ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 273
مشاہدے: 118031
ڈاؤنلوڈ: 3941


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118031 / ڈاؤنلوڈ: 3941
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 4

مؤلف:
اردو

مالک بن ربیعہ انصاری کے حالات :

١۔ابن حجر ''اصابہ '' (٣/٣٢٤)

٢۔ابن سعد کی'' طبقات'' (٥/٢٠٠)

٣۔''صفین '' نصر مزاحم (٥٠٦)

٤۔ تقریب التہذیب

٥۔عقدالفرائد

٦۔مسند احمد حنبل

۴۱

٥٦واں جعلی صحابی ہزہاز بن عمرو

ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں ہزہاز کی زندگی کے حالات پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے:

ہزہاز بن عمروعجلی:

طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب '' ابو عبیدہ ثقفی '' پیدل اور سوار فوجوں کے دستوں کو سعد وقاص کی نصرت کے لئے عراق بھیجنے کے لئے منظم کر رہا تھا ، تو اس نے عمر کے حکم سے دو دستوں میں سے ایک کی کمانڈ''ہزہاز'' کے ذمہ سونپی ۔ ''ہزہاز ''نے قادسیہ کی جنگ کے ''اغواث ''نامی دوسرے دن میدان کارزار میں قدم رکھا اور سعد کی سپاہ کی مدد کی ۔

ابن "ابن " فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب استعیاب سے استدراک کیاہے ۔

اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ قدماجنگجوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار منتخب نہیں نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

جو کچھ بیان ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن "ابن " حجرنے ہزہاز کے بارے میں تاریخ طبری کو اپنی روایت کا ماخذ قرار دیا ہے ۔ ہم بھی اس کی تلاش کریں گے کہ طبری نے اس روایت کو کہاں سے نقل کیا ہے اور اپنی اس روایت کے مصدر کے طور پر کسی کا یا کن اشخاص کا نام لیا ہے ۔

طبری نے پوری کی پوری روایت اور وہ روایت کی تفصیل جس کے سلسلے میں ابن "ابن " حجر قادسیہ کی جنگ کے ضمن میں اشارہ سیف سے نقل کر کے اپنی کتاب کے تین صفحوں میں درج کیاہے اورہم دیکھتے ہیں کہ اس نے اس روایت کے منبع کے طور پر صراحت کے ساتھ سیف کا نام لیاہے۔

اس لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ طبری کی روایت کا طولانی ہونا اس امرکا سبب بنا ہے کہ روایت کا مصدر جو سیف پر تمام ہوتاہے علاّمہ ابن "ابن " حجر کی نظروں سے پوشیدہ رہا۔ اس لئے انہوں نے داستان کو طبری سے نقل کیا ہے اور اس کے اصلی راوی یعنی سیف کا کہیں نام نہیں لیا ہے ۔

۴۲

داستان ہزہاز کے راوی :

سیف نے اپنے مآ خذ کے طور پر ''محمد ''کانام لیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ ''محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ '' ہے اور اس کے بارے میں ہم نے کہا ہے کہ پہلے وہ سیف کے خیالات کا پروردہ ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ہے ۔

سیف کی نظر میں ہزہاز کا نسب :

سیف نے اپنے جعلی صحابی کا نسب وعجلی منتخب کیا ہے اور یہ عدنان کے ایک قبیلہ سے صعب بن علی بن بکروائل کے نواسہ عجل بن لجیم'' سے ایک نسبت ہے۔

لیکن جس داستان کی طرف ابن حجری نے اشارہ کیاہے ، ہم نے اسے '' قعقاع بن عمرو تمیمی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''تاریخ طبری ''سے نقل کر کے اسی کتاب کی پہلی جلد میں مفصل طور پر درج کیا ہے اور اس کی تکرار کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں ۔

یہ قابل ذکر ہے کہ اسی طبری نے خلیفہ عمر کے حاکم کے مطابق سپہ سالاراعظم سعد وقاص کے قادسیہ کی جنگ میں ''ابو عبیدہ'' کی طرف سے کمک رسانی کے موضوع کو ابن "ابن " اسحاق سے نقل کر کے تفصیل سے لکھاہے ۔ لیکن اس میں کسی صورت میں قعقاع اور اس کے کارناموں کا ذکر نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ''ہزہاز '' اور اس کے ماتحت فوج اور اس کے قادسیہ کی جنگ کے دوسرے دن دس دس افرا د کے گروہوں میں شرکت کا کہیں سراغ نہیں ملتا!

بحث و تحقیق کا نتیجہ:

اس جانچ پڑتال سے یہ نتیجہ حاصل ہوتاہے کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''ہزہاز عجلی ''کی خبر اور قادسیہ کی جنگ میں دو فوجی دستوں میں سے ایک پر اس کی کمانڈکی روایت کی ہے اور طبری نے اسے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کر کے درج کیاہے ۔

ابن "ابن " حجر نے بھی تاریخ طبری میں ذکر ہوئی اس خبر پر اعتماد کرتے ہوئے اور اس بات پر کہ ''جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار منتخب نہیں کرتے تھے '' ''ہزاز '' کو صحابی تصور کر کے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں مخصوص جگہ معین کرتے ہوئے اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۴۳

ہم نے ''فوج کے سپہ سالار ''کے عنوان کے تحت اسی کتاب کے مقدمہ میں اس روایت کے مصدر پر اور یہ کہ مذکورہ خبر تاریخی حقائق اور رود ادوں سے کس حدتک مطابقت رکھتی ہے ، تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

ابن حجر نے کہا ہے کہ ''ابن فتحون '' نے '' ہزہاز '' کو ابن "ابن " عبدالبر کی '' استیعاب '' پر اضافہ کر کے اس سے استددراک کیا ہے ۔

کیا معلوم شاید ''ابن ابی شیبہ '' کی روایت اور صحابی کی شناخت کے لئے جعل کئے گئے قاعدہ نے ابن "ابن " فتحون کو فریب دیکر اسے اسی قاعدہ کے تحت سیف کے ہزہاز کو صحابی پہچاننے پر مجبور کیاہو!!

