسی اصطلاح کا استعمال کرنے میں خاص توجہ اور کافی دقت کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ" افسانہ "ایسالفظ ہے جو آج کی دنیا کی علمی بحثوں میں گزشتہ زمانے کی بڑی جنگوں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے ، کیوں کہ ان جنگوں کے واقع ہونے اوران کی سنسنی خیز رودادوں

۱۴

میں پریوں اور خدائوں کا براہ راست دخل ہوتا تھا ، جیسے بابلیوں اور یونا نیوں کے افسانے ، جنھیں انگریزی میں " متھ" (۱)کہاجاتا ہے ۔

ایک دوسری اصطلاح بھی انگیریزی میں "لبجنڈ " (۲) نام کی موجود ہے جو غیر عادی اور نا قابل یقین رودادوں کے لئے مخصوص ہے ۔ البتہ ایسی داستانوں میں پریوں اور خداوئں کی مداخلت کی بات

نہیں ہے ۔ اس قسم کی داستانوں کے نمونے " قدیسیں " اور اولیا ء وغیرہکی معجزاتی داستانوں میں پائے جاتے ہیں ، اور عرب محققین ابھی تک اس اصطلاح کے نعم البدل کے بارے میں کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے ہیں ۔ لیکن میں ترجیح دیتا ہوں کہ اس سلسلہ میں بجائے افسانہ "خرافہ"کی اصطلاح سے استفادہ کیا جائے تاکہ ان دو لفظوں کے اصلی معنیٰ ،جیسے کہ انگریز زبان میں اس کے لئے مشخص ہوئے ہیں محفوظ رہیں ۔

جب ہم سیف بن عمر کی تخلیقوں کو دیکھتے ہیں تو پاتیہیں کہ ان میں بڑی داستانوں اور خداوئں اور پریوں کی جنگوں کا رنگ و روپ نہیں پایا جاتا ہے،بلکہ یہ داستانیں بھاری اور آرام صورت میں ایک منظم تاریخی راستہ پر آگے بڈھتی نظر آتی ہیں اور اس لحاظ سے اس کی کتاب "فتوح" اسلوب اور روش کے مطابق تاریخ کی دوسری کتابوں سے مختلف نہیں ہے۔ اس لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ اس کی روایتوں کو "افسانہ "کہا جائے کیونکہ جو حوادث اور بے شمار غیر معمولی واقعات سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے ہیں وہ ''افسانہ'' اور متھ خرافہ"یا انگریزی میں "لجنڈ( Legend ) "کے مفہوم سے نزدیک تر ہے۔

____________________

١۔ Myth

٢۔ Legend

۱۵

دوسری جانب سیف کی تمام روایات اور اخبار ، معجزات اور غیر عادی کارناموں پر مشمل نہیں ہیں ، بلکہ اس کے دوسرے جھوٹ بھی ایسی چیزوں پر مشتمل نہیں ہیں ۔

قدیم زمانے کے لوگوں نے بھی جھوٹی خبر کے لئے متعدد نام رکھے ہیں یہ نام کثرت استعمال کی وجہ سے اصطلاح کی صورت اختیار کر گئے ہیں ، جیسے : موضوع ومنحول یعنی ''جعلی اور بے بنیاد ''۔ لیکن میں اپنے آپ میں یہ صلاحیت محسوس نہیں کرتا کہ یہاں پر کسی خاص لفظ کو اس کی جگہ پر تجویز کروں البتہ اس مختصر فرصت میں جو کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ایسے مباحث میں اصطلاحات استعمال کر نے میں کافی دقت اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ استاد محترم و ارجمندجناب سید مرتضیٰ عسکری ، خاص اور مناسب الفاظ کو اپنے علمی مباحث میں استعمال کرنے کے سلسلے میں دوسروں سے دانا اور آگاہ تر ہیں ۔

____________________

نوٹ : اس مقالہ کے بعض مطالب کے سلسلے میں مؤلف کا جواب اور نقطۂ نظر اسی کتاب کے آخر میں ملا حظ فرمائیں ۔

۱۶

اصحاب کو پہچاننے کا ایک طریقہ

سپہ سالاری

کتاب کے اس حصہ میں ہم سیف کے ایسے جعلی اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالیں گے جنہیں مکتبِ خلفاء کے علماء نے صرف اس بناء پر کہ سیف نے اسلام کی فتوحات میں سردار اور سپہ سالار کی حیثیت سے ان کا نام لیا ہے ، انہیں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب قرار دیکر ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور انہیں اس عنوان سے درج کیاہے ۔

ابن "ابن " حجر اپنی کتاب " اصابہ " کے مقدمہ میں " صحابی کی تعریف" میں یوں لکھتے ہیں :

جو کچھ ہمیں صحابی کی پہچان کے سلسلے میں اپنے اسلاف سے مختصر اور یہاں وہاں سے ہاتھ آیا ہے ، اگر چہ وہ یقینی اور واضح نص نہیں ہے ، پھر بھی وہ مطلب ہے جسے " ابن "ابن " ابی شیبہ "(۱) نے ایک ناقابل اعتراض مآ خد سے نقل کر کے اپنی کتاب

____________________

١۔ ابوبکر ، عبداﷲ بن محمد بن ابراہیم بن عثمان بن ابی شیبہ کوفی عبنسی (وفات ٢٣٥ھ)ہے ۔ انکی تصنیفات میں سے صرف تین حصے حیدر آباد دکن میں شائع ہوئے ہیں ۔

۱۷

''مصنف'' میں یوں درج ہے : صدر اسلام کے جنگوں میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کرتے تھے۔

یہ عالم ابن حجر اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں '' صحابی کو پہچاننے کا ایک راستہ'' کے عنوان کے تحت لکھتا ہے :

ایک قاعدہ موجود ہے جس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کا صحابی ہونا ثابت ہوتا ہے۔یہ قاعدہ تین علا متوں پر مشتمل ہے۔ ان تین علامتوں میں سے کسی ایک کی موجودگی کسی فرد میں موجود گی اس امر کے لئے کافی ہے کہ اس شخص پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہونے کا حکم لگایا جائے۔

ان میں پہلی علامت یہ ہے جسے ابن "ابن " ابی شیبہ نے ایک ناقابل اعتراض منبع سے نقل کر کے اپنی کتاب میں لکھاہے :

صدراسلام کے جنگوں میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کیا جاتا تھا۔

اس کے بعد ابن "ابن " حجر اپنی بات کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

اگر کوئی شخص اسلام کی جنگجوں اور فتوحات کی رودادوں اور روایتوں کی تحقیق اور جستجو کرے تو اسے اس قسم کے اصحاب کی بڑی تعداد ملے گی جن کا ہم نے اپنی کتاب کے ابتدائی حصہ میں ذکر کیا ہے ۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ہم نے ابن "ابن " حجر کی اس روایت کے بارے تحقیق اور جستجو کرنے کا اراد کیا جسے اس نے ابن ابی شیبہ سے نقل کیا ہے اور ابن حجر اور اس کے ہم فکروں نے اس روایت کو صحابی کی پہچان کے لئے قطعی دلیل قرار دیکر اصحاب کے حالت پر تشریح و تفسیریں لکھی ہیں ، لیکن اس راستہ میں تمام تلاش و کوششوں کے باوجود اس روایت کے مصدر و مآخذکے طور پر سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا ۔ اسی طرح تاریخ طبری اور تاریخ ابن عسا کرنے بھی یہی مطلب لکھا ہے ۔ یہ علماء سیف سے نقل کر کے لکھتے ہیں :

۱۸

١۔ جنگوں میں افسر اور سپہ سالارا صحاب میں سے منتخب ہوتے تھے ، مگر یہ کہ ان میں سے کوئی موجود نہ ہوتا ۔

٢ ۔طبری ایک اور روایت کے مطابق سیف سے نقل کرتا ہے :

''عمر بن محمد ''نے ''شعبی'' سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

انہی دنوں ، جب خلیفہ ابوبکر نے ''خالد بن ولید و عیاض بن غنم '' کو ماموریت پر عراق بھیجا تھاتو انھیں لکھا تھا :

جن لوگوں نے مرتدوں سے جنگ کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اسلام پر باقی رہے، ان کی ایک فوج تشکیل دو۔اس فوج میں اور تمہارے ہمراہ کسی بھی مرتد کو جنگ میں شرکت نے کاتب تک حق نہیں ہے جب تک میرا حکم پہنچے۔

