ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123440 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب: ایک سو پچاس جعلی اصحاب( جلدچہارم )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

اصلاح ونظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیش کش : معاونت فرہنگی، ادارہ ترجمہ

کمپوزنگ: محمد جواد یعقوبی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہ السلام

طبع اول: ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ئ

تعداد: ٣٠٠٠

مطبع : لیلیٰ

۳

قال رسول اﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض'' ۔

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں :(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں ''۔

____________________

( صحیح مسلم: ١٢٢٧، سنن دارمی: ٤٣٢٢، مسند احمد: ج٣، ١٤، ١٧، ٢٦، ٥٩. ٣٦٦٤ و ٣٧١. ١٨٢٥، اور ١٨٩، مستدرک حاکم: ١٠٩٣، ١٤٨، ٥٣٣. وغیرہ)

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کی تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھی، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی ہے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۵

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گراں بہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کے بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں ، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواراں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۶

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققیں ومصنفیں کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفیں و مترجمیں کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علامہ سید مرتضی عسکری کی گرانقدر کتاب ''ایک سو پچاس جعلی اصحاب'' کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۷

کتاب ١٥٠ جعلی اصحاب کے سلسلہ میں دل کو ہلا دینے والی ایک تاریخی بحث

زیر نظر مقالہ ، دانشمند محترم جناب ''ہادی علوی'' کا اس کتاب کے سلسلہ میں تجزیہ ہے ، جو ٢٦ اگست ١٩٦٨ ء کو بغداد کے ایک روزنامہ ''تاخی'' اور مجلہ '' رسالة الاسلام '' کے شمار ٩ اور ١٠ میں جمادی الاول ١٣٨٨ ھ کو شائع ہوا ہے۔ جسے ہم نے اس کتاب کے مقدمہ کے طور پر درج کرنا بجا اور مناسب سمجھا ہے۔

تاریخ ، ایک وسیع کھیت کے مانند ہے ، جس پر ہر قسم کے بیج بوئے جاسکتے ہیں دیگر چیزوں کے مقابلہ میں اس پر زیادہ قسم کے بیج بوئے جاسکے ہیں ۔ دیگر چیزوں کے مقابلہ میں اس پر زیادہ قلم فرسائی کی جاسکتی ہے ۔

شاید تاریخ لکھنے والوں کی اس لئے کثرت ہے کہ اس پر قلم اٹھا نا آسان ہے ۔ یا اس علم کے تحت تاریخی رودادوں اور مو ضوعات کی اہمیت یا ہمارے زمانے میں یا مستقبل میں اس کے اثرات کی اہمیت اس کی کثرت و فراوانی کا باعث بنی ہے ۔

بہر حال تاریخ ، سادہ و آسان نہیں ہے ۔ لیکن اس وقت آسان بن جاتی ہے کہ جب لکھنے والا اس حالت میں ہو کہ اس سے داستان گڑھ لے اور اس داستان کے ذریعہ آرام طلب اور اپنے آپ سے بے خبر لوگوں کو سردیوں کی طوفانی راتوں میں اپنی میٹھی زبان سے گرم کر کے انہیں عیش و طرب میں مشغول کرے ۔

اگر ہم تاریخ پر علمی نقطۂ نظر سے نگاہ ڈالیں اور اس کے سنجیدہ مسائل کو سمجھنے کے لئے عاقلانہ کوشش کریں ، تو محسوس کریں گے کہ تاریخ اتنی آسان وسادہ نہیں ہے جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسی مقدار تک کہ ہم آسانی کے ساتھ اس میں تحقیق کریں اور اس کے منابع و مآخذکو پیدا کر کے ضروری تلاش و جستجوں کرکے نتیجہ تک پہنچیں ۔ یہ تین چیز یعنی تحقیق ، بحث اور نتیجہ حاصل کرنا ۔ ہر علم کی بنیاد ہے اور ان چیزوں کو حاصل کرنااغلب محنت و تکلیف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

واضح ہے کہ تاریخی تحقیق کی قدروقیمت ، اس سلسلے میں انجام دی جانے والی تلاش و جستجوپر منحصر ہے ۔ لیکن یہ تلاش و کوشش بے لوث اور اخلاص پر مبنی ہونی چاہئے اور مورد بحث موضوع بھی مشخص اور یکساں طرز پر ہونا چاہئے ۔