مصادر و مآ خذ

ہزہاز بن عمرو کے حالات :

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/٥٧٠)حصہ اول ،شرح حال نمبر : ٨٩٥٩

ہزہاز کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔تاریخ طبری (١/٢٣٠٥)قادسیہ کی جنگ کے وقائع نیز ابن "ابن " اسحاق سے اس کی روایت۔ (١/٢٣٤٩۔٢٣٥٠)

عجلی کا شجرہ نسب :

١۔''لباب الانساب '' (٢/١٢٤)

٢۔ابن حزم کی ''جمھرۂ انساب '' (٣٠٩)اور(٣١٢۔٣١٣)

٥٧واں جعلی صحابی حمیضتہ بن نعمان بارقی

ابن "ابن " حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایاہے:

۴۴

حمیضتہ بن نعمان بن حمیضئہ بارقی:

سیف نے روایت کی ہے کہ خلیفہ عمر نے اسے ''سراة'' کے باشندوں پر ممور کیا، اور ان کی کمانڈ بھی اسے سونپی ہے ۔ اس کے بعد ١٤ ھ کے اوائل میں اسے سعد وقاص کے ہمراہ عراق کی مموریت پر بھیجا ۔ طبری نے بھی حمیضہ کے بارے میں ان ہی مطالب کو اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ قدما جنگجوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالاری کے عہدے پر فائز نہیں کرتے تھے ۔ (ز)(ابن "ابن " حجر کی بات کاخاتمہ ) "(ابن حجر کی بات کاخاتمہ )"

لیکن طبری ،قادسیہ کی جنگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے لکھتاہے :

جس وقت سپہ سالار اعظم سعد وقاص مدینہ سے عراق کی طر ف لشکر کشی کرنے کی تیاریاں کر رہاتھا تو اس کے ماتحت قبائل ''بارق، المع اور غامد'' کے سات سو جنگجوؤں اور'' سراة'' کے باشندوں سے دیگر افراد نے کوچ کیا ، ان کی کمانڈر حمیضتہ بن نعمان بارقی کر رہا تھا!

حمیضہ کا نسب :

سیف نے حمیضتہ کو قبیلۂ''بارق ''سے خلق کیا ہے ،اور اس کے ماتحت سپاہیوں کو قبائل ''بارق ، المع اور غامد''سے خلق کیاہے کہ وہ سب خاندان ''خزاعۂ ازد قحطانی '' سے تعلق رکھتے تھے ۔''سراة'' میں زندگی بسر کرنے والے ''ازدی '' اپنی سکونت کے علاقوں کے اعتبار سے چا ر حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں :

١۔''ازدشنوء ' ' یہ یمن میں ایک علاقہ تھاَ۔

٢۔''ازدسراة'' ، تنہامہ '' اور ''یمن '' کے درمیان کے پہاڑی علاقوں کو کہاجاتا تھا جو سرزمین عرفات سے صنعاتک پھیلے تھے اور سراة ثقیف ، سراة فہم ، سراة عدوان اور سراة ازد'' پر مشتمل تھے۔

٣۔ ازدغسّان

٤۔ ازد عمان

۴۵

لہذا سیف بن عمر نے حمیضہ اور اس کے ساتھیوں کو ''خزاعہ'' سے خلق کیا کہ ان کی رہائش گاہ مکہ کے اطراف میں واقع تھی۔

بعثت سے پہلے ''خزاعہ'' کے قبائل اور '' بنی کنانہ عدنانی'' کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا عہد و پیمان باندھا گیا تھا ، لیکن جب قریش رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخالفت پر اتر آئے تو ''خزاعہ'' نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کا اعلان کرکے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ پیمان باندھا۔

ہم دوبارہ اپنے موصنوع پر آکر حمیضہ کی روایت پر اپنی بحث کو جاری رکھتے ہیں ۔ طبری نے سیف سے نقل کر کے قادسیہ کی جنگ سے پہلے اسلا م کے سپاہیوں کے مقدماتی حملوں کے بارے میں اس طرح لکھا ہے ۔

سواد تمیمی اور حمیضہ بارقی میں سے ہر ایک نے ایک سو سپا ہیوں کی کمانڈ میں ایرانی فوجوں پر حملہ کیااور دشمن کے قلب میں نفوذکر کے کثیر مقدار میں مال غنیمت حاصل کیا ۔

اس واقعہ کی خبر ایرانی فوج کے کمانڈر انچیف ''رستم فرخ زاد''کو پہنچی تو اس نے چند چابک سوارو ں کو حملہ آور وں کی گوشمالی اور غارت کئے گئے مال و منال کو واپس لینے کے لے ان کے پیچھے روانہ کیا ۔

دوسری طرف مسلمانوں کے ایرانیوں پر اچانک حملے کی خبر سعد وقاص کو پہنچی ، جس نے پہلے ہی یہ کاروائی کرنے سے منع کیا تھا ، اس نے مجبور ہوکر ''عاصم بن عمر تیممی ''اور ''جابر اسدی '' کو ان کی مدد کے لئے روانہ کیا اور ان کی روانگی کے وقت عاصم سے مخاطب ہو کر کہا:

اگر دشمن سے لڑنے کا فیصلہ کیا تو کمانڈر تم ہو ۔

اس دوران ایرانی فوجیوں نے بین ا لنہرین میں مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کا محاصرہ کر لیا تاکہ غارت کیا ہوا مال واپس لے لیں ۔سواد نے جب ناگفتہ بہ حالات کا مشاہدہ کیا تو حمیضہ سے مخاطب ہو کر بو لا:

۴۶

اختیا ر تیرے ہاتھ میں ہے ۔ یاتم ایرانیوں سے لڑتے ہوئے انہیں مشغول رکھو تاکہ میں جنگی غنائم کو میدان کا رزار سے باہرلے جاؤں یا یہ کہ میں ان سے جنگ کروں اور تم اس مال و منال کو صحیح و سالم منزل مقصود تک پہنچاو ۔ حمیضہ نے جواب دیا :

تم رہو اور ان کومشغول تاکہ میں مال کو محفوظ جگہ تک پہنچادوں ۔ سواد نے موافقت کر کے ایرانیوں سے جنگ شروع کی اور انہیں مشغول رکھااور حمیضہ نے غنائم کو میدان سے باہر نکال لے گیا ۔ راستے میں اس نے عاصم کے سواروں کو دیکھایہ گمان کرتے ہوئے کہ ایرانی سوار ہیں ، ہٹ کر راستہ بدل دیا تا کہ ان سے جھڑپ نہ ہوجائے ۔ لیکن جلدی ہی انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ، لہذا حمیضہ نے اطمینان کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور عاصم بھی سواد کی مدد کیلئے آگیبڑھ گیا۔

اس دوران ایرانیوں نے '' سواد'' سے جنگ کرتے ہوئے اپنا کچھ مال اور ان کامال اپنے قبضہ میں لے لیا لیکن عاصم کے میدان کارزار میں داخل ہونے پر رفو پر رفوچکر ہوگئے اور اپنا سب مال وہیں پر چھوڈ دیا جو ''سواد'' کے ہاتھ آگیا ! عاصم ،جابر اور سواد ، صحیح وسالم اور فاتحانہ طور پربہت سے جنگی غنائم لے کر سعد کی خدمت میں پہنچے۔

طبری نے ایک دوسری روایت میں سیف سے نقل کر کے قادسیہ کی جنگ کے وقائع کے بارے میں یوں خبردی ہے :

اس جنگ میں قبیلہ ، جعفی ، قحطانی اور یمانی ایرانی فوجیوں کے ایک زرہ پوش دستے پر حملہ آور ہوئے۔ جعفی تیز تلواروں کو لئے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑے ،لیکن انتہائی تعجب سے مشاہدہ کیا کہ ان کی تلوار یں ان پر کارگر ثابت نہیں ہوئیں ۔ لہذا شکست کھاکر واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے ۔ حمیضہ نے جب اس بے محل عقب نشینی کامشاہدہ کیا تو بلند آواز میں ان سے مخاطب ہو کر بولا :

تمہیں کیا ہو گیا ؟! جعفیوں نے جواب دیا :

ہمارا اسلحہ ان پر کا ر گر ثابت نہیں ہورہا ہے !حمیضہ نے کہا ؛

یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ اسی جگہ پر ٹھہرو تاکہ تمہیں دکھادوں اس کے بعد پاس سے گزرتے ہوئے ایک ایرانی سپاہی پر حملہ آور ہوا اور نیزہ سے اس کی کمر توڑ کر اعلان کیا:

دیکھا یہ تم لوگوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے علاوہ کسی اور چیز کے لئے یہاں نہیں آئے ہیں ۔؟!

جعفیوں نے حمیضہ کے اعلان کو سننے کے بعد بلند ہتمی کا احساس کرتے ہوئے ایک تیز حملہ کیا اور دشمن کو تہس نہس کرکے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا!!

۴۷

حمیضہ کے افسانہ میں سیف کے راوی :

سیف نے درج ذیل افراد کا اپنی روایتوں کے راویوں کے طور پر تعارف کرایا ہے :

١۔''محمد '' کہ یہ وہی ''محمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ '' ہے ،جسے خود اس نے خلق کیا ہے۔

٢۔''محمد بن جریری عبدی'' یہ بھی سیف کا جعلی راوی ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتاہے ۔

٣۔''عابس جعفی ''اور اس کے باپ

٤۔''ابو عابس جعفی '' کانام لیاہے کہ دونوں باپ بیٹے اس کے جعل کردہ ہیں :اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس نے '' ابو عابس ''کا کیانام رکھاہے :

حمیضہ کے افسانہ کا خلاصہ اوراس کی پڑتال:

سیف نے اپنے افسانوی سورماحمیضہ کو عدنانیوں کے ہم پیمان کے طورپر خلق کیا ہے اور اس کی شجاعت و دلاوریوں کا ذکر کیا ہے اور بزدل یمانیوں کی رسوائی اورجنگی ناتوانی کہ انہوں نے نام نہادپیمان میں بھی شرکت نہیں کی تھی کا مذاق اُ ڑاتاہے ۔

لیکن اس کے باوجود جب اسی پہلوان حمیضہ کو سواد تمیمی کے مقابلے میں قراردیتا ہے ، تواس وقت تمیمی سردار کی شخصیت ،بزرگی اور دلاوری کو اس سے بلند تردکھاتا ہے ۔ کیونکہ یہ ''سوادتمیمی ''ہے جو بزگواری کے ساتھ جنگ میں شرکت کرنے یا غنائم جنگی کو لے جانے کا اختیارحمیضہ کو دیتا ہے ،یہ بذات خود سیف کے ہم قبیلہ سواد تمیمی کی شرافت ،بزرگواری اور شجاعت کی علامت ہے نہ کہ کوئی اور چیز!