اس کے بعد شعبی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

ابوبکر کی خلا فت کے زمانہ میں کسی مرتد نے جنگجوں میں شرکت نہیں کی ۔

٣۔مزید طبری سیف سے نقل کر کے اسی مأخذکے مطابق لکھتا ہے:

خلیفہ ابوبکر جب تک زندہ تھے ، کسی بھی جنگ میں مرتدوں سے مدد طلب نہیں کی ۔ لیکن خلیفہ عمر ان سے مدد لیتے تھے ، مگر ، انھیں کبھی سپہ سالار نہیں بناتے تھے ، مگر ایک مختصر تعداد کو یہ عہدہ سونپا ہے جن کی تعداد دس افراد یا اس سے کم تر تھی ۔ وہ صحابی کو سپہ سالا ر کے عہدہ پر انتخاب کرنے میں کبھی غفلت نہیں کرتے تھے ۔

۱۹

٤۔ اس نے ایک اور روایت میں سیف سے نقل کر کے لکھا ہے :

سب کہتے ہیں کہ ابو بکر نے ارتداد کے جنگوں ،عراق پر لشکر کشی اور ایرانیوں سے جنگ میں مرتدوں کے گروہ سے مدد طلب نہیں کی ہے۔ وہ مرتدوں سے سپاہی کی حیثیت سے تو کام لیتے تھے لیکن ان میں سے کسی ایک کو امیر یا سپہ سالارمنتخب نہیں کرتے تھے ۔ سیف نے اس مطلب کو متعدد روایتوں میں بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے کہ ابوبکر اور عمر کی خلافت کے زمانہ میں اسلام کے سپاہیوں کی کمانڈ ہمیشہ صحابی کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور صحابی کے علاوہ کسی کو یہ عہدہ نہیں سونپا جاتاتھا ۔ لیکن یہ تمام حالات سیف کی مذکورہ روایتوں کے باوجود خلیفہ عمر کی طرف سے ''اِمرؤ القیس'' کی ''قضاعہ'' (۱)کے مسلمان پر حکومت جس نے اس سے پہلے ایک رکعت نماز بھی نہیں پڑھی تھی کے ساتھ واضع تناقص رکھتے ہیں ۔ درج ذیل داستان ملا حظہ فرمائیے:

ابوالفرج اصفہانی اپنی کتاب ''اغانی '' میں یوں لکھتے ہیں :

''اِمرؤ القیس '' نے عمر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا ۔اور اس سے پہلے کہ اس

____________________

١۔ قضاعہ '' حیدان ، بہراء ، بلی اور جہینہ '' وغیرہ قبائل پر مشمل ایک بڑے قبائل کا مجموعہ ہے ۔ ابن "ابن " حزم نے اپنی کتاب انساب (٤٤٠۔۔٤٦٠) میں اس کی تشریح کی ہے ۔ اس کا مرکز پہلے ''شجر'' اس کے بعد ''نجران ''اور اس کے بعد شام میں تھا ۔ اس قبیلہ کی سرزمینوں کی حدود وسیع تھیں اور یہ شام ، عراق اور حجاز تک پہلی ہوئی تھی ۔ معجم القبائل العربیہ۔ لفظ قضاعہ (٢/٩٥٧) ملاحظہ ہو

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

( وماأَرسلنا من رسول الابلسان قومه لیبیّن لهم ) ...)( ۱ )

ہم نے ہر پیغمبر کو اسی کی زبان میں مبعوث کیا تاکہ انہیں سمجھا سکے اور وضاحت کرسکے۔

نیز سورۂ اعراف اور ہود میں فرماتا ہے:( و الیٰ عاد اخاه هودا ) اور قوم عاد کی طرف '' نوح کے بھائی ہود'' کو بھیجا نیز سورۂ اعراف ، ہود اور نمل میں فرماتا ہے : و الیٰ ثمود اخاہ صالحاً میں نے قوم ہود کی طرف '' ان کے بھائی صالح'' کو بھیجا اور سورۂ اعراف، ہود اور عنکبوت میں فرماتا ہے :( والیٰ مدین اخاه شعیبا ) ؛ مدین کی طرف ''ان کے بھائی شعیب'' کو مبعوث کیا ۔

اس انتخاب کی حکمت بھی واضح ہے، کیونکہ خد اکا رسول اپنی قوم کے درمیان اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی وجہ سے قوی اور مضبوط ہوتا ہے اور تبلیغی وظائف کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے ، جیساکہ خد اوند عالم نے سورۂ ہود میں قوم شعیب کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا:( ولو لا رهطک لرجمناک ) اگر تمہارے عزیز و اقارب نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔خد اپیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت اور ان پر حجت تمام کرنے کے لئے بھیجتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء میں فرمایا:

( ورسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علٰی الله حجة بعد الرسل )

ایسے رسول جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ ان پیغمبروںکے بعد لوگوں کے لئے خدا پر کوئی حجت نہ رہ جائے اور سورۂ اسراء میں فرماتا ہے:( ۲ )

( وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً )

ہم اس وقت تک عذاب نہیںکرتے ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔( ۳ )

اورسورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( ولکل امة رسول فاذا جاء رسولهم قضی بینهم بالقسط وهم لا یظلمون ) ( ۴ )

ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ہوگا، جب ان کے درمیان پیغمبر آجائے گا تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔

جو امتیں پیغمبر کی نافرمانی کرتی ہیں وہ دنیاوی اور اخروی عذاب کی مستحق ہوجاتی ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرعون اور اس سے پہلے والی امت کی خبر دیتے ہوئے سورۂ حاقہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱)ابراہیم۵(۲)نسائ۱۶۵(۳)اسرائ۱۵(۴)یونس۴۷

۲۰۱

( فعصوا رسول ربهم فأخذهم أخذةرابیة )

انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو خدا وند عالم نے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا۔( ۱ )

پیغمبر کی نافرمانی بعینہ خدا کی نافرمانی ہے ، جیسا کہ سورۂ جن میں ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یعص الله و رسوله فان له نار جهنم خالدین فیها ابداً )

جو بھی خد ااور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔( ۲ )

خدا وند عالم نے رسولوں کو انبیاء کے درمیان سے منتخب کیا اور ہمیشہ رسولوں کی تعداد انبیاء سے کم ہے جیسا کہ ابوذر کی روایت میں ہے کہ انہوںنے کہا:

و قلت یا رسول الله :''کم هو عدد الانبیائ، قال : ماة الف و اربعة و عشرون الفاً الرسل من ذلک ثلاثمأة و خمسة عشر جما غفیراً ۔''

ابوذر نے کہا: یا رسول اللہ: انبیائ(ع) کی تعداد کتنی ہے ؟ فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار ، اس میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں ان کی مجموعی تعداد یہی ہے ۔( ۳ )

جو میں نے بیان کیا اس اعتبار سے ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے ، جیسا کہ ''یسع'' رسول نہیں تھے لیکن نبی اور موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر جو شریعت لیکر آئے، انہوں نے بعض گز شتہ شریعت کے مناسک کو نسخ کر دیا جیساکہ حضرت موسیٰ کی شریعت اپنے ما قبل شریعتوں کے لئے ایسی ہی تھی، بعض پیغمبر کچھ ایسی شریعت لیکر آئے جو سابق شریعت کی تجدید کرنے اور کامل کرنے والی تھی، جس طرح حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت ابراہیم خلیل کے آئین حنیف کی نسبت، خدا وند سورۂ نحل میں فرماتا ہے :

( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراهیم حنیفاً )

پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ حضرت ابراہیم کے خالص آئین کا اتباع کرو...( ۴ )

اور سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)حاقہ۱۰(۲)جن۲۳

(۳)مسند احمد، ج۵، ص ۲۶۵۔۲۶۶، معانی الاخبار، صدوق ص ۳۴۲، خصال، طبع مکتبہ صدوق، ج۲ ص ۵۳۳، بحار الانوار، ج۱۱، ص ۳۲، حدیث ۲۴، مذکورہ روایت کی عبارت مسند احمد سے اخذ کی گئی ہے ۔ (۴) نحل۱۲۳

۲۰۲

( الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً ) ( ۱ )

آج تمہارے لئے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لئے آئین کے عنوان سے پسند کیا۔