۸

ان واضع روشن اور سادہ حقائق کے پیش نظر ہم آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں ۔کہ کتاب ''١٥٠ جعلی اصحاب ''قابل احترام کتابوں میں سے ایک ہے ۔ کیونکہ اس کتاب میں زیر بحث موضوعات کے انتخاب میں جس دقت ا ور باریک بینی کا خیال رکھا گیا ہے وہ طولانی اور عمیق کوششوں کا مظہر ہے ۔ اس میں انتہائی صبر و شکیبائی سے کام لیا گیاہے اور یہی تمام علمی بحث و تحقیق کا مقصد ہے۔

اس کے با وجود کہ اس کتاب نے اپنے اصلی مقصد کو صیغہ راز میں رکھا ہے ۔ ،لیکن اس کا موضوعبحث، تحقیق کرنے والے تمام لوگوں خواہ عرب ہوں یامستشرقین کے لئے ایک گراں قیمت و مستند علمی مآخذ و منبع ہے۔

اس کتاب کے مصنف جناب ''سید مرتضیٰ عسکری ''بغداد کے معروف علماء میں سے ہیں ۔ موصوف نے جو بحث اس کتاب میں شروع کی ہے ، حقیقت میں ان کی اس بحث کا سلسلہ ہے جو انہوں نے اپنی دوسری کتاب "عبداﷲ بن سبا"میں ذکر کیا ہے۔

مولف نے ان دو کتابوں میں "سیف بن عمر"نامی ایک مورّخ کا نام لیا ہے جس نے بنی امیّہ اور بنی عباس کی حکومت کو درک کیا ہے ۔ اس زمانے میں جب عالم اسلام میں کتابیں لکھنے کا رواج تھا،اس مورّخ نے بھی اسلام کی فتوحات اور لشکر کشیوں پر روشنی ڈالی ہے۔

اگرچہ سیف کی کتاب "فتوح" مفقود ہوگئی ہے اور اس وقت موجود نہیں ہے ۔لیکن اس میں لکھی گئی روایتیں اور تاریخی وقائع و روداد پوری کی پوری ان مشہور ،معروف اور معتبر منابع میں درج ہیں ،جنہوں نے سیف کی بات پر اعتبار کیا ہے اوران میں سب سے پیش قدم ''تاریخ طبری'' ہے۔

جناب عسکری نے اس بحث و تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ سیف بن عمر، ایک جھو ٹ بولنے والا اور جھوٹ گڑھنے والا مورّخ تھا اور اس نے حوادث اور رودادوں کو اپنی خیالی دنیا میں خلق کیا ہے اور انھیں صحیح اور معقول دکھانے کے لئے ایک سلسلہ وار اغراض و مقاصد سے استفادہ کیا ہے جن کا اصل موضوع جس کی بناء پر اس قسم کی روداد تحریر کی گئی ہیں سے کوئی ربط نظر نہیں آتاہے ۔ ان علل و عوامل میں سے بعض حسب ذیل ہیں ۔

۹

١۔اموی حکام کی مصلحتوں کا تحفظ :

سیف نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی حکومت کے دامن میں گزار اہے۔ اس کی داستانوں اور اس کی روایتوں میں بنی امیہ کی طرفداری اور ان کی مصلحتوں کا تحفظ واضع طور پر دکھائی دیتا ہے۔

٢۔قبیلۂ تمیم کے منافع کی رعایت :

سیف نے اس سلسلہ میں تعصب کا کمال دکھایاہے۔

اس نے اس تعصب کو سیف نے قبیلۂ تمیم کے نامدار اور معروف سرداروں اور بہادروں کی اسلام کی فتوحات میں دلاور یوں اور شجاعتوں کے کارناموں کی تشریح کرتے ہوئے منعکس کیا ہے۔

جناب عسکری کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب داستانیں سیف کے افسانے اور اس کے خیال کی تخلیق ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

٣۔ اسلام کی تاریخ میں شبہہ ایجاد کرکے اس میں رخنہ ڈالنا :

مؤلف محترم نے اسے سیف کی زند یقیت کا نتیجہجانا ہے ۔

سیف نے اپنی داستانوں میں بہت سے چہروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے طور پر خلق کیا ہے ۔ جنا ب عسکری کے شمار کے مطابق اس کے جعلی صحابیوں کی تعداد ١٥٠ تک پہنچی ہے ۔

