ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب28%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123663 / ڈاؤنلوڈ: 4389
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦٥واں جعلی صحابی خلید بن منذربن سا وی عبدی

ابن حجر کی ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

خلیدبن منذربن ساوی عبدی:

طبری نے لکھا ہے کہ علاء حضرمی نے ١٧ھمیں ''خلیف بن منذر'' کو ایک فوجی دستہ کی کمانڈ سونپ کر سمندر ی راستے سے ایران کی طرف روانہ کیا ۔ خلید کا باپ ''منذر بن ساوی '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ہی اس دنیا سے چلاگیا تھا۔

ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ قدماجنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالارنہیں بناتے تھے ۔یہی ا مراس بات کی دلیل ہے کہ خلیدرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں شرف یاب ہوا ہے ،اورخدابہتر جانتا ہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

سیف کے اس صحابی کا نسب:

منذر بن ساوی ،اخنس تمیمی داری عبدی اسبذی کا نواسہ ہے ۔

لیکن ''عبدی '' '' عبداﷲبن دارم '' سے نسبت ہے ۔ یہ غلط ہے اگر یہ گمان کیا جائے کہ یہ نسبت''عبدالقیس'' تک پہنچتی ہے ۔

اور،''اسبذی ''جیسے کہ ابن حزم کی '' جمہرہ '' اور بلا ذری کی ''فتوح البلدان میں لکھاگیا ہے کہ ''اسبذی'' ،''ہجر '' میں ایک قصبہ تھا ۔

بلاذری لکھتاہے :

''اسبذی '' بحرین میں کچھ لوگ تھے جو گھوڑے کی پوجا کرتے تھے ۔''

اور خود بحر ین کے بارے میں لکھتاہے :

٨ھمیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''علاء بن عبداﷲ''حضرمی ''کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دے اور قبول نہ کرنے کی صورت میں ان پر جزیہ مقرر کرے ۔اس کے علاوہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''منذر بن ساوی '' اور ''ہجر''کے سرحد بان ''سیبخت ''کے نام خط مرقوم فرمایا اور انھیں اسلام قبول کرنے یا جزیہ دینے کی دعوت دی۔ منذر اور سپخت اسلام لائے اور ان کے ہمراہ اس علاقہ کے تمام عرب زبان اور بعض غیر عرب بھی مسلمان ہو گئے' لیکن آتش پرست زمیندار یہودی اور عیسائی اسلام نہیں لائے اور انہوں نے جزیہ کی بناء پر علاء حضرمی سے صلح کی اور علاء نے اس سلسلے میں اپنے اور ان کے درمیان ایک عہد نامہ لکھا۔

۸۱

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد منذر فوت ہوگیا۔ (بلاذری کی بات کا خاتمہ)

''منذربن ساوی '' کی داستان کی حقیقت یہی تھی جو ہم نے اوپر ذکر کی ۔لیکن سیف بن عمر اسی منذرکے لئے ایک بیٹا خلق کرتا ہے اور اس کا نام ''خلید بن کاس '' کے نام پر ، ''خلید''رکھتاہے ۔''خلید بن کاس کو امیرالمومنین علی نے خراسان کے حاکم کے طور پر منصوب فرمایا تھا۔سیف اپنے اس خلید کا اپنی روایتوں میں ''خلید بن منذربن ساوی ''کے عنوان سے تعارف کراتاہے۔!!

ابن حجرنے اس تعارف کے تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں خلید کے لئے ''عبدی''کا بھی اضافہ کیا ہے کیونکہ منذربن ساوی کو ''عبدی 'سے نسبت دی گئی ہے ۔

خلید کا افسانہ:

طبری نے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھاہے :

علاء بن حضرمی جو بحرین پر حکومت کرتاتھا ،سعد بن ابی وقاص سے رقابت رکھتا تھا اور اپنے آپ کو اس سے کم تر نہیں سمجھتا تھا ۔لہذا سے جب سعد بن وقاص کو قادسیہ کی جنگ میں فتح نصیب ہوئی اور جو جنگی غنائم اسے حاصل ہوئے تھے وہ ارتداد کی جنگوں میں علاء کے ذریعہ حاصل کئے گئے غنائم سے کافی زیادہ تھے اس لحاظ سیسعد کا نام زبان زد عام ہو چکا توعلاء کے ذہن میں حسادت کی وجہ سے یہ خیال آیاکہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایسا کارنامہ دکھائے جس سے شہرت حاصل کر سکے۔ علاء نے اپنی اس فکر کے تحت لوگوں کو سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کرنے کی دعوت دیدی ۔لوگوں نے بھی اس کی تجویز کو قبول کیا اور اس کے پرچم تلے جمع ہوگئے ۔

علاء نے جمع ہوئے سپاہیوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا فوج کے ایک حصہ پر ''جارود بن معلی '' دوسرے حصہ پر ''سوار بن ھماّم'' اور تیسرے حصہ پر ''خلید بن ساوی ''کو سپہ سالار مقرر کیا اور یہ حکم دیا کہ کمانڈ ر انچیف ''خلید '' ہوگا۔ اس کے بعد خلافت اور خود خلیفہ سے اجازت حاصل کئے بغیر اور خلیفہ عمر کی فرمانبرداری یا نافرمانی کے انجام کی فکر کئے بغیر خود سرانہ سمندر ی راستے سے ایرانیوں پر حملہ کیا۔

۸۲

عمر ، خودایرانیوں پر اس راستے سے حملہ کرنے سے آگاہ تھے ،لیکن رسول اﷲاور خلیفہ اول ابوبکر کی سنت کی پیروی کے پیش نظر اور بے جا خود خواہی اور غرور کے خوف سے ایسے حملہ کو جائز نہیں جانتے تھے اور سپاہ سالار وں کو پہلے سے ہی ایسے حملہ سے پرہیز کرنے کاحکم دے چکے تھے ۔

بالآخر علاء کے سپاہیوں نے سمندر سے گزر کر ''استخر فارس '' نام کے مقام سے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا ۔ ''ھیر بد '' نامی اس علاقہ کے سرحد بان نے ایک تدبیر سوچی کہ اسلامی سپاہیوں اور ان کی کشتیوں کے درمیان ایسی رکاوٹ پیدا کرے کہ ان کا اپنی کشتیوں تک پہنچنا ناممکن بن جائے ۔اس تدبیر کے پیش نظر اگر علاء کے سپاہی فاتح نہ ہوتے تو انھیں قطعی طور پر موت یا اسارت میں سے ایک کا سامنا کر نا پڑتا !

'' خلید حالات کو بھانپ چکا تھا ،اس لئے اٹھ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر بولا:

اما بعد ، خدائے تعالیٰ جب کسی امر کو مقرر فرماتاہے تو کام اس طرح ایک دوسرے کے پیچھے مرتب ہوتے ہیں تاکہ منشائے الٰہی پورا ہو جائے ۔

تمہارے دشمنوں نے جو کچھ تمہارے بارے میں انجام دیا ہے وہ اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتے ہیں ۔انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ تم سے جنگ و مبارزہ طلب کریں ،اورتم لوگوں نے بھی اسی مقصد کے پیش نظر اتنا لمبا سفر کیا ہے ۔

اب سر زمینوں اور کشتیوں پر قبضہ کرنا تمہاری فتحابی پرمنحصر ہے ،صبر و شکیبائی اور نماز ادا کرکے بارگاہ خداوند ی میں خضنوع و خشوع کرو کہ یہ کام خوف خدا رکھنے والوں کے علاوہ دوسروں کے لئے مشکل ہے ۔

لوگوں نے خلید کی باتوں کی تائید کی اور ہر کام کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا اس کے بعد انہوں نے ظہر کی نماز ادا کی ۔خلید نے انھیں ایرانیوں سے لڑنے کے لئے للکارااور ''طائووس''کے مقا م پر جنگ چھڑ گئی۔ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔

۸۳

''سوار بن ھمام '' نے اپنے گھوڑے کی لگام کھینچ لی اورحسب ذیل رجز خوانی کی :

اے آل عبدقیس ! جبکہ اس وقت سب ساتھی اس ناہموار زمین پر جمع ہوئے ہیں تم پہلوان !دلاوروں سے لڑنے کے لئے اٹھو!

یہ سب اہل رزم اورمردان ِ جنگ ہیں اور تیز تلوار وں کو چلانے کے فن سے اچھی طرح آگاہ ہیں اوران سے پورا پورا استفادہ کرتے ہیں اس کے بعد اس نے اس قدر جنگ کی کہ آخر کار قتل ہوگیا۔

اس کے بعد ''جارود'' نے میدان میں آکر یوں رجز خوانی کی:

اگر کوئی آسان چیز میرے دسترس میں ہوتی تو اسے راستے سے ہٹا دیتا یا اگر گندہ اور کھڑا پانی ہوتا تو اسے میں زلال اورجاری پانی میں تبدیل کردیتا ۔لیکن کیا کروں یہ فوج کا ایک سمندر ہے جو ہماری طرف موجیں مارتا ہوا آرہا ہے۔

اس کے بعد اس نے جنگ کی اور قتل ہوگیا۔

اس دن ''عبداﷲسوار '' اور منذر جارود نے انتہائی اضطراب و بے چینی کے باوجود بہت ہاتھ پائوں مارے لیکن آخر جنگ کرتے ہوئے قتل ہوئے ۔

اس وقت ''خلید نے میدان کا راز میں قدم رکھا اور خود ستائی کے رجز پڑھتے ہوئے بولا:

اے تمیمیو !سب گھوڑوں سے نیچے اُترائو ،اور دشمن سے پیدل جنگ کرو.