آئندہ بحث میں انبیاء کے وصیوں کی خبروں کی تحقیق کریں گے۔

ج۔ وصی و وصیت

وصی کتاب اور سنت میں ، ایک ایسا انسان ہے جس سے دوسرے لوگ وصیت کرتے ہیں تاکہ اس کے مرنے کے بعد ان کی نظر میں قابل توجہ امور پر اقدام کرے خواہ، اس لفظ اور عبارت میں ہو کہ '' میں تمہیں وصیت کر رہا ہوں کہ میرے بعد تم ایسا کرو گے ، یاان الفاظ میں ہو: میں تم سے عہد لیتا ہوں اور تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ میرے بعد ایسا ایسا کرو گے اس میں ، کوئی فرق نہیں ہے ، جس طرح سے وصیت کے بارے میں دوسروں کو خبر دینے میں بھی لفظ وصی اور وصیت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر یہ کہے : فلاں میرے بعد میر اوصی ہے ، یا کہے : فلاں میرے بعد ایسا ایسا کرے گا یا جو بھی عبارت وصیت کا مفہوم ادا کرے اور اس پر دلالت کرے کافی ہے۔

نبی کا وصی بھی ،وہ انسان ہے جس سے پیغمبر نے عہد و پیمان لیا ہو تاکہ اس کے مرنے کے بعد امور شریعت اور امت کی ذمہ داری اپنے ذمے لے اور اسے انجام دے۔( ۲ )

انبیاء کے وصیوں کے بارے میں جملہ اخبار میں سے ایک یہ ہے جسے طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہہے : جناب حوا نے حضرت آدم کی صلب سے ''ھبة اللہ'' کوجو کہ عبرانی زبان میں ''شیث'' ہے جنم دیا تو حضرت آدم نے انہیں اپنا وصی قرار دیا، حضرت شیث سے بھی ''انوش'' نامی فرزند پیدا ہوا اور انہوں نے اسے بیماری کے وقت اپنا وصی بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے ، پھر اس کے بعد'' انوش'' کی اولاد ''قینان'' اور دیگر افراد دنیا میں آئے کہ اپنے باپ کے وصی ' 'قینان'' بنے، قینان سے بھی ''مھلائیل الیرد'' اور دیگر گروہ وجود میں آئے کہ جس میں وصیت ''یرد'' کے ذمہ قرار پائی، یرد سے بھی ''خنوخ'' کہ جن کو ادریس کہا جاتا ہے، دیگر فرزندوں کے ساتھ پیدا ہوئے اور جناب ادریس اپنے باپ کے وصی بنے اور ادریس سے ''متوشلخ'' اور کچھ دیگر افراد پیدا ہوئے اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی۔

____________________

(۱) سورۂ مائدہ ۳(۲)مزید تفصیل کیلئے،''فرہنگ دو مکتب در اسلام''، ج۱ ص بحث وصی کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۳

ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں جناب ادریس کے بارے میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: سب سے پہلے پیغمبر جو آدم کے بعد مبعوث ہوئے ادریس تھے اور وہ ''خنوخ بن یرد'' ہیں۔

اور خنوخ سے بھی 'متوشلخ'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی اور متوشلخ سے ''لمک'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وہ اپنے باپ کے وصی ہو گئے اور لمک سے حضرت ''نوح'' پیداہوئے۔( ۱ )

مسعودی نے ''اخبار الزمان'' میں ایک روایت ذکر کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

خد اوند عالم نے جب حضرت آدم کی روح قبض کرنی چاہی ، تو انہیں حکم دیا کہ اپنے فرزند شیث کو اپنا ''وصی'' قرار دیں اور ان علوم کی انہیں تعلیم دیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے تو انہوںنے ایسا ہی کیا اور نقل کیا ہے : شیث نے اپنے بیٹے قینان کو صحف کی تعلیم دی زمین کے محاسن اچھائیوں اور ذخائر کو بیان کیااس کے بعد انہیں اپنا وصی بنایا اور نماز قائم کرنے،زکوٰة دینے ، حج کرنے اور قابیل کی اولاد سے جہاد کرنے کا حکم دیا ۔ انہوںنے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور سات سو بیس سال کے سن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

قینان نے اپنے فرزند ''مہلائیل'' کو وصی بنایا اور انہیں جس کی خود انہیں وصیت کی گئی تھی وصیت کی مہلائیل کی عمر۸۷۵ سال تھی، انہوںنے بھی اپنے فرزند ''بوادر'' کو وصی بنایاانہیں صحف کی تعلیم دی اور زمین کے ذخیروں او رآئندہ رونما ہونے والے حوادث سے آگاہ کیا او ''سرِّ ملکوت'' نامی کتاب انہیں سپرد کی، یعنی وہ کتاب جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور اسے سربستہ اور دیکھے بغیر ،ایک دوسرے سے وراثت میں پاتے تھے، بوارد سے ''خنوخ'' نامی فرزند پیدا ہو ایہ وہی ادریس نبی ہیں کہ خد اوند عالم نے انہیں عالی مقام بنایا انہیں ادریس اس لئے کہتے ہیں کہ انہوںنے خدا وند عز و جل کی کتابوں اور دین کی سنتوں کو بہت پڑھا اور اس پر عمل کیا ہے ، خدا وند عالم نے ان پر تیس عدد صحیفے نازل کئے کہ ان کو ملاکر اس زمانے میں نازل ہونے والے صحیفے کامل ہوئے۔''یوارد'' نے اپنے فرزند ''خنوخ'' (ادریس) کو اپنا وصی بنایا اور اپنے باپ کی وصیت ان کے حوالے کی اور جو علوم ان کے پاس تھے ان کی تعلیم دی اور'' مصحف سر'' اُن کے حوالے کیا...۔

یعقوبی نے اخبار اوصیاء کو سلسلہ وار اور طبری و ابن اثیر سے زیادہ بسط و تفصیل سے نقل کیا ہے اس کے علاوہ دوسرے کی اخبار بھی وصیت کے سلسلہ میں ذکر کئے ہیں ، مثال کے طور پر کہتا ہے : حضرت آدم کی

____________________

(۱)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱ ص ۱۵۳۔۱۶۵، ۱۶۶، تاریخ ابن اثیر، ج۱ ص ۱۹، ۲۰، شیث بن آدم کے بارے میں ، طبقات ابن سعد، ج۱ ص ۱۶، ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں حضرت آدم کی وصیت کا ،جو انہوں نے اپنے شیث کو کی تھی، ذکر کیا ہے ۔

۲۰۴

وفات کے وقت ان کے فرزند شیث اوردوسرے بیٹے،پوتے ان کے پاس آئے تو انہوںنے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خداسے برکت اور کثرت طلب کی اور اپنے بیٹے شیث کو اپنا وصی بنایا اور ذکر کیا ہے :

حضرت آدم کی موت کے بعد آپ کے فرزند شیث آ گے بڑھے اور اپنی قوم کو تقوای الٰہی اور عمل صالح کا حکم دیا...یہاں تک کہ شیث کی وفات کے وقت ان کے فرزند اور پوتے کہ اس دن انوش، قینان، مہلائیل یرد اور خنوخ تھے اور ان کے بچے اور بیویاں ان کے قریب آئیں اور شیث نے ان پر درود بھیجا اور خدا وند عالم سے ان کے لئے برکت ، ترقی اور زیادتی کی درخواست کی اور ان کی طرف مخاطب ہو کر انہیں قسم دی کہ.... قابیل ملعون کی اولاد سے معاشرت نہیں کریں گے اور فرزند انوش کو وصی بنایا۔

یعقوبی اس طرح سے سلسلہ وار اوصیاء کی خبروں کو ان کے زمانہ کے وقایع کے ذکر کے ساتھ حضرت نوح کی خبر وصیت تک پہنچ کر کہتاہے : حضرت نوح کی وفات کے وقت آپ کے تینوں بیٹے سام، حام اور یافث اور ان کی اولاد ان کے پاس جمع ہوگئی پھر حضرت نوح کی وصیت کی تشریح کرتا ہے اور اسی طرح انبیاء کے اوصیاء کے تسلسل کوبنی اسرائیل اور ان کے اوصیاء تک ذکر کیا ہے کہ ہم یہاں تک اسی خلاصہ پر اکتفا کرتے ہیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں قابیل کے فرزندوں کے درمیان بتوں کی عبادت رائج تھی۔