اس کے علاوہ سیف نے اپنی داستانوں کے لئے راویوں کے طور پر بعض چہرے ، اماکن اور بہت سی جغرافیائی جگہیں خلق کی ہیں ۔ ان کا ، نہ صرف جغرافیہ کے نقشہ میں کوئی سراغ نہیں ملتا ہے بلکہ سرے سے گیتی پر ان کا وجود نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے بے شمار حوادث ،روداد اور وقائع بھی خلق کئے ہیں ۔

دانشمند محترم کی اس کتاب میں سیف بن عمر کے ٣٩ جعلی اصحاب اور خیالی پہلو انوں کے بارے میں مفصل بحث ، تحقیق و تجزیہ کیا گیا ہے۔ جناب عسکری کا پکا اعتقاد ہے کہ اس قسم کی وقائع میں ایسے چہروں کا ہرگز وجود نہیں تھا۔

۱۰

جناب عسکری کی یہ تحقیق درج ذیل نکات پر مشتمل ہے :

١۔سیف بن عمر اس قسم کی روایتوں کا تنہا مصدر و ماخذ ہے طبری نے ان روایتوں کو اس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد ابن "ابن " اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلد وں نے ان ہی روایتوں کو طبری سے نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

طبری کے علاوہ چند گنے چنے مؤرخین کے پاس بھی سیف کی کتاب "فتوح "کے نسخے موجود تھے اور انہوں نے ان سے روایتیں کی ہیں ۔

لیکن جن مصادر میں سیف کی روایتوں پر اعتنا نہیں کیا گیا ہے اور ان سے مطلب نقل نہیں کیا گیا ہے ، ان میں اس کی یہ داستانیں ،دلاوریاں اور جعلی سورما وغیرہ دکھائی نہیں دیتے ۔ ان میں سیرت پر لکھی گئی کتابوں کے علاوہ بلا ذری کی تالیفات میں سیف کی داستانیں ،اس کے خلق کئے گئے پہلوان اور وقائع دکھائی نہیں دیتے ، بلکہ ان میں اس کی تحریف شدہ ، روایتیں ، وقائع اور تاریخی رودادیں دوسری صورت میں درج ہوئی ہیں ، جو سیف کی روایتوں کے بالکل مختلف ہیں ۔

طبری نے بھی تاریخی واقعات نقل کرنے میں صرف سیف کی روایتوں پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس نے دوسرے منابع سے ایسی روایتیں ، بھی نقل کی ہیں جو سیف کی روایتوں سے تناقض اور اختلاف رکھتی ہیں ۔

٢۔سیف نے اپنی روایتوں میں جن مآخذ کا سہارا لیا ہے ، وہ بذات خود اس کی روایتوں کے جعلی ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ جناب عسکری نے سیف کے راویوں کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں سے اکثر کا نام علم رجال کی کتابوں میں موجود نہیں ہے، یہی امران کے یقین کا سبب بنا ہے کہ اس قسم کے راوی سیف کے خیالات کی مخلوق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں ۔

۱۱

٣۔ سیف کی اکثر جنگیں اور فتوحات ، تو ہمات اور خلاف معمول روداد وں پر مشتمل ہیں ۔ جیسے بعض جنگوں میں حیوانوں کا خاندان تمیم کے بعض سپہ سالاروں کے ساتھ فصیح عربی میں گفتگو کرنا ! واضح ہے کہ اس قسم کے مطالب علم ومنطق کی کسوٹی پر نہیں اترتے ، خواہ انہیں سیف نے کہا ہو یا کسی اور نے(۱)

ہم دیکھتے ہیں کہ سیف تعجب انگریز مطالب کو پیش کرتا ہے اور انہیں بڑی مہارت کے ساتھ آپس میں جوڑ تا ہے اور خلاف توقع نتیجہ حاصل کرتا ہے ۔ مثلاً ایک مضبو ط اور مستحکم قلعہ جو مسلسل دو سال تک