سیف اس داستان کی منصوبہ بندی کے بعد ایک بار پھر حمیضہ کے تانباک چہرے ،سر بلند ی اور جنگی غنائم کو ایرانیوں کی دسترس سے دور کرنے اور اس کی ہم رزموں کی شجاعت کو نمایاں کر کے اس کی شخصیت واعتبار کو بڑھا وادیتاہے۔

۴۸

سر انجام تمام سر بلند یاں اور افتخارات قبیلہ تمیم یعنی سیف بن عمر کے قبیلہ کی طرف پلٹ کر آتیہیں ۔ کیونکہ تمام مشکلات کو حل کرنے والے اور مصیبت میں پھنسے لوگوں کو آزاد کرنے والے سردار اور پہلوان تمیم کابے مثال دلاور''عاصم بن عمرو'' اور اس کا ساتھی ''جابر اسدی ''ہیں جو حمیضہ اور اس کے ساتھیوں کو آزاد کرنے کے لئے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور میدان کو دشمن کے وجود سے پاک کرتے ہیں ۔ جی ہاں یہ عاصم بن عمرو ہے کہ صرف اس کا نام سن کے ہی دشمن فر ا ر کو قر ا ر پر تر جیح د یتا ہے۔آ خر کا ریہی مطا لب تھے جنھو ں نے ا بن حجر کو ا س با ت پر مجبو ر کیا ہے کہ سیف کی با تو ں پر اعتماد کر کے اپنی کتا ب ''اصا بہ'' میں ''حمیضہ''اور سیف کے دیگر خیا لی مخلو قا ت کو مخصو ص جگہ د ے اور انھیں ر سو ل خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو سرے حقیقی ا صحا ب کی فہر ست میں قرار دیکر ان کے حا لا ت پر ر و شنی ڈا لے۔

جو کچھہ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ '' حمیضہ ''کی بیرونی جنگوں میں سر گرمیوں سے مربوط تھا۔جبکہ طبری نے سیف سے نقل کر کے کچھ داخلی سرگرمیوں جیسے مرتد ہونے اور ارتداد کی بغاوت شروع کرنے کوبھی حمیضہ سے نسبت دی ہے۔طبری اس سلسلہ میں اور یمانیوں کے ارتداد کی خبر کے ضمن میں لکھتا ہے :

خلیفہ ابوبکر نے اپنے کارندوں اورگماشتوں کو پیغام اور ایلچی بھیج کر مرتدوں سے جنگ کرنے کامصمم ارادہ کیا۔ من جملہ ''طائف کے گورنر ''عثمان بن ابی العاص'' کو لکھا کہ اپنی مأموریت کے علاقہ میں اسلام پر ثابت قدم و پائدار رہنے والوں کی مدد کر کے علاقہ کے مرتدوں کو کچل دے۔طائف کے گورنر نے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے طائف کے لوگوں میں سے ایک گروہ کو ''عثمان بن ابی ربیعہ ''کی کمانڈمیں مأموریت دی کہ''حمیضہ بن نعمان '' کی سرکر دی گی میں قبائل ''ازد ،بجلیہ اور خثعم ''کے مرتدوں کے اجتماع کی وجہ سے برپاشدہ بغاوت کوکچل دیں ۔

عثمان بن ابی ربیعہ نے ''شنوء ''پر حملہ کیا اور مرتدوں سے نبردآزما ہوا ،مرتدوں نے مقابلہ کی ہمت نہ کرتے ہوئے شکست کھاکر پسپائی اختیار کرتے ہوئے فرار کیااور حمیضہ کو تن تنہا اپنی قسمت پر چھوڈ دیا ۔

حمیضہ نے اپنے آپ کو مشکل سے میدان کارزاسے دورکیا اور بے یار و مدد گار پہاڑوں اور صحراوں کی طرف بھاگ گیا۔

عثمان بن ربیعہ ''نے اس فتحیابی کواپنے اشعار میں یوں بیان کیاہے :

۴۹

ہم نے مرتدوں کے گروہ کو تتر بتر کر کے ان کی سرزمین کو تباہ وبرباد کردیا۔یہ ان کے مکرو فریب کا انجام ہے۔

قبیلہ بارق برقی بہت اچھل رہا تھا لیکن ''جب ہمارے مقابلے میں آیا تو بے پانی کے بادل کے ماننداور اپنی عظمت و شان و شوکت کھو بیٹھا۔

سیف نے اس شعر کے دوسرے مصرع میں '' بارق ''اور ''حمیضہ بارقی''کی طرف واضع اشارہ کیا ہے ۔

حمیضہ بارقی اور اس کے برے انجام کے بارے میں سیف کی اس داستان ،اور ابو بکر کے ذریعہ نقل کی گئی اس روایت میں کہ اس نے کبھی مرتدسے مدد طلب نہیں کی ہے ، یایہ کہ عمر نے ان میں سے دس افراد سے زیادہ کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپا ہے نیز اس کی دوسری روایت کہ خلیفہ عمر نے حمیضہ کو سات سو جنگجوؤں کی سپہ سالاری سونپ کر قادسیہ کی جنگ میں مأ موریت دی تھی، سے سخت اختلاف رکھتی ہے !

کیا سیف نے یہ نہیں کہاہے کہ ابوبکر نے اپنی زندگی میں کسی بھی مرتد سے مدد طلب نہیں کی ہے ؟!،

کیا اس نے خود یہ بات نہیں کہی ہے کہ عمر اگرچہ ان سے مدد لیتے تھے لیکن ہر گز ان کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپتے تھے مگر چند گنے چنے افراد کو جن کی تعداد دس تک نہیں پہنچی ہے ؟

اگر یہ مطالب سچ اور حقیقت ہیں تو خلیفہ ٔ مسلمین عمر نے کیسے مرتد اور خدااور اس کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین سے منحرف ''حمیضہ ''کو سات سو سپاہیوں کا سپہ سالار منصوب کیا اور وہ بھی ایک معروف جنگ یعنی قادسیہ کی جنگ میں ؟!!