اس کے بعد سب اپنے گھوڑوں سے اتر کر جان ہتھیلی پر لے کر دشمن کے ساتھ پیدل جنگ میں مشغول ہوئے اور اس قدر ان کو قتل کیا جن کا کوئی حساب نہیں تھا.

اس کے بعد بصرہ کی طرف واپس لوٹے ۔لیکن دیکھا کہ ان کی کشتیوں کو غرق کر دیا گیا ہے اور ان کے لئے دریا کے راستے واپس لوٹنا ناممکن بنادیا گیا ہے !

اس حالت معلوم ہوا کہ ''شہرک ''کے مقام پر بھی دشمن نے راستہ بند کر دیا ہے اس طرح وہ سمندر کے علاوہ دیگر تین اطراف سے بھی مکمل طور پر محاصرہ میں پھنس گئے ہیں ۔ آخر کار وہ تمام سر گرمیوں سے ہاتھ کھینچ کر انتظار میں بیٹھے !

۸۴

دوسری جانب علاء حضرمی کی سمندری راستے سے ایرانیوں پر لشکر کشی کی خبر خلیفہ عمر کو پہنچی اورجو کچھ مسلمانوں پر گزری تھی وہ سب ان پرالہام ہوا ۔خلیفہ نے علاء کو غصہ کی حالات میں ایک خط لکھا جس میں اسے سخت سر زنش تھی اور اس کے بعد اسے برطرف کردیا!

عمر نے اس قدر تنبیہ پر اکتفانہ کی بلکہ اس کے غرور کو توڑ کے رکھدیا اور اس شانوں پر ایک طاقت فرسابار ڈالدیا ،یعنی حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت ''سعد وقاص '' کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے ماتحت فریضہ انجام دے !!

علاء نے مجبور ہو کر خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوفہ عزمیت کر کے سعد کی خدمت میں پہنچ گیا

اس کے بعد عمر نے مسلمانوں کو ایرانیوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے چارہ جوئی کی اور ''عتبہ بن غزوان ''کو ایک خط میں یوں لکھا :

علاء حضرمی نے خود سرانہ طور پر مسلمانوں کے لشکر کو ایران لے جاکر انھیں ایرانیوں کے چنگل میں پھنسادیا ہے ۔چونکہ علاء نے اس کام میں ہماری نافرمانی کی ہے ،اس لئے خدا بھی اس سے ناراض ہے ۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ علاء کے گناہوں کا نتیجہ اسلام کے سپاہیوں کو بھگتنا نہ پڑے ۔لہذا اس سے قبل کہ وہ اس سے زیادہ بدحال ہوں ان کی مدد کے لئے اپنے لوگوں کو آمادہ کرؤ اور فوراً خود ان کے پاس پہنچو۔

عتبہ نے لوگوں کو خلیفہ کے خط سے آگاہ کیا اور انھیں محاصرہ میں پھنسے اسلام کے سپاہیوں کی مدد کے لئے آمادہ کیا ۔لوگوں نے بھی اپنی رضامندی اور آمادگی کا اعلان کیا اوراس کی لشکر گاہ میں جمع ہو گئے ۔

ا س کے بعد عتبہ نے ،''عاصم بن عمرو تمیمی ''،''احنف بن قیس تمیمی ''اور''ابوسبرہ '' کے علاوہ ان جیسے چند دیگر دلاوروں کا انتخاب کیا اور بارہ ہزار سپاہیوں کو ان کی کمانڈ میں دیا ۔ ان سب کے کمانڈر انچیف کا عہدہ ''ابوسبرہ ''کوسونپ کر محاصرہ میں پھنسے مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجدیا ۔

مسلمانوں کی فوج نے ساحل پر اترنے کے بعد بے درنگ خود کو ''خلید'' اور اس کے ساتھیوں تک پہنچایا اور ایرانیوں سے زبردست لڑائی چھیڑ دی اور اس کے باوجود کہ ابھی ایرانیوں کی کمک ان تک پہنچ رہی تھی انہوں نے مشرکوں کے کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔ سر انجام خدا وند عالم نے انھیں فتح و کامیابی عطا کی اور سارے ایرانی موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔

۸۵

مسلمانوں نے اس فتح و کامیابی کے نتیجہ میں اپنے کھوئے ہوئے مال کے علاوہ کا فی مقدار میں غنائم جنگی پر بھی قبضہ کیا اور فاتحانہ طور پر صحیح و سالم بصرہ لوٹے کیونکہ عتبہ نے انہیں تاکید کی تھی ایرانیوں کا کام تمام کرنے کے بعد وہاں پر مت ٹھہرنا بلکہ فوراً واپس آجانا۔ (طبری بات کا خاتمہ)

خلید کے افسانہ کے راویوں کی پڑتال :

سیف نے اپنی اس روایت کے راویوں کے طور پر مندرجہ ذیل نام لئے ہیں :

١۔محمد ،یامحمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔

٢۔مہلب ،یا مہلب بن عقبہ اسدی ۔

ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہاہے کہ محمد ومھلب دونوں سیف کے خیالی راوی تھے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں سیف سے نقل کر کے طبری نے جو کچھ بیان کیا ہے حموی نے سیف سے نقل کرنے کے علاوہ کچھ اضافات اور اشعار بھی درج کئے ہیں ، ملاحظ فرمایئے :

حموی نے اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لفظ طائووس '' کے سلسلے میں طبری سے نقل کر کے لکھاہے :

سیف بن عمر سے روایت ہے کہ علاء خضرمی نے خلافت اورخود حضرت عمر سے اجازت لئے بغیر ایک فوج کو سمندر ی راستے سے ایران کی طرف بھیجدیا ۔عمر علاء کے اس نامناسب کا م کی وجہ سے اس پر ناراض ہو اور اسے اپنے عہدے سے برطرف کر دیا۔ علاء ، برطرف ہونے کے بعد سعد وقاص کے پاس کوفہ گیا ،جس نے اس کی مدد کی تھی۔اور سرانجام ''ذی قار'' کے مقام پر فوت ہوگیا ۔خلید بن منذر نے جنگ ''طائووس'' کے بارے میں یوں کہا ہے :

ہم جس شب میں پادشاہوں کے تاج چھین کے لائے تھے ، ہمارے گھوڑوں نے شہر '' شہرک'' کی بلندیوں اور ناہموار زمین پر قبضہ کرلیا۔

ہمارے شہسوار ایرانیوں کو گروہ گروہ پہاڑوں کی بلندیوں سے ایسے نیچے گرا دیتے تھے کہ دیکھنے والا بادل کے ٹکڑوں کو گرتے دیکھتا تھا۔

خداوند عالم! ہمارے گروہ میں سے ان لوگوں کو اپنی رحمت سے محروم نہ کرے جنہوں نے دشمن کے خون سے اپنے نیزوں کو رنگین کیا تھا۔

۸۶

بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے جو اول سے آخر تک یہ جنگ اور اس میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑائی اور جنگ کی تفصیلات لکھی ہیں سب کی سب اس کی خود ساختہ داستان ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

سیف نے علاء حضرمی یمانی قحطانی صحابی کے سعد و قاص عدنان مضری صحابی کے ساتھ حسد کی داستان کو گڑھا ہے اور ان کیلئے جھوٹ کے پلندے بناکر تہمت لگائی ہے۔ سیف نے علاء کی لام بندی کو جعل کرکے ان کیلئے فرضی کمانڈر معین کئے ہیں ۔ سیف نے اسلام کے سپاہیوں کا عمر منع کرنے کے باوجود سمندر سے عبور کرکے ایرانیوں پر حملہ کرنے کی داستان اپنے ذہن سے گڑھ لی ہے ، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیف نے '' طاؤوس'' کے میدان جنگ اور وہاں پر اسلام کے دلاوروں کے قتل ہونے کا قصہ اپنے ذھن سے گڑھ لیا ہے اور یہ سراسر جھوٹ ہے۔

سیف نے سپہ سالاروں کے نام پر خود رزمیہ اشعار اور رجز خوانیاں جعل کرکے ان کے نام پر درج کئے ہیں !

سیف نے عمر کے الہام کا موضوع ، ایران کی سرزمین پر مسلمانوں کے حالات اور ان کی شکست کے بارے میں الہام کے ذریعہ حضرت عمر کا مطلع ہونا ، خود گڑھ لیا ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے!