مسلمانوں کے کئی حملے اس کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تھے ، کسی فوجی حکمت عملی کے ذریعہ تسخیر کئے بغیر سیف نے دکھایا ہے کہ وہ قلعہ ایک دم اور مختصر وقت میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایسے تسخیر ہوا کہ تمام لوگ ،حتی مسلمان سپاہی بھی حیرت اور تعجب میں پڑ گئے۔

یا یہ کہ سیف کہتا ہے ، ایک فوج میدان کا رزار کے فاتحوں کے مقابلے میں آخری لمحہ تک پائداری اور استقامت سے لڑی ۔ اپنے دشمن کے حملوں کو شجاعت کے ساتھ پسپا کیا ۔ اپنے مورچوں کا

____________________

١۔انبیائے کرام کے معجزات اس سے مستثنی ہیں ۔

۱۲

پوری طاقت کے ساتھ دفاع کیا۔ اور ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے، لیکن ، اچانک اسلام کے سپاہیوں کے ایک فوری حملے کے مقابلہ میں تاب نہ لاکر اپنی پائداری کو ہاتھ سے کھو بیٹھتی ہے اور اس کا شیرازہ بکھر جاتاہے !!

سیف کے نقطہ نظر کے مطابق جنگوں اور فتوحات میں مسلمانوں نے جو اکثر کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اسی قسم کے اتفاقات اور معجزات کی مرہوں منت ہیں ، جو جنگ کے دوران یا اس سے قبل واقع ہوئے تھے !

حوادث اور وقائع کے بارے میں اس قسم کے بیانات تاریخ لکھنے والوں کے لئے سیف کے جھوٹ اور جعلی روایتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور ہر قسم کے تعصب سے بالا تر علم ومنطق کے ذریعہ سیف کو اپنیسرزنش کا نشانہ بناتے ہیں ۔

یہاں پر استاد عسکری کے لئے یہ امر ممکن بن جاتا ہے وہ زیر بحث موضوع کے بارے میں منابع و مصادر میں ضروری جانچ پڑتال اور تلاش و کوششوں کے بعد اس خطرناک تاریخ نویس پر آخری اور کاری ضرب لگائیں اور پوری مہارت اور حکمت عملی کے ساتھحیرت انگزیزطور سے سیف کی جعلی روایتوں کو دوسرے منابع سے جدا کر کے اسلامی تاریخ کے منابع کو اس دروغ گو سے آزاد کرانے میں کامیا ب ہو جائیں ۔

یہاں پر ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ، یہ کیسے ممکن ہو سکا ہے کہ سیف کے یہ کارنامے گزشتہ مورخین کے لئے پوشیدہ رہے ہوں ؟

۱۳

ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ: ایسا نہیں تھا کہ اس کام کے بارے میں گزشتہ مؤرخین بے خبر ہوں !خود طبری نے، جس نے دوسرے تاریخ نویسوں کی نسبت سیف کی کتاب پر زیادہ اعتماد کیاہے ،پوری طرح اس کی روایتوں ،جیسے " واقدی یا اپنے اسناد کے ذریعہ سیف کی روایتوں کی تردید کی ہے ۔ دوسرے مؤرخین اور سیرت لکھنے والوں نے بھی سیف کی کسی روایت کو نقل نہیں کیا ہے ، جیسے :

بلاذری ،جو اسلامی فتوحات کے بارے میں مطلق طور پر سب سے بڑا مؤرخ سمجھا جاتا ہے اور اسی طرح یعقوبی، مسعودی اور دیگر لوگوں نے بھی سیف کی روایتوں کو کہیں سے بھی نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے ۔

راوی شناس اور علم درایت کے ماہر بھی سیف کی ان کارستانیوں سے بے خبر نہیں رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض نے واضح طور سے اس پر حملے کر کے اسے جھوٹ بولنے اور احادیث گڑھنے کا ملزم ٹھہرایا ہے۔

لیکن ان لوگوں کے لئے بھی اس حد تک تاریخی اہمیت اور احترام کے ، مالک ہونے کے باوجود اس کام کو اس طرح انجام تک پہنچانا ممکن نہیں تھا ، جس طرح جناب عسکری نے اسے انجام تک پہنچایا ہے ۔