ادریس نے اپنے فرزند متوشلخ کو اپنا وصی بنایا، کیونکہ خدا وند متعال نے انہیں وحی کی کہ وصیت کو اپنے فرزند متوشلخ میں قرار دو کیونکہ ہم عنقریب ان کی صلب سے پسندیدہ کردار نبی پید اکریں گے۔ خد اوند عالم نے حضرت ادریس کو اپنی طرف آسمان پر بلا لیا اور ان کے بعد وحی کا سلسلہ رک گیا اور شدید اختلاف اور زبردست تنازعہ کھڑا ہو گیا اور ابلیس نے مشہور کر دیا کہ وہ مر گئے ہیں، اس لئے کہ وہ کاہن تھے وہ چاہتے تھے کہ فلک کی بلندی تک جائیںکہ وہ آگ میں جل گئے ہیں حضرت آدم کی اولاد چونکہ اس دین کی پابند تھی لہٰذا سخت غمگین ہوئی، ابلیس نے کہا ان کے بڑے بُت نے انہیں ہلاک کر دیا ہے ، پھر تو بت پرستوں نے بتوںکی عبادت میں زیادتی کر دی اور ان پر زیورات نثار کرنا شروع کر دئیے اور قربانی کی اور ایسی عید کا جشن منایا کہ سب اس میں شریک تھے وہ لوگ اس زمانے میں یغوث، یعوق، نسر، ودّ اور سواع نامی بت رکھتے تھے۔

۲۰۵

جب متوشلخ کی موت کا وقت قریب آیا ، تو اپنے فرزند'' لمک'' کو وصی بنایا( لمک جامع کے معنی میں ہے) اور ان سے عہد و پیمان لیا اور جناب ادریس کے صحیفے اور ان کی مہر کردہ کتابیں ان کے حوالے کیں اس وقت متوشلخ کی عمر ۹۰۰ سال تھی، وصیت لمک تک منقل ہوئی ( وہ جناب نوح کے والد تھے) انہوں نے ایک بار اچانک دیکھا کہ ان کے دہن سے ایک آگ نکلی اور تمام عالم کو جلا گئی۔ اوردوبارہ دیکھا کہ گویا وہ دریا کے درمیان ایک درخت پر ہیں اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے ، حضرت نوح بڑے ہوئے خدا وند عالم نے انہیں ۵۰ سال کے سن میں بلند مقام اور نبوت بخشی اور انہیں ان کی قوم کی طرف کہ جوبت کی پوجا کرتی تھی بھیجا، وہ اولوالعزم رسولوں میں سے ایک تھے۔

بعض اخبار میں آپ کی عمر ۱۲۵۰ سال ذکر کی گئی ہے،وہ جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے: اپنی قوم کے درمیان ۹۵۰ سال رہے اور انہیں ایمان کی دعوت دی،ان کی شریعت: توحید ، نماز، روزہ، حج اور دشمنان خد اقابیل کے فرزندوں سے جہاد تھی، وہ حلال کے لئے مامور اور حرام سے ممنوع کئے گئے تھے اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کو خدا وند متعال کی طرف دعوت دیں اور اس کے عذاب سے ڈرائیں اور خدا کی نعمتوں کو یاد دلائیں۔

مسعودی کا کہنا ہے: خدا وند عالم نے ریاست اور انبیاء کی کتابیں سام بن نوح کے لئے قرار دیں اور نوح کی وصیت بھی ان کے فرزندوں سے مخصوص ہوئی نہ کہ ان کے بھائیوں سے ۔( ۱ )

یہاں تک جو کچھ مسعودی کی کتاب اخبار الزمان سے ہمارے پاس تھا تمام ہوا، مسعودی نے اسی طرح کتاب ''اثبات الوصیة''( ۲ ) میں اوصیاء کے سلسلہ کو حضرت آدم سے حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک بیان کیا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو اسلامی مدارک کی بحثوں میں رسولوں اور ان کے جانشینوں کے بارے میں بیان ہوا ہے، آئندہ بحث میں ، رسولوںاور ان کے اوصیاء کی خبروں کوکتاب عہدین (توریت اور انجیل) سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان ، مسعودی، طبع بیروت، ۱۳۸۶ ھ،ص ۷۵، ۱۰۲(۲)ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،مسعودی کی طرف اثبات الوصیة کی نسبت کے متعلق فصل : عصر فترت ،باب : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء و اجداد میں وضاحت کر دی ہے۔

۲۰۶

۲۔ کتب عہدین میں ا وصیاء کی بعض خبریں

کتب عہدین سے اخبار اوصیاء کے نقل کے بارے میں ہم صرف تین وصیت پر اکتفا کریں گے:

الف۔ حضرت موسی کلیم کی خدا کے نبی یوشع کو وصیت

''قاموس کتاب مقدس '' نامی کتاب میں مادہ ''یوشع'' کے ذیل میں توریت کے حوالے سے ذکر ہوا ہے :

یوشع بن نون حضرت موسیٰ کے ساتھ کو ہ سینا پر تھے اور ہارون کے زمانے میں گوسالہ پرستی میں ملوث نہیں ہوئے۔( ۱ )

اورسفر اعداد کے ستائیسویں باب کے آخر میں خد اکی جانب سے موسیٰ کی تعیین وصیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے:

موسیٰ نے خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کی کہ یہوہ تمام ارواح بشر کا خدا کسی کو اس گروہ پرمقرر کرے جو کہ ان کے آگے نکلے اور ان کے آگے داخل ہو اور انہیںباہر لے جائے اور ان کو داخل کرے تاکہ خد اکی جماعت بے چرواہے کے گوسفندوں کی طرح نہ رہے، خداوند عالم نے موسیٰ سے کہا: یوشع بن نون کہ جو صاحب روح انسان ہیںان پر اپنا ہاتھ رکھو اور ''العازار کاہن''اور تمام لوگوں کے سامنے کھڑاکرکے وصیت کرو اور انہیں عزت اور احترام دو،تاکہ تمام بنی اسرائیل ان کی اطاعت کریں اوروہ ''العاذار کاہن'' کے سامنے کھڑے ہوں تاکہ ان کے لئے ''اوریم'' کے حکم کے مطابق خدا سے سوال کرے اور اس

کے حکم سے وہ اور تمام بنی اسرائیل ان کے اور پوری جماعت کے ساتھ باہر جائیں اور ان کے حکم سے داخل ہوں لہٰذا موسی ٰنے خد اکے حکم کے مطابق عمل کیا اور یوشع بن نون کو پکڑکر

____________________

(۱)''قاموس کتاب مقدس'' ترجمہ و تالیف مسٹر ھاکس امریکی، مطبع امریکی، بیروت، ۱۹۲۸ء ص ۹۷۰

۲۰۷

'' العازار کاہن ''اور تمام جماعت کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اپنے ہاتھوں کو ان کے اوپر رکھا اور انہوں نے خدا کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق وصیت کی ۔( ۱ )

نیز اموربنی اسرائیل کو چلانے اور ان کی جنگوںکی داستان تیئیسویں باب سفر یوشع بن نون میں مذکورہے ۔( ۲ )

ب۔ حضرت داؤد نبی کی حضرت سلیمان کو وصیت

بادشاہوں کی کتاب اول کے باب دوم میں مذکور ہے ۔( ۳ )

اور جب حضرت داؤد کا یوم وفات قریب آیا اپنے بیٹے سلیمان کو وصیت کی اور کہا :میں تمام اہل زمین کے راستہ (موت ) کی طرف جا رہا ہوں لہٰذا تم دلیرانہ طور پراپنے خدا یہوہ کی وصیتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے طریقہ پر گامزن رہنا اور اس کے فرائض ، اوامر، احکام و شہادات جس طرح موسیٰ کی کتاب توریت میں مکتوب ہیں اسے محفوظ رکھنا تاکہ جو کام بھی کرو اور جہاں بھی رہو کامیاب رہو ۔( ۴ )

ج۔حضرت عیسی کی حواری شمعون بطرس کو وصیت

انجیل متی کے دسویں باب میں سمعون کے بارے میں کہ ان کانام توریت میں شمعون ہے، ذکر ہوا ہے :

انہوں نے پھر اپنے بارہ شاگردوں کو بلا کر خبیث ارواح پر تسلط عطا کیا کہ انہیں باہر کرا دیں

اورہر مرض اور رنج کا مداوا کریں بارہ رسولوں ( نمائندوں)کے یہ اسماء ہیں: اول شمعون جو پطرس کے نام سے مشہور ہیں تھے۔

انجیل یوحنا کے اکیسویں، باب ۱۸۔۱۵ شمارہ میں ذکر ہے :

عیسیٰ نے انہیں ( شمعون کو) اپنا وصی بنایا اور ان سے کہا: میری گوسفندوں کو چرائو ''یعنی مجھ

پر ایمان لانے والوں کی حفاظت کرو''۔

____________________

(۱) کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت )ص ۲۵۴، کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع ۳. دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء

(۲)کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء ص ۳۷۰، ۳۳۳.