سیف کی یہ داستان کہ عمر نے علاء کی تنبیہ کرکے اسے اپنے عہدے سے اس لئے برطرف کیا ہے کہ اس نے یہ کام نافرمانی کی بناء پر کیا تھا اور خلیفہ کے حکم سے اس کا سعد و قاص کے تحت جانا سب سیف کا گڑھا ہوا ہے اور حقیقت سے دور ہے۔

عتبہ بن غزوان '' کی ایرانیوں کے ہاتھوں محاصرہ شدہ مسلمانوں کو نجات دلانے کیلئے عمر کی طرف سے مموریت اور بارہ ہزار سپاہیوں کو ایران بھیجنا سیف کا گڑھا ہوا افسانہ اور سراسر جھوٹ ہے ۔

سیف نے ایک ایسی رزم گاہ خلق کی ہے جہاں پر عتبہ کے سپاہیوں نے ایرانیوں سے جنگ کی ہے ، حقیقت میں اس میدان کارزار کا کہیں وجود نہیں ہے۔

سیف نے '' طاؤوس'' نامی ایک جگہ کو خلق کیا ہے اور اسے اسلام کے دلیرمردوں کا میدان کارزار قرار دیا ہے اور بالاخر اس نے چند راویوں کو خلق کرکے خلید کے افسانے اور جنگی وقائع ان کی زبان سے بیان کئے ہیں ۔

جی ہاں ، ان سب چیزوں اور ان کے علاوہ اور بھی افسانوں کو سیف نے خلق کیا ہے اور ان کی تخلیق میں سیف کا کوئی شریک نہیں تھا۔

۸۷

افسانہ خلید سے سیف کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں خلید کے افسانہ میں سیف کا ان سب باتوں کو گڑھنے کا کیا مقصد تھا اور اس نے اس سے کیا حاصل کیاہے :

١۔سیف نے اس افسانہ میں علاء حضرمی ،یمانی قحطانی صحابی پر سعد وقاص عدنانی مضری کے ساتھ مکر ،ریا،حسدو رقبت کے علاوہ خلیفہ عمر کے حکم کی نافرمانی کی تہمت لگائی ہے اور اس طرح ارتداداور دوسری جنگوں میں اس کی تمام خدمات اور زحمتوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

٢۔ سیف بن عمر تمیمی نے ''خلید ''نامی ایک دوسرے افسانوی سورما کو خلق کر کے اپنے خاندان تمیم کو چار چاند لگانے کی ایک اور کوشش کی ہے ۔ کیونکہ اس کے قبیلہ کا نام اس افسانہ میں واضح ہے ۔

٣۔سیف نے تاریخ اسلام کو اپنی قدرو قیمت اور اعتبار سے گرادیا ہے ، اس کے نے بہت سی جنگوں کو مسلمانوں سے نسبت دی ہے اور ان کے ہاتھوں خون کی ہولیا ں کھیلنے کے ساتھ ،ایک اور جنگ کا اس میں اضافہ کیا ہے اور اس میں بھی بے حد وحساب کشتیوں کے پشتے لگا کر اسے مسلمانوں کے نام پر درج کیا ہے۔ اس طرح اپنے رندیقی ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے ۔

٤۔ان واقعات اور دیگر ایسے ہی وقائع کو تاریخ اسلام میں ایسے داخل کیا ہے کہ اکثر محققین تاریخی حقائق کے روبرو حیرت اور گمراہی سے دوچار ہوتے ہیں ۔

خلید کا افسانہ نقل کر نے والے علما:

١۔ امام المورخین ،محمد بن جریر طبری ،جس نے افسانہ خلید کو بلاواسطہ سیف سے نقل کیا ہے ۔

٢۔ابن اثیر ، جس نے خلید کے افسانہ کو طبری سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

٣۔ابن کثیر ،جس نے داستان خلید کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٤۔ابن خلدون ، جس نے خلید کی داستان کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے۔

٥۔حموی ،جس نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے خلید کے افسانہ کو سیف سے نقل کر کے لفظ ''طاوئو س '' کے سلسلے میں ''معجمم البلدان ''میں درج کیا ہے ۔

۸۸

٦۔حمیری نے بھی لفظ ''طاوئوس ''کے سلسلے میں اسی داستان کو اپنی کتاب ''روض المعطار'' میں نقل کیا ہے ۔

٧۔عبدالمؤمن نے بھی حموی سے نقل کر کے اس داستان کو اپنی کتاب '' مراصد الاطلاع ''میں درج کیا ہے

٨۔سرانجام ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے ،خلید کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی جان کر اپنی کتاب ''اصابہ کے حصۂ اول میں نمبر ٢٢٨٥کے تحت اس کے حالات درج کئے ہیں !

وہ مشکل جسے ابن حجر نے حل کیا ہے !!

چونکہ ''منذر بن ساوی عبدی '' اہل ِ بحرین تھا اور وہیں پر زندگی بسر کر تا تھا اور وہیں پر فوت ہواہے ، اس لئے جس ''خلید '' کو سیف بن عمر نے اس کے بیٹے کے طور پر خلق کیا ہے اور علاء کی سپاہ کے کمانڈر کی حیثیت سے بحرین میں اسے ماموریت دی ہے ،وہ بھی بحرینی ہونا چاہیئے ،لیکن یہ خلید کے صحابی ہونے کی نفی کرتا ہے ، کیونکہ صحابی کو کم از مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہونا چاہئے ۔ اب چونکہ خلید بن منذر بحرین میں پیدا ہوا ہے اور وہیں پر رہایش پذیر تھا کہ علاء حضری نے اسے ایرانیوں کے ساتھ جنگ پر بھیجدیا ہے ، اس لئے ابن حجر اس مشکل کوحل کرنے کی فکر میں پڑتا ہے اور خلید کا تعارف کرانے اوراس کے حالات بیان کرنے کے بعد علاء کی سپاہ میں اس کے سپہ سالار کے طور پر منتخب ہونے کے سلسلے میں لکھتاہے :

ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ قدماء کی رسم یہ تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔خلید کی سپہ سالاری اس امر کی دلیل ہے کہ وہ قطعاًمدینہ گیا ہوگا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہوگا۔اور خدا بہتر جانتا ہے ۔

موضوع اس طرح ہے کہ علامہ ابن حجر سیف کی اس روایت سے کہ خلید بن منذر ''طاوئوس''کی جنگ میں سپہ سالارتھا یہنتیجہ حاصل کرتا ہے کہ صحابی کی شناخت کے لئے جو قاعدہ وضع کیا گیا ہے یعنی ''قدماء صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار منتخب نہیں کرتے تھے '' ،اس کے تحت خلید بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا صحابی ہونا چاہئے ۔

۸۹

لیکن خلید بحرینی کی مدینہ منورہ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مصاحبت اس کی بحرین میں سکونت کے ساتھ سخت ٹکراؤ رکھتی ہے ، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک وقت میں زمین کے ایک دوسرے سے دور دو نقطوں پر وجود رکھتا ہو ۔لیکن سیف نے کہا ہے کہ خلید سپہ سالار تھا اور ِ صحابی کے علاوہ کوئی اور سپہ سالار نہیں بن سکتاتھا !

لہذا علامہ ابن حجر اس کی چارہ جوئی کرتے ہیں تاکہ اس واضع اور آشکا ر تناقص کو دور کریں اور سرانجام اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خلید نے بحرین سے مدینہ سفر کیا ہوگا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یا ب ہوا ہو گا اوراس کے بعد واپس بحرین آیا ہوگا ۔ چونکہ وہا ں پر تھا اسلئے علاء حضرمی کے حکم سے سپہ سالاری کی ذمہ داری کو قبول کیا ہے ۔اس لئے لکھتاہے :

فدلّ علی انّ للخلید وفادة

یعنی سپہ سالار ی کے عہدہ پر فائز ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ خلید مدینہ گیا ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچا ہے ۔

علامہ ابن حجر کی اس تحقیق سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مکتبِ خلفاء کے علماء اپنی تا لیفات میں کس قدر استدلالی اور منطقی تھے !!