ابن ماکولانے کوشش کی ہے کہ ان دونوں متناقض روایتوں کو سیف کی زبانی اپنی کتاب ''اکمال '' میں ایک جگہ پر درج کرے ۔وہ لکھتا ہے:

حمیضہ بارقی مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام کی آغوش میں آیا وہ قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار تھا۔

اس حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر نے حمیضہ کے ارتداد کی خبر کو ایک خاص مقصد کے پیش نظر اپنی کتاب''اصابہ ''میں درج نہیں کیاہے بلکہ عمداً اس سے چشم پوشی کی ہے ۔کیونکہ اسے یقین تھاکہ اصحاب کو پہنچاننے کے اس کے قاعدے اس بات کا سخت ٹکراؤ ہے اوراس صورت میں اس کے لے ایسے چہرے کو رسو ل خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب کے ز مر ہ میں قرا ر دینے کی کو ئی گنجا لش با قی نہیں ر ہتی۔

۵۰

٥٨ واں جعلی صحابی جابراسدی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایاہے :

جابر اسدی :سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح ''میں اس کا نام لے کر لکھا ہے کہ قادسیہ کی جنگ کے سپہ سالار اعظم ''سعد وقاص '' نے فوج کے ایک دستہ کی سپہ سالاری کا عہدہ ''جابراسدی ''کو سونپا تھا۔

ہم نے اس سے پہلے کہاہے کہ قدماکی رسم یہ تھی کہ وہ صحابی کے علاوہ اور کسی کو سپہ سالاری کے عہدے پر منصوب نہیں کرتے تھے ۔(ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ابن حجر نے ''حمیضہ '' و''جابر'' کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ان سے مربوط اس روایت کو اس نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور اس پر تأکید کی ہے ۔طبری نے بھی ان دو صحابیوں کے بارے میں انہیں مطالب کو درج کیا ہے ۔جب ہم نے ''تاریخ طبری '' کامطالعہ کیا تو متوجہ ہوئے کہ طبری نے بھی ان افسانوں کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور ''قادسیہ ''کی جنگ میں ''عاصم بن عمرو''کے ساتھ جابر کا نام بھی لیا ہے !اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابن ججر نے ''حمیضہ و جابر ''کے حا لات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''ابن ابی شیبہ '' کی اس روایت کہ ''قدما کی رسمتھی کہ....'' پر استناد کر کے یہ نتیجہ لیا ہے کہ ''حمیضہ و جابر ''چونکہ جنگ میں سپہ سالاررہ چکے ہیں لہذا صحابی تھے !!

وہ اس امر سے غافل تھا کہ یہ روایت بھی سیف کی جھوٹی اور بے بنیاد روایتوں سے لی گئی ہے، جبکہ سیف کا حال معلوم ہے !

بہر حال ابن حجر نے سیف کے ہر ایک جعلی صحابی و چہرے کو اپنی کتاب ''اصابہ ''میں ایک خاص نمبر کے تحت ثبت کیا ہے ، توجہ فرمایئے:

١۔ صحابی نمبر :١٨٤٨''حمیضہ بارقی ''علامت رمز(ز)

٢۔ صحابی نمبر :١٠٤٠''جابر اسدی ''علامت رمز(ز)

۵۱

جی ہاں ،ابن حجر نے تنہاابن ابی شیبہ کی روایت پر استنادکر کے سیف کے دو جعلی چہروں کو صحابی قبول کیاہے اور مذکورہ نمبروں کے ساتھ اپنی معتبر کتاب '' اصابہ ''میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم نے بھی اس حیرت انگیز روایت کے حقا ئق نیز مسلّم تاریخی رودادوں کے ساتھ مخالفت کی کیفیت کو اپنی جگہ پر بیان کیاہے ۔

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے اسی روایت کو مستند قراردے کر سیف کے خیالی اور افسانوں دلاوروں کو اصحاب کے طورپر قبول کر کے انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے اور ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ کیونکہ سیف نے کہا ہے کہ قدما نے انھیں سپہ سالار کے عہدے پر منتخب کیا ہے !!

ان علماء نے بعض اصحاب کے حالات کی تشریح میں مذکورہ قاعدہ کی طرف اشارہ کر کے اس سے استناد کیاہے اور بعض دوسروں کے حالاتمیں اس روایت سے چشم پوش کر کے سادگی کے ساتھ گزر گئے ہیں اور ان کی طرف اشارہ کرنے پرہیز کیا ہے۔

٥٩واں جعلی صحابی عثمان بن ربیعۂ ثقفی

ابن حجر نے اس صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :

عثمان بن ربیعہ ثقفی:

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ ''عثمان بن ابی العاص '' طائف کے گورنر نے عثمان بن ربیعہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں مأموریت دی کہ ''شنوء '' میں جمع ہوئے ''ازد''کے مرتدوں کو کچل دے ۔

عثمان نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ان پر حملہ کیااور انھیں بری طرح شکست دیدی ۔اس فتح پر اس نے یہ اشعارکہے ہیں :

ان کے اجتماع کو ہم نے تتر بتر کیا اور ان کی سرزمین کو نابود کردیا اور یہ ان کے مکروفریب کا برُا انجام تھا۔

وہ برق جو قبیلۂ بارق سے چمکی تھی جب ہمارے مقابلہ میں آئی تو بے پانی کے بادلوں کی طرح اس نے اپنا چہرہ افق میں چھپا لیا اور اپنی چمک کھو بیٹھی۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

۵۲

توجہ فرمایا کہ ابن حجر نے عثمان بن ربیعہ کو صحابی ثابت کرنے کے لئے بیان کی گئی اس روایت میں حمیضہ کا کوئی ذکر نہیں کیاہے ، جبکہ سیف کی روایتوں کے مطابق وہ اس جنگ میں مرتد وں کا سرکردہ تھا!ہم نے اس موصنوع کی علت کو حمیضہ کے حالات کے آخر بیان کیا ہے ،وہاں ملاحظہ فرمائیے ۔

اس صحابی کا نسب

اس سے پہلے ہم نے کہا کہ طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ طائف کے گورنر عثمان بن ابی العاص نے عثمان بن ربیعہ کو شنوء کی بغاوت کچلے پر مأ مور کیا۔۔۔(تاآخر)

چونکہ ''طائف''ثقفیوں '' کی رہائش گاہ تھی ، اس لئے ابن حجر نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ عثمان ربیعہ ''ثقفی '' ہونا چاہئے ۔

اس کے پیش نظر کہ سیف نے اس سلسلہ میں صراحت سے کچھ نہیں کہا ہے اور جس روایت سے اس عالم نے عثمان کے حالات کے بارے میں استفادہ و استناد کیا ہے ، اس میں اس قسم کی نسبت کا کہیں ذکر نہیں ہے !لیکن اس کے باوجود ابن حجر نے سیف کے جعلی صحابی کو ''ثقفی '' کہا ہے اور ''عثمان بن ربیعہ ثقفی '' کے عنوان سے اس کا تعارف کرایا ہے !!