مقالہ کے آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مؤلف محترم نے اصطلاح " افسانہ " (اسطورہ)کو پوری کتاب میں کافی جگہوں پر استعمال کیا ہے اور سیف کی بے بنیاد روایتوں کے لئے اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے جبکہ میری نظر میں اس قسم کے مطلب کے لئے ایسی اصطلاح کا استعمال کرنے میں خاص توجہ اور کافی دقت کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ" افسانہ "ایسالفظ ہے جو آج کی دنیا کی علمی بحثوں میں گزشتہ زمانے کی بڑی جنگوں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے ، کیوں کہ ان جنگوں کے واقع ہونے اوران کی سنسنی خیز رودادوں

۱۴

میں پریوں اور خدائوں کا براہ راست دخل ہوتا تھا ، جیسے بابلیوں اور یونا نیوں کے افسانے ، جنھیں انگریزی میں " متھ" (۱)کہاجاتا ہے ۔

ایک دوسری اصطلاح بھی انگیریزی میں "لبجنڈ " (۲) نام کی موجود ہے جو غیر عادی اور نا قابل یقین رودادوں کے لئے مخصوص ہے ۔ البتہ ایسی داستانوں میں پریوں اور خداوئں کی مداخلت کی بات

نہیں ہے ۔ اس قسم کی داستانوں کے نمونے " قدیسیں " اور اولیا ء وغیرہکی معجزاتی داستانوں میں پائے جاتے ہیں ، اور عرب محققین ابھی تک اس اصطلاح کے نعم البدل کے بارے میں کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے ہیں ۔ لیکن میں ترجیح دیتا ہوں کہ اس سلسلہ میں بجائے افسانہ "خرافہ"کی اصطلاح سے استفادہ کیا جائے تاکہ ان دو لفظوں کے اصلی معنیٰ ،جیسے کہ انگریز زبان میں اس کے لئے مشخص ہوئے ہیں محفوظ رہیں ۔

جب ہم سیف بن عمر کی تخلیقوں کو دیکھتے ہیں تو پاتیہیں کہ ان میں بڑی داستانوں اور خداوئں اور پریوں کی جنگوں کا رنگ و روپ نہیں پایا جاتا ہے،بلکہ یہ داستانیں بھاری اور آرام صورت میں ایک منظم تاریخی راستہ پر آگے بڈھتی نظر آتی ہیں اور اس لحاظ سے اس کی کتاب "فتوح" اسلوب اور روش کے مطابق تاریخ کی دوسری کتابوں سے مختلف نہیں ہے۔ اس لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ اس کی روایتوں کو "افسانہ "کہا جائے کیونکہ جو حوادث اور بے شمار غیر معمولی واقعات سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے ہیں وہ ''افسانہ'' اور متھ خرافہ"یا انگریزی میں "لجنڈ( Legend ) "کے مفہوم سے نزدیک تر ہے۔

____________________

١۔ Myth

٢۔ Legend

۱۵

دوسری جانب سیف کی تمام روایات اور اخبار ، معجزات اور غیر عادی کارناموں پر مشمل نہیں ہیں ، بلکہ اس کے دوسرے جھوٹ بھی ایسی چیزوں پر مشتمل نہیں ہیں ۔

قدیم زمانے کے لوگوں نے بھی جھوٹی خبر کے لئے متعدد نام رکھے ہیں یہ نام کثرت استعمال کی وجہ سے اصطلاح کی صورت اختیار کر گئے ہیں ، جیسے : موضوع ومنحول یعنی ''جعلی اور بے بنیاد ''۔ لیکن میں اپنے آپ میں یہ صلاحیت محسوس نہیں کرتا کہ یہاں پر کسی خاص لفظ کو اس کی جگہ پر تجویز کروں البتہ اس مختصر فرصت میں جو کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ایسے مباحث میں اصطلاحات استعمال کر نے میں کافی دقت اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ استاد محترم و ارجمندجناب سید مرتضیٰ عسکری ، خاص اور مناسب الفاظ کو اپنے علمی مباحث میں استعمال کرنے کے سلسلے میں دوسروں سے دانا اور آگاہ تر ہیں ۔

____________________

نوٹ : اس مقالہ کے بعض مطالب کے سلسلے میں مؤلف کا جواب اور نقطۂ نظر اسی کتاب کے آخر میں ملا حظ فرمائیں ۔