گزشتہ حصہ میں ہم نے سیف کے جعلی اصحاب کے ایک گروہ کا تعارف کرایا ،جن میں علماء نے سیف کی روایت پر بھروسہ کرتے ہوئے کہ وہ سپہ سالارتھے ، انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر شمار کیا ہے ۔اب ہم خدا کی مدد سے سیف کے جعلی اصحاب کے ایک اور گروہ کا تعارف کراتے ہیں جنھیں اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قراردیا ہے ۔

۹۰

مصاررو مآخذ

خلید ابن منذر ساوی کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (١/٤٥٠) حصہ اول نمبر: ٢٢٨٥اور منذر کے حالات (٣/ ٤٩٣)

منذر بن ساوی کا نسب:

١۔''جمھر ہ انساب '' ابن حزم (٢٣٢)

٢۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری (٩٥۔١٠١) کہ اس میں اسپذیوں کی گھوڑے کی پرشش بھی بیان ہوئی ہے ۔

خلید بن منذر کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٥٤٥۔٢٥٤٨)

٢۔''تاریخ ابن اثیر'' باب غزو فارس من البحر اومن البحرین (٢/٤١٩۔٤٢١)

٣۔ ''تاریخ ابن کثیر '' (٧/٨٣۔٨٥)

٤۔ ''تاریخ ابن خلدون '' (٢/٣٤٠۔٣٤١)

''طائووس'' کی تشریح :

١۔''معجم البلدان '' حموی۔ طبع یورپ (٣/٤٩٤)

٢۔''مراصدالاطلاع'' ، لفظ ''طائووس''

٣۔ ''روض المعطار''، لفظ (طاؤوس)

۹۱

والی خرسان ''خلید بن کاس '' کی روایت :

١ ۔ کتاب ''صفین'' نصر مزاحم (١٥)

٢۔''اخبار الطوال'' دینوری (١٥٣۔١٥٤)

٦٦واں جعلی صحابی حارث بن یزید

مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے والا:

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ''حارث بن یزید عامری قرشی '' (بنی لو ء ی بن عامرسے )وہ شخص تھا جو مکہ میں مسلمانوں کو جسمانوں کو جسمانی اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتاتھا ۔

بلا ذری اپنی کتاب ''النساب الا شر اف '' میں لکھتا ہے :

حارث بن یزید رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سخت دشمنوں میں سے تھا ، اس نے مکہ میں ''عیاش بن ابی ربیعہ ''، جو مسلمان ہوگیا تھا،کو زنجیرو ں میں جکڑ کر جسمانی اذیت پہنچانے میں اس قدر بے رحمی وبر بریت کا مظاہرہ کیا تھاکہ ''عیاش نے قسم کھائی تھی کہ اگر کسی دن اس پر قابو پا سکا تو اسے مارڈالے گا،

ایک زمانہ کے بعد مشرکین کی اذیت و آزار اور جسمانی اذیتوں سے تنگ آکر اصحاب نے ہجرت کرنے کافیصلہ کیا اور مشرکین سے چھپ کے چند اشخاص کے گرو ہوں کی صورت میں راہی مدینہ ہوئے۔

جب مکہ ،مسلمانوں سے خالی ہوا ، حارث اپنے کر توت پشیمان ہوکر مسلمان ہوا اور دوسرے مسلمانوں کی طرح مدینہ روانہ ہوا جبکہ کسی کو اس کے مسلمان ہونے کی خبر تک نہیں تھی ۔

۹۲

تازہ مسلمان حارث جنگِ''احد ''کے بعد مسلسل دن رات پیدل چلنے اور بیابانوں سے گزرنے کے بعد ''حرّہ'' یا ''بقیع''کے نزدیک پہنچا تھا کہ ''عیاش بن ربیعہ''سے اس کا آمنا سامناہو گیا!

جوں ہی عیاش کی نظر حارث پر پڑی ، اس نے اس گمان سے کہ وہ ابھی کفرو شرک پر باقی ہے ، فوراً تلوار کھینچ کراس سے پہلے حارث کچھ کہے اس کا کام تمام کر دیا!

عیاش کے ہاتھوں حارث کے قتل ہونے کے بعد مندرجہ ذیل آیہ شریفہ نازل ہوئی اور اس نے غلطی سے انجام دئے گئے کام کے بارے میں عیاش کے مریضہ کو واضح کر دیا :

( وَماَکاَنَ لِمُؤمِنٍ اَن یَّقتُلَ مُؤمِنًا اِلاَّ خَطَ ً ومَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطًَ فَتَحرِیرُ رَقَبَةٍ مُومِنَةٍ وَّدِیَة مُسَلَّمَة اِلیٰ َهلِهِ،ِلَّا اَن یَّصَّدَّقُوْا ) (۱)

اس آیہ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عیاش سے مخاطب ہو کر فرمایا: اٹھو! اور خدا کی راہ میں ایک غلام آزاد کرو۔

____________________

١۔سورہ نسائ/٩٢،اور کسی مؤمن کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مؤمن کو قتل کردے مگر غلطی سے اور جو غلطی سے قتل کر دے اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے ا ور مقتول کے وارثوں کو دیت دے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں

۹۳

حارث بن یزید عامری قرشی کی پوری داستان یہی تھی ۔

لیکن سیف نے اپنے افسانوں میں ایک اورشخص کو اس حارث کے ہم نام خلق کر کے ''ھیت '' کی جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار کے عنوان سے اس کا تعارف کرایا ہے اور کچھ کارنامے بھی اس سے منسوب کئے ہیں

ابن حجر نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے حارث کو صحابی جانا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لکھتاہے :

حارث بن یزید عامری دیگر:

سیف بن عمر نے اس کا نام لیا ہے اور لکھاہے کہ خلیفہ عمر نے ایک خط کے ذریعہ ''سعد وقاص'' کو حکم دیا کہ ''وہیب کے پوتے عمر و بن مالک بن عتبہ '' کو ایک ہر اول دستے کی سرپرستی سونپ کر ''ھیت '' کی طرف روانہ کرے تاکہ اس شہر کو اپنے محاصر ہ میں لے لے ۔

عمرونے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ''ھیت ''کا محاصرہ کیا ۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی ''حارث بن یزید عامری '' کو آدھی فوج کی کمانڈ سونپ کر باقی سپاہیوں کے ہمراہ خود قر قیسیا پر حملہ کیا ....(داستان کے آخر تک)

اس کے بعد ابن حجر اپنے کلام کوجاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ قدما کی رسم یہ تھی کہ وہ صحابی کے علاوہ کسی اور کوسپہ سالار کے عہدہ پر فائز نہیں کرتے تھے ۔اس صحابی کو ابن فتحون نے بھی ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب'' سے دریافت کیاہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

مذکورہ داستان کو طبری نے فتح ''جزیرہ ''کے موضوع کے تحت سیف بن عمر سے تفصیل کے ساتھ نقل کر کے یوں بیان کیا ہے :

رجب ١٦ھ میں سعد وقاص نے خلیفہ عمر کے حکم سے '' نوفل بن عمر مناف ''کے پوتے ''عمر بن مالک بن عتبہ '' کو سپہ سالارمنتخب کیا اور اسے پورے '' جزیرہ '' کا مأ مور مقرر کیا اور سپاہ کے اگلے دستہ کی کمانڈ ''حارث بن یزید عامری '' کو سونپی ۔

''عمر بن مالک نے ''ھیت ''کی طرف حرکت کی ۔لیکن ''ھیت ''کے باشندوں نے قبل ازوقت مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر لیا تھا اور مورچے سنبھال لئے تھے ۔

۹۴

جب عمر نے یہ حالت دیکھی تو اس نے ''حارث ''کو اپنی جگہ پر کمانڈ ر مقرر کر کے حکم دیا کہ ''ھیت''کو اپنے محاصرہ میں لے لے اورخود آدھی فوج لے کر ''قر قیسیا '' پر حملہ کر کے بجلی کی طرح وہاں کے ساکنوں ٹوٹ پڑا اور ان پر اتنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیے اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوگئے۔

عمر نے اس فتحیابی کے بعد حارث کو سارا ماجرا خط میں لکھا اور حکم دیا کہ اگر ''ھیتیوں '' نے جزیہ دینا قبول کیا تو جنگ سے ہاتھ کھینچ لینا اور اگر ایسا نہ کیا تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ۔ان کے قلعہ کے گرد ایسی خندق کھودنا کہ اس سے نکلنے کا راستہ تمہارے روبرو ہو ۔

عمر کے اس صریح اور فیصلہ کن حکم کے نتیجہ میں ''ھیت ''کے باشندے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے اور جزیہ دینا قبول کر لیا اور حارث نے بھی ان سے ہاتھ کھینچ لیا اور خود عمر کے پاس پہنچ گیا۔

افسانہ حارث کے راویوں کی پڑتال :

سیف نے ''حارث بن یزید عامری '' کے افسانہ میں درج ذیل افراد کو بعنوان راوی پیش کیا ہے:

١۔ محمد ، یامحمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ

٢۔مہلب ، یا ممہلب بن عقبہ اسدی ، یہ دونوں سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٣۔ بعض نامعلوم اور مجہول افراد ، کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ ان سب سے سیف کی مراد کون سے لوگ ہیں ۔ ہم نے اس قسم کے نامعلوم راوی سیف کی روایتوں اور گزشتہ بحثوں میں بہت زیادہ پائے ہیں ۔

۹۵

فتح جزیرہ کی داستان کی حقیقت :

بلاذری نے اپنی کتاب '' فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :

١٨ھمیں طاعون '' عمواس '' کے سبب ''ابوعبیدہ '' کی وفات کے بعد عمر بن خطاب نے ایک فرمان کے تحت ''قنسرین'' '، '' حمص'' اور جزیرہ '' کے حکمران کے طور پر ''عیاض بن غنم '' کو منصوب کیا۔

عیاض نے اسی سال ١٥ شعبان کو ''جزیرہ'' پر لشکر کشی کی اور وہاں کے شہروں کو یکے بعد دیگرے صلح و مفاہمت سے فتح کیا ، لیکن ان کی زمینوں کو زبردستی اپنے قبضہ میں لے لیا۔

اس کے بعد بلاذری لکھتا ہے :