عثمان بن ربیعہ کے افسانہ میں سیف کے راوی:

سیف نے عثمان بن ربیعہ کی داستان میں صرف ''سہل '' کو راوی کے عنوان سے پہچنوایا ہے کہ اسے ''سہل بن یوسف انصاری سلمی'' کہتے ہیں ، اورپہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ یہ سہل بھی اس کے جعلی راویوں میں سے ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ۔!

بحث کا نتیجہ :

ان تین چہروں :''حمیضہ بارقی'' ، ''جابر اسدی '' اور ''عثمان بن ربیعہ '' کے بارے میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے نتیجہ حاصل ہوتاہے کہ :

٤۔اور وہ تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ قبائل پر اس قسم کے جھوٹ اور ارتداد کی تہمت لگائی ہے اور ان کی شکست اور ان کے سرغنہ حمیضہ کے فرار کی خبردی ہے !

۵۳

حمیضۂ بارقی کے بارے میں :

١۔ سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں حمیضہ نام کے کسی شخص کے سات سو ''ازدی''سپاہیوں کے سپہ سالار ہونے کا ذکر کیا ہے ۔

٢۔ وہ تنہا شخص ہے جس نے حمیضہ بارقی اور قادسیہ کی جنگ میں اس کے کارناموں کی داستان گڑھی ہے ۔

٣۔وہ تنہا شخص ہے جس نے '' حمیضہ ''کی سر کرد گی میں '' شنوء '' نام کی جگہ پر قبائل ''ازد، بجیلہ اور خثعم '' کے مرتدوں کے اجتماع کی خبردی ہے ۔

٤۔اور وہ تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ قبائل پر اس قسم کے جھوٹ اور ارتداد کی تہمت لگائی ہے اور ان کی شکست اور ان کے سرغنہ حمیضہ کے فرار کی خبردی ہے !

جابر اسدی کے بارے میں :

١۔سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک دستہ پر جابر اسدی کی سپہ سالاری کی بات کہی ہے ۔

٢۔ وہ تنہا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ سعد وقاص نے '' عاصم بن عمرو اور جابر اسدی کی سرکر دگی میں ایک فوج کو قادسیہ کی جنگ سے پہلے ایرانیوں سے لڑنے والے اپنے ایک گشتی دستے کی نجات کے لئے روانہ کیا ہے ۔

عثمان بن ربیعہ کے بارے میں :

١۔ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے عثمان بن ربیعہ کی داستان بیان کی ہے ۔ ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ کیا اس نے سرے سے اس نام و داستان کو یوں ہی کسی مقدمہ کے بغیر گڑھ لیا ہے یا یہ کہ اس کے نام کو '' ربیعہ بن عثمان ،صحابی قرشی جمحی''جو حبشہ کے مھاجروں میں سے تھا ،کے نام کے مستعار لیاہے ، یا کسی اور نام سے۔

٢۔اور وہ تنہا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ طائف کے گورنر ''عثمان بن ابی العاص '' نے عثمان بن ربیعہ کو ''شنوء '' کے مرتدوں کی بغاوت کی سر کو بی کے لئے طائف سے روانہ کیا ہے ۔

۵۴

جس کے نتیجہ میں اس نے ان کے اجتماع کو تتر بتر کرکے ان کے سر غنہ کو بھگا دیا تھا ۔

اور ہم نے دیکھا کہ ان سب باتوں کو سیف بن عمر نے اپنی پانچ جعلی راویوں کی زبانی کہلوایا ہے جو ہر گز وجود نہیں رکھتے۔

بالآخر امام المؤرخین محمد بن جریر طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے ان تمام افسانوں کو اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے اور اس کے بعد دوسرے تاریخ نویسوں جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی انھیں تاریخ طبری سے نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

اس کے علاوہ ابن حجر کے کہنے پر ابن فتحون نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے جابر اسدی کو صحابی تصور کیا ہے اور اس کے نام کو ابن عبدابر کی کتاب ''استیصاب ''میں دریافت کیا ہے۔

سر انجام ابن حجر نے سیف کی تمام روایتوں پر اعتماد کر کے '' حمیضہ بارقی ''،''جابر اسدی '' اور ''عثمان ربیعہ ''کو صحابی جانا ہے اور انہی روایتوں سے استناد کر کے انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے۔

اس طرح سیف بن عمر تمیمی جیسے ایک معروف شخص جس پر زندیقی ہونے کا الزام تھا

کی روایتوں کی معتبر اسلامی منابع اور مصادر میں وسیع اشاعت ہوئی ہے اور گزشتہ بارہ صدیوں سے اس عیارِ زمانہ کے افسانوں ، تحریفات اور دخل و تصرف نے علماء و محققین کو اپنی طرف مشغول کر کے انھیں تاریخی حقائق کے بارے میں حیران و گمراہ رکھا ہے ۔ ہمیں معلوم نہیں کیا علماو محققین ایسی حالات میں ان آ لود گیوں سے اسلامی مصادر و مآخذ کو پاک کرنے کیلئے موافقت کریں گے یا حسب سابق ان کے عادی ہو کر کے خو ش فہمی کی بنا پر کسی قیمت پر انھیں چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں ہوں گے؟!