۱۶

اصحاب کو پہچاننے کا ایک طریقہ

سپہ سالاری

کتاب کے اس حصہ میں ہم سیف کے ایسے جعلی اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالیں گے جنہیں مکتبِ خلفاء کے علماء نے صرف اس بناء پر کہ سیف نے اسلام کی فتوحات میں سردار اور سپہ سالار کی حیثیت سے ان کا نام لیا ہے ، انہیں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب قرار دیکر ان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور انہیں اس عنوان سے درج کیاہے ۔

ابن "ابن " حجر اپنی کتاب " اصابہ " کے مقدمہ میں " صحابی کی تعریف" میں یوں لکھتے ہیں :

جو کچھ ہمیں صحابی کی پہچان کے سلسلے میں اپنے اسلاف سے مختصر اور یہاں وہاں سے ہاتھ آیا ہے ، اگر چہ وہ یقینی اور واضح نص نہیں ہے ، پھر بھی وہ مطلب ہے جسے " ابن "ابن " ابی شیبہ "(۱) نے ایک ناقابل اعتراض مآ خد سے نقل کر کے اپنی کتاب

____________________

١۔ ابوبکر ، عبداﷲ بن محمد بن ابراہیم بن عثمان بن ابی شیبہ کوفی عبنسی (وفات ٢٣٥ھ)ہے ۔ انکی تصنیفات میں سے صرف تین حصے حیدر آباد دکن میں شائع ہوئے ہیں ۔

۱۷

''مصنف'' میں یوں درج ہے : صدر اسلام کے جنگوں میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کرتے تھے۔

یہ عالم ابن حجر اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں '' صحابی کو پہچاننے کا ایک راستہ'' کے عنوان کے تحت لکھتا ہے :

ایک قاعدہ موجود ہے جس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کا صحابی ہونا ثابت ہوتا ہے۔یہ قاعدہ تین علا متوں پر مشتمل ہے۔ ان تین علامتوں میں سے کسی ایک کی موجودگی کسی فرد میں موجود گی اس امر کے لئے کافی ہے کہ اس شخص پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہونے کا حکم لگایا جائے۔

ان میں پہلی علامت یہ ہے جسے ابن "ابن " ابی شیبہ نے ایک ناقابل اعتراض منبع سے نقل کر کے اپنی کتاب میں لکھاہے :

صدراسلام کے جنگوں میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کیا جاتا تھا۔

اس کے بعد ابن "ابن " حجر اپنی بات کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

اگر کوئی شخص اسلام کی جنگجوں اور فتوحات کی رودادوں اور روایتوں کی تحقیق اور جستجو کرے تو اسے اس قسم کے اصحاب کی بڑی تعداد ملے گی جن کا ہم نے اپنی کتاب کے ابتدائی حصہ میں ذکر کیا ہے ۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ہم نے ابن "ابن " حجر کی اس روایت کے بارے تحقیق اور جستجو کرنے کا اراد کیا جسے اس نے ابن ابی شیبہ سے نقل کیا ہے اور ابن حجر اور اس کے ہم فکروں نے اس روایت کو صحابی کی پہچان کے لئے قطعی دلیل قرار دیکر اصحاب کے حالت پر تشریح و تفسیریں لکھی ہیں ، لیکن اس راستہ میں تمام تلاش و کوششوں کے باوجود اس روایت کے مصدر و مآخذکے طور پر سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا ۔ اسی طرح تاریخ طبری اور تاریخ ابن عسا کرنے بھی یہی مطلب لکھا ہے ۔ یہ علماء سیف سے نقل کر کے لکھتے ہیں :

۱۸

١۔ جنگوں میں افسر اور سپہ سالارا صحاب میں سے منتخب ہوتے تھے ، مگر یہ کہ ان میں سے کوئی موجود نہ ہوتا ۔

٢ ۔طبری ایک اور روایت کے مطابق سیف سے نقل کرتا ہے :

''عمر بن محمد ''نے ''شعبی'' سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

انہی دنوں ، جب خلیفہ ابوبکر نے ''خالد بن ولید و عیاض بن غنم '' کو ماموریت پر عراق بھیجا تھاتو انھیں لکھا تھا :

جن لوگوں نے مرتدوں سے جنگ کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اسلام پر باقی رہے، ان کی ایک فوج تشکیل دو۔اس فوج میں اور تمہارے ہمراہ کسی بھی مرتد کو جنگ میں شرکت نے کاتب تک حق نہیں ہے جب تک میرا حکم پہنچے۔