عیاض نے حبیب بن مسلمہ فہری کو ''قرقیسیا'' کو فتح کرنے پر مأمور کیا ۔ حبیب نے اس جگہ کو صلح کے ذریعہ معاہدہ کر کے فتح کیا ۔

اس کے بعد بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

اور ''عمیر بن سعد بن عبید '' کو'' رأس العین ''فتح کرنے پر مأمور کیا کیونکہ اپنی فتوحات کے دوران وہ اس جگہ کو فتح نہ کر سکا تھا ۔ عمیر نے رأس العین کو فتح کیا اور دریائے '' خابور ''کے ساحل کی طرف بڑ ھا اور بدستور پیش قدمی کرتارہایہاں تک کہ قرقیسیا پہنچ گیا ۔چونکہ قرقیسیاکے باشندوں نے حبیب کے ساتھ پہلا عہد و پیمان توڑ دیا تھا ، اس لئے عمیر کے ساتھ پھرسے اسی عہدو پیمان پر پابند ہونے کا عہد کیا اور اس کے حکم کی اطاعت کی ۔

عمیر کو جب قرقیسیا کے معاملات سے اطمینان حاصل ہوا تو اس نے فرات کے اطراف میں واقع قلعو ں کی طرف رخ کیا اور یکے بعد دیگر ے قلعوں کو فتح کر کے قرقیسیا کے پیمان کے مطابق ان سیمعاہدہ کیا ۔

۹۶

اس کے بعد عمیر نے ''ھیت '' پر چڑھائی کا قصد کیا لیکن راستے میں متوجہ ہوا کہ ''عمار یا سر ،جو خلیفہ عمر کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، نے ''سعد بن حرام انصاری '' کی سرکردگی میں ایک فوج کو ''انبار''کے بالائی علاقوں کے باشندوں سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔ اس علاقہ اور وہاں کے قلعوں کے باشندے امان چاہتے ہوئے سعد بن حرام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سعد نے انھیں ان کی خواہش کے مطابق امان دیدی ۔لیکن ''ھیت''کے باشندوں کو کنیسوں کا نصف مال وصول کرنے کی بنیا د پر مستثنیٰ قرار دیا ۔

بعض نے کہا ہے کہ سعد بن حرام نے ''مد لاج بن عمرو سلمی '' کو ''ھیت '' کے لئے مامور کیا ہے اور اسی نے اس جگہ کو فتح کیا ہے ۔(بلاذری کی بات کا خاتمہ )

یا قوت حموی نے لفظ ''ھیت '' اور ''قر قیسیا'' کے بارے میں لکھا ہے :

''ھیت''بغداد کے نزدیک دریا ئے فرات کے کنارہ پر ایک شہر ہے ۔ ''قرقیسیا'' دریائے ''خابور '' اور ''فرات'' کے ڈیلٹا پر واقع ایک شہر ہے ۔

یہ شہر ایک مثلث کے درمیان واقع ہے اور تین جانب سے پانی میں گھرا ہوا ہے :

اس کے بعد حمووی مزید کہتا ہے :

جب ''عیا ض بن غنم '' نے ١٩ھ میں ''جزیرہ '' کو فتح کیا تو ''حبیب بن مسلمئہ فہری '' کو قرقیسیا کی فتح پر مأ مور کیا حبیب نے مذکورہ شہر کو ''رقہ '' کے باشندوں سے کئے گئے پیمان کی بنیاد پر فتح کیا (.....آخر تک )

البتہ یاقوت حموئی نے ان مطالب سے پہلے سیف کی جعلی روایتوں کے کچھ حصّے بھی اس سلسلے میں نقل کئے ہیں ۔

۹۷

بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے ''ھیت '' اور ''قرقیسیا'' کے شہروں کی فتح کو ١٦ھ بتایا ہے جبکہ دوسروں نے اسے ١٩ھ ذکر کیا ہے ۔

سیف لکھتا ہے کہ ''جزیرہ '' کی جنگ میں سپہ سالار اعظم سعد وقاص تھا اور اس نے ''عمر بن مالک '' یا ''عمرو بن مالک '' کو سپہ سالار اور '' حارث بن یزید عامری ' کو فوج کے ہر اول دستہ کاکمانڈر منتخب کیا ہے ۔ عمر بن مالک نے قرقیسیا اورحارث بن یزید نے شہر ھیت کو فتح کیا ہے ۔

جبکہ دوسرے لکھتے ہے کہ '' جزیرہ '' کی فتوحات میں سپہ سالار اعظم عیاض بن غنم تھا اور اسی نے ''حبیب بن مسلمہ فہری '' کو قرقیسیا کی فتح کے لئے مأمور کیا تھا ۔اس نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن بعد میں انہوں نے پیان شکنی کی تھی ۔اور ''عمیربن سعد'' پھر سے ان کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور اسی گزشتہ معاہدہ کو پھر سے لاگو کیا ہے ۔

اور یہ کہ خلیفہ عمر کے زمانے میں کوفہ کے گورنر ''عمار یاسر '' نے ''سعدبن حزام کو '' انبار '' و ''ھیت'' اور ان کے اطراف میں موجود قلعوں کو فتح کرنے پر مأمور کیا ہے اور اسی نے وہاں کے قلعوں کے باشندوں سے معاہدہ کیا ہے ،لیکن ''ھیت '' کے باشندوں کو کنیسوں کے اموال کا نصف حصہ اداکرنے کی بنیاد پر مستثنیٰ قراردیا ہے ۔ یایہ کہ چند علاقے عمیر بن سعد کے حکم سے ''مدلاج بن عمرو'' کے ہاتھوں فتح ہوئے ہیں ۔

نتیجہ کیا ہوگا؟

یہ کہ ''ھیت '' کی فتح سیف کے جعل کردہ ''حارث بن یزید''کے نام پر اور قرقیسیا کی فتح ''عمر و بن مالک ''کے نام پر سیف کی کتاب '' فتوح ''میں ثبت ہوئی ہے اور ان سب کو طبری نے اپنی معتبر اور گراں قدر کتاب تاریخ کببرمیں نقل کیا ہے اور ابن اثیر نے بھی طبری کے مطالب کو اپنی کتاب میں ثبت کیا ہے ۔

یا قوت حموی نے بھی سیف کے جھوٹ کے بعض حصوں اور اس کے خیالی پہلوانوں کی دلاوریوں کو اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کر کے سیف کی خدمت کی ہے ۔

۹۸

آخر میں ، علامہ ابن حجر سیف کی باتوں سے متثر ہوکہ''حارث عامری '' کو ''حارث بن یزید عامری دیگر'' کے عنوان سے،اور سیف کی طرف سے اسے عطا کئے گئے سپہ سالاری کے عہدہ کو سند بناتے ہوئے''ابن ابی شیبہ'' کی روایت کہ ''قدما صرف صحابی کو سپہ سالار منتخب کرتے تھے ۔'' کی بناء پر اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی قرار دیاہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن اثیر نے بھی سیف کی جعلی روایت کو ایک بار ''تاریخ ابن عسا کر '' سے نقل کرکے ''عمر بن مالک بن عتبہ '' کے حالات میں اور دوسری بار ''عمر بن مالک بن عقبہ ،کے حالات میں لکھا ہے ۔ اس کے بعد آخر میں احتیاط سے لکھتا ہے:

''عمربن مالک بن عتبہ '' نے دمشق کی جنگ میں شرکت کی ہے اور ''جزیرہ '' پر قبضہ کرنے کے دوران فوج کی کمانڈ اس کے ہاتھ میں تھی اس کے باوجود اس قسم کا کوئی شخص پہچانا نہیں گیا ہے

ابن اثیرنے یہی مطالب دونوں کے حالات کی تشریح کے آخر میں ذکر کئے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیف کے خلق کئے گئے دوچہرے حقیقت میں ایک ہی شخص ہے اور عمر کے جد کے نام میں تحریف کی گئی ہے اور دونوں خبروں کا سر چشمہ بھی سیف عمر اور اس کی کتاب ''فتوح ''ہے ۔

بہر حال ، ہم پورے اطمینان اور قاطعیت کہتے ہیں کہ ''حارث بن یزید عامری دیگر'' سیف کی تخلیق ہے اور اس نے اس کے نام کو ''حارث قرشی '' سے لے لیا ہے جو غلطی سے عیاش کے ہاتھوں قتل ہوا ہے ۔ ہم قطعی طور سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ '' عمر بن مالک '' اس کی تخلیق ہے ، اگر چہ سیف صحابی اورتاریخ کے حقیقی چہروں کے ہم نام جعلی افراد خلق کر نے میں یدطوئی رکھتا ہے ، جیسا کہ :

''حزیمہ بن ثابت '' '' غیرذ و شہادتین '' کو ''حزیمہ بن ثابت ذو شہادتین '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

اور ''سماک بن خرشہ ''، انصاری غیر ابودجانہ کو '' مسماک بن خرشہ انصاری ابودجانہ''کے ہم نام جعل کیا ہے ۔

۹۹

حارث کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں بلاواسطہ سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ۔