(۳) وہی ماخذ.

(۴) وہی ماخذ.

۲۰۸

''قاموس کتاب مقدس'' میں بھی ذکر ہو اہے : مسیح نے انہیں (شمعون کو) کلیسا(عبادت خانہ) کی ہدایت کے لئے معین فرمایا۔( ۱ )

پہلی خبر میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ بنی خدا، موسیٰ بن عمران نے اپنے بعد خدا کے نبی یوشع(جوقرآن کریم میں الیسع کے نام سے مشہورہیں)کو وصی بنایا۔

اور دوسری خبر میں خدا کے نبی دائود نے حضرت سلیمان کو وصیت کی کہ وہ خدا کے نبی اور رسول موسیٰ بن عمران کی شریعت پر عمل کریں۔

تیسری خبر میں عیسی روح اللہ نے اپنے حواری کواس بات کی وصیت کی کہ لوگوں کی ہدایت کریں۔

قرآن کریم میں رسولوں اور اوصیاء کی خبریں

خدا وند سبحان نے قرآن کریم میں جن ۲۶ انبیاء کی ان کے اسماء کے ذکر کے ساتھ داستان بیان کی ہے وہ یہ ہیں:

آدم، نوح، ادریس، ہود، صالح، ابراہیم ، لوط، ایوب، الیسع، ذو الکفل، الیاس، یونس، اسمعیل، اسحق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، دائود، سلیمان، زکریا، یحییٰ، اسماعیل صادق الوعد، عیسیٰ اور محمد مصطفی ۔

ان میں سے بعض ایسے صاحب شریعت تھے کہ جو گز شتہ شریعت کے متمم اور مکمل تھے ، جیسے حضرت نوح کی شریعت جوکہ حضر ت آدم کی شریعت کو کامل کرنے والی تھی اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کہ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی شریعت کو کامل اور تمام کرنے والی تھی،ان میں سے بعض ایسی شریعتوں کے مالک تھے کہ جو گزشتہ شریعت کے لئے ناسخ تھے جیسے حضرت موسیٰ اورحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔

ان میں سے بعض بنی بھی تھے اور وصی بھی اور اپنے ما قبل رسول کی شریعت کے محافظ و نگہبان بھی جیسے یوشع بن نون کہ جو موسیٰ بن عمران کے وصی تھے۔

چونکہ جو شخص پروردگار عالم کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتا ہے پیغمبر ہو یا اس کا وصی، اس کے لئے خداداد نشانی ضروری ہے تاکہ اس کے مدعا کی صداقت پر شاہد و گواہ رہے نیز اس کے خدا کی جانب سے بھیجے جانے پر دلیل ہو ، آئندہ بحث میں اس موضوع یعنی ''معجزہ'' کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس ، مادہ : پطرس حواری

۲۰۹

۳۔ آیت اور معجزہ

آیت، لغت میں اس نشانی کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر دلالت کرتی ہے ، وہ بھی اس طرح سے کہ جب کبھی وہ نشانی ظاہر ہو تو اس چیز کا وجود نمایاں ہو جائے۔

لیکن ہم اسلامی اصطلاح میں دو طرح کی آیت اور نشانی رکھتے ہیں، ایک وہ جو خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور دوسری وہ جو اس کی کسی ایک صفت (یعنی اسما ئے حسنی الٰہی میں سے کسی ایک کی طرف) اشارہ کرتی ہے وہ دونوں نشانیاں درج ذیل ہیں:

الف۔ وہ نشانیاں جو اپنے متقن اور سنجیدہ وجود کے ساتھ اپنے خالق حکیم کے محکم اور استوارنظام پر دلالت کرتی ہیں اور اس طرح ظاہر کرتی ہیں کہ اس پوری کائنات کا کوئی پروردگار حکیم ہے کہ جو خلق کے امور کو ایک محکم اور استوار نظام کے ساتھ چلا رہا ہے اورہم اسے ''کائنات میں خد اکی سنتیں'' کہتے ہیں۔

پہلی مثال، جیسے خدا سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

( أفلا ینظرون الیٰ الأبل کیف خلقت٭و الیٰ السماء کیف رفعت٭ و الیٰ الجبال کیف نصبت )

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق کیا گیا ہے اور آسمان کو کہ کس طرح رفعت دی گئی ہے اور پہاڑوں کو کہ کیسے نصب کیا گیاہے ؟!( ۱ )

اورسورۂ عنکبوت میں فرماتا ہے:

( خلق الله السمٰوات و الارض بالحق ان فی ذلک لآیة للمومنین )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ خلق کیا یقینا اس میں مومنین کے لئے نشانی ہے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے اس طرح کی قرآنی آیات میں کچھ مخلوقات کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے وجود سے اپنے خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، اسی لئے انہیں آیات اور نشانیاںکہا گیا ہے ۔

____________________

(۱) غاشیہ ۱۷۔۲۰

(۲)عنکبوت۴۴

۲۱۰

دوسری مثال: خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے:

( هو الذی انزل من السماء ما ئً لکم منه شراب ومنه شجر فیه تسیمون٭ ینبت لکم به الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب ومن کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون٭ وسخر لکم اللیل و النهار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بأمره ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون٭وما ذرأ لکم فی الارض مختلفا الوانه ان فی ذلک لآیة لقوم یذکرون )

وہ خداجس نے تمہارے پینے کے لئے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے سر سبز درختوں کو پیدا کیا جس سے تم اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرتے ہوخدا وند عالم اس ''پانی'' سے تمہارے لئے کھیتی، زیتون کھجور، انگور اور تمام انواع و اقسام کے میوے اگاتا ہے یقینا اس میں دانشوروںکیلئے واضح نشانی ہے اس نے شب و روز ،ماہ و خورشید کو تمہار اتابع بنایا نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے تابع ہیں، یقینا اس میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور گونا گوں اور رنگا رنگ مخلوقات کو تمہارا تابع بنا کر خلق کیا، بیشک اس میں واضح نشانی ہے ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔( ۱ )

خدا وند عالم ان جیسی قرآنی آیات میں ان انواع نظام ہستی کو بیان کرتا ہے جو مدبر اور حکیم پروردگار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی کبھی ان آیات اور نشانیوں کو جو ''عزیز خالق'' اور'' حکیم، مدبراور رب'' کے وجودپر دلالت کرتی ہیں یکجا بیان کیا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( ان فی خلق السمٰوات و الارض و اختلاف اللیل و النهار و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل الله من السماء من مائٍ فأحیا به الارض بعد موتها و بث فیها من کل دابة و تصریف الریاح و السحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون)

یقینا زمین و آسمان کا تخلیق کرنا اور روز و شب کو گردش دینا اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میں کشتیوں کو رواں دواں کرنا اور خدا کا آسمان سے پانی برسانانیز زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور ہر قسم کے متحرک جانوروں کو اس میں پھیلانا نیز زمین و آسمان کے درمیان ہوائوں اور بادلوں کو مسخر کرنا اسلئے ہے کہ ان سب میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۲ )

خدا نے اس آیت کی ابتدا میں آسمانوں اور زمین کی خلقت کو بیان کیا ہے اس کے بعد نظام کائنات کی

____________________

(۱)نحل۱۰۔۱۳

(۲)بقرہ۱۶۴

۲۱۱

نشانیوں کا ذکر کیاہے ، ایسا نظام جس کو پروردگار نے منظم کیا ہے اور ہم اسے '' کائنات کی سنتیں '' کہتے ہیں ۔

ب۔ وہ آیات جنہیں پروردگار عالم انبیاء کے حوالے کرتا ہے ، جیسے نظام ہستی پر ولایت وہ بھی اس طرح سے کہ جب مشیت الٰہی کا اقتضا ہو تو پیغمبر، خدا کی اجازت سے اس نظام کو جس کو خدا نے عالم ہستی پر حاکم بنایا ہے بدل سکتا ہے ،جیساکہ خد اوند متعال حضرت عیسیٰ کی توصیف میں فرماتا ہے۔

( ورسولاً الیٰ بنی اسرائیل انی قد جئتکم بآیة من ربکم انی اخلق لکم من الطین کهیئة الطیر فانفخ فیه فیکون طیراً بأِذن الله )

حضرت عیسیٰ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا ( انہوں نے ان سے کہا:)میں تمہارے پروردگار کی ایک نشانی لیکر آیا ہوں، میں مٹی سے تمہارے لئے پرندے کے مانند ایک شیء بنائوں گا اور پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ خد اکے حکم سے پرندہ بن جائے گا۔( ۱ )