اس کے بعد شعبی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

ابوبکر کی خلا فت کے زمانہ میں کسی مرتد نے جنگجوں میں شرکت نہیں کی ۔

٣۔مزید طبری سیف سے نقل کر کے اسی مأخذکے مطابق لکھتا ہے:

خلیفہ ابوبکر جب تک زندہ تھے ، کسی بھی جنگ میں مرتدوں سے مدد طلب نہیں کی ۔ لیکن خلیفہ عمر ان سے مدد لیتے تھے ، مگر ، انھیں کبھی سپہ سالار نہیں بناتے تھے ، مگر ایک مختصر تعداد کو یہ عہدہ سونپا ہے جن کی تعداد دس افراد یا اس سے کم تر تھی ۔ وہ صحابی کو سپہ سالا ر کے عہدہ پر انتخاب کرنے میں کبھی غفلت نہیں کرتے تھے ۔

۱۹

٤۔ اس نے ایک اور روایت میں سیف سے نقل کر کے لکھا ہے :

سب کہتے ہیں کہ ابو بکر نے ارتداد کے جنگوں ،عراق پر لشکر کشی اور ایرانیوں سے جنگ میں مرتدوں کے گروہ سے مدد طلب نہیں کی ہے۔ وہ مرتدوں سے سپاہی کی حیثیت سے تو کام لیتے تھے لیکن ان میں سے کسی ایک کو امیر یا سپہ سالارمنتخب نہیں کرتے تھے ۔ سیف نے اس مطلب کو متعدد روایتوں میں بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے کہ ابوبکر اور عمر کی خلافت کے زمانہ میں اسلام کے سپاہیوں کی کمانڈ ہمیشہ صحابی کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور صحابی کے علاوہ کسی کو یہ عہدہ نہیں سونپا جاتاتھا ۔ لیکن یہ تمام حالات سیف کی مذکورہ روایتوں کے باوجود خلیفہ عمر کی طرف سے ''اِمرؤ القیس'' کی ''قضاعہ'' (۱)کے مسلمان پر حکومت جس نے اس سے پہلے ایک رکعت نماز بھی نہیں پڑھی تھی کے ساتھ واضع تناقص رکھتے ہیں ۔ درج ذیل داستان ملا حظہ فرمائیے:

ابوالفرج اصفہانی اپنی کتاب ''اغانی '' میں یوں لکھتے ہیں :

''اِمرؤ القیس '' نے عمر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا ۔اور اس سے پہلے کہ اس

____________________

١۔ قضاعہ '' حیدان ، بہراء ، بلی اور جہینہ '' وغیرہ قبائل پر مشمل ایک بڑے قبائل کا مجموعہ ہے ۔ ابن "ابن " حزم نے اپنی کتاب انساب (٤٤٠۔۔٤٦٠) میں اس کی تشریح کی ہے ۔ اس کا مرکز پہلے ''شجر'' اس کے بعد ''نجران ''اور اس کے بعد شام میں تھا ۔ اس قبیلہ کی سرزمینوں کی حدود وسیع تھیں اور یہ شام ، عراق اور حجاز تک پہلی ہوئی تھی ۔ معجم القبائل العربیہ۔ لفظ قضاعہ (٢/٩٥٧) ملاحظہ ہو

۲۰

قدرت نے اظہار عشق رسول(ص) کے لیے سعادت حسن آس کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسول(ص) محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبی(ص) خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

٭

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

٭٭٭

۲۱

وہ اوصافِ محبوب (ص) بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

٭٭٭

نعت نبی(ص) کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسول(ص) لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

٭٭٭

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبی(ص) بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ" آس" اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبی(ص) کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

٭٭٭

۲۲

سعادت حسن آس کو خدائے محمد(ص) نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبی(ص) مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

٭

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

٭٭٭

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آس نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

٭٭٭

۲۳

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسول(ص) کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭٭

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبی(ص) میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

٭

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

٭٭

۲۴

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسول(ص) ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد" لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام"طارق" نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد" دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد" کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمد(ص) نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمد(ص) لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آس وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے"آسمان" پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجر

(اٹک)