٢۔ ابن عساکرنے اپنی تاریخ میں ، سیف بن عمر سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٣۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں کتاب '' فتوح ''سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٤۔ ابن فتحون نے '' استیعا ب کے ضمیمہ میں کتاب ''فتوح '' سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٥۔ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں تاریخ طبری سے نقل کر کے درج کیاہے ۔

٦۔ ابن اثیر نے کتاب ''اسدالغابہ ''میں ابن عساکر سے نقل کر کے

' 'عمر بن مالک ''کے حالات کی تشریح میں بیان کیا ہے ۔

یہاں پر سیف کے ان جعلی اصحاب کا حصہ اختتام کو پہنچا ہے ،جنھیں اس نے عراق کی جنگ میں سعد وقاص کے ہمراہ افسراور سپہ سالار کے عنوان سے خلق کیا ہے ۔ اگلی بحث میں ہم سیف کے ان جعلی اصحاب پر روشنی ڈالیں گے جنہوں نے افسر اور سپہ سالار کی حیثیت سے ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔ یہ مقدمہ و مؤخر ( یعنی اصولاً تاریخی وقائع کی ترتیب کے مطابق ارتداد کی جنگوں کو باہر کی جنگوں اور فتوحات سے پہلے لانا چاہئے تھا،اس لئے پیش آیا ہے کہ مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے ،جیساکہ ہم نے کتاب کی ابتداء میں ذکر کیا ہے ، دوسرے حصوں کی نسبت اس حصہ سے زیادہ استفادہ کیا ہے ۔

بہرحال ہم خدائے تعالےٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اس مشکل علمی بحث کو آگے بڑھانے اور تکمیل میں مدد فرمائے۔

مصادر و مآخذ

حارث بن یزید عامری قرشی کی داستان:

١۔''استیعاب '' ابن عبدالبر (١/١١٦) نمبر : ٤٧٢

٢۔''اسدالغابہ '' ابن اثیر (١/٣٥٣)

٣۔''اصابہ '' ابن حجر (١/٢٩٥)

۱۰۰

عقیدۂ اختیار

اہل تشیع نے اس عقیدہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں اختیار کیا ہے، یعنی انسانوں کے کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور وہ صاحب اختیار ہے لیکن خواستہ الٰہی بھی اس کے شامل حال ہے او رقضا ء وقدر الٰہی کا اثر بھی ہے۔ جس طرح تمام موجودات کاوجود خدا کے وجود کی بنا پر ہے اور ہر صاحب قدرت کی قوت اور ہر صاحب علم کا علم مرہون لطف الٰہی ہے اسی طرح سے ہر صاحب اختیار کا ارادہ اوراختیار خد ا کے ارادے اور اختیارکے سایہ میں جنم لیتا ہے ۔اسی لئے جب انسان کسی کام کاارادہ کرتاہے تویہ اختیار اور قدرت خداکی طرف سے ہے یا یوں کہاجائے کہ ارادہ وقدرت خدا وندی کے سایہ میں انسان کسی کام کا ارادہ کرکے اس کو انجام دے سکتا ہے اوریہی معنی ہیں۔( وما تشاؤن الا أن یشاء اللّه رب العالمین ) ( ۱ ) ''تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ عالمین کاپرور دگا ر خدا چاہے''(یعنی تمہا را ارادہ خدا کی چاہت ہے نہ یہ کہ تمہارا کام خدا کی درخواست اور ارادہ کی وجہ سے ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ تکویر آخری آیة

(۲) گم شدہ شما ۔محمد یزدی

۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام

احمد بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلا م کی خدمت میں عرض کیا مولا بعض لوگ جبر اور''تفویض ''اختیار مطلق کے قائل ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا لکھو !

قال علی ابن الحسینںقال عزوجل:''یا بن آدم بمشیتی کنت انت الذی تشاء بقوتی ادیت الی فرائضی وبنعمتی قویت علی معصیتی جعلتک سمیعاً بصیراً ما أصابکَ من حسنة فمِن اللّه وما أصابکَ من سیئةٍ فمن نفسک وذلکَ أنِّی أولیٰ بحسناتکَ منکَ وأنت أولیٰ بسیئاتک منیِ وذلکَ أنِّی لاأسئل عماأفعل وهم یُسئلون قد نظمت لکَ کلّ شیئٍ تُرید''

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا وند کریم کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم !تم ہمارے خواہش کے تحت ارادہ کرتے ہو اور ہماری دی ہو ئی طاقت سے ہما رے واجبات پر عمل کرتے ہو اور ہماری عطا کردہ نعمتوں کے نا جائز استعمال سے گناہ ومعصیت پر قدرت حاصل کرتے ہو ہم نے تم کو سننے او ر دیکھنے والا بنایا جو بھی نیکی تم تک پہنچے وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائی وجود میں آئے اس کے ذمہ دار تم ہو کیونکہ میں تمہاری نیکیو ں کے سلسلہ میں تم سے زیادہ حق دار ہوں اور تم اپنی برائی کے بابت مجھے سے زیادہ مستحق ہوکیونکہ میں کچھ بھی انجام دوںگا جو اب دہ نہیں ہوںگا لیکن وہ جو اب دہ ہو ں گے تم نے جو کچھ سوچا ہم نے تمہارے لئے مہیا کر دیا۔( ۱ )

ایک صحابی نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ کیا خدا نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال پر مجبور کیا ہے ۔ اما م نے فرمایا :''اللّهُ أعدل مِن أَن یجبر عبداً علیٰ فعلٍ ثُمَّ یعذّبه علیه''خدا عادل مطلق ہے اس کے لئے یہ بات روانہیں کہ وہ بندو ں کو کسی کا م پر مجبور کرے پھر انہیں اسی کام کے باعث سزادے۔( ۲ )

دوسری حدیث میں امام رضاںنے جبر وتفویض کی تردید کی ہے اور جس صحابی نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا خدا نے بندوں کو ان کے اعمال میں مکمل اختیار دیا ہے تو آپ نے جو اب میں فرمایا تھا ۔

''اللّه أعدلُ وأحکم من ذلک'' خدا اس سے کہیں زیادہ صاحب عدل وصاحب حکمت ہے کہ ایسا فعل انجام دے۔( ۳ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب امربین الامرین حدیث ۱۲

(۲) بحار الانوار ج ۵ ص ۵۱

(۳) اصول کا فی باب امر بین الامرین حدیث ۳

۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل

عمومی فکر اور عالمی فطرت ،دونوں اختیار پر ایک واضح دلیل ہیں اور اختیار وجبر کے معتقد یں بھی ،عملی میدان میں آزادی اور اختیار ہی کو مانتے ہیںلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ !

۱۔ تمام لوگ اچھا ئی کرنے والوں کی مدح اور تحسین کرتے ہیں اور برائی کرنے والے کی تحقیر اورتوہین کرتے ہیں ،اگر انسان مجبور ہوتا اور اس کے اعمال بے اختیار

ہو تے تو مدح وتحسین، تحقیر وتوہین کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔

۲۔ سبھی لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوشش کرتے ہیں اگر انسان مجبور ہو تا تو تعلیم و تربیت کا کوئی مقصد نہیں باقی رہتا ہے۔

۳۔ کبھی انسان اپنے ماضی سے شرمندہ ہو تاہے اور اس بات کاارادہ کرتا ہے کہ ماضی کے بحرانی آئینہ میں مستقبل کو ضرور سنوارے گا ، اگر انسان مجبور ہوتا تو ماضی سے پشیمان نہ ہو تا اور مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو تا ۔

۴۔ پوری دنیا میں مجرموںپر مقدمہ چلا یا جاتاہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اگر وہ لوگ اپنے کاموں میں مجبور تھے تو ان پر مقدمہ چلانا یاسزا دینا سراسر غلط ہے ۔

۵۔ انسان بہت سارے کاموں میں غور و خو ض کرتا ہے اور اگر اس کی پرواز فکر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتی تو دوسرے افراد سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر انسان مجبور ہو تا توغور وفکر او رمشورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے( ۱ )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ جلد ۲۶ ص ،۶۴ خلاصہ کے ساتھ۔'' عدالت کے سلسلہ میں ان کتب سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ اصول کا فی ،نہج البلا غہ ،پیام قران ،تفیسر نمونہ ،اصول عقائد ''

۱۰۳

سوالا ت

۱۔ جبروتفویض اور عقیدہ اختیار کی تعریف کریں ؟

۲۔ انسان کے مختار ہونے کے بارے میں شیعہ عقیدہ کیا ہے ؟

۳۔ عقیدۂ اختیار کے بارے میں سید سجا د کی حدیث پیش کریں ؟

۴۔ عقیدہ ٔجبر واختیار کاکوئی واضح راہ حل بیان کریں ؟

۱۰۴

پندرہواں سبق

نبوت عامہ (پہلی فصل )

اصول دین کی تیسری قسم نبوت ہے توحید وعدل کی بحث کے بعد انسان کی فطرت ایک رہبر ورہنما اور معصوم پیشوا کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔

یہاں وحی، حاملا ن وحی ا ور جو افراد لوگوں کو سعادت وکمال تک پہنچاتے ہیں ان کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی ۔

اس بحث میں سب سے پہلے انسان کووحی کی ضرورت اور بعثت انبیاء کے اغراض ومقاصد نیز ان کی صفات وخصوصیا ت بیان کئے جائیں گے جس کو علم کلام کی زبان میں نبوت عامہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور ان کی خاتمیت کی بحث ہوگی کہ جس کو نبوت خاصہ کہتے ہیں ۔

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت

۱) مخلوقات کو پہچاننے کے لئے بعثت لا زم ہے ۔

اگر انسان کا ئنات کو دیکھے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ دنیا کی خلقت بغیر ہدف ومقصد کے ہوئی ہے گزشتہ بحث میں یہ بات گذر چکی ہے کہ خدا حکیم ہے اور عبث وبیکا ر کام نہیں کرتا ۔ کا ئنات کا نظم ،موجودات عالم کا ایک ساتھ چلنا بتاتا ہے کہ تخلیق کا کوئی معین ہدف ومقصد ہے لہٰذا یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ :

۱۔ خدا نے اس دنیا کو کس لئے پیدا کیا او رہما ری خلقت کا سبب کیا ہے ؟

۲۔ ہم کس طر ح سے اپنے مقصد تخلیق تک پہنچیں ، کامیا بی اور سعادت کا راستہ کون سا ہے اور اسے کس طرح سے طے کریں۔ ؟

۱۰۵

۳۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا کیا مو ت فنا ہے یا کوئی دوسری زندگی ؟ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ا ن سارے سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی خدا کی جانب سے آئے جو سبب خلقت اور راہ سعا دت کی نشان دہی کرے اور موت کے بعد کی زندی کی کیفیت کو ہما رے سامنے اجا گر کرے، انسان اپنی عقل کے ذریعہ دنیوی زندگی کے مسائل حل کر لیتا ہے، لیکن سعادت وکمال تک پہنچنے سے مربوط مسائل اور موت کے بعد کی زندگی اور اخروی حیات جو موت کے بعد شروع ہوگی یہ سب اس کے بس کے باہر ہے ۔

لہٰذا اس حکیم خدا کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم نبیوں کو ان تما م مسائل کے حل اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے ۔

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک لا مذہب شخص نے امام صادق سے سوال کیاکہ بعثت انبیا ء کی ضرورت کو کیسے ثابت کریں گے۔ ؟

آپنے فرمایا :ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس ایساخالق ہے جوتمام مخلوقات سے افضل واعلی ،حکیم وبلند مقام والا ہے چونکہ لوگ براہ راست اس سے رابطہ نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ ا پنی مخلوقات میں رسولو ں کو مبعوث کرتا ہے جو لوگو ں کو ان کے فائدے اور مصلحت کی چیزوں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح ان چیزوں سے بھی آگا ہ کرتے ہیں جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہیں اور ترک میں فناونابودی ہے، لہٰذایہ بات ثابت ہو چکی کہ جو خدا کی جانب سے لوگو ں کے درمیان حکم دینے والے او ربرائیو ں سے روکنے والے ہیں، انہیں کو پیغمبر کہا جا تا ہے۔( ۱ )

امام رضا فرماتے ہیں:جبکہ وجود انسان میں مختلف خواہشات اور متعدد رمزی قوتیں ہیں، مگر وہ چیز جو کما ل تک پہنچا سکے اس کے اندر نہیں پا ئی جا تی اور چونکہ خدا دکھا ئی نہیں دیتا اور لوگ اس سے براہ راست رابطہ نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خد اپیغمبروں کو مبعوث کرے جو اس کے احکا م کوبندوں تک پہنچا ئیں اور بندو ں کو اچھا ئیوں کاحکم دیں اور برائیو سے بچنا سکھائیں۔( ۲ )

____________________

(۱) اصو ل کا فی کتاب الحجة با ب اضطرار ا لی الحجة حدیث ،۱

(۲) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۰

۱۰۶

۲) انسان کے لئے قانو ن تکا مل لا نے کے لئے پیغمبر کی ضرورت۔

انسان کو اپنے مقصد خلقت جوکہ کمال واقعی ہے اس تک پہنچنے کے لئے کچھ قانو ن گذار افراد کی ضرورت ہے جو ان شرائط کا حامل ہو۔

۱۔ انسان کو مکمل طریقہ سے پہچانتا ہو اور اس کے تمام جسمانی اسرار ورموز اس کے احساسات و خواہشات ارادے وشہوات سے مکمل آگاہ ہو ۔

۲۔ انسان کی تمام صلا حیت ، اس کے اندر پو شیدہ خصو صیات اور وہ کمالا ت جو امکا نی صورت میں پائے جا سکتے ہیں سب سے باخبر ہو ۔

۳ ۔انسان کو کمال تک پہنچانے والے تمام اصولو ں کو جانتاہو راہ سعادت میں آڑے آنے والی تمام رکاوٹوں سے آگاہ ہو ، اور شرائط کمال سے باخبر ہو ۔

۴۔ کبھی بھی اس سے خطا ،گناہ اور نسیا ن سرزد نہ ہو ۔ اس کے علا وہ وہ نرم دل مہربان ،شجاع ہو او ر کسی بھی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔

۵۔ لوگو ں سے کسی قسم کی منفعت کی توقع نہ رکھتا ہو تاکہ اپنی ذاتی منفعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے لئے خلاف مصلحت قانون تیار کردے ۔

جس کے اندر مذکورہ شرائط پائے جاتے ہو ں وہ بہترین قانون گذار ہے کیا آپ کسی ایسے شخص کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو جرأت کے ساتھ اس بات کادعوی کر سکے کہ میں انسان کے تمام رموز واسرار سے واقف ہو ں، اس کے بر خلا ف تمام علمی شخصیتوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ ہم ابھی تک انسان کے اندر پائے جا نے والے بعض رموز تک پہنچ بھی نہیں سکے ہیں ۔ اور بعض نے انسان کو لا ینحل معمہ بتایاہے کیا آپ کی نظر میں کو ئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے انسان کے تمام کمالات کو سمجھ لیا ہے ۔اور کمال تک پہنچنے والے تمام شرائط وموانع کو جانتا ہو ں ۔کیا کوئی ایسا ہے جس سے کسی بھی خطاکا امکان نہ پایا جاتا ہو۔ ؟

۱۰۷

یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیامیں تلاش کر یں تب بھی کسی کو نہ پا ئیں گے جس میں مذکورہ تمام شرائط پائے جاتے ہوں یابعض شرطیں ہو ں ،اس کی سب سے بڑی دلیل مختلف مقامات پر متعدد قوانین کا پا یا جاناہے ۔لہٰذا ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ بہترین قانون بنا نے والا صرف اور صرف خدا ہے جوانسان کی خلقت کے تمام اسرار ورموز سے واقف ہے، صرف وہ ہے جودنیا کے ماضی، حال ،مستقبل کو جانتا ہے ۔فقط وہ ہر چیز سے بے نیا زہے اور لوگو ں سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا وہ خد اہے جو سب کے لئے شفیق و مہربان ہے او رانسانوں کے کمال تک پہنچنے کے تمام شرائط کو جانتا ہے ۔

لہٰذا صرف خدا یا وہ افراد جو براہ راست اس سے رابطہ میں ہیں، وہی لوگ قانون بنانے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور اصو ل وقانون کو صرف مکتب انبیاء اور مرکز وحی سے سیکھنا چاہئے ۔

قرآن نے اسی حقیقت کی جا نب اشارہ کیا ہے :(وَلَقَد خَلَقنَا النسانَ وَنَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسُہُ)( ۱ ) اور ہم نے ہی انسان کو خلق کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیاکیا وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

( وَمَا قَدرُوا اللّهَ حَقَّ قَدرِهِ اِذ قَالُوا مَا أنَزَلَ اللّهُ علیٰ بَشَرٍ مِّن

) ____________________

(۱) سورہ ق آیة: ۱۶

۱۰۸

( شیئٍ ) ( ۱ ) اور ان لوگو ں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نہیں نازل کیا ۔

نتیجہ بحث

( اِن الحُکم اِلّا للّهِ ) ( ۲ ) حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام آیة: ۹۱

(۲) سورہ انعام آیة:۵۷

۱۰۹

سوالات

۱۔ سبب خلقت کو سمجھنے کے لئے بعثت انبیا، کیو ں ضروری ہے ؟

۲۔ کیا انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے حدیث امام صادق نقل کریں ؟

۳۔ بعثت کے لا زم ہونے پر امام رضاںنے کیا فرمایا ؟

۴ ۔ قانون گذار کے شرائط کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۱۰

سولھواں سبق

نبوت عامہ (دوسری فصل )

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

۱۔( هُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنهُم یَتلُوا عَلَیهِم آیاتِه وَیُزکیّهِم وَیُعلّمُهُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ ) ( ۱ ) اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں

____________________

(۱)سورہ جمعہ آیة: ۲

۱۱۲

زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ( وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّه واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ''او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو'' ۔

۲۔عدالت وآزادی دلا نا ۔( لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ ) ( ۲ )

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے( ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ ) ( ۳ ) '' ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں''۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

____________________

(۱) سورہ نحل آیة :۳۶

(۲) سورہ حدید آیة:۲۵

(۳) سورہ ذاریا ت،۵۶

۱۱۳

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

۱۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

۲۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

۳۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ''اس کے مثل لانا''ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیں ہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق سے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ''ائمہ '' کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میں فرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۱ ،ص ۷۱

۱۱۴

سوالات

۱۔ فطرت کی راہنمائی او رخو اہشات کے میانہ روی کے لئے انبیا ء کا ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کا مقصد کیا ہے ؟

۳۔ پیغمبروں کے پہچاننے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔ معجزہ کیاہے اور اس کے شرائط کیا ہیں بیا ن کریں ؟

۱۱۵

سترہواں سبق

نبو ت عامہ (تیسری فصل )

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق !

جب کبھی معجزہ کے بارے میں بات کی جا تی ہے تو کہا جا تا ہے کہ معجزہ ایک ایسے حیرت انگیز فعل کانام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزہ ، جادو ، سحر نیز نظر بندکرنے والوں کے حیرت انگیزکرتبوں میں کیسے فرق قائم کیا جائے ۔

جو اب :معجزہ اور دوسرے خارق العادت کاموں میں بہت فرق ہے ۔

ا۔ نظر بندی او رجادو گری ایک قسم کی ریاضت کانام ہے اور جادوگر استاد سے جادو سیکھتا ہے لہٰذا ا ن کے کرتب مخصوص ہیںجو انھو ںنے سیکھا ہے وہ فقط اسی کو انجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی کام کو انجام نہیں دے سکتے لیکن نبی ورسول معجزے کو کسی استاد سے نہیں سیکھتے ،لیکن پھر بھی معجزے کے ذریعہ ہرکام انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صالح سے پہاڑ سے او نٹ نکالنے کوکہاگیا انہو ںنے نکا ل دیا ، جب حضرت مریم سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عیسی جوکہ گہوارے میں ابھی چند دن کے تھے فرماتے ہیں :

۱۱۶

( قا لَ أِنِّیِ عَبدُاللّهِ آتٰنی الکِتَابَ وَجَعلَنیِ نَبِیّاً ) ''میں اللہ کابندہ ہو ں اللہ نے مجھے کتا ب دی ہے اور نبی بناکر بھیجاہے''۔( ۱ )

یا جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی مانگ کی گئی تو پتھروں نے آنحضرت کے دست مبارک پرآکر ان کے رسالت کی گواہی دی ۔

۲۔ جادو گر وں یا شعبدہ بازوں کے کرتب زمان ومکان او رخاص شرائط میں محدود ہیں او رمخصوص چیزوں کے وسیلوں کے محتاج ہیں، لیکن پیغمبروںورسولوں کے معجزے چونکہ ان کا سرچشمہ خدا کی لا متناہی قدرت ہے لہٰذا کو ئی محددیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کو ئی بھی معجزہ پیش کر سکتے ہیں ۔

۳۔جادوگروں اور نظربندوں کے کام زیادہ تر مادی مقصدکے پیش نظر انجام پاتے ہیں ( چاہے پیسوں کی خاطر ہو یا لوگو ں کو اپنی طرف کھینچنے یا دوسرے امور کے لئے ) لیکن انبیاء کامقصد متدین افراد کی تربیت اور معاشرہ کو نمونہ بنانا ہے ۔ اور وہ لوگ (انبیاء ومرسلین ) کہتے تھے( وَمَاَ أَسئَلُکُم عَلَیهِ مِنْ أَجرٍ اِن أَجرِی اِلَّا علیٰ رَبِّ العَالمِینَ ) ( ۲ ) ''اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہو ں اس لئے کہ میرا اجر تو عالمین کے رب کے ذمہ ہے'' ۔

۴۔جادوگروںاورشعبدہ بازوںکے کرتبوںکامقابلہ ممکن ہے یعنی دوسرے

____________________

(۱) سورہ مریم آیة :۳۰

(۲) سورہ شعراء آیة:۱۸۰ ،۱۶۴،۱۴۵،۱۲۷،۱۰۹

۱۱۷

بھی اس جیسا فعل انجام دے سکتے ہیں ،لیکن پیغمبروں کے معجزہ کی طرح کوئی غیرمعصوم شخص انجام نہیں دے سکتا ۔

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟

جبکہ ہر نبی ہر حیرت انگیز کام کو انجام دے سکتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس متعد د معجزے تھے مگر ایک ہی کوزیادہ شہرت ملی ۔

ابن سکیت نامی ایک مفکر نے امام ہادی ں سے پوچھا :کیو ں خدا نے موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور جادوگروں جیسا معجزہ دیا؟ حضرت عیسیٰ کو مریضوں کو شفادینا اور مردوںکو زندہ کرنے والا معجزہ عطاکیا؟اور رسول اسلا م کو قران جیسے حیرت انگیز کلام کے مجموعے کے ساتھ لوگوں میں بھیجا۔

امام ںنے فرمایا : جب خدا نے حضرت موسی کو مبعوث کیاتو ان کے زمانے میں جادوکا بول با لا تھا لہٰذا خدانے اس زمانے جیسا معجزہ دیا چونکہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا او راپنے معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو شکست دی اور ا ن پر حجت تمام کی ۔

جب جنا ب عیسیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے آئے تواس وقت حکمت وطبابت کا شہرہ تھا لہٰذا خدا کی جانب سے اس زمانے کے مطابق معجزہ لے کر آئے اوراس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا، انھوں نے مردو ں کو زندہ کرکے اور مریضو ں کو شفا دے کر، نابینا کو آنکھ عطاکر کے جذام کودور کرکے تمام لوگوں پر حجت تمام کی ۔

۱۱۸

جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت فصاحت وبلا غت کا سکہ چل رہا تھا خطبہ او رانشاء اس وقت کے سکۂ رائج الوقت اور مقبول عام تھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے ان کو موعظہ ونصیحت کے حوالے سے گفتگو کی جس کا مقابلہ کرنالوگوں کی سکت میں نہیں تھا، اپنے مواعظ ونصائح کو قرآنی پرتو میں پیش کیا او رباطل خیالات کو نقش بر آب کردیا ۔

دوسری پہچان ۔انبیاء کی شناخت کادوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس نبی کی نبوت دلیل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہو وہ اپنے آنے والے نبی کے نام اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جیساکہ تو ریت وانجیل میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے سے پیشین گوئیاںکی گئی ہیں ،قرآن ان پیشین گو ئیو ں میں سے حضرت عیسیٰ کے قول کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے( وَاِذْ قَالَ عِیسیٰ بنُ مَریَم یا بَنی اِسرائِیلَ اِنِّیِ رَسُوُلُ اللّهِ اِلیکُم مُصَدِّقاً لِمَا بَینَ یَدیَّ مِن التوراةِ ومُبشّراً بِرسُولٍ یَأتِی مِن بَعدیِ اسُمُه أحمدُ ) ( ۱ ) اس وقت کویاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو ںاپنے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا او راپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہو ں، جس کا نام احمد ہے اسی طرح سورہ اعراف کی آیة ۱۵۷ میں ارشاد ہوا( الذین یتبعون )

____________________

(۱) سورہ صف آیة: ۶

۱۱۹

تیسری پہچان ۔ تیسرا طریقہ انبیاء کو پہچاننے کا وہ قرائن وشواہد ہیںجوقطعی طور پر نبوت ورسالت کوثابت کرتے ہیں ۔

خلا صہ

۱۔جو نبوت کا دعوی کرے اس کے روحانی اور اخلاقی خصوصیات کی تحقیق۔ (مدعی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے اعلیٰ صفات او ربلند اخلاق ہو نا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں نیک چلن اور صاحب کردار کے نام سے جانا جائے)

۲۔ عقلی پیرائے میں اس کے احکام وقوانین کو پرکھاجائے کہ کیا اس کے احکام وقوانین ،الٰہی آئین کے تحت اور معارف اسلام وفضائل انسانی کے مطابق ہیں؟یا اس کی دوسری پہچان ہے ۔

۳۔ اپنے دعوی پہ ثابت قدم ہو ا ور اس کا عمل اس کے قول کاآئینہ دار ہو ۔

۴۔ اس کے ہمنوااور مخالفین کی شناخت ۔

۵۔ اسلو ب تبلیغ کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اپنے قوانین کے اثبات کے لئے کن وسائل اور کن راستو ں کاسہارالے رہا ہے ۔

جب یہ تمام قرآئن وشواہد اکٹھا ہو جائیں تو ممکن ہے مدعی نبوت کی نبوت کی یقین کاباعث بنے ۔

سوالات

۱۔ سحر ،نظر بندی، اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ ہر نبی کا معجزہ مخصوص کیو ں تھا ؟

۳۔ انبیاء کی شناخت کے قرائن وشواہد کیاہیں ؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273