اس طرح کی آیات الٰہی کو اسلامی عرف میں ''معجزہ'' کہتے ہیں، اس لئے کہ دیگر افراد بشر اس طرح کی چیزوں کے پیش کرنے سے عاجز ہیں اور وہ خارق عادت ہے نیز تخلیقی نظام طبیعی کے برعکس ہے ، جیسے حضرت عیسیٰ کا معجزہ کہ مٹی سے خد اکے اذن سے ایک پرندہ خلق کر دیا تاکہ اس بات پر دلیل ہو :

۱۔ یہ دنیا کا پروردگار ہے کہ جس نے اشیاء کو خاصیت اور طبیعی نظام عطا کیاہے اور جب اس کی حکمت کا اقتضا ہو کہ کسی چیز کی خاصیت کو اس سے سلب کر لے ، تو ایسی قدرت کا مالک ہے جس طرح کہ آگ کی گرمی سلب کر کے حضرت ابراہیم کو جلنے سے بچا لیا اور جب اس کی حکمت تقاضاکرے کہ اس نظام طبیعی کو جو اپنی بعض مخلوقات کے لئے قرار دیا ہے بدل دے تو وہ اس پر قادر اور توانا ہے ، جیسے مٹی سے حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پرندہ بن جانا بجائے اس کے کہ اپنے نر جنس کی آمیزش سے پرندہ کی ماں اسے جنے جو کہ طبیعی نظام خلقت کے مطابق ہے اور اسے جانداروں کی خلقت کے لئے معین کیاہے ۔

انبیاء کے معجزات جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے خارق العادة اور طبیعی نظام کے برخلاف ہیںاور انتقال مادہ کے مراحل طے کرنے، یعنی ایک حال سے دوسرے حال اور ایک صورت سے دوسری صورت میں آخری شکل تک تبدیل ہونے کی پیروی نہیں کرتے اس لئے کہ پرندہ کا مٹی سے تخلیق کے مراحل کا طے کرنا( جیساکہ بعض فلاسفہ کے کلام سے سمجھ میں آتا ہے) نور کی سرعت رفتار کے مانندتھا کہ جن کو خدا وند عالم نے

____________________

(۱)آل عمران۴۹

۲۱۲

طبیعی مدت اور دورہ انتقال سے بہت تیزپیغمبر کے لئے طے کیا ہے۔

معجزہ سحر نہیں ہے ، اس لئے کہ سحر ایک قسم کی باطل اور غیر واقعی خیال آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک ساحر و جادو گرایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرغ کونگل جاتا ہے ، یاا ونٹ کے منھ سے داخل ہو کر اس کے مخرج سے نکل آتا ہے یا شیشہ کے برتنوں کو چکنا چور کر کے دوبارہ اسے پہلی حالت میں پلٹادیتاہے در حقیقت اس نے ان امور میں سے کسی ایک کوبھی انجام نہیں دیا ہے بلکہ صرف اورصرف دیکھنے والوں اور تماشائیوں کی نگاہوں پر سحر کر دیا ہے (جسے نظر بندی کہتے ہیں) اور ان لوگوں نے مذکورہ امور کو اپنے خیال میں دیکھا ہے اسی لئے جب سحر کا کام تما م ہو جاتا ہے تو حاضرین تمام چیزوں کو اس کی اصلی حالت اور ہیئت میں بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے دیکھتے ہیں، لیکن معجزہ نظام طبیعت کو در حقیقت بدل دیتا ہے جیسے وہ کام جو حضرت موسیٰ کے عصا نے انجام دیا: ایک زبردست سانپ بن کر جو کچھ ساحروں نے اس عظیم میدان میں پیش کیا تھا سب کویکبار گی نگل گیا اور جب حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں آکر دوبارہ عصا بنا، تو جوکچھ ساحروں نے اس میدان میں مہیا کیا تھا اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہا ،یہی وجہ تھی کہ جادوگر سجدہ میں گر پڑے اور بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے ، جوموسیٰ اور ہارون کا پروردگار کیونکہ وہ لوگ جادو گری میں تبحر رکھتے تھے اور ایک عجیب مہارت کے مالک تھے۔ انہوں نے درک کیا کہ یہ سحر کا کام نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔

معجزہ کا محال امر سے تعلق نہیں ہوتا جس بات کو علم منطق میں اجتماع نقیضین سے تعبیر کرتے ہیں جیسے یہ کہ کوئی چیز ایک وقت میں ایک جگہ ہے اور نہیں بھی ہے یہ بھی اثر معجزہ کی شمولیت سے خارج ہے ۔

پیغمبروں کے معجزوں کی حقیقت ، وہ آیتیں ہیں جن کوپروردگاران کے ہاتھوں سے ظاہر کرتا ہے ، وہ نشانیاںکہ جن و انس جن کو پیش کرنے سے عاجز اور ناتواں ہیں خواہ بعض بعض کی مدد ہی کیوں نہ کریں جبکہ جنات میں بعنوان مثال ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات پر قادر ہیں کہ ملک یمن سے تخت بلقیس حضرت سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی بیت المقدس حاضر کر دیں کیونکہ فضا میں جن کی سرعت رفتار نور سے ملتی جلتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن کبھی دور دراز کی خبر بھی اپنے سے مربوط کاہن کو لا کر دے سکتا ہے ، لیکن یہی جن و انس مٹی سے پرندہ نہیں بنا سکتے کہ بغیر اللہ کی اجازت کے حقیقی پرندہ بن جائے۔

۲۱۳

ہندوستان میں ریاضت کرنے والے ''مرتاض''کبھی ٹرین کو حرکت کرنے سے روک سکتے ہیں، لیکن وہ اور ان کے علاوہ افراد کہ جن کو خدا نے اجازت نہیں دی ہے یہ نہیں کر سکتے کہ پتھر پر عصا ماریں تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں۔

کیونکہ پروردگارعالم آیات ومعجزات اس لئے ا پنے انبیاء و مرسلین کو عطا کرتا ہے تاکہ امتیں ان کے دعوے کی صداقت پر یقین کریں اور سمجھیں کہ یہ لوگ خدا کے فرستادہ ہیں، حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ یہ معجزات ایسے امور سے متعلق ہوں کہ جس امت کے لئے پیغمبر مبعوث ہوا ہے اسے پہچانیں ، جیساکہ حضر ت امام علی بن موسیٰ الرضانے ایک سائل کے جواب میں کہاجب اس نے سوال کیا: کیوں خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور عصا کے ساتھ مبعوث کیااور حضرت عیسیٰ کو طب اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کلام و سخن کے ساتھ؟

امام نے جواب دیا:

جس وقت خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کو مبعوث کیا تھا اس زمانے میں سحر و جادو نما یاں فن شمار ہوتا تھا لہٰذا وہ بھی خدا وند عز و جل کی طرف سے ایسی چیز کے ساتھ ان کے پاس گئے کہ اس کی مثال ان کے بس میں نہیں تھی، ایسی چیز کہ جس نے ان کے جادو کو باطل کر دیا اور اس طرح سے ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کوایسے زمانے میں مبعوث کیا جب مزمن اور دائمی بیماریوں کا دور دورہ تھااور لوگوں کوطب کی ضرورت تھی تو وہ خدا کی طرف سے ان کے لئے ایسی چیز لیکر آئے کہ اس جیسی چیز ان کے درمیان نا پید تھی، یعنی جو چیز ان کے لئے مردوں کو زندہ کر دیتی تھی، اندھے اور سفید داغ والے کو شفا دیتی تھی لہٰذا اس کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند متعال نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس وقت مبعوث کیا جب غالب فن خطابت اور سخنوری تھا، راوی کہتا ہے میرے خیال میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: اور شعر تھا، آنحضرت نے خدا وند عز و جل کی کتاب اور اس کے موعظوں اور احکام سے ان کے لئے ایسی چیز پیش کی کہ ان کی تمام باتوں کو باطل کر دیا اور ان پر حجت تمام کر دی۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، آج جیسا دن کبھی میں نے نہیں دیکھا ہے : پھر بولا: ہمارے زمانے کے لوگوں پر حجت کیا ہے ؟ امام نے کہا: عقل ؛ اس کے ذریعہ خدا پر سچ بولنے والے کی صداقت پہچا نوگے اوراس کی تصدیق کروگے اور خدا کی طرف جھوٹی نسبت دینے والے کوتشخیص دوگے اور اسے جھٹلا ئو گے ۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، صحیح، جواب یہی ہے اور بس۔( ۱ )