مصادر و مآ خذ

حمیضہ کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔ ''تاریخ طبری '' (١/٢٢١٨،٢٢٥٨۔٢٢٥٩،٢٣٣٤)

٢۔''تاریخ ابن اثیر '' (٢/٢٨٦،٣٤٧،٣٥٥)

٣۔تاریخ ابن خلدون (٢/٣١٦)

٤۔ ابن حجرکی ''اصابہ '' (١/٣٥٧)حصہ اول ترجمہ نمبر:١٨٤٨

٥۔ابن ماکولا کی 'اکمال' (٢/٥٣٦)

۵۵

قبائل خزاعہ کا نسب اور ان کے عہدوپیمان:

١۔ابن حزم کی ''جمھرہ انساب '' (٣٧٧)و(٤٧٣)

٢۔حموی کی ''معجم البلدان'' (١/٣٩،٥٧)

''سراة'' کی تشریح:

١۔یاقوت حموی کی '' معجم البدان '' (٣/٦٥)

جابراسدی کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (١/٢١٧)حصہ اول تر جمہ نمبر :١٠٤٠

٢۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٥٨)

٣۔''تاریخ ابن اثیر'' (٢/٢٥٦)طبع یورپ

عثمان بن ربیعہ کے حالات:

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٢/٤٥٢)حصہ اول ترجمہ نبر:٥٤٣٩

٢۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٨٥)

ربیعہ بن عثمان قرشی کے حالات:

١۔'' طبقات ابن سعد'' (٤/١٤٩)حصہ اول

٢۔''سیرةابن ہشام'' (٣/٤١٦)

جمحی کا نسب:

١۔''اللباب ''(١/٢٣٦)

٢۔ابن سعد نے ''طبقات'' (٥/٣٦٦)میں ''محمد بن عثمان مخزوی'' نام کے ایک محدث کا ذکر کیا ہے اور اسے طبقۂ پنجم میں شمار کیا ہے ۔

۵۶

ساٹھواں جعلی صحابی سواد بن مالک تمیمی

صحابی کو پہچاننے کے لئے سپہ سالاری کے قاعدہ پر علماء کی طرف سے اعتماد کئے جانے کا ایک اور نمونہ لیکن اس پر صراحت نہیں کی گئی ہے ،سواد بن مالک تمیمی نامی صحابی ہے ۔ جسے سیف بن عمرتمیمی نے خلق کیا ہے ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے:

سواد بن مالک تمیمی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ سعد بن وقاص نے جنگ کے لئے اس کے ساتھ باہر آئے ہوئے فوج کے پہلے دستہ کی کمانڈ ''سُواد بن مالک''تمیمی کوسونپی ۔

قادسیہ کی جنگ میں سعد نے اسے ایک بار پھر اپنے ہر اول دستے کا سپہ سالار بنایا ۔ اور اس نے قادسیہ کے محاصرہ کے دوران دشمن کی رسد کے ٹھکانہ پر اچانک اور تیزحملہ کر کے تین سومویشیوں کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا اور انھیں اسلامی فوج کے کیمپ میں پہنچاکر سپا ہیوں میں تقسیم کر دیا (ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس داستان کی تفصیل ''تاریخ طبری '' میں سیف کی زبانی یوں آئی ہے :

جب سعد وقاص نے ''شراف'' میں پڑائو ڈالا تو خلیفہ عمر کی طرف سے اسے ایک خط ملا ۔ اس خط میں اسے یہ حکم ملا تھا کہ اپنی فوج کے مختلف دستوں کے سپہ سالار معین کرے اور ذمہ دار یوں کو ان میں تقسیم کردے ۔

سعد نے خلیفہ کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے اسلام کے تجربہ کار اور باسابقہ افراد میں سے ہر ایک کے ہاتھوں میں سپہ سالاری کا پر چم دیا اور سپا ہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کیا اور ہر ٹولی کی کمانڈ اور ذمہ داری اس فرد کے ہاتھ میں دیدی جس نے اسلام کی راہ میں نمایا ں خدمات انجام دئے تھے ۔(یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :)

اور سواد بن مالک تمیمی کو ایک ہر اول دستے کی کمانڈ دی ۔

طبری نے ایک اور روایت میں سیف سے نقل کر کے لکھا ہے :

سواد بن مالک تمیمی نے بندر فراض کی بلند یوں سے حملہ کر کے خچر، گدھے اور گائے پر مشتمل تین سو موشیوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا اور اُن پر مچھلی لاد کے اپنی لشکرگاہ کی طرف لے آیا۔

۵۷

اس اچانک اور ماہرانہ تصرف کے نتیجہ میں ایرانی فوج کے ایک سردار ''آ زاد مردابن آزاد بہ'' نے اس کا پیچھا کیا اور بڑی تیزی سے اپنے آپ کو سواد کے نزدیک پہنچا دیا ۔ سواد نے اپنے سوار افراد کی مدد سے آزاد مرد کا مقابلہ کیا اور '' سیلحین '' کے پل پر اس سے نبردآزما ہوا،اور تب تک جنگ کو جاری رکھاکہ اسے یقین ہوگیا کہ مذکورہ مال غنیمت صحیح و سالم مقصد تک پہنچ گیا ہے تواس کے بعد وہ فوراً پر پیچھے ہٹا اور پو پھٹتے ہی سعد کے پاس کیمپ میں پہنچ کر وقائع کے بارے میں سپہ سالار اعظم اور دیگر مسلمانوں کو رپورٹ پیش کی ۔

سعد کے حکم پر تمام غنائم کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم اور اس کا پانچواں حصہ انعام کے طور پر سواد اور اس کے ساتھیوں کو بخش دیا گیا ۔ اس دن کو ''مچھلیوں کا دن''کے نام سے یاد کیا گیا!