۸ مارچ ۲۰۰۶ ء

۲۵

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آس کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعرایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے" اور"آس کے پھول" بالترتیب ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۹۰ ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام"آدھا سورج" ۱۹۹۶ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن" اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ" سید نعمت علی شاہ" ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبی(ص) کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

٭

۲۶

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان" کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ"نعت گوئی" ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائنات(ص) خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ (ص) کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭٭

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاک(ص) " کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭٭

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسول(ص)" اور"عشق رسول(ص)" ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/ فروری ۲۰۰۶ ء

شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

۲۷

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ)

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خدا(ص) کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰ(ص) کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار (ص) سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

٭٭٭

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭

جناب سعادت حسن آس نعت کے حوالہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ اُن کی نعتوں میں سرکار دوعالم(ص) کی عقیدت و محبت ایک دائرے میں رہ کر دلکش اندازمیںرقم کی گئی ہے۔ بعض نعتوں میں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی ذات نے سرکار کی مدحت خود لکھوائی ہے۔ میرے سامنے اسوقت آس صاحب کا مجموعہ نعتیہ انتخاب۔’’ آسمان‘‘ کا مسودہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں شامل تمام کی تمام نعتیں عشاقِ مصطفےٰ کے دلوں کی ترجمان ہیں۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آس صاحب کے’’ آسمان ‘‘ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین

آمین الُلھم ربناآمین یاربُ العالمین!

دعا گو

فقیر سید عبدالدّیان بادشاہ

خطیب مرکزی جانع مسجد استقامت محلہ عید گاہ اٹک شھر۔

۲۹

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

٭

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

٭

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

٭

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

٭

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

٭

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

٭

۳۰

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

٭

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

٭

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

٭

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

٭

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

٭

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

٭

۳۱

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

٭

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

٭

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

٭

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

٭

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

٭

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

٭

۳۲

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

٭

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

٭

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

٭

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

٭٭٭٭

۳۳

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

٭

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

٭

یا نبی(ص) تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

٭

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

٭

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۴

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

٭

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

٭

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

٭

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۵

سب رسولوں نے کی ہے تیری آرزو

دشمنوں نے بھی کی ہے تیری جستجو

٭

تجھ سے دونوں جہانوں میں ہے رنگ و بو

میرا بھی آسمانِ محبت ہے تو

٭

تیری رحمت پہ رافت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تو ہی بحرِ کرم دستِ جود و سخا

کوئی ثانی ترا ہے نہ سایہ ترا

٭

اس نے پایا خدا جس کو تو مل گیا

لائقِ وصف ہے تو ہی بعد از خدا

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۶

اے حبیبِ خدا خاتمِ مرسلاں

اتنی بے انتہا ہیں تری خوبیاں

٭

کر سکا ہے بیاں کوئی اب تک کہاں

اک نظر آس پر، کر سکے کچھ بیاں

٭

تیری چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۷

نعتیں

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں

عشق س عشق مصطفےٰ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

٭

اس دعا سے ڑی دعا کیا ہے

اس سے ڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

٭

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں!

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

٭

زندگی مجھ کو خشنے والے !

زندگی کا میں مدعا مانگوں

٭

اپنے آپے سے ہو کے اہر آج

تجھ سے میں تیرا دل را مانگوں

لوگ کہتے ہیں جن کو ے سایہ

ان کے سائے کا آسرا مانگوں

جاں ھی جائے تو آس دے کر میں

ان کے کوچے کی خاک پا مانگوں

۳۸

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشو میں سائے رکھنا

٭

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

جانے کس پہر دے پاؤں وہ اتریں دل میں

اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے رکھنا

٭

چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل جائے

فصل سینے میں محت کی اگائے رکھنا

٭

روشنی اتنی ہے منزل ھی دھواں لگتی ہے

آپ رہر ہیں مجھے راہ دکھائے رکھنا

٭

آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آاد رہے

ار رحمت کے سدا اس پر جھکائے رکھنا

٭

آس ہو جائے گی آقا کی زیارت ھی نصی

ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھنا

٭٭٭

۳۹

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

٭

گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی

انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں روشن

٭

نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟

٭

ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی ہیں

جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن

٭

خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ

وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں روشن

٭

خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی کی

ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن

٭

مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں گے

ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن

٭٭٭

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273