____________________

(۱)بحار، ج۱۱ ، ص ۷۰۔۷۱ بحوالہ ٔ علل الشرائع ، ص ۵۲. اور عیون الاخبار، ص ۲۳۴

۲۱۴

پیغمبروں کے خارق العادة معجزے کہ جو اشیاء کے بعض طبیعی نظام کے مخالف ہیں ،وہ خود انسانی معاشرے میں پروردگار عالم کی تکوینی سنتوں میں سے ایک سنت ہیں ایسا سماج اور معاشرہ جس میں خدا وند عالم نے انبیاء بھیجے، اسی وجہ سے امتوں نے اپنے پیغمبروں سے معجزے طلب کئے تاکہ ان کے دعویٰ کی صحت پر دلیل ہو، جیساکہ خدا وند عالم نے سورۂ شعراء میں قوم ثمود کی گفتگو پیش کی کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صالح سے کہا:

( ما أنت الا بشر مثلنا فات بآیة ان کنت من الصادقین٭ قال هذه ناقة لها شرب و لکم شرب یوم معلوم٭ولا تمسوها بسوء فیأخذ کم عذاب یوم عظیم )

تم صرف ہمارے جیسے ایک انسان ہو ، اگر سچ کہتے ہو تو کوئی آیت اور نشانی پیش کرو! کہا: یہ ناقہ ہے ( اللہ کی آیت )پانی کا ایک حصہ اس کااور ایک حصہ تمہاراہے معین دن میں ،ہر گز اسے کوئی گزندنہ پہنچانا کہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جائو۔( ۱ )

بہت سی امتوں کااپنے پیغمبر سے معجزہ دیکھنے کے بعدعناد شدید تر ہوجاتا تھااور ان سے دشمنی کرنے لگتے تھے ۔ اور ایمان لانے سے انکار کر دیتے ،جیسا کہ خدا وند عالم نے قوم ثمود کے بارے میں ناقہ دیکھنے کے بعد فرمایا :

( فعقروها فأصبحوا نادمین )

آخر کار اس ناقہ کو پے کر دیااس کے بعد اپنے کرتوت پر نادم ہوئے۔( ۲ )

خدا کی سنت یہ رہی ہے کہ اگر امتوں نے اپنے پیغمبر وںسے معجزہ کی درخواست کی اور معجزہ آیا لیکن وہ اس پر ایمان نہیں لائے تو وہ زجر و توبیخ اور عذاب کے مستحق بنے اور خدا وند عالم نے انہیں عذاب سے دوچار کیا۔

جیسا کہ اسی سورۂ میں قوم ثمود کے انجام کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( فأخذهم العذاب ان فی ذلک لآیة وما کان اکثرهم مؤمنین )

پس ان کو اللہ کے عذاب نے گھیر لیا یقینا اس میں آیت اور نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے۔( ۳ )

انبیاء کا معجزہ پیش کرنا حکمت کے مقتضیٰ کے مطابق ہے ، حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ معجزہ اس حد میں ہونا چاہئے کہ پیغمبر کے دعوے کی حقانیت کا، اس شخص کے لئے جو اس پر ایمان لانا چاہتا ہے اثبات کرسکے ، آیت

____________________

(۱) سورۂ شعرا ۱۵۶، ۱۵۴(۲) سورۂ شعرا ۱۵۷(۳) سورۂ شعرا ۱۵۸

۲۱۵

الٰہی ان سرکشوں کی مرضی اور مردم آزاروں کی طبیعت کے مطابق نہیں ہے جو خدا اور رسول پر ایمان لانے سے بہر صورت انکار کرتے ہیں کہ جو چاہیں ہو جائے، نیز جیسا کہ گز ر چکاہے کہ معجزہ امرمحال سے بھی تعلق نہیں رکھتاہے ، چنانچہ یہ دونوںباتیں ،رسول سے قریش کی خواہش میں موجود تھیں جبکہ خدا نے عرب کے مخصوص معجزے ''فصیح وبلیغ گفتگو'' کو انہیں عطا کیا خدا نے سورۂ بقرہ میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فأتو بسورة من مثله و ادعوا شهدائکم من دون الله ان کنتم صادقین٭فأِن لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التی و قودها الناس و الحجارة اُعدت للکافرین )

ہم نے جو اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اگر اس کے بارے میں شک و تردید میں مبتلا ہو تو اس کے مانند ایک ہی سورہ لے آئو اورخدا کے علاوہ اس کام کے لئے اپنے گواہ پیش کر و ،اگر سچے ہوپھر اگر ایسا نہیں کر سکتے اور ہر گز نہیں کر سکتے تو اس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کافروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے۔( ۱ )

قریش کے سر برآوردہ افراد جو ایمان لانے کو کا قصد ہی نہیں رکھتے تھے اپنی شدت اور ایذا رسانی میں اضافہ کرتے گئے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زحمت میں ڈالنے اور انہیں عاجز اور بے بس بنانے کے لئے گونا گوں درخواستیں کرتے حتی کہ امر محال کا بھیمطالبہ کرتے تھے ، خداوند عالم سورۂ اسراء میں ان کی ہر طرح کی سرکشی اورمزاحمت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل لئن اِجتمعت الانس و الجن علیٰ ان یأتو بمثل هذا القرآن لا یأتون بمثله ولو کان بعضهم لبعض ظهیراً٭ ولقد صرفنا للناس فی هذا القرآن من کل مثل فأبیٰ اکثر الناس الاکفورا٭ و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر من الارض ینبوعا٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب فتفجر الانهار خلالها تفجیرا٭ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفاً او تأتی بالله و الملائکة قبیلا٭ او یکون لک بیت من زخرف او ترقیٰ فی السماء و لن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباً نقرؤه قل سبحان ربی هل کنت الا بشراً رسولا٭ و ما منع الناس ان یومنوا اذ جائهم الهدی الا ان قالوا ابعث الله بشراً رسولا، قل لو کان فی الارض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیهم من السماء ملکاً رسولاً قل کفیٰ بالله شهیداً بینی و بینکم انه کان بعباده خبیراً بصیرا )

____________________

(۱)سورۂ بقرہ۲۳۔۲۴

۲۱۶

کہو: اگر تمام جن و انس یکجا ہو کر اس قرآن کے مانند لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے ہر چند ایک دوسرے کی اس امر میں مدد کریں، ہم نے اس قرآن میں ہر چیز کا نمونہ پیش کیا ہے لیکن اکثرلوگوں نے ناشکری کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور کہا: ہم اس وقت تک تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس سرزمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کرو، یا کھجور اور انگور کا تمہارے لئے باغ ہو اور ان کے درمیان جا بجا نہریں جاری ہوں، یا آسمان کے ٹکڑوںکو جس طرح تم خیال کرتے ہو ہمارے سر پر گرا دو؛ یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کر دو؛یا کوئی زرین نقش و نگار کا تمہارے لئے گھر ہو، یا آسمان کی بلندی پر جائو اور اس وقت تک تمہارے اوپر جانے کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی نوشتہ ہمارے لئے نہ لائو جسے ہم پڑھیں!

کہو: میرا پروردگار منزہ اور پاک ہے ، کیا میں ایک فرستادہ ( رسول)انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟! صرف اور صرف جو چیز ہدایت آنے کے بعد بھی لوگوں کے ایمان لانے سے مانع ہوئی یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: آیا خدا نے کسی انسان کو بعنوان رسول بھیجا ہے ؟!