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپاہی گوشت کے لئے تڑپ رہے تھے ۔ کیونکہوہ گوشت کے علاوہ باقی اشیا ء جیسے گندم ، جو،خرما اود یگر دالیں وغیرہ کا فی مقدار میں بلکہ طولانی مدت کے لئے اپنے ساتھ لائے تھے ۔ یہ ناگہانی اور گشتی حملے صرف گوشت کو حاصل کر نے کیلئے انجام پاتے تھے ۔اسی لئے جس دن کافی مقدار میں گوشت حاصل کرتے تھے اس دن کو اس قسم کے گوشت کا نام دیتے تھے ، جیسے ''روزگائو '' ''روزماہی''!!

طبری نے ایک دوسری روایت میں سیف سے نقل کر کے ابن مالک اور حمیضہ کی کمانڈ میں ان کے ایک سو ساتھیوں کے اچانک حملہ اور غارت گری کی تشریح کی ہے کہ ہم نے اس کی تفصیل حمیضہ بارقی کی داستان میں بیان کی ہے ۔

طبری ان تمام وقائع کو بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :

سرانجام سعد وقاص نے سواد بن مالک تمیمی کو قادسیہ کی جنگ میں اپنے ہر اول دستے کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا ہے ۔(طبری کی بات کا خاتمہ)

سیف تاریخ اسلام میں ''روز ماہیا ن '' (مچھلیوں کا دن )ثبت کرتاہے ، تاکہ تمیمی سورما سواد بن مالک کے لئے فخر و مباہات کا دن ہو کہ جس کی سخاوت کے دسترخوان پر گائے مچھلی اور دیگر حیوانوں کے گوشت سے بھوکے سپاہیوں کے پیٹ بھر جاتے ہیں اور ان کے اشتہا کی آ گ بجھ جاتی ہے ۔

اسی طرح ''روزگائے '' کو تمیم کے پہلوان عاصم بن عمرو کے لئے مجدوا فتخار کے دن کے طور پر

۵۸

ثبت کرتے ہوئے کہتا ہے :

ایک دن عاصم نے اپنے ماتحت سپاہیوں کے ہمراہ گائے اور گوسفند کی تلاش میں دشمن کے علاقہ پر حملہ کیا۔ لیکن ان کے اس حملہ سے پہلے علاقہ کے کسانوں اور گلہ بانوں نے مویشوں کو بچانے کیلئے انھیں کچھار میں چھپا رکھا تھا عاصم نے کچھار کے پاس محافظ کے طور پربیٹھے ایک چوپان سے گائے و گو سفند کے بارے میں سوال کیا ،لیکن اس شخص نے قسم کھا کر کہا کہ ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتا ہے ، اچانک کچھار سے ایک گائے فریاد بلند کر کے فصیح عربی میں بول اٹھی:

خدا کی قسم یہ شخص جھوٹ بولتا ہے ، ہم یہاں پر موجود ہیں !!

عاصم ، گائے کی گفتگوں سننے کے بعد کچھا ر میں داخل ہوا اور گائے کے گلہ کوہانکتے ہوئے اپنے کیمپ کی طرف لے گیا اور سپا ہیوں کو فصیح عربی میں گفتگوں کرنے والی گائے کے گوشت کی نعمت سے مالامال کردیا!

ہم اپنی کتاب ''عبداﷲبن سبا '' کی پہلی جلد میں درج کئے گئے سیف کے دوسرے خیالی ایام میں '' روزماہیان '' (مچھلیوں کے دن )کا اضافہ کرتے ہیں ۔اور سواد بن مالک کو بھی خاندان تمیم سے خلق کئے گئے دوسرے اصحاب میں شمار کرتے ہیں ۔

افسانہ سواد میں سیف کے راوی

سیف بن عمرنے سواد بن مالک کے افسانہ کو مندرجہ ذیل راویوں کی زبانی نقل کیا ہے :

١۔ محمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ

٢۔ زیاد بن سرجس احمری

دونوں اس کے جعلی راوی ہیں اور سیف نے ان کا نام مختصر کر کے ''محمد وزیاد'' کہا ہے۔

۵۹

اس بحث و تحقیق کا نتیجہ

سواد بن مالک تمیمی اور اس کے افسانہ کے بارے میں بحث و تحقیق سے یہ مطالب حاصل ہوتے ہیں :

سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں سعد وقاص کے حکم سے سواد بن مالک تمیمی کے فوج کے ہرادل دستہ کی سپہ سالاری پر منصوب ہونے کی خبردی ہے ۔

وہ تنہا شخص ہے جس نے ''روز ماہیان '' (مچھلیوں کے دن) کو تمیم کے سواد بن مالک کے نام پر ثبت کیا ہے ۔

اور آ خر کار ایسا لگتا ہے کہ سیف نے سواد بن مالک اوراس کے افسانہ کو جعل کیا ہے اور اس کا نام ''سوادبن مالک داری '' ١صحابی کے نام پر قرار دیا ہے !

١۔ابن حجر نے ''سواد بن مالک داری ''کی شرح حال میں لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر ''عبدالرحمان '' کر دیا تھا ۔

افسانہ سواد کو نقل کر نے والی علما:

١۔طبری نے سواد بن مالک کے افسانہ کو بلاواسط سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔

٢۔ ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں لکھا ہے ۔

٣۔ابن خلدو ن نے افسانۂ سواد کو تاریخ طبری سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیاہے۔

٤۔ ابن حجر سیف کی روایت پر اعتماد کر کے صحابی کی شناخت کے لئے ابن ابی شیبہ کی روایت سپہ سالاری صحابیت کی پہچان پر استناد کرتے ہوئے اس کی صراحت کئے بغیر ،سواد بن مالک کو صحابی مانا ہے اس کے حالات پر اپنی کتاب ''اصابہ ''میں روشنی ڈالی ہے۔

۶۰