ان سے کہو: اگر روئے زمین پر فرشتے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے سکون و وقار سے راستہ طے کرتے، تو ہم بھی ایک فرشتہ کو بعنوان رسول ان کے درمیان بھیجتے ! کہو! اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا گواہ ہے ؛ کیونکہ وہ بندوں کی بہ نسبت خبیرو بصیر ہے ۔( ۱ )

پروردگار خالق نے اہل قریش پر اپنی حجت تمام کر دی اور فرمایا: اگر جو کچھ میں نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اس کے بارے میں شک و تردید رکھتے ہو، تو اس کے جیسا ایک سورہ ہی لے آئو اور خدا کے علاوہ کوئی گواہ پیش کرونیز خبر دی کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس کے مانند لانا چاہیں تو قرآن کے مانند نہیں لا سکتے،خواہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں اور اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: کبھی اس کے جیسا نہیں لا سکتے اور آج تک اسلام دشمن عناصر اپنی کثرت، بے پناہ طاقت اور رنگا رنگ قدرت کے باوجود ایک سورہ بھی اس کے مانند پیش نہیں کر سکے قرآن کی اس اعلانیہ تحدی اور چیلنج کے بعد کہ یہ ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کے مقابل جن و انس عاجز اور ناتواںہیں، جب مشرکین قریش نے خود کوذلیل اور بے بس پایا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش کی کہ مکہ کی طبیعت اور اس کی ہوا کو بدل دیں او رسونے کا ایک گھر ہو، یاخدا اور ملائکہ کو ایک صف میں ان کے سامنے حاضر کر دیں، یا آسمان کی بلندی پر جائیں اور ہم ان کے جانے کی اس وقت تصدیق کریں گے جب وہاں

____________________

(۱)اسرائ۹۶۔۸۸

۲۱۷

سے ہمارے لئے کوئی نوشتہ لائیں جسے ہم پڑھیں، جیسا کہ واضح ہے کہ ان کی در خواستیںامر محال سے بھی متعلق تھیں اور وہ خدا اور ملائکہ کو ان کے سامنے حاضر کرنا ہے ، یقینا خدا کا مقام اس سے کہیں بلند و بالا ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی بعض خواہشیں پیغمبرں کے بھیجنے کے بارے میں سنت الٰہی کے مخالف تھیں ، جیسے ان کے سامنے آسمان کی بلندی پر جانا اور کتاب لانا کہ یہ سب خدا وند عالم نے اپنے نمائندے فرشتوں سے مخصوص کیا ہے اوریہ انسان کا کام نہیں ہے ۔

وہ لوگ اس بات کے منکر تھے کہ خدا کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کرے گا جبکہ حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ انسان کی طرف بھیجا ہواپیغمبر خود اسی کی جنس سے ہو، تاکہ رفتار و گفتار، سیرت وکردار میں ان کیلئے نمونہ ہو، ان کی بقیہ تمام خواہشیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں ، جیسے یہ کہ عذاب کی درخواست کی، اسی لئے خداوندنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا کہ ان کے جواب میں کہو: میرا خدا منزہ ہے آیا میں خدا کی طرف سے فرستادہ (رسول )انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟!

گزشتہ بیان کا خلاصہ: حکمت خدا وندی کا تقاضاہے کہ اس کا فرستادہ اپنے پروردگار کی طرف سے اپنے دعویٰ کی درستگی اور صداقت کیلئے معجزہ پیش کرے اور اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کرے، ایسے حال میں جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے ،جیسا کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کی قوم کا حال ایسا ہی تھا کہ معجزہ دیکھنے کے بعد جادو گروں نے ایمان قبول کیا اور فرعون اور اس کے درباریوں نے انکار کیا، تو خدا وند عالم نے انہیں غرق کر کے ذلیل و خوار کر دیا اور خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر جو بھی آیت پیش کریں اسے معجزہ کہتے ہیں۔

مذکورہ باتوں کے علاوہ جن لوگوں کو خدا نے زمین کا پیشوا اور لوگوں کا ہادی بنایا ہے وہ صاحب شریعت پیغمبر ہوںیا ان کے وصی، ان کے مخصوص صفات ہیںجو انھیں دوسروںسے ممتا ز کرتے ہیں اور ہم آئندہ بحث میں خدا کی توفیق اور تائید سے اس کا ذکر کریں گے ۔

۲۱۸

۷

الٰہی مبلغین کے صفات ،گناہوں سے عصمت

۱۔ ابلیس زمین پر خدا کے جانشینوںپر غالب نہیں آسکتا ۔

۲۔ عمل کا اثر اور اس کا دائمی ہونا اور برکت کا سرایت کرنا اور زمان اور مکان پر اعمال کی نحوست۔

۳۔ الٰہی جانشینوںکا گناہ سے محفوظ ہونا ( عصمت)اس کے مشاہد ہ کی وجہ سے ہے ۔

۴۔وہ جھوٹی روایتیں جو خدا کے نبی داؤد پر اور یا کی بیوہ سے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیں اور حضرت خاتم الانبیاء سے متعلق آنحضرت کے منھ بولے فرزند زید، کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کی نسبت دی اور ان دونوں ازدواج کی حکمت۔

۵۔ جن آیات کی تاویل میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔

۱۔ ابلیس روئے زمین پر خدا کے جانشینوں پر غالب نہیں آ سکتا

خدا وند سبحان نے سورۂ حجر میں اپنے اور ابلیس کے درمیان گفتگو کی خبر دی کہ ، ابلیس اس کے مخلص بندوں پر تسلط نہیں رکھتا ، وہ گفتگو اس طرح ہے :( قال رب بما اغویتنی لأزینّن لهم فی الارض ولأغوینهم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین٭قال...ان عبادی لیس لک علیهم سلطان الا من اتبعک من الغاوین )

ابلیس نے کہا: خدایا ؛ جو تونے مجھے گمراہ کیا ہے اس کی وجہ سے زمین میں ان کے لئے زینت اور جلوے بخشوں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گاسواتیرے مخلص بندوں کے ۔فرمایا: تو میرے بندوںپر قابو اور تسلط نہیں رکھتا، جز ان لوگوں کے جو تیرا اتباع کرتے ہیں۔( ۱ ) اور یوسف اور زلیخا کی داستان کے بیان میں ،مخلَصین کی خدا نے کس طرح شیطانی وسوسوں سے محافظت کی اس طرح بیان کرتا ہے :( ولقد همت به و هم بها لو لا أن رء أ برهان ربه کذلک لنصرف عنه السوء و الفحشاء أنّه من عبادنا المخلصین )

اس عورت نے ان کا قصدکیا اوروہ بھی اس کا قصد کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل و برہان نہیں دیکھتے!ہم نے ایسا کیا تاکہ اس سے برائی اور فحشاء کو دور کریں ،کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔( ۲ ) ہم مذکورہ وصف یعنی: عصمت اور ابلیس کے غالب نہ ہونے کو ، سورۂ بقرہ میں خدا وند سبحان اور ابراہیم خلیل کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ، امامت کے شرائط کے عنوان سے ملاحظہ کرتے ہیں، جیساکہ فرمایا:

____________________

(۱) سورۂ حجر ۴۲۔۳۹(۲)یوسف ۲۴

۲۱۹

( و اذابتلیٰ ابراهیم ربه بکلمات فأتمهن قال انی جاعلک للناس أِماما قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین )

جب خدا وند عالم نے ابراہیم کا گونا گوں طریقوں سے امتحان لے لیا اور وہ خیر و خوبی کے ساتھ کامیاب ہوگئے، تو خدا وند سبحان نے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا پیشوا اور امام بنایا، ابراہیم نے کہا:اور میری ذریت میں سے بھی ! فرمایا: میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔( ۱ )

سورۂ انبیاء میں ذکر ہوا ہے : جن کو خدا نے لوگوں کا پیشوا بنایا وہ خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں:( وجعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) اورہم نے ان لوگوں کو پیشوا بنایا جوہمارے فرمان سے ہدایت کرتے ہیں۔( ۲ )

اسی سورہ میں بعض کا نام کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ، جیسے نوح، ابراہیم ، لوط، اسماعیل، ایوب، ذوالکفل، یونس، موسیٰ ، ہارون، دائود، سلیمان ، زکریا، یحیٰی اور عیسیٰ علیہم السلام۔

جن لوگوں کو خدا وند عالم نے اس سورہ میں منصب امامت کے ساتھ یاد کیا ہے ان کے درمیان بنی، رسول، وزیر اور وصی سبھی پائے جاتے ہیں، اس بنا پر ہم پر واضح ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے ایسی شرط ذکر کی ہے کہ جسے امام بنائے گا وہ ظالم نہ ہو.

خدا وند عالم نے امام کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ شمار کیا ہے ، چنانچہ سورۂ ص میں داؤد سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :( یا داود اَنَّا جعلناک خلیفة فی الارض )

اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا۔( ۳ )

اور حضرت آدم ـکے متعلق فرشتوں سے سورہ ٔ بقرہ میں فرمایاہے :

( و أِذ قال ربک للملائکة أِنی جاعل فی الارض خلیفة )

اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر خلیفہ بنائوں گا۔( ۴ )

کلمات کی تشریح

۱۔اغویتنی، ولأغوینهم، و الغاوین ۔

____________________

(۱)بقرہ ۱۲۴(۲)انبیائ ۷۳(۳) ص ۲۶(۴) بقرہ ۳۹۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273